تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

طلوع وحی کی غلط عکاسی
بعض تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں پیغمبر اسلاۖم کی بعثت کو غلط اور افسانوی شکل میں نقل کیا گیا ہے جو کسی طرح سے حدیث اور تاریخی معیاروں کے مطابق، قابل قبول نہیں ہے اور اس اعتبار سے کہ یہ خبر، مشہور ہے۔ فارسی کی درسی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔ لہٰذا مناسب ہے ہم اس کو نقل کریں اور اس پر تنقید کریں۔
عائشہ کہتی ہیں کہ پہلی بار جب رسول خداۖ پر وحی نازل ہوئی تو وہ سچا خواب تھا وہ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ صبح روشن کے مانند ہوا کرتا تھا اس کے بعد وہ چاہتے کہ گوشہ نشین ہوجائیں اور پھر غار حرا میں گوشہ نشین ہو جاتے تھے اور وہاں کچھ راتیں عبادت میں بسر کرتے اور پھر اپنے اہل خانہ کے پاس
واپس چلے آتے تھے اور خدیجہ سے آذوقہ لیتے تھے (اور پھر غار حرا میں واپس چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ حق آپ کے پاس آیا اور آپ اس وقت غار میں تھے۔ فرشتہ وحی آپ کے پاس آیا اور کہا: پڑھو۔ کہا:میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں۔
پیغمبر ۖ نے فرمایا کہ فرشتے نے مجھے پکڑا اور زور سے دبایا یہاں تک کہ میں بے دم ہوگیا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں دوبارہ ہم کو پکڑا اور اتنی زور سے دبایا کہ میری ساری طاقت چلی گئی۔ اس وقت مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں تیسری بار پھر مجھے پکڑا اور اتنی زور سے دبایا کہ میری ساری طاقت ختم ہوگئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جو خالق ہے... (پانچویں آیت تک)
اس وقت رسول خدا ۖ لرزتے ہوئے دل کے ساتھ پلٹے اور جناب خدیجہ کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھے اڑھادو! مجھے اڑھادو! تو انھوں نے اڑھا دیا تاکہ آپ کا اضطراب اور خوف ختم ہو جائے]![ رسول خدا ۖ کے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا اسے آپ نے خدیجہ سے بتایا اور فرمایا کہ میں اپنے بارے میں خوف زدہ ہوں]![ خدیجہ نے کہا: قسم خدا کی! خدا آپ کو ہرگز رسوا نہ فرمائے گا؛ کیونکہ آپ اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں کے ساتھ نیکی اور غیروں کے ساتھ بخشش و خیرات کرتے ہیں ۔ فقیروں اور تہی دستوں کی دلجوئی اور مہمانوں کی ضیافت اور حق والوں کی مدد فرماتے ہیں۔
پھر جناب خدیجہ آپ کے ساتھ، اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں وہ ایک سن رسیدہ اور نابینا شخص تھے اور زمانۂ جاہلیت میں عیسائیت کے گرویدہ ہوگئے تھے وہ عبرانی زبان سے واقف تھے او رانجیل کو اسی زبان میں لکھتے تھے۔
خدیجہ نے ان سے کہا: عمو زادہ! اپنے بھائی کی بات سنیئے (کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟) ورقہ نے کہا: ''بھائی تم نے کیا دیکھا؟'' رسول خدا ۖ نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بتایا۔ ورقہ نے کہا: ''یہ وہی ناموس (فرشتہ) ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا کاش آج میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس دن زندہ رہوں؟ جب تمہاری قوم والے تم کو شہر سے باہر کردیں گے''۔
رسول خدا نے فرمایا: ''کیا یہ لوگ مجھے شہر سے باہر کردیں گے۔کہا: ہاں...'' (١)

تنقید و تحلیل
جیسا کہ اشارہ کیا جاچکا ہے کہ یہ روایت اس شکل میں قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر سند اور متن دونوں لحاظ سے ناقابل اعتبار ہے۔
١۔ اس واقعہ کی ناقل عائشہ ہیں اور وہ بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال پیدا ہوئیں۔(٢) لہٰذا وہ واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھیں کہ واقعہ کی عینی گواہ بن سکیں اور چونکہ وہ اصلی راوی کا نام کہ شاید جس سے یہ واقعہ سنا ہے ذکر نہیں کرتیں لہٰذا ان کی نقل، فاقد سند اور علوم حدیث کی اصطلاح میں ''مرسل'' ہے اور روایت مرسل قابل اعتبار نہیں ہے۔
٢۔ اس روایت کی بنیاد پر فرشتۂ وحی نے متعدد بار حضرت محمدۖ کو پڑھنے کے لئے کہا اور آپ نے اظہار ناتوانی فرمایا۔ اگر مقصد یہ تھا کہ آنحضرت کلام خدا کو لوح سے دیکھ کر پڑھیں تو ایسی چیز معقول نہ تھی؛ کیونکہ خدا اور اس کا فرشتہ جانتا تھا کہ آپ امی ہیںاور پڑھنا نہیں جانتے ہیں اور اگر مقصد یہ تھا کہ فرشتہ کے کہنے پر آپ پڑھیں تو یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا۔ جس سے حضرت محمد ۖ (جو کہ ذہانت اور دقت میں معروف تھے) کمال عقل و فکر کے باوجود عاجز رہے ہوں!
______________________
(١) صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص٦٠۔ ٥٩،کتاب بدء الوحی؛ صحیح مسلم، بشرح امام النووی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٠٤۔ ١٩٧، باب بدء الوحی الی رسول اللہۖ ؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٦۔ ٢٠٥۔
(٢) عسقلانی ، الاصابہ فی تمیز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط١، ١٣٢٨ھ) ج ٤، ص ٣٥٩۔
٣۔ فرشتۂ وحی کے ذریعہ مسلسل دباؤ کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یاد کرنا ایک ذہنی کام ہے جس میں دباؤ کارگر نہیں ہوتا ہے اگر خیال کریں کہ یہ کام اس لئے تھا کہ حضرت، قدرت خدا سے اچانک پڑھنا سیکھ جائیں تو صرف ارادۂ الٰہی اس کام کے لئے کافی تھا ان مقدمات کی ضرورت نہیں تھی اور اگر دباؤ کے مسئلہ کو رسول خدۖا، پروردگار عالم اور عالم غیب سے مربوط سمجھیں پھر بھی قابل تاویل نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ خداوند عالم نے صراحت کے ساتھ قرآن میں بیان کردیا ہے کہ پیغمبروں کا رابطہ عالم غیب سے ان تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ رہا ہے۔
١۔ ڈائرکٹ رابطہ اور بغیر کسی واسطہ کے پیغام الٰہی کو دریافت کرنا؛
٢۔ آواز کے ذریعہ، بغیر کسی کو دیکھے ہوئے؛
٣۔ فرشتۂ وحی کے ذریعہ۔(١)
صرف وحی کے بغیر کسی واسطے کے دریافت کرنے پر پیغمبر اسلاۖم نے دباؤ اور سختی کو برداشت کیا اور بعض روایتوں کی بنیاد پر آپ کا چہرہ متغیر ہو جایا کرتا تھا اور عرق کے قطرات موتی کی شکل میں آپ کے چہرے سے گرنے لگتے تھے۔(٢)
لیکن اگر پیغام الٰہی فرشتہ کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا تو حضرت پر کوئی خاص کیفیت طاری نہیںہوا کرتی تھی جیسا کہ حضرت امام صادق فرماتے ہیں: ''جس وقت وحی جبرئیل لے آکر آتے تھے تو پیغمبر ۖ عام حالت میں فرماتے تھے۔ یہ جبرئیل ہیں یا جبرئیل نے مجھ سے اس طرح یہ کہا ہے لیکن
______________________
(١)''و ما کان لبشر ان یکلمہ اللّٰہ الا وحیا او من ورآ حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ مایشاء انہ عل حکیم'' (سورۂ شوریٰ، آیت ٥١) اس بارے میں مزید آگاہی کے لئے مراجعہ کریں: (بحار الانوار، ج١٨، ص ٢٤٦، ٢٥٤، ٢٥٧
(٢)ابن سعد، سابق، ج١، ص ١٩٧؛ ابن شہر آشوب، سابق ، ج١، ص ٤٣؛ مجلسی ، گزشتہ ، ج١٨، ص ٢٧١۔
اگر وحی آپ پر براہ راست نازل ہوتی تھی تو گرانی اور بوجھ کا احساس کرتے تھے اور بے ہوشی جیسی کیفیت آپ پر طاری ہو جایا کرتی تھی''(١) جب جبرئیل حامل وحی ہوا کرتے تھے تو آنحضرتۖ ان کو دیکھ کر نہ تنہا کوئی خاص احساس نہ کرتے تھے بلکہ جب بھی آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوتے تھے، بغیر آپ کی اجازت کے آپ کی خدمت میں قدم نہیں رکھتے تھے اور پیغمبر ۖ کی بارگاہ میں نہایت ہی ادب سے بیٹھتے تھے۔(٢)
اس تشریح اور توضیح کے ساتھ چونکہ مورخین کا اتفاق ہے کہ قرآن کی ابتدئی آیات کو جبرئیل غار حرا میں لے کر آئے تھے لہٰذا کسی طرح کا بوجھ اور سنگینی نہیں پائی جاتی تھی۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت ۖکو ذمہ داری کی سنگینی کا احساس نہیں تھا اور آنحضرتۖ کو بت پرستوں کی مخالفت کی فکر نہیں تھی۔
٤۔ حضرت محمد ۖ کی آمادگیوں اور تیاریوں کو دیکھتے ہوئے اور اس سے قبل، غیبی پیغاموں کے دریافت کودیکھتے ہوئے، کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ حضرت گھبرائے ہوں اور خوف و اضطراب آپ پر طاری ہوا ہو اس سے قطع نظر بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ جناب جبرئیل شب شنبہ اور شب یکشنبہ کے ابتدائی حصہ میں پیغمبر اسلاۖم کے قریب آئے اور تیسری بار (یعنی دوشنبہ کے دن) تھا کہ منصب رسالت پر آپ کو فائز کردیا گیا۔(٣) لہٰذا غار حرا میں بھی آنحضرتۖ کا پہلا دیدار، فرشتے سے نہیں
______________________
(١) مجلسی ، سابق، ص ٢٦٨ اور ٢٧١؛ صدوق ، التوحید (تہران: مکتبة الصدوق)، ص ١١٥؛ مراجعہ کریں: مہر تابان، (آیة اللہ سید محمد حسین حسینی طہرانی کا انٹریو مرحوم علامہ سید محمد حسین طباطبائی سے) ص ٢١١۔ ٢٠٧۔
(٢) صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ (ہم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٥ھ)، ج١، ص ٨٥؛ علل الشرایع (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٥ھ)، باب ٧، ص ٧۔
(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠٥؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٧۔
ہوا کہ اس کو دیکھ کر آنحضرت ۖ کو خوف و اضطراب طاری ہوا ۔ اصولی طور پر جب تک کوئی ہر لحاظ سے سرّ الٰہی (رسالت) کو لینے کے لئے تیار نہ ہو خدائے حکیم اتنا بڑا عہدہ اور منصب اس کو نہیں عطا کرتا ہے۔
٥۔ کس طرح یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے کہ جناب خدیجہ کی معلومات (جو کہ ایک عام فرد تھیں) پیغمبر اسلام ۖ سے زیادہ تھیں اور وہ آنحضرت ۖ کے خوف و اضطراب کو دیکھ کر ان کی دلجوئی اور دلداری کرتی تھیں۔
٦۔ اور سب سے زیادہ قبیح بات یہ کہ ہم حضرت محمد ۖ کے بارے میں تصور کریں جو کہ رسالت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کیا چیز آئندہ رونما ہونے والی ہے اور جبرئیل امین کو نہیں پہچانتے تھے اوراس کے پیغام کو صحیح طرح سے تشخیص نہیں دے سکتے یہاں تک کہ ایک ضعیف اور نابینا مسیحی نے ان کی رسالت کے اوپر مہر تصدیق لگائی اور محمد ۖ کو اس کے اظہارات کے ذریعہ اپنی رسالت کے بارے میں اطمینان حاصل ہوا اور ان کے دل کو سکون و قرار ملا۔ اس بات کا بے بنیاد ہونا اتنا واضح ہے کہ کسی دلیل یا برہان کی ضرورت نہیں ہے۔
٧۔ اس خبر میں حضرت محمد ۖکی طرف جس شک و تردید کی نسبت دی گئی ہے وہ قرآن کی آیت کے مطابق نہیں ہے قرآن فرماتا ہے کہ (قلب محمدۖ) نے جس چیز کو دیکھا اس کو جھٹلایا نہیں۔(١)
طبرسی (مشہور شیعہ عالم دین اور مفسر) کہتے ہیں:
''خداوند عالم اپنے رسول ۖ کو وحی نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کو روشن دلیلوں کے ہمراہ کرے اور اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اس پر وحی ہوتی ہے وہ خدا کی جانب سے ہے اور اسے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس پر خوف و اضطراب طاری نہیں ہوتا۔(٢)
______________________
(١) ''ما کذب الفؤاد ما رأیٰ'' سورۂ نجم ، آیت ١١
(٢) مجمع البیان ، ج١٠، ص ٣٨٤، تفسیر آیہ ''یا ایہا المدثر...''
حضرت امام صادق نے اپنے ایک صحابی کے سوال کرنے پر کہ رسول خدا ۖ وحی کے وقت، اس بات سے کیوں نہیں ڈرے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہوسکتا ہے؛ فرمایا: ''جس وقت خداوند عالم، اپنے کسی بندے کو رسالت کے درجہ پر فائز کرتا ہے تو اس کو ایسا اطمینان و سکون عطا کردیتا ہے کہ جو کچھ خدا کی جانب سے اس پر نازل ہو وہ اس کے لئے ویسے ہی ہو جیسے کوئی اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔(١)
کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم (جس میں عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے) کی شرح کرنے والے مشہور عالم ہونے کے باوجود، چونکہ اصل روایت کو مسلم جانتے تھے چونکہ اس کی صحیح تفسیر اور توضیح میں درماندہ اور حیران و پریشان ہوئے، ضعیف اور بے بنیاد توجیہات میں لگ گئے، جو باعث تعجب ہے۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم کی بعثت کے بارے میں اس کے مشابہ چند حدیثیں، عبد اللہ بن شدّاد، عبید بن عُمیر، عبد اللہ بن عباس اور عروہ بن زبیر جیسے راویوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں۔ جنکی ہم نے توضیحات پیش کی ہیں ان کے ذریعہ، ان کا جعلی ہونا واضح ہو جاتا ہے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت
______________________
(١) مجلسی، بحار الانوار ، ج١٨، ص ٢٦٢؛ محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن (مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم)، ج١، ص ٤٩.
(٢) جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ پہلا شخص جو اس روایت کے ضعیف اور بے اعتبار ہونے کی طرف متوجہ ہواوہ مرحوم سید عبد الحسین شرف الدین موسوی (١٢٩٠۔ ١٣٧٧ھ.ق) جبل عامل کے مایہ ناز شیعہ عالم دین تھے جنھوں نے اپنی کتاب ''الی المجمع العلمی العربی بدمشق'' اور کتاب النص و الاجتہاد، ص ٣٢٢۔ ٣١٩ میں اس روایت پر تنقید اور تجزیہ کیا ہے پھر ہمارے محققین اور علماء نے خاص طور سے دانشمند معظم جناب علی دوانی نے مذکورہ کتاب میں اس کے ذیل میں تفصیلی بحث اور تحقیق فرمائی ہے اور مسئلہ کو مکمل حل کردیا ہے اور ہم نے اس بحث میں ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا ہے۔
شعاع وحی برفراز کوہ حرا، ص ١٠٨۔ ٧٠؛ تاریخ اسلام از آغاز تا ہجرت، ص ١١٠۔ ٩٨؛ نقشہ ائمہ در احیاء دین، ج٤، ص٤٤۔ ٦؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص٢٣٢۔ ٢١٦؛ خیانت در گزارش تاریخ، ج٢، ص ٢٣۔ ١٣؛ التمہید، ج١، ص٥٦۔ ٥٢؛ درسھایی تحلیلی از تاریخ اسلام، ج٢، ص ٢٣٦۔ ١٩٦۔
نہیں پڑتی۔(١) یہ غلط خبر مسیحیوں کی کتابوں میں بھی نقل ہونے لگی ہے او ران میں سے کچھ لوگوں نے اس کو زہر چھڑکنے اور پیغمبر اسلامۖ کے خلاف وسوسہ ڈالنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔(٢)
اس تنقید کے ذریعہ ان کی، غلط فہمی کا بے بنیاد ہونا بھی واضح اور آشکار ہو جاتا ہے۔

مخفی دعوت
حضرت محمد ۖ نے تین سال تک خاموشی سے لوگوں کو تبلیغ کی(٣) کیونکہ مکہ کے حالات ابھی ظاہری تبلیغ کے لئے ہموار نہیں ہوئے تھے۔ اس تین سال کے دوران آپ مخفی طور سے ایسے افراد سے ملے جن کے بارے میں آپ کو معلوم تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
______________________
(١) سید مرتضیٰ عسکری، نقش عائشہ در احیائے دین، انتشارات مجمع علمی اسلامی، ج ٤، ص ١٢.
(٢) مراجعہ کریں: دائرة المعارف الاسلامیہ، ترجمہ عربی توسط محمد ثابت الفندی ( اور دوسرے افراد)، ج٣، ص ٣٩٨۔ (لفظ بحیرا)۔ مونٹگومری واٹ۔ ادینبورو یونیورسٹی کے عربی محکمہ کا چیرمین۔ ان لوگوں میں سے ہے جس نے اس سلسلہ میں زہر چھڑکا ہے اور بے بنیاد باتیں کہی ہیں ۔ وہ کہتا ہے: ''... ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں مکہ جیسے دور داراز شہر میں زندگی بسر کی، یہ ایمان رکھنا کہ خدا کی جانب سے وہ پیغمبری کے لئے مبعوث ہوا ہے حیرت کی بات ہے لہٰذا تعجب کی بات نہیں ہے اگر ہم یہ سنیں کہ محمد ۖ کو خوف اور شک لاحق ہوا تھا۔ اس سلسلے میں قرآن اور احادیث میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو اس کی زندگی سے مربوط ہیں اور پتہ نہیں کب اسے، اطمینان حاصل ہوا کہ خدا نے اس کو فراموش نہیں کیا ہے !!۔دوسرا خوف، جنون کا خوف تھا کیونکہ اس زمانہ میں عرب عقیدہ رکھتے تھے کہ اس طرح کے افراد، روحوں یا جنات کے قبضہ میں ہیں ۔
مکہ کے کچھ لوگ حضرت محمد ۖ کے الہامات کو ایسا بتاتے تھے اوروہ خود بھی کبھی اس تردید کا شکار ہو جاتے تھے کہ حق ان لوگوں کے ساتھ ہے یا نہیں؟!! (محمد پیامبر و سیاستمدار، ترجمہ اسماعیل والی زادہ (تہران: کتابفروشی اسلامی، ١٣٤٤)، ص ٢٧۔ ٢٦.
(٣) ابن ہاشم، سابق ، ج١، ص ٢٨٠؛ طبری، سابق ، ج٢، ص ٢١٦؛ مسعودی ، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٦۔ ٢٧٥؛ بلاذری، سابق، ج١، ص ١١٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٩؛ حلبی، سابق، ج١، ص ٤٥٦؛ طوسی، الغیبہ (تہران: مکتبہ نینوی الحدیثہ)، ص٢٠٢؛ صدوق ، کمال الدین و تمام النعمة، (قم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج٢، ص ٣٤٤، ح ٢٩.
لہٰذا ان کو خدا کی وحدانیت اس کی عبادت اور اپنے نبوت کی طرف دعوت دی۔ اس عرصہ میں قریش آپ کے دعوے سے باخبر ہوگئے تھے۔ لہٰذا جب کہیںآپ کو راستے میں دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ نبی عبدالمطلب کا جوان آسمان سے باتیں کرتا ہے۔(١) لیکن چونکہ آپ عمومی جگہوں پر کلام نہیں کرتے تھے لہٰذا آپ کی دعوت کی باتوںسے کوئی باخبر نہیں تھا اور اسی بنا پر وہ لوگ کوئی عکس العمل نہیں دیکھاتے تھے۔
اس عرصہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور انھیں ابتدائی مسلمانوں میں سے ایک شخص جس کا نام ارقم تھا اس نے اپنا گھر (جو صفا پہاڑی کے کنارے تھا) پیغمبر ۖ کے حوالہ کردیا حضرت رسول خداۖ اور تمام مسلمان اسی گھر میں ؛ جو تبلیغات کا سنٹر تھا ظاہری تبلیغ کے زمانہ تک جمع ہوتے تھے اور وہیں نماز پڑھا کرتے تھے۔(٢)

پہلے مسلمان مرد اور عورت
تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ جناب خدیجہ وہ پہلی خاتون ہیں جو مسلمان ہوئیںاور مردوں میں حضرت علی ـ وہ پہلے شخص ہیں جو پیغمبر ۖ کے گرویدہ ہوئے۔(٣-٤) کیونکہ یہ بات فطری ہے کہ پیغمبر اسلاۖم
نے غار حرا سے پلٹنے کے بعد اپنے آئین کو سب سے پہلے اپنی شریک حیات جناب خدیجہ اور حضرت علی جو اسی گھر کی ایک فرد اور آپ کی آغوش کے پروردہ تھے ان کے درمیان بیان کیا اور ان دونوں حضرا ت نے، جو کہ آپ کی نبوت کی نشانیوںاور صداقت و راستگوئی سے اچھی طرح واقف تھے، اس کی تصدیق کی۔
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٩؛ ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ج١، ص ١٩٩؛ بلاذری، سابق ، ج١، ص ١١٥
(٢) حلبی، سابق، ج١، ص ٤٥٧۔ ٤٥٦.
(٣) ابن ہشام نے ابتدائی مسلمانوں کی تعداد ٨ افراد تک اس طرح سے نقل کی ہے ''علی، زید بن حارثہ، ابوبکر، عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، عبد الرحمان بن عوف، سعد بن وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ'' (السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٦٩۔ ٢٦٢.)
(٤) جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ چونکہ علی بچپنے سے موحد تھے اور کبھی بت پرستی میں آلودہ نہیں ہوئے ان کے مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پہلے (معاذ اللہ) بت پرست تھے اور پھر اسے ترک کردیا۔ (جبکہ پیغمبر ۖ کے دوسرے اصحاب کے بارے میں ایسا ہی تھا) بلکہ انھوں نے حقیقت میں دین اسلام جو کہ اسی توحید پر استوار تھا بہ عنوان دین آسمانی قبول کیا۔ زینی دحلان لکھتے ہیں'' علی ہرگز سابقہ شرک نہیں رکھتے تھے؛ کیونکہ وہ رسول خدا ۖ کے ایک فرزند کی طرح آنحضرت کے ہمراہ اور ان کے زیر تربیت تھے اور تمام امور میں ان کی پیروی کرتے تھے حدیث میں آیاہے کہ تین افراد نے ہرگز کفر نہیں اختیار کیا، مومن آل یاسین، علی بن ابی طالب ، آسیہ فرعون کی بیوی( السیرة النبویہ، ج١، ص ٩٢) ابن سعد علی کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ لم یعبد الاوثان قط لصغرہ۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٣، ص ٢١) اور ابن حجر ہیثمی مکی (٩٧٤٢ھ.ق) ابن سعد کے اس جملہ کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے: و من ثم یقال فیہ کرم اللّٰہ وجہہ۔ (الصواعق المحرقہ۔ الباب التاسع، ص ١٢٠) قبول اسلام کے وقت علی کے سن کے بارے میں مراجعہ کریں: شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید (ط مصر) ج١٣، ص ٢٣٥۔ ٢٣٤۔