|
جناب خدیجہ کے ساتھ شادی
جناب خدیجہ ایک باشعور ،دور اندیش او رشریف خاتون تھیں اور نسب کے لحاظ سے قریش کی عورتوں سے افضل و برتر تھیں۔(١) وہ متعدد اخلاقی اور اجتماعی خوبیوں کی بنا پر زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ''(٢) اور ''سیدۂ قریش''(٣) کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ مشہور یہ ہے کہ اس سے قبل آپ نے دوبار شادی کی تھی اورآپ کے دونوں شوہروں کا انتقال ہوگیا تھا۔(٤)
تمام بزرگان قریش آپ سے شادی کرنا چاہتے تھے(٥) قریش کی معروف ہستیاں، جیسے عقبہ بن ابی معیط، ابوجہل اورابوسفیان نے آپ کے ساتھ شادی کا پیغام بھیجا لیکن آپ، کسی سے
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠١۔ ٢٠٠؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٣١؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢١٥؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص٤٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٣٩۔
(٢) ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص٤٣٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٤؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٤، ص٢٨١؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (الاصابہ کے حاشیہ پر) ج٤، ص ٢٧٩۔
(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٤۔
(٤) ان کے گزشتہ شوہر عتیق بن عائد (عابد نسخہ بدل) اور ابوھالہ ہند بن نباش تھے۔ (ابن کثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٣٤؛ ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨١؛ ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٩؛ ابو سعید خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انشارات بابک، ١٣٦١)، ص ٢٠١؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب دمشق (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص ٣٠٢)، لیکن کچھ اسناد و شواہد اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ جناب خدیجہ نے اس سے قبل شادی نہیں کی تھی او رحضرت محمد ۖ آپ کے پہلے شوہر تھے۔ بعض معاصر محققین بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں (مرتضیٰ العاملی، جعفر، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ١٢١)۔
(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٩٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٤٠.
شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔(١)
دوسری طرف خدیجہ، حضرت محمد ۖ کی رشتہ دار تھیں اور دونوں کا نسب قصی سے ملتا تھا آپ حضرت محمدۖ کے روشن مستقبل سے بھی باخبر تھیں(٢) اور ان سے شادی کی خواہش مند تھیں۔(٣)
جناب خدیجہ نے حضرت محمد ۖ کے پاس شادی کا پیغام بھیجوایا اور محمدۖ نے اپنے چچا کی مرضی سے اس پیغام کو قبول کرلیااور یہ شادی انجام پائی۔(٤) مشہور قول کے مطابق خدیجہ اس وقت ٤٠ برس کی تھیں اور محمدۖ ٢٥ سال کے تھے۔(٥) جناب خدیجہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے حضرت محمدۖ کے ساتھ شادی کی۔(٦)
______________________
(١) مجلسی، بحار الانوار (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٦، ص ٢٢۔
(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ ، ص ٢١۔ ٢٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٤١۔
(٣) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣۔ ٢١۔
(٤) ابن اسحاق،گزشتہ حوالہ، ص ٨٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص٩٨؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٤٠؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٧؛ ابن شہر آشوب، ج١، ص ٤٢؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٦، ص ١٩۔
(٥) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٩٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٣٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ١٩٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٨؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج٤، ص ٢٨٠؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٣٥؛ الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٣٩۔ جناب خدیجہ کی شادی کے وقت ان کی عمر کے بارے میں دوسرے اقوال بھی موجود ہیں۔ رجوع کریں: امیر مھیا الخیامی، زوجات النبیۖ واولادہ (بیروت: مؤسسة عز الدین، ط١، ١٤١١ھ.ق)، ص ٥٤۔ ٥٣۔
(٦) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠١؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٩؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٦؛ ابو سعید خرگوشی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٣٠٢؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص٤٣٤۔
حجر اسود کا نصب کرنا
حضرت محمدۖ کے نیک اخلاق و کردار، امانت و صداقت اور اچھے اعمال نے اہل مکہ کو ان کا گرویدہ بنادیاتھا۔ سب آپ کو ''امین'' کہتے تھے(١) آپ لوگوںکے دلوں میں اس طرح سے بس گئے تھے۔ کہ حجر اسود(٢) کے نصب کے سلسلہ میں لوگوں نے آپ کے فیصلہ کا استقبال کیا اور آپ نے اپنی خاص تدبیر او رحکمت عملی کے ذریعہ ان کے درمیان موجوداختلاف کو حل کردیا۔ جس کی توضیح یہ ہے۔
جس وقت حضرت محمدۖ ٣٥ برس کے ہوئے تو مکہ کے پہاڑوں سے چشمہ کے جاری ہونے کی وجہ سے خانہ کعبہ کی دیواریں کئی جگہ سے منہدم ہوگئیں کعبہ میں اس وقت تک چھت نہیں تھی اور اس کی دیواریں چھوٹی تھیں اس اعتبار سے اس کے اندر موجود چیزیں محفوظ نہیں تھیں۔ قریش نے چاہا کہ کعبہ کی چھت کو بنائیں لیکن وہ یہ کام نہیں انجام دے سکے۔ اس کے بعد مکہ کے بزرگوں نے چاہا کہ کعبہ کی دیوار کو توڑ کر پھر سے از نو تعمیر کریں او راس پر چھت بھی ڈالیں۔
لہٰذا کعبہ کی تعمیر نو کے بعد، قریش کے قبیلوں کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہوگیااور قبیلہ جاتی رسّہ کشی اور فخر و مباہات دوبارہ زندہ ہوگئیں، ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اس پتھر کے نصب کرنے کا شرف اس کو حاصل ہو بعض قبیلوں نے تواپنے دونوں ہاتھوں کو خون سے لبریز طشت میں ڈال کر یہ عہد کیا کہ یہ افتخار دوسرے قبیلہ کے پاس نہیں جانے دیں گے۔
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١؛ ابن ہشام، ج١، ص ٢١٠؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣٦٩۔
(٢) یہ پتھر کعبہ کے مقدس ترین اجزاء میں سے ہے۔ روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہ بہشتی اور آسمانی پتھر ہے جس کو جنا ب ابراہیم نے حکم خدا سے کعبہ کا جزء قرار دیا ہے (مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩٩۔ ٨٤)، ازرقی، تاریخ مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس، (بیروت: دارالاندلس، ط٣، ١٤٠٣ھ.ق)، ج١، ص ٦٣۔ ٦٢؛ حجر اسود ابھی تک باقی ہے جو انڈہ کے شکل ، سیاہ رنگ، مائل بہ سرخی ہے او رکعبہ کے رکن شرقی میں زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر نصب ہے او رطواف کا آغاز وہیں سے ہوتاہے۔
آخرکار قریش کے ایک بزرگ اور سن رسیدہ شخص کے مشورہ پر یہ طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ (یا باب صفا) سے مسجد الحرام میں داخل ہوگا ۔ وہی قبائل کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
اچانک حضرت محمدۖ اس دروازہ سے داخل ہوئے سب نے ملکر کہا: یہ محمدۖ، امین ہیں ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں لہٰذا آنحضرت کے حکم سے ایک چادر منگائی گئی اور چادر کو پھیلا کر اس میں حجر اسود کو رکھا گیا اور قبائل کے سرداروں سے کہا گیا کہ ہر ایک اس کا ایک گوشہ پکڑ لے اور سب ملکر پتھر کو دیوار تک لائیں جب پتھر دیوار کے پاس آگیاتو آنحضرتۖ نے اس کواپنے دست مبارک سے اٹھاکر اپنی قدیمی جگہ پر رکھ دیا۔(١) اور اس طرح آپ نے اپنے حکیمانہ او رمدبرانہ عمل کے ذریعہ قبائل کے درمیان موجود اختلاف کو حل فرمایا اور انھیں ایک خون ریز جنگ سے بچالیا۔
علی مکتب پیغمبر ۖ میں
کعبہ کی تعمیر نو کے چند سال بعد او ربعثت پیغمبرۖ سے چند سال قبل مکہ میںایک مرتبہ سخت قحط پڑا۔ اس وقت پیغمبرۖ کے چچا جناب ابوطالب تہی دست اور کثیر العیال تھے۔ حضرت محمدۖ نے اپنے دوسرے چچا عباس کو (جو کہ بنی ہاشم کے ثروتمند ترین افراد میں سے تھے) مشورہ دیاکہ ہم میں سے ہر ایک ابوطالب کے ایک فرزند کو اپنے گھر لے جائے تاکہ ان کا مالی بوجھ کم ہوجائے۔
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ ، ج١، ص ١٤٦۔ ١٤٥؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٥۔ ١٤؛ مجلسی، گزشتہ، ج١٥، ص ٣٣٨۔ ٣٣٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠٠۔ ٩٩؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥.)، ج٢، ص ٢٧٢۔ ٢٧١؛ بعض مورخین نے کعبے کی خرابی اوراس کی تعمیر نو کاسبب ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے لیکن سب نے حجر اسود کے نصب کے سلسلے میں آپ کے فیصلہ کونقل کیاہے۔ رجوع کریں: ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص ١٠٣؛ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٥؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، ج١، ص٢١٠۔
عباس اس بات پر راضی ہوگئے او ردونوں ابوطالب کے پاس گئے اور اپنی بات ان سے کہی تو وہ بھی راضی ہوگئے او رپھر جعفر کو عباس نے او رحضرت علی کو حضرت محمد ۖ نے اپنی تربیت اور کفالت میں لے لیا اور حضرت علی آنحضرتۖ کے گھر میں رہنے لگے۔ یہاں تک کہ خداوند عالم نے ان کو مبعوث بہ رسالت کیا اور علی نے آپ کی تصدیق اور پیروی کی۔(١)
حضرت علی اس وقت چھ سال کے تھے.(٢) یہ ان کی شخصیت سازی او رتربیت پذیری کا حساس دور تھا گویا حضرت محمدۖ چاہتے تھے کہ ابوطالب کے کسی ایک لڑکے کی تربیت کر کے ان کی اور ان کے شریک حیات کی زحمتوں کا بدلا چکا دیں۔ لہٰذا ابوطالب کی اولاد میں سے علی کو اس معاملہ میں مستعدتر پایا۔ جیسا کہ آپ نے علی کی کفالت قبول کرنے کے بعد فرمایا ہے: میںنے اس کو منتخب کیا جس کو خدا نے منتخب کیا ہے۔(٣)
حضرت محمد ۖ علی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی تربیت میں کسی قسم کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹے۔ فضل بن عباس (علی کا چچا زادبھائی)کہتا ہے کہ: میںنے اپنے والد محترم (عباس بن عبد المطلب) سے پوچھا کہ پیغمبرۖ اپنے فرزند وں میں سے کس کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں؟کہا: علی ابن ابی طالب کو۔
______________________
(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ،(قاہرہ: مکتبہ مصطفی البابی الحلبی)، ١٣٥١ ھ.ق)، ج١، ص ٢٦٢؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢١٣؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ١٣٩٩ھ.ق)، ج٢، ص٥٨؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی (بیروت: مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط١)، ١٣٩٤ھ.ق، ج٢، ص ٩٠؛ ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢ئ)، ج١٣، ص ١٩ اور ج ١، ص ١٥۔
(٢) ابن ابی الحدید،گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٥؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج٢، ص١٨٠۔
(٣)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین (نجف اشرف: منشورات المکتبة الحیدریہ)، ص ١٥۔
میں نے کہا: میں نے رسول خداۖ کے لڑکوں کے بارے میں پوچھا ہے ۔ کہا:رسول خداۖ اپنے تمام لڑکوں میں علی کو زیادہ چاہتے ہیں اور سب سے زیادہ ان پر مہربان ہیں میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے علی کو زمانۂ کمسنی سے اپنے سے الگ کیاہو؟ مگر ایک سفر میں جو آپ نے جناب خدیجہ کے لئے کیا تھا۔ ہم نے کسی پدر کو اپنی اولاد کے بارے میں رسول خدۖا سے زیادہ مہربان نہیں دیکھاہے اور نہ ہی علی سے زیادہ فرمانبردار کوئی لڑکا دیکھا ہے جواپنے باپ کی فرمانبرداری کرے۔(١)
بعثت کے بعد حضرت محمدۖ نے علی کواس طرح سے تعلیمات اسلام سے آگاہ کیا کہ اگر رات میں وحی نازل ہوتی تھی تو صبح ہونے سے قبل علی کو بتادیتے تھے او راگر دن میں وحی نازل ہوتی تھی تو رات ہونے سے قبل علی کو اس سے آگاہ کردیتے تھے۔(٢)
علی سے پوچھا گیا: کس طرح آپ نے دوسرے اصحاب سے پہلے آنحضرتۖ سے حدیث سیکھی؟ تو آپ نے جواب دیا: جب میں پیغمبر ۖ سے پوچھتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے او رجب میں خاموش رہتاتھا تو وہ خود مجھے حدیث بتاتے تھے۔(٣)
حضرت علی نے اپنے دورخلافت میںاپنی تربیت کے زمانہ کو یاد کر کے اس طرح سے فرمایا ہے:
''او رتم رسول خداۖ کی قریبی قرابت کے حوالے سے میرا مقام اور بالخصوص قدر و منزلت جانتے ہی ہو میں بچہ تھا کہ رسول ۖ نے مجھے گود میں لے لیا تھا مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے اور بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے او رجسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے ۔ وہ کوئی چیز خود چباتے پھر اس کے لقمے میرے منھ میں دیتے تھے اور میں ان کے پیچھے پیچھے اس طرح لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے رہتا ہے وہ ہر روز مجھے اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے تھے
______________________
(١) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ٢٠٠۔
(٢) شیخ طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ للطباعة والنشر و التوزیع، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٦٢٤۔
(٣) سیوطی، تاریخ الخلفاء (قاہرہ: ط٣، ١٣٨٣ھ.ق)، ص ١٧٠۔
اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ (کوہ) حرا میں مجھے ساتھ رکھتے تھے اور وہاں انھیں میرے سوا کوئی نہیں دیکھتا تھا... اور جب حضور پر پہلے پہل وحی نازل ہوئی تو میںنے شیطان کی چیخ سنی جس پر میںنے پوچھا یا رسول اللہ! یہ آواز کیسی ہے؟
فرمایا: یہ شیطان ہے جواپنی عبادت سے محروم ہوگیا ہے جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوںتم بھی دیکھتے ہوفرق صرف یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر ہو اور یقینا خیر پر ہو۔(١)
اگرچہ یہ بات بعثت کے بعد پیغمبرۖ کی عبادت سے مربوط ہوسکتی ہے جو آپ نے غار حرا میںانجام دی ہے لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ پیغمبر ۖ کی عبادت غار حرا میں غالباً رسالت سے قبل رہی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع، حضرت محمدۖ کی رسالت سے قبل کا تھا اور شیطان کے نالہ و فریاد کا سننا آنحضرتۖ کی بعثت کے وقت، جب قرآن کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تھیں۔ اس وقت سے مربوط ہے۔ بہرحال علی کی پاکیزہ نفسی اور پیغمبر اسلامۖ کی مسلسل تربیت کی وجہ سے وہ بچپنے ہی سے اپنی چشم بصیرت و بصارت اور گوش سماعت اور قلبی ادراک کے ذریعہ ایسی چیز وںکو دیکھتے اور سنتے تھے جو عام انسانوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔
______________________
(١) نہج البلاغہ، صبحی صالح، خطبہ ١٩٢
|
|