تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

شہرمکہ کی ابتدائ
شہر مکہ کی تاریخ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ملتی ہے کہ جب آپ حکم خدا سے اپنی زوجہ محترمہ ہاجرہ اور اپنے شیر خوار فرزند جناب اسماعیل کو شام لیکر آئے اور انھیں ایک خشک اور بے آب و گیاہ سرزمین میں لاکر ٹھہرا دیا۔(١) اور حکم و ارادۂ الٰہی سے آب زمزم ان دونوںکے لئے جاری ہوا(٢) اس کے بعد جنوب کے قبائل میں سے قبیلۂ جرہم (جو کہ قحطی اور خشک سالی کی بنا پر شمال کی جانب حرکت میں تھا) اس جگہ جاکر بس گیا۔(٣) جناب اسماعیل جوان ہوئے اور جرہمی قبیلہ کی لڑکی سے شادی کی.(٤) جناب ابراہیم خدا کی جانب سے مامور ہوئے کہ اپنے فرزند اسماعیل کی مدد سے کعبہ کی بنیاد ڈالیں(٥) چنانچہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ شہر مکہ کا قیام عمل میں آیا اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ نسل اسماعیل وہاں بڑھنے لگی۔

دین ابراہیم کی باقی ماندہ تعلیمات
جناب عدنان، عرب عدنانی ( عرب مکہ)کے جد اعلی اور حضرت محمدۖ کے بیسویں جد، جناب اسماعیل کی نسل سے تھے۔ اور حجاز، نجد، تہامہ میں رہنے والے عدنانی جناب اسماعیل(٦) کی اولاد، میں سے
______________________
(١) سورۂ ابراہیم، ١٤،آیت ٣٧.
(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٥٥ و ١١٦؛ ازرقی، تاریخ مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس (قم: منشورات الرضی، ١٣٦٩)، ج١، ص٥٥؛ تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٤٨ھ.ق)، ج١، ص١٨؛ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ترجمہ: حسین قرہ چانلو (تہران: امیر کبیر، ١٣٦٥)، ص ٥١۔
(٣)ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٧؛ مسعودی، مروج الذہب (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥.)، ج٢، ص ٢٠.
(٤) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ١٩؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٧.
(٥)سورۂ بقرہ،٢، آیت ١٢٧.
(٦) ایک تفسیر کی بنیاد پر سورۂ حج کی ٧٩ ویں آیت ''ملة ابیکم ابراہیم'' میںاسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے (طبرسی، مجمع البیان، ج٧، ص ٩٧.)
تھے جو برسوں سے شریعت ابراہیمی کی پیروی کرتے تھے۔ یعقوبی کے کہنے کے مطابق:
قریش اورجناب عدنان کی ساری اولادیںدین ابراہیمی کے بعض احکام کی پابند تھیں وہ لوگ کعبہ کی زیارت کیا کرتے تھے، حج کے اعمال بجالاتے تھے، مہمان نواز تھے، حرام مہینوں کا احترام کیا کرتے تھے برے کاموں سے پرہیز اور ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق اور ظلم کو برا سمجھتے تھے اور بدکاروں کو سزا دیتے تھے۔(١)
سنت ابراہیمی اوران کی بچی ہوئی تعلیمات جیسے خدا پر اعتقاد ، محارم کے ساتھ شادی کی حرمت، حج و عمرہ اور قربانی کے اعمال، غسل جنابت(٢) ختنہ، میت کی تکفین و تدفین(٣) وغیرہ ظہور اسلام کے زمانہ تک اسی طرح ان کے درمیان رائج تھیں اور جسم کی نظافت او رزائد بالوں کے کاٹنے وغیرہ کے بارے میں موجودہ دس سنتوں کے وہ پابند تھے۔(٤) اسی طرح وہ چار مہینوں کا تقدس واحترام جو سنت ابراہیمی(٥) میں پایا جاتا تھا اس کا بھی وہ عقیدہ رکھتے تھے او راگر ان کے درمیان کسی وجہ سے کوئی جنگ یا خون خرابہ، ان مہینوں میں واقع ہو جاتا تھا تواسے ''جنگ فجار'' (ناروا اور گناہ آلودجنگ) کہا کرتے تھے۔(٦) اسی وجہ سے آئین توحید اس علاقہ کے عربوں کے درمیان بہت زمانہ سے پایا جاتا تھا اور بت پرستی بعد میں وہاں پر آئی ہے جوان کے دین توحیدی سے منحرف ہونے کا باعث بنی ۔
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٤.
(٢) مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٥، ص ١٧٠؛ ہشام کلبی، الاصنام، ص ٦.
(٣) شیخ حرعاملی، وسائل الشیعہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٤،)، ج١، کتاب الطہارة ، ابواب الجنابہ حدیث ١٤، ص ٤٦٥؛ طبرسی، احتجاج (نجف: المطبعة المرتضویہ، ١٣٥٠ہ.ق)، ص ١٨٩.
(٤) شہرستانی، الملل و النحل (قم: منشورات الرضی)، ج٢، ص ٢٥٧.
(٥) طباطبائی ، المیزان (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٩، ص ٢٧٢.
(٦) شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص٢٥٥؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٢.

عربوں کے درمیان بت پرستی کا آغاز
مختلف دستاویزات اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں کے درمیان بت پرستی کے نفو ذ کا اصلی سرچشمہ اوران کے درمیان بت پرستی کے آغاز کے دو سبب تھے۔
الف: عمرو بن لُحیّ (قبیلۂ خزاعہ کا سردار)نام کا ایک شخص، جو کہ اپنے زمانہ میں مکہ میں بہت زیادہ با اثر و قدرت مند اور کعبہ کا متولی تھا۔(١) شام گیااور وہاں پر عمالقہ(٢) کے ایک گروہ سے اس کی ملاقات ہوئی جو بت پرست تھے۔ جب اس نے ان لوگوں سے بت پرست ہونے کی وجہ دریافت کی توان لوگوں نے کہا: یہ ہمارے لئے بارش نازل کرتے ہیں، ہماری مدد کرتے ہیں'' اس نے ان لوگوں سے ایک بت مانگا توان لوگوں نے اسے ''ھبل'' بت دیا اور وہ اسے لیکر مکہ آیا اور کعبہ میں نصب کردیا اور لوگوں سے کہا کہ اس کی عبادت کریں۔(٣)
______________________
(١) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٨٨، ١٠٠، ١٠١؛ محمود آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٣)، ج٢، ص ٢٠٠؛ علی بن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص١٦۔
(٢) عمالقہ، جناب نوح کے لڑکوںکا ایک گروہ تھاان کے جد عملاق یا عملیق کی مناسبت سے ان کا نام عمالقہ پڑا۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٨ اور ٧٩؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ١٨٨؛ علی ابن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص١٧.
(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠١؛ شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ علی بن برہان الدین الحلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٢٤؛ شہاب الدین الابشہی، المستطرف (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٢، ص٨٨؛ مسعودی، مروج الذہب (بیروت: دار الاندلس،ط١)، ج٢، ص ٢٩؛ ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨)، ص٧؛ محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٣٢٨۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ وہ ''ہبل'' کو عراق سے لایا تھا۔ (ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص١١٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٧٩؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ١٨٨۔ لیکن ایک روایت کے مطابق، ھبل بت کا پتھر ''مأزمین'' (عرفات و مشعر کے درمیان ایک گزرگاہ ہے)، سے لیا گیا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلامۖ اس جگہ سے گزرتے تھے تو اظہار نفرت کرتے تھے (محمد بن حسن حر عاملی، وسائل الشیعہ، بیروت: دار احیاء التراث الاسلامی، ج١٠، کتاب الحج، باب استحباب التکبیر بین المأزمین) ص ٣٦، حدیث١.)
اس کے علاوہ دو بت ''اساف''(١) اور ''نائلہ'' کو بھی اس نے کعبہ کے پہلو میں رکھ دیا اور لوگوں کو ان کی پرستش کے لئے ابھارا اور ورغلایا(٢)اور اس طرح سے عرب میں بت پرستی کی بنیاد پڑی۔
پیغمبر اسلامۖ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: عمرو بن لحی پہلا وہ شخص تھا جس نے دین اسماعیل میں تحریف کی اور بت پرستی کی بنیاد ڈالی۔ اور میں نے ا سکو آتش جہنم میں دیکھا ہے۔(٣)
ب: جب جناب اسماعیل کی نسل مکہ میں کافی بڑھ گئی تو وہ لوگ مجبور ہوکر ذریعہ معاش کی تلاش میں دوسرے شہروں اور علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ او رچونکہ انھیں مکہ او رحرم سے بہت لگاؤ اور محبت تھی لہٰذا کوچ کرتے وقت ان میں سے ہر ایک نشانی اور یادگار کے طور پر حرم کا ایک پتھر اپنے ساتھ لے گیا اور جہاں پر جاکر وہ بسے اس کو ایک گوشہ میں رکھ کر (کعبہ کے گرد طواف کے مانند) اس کے گرد طواف کرتے تھے۔ اور آہستہ آہستہ وہ اپنے اصلی جذبہ اور لگاؤ اور ہدف کو بھولتے گئے اور سارے پتھر ایک بت کی شکل میں تبدیل ہوگئے او رپھر نوبت یہ آگئی کہ جس پتھر کو وہ پسند کرتے تھے اسی کی پرستش کرنے لگتے تھے اوراس طرح وہ اپنے سابقہ آئین کو بھول گئے۔(٤)
البتہ اس علاقہ میں بت پرستی کے نفوذ کے لئے یہ دونوں اسباب نقطۂ آغاز قرار پائے ہیں ورنہ دوسرے عوامل جیسے جہل، حس گرائی (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا خدا ملموس اور محسوس
______________________
(١) اساف کو ہمزہ کے زبر اور زیر دنوں طرح سے لکھا گیا ہے۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٤۔
(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٨؛ شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤٣ اور ٣٤٧.
(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٩؛ علی بن برہان الدین، گزشتہ حوالہ، ص ١٧؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، (درحاشیہ الاصابہ)، ج١، ص ١٢٠، شرح حال اکثم بن جون خزاعی؛ابن اثیر، اسد الغابة (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج٤، ص٣٩٠؛ شیخ محمد تقی التستری، الاوائل، ط١، ص ٢١٧؛ ابی الفدا اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ(قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص٦٥؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٦۔
(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٠؛ المستطرف، ج٢، ص ٨٨؛ ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص ٦٢؛ البدایہ و النہایہ (بیروت: مکتبة المعارف)، ج٢، ص ١٨٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٧٩؛ طباطبائی، المیزان، ج١٠، ص ٢٨٦۔
(مادی)،ہو۔(١) قبیلہ جاتی اختلافات اور کشمکش، (ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اپنی لئے ایک الگ بت قرار دے) قبائل کے رئیسوں اور بزرگوں کی جاہ طلبی (وہ چاہتے تھے کہ عوام اسی طرح جہالت اور گمراہی میں پڑی رہے تاکہ وہ اچھی طرح سے حکمرانی کرسکیں) اور آخرکار گزشتہ لوگوں کی اندھی تقلید اس کی ترویج میں معاون ثابت ہوئی اور آہستہ آہستہ بت پرستی کی مختلف صورتیں اور عبادت کے مختلف طریقے، نذر و نیاز اور ان سے استمداد کے بے شمار طریقے انجام پانے لگے(٢) اور بتوں کی تعداد میں اس طرح سے اضافہ ہونے لگا کہ ہر گھر میںایک بت پایا جانے لگا۔(٣) جس سے وہ سفر کے موقع پر برکت حاصل کرتے تھے اوراسے مس کرتے تھے فتح مکہ کے موقع پر ٣٦٠ بت اس شہر میں موجود تھے۔(٤)

کیا بت پرست، خدا کے قائل تھے؟
بت پرست ''اللہ'' کے منکر نہیں تھے اور جیسا کہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ یہ لوگ بھی خدا کو، زمین و آسمان اور اس جہان کاخالق سمجھتے ہیں۔(٥) لیکن یہ دو بڑی خطاؤں کے مرتکب ہوگئے تھے جوان کی
______________________
(١) طباطبائی، المیزان، ج١٠، ص ٢٨٦۔
(٢) سورۂ انعام، آیت ١٣٨، ١٣٩؛ سورۂ مائدہ، آیت ٣، ٩٠، ١٠٣، ہشام کلبی، الاصنام، ص ٢٨۔
(٣) کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢۔
(٤) شیخ طوسی، الامالی، (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٣٣٦؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢١١؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص ٣٠؛ رجوع کریں: المیزان، ج٢٦۔ امام رضا کی ایک روایت کی مطابق۔
(٥) اگر ان سے پوچھئے: کہ کس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے؟ تو یقینا وہ کہیں گے خدا نے (سورۂ لقمان، آیت ٢٥، سورۂ زمر، آیت ٣٨، زخرف، آیت٩، اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ خود ان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ (زخرف، آیت٨٧، پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین و آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ! (یونس آیت٣١.)

گمراہی کی اصلی جڑ تھی۔ ١۔ اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں غلط شناخت؛ وہ لوگ خدا کے بارے میں مبہم او رگنگ ذہنیت رکھتے تھے ۔ اور اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ وہ خدا کے لئے بیوی اور بچوں کے قائل تھے۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں تصور کرتے تھے یعنی خدا کے لئے انسان اور دوسرے جانداروں کی طرح جسم او رمادہ اور زاد و ولد کے قائل تھے۔ خداوند عالم نے ان کے غلط خیال کی متعدد آیات میں مذمت فرمائی ہے: ''اوران لوگوں نے ان ملائکہ کو جو رحمان کے بندے ہیں لڑکی قرار دیدیا ہے کیا یہ ان کی خلقت کے گواہ ہیں تو عنقریب ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور پھر اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا''۔(١)
''بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ ملائکہ کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں''۔(٢)
''اور مشرکوںنے یہ کہنا شروع کردیا کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزندبنالیا ہے حالانکہ وہ اس امر سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں''۔(٣)
اس کے لئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کردی ہیں۔ جب کہ وہ بے نیاز اوران کے بیان کردہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔
وہ زمین و آسمان کا ایجاد کرنے والا ہے۔ اس کے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے اس کی تو کوئی بیوی بھی نہیںہے اور وہ ہر شے کا خالق ہے اور ہر چیز کا جاننے والا ہے''۔(٤)
''اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا''۔(٥)
______________________
(١) سورۂ زخرف، آیت ١٩.
(٢) سورۂ نجم، آیت ٢٧.
(٣) سورۂ انبیاء ، آیت ٢٦.
(٤) سورۂ انعام، آیت ١٠١۔ ١٠٠.
(٥) سورۂ جن، آیت ٣.
اس کے علاوہ خداوند عالم نے متعدد آیات میں مشرکوں کی مذمت فرمائی ہے کہ چونکہ وہ لڑکیوں کو برا سمجھتے تھے لہٰذا اسے خدا کی جانب منسوب کرتے تھے اور لڑکوں کواچھا سمجھتے تھے لہٰذا اسے اپنی طرف منسوب کرتے تھے''
کیاخدا کے لئے لڑکیاںاور تمہارے لئے لڑکے ہیں!۔(١)
''پھر اے پیغمبر! ان کفار سے پوچھئے کہ کیاتمہارے پروردگار کے لئے لڑکیاںہیںاور تمہارے لئے لڑکے ہیں؟ یا ہم نے ملائکہ کو لڑکیوں کی شکل میں پیدا کیاہے اور یہ اس کے گواہ ہیں؟''۔(٢)
''کیا تم لوگوں نے لات او رعزی کودیکھا ہے او رمنات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے تو کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاںہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسم ہے یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کر لئے ہیں۔(٣)
''سچ بتاؤ کیاخدانے اپنی تمام مخلوقات میں سے اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیاہے اور تمہارے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے؟''۔(٤)
''اور انھوں نے خدا اور جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دیدیا حالانکہ جنّات کو معلوم ہے کہ انھیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا،خدا ان سب کے بیانات سے بلند و برتر او رپاک و پاکیزہ ہے''۔(٥)
ایک تفسیر کی بنا پر خداوند عالم کی جِنّ سے نسبت او ررشتہ داری اس بنا پر تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ خدا نے جنات کے ساتھ شادی کر رکھی ہے اور فرشتے (اس شادی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں) اس کی اولاد ہیں۔(٦)
______________________
(١) سورۂ طور، آیت ٣٩.
(٢) سورۂ صافات، آیت ١٥٠۔ ١٤٩.
(٣)سورۂ نجم، آیت ٢٣۔ ١٩؛ لات ، عزیٰ اور منات تین بتوں کے نام تھے جن کو گویا وہ فرشتوں کا روپ سمجھتے تھے چونکہ تینوں نام مونث ہیں (رجوع کریں: تفسیر نمونہ، ج٢٢، ص ٥١٨).
(٤) سورۂ زخرف، آیت ١٦.
(٥) سورۂ صافات، آیت ١٥٩۔ ١٥٨.
(٦) سیوطی، الدر المنثور، ج٧، ص ١٣٣؛ ابن کثیر ، تفسیر، ج٤، ص ٢٣؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٤٦٠۔
٢۔ یہ بتوں کو چھوٹا خدا او راپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ بتاتے ہیں اور ان کی عبادت کو خدا کی بارگاہ میں قرب اور رضایت کا باعث سمجھتے تھے۔ جبکہ عبادت صرف اللہ سے مخصوص ہے۔
دوسری طرف سے اگرچہ بتوں کو دنیا کا ''خالق'' نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے لئے ایک قسم کی ربوبیت اور عالم ہونے کے مرتبہ کے قائل تھے اور ان کودنیا کے امور کی تدبیر میں اور انسان کے تقدیر میں موثر جانتے تھے اور اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے دور ہونے کے لئے ان سے مدد مانگتے تھے۔ جبکہ اسلام کی نظر میں جس طرح دنیاکاخالق ''اللہ'' ہے اورامور دنیا کی تدبیر (توحید افعالی)بھی صرف اسی کے ہاتھ میںہے(١) اور بت، بے جان اور ناقابل فہم وارادہ موجودات ہیں۔
قرآن مجید ان کے بے بنیاد خیالات کو نقل کر کے، اس طرح ان کی مذمت کرتا ہے:
''اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں او رنہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں: یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ خدا کواس بات کی اطلاع دے رہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے''۔(٢)
''آگاہ ہو جاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے او رجن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب
______________________
(١) ۔ ''و قل الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدأًولم یکن لہ شریک فی الملک و لم یکن لہ ولی من الذل و کبرہ تکبیراً۔'' (سورۂ اسرائ، آیت ١١١(، ''قل اللہم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر۔'' (آل عمران، آیت ٢٦.)
(٢) سورۂ یونس،(١٠) آیت ١٨( وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ مَا لاَیَضُرُّہُمْ وَلاَیَنْفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ قُلْ َتُنَبِّئُونَ اﷲَ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الَْرْضِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ )
کردیںگے۔ اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اورناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے''۔(١)
''خدائے یکتا کے بجائے انھوں نے دوسرے خداؤں کواختیار کر لیا تاکہ ان کی عزت کا سبب بنے''(٢)
''اوران لوگوںنے خداکو چھوڑ کر دوسرے خدا بنالئے ہیں کہ شایدان کی مدد کی جائے''۔(٣)
اسی بنا پر بت پرست، عبادت اورامور عالم کی تدبیر میں بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہیں اور قرآن مجید ان کو ''مشرک'' قرار دیتا ہے۔

پریشان کن مذہبی صورتحال
بہرحال ظہور اسلام کے وقت، بت پرستی وسیع پیمانے پر اپنی تمام صورتوں اور پہلوؤں کے ساتھ حنیفیت کے چہرے کو مسخ کرچکی تھی۔اور دینی لحاظ سے مشرکین کی بہت بری حالت ہوچکی تھی ایک طرف سے بت پرست بت پرستی اور اس کے رسومات کے سختی سے پابند تھے اور دین ابراہیم کی بچی ہوئی تعلیمات جیسے حج، عمرہ اور قربانی کو ناقص ،تحریف شدہ ،خرافات او رشرک آمیز باتوں سے آمیختہ شکل میں انجام دیتے تھے مثلاً کعبہ کی تعظیم کے ساتھ دوسری بھی عبادت گاہیں بنا رکھی تھیں کہ جہاں کعبہ کی طرح طواف کرتے تھے اور ان کے لئے ہدیہ بھیجتے تھے او روہاں پر قربانی کرتے تھے۔(٤)کعبہ کے پاس ان کی نمازیں صرف شور و غل او رتالی بجاکر ہوتی تھیں۔(٥) قبیلۂ قریش والے احرام حج اور ''لبیک''
______________________
(١) سورۂ زمر،(٣٩)(َلاَلِلَّہِ الدِّینُ الْخَالِصُ وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ َوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُہُمْ ِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا ِلَی اﷲِ زُلْفَی ِنَّ اﷲَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِی مَا ہُمْ فِیہِ یَخْتَلِفُونَ ِنَّ اﷲَ لاَیَہْدِی مَنْ ہُوَ کَاذِب کَفَّار )آیت ٣۔
(٢) سورۂ مریم، (١٩)( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اﷲِ آلِہَةً لِیَکُونُوا لَہُمْ عِزًّا)آیت ٨١.
(٣) سورۂ یٰس،(٣٦)( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اﷲِ آلِہَةً لَعَلَّہُمْ یُنصَرُونَ )آیت ٧٤.
(٤) ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی، ١٣٨٤ھ۔ق)، ج١، ص٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٨٥.
(٥) سورۂ انفال، آیت ٣٥۔
کہتے وقت خدا کے نام کے ساتھ بتوں کا نام لیتے تھے۔(١)
اور اس طرح سے حج ابراہیمی کو جو کہ توحید کا عالی ترین نمونہ ہے شرک سے آلودہ کرتے تھے۔ دو قبیلے اوس او رخزرج، حج کے اعمال انجام دینے کے بعد، منیٰ میں جاکر سرمنڈوانے کے بجائے اپنے شہر (یثرب) کی جانب ''بت منات'' (جو کہ مکہ کے راستے میں دریا کے کنارے پر واقع ہے)،(٢) کے پاس سرمنڈاتے تھے۔(٣) مشرکین (خواہ مرد ہوں یا عورت) کعبہ کا برہنہ طواف کرتے تھے۔(٤) ظاہر ہے کہ کعبہ کے پا س لوگوں کے سامنے اس طرح کے اعمال کا کتنا برا منظر رہتا رہاہوگا۔
قریش اپنے بتوں کو کعبہ کے پاس رکھتے تھے اوراسے مشک وعنبرسے معطر کرتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے پھر اس کے چاروں طرف جمع ہوکر لبیک کہتے تھے۔(٥) اگرچہ وہ ظاہری طور پر چار مہینوں کی حرمت کا خیال کرتے تھے لیکن اپنے کواس حکم سے آزاد رکھنے کے لئے ان مہینوں کے نام او رظاہری لحاظ سے ان کو تبدیل کرکے حرام مہینوں کو بعد میں کردیتے تھے۔(٦)
______________________
(١) لبیک اللہم لبیک، لاشریک لک لبیک الا شریک ہو لک تملکہ و ما ملک۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٠؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣؛ شہرستانی، الملل و النحلل، ج٢، ص ٢٤٧؛ ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ٨٨.)
(٢) ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨، ص ١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٨٨؛ آلوسی٧ بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٠٢۔
(٣) ہشام کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤۔
(٤) ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٧٨ اور ١٨٢؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٤؛ صحیح مسلم بشرح النووی، ج١٨، کتاب التفسیر، ص ١٦٢۔
(٥) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج ١٤، ص ٤١٤۔
(٦)سورۂ توبہ،٩، آیت ٣٧؛ ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٨٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٥.