قبائلی جنگیں
اگر عرب کے درمیان کوئی قتل رونما ہوتا تھا تو اس کی ذمہ داری قاتل کے قریبی ترین افراد پر عائد ہوتی تھی اور چونکہ قاتل کا قبیلہ اس کی حمایت پر آمادہ اور کمر بستہ نظر آتا تھا ، لہٰذا انتقام کے لئے خون ریز جنگیں ہوتی تھیں. اور یہ جنگیں جو عام طور پر چھوٹی باتوں پر ہوتی تھیں کئی سالوں تک جاری رہتی تھیں جیسا کہ ''جنگ بسوس'' جو کہ دو قبیلوں بنی بکر اور بنی تغلب کے درمیان (یہ دونوں قبیلے ربیعہ سے تھے)
چھڑی چالیس سال تک جنگ جاری رہی اور اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ پہلے قبیلہ کا اونٹ جو کہ بسوس نامی خاتون کا تھا بنی تغلب کی چراگاہ میں چرنے کے لئے چلا گیا تو اسے ان لوگوں نے مار ڈالا۔(١)
اسی طرح سے'' داحس اور غبراء نامی'' دو خون ریزجنگ قیس بن زہیر (قبیلہ ٔ بنی قیس کا سردار) اور حذیفۂ ابن بدر (قبیلۂ بنی فزارہ کا سردار) کے درمیان ایک گھوڑ دوڑ کے سلسلہ میں رونما ہوئی اور مدتوں جاری رہی۔ داحس اور غبراء نامی دو گھوڑے تھے ایک قیس کا اور دوسرا حذیفہ کا تھا۔ قیس نے دعوا کیا کہ اس کا گھوڑا مسابقہ میں جیتا ہے اور حذیفہ نے دعوا کیا کہ اس کا گھوڑا مسابقہ میں بازی لے گیا ،اسی مختصر سی بات پر دونوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑک ا ٹھی اور بہت زیادہ قتل اور خونریزی رونما ہوئی۔(٢) اور اس طرح کے واقعات ''ایام العرب'' کے نام سے مشہورہوئے۔ اور اس کے بارے میں کتابیں لکھی گئیں۔البتہ کبھی چند اونٹ خون بہا کے طور پر دے کر مقتول کی دیت ادا کردی جاتی تھی۔ اور ہر قبیلہ کے بزرگ اس قسم کے مسائل کے لئے راہ حل تلاش کرتے اور اس کو قوم کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن وہ اس کو قوم پر تھوپتے نہیں تھے۔ اور زیادہ تر قبائل ان تجاویز کو اس وقت قبول کرتے تھے جب طولانی جنگوں سے تھک اور ناامید ہوجاتے تھے تو ان تجاویز کو قبول کرلیتے تھے۔
اگر قاتل کا گروہ، خطاوار کو قصاص کے لئے مقتول کے سپرد کردیتا تو یہ جنگ رونما نہ ہوتی لیکن ان
______________________
(١) محمد احمد جادالمولی بک، علی محمد البجاوی و محمد ابو الفضل ابراہیم، ایام العرب فی الجاہلیة، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ص ١٦٨۔ ١٤٢؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر، ١٣٩٩ھ.ق)، ج١، ص ٥٣٩۔ ٥٢٣۔
(٢)عبد الملک بن ہشام، سیرة النبی، تحقیق: مصطفی السقائ(اور دوسرے لوگ)، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص٣٠٧؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، قاہرہ: مطبعة السعادة، ط١، ١٣٢٣ھ.ق)، ج١، ص٢٦٨ لفظ (صاد) ۔ ابن اثیر اور جاد المولی بک دونوں قیس کا گھوڑا جانتے تھے۔(الکامل فی التاریخ، ج١، ص ٥٨٢۔ ٥٦٦؛ ایام العرب، ص ٢٧٧۔ ٢٤٦)۔
کی نظروں میں ایسا کرنا ان کی عزت و وقار کے خلاف تھا اسی بنا پر وہ اپنے لئے بہتر سمجھتے تھے کہ خطاکار کو خود سزا دیں۔ کیونکہ بادیہ نشینوں کی نگاہ میں عزت اور آبرو کی حفاظت سب سے زیادہ اہم تھی اور وہ اپنے تمام اعمال میں اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے۔
ان کے درمیان جو قوانین اور دستورات رائج تھے وہ کم و بیش حجاز کے شہروں یعنی طائف، مکہ اور مدینہ میں بھی نافذ تھے۔ کیونکہ ان شہروں کے باشندے بھی اپنے سماج میں بادیہ نشینوں کی طرح مستقل اور آزاد رہتے تھے اور کسی کی پیروی نہیں کرتے تھے بادیہ نشینوں میں تعصب اور آبرو پرستی، بے حد اور مبالغہ آمیز تھی۔ لیکن مکہ میں کعبے کے احترام اور تجارتی مرکز ہونے کی بنا پر ایک حد تک متوسط تھی۔ (١)
قرآن کریم اس قسم کے تعصب اور انتقام کی مذمت کرتا ہے اور نصرت اور حمایت کا معیار، حق و عدالت کو قرار دیتا ہے اور تاکید فرماتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ عدالت کو شدت کے ساتھ قائم کریں اگرچہ یہ عدالت والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
''اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہی دو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء کے خلاف ہی کیوںنہ ہو۔ جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کی حمایت کا تم سے زیادہ سزاوار ہے لہٰذا خبردار! خواہشات کا اتباع نہ کرنا تاکہ انصاف نہ کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے''۔(٢)
______________________
(١) بروکلمان،گزشتہ حوالہ، ص٨.
(٢)سورۂ نسائ، ٤،آیت ١٢٥.
غارت گری اور آدم کشی
بدو عرب اپنے قبیلہ کے علاوہ دوسروں سے دوستی اور محبت نہیں کرتے تھے ان کا دائرہ فکر اور فہم صرف اپنے قبیلہ تک محدود ہوتا تھا یہ لوگ اس قدر متعصب اور قبیلہ پرست ہوتے تھے کہ دنیا کی ساری چیزیں صرف اپنے لئے چاہتے تھے اور سب سے زیادہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کا فائدہ چاہتے تھے جیسا کہ ان میں سے کسی نے زمانۂ اسلام میں اپنی جاہلیت کی تہذیب سے متاثر ہوکر اس طرح سے دعا کی، اے خدا! مجھ پر اور محمد ۖ پر رحم فرما اور ہمارے علاوہ کسی پر رحم نہ کر۔(١)
ان میں صحرائی زندگی کی بنا پر جو محرومیت پائی جاتی تھی اس کی بنا پر وہ غارت گری کیا کرتے تھے کیونکہ ان کی سرزمین نعمتوں سے محروم تھی اور وہ اس کمی اور محرومیت کو لوٹ مار کے ذریعہ پورا کرتے تھے۔ رہزنی اور غارت گری کو نہ صرف یہ کہ برا فعل نہیں سمجھتے تھے بلکہ (جیسے آج کے دور میں ایک شہر یا صوبہ پر قبضہ کرلینے کو فخر سمجھتے ہیں) اپنے لئے باعث فخر اور شجاعت سمجھتے تھے۔(٢)
البتہ قبیلوں کے درمیان جو رقابت پائی جاتی تھی وہ بھی جنگ اور غارت کا سبب بنتی تھی اور زیادہ تر اختلافات اور جھگڑے، چراگاہوں پر قبضہ کرلینے کی بنا پر ہوتے تھے۔ اور کبھی قبیلہ کی سرداری کے انتخاب پر بھی رشتہ داروں کے درمیان جنگ و خونریزی ہوتی تھی۔ مثلاً اگر بڑا بھائی سرداری کے منصب پر فائز ہو اور مرجائے تو اس کے دوسرے بھائی اپنی عمر کے مطابق قبیلہ کی سرداری کے خواہاں رہتے تھے اور مرنے والی کی اولاد اپنے باپ کے مقام کی آروزمند ہوتی تھی۔ اسی بنا پر اکثر قبیلوں اور
______________________
(٢) اللہم ارحمنی و محمداً و لاترحم معنا احداً (صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الرفاعی، (بیروت: دار القلم)، ج٨، کتاب الادب، باب ٥٤٩، ح ٨٩٣، ص ٣٢٧، اور تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ: سنن ابی داؤد (بیروت: دارالفکر)، ج٤، کتاب الادب، باب ''من لیست لہ غیبة''، ص ٢٧١.)
(٣) گوسٹاولوبون، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣.
رشتہ داروں کے درمیان جو کہ نسب اور محل سکونت کے لحاظ سے بہت قریب تھے، سخت اختلافات اور جھگڑے ہوتے تھے۔ شعراء بھی اپنے اشعار کے ذریعہ فتنہ کی آگ بھڑکایا کرتے تھے۔ وہ اشعار میں اپنے قبیلہ کے افتخارات کو بیان کرتے تھے اور دوسرے قبیلہ کے عیوب کو برملا کرتے تھے اور لوگوں کے ذہنوں میں گزشتہ باتوں کو تازہ کر کے ان کے دلوں میں کینہ اور لڑائی کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر ان کے درمیان لڑائیاں صرف معمولی اور چھوٹی بات پر ہوتی تھیں۔ جس وقت فتنہ کی آگ بھڑکتی تھی تو دونوں قبیلے ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہوجاتے تھے اور ایک دوسرے کو نابود کرنے کی فکرمیں لگ جاتے تھے۔(١)
وحشی گری اور تمدن سے دوری ان کی غارت گری کا ایک دوسرا سبب تھا۔ ابن خلدون کی نگاہ میں اس قوم کے لوگ وحشی تھے اور ان کے درمیان وحشی گری اس قدر پائی جاتی تھی کہ جیسے ان کے سرشت اور عادت میں رچ بس گئی ہو، مثال کے طور پر، کھانے کی دیگ بنانے کے لئے انھیں سنگ کی ضرورت پڑتی تھی تو وہ اس کی خاطر عمارتوں کو مسمار کردیتے تھے تاکہ کھانے کی دیگ ان پتھروں سے بنائیں یا محلوں اور بڑی عمارتوں کو اس بنا پر ویران کردیتے تھے تاکہ ا س کی لکڑی سے خیمہ بنائیں یا اس سے عمارتیں اور ستون خیمہ تیار کریں۔ غارت گری کی عادت ان میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ جو بھی چیز وہ دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتے تھے اسے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کی روزیاں نیزوں کے بل پر فراہم ہوتی تھیں دوسروں کا مال چوری کرنے سے کبھی باز نہیں آتے تھے بلکہ ان کی نظر اگرکسی کے مال و ثروت یا وسائل زندگی پر پڑتی تھی تو اسے وہ لوٹ لیا کرتے تھے۔(٢)
ان کی آمدنی کا ایک ذریعہ لوٹ اور غارت ہوا کرتا تھا جس وقت وہ کسی قبیلہ پر حملہ آور ہوتے تھے تو
______________________
(١) حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٨.
(٢) مقدمہ ترجمۂ محمد پروین گنابادی ، (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ط٤، ١٣٦٢)، ج١، ص ٢٨٦۔ ٢٨٥.
ان کے اونٹوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا کرتے تھے۔
دوسرا قبیلہ بھی کمین گاہ میں بیٹھا اسی تاک میں لگا رہتا تھا اور اسے بھی جب موقع ملتا تھا یہی حرکت کربیٹھتا تھا۔ اور جب دوسروں سے دشمنی نہیں ہوتی تھی تو آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ جیسا کہ قطامی (بنی امیہ کے پہلے دور کا) شاعر اپنے اشعار میں ا س بات کا تذکرہ کرتا ہے:
ہمارا کام پڑوسیوں اور دشمنوں پر ہجوم اور غارت گری تھا اور اگرہمیں کبھی کوئی نہ ملتا تو اپنے بھائی کا مال لوٹ لیا کرتے تھے۔(١)
اس زمانے میں جو جنگیں اوس اور خزرج نامی دو قبیلوںکے درمیان قصاص اور خونخواہی کی بنا پر شروع ہوئی تھیں وہ یثرب (مدینہ) میں اس قدر شدید اور زیادہ بڑھ گئی تھیں کہ کسی میں جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے علاقے یا جائے امن سے دور جائے ان لڑائیوں نے عرب کی زندگی کو مفلوج اور ان کی حالت کو پست کردیا تھا۔ قرآن مجید ان کی اس رقت بار حالت کو یاد دلاکر، اسلام کے سایہ میں جو ان کے درمیان بھائی چارگی قائم ہوئی اس کے بارے میں اس طرح سے ذکر کرتا ہے۔
''... اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیںنجات دی اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ''۔(٢)
___________________
(١) و احیاناً علی بکر اخینا٭اذا مالم نجد الا اخانا۔
احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص٩؛ فیلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص٣٥؛ حماسة ابی تمام حبیب اوس الطائی (کلکتہ: مطبع لیسی، ١٨٩٥ئ)،ص ٣٢.
(٢)سورۂ آل عمران،٣، آیت ١٠٣
حرام مہینے
صرف حرام مہینوں (ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں جو کہ جناب ابراہیم اور جناب اسماعیل کی دیرینہ سنت کی یاد اوران کی بچی ہوئی تعلیمات میں سے تھی(١) ان مہینوں کے احترام میں عربوں کے درمیان، آپس میں جنگ بندی (مقدس صلح) کا قانون پایا جاتا تھا۔ اور ان کو موقع ملتا تھا کہ وہ کچھ دن سکون سے رہیں اور تجارت اور کعبہ کی زیارت کرسکیں(٢)اور ان مہینوں میں کوئی جنگ ہوجاتی تھی تو اس کو ''حرب الفجار'' (ناروا اور گناہ آلود جنگ) کہتے تھے۔(٣)
عرب کے سماج میں عورت
جاہل عربوں میں جہالت اور خرافات کا ایک واضح نمونہ، عورت کے بارے میں ان کے مخصوص نظریات تھے۔ اس دور کے معاشرے میں عورت انسانیت کے معیار ،سماجی حقوق اور آزادی
______________________
(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (بیروت: موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط ٢، ١٣٩١ھ.ق)، ج٩، ص ٢٧٢.
(٢) وہ لوگ مہینوں کے ناموں کو بدل کر کے حرام مہینوں کو پیچھے کردیتے تھے اور اپنے کو اس کے حد و حدود سے الگ کر کے حرام مہینے میں بھی جنگ و خونریزی کرتے تھے اسی مناسبت سے خداوند عالم نے فرمایا ہے: ( محترم مہینوں میں تقدیم و تاخیر، کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے۔ جس کے ذریعہ کفار کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنالیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کردیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ہو جائے جتنی خدا نے حرام کی ہے۔ اور حرام خدا حلال بھی ہو جائے ...)، (سورۂ توبہ، ٩،آیت ٣٧.)
(٣) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص١٢؛ شہرستانی، الملل و النحلل، (قم: منشورات الرضی، ط ٢)، ج٢، ص ٢٥٥.
سے بالکل محروم تھی۔ اور اس سماج میں گمراہی اور سماج کے وحشی پن کی بنا پر لڑکی اور عورت کا وجود باعث ذلت و رسوائی سمجھا جاتا تھا۔(١) وہ لڑکیوں کو میراث کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارث کے حقدار صرف وہ لوگ ہیں جو تلوار چلاتے ہیں اور اپنے قبیلہ کا دفاع کرتے ہیں۔(٢) ایک روایت کی بنا پر عرب میں عورت کی مثال اس مال جیسی تھی جو شوہر کے مرنے کے بعد (لڑکا نہ ہونے کی صورت میں) شوہر کے دوسرے اموال اور ثروت کی طرح سوتیلی اولاد کے پاس منتقل ہوجاتی تھی۔(٣)
واقعات گواہ ہیں کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا بڑا لڑکا اگر اس عورت کو رکھنے کا خواہش مند ہوتا تھا (یعنی اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا) تو اس کے اوپر ایک کپڑا ڈال دیتا تھا اور اس طریقہ سے میراث کے طور پر عورت اسے مل جایا کرتی تھی اس کے بعد اگر وہ چاہتا تھا تو اسے بغیر کسی مہر کے، صرف میراث ملنے کی بنا پر اس سے شادی کرلیتا تھا اور اگر اس سے شادی کا خواہش مند نہ ہوتا تو دوسروں سے اس کی شادی کردیتا تھا اور اس عورت کا مہر خود لے لیتا تھا۔ اور اس کے لئے یہ بھی ممکن تھا کہ اسے ہمیشہ کے لئے دوسرے مردوں سے شادی کرنے سے منع کردے، یہاں تک وہ مرجائے اور اس کے مال کا مالک بن جائے۔(٤)
______________________
(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (قم: مطبوعاتی اسماعیلیان، ط٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٦٧۔
(٢) ابوالعباس المبرد، الکامل فی اللغة و الادب، مع حواشی: نعیم زرزور (اور) تغارید بیضون (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٩٣؛ محمد بن حبیب، المحبر (بیروت: دارالافاق الجدیدة)، ص ٣٢٤۔
(٣) کلینی، الفروع من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٢، ١٣٦٢)، ج٦، ص ٤٠٦.
(٤)طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨۔ ٢٥٤؛ سیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، (قم: مکتبة آیة اللہ مرعشی نجفی، ١٤٠٤ھ.ق)، ج٢، تفسیر آیۂ ٢٢ سورۂ نسائ، ص ١٣٢۔ ١٣١؛ شہرستانی، الملل و النحل (قم: منشورات الرضی، ط٢)، ج٢، ص ٢٥٤؛ حسن، حسن، حقوق زن در اسلام و یورپ (ط٧، ١٣٥٧)، ص٣٤۔عرب اس شخص کو ''ضیزن'' کہتے تھے جو باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنالیتا تھا۔ (محمد بن حبیب، المحبر ، ص ٣٢٥)، ابن قتیبہ دینوری نے اس قسمکی عورتوں کی تعداد کو ذکر کیا ہے، جنھوں نے شوہر کے مرنے کے بعد اپنے لڑکوں سے شادی کرلی تھی (المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ، قم: منشورات الرضی، ص ١١٢.)
چونکہ باپ کی بیوی سے شادی کرنا اس وقت قانوناً منع نہیں تھا۔ لہٰذا قرآن کریم نے ان کو اس کام سے منع کیا(١)۔ دور اسلام میں مفسرین کے کہنے کے مطابق ایک شخص جس کا نام ''ابو قبس بن اسلت'' تھا جب وہ مر گیا تو اس کے لڑکے نے چاہا کہ اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شادی کرے تو خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی (لایَحِلُّ لَکُمْ اَن تَرِثُوْا النِّسَائَ...)،(٢) تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم عورت کو ارث میں لو۔
اس سماج میں متعدد شادیاں بغیر کسی رکاوٹ کے رائج تھیں۔(٣)
عورت کی زبوں حالی ( ٹریچڈی)
یہ بات مشہور ہے کہ عربوں میں سب سے بری رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ کیونکہ لڑکیاں ایسے سماج میں جو تہذیب اور تمدن سے دور، ظلم و بربریت میں غرق ہو، مردوں کی طرح لڑکر اپنے قبیلہ سے دفاع نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ لڑنے کی صورت میں یہ ممکن تھا لڑکیاں دشمن کے ہاتھ لگ جائیں اور ان سے ایسی اولادیں پیدا ہوں جو باعث ننگ اور عار بنیںلہٰذا وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے(٤) اور کچھ لوگ مالی مشکلات کی خاطر، فقر و افلاس کے خوف
______________________
(١) ''ولاتنکحوا ما نکح آبائکم من النسائ''( سورۂ نسائ، ٤،آیت ٢٢.)
(٢) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨؛ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن (بیروت: دارالمعرفہ، ط ٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص ٢٠٧؛ سورۂ نساء کی آیت نمبر ١٩ کی تفسیر کے ذیل میں۔
(٣) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٦٧۔
(٤) شیخ عباس قمی، سفینة البحار (تہران: کتابخانۂ سنایی، ج١)، ص ١٩٧ (کلمۂ جھل)؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٣، ص ١٧٤؛ کلینی ، الاصول من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج٢، باب ''البر بالوالدین''، ح١٨، ص ١٦٣؛ قرطبی، تفسیر جامع الاحکام (بیروت: دار الفکر)، ج١٩، ص ٢٣٢۔
سے ایسا کرتے تھے۔(١)
مجموعی طور پر لڑکیاں اس سماج میں منحوس سمجھی جاتی تھیں قرآن کریم نے ان کی اس غلط فکر کو اس طرح سے نقل کیا ہے:
''اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے، یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں''۔(٢)
عورت کو محروم اور دبانے کی باتیں اس زمانے کے عربی ادب اور آثار میں بہت زیادہ ملتی ہیں جیسا کہ ان کے درمیان یہ بات عام تھی کہ جس کے پاس لڑکی ہوتی تھی اس سے وہ لوگ کہتے تھے کہ ''خدا تم کو اس کی ذلت سے محفوظ رکھے اور اس کے اخراجات کو پورا کرے اور قبر کو داماد کا گھر بنادے۔(٣)
ایک عرب شاعر نے اس بارے میں کہا ہے:
جس باپ کے پاس لڑکی ہو اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہے تو اس کے لئے تین داماد ہیں: ١)ایک وہ گھر جس میں وہ رہتی ہے۔ ٢)دوسرے اس کا شوہر جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ٣)اور تیسرے وہ قبر جو اس کو اپنے اندر چھپالیتی ہے۔ لیکن ان میں سب سے بہتر قبر ہے۔(٤)
______________________
(١) سورۂ انعام،٦، آیت ١٥١؛ سورۂ اسرائ،١٧، آیت ٣١؛ قرطبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٢۔
(٢) سورۂ نحل، ١٦،آیت ٥٩۔ ٥٨۔
(٣) آمنکم اللّٰہ عار ہا و کفاکم مؤنتہا، وصاہرتم القبر!
(٤) لکل اب بنت یرجی بقائہا ثلاثة اصہار اذا ذکرو الصہر
فبیت یغطیہا و بعل یصونہا و قبر یواریہا و خیرہم القبر!
(عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی، موسوعة آل النبی (بیروت: دار الکتاب العربیہ، ١٣٨٧ھ.ق، ص ٤٣٥.)
کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوحمزہ تھا وہ صرف اس وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہوگیا اور پڑوسی کے یہاں جاکر رہنے لگا کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ لہٰذا اس کی بیوی اپنی بچی کو لوری دیتے وقت یہ اشعار پڑھتی تھی۔
ابوحمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں آتا ہے اور پڑوسی کے گھر میں رہ رہا ہے وہ صرف اس بنا پر ناراض ہے کہ ہم نے لڑکا نہیں جنا! خدا کی قسم یہ کام میرے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے جو بھی وہ ہم کو دیتا ہے ہم اسے لے لیتے ہیں۔ہم بمنزلۂ زمین ہیں کہ کھیت میں جو بویا جائے گا وہی اگے گا ۔ (١)
حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس کی ماں کی باتیں اس سماج کے نظام کے خلاف ایک احتجاج ہیں اور ان کے درمیان عورت کی پائمالی کا ایک طرح سے اظہار ہے۔
سب سے پہلا قبیلہ جس نے اس غلط رسم کی بنیاد ڈالی، وہ قبیلۂ ''بنی تمیم'' تھا کہا جاتا ہے کہ اس قبیلہ نے نعمان بن منذر کو ٹیکس دینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بہت ساری لڑکیاں اور عورتیں اسیر کرلی گئیں جس وقت بنی تمیم کے نمائندے اسیروں کو چھڑانے کے لئے نعمان کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے یہ اختیار خود ان عورتوں کو دیدیا کہ چاہیں تو حیرہ میں رہیں اور چاہیں تو بنی تمیم کے پاس چلی جائیں۔ قیس بن عاصم جو کہ قبیلہ کا سردار تھا اس کی لڑکی بھی اسیروں کے درمیان تھی اس نے ایک درباری سے شادی کرلی تھی لہٰذا اس نے دربار میں رکنے کا
______________________
(١) ما لابی حمزة لایأتینا یظل فی البیت الذی یلینا
غضبان الا نلد البنینا تاللہ ما ذالک فی ایدینا
وانما نأخذ ما أعطینا و نحن کالارض لزارعینا
ننبت ما قدزرعوہ فینا
(جاحظ، البیان والتبیین، بیروت: داراحیاء التراث العربی، ١٩٦٨ئ، ج١، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ عایشہ بنت الشاطی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٤۔ ٤٣٣؛ آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٣، ص ٥١.
فیصلہ کرلیا، قیس اس بات سے سخت ناراض ہوا اور اس نے اسی وقت عہد کرلیا کہ اس کے بعد وہ اپنی لڑکیوں کو قتل کر ڈالے گا،(١) اور اس نے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رسم دوسرے قبیلوں میں بھی رائج ہوگئی، کہا جاتا ہے کہ اس جرم اور جنایت میں قیس، اسد، ہذیل اور بکر بن وائل نامی قبیلے شامل تھے۔ (٢)
البتہ یہ رسم عام نہیں تھی کچھ قبیلے اور بڑی شخصیتیں اس کام کی مخالف تھیں، ان میں سے جناب عبد المطلب پیغمبر اسلاۖم کے جد تھے جو اس کام کے شدید مخالف تھے،(٣) اور کچھ لوگ جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور صعصعہ بن ناجیہ، لڑکیوں کو ان کے باپ سے فقر کے خوف سے زندہ درگور کرتے وقت لے لیتے تھے اور ان کو اپنے پاس رکھتے تھے۔(٤) اور کبھی لڑکیوں کے عوض میں ان کے باپ کو اونٹ دیدیا کرتے تھے۔(٥) لیکن واقعات گواہ ہیں کہ یہ رسم عام طور پر رائج تھی، کیونکہ :
١۔صعصعہ بن ناجیہ نے زمانۂ اسلام میں پیغمبرۖ سے کہا تھا کہ میں نے دور جاہلیت میں ٢٨٠ لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ہے(٦)
______________________
(١)ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٩۔
(٢) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٤۔
(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٤؛ تاریخ یعقوبی، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٠
(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٥، ابن ہشام، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی السقاء (اوردوسرے لوگ) (تہران: آفسٹ، مکتبة الصدر)، ج١، ص ٢٤٠۔
(٥) محمد ابوالفضل ابراہیم( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٤)، ج٢، ص٣١؛ ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٤؛ فرزدق کے جد، صعصعہ، عصر اسلام کے شاعر تھے اور وہ اپنے جد کے اس فعل پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے : و منا الذی منع الوائدات فأحیا الوئید فلم یوأد۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٢)۔
(٦) ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٤
٢۔قیس بن عاصم نے عہد کرنے کے بعد (جیسا کہ پہلے گزر چکا) اپنی ١٢ یا ١٣لڑکیوں کو قتل کیا۔(١)
٣۔پیغمبر اسلاۖم نے پہلے پیمان عقبہ میں (بعثت کے بارہویں سال) جو کہ یثربیوں کے ایک گروہ کے ساتھ کیا تھا،معاہدہ کی ایک شرط یہ قرار دی کہ لڑکیوں کو زندہ درگور نہ کریں۔(٢)
٤۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرۖم نے خدا کے حکم سے اس شہر کی مسلم عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ اپنی لڑکیوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریں۔(٣)
٥۔قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس رسم کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ لہٰذا ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اس سماج کی سب سے بڑی مشکل تھی جس کے بارے میں قرآن کریم نے خبردار کیا ہے۔
١۔ اور خبردار! اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کہ ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے۔(٤)
______________________
(١) ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦)، ج٤، ص ٢٢٠ (شرح حال قیس بن عاصم) منقول ہے کہ قیس عصر اسلام میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اسلام ۖ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: زمانۂ جاہلیت میں،میںنے اپنی آٹھ لڑکیوںکو زندہ درگور کردیاتھا اب اس فعل کا جبران کیسے کروں؟ آنحضرتۖ نے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو ۔ اس نے کہا: میرے پاس بہت اونٹ ہیں ۔ تو آپۖ نے فرمایا: ان میں سے ہرایک کے بدلے اونٹ کی قربانی بھی کرسکتے ہو۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٣.)
(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧٥.
(٣) ''یا ایہا النبی اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئاً ولایسرقن و لایزنین و لا یقتلن اولادہن و لایأتین ببہتان یفترینہ بین ایدیہن و ارجلہن ولایعصینک فی معروف فبایعہن واستغفر لہن اللّٰہ ان اللّٰہ غفور رحیم۔'' (سورۂ ممتحنہ،٦٠،آیت ١٢.)
(٤) سورۂ اسرائ،١٧، '' ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقہم وایاکم ان قتلہم کان خطأ کبیراً، آیت ٣١.
٢۔ اور اسی طرح ان شریکوںنے بہت سے مشرکین کے لئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کردیا ہے تاکہ ان کو تباہ و برباد کردیں اوران پر دین کو مشتبہ کردیں۔(١)
٣۔ یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنھوںنے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کردیا۔(٢)
٤۔ اپنی اولاد کوغربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمھیں بھی رزق دے رہے ہیں اورانھیں بھی۔(٣)
٥۔ اور جب زندہ درگور لڑکیوںکے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انھیں کس گناہ میں مارا گیا ہے۔(٤)
______________________
(١) سورۂ انعام، ٦، (وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ َوْلاَدِہِمْ شُرَکَاؤُہُمْ لِیُرْدُوہُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْہِمْ دِینَہُمْ وَلَوْ شَائَ اﷲُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ) آیت ١٣٧.
(٢) سورۂ انعام، ٦،( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا َوْلاَدَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ )آیت ١٤٠.
(٣)سورہ انعام،٦،( وَلاَتَقْتُلُوا َوْلاَدَکُمْ مِنْ ِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَِیَّاہُم )آیت ١٥١.
(٤) سورۂ تکویر، ٨١،( واذالمؤودة سئلت بای ذنب قتلت آیت ٩۔ ٨.
|