ظہور اسلام کی روشنی میں بنیادی تبدیلی
ظہور اسلام اور روز بروز اس کے فروغ کے ساتھ اہل حجاز کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں گہری او روسیع پیمانہ پر تبدیلی رونما ہوئی۔اور ایک مکمل انقلاب اور تبدیلی پیدا ہوئی۔ اور آہستہ آہستہ اس کے اثرات جزیرة العرب کے چاروں طرف پھیل گئے۔
پیغمبر اسلامۖ نے اپنی مسلسل او رپیہم جنگ کے ذریعہ اس بت پرستی کو جوان کی تمام بدبختیوں کی جڑ تھی، اکھاڑ پھینکااور نظام توحیدکوا س کی جگہ پر پیش کیااور قبائلی اور قومی نظام نیز غلط رسم و رواج کوختم کردیااور قومی عصبیت کو مٹا کر اس کی جگہ پر حق و عدل کی تعلیم دی۔ جذبۂ انتقام اور قبائلی قتل و غارت کو صلح و آشتی میں بدل دیااور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔عورت کو قید و بدبختی سے نجات دلائی اور اسے سماج میں بلند مقام عطا کیا۔اور جاہل عوام سے آگاہ امتی بنا دیا۔
قبائلی نظام کے بدلے، امت اور امامت کا نظام قائم کیا اورعرب کے بکھرے اور پراگندہ قبائل کو ''ایک امتی'' بنادیا۔ان کو قبائلی زندگی کے تنگ دائرہ سے نکال کر عالمی نظام کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اور اسلام کی روشنی میں قوم عرب کوایسی عظمت و طاقت بخشی کہ دو عظیم حکومتوں کی بنیادوں کوہلاکر رکھ دیا اور یہ بات اتنی واضح اور روشن تھی کہ غیر مسلم مصنفوں اور دانشوروں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ بطور نمونہ ان میں سے تین لوگوں کے خیالات یہاں پر پیش کر رہے ہیں:
ڈاکٹر گوستاد لوبون فرانسوی کہتا ہے: ''پیغمبر اسلامۖ کا ایک عظیم معجزہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنی وفات سے قبل عرب کے پراگندہ قافلے کوایک جگہ جمع کردیااور اس سرگرداں اور پریشان کاروان سے، ایک ملت کی تشکیل دی اور اس طرح سب کو ایک دین کے سامنے تسلیم کے ساتھ ایک پیشوا اور رہبر کا مطیع اور فرمانبردار بنادیا...
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ۖ نے اپنی زحمتوں سے ایسے نتائج حاصل کئے کہ اسلام سے قبل کوئی بھی دین خواہ وہ یہودیت ہو یا عیسائیت کسی نے ایسے نتائج نہیں حاصل کئے ۔ اور اسی وجہ سے آنحضرتۖ کا عربوں کی گردن پر بہت بڑا حق ہے۔اگر ہم چاہیں کہ کسی ذات کی قدر واہمیت کا اندازہ اس کے کردار او ر نیک آثار کے ذریعہ لگائیں توقطعی اور مسلم طور سے حضرت محمد ۖ سب سے عظیم مرد تاریخ قرار پائیں گے ۔ ہم اس عظیم دین کو جسے آپ لیکر آئے اور لوگوں کواس کی طرف دعوت دی، اس کے ماننے والوں کے لئے خدا کی جانب سے عظیم نعمت سمجھتے ہیں۔(١)
توماس کار لایل انگریز کہتا ہے: خداوندعالم نے عرب کواسلام کے ذریعہ، تاریکی سے اجالے اور روشنی کی طرف ہدایت فرمائی اور اس کی روشنی میں عرب کی خاموش قوم کواس مردہ سرزمین پر زندہ کردیا، جبکہ عرب آغاز خلقت سے بے نام و نشان صحراوؤں میں، تہی دست تھے جودیہاتوں میں زندگی بسر کرتے تھے نہ ان کی آواز سنائی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی حرکت اور جنبش نظر آتی ہے۔ خداوند عالم نے جس وقت ایک پیغمبر کونور وحی اور رسالت کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا توان کی گمنامی کو شہرت میںاور ان کی حیرت او ر سرگردانی کو بیداری میں اوران کی پستی و حقارت کو سربلندی میں اور عاجزی و ناتوانی کو قدرت مندی میں تبدیل کردیا۔ اس کا نور جہاں چمکا اس کی روشنی سے وہاں کی جگہ منور ہوگئی اوراس کی ہدایت کی روشنی دنیا کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب تمام ستموں میں اس طرح پھیل گئی کہ ظہور اسلام کو ایک صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اسلامی حکومت نے اپنا ایک قدم ہندوستان اور دوسرا قدم اسپین میں رکھ دیا۔(٢)
ویل ڈورانٹ لکھتا ہے: اس وقت کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا تھاکہ ایک صدی بعد، یہ خانہ بدوش حکومت روم کے ماتحت رہنے والے علاقے نصف ایشا، پورے ایران، مصر اور شمال افریقا کا زیادہ تر علاقہ فتح کر کے، اسپین کی طرف بڑھ جائیں گے۔ سچ ہے کہ یہ تاریخی سورج جو عربستان
______________________
(١) تمدن اسلام او رغرب، ترجمہ: سیدہاشم رسولی (تہران: کتابفروشی اسلامی)، ص ١٣٠۔ ١٢٨.
(٢) الابطال، عربی ترجمہ: محمد السباعی کے قلم سے (قاہرہ: ط٣، ١٣٤٩ھ.ق)، ٩.
سے طلوع ہوا تھا اس کے ذریعہ عرب مڈیٹرانہ کے نصف علاقے پر مسلط ہوگئے اوردین اسلام کو وہاں پر پھیلانا، قرون وسطیٰ کے حیرت انگیز اجتماعی واقعات میں سے ہے۔(١)
شہر مکہ کی توسیع او رمرکزیت
پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ جزیرة العرب کے زیادہ تر لوگ زمانۂ جاہلیت میں بادیہ نشین اور صحرا نورد ہوتے تھے۔ کیونکہ شہر نشینی حجاز کے علاقہ میں زیادہ رائج نہیںتھی اس علاقہ میں آبادیوں کے لحاظ سے جسے شہر کہا جاتا تھا درحقیقت وہ چھوٹے شہر ہوا کرتے تھے ۔ جس میں زیادہ آبادی نہیںہوا کرتی تھی۔ بعض معاصر مورخین اس علاقہ کے شہر نشینوں کی آبادی کو ١٦ (٢) اور بعض دوسرے مورخین پوری آبادی کا ١٧ فیصد(٣) حصہ سمجھتے تھے ۔ اس محاسبہ کا اصول واضح نہیںہے لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ شہر نشینوں کی آبادی کا تناسب فیصد کے لحاظ سے بہت کم ہوا کرتا تھا۔ان میں سے صرف شہر مکہ میں جو حجاز کے جنوبی علاقہ (بحر احمر سے تقریباً ٨٣... کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے) میں ایک اہم شہر تھا، ظہور اسلام سے چند صدی قبل اس میں توسیع ہوئی اور آہستہ آہستہ وہاں بہت سارے لوگ آکر بس گئے ۔
مکہ کی توسیع کے دو اسباب تھے:
الف: تجارتی مرکز:
چونکہ شہر مکہ ایک خشک و بے آب و گیاہ اور سنگلاخ علاقہ میں واقع ہے لہٰذا زراعت یا کارخانے اور فیکٹریوں کے لگانے کے امکانات اور وسائل وہاں مہیا نہیں تھے
______________________
(١)ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ج٤، عصر ایمان، (بخش اول)، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٨، ص ١٩٧.
(٢) ویل ڈورانٹ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٠.
(٣) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، ١٣٤٤، ج١، ص ١٢٥.
وہاں کے لوگ قدیم زمانے سے مجبور تھے کہ اپنی زندگی، تجارت کے ذریعہ چلائیں۔ لیکن ان کی تجارت صرف مکہ تک محدود تھی۔(١)
عرب کے علاوہ دوسرے تاجر اپنے مال کو مکہ میں لاکر بیچتے تھے۔ تجارتی مال شہر کے تاجروں کے ذریعہ خریدا جاتاتھا اور پھر شہر میں بیچا جاتا تھا۔(٢) یا جزیرة العرب کے اندر فصلی بازار میں لیجا کر وہ بیچتے تھے۔ یہاں تک کہ جناب ہاشم (پیغمبر اسلامۖ کے دوسرے جد) نے امیر شام (جوکہ حکومت روم کا پٹھو تھا) کے ساتھ ایک پیمان باندھا، تاکہ مکہ کے تجار آزادی کے ساتھ اس ملک سے آمد و رفت کرسکیں۔(٣)
اس کے علاوہ انھوں نے ایسے قبائل سے پیمان باندھا جو شام کے راستے میں واقع تھے تاکہ مکہ کے تجارتی قافلوں سے تعرض نہ کریں اور ان سے عہدکیا کہ ان کی اشیاء تجارتی بغیر کرایہ لئے ہوئے تجار مکہ کے توسط سے محل تجارت تک پہنچائی جائیں گی ۔(٥) اور آپ کے بھائیوں (عبد الشمس، نوفل اور مطلب) نے بھی اسی طرح کے عہد و پیمان ، حاکم حبشہ، شہنشاہ ایران(٦) اور شہنشاہ یمن(٧) کے ساتھ کئے۔
راستوں کی امنیت کے بعد، جناب ہاشم نے یمن اور شام میں تجارتی خطوط کی بنیاد ڈالی(٨) کہ
______________________
(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٢١٥.
(٢) محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید فارق (بیروت: عالم الکتب ، ط ١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٤٢
(٣) ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٤.
(٤) گزشتہ حوالہ، ص ٢١٣.
(٥) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٧٨.
(٦) ابن واضح ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٥.
(٧) محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار قاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٨٠؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٦.
(٨) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ١٤٣.
جس کا حلقۂ اتصال مکہ تھا،جو ان دو تجارتی مرکز کے نصف راستے میں واقع تھے۔(٢) اس طرح سے قریش نے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز کیا۔(٣) اس وقت سے مکہ کے تجار، فصلی بازاروں جیسے ''عکاظ، ذوالمجاز اور مجنہ'' میں شرکت کرنے کے علاوہ جاڑے کی فصل میں یمن، حبشہ اور گرمی کی فصل میں شام اور غزہ کا سفر کرتے تھے۔
وہ لوگ ان مسافرتوں میں عطریات، بخور، ریشمی لباس، چمڑا اور دوسروں چیزوں کوجو ہندوستان، چین اور دوسرے علاقوں سے یمن میں آیا کرتی تھیں خرید کر خشکی کے راستے سے تمام جزیرة العرب میںحضر موت کے راستہ بحراحمر(٤) کے سامنے سے ہوتے ہوئے مکہ میںلایا کرتے تھے پھر غزہ، بیت المقدس، دمشق اور بحر مڈیٹرانہ کی بندرگاہ تک پہنچایا کرتے تھے۔اور شام کے بازاروں سے گیہوں، تیل، زیتون، لکڑی، اور ریشم کی بنی ہوئی چیزوں کو خریدتے تھے۔ اسی طرح سے جدہ کی بندرگاہ کے ذریعہ (جوکہ مکہ سے ٨٠ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) بحر احمر کو عبور کر کے حبشہ میں داخل ہوتے تھے اور اس طرح علاقائی چیزوں کودوسری جگہ لیجاتے تھے۔(٥)
اس تجارتی راہ کے کھلنے سے، شہر مکہ ، ایک پر منفعت تجارتی مرکز میں تبدیل ہوگیا اور وہاں کے رہنے والوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور خدوند عالم نے اس تجارتی سفر کی برقراری کو قریش کے لئے راحت وآرام کا سبب قرار دیا ہے ''قریش کے انس والفت کی خاطر، جوانھیں سردی اور
______________________
(١) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضہ المصریہ، ط٩، ١٣٦٤.)، ص ١٤۔ ١٢؛ ڈاکٹر شوقی ضیف.
(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ؛ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٦.
(٣) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٢؛ عبد المنعم ماجد، التاریخ السیاسی للدولة العریہ)، (قاہرہ: مکتبة الابحلوا المصریہ) ص ٧٩.
(٤) حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: انشارات جاویدان، ط٤ ١٣٦٠ھ.ق)، ص ٥٦.
گرمی کے سفر سے ہے ابرہہ کو ہلاک کردیاہے۔ لہٰذا انھیں چاہئے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔ جس نے انھیں بھوک میں سیر کیا ہے اور خوف سے محفوظ رکھا''۔(١)
ب: کعبہ کا وجود:
شہر مکہ کی توسیع اور اس کی اقتصادی رونق کاایک دوسرا سبب کعبہ کا وجود تھا کیونکہ عرب کے لوگ سال میں دوبار اعمال حج انجام دینے کے لئے اس شہر میں آتے تھے اور قریش جو کہ کعبہ سے متعلق مختلف امور کے ذمہ دار تھے حجاج کے قیام و طعام کا انتظام کرتے تھے۔ دوسری طرف سے اعمال حج کے ساتھ زائروں اور مکہ کے تاجروں کے درمیان تجارتی معاملات بھی انجام پاتے تھے۔(٢) اور یہ دو چیزیں شہر کی توسیع اور اقتصادی رونق میں مددگار ثابت ہوئیں۔
البتہ سرزمین حرم کا تقدس واحترام بھی جو کہ اطراف حرم میںا من و سکون کا سبب بنا ہوا تھا مکہ کی تجارتی رونق میں بہت زیادہ موثر ثابت ہوا ۔ جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اور یہ کفار کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے۔ تو کیا ہم نے انھیں ایک محفوظ حرم پر قبضہ نہیں دیاہے جس کی طرف ہر شیء کے پھل ہماری دی ہوئی روزی کی بنا پر چلے آرہے ہیں لیکن ان کی اکثریت سمجھتی ہی نہیں ہے''۔(٣)
جناب ابراہیم نے بھی اپنی شریک حیات اور بچوںکو کعبہ کے پاس ٹھہرانے کے بعد خداکی بارگاہ میں اس طرح سے دعا فرمائی: ''پروردگار! میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا تاکہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کوان کی طرف موڑ دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں''۔(٤)
______________________
(١) سورۂ قریش،آیت ٤۔ ١.
(٢) عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہۖ (تہران: سروش، ط ١، ١٣٧٠)، ص ٦٧۔ ٦٦.
(٣) سورۂ قصص، آیت ٥٧.
(٤) سورۂ ابراہیم، آیت ٣٧.
''اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی کہ پروردگار اس شہر کوامن کا شہر قرار دیدے اور اس شہرکے ان لوگوں کو جواللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں پھلوں کا رزق عطا فرما''۔(١)
ارشاد ہوا کہ پھر جو کافر ہو جائیں گے انھیں دنیا میں تھوڑی نعمتیںدے کر آخرت میں عذاب جہنم میں زبردستی دھکیل دیا جائے گا جو بدترین انجام ہے۔
قریش کی تجارت اور کلیدبرداری
دو چیزیں،تجارت اور کعبہ کا وجود، شہر مکہ کی توسیع او رمرکزیت کا سبب قرار پائیں اور مکہ میں قریش کے اقتدار کے اضافہ کا باعث بھی بنیں کیونکہ اقتصادی طاقت اور کعبہ کے سارے مذہبی پروگرام ان کے اختیار میں تھے۔
١۔ قریش نے آہستہ آہستہ تجارت کے ذریعہ بے شمار دولت جمع کرلی اور مکہ میں بڑے بڑے ثروت مند پیدا ہوگئے جن میں بعض کی دولت و ثرو ت کی مقدار مبالغہ آمیزبتائی گئی ہے۔ جیسا کہ ان میں سے ایک کی دولت کی مقدار ایک قافلہ میں تیس ہزار دینار سے زیادہ تھی۔(٢)
قریش کی اہم شخصیتوں کے پاس سیاحتی علاقے اور طائف جیسی پاکیزہ جگہ جو آب و ہوا کے لحاظ سے سرزمین شام کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے۔(٣) باغات اور سیاحتی مراکز موجود تھے۔(٤) عباس ابن
______________________
(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٢٦.
(٢) جواد علی، المفصل فی التاریخ العرب (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)، ج١، ص ١١٤۔ گویا مقصود، سعیدابن العاص (ابی احیحہ) ہے کہ واقدی کے بقول (المغازی، ج١، ص ٢٧) شام سے پلٹتے وقت جنگ بدرکے موقع پر قریش کے قافلہ کی سب سے زیادہ دولت اس کے پاس تھی۔ لیکن واقدی کی عبارت اس صراحت کے ساتھ نہیںہے۔
(٣) فیلیپ حِتی، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠ .
(٤) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢١؛ بلاذری، فتوح البلدان، (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص ٦٨۔
عبد المطلب کے پاس طائف میں انگور کا باغ تھا کہ جس کا انگور شراب بنانے کے لئے مکہ جایا کرتا تھا(١) او روہ مکہ کے بڑے سودخوروں میں سے تھا(٢) عبد المطلب کے مرنے کے بعد انھیں دو یمنی کپڑوں میں لپیٹا گیا جس کی قیمت ہزار مثقال سونا تھی۔(٣) (جس سے ان کے ورثہ کی دولت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے) ، کہا جاتا ہے کہ ان کی لڑکی ''ہند'' نے ایک دن میں چالیس غلاموںکو آزاد کیا۔(٤) ولید بن مغیرہ (قبیلۂ بنی مخزوم کا سردار) جس کے پاس بے شمار دولت اور متعدد اولادیں تھیں وہ ہر جگہ مشہور تھا۔(٥) بعد میںغرور اور گھمنڈ کی بنا پر، قرآن نے اس کی سرزنش کی(٦) عبداللہ بن جدعان تیمی کی دولت اور اس کی عمومی مہمان نوازی افسانے کے طور پر نقل ہوئی ہے۔(٧) شعرائ، انعام و اکرام کی خاطر اس کی مدح سرائی کرتے تھے۔(٨)
ایک شاعر نے اس کو ''قیصر'' سے تشبیہ دی تھی۔(٩) کہتے ہیں کہ اس نے قبیلہ جاتی جنگ میںاپنے
______________________
(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٦٨۔
(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٥١
(٣) ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠۔
(٤) شوقی ضیف، گزشتہ حوالہ، ص ٥١؛ جاحظ، المحاسن و الاضداد (بیروت: دار مکتبہ عرفان)، ص ٦٢۔ فصل محاسن السخائ)۔
(٥) ایک تفسیر کے مطابق۔ آیت ''لولا نزل ہذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم۔'' (سورۂ زخرف، آیت ٣١.) میں دو بڑی شخصیتوں سے مراد مکہ میں ولید ابن مغیرہ ، اور طائف میں عروہ ابن مسعود ثقفی تھے کہ مشرکین ان کی بے شمار دولت کی بنیاد پر انھیں نبوت کے لئے نامزد کئے ہوئے تھے۔
(٦) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٢، ص ٩٣؛ ابن کثیر، تفسیر ، ج٤، ص ٤٤٢؛ تفسیر سورۂ المدثر۔
(٧) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط٢، ١٩٧٧ئ)، ج٢، ص ٢٢٩؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٩؛ محمد احمد جاد المولی بک ( و معاونین)، ایام العرب فی الجاہلیہ (بیروت: داراحیاء التراث العربی)، ص ٢٤٨۔
(٨) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ٨٧؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩۔
(٩) یوم بن جدعان، بجنب الحزورة کانہ قیصرا و ذو الد سکرہ
(بکری، معجم ماستعجم، عالم الکتب، ط٣، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص ٤٤٤؛ لفظ حزورہ؛ شوقی ضیف، گزشتہ حوالہ، ص ٥١.)
ساتھیوں اور لڑنے والوں کو ١٠٠٠ اونٹ دے رکھے تھے۔(١) اور سو (١٠٠) لوگوں کواپنے خرچ پر مسلح کیا تھا۔(٢) وہ غلاموں کو رکھتاتھااو رکنیزوں کو فروخت کرتاتھا۔(٣) اور سونے کے برتن میں پانی پیتاتھا۔(٤) پیغمبر اسلام ۖ نے فتح مکہ کے بعد جس وقت جنگ حنین کے لئے روانہ ہوئے۔ تو صفوان امیہ (مکہ کا ایک مشرک) سے سو (١٠٠) زرہ اور ضروری اسلحے امانت کے طور پر لئے۔(٥)
٢۔ دوسری طرف سے، قریش نے قصی (رسول خداۖ کے چوتھے جد) کے زمانہ سے کعبہ کی کنجی قبیلۂ خزاعہ کے ہاتھوں سے لے رکھی تھی۔(٦) اور حج و زیارت اور طواف سے مربوط مختلف ذمہ داریاں ، جیسے حاجیوںکے لئے پانی کی فراہمی (سقایہ) او رقیام و طعام کا انتظام (رفادہ) کعبہ کی دربانی اور پردہ داری (سدانہ) اور کعبہ کی نگہبانی اورخدمت گزاری (عمارہ) قریش کے مختلف
______________________
(١) محمد احمد جاد المولی بک، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٤۔
(٢) گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٩۔
(٣) ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ (قم: منشورات الشریف الرضی، ط١، ١٤١٥ھ.ق)، ص ٥٧٦؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١)، ج٢، ص ٢٨٧؛ جواد علی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٦۔
(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٧۔
(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٨٣؛ واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس، ج٣، ص ٨٩٠؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٦٣۔ اسی طرح رسول خدا اپنے چچازاد بھائی نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے تین ہزار نیزہ، امانت کے طور پر لیا (حلبی، گزشتہ حوالہ،) یہ سب ان کے عظیم مالی اقتدار کی علامت تھا ۔
(٦) ازرقی، اخبار مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس (قم: منشورات الرضی، ط١، ١٤١١ھ.ق)، ج١، ص ١٠٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٣٠۔
سرداروں کے درمیان بٹی ہوئی تھی اور اس طرح سے انھیں مذہبی حمایت بھی حاصل تھی۔
اس کے علاوہ شہر کے اجتماعی امور کو بھی جیسے پرچم داری، دیت اور نقصان کا بدلہ دینے میں نظارت اور اختلافات کو ختم کرنے کی نمایندگی کواپنے قبیلوں کے درمیان بانٹ کر شہر کے کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔(١)
قریش کا اقتداور اثر و رسوخ
قریش جن کا شمار ایک زمانہ میںایک چھوٹے خاندان میں ہوا کرتا تھا اور فقیر و تنگدست سمجھے جاتے تھے اور جنوب حجاز میںانکا کوئی مقام ودرجہ نہیں تھا وہ اپنے اقتصادی اور دینی انتظامات کی بنا پر آہستہ آہستہ عرب کے ایک طاقتور قبیلہ کی شکل میں ظاہر اور معروف ہوئے۔
اور شرف و بزرگی اور اہمیت کے اعتبار سے اپنے کودوسرے قبیلوں سے بلند کردیا۔ایک معاصر مورخ کے کہنے کے مطابق اس وقت قبیلۂ قریش حجاز کے تمام قبیلوں کی بہ نسبت بہت زیادہ امتیازات و خوبیاں رکھتا تھا۔ جس طرح سے لاوی لوگ حجاز کے یہودیوں کے درمیان اور راہب عیسائیوں کے درمیان امتیاز رکھتے تھے۔(٢)
خاص طور سے ہاتھیوں کے لشکر اور ابرہہ کی شکست کے بعد قریش جو کہ کلیددار کعبہ تھے ان کا احترام لوگوں کی نظروں میں بڑھ گیا۔(٣) اور انھوں نے اس واقعہ سے اپنے حق میں اورفائدے
______________________
(١) ابن عبد ربہ (العقد الفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق) ج٣، ص ٣١٤؛احمد امین، گزشتہ حوالہ، ٢٢٧؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤٥؛ البتہ یہ اقدامات بعض عیسائی مورخین جیسے جرجی زیدان اور لامنس کے تصور کے برخلاف، اس دور کے حکومتی محکموں اور دفتروں جیسا نہیں تھا بلکہ ایک ابتدائی اور قبیلہ کی شکل رکھتا تھا۔
(٢) فیلیپ حِتی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧۔
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٥٩؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٦۔
اٹھائے۔ اپنے کو ''آل اللہ ، جیران اللہ اور سکان اللہ'' کہتے تھے۔(١) اور اس طرح انہوں نے اپنے مذہبی مراکز کوہموار کیااوران کی قدرت و طاقت کے احساس نے انھیں فساد اور انحصار طلبی کی طرف مائل کردیا۔(٢) اور اس طرح سے انھوں نے دوسرے قبائل پر اپنی طرف سے نئے قوانین کا سلسلہ تھوپ دیا۔ مثلاً قریش دوسرے قبیلوں سے بغیر کسی شرط کے لڑکی لاتے تھے۔ لیکن اپنی لڑکیوں کو اس شرط پر انھیں دیتے تھے کہ قریش کی خاص دینی بدعتیں مخصوصاً اعمال حج اور طواف کو وہ قبول کرلیں۔(٣) اور جو مسافر مکہ میں داخل ہوتے تھے ان سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔(٤) اوراسے قریش کا حق سمجھتے تھے۔(٥) اس کے علاوہ حج کا پروگرام وہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر حاجیوں کواپنے قوانین کا اس طرح تابع بناتے تھے کہ حاجیوں کی روانگی منی اور رمی جمرات سے ان کی اجازت پر موقوف ہوتی تھی۔(٦)
اسی طرح قریش اہل مکہ کے علاوہ دوسرے حاجیوں کو مجبور کرتے تھے کہ طواف کا لباس ان سے خریدیں ورنہ برہنہ طواف کریں اور اگر انھوں نے اپنے لباس میں طواف کیا تو طواف کے بعد
______________________
(١) ابن عبد ربہ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣١٣؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٦۔
(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٦۔
(٣) گزشتہ حوالہ، ص ١٧٩؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٣۔
(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٧٠.
(٥) جواد علی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢١۔
(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٦٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٥، ١٣٠؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢٠؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٩۔
اسے پھینک دیں۔(١) (تاکہ مجبور ہوکر قریش سے لباس خریدیں) او رحاجیوں کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنے پاس موجود غذا کو استعمال کریں بلکہ اہل مکہ کی تیار کردہ غذا استعمال کریں۔(٢) (اور ان کے بازاروں سے غذائیں خریدیں) ٩ھ میں پیغمبر اسلامۖ نے علی کو مکہ بھیجا تاکہ مشرکین سے برائت کا اعلان کریں۔ قطعنامہ کی ایک شق جس کا علی نے حج کے عمومی پروگرام میں اعلان کیایہ تھی کہ آج کے بعد سے کوئی بھی کعبہ کا برہنہ طواف نہ کرے۔(٣)
مکہ میں قریش کے اثر ورسوخ کا پتہ لگانااس اعتبار سے قابل اہمیت ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے پیغمبر اسلاۖم کی پریشانیوں اور مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور پھر غور کریں کہ آنحضرت ۖکا سامنا کتنے بڑے اور طاقتور دشمن سے تھا۔ خاص طور پر مکہ میں دعوت اور تبلیغ دین کے دوران بغیر کسی قوت و طاقت ونیز محدود حامیوں کے ساتھ، قریش سے ڈٹ کر مقابلہ کیااور ان کے پنجہ سے پنجہ لڑا دیا!
______________________
(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٧٢؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٤، ١٧٨، ١٨٢؛ کعبہ کا برہنہ طواف جس کے بارے میں پہلے بیان کرچکے ہیں اور نیز اس خاتون کی داستان جس نے بہت ہی بری حالت میں طواف کیا اور کہتی تھی: الیوم یبدو بعضہ او کلہ۔ و ما بدا منہ فلا احلہ، ا س سختی اورانحصا رطلبی کے نتیجہ میں تھا (ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٨، ١٨٢؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٩٠؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٤؛ صحیح مسلم بشرح النووی، ج١٨، ص ١٦٢، کتا ب التفسیر.)
(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٧.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٩٠.
|