تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار دوران معاويہ
 

( 1 )
سياست امير المومنين (ع)
صرف جنگجوئوں سے جنگ كرنا لوگوں كے جانوروں كو نہ چھيننا ، اگر مجبور ہو جائو تو راستہ كو پيدل طئے كرنا چشموں اور كنويں كے پانى كو نہ پى لينا ان لوگوں سے پہلے جو اس علاقہ كے افراد ہيں _
مسلمانوں كو برا بھلا نہ كہنا ، عہد و پيمان والوں كو مورد ستم قرار نہ دينا اگر چہ اہل كتاب يا غير مسلم ہى كيوں نہ ہوں ، صرف حق و قانون كے مطابق كسى كے خون كو بہا سكتے ہو ، دشمنوں كے مال و اسباب پر حق تصرف نہ جتانا سوائے ان چيزوں كے جو ميدان جنگ ميں گھوڑے و ہتھياروں كو اپنے ساتھ ليكر ائے ہوں (1)

( 2 )
سياست معاويہ
اگر كوئي شخص تمھارا ہم خيال وہم عقيدہ نہيں ہے تو اسكو مار ڈالنا تمام اباديوں كو خاك ميں ملا دينا اموال كو لوٹ لينا ، اگر كوئي شخص ہمارى اطاعت ميں نہيں ہے اور ثروتمند ہے تو زور زبردستى سے اسكے مال كو چھين لينا ، لوگوں كو بے جھجك اذيت و تكليف پہونچانا ، محبان على (ع) كو موت كے گھاٹ اتار دينا يہاں تك كہ انكے بچوں اور عورتوں پر بھى رحم نہ كرنا (2)
* * *

تجزيہ و تحليل
ان دو سياستوں كے درميان ہونا تو يہ چاہئے تھا كہ جس نے لوگوں كے اموال كو محترم جانا تھا اس انسان كى سياست پر جس نے اسباب و اموال كو غارت كرنے كا حكم ديا تھا كامياب ہو _
ليكن ايسا نہيں ہوا بلكہ اور جو لوگ زندگى كو ازاد اور قانون و انسانيت سے كوسوں دور ركھنا چاہئے تھے ان افراد پر جو خود كو
پابند اسلام اور فضيلت و انسانيت كى معرفت ركھتے تھے كامياب ہوئے _
ليكن يہ كاميابى حقيقى معنوں ميں كاميابى نہيں ہے بلكہ چند روزہ كاميابى ہے ، اس لئے كہ پہلے گروہ كو اپنے افكار و نظريات كو كامياب بنانے كے لئے قاعدہ و قانون كى ضرورت نہيں ہے ، جبكہ دوسرا گروہ انسانيت كے قيد و بند ميں جكڑا ہوا ہے _
يہى وہ پابندياں تھيں جو لشكر علوى (ع) ميں پائي جا رہى تھى اہل عراق و لشكر امام (ع) نے اسلامى پابندى اور انسانى حقوق كى رعايت كى بناء پر بہت تساہلى كى اور امام (ع) كى اواز پر لبيك نہيں كہا ، كيونكہ ان لوگوں كے پيش نظر وہ جنگ تھى جس كا دنيا ميں سوائے موت كے كوئي دوسرا نتيجہ نہ تھا _
اگر كامياب ہوتے تو لشكر مغلوب كے اموال كو ہاتھ نہيں لگا سكتے تھے اور نہ كسى كو قتل كر سكتے تھے نيز عورتوں و بچوں كو اسير بھى نہيں بنا سكتے پھر ايسى صورت ميں كيوں جنگ كريں ؟
كيونكہ ان لوگوں كو اس راہ ميں كوئي مادى فائدہ نظر نہيں ارہا تھا اور مقابلہ ميں موت خطرے كى گھنٹى بجا رہى تھى ، پس اگر ايك جذبہء خدائي اور فضيلت انسانى كو پيش نظر نہ ركھا جائے تو ميدان جنگ ميں جانا بے فائدہ ہو جائے گا _
مگر معاويہ كى اواز پر اہل شام جلدى سے لبيك كہنے لگنے تھے ، كيونكہ ان كے سامنے وہ جنگ تھي_ جو تمام غرائز حيوانى كو پورا كر رہى تھى جسے چاہيں موت كے گھاٹ اتار ديں يا جسكو چاہيں اسير و غلام بنا ڈاليں ، انكى مالى درامد لوگوں كے لوٹے ہوئے اموال و اسباب ہيں پھر اس صورت ميں كيوں نہ معاويہ كے حكم پر شانہ بشانہ چليں اور معاويہ كى خواہشات كو كيوں نہ پورا كريں ؟ ايك خاص بات يہ ھيكہ اہل شام اخلاق اسلامى سے بالكل عارى تھے كيونكہ بادشاہ روم كے بعد اس شہر كا حاكم معاويہ بن گيا تھا _
البتہ اگر امام (ع) بر فرض محال حق كے راستے كو چھوڑ ديتے اور خدا و اسلام كو ( العياذ باللہ ) بھلا ڈالتے اور اپنے لشكر والوں كو معاويہ كى طرح ہر كام ميں ازاد چھوڑ ديتے تو معاويہ كى سارى كى سارى مكارانہ سياست نقش بر اب ہو كر رہ جاتيں ، ليكن امام (ع) اسكى طرح نہ تھے انھوں نے اہل كوفہ سے خطاب كيا كہ :
خدا كى قسم ، تم لوگوں كى اصلاح جس طرح ہم كر رہے ہيں اسكے بارے ميں خوب جانتے ہيں ليكن كيا كروں اس كام
ميں اپنا اور اپنوں كى تباہى و بربادى ديكھ رہا ہوں ( 3)
ہاں ، امام عليہ السلام چاہتے تو پيسے سے لوگوں كو خريد سكتے تھے اگر چاہتے تو چاپلوسى ، اور احكام خدا سے چشم پوشى كر كے قبيلوں كے بڑے اور قدرتمند افراد كو اپنى طرف كھينچ سكتے تھے ، ليكن ان تمام امور ميں اپنى اور اپنے دين و اخرت كى تباہى ديكھ رہے تھے ، انھوں نے كبھى برائي كو ہاتھ نہيں لگايا كيونكہ اپ پاكيزگى كى تمام چاشنى كو گہرائي سے چكھے ہوئے تھے ، كيا معاويہ نے خون عثمان كے انتقام كے لئے امام (ع) سے جنگ كى تھى ؟
كيا تمام مسلمانوں كى بستياں جيسے سرزمين عراق ، حجاز ، حتى يمن قتل عثمان ميں شريك تھيں ؟ ايا ہزاروں شامى لٹيروں نے خون عثمان كے انتقام ميں جو ايك شخص سے زيادہ نہ تھا قتل كيا ؟ كيا عثمان كے خون كے گناہ ميں اسير كى گئي مسلمانوں كى عورتوں اور قتل كئے گئے چھوٹے بچے كے كاندھوں پر تھا ؟
ہر گز نہيں
ليكن معاويہ باپ كى وصيت كے مطابق اپنى جاہ طلبى و حكومت كى تلاش ميں تھا اسكى ارزو اسلام كى وسيع و عريض سر زمين پر حاكم بننے كى تھى _
معاويہ نے اس ہدف تك پہونچنے كے لئے ہر وسيلہ كو استعمال كرنا ،روا جانا اور ہر برائي كو بے دريغ انجام ديا _
حقيقت ميں قصاص خون عثمان كا مدعى اپنے مقصد كو بروئے كار لانے كے لئے بہانہ تھا كہ جس سے اس نے فائدہ بھى اٹھايا ، يہ تمام چيزيں امام على (ع) كے زمانے ميں معاويہ كے ايك بڑے نقشے كى چھوٹى سى جھلكى تھى جسكو ہم نے اپكى خدمت ميں پيش كيا ہے _

معاويہ امام حسن (ع) كے زمانے ميں
جب امير المومنين(ع) ابن ملجم كى تلوار سے شہيد ہو گئے اور مسلمانوں نے اپنى تاريخ ميں دوسرى مرتبہ ايك ازاد بيعت كر كے امام حسن (ع) كو اپنا خليفہ بنا ليا تو اپ نے ايك خط معاويہ كو تحرير كيا اور اس سے اطاعت و بيعت كا مطالبہ كيا ، كيونكہ ايك طرف امام بر حق تھے دوسرى طرف لوگوں نے اپكى بيعت كر لى تھى ، ليكن جيسا كہ اپ حضرات جانتے ہيں كہ _
معاويہ نے جس طرح سے اپنى تمام عمر ميں حق كى پيروى نہيں كى اسى طرح نہيں چاہتا تھا كہ حق كے سايہ ميں جائے _ يہى وجہ تھى جو اس نے امام حسن (ع) كى بيعت نہيں كى _ اور اپ سے جنگ كرنے كے لئے ايك لشكر عظيم كے ساتھ عراق كى طرف روانہ ہو گيا _ امام مجتبى (ع) بھى سر براہ كفر و جاہليت كامقابلہ كرنے كے لئے اپنى فوج كے ساتھ كوفہ سے نكل پڑے_
مقدمةالجيش كے عنوان سے اپنے چچا زاد بھائي عبيد اللہ بن عباس كو عراق و كوفہ كے بہترين بارہ ہزار سپاہيوں كے ساتھ روانہ كيا _ اور انكے ساتھ فدا كار و مومن شجاع قيس بن سعد كو بھيجا _
امام عليہ السلام نے عبيد اللہ بن عباس سے كہا كہ ہرگز قيس سعد بن كى رائے كو رد نہ كرنا اور تمام امور ميں انكى نظر كو مقدم ركھنا _
چند دنوں بعد لشكر نے امنے سامنے پڑائو ڈالا نيز چھوٹى موٹى جھڑپيں بھى ہوتى رہى _ ليكن معاويہ بجائے جنگ كے چاہتا تھا كہ چالاكى و دھوكہ دھڑى سے كام لے _ اسى لئے ايك ايسا پروپيگنڈہ كيا كہ لشكر امام (ع) كى بنياد متزلزل ہو گئي _
شب كے سناٹے ميں عبيد اللہ بن عباس كے پاس معاويہ كا ايك ايلچى ايا _ اس نے معاويہ كا پيغام ديا كہ حسن (ع) نے ايك خط صلح كرنے كے لئے ہمارے پاس بھيجا ہے اگر تم اس وقت ہمارى اطاعت كو قبول كر لو گے تو ہم تم كو والى و حاكم بنا دينگے اگر اس پيشنہاد كو ٹھكرائو گے اور مسئلہ صلح اشكار ہو جانے كے بعد ہمارے پاس ائو گے تو دوسروں كى طرح تمھيں بھى مقام و رياست نہيں ديں گے اور سوائے كف افسوس كے كوئي چارہ نہيں رہے گا ، اگر اس وقت ہمارے ہمنوا بن جائو گے تو دس لاكھ درہم تمھيں دينگے جو كہ پہلى تھيلى پانچ لاكھ درہم كى ابھى تمہارے ہاتھوں ميں پہونچ جائے گى اور باقى جب ہمارى فوج كوفہ ميں پہونچ جائے گى تو تمھيں ديديگى _
عبيد اللہ شب كے سناٹے ميں معاويہ كے دام فريب ميں اگئے جو ہوا پرستوں كو ڈانوا ڈول كرنے كے لئے كافى تھا _
عبيد اللہ سوچنے لگے كہ _ معاويہ كى باتيں صحيح و درست ہيں _ جب امام (ع) صلح پر امادہ ہو ہى گئے ہيں تو ہمارے لئے سوائے دو راہوں كے كچھ نہيں ہے _
اگر معاويہ كى طرف جاتے ہيں تو احترام و اكرام اور دولت و ثروت ہے _ اگر اپنى جگہ پر قائم رہتے ہيں تو جان كا خطرہ اور جنگ كى زحمت ہے _ پھر ہم كيوں قتل ہوں اور زحمت جنگ كو برداشت كريں _ يہى شيطانى اور تاجرانہ فكر تھى جو عبيد اللہ كو لے ڈوبى _
چنانچہ رات كى تاريكى ميں ايك دستہ كے ساتھ لشكر اموى سے جا ملے اور لشكر بغير سردار كے ہو گيا (4)
انھيں ايام ميں معاويہ نے جو دوسرى چال چلى وہ يہ تھى كہ _ مخفيانہ طور سے ايك سفير كو عمر و بن حريث، اشعث بن قيس _ حجار بن ابجر اورشبث بن ربعى كے پاس بھيجا _ يہ تمام لوگ قبائل كو فہ كے سردار اور لوگوں ميں اچھا رسوخ تھا _ مگر اہلبيت (ع) سے دشمنى ركھنے كى وجہ سے كوئي خاص اہميت كے حامل نہ تھے ، معاويہ كے جا سوس نے ہر ايك كو اس طرح پيغام ديا كہ اگر تم لوگوں نے حسن (ع) بن على (ع) كو قتل كر ديا تو ابھى ايك لاكھ درہم نيز لشكر شام كى سردارى اور حاكم شہر نيز اپنى بيٹيوں كو اس كام كے عوض ميں دينگے _ اسكى خبر امام حسن (ع) كو معلوم ہوئي تو اپ اپنے لباس كے اندر زرہ پہننے لگے تاكہ ناگہانى حملے سے بچ سكيں حتى امام (ع) اسى حالت ميں نماز بھى پڑھتے تھے اور زرہ كو ايك لمحہ كے لئے بھى جسم سے جدا نہيں كرتے تھے _ امام (ع) كا يہ احتياط بجا تھا كيونكہ انہيں ميں سے ايك ضمير فروش نے انحضرت (ع) پر حالت نماز ميں تير سے نشانہ بنايا تھا ليكن چونكہ امام حسن (ع) كے جسم پر زرہ تھى لہذا تير نے اپنا كام نہيں كيا اور امام عليہ السلام بچ گئے (5)
يعقوبى لكھتے ہيں :
معاويہ نے جاسوسوں كا ايك گروہ لشكر امام (ع) ميں چھوڑا تاكہ انحضرت(ص) كے لشكر ميں يہ پروپيگنڈہ كريں كہ قيس بن سعد جنھوں نے عبيد اللہ بن عباس كے لشكر كى سردارى كا عہدہ سنبھال ليا تھا معاويہ سے صلح كر لى ہے _
دوسرى طرف ايك جاسوسى دستہ كو قيس كے لشكر ميں چھوڑا تاكہ اس بات كا پروپيگنڈہ كريں كہ امام (ع) معاويہ سے صلح كرنے پر تيار ہو گئے ہيں _
معاويہ نے اس حربہ سے كوشش يہ كى كہ دونوں لشكروں كے نظم و نسق اور اتحاد كا شيرازہ بكھير ديں اور ان كے لشكر كے مختلف دستوں كو فكر و عمل ميں الجھا كر ركھ ديں _
معاويہ نے دوسرى چالاكى يہ كى كہ _ ايك حكومتى وفد كو امام (ع) كے پاس روانہ كيا جو ان لوگوں پر مشتمل تھا ، مغيرہ بن شعبہ ، عبد اللہ بن عامر ، عبد الرحمن بن حكم ، يہ تمام حضرات شہر مدائن ميں جو امام (ع) كے فوجى افسروں كا اڈہ تھا امام حسن (ع) سے ملاقات كى اور گھنٹوں بات كرنے كے بعد يہ لوگ ہنستے ہوئے نكلے ، اور ايك دوسرے سے بلند اواز ميں گفتگو كر رہے تھے تاكہ سبھى لوگ باتوں كو سن ليں ان لوگوں نے كہا ، خدا وند كريم نے پسر رسول (ص) كے ہاتھوں لوگوں كے خون كو بہنے سے بچا ديا ، اور فتنہ و فساد كى اگ كو خاموش كر كے صلح و اشتى كو قائم كر ديا _
جب ان باتوں كو لشكر امام (ع) نے سنا تو بہت حيرت ميں پڑ گيا ، خاص طور سے وہ لشكر جس كو خود امام (ع) نے تيار كيا تھا ، كيونكہ جن لوگوں نے صرف جنگ كرنے كو سوچا تھا اور امام (ع) كے ساتھ اسى لئے ہوئے تھے كہ معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے جائينگے وہ امام (ع) كى قدر و منزلت اور انكى رہبريت كو مان كے تھوڑے ساتھ ہوئے تھے _ ورنہ معاويہ جيسے ظالم و جابر كا نمائندہ مغيرہ بن شعبہ جو سياست كار اور بد كار تھا اسكى باتوں ميں اجاتے ؟
يہى وجہ تھى كہ وہ لوگ انكى باتوں كو سنتے ہى اس طرح اگ بگولا ہوئے كہ چاروں طرف سے سردار لشكر كے خيمہ پر حملہ كر ديا اور سارا مال و اسباب لوٹ ليا _
امام عليہ السلام ان لوگوں سے بچنے كے لئے گھو ڑے پر سوار ہوئے اور حاكم مدائن كے گھر كى طرف چل ديئے
شہر مدائن كے نزديك خوارج كا ايك شخص بنام جراح بن سنان اسد ى اندھيرى گلى ميں چھپا ہوا تھا تاكہ امام (ع) پر حملہ كر كے انكو قتل كر دے لہذا جس وقت امام حسن (ع) كا كوچہ سے گذر ہوا تو اس نے خنجر سے ايسا حملہ كيا كہ اپكى ران پر زخم لگا اور اپ برى طرح زخمى ہو گئے _
امام (ع) كے وفادار ساتھيوں نے اسكو وہيں پكڑ ليا اور اسى مقام پر قتل كر ڈالا _
امام عليہ السلام كو مدائن كے دار الامارہ ليجايا گيا تاكہ اپ كے زخم كا مداوا ہو سكے _اپ كے جسم سے اس قدر خون بہہ گيا
تھا كہ اپ كافى كمزور ہو گئے ، اسى وجہ سے صحتياب ہونے ميں كافى وقت لگا _
لشكر بھى بغير سردار كے ہو گيا تھا بلكہ ان لوگوں نے صحيح معنوں ميں حقيقى ہدف كو نہيں پہنچانا تھا اور نہ ہى حوادث زمانہ ميں ثابت قدم رہے تھے ورنہ تتر بتر نہ ہوتے (6)
طبرى اس واقعہ كو يوں بيان كرتے ہيں
جب لوگوں نے امام (ع) كى بيعت كر لى تو اپ ان لوگوں كو ليكر معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے كوفہ سے نكلے اور مدائن كى طرف حركت كى ، مدائن پہونچنے كے بعد لشكر كى جمع اورى كرنے ميں مشغول ہو گئے اچانك ايك اواز بلند ہوئي كہ اگاہ ہو جائو كہ قيس بن سعد مار ڈالے گئے اس اواز كا بلند ہونا تھا كہ فوج ميں بھگڈر مچ گئي ، فتنہ پروروں نے موقع غنيمت جانا اور امام (ع) كے خيمہ پر چڑھائي كر دى يہاں تك كہ انحضرت (ص) كے پيركے نيچے سے چٹائي كو چھين كر بھاگ كھڑے ہوئے (7)
ايك روايت كے مطابق انحضرت(ص) كى كنيزوں كے پا زيب اتار كر لے گئے (8)
طبرى مزيد لكھتا ہے :
امام (ع) كى بيعت كو زيادہ دن نہيں گذرے تھے كہ اپ پر حملہ ہوا جس كى وجہ سے اپ برى طرح زخمى ہو گئے _
مشہور اديب و مورخ ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :
معاويہ نے اپنے ادمى كو امام حسن كے پاس صلح كرنے كے لئے بھيجا اپ نے اس سلسلے ميں چند شرطيں ركھيں جن ميں كچھ يہ ہيں
1_ پہلے كى طرح كسى كو اذيت نہ ديا جائے
2_ شيعيان امير المومنين (ع) كو ازاد چھوڑا جائے
3_ حضرت على (ع) پر سب و شتم نہ كيا جائے
امام حسن (ع) نے صلح اس لئے كر لى كہ ايك طرف معاويہ كى مكارانہ چال تھى تو دوسرى طرف اہل كوفہ كى سستى لہذا جب معاويہ نے صلح كرنے كے بعد علوى مركز خلافت كوفہ پر قدرتمندانہ انداز ميں قدم ركھا تو جلسہ عام كو ان الفاظ ميں خطاب كيا _ خدا كى قسم ، ہم نے تم لوگوں سے نماز روزہ و حج و زكاة كى خاطر جنگ نہيں كى تھى ، تم لوگ تو خود اس كام كو انجام ديتے ہو ، بلكہ ميں نے جنگ اس لئے كى تھى كہ تمھارے اوپر حكومت كروں خداوند عالم نے ميرى دلى تمنا پورى كر دى درانحاليكہ تم لوگ اس پر راضى نہيں ہو (9) پھر بے جھجك كہا كہ ، اگاہ ہو جائو جو كچھ ہم نے حسن (ع) سے عہد و پيمان كيا تھا اب يہ دونوں ميرے قدم تلے جاتے ہيں (10) _

صلح كے اسباب و علل
جس طرح قيام امام حسين (ع) دين كى بقاء اور اسلام كى حقيقى تصوير كو باقى ركھنے ميں موثر ثابت ہوا ہے اسى طرح صلح امام حسن (ع) دين كى بقاء نيز اسلام حقيقى كو زندہ ركھنے ميں كافى موثر ثابت ہوئي ہے _
ہم نے اس كتاب كى تمام بحثوں ميں حتى الامكان اختصار سے كام ليا ہے لہذا صرف وجوہات كو اپ حضرات كى خدمت ميں پيش كر رہا ہوں جو مختلف جہات سے ضرورى و لازم ہيں ، البتہ ان علتوں كى تفصيل كے لئے خود ايك مستقل كتاب كى ضرورت ہے ، جسكو چند سطروں كے اندر بيان كرنا بہت مشكل ہے _
1_ اپ نے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ ، معاويہ نے عثمان كے خون الود كرتہ سے كس طرح ماہرانہ انداز ميں فضا كو مكدر كيا اور كوشش كى كہ امام (ع) كے پاك و مقدس دامن كو قتل عثمان سے متھم كر كے داغدار كر دے ، وہ اہل شام كى اچھى خاصى جمعيت، خليفہ مظلوم كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اكٹھا كر كے انحضرت(ص) اور ان كے ساتھيوں كوجنگ كرنے كے لئے ميدان صفين ميں لے ايا ، اس نے اپنے امور كى اساس جھوٹ ، فريب اور چالاكى پر ركھى تھى ، اسكے ذريعہ چاہتا تھا كہ تمام سر زمين اسلامى كے سادہ لوح افراد كو كم و بيش دھوكہ ديدے يا كم از كم شك و ترديد ميں ڈال دے حتى عمار ياسر جيسے
انسان كا وجود جو اس زمانے ميں لشكر علو ى (ع) كى حقانيت كى دليل تھے اور جو بھى ان سے ٹكر اتا ، حديث رسول (ص) كے لحاظ سے گمراہ و باغى ہوتا اس نے بھى سادہ لوح افراد اور معاويہ كى نيرنگى و مكارى كے مقابلہ ميں سو فيصد فائدہ نہيں پہونچايا تھا ، لہذا ضرورى تھا كہ ايك ايسا كام كيا جائے تاكہ معاويہ اپنى مكارانہ چال سے باہر ائے اور اسكى سياہكارى و بد كارى ظاہر ہو جائے_
صلح امام حسن (ع) نے اساسى و بنيادى كام يہى كيا جسكو اوپر بيان كيا جا چكا ، جو معاويہ كى پہلى بد كردارى و سياہ انديشى كى نشاندہى كرتى ہے _
يہ تمام خون كا دريا اور غارتگرى كا بازار جو قصاص خون عثمان كے نام پر زمين پر بہايا اور انجام ديا گيا حقيقت ميں معاويہ كى جاہ طلبى اور اسكى رياست خواہى تھى _
معاويہ كى تمام كوششيں سو فيصد جوش و جذبہ مادى اور رياست و حكومت كى خاطر تھى اور بس، انتقام خون عثمان كى داستان جھوٹى نمائشے اور چالاكى كے علاوہ كچھ نہ تھى ، يہ مسئلہ جب يہاں تك پہونچ گيا اوررفتہ رفتہ لوگوں كو احساس ہونے لگا تو زيادہ دن نہيں گذرا تھا كہ لوگ عدل و مساوات اور حكومت علوى كى طرف بھاگنے لگے ، يہاں تك كہ جو شام ميں پناہ گزين تھے اور معاويہ كے عقيدتمندوں ميں تھے ہر روز گوشہ و كنار سے خاندان على (ع) كى فرد كى رہبرى ميں امويوں كے خلاف ہنگامہ كھڑا كرنے لگے (11)
حقيقت ميں حكومت معاويہ كے زمانے ميں اور اسكے بعد والے سربراہان مملكت نے اتنى تباہى و بربادى اور جنايت عظيم كا بازار گرم كيا كہ مخالفين نے بھى احساس كيا كہ حكومت علوى (ع) تمام عدالت و مساوات كے لحاظ سے تنھا حكومت تھى اگر چاہتى تو ہم لوگوں كو سعادت حقيقى تك پہونچا ديتى _
2_ دوسرا مسئلہ جو بڑا عامل صلح كے لئے بناوہ سپاہ كوفہ كى تساہلى اور فكر و عمل ميں نا ہما ھنگى تھى ، اپ نے اس سے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ يہى لشكر اتنا قوى تھا كہ اس نے معمولى سى بات پر ہزاروں ادميوں پر مشتمل فوج كو درہم و برہم كر كے انكے نظم و اتحاد كو بكھير ديا تھا اور سبط رسول (ص) كے قتل كى سازش كو ايك معمولى حادثہ سمجھا تھا كہ اگر اس راہ ميں موانع پيش نہ
اتے تو ممكن تھا كہ معاويہ كا تمام نقشہ باور ہو جاتا _
ان مطالب پر غور كرنے كے بعد واضح ہو جاتا ہے كہ معاويہ نے پہلے چند سردار لشكر كو خريد ا جيسا كہ تير اندازى كے واقعہ ميں ديكھا گيا ، پھر امام حسن (ع) كو انكى سپاہ كے ذريعہ قيد كروا يا اسكے بعدبڑى منت و سماجت كے بعد ازاد كيا يہ رسوائي ائمہ اہلبيت اور رہبران معصوم (ع) كے دامن پر تا ابد رہے گى كہ جنھوں نے كفر و نفاق كے جانے پہچانے چہروں كو فتح مكہ كے موقع پر ازاد كيا تھا وہ اج اپنى جان كے لئے خاندان اموى كے مديون ہو گئے (12)
3_ جنگ صفين ميںحضرت امير المومنين كے ہمراہ ( جيسا كہ ائندہ بيان ہو گا ) اكثر اصحاب رسول (ص) تھے جن كى تعداد مورخين نے دو ہزار سے زيادہ بتائي ہے _
ستر بدر كے جنگجو تھے جو پيغمبر اسلام (ص) كے قديم صحابى تھے ، سات سو يا اٹھ سو وہ افراد تھے جنھوں نے بيعت رضوان ميں شركت كى تھى اور قران مجيد ميں خدا وند عالم نے ان لوگوں كى تعريف و تمجيد بھى كى ہے _
مہاجرين و انصار ميں سے چودہ سو افرادوہ تھے جنھوں نے جنگ صفين ميں شركت كى تھى (13) يہ تمام لوگ رسول (ص) كے زمانے كو ديكھے بھى تھے اور نزول قران كے وقت موجود بھى تھے اور اسلام حقيقى كو خود پيغمبر سے ليا پھر برسوں امير المومين(ع) كى خدمت ميں رہے جو خود مجسمہ اسلام اور ہمدوش قران تھے _
ليكن معاويہ كے ساتھ انصار و مہاجرين كے بد نام زمانہ دو ادمى كے سوا كوئي نہ تھا ، اس نے ان ضمير فروشوں كے ذريعہ اسلام كے خلاف اپنى خواہشات نفسانى كے مطابق يہ نقشہ تيار كيا كہ سادہ لوح افراد كے دلوں ميں اسلام كے خلاف بغض و كينہ كو بھر دے ، ہاں ، اس نے ابو ھريرہ ، انس بن مالك ، مغيرہ بن شعبہ ، عمرو بن عاص ، عبد اللہ بن عمر و اور خاص طور سے ام المومنين عائشه كى مددسے ايك جعلى حديث كا بڑا كار خانہ معرض وجود ميں لايا ، ان تمام ہوا پرستوں نے معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں متعدد كو شش كيں كہ اسلام كے اصلى خد وخال كو داغدار كر ديں اور اكثر حديثيں ابو ہريرہ ، انس بن مالك اور عبد اللہ بن عمر نے مختلف ميدانوں ميں گڑھيں اگر اہلبيت (ع) كے فدا كاروں كى جد وجہد نہ ہوتى تو اسلام صفحہء ہستى سے مٹ گيا ہوتا اور كفر و جاہليت كى تمام نا پاك تمنائيں رائج ہو جاتيں _
امام حسن (ع) نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے جو صلح كر لى اسكى وجہ صرف يہ تھى كہ انحضرت (ص) نے اسكے ذريعہ سے اكثر اصحاب رسول (ص) و ياران امير المومنين (ع) كو موت كے منھ سے نكال ليا ، كيونكہ اگر امام حسن (ع) معاويہ سے جنگ كر ليتے تو اپ كے لشكر ميں وہ افراد تھے جو مومن حقيقى تھے اگر ميدان جنگ ميں چلے جاتے تو اس كا مطلب يہ تھا كہ سارے كے سارے مار ڈالے جاتے يا خاتمہ جنگ كے بعد معاويہ كے ہاتھوں اسير ہو كر خون عثمان كے جرم ميں تہ تيغ كر ديئےاتے ، اور معاويہ اطمينان كے ساتھ حقائق اسلام كو توڑ مڑوڑ كے پيش كرتا اور اسكو كوئي روك ٹوك كرنے والا بھى نہ ہوتا اس مقدمے كے بعد اتنا تو ضرور واضح ہو جاتا ہے كہ اسلام حقيقى كى صورت كو تحريف سے بچانے كے لئے صلح كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا _
يہى وہ راستہ تھا جو حضرت امام حسن (ع) نے اپنايا اور مرتے دم تك اس پر ثابت قدم رہے _

فصل سوم
دشمنوں كے ساتھ نرمي
معاويہ كسى طرح حكومت پر بيٹھ گيا ، حضرت على (ع) كے شھيد ہو جانے اور امام حسن (ع) كے صلح كى وجہ سے اسكى راہ كى تمام اڑ چنيںختم ہو گئيں ، ليكن معاويہ كو دوسرا مسئلہ جو كھائے جا رہا تھا اور ا س كا حل نكالنا بہت ضرورى تھا وہ يہ تھا كہ تمام سر زمين اسلامى ميں جو شام كے لٹيروں نے قتل و غارتگرى كا بازار اسكے حكم سے گرم كر ركھا تھا نيز اسكے بعد قصاص خون عثمان كے نام پر اكثر گھروں كو خاك و خون ميں غلطاں كر كے باپ بھائي بيٹے سبكو داغدار كر ديا تھا اور اسكى وجہ سے لوگوں كے دل بغض و كينہ سے بھر گئے تھے _
ايسے حالات ميں اس ( معاويہ ) نے ايك نئي سياست اپنائي اور وہ نيكى و برد بارى تھى خواہ سامنے دشمن ہى كيوں نہ ہو _
كيونكہ اسكو ہر لمحہ خطرہ تھا كہ عراق و حجاز ميں رہنے والے مسلمان كہيں شورش بر پا نہ كر ديں اور رات دن كى محنت سے حاصل ہوئي حكومت ہاتھ سے نكل نہ جائے _
يعقوبى لكھتے ہيں:
معاويہ 41 ھ ميں شام واپس ايا تو اسى وقت برى خبر موصول ہوئي كہ روميوں كا ايك بڑا لشكر سر زمين اسلام كى طرف ارہا ہے ، اس خبر نے حكومت دمشق كى چوليں ہلا كر ركھ دى ، كيونكہ ايك طرف ان تمام مسلمانوں سے خطرہ تھا جو بلاد اسلامى ميں جى رہے تھے ، دوسرى طرف يہ برى خبر پہونچ گئي_ ان تمام خطروں نے معاويہ كے اعصاب كو جھنجوڑ كر ركھ ديا اب ايسى صورت ميں كيا كيا جائے ؟
معاويہ نے يہ كيا كہ اپنے ايك نمائندہ كو امپرا طور روم كے پاس بھيجا اور اسكو سرخ سونے كا ايك لاكھ درہم ديا تاكہ واپس چلا جائے اور ذلت و رسوائي سے چھٹكارا مل جائے (14)
معاويہ نے اپنى حكومت كے زمانے ميں سياست داخلى كى بنياد خاطر و مدارات پر ركھى تھى تاكہ اسكے ذريعہ اپنى حكومت كى
بنياد مستحكم و مضبوط بنا سكے (15)
مگر مظلوميت عثمان كى داستان جو اسكى تمام ہنگامہ ارائيوں كے لئے بہانہ تھى حكومت كے ہاتھ اتے ہى ايسے بالائے طاق ركھ دى گئي جيسے ايسى كوئي بات ہوئي نہيں تھى ؟
ابن عبد ربہ اندلسى لكھتے ہيں
'' معاويہ حكومت پر قبضہ كرنے كے بعد مدينہ ايا تو عثمان كے گھر بھى گيا ، عائشه بنت عثمان نے جب معاويہ كو ديكھا تو باپ كى مصيبت كو ياد كر كے رونا شروع كر ديا ، وہ اسكے ذريعہ چاہتى تھى كہ اپنے باپ كے خون كا بدلہ لينے كے لئے معاويہ كو ياد دہانى كرائے ، مگر معاويہ پر اس چيخ و فرياد كا كوئي اثر نہيں پڑا اور بڑئے اطمينان سے كہا :
اے بھائي كى اولاد ، لوگوں نے زمام حكومت ہمارے ہاتھوں ميں دے دى ہے جس كى وجہ سے ہم نے بھى انكو امان ديديا ہے ، ہم نے اپنے غضب كو برد بارى كے لباس ميں چھپا ركھا ہے اور ان لوگوں نے اپنے بغض و كينہ كو ذلت كے سايہ ميں پنہاں كر ركھا ہے _
ہر ادمى اپنے ہمراہ تلوار بھى ركھتا ہے اور اپنے رفيق و دوست كو اچھى طرح سے پہچانتا بھى ہے اگر ہم لوگوں نے عہد شكنى كر كے اپنى رفتار كو بدل ڈالا تو ياد ركھو وہ لوگ بھى دوسرا بھيس بدل كر ہم سے مقابلہ كے لئے اجائينگے ، پس ايسى صورت ميں جبكہ نہ ہم اپنى قسمت سے اگاہ ہيں اور نہ ہى اس بات كا يقين ہے كہ ہنگامہ ارائي و سر كشى كا فائدہ ہمارے حق ميں ہو گا يا ان لوگوں كے حق ميں _
بہتر ہے كہ خاموش رہيںتا كہ اگر ہمارى حكومت قائم رہى تو تم دختر خليفہ كى حيثيت سے رہو گى اور اگر حكومت ہاتھوں سے نكل گئي تو تم ايك عام عورت كى حيثيت سے پہچانى جائو گى (16)_ ََ
* * *

عرب كے مكار معاويہ كے جال ميں
معاويہ نے اپنى حكومت كو ٹھوس كرنے كے لئے جو دوسرا كھيل كھيلا وہ يہ تھا كہ مكار و حيلہ گر افراد كو شہر كے گوشہ و كنار سے بلواكر جاہ و جلال اور دولت و ثروت يا دوسرے راستے سے انكو خريد نا شروع كر ديا ، اور ان لوگوں كو اپنى حكومت كے مفاد ميں استعمال كيا ، معاويہ نے اپنى سياست كى بنياد اس پر ركھى كہ بيت المال كے خزانے كو بزرگان قريش اور رئيسان شہر كى جھولى ميں ڈالديا تاكہ اسكے ذريعے گذشتہ دنوں كے كينے ختم ہو جائيں اور ان لوگوں كا دل اس سے قريب ہو جائے ، وہ خوب جانتا تھا كہ لوگ بندہ زر ہيں اور قلب حطام دنيا كا خريدار ہے _
طبرى لكھتے ہيں :
'' كچھ سردار قبائل جن ميں حتات بن يزيد مجاشعى بھى تھا معاويہ كے پاس ائے ، معاويہ نے سبكو ايك ايك لاكھ دينار ديا مگر حتات بن يزيد كو صرف ستر ہزار دينار ديا _
جب يہ لوگ شام سے جانے لگے تو ہر ايك نے اپنى اپنى تھيلى كا جائزہ ليا اور ايك دوسرے كو اپنا اپنا مبلغ بتايا ، حتات جسكو معاويہ نے ان لوگوں سے كم رقم دى تھى وہ اس حركت سے اتنا ناراض ہوا كہ اسى مقام سے واپس ايا اور معاويہ كے پاس گيا اور اسكو دل كھول كر سنايا كہ تم نے كس بناء پر ان لوگوں سے كم رقم مجھے دى ہے _
معاويہ نے كہا ہاں ، ہم نے ان لوگوں سے انكے دين كو خريدا ہے اسى بناء پر انكو ايك جيسى رقم دى ہے ليكن تم كو اس لئے ان سے كم ديا كہ ميں جانتا ہوں كہ تم عثمان كے عقيدتمند وں ميں سے ہو ، حتات نے كہ ، اگر ايسى بات ہے تو پھر مجھ سے بھى ميرے دين كو خريد لو _
معاويہ نے حكم ديا كہ جو رقم كم دى گئي تھى اسكو پورا كر ديا جائے _
وہ لوگ جو معاويہ كے دام زريں ميں پھنس گئے اور نئي حكومت اموى كى بنياد كو مستحكم كرنے ميں جٹ گئے ان ميں مغيرہ بن شعبہ اور عمر و بن عاص بھى تھے_
معاويہ نے عرب كا مشھور و معروف مكار مغيرہ بن شعبہ كو حكومت كوفہ كے لئے منصوب كر ديا اور عمر و عاص كو مصر كى حكومت ديكر اپنے جال ميں پھنسا ليا ، اور عمر و عاص نے اس سلسلہ ميں شرط ركھى كہ جب تك زندہ رہوں گا اس شہر كى
باگ ڈور ہمارے ہاتھوں ميں رہے گى ، مزيد اس جگہ كا ٹيكس بھى ہمارے پاس رہے گا _
ليكن ان كے درميان ايك زبر دست مكار تھا جو معاويہ كے چنگل ميں نہيں اپا رہا تھا ، جسكے وجود سے حكومت اموى كو بہت بڑا خطرہ لا حق تھا _
اسى لئے معاويہ نہيں چاہتا تھا كہ اسكى ذات سے بے بہرہ رہے اور تمامتر سعى و كوشش يہى تھى كہ كسى صورت سے اس شخص كو جس كا نام زيادہ تھا اپنے پرچم كے سايہ ميں لے ائے تاكہ اسكى مكارانہ چال سے اپنى حكومت كو مزيد ٹھوس كر سكے ، اور اسكى ذات سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھا سكے_
لہذا بجائے اسكے كہ دين و احكام اور فرمان الہى سے خوف كھائے ايك بہانہ ڈھونڈ نكالا ، در اصل معاويہ كى تمام زندگى ميں دنيا كى دھوكہ دھڑى اور زودھنگام لذتوں نے اس پر حكمرانى كى ہے كہ اس مقام پر بھى سوائے دنيا پرستى كے اسكو كچھ نظر نہيں ايا ہے _
زياد بن ابيہ ، ظاہرى اعتبار سے غلام عبيد كا بيٹا تھا جس نے مشھور بد كار عورت سميہ سے شادى كى تھى اور كچھ دنوں بعد اس سے زياد پيدا ہوا اس طرح زياد خاندان كے اعتبار سے عربى معاشرہ ميں كوئي خاص اہميت كا حامل نہيں تھا_
زياد كا باپ غلام تھا اور ايسا شخص پست شمار ہوتا تھا لہذا باپ كے غلام ہونے كى وجہ سے قبيلائي اعتبار سے عربى خون نہيں ركھتا تھا _
باپ كا غلام ہونا اور غير عرب ہونے كيوجہ سے زياد اپنے كو ذليل و حقير سمجھتا تھا، اس بات نے اسكو بہت اذيت پہونچائي تھى اور رفتہ رفتہ حقيقت سے اگاہ بھى ہو گيا تھا لہذا اس سے چھٹكارا پانے كے لئے اسكے دل ميں امنگيں كروٹيں لے رہى تھيں _
معاويہ ان تمام مسائل سے بخوبى اگاہ تھا لہذا اس نے اپنے نقشہ كے تحت زياد كى دكھتى رگ كو پكڑا اور اسكو پيشكش كى كہ وہ اپنا بھائي بتائے گا ، مگر ايك شرط پر كہ حكومت اموى كے زير اثر اجائے اور سر پيچى و نا فرمانى سے باز ائے _
زياد نے ايك طرف نسب پر نگاہ دوڑائي تو مشھور ترين عرب معاويہ كا بھائي ہوتا نظر ارہا تھا اور دوسرى طرف اسكا باپ عبيد غلام نہيں رہے گا بلكہ رئيس قريش ابو سفيان اس كا باپ كہلانے لگے گا وہ كل تك معمولى خاندان كى فرد تھا ليكن اج خليفہ كا بھائي بن جائے گا _
مسعودى اور ابن اثير نيز ديگر مورخين نے خاندان اموى سے زياد كے ملنے كى داستان اس طرح نقل كيا ہے _
'' زياد كى ماں سميہ عرب كا مشہور طبيب حرث بن كلدہ ثقفى كى كنيز تھى بدكارى ميں مشہور زمانہ تھى شہر طائف ميں پيشہ ور عورتوں كے درميان ايك گھر ليا اسكى چھت پر سرخ رنگ كا جھنڈا لگايا جو طوائفوں كے اڈہ كى علامت تھا ، يہ جب حرث كى كنيز تھى تو رسم جاہليت كے مطابق اپنى امدنى سے اسكو كچھ رقم ديتا تھا كيونكہ وہ عبيد كى زوجيت سے نكال كر لے ايا تھا _
دور جاہليت ميں ابو سفيان كا طائف شہر سے جب گذر ہوا تو شراب فروش ابو مريم سلّولى كے يہاں ايا اور اس سے اپنى خواہشات جنسى كا اظہار كيا ، ابو مريم نے كہا ، ايا سميہ كو چاہتے ہو ؟
ابو سفيان نے كہا ،_ ارے اسى كو لے ائو تاكہ .........
ابو مريم نے سميہ كو ابو سفيان كے پاس پہونچا ديا اور خود كمرہ سے باہر چلا ايا ، سميہ اس سے حاملہ ہو گئي اور 1ھ ميں زياد پيدا ہوا _
جب حضرت امير المومنين (ع) تخت خلافت پر ائے تو زياد كى تقرير و شجاعت اور ادارى امور ميں ماہر ہونے كى وجہ سے فارس كى وسيع و عريض سر زمين كا حاكم بنا ديا ، يہاں پر خوب اچھے طريقے سے حكومت كو چلا رہا تھا ، يہ بات معاويہ كے لئے كافى تكليف دہ ثابت ہو رہى تھى ، اس نے كافى خطوط زياد كو لكھے اور ان خطوں ميں اميد بخش اور تہديد اميز باتيں بھى تحرير كيں ، يہاں تك كہ ايك خط ميں ابو سفيان كا بيٹا بنانے كے لئے لكھا ، ليكن زياد نے حكومت علوي(ع) كے رہنے تك كوئي خاص توجہ نہيں دى ، اور اسكے دام فريب ميں نہيں ايا ، مگر جب حضرت امير المومنين (ع) شہيد كر ديئے گئے اور امام حسن (ع) نے جانگداز عوامل كى بناء پر صلح كر لى ، جسكے نتيجہ ميں اكثر مملكت اسلامى معاويہ كے ہاتھ ميں اگئي ; ايك فارس تھا جس پر زياد كى حكمرانى تھى اس پر كسى كا بس نہيں چل رہا تھا ، تو معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو بلايا جو زياد كا قديم دوست تھا پھر اپنى رائے كو پيش كيا كہ زياد ايك طاقتور اور ہوشيار شخص ہے جو ابھى تك حكومت فارس پر برا جمان ہے ، اور اموال كثير سے اپنى جگہ كو مستحكم كئے ہوئے ہے جسكى بناء پر ہمارا بس نہيں چل پا رہا ہے _
ہميں ہر لمحہ خطرہ ہے كہ كہيں لوگ خاندان رسول (ص) كى كسى فرد كى بيعت كر كے بار ديگر ہم سے نبرد ازما نہ ہو جائيں _
چنانچہ يہ تمام باتيں كہہ كر مغيرہ بن شعبہ كو زياد كو اپنے چنگل ميں لينے كےلئے روانہ كيا _ مغيرہ معاويہ كى مكارانہ فكر كو ليكر اپنے دوست زياد كے پاس پہونچا ،ايك عرصے كے بعد جب دونوں گفتگو كے لئے بيٹھے تو مغيرہ نے زياد سے كہا كہ ، اسوقت
جہان اسلام كے حالات دگر گوں اور گذشتہ كى نسبت كافى تبديل ہو گئے ہيں ، اور تنھا شخص جو خلافت كو حاصل كر سكتا تھا وہ حسن بن على (ع) ہيں ليكن انھوں نے معاويہ سے صلح كر لى ہے لہذا قبل اسكے كہ تم پر كوئي خطرہ لاحق ہو اپنے لئے پناہ گاہ ڈھونڈھ لو _
مغيرہ نے جواب ديا كہ ، ميرى نظر ميں بہتر يہى ہے كہ تم اپنے نسب كو خاندان اموى سے جو ڑ كر معاويہ كے رشتہ دار بن جائو _
زياد نے كہا ، گويا جڑ كو چھوڑ كر شاخ كو پكڑ لوں _
دونوں كے درميان اسى طرح كى گفتگو ہوتى رہى ، ليكن زياد كو قبيلائي اور خاندانى تعصب بہت ستا رہا تھا ان جرح و بحث نے زياد كے وجدان و ضمير كو كافى جھنجھوڑكر ركھ ديا ، خاص طور سے جب ذہن ميں حكومت كا ہاتھ سے نكل جانا اور جان كا خطرہ ميں پڑ جانے كا تصور كيا تو اس پر زياد مات كھا گيا اور مغيرہ كى پيشنھاد كو قبول كر كے اپنى حكومت كو خير اباد كر ديا اور دمشق كى طرف روانہ ہو گيا ، جب زياد نے اموى سلطنت ميں قدم ركھا تو معاويہ كے حكم پر اسكى بہن (جويريہ ) اس سے ملاقات كرنے گئي اور دوران ملاقات اپنے سر سے اوڑھنى ہٹا ديا اوركہا كہ ، تم ہمارے بھائي ہو لہذا مجھ پر تم سے پردہ واجب نہيں ہے ؟
ہم نے اس حقيقت كو ابو مريم سلّولى سے سنا ہے ، جو يريہ كى ملاقات نے زياد كے اوپر اچھے تاثرات چھوڑے اور اسكے پس منظر ميں معاويہ نے شہر دمشق كى جامع مسجد ميں ايك جلسئہ عام ركھااس ميں زياد كو دعوت دى گئي نيز شاہد ين كو بھى بلايا گيا جن ميں ايك ابو مريم سلّولى تھا _
معاويہ نے ابو مريم سے كہا كہ تم كيسے اور كس چيز كى گواہى دو گے
ابو مريم سلّولى كھڑا ہوا اور اس نے كہا كہ ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ دور جاہليت ميں جب ميں شراب فروش تھا تو ايك روز ابو سفيان شہر طائف سے گذرا ، ميرے پاس اكر اس نے اپنى خواہشات جنسى كو مٹانے كے لئے كہا، پيشہ ور عورت كى فرمائشے كى ميں نے كہا ، اسوقت حرث كى كنيز سميہ كے علاوہ كوئي نہيں ہے ،
ابو سفيان نے كہا _ اسى كو لے ائو اگر چہ وہ ايك بد بودار و كثيف عورت ہے ، زياد غصے ميں اگيا اور كہنے لگا ، ابو مريم چپ ہو جائو تم گواہى دينے كے لئے ائے ہو نہ كہ برا بھلا كہنے كے لئے ؟
ابو مريم سلّولى نے كہا ، ٹھيك ہے اگر تم كو برا لگ رہا ہے تو ہم اس داستان كو بيان نہيں كرينگے ليكن ميں نے جو كچھ ديكھا تھا اسكو بيان كيا ہے _
خدا كى قسم ، ابو سفيان نے سميہ كى استين پكڑى اور خالى كمرے ميں لے جا كر دروازہ كو بند كر ليا اور ميں اسى مقام پر بيٹھا رہا ، تھوڑى دير بعد ابو سفيان كمرے سے باہر ايا تو ميں نے كيا ديكھا كہ پسينہ ميں شرا بور تھا ، ميں نے كہا ، ابو سفيان يہ عورت كيسى تھى ؟
ابو سفيان نے جواب ديا _ ہم نے اس عورت كى طرح كسى كو نہيں ديكھا اگر چہ زياد كھڑا ہوا اور لوگوں كو مخاطب كرتے ہوئے كہا ، اے لوگو ، اس ميں كيا سچ ہے اور كيا جھوٹ ہے مجھے نہيں معلوم ليكن جو كچھ جانتا ہوں وہ يہ ہيكہ اگر ميرا باپ عبيد تھا تو ايك ايسا باپ تھا جونہايت شريف و نيك تھا اور اگر اسكو مربى مانا جائے تو وہ ميرا حقيقى باپ تو نہيں تھا البتہ ايك اچھا مربى ضرور تھا ، جس نے زحمتيں برداشت كر كے مجھ پر احسان كيا ، البتہ گواہ حضرات اپنى بات كى حقيقت سے زيادہ اگاہ ہيں _
يونس بن عبيد ثقفى جو سميہ كا بھائي تھا اپنى جگہ سے كھڑا ہو ا اور اس نے كہا ، معاويہ رسول(ص) اسلام كا ارشاد گرامى ہے كہ بچہ شوہر كا ہوگا اور زانى كے لئے سنگسارى ہے ،الولد للفراش و للزانى الحجر ليكن اس قانون كے ہوتے ہوئے تم نے ابو سفيان كے زنا كو ابو مريم كى گواہى پر حكم ديا ہے اور غير شرعى فرزند كو اس كے حد كے بدلے ميں بيٹا بنا رہا ہے جبكہ اس طرح كا قانون نہ كتاب خدا ميں ہے اور نہ ہى حديث پيغمبر (ص) ميں _
معاويہ نے جب ماحول كو خطر ناك ديكھا تو ڈرا دھمكا كر كہا ، اے يونس اپنا منھ بند كر لو ورنہ ٹكڑے ٹكڑے كر دوں گا _
يونس نے جواب ديا كہ ، ايا قتل كے علاوہ كچھ اور كر سكتے ہو_
جب يونس نے معاويہ كى تہديد كو اٹل ديكھا تو خاموش ہو كر بيٹھ گيا اور كہنے لگا كہ ، ہم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت كر لينگے اس واقعہ نے جہان اسلام ميں كافى ہنگامہ مچايا ، اور شعراء عرب نے مذمت اميز اشعار كہے ، جن ميں ايك عبد الرحمن بن حكم كا شعر ہے جس كا ترجمہ يہ ھيكہ :_ معاويہ بن حرب سے كہدو كہ ميں مرد يمانى ہوں، ايا ناراض تو نہ ہو جائو گے ، اگر يہ كہيں كہ تمہارا باپ عفيف و پاك دامن ہے_ اور خوش ہو جائو گے اگر يہ كہا جائے كہ تيرے باپ نے ( زياد كى ماں سميہ سے ) زنا كيا تھا _
ميں گواہى ديتا ہوں كہ تمھارى رشتہ دارى زياد سے اسى طرح ہے جس طرح ہاتھى كى گدھے كے بچے سے (17)
مشہور دانشور اور مورخ ابن اثير لكھتے ہيں :
زياد كو ابو سفيان كا بيٹا قرار دينا يہ پہلا حكم تھا جو علنى طور پر شريعت مقدس كے قوانين كے بر خلاف بيان كيا گيا ، جبكہ رسول اسلام (ص) كا ارشاد گرامى ہے كہ ، بچہ شوھر كا ہوگا اور زانى كے لئے سنگسارى ہے _ الولد للفراش وللعاھر الحجر (18)

سنگين ٹيكس
جيسا كہ اپ نے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ معاويہ نے اس وقت كے مكاروں كو مختلف ذريعوں سے اپنے قبضے ميں كر ليا تھا _
كسى كو عہدے ديكر كسى كو دولت و ثروت دے كر اور كسى سے رشتہ ناطہ جو ڑكر ان سبھوں كو كفر و جاہليت كى فوج بنا كر اموى پارٹى سے ملحق كر ديا تھا _
دوسرى طرف طاقتور قبيلوں كے سرداروں نيز دشمنوں سے چاپلوسى ، نرم دلى ، بخشش اموال اور برد بارى كا اظہار كر كے اس لئے ان لوگوں كو خاموش كر ديا تھا ، كہ يہ لوگ اسكى حكومت كے خلاف سازش نہ كر سكيں _
البتہ اس كى ضمير فروش حكومت كے اتے ہى شروع ہو گئي تھى ، ليكن جب ستون حكومت مضبوط ہو گيا اور ماحول سازگار ہو گيا تو اس وقت اپنے كينہ و عناد كو نكالنے كے لئے سارے حكمرانوں كو حكم ديا كہ تمام سر زمين اسلامى كے اموال جمع كر لئے جائيں تاكہ گذشتہ كى طرح روساء قوم كے پاس زر و جواہر نہ رہے (19)
معاويہ كى طمع دن بدن بڑھتى جا رہى تھى ، چنانچہ مسلمانوں كے اموال كو ہڑپنے كے لئے ايك نيا حيلہ تلاش كر كے ايك دن حكم ديا كہ ساسانى بادشاہوں كى زمينوں پر جو كوفے كے اطراف ميں تھى اس پر كھيتى كى جائے اور اسكا خراج ہميں بھيج ديا
جائے ، ان زمينوں كاسالانہ ٹيكس تقريبا پانچ لاكھ درہم ہوتا تھا _
دوسرى مرتبہ حكم ديا كہ بصرہ كے اطراف كى پيدا وار بصرہ سے متعلق ہے اور اسكا حاكم عبد الرحمن بن ابو بكر ہے _
تيسرى مرتبہ امير شام معاويہ نے يہ حكم ديا كہ _ ايام نوروز ميں ايراني، گذشتہ باد شاہوں كو تحفہ و تحائف ديتے تھے اس سال ميرے پاس تحفے بھيجيں ، گويا وہ عصر جاہليت كا امپراطور بنا ہوا تھا ، اور اپنے باپ كى وصيت كہ'' خلافت كو بادشاہت ميں تبديل كر دينا'' كو عملى جامہ پہنا رہا تھا _
ايران و عراق كے غريبوں كو جو ايام نو روز ميں تحفہ دينا ضرورى تھا تقريبا لاكھوں درہم تك پہونچتا تھا (20)
معاويہ نے صرف كوفہ و بصرہ كى پيداوار كو غصب نہيں كيا بلكہ يمن ، شام ، اور بين النہرين پر بھى ہاتھ مار كر ان زمينوں كو جو حكومتى تھيں ہڑپ ليا ، اس طرح اكثر بلاد اسلامى كى دولت و ثروت خاندان اموى اور معاويہ كے رشتہ داروں ميں چلى گئي _
معاويہ كى ہٹ دھرمى اس قدر بڑھ گئي تھى كہ دو مقدس شہروں مكہ و مدينہ كو بھى نہيں چھوڑا اور ان دونوں شہروں سے اسكے پاس خرما اور گيہوں اتے تھے اسى ميں فدك بھى تھا جو معاويہ نے مروان بن حكم كو ديديا تھا (21)
جب حكومت اموى مضبوط ہو گئي تو معاويہ كى سياست بھى بدل گئي ابھى تك دشمنوں سے اچھے روابط تھے ليكن جب انكو دولت و رياست كے ذريعہ رام كر ديا تو اپنے كينہ ديرينہ كو اشكار كيا ، لہذا جب مدينہ ايا اور بنى ہاشم اپنى مشكلات كو ليكر گئے تو انكو ديكھتے ہى كہنے لگا كہ _ كيا كام ہے ايا اس ميں راضى نہيں ہو كہ ہم تمھارے خون كو ( قتل عثمان كے باوجود ) محترم جانے ہوئے ہيں ؟
خدا كى قسم _ تم لوگوں كا خون بہانا جائز ہے ؟
معاويہ كا لب و لہجہ اتنا برا تھا كہ گويا اس نے كچھ كيا ہى نہيں ہے اور عثمان كى مدد ميں گويا اپنى كوتاہى بھول بيٹھا ہے ؟
بات اتنى بڑھ گئي كہ امير المومنين كے شاگرد ابن عباس ( حبر امة ) بول اٹھے
اے معاويہ _ جو كچھ تم نے ہمارى نسبت كہا ہے تيرى شرارت و خباثت باطنى كے علاوہ كچھ نہيں ہے _
خدا كى قسم ، پہلے تم اس سزا كے مستحق ہو كيونكہ تم نے خون عثمان كے نام پر لوگوں كو بھڑكايا اور اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے تم اٹھے _
ابن عباس نے اتنا سنايا كہ معاويہ كو پانى پانى كر ديا ، پھر انصار ملنے گئے تو معاويہ نے ان لوگوں سے سخت لہجہ ميں گفتگو كى اور انكو ذليل كرنے كے لئے ايك جملہ چست كيا كہ وہ تمہارے پانى ڈھونے والے اونٹ كيا ہوئے ؟
انصار نے غصہ ميں جواب ديا ، جس وقت جنگ بدر ميں باپ بھائي اور دادا كو مارا تھا اس وقت انكو ہاتھ سے كھو ديا _
پھر انصار نے كہا كہ _ ہم صرف خدا و رسول كے حكم كى بنا پر چھوڑ رہے ہيں _
معاويہ نے پوچھا _ يہ بتائو تم كو كيا وصيت كيا ہے ؟
ان لوگوں نے كہا صبر و نيكى كا حكم ديا ہے معاويہ نے كہا _ تو پھر صبر كرو
جس گھڑى مدينہ سے معاويہ شام واپس ہونے لگا تو ا س كى كوئي خواہش پورى نہيں ہوئي (22) _
اسى سفر ميں معاويہ نے يہ حكم ديا كہ منبر و عصاء رسول (ص) كو شام لے چلو كيونكہ اہل مدينہ نے عثمان كو قتل كيا ہے لہذا ان چيزوں كا يہاں رہنا مناسب نہيں ہے مامورين ايك طرف عصاء رسول(ص) كو تلاش كر رہے تھے تو دوسرى طرف منبر كو اٹھا رہے تھے مورخين كہتے ہيں _
جيسے ہى مامورين نے منبر كو اٹھايا تو اواز انے لگى اور سورج كو گہن لگ گيا لہذا انھوں نے اسكو چھوڑ ديا (23)
بعض كہتے ہيں كہ اصحاب پيامبر (ص) نے منع كيا اور اس طرح نقشہ معاويہ نقش بر اب ہو كر رہ گيا ، جس زمانے ميں معاويہ نے اپنى سياست بدل دى تھى ، اور اپنى پرانى عادت پر اگيا تھا ، تو اكثر شيعيان حيدر قيد و شكنجے ميں تھے ، كيونكہ معاويہ نے تمام حكمرانوں كو دستور دے ديا تھا كہ منبروں سے امام (ع) بزرگوار پر نفرين كى جائے ، لہذا امام (ع) كے چاہنے والوں كے لئے ان دو راستوں كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا ، _1_ يا جنگ كريں تو اس صورت ميں يا قتل كئے جاتے ہيں يا زندان كى زندگى گزارتے ہيں_ 2_ يا چپ رہيں تو پھر دل دكھتا ہے _
جب مغيرہ بن شعبہ حاكم كو فہ بن كر جا رہا تھا تو معاويہ نے اس سے كہا كہ ، ہميں تم سے مختلف موضوعات پر گفتگو كرنى تھى
ليكن ان تمام باتوں كو چھوڑتا ہوں كيونكہ تم ايك فہيم و چالاك انسان ہو ، مگر ايك بات جو بہت ضرورى ہے وہ يہ ہے كہ على (ع) پر نفرين كرنا نہ بھولنا _اور عثمان كے حق ميں ضرور دعا كرنا اس كے بعد شيعيان على (ع) كے بارے ميں كہا كہ ان پر كڑى نظر ركھنا اور ان سے سختى سے پيش انا اور عثمان كے چاہنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا اور انكو ہم مصاحب بنانا ؟
معاويہ كے اس بدترين دستور نے خون كا بازار گرم كر ديا تاريخ اسلام اسكى شاہد ہے جسكى تفصيل ائندہ بيان ہو گى _

شيعہ شكنجہ و ازار ميں
اس سے پہلے اجمالى طور پر بيان ہو ا كہ معاويہ نے اپنے تمام حكمرانوں كو حكم دے ديا تھا كہ مواليان امير المومنين (ع) كو ايذاء و اذيت دى جائے اور حضرت امير المومنين (ع) پر على الاعلان لعنت بھيجى جائے _ يہ حكم تمام بلاد اسلامى ميں نافذ ہو گيا تھا اور ان امور كى انجام دہى ميں خلافت كى بڑى مشيزياں ايڑى چوٹى كا زور لگانے لگى تھيں _
مغيرہ بن شعبہ جو كوفے پر حكومت كر رہا تھا اس نے كبھى اس كام سے پہلو تہى نہيں كى اور جب تك حاكم كوفہ رہا اس نے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا _ البتہ اس كى باتوں كا منھ توڑ جواب حجر بن عدى جيسے بہادر نے ہميشہ ديا _ مگر مغيرہ كے جہنم واصل ہونے كے بعد حكومت كوفہ پر زياد بن ابيہ حاكم منصوب ہوا _ اس نے بھى حسب دستور قديم وہى كيا جس كى بناء پر كوفہ ميں بار ديگر لعن طعن كا سلسلہ شروع ہو گيا ايك روز زياد نے كچھ كہا تو شير دل حجر بن عدى نے اس كا منھ توڑ جواب ديا _
مورخين لكھتے ہيں :
ايك روز زياد بن ابيہ نے خطبہ كو بہت طول ديديا حجر بن عدى ڈرے كہ كہيں نماز كا وقت نہ نكل جائے _ لہذا با واز بلند كہا نماز _ پھر بھى كان نہيں دہرا _ جب تيسرى مرتبہ بھى ايسا ہى ہوا تو حجر بن عدى نے ايك مٹھى خاك اٹھا كر زياد كے اوپر پھينك دى اور نماز كے لئے كھڑے ہو گئے ان كو ديكھ كر دوسرے لوگ بھى نماز پڑھنے لگے _ زياد نے مجبوراً اپنے خطبہ كو تمام كر كے ان لوگوں كے ساتھ نماز كے لئے كھڑا ہو گيا _
جب نماز تمام ہو گئي تو زياد نے اپنے چوكيداروں سے كہا كہ حجر بن عدى كو گرفتار كر لو _
ليكن ان كے رشتہ داروں ( قبيلہ كندہ ) نے ان كو كہيں چھپا ديا _ لہذا حكومتى مامورين حجر بن عدى كو گرفتار نہ كر پائے _
زياد نے حجر بن عدى كو گرفتار كرنے كے لئے ايك حيلہ اختيار كيا كہ _ قبيلہ كندہ كے سرداروں كو بلا كر يہ كہا كہ ہم حجر بن عدى كو امان ديكر معاويہ كے پاس بھيجيںگے _ تاكہ وہ ان كے بارے ميں فيصلہ كرے _
ان لوگوں نے اس كى بات مان ليا _ زياد نے حجر اور ان كے گيارہ ساتھيوں كو ليكر قيد خانہ ميں ڈالديا پھر شہر كے مشہور ضمير فروشوں كى گواہى و دستخط لے كر حجر اور ان كے ساتھيوں پر الزام لگايا كہ ان لوگوں نے خليفہ وقت معاويہ كو برا بھلا كہا ہے اور لوگوں كو اپ كے خلاف جنگ اور حاكم كوفہ كے خلاف ورغلايا ہے _
ان دستخطوں ميں قاضى شہر شريح بن بانى كى بھى جعلى دستخط كر كے زياد نے معاويہ كے پاس ان لوگوں كے ساتھ خط بھى روانہ كيا ،_ جب شريح كو يہ بات معلوم ہوئي تو شہر سے نكلا اور ان لوگوں كا پيچھا كيا اور جب ملاقات ہو گئي تو ايك خط ان كے ہاتھ سے معاويہ كے پاس بھيجوايا جب زياد كے مامورين حجر اور انكے ساتھيوں كو ليكر معاويہ كے پاس پہونچے توان لوگوں نے زياد كا خط ديا اور ساتھ ہى ساتھ قاضى شريح كا بھى خط ديا _
جب امير شام معاويہ نے جھوٹى گواہى اور شريح كا خط پڑھا جس ميں يہ لكھا تھا كہ مجھے معلوم ہوا ہے كہ زياد نے ميرى طرف سے جھوٹى گواہى اپنے خط ميں لكھى ہے جبكہ ميرى گواہى يوں ہے حجر عابد ، شب زندہ دار ، زكات دينے والا اور ہر سال حج و عمرہ كو انجام ديتا ہے ، امر با لمعروف و نہى از منكر كرتا ہے ، يہ وہ شخص ہے جو دوسروں كے جان و مال پر تجاوز ، حرام جانتا ہے اب تمہيں اختيار ہے كہ چاہے قتل كرو يا اسكو چھوڑ دو _
معاويہ نے شريح كا خط پڑھنے كے بعد كہا كہ اس شخص نے اپنى شہادت كو ان لوگوں سے الگ كر ليا ہے معاويہ نے حكم ديا كہ ان لوگوں كو '' مرج غدرا ئ'' ميں جو دمشق كے نزديك تھا قيد كر دو _
مگر حجر كے ساتھى زيادہ دن قيد خانہ ميں نہيں رہے ، كيونكہ بعض لوگوں نے سفارش و پيروى كر دى تو معاويہ نے انكو ازاد كر ديا ، ليكن كچھ افراد كے لئے معاويہ نے دوسرا حربہ استعمال كيا كہ اپنے سپاہيوں كے ذريعہ سے ان لوگوں كو خوب ڈرايا دھمكايا تاكہ يہ لوگ حضرت على (ع) كو برا بھلا كہنے لگيں تب جا كر ازاد كرے گا_
اس مقام پر باقيماندہ افراد دو گروہ ميں بٹ گئے ، وہ افراد جو حقيقى معنوں ميں امام (ع) كے چاہنے والے تھے اور اسلام انكى نظروں ميں تھا ان لوگوں نے كہا نہيں
چنانچہ معاويہ كے مامورين نے انكى انكھوں كے سامنے قبر كھودى كفن تيار كيا ليكن حجر اور ان كے بعض ساتھى ٹس سے مس نہ ہوئے بلكہ ، اپنى زندگى كى اخرى رات كو عبادت الہى ميں گزارى ، جى نہيں ، بلكہ جو مخلص و مومن ہوتے ہيں وہ صرف اخرى لمحات كو عبادت ميں نہيں گزارتے بلكہ انكى پورى زندگى ياد خدا ميں گذرتى ہے تاكہ جب اپنے محبوب سے ملاقات كريں تو سب سے با فضيلت شمار ہوں _
صبح سويرے ان لوگوں كو قتل كرنے كے لئے لايا گيا ، حجر نے سپاہيوں سے كہا كہ مجھے اتنى مہلت ديدو كہ وضو كر كے نماز پڑھ لوں ، اس لئے كہ جب بھى ہم نے وضو كيا ہے ضرور نماز ادا كى ہے سپاہيوں نے نماز كى اجازت دى اپ نے نماز زيادہ طولانى نہيں پڑھى اسكے بعد بارگاہ خدا وندى ميں دونوں ہاتھوں كو بلند كر كے كہا ، پروردگارا ، ہم مسلمانوں كى شكايت تيرى بارگاہ ميں كرتے ہيں ، اسكے بعد كہا ، خدا كى قسم ، اگر تم لوگوں نے مجھے اس سر زمين پر قتل كيا تو ياد ركھو ميں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اس سر زمين پر تكبير بھى كہى اور اتے ہى مار ڈالا بھى گيا _
جب جلاد شمشير ليكر اگے بڑھا تو حجر بن عدى كا جسم تھوڑا سا كاپنے لگا ، ان لوگوں نے كہا كہ تم تو كہتے تھے كہ ہم موت سے نہيں ڈرتے ہيں اب بھى موقع غنيمت ہے اپنے اقا مولى سے بيزارى اختيار كر لو تاكہ جان بچ جائے_
حجر بن عدى نے كہا ، اخر ہم كيوں نہ خوف كھائيںقبر كھودى ہوئي ہے كفن امادہ اور اپنے سامنے تلوار كونپى ہوئي ديكھ رہا ہوں ، پھر بھى موت سے نہيں ڈر رہا ہوں بلكہ زبان سے وہ بات نكل نہ جائے جس سے خدا غضبناك ہو جائے _
حجر اور ان كے ساتھى شھيد كر ديئےئے
ليكن حجر كے دو ساتھيوں نے سپاہيوں سے كہا كہ ہم لوگوں كو معاويہ كے پاس لے چلو ہم لوگ امير المومنين (ع) سے بيزارى كرتے ہيں_
يہ دونوں معاويہ كے يہاں لائے گئے تو معاويہ نے ايك سے مخاطب ہو كر كہا ، ايا على كے دين سے تم بيزار ہو ؟
اس نے سكوت اختيار كر ليا تو اسكے رشتہ دار نے معاويہ سے سفارش كر كے اسكو چھوڑ اليا اور حكم ديا كہ انكو شہر موصل جلا وطن كر ديا جائے _
معاويہ دوسرے شخص سے مخاطب ہوا اور اس سے كہا ، اے برادر ربيعى تم على كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟
اس نے جواب ديا كہ مجھے چھوڑ دو اور اس سوال سے در گزر كرو كيونكہ تيرے حق ميں بہتر ہے، معاويہ نے كہا ، خدا كى قسم
ہم تم كو كسى صورت ميں نہيں چھوڑيں گے اس مرد كوفى نے للكارتے ہوئے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ على (ع) وہ تھے جو عبادت گذار اور انھوں نے حق كى تلقين كى عدالت كو قائم كيا اور لوگوں كى خطائوں كو معاف كيا _
امير شام معاويہ نے پوچھا ، عثمان كے بارے ميں تمھارا كيا خيال ہے _
مرد كوفى نے كہا ، عثمان پہلا شخص تھا جس نے ظلم و ستم كے دريچے كو باز كيا اور راہ حق كو مسدود كيا ،معاويہ نے كہا ، تم نے خود كو موت كے منھ ميں ڈالا ہے _
كوفى شير نے كہا ، جى نہيں ، ہم نے تم كو مار ڈالا ہے
پھر عرض كيا اس مقام پر قبيلہ ربيعہ كا كوئي فرد نہيں ہے جو ہمارى مدد كرے ، اس وقت معاويہ نے كہا كہ زياد بن ربيعہ كے يہاں بھيجدو اور معاويہ نے زياد كو خط لكھا كہ اس شخص كو اذيت و تكليف كے بعد قتل كرنا، زياد پليد نے معاويہ كے دستور كو انكھوں پر لگايا اور اس مرد كوفى كو امير المومنين كى محبت كے جرم ميں زندہ در گور كر ديا گيا (24)
ابن عبد البر اپنى مشھور كتاب استيعاب ميں لكھتے ہيں :
جس وقت حجر بن عدى قتل كئے جا رہے تھے تو انكے خاندان كے افراد وہاں موجود تھے انھوں نے وصيت كى كہ جب ہم قتل كر ديئے جائيں تو ميرى ہتھكڑيوں كو ہاتھ سے نہ اتارنا اور نہ ہى غسل دينا تاكہ اسى حالت ميں معاويہ سے پل صراط پر ملاقات كريں اور اسكى محشر ميں اسى عالم ميں شكايت كريں (25)
معاويہ نے جس طرح حجر اور انكے ساتھيوں كو قتل كيا اسى طرح اكثر شيعيان على (ع) كو خاك و خون ميں غلطاں كيا ، كيونكہ ايك طرف ان لوگوں سے اپنے كينہ ديرينہ كو نكالا تو دوسرى طرف اپنى حكومت كے ستون كو مضبوط كيا اس لئے كہ ہر گھڑى ممكن تھا كہ جاہليت كے لئے دوسرا وبال جان كھڑا نہ ہو جائے ، اور شورش و فتنہ كى اگ بھڑك نہ اٹھے ورنہ حكومت كے لئے خطرہ كى گھنٹى بجنے لگے گى ، ہاں _ امير شام معاويہ نے اپنى حكومت كو ٹھوس كرنے كے سلسلے ميں كسى منكرات سے رو گردانى نہيں كى ، معاويہ نے دور جاہليت كا طور طريقہ اپنا ركھا تھا جب جہالت حكومت كرے اور كوئي
قانون نہ رہے تو با عظمت انسانوں كى كوئي قدر و قيمت نہيں رہتى ہے ، اس نے اپنے ابتدائي بيس سالہ خلافت كو حكومت ميں تبديل كيا اور جب حكومت مستحكم ہو گئي تو اسكو موروثى بنا كر اپنے بيٹوں ميں سونپنا چاہا جسكى تفصيل ائندہ ائے گي

حكومت خاندانى ہوتى ہے
جب معاويہ كى حكومت قائم ہو گئي اور اسكے ستون استوار ہو گئے اور اسكو كسى چيز كا خطرہ نہيں رہا تو ايك فكر نے جنم ليا ، اور شايد كہا جا سكتا ہے يہ كوئي نئي بات نہيں تھي، بلكہ اسكے باپ ابو سفيان كى وصيتوں ميں سے ايك تھى جس كو اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ وہ حكومت اموى كو خاندانى بنانے كى فكر تھى _ اس ہدف تك پہونچنے كے لئے معاويہ نے بہت ايڑى چوٹى كا زور لگايا اور مقصد كے حصول كى خاطر حيلہ و مكارى اور جنايت كا سہارا ليا _
مشہور دانشور ابن عبد ربہ اندلسى لكھتے ہيں :
معاويہ نے مسلسل سات سال تك مكار سيا ستمداروں كو بڑھايا اور دولت و ثروت كے ذريعہ لوگوں كو قريب كيا پھر مكاران وقت پر لطف و مہربانى كر كے انكو اپنے ہاتھوں ميں ليا ، تب جا كر اس بات كى كوشش كى كہ لوگوں كو بيعت يزيد پر امادہ كرے _
امير شام معاويہ نے جس طرح اپنى حكومت كو مستحكم كرنے ميں تمام فريبانہ الات سے كام ليا تھا اسى طرح يزيد كى بيعت كے سلسلے ميں ہو بہو انھيں وسائل كو بروئے كار لايا ، يہ وہ وسائل تھے جو معاويہ كى راہ ميں كام ارہے تھے ، اور اگر اسكى مكارى و دھوكہ دھڑى مات كھا جاتى تھى تو فورا حربہ كو استعمال كر ليتا تھا حتى مسالمت اميز دشمن كو بھى قتل كرنے سے خوف نہيں كھاتا تھا_
بعض مورخين نے حكومت كو مورثى بنانے كى يوں منظر كشى كى ہے
ابن اثير لكھتے ہيں كہ :يزيد كى بيعت كے سلسلے ميں جس شخص نے سب سے پہلے پيشنہا د كى وہ مغيرہ بن شعبہ ہے جب معاويہ نے مصمم ارادہ كر ليا كہ اسكو حكومت كوفہ سے بر خاست كر كے اسكى جگہ سعيد بن عاص كو جس كا شمار امويوں ميں ہوتا تھا اس شہر كا حاكم منصوب كر دے ، اور اسكى خبر مكار مغيرہ كو ہو گئي تو يہ چند ،ساتھيوں كے ساتھ شام ايا ، جب شہر دمشق
ميں داخل ہوا تو اپنے ساتھيوں سے كہا ، اگر ہم لوگ اس ملاقات ميں اپنى حكومت كو نہ بچا سكے تو ياد ركھو كہ ہميشہ كے لئے سنہرا موقع ہاتھ سے كھو دينگے _
پہلے يزيد كے پاس ايا اور اس سے يوں گفتگو كى كہ ، اصحاب رسول (ص) و بزرگ سردار قريش سب كے سب دنيا سے رخت سفر باندھ چكے ہيں اب صرف ان كى اولاديں رہ گئي ہيں ، ان ميں سب سے بہتر تم ہو اور سنت رسول اكرم (ص) سے واقفيت بھى ركھتے ہو نيز حكومت چلانے كى صلاحيت بھى تم ميں پائي جاتى ہے ؟
مگر مجھے نہيں معلوم كہ امير المومنين ( معاويہ ) كو كن مشكلات كا سامنا ہے جو لوگوں سے تمہارى بيعت نہيں لے رہے ہيں ؟
يزيد نے كہا ، اگر اس كام كو انجام ديا جائے تو بہتر ہوگا ؟
مغيرہ نے كہا ، جى كيوں نہيں ، ملاقات تمام ہو گئي ، ان تمام باتوں كو يزيد نے معاويہ سے بيان كيا ، معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو بلايا اور اس سے حالات معلوم كئے مكار مغيرہ نے كہا، كہ تم تو خود حالات كو جانتے بھى ہو اور اس كا مشاہدہ بھى كئے ہوئے ہو كہ عثمان كے بعد ان تمام خونريزيوں و جنگوں كے ذريعہ تخت حكومت پر ائے اور يزيد تيرى جانشينى كا حقدار بھى ہے ، لہذا اس ميں ديرنہ كرو اور اسكے لئے لوگوں سے بيعت لو ، اگر كوئي مہم در پيش ہوئي تو لوگوں كى پشت پنا ہى سے تمہارا جانشين بن جائے گا اور ايك قطرہ بھى خون كا زمين پر نہيں گرے گا _
معاويہ نے كہا، اسكى ذمہ دارى كو ن قبول كرے گا _
مغيرہ نے جواب ديا ،كوفہ كى ذمہ داريوں كو ميں سنبھالتا ہوں اور زياد كو بصرہ كى ذمہ دارى سونپ دى جائے ، پھر ان دونوں شہروں كے بعد كسى ميں ہمت و جرائت نہيں ہے كہ تمھارى مخالفت كرے _
معاويہ نے كہا ، تم كوفہ چلے جائو اور اس سلسلہ ميں اپنے دوستوں سے صلاح و مشورہ كرو ، پھر ديكھا جائے گا كہ حالات كس كروٹ ليتے ہيں _
مغيرہ بن شعبہ اپنے ساتھيوں كے ساتھ واپس چلا ايا اور عرض كيا ہم نے معاويہ كو اس سر كش مركب پر سوار كر ديا ہے جسكى منزل بہت دور ہے اور امت محمد (ص) كے امور كو اس طرح پارہ پارہ كر ديا ہے كہ ہرگز جڑ نہيں سكتا _
مغيرہ بن شعبہ نے كوفہ پہونچتے ہى كچھ دوستداران بنى اميہ كو اپنے فرزند موسى كے ہمراہ شام بھيجا ، اور ان لوگوں ميں تين لاكھ درھم تقسيم كئے تاكہ معاويہ كے پاس جا كر يزيد كى بيعت كے لئے پيشكش كريں_
جب معاويہ سے ملاقات كرنے گئے اور اس بات كو اسكے سامنے ركھا تو اس نے جواب ديا كہ ابھى اس كام ميں جلدى نہ كرو البتہ ايسا نہ ہو كہ تم لوگ اپنى رائے كو بھول بيٹھو پھر فرزند مغيرہ كو چپكے سے بلايا اور اس سے كہا ،كہ تمہارے باپ نے ان لوگوں كے دين كو كتنے ميں خريدا ہے ، موسى نے كہا ، تين لاكھ درہم ميں _
معاويہ نے كہا _ ان لوگوں نے بہت سستے ميں اپنا دين بيچ ڈالا ہے (26)

يزيد كى بيعت بصرہ ميں
جس زمانے ميں مغيرہ بن شعبہ اہل كوفہ كو بيعت يزيد پر ابھار رہا تھا تو اس وقت معاويہ نے حاكم بصرہ زياد بن ربيعہ كو يوں خط لكھا :
مغيرہ اہل كوفہ سے يزيد كى بيعت لے رہا ہے جبكہ تم مغيرہ سے ان امور ميں زيادہ حقدار ہو كيونكہ يزيد تمہارے بھائي كا بيٹا ہے ، لہذا جيسے ہى ميرا خط ملے فورا بصرہ والوں سے يزيد كى خلافت و وليعہدى كے سلسلے ميں بيعت لو _
جب معاويہ كا خط زياد كو ملا تو اس نے اسكو پڑھنے كے بعداپنے جگرى دوست كو بلايا اور اس سے كہا كہ ہم تمہارے اوپر بھروسہ كرتے ہوئے ايك پيغام تمہارے حوالے كرنا چاہتے ہيں اور اس پيغام كے پہونچانے كا حق تمہيں كو ہے _
معاويہ كے يہاں جا كر كہنا كہ تمہارا خط ملا اور اس ميں جس چيز كے سلسلہ ميں لكھا ہے اگر اسكى طرف لوگوں كو دعوت دوں تو اہل بصرہ كيا كہيں گے جبكہ يزيد كتا اور بندر سے كھيلتا ہے _ اور ہر روز رنگ برنگ كا فاخرہ لباس زيب تن كرتا ہے اور ہميشہ شراب ميں مست رہتا ہے ، نيز گانے بجانے سے بھى پرہيز نہيں كرتا در انحاليكہ اسكے مقابلے ميں حسيں بن على (ع) ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن زبير ، اور عبد اللہ بن عمر ، جيسے افراد موجود ہيں ، لہذا ايك صورت باقى رہ جاتى ہے كہ تم اس سے كہو كہ ايك دو سال اپنے رقيبوں كى طرح اخلاق سے اراستہ و مزين ہو اس صورت ميں جا كر شايد، ہم لوگوں كو فريب دينے كى كوشش كريں زياد كے فرستادہ نے ان باتوں كو معاويہ سے بيان كيا _
معاويہ نے كہا _، وائے ہو فرزند عبيد پر خدا كى قسم ميں نے سنا ہے كہ گانے والى عورتوں نے اسكے بارے ميں كہا كہ
ميرے بعد امير زياد ہوگا _
خدا كى قسم _ اسكے نسب كو اسكى ماں سميہ اور غلام عبيد سے بار ديگر جوڑ دونگا (27)
طبرى و ابن اثير نے تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ اس داستان كى تفصيل كو يوں بيان كيا ہے_ زياد كے دوست نے كہا :
تم معاويہ كے حكم كو نظر انداز نہ كرو اور يزيد كو اس طرح برا بھلا نہ لكھو ، ہم يزيد كے پاس جاتے ہيں اور اس سے كہتے ہيں كہ خليفہ ( معاويہ ) نے تمہارى بيعت كے سلسلہ ميں زياد سے صلاح و مشورہ ليا ہے ، ليكن زياد لوگوں كى مخالفت سے ہر اساں ہے كيونكہ تمہارے اعمال نا شائستہ كو لوگ ديكھ رہے ہيں لہذا زياد كى رائے يہ ھيكہ تم ان افعال سے دستبردار ہو جائو تاكہ امكان بيعت اور تمہارى خلافت كى راہ ہموار ہو جائے زياد نے اپنے جگرى دوست كى رائے كو پسند كيا اور اسكو شام بھيجا ، اس نے يزيد سے ملاقات كى اور زياد كى رائے كو بيان كيا ، يزيد نے بھى زياد كے مشورے كو سراہا پھر وقتى طور پر منكرات سے دستبردار ہو گيا _
جب فرستادہ زياد نے معاويہ كو خط ديا تو اس ميں زياد نے لكھا تھا كہ ابھى اس كام ميں جلدى نہ كرو اس نے بھى زياد كى رائے كو پسند كيا ليكن جب زياد اس دنيا سے چلا گيا ، تو معاويہ نے بيعت يزيد كے لئے اپنى كمر كس لى اور سب سے پہلے اس كام كے لئے عبد اللہ بن عمر كے پاس ايك لاكھ درھم بھيجوايا ، جب عمر كے سپوت نے اس بھارى رقم كو قبول كر ليا تو فرستادہ معاويہ نے يزيد كى بيعت كرنے كے لئے كہا : عبد اللہ بن عمر نے كہا ، اچھا معاويہ كى يہ خواہش تھى اگر ہم اس قليل رقم ميں يزيد كى بيعت كر ليں تو گويا اپنے دين كو بہت سستے ميں فروخت كر ديا ہے (28)

شام ميں يزيد كى بيعت
مشہور عالم ابن اثير لكھتے ہيں :
'' جس گھڑى معاويہ نے خلافت يزيد كا مصمم ارادہ كر ليا تو اہل شام كے درميان يوں خطبہ ديا _ اے لوگو_ ميں بوڑھا ہو چكا ہوں اور موت تعاقب كر رہى ہے لہذا ميں چاہتا ہوں كہ ايك شخص كى تم لوگوں سے بيعت لے لوں ، مگر شرط يہ ہے
كہ تم لوگ بھى ہمارى طرح اسى جگہ پر اپنى رائے كو پيش كرو تاكہ بغير رائے كے اس كام كو انجام نہ ديا جائے ، حاضرين نے متفق الرائے ہو كر كہا كہ ہم لوگ عبد الرحمن بن خالد كى حكومت و خلافت سے راضى ہيں _
اس رائے نے معاويہ كو چكرا ديا كيونكہ اس نے سوچا تھا كہ لوگ ضرور يزيد كو اس كام كے لئے منتخب كريں گے ، اس نے اپنى موجودگى ميں ديكھ ليا كہ لوگوں نے يزيد كى طرف بالكل توجہ نہيں دى _
معاويہ اس پر اگ بگولا تو ہو گيا تھا ليكن لوگوں پر اظہار نہيں كيا ، كيونكہ اہل شام چاليس سال سے اس كى حكومت و سلطنت كے سائے ميں زندگى گزار رہے تھے اور ہميشہ خطرناك موقع پر اس كا ساتھ بھى ديئے تھے اسى بنا پر اپنے غصے كو پى گيا _
اب صرف فكر يہ تھى كہ اس كانٹے كو كيسے صاف كيا جائے ، جب عبد الرحمن بن خالد مريض ہوا تومعاويہ نے اپنے يہودى طبيب كو اس كى عيادت و علاج كرنے كے لئے بھيجا _ يہ طبيب .......... معاويہ كا راز دار بھى سمجھا جاتا تھا لہذا معاويہ نے اسكو حكم ديا تھا كہ كسى حيلہ و بہانہ كے ذريعہ سے عبد الرحمن كو زہر ديدے _
ضمير فروش طبيب نے حكم معاويہ كے مطابق عبد الرحمن بن خالد كو مسموم كر ديا زہر اتنا خطرناك تھا كہ عبد الرحمن كا شكم چاك ہو گيا اور اس طرح دنيا سے چلا گيا (29)
طبرى و ابن اثير اس واقعہ كو يوں نقل كرتے ہيں :
معاويہ نے اپنے عيسائي طبيب جس كا نام ابن اثال تھا اسكو حكم ديا كہ جسطرح بھى ممكن ہو عبد الرحمن كو قتل كر دے ، اور اسكے بدلے ميں تمام عمر كا ٹيكس معاف ہو جائے گا نيز شہر حمص كا ٹيكس وصول كرے گا ، اس جنايت كار طبيب نے عبد الرحمن كو زہر ديكر معاويہ كى دلى مراد پورى كر دى _
معاويہ نے اس خدمت كے عوض ميں اپنا وعدہ ، وفا كيا (30)
ابن عبد البر مزيد لكھتے ہيں كہ ، عبد الرحمن كى موت كے بعد اسكا بھائي جو دوسرى جگہ رہتا تھا خفيہ طور پر دمشق ايا اور اپنے
غلام كے ساتھ يہودى طبيب كے كمين ميں بيٹھ گيا _
جب طبيب شب كے سناٹے ميں معاويہ كے يہاں سے جانے لگا تو اس پر حملہ كر ديا جو اسكے ساتھى تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے لہذا اسكو وہيں پر مار ڈالا _
ابن عبد البراس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد لكھتا ہے كہ يہ واقعہ دانشوروں كے درميان بہت مشہور و معروف ہے _

يزيد كى بيعت مدينہ ميں
كتاب امامہ والسياسة ميں ابن قتيبہ نے يوں لكھا ہے :
'' معاويہ نے حاكم مدينہ مروان بن حكم كو خط ميں لكھا كہ اہل مدينہ سے يزيد كى بيعت كا مطالبہ كرو ، يہ بات مروان پر گراں گذرى تو تھى ہي، دوسرى طرف مدينہ كے سردار قريش كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كر سكتے تھے ، لہذا مروان نے معاويہ كے پاس ايك خط روانہ كيا اور اس ميں يہ لكھا كہ تمہارے رشتہ دار يزيد كى بيعت سے كترا رہے ہيں لہذا تم اپنى رائے كو ميرے پاس لكھ كر بھيجو _
معاويہ مروان كے منفى جواب سے بہت غضبناك ہوا اور اسكو حاكم مدينہ كے عہدہ سے معزول كر ديا _ اور اسكى جگہ حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بنا ڈالا _
مروان بنى اميہ كے چند افراد كے ساتھ شام ايا اور غصے كے عالم ميں معاويہ سے ملاقات كى اور خوب معاويہ كو برا بھلا كہا ، ليكن سياستمدار معاويہ نے نہايت ٹھنڈے اور نرم لہجے ميں مروان سے گفتگو كى اور اس كى تنخواہ مزيد بڑھا كے راضى كيا اور واپس مدينہ بھيجديا (31) _
معاويہ نے اس واقعے كے بعد ،يزيد كو بطور وليعہدبنانے كى نئي چال چلى كہ ، تمام سرداران بنى اميہ كے درميان پھوٹ ڈالديا ، ايك خط حاكم مدينہ سعيد بن عاص كو بھيجا اور اس ميں دستور ديا كہ مروان كے گھر كو مسمار كر ديا جائے اور تمام
اموال منجملہ باغ فدك بھى لے ليا جائے _
ابن اثير لكھتا ہے :
امير شام معاويہ نے 45ھ ميں سعيد بن عاص كو حكومت مدينہ سے برخاست كر كے بار ديگر مروان بن حكم كو حاكم مدينہ بنا ديا ، سعيد بن عاص كو حاكم مدينہ كے عہدے سے معزول كرنے كى علت يہ تھى كہ معاويہ نے اس كو خط لكھا تھا ، كہ مروان كے گھر كو منہدم كر دے اور اسكى تمام جائيداد حتى فدك كو بھى چھين لے ، ليكن سعيد بن عاص نے معاويہ كے حكم سے سر پيچى كى ، دوسرى بار لكھا پھر بھى سعيد نے نہيں سنا ، اور ان دونوں خطوط كو اپنے پاس محفوظ كر ليا ، جب حكومت مدينہ سے معزول ہو گيا اور اسكى جگہ مروان حاكم بن گيا تو معاويہ نے اس كو خط لكھا كہ سعيد بن عاص كے گھر مسمار كر دے اور تمام جائيداد كو چھين لے _
مروان اپنے چند ساتھيوں سميت سعيد كے گھر كو ڈھانے كے لئے چل ديا _ سعيد اپنے گھر سے نكلا اورمروان سے پوچھا اے فرزند عبد الملك _ تم ہمارے گھر كو ڈھانے كے لئے ائے ہو ؟
مروان نے كہا _ جى ہاں _ امير المومنين معاويہ نے ايسا ايسا خط لكھا ہے اور اس ميں اس طرح كا حكم ديا ہے اگر وہ تم كو اس طرح كا حكم ديتا تو تم بھى ضرور اس كام كو انجام ديتے ؟
سعيد نے كہا _ ہم نے تو ايسا نہيں كيا ؟
مروان نے كہا _ جى نہيں _ خدا كى قسم اگر تمہيں معاويہ اس كام كو انجام دينے كے لئے لكھتا تو تم ضرور اس كا م كو انجام ديتے ؟
سعيد نے كہا ، ہم ہرگز ايسا نہيں كرتے ، پھر معاويہ كے ان دونوں خطوں كو اسے دكھلايا اور كہا _ معاويہ چاہتا ہے كہ ہمارے درميان اختلاف كى ديوار كھڑى كر دے _
جب مروان نے سعيد كے سلوك كو اس طرح پايا تو كہا ، خدا كى قسم تم ہم سے بہتر ہو ؟
اس واقعے كے بعد سعيد بن عاص نے ايك خط معاويہ كو يوں لكھا كہ بڑى تعجب كى بات ہے كہ تم اپنے رشتہ داروں كے ساتھ ايسا سلوك كر رہے ہو ، تم نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہمارے درميان ايك دوسرے كے خلاف بغض و كينہ كى ديوار كھڑى كر كے دشمن بنا دو _ امير المومنين ( معاويہ ) تم نے ان تمام بر د بارى و صبر كے باوجود غصہ و عجلت سے كام ليا ہے
_ بجائے عفو و بخشش كے اپنے رشتہ داروں ميں پھوٹ ڈالنے كى كو شش كى ہے تاكہ اس كينے كو ہمارے فرزند ميراث ميں بانٹ ليں _ ٹھيك ہے ہم ايك خليفہ زادے نہيں ہيں اور نہ كوئي قريبى رشتہ دارى ہے البتہ ہم نے قصاص خون عثمان ميں تمھارى نصرت كى ہے لہذا بہتر تھا كہ تم ہمارے ان حقوق كى رعايت كرتے جو تمھارى گردن پر تھے _
امير شام معاويہ كا جب يہ نقشہ ناكام ہو گيا تو بہت شرمندہ و پشيمان ہوا لہذا دكھانے كے لئے ايك خط سعيد كے پاس لكھا اور اس سے معافى مانگى (32)

يزيد كى بيعت بليدان چاہتى ہے
معاويہ يزيد كو اپنا جانشين بنانے كے سلسلے ميں بہت پريشان ہو رہا تھا اسكو اس راہ ميں روكاوٹيں پيش ارہى تھيں جن كا حل بہت مشكل تھا ، لہذا ان موانع دور كرنے كى فكر ميں لگ گيا ايك طرف اس وقت امام و پيشوا ء سبط رسول (ص) حضرت امام حسن (ع) تھے ، دوسرى طرف عمر بن خطاب كى چھہ ركنى كميٹى كا ايك ممبر اور بڑا سردار سعد بن ابى وقاص موجو د تھا جسكو بعض لوگ اہميت كى نگاہ سے ديكھتے تھے _
مشہور مورخ ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :
معاويہ اپنے فرزند ( يزيد ) كى بيعت كا بہت خواہاں تھا ، ليكن اس راہ ميں سب سے بڑى اڑچن حضرت امام مجتبى (ع) اور سعد بن ابى وقاص تھے ، اس نے ان دونوں كو ہٹانے كے لئے خفيہ طور پر ان لوگوں كو زہر دلوايا اور يہ دونوں زہر كى بناء پر اس دار فانى سے رخصت ہو گئے (33) امام حسن (ع) اور سعد بن ابى وقاص جو معاويہ كے ہدف ميں ركاوٹ بنے ہوئے تھے اسكى علت يہ تھى كہ سعد بن ابى وقاص عمر كى اس چھہ ركنى كميٹى كا اخرى ايك ممبر تھا ، جو خليفہ كے تعين كے لئے وجود ميں ائي تھى ، اسكے بعد ان لوگوں كا دماغ اتنا اونچا ہو گيا تھا كہ گويا خلافت و حكومت كے چلانے كى تمام صلاحتيں انھيں لوگوں ميں منحصر تھيں _
ليكن امام حسن (ع) جو اپنى گذشتہ فضيلت و عظمت كے خاص مالك تھے انھوں نے معاويہ سے صلح كرتے وقت شرط ركھى تھى كہ امير شام معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ نامزد نہيں كر سكتا ہے اور اسكو حق نہيں ہے كہ كسى دوسرے كو اپنا وليعہد بنائے (34)
مورخين نے سعد بن ابى وقاص كے مارے جانے كى وضاحت نہيں كى ہے ، بس اتنا لكھا كہ انكو معاويہ نے زہر دلوايا ہے _ ليكن سبط رسول (ص) امام حسن (ع) كى شہادت كے سلسلے ميں چند دليليں پائي جاتى ہيں ، جو اس سانحے كى كسى حد تك وضاحت كرتى ہے _
مسعودى لكھتا ہے :
'' امير شام '' معاويہ نے خفيہ طور پر جعدہ بنت اشعث بن قيس كندى كے پاس زہر بھيجا تاكہ امام (ع) كو مسموم كر دے اور ساتھ ميں كچھ پيغامات بھى ارسال كئے كہ اگر تم نے امام حسن (ع) كوزہرديديا تو ايك لاكھ درہم ،مزيد اپنے بيٹے يزيد كے ساتھ شادى كر دوں گا ، يہى وہ دو باتيں تھيں جو جعدہ بنت اشعث كے لئے باعث ذلت بنيں اور اس نے اس كام كو انجام ديا ،جب امام عليہ السلام كو زہر ديديا تو معاويہ نے بعض وعدے پورے كئے جس ميں ايك لاكھ درہم شامل تھا ، اور جعدہ كے پاس پيغام بھيجوايا كہ ہم يزيد كى زندگى چاہتے ہيں _
لہذا دوسرا وعدہ جو تم سے شادى كرنے كا تھا اس سے معذور ہيں _ يعنى تم نے جس طرح اپنے شوہر كو وعدہ پر مسموم كر ديا ہے ممكن ہے اسى طرح ميرے بيٹے كو بھى زہر ديدو _ لہذا انھيں اسباب كى بنا ء پر ہم اپنے وعدے كو پورا نہيں كر سكتے ہيں (35) معاويہ كى جنايتكار سياست نے حضرت مجتبى (ع) اور سعدبن ابى وقاص كو درميان سے صاف كر ديا تاكہ خلافت يزيد كى راہ ہموار ہو جائے اور جس طرح عبد الرحمن بن خالد كو نابود كيا تھا اسى طرح ان دونوں كو صفحہ ہستى سے مٹايا ،ہم سمجھتے ہيں كہ عبد الرحمن بن خالد اسى راہ ميں مارے گئے ہيں جسكى تفصيل ائندہ بيان ہو گى _

يزيد كى تاج پوشي
معاويہ نے بڑى جدو جہد كر كے مملكت كے گوشہ و كنار سے سرداروں اور بزرگان قبائل نيز با رسوخ افراد كو دمشق بلوايا اور يزيد كى زبر دستى بيعت لى _
مخالفين كو ڈرا دھمكا كر، تو كبھى منھ مانگى رقم ديكر، تو كبھى رياست كى لالچ ديكر لوگوں كو بيعت يزيد پر راضى كيا ، چند سال تك ايسا ہى ہوتا رہا _
مملكت اسلامى كے اكثر اہم علاقے امويوں كے اشارے پر چلنے لگے ليكن اس وقت دو اہم شہر مكہ و مدينہ كے لوگ اس اشارے پر نہيں چل رہے تھے اور يزيد كى بيعت تسليم نہيں كر رہے تھے _
امير شام معاويہ نے اپنے ساتھيوں كے ہمراہ حجاز كا سفر كيا تاكہ ان لوگوں سے يزيد كى بيعت لے ، اہل مكہ و مدينہ نے يزيد كى بيعت اس لئے نہيں كى كہ يہ لوگ اسلام سے اچھى طرح واقف تھے دوسرى طرف حسين بن على (ع) ، عبد اللہ بن زبير ، عبد اللہ بن عمر ، اور عبد الرحمن بن ابو بكر جيسے با رسوخ افراد اس شہر ميںموجود تھے _
ابن اثير لكھتا ہيں :
'' معاويہ نے يزيد كى بيعت لينے كے لئے لوگوں كو منھ مانگى رقم ديكر راضى كيا اور مخالفين سے خاطر و مدارات كر كے يزيد كى بيعت كروائي ، وہ اپنى سياست ميں يوں كا مياب رہا كہ لوگوں نے اپنے سرداروں پر بھروسہ كر كے يزيد كى بيعت كر لى _
جب اہل شام و عراق نے يزيد كى بيعت تسليم كر ليا تو معاويہ نے ہزاروں سواروں كے ساتھ حجاز كا سفر كيا ، مدينہ ميں سب سے پہلے حضرت امام حسين (ع) سے ملاقات ہوئي _
ابن اثير مزيد لكھتا ہے :
حضرت امام حسين (ع) كے علاوہ تين دوسرے افراد جو روساء شہر تھے انكى معاويہ سے تلخ كلامى ہوئي تو ان لوگوں نے اسكو منھ توڑ جواب ديا _
اس كے بعد ابن اثير لكھتا ہے كہ ، معاويہ نے ان چاروں افراد سے مدينہ ميں بيعت نہيں لى جب عائشه سے ملنے گيا تو
انكو اس مڈ بھيڑ كى خبر معلوم ہو گئي تھى ، لہذا ام المومنين عائشه نے معاويہ سے كہا :
يہ لوگ كسى صورت ميں يزيد كى بيعت نہيں كرينگے ، معاويہ نے ان لوگوں كى شكايت عائشه سے كى تو انھوں نے اسكو خوب سمجھايا بجھايا ؟
ابن اثير نے معاويہ كے سفر مكہ كى داستان يوں نقل كيا ہے :
معاويہ جب مكہ انے والا تھا تو اہل مكہ كے ساتھ وہ چاروں افراد بھى استقبال كرنے كے لئے گئے معاويہ ان لوگوں سے كافى مہربانى سے پيش ايا اور ان لوگوں سے بار ديگر بيعت كا مطالبہ كيا عبد اللہ بن زبير نے كہا ، ہم تم كو تين پيشنھاد كرتے ہيں ان ميں سے ايك قبول كر لو_
1_ جس طرح رسول اكرم (ص) نے اپنا جانشين نہيں بنايا اسى طرح تم بھى مت بنائو_
2_ جس طرح ابو بكر نے قريش كے ايك فرد كو خلافت كے لئے چن ليا اور اپنے خاندان كے كسى فرد كو خليفہ نہيں بنايا _
3_ عمر بن خطاب كى طرح كرو كہ انھوں نے خلافت كى كميٹى تشكيل ديدى تھى ليكن اس ميں اپنے فرزند كو نہيں ركھا تھا ،معاويہ نے عبد اللہ بن زبير سے كہا كہ اسكے علاوہ كوئي اور پيشكش نہيں ہے _
زبير نے جواب ديا ، نہيں _
معاويہ نے كہا ، ہم تم كو با خبر كر رہے ہيں كہ اگر تم نے كسى دوسرے كو اس رائے سے اگاہ كيا تو ياد دكھو كہ ہم تم كو معذور كرديں گے _
ابھى تقرير كرنے جا رہا ہوں خدا كى قسم _ اگر تم ميں سے كسى نے ہم پر اعتراض كيا تو قبل اسكے كہ تمھارا كلام ختم ہو سر تن سے جدا ہو جائے گا ، لہذا بہتر يہى ہے كہ تم لوگ اپنى اپنى حفاظت كرو ، پھر اپنے سپاہيوں كو حكم ديا كہ ہر ايك ادمى پر دو شمشير باز مسلط رہيں كہ اگر ايك حرف بھى اعتراض كا زبان سے نكلے فورا قتل كر ديا جائے _
ان لوگوں كو اسى حالت ميں مسجد الحرام لايا گيا ، معاويہ منبر پر گيا حمد الہى كے بعد اپنى تقرير شروع كى ، ابتدا ئے تقرير ميں يوں كہا كہ ، يہ لوگ سردار و بزرگان اسلام نيز با عظمت افراد ہيں كسى بھى وقت انكى رائے كے خلاف كام انجام دينا نہيں چاہيئے ، اور ان لوگوں نے يزيد كى بيعت كر لى ہے ، اب تم لوگ خدا كے نام پر كھڑے ہو جاو اور يزيد كى بيعت كرو ، يہ كہنا تھا كہ چاروں طرف سے مجمع ٹوٹ پڑا اوريزيد كى بيعت ہو گى _
بيعت جيسے ہى تمام ہوئي فورا حكم ديا كہ سواريوں كو امادہ كرو پھر سوار ہو كر مدينہ كى طرف چل ديا ، اہل مدينہ سے بھى مكہ والوں كى طرح بيعت لى پھر شام پلٹ گيا _
مگر حضرت امام حسين (ع) اور انكے دوسرے ساتھيوں كى جھوٹى بيعت كا راز فاش ہو گيا ، لوگوں نے جب ان لوگوں سے سوال كيا كہ تم لوگوں نے تو يہ فيصلہ كيا تھا كہ ہرگز بيعت نہيں كريں گے پھر كيوں بڑى سادگى كے ساتھ يزيد كى بيعت كر لي_
ان لوگوں نے معاويہ كى مكارانہ چال كو بيان كيا اور ان لوگوں كوجو جان لينے كى دھمكى دى تھى اسكو بيان كيا (36)
ہم نے معاويہ كى زندگى ميں انے والے حوادث كا بہت غور سے جائزہ ليا تو ہم اس نتيجہ تك پہونچے كہ معاويہ كے دور ميں جھوٹى حديثوں كے گڑھنے كى وجہ كو سمجھنے كے لئے اسكے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے كہ
1_ معاويہ كى پيچيدہ شخصيت كو پھر سے جانچا جائے
2_ معاويہ كى ام المومنين عائشه سے دانٹ كا ٹى دوستى كن وجوہات كى بناء پر ہوئي ، يہ وہ مباحث ہيں جو ہم ائندہ پيش كريں گے _

فصل چہارم
عائشه اور امويوں ميں دوستى كے اسباب
اپ نے پہلے ديكھا كہ معاويہ نے حضرت على (ع) سے دشمنى و عناد ركھنے كى وجہ سے كتنا ان سے ٹكر ليا اور انكى حكومت كے زمانے ميں كس قدر جنگ اور مقابلہ كيا _
ليكن جب حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) نے مسجد كو فہ ميں جام شہادت نوش فرماليا تو اپنى مقاومت كو جنگ سرد ميں تبديل كر كے ايك لمحہ بھى امام عليہ السلام كو بر ا بھلا كہنے سے باز نہ ايا _
نيز اپ نے يہ بھى ديكھا ہو گا كہ عائشه نے امير المومنين (ع) سے كتنى بھيانك جنگ لڑى ، اور جب امام (ع) ابن ملجم كے ہا تھوں شھيد ہو گئے اور اسكى خبر عائشه كو معلوم ہوئي تو خوشى كے مارے سجدہء شكر ادا كيا (37) پھر اس شعر كو پڑھا كہ جس كا ترجمہ يہ ہے _
على (ع) گزر گئے اور اب انكى واپسى نہيں ہو گى مجھے انكى موت سے اپنے دل كو اتنى خوشى ہو رہى ہے جيسے خاندان كا كوئي مسافر اپنا عزيزتر رشتہ دار گھر واپس انے سے خوش ہوتا ہے _ ہاں _ على (ع) كى موت سے ميرى انكھيں ٹھنڈى ہو گئيں _
فالقت عصا ھا و استقر بھا النوى كما قر عينا بالاياب المسافر
خاندان علوى (ع) سے عائشه كى عداوت اتش اتنى بھڑ كى ہوئي تھى كہ حتى شوہر كے نواسے سے پردہ كر ليا اور ان سے ملاقات نہيں كى (38)
جو كچھ يعقوبى اور ابو الفرج اصفہانى نے اس زمانے كے واقعات بيان كئے ہيں اگر اس پر غور كيا جائے تو معلوم ہوگا كہ عائشه كى دشمنى خاندان علوي(ع) سے اسى طرح باقى رہى اور اس ميں ذرا برابر كمى نہيں ائي يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ كے درميان بطور عموم اور خاص طور پر معاويہ سے گٹھ بندھن رہا _
يعقوبى لكھتے ہيں:
امام حسن (ع) نے وقت احتضار اپنے بھائي امام حسين (ع) سے كچھ وصيتيں كيں ، ان ميں ايك يہ تھى كہ اگر ميں اس دنيا سے چلا جائوں تو مجھے جدّ بزرگوار رسول اكرم (ص) كے پہلو ميں دفن كرنا كيونكہ مجھ سے زيادہ كوئي حقدار نہيں ہے ، ليكن اگر كوئي ممانعت پيش ائے اور ميرى اخرى ارزو پورى نہ ہو سكے تو اس وقت حتى الامكان كو شش كرنا كہ ايك قطرہ خون زمين پر نہ گرنے پائے ، جب امام عليہ السلام كى شہادت ہو گئي اور تجہيز و تكفين كے بعد اہل خاندان جسد مبارك كو ليكر قبر رسول (ص) كى طرف جانے لگے تو بقول مقاتل الطالبين ام المومنين عائشه خچر پر سوار ہوئيں اور انكے ساتھ بنى اميہ جنھوں نے اپنے گناہ كو انكے كاندھے پر ڈالديا تھا جسد مبارك اور جو لوگ جنازہ ميں شريك تھے انكو قبر رسول (ص) كى جانب جانے سے روك ديا اس فعل نا شائستہ پر ايك مشہور شعر كہا گيا _
ايك دن خچر پر تو ايك روز اونٹ پر سوار ہوئيں ، فيوماََعلى بغل و يوماََعلى جمل (39) _
يعقوبى لكھتا ہے:
مروان بن حكم اور سعيد بن عاص سوار ہوئے اور فرزند رسول (ص) كے جنازہ كو جد بزرگوار كے پہلو ميں دفن كرنے سے منع كيا ، عائشه خچر پر سوار ہو كر مجمع عام ميں ائيں اور وا ويلا مچانا شروع كر ديا كہ يہ گھر ميرا ہے اور اس ميں كسى كو دفن كرنے كى اجازت نہيں ديتى ہوں _
ابو بكر كا پوتا قاسم نے جواب ديا ، اے پھوپھى _ ہمارے سر ابھى تك جنگ جمل كے خون سے صاف نہيں ہوئے ہيں ايا اپ چاہتى ہيں كہ انے والا دن خچر كا دن كہلائے _
ليكن لشكر علوى (ع) بھى خاموش نہيں بيٹھا بلكہ بعض لوگ حضرت امام حسين (ع) كے پاس گئے اور عرض كيا اقا ہم لوگوں كو ال مروان سے نپٹنے كے لئے جانے ديجئے خدا كى قسم _ يہ لوگ ہمارى نظروں ميں ايك لقمہ سے زيادہ نہيں ہيں _
امام عليہ السلام نے فرمايا _ ميرے بھائي نے وصيت كى ہے كہ ميرے جنازے كى خاطر ايك قطرہ بھى خون كانہ بہانا ، اسكے بعد امام حسن (ع) كا جنازہ قبر ستان بقيع ليجايا گيا اور دادى فاطمہ بنت اسد جو حضرت امير المومنين (ع) (على (ع) ) كى ماں تھيں
كے پہلو ميں دفن كيا گيا (40)
ام المومنين عائشه كى يہ تمام كار كردگى اہلبيت (ع) سے كينہ و دشمنى كى علامت تھى يہى وجہ تھى جو عائشه اور بنى اميہ خاص طور سے معاويہ كے درميان دانت كاٹى دوستى كى باعث بنى _ معاويہ اور اس كے حكمرانوں نے خوب تعظيم و تكريم كى اور اپ (عائشه ) كو ہديہ و تحفے بھيج كر مالى تعاون كيا _

معاويہ كے تحفے
جس گھڑى محقق، معتبر تاريخ كے متون كو بغور ديكھتا ہے تو عائشه اور حكومت اموى كے درميان گہرى دوستى كى شگفت اميز علامت پاتا ہے _
جبكہ يہ دونوں گروہ پہلے اپس ميں ايك دوسرے كے بہت مخالف تھے ، اور قتل عثمان كے مسئلہ ميں ايك دوسرے سے نوك جھونك بھى ہوئي تھى ، ليكن مصلحت وقت نے ايك دوسرے كو كافى نزديك كر ديا تھا اور وہ ايك لشكر كى شكل ميں ہو گئے تھے _
حكومت اموى كى مراعات مالى نے عائشه سے زيادہ قريب كر ديا اور متعدد بار اموال كثير نيز قيمتى تحفے معاويہ كى طرف سے اور دوسرے روساء حكومت اموى نے انكى خدمت ميں بھيجے ، ہم نے ان تمام دليلوں كو معتبر تاريخ سے جمع كيا ہے اور اپنے مدعى كو ثابت كرنے كے لئے اپكى خدمت ميں چند نمونے پيش كرتے ہيں_
ابو نعيم اصفہانى حلية اولياء ميں عبد الرحمن بن قاسم سے نقل كرتے ہيں
ايك مرتبہ معاويہ نے عائشه كى خدمت ميں مختلف تحفے بھيجے جن ميں لباس و پيسے نيز قيمتى چيزيں بھى تھيں (41)
يہى ابو نعيم اصفہانى عروہ بن زبير سے نقل كرتا ہے _
معاويہ نے دوسرى مرتبہ ايك لاكھ درہم نقد عائشه كے پاس بھيجا (42)
اٹھويں صدى كا مشہور مورخ ابن كثير عطاء سے روايت كرتا ہے _
معاويہ نے مكہ سے عائشه كے پاس ايك قيمتى ہار بطور ہديہ بھيجا جسكى قيمت ايك لاكھ درہم تھى اور اس تحفہ كو ام المومنين عائشه نے قبول كيا (43)
طبقات الكبرى ميں يوں ايا ہے كہ ، منكدر بن عبد اللہ ام المومنين عائشه كے يہاں گيا تھوڑى دير گفتگو كے بعد عائشه نے پوچھا ، ايا فرزند ركھتے ہو ؟
منكدر بن عبد اللہ نے جواب ديا كہ ، نہيں _
عائشه نے كہا _ اگرہم اس وقت دس ہزار درہم كے مالك ہوتے تو تمھيں دے ديتى تاكہ اس سے كنيز خريد ليتے اور اس سے صاحب اولاد ہوتے ، يہ ملاقات تمام ہو گئي اتفاق سے اسى روز غروب كے وقت معاويہ كى طرف سے كافى مقدار ميں رقم اگئي _
عائشه نے كہا _ كتنى جلدى اپنى مراد تك پہونچ گئي
پھر ہميںا پنے يہاں بلايا اور دس ہزار درہم ديئے ميں نے اس رقم سے ايك كنيز خريد لى (44)
ايك دوسرا واقعہ ابن كثير سعد بن عزيز سے نقل كرتے ہيں :
معاويہ نے ايك بار عائشه كا اٹھارہ ہزار دينار قرض چكايا جو انھوں نے لوگوں سے لے ركھا تھا (45)
اپ حضرات نے يہاں تك معاويہ كى عائشه كى نسبت مراعات مالى كا نمونہ ملاحظہ فرمايا _ يہ صرف معاويہ نے ايسا نہيں كيا بلكہ اموى روساء بھى اسى راہ پر گامزن رہے اور كبھى كبھار انكى خدمت ميں تحائف بھيجتے رہتے تھے ، جن ميں ايك حاكم بصرہ عبد اللہ بن عامر ہے كہ جس نے ايك مرتبہ عائشه كے پاس پيسے اور لباس كى شكل ميں تحفے بھيجے _(46)
صدياں گذرنے كے بعد جب مورخين نے حكومت اموى كى طرف سے عائشه كى مالى مدد كا اس مقدار ميں تذكرہ كيا ہے تو يقينا اسكى مقدار اس سے كہيں زيادہ رہى ہو گى اور حكومت جو عائشه كا احترام كرتى تھى وہ صرف دنيا وى مصالح اور
مفاد پرستى كيو جہ سے تھا اور وہ بھى جو كچھ احترام كرتى تھيں وہ اپنے مفاد كى خاطر تھا _
ان مفاد پرستى كيوجہ سے اسلام و مسلمين كو جو نقصانات پہونچے ہيں انھيں ائندہ بيان كروں گا _
* * *

اموى حكومت ميں ، عائشه كا رسوخ
قارئين كرام جو كچھ ہم نے عائشه كى زندگى اور انكى سياسى و اجتماعى كارنامے كو بيان كيا ہے اگر اپ حضرات اس پر غور كريں گے تو ان كى سياسى سوجھ بوجھ پہچاننے ميں كوئي دشوارى نہيں ہو گى عائشه سياست اور معاشراتى نفوذ كے لحاظ سے ان صفات كى حامل تھيں جو ايك سياستدان كے لئے بہت ضرورى ہے وہ اپنے زمانے ميں سب پر حاوى تھيں _ اس بات كو ہم بعد كے صفحات ميں بھى مختلف طريقوں سے پيش كرينگے _
ان كى پہلى خاصيت يہ تھى كہ انكى بات سب كے دل ميں اتر جاتى تھي
صاحب طبقات كبرى لكھتے ہيں _مرہ بن ابى عثمان جو عبد الرحمن بن ابو بكر كا ازاد كردہ تھا ، ايك روز عبد الرحمن كے پاس ايا اور ان سے درخواست كى كہ ايك خط زياد كو لكھديں تاكہ حاجت پورى ہو جائے _
عبد الرحمن نے خط يوں لكھا كہ زياد كو بجائے ابو سفيان كا بيٹا قرار دينے كہ اسكو عبيد كا فرزند لكھ ديا _ جب مروہ بن عثمان نے خط كو ديكھا تو عبد الرحمن سے كہا كہ ہم اس خط كو زياد كے پاس لے كر نہيں جائيں گے كيونكہ ہمارى حاجت اس خط سے پورى نہيں ہو سكتى پھر وہ عائشه كے پاس ايا اور ان سے وہى درخواست كى _ ام المومنين عائشه نے اس طرح زياد كو خط لكھا _
يہ خط ام المومنين عائشه كى طرف سے ہے زياد بن ابو سفيان _ مرہ خط ليكر زياد كے يہاں گيا ، اس نے خط پڑھنے كے بعد كہا ، تم ابھى چلے جائو اور كل صبح سويرے ميرے پاس انا تو ہم تمہارى حاجت كو پورا كر دينگے _
مرہ بن ابى عثمان دوسرے روز زياد كے يہاں گيا تو كيا ديكھا كہ حاضرين كى ايك بڑى تعداد ہے زياد نے اپنے غلام سے خط پڑھنے كو كہا ، اس نے عائشه كے خط كو پڑھا يہ خط ہے ام المومنين كى طرف سے زياد بن ابو سفيان كو _ خط كے تمام
ہونے كے بعد زياد نے مرہ بن عثمان كى حاجت پورى كر ديا (47)
ياقوت حموى اسى داستان كو ( نہر مرّہ ) كے مادہ ميں اپنى جغرافيائي انسائيكلوپيڈيا ميں لكھتے ہيں _
زياد عائشه كے خط سے اتنا خوش ہوا كہ اس نے مرہ كا خوب اكرام كيا اور خط تمام ہونے كے بعد اس نے لوگوں سے كہا : يہ خط ام المومنين عائشه نے ميرے نام لكھا ہے ، پھر حكم ديا كہ مرّہ بن عثمان كو سو (100)ايكڑ زمين نہر ابلہ كے كنارے ديديا جائے اور اس ميں زمين كى ابيارى كرنے كے لئے ايك كنواں كھودا جائے ، يہى وہ نہر ہے جو ( مرّہ ) كے نام سے مشہور ہوئي _
اس واقعہ سے جو نتيجہ نكلتا ہے وہ يہ ہے كہ زياد نے نوشتہ عائشه اور رسوخ كلام سے اپنا فائدہ اٹھايا ، كيونكہ ام المومنين نے اسكو ابو سفيان كا بيٹا تسليم كيا ، اور اپنے خط ميں اسى عنوان سے مخاطب كيا ، يہى وجہ تھى كہ بہت خوش ہوا اور حكم ديا كہ انكے خط كو مجمع عام ميں پڑھا جائے تاكہ دوسرے لوگ بھى اس بات كو جان ليں كہ دور حاضر كى بزرگ شخصيت عائشه بھى اسكے نسب اعلى كو پہچانتى ہيں ، اور سابق رئيس قريش ابو سفيان كا بيٹا اور خليفہ وقت كابھائي جانتى ہيں _
عائشه نے ديگر مواقع پر بھى زياد كو خط لكھا اور اس ميں لوگوں كى رعايت مالى كا خيال ركھنے كى تاكيد كى جسكے جواب ميں زياد نے خط بھيجا كہ مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ جيسے ہم اپنے ماں باپ كے سايہ عاطفت ميں زندگى بسر كر رہے ہيں (48)_

عائشه اور معاويہ كا ايك دوسرے پر چوٹ
عداوت على ميں اگر چہ عائشه كى معاويہ سے ايك دانت كاٹى دوستى ہو گئي تھى _ ليكن بعد ميں ايسے اسباب پيدا ہو گئے جنكى وجہ سے ان دونوں ميں دورى ہو گئي _ اور رفتہ رفتہ ايك جنگ سرد ميں تبديل ہو گئي تھى _
معاويہ نے شب و روز كى تگ و دو كے بعد زمام حكومت كو ہاتھ ميں لے ليا مگر وہ اس پر بھى خوش نہيں تھا بلكہ اسكى خواہش يہ تھى كہ اپنى حكومت و سلطنت كو مورو ثى بنا ڈالے يہ مسئلہ اسوقت اور بھيانك ہو گيا جب اسكے قديم دوست جو مختلف گروہوں ميں بٹے تھے حكومت كو خاندانى بنانے ميں كسى طرح راضى نہيں ہوئے لہذا معاويہ نے اپنے بھيانك
چہرے كو ظاہر كر ديا _
ام المومنين عائشه ان حالات ميں معاويہ كے مخالف گروہ سے جا مليں اور معاويہ سے اپنى دوستى تو ڑ ڈالى _
عائشه اور معاويہ كے درميان پہلا اختلاف اس بات پر ہوا كہ اس نے شير كو فہ محب على حجر بن عدى كو قتل كر ديا _
ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :
عائشه نے اپنا نمائندہ عبد الرحمن بن حرث كو شام بھيجا تاكہ معاويہ سے حجر اور ان كے ساتھيوں كے لئے سفارش كرے مگر عبد الرحمن اسوقت دمشق پہونچا كہ معاويہ نے ان لوگوں كو شھيد كر ڈالا تھا _ فرستادہ عائشه مايوس و نا اميد ہو كر واپس چلا ايا اور اس نے پورى داستان بيان كى ، جب عائشه نے ان باتوں كو سنا تو بہت ناراض ہوئيں اور كہنے لگيں كہ ،اگر ہم كو اس كا خوف لاحق نہ ہوتا كہ ہم ہى ہر بار اوضاع كو خراب كرتے ہيں تو اسكو بتا ديتى اور يہ نا گوار حادثہ پيش نہ اتا ، ليكن اس بار ميں اس كو نہيں چھوڑ ںگى اور حجر كا انتقام ضرور لونگى ، خدا كى قسم ، حجر مومن اور مجاہد فى سبيل اللہ تھا (49)
عائشه كا يہ كہنا كہ اگر ہم كو اس بات كا خوف نہ ہوتا كہ ہر بار ہميں انقلاب بر پا كرتے ہيں اور حالات كو دگر گوں بناتے ہيں تو اسكے امور كٹھنائي ميں پڑ جاتے ، وہ يہ ہے كہ _ عثمان كے خلاف لوگوں كو ورغلانے كى باگ ڈور اپ ہى كے ہاتھوں ميں تھى ، اور جو انكى نظر ميں امور سخت ہو گئے اسكى وجہ يہ ہے كہ حضرت امير المومنين (ع) تخت خلافت پر بيٹھ گئے ، يہ مسئلہ ام المومنين عائشه پر اسقدر گراں گذرا تھا كہ اپ دعا مانگتى تھيں كہ اسمان زمين پر پھٹ پڑے تاكہ سب نابود ہو جائيں _
ليكن خوش نصيبى يہ رہى كہ انكى ارزو نقش بر اب ہو كر رہ گئي اور امام عليہ السلام نے مسند خلافت كو زينت بخشى ،_ لہذا كمر ہمت باندھى تاكہ انقلاب بر پا كر كے خلافت كو امام (ع) كے چنگل سے چھيڑا ليں اسى بناء پر خونين جنگ جمل برپا كر دى اوراس ميں بھى كامياب نہ ہو پائيں اور نتيجہ ميں اپنے چچا زاد بھائي طلحہ اور انكے فرزند نيز بہنوئي زبير كو ہاتھوں سے كھو ڈالا اس حادثہ نے انكو رنج و غم كا تحفہ پيش كيا لہذا انكو ڈر تھا كہ كہيں معاويہ كے خلاف محاذ ارائي كى توشايد نا گوار حادثات پيش ائيں اور پہلے كى طرح پھر محنت پر پانى پھر جائے _
يہى وجہ تھى جو اپنے غصے كو پى گئيں اور معاويہ كے مقابلہ ميں سكوت اختيار كر ليا _
قتل حجر كے سلسلے ميں عائشه كى دوسرى باتيں تاريخ كى كتابوں ميں ياد گارى حيثيت سے موجود ہيں جو انكى سياسى گہرائي كى نشاندہى كرتى ہيں _
عائشه نے كہا _ خدا كى قسم _ اگر معاويہ نے اہل كو فہ كى بزدلى كا احساس نہ كيا ہوتا تو ہرگز جرا،ت و جسارت نہ كرتا كہ حجر اور انكے ساتھيوں كو قيد كر كے قتل كرتا _، ليكن فرزند جگر خوار نے عرب كى غيرت و حميت كو بھانپ ليا ہے كہ يہ لوگ اپنى غيرت و حميت كو كھو بيٹھے ہيں _
خدا كى قسم _ حجر اور انكے ساتھى شجاعت و حميت ميں بہت بلند تھے _
لبيد شاعر نے كتنا اچھا شعر كہا ہے :

ذھب الذ ين يعاش فى اكنافھم
و بقيت فى خلف كجلد الاجرب

لا ينفعون ولا يرجى خيرھم
ويعاب قائلھم و ان لم يشعب

ترجمہ : وہ لوگ چلے گئے جنكے بل بوتے پر زندگى گزارتے تھے اور ہم انكے بعد اسى طرح ہيں جيسے جذام شخص كى كھال كہ جو نہ نفع بخش ہے اور نہ ہى خير كى اميد ہے ، انكے بارے ميں كچھ كہنا گويا عيب ہے جبكہ ان لوگوں نے كوئي برائي بھى نہيں پھيلائي ہے (50) _

قتل محمد بن ابى بكر
عائشه اور معاويہ كے درميان اختلاف كا دوسرا سبب جو بنا،وہ ان كے بھائي محمد بن بكر كا قتل ہے ابن عبد البر اور ابن اثير نقل كرتے ہيں _
جس سال معاويہ حج كرنے گيا تو زيارت قبر رسول (ص) كے نام پر مدينہ ايا _ قيام كے دوران ايك دن عائشه سے ملاقات كرنے گيا تو اپ نے سب سے پہلے جس بات كو چھيڑا وہ حجر بن عدى كا قتل تھا _
اس سلسلے ميں عائشه نے معاويہ كو بہت كچھ سنايا اس پر معاويہ نے كہا :
اے ام المومنين مجھے اور حجر كو ھنگام حشر تك چھوڑ ديجئے (51)

---------------------------------------------------------------
1_ يعقوبى ج2 ص 142
2_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 14 ، يعقوبى ج2 ص 141
3_ يعقوبى ج2 ص 142
4_ مقاتل الطالبين ص 65
5_ بحار الانوار ج 10 ص 107
6_ يعقوبى ج2 ص 156
7_ طبرى ج6 ص 69
8_ بحار الانوار ج 10 ص 116 بہ نقل ابن ابى الحديد
9_ مقاتل الطالبين ص 70 ، تاريخ ابن كثير ج8 ص 131 ، شرح ابن ابى الحديد ج4 ص 16
10_ مقاتل الطالبين ص 69 ، شرح ابن ابى الحديد ج4 ص 16
11_ مقاتل الطالبين ص 117، 51 ، مقالات اسلاميين ج2 ص 166
12_اخبار الطوّال ص 221، بحار الانوار ج 44 ص 29
13_ يعقوبى ج2 ص 164 ، ابن خياط كى تاريخ ج1 ص 180
14_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 217 ، دولة العربيہ ص 86
15_ ابن كثير ج7 ص 131
16_ عقد الفريد ج3 ص 126 چاپ مصر _ 1331 ، ابن كثير ج 8 ص 132 ، البيان التبين ج2 ص 182
17_ ابن عساكر ج5 ص 409 ، طبرى ج4 ص 259
18_ مروج الذھب ، انساب الاشراف
19_ تاريخ ابن اثير ج3 ص 202 ، سير اعلام النبلا ج2 ص 340
20_ يعقوبى ج2 ص 218 چاپ بيروت
21_ يعقوبى ج2 ص 234
22_ يعقوبى ج2 ص 223
23_ ابن اثير ج3 ص 199 _ مروج الذھب ج3 ص 35 چاپ سعادت
24_ طبرى ج6 ص 155
25_ استيعاب اسد الغابہ ج1 ص 386
26_ ابن اثير ج3 ص 15 ، طبرى ج 6 ص 170
27_ استيعاب ابن كثير
28_ مسند احمد ج4 ص 92
29_ صحيح بخارى ج3 ص 126
30_ ابن اثير ج3 ص 199 ، اغانى ج 16 ص 91 ، مستدرك ج4 ص 481 ، ابن كثير ج8 ص89 ، تہذيب ابن عساكر ج4 ص 226
31_ استيعاب ج2 ص 373، اسد الغابہ ج3 ص 306 ، اصابہ ج2 ص 400
32_ استيعاب ج2 ص 373
33_طبرى ج5 ص 11
34_ اسد الغابہ ج3 ص 284 ، طبقات ابن سعد ج5 ص 1 ، صحيح بخارى ج3 ص 11
35_ بلاغات النساء ص 8 ، تذكرة الخواص
36_ ابن اثير ج3 ص 218 ، عقد الفريد ج3 ص 131
37_ طبرى ج6 ص 160 _ 155
38_ طبقات الكبرى ج8 ص 73
39_ مقاتل الطالبين ص 75 ، يعقوبى ج2 ص 200
40_ يعقوبى ج2 ص 200 كے بعد
41_ حلية الاولياء ج2 ص 48
42_ حلية الاولياء ج2 ص 47
43_ ابن كثير ج7 ص 137 ، سير اعلام النبلاء ج2 ص 131
44_ طبقات الكبرى ج5 ص 18
45_ ابن كثير ج8 ص 136
46_ مسند احمد ج6 ص 77
47_ طبقات ج7 ص 99
48_ عقد الفريد ج4 ص 217
49_ طبرى ج4 ص 192 ، اغانى ج 16 ص 10
50_ اسد الغابہ ج4 ص 261 ، اغانى ج 14 ص 211
51_اسد الغابة ، استيعاب حجر كے شرح حال ميں