معاويہ نے كہا :اخر ہم ايك ايسى سر زمين پر رہتے ہيںجہاں دشمن (روميوں ) كے جاسوس زيادہ ہيںلہذا ضرورى ہے كہ ہم سطوت وشكوہ كامظاہرہ كركے ان پر اپنا رعب و دبدبہ قائم ركھيں تاكہ يہ لوگ ہم سے خوف كھائيں (1)
عمر كازمانہ حكومت ختم ہو گيا ،اور تخت خلافت پر عثمان براجمان ہوئے تو انھوںنے دمشق كے ساتھ تمام
شامى علاقہ معاويہ كے حوالے كر ديا جو اج شام ،فلسطين ،اردن ،اور لبنان كاعلاقہ ہے _
معاويہ اپنے امور ميں پو رى طرح ازاد ہو گيا، معاويہ نے اپنى عادت كے مطابق جو انھيں جاہلى انداز كى تر بيت ہوئي تھى حكومت كو بھى جاہلى انداز پر ڈھالنا شروع كيا ،انھيںانكى منحوس خواہشوں پر بندش عائد كرنے والاكوئي نہيں تھا _
ان كى مطلق العنانى كے كچھ نمونے يہ ہيں جوبزر گ خزرجى صحابى رسول (ص) عبادہ ابن صامت كے ساتھ پيش ائے ،عبادہ ان بارہ افراد ميںتھے جنھوں نے بيعت عقبى ميںشركت كى تھى اور نفساء كے افتخار اميز لقب كى ايك فرد تھے ،يہ مدينہ كے اولين مسلمانوں ميں شامل تھے يہ ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے رسول اكرم (ص) كے زمانے ميں قران جمع كياتھا
عمر ابن خطاب نے اس عظيم صحابى كو يزيد ابن ابوسفيان كے زمانے ميں شام والوں كو قران كى تعليم دينے كے لئے بھيجا ،وہ يزيد كى موت تك شہر حمص ميں رہے ،يزيد كے مرنے كے بعد جب معاويہ ا ن كا جانشين ہو ا تو ان كى سر كردگى ميں رومى علاقوںسے جنگ كے لئے فوج بھيجى گئي ، اہلسنت كے مشہور اور عظيم محدث اپنى كتاب، صحيح مسلم ميں نقل كرتے ہيں كہ ،ايك اسلامى جنگ ميں معاويہ اور عبادہ دونوں شريك تھے ،جنگ فتح ہوئي اور ڈھير سارامال غنيمت ہاتھ ايا اس مال غنيمت ميں سونے اور چاندى كے بہت سے ظروف بھى تھے، معاويہ نے حكم دياكہ ان ظروف كو بيچ كر اسكى قيمت مسلمانوں ميں تقسيم كردى جائے ،لوگ برتنوںكوخريدنے كے لئے جمع ہوئے اورا نھيں ظروف كے مقدار ميں مساويانہ حيثيت سے قيمت معين ہوئي ،جب اس حادثہ كى خبر عبادہ كو پہنچى تو اپنى جگہ سے اٹھ كر اعلان كرنے لگے كہ ميں نے رسول خدا(ص) سے سناہے كہ سونے كے بدلے سونااور چاندى كے بدلے ميں چاندى مساويانہ حيثيت كے علاوہ كسى دوسرى طرح خريدنے پرمنع فرماياہے جوزيادہ قيمت دے گا وہ سود ميں گرفتار ہوگا _
اس حديث كو سننے كے بعد لوگوں نے اپنى اضافى قيمت واپس لے لى _
جب معاويہ كو معلوم ہو ا تو سخت غصہ كى حالت ميں تقرير كى _
لوگوں كو كيا ہو گيا ہے كہ حديث رسول بيان كرنے لگے ہيں ،ہم بھى انحضرت(ص) كے ساتھ رہے اور انھيں ديكھا ہم نے كبھى ايسى حديث نہيں سنى _
يہ سن كر عبادہ نے اپنى بات كو دوبارہ كہا پھر اضافہ كيا كہ ہم نے جو كچھ حديث رسول(ص) سنى تھى وہ تم لوگوں كو سنادى چاہے معاويہ اس سے ناخوش ہوں ياراضى نہ ہوں _
ايك دوسرى روايت كے مطابق انھوں نے كہا كہ چاہے معاويہ اس سے ناخوش ہى ہوں مجھے اسكى پرواہ نہيں ہے كہ ايك رات بھى معاويہ مجھے اپنے لشكر ميں قبول نہ كرے (2)
احمدبن حنبل اور نسائي كى روايت كے مطابق عبادہ نے كہا كہ خداكى قسم ہم نہ كسى سے متاثر ہوئے ہيں اور نہ ہى ہونگے ،ہم اس سر زمين پر ايك شب بھى نہيں رہينگے جہاں معاويہ رہے گا (3)
صاحب اسد الغابہ اور سير اعلام النبلاء نے عبادہ كے حالات لكھتے ہوئے اس مسئلے كو يوں بيان كيا ہے كہ عبادہ نے معاويہ كے كچھ امور سے سر پيچى كى اور ان امور كو قوانين اسلامى كى صريحى خلاف ورزى بتايا ، پھر كہا كہ ميں اورتم ايك سر زمين پر ہر گز نہ رہيں گے ، پھر وہ شام سے كوچ كر كے مدينہ اگئے عمر ا س وقت تك خليفہ تھے ،پوچھا كہ مدينہ كيوں واپس اگئے ؟عبادہ نے معاويہ كى نا شائستہ حركتوں كو بيان كيا گيا ، عمرنے كہا اپنى جگہ واپس جائو ، خدا و ند عالم اس زمين كو غارت كر ے جہاں تم اور تمھارے جيسے لوگ نہ رہيں ، اسكو ، تم پر حكمرانى كرنے كا حق نہيں ہے (4)
ذہبى سير اعلام النبلاء ميں بيان كرتا ہے كہ ايك دن عبادہ بن صامت اور معاويہ مسجد ميں پہنچے ، اذان ہونے كے بعد خطيب منبر پر پہنچا ، اس نے خطبہ ميں معاويہ كى خوب تعريف كى عبادہ اپنى جگہ سے كھڑے ہوئے اور ايك مٹھى خاك خطيب كے منھ ميں ڈال دى ، معاويہ كو اس پر بہت غصہ ايا عبادہ نے معاويہ كى طرف رخ كر كے كہا ، كہ تو ا س وقت جبكہ ہم سر زمين عقبى پر رسول اكرم (ص) كے ہاتھوں پر اس بات كيلئے عہد و پيمان كر رہے تھے كہ جہاں بھى رہينگے حق قائم كر كے رہينگے ، تو ہمارے ساتھ نہيں تھا ہم نے يہ عہد كيا ہے كہ خدا كى راہ ميں كسى ملامت كى پرواہ نہ كرينگے ، رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب كسى كو ديكھو كہ رو در رو كسى كى مدح كر رہا ہے تو اسكے منھ ميں دھول جھونك دو (5)
ايك دوسرے دن معاويہ نے اپنى تقرير ميں مرض طاعون سے فرار كے سلسلے ميں كچھ باتيں كہيں ، عبادہ وہاں موجود تھے ، انھوں نے كہا كہ تيرى ماں ھندہ تجھ سے زيادہ دانا تر تھى ، معاويہ نے خطبہ تمام كيا پھر نماز پڑھى اور اپنے قصر ميں واپس جا كر عبادہ كو بلانے كے لئے ادمى بھيجا ، كچھ انصارى افراد شام ميں تھے جو عبادہ كے ساتھ ہو گئے ليكن حكومتى افراد نے ان لوگوں كو قصر ميں داخل ہونے سے روكا ، عبادہ اكيلے ہى معاويہ كے پاس پہونچے معاويہ نے ان سے كہا ، كيا تمھيں خوف خدا نہيں ہے اور اپنے امام سے شرم و حيا نہيں كرتے ، معاويہ نے امام سے خود، اپنے كو مراد ليا تھا _
عبادہ نے جواب ديا كيا تم نہيں جانتے كہ ميں نے شب عقبى رسول(ص) خدا سے عہد ليا تھا كہ اللہ كى راہ ميں ہم كسى سر زمين سے خوف نہ كھائينگے _
معاويہ اس دن نماز عصر كے لئے ايا نماز ختم كرنے كے بعد منبر تھام كر بولا ، اے لوگو ، ميں تم سے حديث بيان كرتا ہوں اور اپنے گھر واپس چلا جاتا ہوں ، پھر مجھے ايسى چيز ملتى ہے كہ عبادہ نے اسے دوسرى طرح سے بيان كيا ہے ان كى بات صحيح ہے تم لوگ انھيں كى پيروى كرو كيونكہ وہ مجھ سے زيادہ جانتے ہيں _
ان سارے حوادث ميں جن سے معاويہ كى نرمى كا اندازہ ہوتا ہے خلافت عمر كے زمانہ تك رہى كيونكہ وہ عمر كى سختى اور طاقت سے بہت ڈرتے تھے ، انكى تند مزاجى حد سے اگے بڑھنے كى اجازت نہيں ديتى تھى _
معاويہ و عثمان
معاويہ كى حالت عثمان كے زمانے ميں وہ نہيں تھى جو قبل كے دونوں خليفہ كے زمانے ميں تھى _
معاويہ، عثمان كے زمانے ميں پورى طرح مطلق العنان ہو كر تمام قانون و اخلاق كو بالائے طاق ركھ چكا تھا _
ثروت و اقتدار نے انھيں تما م اسلامى مسائل اور انسانى تقاضوں كو فراموش كر ديا تھا _
ابن عساكر اور ذہبى نقل كرتے ہيں كہ ، ايك دن عبادہ بن صامت دمشق كى سڑكوں سے گذر رہے تھے ، انھوں نے اونٹوں كى قطار يں ديكھيں جن پر شراب تھى ، پوچھا ، يہ كيا ہے؟ كيا روغن زيتون ہے ؟
لوگوں نے كہا _ نہيں _ يہ شراب ہے _ معاويہ نے اسے خريدا ہے ، انہيں كے لئے لے جائي جارہى ہے ، عبادہ بے دھڑك بازار سے ايك تلوار لائے اور شراب كى تمام مشكوں كو پھاڑ ڈالا _
ابو ھريرہ اس زمانے ميں شام ميں ہى تھے ، وہ رسول خدا (ص) كے زمانے ميں تو كسى گنتى ميں نہيں تھے ليكن بعد رسول (ص) خلافتوں كى پشت پناہى كيوجہ سے لائق صد احترام ہو گئے تھے ، معاويہ نے ايك شخص كو ابو ھريرہ كے پاس بلانے كے لئے بھيجا ،اور كہا كہ اپنے بھائي عبادہ كو كيوں نہيں روكتے ، وہ صبح صبح بازار ميں پہونچكر ذميوں كى اجيرن كر رہے ہيں ، راتوں كو مسجد ميں بيٹھ كر سوائے اسكے اور كوئي كام نہيں كہ ميرى چھتاڑ مچائيں_
ابو ھريرہ معاويہ كے كہنے سے عبادہ كے پاس جانے كے لئے گھر سے نكلے ، جس وقت ان سے ملاقات ہوئي تو بولے اے عبادہ ، تمھيں معاويہ سے كيا مطلب ، انھيں ان كے حال پر چھوڑ دو ان كے كاموں ميں مداخلت كيوں كر رہے ہو ، عبادہ نے كہا اے ابوہريرہ جس وقت ہم نے رسول(ص) خدا سے عہد و پيمان كيا تھا كہ اپكى باتوں پر توجہ ديں گے _
اور اپنى طاقت بھر امر بالمعروف اور نہى از منكر كرينگے ، تم تو اسوقت ہمارے ساتھ نہيں تھے ، ابو ھريرہ كو خاموشى كے سوا كچھ بس نہ چلا ، مجبور ہو كر معاويہ نے عثمان كو خط لكھا كہ عبادہ اہل شام كو خراب اور فاسد كر رہے ہيں يا تو اپ انھيں اپنے پاس بلايئےور انھيں انكے اقدامات سے روكئے يا پھر ميں ہى شام كو انكے اختيار ميں ديدوں عثمان نے انھيں لكھا كہ عبادہ كو شہر سے نكال دوتا كہ اپنے وطن مدينہ واپس اجائيں _
مورخين كا بيان ہے كہ جس وقت عبادہ مدينہ ائے اور عثمان كے پاس گئے تو عثمان اپنے گھر پر بيٹھے تھے ، اچانك انھوں نے سراٹھايا تو عبادہ كو اپنے سامنے كھڑا پايا ان سے بولے ، تمھيں ہم لوگوں سے كيا مطلب ، تم ہمارے امور ميں كيوں ٹانگ لڑا رہے ہو ؟
عبادہ وہيں لوگوں كے سامنے كھڑے ہو كر كہنے لگے ، ميں نے رسول اسلام كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے كہ ميرے بعد ايسے لوگ حكومت كرينگے جو اپنے عمل سے تمھيں منكرات اور نا شائستہ حركتوں كا رسيا بنا دينگے ، اور اچھائيوں كى تمہارى عادت ہو گى ، اسكو چھين لينگے ، ايسى صورت ميں ايسے پاپيوں كى اطاعت تمھارے لئے مناسب نہيں ، ديكھو ہو شيار ............. خدا كى راہ و روش سے اپنے كو گمراہ نہ كرنا _
ابن عساكر كى روايت كے مطابق ، ا س كے بعد مزيد كہا كہ اس خدا كى قسم جس كے قبضہ قدرت ميں عبادہ
كى جان ہے ، معاويہ اس گروہ كا ايك فرد ہے _
عبادہ كى باتيں سنكر عثمان نے پھر كچھ نہ كہا ، اورنہ كوئي اعتراض كيا (6)
معاويہ كى شراب خوارى اور اصحاب رسول (ص) سے نوك جھونك يا لڑائي جھگڑے كى داستان صرف عبادہ ہى تك منحصر نہيں ہے ، مورخين كا بيان ہے كہ :
عبد الرحمن بن سھل بن زيد انصارى جہاد ميں شريك ہونے كى غرض سے شام و دمشق گئے ہوئے تھے ، اس زمانے ميں جيسا ہم جانتے ہيں كہ معاويہ كى حكومت شام پر تھى ايك دن وہ راستے سے گذر رہے تھے كہ كچھ شراب كى مشكوں كو لے جاتے ديكھا _
اپنے نيزے سے تمام مشكيزوں كو پھاڑ ڈالا ، مشك كے ہمراہ جو غلام تھے ان سے ہاتھا پائي كرنے لگے ، يہاں تك كہ معاويہ كے پاس خبر پہونچى ، معاويہ نے اپنے كارندوں سے كہا ، انھيں چھوڑ دو ا ن كى عقل زائل ہو گئي ہے _
معاويہ كى بات عبد الرحمن سے بيان كى گئي تو بولے خدا كى قسم ميرى عقل نہيں مارى گئي ہے _ليكن رسول خدا (ص) نے ہميں حكم فرمايا ہے كہ شراب اپنے گھروں ميں ہرگز نہ لے جائيں،ميں قسم كھاتا ہوں كہ اگر ميں اس سر زمين پر رہونگا اور معاويہ كو وہ باتيں كرتا ہوا ديكھوں گا جن سے رسول خدا نے منع فرمايا ہے تو اسكا پيٹ پھاڑ دونگا، يا پھر اس راہ ميں جان ديدونگا (7)
مسند احمد بن حنبل ميں عبد اللہ بن بريدہ سے منقول ہے كہ :
ميں اپنے والد كے ہمراہ معاويہ كے يہاں گيا ، ہميں فرش پر بيٹھا يا گيا اور كھانے كے بعد شراب پيش كى گئي ، معاويہ نے اسكو نوش كيا ، پھر ايك شراب كا جام ميرے والد كو ديا ليكن ميرے والد نے انكار كرتے ہوئے كہا ، جب سے رسول اكرم (ص) نے شراب كو حرام كيا ہے اس دن سے ميں نے منھ كو نہيں لگايا ہے ()
معاويہ كى شراب نوشى كى اسكے علاوہ بھى ڈھير سارى داستانيں ہيں جنھيں ابن عساكر نے نقل كيا ہے(8) ، جنھيں اس سے زيادہ كى طلب ہو تو اسكى معتبر كتابوں كى طرف رجوع كريں _
ابوذر معاويہ كے مقابل
انہيں عثمان كے زمانے ميں معاويہ سے مشہور اور بزرگ جرى صحابى رسول حضرت ابوذر كى سخت محاذ ارائي ہوئي ، اسكى تفصيل تو طوالت چاہتى ہے ليكن ہم نا گزير طور سے ا س كا مختصر تذكرہ كر رہے ہيں ، مورخين كا بيان ہے كہ ابوذر ان پاكباز مسلمانوں ميں ہيں جو زمانہ جاہليت ميں بھى توحيد پرست تھے وہ خدا كو يكتا مانتے تھے جاہلى عہد ميں وہ بت پرستى سے متنفر رہے (9)
جب انھيں خبر ملى كہ مكے ميں پيغمبر اخر كا ظہور ہوا ہے تو لپك كر مكہ پہونچے وہ پانچويں يا چوتھے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول كيا _
انہوں نے مسلمان ہونے كے دوسرے دن مسجد الحرام ميں جاكر مشرك قريش كے سامنے بلند اواز سے اپنے اسلام كا اظہار فرمايا ، ان پر قريش نے چاروں طرف سے حملہ كيا اور ا س قدر زد و كوب كيا كہ لہو لہان ہو كر بيہوش ہو گئے ، اگر رسول اكرم (ص) كے چچا عباس مدد كو نہ پہونچتے تو ممكن تھا كہ لوگوں كى اذيت سے مر جاتے ، كچھ دير بعد زخمى حالت ميں تھكے تھكے اپنى جگہ سے اٹھے ايك كونے ميں گئے تاكہ زخموں كو دھوئيں اور اذيت و تكليف كم كر سكيں _
دوسرے دن بھى ابوذر مسجد الحرام ميں ائے اور بلند اواز سے خدا كى يكتائي اور محمد (ص) كى رسالت كا اعلان كيا ، انھيں حق كى راہ ميں كسى قسم كا خوف و ہراس نہيں تھا ، دوسرى بار بھى لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور پہلے دن كى طرح زد و كوب كر كے لہو لہان كر ديا _
ا س كے دوسرے دن بعد اپ حكم رسول (ص) سے اپنے وطن واپس چلے گئے تاكہ وطن والوں پر اپنے اسلام كا اظہار كر كے
تبليغ كر سكيں ، ابوذر اپنے قبيلہ غفار ميں پلٹ گئے اور انھيں قبول اسلام پر امادہ كرنے كى بہت كوشش كى اسى طرح كئي سال گذر گئے يہاں تك كہ انھوں نے خبر سنى كہ رسول(ص) اسلام مدينہ ہجرت كر گئے ہيں اور وہاں شان و شوكت بڑھ گئي ہے ، انھوں نے دوبارہ رخت سفر باندھا اور اپنے كاشانہ كو خير اباد كر كے اپنے خليل كے جوار ميں جانے كا قصد كيا تاكہ انھيں كے زير سايہ سكون پائيں ، ا پ كى ہجرت جنگ خندق كے بعد ہوئي ہے ، ا س كے بعد تو انھوں نے ايك لمحے كے لئے بھى رسول اكرم (ص) كا ساتھ نہيں چھوڑا اپنى صلاحيت بھر انھوں نے انحضرت(ص) سے علم و روحانيت كے خرمن سے كسب فيض كيا ، انھوں نے ا س قدر خلوص كا مظاہرہ كيا ، اس قدر عبادت و رياضت كى اس قدر ذكر و فكر ميں اپنا سر كھپايا كہ محبوب ترين اصحاب رسول (ص) ميں شمار كئے جانے لگے _
پيامبر اكرم (ص) نے بہت سى احاديث صحيح ميں اپكى ستائشے فرمائي ہے
1_ وما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء من ذى لہجة اصدق من ابى ذر _ ترجمہ : نہ نيلگوں اسمان نے سايہ كيا اور نہ زمين نے بوجھ اٹھايابوذر ايسے سچے انسان كا _
2_ جنگ تبوك ميں ابوذر لشكر اسلام سے پيچھے رہ گئے تھے ، كيونكہ اپكا اونٹ بہت ہى كمزور تھا لہذا اس نے اپكا ساتھ نہيں ديا ، ناچار ،وہ سوارى سے اتر پڑے اور ايسے ا س كے حال پر چھوڑ كر اپنا سامان پشت پرلادا ، اور پيادہ ہى لشكر اسلام سے ملحق ہو نے كے لئے چل پڑے ، صحراء تپ رہا تھا ،ريگ زاروں ميں سوزش تھى اس لئے چلنے ميں بڑى تكليف ہو رہى تھى ، ليكن ابوذر كے سچے عشق و ايمان نے يہ كام بھى سہل و اسان بنا ديا تھا ، بڑى محنت اور كوشش كے بعد اپ نے اپنے كو لشكر اسلام تك پہونچايا ، جس وقت رسول (ص) نے اپ كو ديكھا كہ اكيلے ہى مجاہدان اسلام كى طرف چلے ارہے ہيں تو فرمايا : '' رحم اللہ ابا ذر، يمشى وحدہ و يموت وحدہ و يبعث وحدہ ''
ترجمہ : خدابوذر پر رحمت نازل كرے وہ اكيلے چليں گے ، اكيلے مرينگے ، اور اكيلے ہى مبعوث ہو نگے_(10)
جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو جب تك انھوں نے اپنے رشتہ داروں كى منھ بھرائي نہيں كى ، چند سال تك اسى طرح حكومت كرتے رہے جيسے ابو بكراور عمر كى حكومت تھى _
قريش كے معزز لوگ ان سے راضى تھے ليكن جس روز سے بنى اميہ كے لوگ حكومت ميں نفوذ پيدا كرنے لگے تو تمام سرداران قريش طلحہ ، زبير ، عمر وعاص اور ان كے ہم خيال افراد عليحدہ ہو گئے ،معاشرتى حالت منقلب ہو گئي ، اپنے داماد مردان كو بہت بڑا تحفہ افريقہ كى تمام امدنى دے ڈالى اپنے دوسرے چچيرے بھائي جنكا نام حارث بن حكم تھا بيس ھزار درہم بخش ديا ، اپنے ايك ہواہ خواہ زيد بن ثابت انصارى كو ايك لاكھ درہم ديديا ، اس زمانے ميں ابوذر نے اپنى عظيم ذمہ دارى كا احساس كيا كہ عام مسلمانوں كا مال خطر سے دو چار ہے ، ابوسفيان كى تمنائوں كے مطابق جاہلى حكومت واپس ارہى ہے ، انھوں نے قران كے فراموش شدہ احكام ياد دلا كر مسلمانوں كو غفلت سے چونكا يا ، انھيں احساسات كى بناء پر اپ نے اس ايت كو اپنا شعار قرار ديا ،'' الذ ين يكنزون الذ ھب و الفضة ولا ينفقونھا فى سبيل اللہ فبشرھم بعذاب اليم ''سورہ توبہ ايت34
ترجمہ : جو لوگ سونے و چاندى كو ذخيرہ كرتے ہيں اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہيں كرتے پيغمبر اپ انھيں دردناك عذاب كى بشارت ديديں _
اپ كا روئے سخن بنى اميہ كى طرف تھا ، جو مسلمانوں كے بيت المال كو ذاتى جا گير سمجھ بيٹھے تھے اور بڑے اطمينان سے استفادہ كر رہے تھے جسے چاہے ديديتے، محل كى تعمير كر رہے تھے نيز بخشش و اسراف كر رہے تھے ، ابوذر كى باتيں ناگزير طور پر اموى خلافت كے متضاد تھيں ، ابوذر اور عثمان كے درميان تلخ كلامى بڑھنے لگى ، عثمان نے ديكھا كہ ابوذر جيسے سچے اور خدا ترس مجاہد اسلام سے چھٹكارا پانا مشكل ہے وہ كسى حالت ميں بھى جاہلى رسموں كو اسلام كے زير سايہ پروان چڑھتے برداشت نہيں كرينگے ، كبھى اسكى تائيد نہ كرينگے ، عثمان نے ابوذر كو حكم ديا كہ شام چلے جائيں وہاں مسلمانوں سے روميوں كى جنگ ہو رہى تھى ، شايد ابوذر وہاں جا كر جنگ ميں الجھ جائيں اور خلافت كو اس سے نجات مل سكے ، ليكن شام ميں كون حكومت كر رہا تھا معاويہ ، جو بنى اميہ كى فرد تھا گھنگھور جاہليت كا نمائندہ ، پكا منافق جو اسلام كا لبادہ اوڑھے ہوا تھا ، نا چار وہاں بھى ابوذر امر بالمعروف اور نہى از منكر سے باز نہيں ائے ، معاويہ جيسا كہ بيان كيا گيا ، جاہليت كا ركن بزرگ تھا جو عثمان كى مدد سے ايك وسيع و عريض مملكت اسلامى پر حكومت كر رہاتھا ، وہاں بھى جھڑپ نا گزير تھا ، ابوذر نے وہاں معاويہ كى غير اسلامى حركتوں ، مطلق العنانى اور كافرانہ حركتوں پر ٹوكا اور منع كيا _
ايك دن معاويہ نے ان كے پاس تين سو دينار بھيجے ، ابوذر نے معاويہ كے فرستادے كو ديكھا جو سونے كے تين سو دينار لايا تھا ، اس سے فرمايا ، اگر يہ رقم بيت المال سے سالانہ وظيفہ ہے جس سے سال گذشتہ محروم ركھا گيا تو اسكو قبول كرتا ہوں ، ليكن يہ ہديہ اور تحفہ ہے تو مجھے اس كى ضرورت نہيں ہے _
جس گھڑى معاويہ اپنا عالى شان محل بنوا رہا تھا ، وہ قصر بہت عظيم اور سنہرا ،پتھروں سے تعمير ہو رہا تھا ، ا س وقت تك اسلام ميں ايسا كوئي قصر نہيں تھا ، وہ اسلامى عہد ميں جاہلى ہوا پرستى كا نمونہ تھا ، ابوذر صدائے فرياد بلند كرنے لگے ، انھوں نے معاويہ كو مخاطب كر كے فرمايا اے معاويہ ، اگر اس قصر كو بيت المال سے تعمير كروا رہا ہے تو قطعى طور پر تم نے خيانت كى ہے ، كيونكہ ايسے اموال كو مسلمانوں اور اسلام كى فلاح و بہبودى ميں خرچ ہونا چاہئے ، يہ كسى كى مخصوص ملكيت نہيں ہے ، ليكن اگر يہ خود كا مال ہے تو اسراف و زيادتى كيا ہے، ارے ايك شخص اپنے رہنے كے لئے اتنا بڑا قصر بلا وجہ بنو ارہا ہے ، معاويہ كى بولتى بند تھى ، ابوذر ہميشہ مضبوط منطقى بنيادوں پر خطابت فرماتے تھے _
ابوذر نے بارہا فرمايا ، خدا كى قسم ، تو ايسى حركات كا مرتكب ہو رہا ہے جسكا نمونہ نہ تو اسلامى معاشرے ميں ہم نے ديكھا، نہ سنا _
قسم خدا كى _ يہ حركتيں نہ تو قران كے مطابق ہيں اور نہ ہى سنت كے مطابق ، خدا كى قسم ، ميں حق كو ديكھ رہا ہوں ،كہ بجھ رہا ہے ، باطل زندہ ہوتے ديكھ رہا ہوں سچوں كى تكذيب كى جا رہى ہے ، نالائقوں اور اواروں كو سر بلندى مل رہى ہے ، امير المومنين (ع) جسيے صالح اور نيك كردار كو خانہ نشينى پر مجبور كيا جا رہا ہے (11)
لوگ اس بوڑھے خير خواہ كے گرد خدا و مخلوقات كى رضا كے لئے جمع ہو گئے ، تاكہ اسكى دل سے نكلى باتيں جو خدا و اسلام كے دفاع سے ميں ان سے فائدہ اٹھا سكيں ، ليكن كيا معاويہ جيسا طاغوت اسكى اجازت دے سكتا تھا ، اس نے اعلان كرا ديا كہ ، اے لوگو كوئي شخص ابوذر سے ملاقات نہ كرے نہ انكى صحبت ميں بيٹھے _
كيونكہ وہ اسلام كے معدودے چند مخلصوں ميں تھے جو شام كى سر زمين پر زندگى گذار رہے تھے اسلام نہ تو جاہليت سے سمجھوتہ كر سكتا ہے نہ جاہليت اسلام سے
ايك مورخ لكھتا ہے: معاويہ نے شب كے سناٹے ميں ايك ہزار دينار ابوذر كے پاس بھيجا ، انھوں نے اسى رات تمام ديناروں كو فقراء ميں تقسيم كر ديا ، كيونكہ روح زاہدانہ اور تربيت اسلامى اس كى متقاضى نہيں تھى كہ مال دنيا كو دوست ركھے ، صبح سويرے جب معاويہ نماز كے لئے ايا تو اس نے اس فرستادے كو بلايا كہ تيزى سے جائو اور ابوذر سے كہو كہ مجھے معاويہ كے عذاب و شكنجہ سے نجات ديجئے ، ميں نے غلطى سے گذشتہ شب دوسرے كا پيسہ اپ كى خدمت ميں پيش كر ديا تھا ، ميں چاہتاہوں كہ اپ اسكو مجھے واپس كر ديں تاكہ اصلى جگہ پر پہونچا سكوں اور معاويہ كى سزا سے بچ سكوں _
ابوذر نے فرمايا ، اس سے كہو كہ ابوذر نے كہا ہے كہ خدا كى قسم اس صبح كے اجالے تك اسميں كا ايك پيسہ بھى باقى نہيں بچا ہے تم مجھے تين دن كى مہلت دو تاكہ فقراء سے وہ پيسہ واپس لے سكوں معاويہ نے سمجھ ليا كہ يہ شخص صرف كہتا ہى نہيں ہے بلكہ پہلے ہى مرحلے ميں اقدام كر بيٹھتا ہے ، اسكى گفتار عمل سے ہم اھنگ ہے _
يہى وجہ تھى كہ معاويہ ابوذر سے خوف كھانے لگا ، اكيلے ابوذر معاويہ كو لرزہ بر اندام كر رہے تھے _
كيونكہ وہ اسلام شناس اور اس پر عمل بھى كرتے تھے _
اس وقت معاويہ نے مجبور ہو كر اپنے رہبر سے پناہ مانگى اور اس نے عثمان كو لكھا كہ ، اگر تمہيں شام اور اسكے باشندوں كو بچانا ہے تو ابوذر كو اپنے پاس بلا ليجئے كيونكہ انھوں نے لوگوں كے سينے كينے سے بھر ديئے ہيں (12)
بقول بلاذرى كے، كہ عثمان نے جواب خط ميں لكھا ، ابوذر كو ايك سخت و سر كش سوارى سے مدينہ بھيج دو ، وہ بوڑھے صحابى ايك سر كش سوارى پر زبر دستى سوا ر كئے گئے ، رات دن بغير كہيں دم لئے مدينہ كى طرف ليجائے گئے راستہ بہت طويل اور تھكا دينے والا تھا ، صحراء خشك اور ريگ زاروں سے بھرا ہوا ، كارندے ہر قسم كے انسانى جذبات رحم سے عارى تھے (13)
يعقوبى نے مزيد تفصيل لكھى ہے كہ ، عثمان كا يہ سخت فرمان اس بندہ خاص پر نافذ كيا گيا ، نتيجہ يہ ہوا كہ جس وقت وہ مدينہ پہونچے تو ران كا گوشت اڑ چكا تھا (14)
مسعودى لكھتا ہے كہ :اپكو اس شتر پر سوار كيا گيا جس پر صرف ايك سوكھى لكڑى تھى پانچ سنگ دل ادمى صقالبہ سے ان كے ساتھ ہوئے جو سوارى كو بڑى تيزى سے ہنكا رہے تھے ، اسى طرح انھيں مدينہ تك لے جايا گيا اپ كى ران سخت زخمى ہو چكى تھى ، گوشت اڑ چكا تھا ، نتيجہ يہ كہ اپ پر يہ چنددن ايسے گذرے كہ بالكل مردہ حالت ميں ہو گئے تھے _
ليكن يہ دلير ايسا نہ تھا كہ ان ہوائوں سے لرز جائے نہ اپنے بارے ميں قران و اہلبيت كى ذمہ داريوں كو فرموش كر جائے ، وہ پہاڑ كى طرح ڈٹے رہے جسے كوئي حادثہ اسكى جگہ سے ٹس سے مس نہ كر سكا اسى طرح وہ مدينہ تك گئے ، وہ چلانے لگے عثمان نے جاہلى عہد پلٹا ديا ہے وہ كہہ رہے تھے چھو كروں كو حكومت ديدى گئي ہے حكومت كى جا گير يں اپنى خاص ملكيت بنا لى ہيں ، فتح مكہ كے طلقاء كى عزت افزائي كى جا رہى ہے انكو حكومت ميں خاص تقرب حاصل ہے _
اس مرد خدا كى يہى سزا تھى كہ ربذہ جلا وطن كر ديا جائے ، وہ سخت اور خشك صحراء نہ اب و گياہ نہ چارہ ، وہيں پر ابوذر نے اسلام سے قبل زندگى گذارى تھى ، انھيں ربذہ سے سخت نفرت تھى _
اس كے بعد ابوذر كى تمام زندگى ربذہ ميں گذرى وہ اخرى سانسوں تك اسى ہولناك بيابان ميں رہے ، اخر كار اپنى زوجہ اور فرزند ذر كى موت كے بعد بھوك اور بيمارى كيوجہ سے موت كے منھ ميں پہونچ گئے ، موت كے وقت انكے سرہانے صرف انكى بيٹى تھى مورخين كے بيان كے مطابق ابوذر نے ايك سال شام ميں گذارے ، وہ 29ھ ميں شام سے جلا وطن كئے گئے 30ھ ميں معاويہ نے عثمان سے شكايت كى پھر انھيں اس اندوہ ناك طريقے سے جسكو اوپر بيان كيا گيا ، مدينہ روانہ كيا گيا ، پھر وہ اسى سال ربذہ تبعيد كر ديئے گئے ، وہيں ربذہ ميں انھوںنے 31ھ يا 32 ھ ميں وفات پائي _
تاريخ اسلام كا ايك افسانہ
جو كچھ ہم نے گذشتہ صفحات ميں حضرت ابوذر كى زندگى اور انكى مدينے سے شام اور شام سے مدينہ اور مدينہ سے ربذہ كى جلا وطنى بيان كيا يہ سب اصل ميں صحيح ترين روايات كا خلاصہ تھا جسے مورخوں نے ہمارے حوالے كيا _
ليكن جو كچھ طبرى اور انكے پير و كاروں ، ابن اثير ، ابن كثير ، ابن خلدوں ، ابوالفداء ، وغيرہ نے اس بارے ميں جو كچھ روايات كو سيف بن عمر كوفى سے حاصل كيا ہے جو تاريخ كا سب سے بڑا مكار اور جھوٹى روايتيں گڑھنے والا ہے _
طبرى اور دوسرے مورخين نے اس سال كے تاريخى حوادث كو سيف ہى كے بناوٹى ذہن سے حاصل كيا ہے اور اپنى تاريخوں ميں اس جھوٹ كو بھر ديا ہے _
طبرى اپنى تاريخ ميں لكھتا ہے اس سال يعنى 30ھ ميں ابوذر كا واقعہ پيش ايا كہ انھيں معاويہ نے شام سے مدينہ جلا وطن كيا ، اس جلا وطنى كا سبب راويوں نے مختلف انداز سے بيان كيا ہے جنھيں بيان كرنا ميں مناسب نہيں سمجھتا _
ليكن جن افراد نے معاويہ كى صفائي ديتے ہوئے داستانى عذر تراشا ہے اسكى روايت سيف سے لى گئي ہے اور اس نے يزيد فقعسى سے روايت كى ہے ، فقعسى يہاں كہتا ہے كہ جس وقت ابن سوداء شام ميں وارد ہوا تو اسكى ابوذر سے ملاقات ہوئي اس نے كہا ، اے ابوذر كيا اپكو معاويہ كى حركتوں پر تعجب نہيں ہے كہ جو يہ كہتا پھررہا ہے كہ مال، اللہ كا مال ہے حالانكہ ہر چيز خدا كى ملكيت ہے _
پھر وہ اضافہ كرتا ہے گويامعاويہ چاہتا ہے كہ تمام عوامى مال اور بيت المال كى امدنيوں كو ہڑپ لے اور مسلمانوں كو اس سے محروم ركھے (15)
يہاں طبرى نے تاريخ اسلام كے ہيرو عبد اللہ بن سبا كو ابن سوداء كے لقب سے ياد كيا ہے جس كى بناوٹى و جعلى
افسانوں كو ميں نے اپنى دو جلدوں پر مشتمل كتاب عبداللہ بن سبا ميں بيان كيا ہے ، اگر قارئين كرام جذبہ ء مطالعہ ركھتے ہيں تو اس كتاب كى طرف رجوع كريں _
طبرى كے بعد جتنے بھى مورخين ائے ہيں كم و بيش سب نے اس كى پيروى كرتے ہوئے اس خيالى شخص كے بارے ميں اسى سے نقل كيا ہے مثلا ابن اثير جو ساتويں صدى ہجرى كے مشہور مورخ ہيں اپنى كتاب ميں رقمطراز ہيں كہ ، اسى سال 30ھ ميں ابوذر كى جلا وطنى كا حادثہ جو معاويہ كے ہاتھوں پيش ايا ، انھوں نے انھيں شام سے مدينہ جلا وطن كيا اس بارے ميں اور اسكى وجوہات كے سلسلے ميں بہت سى باتيں كہى گئيں ہيں ،ان ميں يہ ہے كہ معاويہ نے ابوذر كو بہت زيادہ برا بھلا كہا اور ڈرايا دھمكايا ، معاويہ نے انھيں بے كجاوہ او نٹ پر سوار كر كے مدينہ بھيجا وہ مدينہ اس ناگوار حالت ميں پہونچے جس كا بيان كرنا مناسب نہيں
اگر يہ تمام واقعات صحيح ہيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ عثمان كے لئے عذر تراشى كى جائے مثلا يہ كہ امام و پيشوا كو اپنى رعيت كى تاديب كرنى چاہيئے يا اسى طرح كا كوئي عذر تراشا جائے _
نہ يہ كہ اس طرح كے واقعات كو بيان كر كے عثمان پر لعن و طعن و تنقيد كى جائے ، اس قسم كے واقعات كا بيان كرنا ميں مناسب نہيں سمجھتا ليكن معاويہ كى صفائي دينے والوں نے اس بارے ميں بہت سى صفائي دى ہے اور وہ كہتے ہيں كہ (16)
اس كے بعد وہ جھوٹے اور خيالى ہيرو عبد اللہ بن سبا كى داستان سيف بن عمر كى زبانى طبرى سے نقل كرتے ہيں ، يہ وہى حركت ہے جو ابن كثير و ابن خلدون اور دوسرے لوگوں نے كى ہے _
ليكن جب ہم طبرى كى باتوں پر رجوع كرتے ہيں تو ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ابوذر كے ساتھ پيش انے والے بے شمار حوادث كو غلط اور جعلى ہونے كيوجہ سے نہيں چھوڑا ہے، بلكہ صرف اس وجہ سے بيان كرنا پسند نہيں كرتا كہ وہ نہيں چاہتا ہے كہ اصحاب رسول (ص) ميں عثمان و معاويہ جيسے افراد كا كہيں دامن، داغدار نہ ہو جائے _
اسى لئے وہ عذر تراشى كرنے اور صفائي دينے والوں كے سراغ ميں جاتا ہے اور اپنى تاريخ كى بڑى كتاب كو
جھوٹى خبروں اور افسانوں سے بھر ڈالتا ہے ، ان روايتوں كو اس نے خود بنام قصہ ياد كيا ہے اس طرح انے والى نسل كے لئے حقيقت كا دروازہ بند كر ديتا ہے اور ابوذر جيسے پاك نفس صحابى رسول كو اندھيرے ميں ڈال ديتا ہے _
قرن وسطى كا بزرگ مورخ ابن اثير بھى اسى كى ڈگر پر چلا اور اس نے اس عظيم جنايت اور تاريخ كى دلسوز حقيقت كو طبرى كے حوالے سے لكھ مارتا ہے ، ابن اثير نے بہت سى باتيں لكھنے كے بعد اسكے اسناد اور حوالوں كى تضعيف نہيں كى ہے ، انھيں بہت تفصيل سے لكھ مارا ہے ، كيونكہ وہ سمجھتا ہے كہ اس قسم كى باتوں كا بيان كرنا مناسب نہيں كيونكہ انھيں نقل كرنے سے خلفاء اور اموى حكمرانوں كا دامن داغدار ہوتا ہے _
ليكن ہم اج نہ تو عيب جوئي كے پيچھے پڑے ہيں نہ بلاوجہ كسى كى صفائي پر تلے ہيں بلكہ صرف حوادث تاريخ كى واقفيت اور اسكى جستجو ميں ہيں تاكہ علم و دانش كى خدمت كر سكيں ، ليكن ہم ان تاريخ اسلام كے حقاےق كو چھپانے والے مورخين كو ہرگز معاف نہيں كر سكتے كيونكہ ان لوگوں نے اپنى اس حركت سے صرف خوشنودى خلفاء اور اموى حكمرانوں كى خدمت ہى كى ہے _
ابوذر كا واقعہ جيسا كہ ہم نے ملاحظہ كيا طبرى نے سيف سے نقل كيا ہے دوسرے تمام مورخين نے بھى يا تو سيف سے نقل كيا ہے يا طبرى كے واسطے سے نقل كيا ہے ، يہ داستان خود عبد اللہ بن سبا كے افسانہ كا جز ہے جو سيف ابن عمر كے فكر كى ساختہ و پرداختہ ہے ، ہم نے اس كتاب كى دوسرى جلد ميں افسانہ عبد اللہ بن سبا كا سند و اصل كے ذريعہ چھان بين كى ہے ، يہاں صرف اتنا اضافہ كرنا مناسب سمجھتے ہيں كہ ابوذر كا واقعہ زيادہ تر عبد اللہ بن سبا كے واقعہ ميں سيف پر انحصار كرتے ہوئے لكھا گيا ہے اور اس نے سارا ماجرا يزيد فقعسى سے نقل كيا ہے _
اب ہميں جاننا چاہيئے كہ يزيد فقعسى كون ہے ؟ اور اسكى روايت كيا ہے ؟
ہم نے اس شخص كو پہچاننے كے لئے تمام موجودہ كتب رجال و حديث و تاريخ و سيرت و انساب اور ادبيات اسلام كو كھنگال مارا ، اصولا اسكے بارے ميں كوئي چھوٹى سى روايت يا نام نہيں پايا ، سوائے ان روايتوں كے جنھيں طبرى و ذہبى نے سيف سے نقل كيا ہے اور وہ بھى چھ روايتيں ہيں پانچ تو طبرى كى ہيں اور ايك ذہبى كى تاريخ اسلام ميں ديكھى جا سكتى ہے ، اس سے زيادہ كچھ نہيں _
سيف متذكرہ روايات ميں داستان عبد اللہ بن سبا كو يزيد فقعسى سے نقل كيا ہے اس ميں ايك روايت ابوذر
كے واقعہ سے مخصوص قرار ديا ہے اس روايت ميں سيف نے عظيم صحابى اور پيغمبر كے دانائے راز ابوذر كو اتنا پست دكھايا ہے كہ وہ عبد اللہ بن سبا جيسے ايك مجہول يہودى كے زير اثر اگئے ، اور معاويہ اور دوسرے اموى حكمرانوں كے خلاف بغاوت پر امادہ ہو گئے اس طرح انھوں نے تمام مملكت اسلامى كوفتنوں ميں جھونك ديا _
ان روايات سے واضح ہوتا ہے كہ ان تمام ہنگاموں ميں امويوں كى كوئي ذرہ برابر غلطى نہيں ہے نہ معاويہ كى نہ عثمان كى اور نہ دوسرے حكمرانوں كى ، ان سب كا دامن برگ گل كى طرح پاك و صاف ہے _
ہم مدتوں تحقيق كے بعد داستان ابوذر اور عبد اللہ بن سبا كى سند سے اس نتيجہ تك پہونچے كہ ان سارى داستانوں كو مورخوں نے سيف بن عمر سے روايت كى ہے اور سيف اول درجے كا جھوٹا اور جعل ساز تھا ، اس نے اپنے ذہن سے ايك واقعاتى روايت گڑھ لى اور اس نے راوى كا يزيد فقعسى جيسے جھوٹے راوى كو بھى اختراع كر ليا ، كہ جعلى راوى فقعس كے قبيلے كا فرد ہے جو قبيلہ اسد كى شاخ تھى ،ليكن سيف نے اپنى تمام روايات ميں قبيلہ كا نام تو لكھا ہے ليكن اس كے باپ كا نام نہيں لكھا ہے جيسےاس كا كوئي باپ ہى نہيں تھا ، سچى بات تو يہ ہے كہ اس راوى كا باپ اور تمام ساختہ و پر داختہ صحابہ و راويان كے باپ جو داستان سيف كے پيرو ہيں يہ صرف سيف بن عمر تميمى كى اختراع ہيں اكيلے سيف كى اختراع وحدہ لا شريك لہ _
افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ تاريخ كے بزرگ علماء جيسے طبرى ، ابن اثير ، ابن عساكر ، ابن خلدون ، ابن عبد اللہ ،اور ابن حجر كے علاوہ دوسرے سب كے سب اپنى تاريخوں ميں سيف بن عمر كى جعلى روايتوں كو جو ايك نمبر كا جھوٹا مكار تھا اس سے ليكر بہت سے مسلمانوں كے عقائد كو اصحاب رسول (ص) كے بارے ميں گندہ كر ديا ہے _
اج ان افسانوں كى حيثيت ہو گئي ہے اور لوگ دين اسلام كو اسى راہ سے پہچان رہے ہيں ، كيا اج بارہ صدياں گذرنے كے بعد اجازت ہے كہ ہم ان افسانوں كو حديث اور تاريخ كى كتابوں سے نكال ديں ، تاكہ لوگوں كے لئے اصل اسلام كى پہچان اسان ہو سكے _
كوفے كے قارى شام ميں
معاويہ كى نوك جھونك صرف ابوذر غفارى و عبادہ جيسے افراد سے نہيں ہوئي تھى بلكہ اسكى خاص عادت يہ تھى كہ جو
بھى تھوڑا سا اسلام كى معلومات ركھتا تھا اس سے اختلاف كر بيٹھتا تھا اسى لئے اس نے كوفے كے ان قاريوں سے جو شام جلا وطن كر ديئے گئے تھے سخت جھگڑا كر ليا عظيم مورخ بلاذرى اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتے ہيں _
جب حكومت كوفہ سے عثمان نے وليد كو معزول كر ديا تو اسكى جگہ سعيد بن عاص كو منصوب كر ديا عثمان نے سعيد بن عاص سے كہا كہ كوفہ والوں سے اچھے انداز ميں پيش انا اور انكى خاطر و مدارات كرتے رہنا اور وليد كى طرح اہل كوفہ سے اختلاف كر، نہ بيٹھنا ، انہيں وجوہات كى بناء پر سعيد بن عاص بزرگان شہر اور قاريوں كے ساتھ ہر شب اٹھتا بيٹھتا تھا اور ان لوگوں سے گفتگو كيا كرتا تھا _
ايك دن سعيد بن عاص كے گھر سواد و جبل پر بحث چھڑى ، حاضرين نے سواد كى پيداوار كو جبل عامل پر ترجيح ديكر كہا كہ سواد ميں جبل ( لبنان ) كى تمام پيداوار كے علاوہ اس ميں خرما كے درخت بھى پائے جاتے ہيں _
دار وغہ شہر نے كہا ، اے كاش ان پيداواروں كا تعلق امير ( سعيد ) سے ہوتا كيونكہ امير ان زراعات و باغات كے ديكھ بھال كى صلاحيت بھى ركھتے ہيں _
مالك اشتر نے جواب ديا ، اگر امير كے لئے ارزو كرتے ہو تو ارزو كرو كہ انھيں اس سے بہتر باغات و زراعات نصيب ہو ليكن ہمارے اموال كو ان كے لئے ارزو نہ كرنا اور ا س كو اس كى حالت پر چھوڑ دو _
شہر كے داروغہ نے كہا ، انھيں اس ارزو نے كيا نقصان پہونچاديا كہ اس طرح كى تلخ كلامى كر رہے ہيں ، خدا كى قسم ،اگر امير نے ٹھان ليا تو ان تمام باغوں پر قبضہ كر سكتے ہيں _
مالك اشتر نے جواب ديا ، خدا كى قسم اگر ان باغات كو لينے كا ارادہ كر بھى ليں تو اس كو نہيں لے سكتے ہيں سعيد ابن عاص ان باتوں سے بہت غضبناك ہوا اور حاضرين سے مخاطب ہو كر كہا :
سواد كے باغات صرف قريشيوں ( قريش سے مراد بزرگان بنى اميہ و قبيلہ بنى تيم اور عدى نيز اسكے مانند جو مكہ ميں تھے بر خلاف انصار كے در اصل اہل يمن سے ہونگے ، اور مالك اشتر نيز اہل كوفہ اسى قبيلوں سے تھے ) كا مال ہے _
مالك اشتر نے غصے ميں كہا كہ ، تم چاہتے ہو كہ ہمارى جنگوں كے ثمرات اور جو كچھ خدا وند عالم نے ہميں نصيب فرمايا ہے اس كو اپنے خاندان اور اپنے قبيلوں ميں تقسيم كردو ، خدا كى قسم اگر كسى نے ان زمينوں كى طرف ترچھى
نگاہ سے بھى ديكھا تو اسكو ايسا مزہ چكھائوں گا كہ ڈر كے مارے بھاگ جائے گا (17)
اس بات كے بعد مالك اشتر داروغہ پر حملہ اور ہوئے ليكن اطرافيوں نے انكو پكڑ ليا _
سعيد بن عاص نے اس واقعہ كو عثمان كے يہاں خط لكھ كر تاكيد كيا كہ جب تك مالك اشتر اور انكے ساتھى ( جو قاريان كوفہ كے نام سے جانے جاتے ہيں كچھ نہيںجانتے اور ان كے پاس عقل بھى نہيں ہے ) اس شہر ميں رہينگے تو ہمارى كوئي ذمہ دارى نہيں رہے گى _
عثمان نے جواب ميں لكھا كہ ، ان تمام لوگوں كو شام بھيج دو ، قاريان كوفہ جنھوں نے سعيد سے جھگڑا كر ليا تھا كوفہ سے جلا وطن كر كے دمشق بھيج ديئے گئے _
معاويہ جو بہت چالاك تھا اس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے يہ كام كيا كہ ان قاريوں كا خير مقدم كر كے ان لوگوں كو اپنے قريب كر ليا ليكن حالات ہميشہ يكساں نہيں رہ سكتے تھے مالك اشتر اور ان كے دلير ساتھى دين شناس تھے جبكہ معاويہ مكار اور بے دين تھا اس صورت ميں ان سب كا ايك ساتھ رہنا ممكن نہيںتھا ، سر انجام جس دن كاانتظار تھا وہ دن اگيا ، مالك اشتر اور معاويہ كے درميان سخت كلامى ہوئي جسكى وجہ سے مالك اشتر كو رسى ميں جكڑ كے زندان ميں ڈال ديا گيا ، وہاں وہ طويل زمانے تك رہے مگر چھوٹنے كے بعد حالات نے اپنے اپ كروٹ لے لى كيونكہ مالك اشتر اور انكے ساتھى جو حاكم شام معاويہ سے دور ہو گئے تھے انھوں نے اہل دمشق كے ساتھ اٹھنا بيٹھنا شروع كر ديا ، اس كى خبر عثمان كو دى گئي كہ جو لوگ ہمارے يہاں ائے ہيں انھيں نہ عقل و شعور سے واسطہ ہے اور نہ ہى دين و مذہب سے لگائو ہے ان كا مقصد صرف فتنہ پرورى ہے ، مجھے انديشہ ہے كہ كہيں يہ لوگ يہاں رہ گئے تو فتنہ و فساد كو پھيلا دينگے ، اہل شام كو بغاوت پر امادہ كر دينگے ،ان لوگوں سے ان باتوں كو سيكھ لينگے جو ابھى تك نہيں جانتے ہيں ، شام والے بھى اہل كوفہ كى طرح فاسد اور اپنى اعتدال فكر كو كھو بيٹھيں گے _
عثمان نے سوچا كہ مالك اشتر اور ا ن كے ساتھيوں كو ايك دور افتادہ شہر كى طرف بھيجديا جائے تاكہ ان لوگوں كى چھاپ نہ پڑ سكے ، معاويہ نے ان تمام لوگوں كو شہر حمص بھيج كر عثمان كے حكم كى تعميل كى (18)
پہلى صدى كا مشھور مورخ مدائنى نقل كرتے ہيں :
ان لوگوں كى شام ميں معاويہ كے ساتھ نشست ہوئي تھى اس نشست ميں ايك دوسرے كو برا بھلا كہتے تھے _ منجملہ
ايك روز معاويہ نے يہ كہديا كہ ،قريش سے يہ بات ڈھكى چھپى نہيں ہے كہ ميرا باپ ابوسفيان قريش ميں سب سے زيادہ معزز اور با وقار تھا ، ليكن رسول (ص) كو نبوت مل گئي جو كسى اوركو نصيب نہ ہو سكى اگر تمام لوگ ابوسفيان كى اولاد ہوتے تو سب كے سب حليم و بردبار ہوتے _
صعصہ بن صوحان نے فورا جواب ميں كہا :
اے معاويہ تو جھوٹ بولتا ہے ، حضرت ادم ابوسفيان سے بہر حال بہتر تھے جو اللہ نے اپنے دست قدرت سے پيدا كيا ان ميں اپنى روح پھونكى فرشتوں كو سجدہ پر مامور فرمايا ، انكى اولاد ميں عقلمند بھى ہيں اور بيوقوف بھى اچھے بھى ہيں اور برے بھى پائے جاتے ہيں تمام ايك شكل كے نہيں ہيں (19)
جيسا كہ اپ نے ملاحظہ فرمايا ، معاويہ جس طرح ابوذر غفارى اور عبادہ جيسے صحابى رسول كے شام ميں رہنے سے كڑھتا تھاا سى طرح نہيں چاہتا تھا كہ تابعين اور قاريان قران اور نيك و صالح افراد اس شہر ميں رہيں ، اس مسئلے نے معاويہ كو اس قدر حيران و پريشان كيا كہ فورا خليفہ سوم سے شكوہ و شكايت كيا ، معاويہ كو اس بات كا خوف تھا كہ كہيں يہ لوگ حقائق اسلام كو جو لوگوں سے پنہاں كر ركھا ہے ان سے بيان نہ كر ڈاليں ، اگر يہ لوگ احكام خدا كو جان گئے تو پھر ہمارى قيصر و كسرى كى شان و شوكت اور خواہشات نفسانى خاك ميں مل جائے گى _
معاويہ عثمان كے بعد
جيسا كہ پہلے ملاحظہ كيا گيا كہ _ دولت كى جمع اورى اور عثمان كے رشتہ دار جو تمام اسلامى سر زمين پر قبضہ كئے ہوئے تھے ان كے جرائم نے تمام بڑے بلاد اسلامى كو فتنہ و اشوب كے سيلاب ميں گھير ليا تھا ، اور ناراض مسلمانوں نے مدينہ كے اندر عثمان پر عرصہ حيات كو تنگ كر ڈالا تو جس طرح خليفہ سوم نے تمام حكمرانوں اور واليان شہر كو خط لكھا اور ان
لوگوں سے مدد مانگى تھي، اسى طرح معاويہ كو بھى خط بھيجا اور اس سے مدد و نصرت طلب كى _
عثمان نے معاويہ كو اس طرح خط لكھا :
اہل مدينہ نے كفر اختيار كر ليا ہے اور اطاعت و پيروى كا قلادہ گردن سے اتار كر اپنى بيعت كو توڑ ڈالا ہے ، لہذا جتنا بھى ممكن ہو سپاہ شام كو ہمارى نصرت كے لئے جلد بھيج دو ، خط معاويہ كو ملا اس نے اچھے طريقہ سے حالات كو پڑھ ليا ، شايد اس انتظار ميں تھا كہ عثمان كے مرتے ہى تخت خلافت پر قبضہ ہو جائے گا ، اسى بناء پر عثمان كے تمام حقوق كے باوجود جو اسكى گردن پر تھے مدد پہونچا نے ميں كسى قسم كى جلدى نہيں دكھائي ، اور اپنى كوتاہيوں كى اس طرح توجيہ و تاويل كى كہ _ ہم مسلمين اور اصحاب رسول (ص) كى مخالفت سے راضى نہيں ہيں ، جب عثمان نے اپنے خط كے سلسلے ميں پہلو تہى ديكھى تو اہل شام كو خط لكھا اور ان سے درخواست كى كہ _ تم لوگ ہمارى نصرت كے لئے شہر سے نكلو _
بلاذرى لكھتے ہيں
جب عثمان نے معاويہ كو خط بھيجا اور اس سے مدد مانگى تو معاويہ نے يزيدابن اسد قسرى كى سر براہى ميں چھوٹى سى فوج مدينہ كى جانب روانہ كى ، اور يزيد بن اسد قسرى كو كہا كہ جس وقت تم سر زمين ذا خشب پر پہونچنا تو اسى مقام پر پڑائو ڈالدينا اور اسكے اگے نہ بڑھنا ، كبھى اپنے ذہن ميں بھى نہ لانا كہ ہم پائے تخت اسلامى كے حوادث و واقعات سے باخبر نہيں ہيں اور معاويہ كى عدم موجودگى ميں تمام چيزيں ڈھكى چھپى ہيں ، درانحاليكہ ہم با خبر بھى ہيں اور موجود بھى ؟ لشكر اپنے سربراہ كے ساتھ مدينہ كى طرف روانہ ہوا ، جب مقام ذاحشب پر پہونچا تو يہيں پر ٹھر گيا ، اور اس قدر دير لگائي كہ عثمان لوگوں كے ہاتھوں سے مار ڈالے گئے ، جب پانى نيزے سے اتر گيا اور فتنہ و اشوب فرو ہوگئے تو معاويہ نے يزيد بن اسد كو لشكر كے ہمراہ واپس بلواليا _
تيسرى صدى كا معتبر مورخ بلاذرى كا كہنا ہے كہ ، معاويہ نے بغير سوچے سمجھے ايسا نہيں كيا تھا وہ چاہتا تھا كہ عثمان اس حادثہ ميں مار ڈالے جائيں ، پھر اسكے بعد اپنے كو بھتيجے كى حيثيت سے خلافت و حكومت كا حقدار ثابت كر دے (20)
ليكن جب كہ اپ جانتے ہيں كہ ايسا نہيں ہوا اور لوگ امير المومنين (ع) كے گرد جمع ہو گئے اور ان كو خليفہ تسليم كر ليا ، جب حضرت على (ع) كے ہاتھوں پر بيعت ہو گئي تو معاويہ جس نے عثمان كى مدد كرنے ميں كوتاہياں كى تھيں بہت شرمندہ ہوا ، كيونكہ اب تخت خلافت بہت دور نظر انے لگا ، لہذا ايك نئي چال چلى كہ طلحہ و زبير كو مخفيانہ طور پر خط لكھا اور اس خط ميں كچھ ايسى باتيں تحرير كيں تاكہ ان دونوں كے دل خلافت كى چٹكياں لينے لگيں ، كيونكہ يہ دونوں ہوا پرست اور خلافت عثمان كے زمانے ميں دولت و ثروت كى چاشنى بھى چكھے ہوئے تھے ، اسى بناء پر يہ دونوں معاويہ كے دام فريب ميں اگئے (21) _
معاويہ كا نقشہ يہ تھا كہ ان دونوں كو جوان دنوں صاحب نفوذ و رسوخ سمجھے جاتے تھے ، حضرت امير المومنين سے جنگ كرنے پر ابھاردے ، البتہ خليفہ مظلوم اور قصاص خون عثمان ان دونوں كے لئے اچھا بہانہ تھا ، طلحہ و زبير نے معاويہ كى مكارانہ چال ميں اكر خونبار جنگ جمل برپا كر دى _
جيسا كہ پہلے بيان كيا گيا ہے كہ اغاز جنگ ميں طلحہ مار ڈالے گئے اور زبير نے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لى تھى اور مرد تميمى كے ہاتھوں بے رحمانہ قتل كر ديئے گئے (22)
اس طرح معاويہ كے دو طاقتور رقيب خلافت كے سلسلے ميں ميدان سے خارج ہو گئے جى ہاں جب كوئي مارا جاتا تھا تو معاويہ كى خلافت قريب الوقوع نظر انے لگتى تھى _
جب امير المومنين (ع) تخت خلافت پر ائے تو جرير كو پيغام ديكر معاويہ كے يہاں بھيجا ، اور اس سے بيعت طلب كى _
معاويہ نے جرير سے كہا _ اپنے رفيق كو لكھ دو كہ ہم دو شرط كے ساتھ بيعت كرنے پر حاضر ہيں _
1_ شام اور مصر كو ہمارے حوالے كر ديں نيز ان دونوں سر زمين كا خراج ہمارا ہو گا
2_ مرتے وقت كسى كى بيعت كا قلادہ ہمارى گردن ميں نہ ڈاليں
اس عبارت سے بخوبى واضح ہو جاتا ہے كہ خلافت سے معاويہ كا اشتياق كس قدر ہے معاويہ جانتا تھا كہ
حضرت امير المومنين (ع) سے رقابت نہيں ہو سكتى ، كيونكہ جو فضيلتيں امام (ع) ميں پائي جا رہى تھيں مجھ ميں نہيں ہے _
اسى وجہ سے خليفہ وقت كے خلاف بھڑكانے كى جرائت و جسارت نہيں ہو رہى تھى ، اسى لئے وہ چاہتا تھا كہ پہلے عائشه طلحہ و زبير اس خطرناك راستے كو طے كريں ، اسكے بعد وہ اس راستہ كو طے كرے ، لہذا بہتريہى ہے كہ امام (ع) سے جنگ كرنے كے بجائے ان سے مصر اور دوسرے بڑے شہروں كى مانگ كر كے اپنى حكومت كو وسيع كرے تاكہ امام (ع) كے مرتے ہى بڑے اطمينان كے ساتھ تخت خلافت پر براجمان ہو جائے ، جرير نے معاويہ سے كہا كہ تمھيں جو كچھ لكھنا ہے لكھو ہم خط نہيں لكھيںگے _
معاويہ نے اپنى رائے كو امام (ع) كے پاس لكھ كر بھيجا ، امام (ع) نے جرير كے ذريعہ معاويہ كو جواب ديا كہ تو نے حتمى فيصلہ كر ليا ہے كہ ميرى بيعت نہيں كرے گا اور جو كچھ دوست ركھتا ہے اسكو انجام ديگا ، وہ چاہتا ہے كہ تم كو اتنا سر گردان و معطل ركھے تاكہ لوگوں كى توجہات كو مبذول كرلے _
جب ہم مدينہ ميں تھے تو مغيرہ بن شعبہ نے اس طرح كا اشارہ كيا تھا كہ معاويہ كو شام كى حكومت پر رہنے ديجيئے ليكن ہم اس كام كو ضرور انجام دينگے ، اس لئے كہ ہم نہيں چاہتے ہيں كہ خدا وند عالم معاويہ جيسے بدكردار و گمراہ كے ذريعہ ہمارى مدد و نصرت كرے ، اگر اس نے ميرى بيعت قبول كر لى تب تو ٹھيك ہے ورنہ فورا ہمارى طرف پلٹ ائو (23)
اٹھويں صدى كا مورخ ابن كثير اپنى تاريخ البدايہ و النہايہ ميں لكھتے ہيں :
عقبہ بن ابى معيط نے جب يہ سنا كہ معاويہ نے حضرت على (ع) سے مصر اور شام كى حكومت كا مطالبہ كيا ہے تو اس نے معاويہ كو ايك خط لكھا اور اس خط ميں اسكى خوب مذمت كى نيز اس ميں چند اشعار لكھكر روانہ كئے جس كا ترجمہ يہ ہے كہ ، معاويہ شام كى حكومت كو ہاتھ سے نہ جانے دينا ذرا دشمن سے ہوشيار رہنا كيونكہ يہ دشمن ادہے كى مانند ہے لہذا اسكو چھوڑ نہ دينا ، على (ع) اسكے منتظر ہيں ، كہ تم كيا جواب ديتے ہو، اسكے خلاف جنگ كے شعلے ايسے بھڑكا دے كہ جوانوں كے سياہ بال سفيد ہو جائيں، شام سے شمشير اور نيزوں كى حمايت كر اور ہاتھ پر ہاتھ ركھكر نہ بيٹھنا اور نہ اس سلسلہ ميں تساہلى كرنا اور اگر ايسا نہيں كرنا ہے تو سر تسليم كو خم كر دے _
تاكہ جو لوگ امن پسند اور جنگ كے خواہاں نہيں ہيں وہ اطمينان و ارام كے ساتھ زندگى گذار سكيں اور يہ بات كسى سے ڈھكى چھپى نہيں ہے _
اے حرب كے بيٹے ، تم نے طمع و حرص ميں اكر جو اسكو خط لكھديا ہے اس كام كو انجام ديكر اپنے سر پر بہت بڑى مصيبت مول لى ہے _
معاويہ ،حضرت على (ع) سے جو تم نے خواہش ظاہر كى ہے وہ ہرگز پورى نہيں ہو سكتى ، اور اگر اپنى مراد تك پہونچ بھى گئے تو سوائے چند دنوں كے زيادہ پايدار بھى نہيں ہے _
اخرتيرے دل ميں اس قدر تمنائيں كروٹ لے رہى ہيں جو ايك نہ ايك دن ہلاكت كى باعث ضرور بنيںگي، لہذا بہتر يہى ہے كہ اپنے دماغ سے ان امنگوں كو نكال دے ،كيونكہ على (ع) جيسے تمہارے دام فريب ميں نہيں اسكتے ہيں ، اور اس سے تم نے اچھے طريقہ سے ان كى ازمائشے بھى كى ہے جو تم نے خراب كيا اسكو على نے بنايا ہے _
اگر اس كے چنگل ميں ايك بار چلے گئے تو ياد ركھو كہ تم نے تو اسكى كھال نہيں كھينچى ليكن وہ تمھارى كھال كو ادھيڑ دے گا (24)
صفين معركہ حق و باطل
اس سے قبل اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ _ معاويہ نے كس طريقہ سے عثمان كے تمام حقوق كے باوجود جو اسكى گردن پر تھے انكى نصرت كرنے ميں كوتاہى كى ، اور اس قدر عذر تراشى كى كہ ناراض مسلمانوں نے انكو گھر كے اندر قتل كر ڈالا ، شايد معاويہ اس انتظار ميں تھا كہ جو اسكى خلافت كى راہ ميں كانٹے ہيں وہ سب صاف ہو جائيں ، ليكن قتل عثمان كے بعد معاويہ كى خواہش كے بر خلاف لوگوں نے امير المومنين(ع) كو خليفہ تسليم كر ليا ، جب زمام حكومت على (ع) كے ہاتھوں ميں اگئي تو اپ نے خاص طور سے اپنى بيعت كا مطالبہ معاويہ سے كيا لہذا معاويہ نے ايك بڑى پلاننگ تيار كى _ اس نے مظلوميت عثمان اور انتقام خون كو بہانہ بناكر جو پہلى مرتبہ جنگ جمل ميں اس پرچم كو لہرايا جا چكا تھا امام (ع) سے بر سرپيكار ہو
جانے اور اسكے ذريعہ سے اپنے دل كى تمنائيں نيز اپنے باپ ابو سفيان كى وصيت پورى كر كے اسلام كى وسيع و عريض حكومت كو اپنے ہاتھوں ميں لينے كا ارادہ كيا _
اسى لئے اس نے عثمان كا خون الود كرتہ مسجد دمشق كے منبر كے نزديك لٹكا ديا ، بوڑھے اسكے گرد جمع ہو كر رونے لگے ، پھر اپنى تقرير ميں اس بات كا اعلان كيا كہ ميں مقتول كا وارث ہوں اور جن لوگوں نے خليفہ كو ناحق قتل كيا ہے ان سے خون كا انتقام لينا چاہيئے اہل شام معاويہ كے دام فريب ميں اكر سخت دھوكہ كھائے ، جى نہيں ، بلكہ ان لوگوں نے يزيد بن ابو سفيان ( برادر معاويہ ) كے ہاتھوں اسلام كو قبول كيا تھا اور تقريبا بيس سال سے معاويہ كى حكمرانى ميں زندگى گذار رہے تھے ، لہذا ايك طرف شام والوں كى سادہ لوحى تھى ، جسكى وجہ سے بنى اميہ جدہر چاہتے تھے انكو گھما ديتے تھے اور دوسرى طرف خاندان بنى اميہ سے ان لوگوں كى بيس سالہ رفاقت و محبت تھى ، يہى وہ كڑى سے كڑى تھى جو اہل شام كو معاويہ كے افكار و نقشہ كو قبول كرنے ميں معاون ومدد گار ثابت ہوئي ، اسى لئے شام والوں نے فورا اس كى بيعت كر كے اس كے فرمان پر اپنا سر تسليم خم كر ديا (25) اہل شام چاہتے تھے كہ امام (ع) سے جنگ كريں كيونكہ ان لوگوں كو سمجھايا گيا تھا كہ قاتل عثمان اپكے حاشيہ نشين اور پناہ ميں ہيں ، لہذا ان لوگوں كو كھينچ كر لايا جائے گا پھر خليفہ ء مظلوم كے خون كا بدلہ ان سے ليں گے _ شام والے معاويہ كى سر براہى ميں خون عثمان كا بدلہ لينے كےلئے امام (ع) سے جنگ كرنے كى خاطر يہاں سے چل ديئے ، دونوں لشكر كا ربيع الثانى 38ھ ميں ميدان صفين ميں امنا سامنا ہوا (26)
صفين كے كھلے ميدان ميں نہر فرات كے كنارے دونوں لشكر كے ما بين كافى دنوں تك جنگ بند رہى ، امير المومنين (ع) نے جنگ ميں كبھى پيش قدمى نہيں كى اور جس طرح اسلام نے حكم ديا تھا اسى طرح اپنے لشكر والوں كو دستور ديا ، معاويہ نے پہلے ہى روز نہر فرات كا پانى جو تنھا مخزن اب تھا امام (ع) كے لشكر پر بند كر ديا ، چالاك مشاور عمر و عاص نے كہا _ اے معاويہ _ تمھيں معلوم ہونا چاہيئے كہ على (ع) اور انكے ساتھيوں كے ہاتھ ميں جب تك چمكتى ہوئي تلواريں اور لچكتے ہوئے نيزے ہيں كبھى پياسے نہيں رہ سكتے ہيں ، بہتر يہ ہے كہ تم انھيں پانى سے نہ روكو ، ليكن لشكر امام (ع) كا دلير سردار مالك اشتر كى سعى و كوشش نے نہر فرات كو معاويہ كے سپاہ سے چھين ليا _
جب لشكر على نے نہر فرات پر قبضہ كر ليا تو حضرت على (ع) نے اپنى شان و شوكت سے معاويہ كے پاس پيغام بھيجوايا كہ ، اگر چہ فرات پر ہمارا قبضہ ہے مگر تم اور تمھارى فوج چاہے اور جتنا چاہے پانى لے سكتى ہے اس پر سبھى كا حق بنتا ہے (27) _
معاويہ كى چالاكي
يہ پہلى جھڑپ دونوں لشكر كے درميان تھى ، جنگ مدت دراز كے لئے متوقف ہوگئي كيونكہ امير المومنين (ع) نے حتى الامكان كوشش كى كہ جنگ اور زبر دستى كے ذريعہ اپنے نظريات كو نہيں تھوپاجائے ليكن شامى سوائے خون عثمان كے كچھ نہيںكہتے تھے ؟
ذى الحجہ كے مہينے ميں بھى چھوٹى موٹى مڈ بھيڑيں ہوئيں ليكن اسكا كوئي خاص نتيجہ نہيں نكلا ، محرم الحرام كى امد پر طرفين جنگ سے دستبرادر ہو گئے ، ليكن اس مہينہ كے تمام ہوتے ہى دوبارہ جنگ شروع ہو گئي ، ان تمام مدتوں ميں معاويہ كى يہى سعى و كوشش رہى كہ كسى نہ كسى طريقہ سے امام عليہ السلام اسكو حكومت شام كا پروانہ لكھديں تاكہ جنگ كا خاتمہ كر دے ، ليكن امام (ع) كسى قيمت پر راضى نہيں تھے كہ معاويہ جيسا انسان انكا ہمنوا بنے_
اخر ايك شديد حملہ ميں لشكر امام (ع) كى شجاعت اور پا فشارى كا نتيجہ يہ ہوا كہ فوج نے داہنى سمت سے اتنى پيش قدمى كى كہ معاويہ كے خيمہ تك پہونچ گئي _ ليكن ميسرہ كى فوج شاميوں كے حملہ كى تاب نہ لاكر پيچھے ہٹ گئي _
اس وقت امام عليہ السلام بہ نفس نفيس ميدان ميں اگئے اور اپنے فرارى لشكر كو للكارا ،پھر معاويہ سے كہا ، اے معاويہ لوگوں كا خون نا حق كيوں بہا رہا ہے ائو ہم دونوں لڑكر فيصلہ كر ليں معاويہ نے جان كے خوف سے امير المومنين كى دعوت قبول نہيں كى كيونكہ خوب جانتا تھا كہ جو بھى بہادر امام (ع) سے مقابلہ كرنے كے لئے ميدان جنگ ميں گيا وہ دوبارہ واپس نہيں ايا ہے _
تمام رات جنگ جارى رہى ، جب رات كا اندھيرا چھٹا تو لشكر امام (ع) كى شكست اخرى مرحلہ ميں تھى ، مالك اشتر كوفہ كے بہادروں كے ساتھ ميمنہ كى طرف سے اور امام (ع) قلب لشكر سے دشمنوں پر تابڑ توڑ حملہ كر رہے تھے ، اور
لشكر كوفہ كے سپاہى جب شام كى فوج ميں گھس گئے تو معاويہ نے راہ فرار اختيار كى اسكے سپاہيوں كو سوائے شكست كے كوئي اور چيز نظر نہيں ارہى تھى ، كفر اور جاہليت كا ركن بزرگ ہميشہ كے لئے نيست و نابود ہو رہاتھا اور حكومت علوى تمام بلاد اسلامى پر حكمرانى كرتى نظر ارہى تھى كہ اچانك معاويہ كے مكار مشاور عمر و عاص كے ذہن ميں ايك فتور ايا تب جا كر معاويہ كى جان ميں جان ائي _
عمر و عاص نے معاويہ سے كہا كہ :
لشكر شام كو حكم دو كہ قران كو نيزوں پر بلند كريں فوج شام نے اسكے حكم كى تعميل كر كے يہ كہنا شروع كيا كہ ہم حكم قران پر راضى ہيں اس طرح پانچ سو قران نيزے پر بلند كئے گئے (28) ،امام (ع) كے لشكر كے بے دين افراد نے اس فريب ميں اكر استقامت كرنا چھوڑ ديا _
سوائے چند افراد كے كوئي بھى ثابت قدم نہ رہ سكا خاص طور پر وہ جو معاويہ كے مزدور اور سپاہ كوفہ كے منافقين تھے جيسے اشعث بن قيس كہ اس نے اس راہ ميں خوب فتنہ برپا كيا (29) _
امام (ع) اور ا ن كے لشكر والوں نے بہت سمجھايا بجھايا كہ يہ كام دھوكہ اور سياست ہے يہ لوگ نہ مسلمان ہيں اور نہ ہى قران والے ہيں ہم نے بارہا ان لوگوں كو قران كى طرف دعوت دى ليكن اسكے سايہ ميں نہيں ائے _
لشكر امام (ع) كے افراطى لوگ اشعث بن قيس كى سر براہى ميں بغاوت و سر كشى پر اتر ائے ، اس ہنگامہ بلا خيز ميں مالك اشتر ايك طرف سے لشكر معاويہ كو درہم برہم كئے ہوئے تھے ، عنقريب تھا كہ جنگ لشكر امام (ع) كے حق ميں ختم ہو _
دوسرى طرف اشعث اوراسكے ساتھيوں نے امام (ع) كو سخت محاصرے ميں لے ليا اور ان سے كہا كہ اپ مالك اشتر كو حكم ديں كہ ميدان جنگ سے واپس اجائيں ، امام (ع) نے فرستادہ كو بھيجا ، مالك اشتر نے اس سے كہا كہ انحضرت سے كہنا كہ يہ گھڑى جنگ سے واپس بلانے كى نہيں ہے ، ہميں خدا وند عالم پر بھروسہ ہے كہ جلد كاميابى نصيب كر دے گا ، وہ شخص مالك كا پيغام ليكر لوٹ ايا _
اسى اثنا ء ميں شديد گرد و غبار اور ڈھول تاشے كى اواز ميدان جنگ ميں گونجنے لگى ، لشكر عراق كى فتح اور شام
والوں كى شكست نماياں تھى كہ جو لوگ امام عليہ السلام كو انگشترى كے نگينہ كى طرح گھيرے ہوئے تھے انھوں نے فرياد بلند كرنا شروع كر دى كہ اپ نے اشتر كو اتش جنگ بھڑ كانے كا حكم ديا ہے _
امام عليہ السلام نے فرمايا ، وائے ہو تم لوگوں پر ہم نے اپنے فرستادہ سے چپكے سے گفتگو كى تھى ايا تم لوگوں كے سامنے ہم نے واپسى كا پيغام نہيں كہلايا تھا _
ان لوگوں نے امام (ع) سے كہا كہ اپ مالك اشتر كے پاس كہلوايئےہ ميدان سے واپس چلے ائيں _ ورنہ ہم لوگ اپكے لشكر سے علحدہ ہو جائينگے_
امام (ع) نے مالك اشتر كے پاس پيغام بھيجوايا كہ پلٹ ائو ورنہ فتنہ و اشوب بھڑك اٹھے گا ، مالك اشتر نے كہا ، كيوں ، ان قران كى وجہ سے جو نيزوں پر بلند كئے گئے ، فرستادہ امام (ع) نے كہا ، جى ہاں ، مالك اشتر نے كہا ، خدا كى قسم ، مجھے اس بات كاخوف ہے كہ كہيں اسكى وجہ سے ہمارے درميان اختلاف نہ ہو جائے ، فرزند نابغہ عمر و عاص نے اس كام كو كر كے ہمارے ہاتھوں كو باندھ ڈالا ہے _ اہ _ ايا تم نہيں ديكھتے ہو كہ خدا وند عالم نے كس طريقہ سے فتح كو ہمارى جھولى ميں ڈالديا ہے ، ذرا تم خود بتائو يہ وقت ميدان چھوڑنے كا ہے _
امام (ع) كے فرستادہ نے كہا ، اے اشتر تم چاہتے ہو كہ ايك طرف فاتح ميدان بنو اور دوسرى طرف امام (ع) قتل كر ديئے جائيں يا دشمنوں كے حوالہ ہو جائيں ، ان لوگوں نے امام (ع) سے كہا ہے كہ اپ اشتر كو واپس بلواليں ورنہ ہم لوگ اپكو تلوار سے قتل كر دينگے ، جس طريقے سے عثمان كو قتل كيا گيا ہے ، مالك اشتر نے كہا ، خدا كى قسم ، ہم ہرگز ايسى فتح نہيں چاہتے ہيں يہ كہا اور ميدان جنگ سے واپس اگئے اور امام (ع) كى خدمت ميں شرفياب ہو كر ان لوگوں سے مخاطب ہوئے جنھوں نے امام (ع) كو محاصرہ ميں كر ليا تھا_
اے كاہلو _ ايك لمحے ميں دشمن كے اوپر پيروز وكامياب ہو جاتے اور وہ جو كتاب خدا و سنت رسول كو كچل رہا تھا انكو اپنے چنگل ميں كر ليتے مگر اسكے چھوٹے سے فريب ميں اكر پھنس گئے اور قران كے فريبى دعوت ميں اكر ميدان كو چھوڑ ديا مجھے كم از كم ايك ساعت كى مہلت ديدو تاكہ جنگ كو مرحلہ اختتام تك پہونچا دوں ،ان لوگوں نے كہا ، ہم لوگ اس بات كو تسليم نہيں كرتے _
مالك اشتر نے فرمايا : ايك مرتبہ گھوڑا دوڑانے كى مہلت ديدو
ان لوگوں نے كہا ، اگر اسكى اجازت دونگا تو تمہارے جرم ميں ہم لوگ شريك ہو جائيںگے مالك اشتر نے فرمايا ، مجھ سے بات بناتے ہو جب تم لوگوں نے جنگ كى تھى اور تمہارے اچھے عمار ياسر جيسے شھيد ہو گئے ، تو اس وقت حق پر تھے ، يا اب جبكہ تم لوگ بچ گئے ہو اور تمھيں لوگ خوا ہاں صلح ہو ؟
اگر اسوقت تم لوگ حق پر ہو تو وہ لوگ جو تم سے بہتر تھے اور انكى پاكيزگى كا تم لوگ انكار بھى نہيں كر سكتے وہ اگ ميں جل رہے ہوں گے ؟
ان لوگوں نے كہا _ اشتر ہم لوگوں كو چھوڑ دو ہم لوگ تمھارى پيروى نہيں كرينگے اور ہمارى نگاہوں سے دور ہو جائو _
مالك اشتر نے جواب ديا ، خدا كى قسم ، تم لوگوں نے دھوكہ كھايا ہے ہم تمھارى نمازوں كو شوق خدا اور زھد دنيا كى دليل سمجھے بيٹھے تھے ليكن اب مجھے معلوم ہو گيا كہ تم لوگ موت كے خوف سے بھاگ رہے ہو اور ابھى دنيا ميں رہنے كا اشتياق ركھتے ہو ، اج كے بعد كبھى عزت و سر بلندى كو نہيں ديكھو گے دور ہو جائو اسى طرح جس طرح ستمكاران دور ہو گئے ، ناہنجار و سر كش افراد ان كے جواب سے ششدر رہ گئے تھے ، اشتر كو برا بھلا كہا گيا ، يہاں تك كہ انكے گھوڑے كو تازيانے سے مارا جب حد سے زيادہ بات بڑھ گئي تو مالك اشتر نے بار ديگر ان لوگوں كو خوب سنايا _
امام (ع) نے جب ان حالات كو ديكھا تو مالك اشتر كو بلا كر ارام كرنے كو كہا ، جسوقت ارام كر رہے تھے تو اشتر نے امام (ع) سے فرمايا كہ ، اقا اتنى اجازت ديديجئے كہ ان لوگوں سے نپٹ لوں اور ان تمام لوگوں كے ہوش كو ٹھكانے تك پہونچا دوں حاضرين نے اواز بلند كرنا شروع كر دى كہ على (ع) حكميت پر راضى ہو گئے مالك اشتر نے كہا ، اگر على (ع) راضى ہو گئے ہيں تو ہم بھى حكميت پر راضى ہيں چارو ں طرف سے ايك ہى اواز تھى على (ع) راضى ہيں ، اس ہنگام ميں امام (ع) سر جھكائے خاموش تھے اور كوئي بات نہيں _ (30)
ابو موسى اور عمر و عاص
اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ، امام (ع) اپنے لشكر كے ان سركش اور باغى افراد كے نظريات كو قبول كرنے ميں مجبور ہو گئے تھے جو حكميت كے خواہاں تھے ، بات انتخاب حكم تك پہونچ گئي شام والوں نے عمر و عاص كو منتخب كيا اشعث اور اسكے كوفے كے ساتھيوں نے جو اس واقعہ كے بعد خوارج كہلانے لگے انھوں نے كہا كہ ، ہم ابو موسى اشعرى كو اس كام لئے منتخب كرتے ہيں _
امام (ع) نے فرمايا ، ہم ابو موسى كو اس اہم كام پر منتخب نہيں كرنا چاہتے ہيں
اشعث اور اسكے ساتھيوں نے كہا ہم سوائے ابو موسى كے كسى كو حكم نہيں بنانا چاہتے ہيں كيونكہ اس نے پہلے ہى ہم لوگوں كو جنگ ميں شريك ہونے سے منع كيا تھا _
امام (ع) نے كہا :ميں اسكى حكميت سے راضى نہيں ہوں كيونكہ اس نے مجھ سے دورى اختيار كى اور لوگوں كو ہمارى مدد سے روكا پھر مجھ سے فرار بھى كيا يہاں تك كہ ہم نے اسكو امان ديا ہم اس كام كے لئے ابن عباس كو نامزد كرتے ہيں _
ان لوگوں نے كہا ، خدا كى قسم ، ابن عباس اور تمھارے ميں فرق ہى كيا ہے لہذا ہم لوگ انكو قبول نہيں كرتے كوئي ايسا شخص لشكر عراق سے حكم ہو جسكى نسبت معاويہ اور تم سے يكساں ہو_
امام (ع) نے فرمايا ، پھر مالك اشتر كو معين كرتا ہوں
اشعث نے كہا _ انھيں كى بدولت تو جنگ كے شعلے بھڑ كے ہيں اور وہ بھلا چاہيںگے كہ تحكيم كامياب ہو ؟ امام (ع) نے فرمايا كہ اشتر كے سلسلے ميں كيا خيال ہے _
ا شعث نے كہا اگر اشتر حكم ہو گئے تو ہمارے اور لشكر شام كے درميان اسقدر تلواريں چلے گيں_كہ اشتر اور تمھارى خواہش پورى ہو جائے گي
امام (ع) نے كہا ،اخر عمر و عاص ابو موسى كو فريب ديدے گا
ان لوگوں نے كہا ، ہم ابو موسى كى حكميت پر راضى ہيں
امام (ع) نے فرمايا سوائے ابو موسى كے كسى اور كو قبول نہيں كرو گے ؟
ان لوگوں نے كہا ، جى نہيں
امام (ع) نے فرمايا _ پس جو چاہو كرو
ايك شخص ابو موسى كو بلانے گيا مالك اشتر نے عرض كيا ، امير المومنين(ع) ہم كوبھى اس كے ہمراہ حكميت ميں شريك كر ديجئے ، اس پيشكش كو اہل كوفہ كے درميان ركھا گيا ليكن وہ لوگ اس پر راضى نہيں ہوئے_
پھر قرار داد قلمبند كى گئي كہ دونوں طرف كے حكم اس كے پابند ہو نگے كہ قران كريم اور سنت رسول (ص) كى رو سے فيصلہ كرينگے ، پھر اضافہ كيا گيا كہ اگر حكمين نے قران و سنت رسول (ص) كے خلاف فيصلہ كيا تو مسلمان اس فيصلے كو نہيں مانيں گے ،_ اس عہد و پيمان پر اہل شام كى جانب سے عمر و عاص نے اور ابو موسي( جو بيوقوف اور بے ايمان عراقيوں كى طرف سے منتخب ہوا تھا )نے دستخط كئے دو مہ ........ الجندل كے اجتماع حكمين سے پہلے عمر و عاص نے ابو موسى اشعرى كى خوب تعظيم و تكريم كى اپنے سے بلند دكھانے كے لئے كہا كہ تم تو ہم سے پہلے رسول اسلام (ص) كے ہمنشين ہوئے اور تم ہم سے سن و سال ميں بڑے بھى ہو _
قبل اس كے كہ ابو موسى اور عمر و عاص ميں باہمى اختلاف ہو ابو موسى نے كہا:
اے عمر و عاص ايا تم امت كى صلاح نہيں چاہتے ہو ؟
عمر و عاص نے پوچھا ، امت كى صلاح كس چيز ميں ہے
ابو موسى نے جواب ديا ، صلاح اس ميں ہے كہ حكومت و خلافت كو عبد اللہ بن عمر كے حوالہ كر ديا جائے كيونكہ اس نے ان جنگوں ميں شركت بھى نہيں كى ہے _
عمرو عاص نے كہا _ تم نے معاويہ كو كيوں فراموش كر ديا
ابو موسى نے كہا ، خلافت سے معاويہ كو كيا سرو كار ہے وہ تو كسى صورت ميں اسكا مستحق نہيں ہے ، بات طول پكڑ گئي اور دونوں نے كسى پر اتفاق رائے قائم نہيں كيا ، اخر اس مسئلے كو كيسے سلجھايا جائے ، ابو موسى نے كہا ، ميرى رائے يہ ہے كہ ان دونوں ( على (ع) و معاويہ ) كو تخت خلافت سے بركنار كر ديا جائے اسكے بعد خلافت كو مسلمانوں كى شورى پر چھوڑ ديا جائے جسكو چاہيں منتخب كر ليں _
عمر و عاص نے كہا ، تم صحيح كہتے ہوہم اس رائے پر اتفاق كرتے ہيں ، يہ وہى مشورہ ہے جس ميں عوام كى بھلائي بھى ہے _
دونوں صبح سويرے لوگوں كے جم غفير ميں حاضر ہوئے ، ابو موسى نے عمر و عاص سے كہا كہ منبر پر جا كر اپنى بات كو بيان كرو _
عمر و عاص نے اپنے نقشہ كے تحت جس كا اظہار بھى كيا تھا كہ ہم ہرگز تم پر سبقت نہيں كر سكتے كيونكہ تم ہجرت اور عمر كے لحاظ سے مجھ سے بڑے ہو ، پہلے بولنے كے لئے كہا :
ابو موسى اشعرى كھڑے ہوئے اور منبر پر اكر حمد الہى كے بعد كہا ، اے لوگو ، ہم دونوں نے ان چيزوں كے بارے ميں جو امت اسلامى كى يگانگى اور الفت كو دوبارہ پلٹا دے كوئي چيز ان دونوں ( على (ع) ومعاويہ ) كے بر كنار كرنے سے بہتر نہيں پايا _
اس كے بعد خلافت كو شورى كے حوالہ كر ديا جائے ، تاكہ شورى جس كو چاہے اس كو انتخاب كرے ، اور ميں على و معاويہ كو بركنار كرتا ہوں ، يہ كہہ كر فورا منبر سے اتر ايا ا س كے بعد منبر پر عمر و عاص ايا حمد الہى كے بعد اس طرح تقرير كى كہ ، اس مرد كى باتوں كو تم لوگوں نے سنا اس نے على (ع) كو بركنار كر ديا اگاہ ہو جائو كہ ميں بھى اسى طرح على كو معزول كرتا ہوں اور اس كى جگہ معاويہ كو برقرار كرتا ہوں كيونكہ وہ خون عثمان كا انتقام لينے والا اور ان كا وارث ہے اور اس كى جانشينى كا حقدار بھى ہے ، ابو موسى ان تمام مكارى و دھوكہ دھڑى سے بہت ناراض ہوا اور كہنے لگا تم نے ايسا كيوں كيا خدا وند عالم كبھى تمہارى مدد نہ كرے اور تم نے دھوكہ ديكر گناہ عظيم كيا ہے ، اے عمر و عاص تمہارى مثال اس كتے كى طرح ہے كہ اس پر حملہ كرو تو ،يا اس كو چھوڑ دو تو، منھ سے زبان نكال كر سانس ليتا ہے _
عمر و عاص بھى جواب دينے سے نہيں چونكا ، اس نے كہا ، تمھارى مثال اس گدھے كى سى ہے جس پر كتا بيں لاددى گئي ہوں _(31)
حكمين اور ان كے ساتھى بادل نا خواستہ ايك دوسرے كو برا بھلا كہتے ہوئے متفرق ہو گئے ، در انحاليكہ حكميت سے كوئي خاص نتيجہ نہيں نكل پايا تھا سوائے اسكے كہ معاويہ كو امير المومنين كى صف ميں لاكر كھڑا كر ديا گيا ، جبكہ وہ اس وقت سوائے ايك حاكم طاغى كے كچھ نہ تھا جو حكومت اسلامى پر خليفہ نامزد كر ديا گيا تھا ، جنگ صفين ميں لشكر شام كى جانب سے پينتاليس ہزار افراد اور لشكر عراق سے پچيس ہزار افراد قتل ہوئے (32)
شام كے ليٹرے
معاويہ اپنى بچى كھچى فوج كو ليكر 37ھ ميں شام واپس اگيا ، ليكن لشكر امام (ع) اور لشكر حق كو نيست و نابود كرنے كے لئے ايك نئي تدبير سوچى اور اس كو عملى جامہ پہنايا ، معاويہ امير المومنين (ع) كے ما تحتى والے علاقوں ميں وقتا فوقتا چھوٹے موٹے لشكر كو بھيجتا رہا تاكہ سر سبز و شاداب بستيوں كو ويرانے ميں تبديل كر دے _
كچھ افراد جيسے نعمان بن بشير ، سفيان بن عون ، عبد اللہ بن مسعدہ ، ضحاك بن قيس ، بسر بن ارطاة ، اور انكے علاوہ دوسرے لوگ بھى اس جنايت عظيم كے لئے روانہ كئے گئے ، معاويہ كے فرمان سے تمام بلاد اسلامى عراق ، حجاز ، يمن ، كے بے گناہ مسلمانوں كو موت كے گھاٹ اتارا گيا ، اور بستيوں ميں قتل و غارتگرى خوف و دہشت پھيلائي گئي _
ہم اس خونريزى اور قتل و غارتگرى اور ضد انسانيت كى افسوسناك داستان كو ضمير فروش انسانوں كى پہچان كے لئے قارئين كرام كى خدمت ميں پيش كرنا چاہتے ہيں _
1_ نعمان بن بشير
يہ شخص انصار كے قبيلہ خزرج سے تھا ، نعمان كى پيدائشے رسول (ص) كى رحلت سے چھہ يا اٹھ سال قبل ہوئي عثمان كے زمانے ميں جو فتنہ و اشوب انكى كرتوت كى بناء پر اٹھا تھا اسوقت يہ شخص خليفہ كے ہوا داروں ميں سے تھا ، عثمان كے بعد معاويہ كے ساتھ ہو گيا اور معاويہ كے مرنے كے بعد يزيد كے ہمنوائوں ميں ہو گيا ، نعمان نے اپنى قوم كے بر خلاف كام كيا _
قبائل انصار جو حكومت امير المومنين (ع) اور حضرت اما م حسن (ع) كے زمانہ ميں انھيں دونوں بزرگوں كى ہمراہى كى تھى اور قدم قدم پر ساتھ ديا تھا ، اس نے رو گردانى كى _
نعمان بن بشير يہ وہى شخص ہے جو عثمان كے خون الود پيراہن كو مدينہ سے شام لايا ، جيسا كہ اپ نے ملاحظہ فرمايا ، كہ معاويہ نے اس پيراہن كو مسجد دمشق كے منبر كے نزديك اويزان كر ديا اور شام كے سادہ لوح افراد نے اسكے گرد جمع ہو كر خوب گريہ كيا اور معاويہ نے ان لوگوں كو على (ع) اور انكى خلافت كے خلاف خوب بھڑكايا ، حكومت معاويہ كے زمانے ميں
حاكم كوفہ ہوا اسكے بعد شہر حمص كى فرما نراوئي حاصل ہوئي ، ليكن معاويہ بن يزيد كے بعد عبد اللہ بن زبير كے طرفداروں ميں ہو گيا _
لہذا لشكر اموى نے اسكو'' مرج راہط ''كے مقام پر ذى الحجہ 64 ھ ميں قتل كر ديا (33)
معاويہ نے 39ھ ميں نعمان بن بشير كى سر براہى ميں ايك ہزار كى فوج كے ساتھ عين التمرپر حملہ كرنے كے لئے بھيجا _
اس مقام پر امير المومنين(ع) كى ايك فوجى چھائونى تھى اس وقت صرف سو سپاہى تھے نعمان نے خطرناك حملہ كيا ، ليكن شہر كے شجاع و دلير سپاہيوں نے اپنى تلوار كو نيام سے نكال ليا اور ليٹرے شاميوں كے مد مقابل اكر خوب جنگ كى _
جنگ كے دوران پچاس ادميوں كا ايك مختصر دستہ مدد كے لئے اگيا نعمان نے اس دستہ كو ديكھا تو يہ سمجھا كہ يہ مقدمة الجيش ہے اور اسكے عقب ميں فوج ارہى ہے _
اس نے فورا واپسى كے ارادہ سے رخ موڑ ا اور شام كى جانب بھاگ كھڑا ہوا (34)
2_ سفيان بن عوف
قلمرو علوى ميں لشكر شام كى جانب سے دوسرى لوٹ كھسوٹ سفيان بن عوف كى سربراہى ميں انجام پائي _
اس نے جنگوں اور فتوحات شام ميں ابو عبيد ہ جراح كے ساتھ اہم كردار ادا كيا تھا معاويہ نے مدتوں بعد روميوں كے مقابلہ ميں جو جنگ و جہاد كا بازار گرم تھا اس كى رہبرى سفيان بن عوف كے حوالہ كر دى ، اخر سر زمين روم 52 ھ ميں دنيا سے گيا _
سفيان بن عوف نے معاويہ كى طرف سے دوسرى ماموريت بھى انجام دى ہے جن ميں عراق كى سرزمين پر حملہ ہے يہ حملہ 39 ھ ميں وقوع پذير ہوا _
معاويہ نے سفيان بن عوف سے چلتے وقت كچھ باتيں كہى تھيں كہ ، اگر تمھارى سفر ميں كسى سے جنگ چھڑ جائے اور مخالف تمھارا دوست نہيں ہے يعنى خاندان اموى كو دوست نہيں ركھتا ہے تو بغير خوف و ہراس كے اسكو قتل كر دينا ، جس
قريہ اور ابادى سے گذرنا اسكو ويران كر كے مال كو لوٹ لينا ، كيونكہ تخريبى نقطہ نظر سے مال كا لوٹنا قتل كے برابر نہيں ہے چاہے تمہارى جان اس راہ ميں چلى ہى كيوں نہ جائے (35)
طبرى اور ابن اثيرنے اس غارتگرى كى اس طرح منظر كشى كى ہے كہ ، معاويہ نے سفيان بن عوف كى سر كردگى ميں چھہ ہزار كى جمعيت كے ساتھ ھيت و انبار اور مدائن پر حملہ كرنے كے لئے بھيجا معاويہ نے سفيان كو ہدايت كى كہ حملہ كر كے انھيں تباہ و برباد كردے سفيان نے حسب دستور پہلے ھيت كا رخ كيا _
جب سفيان كا لشكرھيت پہونچا تو كيا ديكھا كہ شہر خالى ہے كسكو قتل كرے اور كسے لوٹے اخر مجبور ہو كر اس جگہ سے كوچ كيا اور شہر انبار اگيا ، يہاں پر سو ادميوں كا ايك دستہ شہر كى حفاظت كے لئے متعين تھا ، جب اسے معلوم ہوا كہ فوج كى تعداد كم ہے تو اپنے لشكر كى صف بندى كر كے حملہ كر ديا ، كافى لڑتے جھگڑتے قتل ہو گئے _
اب شاميوں كى چيرہ دستيوں كو روكنے كے لئے كوئي نہ تھا انہوں نے ايك ايك گھر كو لوٹا اخر سفيان اموال كثير كے ساتھ معاويہ كے يہاں پلٹ گيا (36)
اديب شہير و مورخ ابو الفرج نے كتاب اغانى ميں سفيان كے حملے كى داستان كو يوں بيان كيا ہے '' مرد غامدى نے شہر انبار پر حملہ كيا حاكم شہر اور كثير تعداد ميں مردوں اور عورتوں كو بے رحمانہ قتل كيا اس دلخراش حادثہ كى خبر امير المومنين (ع) كو معلوم ہوئي_
اپ نے ايك خطبہ ديا كہ ، تم لوگوں نے ہمارے فرمان كو پس پشت ڈالديا ہے يہى وجہ ہے كہ تمھارے اس پڑوس كے لوگ تم پر حملہ كر رہے ہيں ، يہ مرد غامدى جو شہر انبار ميں اكر حاكم شہر اور كثير تعداد ميں مرد و زن كو موت كے گھاٹ اتار كر چلا گيا ، خدا كى قسم ہميں معلوم ہوا ہے كہ اس نے مسلمان عورتوں اور اہل كتاب پر حملہ كيا اور عورتوں كے زيورات نيز جو كچھ ہاتھ لگا اسكو سميٹ كر چلتا بنا ہے ، شام كے ڈاكو اپنے شہر كى طرف اس طريقے سے پلٹ رہے ہيں كہ انكے ہاتھ اموال سے لبريز اور ايك چھوٹا سا زخم بھى ان كے جسم پر نہيں ہوتا ہے اگر ايك غيور مسلمان اس ضد انسانى اور خلاف اسلام عمل سے رنجيدہ ہو كر مر رہا ہے تو بھتر ہے كہ اسكى مذمت و سر زنش نہ كى جائے (37)
3_ عبد اللہ بن مسعدہ
عبد اللہ بن مسعدہ انھيں ميں سے ايك ہے جسكو معاويہ نے مملكت امام (ع) كى تاخت و تاراجى كے لئے بھيجا تھا ، يہ كمسنى ميں جو زيد بن حارثہ كى جنگ قبيلہ بنى فراز سے ہوئي تھى اس ميں اسير ہوا تھا، رسول اسلام نے اسكو اپنى بيٹى فاطمہ كے حوالہ كر ديا تھا ، ليكن اپ نے اسكو ازاد كر ديا _
عبد اللہ ابتداء ميں امير المومنين(ع) كے چاہنے والوں ميں سے تھا ، ليكن مدت كے بعد معاويہ كے پاس دمشق چلا گيا _
اس نے اپنى فكر كو اس طرح بدل ڈالا كہ امام (ع) كے سر سخت دشمنوں ميں اس كا شمار ہونے لگا ، عبد اللہ بن مسعدہ نے اتنى طولانى عمر پائي كہ يزيد بن معاويہ كے لشكر كے ساتھ واقعہ حرہ كے حملہ ميں شريك ہوا يہ جنگ تمام تر قساوت قلبى اور ہتك حرمت و ذلت كا مظاہرہ تھى اور اس طرح يزيد اور خلافت بنى اميہ كے دامن پر دوسرا دھبہ لگا _
عبد اللہ نے اسكے علاوہ بھى شام كى جانب سے عبد اللہ بن زبير سے جنگ كى اور اسى جنگ ميں برى طرح زخمى ہوا ، مورخين نے اس واقعہ كے بعد كے اسكے حالات قلمبند نہيںكئے ہيں (38) معاويہ نے عبد اللہ بن مسعدہ فرازى كو سترہ سو ادميوں كے ساتھ قلمرو امام (ع) كى جانب روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ مكہ و مدينہ تك بڑھتا چلا جائے اور راستے ميں جو بستياں پڑيں وہاں كے باشندوں سے زكواة و صدقات كو جمع كر لے اور اگر كوئي انكار كرے تو بے دريغ انھيں قتل كر دے _
4- ضحاك بن قيس
قريش سے ضحاك بن قيس كا شمار معاويہ كے جنگى سربرا ہوںميں ہوتا تھا ،اس كى ولادت رسول اكرم كى وفات سے سات سال قبل ہوئي تھى _
اس نے معاويہ كى جنگوں ميں بڑھ چڑھ كر حصہ ليا اور بہت سارے اسيروں كو اپنا ہمنوا بنا يا تھا ، ايك مدت تك شہر دمشق كا داروغہ رہا پھر 53ھ ميں كوفہ كا حاكم بنا اور چار سال تك كوفہ پر حكومت كى ،ضحاك بن قيس نے معاويہ كے امور كو مرتے تك انجام ديا ، يزيد جو شكار كے لئے گيا تھا ، اسكے باپ كے مرنے كى خبر اسى ضحاك نے اس تك پہونچائي تھى ،
ليكن معاويہ بن يزيد كے مرتے ہى اس نے عبد اللہ بن زبير كى بيعت كر لى ، مروان بن حكم كے خلاف ''مرج راہط'' كے مقام پر اس سے جنگ كى اسى مقام اور اسى جنگ ميں ماہ ذى الحجہ كے وسط 64ھ ،ميں قتل ہوا (39)
معاويہ نے ضحاك بن قيس كو تين ہزار لشكر كے ساتھ عراق كى طرف روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ واقصہ كے باديہ نشين عربوں كو جو على (ع) كى اطاعت قبول كر چكے ہوں انكو قتل كر دے اور ان كا مال و اسباب لوٹ لے _
ضحاك نے معاويہ كے حكم كو جان و دل سے قبو ل كيا اور سر زمين ثعلبيہ كى جانب چل ديا اور اس مقام كے قبائل كا مال و اسباب لوٹا ، اسكے بعد كوفہ كى تاخت و تاراجى كے لئے رخ كيا ، قطقطانہ كے نزديك عمر و بن قيس بن مسعود جو حج كے لئے جا رہے تھے ان پر حملہ كر كے سارا زاد راہ ان سے اور انكے قافلہ والوں سے چھين كے حج كرنے سے روك ديا (40)
ثقفى كتاب غارات ميں داستان ضحاك كو اس طرح بيان كرتے ہيں :
ضحاك عراق كى جانب روانہ ہوا اور ہر جگہ اموال و اسباب كو لوٹا اور بہت سارے لوگوں كو موت كے گھاٹ اتارا ، جب سرزمين ثعلبيہ پر پہونچا تو اس مقام سے كچھ حاجيوں كا قافلہ حج كے لئے مكہ جا رہا تھا ان كے قافلہ پر حملہ كر كے ان كا پورا مال و اسباب چھين ليا ، پھر كچھ دور چلا اس مقام پر عمرو بن قيس جو مشھور صحابى رسول (ص) عبد اللہ بن مسعود كے بھتيجے تھے انكو اور ان كے ساتھيوں كو قتل كيا اسكے بعد ان لوگوں كے ساز و سامان كو لوٹ ليا _
5- بسر بن ارطاة
بسر بن ارطاة قبيلہ قريش سے ايك انتہائي خونخوار و سفاك سردار تھا ، جس كو معاويہ نے عراق و حجاز كو تباہ و بر باد كرنے كے لئے بھيجا تھا ، معاويہ كے سر سخت ہوا خواہوں اور جنگ صفين ميں لشكر معاويہ كى سردارى كرتے ہوئے شريك ہوا _
جنگ كے دوران ايك روز معاويہ نے اس سے كہا كہ تم على (ع) سے تنھا مقابلہ كرنے جائو گے اور ہم نے سنا ہے كہ تمھيں اس سے مقابلہ كرنے كى بہت ارزو ہے لہذا اب جا كر طاقت ازما لو ، اگر خدا وند عالم نے تم كو اس پر فتح و پيروزى عطا كى تو تمھارى دنيا و اخرت سنور جائے گى ؟
معاويہ نے كہا البتہ ميں جانتا ہوں كہ على (ع) سے تنہا لڑنا گويابھيڑيئےے منھ ميں جانا ہے اور كوئي بہادر على (ع) سے ٹكرا كے اپنى جان كوسلامت نہيں بچا سكا ہے لہذا بسر تمام عربى تعصب و جاہلى جسارت سے اپنے قدم كو كھنچ لے اور اس كام كو انجام نہ دے_
ايك دن بسر نے جنگ كرتے ہوئے حضرت على (ع) كو اپنے سامنے ديكھا تو ان پر حملہ كر ديا ليكن قبل اسكے كہ امير المومنين (ع) پر اسكى ضرب كارى اثر انداز ہو امام (ع) نے ايسا حملہ بسر پر كيا كہ زين سے زمين پر اگيا جب اس نے اپنى جان كو شير كے پنجہ ميں احساس كيا تو فورا ذليل و شرم اور حركت انجام دى كہ اپنے لباس كو اتار ڈالا ، يہاں تك كہ اسكى شرمگاہ ظاہر ہو گئي _
امام على (ع) نے فوراً اپنى انكھ بند كر كے پھير ليا اور اسكو اپنى حالت پر چھوڑ ديا _
اپ ہم جانتے ہيں كہ اسى طرح كا دوسرا واقعہ اسى جنگ صفين ميں عمر و بن عاص كے ساتھ پيش ايا تھا ، امام (ع) نے اس دن بھى اپنا منھ گھما ليا تھا اور ميدان جنگ ميں اپنى جان بچانے كے لئے ايسى گھٹيا حركت كى تھى كہ اپ اسكو قتل كرنے سے باز ائے_
ان دونوں حادثوں كا ادبيات عرب ميں بہت برا اثر پڑا اور بہت سارے شعراء نے اس سلسلہ ميں شعر بھى كہے جن ميں ايك حارث بن نضر سہمى ہے وہ كہتا ہے :
تم لوگ جنگ كے دنوں ميں ہر روز سوار ہو كر ميدان جنگ ميں جاتے ہو ، ميدان جنگ كے گرد و غبار كے درميان اپنى شرمگاہ كو ظاہر كرنے كے لئے ، يہى وہ وقت ہے جو حضرت على (ع) اپنے نيزے كو تم لوگوں پر نہيں مارتے ہيں اور معاويہ تنہائي ميں تم دونوں پرہنستا ہے گذشتہ دنوں عمرو كى شرمگاہ ظاہر ہو گى اسكى يہ ركيك حركت ہميشہ مثل دستار كے اسكے اوپر بندھى رہے گى اور اج كے دن بسر نے بھى عمرو بن عاص كى طرح اپنى شرمگاہ كو ظاہر كرديا _
عمر و اور بسر سے كوئي كہدے كہ اپنى راہ پر خوب غور و فكر كريں ، كہيں ايسا نہ ہو كہ پھر شير كے مقابلہ ميں چلے جائيں ، تم لوگوں پر لازم ہے كہ اپنى اپنى شرمگا ہوں كا شكريہ ادا كرو كيونكہ خدا كى قسم ، اگر تمھارى شرمگاہيں نہ ہوتيں تو كوئي تمہارى جان كو نجات نہيں دے سكتا تھا_
يقينا تم لوگوں كى شرمگاہيں تھيں كہ جس نے تمھارى جان بچائي ، اسى واقعہ نے تم لوگوں كو بار ديگر ميدان جنگ ميں جانے سے روك ديا ہے ،(41)
جنگ صفين كے قہر مان مالك اشتر نے بھى اس سلسلے ميں شعر كہا ہے جس كاترجمہ يہ ہے كه :
جنگ كے دنوں ميں ايك روز تمھارے بزرگوں ميں سے كسى ايك كے ميدان جنگ سے قدم اكھڑ گئے تو جنگ كے گرد و غبار كے درميان شرمگاہ نظر ائي ، صاحب نيزہ كى ضربت شديد نے ان پر وہ ظلم و ستم كيا كہ خوف كے مارے اپنى شرمگاہ كو اشكار كر ديا ، كس كى شرمگاہ ؟ عمرا و ربسر كى جنكى كمر ہميشہ كے لئے ٹوٹ گئي (42)
مورخين نے اس مسئلہ ميں اختلاف كيا ہے كہ ، ايا بسر صحابى رسول (ص) ميں تھايا نہيں ؟ اور رسول (ص) سے شرفياب ہونے كى صورت ميں كوئي حديث سنى يا نہيں ؟
ليكن مورخين كا بيان ہے كہ وفات رسول (ص) كے بعد اپنے دين سے منحرف اور مرتد ہو گيا تھا ، جب امام عليہ السلام كو اسكى عراق و حجاز ميں ظلم وسفا كى كى خبر معلوم ہو ئي كہ بسر نے بچوں تك كو قتل كيا ہے تو اسكے حق ميں بد دعا كرتے ہوئے فرمايا ، خدا يا اس سے دين و عقل كو چھين لے ، امام عليہ السلا م كى دعا مستجاب ہوئي، مرنے سے پہلے اپنى عقل كو كھو بيٹھا مگر اس بد حواسى كے عالم ميں بھى يہ كہتا كہ مجھے تلوار دو ، اخر لكڑى كى ايك تلوار اسے دى گئي اور مشك ميں ہوا بھر كر اسكے سامنے ركھ دى گئي وہ اس مشك پر تلوار چلاتا اور جذبہ خون اشامى كى تسكين كا سامان كرتا تھا ، اخر اسى ديوانگى كے عالم ميں معاويہ كے زمانے ميں مر كھپ گيا (43)
طبرى لكھتا ہے :
معاويہ نے 40ھ ميں بسر بن ارطاة كے سربراہى ميں ايك فوج امام كے علاقے ميں بھيجى اس نے اپنے لشكر كے ساتھ شام سے حركت كى ، جب مدنيہ پہونچا تو اس درندہ صفت انسان نے باقى انصار جو سالہا سال اسلام كى طرف سے جنگ كئے تھے اور اس راہ ميں كسى قسم كى كسر نہ اٹھا ركھى تھى ان پر حملہ كر كے ان لوگوں كو خوب ڈرا يا دھمكايا اس حملہ كے نتيجہ ميں شہر مدينہ كے اكثر گھر ويران ہو گئے اور نہ جانے كتنے لوگ بے گھر ہو گئے _
پھر مدينہ سے نكل كر يمن كى طرف چل ديا حاكم يمن عبيد اللہ بن عباس جو اپنے بچوں كو ايك شخص كے حوالہ كر گئے تھے
بسر كے لشكر نے اس شخص سے ان بچوں كو چھين ليا پھر اس خونخوار و سفاك انسان نے اپنے ہاتھ سے ان دونوں بچوں كوتہ تيغ كيا ، بسر نے اسى جنايت و غارتگرى پر اكتفا نہيں كيا تھا ، بلكہ اكثر شيعيان على (ع) كو موت كے گھاٹ اتار ا ان لوگوں كا گناہ صرف اتنا تھا كہ محب على (ع) تھے (44)
ابراہيم بن محمد ثقفى اپنى كتاب غارات ميں لكھتے ہيں
معاويہ نے بسر كو تين ہزار كى فوج كے ساتھ عراق كى طرف روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ جب مدينہ پہونچ جانا تو لوگوں كو پريشان كرنا اور جس سے ملاقات ہو اسكو خوب ڈرانا دھمكانا جو لوگ ثروتمند ہوں اور ہمارى اطاعت كو قبول نہ كرتے ہوں انكے اموال كو غارت كر دينا ، بسر نے معاويہ كے حكم كے مطابق ان امور كو انجام ديا چنانچہ بسر اور اسكے لشكر والے جہاں كہيں اونٹوں اور جانوروں كو ديكھتے تھے انكے مالكوں سے چھين كر ان پر سوار ہو جاتے تھے يا پھر اسكو ہنكا كر ساتھ لے جاتے تھے ، جب لوٹ گھسوٹ كرتے ہوئے مدينہ پہونچا تو اس نے اہل مدينہ كے درميان تقرير كى ، اور ان لوگوں كو خوب برا بھلا كہكر بہت ڈرايا دھمكايا (45)
معاويہ نے بسر بن ارطاة كو 40ھ كے اوائل ميں يمن و حجاز كے لئے بھيجا ، اور اس نے بسر سے كہا كہ ، جو بھى امام (ع) كى اطاعت ميں ہو اسكو قتل كر دينا ، اس خونخوار بھيڑيئے نے معاويہ كے حكم سے مكہ و مدينہ جو اسلام كى زادگاہ اور جہاں وحى نازل ہو ئي تھى ضد انسانيت اور عظيم جنايت كا ارتكاب كيا (46)
ابن عساكر نقل كرتے ہيں
بسر نے قبيلوں كے لوگوں پر حملہ كيا اور جو بھى امام (ع) كى محبت كا دم بھرتا تھا اسكو قتل كر ديتا تھا جيسے قبيلہ بنى كعب كا جو مكہ و مدينہ كے ما بين ايك ابادى ميں زندگى گزار رہے تھے قتل عام كيا اور اخر ميں لاشوں كو كنويں ميں پھينك ديا (47)
مسعودى اپنى كتاب مروج الذہب ميں اس سلسلے ميں رقطراز ہيں:
بسر نے مدينہ ميں اور مدينہ و مكہ كے درميان بہت سارے قبيلہ خزاعہ اور ان كے علاوہ افراد كو قتل كيا _
جب مقام جرف پر ايا تو يہاں بہت سے اعراب زندگى گذارتے تھے جو ابناء سے مشہور تھے ، ان كو قتل كيا اور اس نے جسكو بھى محب امام (ع) پايا زندہ نہيں چھوڑا (48)
مشہور اديب و مورخ ابو الفرج اصفہانى كتاب اغانى ميں بيان كرتے ہيں :
معاويہ نے واقعہ تحكيم كے بعد ، بسر كو حكومت امير المومنين (ع) كى جانب بھيجا انحضرت (ص) ان دنوں با حيات تھے _
معاويہ نے بسر سے كہا كہ مختلف شہروں ميں گھومتے پھر تے رہنا اور جس مقام پر شيعيان و اصحاب امام (ع) كو پانا انكو قتل كر دينا نيز قتل عام كے بعد انكے اموال و اسباب كو لوٹ لينا ، حتى عورتوں و بچوں پر بھى رحم نہ كرنا ، بسر معاويہ كے حكم كے مطابق تاخت و تاراجى كے لئے روانہ ہوا _
جب مدينہ پہونچا تو اس مقام پر اصحاب امير المومنين (ع) كے ايك گروہ كو موت كے گھاٹ اتارا اور اكثر گھروں كو ويران كر ديا ، پھر مكہ كى جانب رخ كيا اس جگہ پر فرزندان ابو لہب كے كچھ افراد كو مارڈالا اخر ميں سراة كى طرف حركت كى اس مقام پر امام (ع) كے چاہنے والے رہتے تھے ان كو قتل كيا اسكے بعد نجران كى طرف روانہ ہوا اس جگہ پر عبد اللہ بن مدان حارثى اور انكے فرزند كو جو خاندان عباس كے رشتہ داروں ميں تھے ، قتل كيا ، پھر يمن ايا امام (ع) كى جانب سے اس سر زمين كے حاكم و والى عبيد اللہ بن عباس تھے ، جو اس ہنگام ارائي كے وقت موجود نہ تھے ، بعض مورخين كے بقول بسر كى امد كو سنكر فرار ہو گئے تھے (49) جب بسر نے انكو نہيں پايا تو ان كے دو بچوں كو دستگير كيا اور ان دونوں كو اپنے ہاتھوں سے قتل كيا پھر لشكر كو ليكر شام واپس چلا ايا (50) _
مورخين لكھتے ہيں :
ايك عورت نے بسر بن ارطاة سے كہا كہ اج تك مردوں كو تو قتل كيا جاتا رہا ہے مگر اسلام تو اسلام دور جاہليت ميں بھى بچوں كو قتل نہيں كيا گيا وہ حكومت كبھى قائم رہ سكتى جسكى بنياد ظلم و جور پر ہو اور جس ميں بچوں اور بو ڑھوں پر بھى ترس نہ كھايا جاتا ہو (51) كہتے ہيں كہ : ان دو بچوں كى غمخوار ماں نے جب اپنے جگر پاروں كو خاك و خون ميں غلطاں ديكھا تو اپنے
ہوش و حواس كھو بيٹھى اور والہانہ طور پر اس طرح گھومتى پھرتى تھى كہ گويا اپنے بچوں كو تلاش كر رہى ہو ،، وہ اپنے درد ناك اشعار سے لوگوں كے دل ہلا دے رہى تھى ان اشعار كا ترجمہ يہ ہے كہ:
ہاں كون ہے جو ہمارے دو فرزنددلبند كى داستان سے اگاہ نہيں ہے ؟ كہ جو دو قيمتى ہيرے تھے ، جو تازے صدف سے باہر ائے تھے ، يہ دونوں ہمارے قلب كى دھڑكن اور سننے كى طاقت تھے ، لہذا ان دونوں كے حالات سے كوئي با خبر ہے ، ارے يہ ميرے دونوں بچے ہمارى ہڈيوں كے گود ے كى طرح تھے اب تو گودے كو ہمارى ہڈيوں سے نكال ديا گيا ان كے چلے جانے سے ہم پريشان ہيں اور كف افسوس كے كوئي چارہ نہيں ہے يہ ہمارى پريشانى اس لئے ہے تاكہ لوگوں كو معلوم ہو جائے كہ ان دونوں بچوں كے دل پر كيا گذرى جو باپ كى عدم موجودگى ميں ذبح كر ڈالے گئے ، مجھ سے كہا گيا ليكن ان كے كہنے پر مجھے يقين نہيں ايا ، لوگوں نے ان مظالم كو بيان كيا جو ميرے اوپر پڑے تھے كہ بسر كى شمشير برّان نے ميرے دونوں بيٹوں كو تہ تيغ كر ديا ، اہ ، كيا اس طرح كى بيداد گرى ممكن ہے ؟ (52)
كتاب استيعاب و اسد الغابہ ميں مرقوم ہے كہ بسر بن ارطاة نے ايك و حشيانہ حملہ قبيلہ ہمدان پر كر كے ان كے مردوں كو قتل كر ڈالا ، پھر انكى عورتوں كو اسير بنا يا گيا اسلام ميں يہ پہلى عورتيں تھيں جو اسير بنائي گئيں ، اسكے بعد بيچنے كى خاطر ان عورتوں كو بازار ميں لے جايا گيا (53) اور كتاب غارات ميں ہے كہ ، مارب سے چندلوگوں پر مشتمل ايك گروہ كا بسر اور اسكے لشكر سے راستہ ميں مڈ بھيڑ ہو گئي اس درندہ صفت انسان نے ان تمام لوگوں كو قتل كر ديا ، صرف ايك ادمى اسكے پنجہ خونين سے اپنى جا ن بچا كر اپنے قبيلے ميں پہونچا ، اس نے اس ظلم عظيم كو ايك جملہ ميں بيان كيا كہ ، ہم تمام پير و جوان كى خبر مرگ اور قتل عام كى تم لوگوں كے لئے سنانى ليكر ائے ہيں (54) _
لشكر علوى (ع) كا ايك سپاہى جاريہ بن قدامہ
اب ہميں جاننا چاہيئے كہ لشكر معاويہ كے سربراہ بسر بن ارطاة كے حملات اور خونريزيوں كے مقابلے ميں امام عليہ السلام نے كيا اقدام كيا ؟
امير المومنين (ع) نے ہميشہ كى طرح ان لوگوں سے ظلم و بربريت كا اور ان عوامل كو نيست و نابود كرنے كے لئے كھڑے ہونے كو كہا :
كوفيوں نے گذشتہ كى طرح اس مرتبہ بھى حكم امام (ع) كى تعميل ميں دلچسپى كا اظہار نہيں كيا ،، سارے مجمع ميں سناٹا چھايا ہو ا تھا ، امير المومنين (ع) كى درد بھرى اواز كوفہ و مسجدكوفہ كے درو ديوار ميں گونج رہى تھى ليكن مردہ روح اور بے حس كوفيوں كو بيدار نہ كر سكى _
تھوڑى دير گذرى كہ ايك اسلام كا سپاہى جاريہ بن قدامہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو ئے اور امام (ع) كى اواز پر لبيك كہا :
يعقوبى كے بقول امام (ع) نے جاريہ كو بھيجتے وقت ان كو يوں حكم ديا
'' كبھى زخمى كو قتل نہ كرنا اگر مجبور ہو جائو تو خود بھى اور اپنے لشكر كو بھى راستہ پيدل طئے كرانا ہرگز لوگوں كے جانوروں كو زور زبر دستى سے نہ چھين لينا ، ابادى و بيابانى چشموں سے صاحبان اب سے پہلے استفادہ نہ كرنا ، اپنے لشكر كى خوشنودى كى خاطر ہرگز مسلمانوں پر سب و شتم نہ كرنا اگر ايسا كرو گے تب جا كر دوسرے لوگ تمھارا احترام و ادب كرينگے اور ياد ركھو ہر گز اہل كتاب جو مسلمانوں سے عہد و پيمان كئے ہوئے ہيں ان پر ظلم و ستم نہ كرنا _
دوسرے مقام پر اس فرمان كو يوں بيان كيا گيا ہے
سوائے ان مقامات كے جہاں پر حق تم كو حكم ديتا ہے كسى كے خون كو نہ بہانا ، اسى طرح تمہارى ذمہ دارى ہے كہ لوگوں كے خون كى خاطر حق كا خيال و محافظت كرو (55)
كتاب غارات ميں جاريہ كى دفاعى جنگ كى داستان اس طرح نقل ہوئي ہے
جاريہ كوفہ سے نكلنے كے بعد سب سے پہلے بصرہ ائے يہاں سے كوچ كر كے حجاز گئے اور اس طرح بڑھتے ہوئے يمن پہونچ گئے ، اس موقع پر بسر بن ارطاة جاريہ كى امد سے مطلع ہو گيا ، لہذا اپنے راستہ كو پگڈنڈيوں سے طئے كرتا ہوا يمامہ پہونچا ، جاريہ بن قدامہ اپنى تيز رفتارى سے اگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ، اور كسى شہر يا قلع ميں نہيں اترے تمام جگہوں پر بسر كو ڈھونڈ ھ رہے تھے اور بسر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تاكہ مملكت امام (ع) كى سر حدوں سے باہر ہو جائے _
جب لوگوں نے بسر ارطاة كو بھاگتا ہوا ديكھا تو چاروں طرف سے اس پر حملہ كر ديا كيونكہ لوگوں نے اسكى تباہكارى و ظلم و زيادتى كو بہت ديكھا تھا _
بسر كے وحشيانہ حملے ميں تقريبا تيس ہزار افراد قتل ہوئے اور نہ جانے كتنے قبيلوں كو اگ ميں جھونك ديا گيا _
ايك عرب شاعر بسر كى درندگى نيز اس حادثہ كے پس منظر ميں ايك بيت كہتا ہے جس كا ترجمہ قارئين كى خدمت ميں پيش كر رہے ہيں
جس جگہ بسر اپنے لشكر كو لے گيا جب تك قتل كى طاقت رہى قتل كرتارہا ورنہ اگ لگا دى (56)
دو متضاد سياستيں
معاويہ نے اور دوسرے لٹيروں كو بھى امام (ع) كى حكومتى سرحدوں كو تاخت و تاراج كرنے كے لئے بھيجا تھا جس كو ہم نے اپ حضرات كے لئے بيان نہيں كيا _
اگر تفصيل سے ديكھنا چاہتے ہيں تو تاريخ كى كتابوں كو ملاحظہ فرمائيں :
معاويہ كى فوج نے ہميشہ امام (ع) كے سپاہيوں سے مقابلہ نہ كرنے كے لئے صرف ان مقامات پر حملہ كيا جو انكى دسترس سے دور تھايا انكے فوجى ٹھكانے اسلحوں يا سپاہيوں كے لحاظ سے بہت كمزور تھے جب بھى لشكر كوفہ نے ان لٹيروں كا پيچھا كيا تو ان كے خوف سے بھاگ كھڑے ہو ئے _
حقيقت ميں يہ لوگ تخريب كار اور پيشہ ور ڈاكو تھے ، منجملہ وہ لٹيرے شامى جنكى لشكر امام (ع) سے مڈ بھيڑ ہوئي معاويہ نے
انكو بين النھرين بھيجا تھا، اس مقام پر امام(ع) كى طرف سے جو حاكم تھے انھوں نے كميل بن زياد سے جو شہر ہئيت كے والى تھے فوجى مدد مانگى ، كميل چھہ سو سواروں كا ايك دستہ ليكر انكى مدد كو چل ديئے ، دونوں لشكر كے درميان گھمسان كى جنگ ہوئي لشكر شام معمول كے مطابق اپنے كشتہ ہائے نجس كو وہيں چھوڑ كر فرار كر گئے_
كميل نے حكم ديا ، خبر دار بھاگنے والوں كا پيچھا نہ كيا جائے اور نہ ہى زخميوں كو جان سے مارا جائے اس جھڑپ ميں لشكر كميل سے صرف دو افراد شھيد ہوئے _
دوسرا واقعہ
امام (ع) كے ايك والى نے معاويہ كے لٹيرے دستہ كا پيچھا كيا ، تعاقب كرتے كرتے فرات سے اگے نكل گئے تو اپنے لشكر والوں كو شام كے مختلف علاقوں ميں لوٹنے كے لئے بھيج ديا يہاں تك كہ لوٹ مار كرتے ہوئے رقہ كے قريب پہونچ گئے جو عثمان كے ہوا خواہوں كا مركز تھا اس مقام پر بھى لوٹ گھسوٹ كى اور كافى مقدار ميں ہتھيار گھوڑے وغيرہ چھينے ، معاويہ نے ان لوگوں كا پيچھا كرنے كے لئے ايك چھوٹا دستہ روانہ كيا مگر يہ لوگ ان كے ہاتھ نہ ائے كيونكہ اپنے مركز نصيبين ميں صحيح سالم پلٹ ائے تھے ، اس سردار لشكر نے واپس انے كے بعد امام (ع) كو سارى روداد لكھكر بھيجى ، اس حاكم شہر كى گذارش سے نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ اس نے اپنے امور كو كسى صورت ميں غير شرعى نہيں جانا تھا _
كيونكہ معاويہ كے خونخوار بھڑيئےور لٹيرے لشكر كے مقابلہ ميں اس نے بہت چھوٹا انتقام ليا تھا شايد اس انتظار ميں تھا كہ حضرت امير المومنين (ع) ہميں انعام و اكرام سے نوازيں گے _
ليكن امام (ع) عليہ السلام نے نہ يہ كہ اسكى شاباشى نہ كى جواب ميں يہ لكھا كہ :
ائندہ ايسى حركت نہ كرنا دشمن كے اموال كو اس وقت لينے كا حق ركھتے ہو جب جنگ ہو اور دشمن ہاتھوں ميں تلوار ليكر سامنے اجائے اس وقت تمھيں حق ہے كہ دشمن كے اموال كو تصرف كرو _
جيسا كہ اج بھى ديكھنے ميں اتا ہے كہ جہان اسلام اسى دو متضاد سيا ستوں كى شكار ہے
-----------------------------------------------------------
1_ استيعاب ج1 ص 252 ،اصابہ ج3 ص 413 ، ابن كثير ج8 ص 120
2_ صحيح مسلم ج5 ص 46 ، تہذيب ابن عساكر ج7 ص 212
3_ مسند احمد ج 5 ص 319 ، سنن نسائي ج2 ص 222
4_ اسد الغابہ ج3 ص 106 ، اعلام النبلاء ج2 ص 2
5_ سير اعلام ج2 ص 2 ، تہذيب ابن عساكر
6_ تہذيب ابن عساكر ج8 ص 212 ، اعلام النبلاء ج2 ص 4 ، مسند احمد ج 5ص 325
7_ اصابہ ج2 ص 394 ، استيعاب ص 400 ، اسد الغابہ ج3 ص 299 3_مسند احمد بن حنبل ج5 ص 347
8_ ابن عساكر ج 7 ص 213 _ 348 ، اصابہ ج2 ص 282
9_ طبقات كبرى ج4 ص 223، سير اعلام ج2 ص 38 ، اسد الغابہ ج1 ص 301
10_ سيرہ ابن ھشام ج4 ص 179 ، طبرى ج3 ص 45
11_ مروج الذھب ، ابن اثير ج5 ص 163_ 161
12_ سير اعلام النبلاء ج2 ص 50
13_ انساب الاشراف ج5 ص 53
14_ يعقوبى ج2 ص 122
15_ طبرى ج5 ص 66
16_ تاريخ كامل ج3 ص 43
17_ انساب الاشراف ج5 ص 40
18_ انساب الاشراف ج5 ص 43
19_ طبرى ج5 ص 90 ، ابن اثير ج3 ص 60
20_ شرح النہج ص 58
21_ مروج الذھب ج2 ص 333
22_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 581
23_ نصر بن مزاحم كى صفين ص 58 ، شرح النہج ج1 ص 250
24_ بدايہ النھايہ ج 8 ص129
25_ صفين ص 128
26_ صفين ص 209، شرح نہج البلاغہ ج1 ص 250
27_ صفين ص 193
28_ مروج الذھب ج2 ص 390
29_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 165
30_ صفين ص 492
31_ وقعة صفين ص 549
32_ صفين ص 643
33_ اسد الغابہ ج5 ص 23 ، اصابہ ج3 ص 529
34_ طبرى ج6 ص 177 _ ابن اثير ج3 ص 150 _ شرح نہج البلاغہ ج1 ص 213 ، ابن كثير ج 7 ص 319 _ 324
35_ شرح النہج ج2 ص 90
36_ عيون الاخبار ج2 ص 236
37_ اغانى ج 15 ص 43
38_ اسد الغابہ ج3 ص 255 ، اصابہ ج2 ص 359، جمہرة انساب العرب ص 245 ، طبرى ج4 ص 83 ، يعقوبى ج2 ص 44
39_ اسد الغابہ ج3 ص 37 ، تہذيب ابن عساكر ج7 ص 9
40_ طبرى ج6 ص 78 ، ابن اثير ج3 ص 150
41_ استيعاب ص 67 ، صفين ص 527
42_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 201
43_ اغانى ج 15 ص 45 ، تہذيب ابن عساكر ج3 ص 222
44_ طبرى ج6 ص 78
45_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 14 ، يعقوبى ج2 ص 141
46_ تہذيب التہذيب ج1 ص 436
47_ ابن اثير ج3 ص 154، تہذيب ابن عساكر ج3 ص 225
48_ جمھرة انساب العرب ص231
49_ اغانى ج 15 ص 45 ، اسد الغابہ ج3 ص 340
50_ مروج الذھب ج6 ص 93 ، نہاية الادب ص 330
51_ ابن اثير ج3 ص 154، ابن عساكر كى تہذيب ج3 ص 225
52_ اغانى ج 15 ص 45
53_ استيعاب ج1 ص 66 ، اسد الغابہ ج1 ص 180
54_ شرح نہج البلاغہ ، تحقيق محمد ابو الفضل ج2 ص 15
55_ يعقوبى ج2 ص 143
56_ اغانى ج 17 ص 72
|