تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

صحرا نشین
جزیرة العرب کا شمالی علاقہ (حجاز) زیادہ تر صحرائی ہے لہٰذا وہاں کے اکثر قبائل ظہور اسلام سے قبل بادیہ نشین و صحرا گرد تھے۔ بدو عرب قدرتی مناظر سے محروم اوراپنے زندگی کے میدان میں صرف گلہ بانی کے ذریعہ وہ بھی محدود اور قدیم طرز پر، زندگی گزارتے تھے۔ وہ لوگ بھیڑ بکریوں کے اون اور اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے خیموں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اور جس جگہ آب و گیاہ موجود ہو وہیں جاکر بس جاتے تھے اور پانی اور سبزے کے ختم ہونے پر دوسرے علاقہ کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے یہ لوگ ہریالی اور چراگاہ کی کمی کی وجہ سے صرف چند اونٹ اور مختصر گلہ کے علاوہ دوسرے چوپائے نہیں رکھ سکتے تھے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے : ''صحرا میں تین چیزوں، بدو عرب، اونٹ
اور کھجور کے درخت کی حکومت ہوتی ہے''۔ اور اگر اس میں ریگزار کا بھی اضافہ کردیا جائے تو بنیادی طور پر چار چیزوں کا صحرا پر غلبہ ہوتا ہے۔ پانی کی قلت، گرمی کی شدت، راہوں کی صعوبت اور آذوقہ کی کمی، عام طور سے انسانوں کے بڑے دشمن ہیں اور انسانوںکو خوف و خطرہ انھیں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہ معلوم ہو کہ عرب اور صحرا نے کبھی بھی غیروں کے تسلط کو اپنے اوپر برداشت نہیں کیا تو ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیئے. صحرا کی خشکی، اس کا استمرار اور یکسانیت، بدؤوں کے جسم و عقل کی تکوین میں تجلی پاگیا تھا۔ یہ لوگ کاشتکاری یا دوسرے پیشے اور کام کو اپنی شان کے لائق نہیں سمجھتے تھے۔(١) لہٰذا متمدن حکومتوں اور شہری نظام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور صحرا و ریگستانی علاقوں میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور یہ بات ان کی موروثی خصلت میں شامل تھی۔ (٢)
یہ لوگ ایک وسیع صحرا کے سپوت اور آزاد مزاج تھے لہٰذا بغیر کسی عمارت کی رکاوٹ کے یہ لوگ صاف و شفاف ہو اسے بہرہ مند ہوتے تھے، سورج کی دائمی تپش اور بارش و سیلاب کے پانی کو روکنے کے لئے کوئی سد نہیں تھا بلکہ تما م چیزیں قدرتی طور پر آزاد اور اپنی اصلی حالت پر تھیں۔
کاشتکاری اور کاروبار نے انھیں محدود اور مصروف نہیں کر رکھا تھا اور نہ ہی شہر کی بھیڑ بھاڑ سے وہ تنگ آگئے تھے اور چونکہ آزاد زندگی کی عادت تھی لہٰذا آزادی کو پسند کرتے تھے اور اپنے کو کسی قانون اور نظام کا پابند نہیں سمجھتے تھے اور جو بھی ان پر فرمانروائی کرنا چاہتا تھا اس سے پوری طاقت کے ساتھ لڑتے تھے۔ صرف دو چیزیں ان کو محدود کئے ہوئے تھیں:
١۔ ایک بت پرست نظام کی قید و بند اور اس کے مذہبی رسومات ۔
٢۔دوسرے قبیلوں کے آداب و رسومات اور قبیلے سے وابستگی کی بنا پر جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی تھیں۔
_______________________
(١) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، (تہران: آگاہ ط٢، ١٣٦٦)، ص ٣٥، ٣٣.
(٢) گوسٹاولوبون، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ٦٥۔ ٦٤؛ ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن،( عصر ایمان)، ج٤، (بخش اول)، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٨)، ص ٢٠١.
البتہ ان کے یہاں قبیلہ کے رسم و رواج کی پیروی خلوص اور اعتقاد جازم کے ہمراہ تھی۔ (١)
لارمنس بلجیکی (مشرقی محقق) کہتا ہے: عرب، آزادی اور ڈیموکراسی کا نمونہ تھے۔ لیکن ایسی افراطی ڈیموکراسی جس کی کوئی حد نہیں تھی۔ اور جو بھی ان کی طاقت اور آزادی کو محدود کرنا چاہتا تھا (اگرچہ یہ محدودیت ان کے فائدہ میں ہو) وہ اس کے خلاف قیام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ جس سے ان کے ظلم اور جرائم کا پتہ چلتا ہے جس سے تاریخ عرب کا ایک عظیم حصہ پُر ہے۔(٢)

قبائلی نظام
ظہور اسلام سے قبل حجاز کا علاقہ کسی حکومت کے تابع نہیں تھا اور وہاں کوئی سیاسی نظام نہیں پایا جاتا تھا اسی بنا پر ان کی معاشرتی زندگی ایران اور روم کے لوگوں سے بہت زیادہ فرق کرتی تھی۔ کیونکہ یہ دونوں ملک سعودی عرب کے ہمسایہ تھے اور ان میں مرکزی حکومت پائی جاتی تھی جس کے زیر نظر ملک کے تمام علاقے تھے اور وہاں پر مرکز کے قوانین نافذ تھے۔ لیکن حجاز (مجموعی طور سے شمال اور مرکز جزیرة العرب کے علاقہ کو کہتے ہیں) میں ایک مرکزی حکومت شہروں میں بھی موجود نہیں تھی۔ عرب کے سماج کی بنیاد قبیلے پر اور ان کا سیاسی اور اجتماعی نظام، قبائلی نظام کے مطابق تھا۔ اور یہ نظام ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمایاں تھا۔ اور اس نظام میں لوگوں کی حیثیت صرف کسی قبیلہ سے منسوب
_______________________
(١) احمد امین، فجرالاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریة، ط٩، ١٩٦٤)، ص ٤٦.
(٢) وہی حوالہ، ص ٣٤۔ ٣٣، نعمان بن منذر (حیرہ کے بادشاہ) نے کسریٰ (بادشاہ ایران)، کے جواب میں جس نے پوچھا تھا کہ کیوںعرب کی قوم ایک حکومت اور نظام کے تحت نہیں رہتی ہے؟ کہا دوسری قومیں چونکہ اپنے کو کمزور محسوس کرتی ہیں اور دشمن کے حملہ سے خوف کھاتی ہیں ، لہٰذا اپنے کاموں کوایک خاندان کے سپرد کردیتی ہیں لیکن عربوںمیں ہر ایک چاہتاہے کہ ہم بادشاہ رہیں اور وہ خراج و ٹیکس دینے سے نفرت کرتے ہیں (آلوسی بلوغ الارب، ج١، ص ١٥٠)
ہونے کی بنا پرمتعین ہوتی تھی۔
قبیلہ جاتی زندگی کا تصور نہ تنہا صحرا نشینوں میں بلکہ شہروں میں بھی نمایاں تھا۔ اس علاقہ میں ہر قبیلہ ایک مستقل ملک کے مانند تھا اور اس دور میں قبائل کے درمیان تعلقات ویسے ہی تھے جیسے آج کسی ملک کے تعلقات دوسرے ملکوں سے ہوتے ہیں۔

نسلی رشتہ
اس زمانہ میں عربوں میں ''ملیت'' اور ''قومیت'' وحدت دین، زبان یا تاریخ جیسے مختلف موضوعات کی بنیاد پر متصور نہیں تھی بلکہ چند خاندانوں کے مجموعہ کو'' قبیلہ'' کہتے تھے اور حسب و نسب اور خاندانی رشتے اور ناطے ہی افراد کے درمیان تعلقات کی بنیاد تھے۔ اور انھیں چیزوں کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان تعلقات اور رشتے قائم تھے کیونکہ ہر قبیلہ کے لوگ اپنے کو اسی قبیلہ کے خون سے سمجھتے تھے.(١) خانوادے کے اجتماع سے خیمہ اور خیموں کے اجتماع سے قبیلہ وجود پاتا تھا ۔ اور متعدد قبیلوں سے مل کر بڑی تنظیمیں تشکیل پاتی تھیں جیسے یہودیوں کی تنظیم ایک ہی نسل اور خاندان کی بنیاد پر تھی۔ یہ لوگ اپنے خیموں کو اتنا قریب نصب کرتے تھے کہ اس سے چند ہزار افراد پر مشتمل قبیلہ ہو جاتا تھا اور پھر ایک ساتھ مویشیوں کے ہمراہ کوچ کرتے تھے۔(٢)

قبیلہ کی سرداری
قبیلہ کے سردار اور نمائندہ کو ''شیخ'' کہا جاتا تھا (٣) شیخ عام طور پرسن رسیدہ ہوتا تھا اور قبیلہ کی سرداری چند چیزوں کی بنا پر ملتی تھی۔ بڑی شخصیت، تجربہ یا قبیلہ سے دفاع کرنے میں شجاعت کا اظہار
_______________________
(١) احمد امین ، فجر الاسلام، ص ٢٢٥؛ عبد المنعم ماجد، التاریخ السیاسی للدولة العربیہ، (قاہرہ: ط ٧، ١٩٨٢)، ص٤٨.
(٢) کارل بروکلمان، تاریخ دول و ملل اسلامی، ص ٦۔ ٥.
(٣) رئیس ، امیر اور سید بھی کہا جاتا ہے۔ (عبد المنعم ، التاریخ السیاسی للدولة العربیہ، ص ٤٩)
اور کثرت مال ہے(١) شیخ کے انتخاب میں امتیازی صفات جیسے سخاوت، شجاعت، صبر، حلم، تواضع اور انداز بیان کا لحاظ بھی کیا جاتا تھا۔(٢)
قبیلہ کا سردار، فیصلے ، جنگ اوردوسرے عمومی امور میں، ڈکٹیٹر شپ کا درجہ نہیں رکھتاتھا بلکہ ہر کام کے لئے ،اس کمیٹی سے مشورہ لیتا تھا جو بزرگان قوم و قبیلہ کے ذریعہ تشکیل پاتی تھی اور یہی وہ افراد تھے جو شیخ کا انتخاب کرتے تھے او ر جب تک اس کے گروہ والے اس سے خوش رہتے تھے وہ اپنے منصب پر باقی رہتا تھا(٣)ورنہ معزول کردیا جاتا تھا. لیکن بہرحال قبیلہ کے دستور کے مطابق، تمام افراد رئیس کی پیروی کرتے تھے اوراس کے مرنے کے بعداس کا بڑا بیٹا اور کبھی ایک سن رسیدہ شخص جس کے اندر اس کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں یا وہ شخص جو خاص شخصیت اور لیاقت کا مالک ہوا کرتا تھا اسے اس منصب کے لئے چنا جاتا تھا۔
دین اسلام نے قبیلہ جاتی نظام سے جنگ کی اور اس کو ختم کیا اور حسب و نسب جو اس نظام کی بنیاد تھی اس کو اہمیت نہیں دی اور نئے اسلامی معاشرے کی بنیاد، وحدت عقیدہ اور ایمان پر استوار کی، جو کہ اجتماعی رشتہ جوڑ نے میں بہت مؤثرہے اور اس طرح وحدتِ خون کی جگہ، وحدت ایمان کو بنیاد قرار دیا اور تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا(٤) اور اس طرح سے عرب سماج کے ڈھانچے کی بنیاد میں تبدیلی پیدا ہوئی۔
_______________________
(١) وہی حوالہ.
(٢) آلوسی، بلوغ الارب، تصحیح محمد بہجة الأثری، (قاہرہ: دارالکتب الحدیثہ، ط٣)، ج٢، ص ١٨٧
(٣) فیلیپ حتی،تاریخ عرب، ص ٣٩.
(٤) (انما المومنون اخوة) سورۂ حجرات، ٤٩،آیت ١٠.

قبائلی تعصب
تعصب اس حد تک تھا کہ قبیلہ کی روح قرار دیا گیا تھا اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص بے انتہا اپنے قبیلہ کے افراد سے وابستہ تھا۔ مجموعی طور پر صحرا نشینوں میں قبیلہ جاتی تعصب، وطن پرستی کے تعصب کی مانند تھا.(١) وہ کام جو ایک متمدن شخص اپنے ملک، مذہب یا قوم کے لئے انجام دیتا ہے بدو عرب اپنے قبیلے کے لئے انجام دیتے تھے اور اس راہ میں ہر کام انجام دینے کے لئے تیار رہتے تھے، یہاں تک کہ اپنی جان نثار کر دیتے تھے۔(٢)
عربوں کے درمیان، قبائلی لوگوں کا برتاؤ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کے حق میں تعصب کی حد تک ہوتا تھا یعنی یہ لوگ ہر حال میں اپنے اقرباء کی حمایت کرتے تھے چاہے وہ حق پر ہوں یا باطل پر، خطاکار ہوں یا درست کار، ان کی نظروں میں اگر کوئی اپنے بھائی کی حمایت کرنے میں کوتاہی کرے تو اس کی شرافت داغ دار ہوجاتی ہے اس سلسلہ میں وہ کہتے تھے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
ایک عرب شاعر نے اس بارے میں کہا ہے: جس وقت ان کے بھائیوں نے مشکلات میں ان کی مدد چاہی تو وہ بغیر کسی سوال اور دلیل کے ان کی مدد کو دوڑ پڑے۔ (٣)
یہی وجہ تھی کہ اگر قبیلہ کے کسی فرد کی اہانت ہوجاتی تو وہ پورے قبیلہ کی اہانت سمجھی جاتی تھی۔ اور قبیلہ کے لوگوںکی ذمہ داری ہوتی تھی کہ اس اہانت اور بے عزتی کے داغ کو مٹانے کے لئے وہ اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔(٤)
دین اسلام اس طرح کے اندھے قبائلی تعصب کی مذمت کرتا ہے اور اسے جاہلانہ اور غیر منطقی قرار دیتا
_______________________
(١) فیلیپ حتی ، گزشتہ حوالہ، ص ٣٨.
(٢) ویل ڈورانٹ ، گزشتہ حوالہ، (عصر ایمان) ، ج٤، ص ٢٠٠.
(٣) لایسئلون اخاہم حین یندبہم ٭ فی النائبات علی ماقال برہانا(احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٠)
(٤) حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط٥، ١٣٦٢)، ج١، ص ٣٨۔ ٣٧؛ عبد المنعم ماجد، گزشتہ حوالہ، ص ٥١۔ ٥٠.
ہے۔'' اس وقت کو یاد کرو جب کفار اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسا تعصب رکھتے تھے''۔(١)
پیغمبر اسلاۖم نے فرمایا ہے: جو شخص تعصب کرے یا اس کے لئے تعصب کیا جائے وہ اسلام سے خارج ہے(٢) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: جو شخص تعصب کی بات کرے یا لوگوں کو تعصب کی طرف دعوت دے یا تعصب کی روح اور فکر رکھتے ہوئے مرجائے وہ ہم میں سے نہیں ہے(٣) نیز آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم لوگوں نے عرض کیا: مظلوم کی مدد کرنا تو معلوم ہے، ظالم کی کس طرح سے مدد کریں؟ آپ نے فرمایا: اسے ظلم کرنے سے روکو۔(٤)

قبائلی انتقام
عرب میںاس وقت کوئی ایسی مرکزی حکومت یا کمیٹی موجود نہیں تھی جو لوگوں کے اختلافات کو ختم کرے اور وہاں پر عدل و انصاف قائم کرسکے۔ جس پر ظلم و ستم ہوتا تھا وہ اپنا انتقام لیتا تھا اور اگر ظالم دوسرے قبیلہ کا ہوا کرتا تھا تو مظلوم کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنا بدلہ اس قبیلہ کے تمام افراد سے لے اور یہ چیز
_______________________
(١) (اذجعل الذین کفروا فی قلوبہم الحمیة حمیة الجاہلیة) سورۂ فتح،٤٨ آیت ٢٦.
(٢) من تعصب او تعصب لہ فقد خلع ربقة الاسلام من عنقہ۔ (صدوق)، ثواب الاعمال، و عقاب الاعمال،( تہران: مکتبة الصدوق)، ص ٢٦٣؛ کلینی، الاصول من الکافی (تہران:مکتبة الصدوق، ط ٢، ١٣٨١ھ.ق)، ج٢، ص٣٠٨.
(٣) لیس منا من دعا الی عصبیة، و لیس منا من قال (علی عصبیة) و لیس منا من مات علی عصبیة۔ (سنن ابی داؤد (بیروت: دارالفکر)، ج٤، کتاب الادب، باب فی العصبیة، ص ٣٣٢، حدیث ٥١٢١).
(٤) عن انس قال: قال رسول اللہۖ انصر أخاک ظالماً أو مظلوماً . قالوا: یا رسول اللّٰہ ہذا ننصرہ مظلوماً فکیف ننصرہ ظالماً؟ قال: تأخذ فوق یدیہ۔ (صحیح بخاری بحاشیة السندی (بیروت: دارالمعرفة)، ج٢، کتاب المظالم، ص ٦٦؛ مسند احمد، ج٣، ص٢٠١).
عربوں میں بہت عام تھی(١)۔ کیونکہ لوگوں کی خطائیں پورے قبیلہ کی طرف منسوب ہوتی تھیں اور قبیلہ کا ہر فرد رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ذمہ دار تھا کہ وہ اپنے قبیلے کے تمام افراد کی مدد کرے۔ (بغیر اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے یا ناحق) اور یہ ذمہ داری شروع میں گھر، خاندان اور اقرباء کی جانب سے انجام پا تی تھی۔ اور جب اس میں وہ کامیاب نہیں ہوتے تھے اور خطرہ نہیں ٹلتا تھا تو گروہ اور قبیلہ کے دوسرے افراد اس کی مدد کرتے تھے۔
اگر کوئی قتل ہو جاتا تھا تو قصاص کی ذمہ داری اس کے قریب ترین رشتہ دار پر ہوتی تھی(٢) اور اگر مقتول دوسرے قبیلہ سے ہوتا تھا تو وہاں پر انتقام کی ''رسم'' جاری ہوتی تھی اور قاتل کے قبیلہ کے ہر فرد کو یہ خطرہ لاحق رہتا تھا کہ کہیں مقتول کے بدلہ میں اسے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ کیونکہ ان کی صحرائی سنت اور رسم یہ تھی کہ ''خون صرف خون کے ذریعہ دھلتا ہے'' اور خون کا بدلہ صرف خون ہے۔
لوگوں نے ایک اعرابی سے کہا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ جس نے تمہیں اذیت پہنچائی ہے اسے معاف کردو اور انتقام نہ لو؟ اس نے جواب دیا کہ میں خوش ہوؤں گا اگر بدلہ لوں اور جہنم میں جاؤوں۔(٣)

قبائلی رقابت اور فخر و مباہات
اس زمانہ میں عرب کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ ایک دوسرے پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے اور جو چیزیں اس سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں (اگرچہ وہ چیزیں موہوم اور بے
______________________
(١) حسن ابراہیم حسن، گزشتہ حوالہ، ص ٣٩.
(٢)بروکلمان، گزشتہ حوالہ، ص ٧۔ ٦.
(٣) نویری، نہایة الارب فی فنون الادب (وزارة الثقافہ و الارشاد القومی المصریہ)، ج٦، ص ٦٧.
بنیاد ہوتی تھیں)اس پر ناز کرتے تھے اور اس کی بنا پر دوسرے قبائل پر فخر کرتے تھے۔ میدان جنگ میں شجاعت، بخشش اور وفاداری،(١) مال و دولت کثرت اولاد اور کسی بڑے قبیلہ سے تعلق ہر ایک اس زمانہ کے عرب کی نگاہ میں بڑی اہمیت کا حامل اور وسیلہ ٔ برتری تھا اور وہ اس چیز کو اپنے افتخار کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
قرآن کریم نے ان کی باتوں کی اس طرح سے مذمت کی ہے:
''اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے بہتر ہیں او رہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار جس کے رزق میں چاہتا ہے کمی یا زیادتی کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں اور تمہارے اموال اور اولاد میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمہیں ہماری بارگاہ میں قریب بنا سکے علاوہ ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے''۔(٢)
ایک دن کسریٰ (بادشاہ ایران) نے نعمان بن منذر (بادشاہ حیرہ) سے پوچھا کہ کیا قبائل عرب میں کوئی ایسا قبیلہ ہے جو دوسروں پر شرف اور برتری رکھتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں! تو اس نے کہا: ان کے شرف کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ جس کے باپ دادا میں سے تین شخص لگاتار رئیس قبیلہ ہو ںاور ان کی نسل سے چوتھا بھی رئیس بنے تو قبیلہ کی ریاست اس کے خاندان کو ملتی ہے۔(٣)
عصر جاہلیت میں عرب قبیلہ کے افراد کی کثرت کو اپنے لئے مایہ ٔ افتخارسمجھتے تھے اور اس طرح اپنے رقیب قبائل پر فخر و مباہات کرتے اور ان سے افراد کی تعداد کا مقابلہ کرتے تھے (٤) یعنی اپنے افراد کی تعداد بتا کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
ایک دن دو قبیلوں کے درمیان اس قسم کا تفاخر شروع ہوا، ہر ایک نے اپنے قبیلہ کے افتخارات بیان
______________________
(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٠۔
(٢)سورۂ سبا،٣٤، آیت ٣٧۔ ٣٥
(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨١۔
(٤) منافرہ، نفر سے بنا ہے یعنی ہر ایک اپنی تعداد دوسرے سے زیادہ بتاتا تھا۔ (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٨.) اس قسم کے تفاحر کے بے شمار واقعات، ظہور اسلام سے قبل تاریخ عرب میں نقل ہوئے ہیں۔
کئے اور طرفین نے دعویٰ کیا کہ ہماری خوبیاں اور قبیلہ کے افراد، دوسرے قبیلہ کے مقابل میں زیادہ ہیں اس موقع پر دونوں کی تعداد کو شمار کیا گیا، زندہ لوگوں کی سرشماری مفید ثابت نہیں ہوئی تو مردوں کے شمارش کی نوبت آئی اور دونوں طرف کے لوگ قبرستان گئے اور اپنے اپنے مردوں کو شمار کیا۔(١)
قرآن کریم نے ان کے اس جاہلانہ اور غیر عاقلانہ طرز عمل کی اس طرح سے مذمت کی ہے۔
''تمہیں باہمی مقابلۂ کثرت مال اور اولاد نے غافل بنادیا ، یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی اور اپنے مردوں کی قبر وںکو شمار کیا اور اس پر فخر و مباہات کیا . ایسا نہیںہے کہ گمان کرتے ہو ، دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا''۔ (٢)

نسب کی اہمیت
جاہل عربوں کے درمیان کمال کا ایک اہم معیار، نسب ہوا کرتا تھا جو ان کی نظر میں بہت اہمیت رکھتا تھا یہاں تک کہ بہت ساری خوبیاں ''نسب'' کی بنا پر ہوا کرتی تھیں۔(٣)
قبائل عرب میں نسلی تفاخر بہت زیادہ پایا جاتا تھا جس کا واضح نمونہ وہ قومی رقابتیں ہیں جو عدنانیوں
______________________
(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٢٠، ص ٣٥٣؛ آلوسی،گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٧٩
(٢) سورۂ تکاثر، ١٠٢،آیت ٣۔ ١
(٣) مثلاً اس زمانہ کی رسم یہ تھی کہ اگر کسی کا باپ عرب اور ماں عجمی ہوتی تھی تو اس کو طعنہ اور تحقیر کرنے کے لئے ''ہجین'' کہتے تھے (جو نسب کی پستی اورناخالصی پر دلالت کرتا ہے) اور اگر کوئی اس کے برعکس ہوتا تھا تو اس کو ''مذَرّع''۔۔کہتے تھے۔ ھجین ارث سے محروم رہتا تھا (ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٦، ص ١٢٩؛ ھجین مرد صرف اپنی جیسی عورتوں سے شادی کرنے کا حق رکھتا تھا (محمد بن حبیب المحبر، (بیروت: دار الآفاق الحدیدة)، ص ٣١٠؛ شہرستانی، الملل و النحلل، (قم: منشورات الرضی، ط٢) ص ٢٥٤. دور اسلام میں پیغمبر اسلام ۖ سے ھجین کے خون بہا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: اسلام کے ماننے والوں کے خون کی قیمت برابر ہے۔(ابن شہر آشوب، مناقب،( قم: المطبعة العلمیہ، ج١، ص ١١٣.
(شمالی عرب) اور قحطانیوں (جنوبی عرب) کے درمیان پائی جاتی تھیں۔(١)اسی بنا پر وہ لوگ اپنے نسب کی شناخت اور حفاظت کو اہمیت دیتے تھے۔
نعمان بن منذر کسریٰ کے جواب میں کہتا ہے: عرب کے علاوہ کوئی بھی امت، اپنے نسب سے واقف نہیں ہے اور اگر ان کے اجداد کے بارے میں پوجھا جائے تو اظہار لاعلمی کرتے ہیں لیکن ہر عرب اپنے آباء و اجداد کو پہچانتا ہے اورغیروں کو اپنے قبیلہ کا جزء نہیں مانتا اور خود دوسرے قبیلہ میں شامل نہیں ہوتا اور اپنے باپ کے علاوہ دوسروں سے منسوب نہیں ہوتا۔(٢)
لہٰذا تعجب کی بات نہیں ہے کہ علم ''نسب شناسی'' اس وقت ایک محدود علم تھا جس کی بڑی اہمیت تھی اور نسب دانوں کوایک خاص مقام حاصل تھا۔
آلوسی جوکہ عرب شناسی کے مسئلہ میں صاحب نظر ہے کہتا ہے: عرب کے جاہل اپنے نسب کی شناخت اور حفاظت کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ شناخت الفت و محبت کا ایک وسیلہ تھی وہ اور ان کے یہاں اس کی زیادہ ضرورت پڑتی تھی کیونکہ ان کے قبائل متفرق ہوتے تھے اور جنگ کی آگ مستقل ان کے درمیان شعلہ ور تھی اور لوٹ و مار ان کے درمیان رائج تھا۔ اور چونکہ وہ کسی قدرت کے ماتحت نہیں
______________________
(١)جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، (بیروت: دار العلم للملائین، ١٩٦٨م)، ج١، ص ٤٩٣کے بعد؛ شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی، العصر الجاہلی، ص ٥٥۔
(٢)آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٩۔ زمانہ اسلام میں عمر بن خطاب نے اسی فکر سے متاثر ہوکر عراق کے نبطیوں سے جنھوں نے اپنا تعارف اپنے رہنے کی جگہ سے کیا تھا ، ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا: اپنے نسب کو سیکھو اورعراق کے نبطویں کی طرح نہ بنو اس لئے کہ جب ان سے ان کے خاندان اور نسب کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو جواب میں کہتے ہیں فلاں جگہ اور فلاں محل کا رہنے والا ہوں ۔ (ابن خلدون ، مقدمہ، تحقیق: خلیل شحادہ و سہیل زکار، نویں فصل، ص ١٦٢؛ ابن عبد ربہ اندلسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣١٢)۔
رہنا چاہتے تھے جو ان کی حمایت کرے لہٰذا وہ مجبور ہوکر اپنے نسب کی حفاظت کیا کرتے تھے تاکہ اپنے دشمن پر کامیاب ہوسکیں کیونکہ رشتہ داروں کی آپسی محبت، حمایت اور تعصب ایک دوسرے کے الفت اور تعاون کا باعث بنتی ہے اور رسوائی اور تفرقہ سے رکاوٹ کا باعث قرار پاتی ہے۔(١)
دین اسلام ہر طرح کی قومی برتری کا مخالف ہے اگر چہ قرآن کریم قریش اور عرب کے درمیان نازل ہوا تھا لیکن اس کے مخاطبین صرف قریش، عرب یا اس کے مانند دوسرے افراد نہیں ہیں بلکہ اس کے مخاطبین عوام الناس ہیں اور اس میں مسلمانوں او رمومنین کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم قومی فرق کو فطری جانتا ہے اور اس فرق کا فلسفہ بتاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں اور قومی اور نسلی فخر و مباہات کی مذمت کرتا ہے اور بزرگی کا معیار ''تقویٰ'' کوبتاتا ہے۔
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شیٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔(٢)
پیغمبر اسلاۖم نے نسلی اور خاندانی فخر و مباہات کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ جس کے چند نمونے یہ ہیں:
١۔ فتح مکہ کے موقع پر جب قریش کا اصلی قلعہ منہدم ہوگیا تو آپ نے فرمایا: اے لوگو! خداوند عالم نے نور اسلام کے ذریعہ، زمانۂ جاہلیت میں رائج فخر و مباہات کو ختم کردیا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ تم نسل آدم سے ہو اور آدم خاک سے پیدا ہوئے ہیں۔ خدا کا بہترین بندہ وہ ہے جو متقی ہو کسی کے باپ کا عربی
______________________
(١) بلوغ الارب، ج٣، ص ١٨٢؛ اسی طرح رجوع کریں: المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج١، ص٤٦٧۔ ٤٦٦۔
(٢) سورۂ حجرات،٤٩، آیت ١٣۔ حضرت امام صادق سے ایک روایت کے مطابق اور بعض تفسیروں کیبنیاد پر، مذکورہ آیت میں کلمۂ ''قبائل'' سے مراد عرب کے چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جن میں سے ہر ایک کو ''قبیلہ''کہا جاتا ہے اور ''شعوب'' سے مراد غیر عربی گروہ ہے۔ (طبرسی، مجمع البیان، تفسیر سورۂ حجرات، ذیل آیۂ ١٣)
ہونا فضیلت نہیں رکھتا ، یہ صرف زبانی بات ہے اور جس کا عمل اسے کسی مرتبہ پر نہ پہنچا سکے اس کا نسب و خاندان بھی اسے کسی مرتبہ پر نہیں پہنچا سکتا۔(١)
٢۔ حجة الوداع کے موقع پر ایک مفصل خطبہ کے دوران جو کہ اہم اور بنیادی مسائل پر مشتمل تھا آپ نے فرمایا: کوئی عربی، عجمی پر فضیلت نہیں رکھتا، صرف تقویٰ کے ذریعہ آدمی بزرگ اور محترم قرار پاتا ہے۔(٢)
٣۔ایک دن آپ نے قریش کے سلسلے میں گفتگو کے دوران، جناب سلمان کی باتوں کی تائید فرمائی اور قریش کے غلط طرز فکراور انکی نژاد پرستی کے مقابلہ میں روحانی کمالات پر تکیہ کرتے ہوئے فرمایا: اے گروہ قریش! ہر شخص کا دین ہی اس کا حسب و نسب ہے اور ہر کسی کا اخلاق و کردار ہی اس کی مردانگی ہے اور ہر ایک کی اساس اور بنیاد اس کی عقل و فہم اور دانائی ہے۔(٣)
______________________
(١) کلینی ، الروضة من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٢)، ص ٢٤٦؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب اسلامی)، ج٢١، ص ١٣٧ ، اور ١٣٨، اور الفاظ میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ، سیرہ ابن ہشام، ج٤، ص ٥٤، پر نقل ہوا ہے۔
(٢) حسن بن علی بن شعبہ، تحف العقول (قم: مؤسسة النشر الاسلامی، ط٣، ١٣٦٣)، ص ٣٤.
(٣) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ص ١٨١۔