دوسری فصل
حضرت محمد ۖکا بچپن اور جوانی
ولادت
جاہل عرب میں تاریخ کی کوئی منظم اور مستقل، ابتدا مقرر نہیں تھی بلکہ علاقے کے اہم واقعات جیسے کسی بڑی اور مشہور شخصیت کے مرنے یا دو قبیلوں کے درمیان خون ریز جنگ کے دن کو ایک زمانے تک تاریخ کا آغاز قرار دیتے تھے۔(١) یہاں تک تمام قبائل عرب میں تاریخ کے آغاز کے لئے ایک معین دن نہیں تھا بلکہ اس قبیلہ کے نزدیک جو بھی اہم واقعہ رونما ہوتا تھا اسی کو تاریخ کی ابتدا قراردیتے تھے۔(٢)
جس وقت ابرہہ (حبشہ کا بادشاہ) نے، ہاتھیوں سمیت لشکر کے ساتھ خانۂ کعبہ کو مسمار کرنے کے
______________________
(١) اس واقعہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص ١٨١۔ ١٧٢؛ ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی، تاریخ پیغمبر اسلامۖ (ط ٢، انتشارات دانشگاہ تہران، ١٣٦١)، ص ٢٧۔ ٢٦.
(٢) مسعودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧.
لئے مکہ پر حملہ کیا(١) تو اعجاز پروردگار اور اس کی غیبی طاقت کے مقابلہ میں شکست کھا گیا۔ اور اس واقعہ سے اس زمانہ کے دوسرے تمام واقعات تحت الشعاع میں آگئے اور وہ سال ایک عرصہ تک''عام الفیل'' کے عنوان سے تاریخ کی شروعات قرار پایا٭ اور حضرت محمدۖ اسی سال مکہ میں پیدا ہوئے۔(٢)
یہ واقعہ بعض قرائن اور شواہد کے لحاظ سے جیسے حضرت محمدۖ کی ہجرت، جوکہ ٦٢٢ اور آپ کی وفات ٦٣٤ئ میں (٦٠ یا ٦٣) سال کی عمر میں ہوئی ہی اور یہ واقعہ تقریباً ٥٦٩ئ ، ٥٧٠ئ
______________________
(١) شیخ طوسی، الامالی، (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٨٢۔ ٨٠؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧۔ ٩٤،ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥۔ ٤٤؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٩٦۔ ٦٧؛ محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی ا خبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط ١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٧٧۔ ٧٠)۔
٭ ہاتھیوں کے لشکر کے واقعہ سے پہلے قریش قصی (جو کہ ایک بڑی اور نامور شخصیت تھی اور جس نے پہلی بار قریش کو قدرت مند بنایا) کو تاریخ کی شروعات قرار دیتے تھے (ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤)
(٢) کلینی ، اصول الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨١ھ.ق)، ج١، ص ٤٣٩؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٤؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٢٥٢۔ ٢٥٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٥؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٣۔ ٧٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص٢٠١؛ محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج١، ص ١٠١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص١٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص١٦٧؛ الشیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (بیروت:دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دار الفکر، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٦١۔
کے بیچ میں رونما ہوا ہے۔(١)
___________________________
(١) علی اکبر فیاض، تاریخ اسلام، (تہران: انتشارات تہران یونیورسٹی، ط٣، ١٣٦٧)، ص ٧٢؛ عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہ (پہلے حصہ سے ہجرت کے آغاز تک) (تہران: سروش، ط ١، ١٣٧٠)، ص ٨٧۔ ٨٦؛ سید جعفر شہیدی ، تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان امویان (تہران: مرکز نشر یونیورسٹی، ط ١٠، ١٣٦٩)، ص ٣٧۔
اس سلسلہ میں کہ کیا آنحضرتۖ کی ولادت ٹھیک اسی عام الفیل میں ہوئی یا اس سے پہلے یا بعد میں اورنیز عام الفیل کو عیسوی سالوں سے مطابقت کرنے میں دوسرے نظریات او راحتمالات بھی ذکر ہوئے ہیں کہ جس کے نقل کرنے کی اس کتاب میں ضرورت نہیں ہے۔ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: محمد ختم پیامبران، ج١، ص ١٧٧۔ ١٧٦؛ مقالہ سید جعفر شہیدی؛ رسولی محلاتی ، درسھای از تاریخ تحلیلی اسلام (قم: ماہنامہ پاسدار اسلام ١٤٠٥ھ.ق)، ج١، ص ١٠٧ کے بعد؛ ابن کثیر ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٠٣؛ تہذیب تاریخ ذمشق، ج١، ص ٢٨٢۔ ٢٨١؛ سید حسن تقی زادہ، از پرویز تاچنگیز (تہران: کتابفرشی فروغی، ١٣٤٩)، ص ١٥٣؛ جسین مونس، تاریخ قریش (الدار السعودی، ط ١، ١٤٠٨ھ.ق)، ص ١٥٩۔ ١٥٣؛ اس کے علاوہ بعض یورپی مورخین اسلامی کتابوں میں ابرھہ کی لشکر کشی کا مقصد دینی جذبہ اور کعبہ اور یمن میں قلیس معبد کے د رمیان رقابت کو بتایاہے، ملکوں کی فتح اورابرھہ کا حملہ ایران جزیرة العرب کے شمالی راستے سے حکومت روم کے اکسانے پر بتایا گیا ہے؛ فیاض، گزشتہ حوالہ، ص ٦٢؛ ابوالقاسم پایندہ، مقدمہ ترجمہ فارسی قرآن مجید، ص ۔ لز۔) جس کے بارے میں الگ سے بحث اور تحقیق کی ضرورت ہے جواس کتاب کے حجم سے باہر ہے۔
کم سنی اور رضاعت کا زمانہ
حضرت محمدۖ ابھی دو مہینے کے تھے(١) کہ آپ کے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ، ملک شام سے تجارتی سفر کی واپسی میں، شہر یثرب میں انتقال فرماگئے اور وہیں پر آپ کو سپردخاک کردیا گیا۔(٢)
قرآن کریم نے ان کی یتیمی کواس انداز میں بیان کیا ہے: ''کیااس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی
______________________
(١) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٩؛ ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ ابوالفتح محمد بن علی الکراجکی، کنز الفوائد (قم: دارالذخائر،ط١، ١٤١٠ھ.ق)، ج٢، ص ١٦٧؛ حضرت محمد ۖ کا سن باپ کے مرنے کے سال، سات مہینے اور ٢٨ روز بھی لکھا ہے۔ (محمد بن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ١٠٠)، بعض مورخین نے، حضرت عبد اللہ کی وفات کو حضرت رسول اسلاۖم کی ولادت کے قبل ہی تحریر کیا ہے۔ (ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٠٠۔ ٩٩؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص ١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٦٧؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف ابن عساکر (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣ ، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٤.) لیکن بعض اسناد و شواہد، پہلی روایت کی تائید کرتے ہیں ان میں سے عبدالمطلب کے اشعار بھی ہیں جو اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں:
اوصیکم یا عبد مناف بعدی بمفرد بید ابیہ فرد
فارقہ وہو ضجیج المہد فکنت کالام لہ فی المجد
(تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٠؛ رجوع کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٣٦.)
(٢) تہذیب تاریخ دمشق، ج١٧، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٩٩؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص١٩٦؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک، (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٧٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٠۔
ہے اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا''۔(١)
آمنہ کے لال نے ولادت کے ابتدائی دنوںمیںاپنی ماں کا دودھ پیا(٢) اور اس کے بعد تھوڑے دن تک (ابولہب کی آزاد شدہ کنیز) ثوبیہ نے اپنا دودھ پلایا۔(٣)
اس دور میں رسومات عرب(٤) کے مطابق آپ کو حلیمہ سعدیہ نامی دایہ کے سپرد کردیا گیا۔ وہ قبیلۂ بنی سعد بن بکر سے تعلق رکھتی تھیں اور دیہات(٥) میں زندگی بسر کرتی تھیں۔ دایہ حلیمہ نے دو سال تک آپ کو دودھ پلایا(٦) اور پانچ سال تک پرورش کی اس کے بعد آپ کے گھر والوں کے سپرد کردیا۔(٧)
ایک نومولود بچہ کو کسی بادیہ نشین کے سپرد کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس کی پرورش صحرا کی پاک و صاف اور کھلی فضا میں ہو اور مکہ میں ''وبا'' کی بیماری کے خطرے سے دور رہے۔(٨)
______________________
(١) سورۂ ضحی، آیت ٨۔ ٦۔
(٢) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٣۔
(٣)تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٦؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٠؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص١٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص٣٨٤۔
(٤) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٦۔
(٥)تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٧١؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٠؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص ١٩٦؛ مروج الذہب، ج٢، ص٢٧٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٢۔ ١٠١؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص٢٢٥؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، تحقیق: سہیل زکار، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٤٩۔
(٦)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف)، ج١، ص٩٤؛ مقدسی، البدء و التاریخ، ط پیریس، ١٤٠٣ئ، ج٤، ص١٣١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٤٠١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ،ج١، ص١١٢۔
(٧) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٩٤؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص٢٧٥۔
(٨) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق:محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیة، ١٩٦١)، ج١٣، ص٢٠٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص٤٠١۔
اس کے علاوہ بدو قبیلوں کے درمیان زبان کی فصاحت و بلاغت اور خالص اصیل عربی سے آگاہی بھی ایک اہم چیز تھی جو بعض ہم عصر مورخین کی طرف سے بیان ہوئی ہے۔(١)
پیغمبر اکرمۖ کا ایک جملہ، جو اس موضوع کی مناسبت سے نقل ہوا ہے جو شاید اس مقصد کے لئے شاہد قرار پائے، یہ ہے:
''میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں کیونکہ میں قرشی ہوں اور میں نے قبیلہ بنی سعد بن بکر میں دودھ بھی پیاہے''(٢)
بعض تاریخی کتابوں میں جناب حلیمہ کو دایہ کے طور پر انتخاب کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ حضرت محمد ۖ یتیم تھے لہٰذا کوئی دایہ آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوئی کیونکہ دائیاں دودھ پلانے کے عوض بچہ کے باپ سے اجرت لیتی تھیں اور چونکہ اس وقت دائی حلیمہ کو مکہ میں کوئی بچہ نہیں ملا تھا لہٰذا حضرت محمدۖ کو یتیم ہونے کے باوجود مجبوراً رضاعت کے لئے قبول کرلیا۔(٣) لیکن دایوں کی طرف
______________________
(١) جعفر سبحانی، فروغ ابدیت (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزۂ قم، ط٥، ١٣٦٨)، ج١، ص ١٥٩؛ سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم (قم: ١٤٠٠ھ.ق)، ج١، ص ٨١۔
(٢) انا اعربکم انا قرشی واسترضعت فی بنی سعد بن بکر، (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٧٦۔ اور رجوع کریں: ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٣؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٦؛ ابو سعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انتشارات بابک، ١٣٦١). ص ١٩٦۔
کہا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حضرت محمد ۖ ، حلیمہ کے پاس دیہات میں رہ رہے تھے واقعۂ شق صدر پیش آیا۔ لیکن تاریخ اسلام کے محققین اور تجزیہ نگاروںنے متعدد دلیلوں کی بنا پر اس موضوع کو حقیقت سے دور اور من گڑھت گردانا ہے۔ (رجوع کریں: سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ٨٢؛ سید ہاشم رسولی محلاتی، تاریخ تحلیلی اسلام کے دروس، ج١، ص ١٨٩و ٢٠٤؛ شیخ محمد ابویہ، اضواء الی السنة المحمدیہ (مطبعة صور الحدیثہ، ط ٢، ھ.ق)، ج١، ص ١٧٧۔ ١٧٥.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٢۔ ١٧١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص٩٣؛ ابن سعد،گزشتہ حوالہ، ص١١١۔ ١١٠.
سے محمد ۖ کو یتیمی کی خاطر قبول نہ کرنے کی وجہ قابل قبول نظرنہیں آتی۔ کیونکہ :
١۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ بعض کتابوںمیں نقل ہوا ہے کہ جناب عبد اللہ کا انتقال، حضرت رسول خداۖ کی ولادت کے چند مہینے بعد ہوا ہے اس لحاظ سے وہ اس وقت یتیم نہیںہوئے تھے۔
٢۔ جناب عبد المطلب کی عظیم شخصیت اور مکہ میںان کا بلند مقام اور درجہ اور ان کی دولت و ثروت کودیکھتے ہوئے نہ صرف دایوں نے لینے سے انکار نہ کیا ہوگا بلکہ ایسے خاندان کے بچہ کی رضاعت کے لئے آپس میں جھگڑا کرتی ہوں گی ۔
٣۔ بہت ساری تاریخی کتابوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے لیکن یہ بات کہیں نہیں ذکر ہے۔(١) ٭
والدہ کا انتقال اور جناب عبد المطلب کی کفالت
جناب آمنہ دائی حلیمہ سے اپنے بچہ کو لینے کے بعد ام ایمن(جناب عبد اﷲ کی کنیز) کے ساتھ ایک قافلہ کے ہمراہ مدینہ گئیں تاکہ اپنے شوہر جناب عبد اللہ کی قبر پر جاکر حاضری دے سکیں اورآپ کے ماموؤں سے ملاقات کرسکیں۔(٢)
مدینہ میں ایک ماہ قیام کے بعد مکہ پلٹتے وقت مقام ابواء میں آپ کا انتقال ہوگیا اور وہیں آپ کو دفن کردیا گیا اس وقت حضرت رسول خداۖ چھ سال کے تھے۔(٣)
______________________
(١) منجملہ ایک بزرگ اور نامور محدث ابن شہر آشوب نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن حضرت محمد ۖ کی یتیمی کے موضوع کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس میں نہیں ہے (مناقب آل ابی طالب، ج ١، ص ٣٣.)
٭ پیغمبر اسلام ۖ کی رضاعت کا مسئلہ چاہے حلیمۂ سعدیہ کے ذریعہ ہو یا دیگر کنیزوں کے ذریعہ محل اختلاف ہے ، شیعہ محققین نے اسے قبول نہیں کیا ہے. مترجم.
(٢) عبدالمطلب کی ماں سلمی ، مدینہ کی رہنے والی تھیں اور بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں. (بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١.)
(٣) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٩٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٧٧؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٢١؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر الغفاری (قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج١، ص١٧٢؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص٢٨٣۔
ام ایمن قافلہ کے ساتھ آپ کو مکہ لے کر آئیںاور جناب عبد المطلب کے حوالہ کردیا۔(١)
جناب عبد المطلب نے آپ کی سرپرستی اور کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی، اور جب تک وہ زندہ رہے اپنے پوتے کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرتے رہے اورآپپر ان کی نظر عنایت ہوتی تھی اور کہتے تھے کہیہ بلند مقام پائے گا۔(٢)
______________________
(١)حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٢۔
(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٨؛ صدوق، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٩۔
|