تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار عهد امير المومنين (ع)
 

زبير كى سر گذشت
مسعودى كا بيان ہے:
جس وقت دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے ،حضرت على (ع) نے جنگى ہتھيار زمين پر ركھے ، پھر رسول خدا (ص) كے مخصوص خچر استر پر سوار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف چلے ، وہاں اپ نے زبير كو بلايا زبير جنگى ہتھيار بدن پر سجائے حضرت على (ع) كے سامنے ائے جب يہ خبر عائشه كے كان ميں پڑى تو اپنى بہن كے شوہر اور سپہ سالار لشكر زبير كے بارے ميں خوفزدہ ہو كر بے اختيار صدائے فرياد بلند كى (واحر باہ باسماء )ہائے ميرى بہن اسماء بيوہ ہوگئي _
لوگوں نے كہا : اے عائشه غم نہ كرو ، كيونكہ على كے بدن پر ہتھيار نہيں ، وہ زبير سے جنگ كرنے يہاں نہيں ائے ہيں ، عائشه نے سنكر ذرا سكون كى سانس لى _
جس وقت زبير حضرت على (ع) كے سامنے پہونچے تو باہم بغلگير ہوگئے ، دونوں نے ايك دوسرے كے اغوش ميںبھينچ ليا اور والہانہ بوسے لينے لگے _
پھر حضرت على (ع) نے فرمايا: اے زبير تم پر افسوس ہے ، اخر كس غرض سے اس خطرناك لشكر كے ساتھ اس سر زمين پر ائے ہو ؟ اور اخر كيا وجہ ہوئي كہ ميرے خلاف علم بغاوت بلند كر ديا ہے ؟
زبير نے كہا: خون عثمان كا بدلہ لينے كيلئے ميں نے اس جنگ اور لشكر كشى كى تيارى كى ہے
حضرت على (ع) نے فرمايا: خدا اسكو قتل كرے جس كا حصہ قتل عثمان ميں زيادہ ہے ، اے زبير كيا تمھيں ياد ہے ايك دن رسول خد(ص) ا نے تم سے كہا تھا اے زبير ايك دن تم نا حق على سے جنگ كروگے _
زبير نے كہا: استغفراللہ .......... اے خدا ميں اپنے اس عمل پر شرمندہ ہوں ، اب اپنے كئے پر توبہ كرتا ہوں ، خدايا ميرى تقصير معاف فرما ، پھر حضرت على كى طرف رخ كر كے كہا :
خدا وند عالم ميرے دلى راز سے اگاہ ہے ، اور ميرى صداقت بيانى پر گواہ ، كہ اگر يہ حديث رسول(ص) ياد ہوتى تو كبھى اس منحوس بغاوت پر امادہ نہ ہوتا ، نہ اپنے گھر سے جنگ كے لئے نكلتا _
حضرت على (ع) نے فرمايا : اے زبير دير نہيں ہوئي ہے ، اب بھى تم جنگ سے دستبردار ہوسكتے ہو اور ابھى سے اپنے گھر واپس جا سكتے ہو _
زبير نے كہا: ليكن اب ميںيہ كيسے كر سكتا ہوں كيسے اس بڑے ننگ و عار پر امادہ ہو جائوں ، اب تو دونوں لشكر امنے سامنے جنگ پر تيار ہيں ، اب تو فرار كا راستہ بھى بند ديكھ رہا ہوں _
حضرت على (ع) فرمايا: اے زبير اگر اج تم نے ننگ وعار كو قبول كر ليا تو اس سے كہيں بہتر ہے كہ كل بھى تمھيں ننگ وعار كا سامنا كرنا پڑے گا ، كل قيامت ميں عار بھى ہے اور اتش جہنم بھى _
اس موقع پر حضرت على (ع) كى باتوں سے زبير بہت زيادہ متاثر ہوئے ، حضرت على (ع) سے جنگ پر سخت نادم و پشيمان ہو كر ارادہ جنگ سے باز ائے ، انھوں نے اس سلسلے ميں كچھ اشعار بھى كہے
_ميں اپنے لئے عار و ننگ كو قبول كر رہا ہو ں تاكہ ذليل كرنے والى اتش جہنم سے نجات پا سكوں
_ميرا كمزور جسم اتش جہنم كى تاب كيسے لاسكے گا ؟ على نے ايسى بات ياد دلا دى جسے ميں خود جانتا تھا ليكن بھول گيا تھا
_ہاں على سے جنگ دين و دنيا دونوں كو تباہ كر نے والى ہے ، اور ننگ و عار سمجھے جانے والى اسى وجہ سے ميں نے على سے كہا :
اے ابو الحسن اب اس سے زيادہ ملامت نہ كرو
اپ نے اتنا ہى جو كچھ بيان كيا ہے يہى ميرى اگاہى كيلئے كافى ہے _

اخترت عاراً على نار مو ججة
ما ان يقوم لھا خلق من الطين

نادى على بامر لست اجھلہ
عار لعمرك فى الدنيا و فى الدين

فقلت حسبك من عذل ابا حسن
بعض الذى قلت منذ اليوم يكفيني

ترجمه: _ ميں اپنے لئے عاروننگ کوقبول کرر باہوں تا که ذليل کرنے والى آتش جہنم سے نجات پاسکوں
ميرا گزورجسم آتش جہنم کى تاب کيسے لا سکے گا ؟ علي نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں خود جا نتاتها ليکن بهول گياتها.
بال على سے جنگ دين و دنيا دونون کوتباه کرنے والى ہے ، اورنگ و عارسمجهے جانے والى اسى وجه سے ميں نے على سے کہا :
اے ابوالحسن ! اب اس سے زياده ملامت نه کرو.
آپ نے اتناهى جوکچھ بيان کيا هے يہى ميرى آگاہى کيلئے کافى ہے -
مسعودى نے اگے لكھا ہے :
جب عبد اللہ بن زبير كو باپ كے ارادے كى اطلاع ہوئي تو اس نے كہا :
اے بابا اس حساس موقع پر مجھے كيسے چھوڑ رہے ہيں ، اور خود فرار كر رہے ہيں
زبير نے كہا : اے بيٹا على نے ايسى بات ياد دلادى جسے ميں بھول چكا تھا ، اس وجہ سے اب ميں جنگ اگے نہيں بڑھا سكوں گا _
عبد اللہ نے كہا : اے بابا ،نہيں ، جو كچھ اپ كہہ رہے ہيں يہ صرف بہانہ ہے ، بلكہ اپ تيز تلواروں سے ڈر گئے ہيں _
فوج دشمن كے بلند نيزے ، ان كے بہادر اور جنگجو جوان ان سب كو ديكھ كر اپ خوف اور وحشت ميں مبتلا ہو گئے ہيں ، اسى وجہ سے اپ جنگ سے منھ پھرا رہے ہيں
زبير نے كہا ، خدا تيرے جيسے بيٹے كو ذليل و خوار كرے تو باپ كى بد بختى و ہلاكت كا باعث بن رہا ہے ، باپ كى ذلت كيلئے كو شاں ہے (1)
اس جواب كو ابن اعثم نے نقل كيا ہے ، ليكن مسعودى كے بيان كے مطابق زبير نے عبداللہ كو جواب ديا _ عبداللہ نہيں ، ايسا نہيں جيسا تو سمجھ رہا ہے ، ہرگز ايسا نہيں كہ جنگ كا خوف مجھے باز ركھے ، بلكہ اج مجھے وہ بات ياد اگئي جسے عرصے سے بھولا ہوا تھا ، اس واقعے نے مجھے حضرت على (ع) سے جنگ نہ كرنے كى ياد دہانى كرا دى ، اسى لئے ميں نے جنگ نہ كرنے كا عار جہنم كى اگ كے مقابلے ميں قبول كيا ، اور اپنے كو جنگ سے علحدہ كر ليا _
ليكن ميرے بيٹے اب جبكہ تم مجھے بزدل اور ڈر پوك كہہ رہے ہو تو اس دھبے كو بھى دامن سے دھو ڈالو ں گا ، يہ كہہ كر نيزہ ہاتھ ميں سنبھالا اور حضرت على (ع) كے ميمنہ لشكر پر شديد حملہ كيا ، جس وقت حضرت على (ع) نے زبير كو غضبناك حالت ميں چوكڑى بھرتے ديكھا تو اپنے لشكر كو حكم ديا ، انھيں مہلت دو ، كوئي تكليف نہ پہو نچائو كيونكہ انھيں بھڑكايا گيا ہے ، وہ اپنا فطرى توازن كھو چكے ہيں _ زبير نے دوسرى بار لشكر على كے ميسرہ پر حملہ كيا ، اسكے بعد قلب لشكر پر سخت حملہ كرنے كيلئے بڑھے _ اسكے بعد زور سے چلّائے كيا جو ڈر پوك ہو گا وہ ايسى شجاعت كا مظاہرہ كر سكتا ہے اور اس طرح بے باكانہ طريقے سے سپاہ دشمن پر حملہ كر سكتا ہے ؟ پھر وہ لشكر سے علحدہ ہو كر صحرا كى طرف چلے گئے جس صحرا كا نام وادى السباع تھا _ احنف بن قيس تميمي،اس جنگ جمل سے جانبدارى كا اعلان كر كے بصرہ كو چھوڑ كر اسى وادى ميں اقامت گزيں رہا ، ايك شخص نے اس سے كہا ، اے احنف يہى زبير ہے ، احنف نے كہا ، مجھے زبير سے كيا
سروكار ؟اس نے مسلمانوں كے دو گروہ ميںجنگ و خونريزى كى حالت پيدا كر دى ہے ، اور اب اپنے كو سلامتى كى غرض سے وہاں سے علحدہ كر كے گھر جارہا ہے ، اسے چھوڑ بھى دو كہ چلا جائے _
زبير وہيں گھوڑے سے اترے اور نماز پڑھنے لگے ، اسى وقت ايك شخص جس كا نام عمر و بن جرموز تھا(2)،
اس نے پيچھے سے تلوار چلائي اور انھيں قتل كركے لشكر عائشه كے سپہ سالار كى زندگى كا خاتمہ كر ديا ، زبير كے بعد لشكر عائشه كى حكمرانى طلحہ كے ہاتھ ميں اگئي (3)_

طلحہ كى سر گذشت
ابن عساكر كا بيان ہے :
جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت على (ع) نے طلحہ كو اپنے پاس بلا كر پوچھا اے طلحہ تجھے خدا كى قسم ہے كيا تو نے رسول خدا (ص) كا يہ ارشاد نہيں سنا كہ من كنت مولاہ فھذا على مولاہ، جس كا ميں مولا ہوں اسكے يہ على مولا ہيں ، خدا يا جو اسے دوست ركھے تو بھى اسے دوست ركھ اور جو اسے دشمن ركھے تو بھى دشمن ركھ
طلحہ نے كہا : ہاں ميں نے بھى سنا ہے اور مجھے اچھى طرح ياد ہے _
حضرت على نے فرمايا: تعجب ہے ، اسكے باوجود تو مجھ سے جنگ كر رہا ہے ؟
اس بارے ميں طبرى يوں لكھتا ہے :
جنگ شروع ہونے سے قبل حضرت على (ع) نے طلحہ سے ملاقات كى اور اس سے كہا :
تو وہ شخص ہے جس نے اپنى زوجہ كو گھر ميں بيٹھا ركھا ہے اور زوجہ رسول (ص) كو ميدان جنگ ميں گھسيٹ لايا ہے ، ميرى بيعت بھى توڑ دى ہے _
طلحہ نے حضرت على (ع) كے ان تمام اعتراضات كے جواب ميں صرف ايك بات پر اكتفا كى _
يا على ميں نے اپ كى بيعت اپنے اختيار سے نہيں كى تھى بلكہ طاقت اور تلوار نے مجھے بيعت پر مجبور كيا تھا _
ابن عساكر اور ذہبى لكھتے ہيں كہ :
ابو رجا كا بيان ہے : ميں نے طلحہ كو ديكھا كہ گھوڑے پر سوار ہو كر سپاہيوں كے درميان چلّا رہا تھا _
اے لوگو خاموش رہو اے لوگو ميرى بات سنو ، طلحہ جتنا بھى چلّا رہا تھا ، اتنا ہى ہائو ہو اور ھنگامہ بڑھتا جا رہا تھا ، كوئي اسكى بات سننے پر امادہ نہ تھا ، طلحہ نے لوگوں كى بے اعتنائي پر غصے ميں كہا ، تف ہے ان بھيڑيا صفت لوگوں پر جو اتش جہنم كے پروانے ہيں _
تاريخ بن اعثم ميں ہے كہ :
طلحہ نے اپنے لشكر والوں سے چلا كر كہا ، يا عباد اللہ اصبرو، اے بند گان خدا صبر كرو، صبر و استقامت كا مظاہرہ كرو كيو نكہ صبر و ظفر دونوں قديم زمانے سے ايك دوسرے كے دوست ہيں ، استقامت اور كامرانى ہميشہ ايك دوسرے كے ساتھى رہى ، فتح اسى كو حاصل ہوتى ہے جس كے پاس صبر و استقامت ہو ، جو لوگ سختيوں اور مصيبتوں ميں صبر كرتے ہيں وہى بہترين اجر سے سرفراز ہوتے ہيں _
ابو مخنف لكھتا ہے كہ: جندب بن عبداللہ كا بيان ہے كہ ميں نے جنگ جمل ميں طلحہ اور اسكے ساتھيوں كو حضرت على (ع) سے جنگ كرتے ہوئے ديكھا ، ان كے جسم پر بہت زيادہ زخم تھے ، وہ لوگ بھاگنے پر امادہ تھے ايك ايك كر كے طلحہ كے سپاہى فرار كرنے لگے ، پيچھے ہٹنے لگے ، طلحہ كو سب سے زيادہ زخم ائے تھے ، تلوار ہاتھ ميں لئے چلّا رہا تھا _
اے بند گان خدا ، استقامت دكھائو ، صبر و شكيب كا مظاہرہ كرو كاميابى صبر سے وابستہ ہے ، اجر و ثواب استقامت ميں ہے _

طلحہ كيسے قتل ہوئے ؟
يعقوبى ، ابن عساكر، ابن عبد ربہ ، ابن عبد اللہ استيعاب ميں اور ابن اثير كامل ميں اور ابن حجر عسقلانى اس طرح لكھتے ہيں كہ ، جب حضرت على اور طلحہ كا لشكر مشغول كار زار تھے لشكر عائشه كا ايك سردار مروان بولا _
ميں اگر اج موقع سے فائدہ اٹھا كر ، قاتل عثمان سے انتقام نہ لوں تو كب يہ موقع حاصل كر سكوں گا ؟
يہ كہہ كر اس نے ايك تير اپنے سپہ سالار طلحہ كى طرف چلايا جو ٹھيك طلحہ كے زانو پر لگا اور پير كى رگ ميں پيوست ہو گيا ، اور فوارے كى طرح خون بہنے لگا ، اور اسطرح مروان كے ہاتھوں طلحہ كى ہنگاموں سے بھر پور زندگى كا خاتمہ ہو گيا _
طبقات بن سعد ميں ہے :
طلحہ خود بھى يہ خاص بات (نكتہ)سمجھ گئے تھے كہ وہ كارى اور قاتل زخم خود انھيں كے ساتھيوں كى طرف سے ايا تھا ، زندگى كے اخرى لمحوں ميں كہنے لگے
خدا كى قسم جو تير ميرے پائوں ميں پيوست ہوا وہ لشكر على كى طرف سے نہيں ايا تھا _
مسعودى قتل طلحہ كے سلسلے ميں لكھتا ہے :
مروان نے اثنائے جنگ ميں طلحہ كو اپنے سے غافل ديكھا تو اسے انتقام عثمان كا خيال ايا ، وہ بولا كہ خدا كى قسم ميرے لئے كوئي فرق نہيں كہ ميں لشكر على كى طرف تير اندازى كروں يا طلحہ كے سپاہيوں كى طرف _
يہ كہہ كر اس نے اپنے ساتھى طلحہ كى طرف تير چلايا جس سے طلحہ كے بازو كى رگ كٹ گئي ، اس سے خون كا فوارہ بہنے لگا ، اسى زخم كى وجہ سے طلحہ كى جان گئي _
ابن سعد نے بھى اس واقعہ كى يوں تشريح كى ہے _
مروان كى انكھ نے جنگجو سواروں كے درميان ديكھا كہ طلحہ كى زرہ ميں شگاف ہے ، اس سے اسى كو نشانہ بنا كر تير چلاديا ، اس تيرنے اپنا كام كيا اور وہ قتل ہو گئے _
بعض مورخين نے لكھا ہے :
مروان نے طلحہ كو درميان لشكر انتہائي حساس حالت ميں ديكھ كر كہا خدا كى قسم ، يہ شخص عثمان كا بد ترين دشمن اور قاتل تھا ، ميں تو عثمان كے خون كا بدلہ لے رہا ہوں ، كيا اچھا ہو كہ اصلى قاتل كو قتل كر دوں اور جن لوگوں
پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے انھيں نظر انداز كر دوں ، يہ كہكر تير كمان ميں جوڑكر طلحہ كى طرف چلايا اور اسے قتل كرديا _
مستدرك حاكم ، تاريخ بن عساكر اور اسد الغابہ ميں ہے
جس وقت مروان نے طلحہ كو قتل كيا ، اس نے عثمان كے فرزند ابان كى طرف رخ كر كے كہا :
اے ابان تمہارے باپ كے ايك قاتل كو كيفر دار تك پہونچا كر تمھارا دل ٹھنڈا كر ديا _
ابن اعثم نے قتل طلحہ كى داستان ذرا تفصيل سے بيان كى ہے ، جنگ كے درميان مروان نے اپنے غلام سے كہا ، مجھے بڑى حيرت ہے كہ يہ طلحہ ايك دن بد ترين دشمن عثمان تھا ، لوگوں كو ان كے قتل پر ابھارتا تھا ، ان كا خون بہانے ميں كوشاں تھا ، يہاں تك كہ انھيں قتل كر ڈالا اور اج انكى طرفدارى اور انتقام كيلئے كھڑا ہے ، ان كے دوستوں اور فرزندوں كے ساتھ ہے _
پھر كہا : ميں اس متلون اور منافق كو قتل كرنا چاہتا ہوں تاكہ مسلمان اس كى شرارت سے نجات پائيں ، ان بيچارے لوگوں كے سر سے اس كا منحوس سايہ كم ہو _
اے غلام ، تو ميرے سامنے اكر مجھے اپنى اڑ ميں لے لے اگر تو نے اچھى طرح يہ كام نبھايا تو تيرا بہت شكر گذار ہوں گا ، اور اس كے بدلے تجھے ازاد كر دوں گا _
مروان كے غلام كو اپنى ازادى سب سے زيادہ پيارى تھى ، اس نے اپنے كو مروان اور طلحہ كى اوٹ ميں كر ليا ، اسى وقت مروان نے ايك زہر ميں بجھائے ہوئے تير كو كمان ميں جوڑ كر طلحہ كا نشانہ بنايا اور انكى ران زخمى كر دى _
مورخين كا بيان ہے كہ: جب طلحہ نے اس زخم سے اپنى كمزورى بڑھتى ديكھى تو اپنے غلام سے كہا ، كم سے كم مجھے ايك درخت كے سائے ميں ليكر چل تاكہ سورج كى تيز گرمى سے نجات ملے ، غلام نے كہا ، اے امير ، اس بيا بان ميں دور دور تك كہيں سايہ نہيں ، ميں اپ كو كہاں اٹھا كر ليجائوں ، اس وقت طلحہ نے بجھى بجھى حالت ميں حسرت سے كہا ، سبحان اللہ ، قبيلہ قريش ميں مجھ سے زيادہ بيچارہ كوئي نہ ہو گا ، ہائے ميرا خون رائگاں گيا ، اور ميرا قاتل لا معلوم ہے ، اے خدا ،يہ منحوس اور سوزش سے بھر پورتير كدھر سے ايا تھا ؟اس نے تو ميرى دنيا اندھير اور زندگى تباہ كر دى ، يہ تير دشمن كى طرف سے نہيں ايا تھا ، كيا كروں كہ ميرى تقدير ميں يہى لكھا تھا
115
مدائنى كا بيان ہے :جب مروان كا تيرطلحہ كے پير ميں لگا تو اس نے اپنے كو ميدان سے علحدہ كر ليا ، اور ايك مناسب اور محفوظ جگہ پر اپنے كو ڈال ديا كہ وہاں ارام كر سكے ، وہاں وہ كسى على كے سپاہى كو ديكھتا تو اس سے امان طلب كرتا ، بڑى عاجزى سے كہتا ، ميں طلحہ ہوں ، ميں تمہارى امان ميں ہوں ، كيا تم ميں كوئي جو اں مرد ہے جو مجھے امان دے ، مجھے قتل سے نجات بخشے _
حسن بصرى كو جب طلحہ كے امان طلب كرنے كى بات ياد اتى تو كہتے انھيں امان كى ضرورت نہيں تھى كيونكہ وہ پہلے ہى دن سے ايك عمومى امان ميں تھے حضرت على نے اپنے سپاہيوں سے قبل جنگ ہى عام اعلان كر ديا تھا كہ زخميوں كو قتل نہ كيا جائے _
مورخين كا بيان ہے:
كہ طلحہ اپنے ساتھى مروان كے ہاتھوں قتل ہوئے اور ان كا جسد ميدان بصرہ كے مقام سبخہ ميں دفن ہوا _
ابن عبدربہ ، ابن عبدالبر اور ذھبى كا بيان ہے ، لشكر عائشه ميں سب سے پہلے طلحہ قتل ہوئے ، طلحہ ہى زبير كى كنارہ گيرى كے بعد لشكر كے سپہ سالار تھے _
جى ہاں ، لشكر عائشه كے دوسرے سپہ سالار اسطرح قتل ہوئے ، ليكن اس سپہ سالار كے قتل كے بعد بھى فوج عائشه ميں ذرا ہراس نہ تھا كيونكہ اس فوج كا پرچم وہ اونٹ تھا جس پر عائشه كا ہودج ركھا ہوا تھا ، لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، قتل طلحہ كے بعد لشكر كى توجہ زيادہ مركوز ہو گئي ، اور جنگ ميں شدت بھى اگئي (4)_

اخرى جنگ شروع ہوئي
جنگ جمل چند چھوٹى بڑى جھڑپوں سے تشكيل پائي ہے
1_ لشكر عائشه بصرہ ميں وارد ہوا تو اس كے اور گورنربصرہ كے درميان جنگ ہوئي ، اس جنگ ميں گورنر
بصرہ كو فتح نصيب ہوئي اخر كا ر صلح كے بعد ختم ہوئي _
2_ لشكر عائشه نے معاہدہ صلح روند ڈالا ، ايك انتہائي تاريك رات ميں مسجد ، بيت المال اور دار الامارہ پر حملہ كر كے ايك دوسرى جنگ شروع كى اس موقع پر لشكر عائشه كو فتح ملى ، اس طرح حضرت على (ع) كے گورنر كو بصرہ سے نكال بصرہ پر قبضہ كر ليا گيا _
3_ حكيم بن جبلہ نے جو بصرہ كے مشہور بزرگ تھے ،جب لشكر عائشه كى زيادتى اور معاہدہ شكنى سنى تو اپنے قبيلے والوں كے ساتھ ان سے جنگ پر تيار ہو گئے ، اس طرح تيسرى جنگ شروع ہوئي ، اس ميں بھى بظاہر لشكر عائشه كو فتح ملى ، حكيم بن جبلہ كے قتل ہونے پر اس جنگ كا خاتمہ ہوا _
4_ ايك دوسرى جنگ اور ہوئي جسے اخرى اور سب سے بڑى جنگ جمل كہنا چاہيئے ، يہ جنگ اس وقت شروع ہوئي جب حضرت على (ع) بصرہ ميں وارد ہوئے ، اس جنگ ميں لشكر عائشه كو بد ترين شكست كا سامنا كرنا پڑا _
اس جنگ ميں عام دستور كے مطابق پر چم نہيں تھا ، ان كا پرچم وہى عائشه كا اونٹ تھا (5)جو لشكر كے اگے اگے چل رہا تھا ، اسكى حركت سے عائشه كى فوج ميں روح اور توانائي دوڑ جاتى تھى ، جب تك وہ اونٹ كھڑا رہا ، فوج عائشه ميں ذرا بھى كمزور ى اورضعف نہيں ديكھا گيا ، بغير كسى خوف و ہراس يااضطراب كے لشكر على سے جنگ كرتا رہا ، عائشه اس اونٹ پر سوار تھيں اور فوج كو احكامات صادر كر رہى تھيں ، حملہ كرنے كا حكم دے رہى تھيں _
حضرت على (ع) نے جب يہ صورتحال ديكھى تو اپ نے بھى عمامہ مشكى (6)كو سر پر ركھا اور اپنے لشكر كو تيار ہونے كا حكم ديا ، پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا _
محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ :ميرے بابا على نے جنگ جمل ميں علم ميرے حوالے كيا ، اپ نے مجھے حملہ كرنے كا حكم ديا ، ميں نے قدم اگے بڑھايا ليكن اپنے سامنے لوہے ، نيزوں اور تلواروں كى ديوار ديكھى تو قدم رك گئے ، ميرے بابا نے دوبارہ مجھ سے فرمايا ، تيرى ماں تجھ پر روئے ، اگے بڑھ ، ميں نے پلٹ كر خدمت ميں
عرض كى ، كيسے اگے بڑھوں ، كيونكہ لوگوں نے ميرے سامنے نيزوں اور تلواروں كى ديوار كھڑى كر ركھى ہے _
محمد حنفيہ كا بيان ہے كہ: ابھى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ كسى نے اس تيزى سے جھپٹ كر ميرے ہاتھ سے پرچم لے ليا كہ اسے پہچان بھى نہ سكا ادھر ادھر ديكھا تو يكبارگى متوجہ ہوا كہ پرچم ميرے بابا على كے ہاتھ ميں ہے ، فوج كے اگے اگے سپاہ دشمن پر حملہ كر رہے ہيں اور يہ رجز پڑھ رہے ہيں _
اے عائشه ميرى نيكياں اور پچھلے سلوك نے تجھے مغرور بنا ديا ہے ، يہاں تك كہ تو مجھ سے بغاوت پر امادہ ہو گئي _
عائشه مغرور مت ہو ، يہ لوگ جو تيرے اردگرد ہيں يہ تيرے دشمن ہيں جو دوستى كے لباس ميں ہيں _
عائشه تيرے لئے موت اور سر افگندگى اس سے بہتر ہے كہ تو مسلمانوں اور اپنے بيٹوں كے درميان جنگ اور خونريزى بھڑكا رہى ہے (7)
117

كہانى كعب بن سور كى .......... عائشه كے اولين لجام بردار
(اونٹ كى لجام كعب كے ہاتھ ميں )
جيسا كہ ميں نے بيان كيا ، عائشه كى فوج كا پرچم ا ن كا اونٹ تھا جو بھى ا س كى لجام تھام ليتا وہ لشكر كا علمدار سمجھا جاتا ، وہ اپنے اس عہدے پر فخر و ناز كرتا ، اسے عظيم مرتبہ سمجھتا _
يہ منصب سب سے پہلے قاضى بصرہ كعب بن سور كو ملا (1)،جنگ شروع ہوئي اور بتدريج گرم تر ہوتى گئي ، اس موقع پر كعب بن سور نے قران گردن ميں حمائل كئے ، ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ہاتھ ميں اونٹ كى لجام تھامے ايك عجيب اور مضحكہ خيز حالت ميں لشكر كے اگے اگے چلنے لگے ، اتفاقا كسى نامعلوم شخص كا تير انھيں لگا اسى تير سے وہ لڑہك گئے ، اسطرح عائشه كے پہلے لجام بردار يا يوں كہا جائے كہ اولين علم بردار اپنے خون ميں نہا كر جان جان افريں كے سپردكر بيٹھے _

كعب بن سور كون ہے ؟
كعب بن سور(8) خليفہ دوم عمر كے زمانے ميں قاضى بصرہ ہوئے ، وہ اس منصب پر جنگ جمل كے دن تك باقى رہے ، يہ ان لوگوں ميں تھے جنھيں جنگ جمل سے كوئي دلچسپى نہيں تھى ، نہ اسے صحيح سمجھتے تھے
جيسا كہ طبرى كا بيان ہے كہ: خود كعب كہتے تھے ، خدا كى قسم ، ميرا عقيدہ اس جنگ كے بارے ميں وہى ہے جو اس بڑھيا كا تھا جو اپنے بيٹے سے نصيحت كر رہى تھى ، بيٹے نہ لوگوں سے علحدہ رہو نہ اختلافات اور جنگوں ميں ان كا ساتھ دو _ ابن سعد يوں نقل كرتے ہيں كہ جب طلحہ و زبير و عائشه بصرہ ميں داخل ہوئے تو كعب بن سور نے جنگ اور فتنہ سے علحدگى اختيار كرنے كيلئے اپنے كو گھر كے اندر محصور كر ليا ، يہاں تك كہ كھانا پانى بھى روشندان سے پہونچايا جاتا تھا ، ا س طرح كعب بن سور نے عام لوگوں سے ملنا جلنا قطعى ختم كر ديا ، يہاں تك كہ لوگوں نے عائشه سے كہا كہ كعب بن سور كو حيرتناك معاشرتى اہميت حاصل ہے ،اگر وہ اپ كے ہم ركاب ہو كر جنگ ميں شركت كريں تو كئي ہزار افراد پر مشتمل قبيلہ ازد كى مدد بھى حاصل ہو جائے گى ، عائشه انكى حمايت حاصل كرنے كيلئے ان كے گھر گئيں تاكہ اس بارے ،ميں بات كريں ، ليكن كعب نے خاطر خواہ جواب نہيں ديا ، عائشه نے اصرار كيا اور حد سے زيادہ منت سماجت كى ، يہاں تك كہ كہہ ديا كہ ......... اے كعب كيا ميں تمھارى ماں نہيں ہوں ؟كيا تمھارى گردن پر ميرا حق مادرى نہيں ہے ؟الست امك ولى عليك حق ....... عائشه كى جھنجھوڑنے والى باتوں سے كعب بہت زيادہ متاثر ہوئے اور عائشه كى موافقت و حمايت پر امادہ ہو گئے_
ابن سعد نے اس شخص كا نام نہيں بتايا ہے جس نے عائشه كو كعب سے ملاقات پر ابھارا ، ليكن عظيم شيعہ عالم شيخ مفيد نے اس پيشكش كى نسبت طلحہ و زبير كى طرف دى ہے _
ان كا بيان ہے كہ: منجملہ ان قبائل كے جنھوںنے طلحہ وزبير كى بيعت نہيں كى ، ايك قبيلہ ازد بھى تھا ، كيونكہ كعب بن سور جو قاضى بصرہ اور قبيلہ ازد كا رئيس بھى تھا ، اس نے طلحہ و زبير كى بيعت نہيں كى قبيلہ ازد والوں نے كعب كى پيروى كرتے ہوئے انكى بيعت نہيں كى طلحہ و زبير نے كسى كو كعب كے پاس بھيجكر حمايت كرنے كى درخواست كى ليكن كعب نے انكار كرتے ہوئے كہا :
اج ہمارا برتائو يہ ہو گا كہ دونوں لشكر سے علحدہ رہونگا ، نہ تمھارى حمايت ميں اقدام كروں گا نہ مخالفت ميں اقدام كرونگا ، طلحہ و زبير نے كعب كى بات نہيں مانى _ انہوں نے باہم رائے قائم كى كہ ہميں كعب كو ............. كو غير جانبدار نہيں رہنے دينا چاہئے ، انھيں اپنى حمايت پر امادہ كرنا چاہئے ، تاكہ اسكى طاقت سے استفادہ كيا جاسكے ، اگر وہ علحدہ رہا تو قبيلہ از د كے تمام افراد علحدہ رہيں گے ، اسى وجہ سے طلحہ و زبير كعب كے گھر گئے اور ملاقات كى اجازت مانگى كعب نے انھيں اجازت نہيں دى ، طلحہ و زبير واپس ہو كر عائشه كے پاس گئے اور ان سے اس خطرناك مسئلے كے بارے ميں سمجھا كر رائے دى كہ خود وہى جاكر اسكى حمايت طلب كريں عائشه نے پہلے كعب كے يہاں جانا مناسب نہيں سمجھا اور ايك شخص كو بھيج كر ملاقات كے لئے بلايا ، كعب نے عائشه كى دعوت ٹھكرا دى اور ملاقات سے انكار كيا ، جب طلحہ و زبير نے يہ صورتحال ديكھى تو عائشه كو اس بات پر امادہ كيا كہ وہ خود ہى كعب كے گھر پر چليں _
انھوں نے كہا كہ: اے عائشه اگر كعب نے ہمارى حمايت نہيں كى تو يہ بات طئے ہے كہ بصرہ كا سب سے بڑا قبيلہ ازد ہمارى حمايت نہيں كر يگا ، اسكے سوا كوئي چارہ نہيں كہ اپ خود مركب پر سوار ہو كر ان كے گھر چليں ، شايد اپ كى حيثيت كے احترام سے متاثر ہو كر اپ كى پيشكش كو نہ ٹھكرائے _
طلحہ و زبير نے باتيں اتنى زيادہ كر ڈاليں اتنا اصرار كيا كہ عائشه مجبور ہو كر خچر پر سوار ہوئيں اور بہت سے معززين بصرہ گردا گرد كعب كے گھر كى طرف چليں ، عائشه نے وہاں پر كعب سے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ ا س طرح بات كى كہ گوشہ خانہ كا شخص ميدان جنگ ميں كھنچ كر اگيا ، بلكہ اپنے لشكركا پرچم بردار بنا ليا _
مبرد نے كامل ميں لكھا ہے كہ: جنگ جمل كے دن كعب نے قران گردن ميں حمائل كر كے اپنے تين يا چار
120
بھائيوں كے ساتھ لشكر عائشه ميں شموليت اختيار كى ، دل و جان سے جنگ كرتے كرتے قتل ہوئے انكى ماں لاش پر اكر يہ اشعار پڑھنے لگيں

يا عين جودى بدمع سرب
على فتية من خيار العرب

و مالھم غير حين النفو
س اى امير قريش غلب(9)

اے انكھ ، بہت زيادہ انسو ئوں كى بارش كر ان جوانوں پر جو عرب كے بہت اچھے شہسوار تھے
ايسے جوان جنھيں يہ تميز نہيں تھى كہ اس جنگ ميں قريش كے دواميروں ميں سے كو ن فتحياب ہو گا _
على كامياب ہوں گے ، يا طلحہ اور اسكے ساتھى ؟
ان جوانوں كى ماں نے اپنے اشعار ميں يہ سمجھا نا چاہا ہے كہ كعب اور اسكے بھائي دل سے تو غير جانبدارتھے ليكن عائشه كے اصرار نے انھيں ميدان جنگ ميں گھسيٹا اور موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا

اونٹ كى لجام قريش كے ہاتھ ميں
جب كعب بن سور قتل ہوئے تو سب سے پہلے قريش نے بڑھكر لجام تھامى اور وہ اونٹ كے لجام بردار بن گئے ، انھيں ميں ابو جھل كا (نواسہ )عبدالرحمن بن عتاب بھى تھا ، اس نے لجام تھام لى اور اونٹ كو كھينچتا پھر رہا تھا ، اور جنگ كرتے ہوئے يہ رجز پڑھ رہا تھا _
ميں ہوں عتاب كا فرزند ، ميرى تلوار كا نام ولول ہے _
اس اونٹ كى راہ ميں قتل ہونا ميرے لئے باعث فخر اور مائيہ شرافت ہے

انا بن عتاب و سيفى ولول
والموت عند الجمل المجلل

عائشه كے دوسرے لجام بردار عبد الرحمن نے اسطرح اپنے رجز سے لشكر والوں كو جانبازى پر ابھارا ، خود بھى شديد جنگ كى ، اس اونٹ اور اسكے سوار كى جان و دل سے مدافعت كى ، اسى درميان حضرت على (ع) كے لشكر نے اس پر حملہ كر كے ہاتھ بدن سے جدا كر ديا ، اور اس طرح وہ قتل ہو گيا _
عبد الرحمن كے بعد قريش كے ستّر ادميوں نے اونٹ كى لجام ہاتھ ميں تھامى اور سب نے جان دى ، جو بھى لجام تھامتا فوراًہى تير و تلوار سے موت كے گھاٹ اتر جاتا يا اسكے ہاتھ كٹ جاتے

اونٹ كى لجام بنى ناجيہ كے ہاتھ ميں
قريش كے بعد خاندان ناجيہ اگے بڑھا اور سبقت كر كے لجام تھام لى ، عائشه كا طريقہ يہ تھا كہ جو بھى لجام تھا متا اسے پہچاننے كے لئے سوالات كرتيں ، يہ كون ہے ؟كہاں كا رہنے والا ہے ، كس قبيلے سے ہے_
جب خاندان ناجيہ نے لجام تھامى تو عائشه نے پوچھا ، يہ كون لوگ ہيں كس قبيلے سے ہيں جنھوں نے لجام تھام لى ہے ،كہا گيا بنى ناجيہ ہيں عائشه نے انھيں تشويق دلاتے ہوئے كہا : صبر و استقامت دكھائو جم كر لڑو كيونكہ ميں تمہارے قبيلے ميں غيرت و شجاعت ديكھ رہى ہوں ،تم تو قريش سے ہو عائشه نے يہ جملہ اس حساس موقع پر اسلئے كہا كہ بنى ناجيہ كا قريش كے قبيلے سے ہونے كے بارے ميں اختلاف ہے ، بعض ماہرين انساب انھيں قبيلہ ء قريش سے نہيں مانتے(10) دوسرے يہ كہ بنى ناجيہ كى قبيلہ قريش سے بيگانگى اس قبيلے كے لئے باعث ننگ تھى جس كى وجہ سے معاشرے ميں وہ بد نام تھے ، يہى وجہ تھى كہ
موقع شناس عائشه نے اس حساس موقع پر انھيں قبيلہ قريش سے ہونے كا اقرار كر كے تشويق دلائي ، اور جانبدارى و فدا كارى كيلئے ابھارا ، اس قبيلے كے معززين نے لجام تھام كر اپنى جان دى _

لجام قبيلہ ازد كے ہاتھوں
خاندان ضبہ كے افرادنے ايك ايك كر كے لجام تھا مى اور قتل ہو تے گئے ان كے بعد قبيلہ ازد والے اگے بڑھے اور لجام شتر ہاتھ ميں لى ، عائشه نے معمول كے مطابق پوچھا ، تم لوگ كس قبيلے سے ہو ، انھوں نے كہا ہم ازد سے ہيں ، عائشه نے كہا :
عائشه نے کہان : _ ہاں ازدى ازاد مرد ہيںجو شدائد ميں صبر كرتے ہيں ، اس جملے كا بھى اضافہ كيا كہ جب تك بنى ضبہ تھے ميں اپنے لشكر ميں فتحمندى كے اثار محسوس كر رہى تھى ليكن اب ان كے بعد ميں فتح سے نا اميد ہو چكى ہو ں _
عائشه نے ان جملوں سے قبيلہ ازد كو بھڑكا يا تاكہ وہ دل و جان سے جنگ كريں _
قبيلہ ازد ميں سب سے پہلے لجام عمر و بن اشرف ازدى نے تھامى ، وہ ايسا بہادر تھا كہ جو بھى اسكے قريب اتا ايك ہى ضرب ميں قتل ہو جاتا ، وہ لوگوں كو ہيجان ميں لانے كيلئے رجز پڑھ رہا تھا _
اے اماں جان ، اے بہترين مادر كيا اپ نہيں ديكھ رہى ہيں كہ اپ كے سامنے كيسے كيسے بہادر اپنى شجاعت كا مظاہرہ كر رہے ہيں كيسے كيسے مردان عظيم اپ كے احترام ميں نيزہ و تلوار چلا رہے ہيں ، اپ كى راہ جسموں كى تلاش ہو رہى ہے ، ہاتھ جدا ہو رہے ہيں ، مغز اور كھوپڑياں اڑرہى ہيں
(يا امنا يا خير ام نعلم ...... اما ترين كم شجاعاً يكلم ......... و تختلى ھا متہ و المعصم)
اتفاقاً اسى درميان جبكہ ابن اشرف رجز خوانى ميں مصروف تھا اسكے چچيرے بھائي حارث بن زھرہ ازدى نے حضرت على (ع) كے لشكر سے نكل كر اس پر حملہ كيا ، يہ دونوں بھائي اپس ميں گتھ گئے دونوں ميں اتنى تلواريں چليں كہ زمين پر گر گئے ، ان دونوں كى طاقت ازمائي كى اتنى گرد اڑى كہ مطلع غبار الودہ ہو گيا ، يہاں تك كہ دونوں ہى مر گئے ،
اسطرح عائشه كى لجام پكڑے ہوئے_ عمرو بن اشرف كے ساتھ قبيلہ ازد كے تيرہ افراد نے ايك كے بعد ايك اپنى جان ديدى (11)

ايك عجيب داستان
مشہور مورخ مدائنى ا س طرح لكھتا ہے :
راوى كا بيان ہے كہ: ميں نے بصرہ ميں ايسے شخص كو ديكھا جس كے كان كٹے ہو ئے تھے ، ميں نے اس سے كان ضائع ہو نے كى وجہ پوچھى ، اس نے جواب ميں كہا كہ ميں جنگ جمل ختم ہونے كے بعد مقتولوں كے درميان قريب سے تماشہ ديكھ رہا تھا _
اس ہنگام ميرى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى جسكى سانس چل رہى تھى ، وہ اپنے بدن كو حركت ديتے ہوئے يہ اشعار پڑھ رہا تھا _
ہمارى ماں عائشه نے ہميں موت كے منھ ميں ڈھكيل ديا ،جبكہ ہم انكے فرمان سے منھ نہيں پھرا رہے تھے ، اور جاں بازى كے ساتھ ان كے سامنے بڑھ بڑھ كے جنگ كر رہے تھے يہاں تك كہ ہم موت سے سيراب ہوئے _
ہم قبيلہ ضبہ والوں نے اپنى ماں كے سامنے ا س طرح رزم ارائي كى كہ ان كے ساتھيوں كو اور ان كو دوسروں كے حمايت كى ضرورت نہيں رہى _
ہم پر افسوس ہے كہ بنى تيم كے مٹھى بھر افراد جو غلاموں اور كنيزوں كى طرح تھے ہم نے ايسے ذليلوں كى اطاعت كى _

لقد ر او دتنا حومة الموت امنا
فلم ننصرف الاونحن رواء

لقد كان عن نصر ابن ضبة امہ
و شيعتھا مندوحة و غناء

اطعنا بنى تيم ابن مرة شقو _ة
و ھل تيم الا اعبد و اماء

وہ شخص نزع كے عالم ميں اسى طرح اشعار پڑھتا رہا ، ميں نے حيرت سے پوچھا، اے شخص كيا يہ وقت شعر گنگنانے كا ہے ؟زبان پر كلمہ توحيد اور شھادتين جارى كرو لاالہ الااللہ كہو _
124
اس نے مجھے جواب ديا ، اے فاحشہ كے جنے تو كيا بك رہا ہے ، تو چاہتا ہے كہ موت كے وقت ميں اظہار بيچارگى كروں ؟
ميں اس سے علحدہ ہونا چاہتا تھا كہ اس نے كہا :
مجھے كلمہ شھادتين پڑھائو ، ميں اسے شھادتين پڑھانے كيلئے قريب ہوا تو جھپٹ كر اس نے ميرا كان دانتوں سے دبا ليا ، اور جڑ سے اكھاڑ ڈالا _
ميں درد سے چلانے لگا ، برا بھلا كہنے لگا لعن طعن كرنے لگا تو بولا ، اس لعن طعن سے فائدہ كيا ہے ؟
اگر تم اپنى ماں كے پاس جانا اور وہ پوچھے كہ كس نے تمھارى يہ گت بنائي ہے تو جواب دينا كہ عمير بن اہلب ضبى نے ، اسى عمير نے جو عائشه جيسى عورت كے فريب كا شكار ہوا جو حكومت پر قبضہ كر كے امير المومنين بننا چاہتى تھى (12)
طبرى نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ: ايك دوستدار على كا بيان ہے كہ ميں نے ميدان جنگ ميں ايك زخمى شخص كو ديكھا جو اپنے خون ميںنہايا ہوا تڑپ رہا تھا ،وہ اپنى اخرى سانسيں گن رہا تھا ليكن اسى حال ميں اشعار بھى گنگنا رہا تھا ، ميرے اوپر اسكى نظر پڑى تو بولا ، ائو ذرا مجھے كلمہ شھادتين پڑھا دو ميں اسكے پاس پہونچا ، پوچھا كس شھر اور قوم سے تمھارا تعلق ہے ؟ميں نے كہا ، كوفے كا باشندہ ہوں _
بولا ذرا اپنا سر ميرے قريب لائو تاكہ تمھارى بات اچھى طرح سنوں ، ميں نے قريب كيا تو جھپٹ كر دانت سے ميرے كان پكڑ لئے اور اسے جڑ سے اكھاڑ ڈالا (13)

رجز خوانياں
ابن ابى الحديد معتزلى نے مدائنى اور واقدى كے حوالے سے لكھا ہے كہ: معركہ ارائيوں كى تاريخ ميں جنگ جمل سے زيادہ كوئي ايسى جنگ نہيں ہے جسميں اس سے زيادہ رجز خوانياں ہوئي ہوں ، زيادہ تر رجز بنى ضبہ اور بنى ازد نے پڑھے ، يہ دونوں قبيلے مہار شتر تھامے ہوئے حمايت ميں رجز پڑ ھكر دوسروں كو جنگ پر ابھاررہے تھے ،ا س كے چند
نمونے ملاحظہ ہوں _ ابن ابى الحديد بحوالہ واقدى و مدائنى نقل كرتا ہے كہ لشكر بصرہ عائشه كے اونٹ كے گرد حلقہ كئے ہوا تھا سبھى باہم ايك اواز اور ايك اھنگ كے ساتھ نعرے لگا رہے تھے _
اے عائشه اے مادر مہربان اپنے دل ميں ذرا بھى خوف و ہراس پيدا نہ كيجئے ، كيونكہ ہم اپنى تمام توانائيوں اور فدا كاريوں كے ساتھ اپ كے اونٹ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں ، ہم اسے ہر قسم كے خطرے سے بچائيں گے _
اماں جان جب تك دنيا قائم ہے كوئي بھى ہميں اس اونٹ كے اطراف سے نہيں ہٹا سكتا ، نہ ہميں منتشر كر كے اپ كو اكيلا كر سكتا ہے _
اماں جان كون سى طاقت تمہيں نقصان پہونچا سكتى ہے حالانكہ جنگجو اور بہادر اپ كا حلقہ كئے ہوئے ہيں_
قبيلہ ہمدان كے شجاع مردبہترين تلوار چلانے والے اپ كى حمايت كر رہے ہيں اورقبيلہ ازد كے بہترين تلوار چلانے والے اپ كى حمايت كر رہے ہيں ، جنھيں زمانے كى سختيوں اورمصائب نے كبھى ہراساں نہيں كيا ابن ابى الحديد نے اس رجز كو نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ لشكر بصرہ سے ايك بوڑھا ، خوش وضع اور خوبصورت نكلا جسكے بدن پر جبہ بھى تھا اس نے بڑے جو شيلے انداز ميں قبيلہ ازد سے خطاب كيا _
اے قبيلہ ازد كے لوگواپنى مادر مہربان عائشه كى مدد كرو كيونكہ يہى حمايت تمھارى نماز روزہ ہے ، ان كى تمام حيثيت كا احترام تمھارے اوپر واجب ہے ، ان كے حريم كا دفاع كرنے ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر دينا چاہئے ايسا نہ ہو كہ دشمنوں كى ٹولى تمھارے اوپر فتح پاليں كيونكہ اگر دشمن نے تم پر فتح پا لى تو تمھيں قيدى بنا لے گا اور تمھارے اوپر ہر طرح كا ظلم و ستم ڈھائے گا ، اسوقت تمھارے بوڑھے مرد و عورت پر بھى رحم نہ كرے گا ،اے جواں مردو اے شہ سوارو ، اے قبيلہ ازد والو ، چوكنّا رہو كہيں اس جنگ ميں تم لوگوں كو شكست و
ہزيمت كا منھ نہ ديكھنا پڑے (14)

يا امنا يكفيك منا دنوہ
لن يوخذ الدھر الخطام عنوہ

و حولك اليوم رجال شنوہ
وحى ھمدان رجال الھبوہ

والما لكيون القليلوا الكبوة
والازد حى ليس فيھم نبوہ

يا معشر الازد عليكم امكم
فانھا صلاتكم و صومكم

والحرمة العظمى التى تعمكم
فاحضروھا جدكم و حزمكم

لا يغلبن سم العدو سمكم
ان العدو ان علا كم زمكم(14)

مدائنى اور واقدى نے اس رجز كے ذيل ميں اس نكتے كى بھى نشاندہى كى ہے كہ اس رجز كا مضمون طلحہ و زبير كے اس تاريخى تقرير كى تائيد كرتا ہے جسميں انھوں نے كہا تھا _
اے بصرہ والو _ چوكنا رہو كہ اگر على (ع) تمھارے اوپر فتحمند ہوئے تو تمہيں مليا ميٹ اور پامال كر ڈاليں گے ، تم ميں سے كسى كو بھى زندہ نہيں چھوڑيں گے ، اپنا تحفظ كرو ، اگر على (ع) تم پر كامياب ہو گئے تو تمہارے مردوں كا احترام ختم كر ديں گے اور تمہارى عورتوں كو اسير كر ليں گے ، تمھارے بچوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، تم پر لازم ہے كہ مردانہ وار قيام كرو ، تاكہ اپنے ناموس كا تحفظ كر سكو ، موت كو رسوائي پر ترجيح دو اور على (ع) سے اسطرح جنگ كرو كہ انھيں اپنے وطن سے نكال باہر كر سكو ، ابو مخنف كا بيان ہے كہ جتنے بھى رجز خوان يا شاعر اس بارے ميں نغمہ سرا ہوئے ہيں ، ان ميں كوئي بھى اس بوڑھے سے بازى نہيں لے جا سكا ، جس كى بہترين شاعرى نے لوگوں كو جھنجوڑ كر ركھ ديا ، جس وقت بصرہ والوں نے اسكا رجز سنا تو تڑپ كر اپنى صفوں سے شديد تر حملہ كيا اور دوسروں سے زيادہ عائشه كے اونٹ كے گرد اكر صبر و استقامت دكھايا _
طبرى كا بيان:
جنگ جمل ميں عمر و بن يثربى نے اپنے قبيلہ ازد والوں كو اسطرح ابھاراو كہ ان ميں سے ايك كے بعد ايك لجام شتر تھامتے اور شديد تر جنگ كر كے اپنى مادر گرامى عائشه كا جان و دل سے دفاع كرتے رہے ، وہ اس
اس وقت يہ اشعار پڑھ رہے تھے _
ہم قبيلہ ضبہ والے ہيں ، تلوار اور موت سے نہيں ڈرتے _
دشمنوں كے سروں كو درخت كى طرح كاٹ ڈاليں گے ان كا خون سيلاب كى طرح بہا ديں گے ، اے مادر گرامى عائشه اپ ذرا بھى خوف نہ كيجئے كيونكہ اپ كے توانا اور شجاع بيٹے اپ كے گرد تلوار لئے كھڑے ہيں ، اے ہمارى ماں _ اے زوجہ رسول اپ ہى سر چشمہ رحمت و بركت ہيں ، اپ ہى عالمين كے پاك رہبر كى زوجہ ہيں (15)
4_ بنى ضبہ كا ايك جيالا عوف بن قطن لشكر عائشه سے نكلا اور چلانے لگا _
اے لوگو عثمان كا خون على اور ان كے فرزندوں كى گردن پر ہے _
يہ كہہ كر اس نے اونٹ كى لجام تھام لى اور جنگ كرنے لگا جنگ كرتے ہوئے وہ يہ رجز پڑھ رہا تھا اے ماں َ اے ہمارى ماں _ ميں وطن سے دور ہوں نہ تو قبر كا طلبگار ہوں نہ كفن كا يہيں سے عوف بن قطن حشر كے ميدان ميں اٹھے گا ہمارى زندگى يہيں ختم ہونا چاہيئے اور اسى بيابان سے صحرائے محشر ميں اٹھوں گا _
اگر اج على (ع) ہمارے خونين پنجے سے چھٹكارا پا جائيں تو ہم بڑے ہى گھاٹے ميں رہيں گے اور اگر ان كے جگر گوشوںحسن و حسين كو زندگى كا خاتمہ نہ كر سكيں تو ہمارے لئے مناسب ہے كہ ہم مارے غم و اندوہ كے جان ديديں (2) عوف بن قطن نے يہ رجز پڑھتے ہوئے حضرت على (ع) كے لشكر پر حملہ كيا ، سخت جنگ كرتے ہوئے قتل ہو گيا _
1_

نحن بنو ضنبة لا نفر
حتى نرى جما جما تخر

يخرمنا العلق المحمر
كل بنيك بطل شجاع

يا امنا يا عيش لن تراعى
يا امنا يا زوجة النبى

يا زوجة المبارك المهدى
2_
يا ام يا ام خلاعنى الوطن

لاابتغى القبرولا ابغى الكفن
من ها هنا محشر عوف ابن قطن

ان فاتنا اليوم على فالغبن
او فاتنا ابناه حسين و حسن

اذا ام بطول هم و حزن
128
5_ ابو مخنف كا بيان ہے : بصرہ كا مشہور و رئيس اور دولتمند شخص عبد اللہ بن خلف خزاعى حكومت عمر و عثمان كے ايام ميں بيت المال كا محاسب تھا ، جنگ جمل كے موقع پر عائشه كے لشكر والوں كا ميز بان تھا وہ صف سے نكلا اور حضرت على (ع) كے سپاہيوں كے سامنے اكر رسم كے مطابق اپنا مبارز طلب كيا ، اس نے ہانك لگائي كہ سوائے على كے كوئي دوسرا ميرے مقابلے ميں نہ ائے ، ہاں ، على ہى مجھ سے جنگ كيلئے ائيں تاكہ جنگ تمام كى جائے اور خونريزى ختم ہو پھر وہ حضرت على (ع) كو للكارتے ہوئے بولا _
اے ابو تراب ميں ايك بالشت بڑھكرتمہارے سامنے ايا ہوں تم بھى جرائت پيدا كرو اور ميرا مقابلہ كرنے كيلئے ايك انگل اگے بڑھو ، اے على ، تمہارى عداوت ميرے سينے ميں بوجھ بنى ہوئي ہے ، تمھارى دشمنى سے ميرا سينہ دہك رہا ہے ، قدم اگے بڑھائو ، ذرا سامنے ائو كہ تمھارا خون بہا كر اپنے دل كى اگ ٹھنڈى كروں (1) عبد اللہ يہ رجز پڑھ كر حضرت على (ع) كو مقابلے كيلئے پكارنے لگا امير المومنين حضرت علي(ع) نے لشكر سے نكل كر ميدان ميں قدم ركھا اور ايك ہى تلوار كى ضرب سے اسكا بھيجہ نكال كر زمين پر بہا ديا اور قتل كر ڈالا (16)

عبداللہ اور مالك اشتر كى جنگ
طبرى نے خود عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ:
جنگ جمل ميں مجھے تلوار اور نيزے كے سيتنيس زخم لگے تھے _ اگر چہ اس دن ميرے لشكر كى كثرت تعداد كے اعتبار سے يہ حالت تھى سياہ پہاڑ نظر اتاتھا جو كسى بھى طاقت سے شكست كھانے والانہيںتھا اس حالت ميں ہميں ايسى شكست ہوئي جسكى مثال نظر نہيں اتى ابن زبير مزيدكہتے ہيں كہ اس جنگ ميںجو بھى اونٹ كى لجا م ہاتھ ميں ليتا تھاوہيں ڈھير ہو جاتا تھا _حالانكہ سينتيس زخم مير ے بدن پر تھے ميںنے اسى حالت ميں اونٹ كى مہار تھام لى _ عائشه نے پوچھا اونٹ كى مہار كس نے تھام لى ہے؟
1_

ابا تراب ادن منى فترا
و ان صدرى عليك غمرا

فاننى اليك شبرا
ميں نے كہا _ميں عبداللہ بن زبير ہوں _
چونكہ عائشه ديكھ رہى تھيں كہ جس نے بھى مہار شتر ہاتھ ميں لى جان سے ہاتھ دھويا _بے اختيار صدائے فرياد بلند كى _ واثكل اسماء .......... ہائے ميرى بہن اسماء اپنے فرزند كے سوگ ميں بيٹھ گئي_
عبداللہ كہتے ہيںكہ اسى درميان ميرى نظر مالك اشتر پر پڑى ميں اسے پہچان كر اس سے گتھ گيا_ يہاں تك كہ دو نوں ہى زمين پر گر گئے_ميں چلّانے لگا _ لوگو _مالك كو قتل كردواسے قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے دونوں طرف كے لشكرسے ڈھير سارے افرادجمع ہو گئے_ہر ايك اپنے اپنے سپاہى كى دفاع ميںكوشش كر رہا تھا_ہم دو نوں ايك دوسرے كى دھينگا مشتى ميں ا س قدر تھك گئے تھے كہ ايك دوسرے سے علحدہ ہونے كے بعدميرى اتنى طاقت نہيںرہ گئي كہ اونٹ كى مہار تھام سكوںواقدى نے بھى مالك اشتر اورابن زبير كى جنگ كاحال يوں نقل كيا ہے عبداللہ جنگ كى غرض سے ميدان ميں ئے _حضرت علي(ع) كے لشكر كے مقابل كھڑے ہو كر اپنا مقابل طلب كيا_ان سے مقابلہ كے ليے مالك اشتر كھڑے ہوے_جب يہ دونوں جيالے ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے تو عائشه نے پوچھا_ عبداللہ سے مقابلہ كے لئے كون اياہے ؟ لوگوں نے كہا _ اشتر
عائشه نے اشتركانام سنكر بے اختيار نعرہ لگاياواثكل اسماء ........... بالاخردونوں بہادروں ميں جنگ ہونے لگي_تلواريں ايك دوسرے سے ٹكرانے لگي_ايك دوسرے كے بدن زخموںسے چور ہونے لگے يہاں تك كہ تلواريں بيكار ہو گئيں_ مالك اشتر بوڑھے تھے اسى كے ساتھ بھوكے بھى تھے _ كيو نكہ وہ جنگ كے موقع پر تين دن برابر كھانا نہيں كھائے تھے _ اس حالت ميں بھى عبداللہ كو زمين پر گرا ديا_اور اس كے سينہ پر چڑھ بيٹھےاسى ھنگام دونوں طرف كے لشكرسے لوگ وہاں جمع ہو گئے _ عبداللہ كے ساتھى اسكى نجات كے لئے كوشاں تھے_
مالك اشتر كے ساتھى بھى انكے چھٹكارے كى كوشش كر رہے تھے_
داللہ بن زبير زور سے چلاّئے _ لوگوں _مالك اشتر كو قتل كر دوچاہے اسميںمجھے بھى قتل ہونا پڑے _
ليكن اس وقت دونوںطرف كے لشكر سے اتنے لوگ جمع ہو گئے تھے كہ ميدان كى حالت اشفتہ تھي_لوگ ان دونوں كى تشخيص كرنے سے قاصر تھے_اس وجہ سے ان دونوں كى جنگ طول پكڑتى گئي_
اخر كسى نہ كسى طرح عبداللہ بن زبيرنے اپنے كو مالك اشتر كے چنگل سے نكالا اور ميدان سے فرار كر گئے _
صاحب عقد الفريدنے اس واقعہ كے بعد عبداللہ بن زبير كا بيان نقل كيا ہے كہ مالك اشتر نے مجھے دبوچكرگڑھے ميں ڈال ديااور كہا اے عبداللہ اگر تيرى رشتہ دارى رسول خدا(ص) سے نہ ہوتى تو تيرے بدن كے جوڑ جوڑ علحدہ كرديتا (17)
طبرى نے علقمہ كا بيان نقل كيا ہے كہ ميں نے ايك دن مالك اشتر سے پوچھا_تم قتل عثمان كے مخالف تھے تم نے كيسے جنگ جمل ميں شركت كى جس مين ہزاروں افراد قتل كيے گئے مالك نے ميرا جواب ديا _ جب لشكرعائشه نے على كى بيعت كى اور پھر اپنى ہى بيعت توڑ دى تو ايسى بيعت شكنى اور على كى مخالفت نے مجھے اس جنگ ميں شريك ہونے پر امادہ كيا _ليكن ان ميں سب سے زيادہ گنہگار اور خطا كار عبداللہ بن زبير تھا _كيونكہ اسنے عائشه كو على سے جنگ پر ابھارا وہى تھا جس نے اپنے باپ كو على سے جنگ كرنے كيلئے بھڑكايا عائشه اور زبير دونوں ہى جنگ سے دست بر دار ہو گئے تھے ان دونوں كو اسى ابن زبير نے دو بارہ ميدان جنگ ميں گھسيٹا _ ميں خدا سے دعا كر تا تھا كہ اسے قيدى بنالوںاور اسكے كرتوتوں كى سزا د وں_ خدا نے بھى ميرى دعا سن لى اور مو قع غنيمت ديكھ كر گھوڑے پر سوار ہوا_اور بھر پور قوّت كے ساتھ اس پر تلوار كى ضرب لگا كراسے گرا ديا اور ذلّت كى خا ك چٹائي_
ايك دن علقمہ نے مالك سے پوچھا_ كيا عبداللہ بن زبير نے كہا تھا كہ اقتلونى و مالكا_ ما لك كو قتل كر دو چاہے مجھے بھى قتل ہونا پڑے_ مالك نے جواب ديا _ نہيں _ يہ جملہ اسنے نہيںكہا تھا _كيونكہ ميں عبداللہ كو قتل نہ كرتا _ صرف ايك تلوار چلا كے ہاتھ روك ليا تھا _ ميرے دل ميں خيال ايااور ميرے جذبات ا س كے بارے ميں بھڑك اٹھے _ ا س كے بعد ميں نے ا س كے قتل كاارادہ بدل ديا _
ا س كے بعد مالك نے كہا:اصل ميںيہ جملہ مذكورہ عبدالرّحمان بن عتاب نے كہاتھا _اس دن وہ چلاّكر بولا _مجھے اور مالك دونوں كو قتل كر دوا س كا مقصد يہ تھا كہ مالك كو قتل كر دوچاہے ا س كے ساتھ مجھے بھى قتل ہوناپڑے _ليكن ميدان جنگ كى حالت ا س قدر درہم برہم تھى كہ عبداللہ كے ساتھيوں كو ميرى پہچان نہ ہوسكى _ورنہ مجھے تو قتل ہى كر ديتے _
131
طبرى كا بيان ہے كہ: جنگ جمل ميں عبداللہ بن زبير كوبہت زيادہ زخم لگے تھے _اسنے اپنے كو مقتولوں كے درميان ڈا ل ديا تھا جنگ ختم ہونے كے بعد اسكا علاج معالجہ كيا گيا اور زخم ٹھيك ہو گئے _
جنگ جمل ميں عبداللہ اگر چہ قتل تو نہيں ہواليكن بے شمار زخموں كى وجہ سے دشمن سے مقابلہ اورجنگى طاقت ختم ہوگئي تھى اسطرح طلحہ وزبيركے بعد لشكر عائشه كاتيسرا سپہ سالار بھى بيكار ہو گيا _
ليكن كسى كے بھى بيكار ہو جانے سے لشكرعائشه ميںكسى قسم كى افرا تفرى نہيںپھيلى اور جنگ ختم نہيں ہوئي _كيونكہ اس جنگ ميں تمام لوگوں كى نظريں عائشه كے اونٹ پر تھيں _اسكے ارد گرد خون بہتے رہے_ اسكے قريب شہ سواروں كے سر گرتے رہے_اسى اونٹ كے اگے اگے بصرہ كے جيالے اور سر فروش خزاں رسيدہ پتّوں كى طرح گرتے رہے جب تك اونٹ كھڑا تھا _ چل پھر رہاتھا_جنگ و خونريزى جارى تھى ليكن اكيلے اونٹ كے گرتے ہى ' جى ہاں صرف اسى كے گرنے سے جنگ و خونريزى ختم ہو گئي _ (18)

جنگ اپنے شباب پر پہنچ گئي
طبرى كا بيان ہے : حضرت على (ع) كے ميمنہ لشكر نے عائشه كے ميسرئہ لشكر پر حملہ كيااور گھمسان كى جنگ ہو نے لگى عائشه كى فوج كے زيادہ قبيلہ ازد اور ضبّہ كے افراد تھے وہ پيچھے ہٹكر عائشه كى پناہ پكڑنے لگے ا س طرح وہ ہودج كے ارد گرد جمع ہو گئے (19)
ابو مخنف كابيان ہے :
حضرت على نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ فوج دشمن كے ميسرئہ پر حملہ كريں _مالك نے ميسرئہ پر حملہ كيا توصفيں درہم برہم ہو گئيں اور فوجوں نے بھاگ كر عائشه كے پاس دم ليا ميسرئہ كى شكست سے قبيلہ ضبّہ، ازد ، عدى ، ناجيہ ، باہلہ وغيرہ كے تمام افرادنے ايك بار اونٹ كى طرف اپنى توجہ مبذول كى اب وہ اونٹ كى حفاظت كى طرف اپنى
سارى توجّہ مركوز كرنے لگے فطرى طور سے لشكر على كے حملہ بھى اسى طرف مر كوز ہو گئے _ اور يہاں جنگ كا دائرہ تنگ ہو گيااور گھمسان كى جنگ اور خونريزى ہونے لگى _ ا س كا نتيجہ اخر يہ ہوا كہ عائشه كے لشكر كو شكست ہو گئي (20)
مدائنى اور واقدى جيسے مشہور مورخوںنے بتاياہے كہ
لشكر عائشه كى صفيں لشكر على كے پے در پے حملوںسے درہم برہم ہو گئيں بہادروں نے ہر طرف سے لشكر عائشه كى طرف اپنى توجہ مركوز كى اونٹ اور ہو دج كو اپنے گھيرے ميں لے ليا_ اونٹ كے گرد زيادہ تربنى ضبّہ اور بنى ازدكے لوگ تھے _وہى سب سے زيادہ جانفشانى كر رہے تھے حضرت على (ع) كے سپاہيوںنے بھى اپنے حملہ اسى طرف موڑ دئے_
ايك چھوٹے سے دائرہ ميں جس كا محور عائشه كا اونٹ تھا اسى كا محاصرہ كر لياگيا _ حضرت على (ع) كے سپاہيوں نے اپنے حملوں كا نشانہ عائشه ہى كے اونٹ كو بنا ليا _ عائشه كے ساتھى بھى شدّ ت كے ساتھ ا س كا دفاع كرنے لگے حضرت على (ع) كے لشكر كے حملے اور لشكر عائشه كے دفاع كى وجہ سے اگ اور خون سے بھر پور جنگ شروع ہو گئي _سر گرنے لگے _بدن سروں سے جدا ہونے لگے ہاتھ كٹ كٹ كرہوا ميں لہرانے لگے _پيٹ پھٹنے لگے _ ليكن اس بھيانك صورتحال كے باوجوديہ دونوں قبيلہ چونٹيوں كى طرح اونٹ كے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے _ ا س قدر استقامت كا مظاہرہ كر رہے تھے كہ گھمسان كى جنگ ان ميںذرا بھى خوف وہراس پيدا نہيںكر سكى _ استقامت ميں ذرہ برابر بھى تزلزل پيدا نہ كر سكى _وہ ا ہنى ديوار كى طرح اپنى تمام قوتوں اور توانائيون كے ساتھ اونٹ كا دفاع كر رہے تھے كہ اچانك حضرت على (ع) كى اواز بلند ہوئي _ اپ نے اپنے لشكر سے خطاب فرمايا ويلكم اعقرواالجمل فانہ شيطان_
تم پر افسوس ہے_ اونٹ كو پئے كردو كيو نكہ يہ شيطان ہے _
تم پر افسوس ہے _ ان كاپر چم گرا دو اونٹ كو پئے كر دو كيونكہ يہ شيطان كى طرح بدبخت لوگوں كو اپنے گرد جمع كئے ہوا ہے _جب تك يہ كھڑا ہوا ہے فتنہ وخونريزى جارى رہے گى _ ان ميں كا ايك بھى شخص زندہ نہيں رہے گا_ اے لوگو اونٹ كو پئے كر دو اور اس تمام خونريزى كا خاتمہ كردو _
حضرت على (ع) كے اس فرمان كے ساتھ ہى تلواريں بلند ہوئي اور مركزى نقطہ پرشديد حملے شروع ہوگئے _ يہاںتك كہ وہ
منحوس اونٹ ڈھير ہو گيا _
تاريخ نگاروں كابيان ہے كہ :جنگ كا دائرہ تنگ تر ہو گيا تھا _جنگ اكيلے شتر عايشہ كے اطراف ميں سمٹ كر رہ گئي تھى _لوگ ا س طرح اسكے گرد پروانہ وار پھر رہے تھے جيسے چكى كہ پائے گھومتے ہيںاونٹ كے اطراف عجيب ادھام كامنظر تھا _ جنگ پورے شباب پر ہونے لگى تھى لوگوں كا شور غوغا اور چيخ پكاراسكے ساتھ اونٹ كى بلبلاہٹ زيادہ ھنگامہ پيدا كر رہى تھى اسى ميںحتات مجاشعى نعرہ لگا رہا تھا _ اے لوگو اپنى ماں كى حمايت كرو _ اے لوگوعائشه كادفاع كرو اپنى مادر كى نگہبانى كر تے رہو _ يہ ديكھو تمہارى ماں اب ہودج سے گرنے ہى والى ہيں _
اونٹ كے گرد ا س قدر وحشت برس رہى تھى كہ لوگ اپس ميںگتھ گئے تھے _ ايك دوسرے كو بغير پہچانے قتل كر رہے تھے حضرت على (ع) كے ساتھى دشمن كے لشكر پر حملہ كر رہے تھے جدھر حملہ كرتے دشمن كو پراكندہ كر ديتے ليكن پھر بھاگنے والے اونٹ كے گردجمع ہوجاتے يہاں تك كہ حضرت على نے نعرہ لگايا _
اے لوگو اونٹ پر تير برسائو _ اس ملعون اونٹ كومار كر گرا دو _حكم ملتے ہى تير اندازوں نے اونٹ پر تير بارانى شروع كر دى ليكن اونٹ كو ا س قدر ا ہنى ز رہوںاور مضبوط تختوں سے چھپايا گيا تھاكہ تيراونٹ كے بدن تك نہيں پہنچ رہا تھا اسكى سجاوٹ جيسے محكم قلعہ كى طرح تھى ذرہ برابر بھى اسے گزند نہيں پہنچ رہى تھى _ تيروں كى بارش تختوں پر جاكرجم جاتى تھى _ اونٹ پر اتنے تير لگے تھے كہ ساہى كى طرح نظر ارہا تھا _

دو لشكر كا شعار
جب عائشه كے ساتھيوں نے خطرہ كا احساس كيااور شكست نظر انے لگى اور لشكر على كى فتح حتمى طريقہ سے نظر انے لگى تو شعر اور رجزكے بجائے شعار لشكر كانعرہ لگانے لگے يالثارات عثمان (خون عثمان كا انتقام لينے والواٹھ كھڑے ہو ) سارے لشكر عائشه كا علامتى نعر ہ يہى تھا _ ان كے حلق سے يہى اوازنكل رہى تھى _ سبھى مل كر چلاّ رہے تھے _ يا لثا رات عثمان _ ان لوگوںكے مقابلہ ميں حضرت على (ع) كے ساتھيوںنے بھى يامحمد (ص) كانعرہ لگانا شروع كيا _ ان كا شعار يہى تھا _
ليكن حضرت على (ع) نے حكم دياكہ تم لوگ حضرت رسول خدا(ص) كے شعارسے استفادہ كرنے كے بجائے يامنصور امت (21) كو اپنا جنگى نعرہ قراردو (22)

جنگ كا خاتمہ
لشكر عائشه كے ايك سپاہى كا بيان ہے :
جنگ جمل ميں ہمارى پارٹى كو ايسى سخت شكست كا منھ ديكھناپڑا جو اس سے پہلے ديكھى نہ گئي ،اس موقع پر عائشه ہود ج ميں سوار تھيں اور ا ن كا اونٹ متواترتيروں كى بارش سے خار پشت (ساہي) كى طرح ہو گيا تھا (23)
اس بارے ميں ابو مخنف كا بيان ہے :
صرف اونٹ پر ہى تيروں كى بارش نہيں كى گئي _ بلكہ عائشه كا ہودج بھى تيروں كا نشانہ بنايا گيا _ تيروں كى بارش سے كجاوہ بھى كسى خارپشت(ساہي)كى طرح نظر ا رہا تھا _
ابو مخنف كہتا ہے :
جب حضرت على (ع) نے ديكھاكى عائشه كا اونٹ ہى جنگ كا محور بناہوا ہے اور اسى كے ارد گردخون اچھل رہے ہيںاور ہاتھ كٹ رہے ہيںتو اپ نے عمّا ر ياسر اور مالك اشر كو حكم ديا كہ جاكر اس منحوس اونٹ كوپئے كردو كيونكہ ان لوگوں نے اسى كواپنے لئے قبلہ قرار دے لياہے _اور خانہ كعبہ كى طرح اسكا طواف كر رہے ہيں _ جب تك يہ اونٹ كھڑا ہے جنگ ختم نہيں ہوگى _ جب تك يہ اونٹ زندہ ہے لوگ ا س پروارى فدا ہوكر اپنا خون نثار كرتے رہيں گے (24)
طبرى كا بيان ہے : حضرت على (ع) نے درميان لشكر بلند اواز سے فرمايا:
ا ے لوگو اپنا حملہ اونٹ پر مركوز كردواسے پئے كر دو حضرت كے فرمان كے مطابق اپ كے ايك جرى سپاہى نے
صفوں كو توڑ كر اپنے كو عائشه كے اونٹ كے پاس پہنچا ديا _ اور اس پر تابڑ توڑ تلواريں مارنے لگا_ اونٹ نے ا س طرح سے نعرہ لگايا كہ ايسى چيخ كبھى نہ سنى گئي تھى _
اس موقع كو ابو مخنف نے بھى بيان كياہے كہ: جب حضرت على (ع) نے ديكھاكہ تمام قتل اور خونريزى اونٹ كے ہى ارد گردہو رہى ہے _ اور جب تك اونٹ زندہ ہے جنگ جارى رہے گى _ تو اپ نے اپنى فوج كوحكم ديا كہ اونٹ پر حملہ كردو _ خود اپ نے بھى تلوار ہاتھ ميں ليكراس اونٹ پر زبر دست حملہ كيا _ اس وقت اونٹ كى مہار قبيلہ ضبّہ كے ہاتھ ميں تھى _ ان كے اور لشكر على كے درميان گھمسان كى جنگ ہونے لگى _ جنگ كا بنى ضبّہ كى ہى طرف تھا _ اسى كے زيادہ تر لوگ مارے جانے لگے حضرت على (ع) نے قبيلہ ہمدان اورقبيلہ نخع كے ساتھ سخت حملہ كيا _ دشمن كے افراد كو پراكندہ اور منتشر كرديا _ اسى موقع پر حضرت على (ع) نے قبيلہ نخع كے ايك شخص جس كا نام بجير تھا فرمايا _ اے بجير
يہ اونٹ تمہارى زد پر ہے ا س كا كام تمام كردو _ بجير نے تيزى سے اس اونٹ كى ران پر تلوار چلا دى _اونٹ نے زبر دست نعرہ مارا _ اور زمين پر ڈھير ہوگيا _ جب اونٹ زمين پر گرا تو عائشه كے تمام فوجى جوچونٹيوں كى طرح ا س كا حصار كئے ہوئے تھے' تتر بتر ہوگئے _ سب نے فرار كاراستہ اختيار كيا _ حضرت على (ع) نے بھى نعرہ لگايا _
اے لوگو ہودج كى طنابيں اور رسياں كاٹ دواور ہودج كو اونٹ سے الگ كر دو _ اپ كے سپاھيوں نے ہودج ہٹا ديا ،لوگو ںنے عائشه كے ہودج كو اغوش ميں ليكر حضرت كے حكم كے مطابق اونٹ كو قتل كيا اور پھر اسے ا گ ميں جلاديا اور خاك ہوا ميںاڑادى _ چونكہ امام كا يہ حكم تعجب انگيز تھا _ ا س لئے ا پ نے ا س كا حوالہ ايت قرانى سے ديتے ہوے فرمايا :
اے لوگو يہ اونٹ منحوس حيوان اور اگ برسانے والا تھا يہ بنى اسرائيل كے گوسالہ شباہت ركھتا تھا وہ بنى اسرائيل ميں اور يہ مسلمانوں كے درميان تھا _ جس نے دونوں كو بدبختى ميں پھنسايا _ حضرت موسى نے حكم ديا كہ اس گوسالہ كو اگ ميں جلا دواور اسكى خاك دريا ميں ڈال دو _پھر اپ نے اس ايت كى تلاوت كى جو موسى كى زبانى تھى _
ونظر الى الھك ...... (25)
ذرا ديكھو اپنے اس معبود كو جس پر تم وارى فدا كرتے تھے ميں كيسے اگ ميں جلارہا ہوں اور خاكستر كو سمندر ميں ڈال رہاہوں _
جى ہاں _ فساد كے مواد كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنا چاہيے _اور فتنہ واشوب كو اگ ميں جلا دينا چاہيے (26)

عائشه سے كچھ باتيں
عائشه كى فوج كوشكست ہوئي اور پورے طور سے شكست كے بعد يہ خونريز جنگ جمل اختتام كوپہنچى اور اتش جنگ خاموش ہوگئي (ٹھنڈى پڑ گئي) اس وقت حضرت على (ع) نے محمد بن ابى بكركومامورفرمايا كہ اپنى بہن عائشه كے لئے جاكر ايك خيمہ نصب كرواور ان كى دلجوئي كرواور ان سے پوچھوكہ جنگ ميں كوئي تير يا زخم لگا ہے كہ نہيں ؟
محمد ابن ابى بكرحكم پاتے ہى اپنى بہن كے پاس ائے اور سر كو ہودج ميں ڈالا
عائشه نے پوچھا تم كون ہو _ ؟
ميں ہوں محمد _ تمہارا قريبى رشتہ دارليكن تمھاراخاندانى سخت ترين دشمن
عائشه نے كہا _ تم خثعميہ عورت كے فرزند ہو ؟
محمد نے كہاہاں
عائشه نے كہا _ ميرے ماں باپ تم پر قربان ہوجائيں _ خدا كاشكر ہے كہ اس جنگ ميں تمہارى جان سلامت رہى _
مسعودى كہتا ہے :
عائشه نے پوچھا كہ تم كون ہو ؟تو محمد نے جواب دياكہ ميں محمد ہوں _و ہ محمد جو تمھارا قريب ترين رشتہ دار ہے ليكن تمھارا بد ترين دشمن اس كے بعد كہا اے عائشه اميرالمومنين حضرت على تمہارا حال پوچھ رہے ہيںاور دلجوئي كے طور پر پوچھا ہے كہ اس جنگ ميں تمھيں كوئي زخم تو نہيں لگا ہے ؟
عائشه نے كہا كہ اس جنگ ميں صرف ايك تير مجھے لگا اور وہ بھى كارى اور موثر نہيں _

حضرت على نے عائشه سے گفتگو كى
محمد ابن ابى بكر كے بعد حضرت على عائشه كے خيمہ كى طرف چلے اور ھودج كے سامنے پہنچ كر اس عصا سے جو اپ كے ہاتھ ميں تھا ھودج كى طرف اشارہ كر كے فرمايا
اے حميرا كيا رسول خدا (ص) نے اس فتنہ انگيزى اور مسلمانوں كا خون بہانے كاحكم ديا تھا ؟
كيا ايسا نہيں ہے كہ تمہارے شوہر رسول خدا (ص) نے حكم نہيں ديا تھاكہ اپنے گھر سے باہر نہ نكلنا ؟
اے عائشه جو لوگ تمہيں يہاں تك لائے ہيں انھو ں نے رسول خدا(ص) كے ساتھ بڑى ناانصافى كى ہے كہ اپنى عورتوں كو تو گھر ميں بٹھا ركھاہے ليكن تيرے جيسى زوجہ رسول كو جو اسلام كى خاتون اول ہے ميدان جنگ ميں گھسيٹ لائے ہيں _
اس موقع پر طبرى كا بيان ہے :
محمد ابن ابى بكر نے اپنى بہن عائشه كولشكر سے علحدہ ايك خيمہ لگايا _ حضرت على (ع) اس خيمہ كى پشت پر ائے اور عائشه سے كچھ باتيں كى _ منجملہ ان كے _يہ بھى فرمايا اے عائشه تم نے لوگوں كو ميرے خلاف بھڑكايا كہ مجھ سے جنگ پر امادہ ہوگئے _ اور انھيں ہيجان ميں لاكر ميرى دشمنى ان كے دلوں ميں ڈال دى كہ وہ خونريزى اور ھنگامہ پر امادہ ہوگئے _
حضرت على (ع) كى باتوں پر عائشه با لكل خاموش رہيں اور كوئي جواب نہيںديا صرف اتنا كہاكہ ياعلى اب جبكہ تم نے ميرے اوپر قابو پالياہے _ اب تو تم صاحب اختيار ہو معاف كر دينابہتر ہے _

عمار نے عائشه سے بات كي
طبرى اور ابن اثير كہتے ہيںكہ جنگ ختم ہونے كے بعد عمار نے عائشه سے ملاقات كى _
عمار نے كہااے عائشه تم حكم خدا سے كتنى دور ہو گئي ہو رسول خدا (ص) سے تم نے عہد كياتھاكہ گھر ميں بيٹھو گى اور تم نے مخالفت ميں ميدان جنگ كاراستہ اختيار كياكہاں گوشہء خانہ اور كہاں ميدان جنگ ؟ ؟
عائشه نے كہا _ كيا تم ابو يقظان ہو ،تم تو مجھ سے بہت سختى اور صفائي سے باتيں كر رہے ہو
عمار نے كہا ہاں
عائشه نے كہا _ خداكى قسم جب سے تم پہچانے گئے ہو تم نے كبھى حق كے سوا كوئي بات نہيں كى عمار نے كہا _ اس خدا كاشكر ہے كہ جس نے تمھارى ز بان پرميرے بارے ميں كلمہ حق جارى كيا_
138

فتح كے بعد معافي
عام معافي
حضرت على (ع) كى فوج كامياب ہو گئي اور دشمن كى فوج پر پورا قابو حاصل كرليا _ دشمن كى فوج كى ہريمت وفرار كا راستہ اختيار كيا _ ا س مو قع پر حضرت على (ع) نے وہى حكم ديا جو جنگ سے پہلے اپنے سپاہيوں كو پہنچايا تھا _ دوسرى بار بھى وہى متن پڑھ كر سنايااپ كے نمائندہ نے ميدان جنگ ميں بلند اواز سے لوگوں كو اس اعلانيہ كا متن پڑھ كر سنايا _
اے لوگو دشمن كے كسى زخمى كو قتل نہ كرو بھاگنے والوں كا پيچھانہ كرو ، شرمندہ لوگوں كى سرزنش نہ كرو _ دشمن كا كوئي فرد اگر جنگى ہتھيار پھينك دے تو وہ امان ميں ہے اسے ہرگزتكليف نہ پہنچاو جو شخص اپنے گھر ميں داخل ہوكر دروازہ بند كر لے اس كا خون اور جان محفوظ ہے اسے اذيت مت دو _
اس موقع پر حضرت على (ع) نے حكم دياجو اگر چہ جملہ بہت مختصرہے ليكن بہت جامع اور جذباتى ہے ، اپنے سب كو سناتے ہوئے اعلان فرماياكہ تمام دشمن كے سپاہى چاہے وہ سياہ ہوںياسفيدچھوٹے ہوں يابڑے عورت ہوں يا مرد سبھى كو امان دى جاتى ہے _كسى كو ان سے تعرض كاحق نہيں ( ثم امن الاحمر ولاسود )
حضرت على (ع) نے اس مختصر جملہ ميں سب كو ازاد فرمايا اور تمام دشمن كے افرادكو عام معافى ديدى اور اپ كى كرامت كاتقاضا بھى يہى تھا صاحب كنزالعمال كہتے ہيں كہ جنگ ختم ہو نے كے بعد بھى وہى جنگ سے پہلے والا فرمان دوبارہ پڑ ھ كر سنايا گياليكن اس بار چند جملہ كا اضافہ كيا گيا _
اے لوگو دشمن كے ناموس واموال تم پر حلال نہيں ہيں تمہيں چايئےہ صرف جنگى ہتھيار ہى لواور ميدان جنگ ميں جو مال لے ائے ہيں انھيں كو حاصل كروبقيہ سارا مال مقتولوں كے پسماندگان كے لئے چھوڑ دو جو شخص ميدان جنگ سے بھاگ گيا ہے اسكو قيدى نہ بنائو انكى دولت كو مال غنيمت سمجھ كر مت لوٹو _ ان كے مال كو حكم قرانى كے مطابق وارثوں ميں تقسيم ہوناچاہيے _ اس كے بعد حضرت على (ع) نے اپنے سپاہيوں كے سامنے اعلان فرمايا كہااس جنگ
ميں جو عورتيں اپنے شوہر سے محروم ہوئي ہيں تم ان سے شادى نہ كرو جب تك وہ دوسرے مسلمانوں كى طرح چار ماہ دس دن كا عدہ وفات پورا نہ كر ليں اس كے بعد تم انھيں عقد ميں لے سكتے ہو _
حضرت على (ع) كا منشاء اس ارشاد سے يہ تھااس جنگ كے بعد دشمنوں كے ساتھ دوسرے مسلمانوں كاسابرتاو كرناچاہيے _ ہاں _ يہ لوگ حضر ت على (ع) كى نظر ميں كافروں اور مشركوں سے الگ تھے ا ن پر كفار كا حكم لاگو نہيں ہوا تھا _

اعتراض اور على (ع) كا جواب
حضرت على (ع) نے دشمن كى فوج كے بارے ميں جو روش اپنائي تھى ا س پر خود اپ ہى كے لشكر ميں اعتراض ہونے لگا _ وہ لوگ حضرت على (ع) كى بارگاہ ميں ا كر اس طرح اعتراض كرنے لگے _
ياعلى ا پ نے كل ا ن لوگوںكا خون ہمارے لئے حلال قرار ديا تھا _ اور اپ ہى اج ا ن لوگو ں كامال ہمارے لئے حرام قراردے رہے ہيں ؟
حضرت على (ع) نے جواب ديا :
اہل قبلہ اور جولوگ زبان سے اسلام كاكلمہ پڑھتے ہيںاپنے اسلام كااظہار كرتے ہيں ا ن كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے نافذ كياہے _
ليكن اكثر معترضين اما م كے اس جواب سے مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے اپنى مخالفت جارى ركھى ، حضر ت على (ع) نے انھيں مطمئن كرنے كے لئے فرمايا _
اے لوگو اب جب كہ تم لوگ اصرار كے ساتھ كہہ رہے ہو كہ ان لوگو ںكے ساتھ بھى كفار و مشركين كاسابرتاو كرناچاہيئے_ تواب او سب سے پہلے ام المومنين عائشه كے بارے ميں قرعہ ڈالا جائے كيونكہ وہى اس لشكر كى قيادت كر رہى تھيں _ جس كے نام بھى قرعہ پڑ جائے وہ انہيں كفار كى عور توں كى طرح اپنى كنيز بنالے _
يہ سن كر تمام معترضين كوحضرت على (ع) كے اس برتاو كارازسمجھ ميں ايا اور وہ اپنے اعتراض پر نادم وشرمندہ ہوئے _ اس طرح حضرت على (ع) نے ا ن لوگوں كو ايك و جدانى دليل سے خاموش كيا ليكن اس مطلب كو پورى طرح واضح كرنے كے لئے اپ نے ايك دوسرى دليل بھى پيش كى اورفرمايا :
چونكہ عائشه كے فوجى بظاہر خدا پرست ہيں _وحدانيت خداكى گواہى ديتے ہيں _ ان كے اسى عقيدہ كے مطابق كہ وہ زبان سے كلمہ پڑھتے ہيں ميں ان پراحسان كر رہاہوں اور ايك توحيد پرست مسلمان كى طرح برتاو كركے ان كے فر زندوں كو ا ن كے مقتول باپ كاوارث بنا رہاہوں _
صاحب كنزالعمال نے يہ داستان ا س طرح لكھى ہے كہ :
جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت على (ع) نے اپنے لشكر ميں خطبہ ديا اسى درميان عمار ياسر نے كھڑے ہو كر كہا :
اے امير المومنين لوگ دشمن كے مال و دولت كے بارے ميں اپ پر اعتراض كر رہے ہيں وہ كہہ رہے ہيں كہ ہم نے جس سے بھى جنگ كى جس قوم و ملت پر فتحمند ہوئے توہم نے ا ن كا مال غنيمت كى طرح حاصل كيااور ان كے بيوى بچوں كوقيدى بنايا (27)
اس سے پہلے كہ حضرت على (ع) عمار ياسر كاجواب ديں اپ كے لشكر سے ايك شخص عباد ابن قيس نام كاجو بكر ابن وائل كے خاندان سے تھااور بہت تيز طراراور خوش بيان تھا _ اپنى جگہ سے كھڑا ہو كرحضرت على (ع) سے بولا _
اے اميرالمومنين خدا كى قسم اپ نے بصرہ والوں كے مال غنيمت كى تقسيم ميں اپ نے ہم لوگو ں كے ساتھ انصاف و مساوات كى رعايت نہيں كي
حضرت على (ع) نے فرمايا _تجھ پر افسوس ہے _ميں نے تمہارے بارے ميں مساوات و عدالت كى كيسے رعايت نہيں كى ؟
اس شخص نے كہا : جب اپ نے بصرہ والوں كے كسى مال و دولت كو جسے وہ ميدان جنگ ميں لائے تھے اس كے علاوہ سارے مال كو ہم لوگو ں پر حرام قرار دياان كى عورتوں كى اسيرى كو بھى حرام كر ديااور ان كے بيٹوں كو غلام بنانے سے بھى
ہميں منع كرديا _
حضرت على (ع) نے ان تمام اعتراض كرنے والوں كو مطمئن كر نے كے لئے اس مرد بكرى سے خطاب فرماتے ہوئے كہا :
اے بنى بكر كے بھائي كيا تم اسلامى قانون نہيں جانتے ہو _ كيا يہ نہيں جانتے كہ باپ كے جرم كى وجہ سے ان كے بے گناہ چھوٹے بچوں سے مواخذہ كرنااسلامى نقطہ نگاہ سے جائزنہيں ہے ،صرف اس بہانے سے كہ ان كے باپ نے ہم سے جنگ كى ہے ہميں ان كے بچوں كو قيدى بنانا اور عورتون كو كنيز بنانا جائز نہيں ہے ليكن يہ جو دشمن كى عور توں اور مال كا معاملہ ہے ،يہ لوگ صرف وہى دولت جو جنگ كے موقع اپنے پاس ركھے ہوئے تھے _ اور مسلمان بھى ہيں ہم سے بر سر جنگ ہيں _
ان كى عورتوں كا نكاح اسلامى حكم كے لحاظ سے ہوا تھاان كے بيٹے فطرت اسلام پر پيدا ہوئے تھے ان خصوصيات كے پيش نظر جن كى ميں نے وضاحت كى ہے ان كى عورتوں بچوں اور دولت كے بارے ميں اسلام كا حكم وہى ہے جسے ميں نے بيان كياہے _
تمہيں صرف اتنى اجازت ہے كہ يہ لوگ جتنا مال ميدان جنگ ميں لائے تھے اور تم نے اپنى چھاونى سے انھيں لوٹاہے انھيں كو غنيمت كے طور پر لے لواور اسى پر اكتفاء كرو ، اس مال كے علاوہ بقيہ جتنى دولت ہے وہ ان كے بيٹوں كى وراثت ہے اگر كوئي شخص ہم سے جنگ اور مخالفت كے لئے نكلے تو اكيلے اسى كو ہم سزا دينگے اور ا س كا گناہ دوسرے كے ذمہ ہرگز نہيں لاديں گے ، يہاں تك كہ ان كے بچوں كو بھى باپ كے كر توت كى سزانہيں دى جائے گى _
اے بنى بكر كے بھائي ميں رسول خدا(ص) كى جگہ پر ہوںيہ بصرہ والے ميرے خلاف بغاوت پرامادہ ہيں انہوں نے اپنے بھائيوں كا خون بہايا ميں نے ان كے ساتھ وہى سلوك كيا ہے جو رسول خدا (ص) نے فتح مكہ كے موقع پر لوگو ں كے ساتھ سلوك كيا تھااپ نے مكہ والوں كاصرف وہى مال لياجو ساتھ ليكر ائے تھے بقيہ انھيں كے حوالہ كر ديا _
حضرت على (ع) نے مزيدفرمايا : اے بكرى بھائي كيا تو نہيںجانتا كہ دارالحرب يعنى كافروںكا شہر اور دارالہجرت يعنى مسلمانوں كا شہر ان دونوں كے درميان اسلامى قانون ميں فرق ہے كيونكہ دارالحرب كاہرمال جو كفار سے حاصل ہوپورے طور سے مسلمانوں كاہے ليكن جنگ كے موقع پر دارالہجرت كامال صرف وہى مسلمانوں كاہوگاكہ جو جنگ
كے موقع پر ساتھ لائے ہيں كيونكہ زبان سے وہ كلمہ توحيد پڑھتے ہيں _
اللہ تم لوگوں پر رحم كرے _ خاموش رہو اور عائشه كے لشكر والوں كى اسيرى پر اصرار نہ كرو ورنہ پھر ميرے ايك سوال كاجواب ديدوكہ تم ميں كون ايسا ہے كہ جنگى اسيروں كى تقسيم كے وقت عائشه كو كنيزى كے طور پراپنے حصہ ميں لے كيا تم ميں كوئي ايسا ہے جو عائشه كو كنيزبنا كر اپنے گھر لے جائے _
حضرت على (ع) كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ اپ كے لشكر ميں شور مچ گيا چاروں طرف سے اوازيں انے لگيں يا على ہم ميں سے كوئي بھى ايسى حركت نہيں كر سكتارسول خدا(ص) كى نسبت ايسى گستاخى ہم سے نہيں ہو سكتى كہ ان كى زوجہ كو اپنى كنيز بنائيں اس كے بعد انھوں نے كہا _ يا على اپ اپنے عمل ميں حق كے راستہ پر ہيں _ ہم نے اعتراض كركے سخت غلطى كى ہم نے دھوكا كھايا _ يا على اپ كا عمل علم و دانش كى روش ميں تھاہمارا اعتراض جہالت ونادانى تھى _ا ب ہم اپنے گناہ سے توبہ كرتے ہيں اور اپنے اعتراض پرنادم وپشيمان ہيں _ خداوندے عالم اپ كے وسيلہ سے ہميں ہدايت و رہبرى عطا كرے _
عمار ياسر دوسرى بار كھڑے ہوئے اور لشكر سے خطاب فرمايا :
اے لوگو على كى پيروى كرو _ان كے احكام بجالائوخداكى قسم وہ سيرت رسول(ص) پر عمل كرتے ہيںاور انكى سنت سے ہر گز انحراف نہيں كرتے على وہى راہ اپناتے ہيں جس راہ پر رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كو چلايا تھاانكى مثال ويسى ہى ہے جيسى موسى كے سامنے ہارون كى تھى _ ہارون حضرت موسى كے جانشين تھے ، بس فرق يہ ہے كہ رسول (ص) كے بعد كوئي پيغمبر نہيں ہوگااور يہ فضيلت وبزرگى حضرت على (ع) سے مخصوص ہے _
عمار ياسركى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ حضرت على (ع) نے دوبارہ لوگوں سے خطاب فرمايا :
جو كچھ ميں تم سے كہتا ہوں اسے مانو اورميرے حكم كو نافذ كرو كيونكہ اگر تم ميرے كہنے پر عمل كرو گے تو انشا اراہ مستقيم اور سعادت ابدى پا جائو گے ،اگر چہ اس راستہ ميں سختياں ہيں اور ناكامياں و تلخياں ہيں _
اب رہ گئيں عائشه تو انكاعقيدہ اور باطنى نظريہ ميرے بارے ميں دشمنى سے بھرپور ہے اسلئے وہ مجھے تكليف پہنچا رہى ہيں ايسى اذيت وہ كسى كے لئے بھى جائز نہيں سمجھيں گى ليكن اسكے باوجودوہ ميرى نظر ميں سابق كى طرح محترم ہيں _ ان كے كرتوتوں كو ميں اللہ كے حوالے كرتا ہوں _خدا ہى ہر شخص كو اس كے گناہوں كى سزا د ے گا
يا اسے معاف كرديگا _
ابھى امام كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگو ں كى اوازيں انے لگيں ہاں صحيح ہے جو لوگ اعتراض كر رہے تھے وہ اب نادم و پشيمان ہيں _ان لوگوں نے ايك سخت كشمكش كے بعدامام كے ارشادات كى تصديق و تائيدكى اور ان كے حكم پر سر جھكا ديا _ واضح طور پر اعلان كيا كہ ہم غلطى پر تھے يا واضح طور سے اپنى غلطى كا اعتراف كيا _ انھوں نے معذرت كرتے ہوئے حضرت على (ع) كى خدمت ميں عرض كيا _
اے اميرالمومنين خدا كى قسم اپ نے فوج دشمن كا مال تقسيم كرنے كے سلسلے ميں حكم خدا كے مطابق عمل كياليكن ہم نے جہالت ونادانى كى روش اپنائي اور اپ كى عدالت پر اعتراض كيا،ابن لساف حضرت على (ع) كے فوج كاايك بہت تيز طراراور جيالا شخص تھا _ ا س نے اس سارے واقعے كو نو شعروں ميں نظم كيا ہے _

ان رايا را يتموہ سفاھا
لحظاالايرادوالاصدار

ليس زوج النبى تقسيم فيئا
ذاكزيغ القلوب والابصار

فاقبلوا اليوم مايقول على
لاتناجوابالاثم فى الاسرار

ليس ماضمت البيوت بفي
انما الفي ماتضم الاوار

من كراع فى عسكروسلاح
ومتاع يبيع ايدى التجار

ليس فى الحق قسم ذات نطاق
لاولااخذكم ذات خمار

ذاك فيئكم خذوہ وقولوا
قد رضينالاخيرفى ا لاكثار

انھا امكم وان عظم الخط
ب وجائت بزلة وعثار

فلھاحرمتہ النبى وحقا
علينامن سترھا و وقار

اے لوگو تم نے جو بصرہ والوں كے بارے ميںرائے ظاہر كى ہے وہ جہالت و نادانى كى بات تھى ، وہ غلط نظريہ تھا ، كيونكہ رسو ل كى زوجہ مال غنيمت كے طور پر حاصل نہيں كى جاسكتى نہ وہ كنيزى ميں لى جاسكتى ہيں ، كيونكہ يہ عمل وجدان كے اعتبار سے كوتاہ نظرى اور فكرى انحراف ہے اس لئے اج جو كچھ حضرت على (ع) ارشاد فرمارہے ہيں اس كومان لواور اپنى بيجا باتيںاور لچر اعتراضات اور سر گوشياں ختم كر دو حضرت على كے فرمان كے مطابق عمل كرو جو مال و دولت
مقتولوں كے گھر ميں ہے اسے مت لوٹو اور اسپرتصرف مت كروبس وہ جنگى ہتھيار، كپڑے ، اور گھوڑ ے جو ميدان جنگ ميں لائے تھے انھيں كومال غنيمت كے طور پر لے لواور وہ تمھارے اوپر حلال ہے مختصر يہ كہ جو كچھ دشمنوں كى دولت تمھارے لئے حضرت على جائز سمجھيں وہ تمھارا حق ہے تمھيں اس پر مطمئن ہو جانا چاہئے _
اے لوگو عائشه تمھارى ماں ہيں اگر چہ ان كاجرم بہت بڑا اور لغزش زبر دست ہے وہ رسول خدا(ص) كى خاطر سے محترم ہيںہم پر ان كا احترام لازم ہے ہميں ان كى ابرو اور حيثيت كو محفوظ ركھنا چاہئے (28)_

حضرت على (ع) نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟
جيسے ہى ابن يساف نے اشعار پڑھے حضرت على كے لشكر سے ايك دوسراشخص بولا ............. اے اميرالمومنين ، اپ نے طلحہ وزبير سے كيوں جنگ كى ؟ اس كى وجہ كيا تھى ؟
حضرت على (ع) نے جواب دياكہ ميں نے طلحہ و زبير سے اس لئے جنگ كى كہ انھوں نے ميرى بيعت توڑ دى تھى اور انھوں نے بے گناہ اور پاك نفس لوگوں كو قتل كيا ، انھوں نے حكيم بن جبلہ كا ناحق خون بہايا ،بيت المال كو لوٹا ،يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ بے گناہ لوگوںكاظلم وتعدى سے خون بہايا جائے اور امام و پيشوا ان كا دفاع نہ كرے ؟
جو سلوك ميں نے طلحہ و زبير كے ساتھ كيا ہے يہ مجھ ہى سے مخصوص نہيںہے كيونكہ اگر انھوں نے ابو بكر و عمركى بھى بيعت شكنى كى ہوتى اور لوگوں كا ناحق خون بہايا ہوتاتو وہ بھى دفاع كرتے اور ان سے جنگ كرتے _
اے لوگو يہ تمہارے درميان اصحاب رسول خدا ہيں جو ميرى باتوںكى گواہى ديں گے كہ جو شخص بھى ابوبكر و عمر كى بيعت سے سرتابى كرتاوہ لوگ انھيں تلوار سے سرزنش كرتے اور اپنى بيعت ميںواپس لاتے اور دوبارہ حكومت كى پيروى پر مجبور كرتے ،جيسا كہ خليفہ او ل كى بيعت كے وقت انصار نے ان كى بيعت سے انكار كياتوانھوں نے سختى كى اورانصاركو مجبوركيا كہ وہ ان كى بيعت كريں _ حالانكہ انصار كى بيعت راضى خوشى سے نہيں تھى ليكن اس كے باوجود بيعت كا احترام كيا گيا اور اس پر اخر تك باقى رہاگيا ليكن ميں كيا كرو ں؟ كہ طلحہ و زبير نے رضا مندى اور پورى ازادى كے
145
ساتھ ميرى بيعت كى ليكن دير نہيں گزرى كہ انھوں نے اپناعہد وپيمان توڑ ديا ان
كے دل ميں بصرہ و يمن كى گور نرى كى لالچ بھرى ارزو تھى ليكن چونكہ ميں نے ان كے اندر حرص ولالچ ديكھى اس لئے حكومت بصرہ و يمن نہيں دى _دوسرے يہ كہ انھيں مال و دولت حاصل كرنے كى ہوس تھى _ انھوں نے مسلمانوں كے مال ودولت پر اپنى انكھيں جمادى تھيں وہ مسلمانوں كو اپنا غلام عور توں كو كنيزبناناچاہتے تھے ان كى دولت كومال غنيمت سمجھ كے لوٹناچاہتے تھے يہ تمام باتيں ميرے مشاہدہ ميں ائيں توميں اس پر مجبورہوگياكہ ان سے جنگ كركے ان كے ہاتھوںمسلمانوں كے جان ومال كى طرف بڑھنے نہ دوں ،مسلمانوںكو ان كے شر و فسادسے مطمئن كروں _
اس كے بعد حضرت على (ع) نے بصرہ والوںكى طرف رخ كيااور ان كى كرتوتوں پر سر زنش فرماتے ہوئے كہا :
بصرہ والوں تم ايك بے منھ كے جانور كے سپاہى ہو _ اس نے شور مچاياتو سخت طريقہ سے حملہ اور ہوگئے ،جس و قت وہ جانور قتل ہو گيا زمين پر لوٹنے لگاتو اسے چھوڑ كر فرارہو گئے بصرہ والو تم بڑے بد اخلاق اور عہد شكن ہو _ تمہارابرتاو نفاق سے بھرپور ہے يہ تمہارى سيرت ميں داخل ہے اور اس پر ہميشہ باقى ر ہوگے _ تم ايسے لوگ ہو كہ جوشخص بھى تمہارے درميان زندگى بسر كرے وہ گناہوں اور غلطيوںميںمبتلاہو جائے _جو تمہاراماحول چھوڑ كر الگ ہو جائے اس پر رحمت خداكى بارش ہو _

عائشه ، مدينہ واپس ہوئيں
جنگ ختم ہو گئي عام معافى كا اعلان كر ديا گيا _ اور جنگ كے درميان جو دشمن كامال غنيمت ہاتھ ايا تھا حضرت على (ع) كے لشكر ميں تقسيم كر ديا گيا _ گو مگو كى كيفيت ختم ہو گئي _ پانى كا سيلان بھر گيا ،بھانت بھانت كى اوازيں خاموش ہو گئيں _ حالات معمول پر اگئے ،اس وقت حضرت على (ع) نے اپنے چچيرے بھائي عبداللہ بن عباس كو اپنے پاس بلوا كر فرمايا _ اے عبداللہ _ تم عائشه كے پاس جاكر انھيں اپنے شہر واپس جانے كے لئے راضى كرو _
ابن عباس كابيان ہے كہ: ميں عائشه كے پاس گيا اور ملاقات كى اجازت طلب كى تاكہ حضرت على (ع) كاپيغام پہنچاو ں _
انھوں نے مجھے اجازت نہيں دى ،ميں بغير اجازت ہى خيمہ كے اندر داخل ہو گيا پاس ميں ركھے گاو تكيہ كو اٹھا كر دبايا اور انھيں كے سامنے بيٹھ گيا عائشه نے كہا اے ابن عباس خدا كى قسم ميں نے تم سے زيادہ حكم رسول كو نظر انداز كرنے والا نہيں ديكھا _ تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں چلے ائے اور ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھ گئے ؟
ايك دوسرى روايت ہے كہ عائشه نے ابن عباس سے كہا _ تم نے دو غلطياں كركے حكم رسول كى مخالفت كى _ كيو نكہ سب سے پہلے تم ميرى اجازت كے بغير ميرے گھر ميں داخل ہوئے دوسرے ميرى اجازت كے بغير ميرے فرش پر بيٹھے _
ابن عباس نے كہا:تم نے احكام ہم ہى سے سيكھے اور اب ہم ہى كو ياد دلارہى ہو ،يہ ديكھوحضرت على (ع) تمھيں حكم دے رہے ہيں كہ اپنے شھر واپس جاو _
عائشه نے كہا _ خداعمر پر رحمت نازل كرے كہ وہ اميرالمومنين تھے
ابن عباس نے كہا: ہاں _ اب حضرت على اميرالمومنين ہيں
عائشه نے كہا : نہيں، نہيں ، ميں انھيں ہرگز اميرالمومنين نہيں جان سكتى ان كے حكم سے واپس جانے پر تيار نہيں ہوں _
ابن عباس نے كہا _ اے عائشه وہ زمانہ بيت گيا _ تمھارى تقررى اور برخاستگى كاتيا پانچہ ہو گيا _ اج تمھارى رائے اور بات كاكوئي اثر نہيں ہے _ تمھارى موافقت و مخالفت برابر ہے _
ابن عباس كابيان ہے كہ: ميرى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ عائشه پر گريہ طارى ہو گيا، اس قدرشديد گريہ كہ دہاڑ مار كررونے لگيں ،ان كى ہچكياں سن رہا تھا (29)
پھر انھوں نے كہا : اے عبداللہ ٹھيك ہے ،ميں اپنے شہر واپس جاو نگى ،ميں نہيں چاہتى كہ اس شہر ميں رہوں جہاں تم دونوں ہو _ (ان ابغض البلدان الى بلد انتم فيہ )
ابن عباس نے كہا: اے عائشه خداكى قسم ہم بنى ہاشم كى نيكى كابدلہ يہ نہيں تھا كہ ہمارے خلاف بغاوت كرو _ ہمارى مخالفت كاراستہ اپناو _ ہم ہى تھے كہ تمہيں ام المومنين بنايا ،ہم نے تمھارے باپ كو صديق امت بنايا_
عائشه نے كہا : عبداللہ تم رسول خد(ص) اكو ہم سے اپنى طرف گھسيٹ رہے ہو ان كے نام سے ميرے اوپرفخرجتا رہے ہو _
ابن عباس نے كہا: ہاں ہم ايسے خاندان كى فرد ہيں كہ اگر تم بھى اس خاندان سے ہوتى تو ميرى طرح فخر ومباھات كرتي_
ابن عباس كابيان ہے كہ: عائشه سے گفتگو كے بعدواپس حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا ، سارى باتيں دہرائيں _اپ نے ميرى پيشانى پر بوسہ ديكر فرمايا :
ان خانوادے پر صلوات جو گويائي اور حاضرجوابى ميں ہمارى طرح ہيں (بابى ذرية بعضھا من بعض )
اعثم كوفى نے فتوح البلدان ميں نقل كيا ہے كہ:
جنگ ختم ہونے كے بعد حضرت على (ع) رسول خدا(ص) كے مخصوص خچر دلدل پرسوار ہوكربصرہ ميں اس گھر كى طرف چلے جہاں عائشه عارضى طور سے ٹھہرى ہوئي تھيں ،اجازت لينے كے بعدگھر ميں داخل ہوئے اميرالمومنين نے ديكھاكہ عائشه كچھ بصرہ كى عورتوں كے ساتھ گريہ وزارى كر رہى ہيں ،اس وقت حارث ثقفى كى بيٹى صفيہ اوردوسرى عورتوں نے حضرت على (ع) كو ديكھ كر كہا :
يا على اپ نے ہمارے رشتہ داروںاور دوستوں كو قتل كيا ہمارى جميعت كو درہم برہم كيا ، خدا تمہارے بھى بچوں كو يتيم كرے جيسے تم نے عبداللہ خلف كو يتيم كر كے باپ كى موت پر اس كى انكھيں اشكبار كى ہيں _
حضرت على (ع) نے صفيہ كو پہچان كر فرمايا :
اے صفيہ ميں تمہيں اس دشمنى اورعنا دپر تجھے ملامت نہيں كرونگاكيونكہ ميں نے ہى جنگ بدر ميں تيرے داداكو اور جنگ احد ميں تيرے چچاكو قتل كيا ہے _ اور اب تيرے شوہر كو موت كے گھاٹ اتاراہے اور اگر ميں رشتہ داروں اور عزيزوںكا قاتل ہوتاتو اس وقت اس گھر جو لوگ چھپے ہوئے ہيں انھيں بھى قتل كر ڈالتا
اسكے بعد اميرالمومنين نے عائشه سے فرمايا :
اے عائشه اپنى كتيوں كو يہاں سے بھگاتى كيوںنہيں ہو ؟
عائشه سن لو كہ اگر ميں لوگوں كى سلامتى نہيں چاہتاتو ابھى اس گھر ميں چھپے ہوئے لوگو ں كوگھر سے نكالتا اور ايك ايك كى گردن مارديتا _
اعثم كوفى كابيان ہے كہ :
يہ سنتے ہى عائشه اور تمام عورتوں نے چپ سادھ لى ان سب كى بولتى بند ہو گئي _
اس كے بعد امير امومنين نے عائشه كو مخاطب كر كے سر زنش كى _
اے عائشه _ خدا نے تمہيں حكم ديا تھاكہ اپنے گھر ميں نچلى بيٹھى رہو غيرو ں سے پر دہ كرو ، ليكن تم نے حكم خدا كى مخالفت كي_ اپنا ہاتھ مسلمانوں كے خون سے رنگ ليا ،لوگوںكو ميرے خلاف بھڑكايا اور ظالمانہ طريقہ سے عظيم جنگ كھڑى كردى _ حا لانكہ تم اور تمھارے خاندان نے ہمارے ذريعہ سے عزت و شرف حاصل كياہمارے ہى خاندان كے وسيلہ سے تم ام المومنين بن گئي ہو _
عائشه اب تمہيں چلنے كے لئے تيار ہو جانا چاہئے _ تم اسى گھر ميں جاكر رہو جہاں تمہيں رسول خدا(ص) نے بٹھاياتھا _ وہاںتم زندگى كى اخرى سانسوں تك رہو _
حضرت على (ع) اتنا فرماكر وہاں سے چلے ائے _
اعثم كوفى كابيان ہے كہ: اسى كے دوسرے دن حضرت على (ع) نے اپنے فرزندحسن مجتبى كوعائشه كے پاس بھيجا ،امام حسن نے عائشه سے كہا ميرے بابااميرالمومنين فرماتے ہيں كہ :
اس خداكى قسم جس نے دانے كو شگافتہ كيا ، اس خداكى قسم جس نے انسانوں كو پيداكياكہ اگر تم نے اسى وقت مدينہ كے لئے كوچ نہيں كياتواس بارے ميں جسے تم خود جانتى ہو انجام دے دوںگا جيسے ہى يہ پيغام عائشه نے سنا فوراً اٹھ كھڑى ہوئيں اور كوچ كى تيارى كرنے لگيں _
ايك عو رت نے جب اس عجلت كو ديكھا تو سوال كيا كہ اے ام المومنين عبداللہ ابن عباس اپ كے پاس ائے اور اپ سے مدينہ جانے كو كہا ليكن اپ نے انكى بات نہ ماني، بلكہ تم نے تو ان كا كلّہ بہ كلّہ جواب ديا _
ابن عباس تمہارے پاس سے خفا ہو كر چلے گئے ان كے بعد حضرت على (ع) ائے اور تمہارے اندر ذرابھى بے چينى نہيں
ديكھى گئي ليكن جيسے ہى يہ جوان تمھارے سامنے ايا اور باپ كا پيغام پہنچايا تمہارے انداز ميں عجيب اضطراب اور بے چينى پيداہو گئي اور اسكى بات كو تم نے فوراً قبول كر ليا ؟
عائشه نے جواب ديا _ ہاں _ميرا اضطراب اسلئے تھا كہ يہ جوان رسول خدا (ص) كى يادگار اور ان كا فرزند ہے رسول كے اوصاف كانمونہ ہے ،اسے ديكھتے ہى مجھے رسول خدا (ص) كا سراپا ياد اگيا ،جسے بھى رسول خدا كاسراپاديكھنا ہو وہ اس جوان كو ديكھ لے _ دوسرى طرف يہ بھى كہ يہ جوان اپنے باپ كاوہ پيغام لاياتھا جسے سن كر ميں خوف زدہ ہو گئي اور كوچ كرنے پر مجبور ہو گئي _
اس عورت نے اخرى بات سنكر كر يدنے كے لئے پوچھا
اے عائشه _ ميں اپ كو قسم ديتى ہوں خدائے تعالى كى كہ بتايئے وہ حضرت على (ع) كا پيغام كيا تھا جو اپ ميں اتنااثر ديكھا گيااور اپ اتنا بے چين ہو گئيں ؟
عائشه نے جواب ديا _ تيرا ناس ہو جائے _ ارے ايك جنگ ميں رسول خدا(ص) كو بہت زيادہ مال غنيمت حاصل ہوا تھا _ اپ نے سب كو اپنے اصحاب ميں تقسيم كر ديا _ ہم ازواج نے چاہا كہ ہم لوگوں كو بھى اسميں سے حصہ دياجائے _ ہم نے اپنے مطالبہ ميں بہت اصراركيا اور بڑى اودھم مچائي ،حضرت على (ع) ہمارى حركتوں كو ديكھ كر غصہ ميں بھر گئے _ ہميں سر زنش كرنے لگے ،انھوں نے كہاكہ اب بس بھى كرو _ تم نے رسول خدا (ص) كو بہت زيادہ رنجيدہ خاطر كيايہ سن كر ہم لوگ على سے بھى لڑائي بھڑائي پر تن گئے ،انھيں بھى سخت جواب ديا ،حضرت على (ع) نے جواب ميں يہ ايت پڑھي'' عسى ان طلقكن ............... (30) ''
اگر تمھيں طلاق دياجائے تو خدا وند عا لم تمھارى جگہ تم سے بہتر اور نيك كردار عورتيں انھيں عطا كرے گا
ہم نے يہ ايت سن كر سخت غضبناك انداز ميں اور بھى سخت جواب ديئے _ اس وقت رسول خداكے چہرے پر اثار غضب ظاہر ہوئے ا پ نے حضرت على (ع) كى طرف رخ كر كے فرمايا :
اے على ميں اپنى تمام ازواج كے طلاق كا اختيارتمھيں ديتا ہوں _
جسے بھى تم طلاق دے دو گے اس سے ميرى زوجيت كارشتہ ختم ہو جائے گا _
رسول خدا(ص) نے اس وكالت كو كسى خاص وقت ميں معين نہيں كيا تھا ،يہ اختيار ہميشہ كے لئے على كے پاس محفوظ ہے جب بھى وہ چاہيں رسول(ص) كى طرف سے ان كے ازواج كو طلاق ديديںاور انكى رسول سے جدائي كرديں ،حضرت على (ع) نے جو پيغام بھجوايا تھا ا س كامطلب يہى تھا ، كيو نكہ اگر ميں جلدى سے كوچ پر امادہ نہ ہو جاتى تو وہ مجھے طلاق دے ديتے _ ميرى ام المومنين كى حيثيت ختم ہو جاتى (31)
كتاب عقدالفريد كے مولف نے لكھاہے كہ :
اس گفتگو كے بعد جب عائشه نے مدينہ جانے كااعلان كرديا _ حضرت على (ع) نے تمام وسائل سفر عائشه كے اختيار ميں ديديئے _ اور انھيں چاليس يا ستّر عورتوں كے ساتھ مدينہ روانہ كرديا_
طبرى كابيان ہے كہ حضرت على (ع) نے عائشه كے لئے بہترين وسائل سفر مھيا كئے ،اور انھيں بارہ ہزار درہم بھى عطا كئے اور انھيں بہت سے عورتوں مردوں كے ہمراہ مدينہ روانہ كيا جب يہ بارہ ہزاركى رقم عبداللہ بن جعفر(32) كو كم معلوم ہوئي تو دوبارہ ايك معتديہ رقم عائشه كو عطا فرمائي _
انھوں نے فرمايا كہ اگر اميرالمومنين نے اجازت نہيں دى تويہ تمام رقم ميں اپنے ذمہ لے لوںگا _
مسعودى نے بھى عائشه كى واپسى كے بارے ميں لكھا ہے كہ حضرت على (ع) نے عبد الرحمن بن ابى بكر كو مامو ر فرمايا كہ اپنى بہن عائشه كو بنى عبدقيس اور ہمدان كى شريف عورتوں كے ہمراہ مدينہ پہنچا ديں _
اس واقعہ كو يعقوبى اور ابن اعثم نے بھى اپنى تاريخوں ميں لكھاہے فرق صرف يہ ہے كہ انھوں نے عبدالرحمن كانام نہيں لكھاہے (33)
ان كى ماں اسماء بنت عميس خثعمى تھيں ، ان كے ماں باپ دونوںہى اوائل ميں حبشہ ہجرت كى تھى ، وہيں حبشہ ميں عبداللہ پيدا ہوئے ،وہ پہلے مسلمان مولودہيں جو حبشہ ميں پيدا ہوئے اور اپنے باپ جعفر كے ساتھ مدينہ واپس ہوئے
جب ان كے والد كاانتقال ہواتو انكى ماں اسماء نے ابو بكر سے عقد كر ليا _ ا س طرح عبداللہ اور محمد بن ابى بكر مادرى بھائي ہيں _جس طرح محمد اور عائشه پدرى بھائي نہيں تھے عبداللہ دس سال كے تھے كہ رسول خدا (ص) نے انتقال فرمايا_ عبداللہ بڑے كريم حليم اور عرب كے سخى ترين لوگوںميں تھے مشہور ہے كہ 80 ھ يا 84ھ يا 85ھ ميں نوے سال كى عمر ميں انتقال كيا ،ابان بن عثمان جو مدينہ ميں گورنر تھے ، انھوں نے اپكى نماز جنازہ پڑھائي_(34)

جنگ جمل كے بدترين نتائج
جنگ جمل كے بدترين اثار ونتائج جو كچھ مترتب ہوئے اور بتدريج اس كے عواقب سامنے ائے وہ واقعى حيرت ناك ہيں_
مورخين نے اس بارے ميں لكھاہے كہ :
جنگ جمل ميں دونوں طرف سے ا س قدر تير اندازى ہوئي كہ دونوں كے تركش خالى ہو گئے ، دونوںفريق ميں ا س قدر نيزوںكى ردوبدل ہوئي كہ سپاہيوںكے سينے چھلنى ہوگئے _ دونوںلشكر سے ا س قدر افرادزمين پر ڈھير ہوئے كہ اگر سب لاشوںكو ميدان ميں جمع كر كے گھوڑے دوڑائے جاتے تو كسى گھوڑے كاپاو ں زمين پر نہ پڑتا خود ايك شخص جو اس جنگ ميں شريك تھابيان كرتا ہے كہ جنگ جمل كے بعد ميں جب بھى بصرہ دارالوليد دھوبيوں كے گھاٹ سے گزرتا تھا اوردھوبيوں كے كپڑا پيٹنے كى اوازسنائي ديتى تھى تو مجھے جنگ جمل ياد اجاتى تھى ،جس جنگ ميں نيزوںكى باڑھ يوں گونجتى تھى جيسے دھوبى كپڑاپيٹ رہا ہو (35)
ہم نے گزشتہ صفحات ميں اس جنگ كے متعلق مورخين كے بيا نات نقل كئے ہيں كہ اس دن كس طرح بدنوں سے سر جدا ہو رہے تھے ، ہاتھ كٹ رہے تھے ،پيٹ پھٹ رہے تھے _
مصيبت كے ماروں كى تعداداور اس جنگ ميں كٹے ہاتھوں اور پھوٹى انكھوں كى تعدادتصور سے بھى كہيں زيادہ ہے _ مقتولوں كى تعداد طبرى نے چھ ہزار لكھى ہے ، ليكن ابن اعثم نے اپنى تاريخ ميں عائشه كے لشكر كے مقتولوں
كى تعداد نو ہزار لكھى ہے ، اور حضرت علي(ع) كے لشكر سے سات ہزار قتل ہوئے _
ابن عبدربہ عقدالفريدميں لكھتے ہيں كہ جنگ جمل ميں لشكر عائشه كے بيس ہزار افراد قتل ہوئے اور حضرت على كے لشكر كے پانچسوافراد قتل ہوئے _

----------------------------------------------
1_ تاريخ اعثم ، مسعودى ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص 170
2_ مسعودى اور ابو مخنف لكھتے ہيں كہ جب عمر و بن جرموز نے زبير كو قتل كيا تو انعام كى لالچ ميں تلوار لئے حضرت على كے پاس ايا ، امام نے واقعہ سے مطلع ہو كر فرمايا ، بخدا صفيہ كا بيٹا ڈر پوك نہيں تھا ، ليكن اج اسكى ايك غفلت و لغزش نے اسے ہلاك كر ديا ، پھر زبير كى تلوار ہاتھ ميں ليكر حركت دى اور فرمايا ، ہائے اس تلوار نے رسول كے دل سے كيسے كيسے غم دور كئے حريم رسالت كا كيا كيا دفاع كيا ابن جرموز نے كہا ، ميں نے اپ كے سخت دشمن كو قتل كيا ہے انعام ديجئے ، اپ نے فرمايا ، اے ابن جرموز ميںنے رسول خدا سے سنا ہے كہ قاتل زبير جہنمى ہے ، مايوس ہو كر ابن جرموز يہ اشعار پڑھتا چلا گيا ميں زبير كا سر تن سے جدا كر كے على كى خدمت ميں ايا تاكہ انكى خوشنودى حاصل كروں ليكن توقع كے خلاف على نے مجھے جہنمى بنا ديا ، ہائے ، كسقدر خطرناك انعام مجھے ديا ، حالانكہ قتل زبير ميرے نزديك بكرى كے رياح كى طرح تھا ،
3_ زبير كے حالات كيلئے طبرى ، اغانى ، ابو مخنف بحوالہ شرح نہج البلاغہ ، تاريخ اعثم ، اصابہ ، مروج الذھب ، تاريخ بن كثير ، عقد الفريد ، مستدرك ، كنزل العمال ، النبلاء ذھبى اور يعقوبى سے استفادہ كيا گيا ہے
4_ طبرى ج5 ص204 ، يعقوبى ج2 ص 158 ، تاريخ بن اعثم ، تھذيب ، تاريخ بن عساكر ، استيعاب ، اصابہ ج2 ص222 ، عقد الفريد ج4 ص321، مدائنى بحوالہ شرح نہج البلاغہ ج2 ص421
5_ تاريخ بن اعثم ص176 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ج2 ص81 ، اس فرق كے ساتھ كہ ابن ابى الحديد عائشےہ كے اونٹ كو پرچم بتاتے ہيں ليكن ابن اعثم خود عاشئہ كو پرچم اور ان كے اونٹ كو علمدار لشكر قرار ديتے ہيں
6_ يہ وہى عمامہ ہے جسے رسول خدا نے حضرت على كو عطا فرماياتھا ، اسكا نام سحاب تھا ، اس كے بارے ميں زيادہ توضيح مولف كى كتاب عبد اللہ بن سبا ميں ديكھى جا سكتى ہے
7_ انت الذى قد غرك منى الحسنا
يا عيش ان القوم قوم اعدا
والخفض خير من قتال الابنا
8_ كعب بن سور قبيلہ ازد كى فرد تھے زمانہ رسول ميں اسلام قبول كيا ليكن انحضرت كى صحبت نہيں پائي ، استيعاب ميں ہے ، ايك دن كعب عمر كے پاس بيٹھے تھے كہ ايك عورت نے ا كر كہا ، اے عمر ميرا شوھر دنيا كا سب سے بڑاعابد و زاہد ہے وہ رات بھر عبادت كرتا ہے ، اور دن بھر روزے ركھتا ہے ، عمر نے يہ سنكر اسكے شوھر كى تعريف كى اور اسكے لئے مغفرت طلب كى ، عورت كو شرم ائي كہ اس سے واضح اپنى بات كہے اور اندرونى بات بيان كرے ،كعب نے عمر سے كہا ، اے خليفہ وہ عورت اپ كے پاس اسلئے نہيں ائي تھى كہ اپ كى خوشنودى حاصل كرے اسكا مقصد تھا كہ وہ نماز روزے كرتا ہے ، اور حق زوجيت ادا نہيں كرتا ، عمر نے كعب كى بات سنى تو چونك پڑے حكم ديا عورت كو حاضر كيا جائے ، تحقيق سے معلوم ہوا كہ اس عورت كا مقصد يہى تھا ، انھوں نے كعب كى معاملہ فہمى ديكھ كر اس عورت كا فيصلہ انھيں كے حوالے كر ديا ، كعب نے كہايہ مرد اپنے اوقات چار حصوں ميں بانٹ دے ، ايك حصہ اپنے بيوى بچوں سے مخصوص كر ے ، بقيہ اوقات عبادت اور دوسرے كاموں ميں صرف كرے ، اس فيصلے سے عمر كو بڑى حيرت ہوئي اسى لئے شھر بصرہ كا انھيں جج بنا ديا ، يہاں تك كہ وہ جنگ جمل كے دن قتل ہوئے
9_اس بات كى تمام باتوں كے حوالے ، طبرى ج5 ص219 ، استيعاب ص221 ، اسد الغابہ ج3 ص242 _ اصابہ ج3 ص297 ، نہج البلاغہ ج2 ص81 ، طبقات بن سعد ج7 ص94 ، تاريخ جمل شيخ مفيد ص156 ، كامل بن اثير ج3 ص242
10_ بنى ناجيہ كے قرشى ہونے پر علماء انساب ميں اختلاف ہے ، كچھ لوگ كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ كى ماں كا نام ناجيہ تھا ، ماں كے نام سے يہ خاندان مشھور ہوا ، ناجيہ بھى لوى بن غالب كے بھائي سامہ كى بيوى تھى ، اخر كا ر ناجيہ كا باپ سامہ اختلاف كى وجہ سے مكہ سے چلا گيا ، بحرين ميں رہتا تھا وہيں سانپ نے كاٹ ليا اور وہ مر گيا ، كچھ دوسرے ماھرين كہتے ہيں كہ بنى ناجيہ قريش سے نہيں ہيں كيونكہ ناجيہ اگر چہ سامہ بن لوى قرشى كى بيوى تھى ليكن سامہ اسكا لڑكا نہيں تھا ، اس نے دوسرے مرد بحرينى سے شادى كى تھى جسكا نام حارث تھا ، وہ بچپن ميں يتيم ہو گيا ، ناجيہ اسے ليكر مكہ اگئي اور كعب سے كہا يہ اپ كے بھائي كا بيٹا ہے ، كعب نے قبول كر ليا اتفاقا ايك بحرينى نے اكر سارا واقعہ بيان كيا تو حارث نے چچا كى مخالفت كى وجہ سے بحرين واپس گيا ، اسى لئے وہ قريشى نہيں ہے اغاني--:10/203_205، شرح نہج البلاغہ :3/120_ 121
11_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 81 ، طبرى ج5 ص 211 ، كامل ابن اثير ج3 ص 98
12_ مروج الذھب در حاشيہ كامل ج5 ص 199 ، كامل بن اثير ج3 ص 100
13_ طبرى ج5 ص 213
14_ ان دونوں رجز كا متن شرح نہج البلاغہ ج1 ص 252_256
15_ شرح نهج البلاغه ج1, ص, 261,262 تاريخ ابن اعشم
16_شرح نهج البلغه ج1, 261,و فتوح ابن اعشم
17_ عبد الله كے باپ زبير كى ماں صفيه جناب رسول خدا(ص) كى پھو پھى تھى اسى رشته دارى كى وجه سے مالك اشتر نے ابن زبير كو قتل نہيں كيا
18_ طبرى 5 _ 210 _ 211 _ ;4 ;2 شرح نہج البلا غہ 871 شرح خطبہ كنتم حيندالمراتہ كے ذيل ميںكامل بن اثير 3_99 عقدالفريد 4_ 326 لجنتہ التاليف _ تاريخ بن اعثم _ مروج الذھب _
19_ طبرى ج5 ص 207
20_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص 88
21_يہ شعار وہ ہے جب مسلمانوں نے حكم رسول كے مطابق بعض جنگوں ميں استفادہ كياتھا يہ دونوں فقرے دو لفظوں سے تشكيل پاتے ہيں ايك ہے يا منصور ( يعنى اے لوگو جو خدا كى مدد ونصرت تلے ہو )جملہ دوم ہے اصمت يعنى قتل كرو ا ن دونوں فقروں كا مجموعہ يہ معنى ديتا ہے كہ اے لوگوں جو خدا كى مدد ونصرت سے سرفراز ہو _ا ے لوگو ںجو حق پر ہو ان لوگو كو قتل كر دو جوظالم ہيں اور حق سے دور ہيں
22_ شرح نھج البلاغہ ابى الحديد 1 _ 87
23_طبرى ج5 ص 218
24_ شرح نہج البلاغہ ج2 ص 81
25_ سورئہ طہ ايت 90
26_ شرح نہج البلاغہ ج1 ص 89
27_ جاہلى عہد كاطريقہ يہى تھا _ ابو بكر نے بھى يہى روش اپنائي تھى جن لوگوں نے انكى بيعت سے سرتابى كى تھى انكے ساتھ بھى جاہلى عہد كا سا سلوك كيا تھا _ ملاحظہ ہو كتاب عبداللہ بن سبا _ اس طرح جن لوگوں نے ابو بكر كو زكوة دينے سے انكار كيا تھا ان سے جنگ كى اور ان سے كفار مشركين كاسا برتاو كيا _ ان كا مال لشكر والوں ميں تقسيم كيا _ اسى وجہ سے جنگ جمل ميں لشكر والوں كو اشتباہ ہواجس كى وجہ سے انھوں نے حضرت على كے اسلامى وانسانى برتاو پر اعتراض كيا _
28_ تاريخ يعقوبى ، كنز العمال ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ، ميں ان تفصيلات كو ديكھا جا سكتا ہے _
29_ عقد الفريد ج4 ص 328 ، شرح نہج البلاغہ ج2 ص 82 ، تاريخ اعثم كوفى ص 181 ، تاريخ يعقوبى ج2 ص 212 ، مروج الذھب ج5 ص 197
30- سوره تحريم آيه 66
31_ ترجمہ فتوح بن اعثم ج2 ص 339_ 340
32_ عبداللہ بن جعفر حضرت على (ع) كے بھائي جعفر كے صاحبزادے تھے _ قرشى وہاشمى تھے
33_ عقد الفريد ج4 ص 328 ، شرح نہج البلاغہ ج2 ص 82 ، تاريخ يعقوبى ج2 ص 213 ، مروج الذھب ج5 ص 197
34_اسد الغابة ج 30 ص 133 ، استيعاب ص 422
35_ طبرى ج5 ص 218 ، عقد الفريد ج4 ص 32