دوسری فصل
عربوں کے صفات اور نفسیات
متضاد صفات
بدو عرب میں وحشیانہ عادت اور لوٹ مار کے باوجود اچھی عادتیں ، جیسے عفو و کرم، مہمان نوازی، شجاعت اور دلیری بھی پائی جاتی تھی۔ خاص طور سے وہ اپنے وفائے عہد و پیمان کے شدید پابند تھے یہاں تک کہ اپنے عہد و پیمان کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادیتے تھے۔ اور یہ ان کی سب سے نمایاں صفت شمار ہوتی تھی۔ ان کے اندر متضاد صفات کو دیکھ کر لوگ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتے تھے۔ اور وہ ایسے دور دراز علاقہ میں زندگی بسر کرتے تھے جو دنیا میں کم نظیر تھا۔ اگر ان کے حالات زندگی ایسے نہ ہوتے تو اس بات کا سمجھنا بہت مشکل تھا۔ وہی لڑاکو عرب جو لوٹ مار کے پیاسے تھے جس وقت ان کے اندر انتقام کی آگ بھڑکتی تھی تو وہ بدترین جرائم کرنے سے بازنہیں آتے تھے۔ اپنے گھر میں بہت بڑے مہمان نواز، مہربان اور مونس تھے۔ اگر ایک کمزور اور بے چارہ، ان سے پناہ مانگتاتھا یا ایک ستمدیدہ (اگرچہ دشمن ہی کیوں نہ ہو) ان کی طرف دست نیاز دراز کرتا تھا یا اس کو اپنی پناہ گاہ سمجھتا تھا تو اس کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ گویا وہ شخص، ان کے خاندان یا قبیلہ کا ایک فرد ہے. او رکبھی تو اس کادفاع کرنے میں اپنی جان کی بازی لگا دیتے تھے۔(١)
میدان جنگ میں شجاعت و دلیری عفو و درگزر، قبیلہ کے سامنے تسلیم اور ایسے ظالموںسے انتقام لینے میں ، جنھوں نے اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے حقوق کو پائمال کردیا تھا بے رحمی کے ساتھ پیش آنا عرب کی شرافت اور فضیلت سمجھی جاتی تھی۔(٢)
عربوں کی اچھی صفتوں کی بنیاد
جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ عربوں کے درمیان اگرچہ پانی اور چراگاہوںکے بارے میں رقابت اکثر کشمکش کا باعث بنتی تھی اور قبائل کوایک دوسرے کے ساتھ الجھا اور کشت و کشتار پر مجبور کردیتی تھی۔ لیکن دوسری طرف سے ان کے اندر کمزوری اور عاجزی کے احساس نے ہی ان کے مزاج کی سختی اور لجاجت کے مقابلہ میںاس فکر کو ہوا دی تھی کہ سبھی ایک مقدس رسم کے محتاج ہیں۔ اور ایسی سرزمین میں جہاں مہمان سرائیں اور مسافر خانے نہ ہوتے ہوں، مہمانوں کی ضیافت سے بچنا ان کے اخلاق اور عزت کے خلاف تھا۔ عہد جاہلیت کے شعراء ہمارے زمانے کے صحافیوں کا رتبہ رکھتے تھے۔ان کی بہادری اور دلیری کے ساتھ ان کی مہمان نوازی ، قوم عرب کی نمایاں فضیلت شمار کی جاتی تھی ۔ اور اس کے بارے میں وہ اشعار کہا کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔(٣)
______________________
(١) ڈاکٹر گوسٹاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی، ص ٦٥۔ ٦٤؛ ویل ڈورانٹ، اس بارے میں لکھتا ہے: ''عرب کے بدو، مہربان بھی تھے اور خونخوار بھی، سخی بھی تھے اور کنجوس بھی، خیانت کار بھی تھے اورامین بھی، محتاط بھی تھے اور بہادر بھی ،اگرچہ فقیر تھے لیکن دنیا میں کرم و بزرگی سے پیش آتے تھے'' تاریخ تمدن، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط ٢،)، ج٤، ص ٢٠١.
(٢) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٩، ١٩٦٤م)، ص ٧٦.
(٣) فلیپ حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، (تہران: آگاہ، ط ٢، ١٣٦٦)، ص ٣٥۔ ٣٣.
لیکن یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کی بہت ساری اچھی خوبیاں جیسے شجاعت، مہمان نوازی، کرم اور پناہ گزینوں کی حمایت (جیسا کہ بعد میںاسلامی تعلیم اور کلچر میں یہ چیزیں ذکر ہوئی ہیں) روحانی اور انسانی اقدار سے نشأت نہیں پائی ہیں۔ بلکہ معاشرتی اسباب اور جاہلی کلچر جیسے قبیلوں کے درمیان فخر و مباہات کی بنا پر تھیں۔ کیونکہ ایسے ماحول میں جہاں پر نظم و امنیت نہ ہو، شجاعت اور دلیری ان کی زندگی کا لازمہ تھی۔ نام و نمود سے دلچسپی، منصب کی آرزو و تمنا، شعراء کی مذمت کا خوف، ذلت و رسوائی اور بدمزاجی وغیرہ نے عربوں کو جود و سخاوت، وفائے عہد، پناہ گزینوں کی حمایت اور اس طرح کی دوسری اچھائیوں پر اکسایا تھا۔ مہمان نوازی اور دلیری کی عادتیں ایسے ماحول میں کہ جہاں لوگ مال واولاداور جنگجوؤں کی کثرت تعداد پر فخر کیا کرتے تھے۔ ان کی سربلندی اور عزت کا وسیلہ بن گئی تھی اور یہ بات اس کے لئے واضح ہے جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے۔(١)
______________________
(١) رجوع کریں: جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، (قم: ١٤٠٢ھ.ق)، ج١، ص ٥٤۔ ٥٠.
جہالت اور خرافات
حجاز کے عرب جو عموماً صحرا میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تہذیب اور کلچر سے دور فکری جمود میںاس طرح سے گرفتار ہوگئے تھے کہ بہت سی چیزوں کے درمیان موجود نسبت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ چیزوں کی منطقی تحلیل اور تجزیہ نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی علت و معلول کے درمیان موجود رابطے کو پوری طرح سے سمجھ سکتے تھے۔ مثلاً اگر ایک شخص مریض ہوگیا اور تکلیف جھیل رہاہے تو ا سکے اطراف کے لوگ اس کے لئے دوا تجویز کرتے تھے اور وہ اس درد و درمان کے درمیان ایک طرح کا ربط سمجھتا تھا لیکن یہ فہم، دقیق اور تحلیلی نہیںہوا کرتی تھی۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اس کے قبیلہ کے لوگ اس دوا کو فلاں درد میںاستعمال کرتے ہیں۔ بطور نمونہ وہ آسانی سے یہ بات مان لیتا تھا کہ قبیلہ کے سردار کا خو ن ہادی نامی
مسری بیماری ( جو عموماً کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے)کا علاج کرتاہے اسی طرح وہ یہ تصور کرتا تھا کہ بیماری کی وجہ، روح کی کثافت ہوا کرتی ہے جو بیمار کے اندر داخل ہوجاتی ہے اسی بنا پر یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ روح، بیمار کے بدن سے نکل جائے، یا اگر کسی کے بارے میں پاگل ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا تواس کی گردن میں مردار کی ہڈی یا غلاظت مل دیا کرتے تھے تاکہ وہ جنون سے محفوظ رہ سکے۔ دیو کا عقیدہ بھی ان کے یہاں ملتاہے وہ معتقد تھے کہ بھیانک شکلیں رات کے وقت خالی مکانوں میں دکھائی پڑتی ہیں یا بیابانوں میں لوگوں کے راستے میں حائل ہوجاتی ہیں اور ان کو آزار و اذیت پہنچاتی ہیں۔
جس وقت وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لئے گھاٹ پر لے جاتے تھے تو اگر وہاں پر وہ پانی نہیں پیتے تھے تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے سینگ کے درمیان ایک دیو بیٹھا ہے جو انھیں پانی نہیں پینے دیتا ہے لہٰذا وہ دیو کو بھگانے کے لئے ان مویشیوں کے سر او رمنھ پر ڈنڈے مارا کرتے تھے۔(١) اس قسم کی مضحکہ خیز حرکتیں ان کے درمیان بہت زیادہ رائج تھیں۔
وہ اس طرح کی حرکتوں کے بارے میں (جب کہ یہ حرکتیں ان کے قبیلہ کے اندر پائی جاتی ہوں) زرّہ برابر بھی شک و تردید نہیں کرتے تھے کیونکہ انکار اور تردید کی وجہ، دقت نظر، بیماری کی تحقیق کی صلاحیت، اسباب و عوارض اور ان کا علاج وغیرہ ہے جبکہ اس زمانہ میں عرب، جہالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور اس حد تک فہم و فراست ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔(٢)
البتہ کبھی جاہلیت کے اشعار یا اس زمانے کے محاورے یا ان کی داستانوں میں روشن فکری کے اشارے اور علت و معلول کے درمیان میں ارتباطات کی باتیں ملتی ہیں ۔ لیکن وہ بھی عمیق تفکر ،تشریح اور تجزیہ کے قابل نہیںہیں۔ اور چیزوںکے بارے میں تجزیہ کی صلاحیت کے نہ ہونے کا اصل راز
______________________
(١) محمود شاکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح: محمد بہجة الاثری (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ ط٣)، ج٢، ص ٣٠٣.
(٢) جاہل عربوں کی خرافات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٢، ص ٣٦٧۔ ٣٠٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (قاہرہ: دا راحیاء الکتب العربیہ)، ج١٩، ص ٤٢٩۔ ٣٨٢۔
ان کے درمیان موجود مختلف طرح کے موہومات اور خرافات تھے جنھیں وہ یقین کرتے تھے۔ اور اس طرح کے باور سے عرب اوراسلام کی تاریخی کتابیں پر ہیں۔(١)
علم و فن سے عربوں کی آگاہی
بعض دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ عربوں کے یہاں مختلف طرح کے علوم جیسے طب، ستارہ شناسی، قیافہ شناسی(٢) وغیرہ پائے جاتے تھے لیکن یہ دعوا مبالغہ آمیز ہے۔ عربوں کی آگاہی ان علوم و فنون سے ایک علم و فن کی حد تک منظم و مرتب شکل میں نہیں تھی بلکہ ایک سطحی اور بکھری ہوئی معلومات کی شکل میں تھی جوان کو حدس و گمان اور قبیلہ کے بڑے بوڑھے مرد اور عورتوں سے سن سنا کر حاصل ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس طرح کی معلومات کو ''علم'' نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً ستارہ شناسی کے سلسلے میںعربوں کی آگاہی صرف بعض ستاروں کے وقت طلوع اور غروب تک محدود تھی وہ بھی صرف اس بنا پر تھی کہ اس وسیع و عریض صحرا میں راستوں کی تلاش یا شب و روز کے اوقات کو معلوم کرسکیں۔ طب کے بارے میں ان کی آگاہی، ابن خلدون کے کہنے کے مطابق اس طرح سے تھی:
طب کے بارے میں معلومات عام طور سے بعض لوگوں میں مختصر اور محدود تجربات کی بنیاد پر تھی اور علم طب وراثتی طور پر قبیلہ کے بڑے بوڑھوںکے ذریعہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے ان کی اولاد تک پہنچ جاتا تھا۔ اور کبھی کبھار بعض مریض اس علاج کے ذریعہ ٹھیک بھی ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن وہ معالجہ نہ طبی قانون کے مطابق ہوا کرتا تھا او رنہ ہی انسان کے مزاج او رفطرت کے مطابق۔(٢) حارث بن کلدہ کی طبابت بھی اسی طرح کی تھی۔
______________________
(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٨٢، ٢٦١۔ ٢٢٣ ؛ اور ٣٢٧.
(٢) مقدمہ، ترجمہ: محمد پروین گنابادی، (تہران: مرکز انشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦٢، ط ٤)، ج٢) ص ١٠٣٤۔
امی لوگ
اہل حجاز قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق ''امی'' یعنی نومولود بچہ کے مانند ہمیشہ جاہل اور ان پڑھ ہوا کرتے تھے ۔اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔
بلاذری اس بارے میں لکھتا ہے:
ظہور اسلام کے وقت صرف ١٧ افراد قریش میںاو ریثرب (مدینہ) میں دو بڑے قبیلے اوس اورخزرج کے درمیان ١١، افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔(١)
جبکہ قریش مکہ میں ایک خاص مقام او ردرجہ رکھتے تھے او رتجارت کے پیشہ میں لکھنے پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وجہ سے یہ کیسے باور کیا جاسکتاہے کہ وہ قوم جوا س حد تک جہالت اور نادانی میں ڈوبی ہواس کے پاس اس قسم کے علوم ہوں جس کا بعض دانشوروں نے دعوی کیا ہے؟!
شعر
عہد جاہلیت کے عربوں میں صرف ایک اہم خوبی پائی جاتی تھی کہ وہ شعر او رخطابت میں مہارت رکھتے تھے ان کے یہاں، شاعر ایک مورخ، ماہر نساب، ھجاگر، عالم اخلاق، صحافی، پیشین گوئی کرنے والا اور جنگ کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔(٢) اس زمانے میں عرب کے بڑے شعراء کی موسمی بازاروں میں جیسے عکاظ، ذی المجاز اور مجنہ(٣) میں تجارتی اور ادبی آثار کی موسمی اور عمومی نمائشیں لگتی تھیں جس میں
______________________
(١) فتوح البلدان، (قم: منشورات مکبتة الارمیہ، ١٤٠٤ھ.ق)، ص ٤٥٩۔ ٤٥٧.
(٢) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ج٤، عصر ایمان (بخش اول)، ترجمہ ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی ط٢)، ص ٢٠٢.
(٣) اس بازار کے بارے میں رجوع کریں : بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٧٠۔ ٢٦٤
شعراء اپنے عمدہ اشعار او رقصیدوں کو پیش کیا کرتے تھے اور اس میں سے جس کے اشعار منتخب ہوتے تھے وہ اور اس کے قبیلہ والے اسے اپنے لئے باعث فخر و عزت سمجھتے تھے اور اس کے اشعار کو اہمیت او راعزاز کے طور پر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکادیا جاتا تھا ''معلقات سبعہ'' سات بہترین، فصیح و بلیغ اور عمدہ قصیدے سات عظیم شاعر کے تھے جس کی مثال اور نظیر اس زمانہ میں نہیں ملتی تھی۔ لہٰذا انھیں دیوار کعبہ پر لٹکادیاگیاتھا۔(١)اور اسی وجہ سے انھیں معلقات سبعہ(سات عددلٹکے ہوئے قصیدے) بھی کہا جاتا تھا۔
عرب کے اشعار اپنے تمام تر لفظی حسن کے باوجود تہذیب و ثقافت کے نہ ہونے کی بنا پربلندی فکر سے خالی ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کے اشعار کے عناوین، زیادہ تر عشق، شراب، عورت، جنگ اور قومی مسائل ہوا کرتے تھے۔ او راس میں لفظی جذابیت او رادبی نزاکتیں پائی جاتی تھیں۔
______________________
(١) رجوع کریں: معلقات سبع، ترجمہ: عبد المحمد آیتی، تہران: سازمان انتشارات اشرفی، ط٢، ١٣٥٧)
|