تاریخ اسلام
دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک
 

پہلا حصہ
مقدماتی بحثیں

پہلی فصل : جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال
دوسری فصل: عربوں کے صفات اور نفسیات
تیسری فصل: جزیرہ نمائے عرب اور اس کے اطراف کے ادیان و مذاہب

پہلی فصل
جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال
جزیرہ نمائے عرب جس کو ''جزیرة العرب'' بھی کہتے ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے جو مغربی ایشیا کے جنوب میں واقع ہے۔
یہ جزیرہ مغربی شمال سے مشرقی جنوب تک ''غیر متوازی چوکور'' شکل میں ہے.(١) اور اس کی مساحت تقریباً بتیس (٣٢) لاکھ مربع کلو میٹر ہے.(٢) اس جزیرہ نما کے تقریباً ٤٥ حصے میں اس وقت سعودی عرب واقع ہے.(٣) اور اس کا بقیہ حصہ دنیا کی موجودہ سیاسی تقسیم بندی کے اعتبار سے چھ ملکوں یعنی یمن، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت میں بٹا ہوا ہے۔
اس جزیرہ نما کی سرحد، جنوب کی سمت سے خلیج عدن، تنگۂ باب المندب، بحر ہند اور بحر عمان میں محدود ہے اور مغرب کی سمت میں یہ بحر احمر اور مشرق کی طرف خلیج عمان، خلیج فارس اور عراق تک پھیلا ہوا ہے اور شمال کی جانب سے ایک وسیع صحرا جو کہ درّۂ فرات سے سر زمین شام تک ہے اس جزیرہ کو گھیرے
______________________
(١)حسین قراچانلو، حرمین شریفین (تہران: انتشارات امیر کبیر، ط ١، ١٣٦٢)، ص ٩.
(٢) یورپ کی ایک تہائی مساحت، فرانس کی چھ گنا مشرقی اور مغربی جرمنی کی نو برابر، دس برابر اٹلی ملک کی، ٨٠ گنا سویزرلینڈ اور ایران کی مساحت کے دوگنی مساحت ہے۔
(٣) مؤسسۂ گیتا شناسی، گیتا شناسی کشورھا (تہران: انتشارات گیتا شناسی، ط ٤، ١٣٦٥)، ص ٢٠٥.
ہوئے ہے۔ اور چونکہ اس علاقہ کی، دریا اور پہاڑ وغیرہ جیسی کوئی قدرتی سرحد نہیں ہے لہٰذا جغرافیہ دان قدیم زمانے سے ہی سعودی عرب کی شمالی سرحدوں کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔(١)
اگرچہ جزیرہ نمائے عرب خلیج فارس، بحر عمان، بحر احمر اور بحر مڈی ٹرانہ سے گھرا ہوا ہے لیکن صرف جنوبی حصہ کے علاوہ اس پانی سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ علاقہ دنیا کے بہت زیادہ خشک اور گرم علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہاں ایک ایسا بڑا دریا بھی موجود نہیں ہے جس میں بحری جہاز کا راستہ ہو بلکہ اس کے بجائے وہاں ایسی گھاٹیاں موجود ہیں جن میں کبھی کبھار سیلاب آجاتا ہے۔
اس علاقہ میں خشکی کی وجہ، اس جزیرہ میں پھیلے ہوئے ایسے پہاڑ ہیں جو ایک بلند دیوار کے مانند جزیرۂ سینا سے شروع ہوتے ہیں اور مغرب کی سمت میں بحر احمر کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے ہیںاور جنوب کے مغربی گوشہ سے ٹیڑھے ترچھے (غیر مستقیم) انداز میں جنوبی اور مشرقی ساحل سے ، خلیج فارس تک ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح سے سعودی عرب تین طرف سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ پہاڑ سمندروں کی رطوبت کو اس علاقہ میں سرایت کرنے سے روک دیتے ہیں۔(٢)
دوسرے یہ کہ اس کے اطراف کے ملکوں میں پانی کا ذخیرہ اتنا کم ہے کہ افریقا اور ایشیا کی اس وسیع آراضی کی گرمی اور خشکی کو یہاں کی مختصر سی بارش متعادل موسم میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ کیونکہ عرب میں ہمیشہ چلنے والی موسمی ہوائیں (جن کو سموم کہتے ہیں) بحر ہند کے جنوبی علاقہ سے اٹھتے ہوئے ابرباراں کو جزیرة العرب میں برسنے سے روک دیتی ہیں۔ (٣)
______________________
(١) فیلیپ خلیل حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: انتشارات آگاہ، طبع دوم، ١٣٦٦ ش)، ص ٢١
(٢) علی اکبر فیاض ، تاریخ اسلام، (تہران: انتشارات تہران یونیورسٹی، ط ٣ ١٣٦٧)، ص٢؛ آلبرمالہ و ژول ایزاک، تاریخ قرون وسطی تا جنگ صد سالہ، ترجمہ: میرزا عبد الحسین ہژیر (تہران: دنیای کتاب، ١٣٦٢)، ص ٩٥.
(٣) فلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤

جزیرة العرب کی تقسیم
عرب اور عجم کے جغرافیہ نویسوں نے جزیرة العرب کو کبھی موسم (آب و ہوا) کے لحاظ سے اور کبھی قوم یا نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے.(١) اور بعض معاصر دانشوروں نے اس کو مندرجہ ذیل تین بنیادی علاقوں میں تقسیم کیا ہے:
١۔ مرکزی حصہ جس کا نام ''صحرائے عرب'' ہے۔
٢۔ شمالی حصہ جس کا نام ''حجاز'' ہے۔
٣۔ جنوبی حصہ جو ''یمن'' کے نام سے مشہور ہے۔(٢)
_______________________
(١) مَقدِسی، چوتھی صدی کا مسلمان دانشور کہتا ہے کہ ملک عرب چار بڑے علاقوں ، حجاز، یمن ، عمان اورہجر پر مشتمل ہے۔ (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ترجمہ علی نقی منزوی (تہران: گروہ مؤلفین و مترجمین، ایران، ط ١، ١٣٦١)، ص ١٠٢، لیکن دوسروں نے کہا ہے کہ وہ پانچ حصے یعنی تہامہ، حجاز، نجد، یمن اور عروض پر مشتمل ہے. (الفداء ،تقویم البلدان، ترجمہ: عبد المحمد آیتی (تہران: انتشارات بنیاد فرھنگ ایران، ١٣٤٩)، ص ١٠٩، یاقوت حموی، معجم البلدان، بہ تصحیح محمد امین الخانجی الکتبی (قاہرہ: مطبعة السعادة، ط ١، ١٣٢٤ھ. ق)، ص١٠١، اور ٢١٩؛ شکری آلوسی، بغدادی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط ٢،)، ج١، ص ١٨٧؛ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم ، للملایین، ط ١، ١٩٦٨)، ج١، ص ١٦٧۔
ان کے علاوہ دوسری تقسیمات بھی ذکر ہوئی ہیں جس کا ہمارے زمانے میں کوئی خاص فائدہ نہیںہے ۔ رجوع کریں: گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی (تہران: کتاب فروشی اسلامیہ)، ص ٣١
(٢) یحیی نوری، اسلام و عقائد و آراء بشری، (جاہلیت و اسلام) ، تہران: مطبوعاتی فراہانی ١٣٤٦)، ص٢٣٤۔ ٢٣١)

جزیرة العرب کی تقسیم، اس کے شمالی اور جنوبی (قدرتی) حالات کی بنا پر
موجودہ دور میں ایک دوسری بھی تقسیم رائج ہوئی ہے جو اس کتاب کے لئے زیادہ مناسب ہے۔ یہ تقسیم، زندگی کے ان حالات کی بنیاد پر ہے جو اس علاقہ کے انسانوں، حیوانوں اور مقامات پر اثر انداز تھے اور یہ شرائط وہاں کے باشندوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات اور تبدیلیوں میں جلوہ گر ہوئے جو ظہور اسلام تک باقی رہے کیونکہ جزیرة العرب دومخالف جغرافیائی حالات کا گہوارہ رہا ہے اور وہاں کے اجتماعی حالات کا دارو مدار پانی کے وجود پر ہے اور پانی کی موجودگی یا عدم موجودگی ہی وہاں کے اجتماعی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی بنا پر اس کا جنوبی علاقہ یعنی ''یمن'' ،اس کے شمالی اور مرکزی علاقہ سے الگ ہو جاتا ہے۔