|
دین یہود
دین یہودکا ظہور اسلام سے چند صدی قبل عربستان میں نفوذ ہواتھا اور بعض یہودی نشین علاقے ظہور میں آچکے تھے جن میں سے سب سے معروف ''یثرب'' تھا جسے بعد میں ''مدینہ'' کہا گیا ''تیمائ،(١) ''فدک''(٢) اور ''خیبر''(٣) بھی یہودی نشین علاقے تھے۔ یثرب کے یہودی تین گروہ میں بٹے ہوئے تھے:١۔ طائفہ ٔ بنی نظیر ٢۔ طائفہ ٔ بنی قینقاع ٣۔ طائفہ ٔ بنی قریظہ۔(٤)
______________________
(١) یاقوت حموی کے بقول، تیماء ایک چھوٹا سا شہر تھا جو شام او روادی القریٰ کے بیچ پڑتا تھا (معجم البلدان، ج٢، ص ٦٧)، او روادی القری مدینہ او رشام کے بیچ مدینہ کا ایک علاقہ تھا۔ وہی حوالہ، ج٥، ص ٣٤٥.) لہٰذا تیماء شام اور مدینہ کے بیچ پڑتا تھا ؛ مقدسی چوتھی صدی کا اسلامی دانشور ، کہتا ہے کہ ''تیمائ'' ایک ایسا قدیمی شہر ہے جوایک وسیع زمین میں کھجوروں کے درختوں سے پُر بے شمار باغات پانی کی فراوانی ابلتے ہوئے چشموں کی بنا پر دلکش اور حسین منظر جو کہ ایک لوہے کی جالی سے تالاب میں گرتاہے اور پھر باغوں میں جاتا ہے، میٹھے پانی کے کنویں بھی موجود تھے، جنگل میں واقع تھا لیکن اب اس کا اکثر حصہ ویران ہوگیا ہے'' (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ترجمہ: علی نقی منتروی (گروہ مولفین و مترجمین ایران)
(٢)فدک ایک گاؤں ہے جس کا فاصلہ مدینہ سے دو یا تین روز پیدل مسافت کے ذریعہ طے ہوتا ہے (معجم البلدان، ج٤، ص ٢٣٨)
(٣)خیبر ایک ایسا علاقہ ہے جو تقریباً ٩٦ میل (١٩٢کلو میٹر) مدینہ کے شمال کی جانب (شام کی طرف) پڑتا ہے کہ جہاں سات قلعے کاشتکاری کی زمینیں اور بہت سے کھجور کے باغات تھے (معجم البلدان، ج٢، ص ٤٠٩) اس کا فاصلہ مدینہ سے اس سے بھی کم او رزیادہ بیان کیا گیا ہے (ابوالفداء تقویم، ترجمہ: عبد المحمد آیتی (انتشارات بنیاد فرہنگی ایران)، ص ١٢٣۔
(٤)حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ص ٦٤.
مدینہ میں مذکورہ تین قبیلوں کے علاوہ دو قبیلے اوس او رخزرج بھی رہتے تھے جو تیسری صدی عیسوئی کے نزدیک، یمن سے آئے تھے۔ یہ دونوں قبیلے یثرب میں یہودیوں کے مقیم اور مستقر ہو جانے کے بعد وہاں مستقر ہوئے تھے۔ یہ دو قبیلے بت پرست تھے اور یہودیوں کے پہلو میں رہنے کی بنا پران میں سے کچھ لوگ، دین یہود کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ طائف میں بھی کچھ یہودی رہتے تھے جویمن او ریثرب سے نکالے گئے تھے۔(١)
یہودی عربستان کے جس علاقہ میں رہتے تھے وہاں اپنی مہارت کی بنا پر زراعت میں مشہور تھے یہ لوگ مدینہ میں بھی زراعت کے علاوہ دوسرے ہنر کی وجہ سے جیسے آہنگری، رنگریزی، اوراسلحوں کے بنانے کی بنا پر مشہور ہوگئے تھے۔(٢)
دین یہود کے ماننے والے قبیلۂ حمیر ،بنی کنانہ، بنی حارث بن کعب، کندہ(٢) غسّان و جذام میں بھی پائے جاتے تھے۔(٣)
یمن میں یہودی
یہودی جس علاقہ میں رہتے تھے اپنے عقائد و افکار او رتوریت کی تعلیمات کو ترویج دیتے تھے۔ یمن بھی ایک زمانہ تک یہودیوں کے زیر نفوذ رہا ہے اور ذونواس (بادشاہ یمن ) نے جو کہ یہودی ہوگیاتھا۔
______________________
(١) بلاذری، فتوح البلدان (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٦٧۔
(٢) احمد امین، فجر الاسلام، ص ٢٤
(٢) ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ(قم: منشورات الرضی)، ط١، ص ١٤١٥ھ.ق)، ص ٦٢١؛ الامیر ابو سعید بن نشوار الحمیری، الحور العین، تحقیق: کمال مصطفی (تہران: ١٩٧٢.)، ص ١٣٦، کتاب المستطرف ، ج٢، ص ٨٨، پر قبیلۂ حمیر کا نام (نمیر) لکھا ہوا ہے جو غلط چھپا ہے۔
(٣) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٥٧.
عیسائیوں کو کچل کر، دین یہود کے قانونی دین ہونے کا اعلان کردیاتھا۔ بعض مورخین کے عقیدے کے مطابق ذونواس کا یہ اقدام مذہبی جذبہ کے تحت نہیں تھا بلکہ قومی اور وطن پرستی کے جذبہ کی خاطر تھا۔ اس اعتبار سے کہ نجران کے عیسائی ملک حبشہ سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور حکومت حبشہ، نجران میں عیسائیوں کی حمایت کو مدعا بناکر ، یمن کے امور میں مداخلت کرتی تھی اور اس طرح وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔ ذونواس اوراس کے طرفداروںنے چاہا کہ وہاں پر عیسائیوں کو کچل کر، حبشہ کو اس علاقہ اورمرکز سے محروم کردیں۔ اسی بنا پر اس نے عیسائیوں کا قتل عام شروع کردیا۔
نجران کے عیسائیوں کے قتل عام کے بعد ان میں کا ایک آدمی بچ گیا تھا جو بھاگ کر حبشہ پہنچا اوروہاں کے بادشاہ سے مدد مانگی ۔ جس کی بنا پر دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی اور ذونواس ٥٢٥ئ میں شکست کھا گیا او رنجران کا علاقہ دوبارہ پیغمبر اسلامۖ کے زمانہ تک عیسائیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔(١)
______________________
(١) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣، ٢٤ اور ٢٧؛ رجوع کریں: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٣٧؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٥، ص ٢٦٦
صابئین
بعض مورخین اس گروہ کے آغاز کو ''سلطنت تہمورث'' کے زمانہ میں بتاتے ہیںاو راس کا بانی ''بوذاسف'' کو جانتے ہیں۔ ابوریحان بیرونی (٤٤٠ھ۔ ٣٦٠ھ) اس گروہ کے آغاز کی تاریخ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: ''ہم ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خداوند عالم کی وحدانیت کے قائل ہیں اوراس کو ہر طرح کے صفات بد سے منزہ اور بے عیب جانتے ہیں جیسے وہ کہتے ہیں :خدا محدود نہیںہے، دکھائی نہیںدیتا ، ظلم نہیں کرتا، تدبیر عالم کو فلک اور آسمانی کہکشاؤوں کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حیات افلاک اوراس کے نطق، شنوائی اور بینائی کے معتقد
ہیں،انوار کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ لوگ ستاروں پر عقیدہ رکھنے کی بنا پر، ان کی حرکتوں سے زمین کے مقدرات کو مربوط جانتے تھے اور ان کے مجسموں کو اپنے معبد میں نصب کرتے تھے ۔ جیسا کہ انھوں نے سورج کے مجسمہ کو بعلبک میں، چاند کے مجسمہ کو حران میں اور زھرہ کے مجسمہ کوایک قریہ میں نصب کر رکھا تھا۔(١)
صابئین کامرکز ''حران'' (٢)شہر تھا۔ یہ دین ایک زمانہ میں روم، یونان، بابل اوردنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیل گیاتھا۔(٣)
قرآن مجید نے ان میں سے تین مقامات کاذکر کیا ہے۔(٤) یہ فرقہ ہمارے زمانے میں ختم ہوتا جارہا ہے ان میں سے کچھ لوگ صرف خوزستان(٥)، اور عراق(٦) میں باقی رہ گئے ہیں۔(٧)
______________________
(١) الآثار الباقیہ، ترجمہ: اکبر دانا سرشت، (تہران: ط ٣، ١٣٦٣)، ص ٢٩٥۔ ٢٩٤.
(٢) حران، دجلہ اور فرات کے درمیان ایک بڑا شہر تھا لیکن آج ویران ہوگیاہے اورایک کھنڈر دیہات میں تبدیل ہوگیاہے .صدر اسلام میں یہ شہر آباد تھا اور اور جید علماء یہاں سے پیدا ہوئے ہیں (معجم البلدان، ج٢، ص ٢٣٦۔ ٢٣٥؛ تقویم البلدان، ص ٣٠٧۔ ٣٠٦؛ محمد معین: فرہنگ فارسی، (تہران: امیر کبیر)، ج٥، ص ٤٥٧.
(٣) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج١٠، ص ٢٧٩.
(٤) سورۂ بقرہ، ٢، آیت ٦٢؛ سورۂ مائدہ،٥، ٦٩؛ سورۂ حج، ٢٢، آیت ١٧.
(٥)دریائے کارون کے ساحلی علاقے، اہواز،خرم شہر، آبادان، شادگان اور دشت میشان ہیں)
(٦) بغداد میں دجلہ او رفرات کے ساحلی علاقے حلہ، ناصریہ، عمارہ، کوت، دیالی، کرکوک ،موصل ،رمادی ،سلیمانیہ ، اور کربلا ہیں۔
(٧) کلمۂ صابئی کے ریشہ اوراصل کے سلسلہ میں اور کیا یہ عربی کلمہ ہے یا عبری؟ اور اس کے معنی کیا ہیں اور نیز صابئیوں کے عقائد اور یہ کسی نبی کے ماننے والے ہیں ، رجوع کریں آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٢٨۔ ٢٢٣؛ یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، (تہران: موسسہ مطبوعاتی فراہانی، ط ٢، ١٣٤٦)، ص ٤٣٢۔ ٤٣١؛ شہرستانی، الملل و نحل، تحقیق: محمد سید گیلانی (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٣٣٠، ج٢، ص ٥.
مانی دین
دین زردشتی، مزدکی اور مانوی کا منبع او رمرکز ایران رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادیان ظہور اسلام سے قبل بھی حجاز میں موجودتھے یانہیں؟ اس بار ے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض معاصر مورخین کا کہنا ہے کہ یہ ادیان ظہور اسلام سے قبل حجاز میں موجودتھے لیکن تاریخی دستاویزات اس علاقہ میں صرف دین مانوی کے وجود کی تصدیق کرتی ہیں۔
یعقوبی لکھتا ہے: عربوں کا ایک گروہ دین یہودیت کا گرویدہ ہوگیاتھا اور ایک گروہ دین عیسائیت کو ماننے لگا تھا اور ایک گروہ جو زندیق ہوگیاتھااس نے دین ثنوی (دوگانہ پرستی) کو اپنا لیا تھا۔(١)
اگرچہ کلمۂ ''زندیق'' ملحد اور منکر خدا کے معنی میںاستعمال ہوتا تھا لیکن صاحبان نظر کے عقیدے کے مطابق، دراصل ایک ایسا فرقہ تھا جو دین مانوی کی پیروی کرتا تھا اور پھر یہ کلمہ تمام مانویوں کے لئے بولا جانے لگا۔ اس رو سے کافر اور دھری اس میں شامل ہوگئے اسی وجہ سے قدیم حوالوں میں ''زندقہ'' سے مراد دین مانی ہے(٢) اور دین مانوی عیسائیت اور یہودیت سے مل کر بنا ہے۔(٣)
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٦.
(٢) احمد امین، فجر الاسلام، ص ١٠٨؛ داؤد الہامی، ایران و اسلام (قم: مرکز نشر جدید)، ص ٣٩٢۔ بیرونی اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ مزدکیان زند، کی پیروی کرنے کی وجہ سے زنادقہ کہے جاتے ہیں۔ لکھتاہے: ''مانویان کو بھی مجازی طور سے زنادقہ کہتے ہیں۔ اور فرقہ باطنیہ کو بھی اسلام میںایسے کہتے ہیں: کیونکہ یہ دو گروہ خداوندعالم کو بعض صفات سے متصف کرنے میںاو رنیز ظواہر کی تاویل کرنے میں مزدکیہ کے مشابہ ہیں'' (الآثار الباقیہ، ترجمہ: اکبردانا سرشت، ص ٣١٢) .
عبد الحسین زرین کوب اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ''لفظ زندیق کہ جس کی اصل زندیک پہلوی ہے، جوآج کل تقریباً مسلم سمجھا جاتاہے، اسلامی عہد میں اس سے قطع نظر کہ یہ مانوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تمام ایسے افراد جو ایک طرح سے شک و الحاد اور بے اعتقادی میں متہم تھے ان کو بھی زندیق کہا جاتا ہے؛ ( نہ شرقی نہ غربی، انسانی، ص ١١٠)۔
(٣) شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٤، ایک مستشرق کہتا ہے: اگر دین مانی کوایسا زردشتی دین سمجھیں جس میں مسیحیت کی آمیزش ہوئی ہے تو یہ کلام حقیقت سے بہت قریب ہے بہ نسبت اس کے اسے ایسا عیسائی دین سمجھیں جس میں زردشت کی آمیزش ہوئی ہے۔ (احمد امین، فجر الاسلام، ص ١٠٤)، مانی او راس کے دین کے بارے میں رجوع کریں: عبد الحسین زرین کوب، نہ شرقی نہ غربی، انسانی، ص ٧٦۔ ٧٢۔
مورخین کے ایک گروہ نے وضاحت کی ہے کہ زندقہ کا قریش کے درمیان وجود تھااور اس کو، انھوں نے اہل حیرہ سے اپنایا تھا۔(١) اور اس دین کو حیرہ سے لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مراد ''دوگانہ پرستی'' ہے کیونکہ حیرہ، ایران کا پڑوسی اوراس کے زیر اثر تھا اورادیان ایرانی جنکی بنیاد دوگانہ پرستی پر قائم تھی، وہاں تک پہنچ گئے تھے۔
ستاروں کی عبادت
زمانۂ جاہلیت میں جزیرة العرب میں رہنے والوں کا ایک گروہ، بہت سارے دوسرے علاقہ کے لوگوں کی طرح اجرام آسمانی جیسے سورج، چاند اور بعض ستاروں کی عبادت کرتا تھا۔ اور انہیں بہت ہی
______________________
(١) ابن قتیبہ، المعارف (قم: منشورات الرضی، ط١، ١٤١٥ھ.ق)، ص ٦٢١؛ الابشہی، المستطرف فی کل فن مستظرف، ج٢، ص ٨٨؛ ابن رستہ، املاق النفسیہ، ترجمہ: حسین قرہ چانلو، (تہران: امیر کبیر، ط١، ١٣٦٥)، ص ٢٦٤؛ احمد امین، فجر الاسلامۖ ص ١٠٨؛ محمد بن حبیب بغدادی کے بقول، قریش سے صخر بن حرب (ابوسفیان) عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف، ابوعزہ (عمربن عبداللہ جمحی) نضر بن حارث، نبیہ و منبہ (مجاج بن عامر سہمی کے لڑکے) عاص بن وائل سہمی، اور ولید بن مغیرہ مخرومی، اس گروہ میں تھے۔ (المنمق فی اخبار قریش) ص ٢٨٩۔ ٢٨٨؛ المحبر ص ١٦١)، لیکن اسلام کے مقابلہ میںان کا کوئی بھی کلام یا موقف اس مطلب کی تصدیق نہیں کرتا ہے، بلکہ شواہد و قرائن سے ان کی بت پرستی کا پتہ چلتا ہے ۔ عبد الحسین زرین کوب، زندیق و زنادقہ کی بحث میں لکھتے ہیں : ''... لفظ زندقہ جیسا کہ ثعلب سے نقل کیا گیا ہے دہریہ کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ دہریہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حوادث اور امور عالم کوایک صانع مختار کی طرف نسبت دینے کے منکر ہوئے ہیں قریش کے زنادقہ کے نام ابوسفیان ، عقبہ بن معیط، نضر بن حارث، عاص بن وائل او رولید بن مغیرہ بھی انھیں میں سے ہیں جودرحقیقت اس طرح کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قریش کے بزرگوں اور اہم شخصیتوں کی خبروں اوران کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ زندقہ ان کو کہا گیا ہے جو صانع عالم، حشر و حیات، عقبیٰ کے عقیدہ کا انکار کرتے تھے۔ (نہ شرقی نہ غربی، انسانی ، ص ١٠٧)۔
طاقتور اور قوی شے سمجھتا تھا۔ جن کے ذریعہ دنیا اور دنیا والوں کے انجام کا پتہ چلتا تھا مثلاً قبیلۂ خزاعہ او رحمیر، ستارۂ ''شعریٰ'' کو جو کہ ایک ثابت او ردرخشان ستارہ ہے اس کی پرستش کرتے تھے اور اسی طرح ابوکبشہ جو پیغمبر اسلامۖ کے مادری اجداد میں سے تھے، وہ اس ستارہ کی پرستش کرنے والوں میں سے تھے۔(١)
قبیلۂ طیٔ کے کچھ لوگ ''ستارۂ ثریا'' کی پرستش کیا کرتے تھے۔(٢) افلاک اور ستاروںکی پرستش کا مسئلہ اتنا رائج ہوگیا تھاکہ عرب کے افسانوں ادبیات اور خرافات میںاس کا ذکر ملتا ہے۔(٣) صابئین جو کہ سورج اور چاندکی پرستش کیا کرتے تھے ان کے علاوہ دوسرے تمام بت پرست بھی ان دو آسمانی موجود کو مقدس سمجھتے تھے۔(٤)
قرآن مجیدنے آسمانی اجرام کی پرستش کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی پرستش کی مذمت کی ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ یہ محدود موجودات، خود پروردگار عالم کی مخلوق اوراس کے فرمان اورارادہ کے تابع ہیں اور بارگاہ پروردگار میں سجدہ ریز او رخاضع ہیں۔ اس وجہ سے وہ خداوند عالم کی جانب سے بشر کے لئے دلیل اور راہنما قرار دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ ساری چیزیں اس کی قدرت او رعلم کی نشانیاں ہیں۔ ''اور اسی نے تمہارے لئے رات اور دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو مسخر کردیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کے لئے قدرت کی بہت ساری نشانیاں پائی جاتی ہیں''۔(٥)
اور اسی خدا کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور آفتاب و ماہتاب ہیں لہٰذا آفتاب و ماہتاب کو
______________________
(١) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج١٩، ص ٤٩.
(٢) آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٤٠.
(٣) رجوع کریں: وہی حوالہ، ص ٢١٥، ٢٢٠، ٢٣٠، ٢٣٧، ٢٣٩، ٢٤٠، اسلام و عقائد اور آراء بشری، ص ٢٩٧۔ ٢٩٥۔
(٤) طباطبائی ، گزشتہ حوالہ، ج١٧، ص ٣٩٣۔
(٥) سورہ نحل، ١٦، آیت ١٢.
سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اگر واقعاً اس کے عبادت کرنے والے ہو''(١) اور وہی ستارہ شعریٰ کا مالک ہے''(٢)
یہ آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ بعثت پیغمبر اسلامۖ کے زمانہ میںان اجرام کی پرستش اور عبادت رائج تھی۔
جنات اور فرشتوں کی عبادت
اس بات سے قطع نظر کہ ہم نے سابق میں مختلف ادیان کے ماننے والوں کا تذکرہ کیا ہے، عرب میں ایسے گروہ بھی موجود تھے جو جِن اور فرشتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ عبد اللہ بن زبعری (جو کہ مکہ کا ایک سردار تھا) کہتا ہے ہم لوگ فرشتوںکی عبادت کرتے تھے۔ یہودی، عزیر کی اور عیسائی عیسیٰ کی پرستش کرتے تھے، محمدۖ سے پوچھیں کیا ہم سب ان معبودوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے؟۔(٣)
بنو ملیح جو قبیلۂ خزاعہ کی ایک شاخ تھی وہ جن کی عبادت کرتے تھے(٤)، کہتے ہیں جن لوگوں نے سب سے پہلے جن کی پرستش کی وہ یمن کے لوگ تھے اس کے بعد قبیلۂ بنی حنیفہ تھا اور پھر آہستہ آہستہ عربوں میں یہ بات رائج ہوگئی۔(٥) بعض مفسرین کے کہنے کے مطابق ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ خداوند عالم نے جنات کے ساتھ شادی کی ہے اور فرشتے اس کی اولاد ہیں۔(٦)
خداوندعالم نے قرآن مجید میں جن اور فرشتوںکی عبادت اور ان کے بارے میں غلط اعتقاد کی مذمت فرمائی ہے۔ اور ان لوگوںنے جنات کو خدا کا شریک بنادیا ہے حالانکہ خدا نے انھیں پیدا کیا
______________________
(١) سورۂ فصلت، ٤١، آیت ٣٧.
(٢) سورۂ نجم، ٥٣،آیت ٤٩.
(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٣٨٥۔
(٤) ہشام بن محمد کلبی، کتاب الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نائینی، تہران: ١٣٤٨، ص ٤٢.
(٥) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢.
(٦) طبرسی، مجمع البیان، شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق، ج٨، ص ٤٦.
ہے۔(١) اور جس دن خداسب کو جمع کرے گا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے۔ تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز او رہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اوران کی اکثریت انھیں پر ایمان رکھتی تھی۔(٢)
یہ بالکل واضح ہے کہ یہ سوال، استفہامی پہلو رکھتا ہے اور اس سے مجہول کا پتہ نہیں چل سکتا ہے کیونکہ خداوند عالم تمام چیزوں سے واقف ہے بلکہ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ حقائق فرشتوں کی زبان سے بیان ہوں تاکہ ان کی عبادت کرنے والوں کا سرجھکا رہے اور فرشتوں کے جواب سے بھی بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اس بات سے راضی نہیں تھے کہ انسانوں کا ایک گروہ ان کی پرستش کرے۔ لیکن جنّات اس بات سے راضی تھے۔
بہرحال ان دو ناقابل دید موجودات کی پرستش، ثنوی آئین سے مشابہت رکھتی تھی کیونکہ وہ لوگ جنات کو باعث شر و اذیت اور فرشتوںکو سرچشمۂ نور اور رحمت و برکت سمجھتے تھے بعض عرب،رات کے وقت جب کسی درہ میں داخل ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ اس سرزمین کے احمقوں کے شر سے ان کے بزرگ اور رئیس سے پناہ مانگتا ہوں۔(٣) اور عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بات کہنے سے ان کا بڑا جِن، احمقوں کے شر سے ان کو محفوظ رکھتا ہے ۔ اس بات کی تصدیق قرآن میں کلام خدا کے ذریعہ ہوئی ہے۔ ''اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے بعض لوگوں کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انھوں نے گرفتاری میں اوراضافہ کرلیا''۔(٤)
______________________
(١) سورۂ انعام، ٦،آیت ١٠٠.
(٢) سورۂ سبا ، ٣٤،آیت ١٤۔ ٤٠.
(٣) اعوذ بعزیز ہذا الوادی من شر سفہاء قومہ (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٢.
(٤)و ''انہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رہقاً'' سورۂ جن،٧٢، آیت٦
|
|