عرب اور ان کے پڑوسیوں کی تہذیب
علم و ہنر کے لحاظ سے عرب کے حالات کا تجزیہ کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب کے جاہل اس زمانہ کے دو متمدن پڑوسی ملک یعنی ایران اور روم کے ساتھ تجارتی روابط اور مبادلہ کی بنا پر وہاں کے تمدن سے بہرہ مند تھے؟ او رکیا یہ روابط اور تعلقات ان کی زندگی میں ا نقلاب کا باعث بنے تھے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہیئے کہ حجاز کے لوگ اس علاقے کی قدرتی اور جغرافیائی صورت حال کے لحاظ سے نہ صرف سیاسی اعتبار سے اس زمانے کی حکومتوںکے اثر و رسوخ سے دور تھے بلکہ تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے بھی ان کے دائرہ نفوذ سے خارج رہے ہیں عربوں کے لئے پڑوسی ملکوںکی تہذیب اور کلچر سے متاثر ہونے کے صرف تین راستے تھے:
١۔ تجارت ٢۔ ایران و روم کے زیر نفوذ حکومتیں (حیرہ او رغسان) ٣۔ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی)لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ اثرات کس حد تک تھے۔ اس سلسلہ میں بعض مورخین کے
تاثرات مبالغہ آرائی سے خالی نہیں ہیں، جیسا کہ بعض نے کہا ہے:
قبائل عرب کے تعلقات ایران اور روم کے ساتھ ہونے کی بنا پر ایک حد تک وہ ان دونوں ملکوںکے کلچر اور تہذیب سے واقف ہوگئے تھے۔ عرب کے لوگ جب بھی تجارت کے لئے ایران اور روم جایا کرتے تھے تو ان دونوں ملکوں میں تہذیب اور کلچر کے نمونہ دیکھتے تھے۔ اور متوجہ ہوتے تھے کہ ایرانیوں اوررومیوں کی زندگی، عربوں کی زندگی سے کتنا فرق کرتی ہے۔ جیسا کہ ان کے آثار کو واضح طور پر زمانۂ جاہلیت کے اشعار میں دیکھا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مسافر اور تاجر حضرات بہت سارے الفاظ اور قصوں کو ایران او روم کی سرزمین سے عربوں کے لئے تحفہ کے طور پر لیجاتے تھے اور اس کے ضمن میں ایرانیوں اور رومیوں کے بعض عقائد اور افکار بھی ان تک پہنچ جاتے تھے۔(١)
لیکن یہ خیال رہے کہ ان دونوں ملکوںمیں حجاز کے تاجروںکی آمد و رفت بہت زیادہ ہونے کے باوجود ان کے تمدن اور فکری ارتقاء میں مؤثر نہیںبن ہوسکی کیونکہ ان تمدنوںکی روشنی بہت ہی تنگ راہ گزر سے پہنچتی تھی او رکبھی تودوسروں سے منقول باتوں میں تحریف پائی جاتی تھی ۔ جیسا کہ بعض واقعات جوایرانیوںاو ررومیوں کے سلسلے میں نقل کئے گئے ہیںان میں تحریف پائی گئی ہے درحقیقت اس زمانہ کے عرب، علم و دانش کو اپنے پڑوسیوں سے حاصل نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ اس سلسلے میں ان کے لئے رکاوٹیں درپیش تھیں کہ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
١۔ قدرتی رکاوٹ: جیسے پہاڑ، سمندر، صحراء وغیرہ جس کی بنا پر پڑوسیوں سے عربوں کے رابطے دشوار او رمشکل ہوگئے تھے۔
٢۔ عربوں کی اجتماعی زندگی اور عقلی و فکری سطح: اس زمانے کے ایرانیوں اور رومیوں سے
______________________
(١) حسن ابراہیمی، تاریخ سیاسی اسلام ، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ(تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ج١، ص ٣٤.
بہت فاصلہ رکھتی تھی جبکہ دوسری قوموں کے تمدن کو اپنانا ثقافتی نزدیکی کی صورت میں ممکن تھا۔
٣۔ عربوںکے درمیان جہالت: یہ چیز سبب بنی کہ جو لوگ رومیوں اور ایرانیوں سے رابطہ رکھتے تھے ان کے درمیان بعض حکمت آمیز باتیں یا داستانیںاور محاورات یا تاریخی واقعات اس انداز سے نقل ہوں کہ ناقل آسانی سے اس کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر سکے اور بدو عرب یا دوسرے لوگ اس کو سمجھ سکیں اس وجہ سے ان کے درمیان رابطہ سطحی حد تک تھا اور وہ دقیق او رعمیق آگاہی سے بے خبر تھے۔
لہٰذا یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے عربوں کے تعلقات صرف ان کی مادی اور ادبی زندگی میں مؤثر واقع ہوئے ہیں۔(١)
یہودیوں کی موجودگی کے اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہودی حضرت موسیٰ کے زمانے سے اوراس کے بعد رومیوں کے مظالم، خاص طور سے یروشلم کی تباہی و بربادی کے بعد حجاز کی طرف ہجرت کرگئے۔(٢) حجاز میں یہودیوں کی آمد سے اس علاقہ کی زندگی کے حالات میں کافی تبدیلی آئی۔ اور توریت اور تلمود کی داستانیں بھی عربوں میں منتقل ہوگئیں۔(٣)
ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ عربوں کے مقابلہ میں یہودیوں کی فکری اور مذہبی سطح بلند تھی. ظہور اسلام کے بعد بھی وہ بعض مسلمانوں سے اپنے مذہبی سوالات پوچھتے تھے۔(٤) لیکن چونکہ دین یہود (عیسائیوں کے دین کی طرح) بری طرح سے تحریف کا شکار ہوگیاتھا،لہٰذا عرب، جو افکار یہودیوں سے لیتے تھے وہ بیہودہ اور مسخ شدہ ہوا کرتے تھے یہودیوں کی تعلیم نہ صرف یہ کہ ان کے لئے راہ گشا نہ تھی بلکہ ان کی گمراہی میں اضافہ کا باعث تھی۔
______________________
(١) رجوع کریں: فجر الاسلام، ص ٢٩.
(٢) یہودی عام طور سے مدینہ میں خیبر ، فدک، او رتیماء میں رہتے تھے او رکچھ طائف میں بھی تھے لیکن کوئی ایسی نشانی نہیں ملتی جس سے پتہ چلے کہ مکہ میں بھی یہودی رہا کرتے تھے۔
(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر ١٣٣٣)، ج١، ص ١٦، تلخیص کے ساتھ)
(٤) صحیح بخاری، دار مطابع الشعب، ج٩، ص ١٣٦، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ.
ایران اور روم کے مقابلہ میںعربوں کی کمزوری اور پستی
جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ حجاز کے لوگ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ایک قبیلہ کی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور زیادہ تر بادیہ نشین ہوا کرتے تھے، ان کے درمیان ایک مرکزی حکومت نہیں تھی جوان کو منظم کرسکے ۔ وہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا اور قبائلی جنگوں میں الجھے رہا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ذلیل اور کمزور تھے اور اس زمانہ میں دوسری قوموںکے نزدیک ہرگز عزت نہیں رکھتے تھے اور جیسا کہ یہ قوم، قبیلہ اور خاندان کے دائرہ میں محصور تھی اور خیموں کی محدود فضا، اور اونٹوں کے چرانے سے تعصب، محرومیت اور بے نظمی کا شکار تھے۔ لہٰذا وہ ہرگز اپنے ملک اورجزیرة العرب کے حدود سے باہر نکل کر نہیں سوچتے تھے۔ او رنہ صرف ان کے ذہنوں سے پڑوسی ملکوں پر فتح و کامرانی کا تصور ختم ہوگیا تھا بلکہ اس زمانہ کی قدرتمند طاقتوں، یعنی روم اور ایران کے سامنے بری طرح سے کمزوری اور حقارت کا احساس کرنے لگے تھے جیسا کہ ایک شخص جس کا نام قتادہ تھا جو کہ خود ایک عرب تھا اس زمانے کی عرب قوم کو حقیر و ذلیل، پست و گمراہ اور گرسنہ ترین قوم تصور کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''وہ لوگ دوشیروں یعنی بڑی طاقتوں ایران او رروم کے درمیان پھنسے ہوئے تھے اوران سے ڈرتے تھے۔(١)
اس بات کی شہادت اس طرح سے دی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامۖ نے مکہ میںاپنی دعوت کے زمانے میں ایک دن عرب کے کچھ بزرگوں سے گفتگو کی اوران کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات جو فطری اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ان کے سامنے پڑھیں تو وہ سب کے سب متأثر ہوگئے، ہر ایک نے اپنے طور سے تعریف کی لیکن ان کے بزرگ مثنی بن حارثہ نے کہا:
______________________
(١) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص٢٥ (تفسیر آیۂ... و کنتم علی شفاحفرة من النار...) زاہیة قد ورة ،الشعوبیة ، و اثرہ الاساسی،الاجتماعی فی الحیاة الاسلامیة فی عصر العباسی الاول. (بیروت: دار الکتاب اللبنانی، ط١، ١٩٧٢ئ)، ص٣٤؛ احمد امین، ضحی الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضہ، ط٧)، ج١، ص١٨.
ہم دو پانی کے درمیان گھرے ہوئے ہیں ایک طرف سے عرب کا پانی اور ساحل اور دوسری جانب سے ایران اور کسریٰ کی نہروں کا پانی، کسریٰ ہم سے عہد و پیمان باندھ چکا ہے کہ کوئی حادثہ نہیں رونما ہونے دیں گے او رکبھی خطا وار کو پناہ نہیں دیں گے۔ شاید تمہارے آئین کو قبول کرنا، شہنشاہوں کی خوشی کا باعث قرار نہ پائے اگر اس سرزمین پر ہم سے کوئی خطا سرزد ہو تو قابل چشم پوشی ہے لیکن ایسی خطائیں ایران کے علاقہ میں (کسریٰ کی طرف سے) قابل بخشش نہیںہیں۔(٢)
______________________
(٢) محمد ابوالفضل ابراہیم ( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٨٢ھ.ق)، ج٢، ص ٣٥٨؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط٢، ج٣، ص ١٤٤۔
موہوم افتخار
مورخین، عربوں کے احساس حقارت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک سال قبیلہ بنی تمیم، خشک سالی میں گرفتار ہوگیا اور کسریٰ نے ان کو اجازت نہیں دی کہ عراق کے سرسبز و شاداب او رزرخیز علاقہ سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں تک کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک شخص جس کا نام حاجب ابن زرارہ تھا اس قبیلہ کی نمائندگی میں کسریٰ کے دربار میں گیا اور اس سے مدد مانگی کسریٰ نے کہا: ''تم عرب لوگ خیانت کار ہو، اگر اس بارے میں تم کو اجازت دیدوں تو تم بلوا اور فتنہ برپا کردو گے۔ لوگوں کو میرے خلاف ورغلاؤ گے اور مجھے رنجیدہ اور ملول کروگے۔ حاجب نے کہا: میں ضمانت لیتا ہوں کہ اس قسم کی بات پیش نہیں آئے گی۔ کسریٰ نے پوچھا: کیا ضمانت رکھتے ہو؟'' اس نے کہا:اپنی کمان تمہارے پاس گروی رکھ دیتا ہوں۔ کسریٰ نے قبول کرلیا اور حاجب نے اپنی کمان (جو کہ شجاعت و دلیری کا نمونہ اور بہادری کی علامت سمجھی جاتی تھی) کسریٰ کے پاس گروی رکھ دی اور اس طرح سے کسریٰ کی موافقت حاصل کرلی۔ حاجب کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے عطارد نے باپ کی کمان کسریٰ
سے واپس لے لی۔(١)
اس واقعہ کے بعد ایک زمانہ تک قبیلۂ بنی تمیم اس طرح کے اغوا شدہ افراد کو کسریٰ کی جانب سے قبول کرنے کو اپنے لئے بہت بڑا فخر سمجھتے تھے۔(٢) دوسری جانب سے چونکہ قبیلۂ ''بنی شیبان، عجلیوں اوریشکریوں'' کی مدد سے جنگ ''ذی قار'' میں خسرو پرویز پر فتح پاگیا تھا۔(٣)لہذا اس کامیابی کو بے انتہا اپنی عزت و سربلندی کا باعث سمجھتا تھا اوراس کے باوجود کہ وہ جیت گئے تھے۔
پھر بھی اس پر ان کو یقین نہیں آتا تھا اور ہر وقت اس کے بار ے میں فکر مند اور خوف زدہ رہتے تھے۔ اور ان کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کامیابی اور فتح کو عربوں کی عجم پر کامیابی کہہ سکیں ۔ بلکہ اس کوایک اتفاقی حادثہ (نہ کہ عربوںکا افتخار) او رجنگ میں درگیر تین قبیلوں کا افتخار سمجھتے تھے۔ اس کامیابی کی بنا پر ان کی خود ستائی اس حد تک بڑھ گئی کہ ابو تمام(٤) شاعر نے قبیلۂ بنی تمیم کے مقابلہ میں
______________________
(١) آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ٣١٣۔ ٣١١؛ محمد بن عبد ربہ، العقد الفرید (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٠؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ (قم: منشورات الرضی)، ص ٦٠٨۔
(٢)احمد امین، ضحی الاسلام، ج١، ص١٩۔
(٣) اس جنگ کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ خسرو پرویز حرہ کے حاکم نعمان بن منذر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن نعمان نے اس کی مخالفت کی لہٰذا کسریٰ کی جانب سے اسے دربار میں بلاکر قید میں ڈال دیا گیااور قیدخانہ میں ہی وہ مرگیا اس وقت خسروپرویز نے ہانی بن مسعود شیبانی سے کہا کہ نعمان کے مال و دولت کو جواس کے پا س ہے اسے دیدے۔ اس نے دینے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں کسریٰ نے اپنے سپاہیوں کو بنی شیبان (جو کہ بکر بن وائل کا ایک خاندان تھا) سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا اور اس جنگ میں ایران کی فوج ہار گئی (ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت: دار اصادر ١٣٩٩ھ.ق، ج١، ص ٤٨٩۔ ٤٨٥، رجوع کریں مقدسی، البدء والتاریخ (پیریس: ١٩٠٣م)، ج٣، ص ٢٦.
(٤) ابو تمام حبیب بن اوس طائی۔
(جو کہ ایک دن حاجب کی کمان کسریٰ کے پاس رکھنے کو افتخار سمجھتے تھے ) ابودلف عجلی(١)کی مدح میںاس طرح کے اشعار کہے:
اگر ایک دن تمیم اپنی کمان پر افتخار کرتے تھے اور اس کو اپنی عزت و شرف اور سربلندی کا باعث سمجھتے تھے تو تمہاری تلوروں نے جنگ ذی قار میں ایسے لوگوںکے تخت حکومت کو جو کہ کمان حاجب کو گروی رکھے ہوئے تھے، درہم و برہم کردیا۔(٢)
______________________
(١) ابودلف قاسم بن عیسی عجلی۔
(٢) اذا افتخرت یوماً تمیم بقوسہا و زادت علی ما وطدت من مناقب
فانتم بذی قار، امالت سیوفکم عروش الذین استرہنوا قوس حاجب
دور جاہلیت
ہم نے جزیرة العرب اور وہاں کے لوگوں کی بحث میں ظہور اسلام سے قبل کے دور کو، عصر جاہلیت، اوروہاں کے باشندوں کو، ''جاہل عرب'' کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاں پر یہ بیان کرتا چلوں کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ''عصر جاہلیت'' کی اصطلاح ظہور اسلام کے بعد(قرآن کے الہام کے ذریعہ) اسلام سے قبل زمانہ کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان استعمال ہوتی تھی۔اور ایک خاص مفہوم رکھتی تھی۔(٣) کچھ معاصر مورخین نے اس دور کا تخمینہ ١٥٠ سال سے ٢٠٠ سال قبل از بعثت پیغمبر اسلامۖ لگایا ہے۔(٤)
احمد امین، ضحی الاسلام، ج١، ص ١٩؛ مسعودی، التنبیہ او الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل الصاوی (قم: مؤسسة نشر منابع الثقافیہ الاسلامیہ)، ص٢٠٩؛ جلال الدین ھمایی، شعوبیہ (اصفہان: کتابفروشی صائب، ٢٣٦٣)، ص ١٢۔ ١١
(٣)جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ص ٤٢۔ ٤١۔
(٤) عمر فروخ، تاریخ صدر الاسلام و الدولة لامویہ (بیروت: دار العلم للملایین، ط٣، ١٩٧٦ئ)، ص٤٠۔
اگر چہ لفظ جاہلیت ''جہل'' سے نکلا ہے لیکن جہل یہاں پر علم کے مقابلہ میںنہیں ہے بلکہ عقل اور منطق کے مقابل میں ہے۔(١) یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں جزیرة العرب کے لوگ (اس تشریح کی بنا پر جو دی گئی ہے) پڑھے لکھے نہیںتھے۔ اورعلم و دانش سے بے بہرہ تھے او راس زمانے کو ''عصر جاہلیت'' کہا جاتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ جہالت کی بنا پر بلکہ غلط فکر اور عقل و منطق سے دور، بے بنیاد رسم و رواج، برے صفات، جیسے کینہ توزی، خود پسندی، فخر فروشی، اندھے تعصب کی بنا پر اسلام نے سختی کے ساتھ ان سے مقابلہ کیا ۔(٢)
شاید کہا جاسکتا ہے کہ یہاں پر جہل کا مفہوم ''نافہمی'' کے مانند ہے۔ جس کا لازمہ جہالت نہیںہے بلکہ کج فکری، کم عقلی اور ہلکے دماغ کے افراد کو بھی جاہل کہہ سکتے ہیں۔(٣)
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جاہلیت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
١۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگوں کی بے جا، غلط توقعات اور امیدیں یہ تھی کہ پیغمبر اسلام ۖ ان کی مرضی کے مطابق مشورہ دیں، اسے ''حکم جاہلیت'' کہا گیاہے۔(٤)
______________________
(١) عمر فروخ کہتا ہے: جاہلیت اس جہل پر دلالت کرتی ہے جو حلم کے مقابلہ میںہے نہ کہ جو علم کے مقابلہ میںہے ۔ (تاریخ صدر الاسلام، ص٤٠).
(٢) رجوع کریں: طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٤، ص ١٥٥۔ ١٥١، احمد امین، فجر الاسلام، ص ٧٨۔ ٧٤؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ١٨۔ ١٥؛ شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، ج١، ''العصر الجاہلی'' (قاہرہ دار المعارف، ط ٧)، ص ٣٩۔ اس مطلب کی تائید کے لئے ہماری کچھ احادیث ہیں جس میں جہل کو عقل کے مقابلہ میںقرار دیا گیا اور اصول کافی جیسی کتاب میں ''فصل العقل والجہل'' ، (ج١، ص ١١ کے بعد) میں اس طرح کی احادیث بیان ہوئی ہیں۔
(٣) جواد علی کہتے ہیں: ''میری نظر میں جاہلیت، بیوقوفی، کم عقلی، غرور، کند ذہنی، غصہ او رحکم ودستور الٰہی کے مقابلہ میں سر تسلیم خم نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے او ریہ وہ صفات ہیں جن کی اسلام نے مذمت کی ہے اس بنا پر یہ ویسے ہی ہے جیسے آج کوئی سفیہ اوراحمق گالی بکے اوراخلاق و تہذیب کا خیال نہ کرے تو ہم اس سے کہیں گے: اے نادان یہاں سے دور ہوجا! اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ انسان جاہل ہے'' (المفصل فی تاریخ العرب فی الاسلام، ج١، ص ٤٠
(٤) ''افحکم الجاہلیة یبغون...'' سورۂ مائدہ، ٥،آیت ٥٠۔
٢۔ خداوند عالم نے بت پرست عربوں کے اندھے تعصب کو ''جاہلیت کا تعصب'' قرار دیا ہے۔(١)
٣۔ پیغمبر اسلام ۖ کی بیویوں کو خبردار کیا گیاہے کہ اپنی گزشتہ جاہلیت کی رسم و رواج کے مطابق خود نمائی کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں۔(٢)
٤۔ خداوند عالم نے منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ کو جنگ احد میں لشکر اسلام کے شکست کھا جانے کے بعد جن کے حوصلہ پست ہوگئے تھے اور تشویش و بدبینی کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کی مذمت کی ہے کہ خدا کے بارے میں ''جاہلیت'' جیسا گمان رکھتے ہو۔(٣)
خداوند عالم نے بیان کیا ہے کہ جس وقت جنا ب موسیٰ نے اپنی قوم کو گائے کے کاٹنے کا حکم دیا تو ان کی قوم والوں نے کہا: ''کیا آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ جناب موسیٰ نے فرمایا: خدا کی پناہ مانگتا ہوںکہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں''۔(٤)
امیر المومنین حضرت علی بت پرست عربوں کی ذلت و پستی اورتاریک زندگی کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی جہالت کی بنا پر ان کی دماغی پستی کا ذکر فرماتے ہیں۔(٥)
______________________
(١) سورۂ فتح،٤٨( ِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمْ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّة) آیت ٢٦۔
(٢) سورۂ احزاب، ٣٣( وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الُْولَی )آیت ٣٣۔
(٣) سورۂ آل عمران، ٣(...وَطَائِفَة قَدْ َہَمَّتْہُمْ َنْفُسُہُمْ یَظُنُّونَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّةِ...)آیت ١٥٤۔
(٤) سورۂ بقرہ، ٢(قَالُوا َتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا قَالَ َعُوذُ بِاﷲِ َنْ َکُونَ مِنْ الْجَاہِلِینَ )آیت ٦٧۔
(٥) واستخفیتم الجاہلیة الجھلائ۔ (صبحی صالح، نہج البلاغہ، خطبہ ٩٥)
|