تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

جناب عبد المطلب کا انتقال اورجناب ابوطالب کی سرپرستی
حضرت رسول خداۖ آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے دادا جناب عبد المطلب کا انتقال ہوگیااور آپ کی کفالت کی ذمہ داری جناب ابوطالب کو سونپ دی۔ جناب ابوطالب اور جناب عبداللہ (رسول خدا کے پدر بزرگوار) ایک ہی ماں سے تھے۔(٣)
اس وقت جناب ابوطالب کی مالی حالت اچھی نہیںتھی وہ کثیر العیال اورتنگدست تھے۔(٤) لیکن وہ ایک بہادر، باعزت، قابل احترام(٥) اور قریش کے درمیان بلند درجہ رکھتے تھے۔(٦) وہ محمدۖ کو
______________________
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٨٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٩٤۔
(٤) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١١٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ٤٠٧؛ سہیلی، الروض الانف (قاہرہ: مؤسسة المختار)، ج١، ص ١٩٣۔
(٥) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)، ج٤، ص ٨٢۔
(٦) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢ئ)، ج١٥، ص ٢١٩۔
بہت زیادہ چاہتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹوں سے زیادہ انھیں عزیز رکھتے تھے۔(١)
فاطمہ بنت اسد نے بھی آپ کی پرورش اور سرپرستی میںاہم کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں وہ نہ صرف محمدۖ کو ایک مہربان ماں کی طرح چاہتی تھیں بلکہ آپ کواپنے بچوں پر ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں۔ حضرت محمد ۖ کبھی بھی ان کی زحمتوںکو فراموش نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ اپنی ایک ماں کی طرح انھیں یاد فرماتے تھے۔(٢)

شام کا سفر او رراہب کی پیشین گوئی
ایک سال جناب ابوطالب قریش کے قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے شام گئے تو حضرت محمد ۖ کی خواہش اوراصرار پر (مورخین کے اختلاف کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ٨، ٩، ١٢یا ١٣ سال کی تھی) آپ کواپنے ہمراہ لے گئے جس وقت قافلہ مقام بصریٰ(٣) پر پہنچا توایک معبد کے کنارے آرام کی غرض سے رک گیا، اس معبد میں ''بحیرا'' نام کا ایک راہب رہتا تھا، جو عیسائیوں کا بزرگ پادری تھا۔ جب مجمع کے درمیان اس کی نظر ابوطالب کے بھتیجے محمد ۖ پر پڑی تو اس کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی اس لئے کہ وہ پیغمبر موعود کی بعض نشانیوں سے آگاہ تھا. جب اس نے ان نشانیوں کو محمدۖ کے اندر دیکھا تو اس نے آپ سے مختصر گفتگو اور سوالات کے بعد آپ کے آئندہ ''نبی'' ہونے کے بارے
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١١٩؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٧؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٢٨٥.
(٢) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤؛ مقدمہ اصول کافی، ج١، ص ٤٥٣.
(٣) دمشق کے علاقہ میں حوران سرزمین کا ایک قصبہ ہے (یاقوت حموی، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ.ق)، ج١، ص ٤٤١.
میں خبر دیدی اور جناب ابوطالب سے تاکید کی کہ اس بچہ کا خاص خیال کریں اور اس کویہود کے شر سے محفوظ رکھیں۔(١)
اس واقعۂ کے سلسلہ میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:
١۔ یہ واقعہ بعض تاریخی او رحدیثی کتابوں میں مختصر انداز میں اور بعض دوسری کتابوں میں بطور مفصل نقل ہوا ہے۔ لیکن اصل واقعہ میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں پائی جاتی کیونکہ قرآن مجید نے متعدد آیات میں حضرت محمدۖ کی بعثت کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کونقل کر کے آنحضرت ۖ کی ذات اور نشانیوں کے سلسلہ میں علمائے اہل کتاب کی آگاہی اور معرفت کی تائید کی ہے۔(٢) اور اسی طرح اہل کتاب کی متعدد پیشین گوئیاں پیغمبر اسلامۖ کی بعثت کے سلسلہ میں تاریخ و
______________________
(١)اس واقعہ کو اسلامی مورخین و محدثین نے مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل کیاہے:
ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٩٣۔ ١٩١؛ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ١٩٥؛ سنن ترمذی، ج٥؛ المناقب، باب٣، ص ٥٩٠؛ المناقب، باب٣، ص ٥٩٠، حدیث ٢٦٢٠؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق:سہیل زکار، ص٧٣؛ محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج١، ص ١٢١؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٨٦؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ج١، ١٨٦۔ ١٨٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٩٦؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمۂ محمود مہدی دامغانی، ج١، ص ١٩٥؛ طبرسی، اعلام الوری، ص ١٨۔ ١٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ٣٩۔ ٣٨؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٢٧؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص ١٥؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (تالیف حافظ ابن عساکر)، ج١، ص ٢٧٠ و ٣٥٤؛ ابن کثیر، سیرة النبی، ج١، ص ١٩١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٤٠٩۔
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٤١، ٤٢، ٨٩، ١٤٦؛ سورۂ اعراف، آیت ١٥٧؛ سورۂ انعام، آیت ٢٠؛ سورۂ صف، آیت٦۔
حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔(١)
٢۔ حضرت محمد ۖ کے بارے میں علمائے اہل کتاب کی کتابوں میں جو علامتیںاور نشانیاں تھیں ان میں سے کچھ آپ کی ذاتی زندگی اور جسمانی خصوصیات کے بارے میں تھیں (جیسے عرب ہونا ایک باعظمت خاتون سے شادی کرنا وغیرہ) آنحضرت ۖکی جسمانی نشانیوں میں سے سب سے نمایاں نشانی یہ تھی کہ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان ایک بڑا تل تھا جس کو ''خال نبوت'' یا ''مہر نبوت'' کہا گیا ہے۔(٢)
٣۔ بحیرا راہب کی پیشین گوئی صرف قافلہ والوں کے لئے نئی بات تھی ورنہ جناب ابوطالب بلکہ حضرت محمدۖ کے تمام قریبی رشتہ دار آپ کے درخشندہ مستقبل سے باخبر تھے۔(٣)
______________________
(١) رجوع کریں: جعفر سبحانی، راز بزرگ رسالت (تہران: کتابخانۂ مسجد جامع تہران، ١٣٥٨)، ص ٢٧٨۔ ٢٦٢؛ پیغمبر اسلامۖ کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ذیل کی تین کتابوں کو نمونہ کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔
محمد در تورات وانجیل تالیف: پروفیسر ، عبد الاحد داؤد: ترجمہ فضل اللہ نیک آئین؛ مدرسہ سیار، تالیف: شیخ محمد جواد بلاغی، ترجمہ: ع۔ و؛ انیس الاعلام، تالیف: فخر الاسلام۔
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٣؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٥؛ سنن ترمذی، تحقیق: ابراہیم عطوہ عوض (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٥، المناقب، باب ٣، ص ٥٩٠، حدیث ٢٦٢٠؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٢٧٨؛ ابن کثیر، سیرة النبی، ج١، ص ٢٤٥؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشخ قاسم الشماعی الرفاعی، ج٥، ص ٢٨، باب ٢٣، حدیث ٧١۔
(٣) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٨١؛ اصول کافی، ج١، ص ٤٤٧۔

عیسائیوں کے ذریعہ تاریخ میں تحریف
بعض عیسائی مورخین نے حضرت محمدۖ سے بحیرا کی ملاقات کے واقعہ میں تحریف کی ہے اور یہ دعویٰ کیا
ہے کہ حضرت محمد ۖ نے اس ملاقات میں بحیرا راہب سے توریت او ر انجیل کی تعلیمات حاصل کیں۔(١)
ویلڈورانٹ نے نرم لہجے میں اس بے بنیاد دعوے کی طرف اشارہ کیا ہے:
... آپ کے چچا ابوطالب آپ کو ١٢ سال کی عمر میں اپنے ساتھ ایک قافلہ کے ہمراہ شام کے شہر بصریٰ تک لیکر گئے، یہ بعید نہیں ہے کہ اس سفر میں آپ دین یہود اور آئین عیسیٰ کی بعض تعلیمات سے آگاہ ہوئے ہوں۔(٢)
اس تہمت اور تحریف کا ہمیں اس طرح جواب دینا چاہئے:
١۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ محمد امی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔
٢۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت اپ کی عمر ١٢ سال سے زیادہ نہیں تھی۔
٣۔ بحیرا کے دیدار اور آپ کی بعثت کے درمیان کافی عرصے کا فاصلہ تھا۔
٤۔ بحیرا سے آپ کی ملاقات بہت مختصر ہوئی تھی اس دوران اس نے کچھ سوالات کئے اور آپ نے ان کے جوابات دیئے۔
اس بنا پر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ ایک بچہ جس نے مدرسے میں تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ ایک مختصر ملاقات میں کیسے توریت و انجیل کی تعلیمات حاصل کرسکتا ہے کہ جسے چالیس سال کے بعد ایک
______________________
(١) گوستاولوبون، تمدن اسلام وعرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی، ص ١٠١؛ اجناس گلدزیھر، العقیدة و الشریعہ فی الاسلام، ترجمۂ عربی (قاہرہ: دار الکتب حدیثہ، ط٢)، ص ٢٥؛ محمد غزالی، محاکمۂ گلدزیھرصہیونیست، ترجمۂ صدر بلاغی (تہران: حسینیۂ ارشاد، ١٣٦٣)، ص ٤٧؛ کارل بروکلمان، تاریخ الشعوب الاسلامیہ،ترجمۂ عربی بہ قلم نبیہ امین فارس ( اور) منیر البعلبکی، (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٨٨ئ)، ص ٣٤؛ اسی طرح رجوع کریں: خیانت در گزارش تاریخ، ج١، ص ٢٢٥۔ ٢٢٠۔
(٢) تاریخ تمدن، عصر ایمان، (بخش اول) ، ترجمہ ابوطالب صارمی اور ان کے ساتھی (تہران: سازمان انتشارات وآموزش انقلاب اسلامی، ط ٢، ١٣٦٨)، ص ٢٠٧۔
کامل شریعت کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرے؟
٥۔ اگر حضرت محمد ۖ نے راہب سے کچھ سیکھا ہوتا تو بہانہ باز ضدی اور ہٹ دھرم قریش اس کو محمد ۖ کے خلاف تبلیغ کرنے میں دستاویز قرار دیتے جبکہ تاریخ اسلام میں ہمیں اس طرح کی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی قرآن مجید میں جہاں قریش کی تہمتوں کا جواب دیا گیا ہے وہاں پر اس موضوع کے بارے میں کوئی تذکرہ ہوا ہے۔
٦۔ اگر اس طرح کی کوئی بات صحیح تھی تو اسے قافلہ والوںنے کیوںنہیں نقل کیا؟
٧۔ اگر حقیقت میں اس طرح کا کوئی دعویٰ تھا تو شام کے مسیحیوںنے کیوں نہیں نقل کیا او ریہ دعویٰ کیوں نہ کیا کہ ہم محمدۖ کے استاد تھے؟
٨۔ اور اگر یہ دعو یٰ صحیح مان لیا جائے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات اورتوریت و انجیل کی تعلیمات میں یکسانیت ہواور نہ صرف یہ کہ ان کی تعلیمات میں یکسانیت نہیں پائی جاتی بلکہ قرآن کریم نے یہودیوںاور عیسائیوںکے بہت سارے عقائداور توریت و انجیل کی بہت ساری تعلیمات کو نقل کرکے انھیں باطل قرار دیا ہے۔(١)
ایک روز عمرو بن خطاب پیغمبر اسلامۖ سے، یہودیوں سے سنی ہوئی حدیثوں کو لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: ''کیا تم یہود و نصاریٰ کے مانند اپنے دین کے بارے میں پریشان اور سرگرداں ہو؟ یہ نورانی اور پاک دین میں تمہارے لئے لیکر آیا ہوں اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ صرف میری پیروی کرتے۔(٢)
پیغمبر اسلامۖ مدینے میں (جہاں بہت سے یہودی رہتے تھے) بہت سارے احکام اور پروگراموں
______________________
(١) سورۂ نسائ، آیت ٤٧،٥١، ١٧١؛ سورۂ مائدہ، آیت ٧٣۔٧٢؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠۔
(٢) شیخ عباس قمی، سفینة البحار، ج٢، ص ٧٢٧، لفظ ''ھوک''؛ مجد الدین ابن اثیر، النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، ج٥، ص ٢٨٢، وہی الفاظ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ.
میں یہودیوںکی مخالفت کرتے تھے۔(١) یہاں تک کہ وہ (یہودی) کہنے لگے۔ یہ شخص ہمارے سارے پروگراموںکی مخالفت کرنا چاہتا ہے''۔(٢)
عیسائیوں کے درمیان جس شخص نے اس بات کو اسلام کے خلاف جھوٹ، افتراء پردازی او رزہر گھولنے کا بہانہ او ردستاویز قرار دیا وہ کونستان ویرژیل گیور گیو ہے جس نے اس بات کو اس قدر مسخ اور تحریف شدہ نقل کیاہے وہ نہ صرف یہ کہ کسی معیار سے تناسب نہیں رکھتا بلکہ خود عیسائیوں کے دعوے سے مناسبت نہیں رکھتا ہے، وہ کہتا ہے:
''ابن ہاشم ـ عرب کا راویـ لکھتا ہے: بحیرہ ]؟[ لوگوں کے تصور کے برخلاف عیسائی نہیں تھا بلکہ مانوی تھا اور ایک سن رسیدہ شخص کا پیرو تھا جس کا نام مانی تھا اور اس نے ساسانیوں کے دور حکومت میں پیغمبری کا دعوا کیا تھا اور ساسانیوں کے پہلے بادشاہ، بہرام اول نے اسے ٢٧٦ئ میں خوزستان میں گندی شاپور کے دروازہ کے سامنے سولی پر چڑھوا دیا تھا''۔
مانی جس نے پیغمبری کا دعوا کیا تھا اس کے پیرکاروں میں سے بحیرہ بھی تھا جو یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ خدا ایک قوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی ساری قوموں سے تعلق رکھتا ہے۔ اور چونکہ دنیا کی ساری قومیںاس سے وابستہ ہیں لہٰذا خداوند جس قوم میں جب چاہتا ہے ایک پیغمبرمبعوث کردیتا ہے جواسی قوم کی زبان میں لوگوں سے باتیں کرے۔(٣)
______________________
(١) مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم (قم: ١٤٠٣ھ.ق)،ص ١٠٦۔
(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ،ج٢، ص٣٣٢۔
(٣) محمد ۖ پیامبری کہ از نو باید شناخت، ترجمہ: ذبیح اللہ منصوری، ص ١٠٥، اس کتاب میں بے شمار غلطیاں اور تحریفات ہوئی ہیں جس نے کتاب کی علمی اہمیت کو کم کردیاہے۔ مترجم: کے طریقۂ کار کی بھی ایک الگ داستان ہے جو اہل فضل و شرف پر مخفی نہیں ہے ، رجوع کریں: مجلہ نشر دانش، سال ٨، نمبر٢، ص ٥٢، مقالہ پدیدہ ای بہ نام ذبیح اللہ منصوری، کریم امالی کے قلم سے۔
بظاہر اس کی ابن ہشام سے مراد عبد الملک بن ہشام (م٢١٣ھ.ق) معروف کتاب ''السیرة النبویہ'' کے مؤلف ہیں جوتاریخ اسلام کا ایک مہم ماخد ہے لیکن کلمہ مانوی کا ذکر نہ صرف سیرۂ ابن ہشام میں بلکہ کسی بھی قدیمی اسلامی کتاب میں نہیں ملتا ہے اس شخص کو تاریخ کی کتابوںمیں مسیحی (اور بہت کم یہودی) کہا گیا ہے او رخود موضوع بحث سے بھی اس کے مسیحی ہونے کا پتہ چلتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ گیورگیو نے یہ باتیں کہاں سے نقل کی ہیں؟!
اس کے علاوہ دین مانی کا شام میں کوئی پیرو نہیں تھا اور جیسا کہ ہم نے (جزیرة العرب) میں ادیان و مذاہب کے تجزیہ کے باب میں یہ کہا ہے کہ دین مانی کا مرکز ایران تھا۔ لہٰذا ہمیں ایک محقق کے کہنے کی بنا پر، یہ سوچنے کا حق ہے کہ بحیرا کے مانوی ہونے کا دعوا صرف اس بنا پر تو نہیںہے کہ خداوند عالم کی توحید اور اسلام کے عالمی دین ہونے کے مسئلہ میں مانی کی تقلید تو نہیں کی جارہی ہے؟
یہ وہ چیزیں ہیں جس کی مثال ہمیں گزشتہ صدیوں میں مسیحیوں سے بہت دیکھنے کو ملی ہیں او ران کے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ بلند ترین فکر کو وہ منسوخ ادیان کی طرف نسبت دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان ادیان کے ماننے والے زیادہ نہیںہیں تاکہ ان کے لئے یہ چیز باعث افتخار بن سکے۔
صرف اسلام ایک ایسا دین ہے کہ، صلیبی جنگ کو سیکڑوں سال گزرنے کے باوجود، جس سے آج بھی عیسائی پریشان او رخوف زدہ ہیں۔ لہٰذا ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ جھوٹ او رسچ ہر طریقے سے اس دین کی تعلیمات کی عظمت کو لوگوں کی نظروں میں کم کریں۔(١)
______________________
(١) محمد خاتم پیامبران، ج١، ص١٨٨؛ مقالہ سید جعفر شہیدی۔ بعض معاصر ایرانی محققین نے بحیرا کے ساتھ حضرت محمد ۖ کی ملاقات میں شک و تردید پیدا کی ہے اور اصل واقعہ کی صحت کے بارے میں بحث کی ہے جو تاریخی لحاظ سے قابل بحث و تحقیق ہے۔ رجوع کریں: نقد و بررسی منابع سیرۂ نبوی (مجموعۂ مقالات) پژوہشکدۂ حوزہ و دانشگاہ ١٣٧٨ ؛ رمضان محمدی، نقد و بررسی سفر پیامبر اکرم بہ شام ، ص ٣٣٠۔ ٣٢١۔.
لیکن اس بات پر توجہ رہے کہ اگر بالفرض اس واقعہ کی ہم نفی بھی کریں تو عظمت پیغمبر ۖ میں کوئی کمی نہیں واقع ہوگی کیونکہ بعثت اور پیغمبر موعود کے ظہور کی پیشین گوئیاں صرف اس مسئلہ میں منحصر نہیںہیں لیکن جیسا کہ متن میں کہا گیا ہے کہ چونکہ مستشرقین نے اس واقعہ کو جو متون اسلامی میں آیا ہے تاریخ اسلام کی تحریف کا دستاویز قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی ان کی باتوں کو ذکر کرکے اس پر تنقید کی ۔