تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

جنوبی جزیرة العرب (یمن) کے حالات
اگر ہم اس سرزمین کے نقشہ پر نگاہ ڈالیں تو جزیرة العرب کے مغربی جنوب کے آخر میں ایک علاقہ مثلث کی شکل میں نظر آتا ہے جس کے مشرقی ضلع میں بحر عرب کا ساحل اور مغربی ضلع میں بحر احمر کا ساحل ہے اور ظہران (جوکہ مغرب میں واقع ہے) سے وادی حضر موت (جوکہ مشرق میں واقع ہے) تک کھینچے جانے والے خط کو مثلث کا تیسرا ضلع قرار دیا جاسکتا ہے ان حدود میں جو علاقہ ہے اس کو قدیم زمانے سے ''یمن'' کہا جاتا ہے اس علاقہ میں پانی کی فراوانی اور مسلسل بارش کی وجہ سے کاشتکاری اچھی اور آبادی زیادہ رہی ہے۔ اس بنا پر یہ علاقہ شمالی یا مرکزی جزیرة العرب سے قابل قیاس نہیں ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ ایک بڑی آبادی کے لئے دائمی جائے سکونت کی ضرورت پڑتی ہے اور اسی وجہ سے قصبے اور شہر بنتے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں بستے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی نظام لازم ہوتا ہے لہٰذا اس کے لئے قانون بنایا جاتا ہے (اگرچہ وہ ابتدائی اور آسان ہی کیوں نہ ہو) اور یہ بات واضح ہے کہ قوانین کے ساتھ حکومت کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ان دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقہ میں حضرت مسیح کی ولادت سے صدیوں سال قبل حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور ان کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کو رواج ملا ہے.(١)۔ جو حکومتیں اس علاقہ میں قائم ہوئی ہیں وہ یہ ہیں:
١) حکومت معین: یہ حکومت ١٤٠٠ سے ٨٥٠ سال قبل عیسوی تک برقرار رہی اور حکومت سبا کے تسلط پر ختم ہوگئی۔
٢)حکومت حضر موت: جو ١٠٢٠ عیسوی سے قبل شروع ہوئی اور ٦٥ عیسوی کے بعد تک باقی رہی اور حکومت سبا کے مسلط ہونے کے ساتھ ختم ہوگئی۔
٣)حکومت سبا: جو ٨٥٠ عیسوی سے لیکر ١١٥ عیسوی سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حمیری سبا وریدان کے برسر اقتدار آتے ہی بکھر گئی۔
٤)حکومت قتیان: جو ٨٦٥ سے لے کر ٥٤٠ سال قبل مسیح تک برسر اقتدار رہی اور حکومت سبا کے آتے ہی نابود ہوگئی۔
٥) حکومت سبا و ریدان: حضر موت اور اطراف یمن جن کے بادشاہوں کے سلسلہ کو ''تبع'' کہا گیا ہے اور ان کی حکومت سال عیسوی سے ١١٥ سال پہلے شروع ہوئی اور عیسوی کے بعد ٥٢٣ء تک برقرار رہی اور اس کی راجدھانی ''ظفار'' تھی۔ (٢)
_______________________
(١) سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام (تہران: مرکز اشاعت یونیورسٹی، ط٦، ١٣٦٥)، ص ٣.
(٢) احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ (قاہرہ: مطبعة السنة المحمدیہ ، ط ٢، ١٣٨٤ھ.ق)، ص ٥٣.

جنوبی عرب کی درخشاں تہذیب
یمن کی پر رونق تہذیب مورخین کی نگاہ میں قابل تحسین واقع ہوئی ہے جیسا کہ ہَرُودَت (قبل مسیح پانچویں صدی میںیونان کا ایک بزرگ مورخ) دور سبا میں اس سرزمین کی تہذیب اور عالی شان محلوں اور ہیرے اور جواہرات سے مرصع دروازوں کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ ان میں سونے چاندی کے ظروف اور قیمتی دھاتوں سے بنی ہوئی پلنگیں موجود تھیں۔(١) کچھ مورخین نے صنعاء کے عالی شان محل (غمدان) کا ذکر کیا ہے جو بیس منزلہ تھا جس میں سو عدد کمرے تھے اور کمروں کی دیواریں بیس ہاتھ لمبی اور ساری چھتیں آئینہ کاری اور شیشے سے مزین تھیں۔(٢)
ستر ابون (روم کا مشہور سیاح) نے بھی سن عیسوی سے ایک صدی قبل اس سرزمین کا دورہ کیا تو اس علاقہ کے تمدن کے بارے میں ھرودت کی طرح اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا۔ مأرب ایک عجیب و غریب شہر ہے جس کی عمارتوں کی چھتیں عاج سے بنائی گئی ہیں اور ان کو ہیرے اورجواہرات سے مرصع تختیوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اور وہاں ایسے خوبصورت ظروف دیکھنے کو ملے جن کو دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جائے۔(٣)
اسلامی مورخین اور جغرافیہ دان جیسے مسعودی (وفات ٣٤٦ھ) اور ابن رُستہ (تیسری صدی ہجری کے دانشوروں سے ہیں)نے بھی اس علاقہ کے لوگوں کی ظہور اسلام سے قبل، پُر رونق اور خوشحال زندگی، عمارتوں اور آبادیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔(٤)
_______________________
(١) گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٩٢.
(٢) سید محمود شکری آلوسی بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٢)، ج١، ص ٢٠٤.
(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر، ١٣٣٣)، ج١، ص ١٣.
(٤) مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید (دار الرجاء للطبع و انشر)، ج٢، ص ٨٩؛ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ترجمہ و تعلیق: حسین قراچانلو (تہران: امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٥)، ص ١٣٢.
انیسویں اور بیسویں صدی میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطالعے اور بحثوں اور مورخین کی تحقیقات سے اس علاقہ کی تاریخ واضح ہوئی اور ایسی نئی دستاویزات اور شواہد ملے جن سے اس سرزمین کے درخشاں اور قدیمی تمدن کا پتہ چلتاہے۔ عدن، صنعائ، مأرب اور حضر موت کے آثار قدیمہ اس بات کے گواہ ہیں کہ عرب کے جنوبی علاقہ یمن اور اس کے نواح میں بسنے والوں میں عظیم تمدن پایا جاتا تھا جو فینیقیہ اور بابل کے تمدن کے مقابلہ میں تھا۔ یمن کے قدیمی تمدن کا ایک مظہر مأرب کا سب سے بڑا بند تھا۔(١) یہ بند جو دقیق ریاضی محاسبات اور پیچیدہ نقشہ کے مطابق بنایا گیا تھا اس کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نقشہ بنانے والا علم ہندسہ کا کس قدر ماہر تھا کہ اس سے اس علاقہ میں کس قدر کاشتکاری اور خوشحالی پیدا ہوئی۔ (٢)
یمن کے لوگ کاشتکاری کے علاوہ، تجارت بھی کرتے تھے اور سبئیان مشرق و مغرب کی تجارت کا وسیلہ تھے کیوں کہ ملک یمن اس زمانہ میں چند متمدن ملکوں کے درمیان واقع تھا۔ ہندوستان کے تاجر اپنے تجارتی مال کو سمندر کے ذریعہ یمن اور حضر موت لایا کرتے تھے اور یمن کے تاجر اس کو حبشہ، مصر، فینیقیہ، فلسطین، مدین کے شہر، ادوم، عمالقہ اور مغربی ممالک لے جایا کرتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے تجارتی مال کو خشکی کے راستے سے دنیا کے مختلف آباد علاقوں میں بھیجتے تھے(٣)۔ ایک زمانہ تک مشرق و سطیٰ کی تجارت یمنیوں کے ہاتھ میں تھی(٤) بحر احمر کی راہوں میں مشکلات کی بنا پر سبئیوں نے خشکی کے
_______________________
(١) مأرب بند، یمن کے موجودہ دار الحکومت صنعاء کے مشرقی سمت میں ١٩٢کلو میٹر کے فاصلہ واقع پر ہے۔
(٢) اس بند کے نقشے اور اس کی تعمیری خصوصیات سے مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں : فرہنگ قصص قرآن (ضمیمۂ قصص قرآن) صدر بلاغی، (تہران: امیر کبیر، ط ٣، ص ٨٢ اور ٨٨؛ احمد حسین شرفالدین، الیمن عبر التاریخ ، ص ١٣٢۔ ١٢٢۔
(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ١١.
(٤) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ترجمہ: احمد آرام و ھمکاران (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٧)، ج١، ص ٣٤١.
راستے کو اختیار کیا اسی لئے وہ یمن سے شام تک کی مسافت کو جزیرة العرب کے مغربی ساحل سے طے کرتے تھے۔ یہ راستہ ''مکہ'' اور ''پترا'' سے گزر کر شمال کی جانب مصر، شام اور عراق کی طرف نکلتا ہے۔(١)

مأرب کے بند کی تباہی
یمنیوں میں برائیوں کا رواج اور اندرونی فتنوں اور فسادات کی بنا پر وہاں کا چمکتا ہوا خورشیدتمدن روز بروز غروب ہونے لگا تھا اور بند مأرب جو کہ مرمت کا محتاج تھا وہاں کے حکمراں اور باشندے اس کی مرمت نہیں کرسکے آخر کار ٹوٹنے کی وجہ سے سیلاب نے آس پاس کی آبادی اور کھیتی کو نابود کردیا اوراس کے اطراف میں پانی کی قلت کی بنا پر کاشتکاری ختم ہوگئی اور لوگ دوسری جگہ کوچ کرنے پر مجبور ہوگئے(٢)۔ قرآن کریم کے دو سوروں میں قوم سبا کا نام آیا ہے۔
ایک ملکۂ سبا کے ذکر اور ان کے نام حضرت سلیمان کے خط کی مناسبت سے اس طرح تذکرہ ہے ''زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ (ہدہد) آیا اور کہا: میں ایسی چیز جانتا ہوں جس سے آپ باخبر نہیں ہیں میں سرزمین سبأ سے آپ کے لئے یقینی خبر لایاہوں میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو وہاں حکومت کرتی ہے اور تمام چیزیں اس کے اختیار میں ہیں (خاص طور سے ) ایک بڑا تخت رکھتی ہے''۔(٣)
اور دوسری جگہ مأرب نامی بند کے ٹوٹنے سے سیلاب کی آمد اور برائیوں اور فحشاء کے رواج کے
_______________________
(١) فیلیپ حِتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات آگاہ، ط٢، ١٣٦٦)، ص ٦٥۔ ٦٤؛ رجوع کریں: گوشتاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ص ٩٤؛ احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ، ص ١٠٥؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج١، ص ٢٠٣.
(٢) حسن ابراہیم، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ص ٣٢.
(٣) سورۂ نمل ،٢٧، آیت ٢٣۔ ٢٢.
نتیجے میں قوم کے انحطاط کی مناسبت سے یوں ذکر ہوا ہے ۔ ''اور قوم سبأ کے لئے ان کے وطن ہی میں ہماری نشانیاں تھیں کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے۔ تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے۔ مگر ان لوگوں نے انحراف کیاتو ہم نے ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغات کو ایسے دو باغات میں تبدیل کردیا جن کے پھل بے مزہ تھے اوران میں جھاؤ کے درخت اور کچھ بیریاں تھیں یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزا دی ہے اور ہم ناشکروں کے علاوہ کس کو سزا دیتے ہیں۔ اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سفر کو معین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے۔ تو انھوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے شہروں اور آبادیوں میں دوری پیدا کردے اور اس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانی بنا کر چھوڑ دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر و شکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ (١)
حمزہ اصفہانی نے اس بند کی تباہی کو ظہور اسلام سے چار صدی قبل(٢)، ابوریحان بیرونی نے تقریبا ٥صدی قبل(٣) اور یاقوت حموی نے حبشیوں کے تسلط کے زمانہ میں ذکر کیا ہے(٤) اور چونکہ حبشیوں کا تسلط چھٹی صدی کے وسط میں ہوا تھا لہٰذا بعض مورخین کا گمان ہے کہ اس بند
_______________________
(١) سورۂ سبا، ٣٤،آیت ١٩۔ ١٥
(٢) حمزہ اصفہانی، تاریخ پیامبران و شاھان( تاریخ ملوک الارض و الانبیائ)، ترجمہ: جعفر شعار (تہران: امیر کبیر، ط ٢، ١٣٦٧)، ص ١٢٠ اور ١٣٢۔
(٣) آثار الباقیہ، ترجمہ: ابکر دانا سرشت (تہران: امیر کبیر، ط ١ ، ١٣٦٣)، ص ١٨١۔
(٤) معجم البلدان، تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ.ق)، ج٧، ص ٣٥٥.
کی تباہی ٥٤٢ سے ٥٧٠ عیسوی کے درمیان میں ہوئی ہے۔(١) بہرحال شاید اس بند کی تباہی تدریجی طور پر ہوئی ہے اور چند بار مرمت کے بعد آخر کار یہ منہدم ہوگیا۔
قرآن مجید میں قوم تُبّع(٢) اور ان کے انجام کار کا دو جگہ پر ذکر ہوا ہے۔
١۔ ''بھلا یہ لوگ زیادہ بہتر ہیں یا قوم تُبَّع اور ان سے پہلے والے افراد جنھیںہم نے اس لئے تباہ کردیا کہ یہ سب مجرم تھے''(٣)
٢۔ان سے پہلے قوم نوح، اصحاب رس(٤) اور ثمود نے بھی تکذیب کی تھی۔ اور اسی طرح قوم عادوفرعون ، قوم لوط ،اصحاب ایکہ(٥) اورقوم تُبَّع نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تو ہمارا وعدہ پورا ہوگیا۔(٦)

جزیرة العرب پرجنوبی تہذیب کے زوال کے اثرات
جنوبی ملکوں کا انحطاط اور جزیرة العرب کے جنوب میں تمدن کا زوال اور بند مأرب کی تباہی اس علاقہ کے حالات کی تبدیلی کا باعث بنی کیونکہ وہاں پر زندگی کی سہولیتں مفقود ہوگئیں تھیں اور بند کے
_______________________
(١) فیلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ص٨٢.
(٢) تُبَّع (جس کی جمع تبایعہ ہے) یمن میں حمیری بادشاہوں کا لقب ہوا کرتا تھا ۔ یہ لوگ دوسرے درجہ کے بادشاہ ہوا کرتے تھے پہلے درجہ کے بادشاہ، سبا اور ریدان کے بادشاہ تھے جنھوں نے ١١٥ سال قبل مسیح سے ٢٧٥ سال بعد مسیح تک حکومت کی ہے۔ سبا، ریدان، حضر موت اور شَحر ، کے دوسرے درجے کے بادشاہوں نے ٢٧٥ سے ٥٣٢ تک بعد مسیح حکومت کی ہے۔ (احمد حسین شرف الدین، الیمن عبر التاریخ، ص ٩٧۔ ٩٠)
(٣) سورۂ دخان، ٤٤،آیت ٣٧.
(٤) وہ قوم جو یمامہ میں زندگی بسر کرتی تھی۔
(٥) قوم شعیب.
(٦)ق.(٠ ٥) ١٤۔ ١٢.
اطراف کی کھیتیاں پانی کی عدم موجودگی کی بنا پر ختم ہوگئیں تھیں لہٰذا وہاں پر آباد قوموں میں سے کچھ لوگ مجبور ہوکر دوسری جگہ کوچ کرگئے۔ اس انتشار کے نتیجے میں تنوخ خاندان جو کہ یمنی قبیلہ ازد سے تھا، حیرہ (عراق) ہجرت کرگیا اور وہاں ''لخمیان'' کی حکومت کی بنیاد ڈالی اور ''آل جَفنہ'' کا خاندان شام چلا گیا اور وہاں مشرقی اردن کے علاقہ میں حکومت کی بنیاد ڈالی اور ''سلسلۂ غسانیان'' کے نام سے مشہور ہوا۔(١)
قبیلۂ اوس اور خزرج، یثرب (مدینہ) خزاعہ، مکہ اور اس کے اطراف میں قبیلۂ بجیلہ و خثعم اور دوسرے چند گروہ، سروات کے علاقہ میں جاکر ہمیشہ کے لئے بس گئے(٢) اور ان میں سے ہر ایک نے اپنی ایک مستقل تاریخ کی بنیاد ڈالی۔

شمالی جزیرة العرب]حجاز[ کے حالات
حجاز ایسا خشک علاقہ ہے جہاں پر بارش کم ہوتی ہے اور (پہاڑی اور ساحلی علاقوں کے علاوہ) لو چلتی ہے اور اس سے وہاں کے باشندوں کی زندگی متاثر ہے اور چونکہ یہاں کے رہنے والے، یمنیوں کے برخلاف آب و گیاہ کی کمی کی بنا پر صرف پالتو جانوروں کا ایک مختصر گلہ یا اونٹ کے علاوہ دوسری چیزیں نہیں رکھ سکتے تھے لہٰذا یہ لوگ اپنی خوراک اور پوشاک عموماً اونٹ کے ذریعہ فراہم کرتے تھے اور چونکہ دور دراز کے علاقوں میں ہجرت اور صحراؤوں میں رفت و آمد صرف اسی طرح کی گلہ داری کے ذریعہ ممکن تھی لہٰذا ایک سیاسی نظام کا قیام اور خانہ بدوشوں کے لئے دائمی سکونت ممکن نہ تھی اس وجہ سے
_______________________
(١) حمزۂ اصفہانی، تاریخ پیامبران و شاہان، ص ٩٩ اور ١١٩ ؛ نیز رجوع کریں: حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ص ٤٤؛ ابوریحان بیرونی، الآثار الباقیہ، ص ١٨١ اور ١٨٣۔
(٢) کارل بروکلمان، تاریخ ملل و دول اسلامی، ترجمہ: ھادی جزایری، (تہران: ادارہ ترجمہ ونشر کتاب، ١٣٤٦)، ص٥.
یہاں کے لوگ (جنوبی علاقہ کے لوگوں کی بہ نسبت جو کہ شہر نشین اور کاشتکار تھے) غیر متمدن، خانہ بدوش اور صحرا ئی لوگ تھے۔ مکہ کے علاوہ حجاز کے دوسرے شہر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔
انھیں علاقائی دشواریوں اورخراب راستوں کی وجہ سے اہل حجاز کا، اس زمانہ کے متمدن لوگوں سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا اور یہ قدرتی اور جغرافیائی حالات باعث بنے تھے کہ یہ علاقہ سلاطین جہاں کی طمع اور ان کے حملوں سے محفوظ رہا اور اس طرح سے دنیا کے بڑے سلاطین اور فاتحان عالم جیسے رامِس دوم چودھویں صدی میں قبل مسیح ، سکندر مقدونی کو قبل مسیح چوتھی صدی میں اورایلیوس گالوس (اگوست کے زمانہ میں پہلی صدی عیسوی میں روم کا بادشاہ) کو حجاز پر تسلط سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسی طرح ایرانی شہنشاہوں نے بھی اس علاقہ پر قبضہ نہیں کیا اسی لئے حجاز کے لوگ آسودہ خاطر ہوکر اپنی زندگی گزار رہے تھے(١)۔ ایک مورخ اس بارے میں لکھتا ہے:
جس وقت دمتریوس، یونانی سردار (اسکندر کے بعد) سعودی عرب پر قبضہ کرنے کے ارادہ سے پترا پہونچا تو اس علاقہ کے بدّووں نے اس سے کہا: اے امیر بزرگ! کیوں ہم سے جنگ کے لئے آئے ہو؟ ہم ایسے ریگستانی علاقہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ جہاں زندگی گزارنے کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ہم اس بیابان اور تپتے ہوئے صحرا میں اس بنا پر زندگی بسر کر رہے ہیں کہ کسی کے ماتحت اور غلام بن کر نہ رہیں۔ لہٰذا ہماری جانب سے پیش کردہ ہدیہ قبول فرمائیں اور اپنی جگہ واپس چلے جائیں اورایسی صورت میں ہم آپ کے باوفا ساتھیوں میں سے ہوں گے لیکن اگر آپ نے ہمارا محاصرہ کر کے، ہمارے صلح کے مشورے کو قبول نہ کیا تو آپ کو ایک زمانہ تک اپنی راحت و سکون کی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور آپ ہماری اس عادت اور طرز زندگی کو جو شروع سے چلی آرہی ہے تبدیل نہیں کرسکتے اور اگر ہم میں سے چند افراد کو اسیر کر کے لے بھی گئے تو آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ یہ لوگ اپنی ہمیشہ کی آزاد زندگی کو چھوڑ کر آپ کی غلامی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا دمتریوس نے
_______________________
(١) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام، (تہران: امیر کبیر، ١٣٣٣)، ج١، ص ١٥.
ان کے پیش کردہ ہدیہ کو قبول کرلیا اور ایک ایسی جنگ سے جس میں مشکلات اور پریشانیوں کے علاوہ اس کے ہاتھ کچھ نہ آتا چشم پوشی کر کے واپس چلا گیا۔(١)
ایک دانشمند کہتا ہے کہ جزیرة العرب انسان اور زمین کے درمیان روابط کے منقطع نہ ہونے کا ایک کامل نمونہ ہے۔ اگر مختلف ملکوں میں جیسے ہندوستان، یونان، اٹلی، انگلینڈ اور امریکہ میں موقع پرست قومیں مسلسل ایک دوسرے کو شکست دینے یا اپنے زیر تسلط رکھنے کی بنا پر دوسری جگہ کوچ کرگئی ہیں۔ تاریخ عرب میں کوئی ایسا جنگجو بادشاہ نہیں ملا جس نے ریگستان کے سینہ کو چاک کرکے وہاں پر دائمی سکونت اختیار کی ہو، بلکہ عرب کے لوگ (تاریخی دستاویزات کے مطابق) ہمیشہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہے۔ اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ (٢)
_______________________
(١) گوسٹاولوبون، تاریخ تمدن اسلام، ج١، ص ٨٨.
(٢) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، ص ١٤۔