تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

حضرت علی کی سبقت کی دلیلیں
جو کچھ ذکر ہو چکا ہے اس کے اعتبار سے اگر کوئی حدیث یا تاریخی سند اس مطلب کی تائید نہ بھی کرے پھر بھی اس کا ثابت کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جبکہ بے شمار دلیلیں اور شواہد ایسے موجود ہیں جو اس موضوع کی تائید کرتے ہیں، نمونہ کے طور پر ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ حضرت علی کے پہلے اسلام قبول کرنے کو پیغمبر اسلاۖم نے بیان کیا ہے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کے درمیان فرمایا ہے: ''تم میں سے سب سے پہلا شخص، جو روز قیامت مجھ سے حوض (کوثر) پر ملاقات کرے گا وہ علی بن ابی طالب ہوں گے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے''۔(١)
______________________
(١) اولکم وروداً علی الحوض ، اولکم اسلاماً علی بن ابی طالب۔ (ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، حاشیة الاصابہ میں، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ١، ١٣٢٨ھ)، ج٣، ص ٢٨؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ٢٢٩؛ مراجعہ کریں: الحاکم النیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: عبد الرحمن المرعشی(بیروت: دار المعرفہ، ط١، ١٤٠٦ھ)، ج٣، ص ١٧؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد (بیروت: دار الکتاب العربی)، ج٢، ص ٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٣٢؛ بعض روایات میں اس طرح نقل ہوا ہے: اول ہذہ الامة وروداً علی الحوض اولہا اسلاماً علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ۔ (حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٢.)
٢۔ علمائے کرام اور محدثین نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلاۖم دوشنبہ کے دن مبعوث بہ نبوت ہوئے اور علی ـ نے اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ) آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔(١)
٣۔ حضرت علی نے خود فرمایا ہے:
اس روز اسلام، صرف پیغمبر ۖ اور خدیجہ کے گھر میں داخل ہوا تھا اور میں ان میں سے تیسرا شخص تھا میں نے نور وحی اور رسالت کو دیکھا اور نبوت کی خوشبو کو محسوس کیا۔(٢)
٤۔ امیر المومنین علی ایک دوسری جگہ اسلام میں اپنی سبقت کے بارے میں اس طرح سے بیان فرماتے ہیں:
اے خدا! میں وہ پہلا شخص ہوں جو تیری طرف آیا ہوں اور تیرے پیغام کو سنا اور پیغمبر ۖ کی دعوت پر لبیک کہی ہے مجھ سے پہلے پیغمبر ۖ کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی ہے۔(٣)
______________________
(١) استنبیء النبی یوم الأثنین و صلی علی یوم الثلاثائ۔ (ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر، ١٣٩٩)، ج٢، ص ٥٧.) حاکم نیشاپوری، اس حدیث کو دو طریقہ سے ''نبیء رسول اللّٰہ...'' اور ''وحی رسول اللّٰہ یوم الاثنین...'' نقل کیا ہے (گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٢.) بعض روایات میں اس طرح نقل ہوا ہے: استنبیء النبی ۖ یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ۔ (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ جوینی خراسانی، فرائد السمطین (بیروت: مؤسسة المحمودی للطباعة و النشر، ط ١ ج١، ص ٢٤٤)۔ علی خود بھی اس بات پر تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعث رسول اللّٰہ یوم الاثنین و اسلمت یوم الثلاثائ۔ (سیوطی،تاریخ الخلفاء (قاہرہ: المکتبة التجاریہ الکبریٰ، ط ٣، ١٣٨٣ھ)، ص ١٦٦؛ الشیخ محمد الصبان، اسعاف الراغبین، درحاشیہ نور الابصار، ص ١٤٨؛ احمد بن حجر الھیتمی المکی، الصواعق المحرقہ (قاہرہ: ط٢، ١٣٨٥ھ ١٢٠.)
(٢)لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللّٰہ و خدیجہ و انا ثالثہما، اریٰ نور الوحی و الرسالة و اشم ریح النبوة۔ (نہج البلاغہ، تحقیق : صبحی صالح، خطبہ ١٩٢ (قاصعہ)
(٣)اللّٰہم انی اول من اناب، و سمع و اجاب، لم یسبقنی الا رسول اللّٰہ بالصلاة۔ (گزشتہ حوالہ، خطبہ ١٣١)
٥۔ اور ایک جگہ آپ نے اس طرح سے فرمایا: میں خدا کا بندہ ، پیغمبر ۖ کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں میرے بعد اس کلام کو، سوائے جھوٹے، افتراء پرداز کے کوئی نہیں کہے گا۔ میں نے سات سال کی عمر میں، لوگوں سے پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔(١)
٦۔ عفیف بن قیس کندی کہتا ہے: میں دور جاہلیت میں عطر کا تاجر تھا۔ ایک تجارتی سفر کی غرض سے مکہ گیا جب مکہ میں داخل ہوا تو عباس (جو کہ مکہ کے ایک تاجر اور پیغمبر ۖ کے چچا تھے) کا مہمان ہوا، ایک دن میں مسجد الحرام میں عباس کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا اور سورج نصف النہار کو پہنچ چکا تھا اس عالم میں ایک جوان مسجد میں داخل ہوا جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی اور پھر کعبے کی طرف رخ کر کے کھڑا ہوااور نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا کچھ دیر گزری تھی کہ ایک خوبصورت نوجوان آیا اور اس کے داہنی طرف کھڑا ہوگیا پھر ایک نقاب پوش خاتون آئی اور ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور تینوں ایک ساتھ نماز میں مشغول ہوگئے اور رکوع و سجود بجالانے لگے۔
میں (بت پرستوں کے بیچ یہ منظر دیکھ کر کہ تین افراد آئین بت پرستی سے ہٹ کر ایک دوسرے آئین کو اپنائے ہوئے ہیں) حیرت میں پڑگیا اور عباس کی طرف رخ کر کے کہا: یہ بہت بڑا واقعہ ہے! اس نے بھی اسی جملہ کو دہرایا اور مزید کہا: کیا تم ان تینوں کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں: اس نے کہا: پہلا شخص جو دونوں سے پہلے داخل ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبد اللہ ہے اور دوسرا شخص میرا دوسرا بھتیجا علی بن ابی طالب ہے اور تیسرے محمد ۖ کی زوجہ ہیں. محمد ۖ کا دعوا ہے کہ اس کا دین خدا کی طرف سے نازل ہوا
______________________
(١)انا عبد اللّٰہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر لایقولہا بعدی الا کاذب مفتر. صلیت مع رسول اللّٰہ قبل الناس سبع سنین. (طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢١٢؛ ابن اثیر، کامل فی التاریخ، ج٢، ص٥٧.) اور اسی مضمون پر کتاب ''مستدرک علی الصحیحین، ج٣، ص ١١٢؛ میں جمع آوری ہوئی ہے۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢٠٠، و ٢٢٨؛ مراجعہ کریں: مناقب علی بن ابی طالب ، ابوبکر احمد بن موسی مردویہ اصفہانی ، اور مقدمہ عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین (قم: دار الحدیث، ط١، ١٤٢٢ھ)، ص ٤٨۔ ٤٧.
ہے اور ابھی روئے زمین پر ان تینوں کے علاوہ کسی نے اس دین کی پیروی نہیں کی ہے۔(١)
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلاۖم کی دعوت کے آغاز میں آپ کی زوجہ جناب خدیجہ کے علاوہ صرف حضرت علی ـ نے آپ کے آئین کو قبول کیا تھا۔
اسلام کے قبول کرنے میں پیش قدمی کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جس پر قرآن نے تکیہ کر کے فرمایا ہے: ''جو لوگ اسلام لانے میںپیش قدم تھے خدا کی بارگاہ میں بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی اللہ کی بارگاہ میں مقرب ہیں''۔(٢)
دین اسلام، قبول کرنے میں سبقت کے موضوع پر قرآن کی خاص توجہ اس حد تک ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے اور خدا کی راہ میں اپنی جان اور مال سے دریغ نہیں کیا، یہ لوگ ان لوگوں سے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور جہاد کیا، بنص قرآن ان سے افضل اور برتر ہیں۔
''اورتم میں فتح مکہ سے پہلے انفاق اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ہوسکتا ہے جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے۔ پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگر چہ خدا نے سب سے نیکی کا
______________________
(١) طبری ، سابق، ج٢، ص ٢١٢؛ ابن ابی الحدید، سابق، ج ١٣، ص ٢٢٦۔ ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کو عبد اللہ بن مسعود سے بھی نقل کیا ہے: وہ مکہ کے سفر میں اس واقعہ کے گواہ تھے۔ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص ٤٣٦۔ اسی طرح مراجعہ کریں: ابن عبد البر، الاستیعاب (الاصابہ کے حاشیہ میں) ج٣، ص ١٦٥؛ عفیف بن قیس کندی کے حالات زندگی کی تشریح میں، ص ٣٣؛ پر علی کے حالات زندگی میں تھوڑا لفظ کے اختلاف کے ساتھ؛ محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: ڈاکٹر سہیل زکار، (بیروت، دار المعرفہ، ط١، ١٣٩٨ھ) ص ١٣٨۔ ١٣٧؛ ابو الفتح کراجکی، کنز الفوائد (قم: دار الذخائر، ط ١، ١٤١٠ھ)، ج١، ص ٢٦٢۔ اور اسلام قبول کرنے میں علی کی پیش قدمی کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے الغدیر کی طرف رجوع کریں۔ ج٢، ص ٣١٤؛ ج ٣، ص ٢٢٤۔ ٢٢٠
(٢) ''والسابقون السابقون. اولئک المقربون.'' سورۂ واقعہ، آیت ١١۔ ١٠.
وعدہ کیا ہے اور وہ تمہارے جملہ اعمال سے باخبر ہے''۔(١)
مسلمانوں کے ایمان کی برتری کی وجہ فتح مکہ (جو کہ ٨ھ میں رخ پایا) سے پہلے یہ تھی کہ وہ لوگ ایسے وقت میں ایمان لائے کہ جب اسلام، جزیرة العرب میں پورے طور سے قدم نہیں جما سکا تھا اور ابھی بت پرستوں کا اڈہ ، یعنی شہر مکہ شکست ناپزیر قلعہ کے مانند باقی رہ گیا تھا اور ہر طرف سے خطرات مسلمانوں کی جان و مال کو خوف زدہ کئے ہوئے تھے. البتہ مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کے بعد اور دو قبیلے، اوس و خزرج اور مدینہ کے اطراف میں موجودہ قبائل کا، اسلام کی طرف رحجان پیدا ہونے سے وہاں ترقی اور کچھ امنیت پائی جانے لگی تھی اور بہت ساری لڑائیوں میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ لیکن چونکہ خطرات ابھی پورے طور سے برطرف نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اسلام کی طرف رجحان اور جان و مال کی قربانی خاص اہمیت رکھتی تھی۔ یقینا ایسا کام، پیغمبر ۖ کی تبلیغ کے آغاز میں جبکہ قریش کی قدرت کے علاوہ اور کوئی قدرت اور بت پرستوں کی طاقت کے علاوہ اور کوئی طاقت نہ تھی، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اسی وجہ سے پیغمبر اسلاۖم کے اصحاب کے درمیان اسلام میں سبقت کو ایک بہت بڑا افتخار سمجھا جاتا تھا اور اس توضیح کے ذریعہ اسلام کے سلسلہ میں حضرت علی کی سبقت کی اہمیت اور آپ کے معیار کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے۔

اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والے گروہ
اس زمانہ کے اجتماعی گروہوں ا ور طبقوں میں سے دو طبقہ اسلام قبول کرنے میں پیش قدم تھا۔

الف: جوانوں کا طبقہ:
ابتدائی مسلمانوں کی فہرست کا تجزیہ کرنے اور دوسرے شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ابتدائی مسلمان جوان تھے۔ بزرگ اور سن رسیدہ افراد مخالف تھے اور بت پرستی
______________________
(١) ''لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل اولٰئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا و کلًّا وعد اللّٰہ الحسنیٰ...'' (سورۂ حدید، آیت ١٠)
کا رواج ان کے افکار میں رچ بس گیا تھا۔ لیکن جوان نسل کے اذہان اور افکار، جوانی کی بنا پر نئے عقائد او رافکار کو قبول کرنے کے لئے آمادہ اور تیار تھے۔
ایک تاریخی رپورٹ کی بنیاد پر پیغمبر اسلاۖم کے مخفی دعوت کے زمانہ میں جوانوں اور ضعیفوں کا ایک گروہ اسلام کا گرویدہ ہوگیا تھا۔(١)
جس وقت پیغمبر اسلاۖم نے ظاہری تبلیغ کا آغاز کیا اور آپ کی اتباع اور پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو قریش کے سردار کئی مرتبہ ابوطالب سے شکایت کرنے کے بعد، آخری بار ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: ہم کئی بار تمہارے پاس آچکے ہیں تاکہ تمہارے بھتیجے کے بارے میں تم سے بات کریں کہ ہمارے آباؤ و اجداد اور خداؤوں کو برا بھلا نہ کہیںاور ہمارے بچوں، جوانوں، غلاموں اور کیزوں کو ہمارے راستے سے نہ ہٹائیں...''۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم نے جب طائف کا تبلیغی سفر کیا تو اس شہر کی اہم شخصیتوں نے اس ڈر سے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کے جوان آنحضرت ۖ کی پیروی نہ کرنے لگیں۔(٣) مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے کے بعد جب قریش کے نمائندے مہاجرین کو پلٹانے کے لئے نجاشی کے دربار میں گئے تو درباریوں سے گفتگو کے دوران اسلام کی طرف مکہ کے جوانوں کے رحجانات کی شکایت کی۔(٤)
ایک شخص قبیلۂ ''ہذیل'' سے مکے میں آیا تو پیغمبر اسلاۖم نے اسے اسلام کی طرف دعوت دی۔
______________________
(١) ابن سعد ، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٩٩.
(٢)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط ٣)، ج١، ص ٢٢٩؛ مراجعہ کریں: بحار الانوار، ج١٨، ص ١٨٥ .
(٣)ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢۔
(٤)ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط ٣)، ص ٤٤؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص (نجف: المکتبہ الحیدریہ، ١٣٨٣ھ)، ص ١٨٦۔
ابوجہل نے اس ہذلی سے کہا: ''کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کی بات کو قبول کرلو؛ اس لئے کہ وہ ہم کو بے وقوف اور ہمارے گزشتہ آبا و اجداد کو جہنمی کہتا ہے اور دوسری عجیب و غریب باتیں کرتا ہے!''
ہذلی نے کہا: تم کیوں نہیں اس کو اپنے شہر سے باہر کردیتے؟
ابو جہل نے جواب دیا: اگر وہ باہر چلا گیا اور جوانوںنے اس کی باتوں کو سن لیا اور اس کی شیرین بیانی کو دیکھ لیا تو وہ اس کے گرویدہ ہو جائیں گے اور اس کی پیروی کرنے لگیں گے اور ممکن ہے وہ ان کی مدد سے ہم پر حملہ کردے۔(١)
عتبہ: ( قریش کا ایک سردار) نے بھی اسعد بن زرارہ (جو کہ مدینہ میں قبیلۂ خزرج کے بزرگوں میں سے تھا) سے ملنے پر پیغمبر اسلاۖم سے جوانوں کے رحجانات اور لگاؤ کا شکوہ کیا۔(٢)
ابتدائی مسلمانوں کی فہرست کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ ان میں زیادہ تر افراد کی عمر، اسلام قبول کرتے وقت ٣٠ سال سے کم تھی۔ مثلاً سعد بن وقاص ١٧ (٣) یا ١٩ (٤) سال، زبیر بن عوام ١٥(٥) یا ١٦(٦) او رعبد الرحمن بن عوف ٣٠ سال کے تھے کیونکہ وہ ''عام الفیل'' کے دس سال بعد پیدا ہوئے تھے۔(٧) مصعب ابن عمیر بھی تقریباً ٢٥ سال کے تھے۔ کیونکہ جنگ احد ٣ھ میں شہادت کے وقت تقریباً چالیس سال کے تھے۔(٨) ارقم جن کا گھر پیغمبرۖ کے اختیار میں تھا وہ ٢٠ یا ٣٠
______________________
(١)بلاذری، سابق، ص١٢٨.
(٢) طبرسی ، سابق، ص ٥٦.
(٣) ابن سعد ، سابق، ج٣، ص ١٣٩.
(٤) حلبی، سیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٤٤٦.
(٥) حلبی، سابق، ج١، ص ٤٣٤.
(٦) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ١٠٢.
(٧) گزشتہ حوالہ، ص ١٢٤.
(٨) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ٢٢٢.
سال کے تھے کیونکہ مرتے وقت (٥٥ھ) میں وہ ٨٠ یا ٨٢ سال کے تھے۔(١)

ب: محروموں اور مظلوموں کا طبقہ:
اس گروہ کا مطلب جو اسلامی کتابوں میں ''ضعیفوں'' اور ''مستضعفین'' کے نام سے ذکر ہوا ہے۔ غلام یا آزاد شدہ افراد تھے جو اپنی آزادی کے باوجود عربوں کی رسم کے مطابق ایک طرح سے اپنے آپ کو آقاؤوں سے متعلق اور وابستہ سمجھتے تھے اور اصطلاح میںان کو ''مولیٰ'' (آزاد شدہ) کہا جاتا تھا۔ مستضعفین کا دوسرا گروہ پردیسی اور مسافروں کا تھا جو دوسرے علاقوں سے آکر مکہ میں بس گئے تھے اور چونکہ وہاں کے کسی قبیلہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لہٰذا وہ مجبوری کے تحت اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے کسی ایک طاقت ور قبیلہ کی پناہ میں رہتے تھے لیکن پھر بھی قریش کے لوگوں کے مساوی حقوق سے محروم تھے اور اجتماعی لحاظ سے انھیں ایک پست اور حقیر طبقہ سمجھا جاتا تھا۔
مکہ میں اس گروہ کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس کوئی قدرت و طاقت تھی(٢)لیکن اسلام قبول کرنے میں سب سے آگے تھے لہٰذا ان کا مسلمان ہو جانا مشرکوں پر بہت ہی تلخ اور گراں گزرا اور انھیں مسلمانوں کی تحقیر کا مناسب بہانہ مل گیا۔
ایک روایت کی بنا پر جب پیغمبر اسلاۖم مسجد الحرام میں تشریف فرما ہوتے تھے تو آپ کے ضعیف پیرو، جیسے عمار یاسر، خباب بن الارت، صُہَیب بن سنان، بلال بن رَباح، ابوفَکیَہ اور عامر بن فُہَیر، آپ کے پہلو میں بیٹھتے تھے تو قریش ان کا مذاق اڑاتے تھے اور طعنہ دے کر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ دیکھو اس کے ہم نشین ایسے لوگ ہیں۔ خدا نے ہم سب لوگوں کے درمیان میںسے فقط ان
______________________
(١) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ٢٤٤۔ عبد المتعال مصری نے ایک کتاب ''شباب قریش فی بدء الاسلام'' کے نام سے تالیف کی ہے اورقریش کے جن چالیس جوان افراد نے دعوت اسلام کو قبول کیا تھا ان کو ترتیب کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انھیں سنّی بتایا ہے ، جن میں سب سے اول حضرت علی ہیں۔ ص ٣٤۔ ٣٣.
(٢)بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٥٦اور ١٨١؛ رجوع کریں: طبقات الکبریٰ، ج٣، ص ٢٤٨۔
پر احسان کیاہے (کہ اسلام کو قبول کرکے ہدایت یافتہ ہوئے ہیں)۔(١)
ایک دن قریش کے سرداروں کا ایک گروہ پیغمبر ۖ کی مجلس کے بغل سے گزرا تو اس وقت صہیب ، خبّاب، بلال، عمار وغیرہ پیغمبر ۖ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ''اے محمدۖ! اپنی قوم والوں میں سے صرف ان پر تکیہ کیاہے؟! کیا ہم ان کی پیروی کریں؟! کیا خدا نے صرف ان پر احسان کیا ہے (اور ان کی ہدایت کی ہے؟!) ان کو اپنے سے دور کردو شاید ہم تمہاری پیروی کرلیں ۔ اس وقت سورۂ ''انعام'' کی ٥٢ ویں اور ٥٣ ویں آیت نازل ہوئی۔(٢)
''اور خبر دار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیںاور خدا ہی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انھیں اپنی بزم سے الگ نہ کیجئے گا۔ نہ آپ کے ذمہ ان کا حساب ہے اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے کہ آپ انھیں دھتکار دیںاور اس طرح ظالموں میں شمار ہوجائیں''۔
اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمایا ہے تاکہ وہ یہ کہیں کہ یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہمارے درمیان فضل و کرم کیا ہے اور کیا وہ اپنے شکر گزار بندوں کو بھی نہیں جانتا؟!(٣)
پیغمبرۖ کی رسالت کے ابتدائی سالوں میں قریش نے چند نمائندے مدینہ بھیجے تاکہ اس شہر کے یہودیوں سے آپ کے بارے میں تحقیق کریں۔ ان لوگوںنے یہودیوں سے کہا: ''جو حادثہ ہمارے شہر میں رونما ہوا ہے اس کے لئے ہم تمہارے پاس آئے ہوئے ہیں ایک یتیم اور حقیر جوان بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ ''رحمان'' کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور ہم، صرف ایک شخص کو اس نام سے جو ''یمامہ'' میں رہتا ہے جانتے ہیں''
یہودیوں نے پیغمبر اسلاۖم کی خصوصیات کے بارے میں چند سوالات کئے ان میں ایک سوال یہ تھا
______________________
(١)گزشتہ حوالہ۔
(٢) طبرسی، مجمع البیان، ج٢، ص ٣٠٥.
(٣)سورۂ انعام،آیت ٥٣۔ ٥٢۔
کہ کن لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے؟
ان لوگوں نے کہا: ہم میں سے پست لوگوں نے۔
یہودیوں کا بڑا عالم ہنسا اور کہا: یہ وہی پیغمبر ۖ ہے جس کی نشانیاں ہماری کتابوں میں موجود ہیں اور اس کی قوم اس کی شدید دشمن ہو جائے گی۔(١)
البتہ مفلوک الحال لوگوں کا تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف رجحان ہرگز مصلحتی اسلام یا طبقاتی منافع کی خاطر نہیں تھا بلکہ انسانی تسلط اور حکمرانی کے نفی کا پہلو اور خدائی حکمرانی کے قبول کرنے کا مسئلہ تھا اور یہ مسئلہ سب سے زیادہ، مستکبرین اور تسلط خواہوں کے اجتماعی طاقت کے لئے خطرہ بن گیا تھا اوران کی مخالفت کو اکسانے کا باعث بنا تھا جیسا کہ گزشتہ پیغمبروں کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہو ا ہے۔
''تو ان کی قوم کے بڑے لوگ جنھوںنے کفر اختیار کرلیا تھا۔ انھوںنے کہا کہ ہم تو تم کو اپنا ہی جیسا ایک انسان سمجھ رہے ہیں اور تمہارے اتباع کرنے والوںکو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں۔ ہم تمہارے لئے اپنے اوپر کسی فضیلت وبرتری کے قائل نہیں ہیںبلکہ تمھیں جھوٹا خیال کرتے ہیں''۔(٢)
''تو ا ن کی قوم کے بڑے لوگوں نے کمزور بنادیئے جانے والے لوگوں میں سے جوایمان لائے تھے ان سے کہنا شروع کیا کہ کیا تمھیںاس کا یقین ہے کہ صالح خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں؟ انھوںنے کہا کہ بیشک ہمیں ان کے پیغام کا ایمان اور ایقان حاصل ہے۔ تو بڑے لوگوںنے جواب دیا کہ ہم تو ان باتوں کے منکر ہیں جن پر تم ایمان لائے ہو''۔(٣)
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٦٥؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٩٩۔
(٢) سورۂ ہود، آیت ٢٧۔
(٣) سورۂ اعراف، آیت ٧٦۔ ٧٥۔

دعوت ذو العشیرہ
پیغمبر اسلاۖم کی رسالت کے تیسرے سال فرشتۂ وحی خدا کا حکم لیکر آپ کے پاس نازل ہوا کہ اپنے خاندان والوں اور رشتہ داروں کو ڈرائیں اور انھیں دعوت دیں:
''اور پیغمبر ۖ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈارئیے اور جو صاحبان ایمان آپ کا اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکا دیجئے پھر یہ لوگ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں کے اعمال سے بیزار ہوں'' (١)
اس آیت کے نازل ہونے پر پیغمبر اسلاۖم نے علی کو حکم دیا کہ کھانے کا انتظام کیا جائے اور عبد المطلب کی اولاد کو دعوت دی جائے تاکہ خدا کا حکم ان تک پہنچایا جاسکے۔ چنانچہ علی نے ایسا ہی کیا۔ تقریباً کم و بیش چالیس (٤٠) افراد جمع ہوئے جن میں ابوطالب، حمزہ اور ابولہب بھی تھے، کھانا کم تھا اور عام طور سے اتنا کم کھانا اتنے بڑے مجمع کے لئے ناکافی تھا۔ لیکن سب نے سیر ہوکر کھایا ۔ ابولہب نے کہا: ''اس نے تم پر جادو کر دیا ہے'' یہ بات سن کر سارا مجمع پیغمبر ۖ کی بات سننے سے کنارہ کش ہوگیا اور پیغمبر ۖ نے بھی کوئی بات نہیں کہی اور مجلس کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر تمام ہوگئی۔ پیغمبر ۖ کے حکم سے دوسرے دن علی نے پھر اسی طرح کھانے کا انتظام کیا اور ان لوگوں کو دعوت دی اس مرتبہ پیغمبر ۖ نے مجمع سے کھانا کھانے کے فوراً بعد فرمایا: ''عرب کے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھ سے بہتر چیز تمہارے لئے لے کر آیا ہو میں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور نیکی تمہارے لئے لیکر آیا ہوںخدا نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی جانب دعوت دوںتم میں سے کون ہے جو اس وقت میری مدد کرنے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین تمہارے درمیان قرار پائے''
کسی نے جواب نہ دیا، علی جو کہ سب سے کم سن تھے، کہا: اے خدا کے رسول ۖ ! میں آپ کی مدد
______________________
(١)سورۂ شعرا، آیت ٢١٦۔ ٢١٤۔
کرنے کے لئے تیار ہوں'' پیغمبر ۖ نے فرمایا: ''یہ تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے، اس کی باتوں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو''۔(١)
یہ واقعہ ہم کو ایک بنیادی مطلب کی طرف راہنمائی کرتاہے کہ ''نبوت'' اور ''امامت'' دو ایسے بنیادی اصول ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں کیونکہ پیغمبر اسلاۖم نے اپنی رسالت کے ابتدائی
______________________
(١) یہ واقعہ اسلامی دانشوروں کے درمیان ''بدء الدعوة'' ،''یوم الدار'' اور ''یوم الانذار'' کے نام سے مشہور ہے، اکثر محدثین، مفسرین اور مورخین نے اس واقعہ کو تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ، ان میں سے محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ٢١٧؛ ابن اثیر، الکامل فی تاریخ ، ج٢، ص ٦٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢١١؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ محمود مہدی دامغانی، ج١، ص ٢٧٨؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص ٢٠٦؛ شیخ مفید، الارشاد، ص ٢٩؛ علی بن موسی بن طاوس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف، ج١، ص٢٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، ج١، ص ٤٦١؛ مجلسی، بحارالانوار، ج١٨، ص ١٧٨؛ ١٨١، ١٩١، ٢١٤؛ علامہ امینی ، الغدیر، ج٢، ص ٢٨٩۔ ٢٧٨؛ سید مرتضی عسکری، نقش ائمہ در احیاء دین، ج٢، ص ٨٦؛ ج٦، ص ١٨۔ ١٧؛ احمد حنبل، مسند، ج١، ص ١٥٩۔ قابل ذکر ہیںجیسا کہ مرحوم علامہ امینی نے توجہ دی ہے کہ مورخین کے درمیان طبری نے اپنی تاریخ میں اسی طرح سے نقل کیا ہے جیسا کہ ہم نے لکھا ہے۔ لیکن اپنی تفسیر (جامع البیان، ج١٩، ص ٧٥) میں کلام پیغمبر ۖ کو دو جگہ پر تحریف کر کے بجائے میرا وصی اور جانشین کے ''ایسااور ویسا'' لفظ ذکر کیا ہے: فأَیُّکم یؤازرنی علی ہذا الامر علی ان یکون اخی و کذا و کذا ثم قال ان ہذا اخی و کذا و کذا فأسمعوا لہ و اطیعوہ۔ اسماعیل بن کثیر شامی نے بھی اپنی تین کتابوں میں (تفسیر ، ج٣، ص ٣٥١، البدایہ و النہایہ، ج٣، ص ٤٠، السیرہ النبویہ، ج١، ص ٤٥٩) ، میں اس غلط روش میں اس کی پیروی کی ہے! البتہ ان دو افراد کے خاص نظریات کی بنا پر اس مسئلہ میں ان کے مقاصد کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیںہے۔
سالوں میں اپنی نبوت کے اعلان کے دن، مسلمانوں کی آئندہ رہبری اور امامت کو بھی بیان کیا۔
دوسری طرف سے یہ تصور نہ ہو کہ پیغمبرۖ نے صرف ایک بار وہ بھی ''غدیر خم'' میں (اپنی زندگی کے آخری مہینے میں) علی کی امامت کو بیان کیا ہے۔ بلکہ دعوت ذو العشیرہ کے علاوہ بھی دوسری مناسبتوں سے (جیسے حدیث منزلت میں) بھی اس موضوع کو ذکر فرمایا ہے: البتہ غدیر میں سب سے زیادہ واضح اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، جہاں مجمع بھی بہت زیادہ تھا۔
سوروں کی ترتیب نزول کے لحاظ سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ذو العشیرہ کا واقعہ، دعوت ظاہری سے کچھ دن پہلے پیش آیا ہے۔(١)
______________________
(١)سورۂ ''شعرائ'' جس میں آیات انذار موجود ہے سورۂ واقعہ کے بعد نازل ہوا ہے اور پھر ترتیب وار سورۂ ''نمل، قصص، اسرائ، یونس، ھود، یوسف'' اور ''سورۂ حجر'' جس میں علنی دعوت کا حکم ''فاصدع بما تؤمر'' موجود ہے نازل ہوا ہے (محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج١، ص ١٠٥)