تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

دوسرا حصہ
حضرت محمدۖ ولادت سے بعثت تک

پہلی فصل: اجداد پیغمبر اسلام ۖ
دوسری فصل: حضرت محمدۖ کا بچپن اور جوانی
تیسری فصل: حضرت محمدۖ کی جوانی

پہلی فصل
اجداد پیغمبر اسلام ۖ

حضرت محمد مصطفی ۖ کا حسب و نسب
حضرت محمد مصطفی ۖ کے سلسلۂ نسب میں، آپ کے بیس اجداد کا تذکرہ اس طرح سے موجود ہے:
عبد المطلب، ہاشم، عبد مناف، قصی، کلاب، مرہ، کعب، لوی، غالب، فھر، مالک، نضر، کِنانہ، خزیمہ، مدرکہ، الیاس، مُضَر، نِزَار، مُعَدّ اور عدنان۔(١)
لیکن حضرت اسماعیل تک آنحضرتۖ کے دوسرے اجداد اور ان کے ناموں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(٢)
______________________
(١) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٩١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج١، ص١٣؛ طبرسی، اعلام الوری (تہران: دار الکتب الاسلامیہ،ط٣)، ص ٦۔٥۔
(٢) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٣؛ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ص ١١٨؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع و النشر)، ص١٩٦۔ ١٩٥؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دارصادر)، ج٢، ص٣٣؛ جمال الدین احمد بن عنبہ، عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب (قم: منشورات الرضی، ط ٢)، ص٢٨۔
آپ اپنے سلسلۂ نسب کو بیان کرتے وقت جب عدنان پر پہنچتے تھے تو ٹھہر جاتے تھے اور بقیہ کو نہیں بیان فرماتے تھے۔(١) اور دوسروں کو بھی اسی بات کی نصیحت فرماتے تھے.(٢) اور عدنان سے اسماعیل تک اپنے اجداد کے سلسلۂ نسب کے بارے میں فرمایا: کہ اہل نساب نے جو بات کہی ہے وہ جھوٹ ہے۔(٣)
عرب کے تمام قبیلے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ''قحطانی اور ''عدنانی''(٤) اور قریش عدنان (رسول خداۖ کے بیسویں جد) سے انتساب کی بنا پر، عدنانی کہے جاتے ہیں۔ عدنانی عرب میں، جس کا خاندان اور سلسلۂ نسب نضر بن کنانہ سے ملتا ہے وہ قرشی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ قریش، آپ کا نام یا لقب تھا۔(٥)
______________________
(١) ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٥٦؛ ہشام بن محمد الکلبی، جمھرة النسب، تحقیق: ناجی حسن (بیروت: عالم الکتب، ط١)، ص ١٧۔
(٢) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة ا لعلمیہ)، ج١، ص ١٥٥؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٥، ص ١٠٥۔
(٣) کلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٥٦؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥؛ ابن عنبہ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨۔
(٤) پہلے گروہ کو یمانی (یمنی) اور دوسرے گروہ کو مضری، نزاری اور قیسی بھی کہتے ہیں
(٥)ابن شہرآشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٤؛ ابن عنبہ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ (قم: منشورات الرضی، ١٤١٥ھ.ق)، ص٦٧؛ طبرسی، مجمع البیان، (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج١٠، ص ٥٤٥؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی،، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٩٦؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید (دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص ٣١٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی)، ج١، ص ٨٤؛ محمد امین بغدادی سویدی، سبائک الذہب فی معرفة قبائل العرب (بیروت: دار صعب)، ص ٦٢؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف : المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ج١، ص ٢٠٤۔
بعض اہل نساب نے، فہربن مالک بن نضر کو قرشی کہا ہے۔ رجوع کریں: کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١؛ ابن سعد.گذشتہ حوالہ، ص٥٥؛ ابن عنبہ، گذشتہ حوالہ، ص٢٦؛ ابن ہشام، گذشتہ حوالہ، ص ٩٦؛ محمد امین بغدای، گذشتہ حوالہ، ص٦٢؛ ابن واضح، گذشتہ حوالہ، ص ٢٠٤؛ ابن حزم، جمھرة انساب العرب (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٠٣ھ.ق)، ص١٢؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص٢٦۔ ٢٥۔ دوسرے اقوال بھی اس بات میں موجود ہیں کہ جن کا ذکر کرنا فائدہ نہیں رکھتا۔ رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج١، ص٢٧۔
قبیلۂ قریش(١) متعدد خاندانوں او رحصوں میں بٹا ہوا تھا۔ جیسے بنی مخزوم، بنی زھرہ، بنی امیہ ، بنی سہم اور بنی ہاشم(٢) اور حضرت محمد ۖ آخری خاندان سے تھے ۔

حضرت عبد المطلب کی شخصیت
حضرت محمدۖ کے اجداد میں ہم زیادہ تر معلومات آپ کے پہلے جد عبد المطلب کے بارے میں رکھتے ہیں کیونکہ ان کا دور حیات عصر اسلام سے نزدیک رہا ہے۔
جناب عبد المطلب، ایک ہر دل عزیز، مہربان، عقلمند، سرپرست اور قریش کی ایسی پناہ گاہ تھے(٣) جن کا کوئی مقابل اور رقیب نہیں تھا۔ وہ تمام عظیم الٰہی شخصیتوں کی طرح اپنے معاشرے میں نمایاں کردار رکھتے تھے ۔ طولانی عمر پانے کے باوجود مکہ کے آلودہ سماج کے رنگ میں اپنے کو کبھی
______________________
(١) عرب کے قبیلے اور گروہ چھوٹے اور بڑے ہونے کے لحاظ سے اور اس کے اندر جو شاخیں پیدا ہوئی تھیں ان کے اعتبار سے ترتیب وار انھیں شعب، قبیلہ، عمارہ، بطن، فخذ اور فصیلہ کہا جاتا تھا۔ جیسے خزیمہ، شعب، کنانہ، قبیلہ، قریش، عمارہ، قصی، بطن، ہاشم، فخذ، اور عباس کو فصیلہ کہا جاتا تھا (ابن حزم، العقدالفرید، ج٣، ص ٣٣٠؛ ڈاکٹر حسین مؤنس، تاریخ قریش، (دار السعودیہ، ط ١، ١٤٠٨ھ.ق) ، ص ٢١٥) اس بنیاد پر بعض دانشوروںنے قریش کو ''قبیلہ'' اور بعض نے ''عمارہ'' کہا ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اس تقسیم بندی کی بنیاد اور اصل ، محل بحث ہے۔ اور اصولی طور پر بعض محققین نے اس تقسیم بندی کو قبول نہیں کیا ہے۔ (تاریخ قریش، ص ٢١٦۔ ٢١٥)، ہم یہاں پر اس بحث سے ہٹ کر صرف آسانی کے لئے قریش کو قبیلہ کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔
(٢)مسعودی نے قبیلۂ قریش میں ٢٥ خاندان بتائے ہیں اور ان کا نام ذکر کیاہے۔ (مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥)، ج٢، ص ٢٦٩.)
(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٦۔
نہیں رنگا۔ اس وقت مکہ میں معاد کا عقیدہ نہیں پایا جاتا تھا یا بہت کم تھا۔ لیکن عبد المطلب نہ صرف معاد کا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ روز قیامت کی جزا اور سزا کے بارے میں بھی تاکید فرماتے تھے اور کہتے تھے: اس دنیا کے بعد ایسی دنیا آئے گی جس میں اچھے اور برے لوگ، اپنے اعمال کی جزا اور سزا پائیں گے۔(١)
جبکہ اس وقت جزیرة العرب کے ماحول میں قبیلہ جاتی عصبیت عام تھی اور جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں ہر شخص جھگڑے اور اختلافات میں (بغیر حق و باطل کا خیا ل کئے) اپنے قبیلے، خاندان اور احباب کی حمایت کرتا تھا۔ لیکن جناب عبد المطلب، ایسے نہیںتھے۔ چنانچہ حرب بن امیہ جو کہ آپ کے خاندان اور دوستوں میں سے تھا اس پر اتنا دباؤ ڈالا، تاکہ وہ ایک یہودی کا خون بہا دیدے جو اس کے ورغلانے پر قتل ہوا تھا(٢) وہ اپنی اولاد کو ظلم و ستم اور دنیا کے پست اور گھٹیا کاموں سے منع کرتے تھے اور اچھے صفات کی ترغیب دلاتے تھے۔(٣)
جناب عبد المطلب کا جو طریقۂ کار تھا اسلام نے زیادہ تر اس کی تائید فرمائی ہے ۔ ان میں کچھ چیزوں ، جیسے حرمت شراب، حرمت زنا، زناکار پر حد جاری کرنا، چور کے ہاتھ کاٹنا، فاحشہ عورتوں کو مکہ سے جلا وطن کرنا اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، محرموں سے شادی کرنااور خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرنے کو حرام قرار دینا اور نذر کی ادائیگی کو واجب جاننا اور حرام مہینوںکی قداست و احترام او رمباہلہ
______________________
(١)گزشتہ حوالہ، ص٦؛ شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح محمد بہجة الاثری، (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٢)، ج١، ص٣٢٤۔
(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٦؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٣؛ ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ١٥؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص٧٣.
(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ١٠٩.
وغیرہ (١) کے وہ قائل تھے۔ایک روایت میں آیاہے کہ عبدالمطلب ''خدا کی حجت'' اورابوطالب ان کے ''وصی'' تھے۔(٢)

خاندان توحید
حضرت محمد ۖ کا خاندان، موحد تھا۔ علماء امامیہ کے عقیدے کے مطابق آپ کے آباء و اجداد حضرت عبد اللہ سے لیکر حضرت آدم تک سب موحد تھے اوران کے درمیان کوئی مشرک نہیں تھا۔ اس بارے میں آیات و روایات سے استدلال ہوا ہے۔ آنحضرتۖ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''خداوند عالم نے مجھے ہمیشہ پاک مردوں کی صلبوں سے پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں منتقل کیا۔ یہاں تک اس دنیا میں بھیج دیا اور اس نے مجھے ہرگز جاہلیت کی کثافتوں سے آلودہ نہیں کیا''(٣) اور ہمیں یہ معلوم ہے
______________________
(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ٣٢٤؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٧؛ رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج١، ص ٧؛ رجوع کریں: الخصال صدوق، باب الخمسہ، ج٢، ص ٣١٣۔ ٣١٢۔
(٢) صدوق، اعتقادات، ترجمہ: سید محمد علی بن سید محمد الحسنی (تہران: کتابخانۂ شمس، ط٣، ١٣٧٩ھ.ق)، ص١٣٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ١١٧؛ رجوع کریں: اصول کافی، ج١، ص ٤٤٥۔
جناب عبد المطلب سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث خدا کی راہ میں ایک فرزند کی قربانی ، ان کی نذر ہے جس کی خبر مشہور ہونے کے باوجود جس طرح سے تاریخ کی کتابوںمیں آئی ہے وہ سند اور متن کے لحاظ سے جائے اشکال ہے۔ اوراس سلسلہ میں بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔(رجوع کریں: علی دوانی، تاریخ اسلام از آغاز تا ہجرت، ص ٥٩۔ ٥٤؛ من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق: علی اکبر غفاری، ج٣، ص ٨٩؛ باب الحکم بالقرعہ، حاشیہ، تعلیقہ ٔ آغائے غفاری) چونکہ یہ کتاب اختصار کے طور پر لکھی گئی ہے لہٰذا اس کے بارے میں بحث کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں۔
(٣) صدوق، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٧؛ مفید، اوائل المقالات (قم: مکتبة الداوری)،ص ١٢؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٤، ص ٣٢٢؛ تفسیر آیہ ٧٤ سورۂ انعام، بعض معاصر دانشوروں نے اس حدیث کو طہارت نسل یعنی ولادت و پیدائش کا سبب، ازدواج قرار دیا ہے (نہ آزاد اور غیر مشروع روابط) سے تفسیر کیا ہے کہ اگر اس تفسیر کو قبول کریں تو ہماری بحث کے لئے شاہد قرار نہیں پائے گا۔ (سید ہاشم رسولی محلاتی، درس ھایی از تاریخ تحلیلی اسلام ماھنامہ پاسدار اسلام، ١٣٦٧، ج١، ص ٦٤).
کہ کوئی بھی نجاست شرک سے بدتر نہیں ہے اگر ان کے درمیان کوئی ایک بھی مشرک ہوتا تو انھیں ہرگز پاک نہ کہا جاتا۔
علمائے امامیہ کا عقیدہ ہے کہ جناب ابوطالب اور آمنہ بنت وھب موحد(١) تھے۔
حضرت علی نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم! میرے والد اور اجداد عبد المطلب، ھاشم اور عبد مناف میں سے کوئی بھی بت پرست نہیں تھا وہ لوگ دین ابراہیمی کے پیرو تھے اور کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔(٢)
______________________
(١) مفید، گزشتہ حوالہ، ص ١٢؛ صدوق، گزشتہ حوالہ، اہل سنت کے بعض نامور علماء جیسے فخر رازی اور سیوطی بھی اس سلسلے میں امامیہ کے ہم عقیدہ ہیں۔ رجوع کریں: بحار الانوار، ج١٥، ص ١٢٢۔ ١١٨.
(٢) صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر الغفاری (قم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج١، ص ١٧٥؛ الغدیر، ج٧، ص ٣٨٧.