تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار دوران معاويہ
 

بعض مورخوں نے اس ملاقات كى داستان كو تفصيل سے لكھا ہے كہ معاويہ جيسے ہى بيٹھا تو عائشه نے كہا _ اے معاويہ تم كيسے اطمينان كے ساتھ ميرے گھر ميں اگئے ، تم نے خوف نہيں كھايا كہ كہيں ہم تم سے اپنے بھائي ( محمد بن بكر ) كے قتل كا بدلہ نہ لے ليں _
معاويہ نے جواب ديا ، ميں اپكے گھر ميں امان كے ساتھ وارد ہوا ہوں _
عائشه نے كہا ، اے معاويہ ايا حجر اور انكے ساتھيوں كو قتل كرنے ميں خدا سے خوف نہ كھايا معاويہ نے كہا ، حققيقت تو يہ ہے كہ جن لوگوں نے ان لوگوں كے خلاف شہادت دى تھى ان ہى نے انھيں مارا ہے (1)
احمد بن حنبل اپنى مسند ميں لكھتے ہيں :
عائشه نے جب يہ كہا كہ اے معاويہ تم كيسے ہمارے گھر ميں اگئے تو معاويہ نے جواب ديا اپ ہرگز ہم كو قتل نہيں كر سكتى ہيں كيونكہ گھر خانہ امن ہے اور ہم نے پيغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے كہ خدا پر ايمان ركھنے والا ہرگز گھر ميں قتل نہيں كر سكتا _
معاويہ نے عائشه سے كہا _ اچھا يہ بتايئے كہ ہمارا برتائو اپ كے ساتھ كيسا ہے اور اپكى حاجت ابھى تك پورى ہوئي يا نہيں ؟
عائشه نے كہا _ بہت اچھا ہے
معاويہ نے كہا _ پھر مجھكو چھوڑ ديجئے اب ہم دونوں ايك دوسرے سے بارگاہ خدا وندى ميں ملاقات كرلينگے (2)
جيساكہ كتب تاريخ ميں ہے كہ عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر 37ھ ميں اور حجر بن عدى 50ھ ميں قتل كئے گئے ، مگر سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ ام المومنين عائشه كيوں اور كيسے تيرہ برس تك خاموش بيٹھى رہيں ، اور اپنے بھائي كے خون كا بدلہ لينے كے لئے ايك كلمہ بھى زبان پر نہ لائيں ، اور جب حجر اور انكے ساتھى مارے گئے تب اپنے بھائي كا درد ناك قتل ياد ايا ، ہم تو يہى سمجھتے ہيں كہ يہ مسئلہ اسوقت پيش ايا ہو گا جب ان دونوں كے روابط خراب ہو گئے ہو نگے ، اور جيسا كہ اپ نے
ملاحظہ فرمايا كہ عائشه نے عبد الرحمن بن حرث كو مدينہ سے شام بھيجا تاكہ حجر اور انكے ساتھيوں كو معاويہ كے ہاتھوں چھوڑا لائيں اور اسكى خبر تمام بلاد اسلامى كے گوشہ و كنار تك پھيل گئي تھى ، اور اموى حكومت ميں عائشه كے نفوذ و رسوخ كا پہلے ہى سے لوگوں ميں ڈھونڈھورا پٹا ہوا تھا _، اور لوگ كافى اميد لگائے بيٹھے تھے كہ انكى سفارش حكومت اموى رد نہ كرے گى ، معاويہ انكو مايوس نہيں كرے گا چند دن نہيں گذرے تھے كہ اچانك نمايندہ نا اميد ہو كر واپس چلا ايا اور پہلى مرتبہ عائشه كو اپنے منھ كى كھانى پڑى _
اس واقعے نے تمام بلاد اسلامى ميں عائشه كى شخصيت كو كافى مجروح كيا كيونكہ خلفاء ثلاثہ كے زمانہ ميں بھى اپ كافى با رسوخ تھيں اور خلافت كى مشينرياں ( سوائے حكومت علوى كے ) ہميشہ انكى رائے كو احترام كى نگاہ سے ديكھتى تھيں _
مگر يہ پہلا موقع تھا كہ انكى سفارش ردّى كى ٹوكرى ميں ڈال دى گئي
جب اپ نے انكى تمام مقام و منزلت كو پہچان ليا تو اس واقعہ نے ضرور انكے اوپركوہ گراں كا كام كيا ہو گا اور خشم و كينہ نے انكو اتش فشاں پہاڑ بنا ڈالا ہو گا ، ايا يہى اسباب و عوامل باعث نہيں تھے كہ سالہا سال معاويہ سے گہرى دوستى اور ان تمام مراعات مالى كے باوجود معاويہ سے جھگڑنے لگيں ، اور اسكے برے افعال سے نقاب كشائي كرنے لگيں _
نيز اپنے بھائي كے خون ناحق كو باوجوديكہ تيرہ برس گذر چكا تھا ياد كرنے لگيں _
مكار سياستداں معاويہ نے بھى بھترى اسى ميں ديكھى كہ عائشه كے غصے كے سامنے ٹھنڈا رہے اور اپنى قديم دوستى كو ياد دلائے نيز جو محبت اور تحفے انكى خدمت ميں بھيجے تھے ان كو گوش گذار كرے _
ليكن جيسا كہ اس سے قبل اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ _ عائشه كوئي معمولى عورت نہ تھيں بلكہ ايك طاقتور ذہين عورت تھيں ابھى غصے سے ٹھنڈى بھى نہيں ہوئيں تھيں كہ معاويہ نے اسى وقت بجائے زخم پر مرہم كے انكے دل پر نمك چھڑك ديا كہ ، بيعت يزيد كى خاطر اس نے انكے بھائي كو مروايا ہے ، اچانك عبد الرحمن بن ابى بكر كى خبر مرگ كى وجہ سے عائشه اور معاويہ كے درميان پھر سے غيظ و غضب كے تازے شعلے بھڑ كنے لگے _

عبد الرحمن بن ابى بكر كو زہر ديا گيا
عائشه اور معاويہ كے درميان تيسرا سبب جو اختلاف كا سمجھ ميں اتا ہے وہ انكے بھائي عبد الرحمن بن بكر كى ناگہانى موت ہے _
اپ نے اس سے پہلے ديكھا كہ جب معاويہ مسلمانوں كو بيعت يزيد كے لئے امادہ كر رہا تھا تو ايك دن حاكم مدينہ مروان بن حكم نے خطبے ميں يزيد كا نام لے ليا اور اسكو وليعہد بتانے لگا اس وقت عبد الرحمن كھڑے ہو گئے اور مروان كو خوب بر ا بھلا كہا :
مروان نے عبد الرحمن كو برا بھلا كہتے ہوئے ان جملوں كو استعمال كيا تھا كہ _ يہ وہى ادمى تو ہے جس كے بارے ميں قران ميں اس طرح ايا ہے كہ جس نے اپنے ماں باپ سے يہ كہا تھا كہ تمہارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو '' وَالَّذى قَالَ لولد َيہ اُف لّكُمَا أتعد أنني ........ ''_ سورہ احقاف اية 17
عائشه گھر ہى كے اندر سے چيخنے لگيں كہ خدا وند عالم نے ہمارے خاندان كے سلسلے ميں كوئي چيز نازل نہيں كى ہے _ ہاں _ اگر نازل كيا ہے تو ہمارى بے گناہى كو واقعہ افك ميں بيان كيا ہے (3)
مشہور مورخ ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :
معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے اپنے والى و حاكم مروان كو خط بھيجا ، اس نے حسب دستور اپنے خطبے ميں كہا كہ _ امير المومنين معاويہ نے اپنا ايك وليعہد معين كر كے تم لوگوں پر احسان كيا ہے اور اس نيك كام ميں كوتا ہى نہيں كى اس عہدے پر اپنے فرزند يزيد كو نامزد كياہے عبد الرحمن نے جيسے ہى سنا فورا كھڑے ہو گئے اور كہنے لگے _
اے مروان _ معاويہ بھى جھوٹ كہتا ہے اور تم بھى جھوٹ بولتے ہو ، تم لوگوں نے عوام كى خير و صلاح كو مد نظر نہيں ركھا ہے بلكہ تم لوگ خلافت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتے ہو _ جس طرح قيصر و كسرى كے بادشاہوں نے كيا كہ ايك مرا تو دوسرا بادشاہ اسكا جا نشين ہو گيا اور تم لوگ بھى ايسا ہى كرنا چاہتے ہو _
مروان نے كہا _ اے لوگو _ يہ وہى شخص ہے جس كے بارے ميں قران نے كہا كہ جس نے اپنے والدين سے يہ كہا كہ تمھارے لئے حيف ہے كہ تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو _
اس بات كو عائشه نے پس پردہ سن ليا تو اسى مقام سے فرياد بلند كرنے لگيں _
اے مروان _ اے مروان _ تمام لوگ خاموش ہو گئے مروان نے بحالت مجبورى انكى طرف رخ كيا _
عائشه نے كہا ، ايا تم وہى ہو كہ جس نے عبد الرحمن كے بارے ميں يہ كہا كہ اسكى قر ان ميں مذمت ائي ہے ، تم ايك نمبر كے جھوٹے ہو _
خدا كى قسم _ وہ اس ايت كا مخاطب نہيں ہے بلكہ كوئي دوسرا شخص ہے ، ليكن تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو (4)
دوسرى روايت ميں يوں ايا ہے كہ تم جھوٹ بولتے ہو ، خدا كى قسم ، جو كچھ تم نے عبد الرحمن كى نسبت كہا ہے ان ميںسے وہ نہيں ہے البتہ رسول اكرم (ص) نے تمہارے باپ پر اس وقت نفرين كى جب تم اس كے صلب ميں تھے ، اور اس طرح تم پر پہلے ہى سے خدا كى پھٹكا ر ہے _
يہى وجہ تھى كہ مروان بن حكم نے بار ديگر بيعت يزيد كا بيڑا نہيں اٹھايا اور اس سے كنارہ كشى اختيار كر لي_
معاويہ نے ايك مدت كے بعد لوگوں كو دكھانے كے لئے حج كا سفر كيا پھر مدينہ ايا جس كو ہم نے مدينہ ميں وارد ہونے كے بعد جو واقعات پيش ائے ا س كو مختصر طور پر بيان كيا ہے
ليكن اس وقت دوسرے نكتے كى طرف توجہ مبذول كرانى ہے _
صاحب استيعاب ابن عبد البر لكھتے ہيں :
معاويہ مسجد نبوى كے منبر پر بيٹھا رہا اور لوگوں كو بيعت يزيد كى دعوت دى جس پر حضرت امام حسين، (ع) عبد اللہ بن زبير ، اور عبد الرحمن بن ابى بكر نے اس پر اعتراض كيا _ اور ان لوگوں كے درميان كافى تو تو ميں ميں ہوئي _
عبد الرحمن نے كہا _ اے معاويہ _ ايا خلافت بادشاہت ميں تبديل ہو گئي ہے كہ ايك بادشاہ دنيا سے گيا كہ اسكى جگہ دوسرا بادشاہ اگيا _
كسى طرح لوگوں كى رضايت كا خيال نہيں ہے ہم ہرگز بيعت نہيں كريں گے _
اسى رات معاويہ نے عبد الرحمن كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجو ايا تاكہ بيعت يزيد پر راضى ہو جائيں _ ليكن انھوں نے اس رقم كو
قبول نہيں كيا اور كہا _ ہم ہرگز اپنے دين كو دُنيا سے نہيں بيچيں گے ، اس كے بعد مدينہ سے مكہ كى طرف چل ديئے ، ليكن قبل اس كے كہ يزيد كى بيعت مرحلہ اختتام تك پہونچے دنيا سے چل بسے (5)
ابن عبد البر مزيد لكھتا ہے :
عبد الرحمن مكہ كے اطراف ميں مقام ( حبشى ) پر نا گہانى موت سے مرے جو مكہ سے دس ميل كے فاصلہ پر ہے اور اسى جگہ دفن بھى ہوئے _
نيز كہتے ہيں كہ _ انھوں نے حالت خواب ميں جان دى ، ليكن جس وقت عائشه انكى خبر مرگ سے مطلع ہوئيں تو انھوں نے مكہ كا سفر كيا ، جب مقام حبشہ پر پہونچيں تو قبر برادر پر گئيں اور خوب گريہ كيا ، اور ان اشعار ميں بين و نوحہ كيا _ جس كا ترجمہ يہ ہے كہ :
ہم دونوں ايك طويل مدت تك بادشاہ حيرہ ( جذيمہ ) كے دو نديم كى طرح تھے جو دونوں ايك دوسرے سے بہت محبت كرتے تھے اور ہميشہ ساتھ رہتے تھے ، يہاں تك كہ لوگوں نے كہنا شروع كر ديا كہ ان دونوں ميں كبھى جدائي نہيں ہو سكتى ہے ، ليكن ميرے بھائي كى موت نے اسوقت ہم دونوں كو ايك دوسرے سے عليحدہ كر ديا ہے ، ان تمام الفتوں و محبتوں كے باوجود ايسا لگتا ہے كہ گويا ايك رات بھى ساتھ ميںنہيںتھے (6)
پھر روتے ہوئے كہا _ خدا كى قسم _ اگر تمھارے دفن كے وقت موجود ہوتى تو تمھارے ساتھ دفن ہو جاتى تاكہ تمھارے حال پر گريہ كناں نہ رہتى _
ہاں _ اس طرح عائشه اور بنى اميہ كے درميان اختلاف كو نئي قوت مل گئي اور جنگ كے شعلے مزيد بھڑكنے لگے ، ليكن عائشه نے ايسے حالات ميں اپنے بھائي كو كھو ديا _
عبد الرحمن كو نا گہانى موت نہيں ائي تھى بلكہ اسكے اسباب و علل غور طلب ہيں _
اس كى شناخت اسى طرح ہو گى جس طرح مالك اشتر مصر كے راستے ميں مار ڈالے گئے
عبد الرحمن بن ابى بكر اور سعد بن وقاص كى موت بھى اسى طرح ہوئي ، يہ تمام مشہور شخصيتيں يزيد كى بيعت نہ كرنے كى وجہ
سے مارى گئيں _
يہى وہ مقامات ہيں جہاں سے عائشه اور حكومت اموى كے درميان اختلاف كى اگ بھڑكى كيونكہ انھوں نے اس راہ ميں اپنے عزيز بھائيوں كو كھو ديا تھا ، اس پر ظلم يہ ہوا كہ كس كے بل بوتے پر بنى اميہ سے جنگ كرتيں كيونكہ اب نہ طلحہ نہ زبير و عبد الرحمن اور نہ ہى دوسرے مددگار ،
عائشه نے ان دو بيتوں كے سہارے اپنے دلى كوائف كو يوں بيان كيا ہے

ذھب الذ ين يعاش اكنافھم
و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرھم
و يعاب قائلم و ان لم يشعب

ترجمہ _ وہ لوگ چلے گئے جن كے سايہ رحمت ميں زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خيركى اميد ہے _ ان كے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے _
دوسرى بات يہ تھى كہ عائشه كا پہلے كى طرح وہ سن بھى نہيں رہا كہ مركب پر سوار ہو كر جنگل و بيابان كى خاك چھانيں ، اور بنى اميہ كے خلاف اتش جنگ كو بھڑكائيں يہى وجہ تھى كہ انھوں نے اپنے كينے اور دشمنى كو دوسرى شكل ميں ظاہر كيا _
اور اپ نے پہلے ديكھا كہ حاكم مدينہ ( مروان ) جيسے ہى ان ( عائشه ) كى چنگل ميں ايا تو انھوں نے قول رسول (ص) كو جو كہ اسكے باپ كے سلسلے ميں تھا كہ تم تو پہلے ہى سے ملعون خدا ہو اسكو بيان كر ڈالا ، اور مدتوں اسى ڈگر پر چلتى رہيں _
ميں سمجھتا ہو ں كہ عائشه نے بنى اميہ كى مذمت ميں جو احاديث رسول (ص) بيان كى ہے يہ سب اسى دور كى ہيں _ اور اسى پر اكتفا نہيں كيا بلكہ جو كچھ اہلبيت رسول (ص) اور انكے اصحاب كے فضائل و احاديث سنيں تھى اسكو بيان كيا ، كيونكہ معاويہ و بنى اميہ كو اس دور ميں چڑھانے كے لئے سوائے فضائل اہلبيت عليھم السلام كو بيان كرنے كے كوئي چارہ نہ تھا ، اس عمل نے ان لوگوں كو سخت متحير اور انكے دماغ كو چكرا ڈالا تھا _
اس دور ميں حضرت امام حسين (ع) سے كافى محبت سے پيش انے لگيں لہذا جو بھى حديثيں ان لوگوں كے سلسلہ ميں عائشه سے نقل ہوئي ہيں اور كتب احاديث ميں جو فضائل امير المومنين (ع) اور صديقہ طاہرہ نيز انكى والدہ گرامى خديجہ كبرى (ع) كے
سلسلہ ميں بيان ہوئي ہيں ضرور بالضرور اسى دور كے ہيں _
ميں سمجھتا ہوں كہ جو كلمات ندامت و شرمندگى كے عائشه نے جنگ جمل كے بارے ميں كہے ہيں اسى زمانہ كے ابتدائي دور كے ہيں اور مرتے دم تك اسى كا رونا روتى رہيں جسكى تفصيل ائندہ ائے گى _

جنگ جمل سے عائشه كى شرمندگي
ابو جندب كوفى نے عائشه سے اپنى ملاقات كى داستان يوں بيان كيا ہے
جب ہم عائشه كے گھر گئے تو انھوں نے پوچھا ، تم كون ہو ؟ ميں نے كہا ،ميں قبيلہ ازد سے جو كہ كوفہ ميں رہتا ہوں _
عائشه نے پوچھا ، ايا تم نے جنگ جمل ميں شركت كى تھى ؟
جندب كوفى نے كہا جى ہاں
عائشه نے كہا ،ايا ہمارے مخالف تھے يا موافق ؟
جندب نے جواب ديا _ ہم اپكے مخالف لشكر ميں تھے _
عائشه نے كہا _ ايا وہ كون شخص تھا كہ جس نے اپنے رجز ميں يہ كہا تھا كہ اے ام المومنين ہم اپكو جانتے ہيں ليكن اپ ہم كو نہيں پہچانتى ہيں ؟
جندب نے كہا _ہاں _ وہ ميرا چچا زاد بھائي تھا _
اسكے بعد اتنا روئيں كہ ميں سمجھا كہ انكو گريہ سے ہرگز افاقہ نہيں ہو گا (7)
ابن اثير لكھتے ہيں :
ايك روز عائشه كے يہاں گفتگو كے درميان جنگ جمل كا تذكرہ اگيا تو عائشه نے پوچھا لوگ ابھى تك اس جنگ كو ياد كئے ہوئے ہيں ؟
حاضرين نے كہا _ ہاں _
عائشه نے كہا _ اے كاش اس جنگ ميں شركت نہ كئے ہوتى اور ديگر ازواج رسول (ص) كى طرح اپنے گھر ميں رہتى ہمارے دس قيمتى فرزند رسول (ص) عبد اللہ بن زبير، عبد الرحمن ، بن حارث جيسے افراد نہ مارے جاتے (8)
مورخين و مفسرين نے مسروق نامى شخص سے نقل كيا ہے _
عائشه جس گھڑى سورہ احزاب كى اس ايت كو پڑھتى تھيں جسميں ازواج رسول (ص) كو گھر ميں رہنے كا حكم ديا گيا تھا تو اپ اتنا روتى تھيں كہ اوڑھنى انسو سے تر ہو جاتى تھى (9)

''عائشه مرنے سے پہلے ''
صاحب كتاب طبقات الكبرى محمد بن سعد نقل كرتے ہيں :
ايك روز ابن عباس عائشه كے مرنے سے پہلے انكو ديكھنے گئے ، تو انھوں نے انكى خوب تعريف و تحسين كى _ جب ابن عباس چلے گئے تو عائشه نے عبد اللہ بن زبير سے كہا ، ابن عباس نے ميرى تعريف كى ہے _ اب مجھے ذرہ برابر اچھا نہيں لگتا ہے كہ كوئي ہم كو اچھے نام سے ياد كرے _، ميں چاہتى ہوں كہ لوگ ہميں اس طرح سے بھلا ديں گويا دنيا ميں قدم ہى نہيں ركھا تھا (10)
كتاب بلاغات النساء ميں ايا ہے كہ _ جس وقت عائشه پر حالت احتضار كى كيفيت طارى ہوئي تو اپ بہت مضطرب و پريشان تھيں ، حاضرين نے ان سے كہا اپ اتنا پريشان كيوں ہيں اپ تو ابو بكر صديق كى بيٹى اور ام المومنين ہيں ؟
عائشه نے جواب ديا _ ميں سچ كہتى ہوں كہ جنگ جمل ميرے گلے كى ہڈى بن گئي ہے _
اے كاش اس دن سے پہلے مر كھپ گئي ہوتى يافعان ہو جاتى (11)
ايك مرتبہ كہا تھا كہ _خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ ميں درخت ہوتى _ قسم خدا كى _ بھتر تھا كہ اينٹ پتھر ہوتى _ خدا كى قسم _ اچھا ہوتا كہ خدا ہميں پيدا ہى نہ كرتا _
كہتے ہيں كہ _ عائشه مرتے وقت بہت حسرت و ياس سے كہتى تھيں كہ ہم نے بعد رسول(ص) حوادث ناگوار پيدا كئے ليكن اب اس دنيا سے جا رہى ہوں لہذا ہميں ازواج رسول (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا _
عالم اہلسنت ذہبى لكھتا ہے :
حادثہ سے عائشه كى مراد جنگ جمل ہو سكتى ہے جسكو بھڑكا نے ميں انہوں نے اہم كردار ادا كيا تھا _
يہى ذہبى لكھتا ہے كہ: عائشه نے 17 رمضان المبارك 58ھ ميں نماز صبح كے بعد وفات پائي اور چونكہ انھوں نے وصيت كى تھى كہ مجھے رات ميں دفن كرنا لہذا مہاجرين و انصار كى اچھى خاصى جمعيت جنازے ميں شريك ہوئي لوگ خرما كى لكڑى كو روشن كئے ہوئے جنازہ كے ساتھ تھے تاكہ راستہ چلنے ميں كوئي پريشانى نہ ہو ، راوى كہتا ہے كہ _ مدينہ كى عورتيں قبرستان بقيع ميں اس طرح تھيں جيسے معلوم ہو رہا تھا كہ عيد كا دن ہے _
ابوہريرہ نے نماز جنازہ پڑھائي كيونكہ مروان كى نمائندگى ميں شہر مدينہ پر حكومت كر رہے تھے _
جس وقت عائشه كا انتقال ہوا تو انكى عمر 63 سال كچھ مہينے كى تھى (12)
ہم نے عائشه كى زندگى كو زوجيت رسول (ص) سے ليكر انكے مرتے دم تك ، پيش كيا تاكہ انكى شخصيت اور وہ تمام گوشے جو سياسى و اجتماعى لحاظ سے تھے اجاگر ہو جائيں ، ليكن ائندہ كے صفحات ميں مزيد انكى زندگى كے بارے ميں ہم بيان كرينگے _

فصل پنجم
عائشه كى سخاوت
سخاوت اگر چہ اچھى چيز ہے مگر شرط يہ ھيكہ راہ خدا ميں كى جائے ، يعنى انسان خدا و خوشنودى خدا كى خاطر اپنى محبوب چيزوں كو ، چاہے مال كى صورت ميں ہو يا كسى دوسرى صورت ميں ، خدا سے اجر و ثواب لينے كے لئے انفاق كرے _
حقيقت ميں ايسے افراد خداوند عالم كے نزديك عظيم اجر و ثواب كے مستحق ہيں اور اخرت ميں رضاء الہى سے بہرہ مند ہوں گے _
ليكن ايك انسان جو صرف دكھاوے اور شہرت كى خاطر اپنے مال و اسباب كو لٹائے اگر چہ اس نے ايك اچھا كا م انجام ديا ہے ، مگر اخرت ميں اسكو كوئي ثواب نہيں ملے گا ، كيونكہ اس نے فقط مسائل دنيا كو نظر ميں ركھتے ہوئے مال كو خرچ كيا ہے _
عرب كے درميان يہ قديم رسم چلى ارہى تھى كہ جو لوگ ثروتمند اور رئيس قبيلہ ہوتے تھے وہ ان امور كو انجام دينے ميں مجبور تھے اور كبھى كھبار اپنے ہاتھوں سے مال و اسباب كو تقسيم كرتے تھے ، كيونكہ اگر كوئي شخص ان كے دروازے پر اكر خالى ہاتھ واپس چلا گيا تو يہ چيز انكے لئے باعث ذلت و ننگ شمار ہوتى تھى _
ظہور اسلام كے بعد بھى لوگوں نے بذل و بخشش سے ہاتھ نہيں كھينچا بلكہ يہ لوگ دو گروہ ميں بٹ گئے _
1_ ايك گروہ اسلامى فكر كى بنياد پر راہ خدا ميں مال كو انفاق كرتا تھا _
2_ دوسرا گروہ رسم جاہليت و عادت عرب كى پيروى كرتے ہوئے انفاق كرتا تھا _
اس قسم كى بذل و بخشش قبيلہ بنى تميم كے دو قدرتمند سرداروں نے حكومت على (ع) كے زمانے ميں كوفہ كے اطراف ميں كى تھى ، ان ميں ايك صعصہ دارمى اور دوسرا سحيم بن وثيل رياحى تھے
ان دونوں نے اپنے كو ثروتمند دكھانے كے لئے اپس ميں مقابلہ ارائي كى اور رسم جاہليت كے مطابق اونٹ ذبح كرنے كى شرط ركھى ، ہر ادمى ايك دوسرے پر سبقت ليجانے كے لئے كوشش كر رہا تھا ، اور نام و نمود كى دوڑ ميں تھا ، مقابلہ ايك اونٹ سے شروع ہوا يہاں تك كہ سو اونٹ سے زيادہ بڑھ گيا ، يہ اخرى مرتبہ حكومت علوى (ع) كے زمانہ ميں ہوا جس ميں كئي سو اونٹ ذبح ہوئے ، جب اہل كوفہ كو اسكى خبر پہونچى تو برتنوں كو ليكر گوشت لينے كے لئے دوڑے جب امام عليہ السلام كو
اسكى خبر معلوم ہوئي تو اپ نے فرمايا ، ان اونٹوں كے گوشت كو نہ كھانا كيونكہ غير خدا كے نام پر ذبح ہوئے ہيں _'' لا تاكلوا منہ اھل الغير اللہ''
يعنى فخر و مباہات و رسوم جاہليت كے طور طريقہ پر قتل كئے گئے ہيں _
امام عليہ السلام كا اشار ہ قران كريم كى اس ايت كى طرف ہے كہ ،'' انما حرّم عليكم الميتة والدم لحم الخنزير وما اھل بہ لغير اللہ ''
اہل كوفہ امام كے كہنے پر رك گئے ، سارا گوشت ويسا ہى پڑا رہا اخر كار ان تمام گوشتوں كو مزبلہ پر ڈال ديا گيا تاكہ جانور وغيرہ كھا ڈاليں (13)
ہمارى نظر ميں ام المومنين عائشه كاا سى گروہ ميں شمار ہونا چاہيئےيونكہ اپ نام و نمود اور شہرت كى بہت بھوكى تھيں ، اور جو شہرت خلفاء ثلاثہ كے زمانے ميں كمائي تھى اسكو اسانى سے كھونا نہيں چاہتى تھيں ، لہذا اس كو بچانے كے لئے سب سے بہترين راستہ سخاوت و بذل و بخشش تھا _
اپ ملاحظہ فرمائيں گے ، كہ سختيوں اور تكليفوں كے باوجود انھوں نے حتى الامكان مال خرچ كيا ، دوسرى طرف سخاوت كرنے كے لئے معاويہ جيسے جبار كے پاس رقم لينے كے لئے گئيں ، ہمارا دعوا بغير دليل كے نہيں ہے _ بلكہ اپ ديكھيں گے كہ عائشه نے ان اموال كو خرچ كيا جو معاويہ اور اسكے حكمرانوں نے بيت المال سے لوٹ كے انكے پاس مال و اسباب بھيجے تاكہ اپ جو دوسخاوت كا مظاہرہ كريں _
ايا ايسے اموال جو ظلم و ستم كر كے لوٹے گئے ہوں اس سے سخاوت كر كے خشنودى خدا نصيب ہو سكتى ہے ، در انحاليكہ ام المومنين كا ايسى صورت ميں سب سے پہلے شرعى فريضہ يہ تھاكہ معاويہ كى تمام چيزوں سے دور رہتيں _
ام ذرّہ نقل كرتى ہيں كہ _ ميں كبھى كھبى عائشه كے گھر ايا جايا كرتى تھى ايك روز عائشه كے يہاں دو كيسہ سامان ديكھا _
ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ ، ميں سمجھتى ہوں كہ اس كيسہ ميں تقريبا اسى ہزار يا ايك لاكھ درہم ضرور ہوگا ، پھر ايك طشت ہم سے مانگا ميں نے انكو ديديا جبكہ ميں اس دن روزے سے تھى ، ميں نے تمام درہموں كو گھر گھر تقسيم كر ديا اور
ايك درہم بھى ام المومنين عائشه نے اپنے گھر ميں نہيں ركھا تھا_
جب غروب كا وقت ہو گيا تو عائشه نے اپنى كنيز سے ميرے لئے افطار لانے كو كہا ، كنيز نے ايك روٹى كا ٹكڑا اور زيتون كا تيل ميرے سامنے لاكر ركھا _
ميں نے كہا _ اے ام المومنين اپ نے تو سارى رقم لوگوں ميں تقسيم كردى اگر تھوڑى سى ہوتى تو ميرے لئے اس سے گوشت منگوا ديتيں تاكہ اس سے ميں افطار كرتى _
عائشه نے كہا _ اگر پہلے كہتى تو ہم ضرور اس كا انتظام كر ديتے ليكن اب كہہ رہى ہو مجھے تمھارى خواہش پورى نہ كرنے كا رنج ہے (14)
عائشه كا بھانجا عروہ بن زبير كہتا ہے :
ہم نے ايك روز اپنى خالہ عائشه كو پھٹے لباس ميں ستر ہزار درہم تقسيم كرتے ہوئے ديكھا يہ بخشش مجھ پر بہت گراں گذرى كيونكہ ميں نہيں چاہتا تھا كہ ميرى خالہ اس مقدار ميں اپنے مال سے سخاوت كا مظاہرہ كريں _
ابو نعيم لكھتے ہيں :
جب عائشه نے اپنے اونٹوں كو بيچنے كى خاطر بازار ميں بھيجوايا تو عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم سب سے كہہ دينگے كہ عائشه اپنا ذہنى تو ازن كھو بيٹھى ہيں تاكہ كوئي انكے اونٹوں كو نہ خريدے ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو كہا ، ميں قسم كھاتى ہوں كہ جب تك زندہ رہونگى اس سے كلام نہيں كرونگى _ چنانچہ عبد اللہ بن زبير سے پردہ بھى كر ليا ، بات چيت كافى دنوں تك بند رہى _
ايك روز مسور بن محترمہ اور عبد الرحمن بن اسود كے ساتھ عبد اللہ بن زبير چادر اوڑھ كر عائشه كے گھر گئے ، اذن دخول كے بعد تينوں گھر ميں داخل ہوئے جيسے ہى عبد اللہ بن زبير نے عائشه كو ديكھا فورا انكى گردن ميں اپنى باہيں ڈالديں اور خوب گريہ كيا ، يہاں تك كہ عبد اللہ بن زبير نے اپنى رشتہ دارى وغيرہ كى دہائي دى ، تب جا كر ام المومنين نے اس سے باتيں كيں (15)
ہم نے معاويہ كى مراعات مالى كو عائشه كى نسبت بيان كيا ان ميں سے بعض واقعات انشاء اللہ ائندہ بيان كروں گا _
اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ہر سخاوت و بخشش رضاء الہى كے لئے نہيں ہوتى ہے ، كيونكہ خشنودى خدا اسى وقت محقق ہو سكتى ہے جب خلوص نيت سے انفاق كيا جائے ، اور انفاق ہونے والا مال راہ حلال سے كسب ہوا ہو نہ كہ معاويہ جيسے ظالم و جابر كا مال جس نے مسلمانوں كے بيت المال سے لوٹ كھسوٹ كر كے عائشه ، ابو ھريرہ ، مغيرہ بن شعبہ ، اور عمرو بن عاص جيسے انسان كو سستى شہرت كمانے كے لئے ديا ہو _
تاكہ اسلام اور حضرت على (ع) سے مقابلہ كريں اور اپنى سياست كامياب ہو اور گڑھى ہوئي حديثيں منظر عام پر ائيں _

خاندانى تعصب
ام المومنين عائشه اپنے خاندان كے سلسلے ميں بہت متعصب تھيں ، اور اس چيز كو عبادت كى حد تك مانتى تھيں ،وہ اس راہ ميں اتنى اگے بڑھ گئي تھيں كہ تمام حدود اسلامى و مقررات شرعى كو كچل كر ركھ ديا تھا ، جب كہ تاريخى حقائق سے ظاہر ہے كہ دشمنى كے باوجود تمام تلخياں انكى گہرى دوستى ميں بدل گئيں _
ہم نے اس سے پہلے بہت سارے واقعات زندگاني عائشه كے بيان كئے اور اس ادعى پر بہت سارى دليليں بھى دى تھيں جسكو قارئين كرام نے بغير شك و ترديد كے قبول بھى كيا ہو گا ; ليكن اس مقام پر صرف ايك واقعہ جو انكى خاندانى تعصب كو ثابت كرتا ہے اور وہ انكے بھائي محمد بن ابى بكر كے ساتھ پيش ايا تھا _
يہ دونوں بھائي بہن ابتداء ميں جب عثمان كے خلاف مسلمانوں نے ہنگامہ كھڑا كيا تھا شانہ بشانہ تھے ، اور ان دونوں نے اہم كردار ادا كيا تھا ، ليكن قتل عثمان كے بعد اپنے اپ پانسہ پلٹ گيا اور دونوں ايك دوسرے كے دشمن بن گئے _
محمد بن ابى بكر نے لشكر علوى (ع) ميں اكر عائشه كے خلاف تلوار اٹھا لى اور جنگ كے تمام ہونے تك ان كے مقابلہ ميں ڈٹے رہے_
جب كہ ميں سمجھتا ہوں كہ بصرہ يا جنگ جمل ميں جب عائشه كے سردار لشكركو مار ڈالا گيا اور انكى شكست فاش ہو گئي تو اسوقت امام عليہ السلام نے محمد بن ابى بكر كو بہن كے پاس بھيجا تاكہ انكى احوال پرسى كر ليں اور جانے كے سلسلے ميں ان سے پوچھيں _
جب محمد نے اپنى بہن كے محمل ميں سر ڈالا تو عائشه چيخنے لگيں ، وائے ہو تم پرتم كون ہو ؟
محمد بن ابى بكر نے كہا ، ميں ہوں جس كو اپ اپنے خاندان ميں زيادہ دشمن ركھتى ہيں _
عائشه نے كہا _ اچھا تم زن خثعمى كے بيٹے ہو _
محمد نے جواب ديا _ جى ہاں
عائشه نے كہا _ خدا كا شكر ہے كہ تم كو صحيح وسالم ديكھ رہى ہوں (16)
زيادہ دن نہيں گذرا تھا كہ محمد بن ابى بكر مصر ميں مار ڈالے گئے اور انكے سر كو تن سے جدا كر كے گدھے كى كھال ميں بھر كر جلا ديا گيا _
اس ناگوار حادثے كے خبر جب عائشه كو معلوم ہوئي تو تمام خلش كے با وجود بھائي كى موت پر خوب گريہ كيا _
ليكن جس وقت خواہر معاويہ اور رسول كى زوجہ ( ام حبيبہ ) كو اسكى اطلاع ملى تو انھوں نے ايك بھنا ہوا بكرا عائشه كے دل كو جلانے كے لئے بھيج ديا _ اس سے اشارہ يہ تھا كہ ديكھو جس طرح تم دونوں نے عثمان كو مارا تھا اسى طرح ہم نے تمہارے بھائي محمد سے بدلہ لے ليا ہے _
جيسے ہى عائشه نے اس بھنے بكرے كو ديكھا تو چيخنے لگيں اور كہا _ خدا، زانى عورت (ھند ) كى بيٹى كو مار ڈالے _
خدا كى قسم _ ہم ہرگز بھنا ہوا بكرا نہيں كھائينگے _
پھر اپنے بھائي كے اہل و عيال كو اپنے يہاں لے ائيں (17)
قاسم بن محمد بن ابى بكر كا بيان ہے :
جب حكومت اموى كے مامورين معاويہ بن خديج كندى اور عمرو بن عاص نے ميرے باپ كو مصر ميں مار ڈالا تو ہمارے چچا عبد الرحمن بن ابى بكر گھر ائے اور ہم بھائي بہنوں كو مدينہ لے جانے لگے ، مدينہ پہونچنے سے پہلے عائشه نے اپنا ايك نمائندہ بھيجديا تھا تاكہ عبد الرحمن اپنے گھر نہ لے جا سكيں ، ہم لوگ اپنى پھوپھى ( عائشه ) كے گھر اگئے انھوں نے ہمارے ساتھ وہى سلوك كيا جو اولاد كے ساتھ والدين كيا كرتے ہيں اور ہميشہ اپنے زانو پر بيٹھا كر شفقت و
محبت كيا كرتى تھيں ، كافى دنوں تك ايسا ہى چلتا رہا _
ايك دن عائشه نے اپنے بھائي عبد الرحمن كى رفتار كو بدلا ديكھا تو انہوں نے احساس كيا كہ كہيں ا ن كو برا تو نہيں لگ گيا ہے كہ ہم اپنے گھر ميں لے ائيں،
لہذا ايك شخص كو عبد الرحمن كے پاس بھيجا ، جب وہ ائے تو عائشه نے كہا اے عبد الرحمن ، جب سے محمد كے فرزندوں كو اپنے يہاں ليكر اگئي ہوں ہم كو احساس ہوتا ہے كہ تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو ، ليكن خدا كى قسم ، ہم نے ان دونوں كو تم سے نہيں چھڑايا ہے اور نہ ہى تم سے كوئي بد گمانى ہے ، بلكہ اسكى وجہ صرف يہ ہے كہ تمھارى كئي بيوياں ہيں اور يہ ابھى كمسن ہيں ، لہذا ميں ڈرتى ہوں كہ كہيں يہ شرارت كرديں تو تمھارى بيوياں ان سے نفرت كرنے لگيں ، اور ميں ان لوگوں سے زيادہ مہربان ہو سكتى ہوں اور ايسے بہت واقعات پيش ائے ہيں ، مجھ سے بہتر كون ان كى سر پرستى كر سكتا ہے _ ہاں _ جب يہ دونوں بڑے ہو جائيں اور اپنا پورا خيال كرنے لگيں تو ميں ان دونوں كو تمھارى كفالت ميں ديدونگى _ تم ا ن كى محافظت حجية بن مضروب كے بھائي كى طرح كرنا ، اسكے بعد پورى داستان بيان كى كہ قبيلہ كندہ كا ايك ادمى تھا جب اسكا بھائي مر گيا تو اسكے چھوٹے بچوں كو اسكا بھائي اپنے گھر لے ايا اور اپنے بچوں سے زيادہ ان سے محبت كرتا تھا ، ايك مرتبہ اسكے بھائي كو اچانك سفر در پيش ہوا تو جاتے وقت اپنى بيوى سے كہا كہ بھائي كے يتيم بچوں پر كافى دھيان دينا,
ليكن جب سفر سے واپس ايا تو كيا ديكھا كہ بھائي كے بچے كافى نحيف و لاغر ہو گئے ہيں ، اپنى زوجہ سے كہا كہ لگتا ہے تم نے ان بچوں كى ديكھ بھال صحيح سے نہيں كى تھى اخر وجہ كيا ہے كہ ہمارے بچے صحت مند ہيں اور بھائي كے بچے كمزور و لاغر _ بيوى نے كہا _ ہم نے بچوں كے درميان كوئي فرق نہيں ركھا تھا ان بچوں نے كھيل و شرارت كى بناء پر اپنى حالت ايسى كر ركھى ہے ، حجية بن مضروب اتنا ناراض ہوا كہ جيسے ہى اسكے اونٹ چرانے والے صحراء سے لوٹے تو اس نے ان لوگوں سے كہا يہ تمام اونٹ اور تم لوگ ہمارے بھائي كے بچوں كى ملكيت ميں چلے گئے ہو (18)
جب ام المومنين عائشه نے محمد بن بكر كے بچوں كو عبد الرحمن كے حوالے كيا تھا تو ان سے سفارش كى تھى كہ ان كا خيال حجية بن مضروب كى طرح ركھنا اور ان سے اچھا برتائو كرنا نيز ايك لمحے كے لئے بھى ان سے غافل نہ رہنا _
دوسرى علامت عائشه كى خاندانى تعصب كى يہ ہے كہ ، جب عبد اللہ بن زبير مالك اشتر كے چنگل سے جنگ جمل ميں فرار كر گئے تھے تو عائشه كو ايك نے جا كر اسكى خبر دى تو انھوں نے اسكو دس ہزار درہم ديئے (19)
اس طرح كے نہ جانے كتنے واقعات عائشه كى زندگى ميں پيش ائے جو سارے كے سارے انكى خاندانى تعصب كى بووخو كو ظاہر كرتے ہيں ، اور انھوں نے اس راہ ميں كافى مصيبتوں كا سامنا بھى كيا ہے _ عائشه كے خطبے جو باپ كى مدح ميں ہيں پھر چچا زاد بھائي ( طلحہ ) كو تخت خلافت پر لانے كى كوشش جسكو ہم نے پہلے تفصيل سے بيان كيا ہے پھر رسول اكرم (ص) سے حديثيں منسوب كر كے اپنے باپ اور انكے جگرى دوست عمر نيز ديگر ارباب سقيفہ جيسے ابو عبيد ہ جراح كے متعلق بيان كيں ہيں يہ سارى كى سارى ام المومنين عائشه كى اس خصلت كى نا خواستہ پذير دليل ہے جو ہم نے ان روايتوں كو اس كتاب كے باب روايت ميں خوب جانچ پڑتال كى ہے _

عائشه كى خطابت
ايك رہبر و ليڈر كے لئے سب سے اہم چيز يہ ھيكہ معاشرے ميں كس طرح بات كى جائے تاكہ انكے دلوں ميں بيٹھ جائے ، اس طرح كے افراد اگر كلام كى نزاكت كو جان جائيں تو معاشرہ ميں كافى اچھا اثر ڈال سكتا ہے ، اور ساتھ ميں يہ بھى بتا دوں كہ اس ميں مومن ہونا شرط نہيں ہے بلكہ اگر ايك كافر و منافق شخص فن خطابت سے واقف ہے تو معاشرے ميں اپنا اچھا اثر ڈال سكتا ہے _
عائشه اجتماعى اور سياسى شخصيت كے علاوہ فن خطابت ميں بھى كافى مہارت ركھتى تھيں _ جب معاويہ اپنے غلام ذكوان كے ساتھ عائشه كے گھر جا رہا تھا تو اس نے كہا :
خدا كى قسم _ ميں نے رسول(ص) اسلام كے بعد عائشه سے زيادہ كسى كو فصيح و بليغ نہيں پايا (20)
اخنف بن قيس كہتا ہے :
ميں نے ابو بكر اور ديگر خلفاء كى تقريريں سنيں مگر عائشه سے اچھى كسى كى تقرير نہيں لگى (21)
ايك دن معاويہ نے زياد سے پوچھا كہ يہ بتائو كہ لوگوں ميں سب سے اچھا مقرر كون ہے _
زياد نے كہا _ امير المومنين اپ ہيں _
معاويہ نے كہا _ پھر قسم كھائو
زياد نے جواب ديا _ چونكہ بات قسم پر اگئي ہے لہذا مجبور ہوں كہ يہ كہوں كہ عائشه سب سے اچھى خطيب ہيں _
معاويہ نے كہا _ عائشه نے جس دروازے كو بند كر ديا اس كو كوئي كھول نہ سكا اور جس كوكھول ديا اس كو كوئي بند نہ كر سكا _
جو كچھ معاويہ اور اخنف بن قيس اور ديگر حضرات نے عائشه كے فن خطابت كے سلسلہ ميں كہا ہے _ ہم اس سے اتفاق نہيں كرتے ہيں ان لوگوں نے مبالغہ سے كام ليا ہے ، كيونكہ ايك طرف يہ لوگ اپس ميں ايك دوسرے كے دوست اور ہم نوالہ و ہم پيالہ تھے ، دوسرى طرف ان لوگوں نے ہميشہ فضائل اہلبيت (ع) كو چھپانے كى كوشش كى ہے_
ليكن جو كچھ اوپر كى عبارتوں سے نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ عائشه ايك اچھى خطيب تھيں اور كلام عرب نيز اشعار سے واقفيت ركھتى تھى ، اور اكثر مقامات پر اپنى تقريروں ميں دور جاہليت كا مشہور و معروف لبيد كے اشعار سے استدلال كرتى تھيں _
عائشه خود كہتى ہيں كہ ، ميں نے لبيد كے ايك ھزار بيت ياد كئے تھے جسكو پڑھا كرتى تھى (22)
مورخين كہتے ہيں :
ايك مرتبہ عائشه نے ايك قصيدہ زبانى پڑھا جو ساٹھ يا ستر بيتوں پر مشتمل تھا (23) ،يہ خود انكى قوت حافظہ كى بہترين دليل ہے _
وہ اس زمانہ ميں جبكہ علم محدود تھا علم طب سے اشنا تھيں ، عروہ بن زبير جو عائشه كا بھانجا ہے اس نے اپنى خالہ كى تعريف كرتے ہوئے كہا ، اگر چہ يہ مبالغہ ارائي ہے مگر عائشه كى استعداد ذہنى كو ضرور ثابت كرتا ہے ، وہ كہتا ہے ميں نے علم طب ميں
اپنى خالہ ( عائشه ) سے زيادہ كسى كو ماہر نہيں ديكھا ، ايك دن ميں نے سوال كيا
اے خالہ _ اپ نے كس سے حكمت سيكھى ہے_
انھوں نے كہا _ ميں نے ہميشہ لوگوں كى باتوں كو غور سے سنا اور جو كچھ ان لوگوں نے كہا اسكو اپنے دماغ ميں محفوظ كر ليا (24)
مورخين لكھتے ہيں
عائشه پڑھ تو ليتى تھيں ليكن لكھنے سے كوئي واسطہ نہ تھا _(25)
اخر ميں بڑے افسوس كے ساتھ كہنا پڑ رہا ہے كہ ام المومنين عائشه نے ان تمام خداد اد صلاحيتوں كو حديث گڑھنے اور حضرت على (ع) اور انكے اصحاب كو شكست دينے نيز اپنے باپ كى پارٹى ( سقيفہ ) كو فروغ اور حكومت معاويہ كى مشيزيوں كى طرفدارى ميں خرچ كيا ، وہ اس فن ميں اتنى ماہر تھيں كہ جو حديثيں جذبات اور احساسات كى خاطر انھوں نے پيغمبر(ص) اسلام سے منسوب كر كے يادگارى چھوڑى ہيں وہ ابوہريرہ اور ديگر حديث پردازوں كى طرح بد ذائقہ نہيں ہيں ، بلكہ الفاظ فصيح و بليغ اور چٹ پٹے ہيں ، لہذا انكى گڑھى ہوئي حديثوں كى شناخت كرنا بہت مشكل ہے _
برادران اہلسنت پيامبر(ص) اكرم كى سيرت كو عائشه كى ہى روايتوں سے ليتے ہيں جو پا پڑ بيلنے كے مترادف ہے ، كيونكہ جھوٹ اور سچ اور خرافات اپس ميں اسقدر مل گئے ہيں كہ اس ميں طويل مدت تك چھان بين كرنے كے بعد انسان حقيقت تك نہيں پہونچ سكتا ہے _

عائشه كى زندگى ميں فاخرہ لباسي
ظہور اسلام سے پہلے عرب كا سارا معاشرہ مفلوك الحال تھا شہر مكہ ، مدينہ ، اور طائف كے چند بڑے تاجر تھے جو شان و شوكت اور رفاہ و اسائشے كے مالك تھے _
جب اسلام كا سورج اپنى تمام جلالت و عظمت كے ساتھ طلوع ہوا تو اس نے سب سے پہلے اپنى كرنوں كو مردہ و بے حس عربوں پر ڈالا تاكہ انكى روح اور حس بيدار ہو جائے پھر انكے رہن سہن كو بدلے ، نہ كہ ايك معاشرے كو زرق و برق اور اسرافى بنائے _
اس ميں كہا جا سكتا ہے كہ ايك بے دين طبقہ تھا جو اسلام سے مقابلہ كر رہا تھا تاكہ ان لوگوں كو خراب كر دے _
ادھر پيغمبر(ص) اسلام كى انكھ بند ہوئي اور كچھ لوگوں نے تخت خلافت پر قبضہ كر ليا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ لوگوں نے خود كو بدل ڈالا _
جب عثمان كا زمانہ ايا تو تمام مسائل فراموش ہو گئے اور روم كى پرانى تہذيب اسلامى معاشرے ميں پروان چڑھنے لگى ، اور بزرگان قوم كے گھر مزين نيز لباس فاخرہ كا رواج اور دولت كى جمع اورى ہونے لگى _
اسلام نے جو معاشرے كو مساوات كا درس ديا تھا اور خدائے وحدہ لا شريك نے جو قانون بتايا تھا وہ سارى ناپيد ہو گئي اور خواہشات نفسانى كا رواج عام ہونے لگا ، اس كتاب ميں بحث كى محور عائشه كى شخصيت ہے جو بعد وفات رسول (ص) اس راہ پر چليں ، اور جس طرح ممكن ہوا جاہ طلبى كے لئے پيش پيش رہيں تاكہ لوگ انكو ثروتمند سمجھيں ، اور ہم نے جو كچھ انكى گڑ ھى ہوئي حديثيں نقل كيں ہيں نيز اركان خلافت سے جو رابطہ تھا يہ تمام كے تمام عائشه كى اسى صفت كى جلوہ نمائي كرتى ہيں ، اب دوسرے نمونے جو انكى دولت كے ہيں اسكو بيان كرتا ہوں _
عائشه اس زمانے ميں بھى جب مسلمانوں كى عورتيں نيز ازواج رسول (ص) سادگى كے ساتھ رہتى تھيں ، زرق و برق لباس پہنا كرتى تھيں ، اور رنگ برنگ كے زيور ات پہنتى تھيں ، حتى اپ نے ايام حج ميں بھى قيمتى زيورات كو نہيں اتارا كہ جہاں پر انسان اس عبادت كو انجام دينے ميں تمام مادى چيزوں كو بھلا بيٹھتا ہے _
ام المومنين عائشه كے قيمتى اور رنگ برنگ لباس پہننے كے سلسلے ميں اپنے دعوے پر دليليں پيش كروں گا _
صاحب طبقات عائشه كے بھتيجے قاسم سے نقل كرتے ہيں _
ميرى پھوپھى ( عائشه ) زرد رنگ كا لباس نيز سونے كى انگوٹھياں پہنتى تھيں _
عائشه كا بھانجا عروہ كہتا ہے :
ميرى خالہ ( عائشه ) كے پاس ايك ريشمى اوڑھنى تھى جسكو كبھى كھبار اوڑھا كرتى تھيں يہ اوڑھنى عبد اللہ بن زبير نے دى تھى _(26)
ايك مسلمان عورت شمسيہ نام سے روايت كرتى ہے كہ ، ايك روز عائشه كے يہاں ميں گئي تو كيا ديكھا كہ اپ زرد رنگ كا پيراہن نيز اسى رنگ كى اوڑھنى زيب تن كئے ہوئي ہيں _(27)_
محمد بن اشعث جو قبيلہ كندہ كا سردار تھا اس نے عائشه كے پاس ايك شال تحفے ميں بھيجى جس كوسردى ميں اوڑھا كرتى تھيں _
امينہ كا بيان ہے كہ ايك روز ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كى چادر اور سياہ رنگ كا مقنعہ پہنے ہوئے ديكھا تھا _(28)
معاذ قبيلہ عدى كى عورت نقل كرتى ہے كہ _ ميں نے عائشه كو ايك روز پيلے رنگ كا برقع اوڑھے ديكھا تھا (29)
بكرہ بنت عقبہ كہتى ہے ، ايك دن عائشه كو مضرج رنگ كا جمپر پہنے ديكھا ، لوگوں نے پوچھا مضرج كيا ہے اس نے جواب ديا ، ارے وہى تو ہے جس كو تم لوگ پھول كا رنگ كہتے ہو (30)
قاسم بن محمد بن ابى بكر نقل كرتا ہے :
عائشه نے زرد رنگ كے لباس سے احرام باندھا نيز سونے اور رنگين كپڑے پہن كر اعمال حج كو انجام ديا تھا (31)
عبد الرحمن بن قاسم اپنى والدہ سے نقل كرتا ہے كہ ميرى ماں نے عائشه كو شوخ سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا در انحاليكہ وہ حالت احرام ميں تھيں (32)
عطا ء كہتا ہے كہ ہم عبيد ہ بن عمير كے ہمراہ عائشه كے يہاں گئے ، يہ كوہ ثبير كے مسجد كى اس وقت مجاورى كرتى تھيں ، لہذا
ان كے لئے ايك خيمہ نصب كر ديا گيا تھا ، چونكہ ميں اس وقت بہت چھوٹا تھا لہذا ام المومنين عائشه نے صرف ايك چادر اوپر سے اوڑھ لى تھى ، ہم نے انكو سرخ رنگ كے لباس پہنے ہوئے ديكھا تھا (33)
بخارى تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ مزيد بيان كرتے ہيں :
لوگوں نے عطاء سے پوچھا كہ عائشه كيا پہنے ہوئے تھيں ، اس نے كہا ، وہ تركى خيمہ ميں تھيں اور صرف چادر اوڑھ ركھى تھى ہمارے اور انكے درميان صرف چادر كا فاصلہ تھا ميں نے عائشه كو سرخ رنگ كے لباس ميں ديكھا تھا (34)_

مسئلہ رضاعت ميں ، عائشه كا نرالا فتوا
عائشه اپنے باپ كے زمانے سے ليكر عصرمعاويہ تك سوائے حكومت علوى (ع) كے مذہبى مسائل ميں مرجع وقت تھيں _ اور خلفاء ان سے مختلف مسائل ميں انكى رائے كو معلوم كرتے تھے جس كى وجہ سے وہ ديگر ازواج رسول (ص) سے زيادہ مورد توجہ تھيں ، اور انكے گھر ميں سوال كرنے والوں كا تانتا بندھا رہتا تھا ، پھر اپ نے پہلے يہ بھى ملاحظہ فرمايا كہ ديگر ازواج مطہرات ميں وہ تنھا تھيں جنھوں نے اپنى سارى زندگى كو زمانے كى سياست ميں گذارا تھا ، اور وہ تمام خونريزياں جو اپ نے ملاحظہ فرمائيں وہ ديگر ازواج رسول (ص) نے نہيں كى تھيں _
شايد يہى وہ باتيں تھيں جنكى وجہ سے اپ نے حديث رسول (ص) كى تاويل كرتے ہوئے ايك فتوا ٹھونك ديا جس پر ديگر ازواج رسول (ص) نے اعتراض كيا _
مسند احمد ميں حديث يوں بيان ہوئي ہے
عائشه فرماتى ہيں كہ سہيلہ بنت سہيل بن عمر نے جو ابو حذيفہ كى بيوى تھى رسول (ص) اكرم سے سوال كيا كہ ابو حذيفہ كا ازاد كردہ غلام سالم ہمارے گھر ميں اتا ہے اور ميں اس سے پردہ نہيں كرتى ہوں ، كيونكہ ابو حذيفہ نے اسكو اپنا منھ بولا فرزند بنا ليا ہے ، جس طرح رسول (ص) نے زيد كو اپنا فرزند بنا ليا تھا ، جس پر يہ ايت نازل ہوئي تھى '' ادعوھم لابائھم ھوا قسط عند اللہ '' سورہ احزاب ايہ 5
ترجمہ ايت : ( ان بچوں كو انكے باپ كے نام سے پكارو كہ يہى خدا كى نظر ميں انصاف سے قريب تر ہے )
پيغمبر اسلام (ص) نے سہيلہ سے فرمايا :
تم ازاد كردہ غلام اور منھ بولے فرزند كو پانچ مرتبہ شير ديدو تاكہ وہ تمھارا فرزند رضاعى اور تمھارا محرم ہو جائے _
عائشه نے اس روايت سے ( جسكى راوى بھى خود ہيں ) استدلال كيا اور اپنى بہنوں اور بھانجيوں كو حكم ديا كہ تم لوگ اپنا دودھ پلائو چاہے جوان ہى كيوں نہ ہو ، تاكہ جو لوگ ( عائشه ) سے ملنے كے مشتاق ہوں دودھ پلانے كى وجہ سے محرم ہو جائيں ، اور اطمينان كے ساتھ انكے گھر ميں امد و رفت كريں ، مگر ام سلمى اور ديگر ازواج رسول (ص) نے اپنى بہنوں كو اس كام سے منع كيا اور ان لوگوں نے كہا كہ ، مسئلہ رضاعت كا تعلق كمسنى سے ہے اور عائشه نے اپنى طرف سے فتوا گڑھا ہے ، اور رسول خدا (ص) نے جو حكم ديا تھا شايد وہ صرف ابو حذيفہ كے غلام كے لئے ہوگا نہ كہ تمام لوگوں كے لئے (35) _
صحيح مسلم ميں اس واقعے كى چھہ طريقوں سے روايت ہوئي ہے اخرى روايت كے الفاظ يوں ہيں ، ازواج رسول نے عائشه سے كہا ، خدا كى قسم ، رسول(ص) خدا نے جو سالم كو اجازت دى تھى اسكے سلسلے ميں ہم لوگ جانتے ہيں اور يہ حكم صرف اسى سے مخصوص تھا لہذا ہم لوگ دودھ پلا كر كسى كو اپنا محرم نہيں بنائيں گے (36)
سالم بن عبد اللہ بن عمر ، ان ميں سے ہے جس نے عالم جوانى ميں كئي مرتبہ دودھ پيا عائشه كے يہاں امد و رفت كرنے لگا _
صاحب طبقات لكھتے ہيں :
ام المومنين عائشه نے سالم كو اپنى بہن ام كلثوم جو عبد اللہ بن ربيعہ كى بيوى تھى كے پاس بھيجا تاكہ پہلے ان كا دودھ پئے پھر عائشه كے پاس اكر حديث سنے (37)
صحيح مسلم نے جو حديث بيان كى ہے وہ تمام ديگر ازواج رسول (ص) اور ام سلمى كى مسئلہ رضاعت ميں تائيد كرتى ہے _
عائشه كہتى ہيں كہ ، ايك دن رسول(ص) اسلام گھر ميں ائے تو ميرے پاس ايك شخص كو بيٹھا ديكھا رسول اكرم (ص) بہت ناراض
ہوئے اور اپكا چہرہ غصے سے سرخ ہو گيا ، ميں نے عرض كى يا رسول اللہ يہ ميرا رضاعى بھائي ہے ، رسول خدا نے كہا ،'' انظر اخوتكن من الرضاعة ، فانما الرضاعة من المجاعة '' (38)
صحيح مسلم كے شارح نووى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں :
''انظر اخوتكن'' اس سلسلے ميں تمھيں غور كرنا چاہيئے كہ يہ رضاعت قانون اسلام كے تحت انجام دى گئي ہے يا نہيں ؟
كيونكہ شير خوارگى كا تعلق كمسنى سے ہے ، اور اسى طرح ضرورى ہے كہ المجاعة ، كے معنى بھوك كے لئے جائيں ، يعنى ، يہ رضاعت باعث حرمت ازدواج اس صورت ميں ہو گا كہ بچہ اتنا كمسن ہو كہ اس دودھ كے ذريعہ اسكى بھوك ختم ہو گئي ہو اور ديگر غذائوں كى احتياج نہ ہو ، درانحاليكہ ايك جوان خالى دودھ سے سير نہيں ہو سكتا ہے اور نہ اسكى بھوك ختم ہو سكتى ہے بلكہ اسكو روٹى وغيرہ كى ضرورت ہوتى ہے _
لہذا اگر ايك جوان ايك عورت كا دودھ پى لے تو اسكا فرزند رضاعى اور برادر رضاعى نہيں ہو سكتا ہے ، بلكہ صرف كمسنى ( دو سال ) ميں دودھ پينے سے محرميت پيدا ہوتى ہے _
سنن ترمذى ميں يہ عبارت نقل ہوئي ہے كہ '' لا يحرم من الرضاع الّا ما فتق الامعاء '' يعنى رضاعت اسوقت موجب حرمت ازدواج ہو گى جب بچپنے ميں عورت كا دودھ غذا كى جگہ ہو ، يا دوسرے لفظوں ميں شير خوار گى اس وقت حرمت كى باعث بنے گى جب طبق معمول دودھ پلايا جائے ، پھر نووى مزيد لكھتے ہيں ، يہ مسئلہ فقہى كتابوں ميں بہت مشہور ہے البتہ اس ميں اختلافات بہت پائے جاتے ہيں (39)
ہم نے اخرى روايت كو جو نووى نے شرح صحيح مسلم ميں اور سنن ترمذى نے ام سلمى سے نقل كيا ہے اسكا تتمہ يہ ہے '' الّا ما فتق الامعاء فى الثدى و كان قبل العظام '' (40)
ترمذى مزيد لكھتے ہيں :
يہ حديث صحيح ہے اور اكثر اصحاب كرام اور علمائے عظام اور ديگر حضرات نے اسى قول رسول(ص) كى روشنى ميں عمل كيا ہے
اور ان لوگوں كا حكم رسول (ص) كے مطابق نظريہ يہ ہے كہ ، اگر بچے كے ابتدائي دو سال ميں كوئي دودھ پلائے تو وہ بچہ محرم ہو جائے گا ، ليكن اگر دو سال كے بعد كوئي دودھ پلائے تو حرمت پيدا نہ ہو گى ، يہ حديثيں عائشه كے نظريہ كو رد كرتى ہيں ، يہى وجہ ہے كہ انھوں نے ديگر ازواج رسول (ص) نيز دوسرى حديثوں سے ٹكر لينے كے بجائے اپنى مشكلات كى عقدہ كشائي كے لئے قران سے ايك ايت ڈھو نڈھ نكالى اور اسكے ذريعہ اپنے اكلوتے فتوے كو پروان چڑہاتى رہيں _
عائشه كہتى ہيں ، ايك ايت رضاعت كے سلسلے ميں نازل ہوئي تھى ، جس ميں محرميت كے لئے دس مرتبہ دودھ پينے كو كافى جانا ہے اور يہ ايت حيات رسول(ص) ميں ايك پتّہ پر لكھ كر تخت كے نيچے ڈالدى تھى ،جب رسول(ص) اسلام بيمار ہو گئے اور ہم لوگ انكى تيمار دارى ميں مشغول تھے تو اچانك ايك بكرى گھر ميں گھس گئي اور لكھے ہوئے پتے كو جس پر يہ ايت لكھى تھى كھا گئي (41)
دوسرى روايت جو عائشه سے مسلم نے نقل كى ہے :
عائشه فرماتى ہيں ، قران ميں يہ ايت ( عشر رضعات معلومات يحرمن ) موجود تھى ، پھر يہ ايت ( خمس معلومات ) سے منسوخ ہو گئي ، پھر بھى اس ايت كى بعد وفات رسول (ص) تلاوت ہوتى رہى _
عالم اہلسنت اور صحيح مسلم كے شارح نووى كہتے ہيں:
اس روايت كا مطلب يہ ہے كہ عشر رضعات خمس معلومات سے منسوخ ہوئي ، جو رسول اكرم (ص) كى اخرى زندگى ميں نازل ہوئي تھى ، اور بعض لوگ ( عشر رضعات كو ) قران كى ايت سمجھ كر تلاوت كرتے رہے اور انكو معلوم نہ ہو سكا كہ يہ ايت منسوخ ہو گئي ہے _
اس كے بعد نووى ،شافعى اور مالكى فقہى نظريہ كے اختلاف كو بيان كرنے كے بعد قول مالكى كو بيان كرتے ہيں كہ ايك ادمى كے كہنے سے الفاظ و ايات قرانى ثابت ہو جائے گى _
پھر قاضى عياض كى بات كو نقل كيا ہے كہ ،جوانوں نے جو دودھ پيا ہوگا وہ اس طريقے سے كہ عورتوں نے اپنے شير كو پيالے ميں نچوڑ كر انكو پلايا ہوگا نہ كہ پستان ميں منھ لگا كر (42)
ام المومنين عائشه مسئلہ رضاعت ميں تمام ازواج رسول(ص) كى مورد انتقاد بنى رہيں پھربھى اپنے نرالے فتوے پر عمل كرتى رہيں _

عائشه كى زندگى كے چند گوشے
عائشه اپنى سارى زندگى تاريك و بھيانك ماحول اور مشكلات ميں گذارنے كے باوجود اپنى ذہانت و فطانت سے مزاج كلام اور طنز كو خوب سمجھتى تھيں ، اس سلسلہ ميں تاريخ كے دامن ميں ان كے واقعات يادگارى حيثيت سے اج بھى موجود ہيں _
ابن عبد ربہ اپنى مشہور كتاب عقد الفريد ميں لكھتے ہيں :
ايك روز حسن (ع) بن على (ع) معاويہ كے پاس گئے عبد اللہ بن زبير اور ابو سعيد بن عقيل پہلے ہى سے وہاں بيٹھے ہوئے تھے ، جيسے ہى امام حسن (ع) تشريف فرما ہوئے معاويہ نے پوچھا ، اے ابا محمد (ص) على (ع) و زبير ميں كون بڑا تھا _
امام (ع) نے جواب ديا ، سن كے اعتبار سے دونوں برابر تھے ليكن عظمت و منزلت كے اعتبار سے على (ع) بڑے تھے _
عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا زبير پر اپنى رحمت نازل كرے_، امام عليہ السلام اس بات پر مسكرائے اور اس كے پس منظر ميں معاويہ كى سياست كو بھانپ ليا ، ليكن ابو سعيد بن عقيل غصے ميں اكر كہنے لگے كہ ، على (ع) و زبير كى باتوں كو چھوڑو ، على (ع) نے لوگوں كو اس امر كى طرف دعوت دى جسكے خود امام و پيشوا تھے ليكن زبير نے لوگوں كو اس طرف بلايا جس كى رياست و پيشوائي كا عہدہ ايك عورت كى گردن پر تھا ؟
جس گھڑى دونوں لشكروں ميں گھمسان كى جنگ ہوئي تو زبير نے جنگ سے فرار اختيار كيا اور قبل اسكے كہ حق كى پيروى كرتے ايك شخص نے ان كو مار ڈالا اگر زبير كا مقابلہ ان كے قاتل سے كيا جائے تو بھى وہ اس سے ايك بالشت چھوٹے ہى نظر ائيں گے ، قاتل نے ان كے سر كو تن سے جدا كيا پھر امام (ع) ( على (ع) ) كى خدمت ميں تحفةََ پيش كيا ، مگر امام (ع) كا كردار جس طرح لشكر رسول (ص) ميں تھا اسى طرح اس دن بھى تھا پس خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے نہ كہ زبير پر ؟
عبد اللہ بن زبير نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر تمھارے علاوہ كوئي اور ہوتا تو ميں اس كو بتا ديتا ، ابو سعيد نے كہا ، امام حسن نے تمھارا خيال صرف اس لئے كيا كيونكہ تم سن ميں بڑے ہو اور يہى وجہ ہے كہ انھوں نے تم كو جواب نہيں ديا لہذا ميں مجبور ہوا كہ تمھارا جواب دوں _
اس قضيہ كى خبر عائشه تك پہونچى ، ايك روز ابو سعيد كا گذر ان كے گھر كى طرف سے ہوا ، انھوں نے ہانك لگائي ، اے احول _ اے خبيث _ ايا تم وہى ہو جس نے ميرے بھانجے كو برا بھلا كہا ہے _
ابو سعيد نے اس اواز پر چاروں طرف نگاہ دوڑائي مگر جب كسى كو نہيں پايا ، تو انہوں نے باواز بلند كہا كہ ، شيطان تمھيں ديكھ رہا ہے مگر تم اسكو ديكھنے كى قدرت نہيں ركھتے ہو _
چونكہ اواز عائشه نے دى تھى لہذا اس جواب پر خوب ہنسيں اور كہنے لگيں ، خدا تمہارى مغفرت كرے ، تيرى زبان كتنى تيز و تند ہے (43)
اگر اپ نے مذكورہ واقعہ پر غور كيا ہوگا تو معلوم ہوا ہوگا كہ معاويہ كى چال يہ تھى كہ امام حسن (ع) كو زبير كے بيٹے سے ٹكرا كر بغض و كينہ كى اگ لگا دے ، اور اسكى ہميشہ يہى سياست رہى كہ ايك سردار كو دوسرے كے خلاف بھڑكا دے ، اور ايسا ہى اس واقعہ ميں ہوا كہ عبد اللہ بن زبير معاويہ كے دام فريب ميں اگئے تھے ، ليكن امام (ع) معاويہ كى كامل شناخت ركھتے تھے ، لہذا اسكے جال ميں نہيں ائے ، اور اسى واقعہ ميں اپ نے عائشه كا كردار بھى ملاحظہ فرمايا اگر عائشه كى سارى زندگى كے واقعات كو ايك جملہ ميں سميٹا جائے تو يہ ہوگا كہ ، اپنوں سے دوستى اور دشمن كے مقابلہ ميں دشمنى ، عائشه كى زندگى ميں ايسے واقعات نہ جانے كتنى مرتبہ پيش ائے ہيں ، جنھيں خود احمد بن حنبل نے اپنى مسند ميں نقل كيا ہے وہ لكھتے ہيں :
عمار ياسر كے ساتھ مالك اشتر عائشه كے گھر گئے ، جب گھر ميں داخل ہوئے تو عمار ياسر نے ام المومنين كہہ كر خطاب كيا ، عائشه نے كہا ، ميں تمہارى ماں نہيں ہوں ، عمار نے پوچھا ، اپ ہمارى ماں كيوں نہيں ہيں اور اس سے كڑا ہتى كيوں ہيں _
عائشه نے سوال كيا كہ يہ تمہارے ساتھ كون ہے ، عمار نے كہا ، مالك اشتر ہيں
عائشه نے مالك اشتر سے كہا كہ ، تم وہى مالك اشتر ہو جو ميرے بھانجے كو قتل كرنا چاہتے تھے _
مالك اشتر نے كہا _ جى ہاں _ وہ مجھے قتل كرنا چاہتا تھا لہذا ميں بھى ايسا ہى كرنا چاہتا تھا _
عائشه نے كہا _ اگر تم اسكو مار ڈالتے تو ہر گز نيك و صالح نہ ہوتے كيونكہ ميں نے پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے كہ اپ (ص) نے
فرمايا: تين صورتوں ميں مسلمان كو قتل كرنا جائز ہے ، اگر كوئي قتل كرے تو ا س كو قتل كرنا جائز ہے يا كوئي شخص بيوى ركھنے كے باوجود زنا كرے تو خون بہانا جائز ہے يا مسلمان ہونے كے بعد مرتد ہو جائے تو اسكو مار دينا چاہيئے (44)
يہاں پر بہتر ہے كہ ہم عائشه سے سوال كريں كہ ، اے ام المومنين ، اپ نے اس قول رسول(ص) كو اپنے بھانجے كے سلسلہ ميں كيوں نہيں ياد ركھا كہ جس نے مالك اشتر جيسے نيك انسان كو قتل كرنا چاہا ؟
كيا مسلمان كے قتل كى حرمت صرف عبد اللہ بن زبير سے مخصوص تھى ، اور جو ہزاروں بے گناہ مسلمان خواہشات نفسانى كے تحت جنگ ميں مارے گئے كيا اس حكم ميں شامل نہيں تھے ، يا انكے خون خدا و اسلام كى نظر ميں بے وقعت تھے _
عائشه كى زندگى كا ايك اور واقعہ جو ابھى تك تاريخ ميں موجود ہے جس كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ميں يوں نقل كيا ہے_
جنگ جمل كے بعد ايك دن عبد القيس كے قبيلے كى عورت ام اوفى عبديہ جسكے قبيلہ كے ہزاروں مشہور افراد جيسے حكيم بن جبلہ اسى جنگ ميں مارے گئے تھے ، عائشه كے پاس گئي اور ان سے كہا ، اے ام المومنين اس ماں كے بارے ميں اپكا كيا خيال ہے جس نے اپنے چھوٹے بچوں كو قتل كر ديا ہو _
عائشه نے كہا ، اس پر جہنم كى اگ واجب ہے
ام اوفى نے كہا ، اپ اس ماںكے سلسلے ميں كيا فرماتى ہيں جس نے اپنے بيسوں ھزار چھوٹے بڑے لوگوں كو خاك و خون ميں غلطاں كر ديا ہو_
عائشه يہ سنكر چيخنے لگيں اور كہا ، اس دشمن خدا كو گھر سے نكالو _(45)
جيسا كہ ہم نے بيان كيا كہ جنگ جمل كے تمام ہولناك واقعات عائشه كے دل و دماغ پر مثل پہاڑ كے بوجھ بنے ہوئے تھے اور وہ انكى زندگى ميں كبھى ختم نہيں ہوئے جو انكى ندامت و پشيمانى كى علامت ہے ، نيز اسكے بعد جو باتيں پيش كروں گا شايد اسى سے مربوط ہوں گى _
جنگ جمل كے واقعات ايك طرف عائشه كے لئے كبيدہ خاطر ہو رہے تھے تو دوسرى طرف امويوں كے لئے مسرت و خوشحالى كے باعث بن رہے تھے اور يہ لوگ ہر دن كسى نہ كسى بہانے سے ضرور ياد كرتے تھے نيز جنگ جمل كے
واقعات كو ہوا دينے كے لئے مدد بھى كرتے تھے _
ابن عبد ربہ كا بيان ہے كہ بصرہ سے يزيد بن منيہ معاويہ كے پاس گيا ، يہ يعلى بن منيہ كا بھائي اور رئيس بصرہ نيز جنگ جمل كا ايك سردار تھا اور جس اونٹ پر عائشه بيٹھ كر جنگ كى سربراہى كر رہى تھيں اسكى مہار اسى نے پكڑى تھى ، پھر يعلى كى معاويہ سے رشتہ دارى يوں تھى كہ اسكى بيٹى معاويہ كے بھائي عتبہ بن ابو سفيان سے بياہى تھى _
جب يزيد بن منيہ نے اپنى مشكلات كو معاويہ سے بيان كيا تو اس نے كعب سے كہا كہ اسكو بيس ہزار دينار ديدو ، جب وہ رقم ليكر جانے لگا تو معاويہ نے پھر دستور ديا كہ چونكہ جنگ جمل ميں شريك ہوا تھا لہذا تيس ہزار دينار اور ديدو (46)
ايك روز عمر و عاص نے عائشه سے كہا كہ ، كتنا اچھا ہوتا كہ اپ جنگ جمل ميں مارڈالى گئي ہوتيں ، عائشه نے كہا _ اے يتم كيوں ؟
عمرو عاص نے جواب ديا ، اگر اپ مر گئي ہوتيں تو ہم لوگوں كو لشكر علوى (ع) سے ٹكڑانے كا اچھا بہانہ مل جاتا (47)
عائشه اور عمر و عاص كے ما بين دوسرى جھڑپ كو تاريخ يوں بيان كرتى ہے _
ايك روز عائشه كے گھر امير المومنين (ع) كے ہاتھوں ذوالثديہ كے مارے جانے كا تذكرہ چھڑا ، راوى كہتا ہے كہ ام المومنين نے مجھ سے كہا كہ اگر تم كوفے جانا تو ہمارے لئے ان گواہوں كو ليتے انا جنھوں نے اسكو مارتے ہوئے ديكھا تھا ، ميں كوفہ پہونچا اور شہر كے ہر گروہ سے دس افراد كو ليا اور عائشه كى خدمت ميں پہونچا ديا ، جب انھوں نے ان گواہوں كو ديكھا تو كہا ، عمر و عاص پر خدا كى لعنت ہو ، اس نے يہ كہا تھا كہ ميں نے چھاتى والے انسان كو مصر ميں مارا ہے (48)
ابن كثير اس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ عائشه نے سر جھكا كر خوب گريہ كيا ، جب گريہ ختم ہوا تو كہنے لگيں ، خدا على (ع) پر رحمت نازل كرے كيونكہ وہ ايك لمحہ بھى حق سے جدا نہيں ہوا ہمارے اور ان كے درميان جو چپقلش اور درارپڑى تھى وہ ايسى ہى تھى جيسے ايك بياہى عورت كى سسرال والوں سے ہوتى ہے _
سوچنے كى بات يہ ہيكہ اخر عمر و عاص نے ايسا جھوٹا دعوا كيوں كيا اور اپنے كو ذو الثديہ كا قاتل كيوں بتايا _
يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب رسول(ص) كى حديثوں كو ملاحظہ كيا جائے جن كو محدثين اور مورخين نے ذوالثديہ كى مذمت اور اسكے قاتل كى مدح و ستائشے ميں نقل كى ہيں ، ان حديثوں كى وجہ سے عمر و عاص ذوالثديہ كے قتل كا سہرا اپنے سرپر باندھنا چاہتا تھا _
عائشه كى زندگى كے واقعات كى جانچ پڑتال ختم كرنے كے بعد ميں چاہتا ہوں كہ معاويہ كے حالات زندگى كى كريد كى جائے تاكہ جعل حديث كے اسباب سامنے ائيں نيز اس بحث ميں عائشه كا اہم كردار بھى سامنے ائے گا _
ہمارى يہى كوشش ہے كہ وہ تمام جھوٹى حديثيں جو اسلام كى سر نگونى كى علامت بن گئيں ہيں ان پر تنقيد كى جائے تاكہ اسلام كا اصل چہرہ سامنے اجائے _

فصل ششم
معاويہ كى زندگى پر ايك طائرانہ نظر
دور جاہليت ميں اميہ اور بنى اميہ، ہاشم اور بنى ہاشم كى رياست و بزرگى پر بہت حسد كرتے تھے اس حسد سے نہ جانے كتنے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے ليكن اسلام سے پہلے امويوں كى بنى ہاشم سے اتنى سخت گہماگہمى نہيں تھى ، جيسے ہى زمانے نے كروٹ ليا اور عبد المطلب بن ہاشم كے پوتے نے دنيا ئے انسانيت كو اسلام كے نام سے ايك دين تحفہ ميں ديا ، اسى وقت سے اميہ كا پوتا ابو سفيان نے قريش و اسلام كے خلاف جنگ كرنے كا بيڑا اٹھا ليا ، اكثر مقامات پر اسلام كے خلاف مشركين مكہ كى رياست و سربراہى كرتے ہوئے ابو سفيان نے اپنى تمامتر قوتوں كے ساتھ كمزور و ضعيف مسلمانوں كو اذيتوں اور شكنجوں ميں مبتلا كيا ، اور جہاں تك ممكن تھا ان لوگوں كو ايذا ء پہيونچائي _
ليكن حالات ہميشہ يكساں نہيں رہتے اخر خدا وند عالم نے اپنے رسول (ص) كى مدد و نصرت كر كے مكہ كو فتح كرو ايا اور رسول اسلام (ص) نيز مجاہدين اسلام كے لئے مكہ ميں انے جانے كا راستہ ہميشہ كے لئے كھول ديا _
فتح مكہ كے بعد قريش كے علاوہ كوئي دوسرا قبيلہ نہ تھا جس نے اپنے دامن پر تا ابد ازاد شدگان كا ذليل و حقير كا ٹائيٹل ليا ہو ، ابو سفيان كى رياست بت عرب كى طرح چور چور ہوگئي اور عصر جاہليت كے ضعيف و ناتواں ، عمار ، ابوذر ، بلال ، جيسے افراد سياسى و معاشرتى حقوق كے علمبردار بن گئے ، ايك روز ابو سفيان كا ان لوگوں كى طرف سے گذر ہوا انھوں نے اس كو ديكھ كر كہا كہ خدا كى تلوار اس دشمن خدا پر نہ پڑ سكى _
ابو سفيان نے اتنى عمر پائي كہ خلافت ابو بكر كا زمانہ ديكھا اس دور ميں اسكى خليفہ وقت سے مڈ بھيڑ ہو گئي تو خليفہ كے باپ ( قحافہ ) تعجب ميں پڑ گئے ، خليفہ نے اپنے باپ سے يوں استدلال كيا ، اے پدر بزرگوار ، خدا نے ہمارے خاندان كو اسلام كى خاطر سر بلند فرمايا ہے اور اسكے خاندان كو پستى ميں ڈالديا ہے _
ابو سفيان نے عمر بن خطاب كا دور ديكھا اس زمانہ ميں ايك روز خليفہ وقت عمر نے شہر مكہ ميں اسكو اس بات پر مجبور كر ديا كہ وہ اپنے كاندھوں پر اٹھا كر اينٹوں كو ركھے _
دوسرى مرتبہ خليفہ وقت نے ابو سفيان كے سر پر تازيانہ مارا ، جب اسكى خبر بيوى تك پہونچى تو بہت ناراض ہوئي اور
خليفہ سے غصے ميں كہا ، خدا كى قسم ، اگر دور جاہليت ميں اسكو چھڑ ى مارتے تو تمھارے پائوں سے زمين نكل جاتى _ خليفہ نے جواب ديا ، تم سچ كہتى ہو ، مگر كيا كيا جائے خدا وند عالم نے ايك گروہ كو اسلام كى وجہ سے عزيز و بلند اور دوسرے گروہ كو اسلام نے ذليل و پست كر ديا _
زمانہ گذرتا رہا ، يہاں تك كہ خليفہ عثمان بن گئے ، اس دور ميں بار ديگر اموى اقتدار ميں اگئے اور بچوں كى طرح حكومت سے كھيلنے لگے ، اور تمام شہروں پر بنى اميہ كى ايك ايك فرد حكومت كرنے لگى ، اور وہ اپنے تاج و تخت پر بہت ناز كرنے لگے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں متقى و صالح اصحاب رسول (ص) بار ديگر كمزور اور اذيتوں ميں مبتلا ہوگئے ، اور عمار جيسے نيك و صالح پر ظلم و ستم كا پہاڑ توڑ ا جانے لگا اور ابو ذر و مالك اشتر جيسوں كو چٹيل ميدان ميں جلا وطن كيا جانے لگا _
امويوں كے دل و دماغ غرور و نخوت سے اتنے بھر گئے تھے كہ ايك اموى نے كہا كہ عراق كى سر سبز و شاداب زمين قريش كے باغوں ميں سے ايك باغ ہے ، ان تمام ظلم و ستم اور غرور و تكبر نے بلاد اسلامى كو ايسا گھيرا اور فتنہ و اشوب كے طوفان نے ايسا چكر ميں ليا كہ اموى خليفہ اپنے گھر ہى ميں مار ڈالے گئے ، اس سخت تجربے اور پئے در پئے نا كاميوں كے بعد مسلمانوں نے مہار خلافت كو امويوں سے چھين كر بنى ہاشم كے ہاتھوں ميں ديديا تاكہ عدالت علوى كى حكومت قائم ہو جائے ، جيسے ہى مسلمانوں نے اس كام كو انجام ديا دوبارہ مدينہ كے اندر امويوں نے طوق ذلت اور قريش كے سامنے سر تسليم خم كر ديا _ ليكن سر تسليم خم كرنے كے بعد بھى سكون سے نہيں بيٹھے بلكہ ہر روز كسى نہ كسى بہانے سے حكومت علوى (ع) كے خلاف محاذ ارائي كرتے رہے تاكہ خلافت عثمان كے زمانے ميں دل حكومت كرنے كى جو چٹكياں لے رہا تھا اس كى اميد بندھ جائے امام(ع) كى حكومت كے خلاف رفتہ رفتہ اتش جنگ اتنى بھڑك اٹھى كہ بصرہ خون ميں ڈوب گيا پھر بھى انكو كوئي فائدہ نہ ہو سكا _
ان تمام ادوار ميں معاويہ جو عمر كے زمانے سے شام كى امارت كو سنبھالے ہوئے تھا ہر دن اپنى حكومت كو وسيع و عريض كرنے كى تاك ميں لگا رہتا تھا _
اسى لئے معاويہ نے امام (ع) كو خط لكھ بھيجا اور اس ميں حكومت مصر و شام كا مطالبہ كيا ، جب انحضرت (ع) نے نا مساعد جواب ديا تو خون عثمان كے نام پر ہزاروں لوگوں كو اكٹھا كر كے امام عليہ السلام سے جنگ كرلى جب جنگ سے كاميابى نہيں ملى تو معاملہ حكميت پر جا كر روكا حكميت كے بعد شام واپس ايا تو لٹيروں كو مسلسل بلاد اسلامى ميں بھيجتا رہا تاكہ بے گناہ مسلمانوں كى
عورتوں كو اسير بنائيں اور چھوٹے بڑے كو قتل كر كے گھروں ميں اگ لگا ديں ، ان لٹيروں نے تقريباً تيس ہزار مسلمانوں كو تہ تيغ كيا اور ديگر مامورين نے بھى اپنے ہاتھوں سے بے گناہوں كو موت كے گھاٹ اتارا _
حضرت على (ع) كى شہادت كے بعد معاويہ نے امام حسن (ع) كى بيعت نہيں كى اور ايك بڑے لشكر كے ساتھ عراق اگيا اور امام (ع) كے محافظ و اصحاب كو سكّوں كى لالچ ديكر خريد نا شروع كر ديا اور انكو خريد كر امام (ع) پر حملہ كروايا _
جب امام (ع) نے اپنے سپاہيوں كى جنگ سے كنارہ كشى كو ديكھا اور خود اپنے كو بھى بہت زخمى پايا تو معاويہ سے صلح كر لى اور اس صلحنامہ ميں بہت سارى شرطيں ركھيں مگر اس نے ايك شرط پر بھى عمل نہ كيا ، جب كوفہ ايا تو اپنى تقرير ميں ان باتوں كو پيش كيا كہ خدا كى قسم ، اے لوگو ، ہم نے تم لوگوں سے نہ نماز كى خاطر جنگ كى تھى اور نہ ہى روزہ كيوجہ سے، ان امور كو تو تم لوگ انجام ديتے ہى ہو ، ہم نے صرف اس لئے تم لوگوں سے جنگ كى تاكہ تمھارے اوپر حكومت كروں ، اور جن شرائط پر حسن (ع) سے صلح ہوئي تھى ان سبكو اپنے قدموں تلے ركھتا ہوں _
معاويہ مجبور تھا كہ اپنى حكومت كى سياسى بنياد چاپلوسى پر ركھے اور اس نے اپنى حكومت كے پہلے ہى سال امپراطور روم سے مصالحت كر كے خراج ديا ، اور دمشق كے اطراف و اكناف ميں سكوں كى تھيلياں بھيجنے لگا ، سردار قبائل اور عرب كے مكاروں كو دولت و مقام نيز رشتہ دارى كے ذريعہ دھوكہ ديا تاكہ ان لوگوں كى مدد سے اپنى حكومت كو ٹھوس اور ظلم و ستم كے ذريعے دولت كى جمع اورى كر سكے ، يہى وہ زمانہ ہے جس ميں معاويہ نے اپنى سياست كو بدلا ، اور ايك ظالم و جابر بادشاہ كى ياد تازہ كر دى _
ايك طرف سونے اور چاندى كى بوچھار ہونے لگى تو دوسرى طرف تمام بلاد اسلامى كى پيداوار كو اپنے خونين پنجے ميں كر ليا اور تمام باشندوں كو حكم ديا كہ جس طرح عجم كے بادشاہوں كو عيد نوروز كے موقع پر تحفہ ديتے تھے اب مجھے بھى دو ، اس طرح بالكل روم و ايران كا امپرا طور بن گيا تھا_

زمانہ معاويہ ميں حديث سازياں
حكومت معاويہ كے اتے ہى اصحاب رسول (ص) نے جو حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں امير المومنين (ع) كے ساتھ تھے ، بلاد
اسلامى ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى ، كيونكہ امام حسن (ع) كى صلح كے بعد عوام نے ساتھ چھوڑ ديا تھا لہذا بار ديگر كمزور ہو گئے اسى وجہ سے ممالك اسلامى كے مختلف شہروں ميں پھيل گئے اور جو ميں نے يہ كہا كہ اصحاب رسول (ع) اچھى خاصى تعداد ميں حضرت على (ع) كے ساتھ اور جنگ جمل وصفين ميں شريك ہوئے تھے ، اسكو خود معتبر مورخوں نے بيان كيا ہے اور معاويہ كے ساتھ صرف تين افراد كا نام تحرير كيا ہے _
تاريخ اسلام ميں ذہبى لكھتے ہيں :
جنگ جمل ميں انصار سے اٹھ سو افراد على (ع) كے ہمراہ تھے اور سات سو وہ لوگ تھے جنھوں نے بيعت رضوان ميں شركت كى تھى نيز ايك سو بيس افراد وہ تھے جو پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ جنگ بدر ميں شريك ہوئے تھے (49)
ابن خياط اپنى كتاب ميں لكھتا ہے :
'' اٹھ سو وہ افراد جنھوں نے رسول(ص) اسلام كے ہاتھوں پر مقام رضوان ميں زير درخت عہد و پيمان كيا تھا ، حضرت على (ع) كے ساتھ جنگ صفين ميں شريك ہوئے تھے (50)
وقعة صفين ميں نصر بن مزاحم لكھتے ہيں :
جنگ صفين ميں قيس بن سعد بن عبادہ نے ايك روز نعمان بن بشير سے كہا _ اے نعمان ذرا اس بات پر غور كرنا كہ معاويہ كے ساتھ غلام اور بيوقوف عربوں يا جنگل يمنيو ں كے علاوہ كوئي اور ہے ؟
ذرا اس پر بھى سوچ بچار كر ناكہ وہ متقى مہاجر و انصار اور تابعين كس كے لشكر ميں ہيں جن سے خدا راضى ہے ؟
پھر اس پر بھى غور كرنا كہ ايا تمھارے اور تمہارے دوست كے علاوہ كوئي اور معاويہ كے لشكر ميں ہے ؟ درانحاليكہ تمہارا نہ بدر كے مجاہدوں ميں شمار ہوتا ہے اور نہ ہى تم بيعت عقبہ ميں شريك ہوئے اور نہ كوئي ايت تمھارى مدح ميں نازل ہوئي ہے اور نہ ہى تم نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى ہے _
اپنى جان كى قسم _ اگر ا ج كے دن تم ہم سے اور ہمارے لشكر سے ٹكرائے تو كوئي نئي بات نہيں ہے كيونكہ تمھارا باپ اس سے پہلے ٹكرا چكا ہے (51)
قيس كى مراد بيعت عقبہ سے يہ تھى كہ انصار كے كچھ افراد نے ہجرت سے پہلے رسول(ص) اكرم كے دست مبارك پر عہد و پيمان كر كے اسلام كو قبول كيا تھا _
پدر نعمان كے مخالفت سے قيس كى مراد يہ تھى كہ اسكا باپ سقيفہ ميں ابو بكر كى بيعت لينے ميں بہت اگے اگے تھا ، اور نعمان كے باپ ہى كى بدولت ابو بكر تخت خلافت پر ائے تھے ، ہم نے اپكى خدمت ميں قديم و معتبر مورخوں كى عبارتوں كو پيش كيا جن سے اپ نے اس بات كو ملاحظہ فرمايا ہو گا كہ اصحاب رسول اور مجاہدين سارے كے سارے حكومت علوى (ع) كے زمانے ميں لشكر على (ع) ميں تھے ،ليكن معاويہ كے لشكر ميں سوائے دو صحابيوں كے كوئي اور نہيں تھا _
وہ بھى ايسے تھے جو نہ اسلام ميں سبقت ركھتے تھے اور نہ ہى كوئي كارنامہ دكھايا تھا اور نہ ان كا كو ئي خاص مقام تھا _
جب حضرت امير المومنين (ع) كى شہادت ہو گئي تو ان تما م اصحاب نے اسلامى سر زمين كے مختلف شہروں ميں گوشہ نشينى اختيار كر لى اور جہاں بھى رہے ہوں گے عقيدتمند مسلمان ان كے ارد گرد ضرور اٹھتے بيٹھتے رہے ہوں گے پھر ان لوگوں نے حديث رسول (ص) كو بيان كيا ہوگا تو مومنين نے ضرور سنا ہوگا يا لكھ كر لئے گئے ہونگے تاكہ ان حديثوں سے احكام الہى كى شناخت كر سكيں _
البتہ يہ بھى تصور كيا جا سكتا ہے كہ جب صفين و جمل اور عثمان كے زمانے كا تذكرہ ہوا ہوگا تو اس زمانے كى گرما گرم باتيں ضرور بيان كى ہونگى ، پھر اس ميں امويوں كے عيوب و نقائص اور سياہكارى و جنايتكارى كا ضرور تذكرہ كيا ہو گا ،_ كبھى خليفہ اول و دوم كے دور كى باتيں چھيڑى ہوں گى اور زمانے كى فتوحات كا ذكر كيا ہو گا تو اس ميں بھى بنى اميہ كا كوئي اہم كردار نظر نہيں ايا ہوگا _
كبھى عصر رسول (ص) كى جنگوں اور كفار قريش نے جو مسلمانوں كو اذيتيں پہونچائي تھيں ان كو بيان كيا ہوگا تو ان تذكروں نے سامعين كے قلوب كو ان سے متنفر كر ديا ہو گا اور بنى ہاشم كے كارنامے اور فضائل كو سنكر ان كے قلوب ان سے كھنچ گئے ہوں گے _
ان تمام باتوں ميں اكثر بنى اميہ كے اخلاق و كردار كى مذمت كے علاوہ كوئي دوسرى بات نہيں رہى ہو گى _
ان اصحاب كرام نے جب بدر كى داستان كو بيان كيا ہوگا تو ضرور كہا ہو گا كہ معاويہ كا دادا اور ماموں نيز بھائي اور خاندان والے اسى جنگ ميں مارے گئے اور ستر افراد قريش كے اور معاويہ كے خاندان كے اسير بنائے گئے تھے _
جب جنگ احد كا تذكرہ چھڑا ہوگا تو ان لوگوں نے ضرور بتايا ہوگا كہ معاويہ كا باپ ابو سفيان نے اس جنگ كا بيڑا اٹھا ركھا تھا _
اور معاويہ كى ماں ہندہ نے رسول كے دلير چچا حمزہ كے سينے كو چاك كر كے انكے جگر كو چبايا تھا پھر يہ بھى بيان كيا ہو گا كہ ايك دن ابو سفيان نے چيخ ماركر كہا تھا كہ ، شاباش ہبل ، جس وقت حسان كا شعر جو ہندہ كى مذمت ميں كہا تھا اسكو پڑھا ہو گا تو معاويہ كى نا پاك ولادت كى تشريح كى ہو گى _
ايك روز فتح مكہ كا چرچا كيا ہوگا تو اس ميں ابو سفيان و معاويہ كے ظاہرى اسلام كى دليل يہ دى ہو گى كہ رسول اكرم (ص) نے ان دونوں كو جنگ حنين كے مال غنيمت سے مولفة القلوب ميں شمار كرتے ہوئے بہت سارے اموال ديئے تھے _
ليكن رسول (ص) اسلام كى نظر عنايت ان دونوں پر كار فرمانہ ہو سكى اور ابو سفيان نے مسلمان ہونے كے بعد كہا ، كاش ميں قدرت ركھتا تو لوگوں كو اس شخص ( محمد ) كے خلاف بھڑ كا ديتا_
جنگ صفين ميں مسلمانوں نے ناگہانى حملے كى تاب نہ لا كر جب پيٹھ دكھائي تو اس ( ابو سفيان ) نے اپنے دوستوں سے كہا كہ ابھى كيا ہے يہ لوگ شكست كھا كر دريا ئے سرخ تك بھاگيں گے وفات رسول(ص) كے بعد جنگ ير موك ميں جب مسلمان شكست كے قريب تھے تو اس ( ابو سفيان) نے ہانك لگائي تھى ، روميوں زندہ باد ، پھر تھوڑى دير بعد نہايت افسوس كے ساتھ اس شعر كو پڑھا ، كيا روم كے بادشاہوں ميں سے كوئي بھى اس مقام پر نہيں ہے ؟
يہ تمام باتيں معاويہ جيسے ظالم و جابر كى حكومت كے زمانے ميں ہوتى رہى ہونگى تو معاويہ نے بھى اپنے دادا اور باپ كى شجاعتوں كا تذكرہ كيا ہو گا _ كيونكہ عرب ان تذكروں كو سننا بہت پسند كرتے تھے لہذا اس راہ ميں جو ہاتھ ايا اس كو انجام ديا اور جو كچھ معاويہ نے اسلام كے خلاف محاذ ارائي كى تھى اس سے دستبردار نہيں ہوا ، ليكن اسكے افكار جاہلى كو ان ہى چند اصحاب نے چكنا چور كر ديا تھا ، ان باتوں سے صاف واضح ہو جاتا ہے كہ معاويہ ان اصحاب رسول(ص) كى طرح نہيں تھا اور جو كچھ اس نے مدينہ ميں تھوڑى بہت زندگى گذارى تھى ان لوگوں كے عادات و اطوار كو نہ سكيھ سكا _ ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا جو معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں رائج ہوئيں _
معاويہ نے اپنى حكومت ميں ربا خوارى كو عام كيا شراب كے مشكيزے اسكے گھر ميں لائے گئے نيز مسلمانوں كے بيت المال سے خواہشات نفسانى كى اگ بجھائي شہر كے خطيبوں نے اسى كے سامنے تعريف كى اور عصر جاہليت كے طور
طريقے پر فخر و مباہات كى محفليں قائم كى پھر اپنے حاشيہ نشينوں سے تكبرانہ لہجے ميں كہا ، قريش كو يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ ان ميں سب سے بافضيلت ابو سفيان و معاويہ ہيں اگرچہ رسول(ص) خدا كو خدا وند عالم نے نبوت ديكر با عظمت بنا ديا تھا ، ميں سمجھتا ہوں كہ اگر تمام لوگ فرزند ابو سفيان ہوتے تو سب كے سب صاحب عقل و تدبر ہوتے _(52)
اس سے بڑھ كر فخر اور كيا ہو سكتا ہے كہ اگر ابو سفيان تمام لوگوں كا باپ ہوتا تو سارے كے سارے صاحب علم و دانش ہوتے _
معاويہ اپنے زعم ناقص ميں يہ سمجھا كہ اسكا باپ بلند ترين فرد ہے اور قريش ميں سب سے بڑا خود ہے ، اور رسول(ص) كے علاوہ سبھى اس سے پست ہيں ، اگر كوئي شخص اس زمانہ ميں چاہتا تو اسكے فخر و مباہات كے مقابلے ميں صرف اتنا كہہ ديتا كہ_ جى ہاں _ معاويہ اپنى حكومت كے بل بوتے پر دوسروں پر اپنى فوقيت جتا رہا ہے نہ كہ اپنے ذاتى كمالات پر _

معاويہ اور بنى اميہ كے بارے ميں بزرگوں كا فيصلہ
معاويہ اپنى حكومت كے زمانے ميں حد سے زيادہ بڑھ گيا تھا اور غرور و تكبر اس ميں اتنا اگيا تھا كہ اس نے اپنى حكومت ميں سوائے اپنے قوم و قبيلہ كو بڑھانے كے كچھ نہ سوچا ، وہ اس كے پس منظر ميں اپنى حكومت كو بادشاہت ميں تبديل كرنا چاہتا تھا ، مگر اپنى خواہشات كو كس طرح عملى جامہ پہنائے ، كيونكہ مسلمانوں كے درميان صحابي امام اور دلير شخص صعصہ بن صوحان موجود ہيں ، جو يہ كہہ دينگے كہ تم اور تمہارا باپ اسى گروہ ميں تھا جو پيغمبر اكرم (ص) سے لڑنے ايا تھا ، اور تو ايك ازاد كردہ كا ازاد كيا ہوا بيٹا ہے جن پر رسول (ص) خدا نے احسان كر كے ازاد كيا ہے پھر كس طرح ممكن ہے كہ خلافت كى باگ ڈور ايك ازاد كردہ كے ہاتھوں ميں رہے (53) يا يہ كہ جب ابو ہريرہ اور ابو دردا معاويہ كے نمائندے بنكر امام (ع) كے پاس ائے تھے تو اس وقت عبد الرحمن بن غنم اشعرى نے يہ كہا تھا كہ ، اخر معاويہ كيسے خليفہ بننا چاہ رہا ہے جبكہ وہ ان لوگوں ميں ہے جن كے لئے خلافت كرنا با الكل جائز نہيں ہے اور معاويہ كا باپ ( ابو سفيان ) اس گروہ كا سردار تھا جو
اسلام كے خلاف جنگ كرنے ايا تھا (54)
پھر معاويہ كيسے خليفہ ہو سكتا ہے جبكہ عمر نے اپنى حكومت كے زمانے ميں يہ كہا تھا كہ خلافت ازاد كردہ يا انكے فرزندوں نيز فتح مكہ كے بعد مسلمان ہونے والوں كا حق نہيں ہے اور يہ لوگ اس مقام تك پہونچنے كے لئے ايڑى چوٹى كا زور نہ لگائيں (55)
جب حضرت على (ع) نے خطبہ ديا تو لوگوں كو يا دہانى كراتے ہوئے فرمايا كہ ، معاويہ ان ميں سے ہے جسكو خداوند عالم نے نہ دين ميں سبقت عطا كى اور نہ ہى كوئي فضيلت ركھتا ہے وہ ايك ازاد كردہ كا فرزند ہے كہ جس نے اسلام كے خلاف تمام جنگوں ميں شركت كى تھى اور اسكا باپ ( ابو سفيان ) ہميشہ دشمن خدا و رسول (ص) رہا ہے اور جب ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كر ليا تب بھى اس سے كڑھتا رہا (56) ايك مرتبہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ ، اے معاويہ تجھے معلوم ہونا چاہيئے كہ تو ايك ازاد شدگان ميں سے ہے جن كے لئے خلافت كرنا جائز نہيں ہے اور تجھے تو مسلمانوں كے امورميں ٹانگ لڑانے كا حق بھى نہيں ہے (57)
جنگ صفين ميں علوى (ع) لشكر كے ايك سردار عبد اللہ بن بديل نے معاويہ كے بارے ميں كہا تھا كہ ، وہ اس چيز كا دعوا كر رہا ہے جو خود اسكى نہيں ہے اور اس شخص (على (ع) ) سے جھگڑا كر رہا ہے جسكو خلافت كرنے كا حق ہے ، پس اس گروہ سے جنگ كرو جو خلافت كو ہتھيانے ميں لگا ہے اور ہم نے پيامبر اكرم (ص) كے ساتھ ان لوگوں سے جنگ كى تھى پس خدا كے واسطے اپنے اور دشمن خدا سے لڑنے كے لئے امادہ ہو جائو خدا تم لوگوں پر اپنى رحمت نازل كرے گا (58)
امام عليہ السلام كے وفادار صحابى عمار ياسر نے جنگ صفين ميں معاويہ كے سلسلے ميں باواز بلند يوں كہا كہ ، اے مسلمانو ، كيا تم لوگ اس شخص ( معاويہ ) كو ديكھنا چاہتے ہو جس نے خدا و رسول (ص) سے دشمنى و عداوت ميں ان سے جنگيں لڑيں ، مسلمانوں كے خلاف بغاوت و سر كشى كو ہوا دى اور مشركين كى پشت پناہى كى ، جب اس نے ديكھا كہ اللہ نے اپنے دين
كو مستحكم كر كے اپنے رسول (ص) كو غلبہ حاصل كرا ديا تو پيامبر اكرم (ص) كے پاس ايا پھر مسلمان ہوا جبكہ خدا اسكے دل كو خوب جانتا تھا كہ اس نے صدق دل سے اسلام كو قبول نہيں كيا ہے بلكہ خوف جان اور طمع مال كى وجہ سے مسلمان ہوا ہے ، اور جب رسول اكرم (ص) اس دنيا سے چلے گئے تو خدا كى قسم يہ ( معاويہ ) مسلمانوں كا دشمن اور كافروں كا دوست بن گيا ، اگاہ ہو جائو يہ شخص معاويہ بن ابو سفيان ہے اس پر لعنت بھيجو كيونكہ خدا اس پر لعنت بھيجتا ہے اور اس سے جنگ و قتال كرو اس لئے كہ يہ چاہتا ہے كہ نور خدا كو گل كر كے ظلمت و تار يكى پھيلائے (59)
اسود بن يزيد نے معاويہ كے سلسلے ميں ام المومنين عائشه سے كہا :
اے ام المومنين ايا اپ كو اس بات پر حيرت نہيں ہوتى ہے كہ وہ شخص جو ازاد كردہ ہے اور صحابى رسول(ص) سے خلافت كے سلسلے ميں جھگڑا كر رہا ہے _
عائشه نے جواب ديا ، اس ميں تعجب كى كيا بات ہے يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے عطا كر دے اس ميں نيك و بد كى قيد نہيں ہے جس طرح فرعون الوہيت كا دعوا كرنے كے با وجود سالہا سال مصر ميں حكومت كى اور اسكے علاوہ دوسرے بھى اس عہدے پر پہونچے ہيں (60)
امام حسن (ع) نے معاويہ كو خط لكھا كہ ، اے معاويہ بڑى حيرت كى بات ہے كہ تم اج اس عہدے پر برا جمان ہو گئے جس پر كسى صورت ميں برا جمان ہونے كے لائق نہ تھے كيونكہ تم نہ دين ميں كوئي منزلت ركھتے ہو اور نہ ہى اسلام لانے ميں سبقت كى پھر تم اسكے فرزند ہو جس نے اسلام كے خلاف محاذ ارائوں كى سر براہى كى تھى اور وہ اسلام و قران اور رسول (ص) كا سخت ترين دشمن تھا (61)
شعبہ بن عريض نے معاويہ سے كہا تھا كہ ، تم نے دور جاہليت ميں بھى اور اسلام لانے كے بعد بھى حق كو كچلا ، دور جاہليت ميں رسول (ص) و وحى الہى كے خلاف اتنى جنگ كى كہ خدا وند عالم نے اسلام ہى كو پيروز وكامياب بنا كر تمھارے برے نقشے كو مليا ميٹ كر ديا تھا اور مسلمان ہونے كے بعد تم نے يہ كيا كہ جب فرزند رسول (ص) تخت خلافت پر پہونچا تو تم
اسكى حكومت كو گرانے كے چكر ميں لگ گئے ، اے معاويہ تمہيں خلافت سے كيا سروكار ہے تم تو ازاد كردہ كے ازاد كئے ہوئے فرزند ہو (62)
ان تمام ذلتوں اور رسوا ئيوں كا حامل اور فضيلت و منزلت سے كوسوں دور رہنے والا معاويہ كيسے حكومت كو خاندانى بنائے اور يہ تمام باتيں جو اسلام كى مشھور شخصيتوں نيز معاويہ كے ہم عصروںنے كہى ہيں اور اسكى سياہكارى اس حد تك پہونچى ہوئي تھى تو كيسے عائشه معاويہ كى صفائي پيش كر رہى ہيں كہ يہ حكومت ہے خدا جسے چاہے ديدے اگر چہ براہى كيوں نہ ہو ، جى ہاں ، اگر اس طرح كا بيان نہ ديتيں تو پھر اسلامى حكومت كا لباس معاويہ كے نا موزوں جسم پر كيسے اتا _
پھر اس حكومت كو معاويہ كيسے خاندانى بنائے كيونكہ اسلام معاشرے ميں صاحب عظمت و فضيلت افراد موجود ہيں اور ہم نے بيان بھى كيا ہے كہ اما حسن (ع) و حسين (ع) عليھما السلام جيسى شخصيتيں جو خاندان بنى ہاشم كى تمام بزرگيوں اور فضيلتوں كے وارث اور نواسئہ رسول (ص) نيز لوگوں ميں كافى محبوب تھے _
لہذا معاويہ نے يہ كام كيا كہ ايك طرف اپنى حكومت كے ستون كو مستحكم كيا ، دوسرى طرف اس حكومت كو موروثى بنانے كے لئے لوگوں كو خاندان رسول (ص) و ال على (ع) سے دور ركھا تاكہ لوگ اس سے اور اسكے خاندان كى طرف مائل ہونے لگيں ، اسى بناء پر معاويہ نے خاندان على (ع) و اصحاب رسول (ص) سے اتنى ہولناك جنگ لڑى جس كے خوف سے بچے بوڑھے ہو گئے اور مسلمانوں كے خون سے زمينيں رنگين ہو گئيں پھر انكى عورتوں كو اسير كر كے بازاروں ميں بيچا گيا _
معاويہ نے اس ہدف تك پہونچنے ميں كسى چيز سے دريغ نہيںكيا دولت ، ثروت، حيلہ سب كو اسى طرح استعمال كيا جس طرح اپنى حكومت كے سلسلہ ميں استعمال كيا تھا ، اور جسكے ذريعہ سادہ لوح افراد كو اپنى طرف كھينچا تھا وہ حيلہ قصاص خون عثمان كا تھا ، جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھايا تھا _

اپنے كرتوت پر جعلى حديثوں كا غلاف
معاويہ كے اس پرو پيگنڈے كے پيچھے دو اہداف پوشيدہ تھے _1_ اس پروپيگنڈہ سے لوگوں كے ذہن و دماغ كو حقائق سے دور كر كے مسلمانوں كى تہذيب و تمدن كو چھين لے _2_اپنى فكر كو جو عرب كى جہالت اور شام كے عيسائي تہذيب سے بھرى ہوئي تھى بيوقوف اور سادہ لوح مسلمانوں كے ذہن ميں بھر دے _
اس بحث ميں اپ ديكھيں گے كہ اس نے اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے كن كن وسائل كا سہارا ليا تھا ، اور خاندان رسول (ص) محافظ اسلام و قران خاص طور سے حضرت على (ع) جو بے نظير فضائل و كمالات كے مالك تھے اور ان فضائل و كمالات كى وجہ سے لوگوں كے قلوب كو محو كئے تھے كس طرح داغدار كيا تھا اور جہاں تك ممكن ہوا ان كے فضائل و كمالات كو تحريف كيا ، پھر ان تحريف كئے ہوئے مطالب و مفاہيم كو مسلسل پروپيگنڈہ كے ذريعہ لوگوں كے دلوں ميں بٹھايا ، تاكہ سادہ لوح افراد اسلام و قران كے چشمہ زلال جو بعد رسول (ص) اہلبيت عليھم السلام تھے سے متنفر ہو جائيں _
طبر ى لكھتے ہيں :
معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو كوفہ جانے سے پہلے اپنى خدمت ميں بلوايا اور اس سے كہا ، ميں چاہتا ہوں كہ تم سے كچھ باتيں كروں ليكن چونكہ تم كافى ذہين ہو لہذا اس بات كو چھوڑ ديتا ہوں ، مگر ايك بات جو تم سے كہنا بہت ضرورى ہے وہ يہ ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہنے سے كبھى نہ چوكنا اور ہميشہ عثمان كى اچھائيوں كو بيان كرنا ، دوسرى بات يہ ہے كہ شيعيان على (ع) كى عيب جوئي نيز ان لوگوں كو اذيت و تكليف دينے ميں كسى قسم كى رعايت نہ كرنا ، اور عثمان كے چاہنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا _
مغيرہ نے كہا ، ہم اپنى ذات سے غافل نہيں ہيں اور اس سلسلہ ميں ميرا كافى تجربہ ہے اور بہت سارے امور كو انجام دے چكا ہوں ، اب تم ( معاويہ ) بھى مجھے ازما لو اگر ميرا كام پسند ايا تو ميرى تعريف كرنا ورنہ اس كام سے معزول كر دينا _
معاويہ نے كہا ، نہيں انشاء اللہ تمہارى تعريف ہى كروں گا (63)
كتاب احداث ميں مدائنى نقل كرتے ہيں :
جب معاويہ تخت خلافت پر اگيا تو اپنے تمام حكمرانوں كو لكھا كہ جو بھى ابو تراب(ع) اور خاندان على (ع) كے فضائل كو بيان كرتا نظر ائے اسكو جان سے مار ڈالو اور اسكے مال و اسباب كو لوٹ لو _
اس دور ميں اہل كوفہ نيز شيعيان على (ع) زيادہ اذيت و تكليف ميں گرفتار ہوئے _
دوسرى مرتبہ امير شام معاويہ نے تمام شہر كے واليوں كو حكم ديا كہ ، محبان على (ع) اور انكے خاندان والوں كى كوئي گواہى قبول نہ كى جائے _
اور جو لوگ عثمان كے فضائل كو بيان كر رہے ہوں اور وہ لوگ تم لوگوں كى حكمرانى ميں زندگى گذار رہے ہوں انكو خوب اچھى طرح پہچان لو اور انكے ساتھ احترام و اكرام سے پيش ائو اور ان لوگوں كو اپنے نزديك جگہ دو نيز ان كے باپ اور خاندان كا نام لكھ كر ہمارے پاس روانہ كرو ، جيسے ہى يہ فرمان جارى ہوا تو ضمير فروش اور دنيا پرست لوگ حديثيں گڑھنے لگے اور عثمان كے فضائل اتنے گڑھے كہ ايك حديث كا انبار ہو گيا ، كيونكہ معاويہ نے دولت و ثروت اور فاخرہ لباس نيز جو كچھ ہاتھ ميں تھا ان سب كو اس راہ ميں بے دريغ خرچ كيا تھا _
نتيجہ يہ ہوا كہ جو بھى ضمير فروش معاويہ كے حكمرانوں كے پاس گيا عثمان كى مدح ميں ايك حديث بيان كردى تو ان كا مورد توجہ بن گيا اور اسكا نام لكھ ليا اسكے بعد حكومت كے كسى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، معاويہ نے ايك مدت كے بعد اپنے حكمرانوں كو دوسرا دستور ديا كہ ، اب عثمان كے فضائل بہت زيادہ ہو گئے ہيں اور ان فضائل كا تمام شہروں ميں كافى پرچار بھى ہو گيا ہے ، لہذا تم لوگ خلفاء ثلاثہ اور فضائل صحابہ كے بارے ميں لوگوں سے اسى طرح حديثيں گڑھو ائو جس طرح ابو تراب كى فضيلت كے سلسلے ميں حديثيں ہيں_
ميرى نظر ميں يہ كام بہت اچھا رہے گا اور مجھے اس كام سے بہت تقويت ملے گى ، كيونكہ ابو تراب(ع) اور ان كے چاہنے والوں كے دلائل و براہين كى كاٹ كرنے كے لئے اس سے زيادہ بہتر كوئي اسلحہ نہيں رہے گا ، اور ان كے چاہنے والوں كو چڑہانے كے لئے فضائل عثمان ميں نقل كى گئيں حديثيں زيادہ مناسب رہيںگى _
معاويہ كا حكم لوگوں كو سنايا گيا جسكے نتيجہ ميں بہت سارى جھوٹى حديثيں معرض وجود ميں ائيں جس كا حقيقت سے كوئي واسطہ نہيں ہے _
اہستہ اہستہ ان احاديث كو بيوقوفوں نے منبروں سے بيان كرنا شروع كر ديا پھرمعلم مكتب نے بچوں كے حوالے كيا
انھوں نے ان حديثوں كو يا د كيا پھر ان بچوں سے نوجوانوں نے ليا اور اس طرح قران كريم كى طرح ان جھوٹى حديثوں كى تلاوت اور حفظ كيا جانے لگا ، پھر مردوں كى بزم سے ہوتى ہوئي عورتوں كے مكاتب و معاشرے ميں پہونچيں ، انھوں نے ان احاديث كو مسلمان لڑكيوں ميں پہونچايا اور ان لوگوں نے اپنے غلام و خادم كى خدمت ميں بيان كيا اسى طرح ايك مدت تك يہ حديثيں اسلامى معاشرے ميں گھومتى رہيں _
جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ يہ جھوٹى حديثيں انے والى نسلوں كے لئے درد سر بن گئيں اور جس عالم و مفتى اور قاضى و حاكم نے ان جھوٹى حديثوں كو ديكھا اس پر يقين كر ليا (64)
محدث بزرگ و مشہور عالم حديث ابن عرفہ نے اپنى تاريخ ميں ان مطالب كو ذكر كيا ہے جو مدائنى كے قول كى تصديق كرتى ہے ،يہ لكھتے ہيں :
اكثر جھوٹى حديثيں جو فضائل صحابہ كو بيان كرتى ہيں بنى اميہ كے زمانے ميں گڑھى گئي ہيں كيونكہ حديث سازوں نے اسكے ذريعہ خلافت كى مشينروں سے تقرب حاصل كرنے كے لئے ايسا كيا تھا اور امويوں نے ان جھوٹى حديثوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات كى كوشش كى تھى كہ بنى ہاشم كے سر كو عالم اسلام ميں جھكا كر ركھ ديں (65)
البتہ معاويہ نے صرف اپنى حكومت كے زمانے ميں حديث گڑھنے كا كارخانہ نہيں كھولا تھا ، بلكہ اس سے پہلے بھى اس كام كو انجام دے چكا تھا _
طبرى بيان كرتے ہيں :
جب امام (ع) كے صحابى اور حاكم مصر قيس بن سعد نے معاويہ كى پيشكش كو ٹھكرا ديا اور انكى طرف سے با لكل مايوس ہو گيا تو بہت پريشان ہوا لہذا معاويہ نے ايك حيلہ تيار كر كے اہل شام كو بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ قيس بن سعد نے ہمارى پيشنہادوں كو مان ليا ہے اور انھوں نے ہمارى مدد كرنے پر اپنى كمر باندھ لى ہے لہذا تم لوگ انكو دعائے خير دو ، پھر اپنى جيب سے ايك جھوٹا خط ا ن كى طرف سے نكالا اور اسكو لوگوں كے سامنے پڑھا جس ميں يہ تھا كہ _
بسم اللہ الرحمن الرحيم _ يہ خط ہے امير شام معاويہ بن ابو سفيان كے نام قيس بن سعد كى طرف سے ، اپ پر سلامتى ہو ،
عثمان كا قتل عالم اسلام ميں بہت بڑا حادثہ ہے ميں نے بہت غور و فكر كيا تو اس نتيجے تك پہونچا كہ امام (ع) ( على (ع) ) كے متقى و پرہيز گار گروہ كے ساتھ جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ہے نہيں رہونگا ، اور اپنے گذشتہ گناہ كى معافى و تلافى اپنے خدا كى بارگاہ ميں كرونگا ، خدا سے ميرى بس يہ دعا ہے كہ ميرے دين و ايمان كو سالم ركھے اگاہ ہو جائو كہ ہم ( قيس ) اج كے بعد تمھارے ( معاويہ ) كے ساتھ ہيں اور قتل عثمان كے سلسلہ ميں جنگ كرنے كے لئے تيار ہيں كيونكہ وہ خليفہ امت تھا جسكو موت كے گھاٹ اتار ديا گيا _
پس جتنا تمھيں دولت و ثروت نيز سپاہيوں كى ضرورت ہے اسكو ميرے پاس لكھ كر بھيجو ہم تمھارى ہر طريقے سے مدد و نصرت كرنے كے لئے امادہ ہيں ، امير ( معاويہ ) پر ہميشہ خدا كى نظر و كرم رہے (66)
جى ہاں _ معاويہ ذرہ برابر جھوٹ بولنے سے خوف نہيں كھاتا تھا اور اپنى سياست كو كامياب بنانے كے لئے اس نے ان ہى چيزوں كا سہارا ليا ليكن جسوقت حكومت پر قبضہ كر ليا اور تمام سر زمين اسلامى كا حاكم بن گيا تو جعلى حديثوں كى زيادہ ضرورت محسوس ہوئي لہذا مجبور ہوا كہ ان ضمير فروشوں سے حديث بنوائے ، يہ جنگ سرد تھى مگر پروپيگنڈے كى جنگ تھى ، اسى لئے ہر ادمى بازى لے جانے كى فكر ميں تھا اگر چہ ايك گروہ كا جہاں فائدہ ہو رہا تھا اسى جگہ دوسرے گروہ كا بڑا نقصان ہو رہا تھا _
اس دور ميں كچھ ضمير فروش صحابہ كا گروہ جن ميں مغيرہ بن شعبہ ، عمر وعاص ، سمرة بن جندب ، اور ابو ہريرہ جيسے افراد جو ہميشہ مقام ودولت كے بھوكے تھے مگر دين و منزلت كے اعتبار سے كوئي خاص اہميت كے حامل نہ تھے ، معايہ سے جا ملے _
مشہور عالم اہلسنت ابن ابى الحديد معتزلى اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے نقل كرتا ہے معاويہ نے بعض صحابہ و تابعين كو خريدا تاكہ وہ على (ع) كو برا بھلا كہہ كر انكے دامن كو داغدار كريں ، اور لوگ ان سے متنفر ہو جائيں ، ان لوگوں كو معاويہ اچھى خاصى تنخواہيں ديتا تھا تاكہ يہ لوگ اپنے كاموں ميں تساہلى نہ برتيں ، ان لوگوں نے معاويہ كے كہنے پر حديثيں گڑھيں ، جن ميں صحابہ سے ابو ھريرہ ، عمر و عاص ، اور مغيرہ بن شعبہ جيسے افراد تھے اور تابعين سے عروہ بن زبير تھا _
زھرى بيان كرتے ہيں :
عروہ بن زبير نے معاويہ كے كہنے پر عائشه سے ايك حديث نقل كى كہ اپ ( عائشه ) نے كہا كہ ميں رسول (ص) كے ساتھ بيٹھى ہوئي تھى كہ _ عباس و على (ع) اتے ہوئے نظر ائے رسول(ص) خدا نے فرمايا اے عا ئشےہ يہ دونوں كافر مريں گے _
عبد الرزاق، معمر سے نقل كرتا ہے كہ زہرى كے پاس دو حديثيں تھيں جو عروہ نے عائشه سے بيان كى تھيں يہ دونوں حديثيں على (ع) كے بارے ميں ہيں _
معمر كہتا ہے كہ ميں نے ايك روز زہرى سے ان حديثوں كے بارے ميں معلوم كيا تو اس نے جواب ديا كہ تمھيں ان حديثوں سے كيا كام ہے ، خدا بہتر جانتا ہے يہ دونوں حديثيں ہيں يا بنى ہاشم پر بہتان و الزام ہے _
ميں نے پہلى حديث عروہ سے اوپر بيان كى تھى اب دوسرى حديث ملاحظہ فرمايئے _
عروہ عائشه سے نقل كرتا ہے كہ ، ميں رسول (ص) كے پاس بيٹھى ہوئي تھى تو على (ع) و عباس اتے ہوئے نظر ائے رسول خدا (ص) نے فرمايا : اے عائشه _ اگر دو جھنمى كو ديكھنا چاہتى ہو تو ديكھ لو ، ميں نے كيا ديكھا كہ على (ع) و عباس ہيں (67)
اسى قسم كى حديثيں جو عمر و عاص نے گڑھيں ہيں ، اسكو بخارى و مسلم نے اپنى كتابوں ميں نقل كيا ہے _
عمر و عاص كہتا ہے كہ ميں نے پيغمبر اكرم (ص) كو باواز كہتے ہوئے سنا كہ ، ال ابو طالب ہمارے محبوں ميں نھيں ہيں ، بلكہ ہمارے اور خدا كے محب مومن و متقى لوگ ہيں (68)
بخارى نے دوسرى روايت ميں مزيد يوں بيان كيا ہے:
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا _ ال ابو طالب ہمارے رشتہ داروں ميں سے ہيں اسى بناء پر ان سے صلہ رحم كرتا ہوں ، ليكن جو حديثيں ابوہريرہ نے معاويہ كے كہنے پر گڑھى ہيں اسكو اعمش نقل كرتا ہے _
جب صلح امام حسن (ع) كے بعد ابو ہريرہ معاويہ كے ہمراہ عراق ايا تو استقبال كرنے والوں كى بھيڑ ديكھى تو جا كر مسجد كوفہ ميں دو زانو ہو كر بيٹھ گيا ، پھر كئي مرتبہ اپنے چند ياپر ہاتھ پھيرا اور عرض كيا ، اے كوفے والو ، ايا تم لوگ چاہتے ہو كہ خدا و رسول پر بہتان لگا كر جھنم كا ايندھن بنوں _
خدا كى قسم ، ہم نے رسول(ص) خدا كو فرماتے ہوئے سنا ہے كہ ، ہر رسول (ص) كا ايك حرم ہے اور ميرا حرم مدينہ ميں كوہ عير اور كوہ ثور كے درميان ميں ہے _
جو بھى اس حرم ميں نا گوار واقعات پيدا كرے گا تو خدا اور ملائكہ اور تمام انسانوں كى اس شخص پر لعنت ہو گى _
پھر اضافہ كرتا ہے كہ _ ميں قسم كھاتا ہوں كہ اس سر زمين مقدس پر على (ع) نے فتنہ و اشوب بر پا كيا ، اس حديث كى خبر معاويہ تك پہونچى اس نے اس حديث كے گڑھنے كے اوپر مغيرہ كا خوب احترام كيا اور اسكے نتيجہ ميں اسكو واليء مدينہ بنا ديا _
مگر سمرہ بن جندب كے واقعے كو ابن ابى الحديد نے اپنے استاد ابو جعفر اسكافى سے يوں نقل كيا ہے :
معاويہ نے سمرہ بن جندب كے پاس ايك لاكھ درہم بھيجوايا تاكہ ايت'' و من الناس من يعجبك قولہ من الحياة الد نيا و يشھد على ما قلبہ وھو الد الخصام ''سورہ بقرہ ايت 204

--------------------------------------------------------------
1_استيعاب حجر كے شرح حال ميں
2_مسند احمد ج4 ص 92
3_ صحيح بخارى ج3 ص 126
4_ ابن اثير ج3 ص 199
5_استيعاب ج2 ص 373 ، اسد الغابة ج3 ص 306 ، اصابة ج2 ص 400
6_ استيعاب ج2 ص 373
7_ طبرى ج5 ص 11 حوادث جنگ جمل
8_اسد الغابة ج3 ص 284 ، طبقات ابن سعد ج5 ص 1
9_ طبقات ج8 ص 56
10_ طبقات ج8 ص462
11_ شرح نووى ج4 ص 170
12_عقد الفريد ج4 ص 15 شرح نہج البلاغہ ج3 ص 7
13_ اصابہ ج2 ص 109 ، اغانى ج 19 ص 6 ، الكنى و القاب ج3 ص 18
14_سير اعلام النبلاء ج2 ص 131
15_حلية اولياء ج2 ص 49 ، سير اعلام النبلاء ج2 ص 129
16_طبرى ج5 ص 204 ، عقد الفريد ج4 ص 328 ، يعقوبى ج2
17_تذكرة الخواص ص 114 ، تمہيد و البيان ص 209
18_اغانہ ج 21 ص 10 ، اشتقاق ص 371
19_ عقد الفريد ج3 ص 102
20_ سير اعلام النبلاء ج2 ص 229
21_ سير اعلام النبلاء ج2 ص 134
22_سير اعلام النبلاء ج2 ص 138
23_ سير اعلام النبلاء ج2 ص 136
24_سير اعلام النبلاء ج2 ص 132
25_ سير اعلام النبلاء ج2 ص 132 ، طبقات
26_ طبقات ج2 ص 73
27_ طبقات ج2 ص 69
28_طبقات الكبرى ج8 ص 73_69
29_ سير اعلام النبلاء ج2 ص132
30_طبقات ، سير اعلام النبلائ
31_طبقات ، سير اعلام النبلاء
32_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں
33_طبقات الكبرى عائشےہ كے شرح حال ميں
34_ بخارى باب طواف النساء ميں باب حج ج1 ص 180
35_مسند احمد ج1 ص 195
36_ مسند احمد ج6 ص 271
37_صحيح مسلم ج4 ص 170 ، سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1957
38_ طبقات ابن سعد ج 8 ص 462 ، بخارى ج3 ص 162 ، الموطا ء ج3 ص 114
39_صحيح مسلم ج4 ص 170 ، مسند احمد ج6 ص 176 ، ابن ماجہ حديث نمبر 1945
40_صحيح مسلم ج4 ص 170
41_صحيح مسلم ج10 ص 30 _ 29
42_عقد الفريد ج4 ص 15 ، شرح نہج البلاغہ ج3 ص 7
43_مسند احمد ج6 ص 205
44_عقد الفريد ، عيون اخبار ج1 ص 202
45_عقد الفريد ج2 ص 455
46_ تاريخ كامل ج1 ص 151
47_ مستدرك ج4 ص 13، سير اعلام ج2 ص 141
48_ابن كثير ج8 ص 303
49_تاريخ ذہبى ج2 ص 149
50_ابن خياط ج1 ص 180 مطبوعہ نجف
51_وقعة صفين ص 449
52_تاريخ طبرى ج5 ص 89 ، كامل ابن اثير ج3 ص 59
53_مروج الذھب ج3 ص 50
54_استيعاب ج2 ص 417، اسد الغابہ ج3 ص 318
55_ اسد الغابہ ج4 ص 387 ، طبقات الكبرى ج3 ص 248 مطبوعہ ليدن
56_وقعة صفين ص 227 ، طبرى ج6 ص 4 ، ابن اثير ج3 ص 125
57_عقد الفريد ج2 ص 284 ،شرح نہج البلاغہ ج2 ص 5
58_ وقعة صفين ص 263 ، طبرى ج6 ص 9 ، ابن اثير ج3 ص 128 ، استيعاب ج1 ص 340
59_ صفين ص 240 ، طبرى ج6 ص 7 ، ابن اثير ج3 ص 126
60_ در منثور ج6 ص 9 ابدايہ و النہايہ ج8 ص 131
61_ مقاتل الطالبين ص 22 شرح نہج البلاغہ ج4 ص 12
62_ اغانى ج3 ص 25 ، اصابہ ج2 ص 41
63_ طبرى ج6 ص 108 ، ابن اثير ج3 ص 202
64_ شرح نہج البلاغہ ج3 ص 16
65_ شرح نہج البلاغہ ص 15 ، فجر الاسلام ص 213
66_طبرى ج5 ص 230 ، نجوم الزاہرة ج1 ص 101
67_ شرح نہج البلاغہ ج1 ص 258
68_ صحيح بخارى ج3 ص 34