دوسری فصل
علی الاعلان تبلیغ اور مخالفتوں کا آغاز
ظاہری تبلیغ کا آغاز
پیغمبر اسلاۖم ایک عرصہ سے مخفی دعوت کا آغاز کرچکے تھے اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے آپ کوحکم ملا کہ اپنی دعوت کو علی الاعلان پیش کیجئے اور مشرکین سے نہ ڈریئے۔ ''پس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہو جائیں ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہیں''۔(١)
یہ فرمان ملنے پر ایک دن پیغمبر اسلاۖم مقام ''ابطح''(٢) میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ''میں خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہوں تم کو خدائے یکتا کی عبادت اور بتوں کی عبادت ترک کرنے کی دعوت دیتا
______________________
(١) سورۂ حجر، آیت ٩٥ .
(٢)ابطح سے مراد ، منیٰ کے نزدیک ایک درہ ہے (یاقوت حموی، معجم البلدان، ج١، ص ٧٤) گویا حج کے وقت منی میں حاجیوں کے اجتماع کے موقع پر فرمایا ہے۔
ہوں جو کہ نہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں اور نہ نقصان، نہ تمہارے خالق ہیں اور نہ ہی رازق، اور نہ کسی کو زندہ کرتے ہیں اور نہ کسی کو مارتے ہیں''۔(١)
اس دن سے پیغمبر ۖ کی دعوت ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی اور آپ نے اجتماعی پروگراموں میںحج کے دوران، منیٰ اوراطراف مکہ میں رہنے والے قبائل کے درمیان دعوت و تبلیغ، شروع کردی۔
قریش کی کوششیں
پیغمبر اسلاۖم کے ظاہری تبلیغ کے آغاز میں، قریش نے کوئی خاص عکس العمل (ریکشن) نہیںدکھایا؛ لیکن جس دن سے پیغمبر ۖ نے ان کے بتوں کا کھلے الفاظ میں سختی سے انکار کیا اور بتوں کوایک بے شعور اور بے اثر؛ موجود بتایا، ان کو طیش آگیا اور وہ پیغمبرۖ کی مخالفت اور ان کے خلاف گروپ بازی پر کمر بستہ ہوگئے۔(٢) لیکن چونکہ مکہ میں قبیلہ جاتی نظام پایا جاتا تھا لہٰذا محمدۖ کو گزند پہنچانے پر انھیں قبیلۂ بنی ہاشم کے انتقام کا خطرہ لاحق تھا لہٰذا وہ قریش کے سرکردہ لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ محمدۖ کودعوت سے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابو طالب پر جو کہ اس کے چچا ہیں اور ان کی نظر میں محمد ۖ کا بڑا احترام ہے ،دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راہ پر چلنے سے منع کریں۔ لہٰذا وہ لوگ کئی بار جناب ابوطالب سے اس خیال سے ملے کہ وہ (ابوطالب) حسب و نسب اور سن کے لحاظ سے
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ١٩۔ پیغمبر اسلاۖم کی پہلی ظاہری دعوت مختلف صورتوںمیں نقل ہوئی ہے۔ اور شایدآنحضرتۖ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بت پرستوں کو اس طرح کے بیانات سے دعوت دی ہے۔ مراجعہ کریں: یعقوبی، سابق، ص ١٩؛ طبری ، سابق، ج٢، ص ٢١٦؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ١٢١؛ بیہقی، سابق، ج١، ص ٢٧٩؛ طبری ، اعلام الوریٰ ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط ٣) ص ٣٩؛ مجلسی، بحار الانوار ، ج١٨، ص ١٨٥؛ حلبی، سابق، ج١، ص ٤٦١.
(٢)طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢١٨؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص١٩٩؛ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٦٣۔
سماج میںاپناایک مقام رکھتے ہیں اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو منع کریں کہ وہ ان کے خداؤوں کو برا بھلا'' اور ان کے دین و آئین کو بیکار؛ اور ان کو بیوقوف اور ان کے آباء و اجداد کو گمراہ کہنے سے باز آجائے۔
وہ لوگ ان ملاقاتوں میں کبھی دھمکی کے ذریعہ اور کبھی مال و ثروت او رریاست کی لالچ دے کر ان سے مطالبہ کرتے تھے اور جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو ابوطالب سے پیش کش کی کہ اس کو (محمدۖ) عمارہ بن ولید بن مغیرہ سے جو کہ ایک خوبصورت اور طاقت ور جوان، اور قریش کا شاعر ہے بدل لیں۔ لیکن ابوطالب نے اسے بھی قبول نہیں کیا۔ ایک مرتبہ کفار قریش نے جناب ابوطالب اور پیغمبر اسلاۖم کو جنگ اور قتل کی سخت دھمکی دی تو آنحضرتۖ نے ان کی دھمکی کے جواب میں فرمایا: ''چچا جان! اگر سورج کو ہمارے داہنے ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں پھر بھی میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا ۔ یہاں تک کہ خداوند اس کام کو کامیابی سے ہمکنار کردے یا میں اس راہ میں نابود ہوجاؤ ں۔ (١)
______________________
(١)طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٠۔ ٢١٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٧۔ ٢٨٢ اور ٣١٣، ٣١٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٣۔ ٢٠٢؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص ٢٣٢۔ ٢٣١؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٦٥۔ ٦٣؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٦٣۔ ٤٦٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحبی، ١٣٨٣ھ.ق)، ج١، ص٤٧٤۔
اس نقل کے مطابق، پیغمبر اسلامۖ کا سورج اور چاند سے جواب دینا قریش کی دھمکی سے ظاہراً مناسبت نہیں رکھتا تھا اور اس کے سند میں بھی بحث ہوئی ہے لیکن جو جواب بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ قریش کی دھمکی سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس نقل کی بنیاد پر رسول خدا ۖ نے اپنے چچا سے قریش کے دھمکی آمیز پیغام کو سننے کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ''میرے لئے تبلیغ اور رسالت کا چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا تم میں سے کوئی ہاتھ پھیلائے اور چاہے کہ خورشید کا ایک شعلہ اپنے ہاتھ میں لے لے'' اس وقت جناب ابوطالب نے قریش کے نمائندوں سے کہا: خداکی قسم! میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ تم لوگ یہاں سے پلٹ جاؤ!'' (حافظ نور الدین ھیثمی، مجمع الزوائد، بیروت: دار الکتاب، ج٦، ص ١٥؛ معجم اوسط، کبیر طبرانی اور مسند ابی یعلی کے نقل کے مطابق) ھیثمی نے روایت ابویعلی کی سند کو صحیح بتایاہے اور مزید رجوع کریں۔ فقہ السیرةکی طرف۔ محمد غزالی، عالم المعرفہ، ص ١١٥۔ ١١٤.
ابوطالب کی طرف سے حمایت کا اعلان
قریش کی دھمکیوں پر جناب ابوطالب نے (رشتہ داری کے ناتے) پیغمبر اسلام ۖ کی حمایت کا اعلان کیا اور قبیلۂ بنی ہاشم کے لوگوں کو خواہ وہ مسلمان رہے ہوں یا بت پرست سب کو اسی کام کے لئے آمادہ کیا اور قریش کو خبر دار کیا کہ اگر ان کے بھتیجے کو گزند پہنچا تو بنی ہاشم کے انتقام سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔(١) کیونکہ قبائلی جنگ ایک خطرناک کام تھا اور اس کے نتائج افسوس ناک اور غیر مشخص تھے اور قریش کے سردار ابھی اس قسم کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لہٰذا وہ اپنی اس دھمکی کو پورا نہیں کرسکے اور ناکام رہے۔ بنی ہاشم میں سے صرف ابولہب، دشمنوں کی صف میں تھا۔
قریش کی طرف سے مخالفت کے اسباب
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش نے پیغمبر اسلاۖم کی ظاہری دعوت کے ابتدائی سالوں میں جبکہ اس وقت اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے احکام ابھی تھوڑے سے نازل ہوئے تھے، کن خطرات کا احساس کرلیا تھا کہ مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے؟
کیا ان کی مخالفت فقط اس بنا پر تھی کہ وہ بت پرست تھے یا دوسرے اسباب و علل بھی پائے جاتے تھے۔ (البتہ یہ گفتگو قریش کے سرداروں او ران کے بزرگوں کے جذبات کے بارے میں ہے، لیکن عوام الناس اپنے قبائل کے سرداروں کی پیروی میںتھے۔ ان کے احساسات اور جذبات کو ابھارنا اور ان کو ایک نئے دین کے خلاف ورغلانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے عقائد و
______________________
(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص٢٨٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص٥٩؛ ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٦٥؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٤٧٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦٣۔
آداب و رسوم کے اس قدر پابند تھے کہ کسی بھی جدید دین کے مقابلہ میں عکس العمل دکھا سکتے تھے۔(١)
مکہ میں قریش کی قدرت ، نفوذ او ران کے اعلیٰ مقام کو دیکھتے ہوئے شاید ان کی مخالفت کو سمجھنا دشوار نہ تھا اس لئے کہ تجارت اور خانہ کعبہ کی کنجی کی ذمہ داری کی بحث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ یہ قبیلہ مکہ کی اجتماعی اور اقتصادی قدرت کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھا اور اپنے کسی رقیب کو برداشت نہیں کرتا تھا او رکسی کو اجازت نہیں دیتاتھا کہ بغیر اس کی یا اس کے قبیلہ کی مرضی کے کوئی قدم اٹھا سکے۔ قریش دوسرے قبائل سیخراجلیتے تھے اوران کے ساتھ دوگانہ سلوک کرتے تھے۔ اور اپنی سیاست خانۂ خدا کے زائروں پر تھوپتے تھے۔
اس بنا پر یہ فطری بات تھی کہ بزرگان قریش، حضرت محمد ۖ کے دین کو برداشت نہ کریں؛ کیونکہ وہ آنحضرت ۖ کے ابتدائی بیانات سے سمجھ گئے تھے کہ اس کا دین ہمارے دین کے برخلاف اور ضد ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبرۖ کو یہ پیش بینی کردی گئی تھی کہ بہرحال ایک گروہ، آپ کے دین کو قبول کرے گا اور آپ کو اس کے ذریعہ شہرت ملے گی۔ لہٰذا یہ چیزیں ہرگز قریش کی شان کے مطابق نہ تھیں۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر مکہ میں نازل ابتدائی آیات اور سوروں اور تمام دستاویز اور شواہد کے تجزیہ و تحلیل سے قریش کی مخالفت کے اسباب و عوامل میں سے چند اہم اسباب کو شمار کیا جاسکتا ہے:
______________________
(١) خداوند عالم نے قرآن مجید میں، متعدد مقامات پر ان کے دینی تعصب؛اورموروثی عقائد اور رسم و رواج کی تقلید کے بارے میں ذکر فرمایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں: سورۂ بقرہ، آیت ١٧٠، مائدہ، آیت ١٠٤؛ یونس، آیت ٧٨؛ لقمان ، آیت ٢١؛ زخرف ، آیت ٣٢۔ ٢٢.
|