تیسری فصل
حضرت محمد مصطفٰے ۖ کی جوانی
حلف الفضول١
''حلف الفضول'' قریش کے بہترین او راہم ترین عہد و پیمان میں سے ہے.(٢) جو قریش کے چند قبیلوں کے درمیان انجام پایا۔ یہ پیمان اس بنا پر انجام پایا کہ قبیلۂ بنی زبید کا ایک شخص مکہ آیا اور اس نے عاص بن وائل کا سامان ، جو کہ بنی سہم کے قبیلہ سے تھا، فروخت کردیا۔ عاص نے مال کو لیا لیکن
______________________
١جس واقعہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد ۖ نے جوانی کے عالم میں اس میں شرکت کی ''جنگ فجار'' ہے اس واقعہ کو حلف الفضول سے پہلے جب آپ کی عمر ١٤ سے ٢٠ سال کی تھی، نقل کیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ اس جنگ کے سلسلہ میں آپ کی شرکت میں شک پایا جاتا ہے بلکہ ایسے شواہد ملتے ہیں جواس کی نفی کرتے ہیں لہٰذا ہم نے اس کو بیان نہیں کیاہے۔ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ٩٧۔ ٩٥؛ درس ھایی تحلیلی از تاریخ اسلام، ج١، ص ٥٠٣۔ ٣٠٣
(٢)ابن سعد، طبقات الکبری (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٢٨؛ محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب،ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص٥٢۔
اس کی قیمت نہیں دی زُبیدی نے بارہا اس سے مطالبہ کیا لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا۔ جیسا کہ یہ چیز پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ اس وقت جزیرة العرب میں قبیلہ جاتی نظام پایا جاتا تھا۔ او رہر قبیلہ اپنے افراد کے منافع کی حمایت کرتا تھا۔ اگر کسی پردیسی پر ظلم ہوتا تھا تو اس کا کوئی ناصر و مددگار اورانصاف کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔ جب سرداران قریش، کعبہ کے پاس اکٹھا ہوئے تو زبیدی مجبور ہوکر ''ابوقبیس'' پہاڑی کے اوپر گیا اور رنج و مصیبت میں ڈوبے ہوئے اشعار پڑھ کر ان سے انصاف کی فریاد کی۔(١)
انصاف کی مانگ سن کر زبیر بن عبد المطلب کی سرکردگی اور پیش قدمی میں، بنی ہاشم، بنی عبد المطلب، بنی زہرہ، بنی تمیم، اور بنی حارث (جو کہ قریش کے نامور قبیلہ سے تھا) عبداللہ بن جدعان تیمی کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کیا کہ ہر مظلوم اور ستم دیدہ کی فریاد پر حق وانصاف دلانے کے لئے ایک ہو جائیں اورشہر مکہ میں کسی پر ظلم نہ ہونے دیں، چاہے وہ ان لوگوں سے وابستہ ہو یا کوئی پردیسی ہو، چاہے وہ فقیر اور معمولی انسان ہو یا ثروتمند اور باعزت۔ اس کے بعد عاص کے پاس جاکر زبیدی کا حق لے کر اسے دیدیا۔(٢)حضرت محمدۖ کی عمر اس وقت ٢٠ سال تھی جب آپ اس عہد کے ممبران میں سے تھے۔(٣)
______________________
(١)۔ یا آل فہر ]یاللرجال خ ل[ لمظلوم بضاعتہ ببطن مکة نائی الأہل و النفر
و محرم اشعث ]شعث خ ل[ لم یقض عمرتہ یا آل فہر و بین الحجر
والحجر ہل مخفر من بنی سہم بخفرتہ ام ذاہب فی ضلالح مال معتمر
ان الحرام لمن تمت حرامتہ و لا حرام لثوب الفاجر الغدر
(٢) محمد بن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣۔ ٥٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٨؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص١٤٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: الشیخ محمد باقرالمحمودی (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط١، ١٣٩٤ھ.ق)، ج٢، ص١٢۔
(٣) محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، حضرت محمد ۖ کا سن اس وقت اس سے بھی زیادہ نقل ہوا ہے؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٣، المنمق، ص ٥٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢م)، ج١٥، ص ٢٢٥
اس عہد و پیمان میں پیغمبر اسلامۖ کی شر کت میں ایک بہادرانہ قدم اور اس جاہل سماج میں ایک طرح سے ''حقوق بشر'' کی حمایت تھی۔ اور اس لحاظ سے یہ اقدام بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آپ کے ہم سن و سال جوان، مکہ میں عیش و عشرت اور خوشگزرانی میں سرگرم تھے۔ اور انسانی اقدار جیسے مظلوم کی حمایت، سماج کی تطہیر او رعدالت کا نفاذ ان کے لئے معنی و مفہوم نہیں رکھتا تھا۔ اور آپ قریش کے بزرگوں کے بغل میں کھڑے ہوکر اس طرح کے عہد و پیمان میں شرکت فرماتے تھے۔ اور بعثت کے بعد اپنی اس شرکت کو نیک او راچھا کہتے تھے اور فرماتے تھے۔
''میںنے عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک پیمان میں شرکت کی کہ اگر اس کے بدلے مجھے سرخ بالوں کا اونٹ دیدیا جاتا توپھر بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا۔ اور اگر دور اسلام میں بھی ہمیں اس طرح کے عہد و پیمان کی دعوت دیں تو ہم ا سکو قبول کریں گے''۔(١)
یہ عہد اس لحاظ سے موجود عہدوں میں سب سے اہم او ربرتر تھا اور اسے ''حلف الفضول'' کہا گیاہے۔(٢) یہ عہد ہمیشہ مظلوموں اور بے پناہوں کی پناہ گاہ تھا او ربعد میں بھی کئی مرتبہ مظلوموں اور پردیسیوں کواس پیمان کی مدد سے مکہ کے بدمعاشوںاور سرغنہ لوگوںکے چنگل سے رہائی ملی۔(٣)٭
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٢؛ یعقوبی، گزشتہ حوالہ، ص١٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص١٦؛ محمد بن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٨۔
(٢) محمد ابن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥۔ ٥٤۔
(٣) گزشتہ حوالہ، بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣
٭عصر اسلام میں اس عہد و پیمان کی یاد بھی باقی ہے جیسا کہ امام حسین نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے جو معاویہ کا بھتیجا او رمدینہ کا حاکم تھا ایک زمین کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت میں اسے دھمکی دی کہ اگر طاقت کا استعمال کیا تو تلوار لیکرمسجد پیغمبر میں (قریش) کو ایسے عہد و پیمان کی دعوت دوں گا۔ یہ بات سن کر قریش کی کچھ شخصیتوں نے آپ سے نصرت کا وعدہ کیا جب ولید کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنے ارادہ سے پیچھے ہٹ گیا!(ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤٢؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٥؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٢٢٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٤٢۔
شام کی طرف دوسرا سفر
جناب خدیجہ (دختر خویلد) ایک تجارت پیشہ، شریف اور ثروتمند خاتون تھیں۔ تجارت کے لئے لوگوں کو ملازمت پر رکھتی تھیں اور انھیں اپنا مال دے کر تجارت کے لئے بھیجتی تھیں اور انھیں ان کی مزدوری دیتی تھیں۔(١)
جب حضرت محمدۖ ٢٥ سال کے ہوئے(٢) تو جنا ب ابوطالب نے آپ سے کہا: میں تہی دست ہوگیا ہوں او رمشکلات و دشواریوں میں گرفتار ہوں اس وقت قریش کا ایک قافلہ تجارت کے لئے شام جارہا ہے۔ کاش تم بھی خدیجہ کے پاس جاتے او ران سے تجارت کا کام لیتے،وہ لوگوں کو تجارت کے لئے بھیجتی ہیں ۔
دوسری طرف سے جناب خدیجہ جو حضرت محمد ۖ کے پسندیدہ اخلاق، صداقت و راست گوئی اور امانتداری سے آگاہ ہوگئی تھیں آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ہمارے تجارت کے کام کو قبول کریں تو دوسروں سے زیادہ انھیں اجرت دوں گی۔ اور اپنے غلام میسرہ کو بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے بھیجوں گی۔
حضرت محمدۖ نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرلیا۔(٣) او رمیسرہ کے ہمراہ قریش کے کاروان
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٩؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دار افکر، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٨١؛ سبط ابنالجوزی، تذکرة الخواص ،ص ٣٠١، میں کہتا ہے کہ ''جناب خدیجہ نے ان کو ٹھیکہ پر کام دیا تھا'' اورابن اثیر اسدالغابہ میں ، ج١، ص١٦ ۔ پر لکھتا ہے: '' ان کو مزدوری یا ٹھیکہ پر کام دیا تھا''۔
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢٩۔
(٣) ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ محمدۖ کا کام مضاربہ کی شکل میں تھا آپ مزدوری پر کام نہیں کرتے تھے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ١١٢)
کے ساتھ شام کے لئے روانہ ہوگئے(١) اس سفر میں انھیں گزشتہ سے زیادہ فائدہ ملا۔(٢)
میسرہ نے اس سفر میں حضرت محمد ۖ کے ذریعہ ایسی کرامتیں دیکھیں کہ وہ حیرت و استعجاب میں پڑ گیا۔ اس سفر میں ''نسطور راہب'' نے آپ کے آئندہ رسالت کی بشارت دی۔ اسی طرح میسرہ نے دیکھاکہ حضرت محمدۖ سے ایک شخص کا ، تجارت کے معالمہ میں اختلاف ہوگیاہے وہ شخص کہتا تھا کہ لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ تاکہ میں تمہاری بات کو قبول کروں۔
آپ نے جواب دیا: میں نے ابھی تک کبھی لات و عزیٰ کی قسم نہیں کھائی ہے۔(٣)
میسرہ نے سفر سے پلٹتے وقت محمد ۖ کی کرامتوں اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔جناب خدیجہ سے آکر بتایا۔(٤)
______________________
(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٩؛ ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٨١
(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠
(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠۔
(٤) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣١؛ ابناثیر، الکامل، فی التاریخ الکامل فی التاریخ ( بیروت: دار صادر)، ج٢، ص٣٩؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٩٦؛ بہقی، دلائل النبوة، ترجمۂ محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج١، ص٢١٥؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج٥، ص ٤٣٥؛ ابی بشر، محمد بن احمد الرازی الدولابی، الذریة الطاھرة، تحقیق:السید محمد جواد الحسینی الجلالی (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط٢، ١٤٠٨ھ.ق)، ص ٤٦۔ ٤٥۔
|