تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

تیسرا حصہ
بعثت سے ہجرت تک

پہلی فصل: بعثت اور تبلیغ
دوسری فصل: علی الاعلان تبلیغ اور مخالفتوں کا آغاز
تیسری فصل: قریش کی مخالفتوں کے نتائج اور ان کے اقدامات

پہلی فصل
بعثت اور تبلیغ

رسالت کے استقبال میں
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت محمد ۖ کے آباء و اجداد موحد تھے اور ان کا خاندان طیب و طاہر تھا اور خدا نے انھیں حسب و نسب کی طہارت کے علاوہ بہترین تربیت سے نوازا تھا وہ بچپنے سے ہی اہل مکہ کے برے اخلاق اور بت پرستی میں ملوث نہیں تھے۔(١) وہ بچپنے سے ہی خداوند عالم کی عنایت اور اس کی خاص تربیت کے زیر نظر تھے اور آپ کے زمانۂ تربیت کو حضرت علی نے اس طرح سے بیان فرمایا ہے:
''اور خدا نے آنحضرتۖ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے اپنے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک کو آپ کے ساتھ کردیا تھا جو شب و روز بزرگوں کی راہ اور حسن اخلاق کی طرف لے چلتا تھا۔(٢)
______________________
(١)علی بن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون) ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٢٠٤۔ ١٩٩؛ ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: مطبعہ عیسی البابی الحلبی)، ج١، ص ٢٥
(٢)و لقد قرن اللّٰہ بہ من لدن ان کان فطیماً اعظم ملک من ملائکتہ، یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ... ، نہج البلاغہ، حطبہ ١٩٢.
حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا ہے: جس وقت سے آنحضرتۖ کا دودھ چھوڑایاگیا خداوند عالم نے آپ کے ساتھ ایک بڑے فرشتہ کو کردیا تاکہ وہ آپ کو نیکیوں اور اچھے اخلاق کی تعلیم دے اور برائیوں اور برے اخلاق سے روکے یہ وہی فرشتہ تھا جس نے جوانی میں آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے سے قبل آواز دی تھی اور کہا تھا: ''السلام علیک یا محمد رسول اللّٰہ'' لیکن آپ نے سوچا کیا کہ یہ آواز پتھر اور زمین سے آرہی ہے کافی غور کیا لیکن کچھ نظر نہ آیا۔(١)
بعثت سے قبل حضرت محمدۖ کی عقل و فکر کامل ہوچکی تھی اور آپ کو اپنے یہاں کے آلودہ ماحول سے تکلیف اور کوفت ہوتی تھی لہٰذا آپ لوگوں سے بچتے تھے۔(٢) اور ٣٧ سال کی عمر میں آپ کے اندر معنویت پیدا ہوگئی تھی اور آپ محسوس کرتے تھے کہ غیب کے دریچے آپ کے لئے کھلے ہوئے ہیں آپ کے بارے میں جو باتیں اکثر آپ کے رشتہ داروں اور اہل کتاب کے دانشوروں جیسے بحیرا، نسطور وغیرہ کے ذریعہ سنی گئی تھیں، وہ عنقریب رونما ہونے والی تھیں کیونکہ آپ ایک خاص نور دیکھنے لگے تھے اور آپ کے اوپر اسرار فاش ہونے لگے تھے اور اکثر آپ کے کانوں سے غیب کی صدا ٹکراتی تھی لیکن کسی کو آپ دیکھتے نہیں تھے۔(٣) کچھ دنوں تک خواب کی حالت میں آواز سنائی پڑتی تھی کہ کوئی انھیں پیغمبر ۖ کہہ رہا ہے ایک دن مکہ کے اطراف کے بیابانوں میں ایک شخص نے آپ کو رسول اللہ کہہ کر پکارا آپ نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ''میں جبرئیل ہوں۔
______________________
(١) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١، ص ٢٠٧
(٢) ابن کثیر ، سابق ، ج ١، ص ٣٨٩.
(٣) حلبی، سابق، ج١، ص ٣٨١۔ ٣٨٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، تحقیق : مصطفی السقاء او ردوسرے افراد(قاہرہ: مطبعہ مصطفی البابی الحبی، ١٣٥٥ھ) ، ج١، ص ١٥٠؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٠٤۔ ٢٠٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعہ العلمیہ)، ج١، ص ٤٣؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ج١٨، ص ١٨٤ اور ١٩٣؛ مراجعہ: تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبہ الحیدریہ، ١٣٨٤ھ)، ج٢، ص ١٧.
خداوند عالم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ تمہیں پیغمبری کے منصب پر مبعوث کروں حضرت محمد ۖ نے جس وقت یہ خبر اپنی زوجہ کو سنائی تو وہ خوش ہوکر بولیں ''امید کرتی ہوں کہ ایسا ہی ہو''۔(١)
اس وقت حضرت محمد ۖ سال میں کچھ دن ''غار حرا''(٢) میں رہا کرتے تھے اور دعا و عبادت کیا کرتے تھے(٣) اور اس طرح کی گوشہ نشینی اور غار حرا میں عبادت، قریش کے خدا پرستوں میں سابقہ نہیں رکھتی تھی۔(٤) پہلا شخص جس نے اس سنت کو قائم کیا حضرت محمد ۖ کے جد حضرت عبد المطلب تھے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو غار حرا میں چلے جاتے تھے اور فقیروں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔(٥)
______________________
(١) ابن شہر آشوب، سابق ، ج١، ص ٤٤؛ مجلسی ، سابق، ج١٨، ص ١٩٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدی (تہران: دار الکتب السامیہ،ط٣)، ص ٣٦؛ ان دلائل و شواہد کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ مرحوم کلینی نے روایت کی ہے حضرت محمد ۖ اس وقت ''نبی'' تھے لیکن ابھی مرتبۂ رسالت پر نہیں پہنچے تھے (الاصول من الکافی، تہران: مکتبہ الصدوق، ١٣٨١ھ)، ج١، ص ١٧٦۔
(٢) غار حرا مکہ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس لحاظ کہ خورشید وحی کے طلوع کی جگہ قرار پائی ''جبل النور'' (کوہ نور) کہا جاتا ہے کچھ سال پہلے شہر مکہ سے اس پہاڑ تک تھوڑا فاصلہ پایا جاتا تھالیکن اب، شہر مکہ کی توسیع کی بنا پر پہاڑ کے کنارے تک گھر بن گئے ہیں، حرا پہاڑ جو کئی پہاڑ کے بیچ میں ہے سب سے بلند اور اونچا ہے غار حرا جو پہاڑ کی چوٹی میں واقع ہے ''در اصل وہ غار نہیں ہے بلکہ پتھر کی ایک عظیم پٹیہ جو پتھر کے دو بڑے ٹکڑوں کے اوپر چپکی ہوئی اس سے ایک چھوٹا سا غار تقریباً ڈیڑھ میٹر کا بن گیا تھا ،غار کا منھ پھیلا ہوا ہے ہر شخص آسانی سے اس میں آجاسکتاہے لیکن آدھا حصہ اس کا بعد والا تنگ اور اس کی چھت چھوٹی ہے اور سورج کی روشنی غار کے آدھے حصہ سے زیادہ نہیں پہنچ پاتی ہے۔
(٣) نہج البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، خطبہ ١٩٢ (قاصعہ)؛ ابن ہشام، سابق ، ج١، ص ٢٥١.
(٤) ابن ہشام، سابق ، ج١، ص ٢٥١؛ سابق، ج٢، ص ٢٠٦؛ ابن کثیر، سابق ، ج١، ص ٣٩٠؛ بلاذری۔
(٥) حلبی، سابق، ص ٣٨٢.

رسالت کا آغاز
حضرت محمد ۖ جب چالیس برس کے ہوئے (١) تو اس وقت بھی آپ اپنے قدیمی دستور کے مطابق کچھ دن کے لئے غار حرا میں چلے گئے تو وہاں وحی کا نمائندہ نازل ہوا اور خدا کی بارگاہ سے قرآن مجید کی ابتدائی آیات آپ کے سینہ پر نازل ہوئیں۔(٢)
(بسم الرحمن الرحیم. اقرأ باسم ربک الذی خلق. خلق الانسان من علق. اقرأ و ربک الأکرم . الذی علَّم بالقلم . علم الانسان ما لم یعلم''(٣)
اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے
اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے
پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے
جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے
اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔
خداوند عالم نے حضرت محمد ۖ کے ساتھ فرشتۂ وحی (جناب جبرئیل) کا دیدار اور اس کے پیغام پہنچانے کو قرآن مجید میں دو مقام پر ذکر فرمایا ہے:
______________________
(١) ابن ہشام، سابق، ص ٢٤٩؛ طبری ، سابق، ص ٢٠٩؛ بلاذری، ص ١١٥۔ ١١٤؛ ابن ، الطبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٩٠؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر)، ص ١٩٨؛ حلبی ، سابق ، ص ٣٦٣؛ مجلسی، سابق ، ص ٢٠٤۔
(٢) طبرسی، مجمع البیان (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ )، ج١٠، ص ٥١٤؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط ١، ١٩٦٥ئ)، ج٢، ص ١٢٩و ٢٧٦۔
(٣) سورۂ علق، آیت ٥۔ ١ .
قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا
تمہارا ساتھی (محمد ۖ) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا
اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے
اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے
اسے (فرشتہ) نہایت طاقت والے (جبرئیل) نے تعلیم دی ہے
وہ صاحب حسن و جمال جو سیدھا کھڑا ہوا
جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا
پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا
یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا
پھر خدا نے اپنے بندہ کی طرف جس راز کی بات کرنا چاہی وحی کردی
دل نے اس بات کو جھٹلایانہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا
کیا تم اس سے اس بات کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو جو وہ دیکھ رہاہے۔(١)
تو میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو پلٹ جانے والے ہیں
چلنے والے اور چھپ جانے والے ہیں
اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے
______________________
(١) سورۂ نجم، آیت ١٢۔ ١ ؛ اسلامی دانشوروں نے ان آیات کو پیغمبر اسلاۖم کی بعثت سے مربوط قرار دیا ہے قرائن اور شواہد بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں (مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج١٨، ص ٢٤٧؛ محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج١، ص ٣٥؛ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، تحقیق: صالح احمد الشامی (بیروت: المکتب الاسلامی، ط ١، ١٤١٢ھ) ج٣، ص ٨٩۔ ٨٨؛ لیکن دوسری تفسیر کی بنیاد پر معراج سے مربوط ہے۔
اور صبح کی قسم جب سانس لینے لگے
بیشک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے
وہ صاحب قوت ہے اور صاحب عرش کی بارگاہ کا مکین ہے
وہ وہاں قابل اطاعت اور پھر امانت دار ہے
اور تمہارا ساتھی پیغمبر دیوانہ نہیں ہے
اور اس نے فرشتہ کو بلند افق پر دیکھا ہے
اور وہ غیب کے بارے میں بخیل نہیں ہے
اور یہ قرآن کسی شیطان رجیم کا قول نہیں ہے
تو تم کدھر چلے جارہے ہو۔(١)
______________________
(١) سورۂ تکویر، آیت ٢٦۔ ١٥.