تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار دوران معاويہ
 

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ ايت 207كو جو حضرت على (ع) كى شان ميںنازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _
معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان ايتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا (1)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار
پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى اوازپر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_
مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _
جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _
ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _
سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _
مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟
ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے (2)
طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا (3)
انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _
البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _
طبرى لكھتے ہيں :
ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے ( 4)
اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان ايا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _
ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _
زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _
صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _
زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _
صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _
ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _
صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _
زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _
زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _
صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _
زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _
صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _
يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا (5)
دوسرا واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _
معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _
زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى (6)
ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو
برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _
معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں (7)_
مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو (8) _
مسعودى لكھتے ہيں :
زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى (9)
عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _
چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(10)_

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين
امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _
يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :
اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى (11)
ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _
ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :
انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ ايا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا (12) _
حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :
دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :
ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى (13) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں (14) _
ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _
يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _
كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :
بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _
ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا (15)
صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _
ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے
مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _
ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے (16)

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _
سہل بن سعد كہتے ہيں:
ايك روز ال مروان (17) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _
حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _
سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _
حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)
اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _
فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _
انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب (18)
ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _
عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :
ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟
ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _
1_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا '' اما ترضى ان تكون منى بمنزلة ھارون من موسى الّا انہ لا نبى بعدى ''
ترجمہ : ايا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _
2_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب اللہ و رسولہ و يحبہ اللہ و رسولہ ''
ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟
حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _
مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ ايت نازل ہوئي تھى ،كہ'' فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_
ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _
مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _
جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ ايا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) ايا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ ايا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :
اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر ايا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى (19)
مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_
سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوںگا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے (20)
ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :
امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_
معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _
مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےںگے_
يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _
معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _
ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_
يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _
زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _
ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا
بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _ (21) _

معاويہ كا اخرى ہدف
جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _
دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _
ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _
كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے ائے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _
لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _
ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _
ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟
ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _
لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _
خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _
اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر ائے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _
عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _
اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش ايا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ
اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_
اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _
خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوںگا (22) رسول خدا (ص) كى شہرت
عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے
كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے (23)
معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _
اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _
ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _
دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوںنے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم ايت3_3
معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى اواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا
ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_
سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں (24) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟
اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _
انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث
احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :
معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟
نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :
عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _
عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں
انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا
رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _
اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _
اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوںنے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _
رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا
نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :
اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _
عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا (25)
يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش ايا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ
جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _
غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟
ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟
يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟
يا كوئي دوسرى بات تھى ؟
ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں_
اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''
ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ
ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _
اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _
عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _
اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _
اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _
يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت
فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _
ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _
1_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _
2_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _
1_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :
عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:
اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _
2_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے
سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _
اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں_
3_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :
ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے ائے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان ائے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر ائے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان ائے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _
4_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:
ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان ائے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان ائے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _
5_ صحيح مسلم ميں دوسرى روايت يوں نقل ہوئي ہے _
عائشه كہتى ہيں ، جيسے ہى ميں نے رسول خدا (ص) سے پوچھا تو اپ (ص) نے فرمايا : اے عائشه ، ميں عثمان سے حيا كيوں نہ كروں اور اسكا احترام كيوں نہ بجالائوں ، خدا كى قسم _ عثمان كے شرم كے اگے فرشتوں كے سر جھك جاتے ہيں _
عائشه نے رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے حكومت عثمان كى خوب حمايت كى ليكن زيادہ دن نہيں گذرا كہ اسى زوجيت رسول كے ذريعہ انكو شكست دينے كى ٹھان لى تھى ، اور حكومت عثمان كا تختہ الٹنے كے لئے رسول(ص) كا كرتہ ليكر مسجد ميں چلى ائيں اور انكے خلاف تقرير كى _
اے مسلمانو يہ پيراہن رسول (ص) ہے ابھى كہنہ نہيں ہوا ہے ليكن عثمان نے انكى سنت كو بدل كرفرسودہ بنا ڈالا ہے _
ايك مرتبہ حكومت عثمان كو الٹنے كے لئے پيغمبر(ص) اسلام كى نعلين مبارك ليكر مسجد ميں اگئيں _ اور تيسرى مرتبہ رسول (ص) كي داڑھى كے بال كو لوگوں كى خدمت ميں پيش كيا ، ان واقعات سے اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ عائشه نے عثمان كے خلاف كبھى رسول(ص) كى نعلين مبارك تو كبھى داڑھى كے بال تو كبھى پيراہن رسول (ص) كے ذريعہ انكى حكومت كو گرانے كى كوشش كى تھى ، اور ان تمام چيزوں سے لوگوں كے جذبات و احساسات سے كھيلنا چاہا ، كيونكہ روابط خراب ہونے كے بعد عائشه كے اغراض و مقاصد دوسرے تھے جو زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنى چال چل رہى تھيں _
قتل عثمان كے بعد تاريخ كے صفحات پلٹے تو ان پرانى باتوں كو بالكل بھول گئيں اور بار ديگر انكے فضائل كو بيان كرنے ميں جٹ گئيں اور زوجيت رسول (ص) سے اس ميدان ميں بھى خوب فائدہ اٹھايا كيونكہ اس وقت انكے اغراض و مقاصد اور سياست دوسرى تھى _
6_ جب معاويہ نے تمام حكمرانوں كو يہ حكم ديديا تھا كہ عثمان كى تعريف كى جائے اور انكے فضائل و كمال كو بيان كرنے كے لئے جھوٹى حديث كا كار خانہ كھول ديا جائے تو اس وقت عائشه فرستادہ معاويہ سے عثمان كے سلسلہ ميں ايك شگفت اميز حديث نقل كرتى ہيں كہ رسول (ص) نے ايك مصاحب كى خواہش كى تو ميں نے اپنے باپ ( ابو بكر ) كو پيش كيا حفصہ نے اپنے باپ ( عمر ) كو بڑھايا ، ليكن پيغمبر(ص) اسلام نے ہم دونوں كى پيشنہادوں كو ٹھكرا ديا ، پھر ايك شخص كو بلايا اور اہستہ سے كچھ اس كے كان ميں كہا ، تھوڑى دير بعد عثمان گھر ميں اگئے تو رسول(ص) خدا نے ان سے خوب باتيں كيں اور ميںنے خود سنا ہے كہ اپ(ص) نے فرمايا تھا ، اے عثمان خدا وند عالم عنقريب تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے ، اگر لوگ اس پيراہن كو اتارنے كى كوشش كريں تو تم ہرگز نہ اتارنا _
7_ عائشه نے مسئلہ رضاعت ميں اپنى خاص رائے پيش كى اور كہنے لگيں ، پانچ مرتبہ دودھ پلانے سے رضاعى محرميت پيدا ہو جاتى ہے اور اپنى بہنوں اور عورتوں كو اس كا حكم ديا تھا ، اور اس اكلوتے فتوے سے فائدہ يہ اٹھانا چاہتى تھيں كہ جو
لوگ معاشرے ميں با رسوخ ہيں وہ انكے پاس ائيںجائيں اسى بنا پر اس شرعى بہانے كو تلاش كيا تاكہ لوگ ان پر كوئي انگلى نہ اٹھا سكيں ، مگر ديگر ازواج رسول (ص) نے ان پر اعتراض كر ديا اور كہنے لگيں رضاعت اس وقت محقق ہو گى جب طبق معمول انجام دى جائے نہ كہ پانچ يا دس بار دودھ دينے سے پيدا ہو گى _
عائشه نے كہا ، جب ايہ الكبير عشرا رسول پر نازل ہوئي كہ دس بار دودھ پلانے سے پردہ ساقط ہو جاتا ہے تو اسكو ايك پتے پر لكھ كر تخت كے نيچے ركھ ديا تھا ليكن جب رسول (ص) بيمار ہو گئے اور ہم لوگ انكى تيمار دارى ميں لگے ہوئے تھے تو ايك بكرى گھس گئي اور وہ پتے كو كھا گئي (26)
صحيح مسلم ميں جو دوسرى روايت عائشه سے نقل ہوئي ہے وہ يہ ھيكہ ، قران ميں يہ ايت ( عشر رضعات يحرمن ) رسول كے زمانے ميں موجودتھى پھر يہ ايت ( خمسون معلومات ) سے منسوخ كر دى گئي ، پھر عائشه تعليقہ لگاتى ہيں كہ ، جب رسول (ص) اس دنيا سے چلے گئے تو يہ قران ميں تھى اور لوگ اسكى تلاوت بھى كرتے تھے (27)
ام المومنين عائشه كے كہنے كا مطلب يہ ہے كہ پانچ مرتبہ دودھ پلانے سے محرميت پيدا ہو جائے گى ، اور ميرے فتوے كى دليل قران كى ايت تھى اور اس ايت كى رسول (ص) كے زمانے ميں تلاوت بھى ہوئي ليكن اس كے بعد اس ايت كو بھلا ديا گيا (28)
اپ نے چند حديثيں ملاحظہ فرمائيں يہ سارى كى سارى نمونہ تھيں جو عائشه نے زوجيت رسول(ص) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گڑھى تھيں اور معاشرے كو تحفے ميں پيش كى تھيں اگر اپ ان كى حديثوں كى چھان بين كريں گے تو ديكھيں گے كہ ازواج پيغمبر(ص) ميں سے كسى اور نے ان كى روايت نہيں كى ہے اور انھيں كى جعلى حديثوں كى وجہ سے اج پيغمبر(ص) اسلام كا چمكتا ہوا چہرہ دھندلا نظر ارہا ہے ، اور ان ہى حديثوں نے انحضرت(ص) كو ايك معمولى انسان بنا ديا ہے _
تعجب كى بات تو يہ ہے كہ اس زمانے سے ليكر اج تك تمام مسلمان ( سوائے شيعوں كے ) رسول اكرم (ص) كى سيرت و
حيات كو عائشه ہى كى روايتوں ميں تلاش كرتے ہيں _
يہ مسئلہ غور طلب ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام كى واقعى شخصيت ايك مسلمان سے ڈھكى چھپى رہے كيونكہ حاكمان وقت كى يہى كوشش تھى كہ اگر رسول (ص) كى معرفت ہو تو ام المومنين عائشه كى حديثوں سے ہواور اس ميں كسى دوسرے كا دخل نہ ہو _
جبكہ اپ حضرات نے ديكھا كہ ان جھوٹى حديثوں نے كس طرح رسول (ص) اسلام كى حقيقى شخصيت كو مجروح كر كے بالكل نيست و نابود كر ديا ہے _
ان تمام باتوں كے كہنے كا مطلب يہ ہے كہ اگر رسول(ص) اسلام كى ذات كو پہچاننا ہے تو سب سے پہلے ضرورت اس بات كى ہے عائشه كى حديثوں كو كھنگالا جائے تب جا كر رسول(ص) كے چہرے سے تاريك و تحريف كے ضخيم پردے خود بخود اٹھ جائينگے ، اور يہ بھى جان ليجئے كہ اسلام حقيقى كى شناخت موقوف ہے رسول (ص) اسلام كى واقعى ذات پر _
اسى لئے ميںنے اس كتاب ميں عائشه كى زندگى كو تاريخ كے ائينے سے پيش كيا ہے اور انشا اللہ پھر انكى حديثوں كى چھان بين كروں گا _
اس تحقيق كى راہ ميں تمام عائشه كے چاہنے والوں سے معافى مانگتے ہيں اور مجھے اميد ہے كہ وہ لوگ مجھے معاف بھى كر ديں گے كيونكہ ميرا ہدف صرف اتنا تھا كہ رسول(ص) خدا، دين اور قوانين الہى كى صحيح معرفت ہو جائے اسى لئے ہم نے اس خارداروادى ميں قدم ركھا ہے ، تاكہ اسكے ذريعے دين كى كوئي خدمت ہو جائے _
ہم نے اس كتاب ميں پہلى فصل ميں زندگانى عائشه كى جانچ پڑتال كى ہے اور فصل دوم ميں انكى احاديث كو ملاحظہ فرمائيں گے ، بس خدا سے يہ دعا ہے كہ وہ ميرى اس خدمت كو قبول كرلے _

ايك حديث كے سلسلے ميں علماء اہلسنت كى توجيہيں :
اس بحث كے اخر ميں بہتر يہ ہے كہ تھوڑا سا اس حديث كے سلسلے ميں جس كا ميں نے پہلے وعدہ بھى كيا تھا چھان بين كر ليا جائے ، اور جو علماء اہلسنت نے اس حديث كے سلسلے ميں تاويليںكر كے اس سے مطابقت كرنے كى ايڑى چوٹى كا زور لگايا ہے اس كو ملاحظہ فرما ليجئے _
ايك حديث صحيح مسلم كے اندر يوں نقل ہوئي ہے
رسول اسلام (ص) نے فرمايا : ميرا حرم مدينہ ميں كوہ ثور سے ليكر كوہ عيريا عاير تك ہے (29)
اس كے ذريعہ راويوں نے زور لگاكر مكہ كى طرح مدينہ ميں بھى حرم و حدود حرم كو بيان كيا ہے ، ليكن اس كام كو كر كے بہت بڑى غلطى كى ہے ، كيونكہ ايك حرم كى حد كوہ ثور كو بنايا ، درانحاليكہ كوہ ثور مكہ ميں ہے جس ميں پيغمبر(ص) اسلام ہجرت كرتے وقت اسى پہاڑ كے غار ميں چھپے تھے (30) اور مدينہ كے اندر اس نام كا كوئي پہاڑ نہيں ہے ، جيسا كہ بزرگ دانشوروں نے اسكى وضاحت بھى كى ہے جن ميں چند يہ ہيں _
1_ مصيب زبيرى جو مدينہ كے رہنے والے تھے اور وہاں كے بہت بڑے عالم دين تھے انھوں نے 36ھ ميں وفات پائي ، وہ اس حديث كے ذيل ميں كہتے ہيں كہ كوہ ثور مدينہ ميں نہيں ہے (31)
2_ علامہ شہير ابو عبيد قاسم بن سلام متوفى 224ھ لكھتے ہيں كہ ، يہ روايت اہل عراق كى ہے اور مدينہ والے ثور نام كے پہاڑ كو نہيں جانتے ہيں كوہ ثور مكہ ميں ہے ، ميرا گمان يہ ھيكہ اس حديث ميں در اصل كوہ احد تھا ، جو غلطى سے كوہ ثور لكھديا گيا ہے (32)
ابو عبيد كے كہنے كا مقصد يہ ہے كہ يہ روايت اہل عراق نے نقل كيا ہے ، جنكو يہ بھى نہيں معلوم تھا كہ كوہ ثور مكہ ميں ہے يا مدينہ ميں _
3_ قاضى عياض متوفي544 ھ جنھوں نے صحيح مسلم كى شرح كى ہے
4_ صاحب معجم ما استعجم بكرى متوفى 478ھ جو بہت بڑے جغرافيہ دان تھے
5_ حافظ ابوبكر محمد بن موسى حازمى 548ھ جو علم حديث ميں ماہر تھے (33)
6_ صاحب نہاية اللغة علامہ ابن اثير جزرى متوفى 606ھ ()
7_ ياقوت حموى جنھوں نے 626ھ ميں وفات پائي ہے (34)
ان تمام دانشوروں نے صراحتاََ لكھا ہے كہ مدينہ ميں ثور نام كا كوئي پہاڑ نہيں تھا _
لہذا علماء اہلسنت نے اس حديث كى توجيہ و تاويل كرنے ميں خرافات كى باتيں تحرير كى ہيں جن ميں علماء حديث كے رہبر و پيشوا ، بخارى متوفى 256ھ ميں جنھوں نے اپنى صحيح كے اندر ايك حديث لكھى ليكن اس ميں كوہ ثور كے نام كے بجائے اس عبارت كو پيش كيا كہ '' المد ينة حرم ما بين عائرالى كذا '' (35) يعنى مدينہ كا حرم كوہ عائر سے ليكر فلاںمقام تك ہے ، درانحاليكہ اسى حديث كے سلسلے ميں صحيح مسلم نے ( كذا ) كى جگہ لفظ ثور كو استعمال كيا ہے _
اس حديث كے سلسلے ميں بخارى كو چھوڑ كر اور دانشوروں نے بھى نا درست توجيہ و تفسير كى ہے ايك دانشور كہتا ہے : شايد پيغمبر(ص) اسلام نے مدينہ كے كسى دو پہاڑوں كا نام ركھا ہو گا دوسرا لكھتا ہے ، شايد پيغمبر(ص) اسلام كا مقصد مدينہ كے حدود حرم كو معين كرنا تھا اسى لئے اپ نے مكہ كے دو پہاڑوں كے فاصلے سے تشبيہ دى ، كيونكہ كوہ ثور مكہ ميں ہے نہ كہ مدينہ ميں _
تيسرا كہتا ہے ، راوى نے غلطى سے كوہ ثور كہديا ہے كيونكہ مدينہ ميں كوہ احد ہے نہ كہكوہ ثور _
چوتھے نے روايت كے اندر پہاڑ كا نام ہى نہيں لكھا تاكہ كوئي اعتراض نہ كرے اور ان كے علاوہ دوسروں نے اس حديث كى توجيہ و تاويل دوسرے ہى انداز ميں كى ہے ، اور يہ تاويل كا سلسلہ تقريبا سات صدى تك وسيع پيمانے پر چلتا رہا ، چنانچہ محدث حنبلى عبد السلام بن محمد بن مزروع بصرى متوفى 669ھ نے اس حديث كا زبر دست حل نكالا ، اور مدينہ ميں كوہ احد كے نزديك ايك كوہ ثور كو پيدا كر ديا پھر اعتراض كے خوف سے يہ لكھديا كہ اہل مدينہ اس پہاڑ كو جانتے ہيں ،پھر عبد اللہ مطرى متوفى 765ھ نے اپنے والد بزگوار محمد مطرى سے انھيں مطالب كو يوں نقل كيا كہ ، اہل مدينہ پشت در پشت كوہ احد كے بغل ميں ثور نام پہاڑ كو جانتے ہيں اور يہ پہاڑ سرخ رنگ كا اور بہت چھوٹا ہے _
گويا سب سے پہلے مدينہ ميں كوہ ثور كو ابن مزروع نے كشف كيا پھر اسكے بعد عبد اللہ مطرى نے اسكے انكشاف سے اپنى نئي تحقيق پيش كى ليكن حافظ اور عالم علم الحديث يحى نووى متوفى 676ھ نے اپنى مشھور شرح ميں اس قسم كى كوئي بات نہيںلكھى ، جبكہ ان كے پہلے والے بزرگ عالموں نے اس حديث كى توجيہ و تاويل كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور لگايا
تھا جسكو اپ نے پہلے ملاحظہ فرما ليا ہے ، پھر عالم لغت علامہ ابن منظور متوفى 711ھ نے اپنى كتاب لسان العرب ميں لفظ ثور ميں مدينہ كے پہاڑ كا تذكرہ نہيں كيا ، جبكہ يہ دونوں ايك بڑے عالم اور ماہر علم حديث و لغت تھے _
يا يہ كہا جائے كہ يہ دونوں اس جغرافيائي انكشاف سے باخبر نہ ہو سكے يا انھوں نے ان لوگوں پر اعتماد نہيں كيا _
البتہ اپ يہ بھى جان ليں كہ يہ دونوں عالم زمانے كے اعتبار سے ابن مزروع كے بعد تھے ، اگر ان دونوں نے اپنى كتابوں ميں ان كے انكشاف و اختراع كو جگہ نہيں دى تو پھر اوروں نے كيسے اپنى كتابوں ،ميں لكھ مارا _ جيسے
1_ محب الدين طبرى متوفى 694ھ نے كتاب الاحكام ميں
2_ فيروز ابادى متوفى 817 ھ نے كتاب قاموس ميں
3_ ابن حجر عسقلانى متوفى 852ھ نے فتح البارى ميں
4_ زبيدى متوفى 1205ھ نے تاج العروس ميں ابن مزروع كى چھوڑى ہوئي پھلجھڑى كو لكھا ہے ليكن ہمارے زمانے كے علماء كى غيرت اس حديث كى توجيہ و تفسير كرنے ميں گذشتہ عالموں سے زيادہ بڑھ گئي ہے ، اور اس پر اتنا زور ازمائي كى كہ كوہ ثور كى حقيقت كو جاننے كے با وجود اس كو مدينہ كے جغرافيائي نقشے ميں لاكر گھسيڑ ديا ، جيسے مولف كتاب اثار المدينہ استاد عبد القدوس نے صفحہ 139 ميں كوہ ثور كو مدينہ كے نقشہ ميں پيش كيا ہے ، اور ان سے ڈاكٹر محمدھيكل نے كتاب منزل الوحى كے صفحہ 512 ميں اسى نقشے كو چھاپا ہے ، پھر كتاب كے صفحہ 440 پر لكھتے ہيں كہ ميں نے اس نقشے كو كتاب اثار المدينہ سے حاصل كيا ہے (36)
مختصر يہ ہے كہ سب سے پہلے ساتويں صدى ميں كوہ ثور كو مدينہ ميں پيش كيا گيا اور چودہويں صدى ميں پہلى مرتبہ جغرافيائي نقشے ميں كوہ ثور داخل كر ديا گيا _
واللہ على ما نقول وكيل
سيد مرتضى عسكري

-----------------------------------------------------------
1_شرح نہج البلاغہ ج1 ص 361
2_ طبرى ج6 ص 132 ، ابن اثير ج3 ص 189
3_طبرى ج6 ص 164 ، ابن اثير ج3 ص 212
4_طبرى ج6 ص 108
5_ طبرى ج6 ص 149 ، ابن اثير ج3 ص 204 ، اغانى ج 16 ص 7 ، ابن عساكر ج 6 ص 459
6_ المحبر ص 479
7_طبرى ج6 ص 160 ، ابن اثير ج3 ص 209 ، ا غانى ج 16 ص 10 ، ابن عساكر ج2 ص 379
8_ ابن عساكر ج2 ص 517
9_ مروج الذھب ج3 ص 30
10_ابن قتيبہ كى المعارف ص 127 ، استيعاب ج2 ص 517 ، اصابہ ج2 ص 526 ، ابن كثير ج8 ص 48 ، المعبر ص 490
11_ياقوت حموى ج5 ص 38 مطبوعہ مصر
12_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي
13_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے
14_ تطہير اللسان ص55
15_ محلى ج5 ص 186 ، امام شافعى ج1 ص 208
16_بخارى ج2 ص 111 ، مسلم ج3 ص 20 ، سنن ابى داو د ج1 ص 178 ، ابن ماجہ ج1 ص 386 ، بيہقى ج3 ص 297 ، مسند احمد ج3 ص 20
17_مقصود مروان بن حكم ہو گا
18_صحيح مسلم ج 7 ص 124
19_صحيح مسلم ج7 ص 120 ، ترمذى ج 13 ص 171 ، مستدرك ج3 ص 109 ، اصابہ ج2 ص 502
20_مروج الذھب ج3 ص 24
21_عقد الفريد ج3 ص 127
22_مروج الذھب ج 9 ص 49 ، شرح نہج البلاغہ ج1 ص 463
23_ مروج الذھب ج3 ص 28
24_مسند احمد ج6 ص 56 ، تہذيب التہذيب ج2 ص 444
25_مسند احمد ج6 ص 149
26_مسند احمد ص 269 ، سنن ابن ماجہ كتاب نكاح حديث نمبر 1944
27_ صحيح مسلم كتاب رضاع ص1075
28_ تعجب كى بات يہ ھيكہ عائشےہ كى دس مرتبہ دودھ پلانے والى ايت بكرى كھا گئي ليكن پانچ مرتبہ والى ايت كے سلسلے ميں كچھ نہيں كہا ايا اسكو بھى جانور نے كھا ليا تھا يا كوئي اور مصيبت ٹوٹ پڑى تھى ؟ انا للہ و انا اليہ راجعون
29_صحيح مسلم باب فضل المدينہ حديث نمبر 9950_ 467
30_طبرى ج2 ص 378 ، ہشام ج1 ص 485 ، انساب الاشراف ج1 ص 260 ، ابن اثير ج2 ص 73
31_فتح البارى ج4 ص 453
32_فتح البارى ج4 ص 452
33_صحيح مسلم باب فضل المدينہ ج9 ص 143 6_نہاية اللغة ج1 ص 229
34_معجم البلدان ج2 ص 86 مطبوعہ بيروت
35_صحيح بخارى كتاب الحج باب حرم مدينہ
36_شرح صحيح مسلم تحقيق محمد فواد عبد الباقى مطبوعہ لبنان ص 998_ 995