تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار
دوران معاويہ
مو لف : سيد مرتضى عسكرى
مترجم : سيد كرار حسين رضوى گوپالپوري
گفتار مترجم
اسلامى متن كو جا ننے كے لئے تاريخ اسلام كى شناخت اور مشہوروموثرشخصيتو ںكى شناخت بہت ضرورى ہے يہاں تك كہ جرا ت كے ساتھ يہ دعوى كيا جا سكتا ہے كہ تاريخ اسلام كى گہرائي اوردقّت سے واقفيت حاصل كئے بغيراس كے ائين،حقائق اور واقعات كوسمجھا نہيں جاسكتا ،كيوں كہ ايك طرف تو بزرگ شخصيتوںكى پہچان اور ان كے مثبت اسلامى افكارواعمال خود دينى متن كاايك حصّہ ہيںجسے سنّت كے نام سے جاناجاتا ہے، ظاہر ہے كہ يہ اس كے زبان و مكان ،اداب و رسوم اور اخلاق كو سمجھے بغير اس كى واقفيت ممكن نہيں ہے اور دوسرى طرف منفى شخصيتوںكو پہچاننا بھى صحيح اسلام كو سمجھنے كيلئے ضرورى ہے كيوں كہ اس طرح اسلامى جنگ وجہاد كى نوعيت اور انكے رہبروںكے اقدامات كوسياہ كار افرادہى كے اقدامات سمجھنے سے سمجھا جاسكتا ہے _
اس بنياد پر توجہ كرتے ہوئے ايك قيمتى تاريخ صحيح كى ہميں تلاش كرنى چاہيئے،تاكہ يہ واضح ہو سكے كہ حقائق تاريخى حاصل كرنے كے لئے اپنے دين كى واقفيت كے حصول ميں كس قدر مددگار ہے ،اور كس حد تك ہم طلوع اسلام كے بعدصدياں بيتنے كے باوجودہم صحيح اسلام كو حاصل كر سكتے ہيںاور اس چشمہ صافى سے نزديك ہو سكتے ہيں_
ہم ايندہ صفحات ميں ديكھيںگے كہ اسلام ميں تاريخ و حديث كو كس طرح خواہش پرستى كانشانہ بنايا گيااور جھوٹ و تحريف كس حد تك اسميں جگہ پاگئي ہے،احاديث و تواريخ كى كتابوں پران عياروں نے حكومت اموى كے اشاروںسے ،خاص طور سے معاويہ كے اشارے پر كس حد تك تقويت دى گئي اسلام كى زندگى پر ہر دن ايك تازہ جھوٹ اور بناوٹ كاپلندہ بڑھاديا جاتا تھا دين خدا كا درخشاںسورج اہستہ اہستہ ان تمام جھوٹ اور جعل كے دھند ميں دفن ہو گيا،يہيں ہميں ائمہ اہلبيت كى جانبازى وثبات كوافرين كہنا پڑتا ہے كہ ان بزرگواروںاور پاكباز شيعوں نے سچے اسلام كى حمايت كے لئے اقدام كيااور اپنے خون سے جھاد كى ايك ايسى فضا تيار كى كہ ان جھوٹے اور جعل سازوں كى ہمت پست ہو گئي_
دوسرى طرف جاہليت كے محافظوں ، اموى وعباسى خلفاء كى يہ كوشش جارى رہى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں جو جھوٹ گڑھ دئے گئے ہيں ان كى حفاظت كى جائے اور جہاں تك ہو وسيع بنيادوں پر انكى اشاعت كى جائے
كيونكہ انكے خلافت كى بنياد اسى جھوٹ پراستوار تھى ،حق باطل كى يہ محاذارائي گروہ خدا اور گروہ شياطين كے درميان ہميشہ جارى رہے گى اس سے كوئي زمانہ خالى نہيں رہا ہے_
ہمارے عہد ميں ايك دوررس محقق اپنى شاندار ذہانت سے اس سچ اور جھوٹ كو ايك دوسرے سے الگ كرنے كيلئے عظيم اقدام كيا ہے اور سيكڑوںجھوٹ اور تحريف كوميدان تاريخ اسلام سے الگ كيا ہے علامہ مرتضى عسكرى نے تاريخ وحديث كے متون كو چاليس سال تك اپنى سخت كاوش سے حقائق كى رونمائي كى ہے جو دراسات فى الحديث والتاريخ كے نام سے سلسلہ وار شايع ہو چكى ہے رات و دن كى محنتوں _ دقت نظر اور فكر صحيح كے ذريعہ تاريخ اسلام كے بے شمار مسائل اور واقعات كوجعليات كے اندھيروںسے نكال كر حقائق كے متلاشى حضرات كے حوالہ كيا_
سچى بات تو يہ ہے كہ صحيح تاريخ اسلام اور اسكى عظيم ركاو ٹوںكاسب سے پہلا متن مشہور تاريخ طبرى ہے يہ تاريخ نگاروں كاپيشوا ہے بغير ا س كا مطالعہ كئے اور اس پر تحقيقى نظر ڈالے اسے مستند نہيں قرار ديا جا سكتا اسى طرح صحيح بخارى صحيح مسلم اور ابن اثير وغيرہ پر بھى ہوش مندى كے ساتھ تحقيقى نگاہ ڈالنا ضرورى ہےچنانچہ ازاد اور مشہور مصرى دانشور،محمود ابو ريہ فرماتے ہيں كہ:
جس شخص كو بھى ارزوہے كہ تاريخ اسلام كے حقائق كو اوائل سے بيعت يزيد كے زمانہ تك اچھى طرح سمجھے اس پر لازم ہے كہ وہ دو قيمتى تحقيقى كتابوں كا مطالعہ كر ے ايك تو عبداللہ بن سبا اور دوسرے احاديث ام المومنين عائشه _
* * *
مو لف كتاب علامہ سيد مرتضى عسكرى ايرانى ناد دانشور ہيں انكے اباء و اجداد صديوں تك ساوہ اور سبزوارميں علمى اور تبليغى مرجعيت سے سرفرازتھے اپ كى ولادت سامرہ شہر ميں ہوئي اور علمى گھرانے ميں پرورش پائي ان كے بڑے ا بّاايةاللہ مرزا محمد سامرائي نے انكى تربيت ميں بہت ہاتھ بٹايااپ اس شھر كے بزرگ اور پرہيزگار عالم تھے علامہ عسكرى نے ابتدائي دينى تعليم( اور ثانوى حد تك) سامرہ ميں حاصل كى اس كے بعد اپ نے قم كا سفر كيااور يہاں پانچ سال تك حوزہ علميہ ميں تكميل علم كے مراحل طے كئے اس كے بعد اپ عراق اپنے بزرگ ومقدس اجداد كى پا بوسى كے لئے چلے ائے اپ كے تحصيلات علمى كااخرى دورہ عراق كے مذہبى شہروں ميں ہوااس كے بعد اپ تھوڑى دير بھى ارام و سكون سے نہ بيٹھے اور ان ايام ميںبھى اپنى زندگى كو علمى تحقيقات اورتبليغى ومعاشرتى فعاليت
ميں صرف كياپندرہ شيعى ادارے قائم كئے ان ميںثانوى مدارس كالج اسپتال اور امور خير كے صندوق شھر بغداد ميں قائم كئے_
علامہ عسكرى كے علمى كارناموںكى چندخصوصيتيںہيں ان صفحات ميں ان كے علمى نگارش كاكچھ تذكرہ كيا جاتاہے تاكہ اس كتاب كے سمجھنے ميں معاون ہو _
اپ كى تمام كتابوں كى پہلى خصوصيت يہ ہے كہ تعصب اور جانبدارى سے قطعى پاك ہوتى ہے،چنانچہ ہم اسى كتاب ميںاس حقيقت كامشاہدہ كريں گے اپ نے صرف حق وحقائق كى پاسدارى كے لئے شخصيت كے كمزورپہلوو ں سے بحث كى ہے اور ام المومنين كے امتيازات كى تشريح كے لئے بے شمار صفحات لكھ ڈالے ہيں _
دوسرى خصوصيت و امتياز يہ ہے كہ اپ نے متقدمين كے مصادر و متون كى طرف رجوع كيا ہے ، يہاں تك كہ اپ نے اپنے ابتدائي مباحث ميں پانچويں صدى بعد كى كسى كتاب پر بھروسہ نہيں كيا ہے اور ضمنى حيثيت سے اپ نے كوشش كى ہے كہ انھيں متقدمين كے متون كى طرف متوجہ كيا جائے تاكہ تمام امت كے افراد پورى طرح مان ليں جيسا كہ عصر حاضر كے بعض دانشور حضرات نے كچھ تاريخى كتابوں ميں تشكيك پيدا كى ہے علامہ نے اپنى كتاب عبداللہ بن سبا ميں صرف انھيں كو اپنا ماخذ نہيں بنايا ہے ،ڈاكٹر حفنى داو داستاد دانشكدہ ادبيات مصر نے عراقى رسالہ ميں كتاب عبداللہ بن سبا كے بارے ميں اپنى رائے لكھى ہے كہ اس محقق اور ماہر تاريخ نے اپنے علمى تحقيقات و مباحث ميں بے شمار كتابوںكے حوالے دئے ہيں اور ہر ايك ميدان تاريخ ميں قدم ڈال كر فراموش شدہ حقيقت كو حاصل كيا ہے يہ استاد محقق ہميشہ اس كوشش ميں رہے كہ اپنى تمام كتابوں كے دلائل مخالفين شيعہ سے حاصل كئے جائيںاور انھيں سے اپنا مطلب ثابت كيا جائے اس طرح وہ قريب ترين راستہ اختيار كرتے ہيںتاكہ دشمنان شيعہ كو اپنے مدلل باتوں سے مغلوب كر سكيں_
تيسرى امتيازى صفت جو استاد عسكرى كى تمام كتابوں ميں پائي جاتى ہے كہ وہ حوالے بہت زيادہ ديتے ہيں چنانچہ اسى كتاب كے فصل اول ميں بہت زيادہ مصادر و ما خذموجود ہيں حالانكہ فارسى ميں چاليس صفحہ اور عربى متن ميںبيس صفحہ سے زيادہ نہيں ہيں ،يہ خصوصيت كتاب عبداللہ بن سباكے متن عربى ميںاور اس موجودہ كتاب ميں ہرجگہ ديكھى جاتى ہے يہاں تك كہ كبھى ادھے صفحہ ميں حواشى حوالہ جات بھرے ہوئے ہيں_اور كہيں تو ان سے بھى زيادہ
حوالوں كو لكھ ڈالا ہے _
اخرى اہم ترين خصوصيت ايسى ہے كہ جو مشرق و مغرب كے تمام دانشوروںميں كم ہى ديكھى جاتى ہے وہ يہ كہ انھوں نے قديم ما خذ ومصادر پر پورے طور سے اعتماد نہيں كيا ہے چاہے وہ طبرى ہوں يا ابن ھشام يا ابن اثير انھوں نے كسى پر بھى پورا بھروسہ نہيں كيا ہے چاہے وہ كتنے ہى مشہور ہوں خواہ دوسروںنے اس پر اعماد بھى كيا ہو ليكن علامہ عسكرى كى تحقيق ميں لائق قبول نہيںہيں وہ پہلے مرحلے ميں تاريخى روايات كے اسنادپر بحث كر كے اسكى قدر و قيمت تعين كرتے ہيں اس صورت حال ميں وہ راويوں كى حيثيت كا تحقيقى تجزيہ كرتے ہيں اسكے بعد وہ مورد بحث كے متن كا اسطرح تجزيہ كرتے ہيں كہ تمام روايات كى اس طرح تطبيق ہو جائے كہ صحيح و سقم جدا ہو سكيں؟
اس بات كا تذكرہ ضرورى ہے كہ مغربى محققين عام طور سے يا زيادہ تر اپنى توجہ متن پر مركوز ركھتے ہيںاور انكى كوشش ہوتى ہے كہ حوادث كے متن كاصحت وسقم متعين كيا جائے وہ راويوںپر كم توجہ ديتے ہيں جديدمستشرقين جنھوں نے مغرب اور يورپ سے علم حاصل كيا ہے وہ زيادہ تر انھيں اساتذہ كى ہاںميںہاںملاتے ہيںانكى زيادہ تر تحقيق يورپى انداز فكرسے الگ نہيں ہے اور وہ زيادہ مو لف كتاب پر بھروسہ كرتے ہيں اسلئے زيادہ تر خرافاتى مطلب كو مان ليتے ہيں كہ اسے مشہور دانشور نے نقل كيا ہے اور اسى كو لكھ مارتے ہيں _
ليكن اسلامى محدثين نے ان دونوں روش ميںدقيق ترين راہ كا انتخاب كيا ہے وہ پورے طور سے راويان اخبار كو ديكھتے ہيں اورانكى روايت كا تجزيہ كرتے ہيں اور اس حوالے سے وہ تمام ما خذ پر غور كرتے ہيں ان تمام تحقيقات كے اندازكى روشنى ميں وہ اپنا نقطہ نظر پيش كرتے ہيں علامہ عسكرى كى عمدہ ترين تحقيقات كاانداز يہى ہے ، وہ تاريخ اسلام كے حوادث ومسائل كے سلسلہ ميں جديد نظريات واراء كو اسى بنياد پر پيش كرتے ہيں جن لوگوں نے كتاب عبداللہ بن سبااور دوسرى كتاب( خمسون ومائة صحابى مختلق) (ڈيڑھ سومصنوعى صحابي)كوملاحظہ كيا ہے وہ ہمارے اس نقطہ نظر كى تصديق كرينگے_
كلاسگو يونيورسٹى كے پروفيسرجيمس ربسن نے علامہ كو خط لكھتے ہوئے اسى حقيقت كى طرف اشارہ كيا ہے كہ اپ نے (سيف) راوى كى روايتوں كا جوتجزيہ كيا ہے وہ بہت دلكش ہے وہ اس طرح ، پہلے كہ اپ نے سيف كى روايتوں كا تجزيہ كياپھر انكادوسرى روايتوںسے تقابل كيااور اس دقيق تقابل نے سيف كى روايت كا پول كھول ديا يہ بھى كہ ان روايتوں كى سند سے پتہ چلتا ہے كہ سيف نے غالباً مجہول راويوںسے روايت نقل كى ہيں پھر يہ بھى سوال
اٹھتا ہے كہ اخر دوسرے مو لفين نے ان روايتوںكو اپنى كتابوں ميں جگہ كيوں نہ دى لہذا قارى اس نتيجہ پر پہنچتا ہے كہ سيف نے خود ان راويوں كو گڑھ ليا ہے يہ الزام سيف پر ايك منطقى نتيجہ كے طور پر سيف اور دوسرے راويوںكے تقابل سے حاصل ہوتا ہے ، ميں بہت زيادہ متشكر اور خوش بھى ہوں كہ اس بحث كے مطالعے ميں اپنا وقت صرف كروںاور مطمئن ہوں كہ جو لوگ بھى اس كتاب كو سمجھكر پڑھيں گے وہ اس شاندار بحث كى ستائشے كرينگے_
اب يہ بھى ضرورى ہے كہ علامہ عسكرى كى علمى اور تحقيقاتى كتابوںكابھى تذكرہ كر ديا جائے_
1_ '' عبداللہ بن سبا و اساطير اخرى ''يہ كتاب نجف، قاھرہ، بيروت، اورتھران، ميں طبع ہوئي اور فارسى ،تركي، اور انگريزى ميں ترجمہ كيا گيا_
2_''خمسون وما تہ صحابى مختلق ''يہ كتاب بيروت،بغداد،اور پھر كئي باربيروت ميں طبع ہوئي اس ميں ايك سو پچاس اصحاب رسول كابيان ہے جو جھوٹے بھى ہيں اور خيالى ہيں جو اج تك پيدانہيں ہوئے _
3_''احاديث ام المومنين عائشه ادوارمن حياتھا ''يہ كتاب فارسى ميں تھران ميں 3جلدوں ميں چھپى اور پاكستان ميں اسكا اردوترجمہ شايع ہوا _
4_''رواةمختلقون ''اسميںجھوٹے راويوں كا پول كھولاگيا ہے جنہوںنے روايتيں گڑھ كے تاريخ ميں بھردى ہيں يہ كتاب منطقى لحاظ سے خمسون وما ة صحابى مختلق كا نتيجہ ہے _
5_''من تاريخ الحديث '' يہ بہت ہى اچھى تحقيقى كتاب ہے _
6_'' ا لسقيفہ ''تاريخ اسلام كے اس عظيم حادثے كا 300/صفحات ميں تجزيہ كياگياہے _
7_''مصطحات اسلاميہ'' اسميں اسلامى اصطلاحات كى تعريف ہے _
8_'' مع الدكتورالوردى فى كتابہ وعاظ السلاطين '' بادشاہوںكے واعظوں پرعلمى تنقيدڈاكٹرعلى الوردى نے كى ہے ا س پر علامہ نے علمى تنقيد لكھى ہے _
9_''كيف تعلم الد ين '' دو جلدو ں ميں بچوں كو دينى مسائل سمجھائے گئے ہيں _
10_'' مقدمہ اى بر مرا ةالعقول '' علامہ مجلسى نے اصول كافى كى شرح مرا ة العقول كے نام سے لكھى ہے ،علامہ نے اس پر ايك طولانى مقدمہ لكھا ہے _
11_ ''مقدمہ بر كتاب على و السنة'' گيارہويںصدى كے عظيم دانشور سيد ہاشم بحرانى كى تاليف على و السنة پر مقدمہ لكھا ہے _
12_ ''مقدمہ و تحقيق در كتاب طب الرضا ''
13_ ''مقدمہ بر كتاب الاجازات العلميہ عندالمسلمين '' ڈاكٹرعبداللہ فياض كى كتاب پر مقدمہ ہے _
14_ '' مقدمہ بر كتاب اصل الشيعہ و اصولھا ''علامہ كاشف الغطاء كى كتاب پر تبصرہ كيا ہے _
15_ '' محمد صادق نجمى كى مطالعہ صحيحين پر مقدمہ لكھا ہے '' ان كے علاوہ بھى علامہ عسكرى نے عربى كے علمى رسالوںجيسے رسالة الاسلام المجتمع الاسلامى اورالاضواء اور الايمان اور العرفان ميں بہت سے مقالے لكھے ہيں _
* * *
موجودہ كتاب احاديث ام المومنين عائشه ادوار من حياتہا كى اخرى جلد ہے جو معاويہ كے زمانے سے متعلق ہے اس سے پہلے دو جلديں نقش عائشه در اسلام اور عائشه در دوران على شايع ہو چكى ہيں ،كيونكہ عربى متن عربى زبان كے محققين كے لئے لكھا گيا تھااس لئے مباحث ميں ايجاز وا ختصار تھافارسى ترجمہ كے وقت اس بحث كو پھيلانا ہمارے لئے ناگزير تھا ،ليكن چونكہ پورا ترجمہ علامہ كى نظر سے گزرا ہے اسلئے مترجم كى يہ كوشش موصوف كى نئي كتاب سمجھى جانى چاہيئے مزيد يہ كہ كچھ خاص جگہوں پر علامہ نے چند صفحات كا خود ہى اضافہ كيا ہے اس بنا پر يہ كتاب ترجمہ بھى ہے اور تاليف بھى ہے _
اخر ميںہم يہ تذكرہ كرنا ضرورى سمجھتے ہيںكہ جن علماء نے اس كتاب كا مطالعہ كر كے اپنى مفيد رائے دى ہے يا اسكے شكوك بر طرف كئے ہيں ہم ان كا شكريہ ادا كر تے ہيں ، نيز اقائے نورالدين عسكرى كا بھى شكريہ ادا كرتے ہيں جنہوںنے ما خذ كى فہرست مرتب كى ان كے علاوہ بھى ان تمام دوستوںكا بھى شكريہ ادا كرتے ہيں جنھوں نے بڑ ى تو جہ سے اغلاط نامہ ميں ميرى مدد كى _
ميں قارئين كرام سے اميدوار ہوںكہ اگر وہ كوئي اشتباہ يالغزش ملاحظہ فرمائيں يا اصلاح كى نظر ڈاليں تو حقير كو اس سے مطلع فرما ديں ،ميں ان كا بہت ممنون ہوںگا _
م 0 ع 0 جاوداں
پيش گفتار
معاويہ كا زمانہ زمانہ، اسلام ميں خاص امتياز كا حامل كيونكہ اسميں ہر جانب سے اسلامى احكام واثاركى تحريف كى گئي ہے اموى دور خلافت ميں حديث سازى پرتمام توانائياں صرف كى گئيں اوراور حديث سازى كابہت زيادہ كارخانہ صحابہ وتابعين جيسے نمك خواروںكے سہارے قائم كيا _
اس دوران جتنى زيادہ حديثيں گڑھى گئيں كہ انھوں نے اسلامى اثار كو پورى طرح اپنى گرفت ميں لے ليااور تمام علوم كى كتابوں ميںانھيں بھر دياا س كا عميق اور ديرپا اثراسلام كے فكرى اعتقادى اور عملى مكتب پرہمہ جانبہ پڑا ،يہاں تك كہ جيسے جيسے زمانہ گزرتا گياان مكاتب كى بنياد اسى مصنوعى احاديث پر استوار ہوتى ہوگى _
اس سبب سے ہمارے لئے ناگزير ہے كہ اموى دور خلافت كے ارباب حكومت اور مشاہير كا تحليل وتجزيہ كريں تاكہ ان جعلى احاديث كے سلسلہ ميں ام المومنين عائشه نے جو تعاون كيا ہے انھيں ہم اچھى طرح سمجھ سكيں _
اغاز بحث ميں معاويہ كا حسب و نسب اور ان كے خاندان كے حالات بيان كرينگے ان كے بعد انكى حكومت وخلافت كے مسائل كاتذكرہ كرينگے جو ان سے متعلق ہيںپھر ہم عائشه كامعاويہ سے تعلق اور اس عہد كے تمام اركان حكومت كو متعارف كرائيں گے اخر ميں ہم ام المومنين عائشه كى زندگى كا تجزيہ پيش كرينگے جو اسى عہد معاويہ ميںاختتام كو پہنچى _
يہ تذكرہ ضرورى ہے كہ اس زمانہ كے شرمناك حالات كابيان بھى ناگزير ہے جو معاويہ كے خانوادہ سے وقوع پذير ہوااور جنھيں ماہرين انساب نے بيان كيا ہے ہم انھيں بھى بيان كرينگے كيونكہ معاويہ كى ان روحانى گرہوںكو پہچاننے ميں بہت معاون ہوں گى ،جو خاصان خدااور پاك نفس افراد كى دشمنى پر ابھارتى تھيں _
جى ہاں _معاويہ كى بد نفسى كو اس زمانہ كى حديث سازى ميںبڑادخل ہے ان پر سے پردہ اٹھاكر ہى اسلام كے درخشاں چہرے كو پہچاناجا سكتا ہے ،ا س وجہ سے ہم اس ضرورت كو كراہيت كے ساتھ اختيار كرنے پر مجبور ہوئے
ہيں كہ معاويہ كا خاندان جيسا كہ ہے ان كى نشاندہى كى جائے ،ہم اس علم و تحقيق كى اشاعت پر خاص اللہ كے لئے اور اسى كى توفيق سے اس بحث كو ختم كرينگے _
سيدمرتضى عسكرى
(فصل اول)
معاويہ كى زندگى پر ايك نظر
معاويہ ابوسفيان اور ھند كا بيٹا تھا _اسكى كنيت ابو عبد الرحمن تھي مشہور ترين تاريخى روايات كے مطابق وہ فتح مكہ كے بعد بظاہر اسلام لايا اور 12ھميں جبكہ ابو بكر نے ابو سفيان كے دوسرے بيٹے يزيد كى سركردگى ميں روميوں سے جنگ كرنے كے لئے لشكر بھيجا تو يہ يزيد كا بھائي اورا س كا علمدار تھا _
ابو سفيان كا فرزند يزيد 18 ہجرى ميں فلسطين كے ايك شہر عمواس ميں مرض طاعو ن ميں مر گيااور فوج كى قيادت اپنے بھائي معاويہ كو سونپ دى ،خليفہ عمر نے بھى اس كى تقررى كو منظور كر ليا خلافت عثمان كے زمانہ ميں جو خود بنى اميہ كى فرد اور معاويہ كے چچا زادبھائي تھے اپنى سلطنت كو كافى وسعت دى كيونكہ عثمان نے پورا شا م ان كے حوالے كر ديا تھاجس ميں لبنان،شام،فلسطين اور اردن كا علاقہ بھى اتا تھا _
ا س طرح معاويہ نے 19سال تك اطمينان كے ساتھ شام پر حكومت كى ليكن جب حضرت على بن ابى طالب تخت خلافت پر بيٹھے تو معاويہ نے بغاوت كر دى اور انكا حكم ماننے سے انكار كر ديا ، معاويہ نے انتقام خون عثمان كے بہانے حضرت على (ع) سے ايك بڑى فوج كے ساتھ صفين ميں جنگ كى حضرت على (ع) اسكى سر كوبى كے لئے مہاجرين وانصار كے ساتھ سر زمين صفين پر پہنچ گئے _
دونو ں لشكروالے ذى الحجہ 36ہجرى ميں امنے سامنے ہوئے ايك سو دس دن تك دونوں ميں جنگ ہوتى رہى ،اخر ميں جبكہ امام كو حتمى كاميابى ملنے والى تھى عمروعاص كى عيارى سے قران نيزوںپر بلند كئے گئے اور لشكر شام نے امام كے فوجيوں كو حكمت قران كى دعوت دى اس عيارى سے سادہ لوح مسلمان دھوكہ كھا گئے اور انھوں نے امام كو مجبور كيا كہ جنگ سے ہاتھ روك ليں _
ا س طرح جنگ ختم ہو گئي اسكے بعد امام كى رائے كے خلاف كوفيوں نے اپنى جانب سے ابو موسى كو حكم منتخب كيا معاويہ نے بھى اپنى جانب سے عمروعاص كو نامزد كيا ،يہ دونوںحكم ماہ رمضان 38ہجرى ميں دومتہ الجندل كے مقام پر اپنا فيصلہ سنانے كے لئے جمع ہوئے ،عمر وعاص نے ابو موسى كو فريب ديتے ہوئے يہ پيش كش كى كہ ہم دونوں ادمى على اور معاويہ كو
خلافت سے معزول كر ديں تاكہ تمام مسلمان جسے بھى چاہيںشورى كے ذريعہ خليفہ منتخب كر ليں _
ابو موسى نے يہ بات مان لى ،عمر و عاص نے پہلے انھيں كو ممبر پر بھيجاانھوں نے ممبر پر جاكر اميرالمومنين حضرت على (ع) اور معاويہ كو خلافت سے معزول كر ديا ،ان كے بعد عمر و عاص ممبر پر پہنچااور معاہدے كے خلاف حضرت على (ع) كو خلافت سے معزول كر كے اس نے معاويہ كے خليفہ ہونے كا اعلان كر ديا ،ابو موسى كو عمر وعاص كے اس فعل پر بہت غصّہ اياوہ وہيں عمر وعاص كو گالياں دينے لگاعيّار عمر وعاص نے تركى بہ تر كى ا س كو جواب ديا ا س طرح پہلى بار خليفہ كى حيثيت سے معاويہ كا نام ليا گيا _
40ہجرى ماہ رمضان ميں عبدالرحمان ابن ملجم كى تلوار امام كے فرق مبارك پر پڑى ،امام تين روز كے بعد شہيد ہو گئے شاميوں كے علاوہ تمام مہاجرين و انصار اور مسلمانون نے امام حسن كى بيعت كر لى ،ليكن اخر كار معاويہ كے سامنے لوگوں نے امام حسن كاساتھ نہيں ديا ،ايسى سستى دكھائي كہ معاويہ كى تمام منحوس ارزوئيں پورى ہو گئيں _
معاو يہ نے اس سال كا نام عام الجماعت ركھااور وہ تخت خلافت پر براجمان ہو گيا اس طرح وہ انيس سال تين مہينے اور كچھ دن تمام مسلمانوں پر حكمرانى كرتا رہا وہ ماہ رجب 60 ہجرى ميں مر گيا اور دمشق ميں دفن كيا گيا_
ابو سفيان اور ھند
معاويہ كا باپ ابو سفيان صخرابن حرب ابن اميہ ابن عبدشمس تھا ،اسكى ماں كا نام ھند تھاجوعتبہ ابن ربيعہ ابن عبد شمس كى بيٹى تھى ،معاويہ كى ماں ھند نے پہلے توفاكہ ابن مغيرہ سے شادى كى جو قبيلہ بنى مخزوم سے تھايہ شخص سر زمين غميصاء (1) ميں مارا گيا _
فاكہ كے مرنے كے بعد ھند نے مغيرہ كے دوسرے فرزند حفص سے شادى كى كچھ دن كے بعد وہ بھى مر گيا ،ھند نے اخرى با ر ابو سفيان سے شادى كى (2)، بعض تاريخوں ميں اس شادى كو بہت تفصيل سے بيان كيا گيا ہے ،وہ يہ كہ
ھند كا پہلا شوہر فاكہ اپنى زوجہ پر زنا كا الزام لگاتا تھا اس لئے اسكو علاحدہ كر ديا كيونكہ وہ اس بدنامى كو اپنے سر نہيں ڈھونا چاہتاتھا (3)_
دوسرے مورخين كا خيال ہے كہ بنيادى طور سے ھند زناكارى كے سلسلے ميں مكہ ميں ہر جگہ شہرت ركھتى تھى ،ھند كى ابو سفيان سے شادى كے واقعات ا س طرح بيان كئے گئے ہيں كہ مسافر بن عمر و،يہ ھند پر برى طرح فريفتہ تھا يہ شخص بنى اميہ كى فرد تھاا س كے ھند سے روابط عام طور سے لو گوں كے زباں زد تھے ،ھند اس سے حاملہ ہوئي جس وقت ا س كا حمل ظاہر ہونے كے قريب تھا ،مسافر بن عمر و مكہ سے بھا گ كر حيرہ كے بادشاہ نعمان ابن منذركے پاس چلا گيا تاكہ اس سے مدد مل سكے ا س كى غيبت ميں ابوسفيان سے ھند نے شادى كر لى (4)
ہشام ابن محمد كلبى مشہور ماہر انساب اپنى كتاب مثالب ميں اور مشہور اديب اصمعى يہ دونوں كہتے ہيں كہ معاويہ جاہليت كے زمانہ ميں چارافراد كى طرف منسوب تھاجن كے نام اس طرح ہيں
1_بنى مخزوم كا عمارہ ابن وليد
2_ بنى اميہ كا مسافر ابن عمر و
3_بنى اميہ كا ابو سفيان
4_ بنى ہاشم كے عباس ابن عبد المطلب(5)
ان چاروں ميں بہت دوستى تھى اور ان چاروں كا ھند سے ناجائز تعلق ہونا مشہور تھا _
1_عمارہ بن وليد قريش كا بہت خوبصورت جوان تھا يہ وہى شخص ہے جو عمر و عاص كے ساتھ مسلمانوں كو حبشہ سے واپس لانے كےلئے نجاشى بادشاہ كے پاس گيا تھا اسنے عمر و عاص كى زوجہ سے تعلقات پيدا كر لئے تھے ا س لئے عمر و عاص كو انتقام لينے كى فكر ہوئي عمر و عاص نے كچھ ثبوت فراہم كر كے نجاشى بادشاہ سے اسكى چغلى كى بادشاہ حبشہ بہت برہم ہوااور ا س نے جادو گروں كو حكم ديا كہ اس كوپا گل بنا ديں اور يہ صحراميں مارا مارا پھرے اور ا س طرح وہ وہاں درندوں كا شكار ہو جائے (6)
2_ مسافر ابن عمر و مشہور ماہرا نساب كلبى ا س كے بارے ميں لكھتا ہے كہ جاہليت كے زمانے ميں سبھى كا يہ خيال تھا كہ معاويہ اسى كا فرزند ہے كيونكہ ان چاروں اشناو ں ميں سب سے زيادہ اسى كو تعلق تھا ،جب ھند حاملہ ہوئي تو مسافر بدنامى كے خوف سے حيرہ كے بادشاہ كے پاس بھاگ گيا اور وہيں رہنے لگا كچھ دن كے بعد ابو سفيان حيرہ گيا تو وہاں اسكے ديرينہ دوست مسافر سے ملاقات ہوئي اس زمانہ ميں مسافر اپنى معشوقہ كے ہجر ميں سخت بيمار تھاابو سفيان نے گفتگو كے درميان مكہ والوں كے حا لات بيان كئے اور اخر ميں كہا كہ ميں نے تمہارے وہاں سے فرار كرنے كے بعد ھند سے شادى كر لى ہے _
ابو سفيان كى اس گفتگو نے مسافر كے سينے پر ايك تير سا لگايا ا س كے بعد وہ بہت زيادہ بيمار ہو گيا ہر روز ضعف و نقاہت بڑھتا گيا يہاں تك كہ لاعلاج ہو گيا اور اسكى زندگى كا خاتمہ ہو گيا (7)بعض مورخين كا خيا ل ہے كہ مسافر جاہليت كے زمانے ميں اسكا عاشق زار سمجھا جاتا تھا _(8)
مشہور دانشور اور مفسّرزمخشرى اپنى كتاب ربيع الابرارميں ان چاروں افراد كے بارے ميں جن سے معاويہ منسوب تھا يوںلكھتے ہيں كہ مسافر ابن عمر وعمارہ ابن وليد عباس ابن عبدالمطلب اور اخر ميں عمارہ كا ازاد كردہ غلام صباح كى طرف منسوب ہے _(9)
زمخشرى كا بيان ہے كہ: ابو سفيان پستہ قد اور بد شكل تھا صباح ابو سفيان كا ملازم تھاجو شاداب جوانى ركھتا تھا ،ھند نے ا س جوان كو خريدارى كى نيت سے ديكھا نتيجہ ميں وہ اپنے كو سنبھال نہ سكى اور اپنى طرف دعوت دى اس طرح دونو ں ميں پوشيدہ طريقہ سے تعلقات قائم ہوگئے ،اور يہ ناجائز تعلق اتنى شہرت پا گئے كہ بعض مورخين كا خيال ہے كہ معاويہ كے علاوہ ابو سفيان كا دوسرا بيٹا عتبہ بھى اسى صباح سے ہے ،بعض مورخين يہ بھى كہتے ہيں كہ ھند اپنے گھر ميں اس بچّے كى پيدائشے سے خوش نہيں تھى ، اسلئے صحرا ميں بھاگ گئي اور اسنے عتبہ كو وہيں اكيلے جنم ديا _
عظيم شاعر اسلام حسان ابن ثابت نے فتح مكہ سے پہلے مسلمانوں اور مشركوں كے درميان جب شعرى نوك جھوك ہو رہى تھى تو اس حادثہ كو اپنے دو شعروں ميں ھند كى اس فحش حركت كا ذكر كيا ہے _
اخر يہ بچہ كس كا ہے جو بطحا كے ريگزاروں ميںپھينك ديا ہے ،وہ بچہ جو خاك پر پڑ ا ہوا ہے جھولے سے بہت دور ہے اسكو ايك خوب صورت جوان عو رت نے جنم ديا ہے جو بنى اميہ كے خاندان سے ہے ،ھشام ابن محمد كلبى نے اپنى كتاب مثالب ميں يوں لكھا ہے _ ھندہ ان عورتوں ميں تھى جو سياہ فام مردوں پر بہت فريفتہ تھى جب بھى اسكى كو كھ سے كوئي سياہ فام بچہ پيدا ہوتاتھاوہ اسكو قتل كر ڈالتى تھى ......... پھر وہ اگے كہتے ہيں _
ايك دن يزيد ابن معاويہ اور اسحاق ابن طابہ كے در ميان معاويہ كے سامنے نوك جھوك ہو گئي اس نے كنايةً كہا كہ يہ تمہارے حق ميں مفيد ہے كہ حرب كے تمام بيٹے بہشت ميں داخل ہو جائيں يعنى حقيقت ميں تم اس خاندان كے ناجائز فرزند ہو اور اپنے باپ سے نہيں ہو اسكا اشارہ تھاكہ اسحاق كى ماں بنى اميہ كے افراد سے ناجائز تعلقات ركھتى تھي_ اسحاق نے بھى كنايةً جواب ديا اے يزيد يہ تمھارے حق ميں مفيد ہوگا كہ بنى عباس كے تمام افراد بہشت ميں جائيں يزيد نے اسحاق كى طنزيہ گفتگو كو نہيں سمجھا ليكن اسكے باپ معاويہ نے مطلب سمجھ ليا اسلئے جب اسحاق مجلس سے اٹھكر چلا گياتو معاويہ نے يزيد سے كہا كيوں دوسروں پر دشنام كى زبان كھولتے ہوحالانكہ تم دوسروں كى باتوں كو سمجھتے نہيںہو كہ وہ كيا كہہ رہے ہيں،يزيد نے كہا ميرا مقصد تھا كہ اسحاق كے عيوب كو ظاہر كيا جا ئے ،معاويہ نے جوا ب ديا كہ اسنے بھى تم پر اسى لحاظ سے چوٹ كى تھى ،يزيد نے پوچھا وہ كيسے ................. معاويہ نے جواب ديا ،كيا تم نہيں جانتے كہ قريش كے اكثر افراد جاہليت كے زمانہ ميں مجھے ابو سفيان كا نہيں عباس كا بيٹا جانتے تھے ،اس وقت يزيد كے سمجھ ميں ايا كہ مجھكو كتنا برا بھلا كہا گيا ہے _
جى ہاں_ھند كى اوارگى اتنى قطعى اور مسلّم تھى كہ پيغمبر اسلام (ص) نے فتح مكہ كے دن اس بات كى طرف اشارہ كيا تھا جس وقت ھند بيعت كے لئے انحضرت(ص) كے سامنے حاضر ہوئي پيغمبر اسلام(ص) نے ھند كے پچھلے خونخوار كرتوتوںكى وجہ سے اسكے قتل كا اعلان كر ديا تھا ليكن اسے بخش ديا اور اسكى بيعت قبول كر لى ،اپ نے اسكے تمام كالے كر توتوں كو نظر انداز فرمايا،(10)
اسنے انحضرت (ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميں كس بات پر اپ كى بيعت كروں _
رسول (ص) نے فرمايا: تو زنا نہ كر
ھند نے كہا: كيا ازاد عورتيں بھى زنا كرتى ہيں ا س طرح اسنے اپنے كو پاك دامن ظاہر كيا _
پيغمبر اسلام (ص) ھند كو اچھى طرح پہچانتے تھے ليكن اپ نے كچھ نہ كہا صرف تبسم فرماتے ہوئے عمر كى طرف ديكھا (11)
اموى خاندان جاہليت كے زمانے ميں
جيسا كہ بيان كياگيا معاويہ كى ماں ھند اموى خاندان ميں سمجھى جاتى ہے اسكے باپ كانام عتبہ اور چچا كانام شيبہ مشہور تھا يہ دونوں قريش كے بزرگ ،جاہلى زمانہ ميں معززسمجھے جاتے تھے عتبہ اور شيبہ نے ظہور اسلام كے بعد اسلام سے اعلانيہ اپنى دشمنى ظاہر كى اور يہ دونوںجنگ بدر ميں تمام قريش كے ساتھ موجود تھے يہى دونوں جنگ بدر ميں سب سے پہلے ميدان ميں اكر اپنا مقابل طلب كر رہے تھے ا س وقت مجاہدين اسلام كى طرف سے اميرالمومنين على (ع) اور حمزہ نكلے اور تھوڑى سى جھڑپ كے بعد يہ دونوں ڈھير ہو گئے ،(12)معاويہ كا باپ ابو سفيان كوتاہ قد اور بہت عيار تھا چونكہ اسكے ايك بيٹے كا نام حنظلہ تھا اسلئے اسكى كنيّت ابو حنظلہ پڑ گئي يہ حنظلہ وہى ہے جو بدر كے دن حضرت اميرالمومنين(ع) كے ہاتھوں قتل ہوا تھا (13)
ابو سفيان ،جاہلى زمانہ ميںبزرگ قريش سمجھاجا تاتھا وہ جنگ بدر كے بعد تمام مكہ اورقبيلہ قريش كاسردارمانا جانے لگاكيونكہ جنگ بدر ميںتمام سردا ر ان قريش قتل ہو گئے تھے اسكے بعد تو اس نے تمام جنگوں ميں قريش كى قيادت كى ،يہودى قبيلوں كو اسلام كے خلاف بھڑ كا كر محاذ پر كھڑا كيا جنگ احد اور جنگ خندق اسى كى سردارى ميں ہوئي _
عظيم مورخ محمد ابن حبيب ،ابو سفيان كو اٹھ ضنادقئہ قريش كى ايك فرد سمجھتے ہيں ،(14)محمد ابن ھشام كا خيال ہے كہ ابو سفيان زمانہ پيغمبر(ص) اسلام ميں تما م دشمنان اسلام كاسردارتھااس نے اسلام كے خلاف محاذ ارائي ميں سخت كوشش كى يہ وہى شخص ہے كہ جو ابو طالب سے پيغمبر اسلام (ص) كى حمايت ختم كرنے ميں كوشاں تھا ،(15)يہى وہ ہے كہ جو قبيلہ قريش كى شورى ميں جو دارالندوہ ميں منعقد ہوئي تھى بہت جوش كے ساتھ حاضر تھا كہ پيغمبر(ص) اسلام كو قتل كيا جاسكے اس نے مجلس برخاست ہونے كے بعد بہت جوشيلے انداز ميں رسول(ص) اسلام كے قتل پر لوگوں كو ابھارا _(16)
رفتہ رفتہ قريش كے سرداروں ابوجہل، ابو سفيان، اور ابو لہب جيسوں نے مكہ كے مسلمانوں پرا س قدر سختياںكيں كہ ان پر زندگى وبال ہو گئي اور پيغمبر(ص) اسلام نے انھيں مدينہ ہجرت كرنے كا حكم دے ديا مسلمانوں نے اہستہ اہستہ اپنا گھر بار چھوڑ ديا اور اپنے مال ودولت عزيز واقارب كو چھوڑ كر حكم خدا كے مطابق ان ظالموں كے ہاتھ سے چھٹكارا حاصل كيا اور مدينہ پہنچ گئے حالت يہ ہو گئي كہ مكہ ميں چند مسلمانوں اور پيغمبر اسلام(ص) كے علاوہ كوئي نہ رہ گيا ان ا خرى سالوں ميں پيغمبر اسلام (ص) پر مكہ كى زمين اتنى تنگ ہو گئي تھى اور ايسى گھٹن تھى كہ پيغمبر(ص) اسلام نے مكہ ميں عمومى تبليغ چھوڑ دى تھى اور اپ صرف حج كے زمانے ہى ميں عرب قبيلوں كو توحيد كى دعوت ديتے تھے ليكن چونكہ ان ايام ميں جنگ وخونريزى ممنوع تھى اس لئے سرداران قريش اپ كو اذيت نہيں پہنچا سكتے تھے ، اس وقت انكى يہى كوشش ہوتى تھى كہ اپ كى تبليغات كو ناكارہ كر ديں اسى وجہ سے ابو لہب اپ كے پيچھے پيچھے چلتا تھا اور لوگوں كو اپ سے گفتگو كرنے سے روكتا تھا اپ كو برابھلا كہتا تھا ، الزام لگاتا تھا تاكہ كسى طرح اپ كو تبليغ سے باز ركھ سكے اخر خدا نے اپ كو وحى كے ذريعہ حكم ديا كہ ہجرت فرمائيں اور اس طرح اپ كو قريش كے چنگل سے رہائي ملى ،اپ نے حضرت اميرالمومنين (ع) كو اپنے بستر پر سلا كر مكہ سے ہجرت فرمائي اس شہر ميں تھوڑے سے قيدى مسلمانوں كے سوا كوئي نہيں رہ گيا تھا اس زمانہ ميں ابو سفيان نے مسلمانوں كے خالى گھروں كو غصب كر كے بيچ ڈالا _
ابو سفيان جنگ بدر ميں
جس دن سے مسلمان مدينہ ميں ائے انھيں قريشى ياپيوں كے چنگل سے نجات ملى ليكن يہاں موت سے زيادہ خوفناك فقر كا سامنا كرنا پڑا ، كيونكہ مہاجرين اپنى تمام دولت ،گھر اور اپنے خاندان كو چھوڑ كر اس شہر اسلام ميں پناہ لينے ائے تھے حالانكہ مدينہ كے انصار نے اپنے امكان بھر ان پاك نفسوں كى ضيافت كى ليكن چونكہ اس زمانہ تك مسلمانوں كى مالى حالت اتنى اچھى نہيں تھى كہ اسائشے كے ساتھ زندگى بسر كر سكيں خاص طور سے كچھ لوگ تو ايسے تھے كہ ا ن كے پاس نہ تو جگہ تھى نہ مكان تھا نہ انكا كوئي سہارا تھا ليكن ان تمام ركاوٹوں كے باوجود اسلام قبو ل كرنے والوں كى تعدادبڑھتى ہى گئي وہ اتنے طاقت ور ہو گئے كہ انہوں نے جزيرة العرب ميں اپنى شناخت بنا لى اور اپنى طاقت كا مظاہرہ كرنے لگے_
ہجرت كے دوسرے سال ايسا حادثہ پيش ايا كہ اسلام كى سب سے بڑى پہلى جنگ پيش ائي قريش سالہاسال سے اپنے تجارتى مال كو دوسرے شھر ميں لے جاتے تھے وہ سال ميں ايك بار يمن اور ايك بار شام كى طرف جاتے تھے ہجرت كے دوسرے سال اپنى رسم كے مطابق ايك بڑا قافلہ معاويہ كے باپ ابو سفيان كى سر كر دگى ميں شام گيا ہوا تھا جب وہ تجارتى قافلہ واپس ہوا تو رسول اكرم (ص) نے مسلمانوںكے ضايع اموال كے بدلے تقريباتين سو افراد كے ساتھ اس تجارتى قافلے كے سر را ہ پہنچ گئے _
ابو سفيان كو جب يہ خبر معلوم ہوئي تو اس نے مكہ والوں سے مددطلب كى اس كے بعد اسنے كوشش كى كہ ايك دوسرے راستے سے بغير كوئي خطرہ مول لئے منزل پر پہنچ جائيںقريش نے ابو سفيان كى مدد ميں ايك ہزار كا لشكر تيار كر كے لشكر اسلام كے مقابلہ كے لئے بھيج ديا ،نتيجے ميں بدر كے مقام پر ايك بڑى جنگ بدر ہوئي غيبى امداد اور اسلامى مجاہدوں كى جانبازى سے مسلمانوں كو فتح حاصل ہوئي اور لشكر مخالف كے لگ بھگ ستّر مقتول ڈھير تھے اور 70 ستّر افراد قيد كئے گئے _
عبد شمس اور اموى خاندان كے اس جنگ ميں اٹھ ادمى قتل ہوئے ان ميں ابو سفيان كا فرزند حنظلہ ،عتبہ وربيع ھند كے باپ اور چچااور وليد ابن عتبہ مقتول ہوئے خليفوں كے چھ ادمى بھى ان ميںقتل ہوئے اسير وںميں بھى اموى كے سات ادمى تھے كہ ان ميں ابو سفيان كا دوسرا بيٹاعمرو تھاابو سفيان نے اپنے فرزند كے قيد ہونے كے بدلے
ميں ايك معزز انصارى كو ناحق قيد كر ليا جو حج عمرہ كے لئے مكہ گئے ہوئے تھے حالانكہ اس سے پہلے قريش نے كبھى اس واقعہ سے پيش تر كسى حاجى سے تعرض نہيں كياتھا ،اسى لئے تمام مسلمان مجبور ہو گئے كہ ان جنگى قيديوں كو ازاد كر ديں _
جنگ بدر كے بعد چونكہ تمام سرداران قريش قتل ہو چكے تھے اس لئے ابو سفيان قريش كا سب سے بڑا سردار بن گيااسے قريش مكہ كى جنگ وصلح كا بھى اختيار مل گيا اسى حال ميں اسنے منّت مانى تھى كہ اپنا سر نہيں دھوئے گا جب تك پيغمبر اسلام (ص) سے جنگ بدر كى ہار كا بدلہ نہ لے لے _
كچھ دن بعد ابو سفيان نے اپنى مكروہ منّت پورى كر نے كے لئے (200)دوسو سواروں كے ساتھ مدينہ كى طرف ايا اور وہاں بنى نضير كے يہوديوں كے يہاں قيام پزير ہوا اسكے بعد وہ شہر مدينہ كے حالات كى جستجو ميں لگ ليا پھر اسنے اپنے كچھ ادميوں كو بھيجاتاكہ مدينہ والوں كے درخت خرما ميں اگ لگا ديں _ان لوگوں نے اپنا كا م كرنے كے بعدمدينہ كے دو باشندوں كو بھى بے گناہ قتل كر ديا ابو سفيان كے اس چھوٹے سے لشكر نے اپنا يہ كا م انجام ديكر مكہ واپسى اختيار كى _
معاويہ كى ماں ھندہ ،جنگ بدر كے بعد سخت غم و غصّہ ميں بھرى ہوئي تھى كيونكہ اسكے باپ چچااور دوسرے رشتہ دار قتل ہوئے تھے ا س كا زيادہ تر وقت ان لوگوں كى ماتم پرسى ميں صرف ہوتا تھا ، اس طرح وہ ہر لمحہ اس كوشش ميں رہتى تھى كہ قريش كو انتقام پر ابھا رے _
جنگ بدر اور ا سميںستّر افراد كے قتل اور ستّر كى اسيرى كے بعد قريش اس جنگ سے سخت پريشان اور بد حال تھے شام سے جو تجارتى منافع ہوا تھا اس ميں سے ايك ہزار اونٹ اور لگ بھگ پچاس ہزار دينا ر اس غرض سے نكال ليا كہ مسلمانوں كے خلاف نئي جنگ لڑ سكيں انہيں كے بارے ميں سر زنش سے بھر پور يہ ايت نازل ہوتى ہے _
ان الذين كفروا ينفقون اموالھم_ _ _ _الخ_ _ (سورہ انفال 36 )
تر جمہ : جن لوگوں نے حق كو ماننے سے انكار كيا ہے وہ اپنے مال خدا كے راستے سے روكنے كےلئے صرف كر رہے ہيں اور ابھى اس سے زيادہ خرچ كرتے رہيں گے مگر اخر كار يہى كوششيںان كے پچھتاوے كا سبب بن جائيں گى پھر وہ مغلوب ہوں گے پھر يہ كافر جہنم كى طرف گھير كر لائے جائيں گے _
ابوسفيان جنگ احد ميں
ابو سفيان نے جو اقدامات كئے تھے اور قريش نے جو كچھ جنگ كے لئے دولت جمع كى تھى اس كے سہارے تمام قريش رسول اكرم(ص) سے جنگ پر امادہ ہو گئے ، ابو سفيان نے اس جنگ كى قيادت سنبھال لى ،ا س كى بيوى ھندہ اور دوسرى قريش كى عورتيں بھى ساتھ ساتھ تھيں مكہ اور مدينہ كے درميان جب بھى ھندہ كى ملاقات جبير ابن مطعم كے غلام وحشى سے ہوتى تھى تو وہ كہتى تھى ،كہ ہاں اے وحشى ميرے سينہ ميں جو پرانہ كينہ دفن ہے اس داغ سے مجھے شفاء دےدے ميں تجھے غلامى سے ازاد كرا دوں گى _
اس طرح معاويہ كے ماں اورباپ ابو سفيان اور ھندہ احد كى حسرتوں سے بھر پور جنگ احد كے لئے تيار ہو گئے اسميں اسلام كے بہت سے سچے مجاہد قتل كئے گئے جنگ كے دن علمدار فوج ابو سفيان نے بنى عبد الدار كے قبيلہ والوں كو مخاطب كر كے كہا :
اے فرزندان عبد الدار تم جنگ بدر ميںہمارى فوج كے علمدار تھے ہم نے اس جنگ ميں بہت سے مصائب جھيلے يہ جنگى پرچم كا مسئلہ اتنا اہم ہے كہ ہر لشكر وہاں شكست يا فتح كا سامنا كرے گايا تو پرچم كى حفاظت كرو يا اس پرچم سے دستبر دار ہو جاو تاكہ ہم خود اس ذمہ دارى كو سنبھاليں _
ان لوگوں نے كہا كہ ہم اپنا علم تمہارے حوالے كر ديں ؟ ايسا ہر گز ممكن نہيں كل جب جنگ كے شعلے بھڑك جائيں گے تو تم ديكھ لو گے كہ ہم نے كيسى جانبازى دكھائي ہے يہ تھى ابو سفيان كى دلى ارزو كہ اسلام شكست كھا جائے اور رسول(ص) اكرم كى زندگى كا خاتمہ ہو جائے _
جب دوسرادن ايا اور افتاب بلند ہو ا تو دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے اور جنگ شروع ہو گئي ھندہ اپنى تمام عورتوںكے ساتھ سپاہيوں كو جنگ پر ابھارنے كے لئے لشكر كے ہمراہ تھى وہ خيمہ سے باہر اكر دف بجاتى ہوئي يہ گيت گاكر قريش كو جنگ پر ابھا ر رہى تھى _
اے عبد الدار كے بيٹو اگے بڑھو اے محافظوں بھر پور كوشش كرو اپنى تيز تلواريں خوب چلاو ہم ستارہ صبح كى بيٹياں ہيں اگر تم فاتحانہ اگے بڑھو گے تو ہم اپنى اغوش پھيلا دينگے اور تمھارے لئے بستر بچھائيںگے اور اگر ميدان جنگ سے بھا گے اور تمہيں ہار ہو گئي تو ہم بھى تم سے اپنا منھ پھير لينگے اور تم سے علحدہ ہو جائيںگے
پھر تم ہم سے ہميشہ كے لئے علحدہ ہو جاو گے اور ہم سے وفادارى اور مہر بانى كا كوئي اثر نہيں ديكھو گے اثنائے جنگ ميں ايك انصارى سپاہى نے ھندہ كو ديكھا كہ مشركوں كو جنگ پربھا رہى ہے تو وہ تلوار كھينچ كر ا س كى طرف لپكاليكن جب اسنے ديكھا كہ وہ جنگى سپاہى مرد نہيں ہے عورت ہے تو اسكے قتل سے باز ايا اور مردانہ انداز ميں واپس لوٹ گيا _
يہ جنگ، جيسا كہ بيان كيا گيا اسلام كے لئے بہت سخت اور سنگين ثابت ہوئي اس جنگ ميں مسلمانوںكے ستّر پاك نفس سپاہى قتل ہوئے ان شہيدوں ميں سب سے زيادہ مشہور حضرت حمزہ تھے جو پيغمبر(ص) اسلام كے چچا تھے ،اپ كا قتل ابو سفيان اور ھند ہ كى كوششوں سے ہو ا اپ كا قاتل جبير ابن مطعم كا غلام وحشى تھا _
كسى نہ كسى طرح جنگ ختم ہوئي ميدان ميں شھداء خاك و خون ميں ا غشتہ پڑے تھے ليكن مكہ والوں كى روح درندگى كو چين نہيں تھا ،معاويہ كى ماں ھندہ كى سر كردگى ميں عورتيں شہداء احد كے درميان ائيں ہر ايك نے اپنے ہاتھ ميں ہتھيار لے ركھا تھا انھوں نے شھداء اسلام كے كان ناك اور انكھ كاٹ ڈالے ،يہ كاٹے ہوئے اعضاء اتنے زيادہ تھے كہ ھندہ نے مجاہدوں كے كان اور ناك كا گلو بند اور دست بند بُن كر بنا ليا ،اس عورت نے وحشى كى اس خدمت كے صلے ميں اپنا دست بند اور اپنے سينہ كا زيور اسے بخش ديا_
پھر وہ حضرت حمزہ كى لاش پر ائي پھر اس نے رسول (ص) كے چچا شير خداكا پہلوچيرا اور اپ كاجگر نكال كر انتہائي سنگ دلى كے ساتھ اسے منھ ميں ركھ كر دانت سے كاٹاتاكہ نگل جائے ليكن وہ نگل نہ سكى مجبوراً اسنے منھ سے باہر نكالا اسى شرمناك حادثہ كى وجہ سے اسكالقب جگر خوار ہو گيا وہ اپنے اس كرتوت كے بعد ايك اونچى پہاڑى پر چڑھ گئي اور يہ اشعار پڑھنے لگي
ہم نے تم سے جنگ بدر كابدلہ لے ليا
جنگ كے بعد جنگ كى اگ بھڑكتى ہے
مجھے عتبہ كى موت پر ہر گز چين نہيں ........ نااپنے بھائي نہ اپنے چچاشيبہ اور نہ اپنے فرزند حنظلہ كى موت پر اب ميرے دل كو شفاء حاصل ہوئي ہے
ميں اپنى تمام عمر وحشى كى شكر گزارر ہونگي يہاں تك كہ ميرى ہڈياں قبر ميں گھل كر مٹى ہو جائيں
_اسكے جواب ميں بنى ہاشم كى ايك خاتون ھند بنت اثاثہ نے يہ اشعار كہے
تو جنگ بدر ميںبھي، اور اسكے بعد بھى ،ذلّت اور پستى ميں مبتلاہوئي
اے ذليل كفر كى بيٹي
اللہ تجھے روزى پہونچائے كہ تو بنى ہاشم كى اپى ہوئي تلواروں كا سامناكر سكے
حمزہ ہمارا بہادر شير تھا اور على بھى تيز چنگل والا
جس وقت تيرا باپ اور چچا،ہمارے قتل كى فكر ميں تھا تو ان لوگوں نے ان كے گلے كو خون ميں ا غشتہ كرديا
يہ تيرى منحوس نظر تھى _ ہائے كيسى منحوس نظر تھى
جنگ احدكے بعد ايك شخص حليس جو اپنے قبيلہ كا رئيس تھا يہ اپنے قبيلے كاسردار اور قريش كاحليف تھااس شخص نے ميدان جنگ ميں ابو سفيان كو ديكھا كہ حضرت حمزہ كى لاش پر كھڑا ہے اور اپنے نيزے سے انكى لاش كو جھجھوڑكر كہہ رہا ہے _
موت كى تلخى چكھ لو ،اے وہ كہ تم نے رشتہ دارى ختم كر دى تھى اسكا مطلب يہ تھاكہ تمھيںاس بات كى سزا ملى ہے كہ تم مسلمان ہو گئے ،قبيلہ قريش سے علحدہ ہو گئے اور تم نے قريش سے جنگ كى _
حليس (17) نے يہ ذليل حركت ديكھى تو چلّانے لگا _ اے قبيلہ قريش كے لوگوں_ذرا ابو سفيان كى يہ كمينى حركت تو ديكھو يہ قريش كابزرگ كہاجاتا ہے ،ذراديكھو تو كہ اپنے چچاكے فرزند كى لاش كے ساتھ كيا برتاو كر رہا ہے ،جو خاك پر پڑى ہوئي ہے_ (18)
ابو سفيان نے اس سے كہا :
تجھ پر افسوس ہے _ اس وقت تونے جو ميرى حركت ديكھى اسے لوگوں سے بيان نہ كرنا ،يہ مجھ سے لغزش ہو گئي ،پھر ابو سفيان پہاڑ پر چڑھ كر چلّانے لگاھم نے كيا اچھا كام كيا ،ہميشہ جنگ كے دورخ ہوتے ہيں ،اج كا دن جنگ بدر كابدلہ ہے _
پھر اس نے اواز لگائي اعل ھبل يعنى ھبل كے جے ہو(19)
رسول خدا (ص) نے حكم ديا كہ اس كے جواب ميں كہا جائے اللہ اعلى واجل _اللہ برتروبلند ہے
ابو سفيان نے مسلمانوں كے توحيد پرستانہ اواز كا جواب ديا '' الا لنا العزى ولاعزّى لكم'' اگاہ ہو جاو كہ ہمارے پاس تو عزى جيساخدا ہے اور تمھارے پاس عزى نہيں _
رسول(ص) خدانے حكم ديا كہ جو اب ميں كہو ''اللہ مولانا ولا مولالكم ''اللہ ہمارا سرپرست ہے اور تمھاراكوئي سرپرست نہيں واپس جاتے ہوئے ابو سفيان نے اواز لگائي اگلے سال ہم بدر كے كنو وںپر انے كاوعدہ كرتے ہيںرسول اللہ (ص) نے اپنے ايك ساتھى كو حكم دياكہ تم اواز ديدو ....... ہاں _ائندہ سال ہم بدر پر انے كاوعدہ كرتے ہيں ،ابو سفيان اپنے قريشى ساتھيوں كے ساتھ ميدان احد سے چلا گيا ليكن كچھ دن بعد ا س نے خيال كيا كہ مسلمان شكست اور كمزورى سے دچار ہيں ا س لئے دوبارہ مدينہ كى طرف پلٹا ،تاكہ مسلمانوں كاخاتمہ كر دے رسول(ص) اللہ كوجب يہ خبر ملى تو اپ نے جنگى مسلمانوں كے ساتھ، شہر سے باہر اكر جنگ كے لئے تيار ہو گئے ،يہ ديكھ كر ابو سفيان كے ساتھيوں پر خوف كابھوت سوار ہو گيا اور وہ مجبور ہو كر واپس چلے گئے_
ھندہ جنگ احد ميں
جنگ احد ميں ھندہ كاكردار شوہر سے زيادہ سنگين تھابنيادى طور سے ا س نے جنگ بھڑكانے اور تبليغ سے اس اگ كو پھيلانے ميں بہت زيادہ حصہ ليا تھا چنانچہ وہ اس جنگ ميں عورتوں كو بھى اپنے ساتھ لے ائي تھى تاكہ قريش كى حميت كو ابھارے ،جيسا كہ ہم نے ديكھا كہ جنگ كے بعد بھى ا س نے شير اسلام حضرت حمزہ كاجگر نكال كر چبانا چاہا ،اس نے اس جنگ ميں اشعار بھى گنگنائے جس سے اس كے شديد كينئہ ديرينہ كا پتہ چلتا ہے ،بعض اشعار كو ہم نے ابھى درج كيا ہے اب يہاں كچھ اور بھى اشعار نقل كئے جاتے ہيں _
جنگ احد ميں ميرے دل كو ٹھنڈك ملى اور حمزہ كے ساتھ جو كچھ كيا اس سے مجھے بڑى راحت ملى ،جب ہم
نے انكاپيٹ چيرااور جگر باہر نكالا اس برتاو سے ميرے احساس كو چين ملا جو كچھ ہمارے سينے ميں اندوہ پل رہا تھا جو خود ميرے وجود كو جلا رہاتھا جنگ بھڑكتى رہى اور اپنى اگ كے ساتھ تم پر ٹوٹ پڑى اور ہم شيرنى كى طرح تم پر حملہ اور ہوئے جنگ كے بعد ايك مسلمان نے انصار كے بزرگ شاعر حسّان ابن ثابت سے كہا:
اے كاش اپ نے ھندہ كے وہ اشعار سنے ہوتے جو اس نے ايك اونچے پتھر پر چڑھ كر پڑھے تھے اور شھيد راہ خدا حضرت حمزہ پر ڈھائے گئے مظالم كا فخر سے تذكرہ كيا تھا _
حسّان نے كہا كہ تم اسكى باتوں كو مجھ سے بيان كرو ميں ا س كا جواب دونگا وہ انصارى ھندہ كے اشعار پڑھنے لگا حسّان نے اپنے بہترين شعروں ميں ھندہ كى شرمناك حركتوں كا ان اشعار ميں جواب ديا _
اس پست فطرت عورت نے كيا كيا بدمعاشياں كيںاسكى تو عادت ہى يہى ہے وہ ہميشہ كى پست فطرت ہے اسكى اس پستى كے ساتھ كفر بھى ہے _
مشہور سيرت نگار ابن ھشام نے اس كاصرف ايك ہى شعر لكھ كر باقى اشعار چھوڑ دئے ہيں، انھوں نے لكھا ہے كہ ميں نے حسان كے تمام اشعارا س لئے نہيں لكھے كہ انھوں نے اپنے شعروں ميںھندہ كو بہت برا بھلا كہا ہے _
ليكن طبرى نے ان متذكرہ اشعار كے علاوہ قافيہ راء ميںگيارہ شعراوربھى لكھے ہيں
خدا وندعالم ھندہ پر لعنت كرے اور اسكے شوہر كو بھى لعنت ميں گرفتار كرے
اے ھندہ تو مردوں كے درميان ناچتى ہوئي ميدان احد ميں ائي حالانكہ تو اونٹ پر ہو دج ميں سوار تھى وہ ايسا سخت اونٹ تھا كہ تازيانہ اور شور فرياد سے بھى اپنى جگہ سے نہيں ہلتا تھا _
اپنے باپ اور بيٹے كے انتقام ميں ،جو جنگ بدر ميں قتل كئے گئے، تو ميدان جنگ ميں چلى ائي ،اور اپنے چچا كے انتقام ميں جو اسى جنگ ميں برہنہ خاك خون ميں اغشتہ پڑا ہو ا تھا
اور اسى طرح تو اپنے بھا ئي كے انتقام ميں ،جو ايك گڑھے ميں چند مقتولوں كے ساتھ پڑا ہوا تھا _
ہاں _اپنے ان كرتوتوں كو تونے فراموش كر ديا، جو تجھ سے سرزد ہوئے تجھ پر افسوس ہے يہ ايسى كمينى حركت تھى كہ زمانہ ہميشہ يا د ركھے گا _
اخر كار تو ذلّت كے ساتھ واپس ہوئي پھر تو اپنا انتقام بھى نہ لے سكى اور كاميابى بھى نہ پاسكي_
دائيوںنے كہا ہے كہ، ھند ہ نے زنا سے ايك معمولى بچہ پيدا كيا ہے حسّان كے دوسرے اشعار بھى قافيہ دال ميں ہيں ،جو ان كے ديوان ميں ديكھے جاسكتے ہيں _
يہ بچہ بطحا كى سر زمين كے ايك گوشے ميں پڑاہے
يہ كس كا بچہ ہے ؟
يہ بچہ جو زمين پر پڑا ہے جسے جھولا بھى ميسّر نہيں
اسكو ايك جوان اور خوبصور ت عورت نے جنم ديا ہے
وہ صبح سويرے روتى گاتى ہوئي اپنے عاشق صباح كے پا س گئي
ہاں _اے ھندہ تو كس قدر غصہ ميں بھر گئي ہے ،كو ئي محترم عورت جب بھى اپنے كو معطر كرنا چاہے تو ملك ھند كا بہترين عطر استعمال كرے _
يہ بچہ اپنى ماں ھندہ سے كتنى مشابہت ركھتا ہے
ليكن اپنے سياہ فام باپ صباح سے زيادہ مشابہ ہے
اس كمينى عورت كى ہميشہ سے سر كشى اور طغيان كى عادت تھي
وہ دانت سے ہڈّى چباتى رہتى تھى
اپنے ہجو اميز شعر ميں حسان نے اسطرح توصيف كى ہے ،
يہ بچہ جو صحرا ميں پڑا ہو ا ہے كس كا ہے ؟
يہ اجياد كے ريگزاروں ميں زمين پر ڈھير ہے
اسے درد زہ لاحق ہو ا پھر اس نے بچہ پيدا كر ديا
حالانكہ اسكى كو ئي قابلہ نہيں تھي
صرف صحرا كے درندے تھے اور جنات
وہ بن باپ كے بچوں كے درميان بيابان ميں پڑے ہيں
انہيں ميں ايك بچہ ہے جو اپنى ماں سے زيادہ مشابہ ہے
وہ عورت ولادت كى تكليف سے كمزور اواز ميںكہہ رہى تھى
اے كاش _ميں اونٹ چراتى رہتى اور اج اس حالت سے دوچار نہ ہوتى ،اس بچے كو زمين پر ڈال كر يوں ہى چھوڑ ديا، حالانكہ اسكى قابلہ اور باپ دونوں قبيلہ كے سردار تھے _
مشہور سيرت نگارابن ھشام نے تيس30 سے زيادہ قصيدے جنگ بدر كے بارے ميں لكھے ہيں، اور انہيں تاريخوںميں نقل كيا گيا ہے ،ان قصيدوں ميں ھندہ اور ابو سفيان كى ہجو كى گئي ہے_(20)
جنگ خندق ميں ابو سفيان كى قيادت
چوتھى صدى ہجرى كے ماہ شعبان ميں رسول خدا(ص) نے اپنے ساتھيوں كے ساتھ سر زمين بدر پر كوچ كيا كيونكہ اپ نے مشركين سے قبل ازيں ايساہى عہد كيا تھا ادہر ابوسفےان بھى مكہ والوں كے ساتھ اپنے شہرسے باہر نكلا لےكن تھوڑا راستہ طے كر كے شرمندہ ہو كر واپس گيا ابو سفيان نے واپس ہوتے ہوئے قريش سے كہا :
اے گروہ قريش _يہ جنگ اسى سال تمہيں راس ائيگى جبكہ صحرا ميںشادابى رہے ،ليكن كياكياجائے كہ ہم لوگ اس سال خشك سالى ميں گرفتار ہيں ،ہم تو واپس جاتے ہيںتم بھى واپس جاو _
سبھى ا س كى پيروى كرتے ہوئے واپس ہو گئےيہ سوچ كر كہ دوسرى جنگ كيسے برپاكى جائے، كچھ زمانہ بيت گيا اور پانچويں صدى ہجرى اگئي ،اس سال قبيلہ قريش نے ابو سفيان كى قيا دت ميں بہت زيادہ جوش وخروش كامظاہرہ كيا بہت سے گروہ اس كے گرد جمع ہوگئے جو قريش كے حليف تھے يہودى اور قريش ابو سفيان كى رہبرى ميں تھے ا س طرح ايك بہت بڑا لشكر تيار ہو گيا اور ان سب نے عہد كيا تھا كہ اسلام كو جڑ سے اكھاڑ پھيكاجائے ،مسلمانوںنے باہم مشورہ كيااور سلمان فارسى كى رائے كے مطابق جو ايران كے داناتھے رسول(ص) اسلام نے حكم ديا كہ مدينہ كے گرد ايك خندق كھودى جائے بہت سے لوگ مدينہ ميں پہنچ گئے ،اور اس طرح دفاعى خندق كھودى گئي ساراشہر، دشمن كا سامنا كرنے كے لئے تيار تھا
ابوسفيان اور ا س كى فوج نے مدينہ كا ايك مہينہ تك محاصرہ كيا ليكن خندق كى وجہ سے ان كى عقل گنگ ہو گئيں اس درميان دو ايك جھڑ پيں ہوئي كبھى كبھى دشمنوں كا كوئي بہادر سپاہى خندق عبور كر جاتا تھا تاكہ مسلمانو ں كى صف كے قريب پہنچ جائے انھيںميں سے ايك شخص عمرو ابن عبدود تھا جو عرب كامشہور جنگجو سمجھاجاتا تھااسنے خندق كے پاس اپنے گھوڑے كو ايڑ دى اور اسلامى فوج كے سامنے اكے جم گيا ، وہ رجز پڑھ كر مسلمانوں كو مقابلہ كى دعوت دے رہا تھا _
سبھى موت كے ڈرسے بولنے يااگے بڑھنے كى جرا ت نہيں كر رہے تھے اخر كار امير المومنين(ع) كے سواا س كاسامنا كرنے كى كسى كو جرا ت نہ ہوئي امام (ع) نے عمر و ابن عبدود كوايك ہى جھڑپ ميں اپنى خدائي طاقت سے اسے قتل كر ڈالا _
چونكہ عمر و قتل كر دياگيا تھا ،دوسرے يہ كہ محاصرہ كا كوئي نتيجہ نہيںنكل رہا تھاكيونكہ رسول(ص) اكرم نے اس سلسلے ميں خاص تدبير اپنائي تھى اس سبب سے يہوديوں نے جنگ سے علحدگى اختيار كرلى اس درميان بہت تيز ٹھنڈى ہو ا بھى چلنے لگى يہاںتك كہ قريش اور ان كے مددگار وں كے خيمے اكھڑ گئے اگ ٹھنڈى ہو گئي گھوڑے اور اونٹ صحراكى طرف بگٹٹ بھاگ گئے اب تو سارے لشكر كا تيا پانچہ ہو گيا _
ابوسفيان اس صور ت حال سے بہت زيادہ گھبرا گيا سرداران لشكر كو مشورے كے لئے بلا كر كہا كہ اے قريش تمہارے خدا كى قسم تم ايسى سر زمين پر ہو كہ زندگى محال ہے تمہارے گھوڑے اور اونٹ ختم ہو گئے بنى قريظہ كے حليف جو ہمارے حليف تھے انھوں نے بھى منھ موڑ ليااب تو ناگوارصورت حال پيش اگئي ہے ،تم بدلى ہوئي ٹھنڈى ہواديكھ ہى رہے ہو ہم سخت پريشانى ميں مبتلاہيںہمارى اگ بھى ٹھنڈى ہو چكى ہے خيمے بھى اكھڑ چكے ہيںاس لئے ميں مصلحت اسى ميں ديكھ رہاہوں كہ ہم لوگ يہاں سے كوچ كر جائيں يہاں سے كوچ كرو ہم بھى چلنے پر امادہ ہيں اسى اندھيرى رات ميں قريش اور اس كے حليفوں كا لشكر مكہ كى راہ پر چل پڑا(21) ،ابوسفيان گھبراہٹ ميں بھاگنے پر ا س قدر امادہ تھا كہ ا س نے اونٹ كے بند بھى نہيں كھولے وہ بھاگنے كى جلدى ميں تھا _
ا س طرح عظيم جنگ خندق ياجنگ احزاب ابو سفيان كى تمام كوششوں كے باوجود بے نتيجہ رہى اور مشركوں كا زبر دست لشكر اپنى عددى زيادتى كے باوجود دين خداكو كوئي نقصان نہ پہنچا سكا_
كمزورى كااحساس اور صلح كى پيش كش
اسلام مخالف گروہوںكى كمزورى اورا ن كى جميعت كاتتر بتر ہونا اسلام كى عزت وشوكت كے بڑھانے ميں معاون ہوا اور اب مسلمان جزيرة العرب ميں ايك جانى پہچانى طاقت سمجھے جانے لگے مسلمانوں كى تعداد اور ا ن كى اقتصادى اور حكومتى طاقت روز بروز بڑھتى گئي _
ہجرت كے ساتويںسال رسول(ص) اكرم نے لگ بھگ ڈيڑھ ہزار اصحاب كے ساتھ زيارت خانہ كعبہ كے لئے مكہ كوچ فرمايا سر زمين مكہ پر مسلمانوںكاداخلہ قريش كے لئے سخت ناگوار تھا كيونكہ مسلمانوں كو مراسم حج ميںشامل كرنے كا مطلب يہ تھا كہ اسلام كى طاقت كو تسليم كر ليں،ا س لئے انھوں نے مكہ ميں داخلے سے روكا ،رسول (ص) اكرم نے بھى بڑے ٹھنڈے دل كے ساتھ عدم تعرض كے ايك معاھدے پر امادگى ظاہر كى اور مسلمانوں كو واپس چلنے كا حكم ديا ،يہ معاھدہ اگر چہ بظاہر مكہ والوں كے حق ميں تھا اسى لئے بعض ظاہر پرستوں نے اعتراض بھى كيا ليكن ا س طرح مشركين نے نادانستہ طور پر يہ معاھدہ تسليم كركے اسلامى طاقت كو عربستان ميں قبول كر ليا اور يہ بات پورے طور سے اسلام كے حق ميںتھى ،اس معاھدے كى رو سے رسول(ص) اسلام اپنے دوسرے دشمنوں كا سر كچل سكتے تھے جيسا كہ جنگ خيبر اسى وجہ سے واقع ہوئي اور مسلمانوں كو يہ موقع مل سكاكہ وہ اپنے مخالفوں كو جڑ سے اكھاڑ پھيكيں اور يہوديوںكى ريشہ دوانيوںكا سدّ باب كر سكيں_
اس وقت صحرائے عرب ميں قريش كے علاوہ اسلام كا كوئي بڑادشمن نہيں تھا ،وہ بھى اس معاھدے كى وجہ سے اسلام كے خلاف كو ئي خطرناك اقدام نہيںكر سكتے تھے ا س طرح اسلام نے تيز رفتارى كے ساتھ سارے عرب كو اپنے قبضہ ميں كرليا _
صلح حديبيہ كے بعد ايك سال بھى نہ گزراتھاكہ صلح نامہ كى ايك شرط مشركين مكہ نے توڑ دى _
اب رسول(ص) اسلام نے مصمم ارادہ كر لياكہ اس جاہليت اور كفر كا اخرى قلعہ بھى ڈھا دياجائے فتح مكہ نزديك
تھا ،ابو سفيان نے روزافزون ناقابل شكست اسلامى طاقت كو سمجھ ليا تھا اس لئے وہ تجديد پيمان كے لئے مدينہ ايا ليكن رسول خدا(ص) نے اس ديرينہ دشمن اسلام كو جو انتہائي خوفزدہ ہو نے كى وجہ سے خوش اخلاقى كا مظاہرہ كررہا تھا قبول نہيں فرمايا:
دوسرے دن ابو سفيان اميرالمومنين (ع) كى خدمت ميں حاضر ہو كر عرض كرنے لگا ،اے ابو الحسن، ميںسخت ذہنى كشائشے كا شكار ہوں ميرى نجات كى راہ بتايئے
امام (ع) نے فرمايا خدا كى قسم ميں تيرى نجات كا كوئي راستہ نہيں جانتا ،ليكن تو قريش كاچودھرى اور ان كا ہم پيمان ہے خودہى اٹھكر جا اور لوگوں سے معاھدے كر اور پھر اپنى سر زمين پر واپس جا _
ابو سفيان نے پوچھا، كيااپ كے خيال ميں اس سے مجھے كوئي فائدہ پہنچے گا _
امام (ع) نے فرمايا _نہيں _ليكن اس كے سوا دوسراكوئي راستہ بھى نہيں ابو سفيان وہاں سے اٹھكر مسجد ميں ايا اور پھر وہاں مسلمانوں كے درميان چلّايا _
اے لوگو _ميں تم لوگوں سے عدم تعرض و مسالمت كا معاھدہ كرتا ہوں پھر وہ وہاں سے باہر نكلا اور اپنى سوارى پر بيٹھكر مكہ كى طرف چلا گيا _(22)
مكہ فتح ہو گيا
ابوسفيان اس زمانے ميں _يعنى جب جاہليت اخرى سانس لے رہى تھى يہ شخص مشركين كا ايك زبر دست فوجى افسر سمجھا جاتا تھا وہ صرف يہى نہيں كہ قريش كى قيادت كر رہاتھا بلكہ يہ كہا جاسكتا ہے كہ تمام قبائل بنى كنانہ قريش اور اس كے حليفوں نے ا س كے رياست و بزرگى كو مان ليا تھا وہ انھيں مسلمانوں كے خلاف جنگ پر ابھارتا تھا اور جنگى كاروائي كے نقشے بھى مرتّب كرتا تھا ياپسپائي كى صورت ميں پيچھے ہٹنے ياصلح كرنے كا بھى مجاز تھا_جنگ بدر ميں سرداران قريش كے قتل ہو جانے كے بعد تمام رياست و قيادت اسى كے ہاتھ ميں تھى _
يہ بزرگى ايسى مستقل تھى كہ جس وقت مجاہدين اسلام نے مكہ ميں قدم ركھا اور اس شہر كو قريش كے چنگل سے
ازاد كرايااسى دن سے ابو سفيان كى قيادت ہميشہ كے لئے ختم ہو گئي اور رسول(ص) اكرم كے اختيار ميں اگئي جس طرح كے عرب كے بے شمار بت رسو ل(ص) ا كرم كے حكم كے مطابق اميرالمومنين(ع) كے ہاتھ سے ٹوٹ پھوٹ كر ستياناس ہو گئے _
جس وقت پيغمبر(ص) اسلام دس ہزار مجاہدوں كے ساتھ پرچم توحيد كے سايہ ميں مكہ كے قريب پہنچے تو انحضرت(ص) كے چچا عباس اپنے مخصوص اونٹ پر سوار اگے تھے تاكہ كوئي مل جائے تو اسے پيغامبر كے عنوان سے مكہ والوں كے پاس بھيجا جائے انھيں خطرہ بھى تھا اس لئے وہ چاہ رہے تھے كہ كسى كو رسول(ص) اكرم كے پا س بھيج كر انحضرت(ص) سے امان كى درخواست كريں عباس نے راستہ ميںتين بزرگان قريش سے ملاقات كى ابو سفيان بھى انھيں ميں تھا يہ شہر سے نكل چكے تھے تا كہ حالات اور خطرات كو معلوم كركے ا س كا تدارك كر سكيں عباس نے ابو سفيان سے كہا خداكى قسم اگر مسلمان تجھے پا گئے تو يقينى طورپر قتل كر دينگے ،ا س كے بعد عباس نے اسے رسول(ص) اكرم كے اونٹ پر اپنے پيچھے بٹھا ليا اور سيدھے پيغمبر(ص) اسلام كى خدمت ميں ائے جيسے تيسے راستہ طے ہو گيا جس وقت ابو سفيان نے رسول(ص) اكرم كے خيمہ ميں پہونچ كرسلام كيا انحضرت(ص) نے فرمايا:
اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے كيا ابھى وقت نہيں ايا ہے كہ تو سمجھ سكے اور مان لے كہ خدائے واحد كے سوا كوئي خدا نہيں _
ابو سفيان نے عرض كيا ،ميرے ماںباپ اپ پر قربان ،اپ كتنے حليم اور با عظمت ہيں ، كس قدر اپنے رشتہ داروں كے ساتھ صلہ ء رحمى كرنے والے ہيں ،خدا كى قسم ميں سوچتا ہوں كى اگر اللہ كے سواكوئي خدا ہوتا تو ضرور مجھے فائدہ پہنچاتا _
رسول(ص) خدا نے فرمايا:اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے ،كيا وقت نہيں ايا ہے كہ سمجھ سكے ميں خدا كارسول ہوں _
اس نے عرض كى ،ميرے ماں باپ قربان ،ا پ كتنے عظيم و حليم ہيں ،اور رشتہ داروں كے ساتھ مہر بانى كر نے والے ہيں مجھے اس مسئلہ ميں كچھ شك اور تردد ہے _
عباس نے خطرے كا احساس كر ليا تھا ،وہ دھاڑے _اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے اسلام قبول كرلے اپنے كوموت كے چنگل ميں مت ڈال _
ابو سفيان نے اسى لمحہ خوف اور مجبورى كے عالم ميں كلمہ شہادتين زبا ن پر جارى كيا اور بظا ہر اسلام لے ايا _(23)
جيسے ہى ابو سفيان نے اسلام قبول كيا عباس نے انحضرت (ص) سے ابو سفيان كے بارے ميں امتيازى سلوك كى درخواست كى ،يعنى يہ اعلا ن كر ديا جائے كہ جو بھى ابو سفيان كے گھر ميں داخل ہو جائے اسكو امان ہے _
انھوں نے عرض كيا كہ اس كى وجہ يہ ہے كہ وہ افتخار و شہرت كو پسند كرتا ہے لہذا ا س كى دلجوئي كے لئے يہ اعلان ضرورى ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے اعلى ظرفى كا مظاہرہ فرماتے ہوئے اپنے سخت ترين دشمن ديرينہ كو جوبظا ہر اسلام لاچكا تھا امن كاگھر قرار ديتے ہوئے اعلان كيا ، ہاں _جو شخص بھى ابو سفيان كے گھر ميں پناہ لےلے وہ امن ميں ہے ،اور جوشخص اپنا گھر بند كر كے رہے وہ بھى امن ميں ہے ،جو شخص خانہ خدا ميں پہنچ جائے وہ امان ميں ہے ،اور جو شخص بھى ہتھيار ڈال دے وہ ہر قسم كے خطرہ سے محفوظ ہے_
اسلامى لشكر نے اپنے اطراف گاہ سے كوچ كيا تاكہ مكہ كااخرى فاصلہ طے كيا جاسكے ،اور شرك كے مركز كو توحيد پرستى ميں تبديل كيا جاسكے _
رسول(ص) اكرم كا حكم بجالايا گيا تمام مسلمانوں كے قبائل اور گروہ جنگى اسلحے سے اراستہ ہو كر عبو ر كر رہے تھے ،جب بھى كوئي قبيلہ گزرتا تھا ،تو ابو سفيان عباس سے پوچھتاتھا كہ يہ كون ساقبيلہ ہے _عباس نے مثلاً كہا كہ يہ قبيلہ بنى سليم ہے_
تو ابو سفيان انتہائي تھكے تھكے لہجے ميں كہتا تھا ،مجھے قبيلہ بنى سليم سے كيا سروكار ؟ يعنى بنى سليم كا قبيلہ مجھ سے جنگ كے لئے كيوں ايا ہے ،مجھے تو ان سے كوئي اختلاف نہيںتھا _
تمام قبائل اسى طرح گزرتے رہے يہاں تك كہ رسول خدا(ص) مہاجرين و انصار كے ساتھ يعنى اپنے خاص اصحاب كے ساتھ ا س كے سامنے سے گذرے ان مجاہدوں كے تمام بدن فولاد سے ڈھكے ہوئے تھے صرف انكھيں كھلى ہوئي تھيں_
ابوسفيان نے پوچھا _يہ كون لوگ ہيں ؟
عباس نے جواب ديا ،يہ خدا كے رسول(ص) ہيں مہاجرين و انصار كے درميان
ابو سفيان نے كہا _كہ كسى كو بھى اس لشكر سے جنگ كرنے كى طاقت نہيںہے تمہارے بھتيجے نے تو بہت
عظيم بادشاہى قائم كر لى ہے _
عباس نے كہا :اے ابو سفيان يہ خداكى جانب سے نبوت و رسالت ہے يہ بادشاہى نہيں ہے _
ابو سفيان نے كہا _ ہاں ايسا ہى ہے
اس وقت عباس نے ابو سفيان كو اس كے حال پر چھوڑ ديا اور خود لشكر ميں شامل ہو گئے _
ابو سفيان نے بھى ،جس قدر جلد ہو سكا اپنے كو مكہ ميں پہنچايا اور تيزى سے مسجد الحرام ميں پہنچ كر اواز دى _
اے قريش _ يہ محمد (ص) ہيں كہ جن كے اصحاب بے شمار ہيں يہ تمہارى طرف ارہے ہيں اگاہ ہو جاو كے جوبھى ابو سفيان كے گھر ميںداخل ہو جائے گااسے امن مل جائے گا _
اس وقت ابو سفيان كى زوجہ ھندہ اپنى جگہ سے اٹھى _ ا س نے اپنا ہاتھ اور چہرہ چھپا ركھا تھا زور سے چلّائي ،اس گوشت كے لوتھڑے كو قتل كر ڈالو ،ناس جائے تيرے جيسے خاندان كا _
ابو سفيان نے اپنى زوجہ كى بات پر توجہ نہيں دى ،دوبارہ كہا _يہ عورت تمہيں فريب نہيں دے انحضرت (ص) ايك لاتعدادفوج كے ساتھ تمہارى طرف ارہے ہيں،جوبھى ابوسفيان كے گھر ميں داخل ہو جائيگااسے امن مل جائيگا ،لوگ چلاّنے لگے خداتجھے قتل كرے تيرے گھر ميں ہم سب كے سب كيسے سماسكتے ہيں ؟ ابو سفيان نے كہا كہ ،جو شخص بھى اپنا گھر بند كر لے وہ امان ميں ہے ، جو شخص مسجدالحرام ميں داخل ہو جائے وہ بھى امن پائيگا ،لوگ مسجدالحرام كى طرف جانے لگے ،ذرادير گزرى تھى كہ رسول اكرم(ص) (ان پر اور ان كے خاندان پر صلوات) اسلحوںسے ليس فوج كے ساتھ مكہ ميں داخل ہوئے اور تيزى سے خانہ كعبہ كے پاس پہنچ گئے ،اپ خانہ كعبہ كے دروازہ كے پاس كھڑ ے ہوئے اور ايك طويل تقرير كى ،اخر ميں اپ نے قريش كو مخاطب كركے فرمايا: تمہيں سوچو كہ ميں تمہارے بارے ميںكيا كروں گا _
سب نے كہا كہ ہميں اپ سے بھلائي ہى كى اميد ہے ،اپ عظيم بھائي اور عظيم بھائي كے بيٹے ہيں _
اپ نے فرمايا_''اذھبو فانتم الطلقاء ............. '' جاو كہ تم سب ازاد ہو(24)_
وہ دن ايك روشن ودرخشاں اور عميق اعلى ظرفى كے دن كى طرح گذر گيا ،رسول اكرم (ص) نے اپنے اول درجہ كے دشمنوں كو جنھوں نے سالہاسال تك اپ اور اپ كے اصحاب كو برا بھلاكہا تھا شكنجہ وازار ديا تھا يہاں تك كہ انھيں قتل كيا تھا ،سالھاسال تك اپ سے ہر طرح جنگ كى تھى اپ نے ان سبكو بخش ديااور يہ بخشش بھر پور طاقت وقوت كے بعد تھى _
البتہ يہ اعلى ظرفى سے بھر پور بخشش چند سال كے بعد اپنى شكل وصورت بدل چكى تھى طلقاء كالفظ قريش اور ان كے بچوں كے لئے شرمناك دھبہ بن گيا تھا ،يعنى يہ لوگ ازاد كئے گئے ہيں ،يہ لوگ فتح مكہ كے دن ازاد كئے گئے تھے پھر تو بعد ميں انھيں اسى لفظ طلقاء سے مذمت كى جانے لگى _
ابو سفيان اسلامى معاشرے ميں
رسول اسلام(ص) نے تقرير كرنے كے بعد خانہء كعبہ كاطواف كيا ،ابو سفيان وہيں ايك گوشہ ميں كھڑا طواف كعبہ كے منظر كو بغور ديكھ رہا تھا ،جب ا س نے مشاہدہ كيا كہ مسلمان كس قدرجوش و خروش كے ساتھ رسول خدا(ص) كے پيچھے خانہ خداكے گرد طواف اور گردش كر رہے ہيں تو تيزى سے اسكے دل ميں يہ خيال گزراكہ كيا اچھا ہو كہ ميں دوبارہ لوگوں كو محمد (ص) كے خلاف بھڑكا دوں _
رسول اكرم (ص) نے ا س كى طرف رخ كركے اسكے سينہ پر ہاتھ مار كر فرمايا كہ اس دن اللہ تجھے ذليل وخوار كرے گا _
ابو سفيان نے كہا _ميں خدا سے رجوع كرتا ہوں اور اسكى مغفرت كاطلبگار ہوں ،اور ميں نے تو صرف سوچا ہى تھا ؟
دوبارہ ا س نے دل ميں كہا كہ ميں نہيں جانتا محمد (ص) كس وجہ سے مجھ پرفتح پا گئے _
رسول (ص) اسلام نے اسكى پيٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمايا: خدا كى طاقت سے ميں تجھ پر فتحمند وكامران ہوا اس وقت ابو سفيان نے مجبور ہو كر كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ اپ خدا كے رسول ہيں (25)
فتح مكہ كے بعد رسول(ص) اكرم حنين كى طرف روانہ ہوگئے ،تاكہ ہوازن سے جنگ كر سكيں اپكے ہمراہ كچھ قريش كے افراد بھى تھے _
مشہور مورخ مقريزى لكھتا ہے :
مكہ كہ وہ لوگ جو ظاہرى طور پر مسلمان ہوئے تھے انحضرت(ص) كے ساتھ حنين گئے وہ اس انتطار ميں تھے كہ دونوں گروہوں ميں سے كون كامياب ہوتا ہے تاكہ اسكے ساتھ مخالف گروہ كامال غنيم لوٹ سكيں ان ميں ايك ابو سفيان بن حرب تھاجو اپنے فرزند معاويہ كو بھى ساتھ لے گيا تھا يہ دونوں اپنے ہمراہ اپنے تركش ميںازلام بھى لائے تھے_
ابوسفيان لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے چل رہا تھا ،جوكچھ بھى لشكر والوں كاسامان زمين پر گرتا تھا_
جيسے ڈھال يانيزہ ياكوئي دوسرى چيز اسے زمين سے اٹھا ليتاتھا ،يہاں تك كہ اسكا اونٹ ناقابل برداشت بوجھ سے بھر گيا (26)
واقدى كہتا ہے كہ حنين وہ جگہ ہے جو مكہ سے تين شبانہ روز كے فاصلہ پر واقع ہے (27)
اس سر زمين پر اعراب عدنانى سے ايك طاقتور قبيلہ زندگى گزار رہاتھا جوبنام (ہوازن) مشہور تھے (28)
لشكر اسلام اپنى تمام طاقتوں كے باوجود اغاز جنگ ميں ہوازن كے مد مقابل زيادہ كامياب نظر نہيں ايا_كيونكہ مسلمان تنگ راستوں سے اگے بڑہے تو ناگہانى حملہ كاشكار ہو گئے اور لشكر ميں بھگدڑ مچ گئي ،پيغمبر(ص) اسلام كے پاس معدودے چند مسلمانوںكے كوئي باقى نہ رہا جن ميں ايك اميرالمومنين (ع) اور دوسرے عباس بن عبد المطلب ثابت قدم رہے (29)
اس ہنگامى حالات ميں چند بزرگان قريش جو تازہ مسلمان ہوئے تھے انھوں نے اپنى زبان پر ان كلمات كو جارى كيا كہ جسكو ابن ہشام نے اپنى تاريخ ميں يوں ذكر كياہے ،وہ لكھتا ہے جب مسلمانوں نے فرار اختيار كيا تو وہ لوگ جو مكہ سے انحضرت (ص) كے ساتھ ہوئے تھے جب انھوں نے اس منظر كو ديكھا تو اپنے كينہ ديرينہ كو اشكار كر ديا جيسے ابو سفيان نے كہاتھا ''لاتنتھى ھزيمتھم دون البحر'' ابھى كياہے يہ لوگ شكست كھاكر سمندر تك بھاگيں گے _
يہ اس وقت بھى جاہليت وكفر كى علامت ازلام كو ساتھ ميں ركھتا تھا ،ازلام لكڑى كاايك تير تھا جو كفار قريش خاص مو قعو ں پر فال نكالنے كے كام ميںلاتے تھے ،حالا نكہ يہ خود جاہليت عرب اور بت پرستى كى كھلى ہوئي نشانى ہے_
قران كريم نے اصنام جاہلى كے ساتھ ساتھ اسكى بھى بڑى مذمت كى ہے (30)
ايك دوسرے سردار قريش نے كہا _ ہاں اب جادو اور سحر ٹوٹ گيا _
فرمان رسول (ص) اور فرياد عباس نے مسلمانوں كو جو دشمن كے ناگہانى حملہ سے بھاگ گئے تھے واپس بلا ليا ،اور دشمن پر حملہ اور ہوئے زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ دشمن اسلام كو منھ كى كھانى پڑى اور اسلام كو شاندار فتح حاصل ہوئي _
اس جنگ ميں جو كچھ مال غنيمت حاصل ہو ا تھا ا س كا زيادہ تر حصہ ان تازہ مسلمانوں پر تقسيم كياگياكيونكہ قران كے مطابق يہ لوگ مولفتہ القلوبھم سمجھے جاتے تھے ،خداو رسول (ص) كانقطہ نظر يہ تھا كہ انھيں مادى فائدے
پہنچاكر دين خداكى طرف سے انكا دل نرم كيا جائے ،اسى غرض سے ان سبھى تازہ مسلمانوں كو سو اونٹ بخشے گئے ،ابو سفيان و معاويہ نے بھى 100 _ 100 _ اونٹ لئے اور كچھ زيادہ مقدار ميں چاندى بھى لى ،ابو سفيان نے رسول(ص) اكرم كايہ سلوك ديكھ كر كہا ،خداكى قسم ميرے ماںباپ اپ پر فدا ہو جائيں اپ ايك عالى ظرف انسان ہيں جسوقت ميںنے اپ سے جنگ كى اپ بہترين جنگ جو تھے اور جب اپ سے صلح كى ہے تو اپ بہترين صلح كرنے والے ہيں قبيلہ انصار جن كو مال غنيمت كم ديا گياتھاانھوں نے اپنے دل ميں خيال كياكہ انحضرت (ص) نے اپنے قوم وقبيلہ والوں سے ترجيحى سلوك كيا ہے _
پيامبر(ص) اكرم نے انصار كو طلب كيااور اپنى تقرير ميں ارشاد فرماياكہ ہر گز ايسا نہيں ہے جس طر ح سے تم لوگ اس مسئلہ كو سوچ رہے ہو ،ميں نے ان لوگوں سے يہ برتاو محض اس لئے كياہے تا كہ وہ ثابت قدم رہيںاور بدد ل ہو كر اسلام سے برگشتہ نہ ہوجائيں،ليكن تمہارے لئے(انصار) اسلام وايمان كو ساتھ قرار ديا ہے (31)
فتح مكہ كے بعد ابو سفيان نے ظاہرى طور سے اسلام قبول كر لياتھاوہ مسلمانوں كے گروہ ميں بھى شامل ہو گيا تھا ،ليكن مسلمانوں نے اسكى گزشتہ كى زيادتيوںاور اسلام دشمنى كو كسى بھى لمحہ فراموش نہيں كيايہى وجہ تھى جو معاشرہ اسلامى نے اس پر لطف و مہر بانى كى نگاہ نہيں ڈالى (32)
اہلسنت كے عظيم محدث مسلم بن حجاج اپنى كتاب صحيح مسلم ميں مسلمانوں كے سلوك كو ان الفاظ ميںبيان كرتے ہيں _
ايك دن ابو سفيان كچھ پاكباز مسلمانوں كے درميا ن سے گزرا جيسے سلمان ، بلال ، صھيب يہ حضرات اپس ميں باتيں كر رہے تھے جب ان لوگوں كى نظر ابو سفيان پر پڑى تو كہا
اس دشمن خداكو اللہ كى تلواروںنے ابھى تك كيفركردار تك نہيں پہو نچايا ،يہ بات جب ابو بكر نے ان لوگوں سے سنى تو خفا ہو كر كہا ،كياتم لوگ ايك بزرگ قريش كے بارے ميں ايسى بات كر ررہے ہو ،يہ بات كہہ كہ وہ اسلامى معاشرے كے نامناسب رد عمل كے خوف سے گھبر اتے اور دوڑ تے ہوئے رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے
،اپ نے فرمايا :شايد تم نے ان لوگوں كو ناخوش كيا ہے اگر تم نے انہيں غضبناك كيا ہے تو ياد ركھو كہ تم نے اپنے پروردگار كو غضبناك كيا ہے ابو بكر نے جب رسول(ص) كى زبان سے ان كلمات كو سناتو تيزى سے مسلمان اور ان كے ساتھيوں كے پاس پلٹے اور معذرت كرتے ہوئے كہا :اے بھا ئيو_ميںنے تم لوگوں كو ناخوش اور غضبناك كياہے؟ سب نے كہا نہيں اللہ تمہيں بخشے اے بھائي (33)
مسلمانوں كى يہ نفرت رسول (ص) اكرم ہى كے زمانہ ميں نہيں تھى بلكہ عام مسلمانوں كى ابو سفيان سے نفرت كايہى حال رہا قارئين ايندہ فصل ميں ملاحظہ فرمائيں گے _
ابوسفيان شيخين كے زمانے ميں
عظيم مورخ ابن عساكر دمشقى لكھتا ہے :
ايك دن ابو بكر نے اپنى حكومت كے زمانے ميںابو سفيان كو بہت كچھ كہہ ڈالا، ان كے باپ ابو قحافہ نے كہا كہ اے ابو بكر ابو سفيان سے تم اسطرح باتيں كرتے ہو ؟
ابوبكر نے جواب ديا ،بابا ہاں ،خداوند عالم نے اسلام كى خاطر بلند خاندانوں كو پست كر دياہے اور ہمارے خاندان ان ميں ہيںجو پست تھے اب اسلام كى وجہ سے بلندہو گئے ہيں
جس زمانے ميں عمر بن خطاب حج كے لئے مكہ ائے تو انھيں بتايا گياكہ ابو سفيان نے ايك گھر بناياہے اور اپنے گھر كے لئے ٹھيك راستے ميں ايسى تعمير كى ہے كہ پانى كابہاو شہر كولپيٹ ميں لے سكے عمر نے ان شكو ہ كرنے والوں كے ساتھ ابو سفيان كے گھر كارخ كيا ،پھر حكم ديا كہ ابو سفيان ان پتھروں كو اپنى پشت پر لاد كر راستے سے ہٹائے _
اسكے بعد اپنے ہاتھ اسمان كى طرف بلند كر كے كہا :خداوندا سارى تعريف تيرے لئے مخصوص ہے كہ ميں نے شہر مكہ ميں بزرگ قريش ابو سفيان كوحكم ديا اور اس نے ميرى بات مان لى ہے _
دوسرے مورخين نے بھى لكھا ہے كہ ايك دن خليفہ دوم عمر مكہ كى گليوں سے گزر رہے تھے ، انھوں نے ديكھا كہ گليوں ميں گندگى ہے انھوں نے حكم ديا كہ جس شخص كے گھر كے سامنے گندگى ہے وہ خود صاف كرے ،كچھ دن بعد ديكھا كہ بعض جگہوں پر گندگى باقى ہے تو غصہ ميں ابو سفيان كے سر پر تازيانے لگانے لگے ،ابو سفيان كے تازيانہ كھانے كى خبر ھندہ كو ملى تو اپنے جاہلى وراثت كابھر پور مظاہرہ كرتے ہوئے بولى ،اوعمر خد اكى قسم اگر دور جا ہليت ميں تم نے انھيں تازيانہ مارا ہوتاتو مكہ كى زمين لرز جاتى تمھارے پيروں تلے زمين كھسك جاتى عمر نے جواب ديا تونے سچ كہا ليكن كياكيا جائے خداوندے عالم نے اسلام كى وجہ سے عزت دار گروہ كو ذليل كر دياہے اور ذليل گروہ كو باوقار بنا دياہے (34)
جيساكہ اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ اسلام نے ابو سفيان كو كسقدر ذليل ورسواكيا اور دوسروں كو نعمت و عزت بخشى اس وجہ سے وہ مجبوراً اپنے دل كى گہرائيوں ميں اسلام اور مسلمانوں كے خلاف كينہ وعناد بوتا رہا ،اسكايہ عناد مختلف اوقات ميں اسكى باتوں سے ظاہر ہوتا رہا _
عبداللہ بن زبيركابيان ہے كہ ميں اپنے باپ كے ہمراہ جنگ يرموك ميں شريك تھا ليكن اتناكمسن تھاكہ جنگ نہيں كر سكتا تھا ،اثناء جنگ ميںنے ديكھا كچھ لوگوں كو ايك پہاڑ كى چوٹى پر،جواس جنگ سے علحدہ تھے _
ميں ا ن كے پاس گياتو وہاں ابو سفيان تھا جو چند سرداران قريش كے ساتھ بيٹھاہو ا تھا ،يہ سب لوگ وہ تھے جو فتح مكہ كے بعد اسلام لائے تھے ،ميں انكے درميان بيٹھ گياانھوں نے مجھے بچہ خيال كيا اس لئے سمجھ رہے تھے كہ ميں انكى باتوں كو نہيں سمجھ سكوں گا ،وہ ازادانہ اپنى باتيں جارى ركھے ہوئے تھے ،كوئي بات چھپانہيں رہے تھے و ہ لو گ جب مسلمانوں كو پيچھے ہٹتا ہو ا ديكھتے تھے اور روميوں كو اگے بڑھتا ہو اتو چلّاتے تھے _ہاں_ زندہ باد روميوں
ليكن جب روميوں كو پيچھے ہٹتاہو ا ديكھتے تھے اور اسلام كاغلبہ ديكھتے تھے تو افسوس كے ساتھ اواز ديتے تھے ہائے روميوں تم پر افسوس ہے _
اخر خدا وند عالم نے روميوں كو شكست دى اور وہ بھاگ گئے تو ميںنے سارا واقعہ اپنے باپ زبيرسے
بيان كيا ،انھوںنے ہنستے ہوئے كہا :خدا انھيںنيست نابود كرے يہ كبھى اپناكينہ وعناد ختم نہيں كريںگے كياہم روميوںسے بہتر نھيںہيں ؟ (35)
ايك دوسرى روايت ميں يوں منقول ہے كہ جب رومى ،مسلمانوں كو پيچھے ہٹنے پر مجبور كرتے تھے تو ابو سفيان كہتا تھا شاباش روميوں ،ليكن جب مسلمان غالب اتے تھے توابوسفيان كہتا تھا ،ہائے بلند مرتبہ رومى ،اب بادشاہوں كاذكر بھى باقى نہيں رہے گا _
جس وقت اسلامى مجاہدوں كو مكمل فتح حاصل ہو گئي تو ميںنے اس داستان كو اپنے باپ سے بيان كيا ،انھوں نے ميرا ہاتھ پكڑ كر مسلمانوں كے مختلف گروہ كے درميان پھرايا _ہر گروہ كے سامنے پہنچ كر كہتے تھے كہ اے بيٹے _سارى بات ان لوگوںسے بيان كرو_ميں نے جو كچھ سناتھا ان سے بيان كر ديتا تھا _وہ سب لوگ ابوسفيان اور سرداران قريش كے نفاق اور دورنگى چال كو سنكر سخت تعجب كرتے تھے (36)
ابوسفيان عثمان كے زمانے مي
ايك زمانہ گذر گيا _ عمر قتل كئے گئے اور عثمان خليفہ ہو گئے ،ابو سفيان كو خليفہ سے رشتہ دارى كى بنا پر تازہ احترام حاصل ہو گيا ،اب گزشتہ تحقير كى حالت بدل گئي تھى ،اسى زمانہ ميں ايك دن ابو سفيان عثمان كى مجلس ميں وارد ہوا اور كہنے لگا _
اے فرزندان اميہ اب خلافت قبيلہء بنى عدى و تيم سے نكل كر تمھارے چنگل ميں اگئي ہے جس طرح بچّے گيند سے كھيلتے ہيں اسى طرح ا س كو اپنے درميان گھماتے رہو، خداكى قسم نہ بہشت ہے نہ دوزخ (37)
ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ ابوسفيان نے كہا :اے بنى اميہ خلافت كو گيند كى طرح كھيلو اسكى قسم جسكى ابو سفيان كھاتا ہے ہميں عرصے سے يہ ارزو تھى كہ خلافت تمہارے قبضہ ميں اجائے اب اسے وراثت كے طور پر اپنے فرزندوںكو سونپے جانا، عثمان نے يہ بات سن كر ناپسنديدگى كا مظاہرہ كيا (38)
ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ جب ابو سفيان بوڑھاہو گيا اورانكھ بھى كھو بيٹھا تھا توايك دن عثمان كے پاس ايا اور بيٹھتے ہى كہنے لگا ،يہاں كوئي غير شخص تو نہيں ہے جو ميرى بات دوسروں تك پہنچا دے عثمان نے كہانہيں ،ابوسفيان نے كہا ،يہ خلافت كامعاملہ دنياوى معاملہ ہے اور يہ حكومت جاہلى عہدكى حكومت كى طرح ہے اس لئے تم ا س كے تمام عہدوں كو بنى اميہ كے حوالے كرو (39)
انھيںايام ميں وہ ايك دن شہيداسلام حضرت حمزہ كى قبر پر پہنچااور اس عظيم شہيد كى قبر پر ٹھوكر مار كر بولا، اے ابو عمارہ جس معاملہ ميں كل ہم سے اور تم سے تلوار چلى تھى ، وہ اج ہمارے بچّوں كے ہاتھ ميں ہے وہ اسے گيند كى طرح كھيل رہے ہيں (40)
ا س سے معلوم ہوتا ہے كہ عثمان كے خليفہ ہو جانے سے ابوسفيان كى ناپاك تمنّائيں پورى ہو گئيںجس ارزو كے لئے بڑے بڑے سرداران قريش قتل كئے گئے تھے ليكن مسلمانوں كى استقامت سے وہ ارزوپورى نہيں ہوئي تھى ا ب خلا فت عثمان ميں وہ تمام ارزوئيںپورى كر ديں ابو سفيان خلافت عثمان كے زمانہ ميں 31ھ يا32ھ يا34ھ ميں مرگياليكن اسكى زوجہ (ھند) خلافت عمر ہى كے زمانہ ميںمر چكى تھى (41)
( فصل دوم)
معاويہ رسول اسلام(ص) كے زمانے ميں
معاويہ نے كفر واسلام كے درميان ٹكراو ميں كليدى كردار اداكيا اور ايك لمحے كے لئے بھى سرداران كفّار سے دورى اختيار نہيں كى ،يہاں تك كہ اس دن بھى جب اسكے باپ (ابوسفيان) نے ظاہرى اسلام قبول كيا تب ا س نے مذمت اميز اشعار ميں اسكو مخاطب كيا
اے صحر _اسلام قبول مت كرناكيونكہ ہم لوگ رسوائي اور ذلت سے دوچار ہو جائينگے _
حالانكہ ہمارے رشتہ دار جنگ بدر ميں ٹكڑے ٹكڑے ہو گئے _
ہمارے ماموںچچا اور بھائي تينوں مارے گئے ،اپنے بھائي حنظلہ كى موت پر تو ہمارى راتوں كى نينداچاٹ ہو گئي _
ايك لمحے كے لئے بھى اسلام كو قبول نہ كرناكيونكہ ہم ذليل ہو جائينگے
ا ن اونٹوں كى قسم جو راہ مكہ ميں رواں دواںہے
موت اسان ہے دشمنوںكى ملامت سے
جويہ كہيںكہ حرب كے بيٹے ابوسفيان نے خوف ووحشت سے عزى بت سے منھ موڑ لياہے (42)
معاويہ فتح مكہ كے بعد اپنے تمام لوگوں كے ساتھ جنھوں نے بظاہر اسلام قبول كيا تھا مولفة القلوب كے حصہ ميں جنگ حنين كے مال غنيمت سے _100 _اونٹ اور كافى مقدار ميں چاندى حاصل كى تھى اسى سال كے اواخر ميں پيغمبر اسلام(ص) نے اپنى اعلى ظرفى كامظاہر ہ كركے اسے كاتبوںكى فہرست ميں شامل كر ديا (43)
ايك دن اسى كتابت كى غرض سے عباس كو بلانے كے لئے بھيجا اور حكم دياكہ رسول(ص) اكرم تمھيں خط لكھنے كے لئے بلا رہے ہيں ،عباس نے د يكھا كہ كھاناكھا رہاہے تو واپس جاكر رسول(ص) خداكو اگاہ كر ديا دوسرى مرتبہ رسول (ص) خدانے
عباس كے فرزند كو بلانے كے لئے بھيجا ا س مرتبہ بھى وہ كھاناكھانے كى وجہ سے نہيں ايا،اپ نے تيسرى مرتبہ بھيجاليكن معاويہ مسلسل كھاناكھاتے جارہاتھا تيسرى بار بھى ابن عباس نے جب كھانے كى وجہ سے حكم رسول(ص) كو نظر انداز كرتے ديكھا تو ابن عباس كابيان ہے كہ رسول(ص) اسلام نے ا س پر لعنت فرمائي _ اور فرمايا :ميں اميدوار ہوں كہ اللہ اسكا كبھى پيٹ نہ بھرے (44)
ا س كے بعد تو معاويہ اكثر كہتا تھا كہ دعائے رسول (ص) نے مجھے اپنى گرفت ميں لے لياہے اور ميرے حق ميں لعنت قبول ہو گئي، ا س لئے وہ روزانہ متعدد بار كھاناكھاتا تھا اور بہت زيادہ مقدار ميں كھاناكھاتا تھا پھربھى وہ بھوكھاہى رہ جاتاتھا ،يہاںتك كہ معاويہ كى پر خورى ضرب المثل بن گئي تھى ،جوشخص بھى زيادہ كھاناكھاتاتھا تو لوگ اسے كہتے تھے كان فى احشائہ معاويہ ا س كاپيٹ تو معاويہ كاخندق ہو گيا ہے _
اس مسئلہ سے صرف نظر كرتے ہوئے كہ كاتب رسول (ص) ہونے كااكثر نے انكار كياہو، معاويہ سابق قريش مكہ كارئيس تھا ،ابوسفيان كى بيوى سے سيادت ختم ہو گئي تھى وہ اسلامى معاشرے ميںكوئي وقعت نہيں ركھتا تھا اور نہ كوئي اسكى طرف توجہ ديتاتھا،كيونكہ اولاً عوامل احترام جيسے علم وتقوى سے وہ خالى تھااور دوسرے مادى اور مالى لحاظ سے بھى وہ تہى دست تھاجولوگوں كى انكھيںخيرہ كرتى ہيں _
ايك دن كسى مہاجر عورت نے بارگاہ رسول خدا(ص) ميںمعاويہ ياكسى دوسرے شخص سے شادى كى گزارش كي، رسول(ص) اكرم نے فرمايا :معاويہ مفلس ہے اسكے پاس دولت و ثروت نہيں(45)
ائندہ جواس سے گناہ سر زد ہونے والے تھے وہ رسول(ص) اسلا م كى نگاہ سے كيسے پوشيدہ رہ سكتے تھے اس لئے اپ نے مختلف موقعوں پر مسلمانوں كو اسكى مدداور نصرت سے روكا _
مندرجہ ذيل تاريخى نمو نوں كو ديكھا جاسكتا ہے ،ايك دن رسول خدا (ص) مدينہ سے نكل كر كسى سفر پر جارہے تھے_
اپ نے سماعت فرماياكہ دو ادمى چلّارہے ہيںاور دونوں ايك دوسرے كے ساتھ يہ شعر پڑھ
رہے ہيںكہ ہمارے ہمراہيوںاور دوستوںكى ہڈياں اتنى ظاہر ہو چكى ہيںجنگ انكے دفن ہونے اور چھپ جانے سے مانع ہے _
رسول(ص) نے فرماياكہ تلاش كرو اور ديكھوكہ يہ كون لوگ ہيں
لوگوں نے اكر بتاياكہ معاويہ اور عمر و عاص ہيں
رسول(ص) اكرم نے دونوںہاتھ بلند كر كے فرمايا :خدايا،ان دونوں كو فتنہ ميں ڈال د ے اور اتش جہنم ميں جھونك دے (46)
ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ان دونوں كو جنگ تبوك سے علحدہ ديكھا كہ اپس ميںباتيں كرتے ہوئے جارہے ہيں ،اپ نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو كر فرماياكہ جب بھى ان دونوں كو ايك دوسرے كے ساتھ ديكھو تو انھيںعلحدہ كر دو كيونكہ يہ دونوں (معاويہ وعمروعاص) كبھى خير وصلاح پر متّفق نہيں ہونگے (47)
تيسرى حديث ميں ہے كہ انحضرت(ص) نے ا ن دونوں كو اكٹھا ديكھاتو بہت تيز و تند نگاہ ڈالي، دوسرے اور تيسرے روز بھى ايساہى اتفاق ايا روزانہ رسول(ص) اكرم كافى دير تك ان پر تيز و تند نگاہ ڈالتے رہے ،تيسرے د ن فر ماياكہ جب بھى د يكھو كہ معاويہ اور عمرو عاص ايك ساتھ ہيںتو انھيںعلحدہ كر دو كيونكہ ان دونوں كى رفاقت كبھى خير وصلاح پر نہيںہو سكتى ہے(48)
ايك روز ابوسفيان سوارى سے جارہاتھااور اسكے دونوں فرزند يزيد و معاويہ ہمراہ چل رہے تھے ايك نے لجام تھام ركھى تھى اور دوسراپيچھے سے ہنكارہاتھا _
رسول اسلام(ص) نے جب اس حال ميںديكھاتو فرمايا
خدايا _ اپنى لعنت اس سوار پرفرما ،اور اسكے ہانكنے والے پر بھى لعنت فرما اور اسكے كھيچنے والے پر بھى ان سبكو
اپنى رحمت سے دور ركھ (49)_
يہ حوادث اور ا س طرح كے ارشادات رسول(ص) اكرم كتابوںميںموجود ہيں ،اگر چہ ہم نے ان سب كاتذكرہ نہيں كياہے ،ان تمام بے شمار نمونوںكو كتب تاريخ و حديث سے ملاحظہ كرنے كے بعد معاويہ اور اسكے خاندان كى صحيح تصوير سمجھى جاسكتى ہے _
معاويہ خلفاء كے زمانے ميں
وفات رسول (ص) كے بعد جب ابو بكر تخت خلافت پر ائے تو سب سے پہلے جس نے مخالفت كى وہ ذات ابوسفيان كى تھى ،وہ اس بات كو برداشت نہيں كر سكتا تھاكہ پست خاندان كے لوگ قريش كے سرداروں پر حكومت كريں ،قريش كے اہم قبيلہ بنى ہاشم اور بنى اميہ جودونوں ايك نسل اور عبد مناف كے فرزند تھے اور چچيرے بھائي تھے اس تخت خلافت سے كيوںدور رہيں ،يہى وجہ تھى كہ ابوسفيان پہلى فرصت ميںحضرت امير المومنين(ع) كى خدمت ميں اكر بولا _
اے ابولحسن _اپ اپناہاتھ بڑھايئےاكہ اپكى بيعت كروں _
حضرت اميرالمومنين(ع) _وہ اپنے ہر اقدام پر اپنے اسى قول كے سلسلے ميںتيار تھاكہ ميںاس فضا كو غبار الود ديكھ رہاہوںكہ سوائے خون كے كوئي چيز نہيں بٹھاسكتى ہے (50)
ارباب سقيفہ، ابوسفيان اور اسكى قدرت سے بخوبى اشناتو تھے ہى لہذاانھوں نے اسے لالچ كے جال ميں جكڑ كر خاموش كر ديا _
عمر نے ابو بكر سے كہا :جوصدقات رسول(ص) كے زمانے ميںا س كے قبضہ ميںہيںاسى كے پاس رہنے دياجائے تاكہ ا س كے شر سے محفوظ رہيں (51)
اس پر عمل ہو ا اور ابوسفيان نے بيعت كر كے انكى رياست و حكومت كو استحكام بخشا _
كيونكہ ايك طرف تو اسے حكومت و رياست كى اميد نہيں تھى اور دوسرى طرف اميرالمومنين(ع) نے اسكى ہونكارى بھى نہيںبھرى اور ايساكرتے بھى نہيں لہذاتيسرے راستہ كے علاوہ كوئي چارہ نہيںتھا كہ اپنے كو ارباب حكومت كے حوالے كر دے ،ا س طرح ابوسفيان بھى سقيفہ كے مددگاروں ميںشامل ہو گيا ،وہ اور ا س كا خاندان سقيفہ كاحمايتى بن گيا _
ابو بكر نے بھى ابوسفيان كو خاموش كرنے اور اسكاتعاون حاصل كرنے كے لئے ،اسكے بيٹے يزيد كو شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے بھيجے جانے والى فوج كاسردار معين كر ديا ،يہ حادثہ ہجرت كے تيسرے سال پيش ايا ،معاويہ بھى بھائي كے ساتھ فوج ميں شامل تھا ،شام فتح ہونے كے بعد ابو بكر كے حكم سے يزيد ابن ابوسفيان حكومت دمشق پر فائز ہو گيا، وہاںوہ فوج كا سپہہ سالار بھى تھا اور دمشق كاحاكم بھى _
خلافت عمر كے زمانے ميں جس وقت يزيد ابن ابوسفيان طاعون كے مرض ميںگرفتار ہوا تو اسنے اپنے بھائي معاويہ كو اپنى جگہ معين كرنے كے لئے، خليفہ كو خط لكھا خليفہ دوم نے اسكى بات مان كر حكومت معاويہ كے حوالے كردى (52)
شام پر معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں عمر نے مصر كاسفر كيا ،جس دن وہ دمشق ميں پہنچے تو معاويہ نے ا ن كا شاندار استقبال كيا ،عمر نے جب معاويہ كاجاہ وجلال ديكھاتو كہا ،يہ شخص عرب كاكسرى ہے _
جب معاويہ اسكے قريب ايا تو اس سے كہا كہ ،تم اتنے جاہ وجلال كے مالك ہو گئے ؟
معاويہ نے جواب ديا _جى ہاں اميرالمومنين
عمر نے پوچھا ،ايسا كيوں كرتے ہو ؟
------------------------------------------------------------
1_ غميصامكہ كے پاس ايك جگہ ہے اس زمانے ميںبنى جذيمہ كا قبيلہ وہاں ساكن تھا يہ قبيلہ اور فاكہ كے علاوہ كچھ دوسرے قريش كے لوگ جاہليت كے زمانہ ميں قتل كئے گئے ، اسلام كے زمانے ميں خالد بن وليد كو وہاں فتح مكہ كے بعد بھيجا گياكہ وہاں قبائل عرب كو اسلام كى دعوت ديں اس قبيلے نے اپنے خون كا معاوضہ طلب كيا رسول اكرم (ص) نے ان كے اس مطالبے پر سخت برھمى كا مظاہرہ كيا اور مقتولوں كا خونبہا بيت المال سے ادا كر ديا
2_ المحبر ص 437 ،طبقات ابن سعد ج 8ص235
3_ العقد الفريد ج6ص87 ،الاغانى ج 9ص53
4_ الا غانى ج 9 ص 53_ 50
5_ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص 116
6_ الاغانى ج 9 ص 58_ 55
7_ تذكرة الخواص ص 116
8_ الاغانى ج9 ص 53
9_ شرح نہج البلاغہ ج1 ص 336
10-ايك عرب شاعر نے كہا ہے ملكنافكان العفومنا سجيّةً ملكتم فسال منا بالدم ابطح ترجمہ : ہم فاتح ہوئے تو ہم نے عام معافى كا رويہ اپنا ياكيونكہ يہى ہمارى اخلاقى عادت ہے ليكن جب تم كامياب ہوئے تو تم نے ہمارے خون سے صحراو ں كو بھر ديا
11-معاويہ كے نسب كے بارے ميں بيان كيا جاتا ہے كہ صرف يہ چيز اسى سے مخصوص نہيں ہے بلكہ عمرو عاص كى ماں نابغہ اور زياد كى ماں سميہ اور سعد ابن ابى وقاص اور مروان ابن حكم جيسے اكثر بزرگان جاہليت كے بارے ميں علماء انساب كى يہى رائے ہے اصل ميں اس وقت شھر مكہ جنسى راہ روى ميں ايسا نہيں تھا جيسا كہ اجكل فرانس كا پيرس شہر ہے _رسول اكرم (ص) ايسے فاسد معاشرے كى اصلاح كيلئے مبعوث كئے گئے تھے _ تذكرة الخواص ص 203 چاپ نجف 1964
12_ انساب الاشراف ج1 ص 297
13_ انساب الاشراف ج1 ص 297
14_ المحبر ص 161_ چاپ ھند
15_ سيرہ ابن ہشام ج1 ص 317
16_سيرہ ابن ہشام ج2 ص 95 _ 92 ، طبرى ج2 ص 370 چاپ دار المعارف مصر
17_ حليس علقمہ ابن عمر و،ارقم كنانى كافرزند تھا انھوں نے قبيلہ ء بنى مصطلق اور بنى ہون سے معاھدہ كر ركھا تھااسى لئے اس پہاڑ كا نام كوہ احابيش مشہور ہو گيا
18_ سيرت ابن ہشام ج 3ص609، طبرى ج2 ص527، ابن اثير ج2 ص 111
19_ طبرى ج3 ص 526 ، انساب الاشراف ج1 ص 327
20_ سيرہ ابن ھشام ج3 ص 667
21_ سيرہ ابن ھشام ج3 ص 715
22_ سيرہ ابن ھشام ج4 ص 754
23_ اگے كے صفحات ميں ہم بيان كرينگے كہ ابو سفيان نے ظاہرى طور پر اسلام قبول كيا تھا اور اس كے دل ميں كفر چھپا ہوا تھا
24_ سيرہ ابن ھشام ج4 ص 870 ، طبرى ج3 ص 61
25_ تہذيب ابن عساكر ج6 ص 404 ، اصابہ ج2 ص 172 ،مطبوعہ مصر 1358شمسى
26_ متاع الاسماع ص 405 مطبوعہ مصر
27_ معجم البلدان ج2 ص 313 مطبوعہ بيروت
28_ جمھرة انساب العرب ص 254_ 252 مطبوعہ مصر
29_ المغازى ج3 ص 300 ، يعقوبى ج2 ص 47 ، انساب الاشراف ج1 ص 365
30_ سورہ توبہ ، سورہ مائدہ ايت 90
31_ سيرت ابن ہشام ج4 ص 935 ، طبرى ج3 ص 94 المغازلى ج3 ص 956
32_ صحيح مسلم ج7 ص 171 مطبوعہ مصر
33_ صحيح مسلم ص 173 ، سير اعلام انہلاء ج2 ص 15
34_ تہذيب ابن عساكر ج6 ص 407
35_ طبرى ج4 ص 137 ، ابن اثير ج2 ص 282 ، اصابہ ج2 ص 172 ، تہذيب ابن عساكر ج5 ص 356
36_ اغانى ج 6 ص 356 ، استيعاب ص 689 ، اسد الغابہ ج5 ص 216
37_ اغانى ج 6 ص 356، استيعاب ص 690
38_ مروج الذھب ج 5 ص 166
39_ اغانى ج 6 ص 355 اگر خلافت عثمان كا گہرائي سے مطالعہ كيا جائے تو معلوم ہو سكتا ہے كہ ابو سفيان كا منحوس مشورہ سر بسر بنى اميہ كے ہاتھوں پورا ہوا معاويہ كے ہاتھ ميں يہ موروثى حكومت ائي اور عثمان كے دور ميں سارى سلطنت اسلامى پر امويوں كى حكمرانى تھي_
40_شرح نہج البلاغہ ج2 ص 102
41_ اسد الغابہ ص 563
42_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 102 ، تذكرة الخواص ص 115 ، جميرة الخطب ج2 ص 12
43_ تنبيہ الاشراف ص 283
44_ انساب الاشراف ص 532 ، صحيح مسلم ج8 ص 27 ، شرح نہج البلاغہ ، مسند طيالسى ، ابن كثير ج 8 ص 119
45_صحيح مسلم ج4 ص 195 ، مسند طيالسى ، مسند ابن داو د، سنن ابن ماجہ
46_ مسند احمد ج4 ص 421 ، صفين ، نصر بن مزاحم ، النصائح الكافيہ
47_ عقد الفريد
48_ صفين _ نصر بن مزاحم
49_ صفين _ طبرى _ شرح نہج البلاغہ _تذكرة الخواص
50_ طبرى ج2 ص 449
51_ عقد الفريد ج3 ص 63 ، طبرى ج2 ص 449
52_ طبرى ج4 ص 202 سير اعلام النبلہ ج1 ص 238
|