تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار عهد امير المومنين (ع)
 

عارضى طور سے نماز پڑھائے جبتك كہ عائشه كو اخرى فتح حاصل نہ ہوجائے ، اس كے بعد وہ اپنا فيصلہ سنائيں گى كہ ان دونوں ميں سے كون مستقل خليفہ بنايا جائے _

ايك دوسرا اختلاف
پھر ايك دوسرا اختلاف بھى طلحہ و زبير كے درميان پيدا ہو گيا وہ يہ كہ ان دونوں ميں سے كس كو امير كہہ كے خطاب كيا جائے اور امير كہہ كے سلام كيا جائے _
اس بارے ميں ابو مخنف كہتا ہے كہ طلحہ اور زبير كو سلام كرنے كى نوعيت كے بارے ميں مورخين كے درميان اختلاف ہے ، بعض تاريخوں ميں ہے كہ جب عائشه نے زبير كو سردار لشكر معين كيا تھا تو صرف انھيں كو خطاب كرتے ہوئے السلام عليك ايھا الامير كہا جاتا تھا _
ليكن دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ طلحہ اور زبير دونوں ہى كو امير كہہ كے خطاب كيا جاتا تھا ، اور سلام كے موقعہ پر دونوں ہى كو اس لقب سے سرفراز كيا جاتا تھا (1)_

خطوط و پيغامات
طبرى كا بيان ہے كہ :حضرت على (ع) ابن ابى طالب نے جب لشكر عائشه كے حالات سنے تو اپنے لشكر كے ساتھ مدينے سے زاويہ اور وہاں سے بصرہ كى طرف نكل پڑے _
لشكر عائشه كو بھى حضرت على (ع) كے امد كى اطلاع ہوگئي اور بصرہ سے ان كے لشكر كى طرف بڑھا ، يہ دونوں لشكر اس جگہ ايك دوسرے كے امنے سامنے ہوئے جسے بعد ميں قصر عبيداللہ بن زياد كے نام سے پكارا جانے لگا _
ليكن تين روز تك دونوں لشكر كى طرف سے كسى قسم كى جنگ يا جھڑپ نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں اكيلے
حضرت على (ع) بطور اتمام حجت لشكر عائشه كے سرداروں كو بار بار خطوط لكھتے رہے يا كچھ لوگوں كو سفير بنا كر انكى جانب بھيجتے رہے ، كبھى كبھى خود بھى ان لوگوں سے براہ راست ملاقات فرماتے _ اپ كى كوشش تھى كہ كسى طرح بھى ہو يہ جنگ اور خونريزى نہ ہو ، اور اپ ان لوگوں كو فتنہ و فساد سے باز ركھ سكيں _

طلحہ و زبير كو خط
طبرى نے اس موقع پر اتنے ہى پر اكتفا كى ہے ، اور گفتگو يا اتمام حجت اور خطوط كا متن نہيں لكھا ہے ، ليكن كچھ گفتگو اور خطوط كو ابن قتيبہ ، ابن اعثم اور سيد رضى نے نقل كيا ہے انھيں ميں ايك خط حضرت على نے طلحہ و زبير كو لكھا تھا اسے اپ عمران بن حصين كے ذريعے انھيں بھيجا ، خط كا متن يہ ہے _
بعد حمد خدا اور صلواة بر رسول (ص) ........ اے طلحہ اور اے زبير تم لوگ اچھى طرح جانتے ہو حالانكہ چھپا رہے ہو ، كہ ميں نے لوگوں كو نہيں بلايا تھا اور نہ اپنى بيعت كى خواہش كى تھى ، بلكہ لوگ خود ہى ميرى طرف بڑھے تھے اور ميرى بيعت كى خواہش كى تھى ، ميں نے بيعت كا ہاتھ انكى طرف نہيں بڑھايا تھا ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے خود اپنى بيعت كا ہاتھ ميرى طرف بڑھايا ، اور تم دونوں نے بھى بغير اسكے كہ ميں تمھيں دعوت دوں ميرى طرف ائے تھے ، اور تم نے خود ہى ميرى بيعت كى تھى اور عہد و پيمان باندھا تھا _
ميرے پاس قدرت و توانائي نہيں تھى كہ لوگ ميرى بيعت كرتے ، ميرے پاس مال و دولت بھى نہيں تھا كہ اسكى لالچ ميں ميرى طرف اتے بلكہ انھوں نے اپنى خواہش اور اختيار سے ميرى بيعت كے لئے بڑھے اور مجھے اس عہدے كے لئے منتخب كيا _
تم نے بھى اگر اپنے اختيار سے ميرى بيعت كى اور عہد كيا ، تو اب جتنى جلدى ہو سكے واپس ائو اور بيعت شكنى سے ، جو بد ترين عمل ہے ، نادم و پشيمان ہو كر اپنے جرم سے توبہ كرو _
اور اگر تم نے بغير ميلان اور رغبت كے بيعت كى تھى اور دل ميں نا فرمانى اور گناہ كى نيت ركھتے تھے تو اپنے عمل سے خود ہى تم نے اعتراض كے دروازے كھولے ، كيونكہ بغير كسى زور زبردستى كے جس پر ايمان نہيں ركھتے تھے اسكا مظاہرہ كر كے نفاق كى ڈگر اپنائي ، اور اب جو تقيہ كى بات كر رہے ہو تو خداكى قسم يہ لچر بہانے كے سوا كچھ بھى نہيں ، كيونكہ
جو لوگ تم سے كمزور اور طاقت و حيثيت كے اعتبار سے كمتر تھے ، وہ خوف و تقيہ كے زيادہ سزاوار تھے ، انھوں نے نہ تقيہ كى بات كى اور نہ اپنى بيعت كو خوف و تقيہ پر بنا ء كيا _
اگر تم دونوں نے پہلے دن ميرى بيعت نہ كى ہوتى ، عہد و پيمان نہ باندھا ہوتا تو تمھارے لئے اس سے بہتر تھا كہ اج بيعت توڑدى تمھارى اس بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى كا بہانہ يہ ہے كہ تم نے قتل عثمان كا الزام ميرے اوپر تھوپا ہے اور اپنے كو اس جرم سے برى قرار دے رہے ہو _
اس حقيقت كو واضح كرنے كيلئے كيا ہى بہتر ہوتا كہ ميرے اور تمھارے بارے ميں سوال كيا جائے كہ كون اس سے علحدہ تھا اور ايك تيسرا شخص بغير جانبدارى كے اس بات كى تحقيق كرے اور جسے بھى قتل عثمان ميں شريك پائے ، يا جتنى مقدار ميں خون عثمان اسكى گردن پر ہو وہ اپنے مقدار جرم كے مطابق سزا پائے _
پس اے طلحہ اور اے زبير اے بوڑھو اس فاسد خيال اور خطرناك ارادے سے باز ائو ، بات بنانے اور بہانے كرنے كا سلسلہ ختم كرو ، جنگ و خونريزى سے پر ہيز كرو _
اے طلحہ و زبير ، اج تم صرف عار و ننگ سے ڈر رہے ہو ليكن اگر تم نے ميرى نصيحت پر عمل نہ كيا تو كل قيامت كے دن اتش جہنم ميں جھونك ديئے جائو گے (2)

زبير كو پيغام
امير المومنين نے طلحہ و زبير كو يہ خط لكھا ، اس خط كے علاوہ بھى خاص طور سے اپنے چچيرے بھائي ابن عباس كو زبير كے پاس بھيجا اور انھيں يہ حكم ديا _
اے ابن عباس جس وقت تم ميرا يہ پيغام زبير كو پہونچائو تو وہاں پر طلحہ موجود نہ ہو ، كيونكہ وہ شخص نہايت متكبر اور خود پسند ہے ، اسكے اندر ذرا بھى لوچ نہيں ، وہ انتہائي فتنہ انگيز اور ہنگامہ پر ور ہے ، وہ اپنا مطلب بر لانے كيلئے ہر ذليل حركت پر امادہ ہو سكتا ہے ، اپنى جہالت ونادانى سے سخت اور خطر ناك كاموں كو اسان و ہموار بتاتا ہے _
اے عبداللہ ، تم اكيلے زبير ہى سے ملاقات كرنا كيونكہ وہ بڑى حد تك نرم اور ملائم مزاج كا ادمى ہے _
اے عبداللہ ، زبير سے ملاقات كر كے كہنا كہ تمھارى خالہ كا بيٹا على كہتا ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ تم نے حجاز ميں مجھے پہچان ليا ، ميرى بيعت كر لى ليكن اب عراق ميں مجھے فراموش كر ديا ہے اور غيريت برت رہے ہو ؟
اے زبير تم نے كيسے اپنا مزاج بدل ديا ، مجھ سے جو مہر و محبت كا برتائو عہد شكنى اور نفرت وعناد ميں بدل ديا ( فما عدا مما بدا)(3)
اس موقع پر ابن عساكر نے كچھ اضافہ كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے زبير كو پيغام بھيجا كہ اے زبير كيا تم نے اس دن اپنى خوشى خاطر سے ميرى بيعت نہيں كى تھى ؟اج كيا ہوا كہ ميرا خون بہانے پر امادہ ہو ، مجھ سے جنگ كرنے كو اپنى لازمى ذمہ دارى سمجھ رہے ہو ؟
ابن عباس كا بيان ہے كہ مجھے جو ذمہ دارى سونپى گئي تھى اسے بجالايا ، حضرت على كى بات زبير تك پہونچا دى ليكن زبير نے اس ايك بے سر وپير كے جملے كے سوا كچھ نہ كہا كہ ہم خوف و ہراس كى حالت ميں ہيں ليكن اسى حالت ميں دل كے اندر خلافت كى ارزو بھى ركھتے ہيں_ (4)
ابن عباس مزيد كہتے ہيں كہ ہمارى گفتگو ميں عبداللہ بن زبير بھى شريك تھا ، اس سے پہلے كہ زبير كچھ كہيں اس نے جھٹ مجھ سے كہا :
اے ابن عباس على سے كہہ دو كہ ہمارے تمھارے درميان كچھ اختلافات ہيں _
ہم خون عثمان كا مطالبہ كر رہے ہيں ، ہم چاہتے ہيں كہ تم بھى خليفہ دوم كى طرح خلافت كو شورى كے حوالے كر دو اور خود كنارہ كش ہو جائو
ہمارا نظريہ ہے كہ خليفہ دوم نے شورى كے جن دو اركان طلحہ و زبير كو معين كيا تھا وہ متفق الرائے ہيں _ ليكن تم اكيلے ہو اور اقليت ميں ہو مسلمانوں كى رائے .......... كے علاوہ ام المومنين عائشه كى رائے بھى ان دونوں كے
موافق ہے ، ان دليلوں كى بنياد پر خلافت ميں تمھارا ذرہ برابر بھى حصہ نہيں ہے (5)
ابن عباس جيسے نكتہ سنج اور دانشمند كى رائے اس بارے ميں يہ ہے كہ ميں نے عبداللہ بن زبير كے اس جواب سے سمجھ ليا كہ يہ لوگ مصالحت كى رائے نہيں ركھتے ، ان كا مقصد سوائے جنگ و خونريزى كے كچھ نہيں ، وہاں سے ميں نے حضرت على كى خدمت ميں اكر تمام باتيں بيان كر ديں

عائشه كو پيغام
حضرت على (ع) نے دوبارہ ابن عباس كو بلايا اور انھيں حكم ديا كہ زيد بن صوحان كے ساتھ عائشه كے پاس جا كر كہو كہ اے عائشه تمہارے لئے پروردگار كا حكم يہ ہے كہ مرتے دم تك اپنے گھر ميں رہو ، اپنے گھر سے باہر نہ نكلو ليكن ميں كيا كروں ؟ كچھ لوگوں نے تمھيں فريب ديكر خانہ بدر كر ديا ہے ، اور اپنا الّو سيدھا كر نے اور مقصد حاصل كرنے كيلئے تمھيں اپنا ہم خيال بنا ليا ہے اور كچھ مسلمانوں نے تمہارى ہم اہنگى سے ان لوگوں كے بارے ميں دھوكہ كھايا ہے ، اور اپنے كو موت و ہلاكت ميں جھونك ديا ہے ، ا س طرح بد بختى كو اپنا مقدر بنا ليا ہے _
اے عائشه تمھيں اپنے گھر واپس چلا جانا چاہيئے ، اور مسلمانوں ميںجنگ و خونريزى برپا كرنے سے پرہيز كرنا چاہيئے _
اے عائشه ، ہوش ميں اجا ، اگر تو اپنے گھر ميں واپس نہ ہو گى تو جس اختلاف كى اگ بھڑكا ئي ہے وہ واقع ہو كر رہے گى اور بہت سے لوگوں كو اپنا لقمہ بنا ليگى _
اے عائشه تيرى ذمہ دارى سنگين ہے خدا كے غضب سے ڈر ، اس عظيم گناہ سے توبہ كر خدا تيرى توبہ قبول كرنے والا ،اور گناہوں سے صرف نظر كرنے والا ہے _
اے عائشه تجھے طلحہ كى رشتہ دارى اور عبداللہ بن زبير كى محبت اتش جہنم كى طرف نہ كھينچ لے جائے اور
89
عذاب جہنم ميں نہ گرفتار كر دے (6)
يہ حضرت على (ع) كے خطوط اور پيغامات كے نمونے تھے جنھيں اپ نے جنگ روكنے كے سلسلہ ميں اتمام حجت اورہر قسم كے بہانوں كى راہ بند كرنے كيلئے لشكر عائشه كے سرداروں كے پاس بھيجے

طلحہ و عائشه كا جواب
حضرت على نے جن لوگوں كو مامور فرمايا تھا انھوں نے عائشه كے پاس اپ كا پيغام پہونچا ديا
عائشه نے جواب ميں كہا كہ ميں على سے بات نہيں كرونگى نہ انكى بات كا جواب دونگى ، كيو نكہ مجھے على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كا مقابلہ كرنے كى تاب نہيں ، حضرت على كے پيغام بروں نے عائشه كے پاس سے واپس جاكر انكى بات حضرت على (ع) سے بيان كر دى (7)
بعض تاريخ نگاروں نے لكھا ہے كہ طلحہ نے اپنے ساتھيوں سے كہا :
اے لوگو على كے لشكر پر چڑھ دوڑو اور ان كے ايلچيوں كى بات پر كان نہ دھرو ، كيونكہ على كى طاقت لسانى اور حسن بيان كے مقابلے ميں اپنے نظر يئے كى حفاظت نہ كر سكو گے انكى باتوں كى وجہ سے متاثر ہو جائو گے اور اپنے عقيدے سے ہاتھ دھو بيٹھو گے (8)
اس طرح طلحہ نے اپ كى منطقى باتوں كا جواب مغالطہ بازى سے ديا _

ہيجان انگيز تقريريں
عبداللہ بن زبير كى تقرير
جيسا كہ پہلے اشارہ كيا گيا ان تين دنوں ميں جبكہ حضرت على (ع) اور عائشه كا لشكر امنے سامنے تھا اور بالكل تيار كھڑا تھا حضرت على (ع) نے وہ تمام ممكنہ وسيلہ اختيار كيا جس سے جنگ كى اگ ٹھنڈى ہو جائے اور فتنہ ختم ہو جائے _
ليكن لشكر عائشه حضرت امير المومنين كے بر خلاف جنگ كى اگ بھڑ كانے كيلئے برابر گرم اور ہيجان انگيزتقريريں كرتا رہا اور اپنى اتشيں باتوں سے لوگوں كو ابھارتارہا انہى ہيجان ................. تقريروں ميں ايك عبداللہ ابن زبير كى اتشيں تقرير ہے جو فوجيوں كو ابھارنے كيلئے كى گئي ، وہ يہ تھى _
اے لوگو ہوش ميں اجائو ، على ابن ابى طالب نے خليفہ بر حق عثمان كو قتل كيا ، اج وہ ايك لشكر جرار ليكر تمھارے محاذ پر كھڑے ہيں وہ چاہتے ہيں كہ تم لوگوں پر مسلط ہو جائيں اور تمام اختيارات اور معاملات اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، تمہارے شہر پر قبضہ كر ليں ، تمھيں چاہيئے كہ اپنى تمام قوتوں اور توانائيوں كو اكٹھا كر كے مردانہ وار اٹھ كھڑے ہو ، اپنى بود و باش اور اب و ہوا كو على كے ظالمانہ ہاتھوں سے محفوظ كرو ، اپنے استقلال و شرافت اور اپنى عورتوں اور بچوں كا دفاع كرو_
اے بصرہ والو تم كيسے اس ذلت و خوارى پر راضى ہو جائو گے كہ كوفے والے تمھارى سر زمين پر چڑھ دوڑيں اور تمھيں اپنے شہر و ديار سے نكال باہر كرديں _
اے لوگو اٹھ كھڑے ہو ، تم ان پر غضبناك ہو جائو ،كيونكہ وہ تم سے غضبناك ہيں ، تم ان سے جنگ كرو كيو نكہ وہ تم سے جنگ پر امادہ ہيں _
اے لوگو على اپنے سوا كسى كو اس خلافت كا لائق و سزوار نہيں سمجھتے ،خدا كى قسم اگر وہ تم پر كامياب ہوگئے تو تمھارى دين و دنيا كو تباہ كر دينگے _
عبداللہ ابن زبير نے لوگوں كو ابھارنے كيلئے ايسے ہى لچر داراور لوچ مطالب پر مشتمل بہت زيادہ باتيں كہہ ڈاليں_

امام حسن (ع) نے جواب ديا
عبداللہ بن زبير كى باتيں جب امام كے كانوں ميں پڑيں تو اپ نے بھى اپنے فرزند امام حسن سے فرمايا :
بيٹے تم بھى اٹھ كر عبداللہ ابن زبير كا جواب دو ، امام حسن كھڑے ہوئے اور حمد و ثنا ئے الہى كے بعد لوگوں سے كہا ، اے لوگو جو باتيں عبداللہ بن زبيرنے ميرے بابا حضرت على كے بارے ميں كہيں ، ہم نے اسے سنا ، اس نے ميرے بابا پر
قتل عثمان كا الزام لگايا ہے ، اس كے علاوہ بھى مہمل اور بيكار باتيں زبان پر جارى كى ہيں ، حالانكہ تمھارا ہر شخص جانتا ہے كہ اس كا باپ زبير عثمان كے بارے ميں كيا كيا بد گوئياں كرتا ہے ؟ اور كيسے كيسے برے القاب سے نوازتا رہا كيا كيا تہمتيں اور جھوٹى باتيںعثمان كے خلاف گڑھتا رہا ؟ سب كو ياد ہے كہ ...................... عثمان كى حيات و خلافت كے زمانے ميں طلحہ نے اتنى جرائت پيدا كر لى تھى كہ بيت المال كے كوٹھے پر ايك دن پرچم لہرا كر عملاً اپنى مخالفت كا اعلان كر ديا تھا ، ايسے بد ترين ماضى كے ساتھ جو انھوں نے عثمان سے برتا اج وہ ميرے بابا پر قتل كا الزام كيسے لگا رہے ہيں ، اور كس منھ سے برائي كر رہے ہيں ؟ اگر ميں بھى چاہوں تو ان دونوں كے بارے ميں اس سے زيادہ باتيں كہہ سكتا ہوں اور اس سے بہت زيادہ حقائق روشن كر سكتا ہوں _
ليكن اس نے جو يہ بات كہى ہے كہ حضرت على لوگوں كى مرضى كے خلاف غاصبانہ طريقے سے ان پر حكومت كر رہے ہيں ، اس نا مناسب اور جھوٹے اعتراض كے مقابل ،ميں بھى اس كے باپ پر اعتراض كرتا ہوں كہ زبير نے بغير كسى جواز كے ميرے باپ كى بيعت توڑ دى اور اس نامناسب عمل كى ، يہ توجيہ كررہے ہيں كہ ان كى بيعت مرضى اور رغبت سے نہيں تھى _
يہ بات نہ تنہا ان كے عمل كو جائز نہيں ٹھہراتى بلكہ ان كے عصيان اور مخالفت كو بھى اشكار كرتى ہے كيونكہ وہ اپنى اس بات سے اپنى بيعت كا اعتراف تو كر رہے ہيں اور اپنے عہد كا برملا اظہار بھى كر رہے ہيں اس طرح وہ اپنى شخصيت كو بيعت شكن كى حيثيت سے متعارف كرا رہے ہيں _
يہ جو عبداللہ نے بات كہى ہے كہ كوفيوں كا لشكر بصرہ والوں پر مسلط ہو جائيگا يہ انتہائي مضحكہ خيز ہے كيو نكہ باطل پر حق كا تسلط اور باطل كو خاك چٹانا تعجب خيز بات نہيں ، يہ فطرى بات ہے كہ جب حق ميدان ميں اترتا ہے تو باطل اپنا بوريہ بستر باندھ كر جگہ خالى كر ديتا ہے_
اس نے عثمان كے مددگاروں كے بارے ميں بھى بات كہى ہے كہ جو واقعى مغالطہ سے بھر پور ہے كيو نكہ ہم عثمان كے ساتھيوں سے كوئي اختلاف نہيں ركھتے نہ ان سے جنگ كر رہے ہيں ، ہمارا مقصد صرف يہ ہے كہ يہ شتر سوارعورت اور اس كے ساتھيوں سے جنگ كى جائے ، يہ لوگ بھى واقعے ميں عثمان اور اس كے ساتھيوں سے كوئي ارتباط نہيں ركھتے (9)

حضرت على (ع) كى اخرى تقرير
امير المومنين نے ان تين دنوں ميں صلح و صفائي كى بہت كوشش كى اور اس راہ ميں اپنى تمام توانائياں صرف كر ڈاليں ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ كوئي نتيجہ بر امد نہ ہوا اور اپ كے ايلچى لشكر عائشه سے نا اميد واپس ائے اور امير المومنين كو بتا ديا كہ طلحہ و زبير جنگ كا مصمم ارادہ كئے ہوئے ہيں _
اس وقت حضرت على (ع) اپنے لشكر كے درميان كھڑے ہوئے اور اخرى بار اپ نے يہ تقرير فرمائي :
حمد و ثنائے الہى اور پيغمبر پر صلوات كے بعد ارشاد فرمايا :
ميرے ساتھيو ميں نے ان لوگوں كو تين دن مہلت دى اور اس مدت ميں انھيں بيعت شكنى سے باز ركھنے كى كوشش كى ان كے طغيان و سر كشى كو ثابت كيا تاكہ شايد اپنے جاہلانہ ارادے سے باز اجائيں ، ليكن انھيں شرم نہيں ائي اور اپنے ارادے سے باز نہيں ائے اور اب انھوں نے ميرے پاس پيغام بھيجا ہے كہ امادئہ جنگ ہو جائوں اور ان كے نيزہ و شمشير كو اپنے اوپر قبول كروں _
وہ لوگ كہتے ہيں كہ على كو باطل ارزوئوں نے مغرور بنا ديا ہے خواہشات نفسانى نے فريب ديا ہے ، ان كى باتوں پر افسوس ہے ، ان كى مائيں ان كے سوگ ميں بيٹھيں ، كيونكہ وہ باطل كى راہ پر چل پڑے ہيں ، مجھے جنگ كى پرواہ نہيں كہ مجھے جنگ (تلوار اور نيزے ) سے ڈرا يا جائے ، ہاں ، جو مجھے نيزہ و تلوار كى دعوت ديتا ہے وہ انصاف سے دور نہيں جارہا ہے ، كيونكہ ميں اول روز سے نيزہ و تلوار سے اشنائي ركھتا ہوں '' و لقد انصف القارہ من راماھا ''(10) ان لوگوں نے ميرے جنگ اور عملوں كو ديكھا ہے اور ميرى ضرب كو اپنى انكھوں سے مشاہدہ كيا ہے ، انھيں ميرى تلوار كا سامنا كرنے كيلئے تيار ہو جانا چاہيئے نہ كہ مجھے جس كو امادہ ہونے كى كوئي ضرورت نہيں ہے ، كيو نكہ ميں وہى فرزند ابو طالب ہوں جس نے مشركوں كى مضبوط صفيں توڑيں ہيں اور ان كى جميعت كو پراكندہ
93
كيا ہے ، اج بھى ميں وہى مضبوط بازو اور دل كے ساتھ ان پر حملہ كروں گا اور ان كى صفيں درہم برہم كروں گا _
اے لوگو ميں اپنے مقصد پر ايمان ركھتا ہوں اور حق و عدالت پر گامزن ہوں اسى وجہ سے يقين ركھتا ہوں كہ اللہ ميرى نصرت و مدد فرمائيگا اور مجھے كاميابى عطا كريگا _
اے لوگو سمجھ لو كہ موت انسان كى اخرى سر نوشت ہے وہ سب كو اپنے گھيرے ميں لے لے گى اور كسى كو اس كے چنگل سے نجات نہيں اگر كوئي شخص ميدان جنگ ميں بھى قتل نہ ہو تو انپى طبعى موت سے مرے گا ،پس كيا اچھا ہے كہ يہ انسان خدا كى راہ ميں اور اس كى رضا و خوشنودى كيلئے جان دے اور اللہ كى راہ ميں اپنا خون قربان كر دے _
على كے خداكى قسم اگر ہزار مرتبہ بھى ميدان جنگ ميں قتل كيا جائوں تو يہ ميرے لئے اس سے كہيں زيادہ پسند يدہ ہے كہ ميں نرم بستر پر اپنى موت مروں _
اس تقرير كے بعد امير المومنين نے اپنا رخ اسمان كى طرف كر كے كہا خدايا طلحہ نے ميرى بيعت توڑى اور مجھ سے جو عہد كيا تھا روند ڈالا ، اس نے لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايايہاں تك كہ وہ قتل كئے گئے پھر ميرے اوپر اس قتل كا الزام لگا ديا _
پرور دگارا تو اس بات پہ اسے مہلت نہ دے _
اے مہر بان خدا زبير نے ميرے ساتھ قطع رحم كيا ، ميرى بيعت توڑى ، ميرے دشمنوں كى مدد كى ، خدايا ، اپنى ہر راہ سے مجھے اس كے شر سے محفوظ ركھ
حضرت على نے يہى پر اپنى تقرير ختم كى اس كے بعد ابن اعثم كے بيان كے مطابق دونوں لشكر ايك دوسرے كى طرف بڑھنے لگے اور ايك دوسرے سے نزديك ہو گئے
اس موقعہ پر حضرت على كے لشكر كى تعداد بيس ہزار تك پہنچ گئي تھى ، طلحہ و زبير كے لشكر كى تعداد تيس ہزار تھى (11)_

حضرت على (ع) نے اپنے جنگى پروگرام كا اعلان فرمايا
طبرى كا بيان ہے كہ حضرت على اور عائشه كے لشكر نے بروز پنجشنبہ 15 جمادى الثانيہ 36ھ امنے سامنے
صف ارائي كى (12) تين دن تك تيار حالات ميں كھڑے رہے ، حملہ يا كوئي جنگ ان كے درميان واقع نہيں ہوئي ، ان تين دنوں ميں حضرت على (ع) كى كوشش رہى كہ معاملہ صلح و صفائي پر انجام پا جائے ، ليكن اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا ، اپ صلح سے قطعى مايوس ہو گئے ، اپ نے جب ملاحظہ فرمايا كہ جنگ بہر حال ہو كر رہے گى تو اپنے لشكر كى تنظيم كيلئے عمومى پروگرام كا اعلان فرمايا ، مورخين نے حضرت على (ع) كے جنگى پروگرام كو تفصيل سے بيان كيا ہے _
حاكم نے مستدرك ميں اور ملا على متقى نے كنزالعمال ميں يحيى بن سعيد كے چچا كا بيان نقل كيا ہے _
جنگ جمل كے دن حضرت على (ع) نے اپنے لشكر والوں كے سامنے بلند اواز سے اعلان فرمايا :
اے لوگو تم دشمن كى طرف تير اندازى نہ كرو ، كسى پر تلوار يا نيزے سے حملہ نہ كرو ، جنگ و خونريزى ميں سبقت نہ كرو ، ان سے نرمى اور ملائمت سے بات كرو_
اے لوگو اگر كوئي شخص اس خطرناك موقعہ پر ہدايت كى راہ پالے تو قيامت كے دن بھى ہدايت يافتہ رہيگا _
اس پروگرام كو نقل كرنے والے ايك شخص كا بيان ہے كہ ہم ظہر تك اسى حالت انتظار ميں رہے اور حضرت على كے فرمان كے مطابق جنگ ميں پہل نہيں كى ليكن عائشه كے لشكر سے اوازيں اور فرياديں بلند ہوتى رہيں ، يا لثارات عثمان ، اے عثمان كا انتقام لينے والو اٹھو يہ اواز پورے صحرا ميں گونجتى رہى _
محمدبن حنفيہ ہاتھ ميں علم ليكر اپنے والد كے اگے ايك ٹيلے پر كھڑے تھے وہ دشمن كے لشكر كو اچھى طرح ديكھ سكتے تھے اور ان كى اوازيں پورے طور پر سن سكتے تھے امام نے انھيں پاس بلا كر پوچھا ، اے محمد يہ لوگ كيا كہہ رہے ہيں ؟ اور ان كى اوازيں كيو ں بلند ہے ؟
محمد نے كہا بابا جان ، يہ جنگى شعار بلند كر رہے ہيں ، يالثارات عثمان ، اس طرح وہ اپنے ساتھيوں كو انتقام خون عثمان پر ابھار كر جنگ كيلئے امادہ كر رہے ہيں _
اس وقت حضرت على (ع) نے ہاتھ بلند كر كے دعا كي ............. اے خدا اج تو قاتلان عثمان كو ذلت كى خاك چٹا دے اور انھيں نا كام كر دے ،(13)دوسرے مورخين نے لكھا ہے كہ اس دن دونوں لشكر امنے سامنے ہوئے تو حضرت على نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا :
95
جب تك دشمن جنگ شروع نہ كرے تم جنگ ميں پہل نہ كرنااور ان پر سبقت نہ كرنا ، پھر فرمايا : خدا كا شكر ہے كہ حق ہمارے ساتھ ہے اور جنگ ميں پہل نہ كرنا بھى ہمارى حقانيت كى دليل ہو گى اس كے بعد فرمايا :
جنگ شروع ہونے كے بعدجو نيزے سے زخمى ہو جائے اسے قتل نہ كرنا ، كاميابى كے بعد بھاگنے والوں كاپيچھا نہ كرنا ، مقتولوں كو عرياں نہ كرنا ، اور ان كے جسم كا مثلہ نہ كرنا ، اگر دشمن كے گھروں پر پہنچنا تو بے پردگى نہ كرنا ، ان كى عورتوں پر زيادتى نہ كرنا ، گھر كے اندرونى حصے ميں داخل نہ ہونا اور نہ ان كا مال و دولت لوٹنا _(14)
اس موقعہ پر مسعودى نے اضافہ كيا ہے كہ حضرت على (ع) نے اپنے ساتھيوں سے كہا كہ دشمن كى جو دولت ميدان جنگ ميں مل جائے اسے مال غنيمت كى طرح مت لوٹنا ،ان كى عورتوں كو تكليف نہ پہچانا چاہے وہ تمھيں گالياں بھى ديں اور تمھارے بزرگوں كو برا بھلا بھى كہيں كيونكہ ان كى عقل ناقص ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى اذيت سے منع كيا ہے چاہے وہ كافر ہى ہوں ، بالاخر معمولى زيادتى بھى يہاں تك كہ عورتوں كو سرزنش بھى ممنوع ہے _

حضرت على (ع) نے قرآن كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا
حضرت على نے صلح و صفائي كى اپنى كو شش كا كوئي نتيجہ نہ ديكھا تو قران سے تمسك اختيار كيا كہ دشمن پر اس سے اتمام حجت كيا جائے _
اپ نے قران ہاتھ ميں ليكر بلند اواز سے فرمايا :
تم ميں كون ہے ، كہ اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كو اس كى طرف دعوت دے يہاں تك كہ وہ اس راہ ميں جان سے ہاتھ دھو بيٹھے گا اور شھادت سے سرفراز ہو گا _
اس وقت ايك جوان سفيد لباس ميں ملبوس پڑا ہوا ، اس نے كہا اے علي ميں اس موت كى راہ كو عاشقانہ طريقے پر اپنے لئے خريدتا ہوں _
حضرت على (ع) نے دوسرى بار لوگوں سے فرمايا :
كون ہے جو اكيلے اس لشكر كے سامنے كھڑا ہو اور انھيں قران كى دعوت دے ، اس راہ ميں حتمى موت سے نہ ڈرے _
وہ جوان دوسرى بار بھى كہنے لگا ............... يا امير المومنين ميرى جان اپ پر فدا ، ميں اس ذمہ دارى كيلئے نيزہ و شمشير سے ہراساں نہيں ہوں اور نہ مجھے موت كى پرواہ ہے _
امير المومنين نے قران اس جوان كے حوالے كيا ، اور و ہ دشمن كى طرف روانہ ہو گيا ، اس نے عائشه كے فوجيوں كو قران ہاتھ ميں ليكر دعوت دى اس حال ميں لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كا ہاتھ جسم سے جدا كر كے زمين پر ڈال ديا _
اس جوان نے بھر پور حوصلے كے ساتھ قران بائيں ہاتھ ميں لے ليا اور انھيں تبليغ كرتا رہا ، لوگوں نے پھر اس پر حملہ كر كے بائياں ہاتھ كاٹ ڈالا ، وہ اس حالت ميں كہ قران اس كے سينے پر تھا اور خون اس كے دونوں ہاتھوں سے جارى تھا اپنى جان جاں افريں كے سپرد كر دى (15)
طبرى نے يہ داستان اس طرح لكھى :
حضرت على (ع) نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا: كہ كون ہے جو اس قران كو ہاتھ ميں ليكر دشمن كے سامنے جائے اور انھيں اطاعت فرمان كى دعوت دے اور ايسى استقامت و فدا كارى كا مظاہرہ كرے كہ اگر ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دوسرے ہاتھ ميں ليلے ، اور اگر دوسرا ہاتھ بھى كٹ جائے تو قران دانتوں سے دبا لے اور لوگوں كو اس كے حقائق كى تبليغ كرے _
اس موقعہ پر ايك نو جوان كھڑا ہوكر بولا ............ يا على ، ميں
_ ہاں ، اے امير المومنين يہ ذمہ دارى مجھے ديجئے
على نے اپنى پيشكش دوبارہ سب كے سامنے ركھى ليكن اس غيرتمند جوان كے سوا كوئي بھى اس ذمہ دارى كيلئے امادہ نہيں ہوا كہ جس ميں لازمى طور سے موت تھى _
حضرت على (ع) نے اس وارفتہ جوان سے فرمايا كہ: دشمن كى طرف جائو اور ان كے سامنے يہ قران پيش كرو ، ان سے كہو كہ يہ قران ہمارے اور تمھارے درميان فيصلہ كرنے والا اور حاكم ہے ، اسميں جو بھى حكم ہو ہميں اسى كے مطابق عمل كرتے ہوئے خونريزى اور برادر كشى سے پرہيز كرنا چاہيئے _
وہ جوان گيا اور اپنى ذمہ دارى اچھى طرح نبھائي يہاںتك كہ دعوت قران كى راہ ميں اس كے ہاتھ كٹ گئے اس نے قران كو دانتوں سے دبا ليا اور تبليغ كرتا رہا يہاں تك كہ اپنى جان ديدى _
اس واقعہ كے بعد امير المومنين نے فرمايا ، اب ان لوگوں پر ہر حيثيت سے حجت تمام ہو گئي اور ہمارے لئے ان سے جنگ واجب ہوگئي (16)
غمزدہ مادر نے اس پيارے جوان فرزند كے سوگ ميں كچھ اشعار كہے جس كا مضمون يہ ہے _

لاھم ان مسلماً دعاھم
يتلو كتا ب اللہ لا يخشاھم

وامھم قائمة تراھم
يا تمرون الغى لا تنھاھم

قد خضبت من علق لحاھم
ترجمہ -:اے خدا تو گواہ رہنا كہ اس مسلمان جوان نے انھيں تيرى طرف دعوت دى اور ان كى تلواروں كا خيال كئے بغير قران پڑھتا رہا ، اور انكى ماں (عائشه ) بھى ان كے درميان موجود تھى ، ان كے برے كرتوت ديكھ رہى تھى ، ظلم و تعدى پر انكھيں پھر ا رہى تھى ، اس ماں نے اپنے بيٹوں كو اس راستے سے روكا نہيں جو بد بختى و ہلاكت كيطرف جارہا تھا بلكہ وہ انھيں اس ظلم و ستم پر ابھار رہى تھى ، انھيں مہندى كے بجائے خون سے خضاب كر رہى تھى _
ابو مخنف كا بيان ہے كہ: ان اشعار كو ام ذريح نے اس جوان كے سوگ ميں كہے تھے _
ابن اعثم بھى كہتا ہے كہ: وہ جوان كوفے كا باشندہ خاندان مجاشع سے تھا _
جس شخص نے اس كے ہاتھ قطع كئے وہ عائشه كا قريبى خدمتكار تھا اسى نے اسے قتل كيا _

عمار ياسر نے عائشه اور سرداران لشكر سے بات كي
ايك دن رسو ل خدا (ص) نے عمار ياسر سے فرمايا :
اے عمار تمھيں ظالم اور باغى گروہ قتل كرے گا يا عمار تقتلك الباغية
جس دن سے رسول خدا (ص) نے يہ مختصر اور تاريخى جملہ عمار كے بارے ميں فرمايا تھا وہ مسلمانوں كے درميان معيار حق بن گئے تھے ، عمار جس لشكر ميں بھى ہوتے اس لشكر كى حقانيت كا ثبوت بن جاتے ، اور انھيں كے ذريعہ سے مخالف لشكر كا باطل پر ہونا ظاہر ہو جاتا تھا _
يہى وجہ تھى كہ امير المومنين (ع) نے عمار ياسر كو عائشه اور سرداران لشكر كے پاس ملاقات كيلئے بھيجا تاكہ انھيں موعظہ و نصيحت فرمائيں شايد يہ لوگ ان كى باتيں سنكر اثر قبول كريں ، ورنہ كم از كم ان پر حجت تو تمام ہى ہو جائے گى _
مسعودى نے يہ واقعہ يوں لكھا ہے :
جنگ جمل ميں عائشه كيلئے لكڑى كا ھودج بنايا گيا ، اور مضبوط اور موٹا تختہ ديا گيا ، اس كے اوپر گائے كى كھال اور كمبل بچھايا گيا اس كے بعد ہر قسم كے خطروں سے محفوظ رہنے كيلئے بہت سى زرہوں سے ڈھانپ كر ايك اھنى ديوار كھينچ دى گئي تھى ، يہ ھودج ايسا مضبوط قلعہ بن گيا تھا ، اسے مشہور اونٹ عسكر پر ركھا گيا جسے يعلى ابن اميہ نے خريد ا تھا عائشه كا يہ اونٹ فوج كے ا گے اگے چل رہا تھا ،جب عمار ياسر نے يہ حالت ديكھى تو دونوں لشكر كے سامنے كھڑے ہو كر عائشه كے فوجيوں سے فرمايا :
اے لوگو تم نے اپنے پيغمبر(ص) كے ساتھ انصاف نہيں كيا كہ اپنى عورتوں كو تو پردے ميں بيٹھا ركھا ہے اور ان كى زوجہ كو ميدان جنگ ميں شمشيروں كے سامنے كھينچ لائے ہو _
پھر عائشه كے ھودج كے پاس پہنچ كر كہا :
اے عائشه تو ہم سے كيا چاہتى ہے
عائشه نے جواب ديا ، عثمان كا انتقام
عمار نے كہا ، اللہ ان ظالم اور باغيوں كو قتل كرے جو بغير معمولى سا حق ركھتے ہوئے انتقام كا نعرہ لگائے اس كے بعد عمار نے لوگوں سے خطاب فرمايا ، كہ تم لوگ انھيں خوب پہچان رہے ہو جو خون عثمان ميں شريك رہے ہيں ،
99
اچھى طرح جانتے ہو كہ ان دونوں لشكر ميں وہ كون لوگ ہيں جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ، ہاں تم پورى طرح جانتے ہو كہ عثمان كے قاتل وہى لوگ ہيں جو اج انتقام كے بہانے سے يہ جنگ اور اختلاف پيدا كر رہے ہيں _
اتنے ميں بارش كے قطروں كى طرح دشمن كى طرف سے عمار پر تير برسنے لگے اس وقت اپ نے يہ اشعار پڑھے

ومنك البداء و منك الغير
ومنك الرياح ومنك المطر

و انت امرت بقتل الامام
و قلت لنا انہ قد كفر

اے عائشه تم ہى نے جنگ شروع كى اور تم ہى سے خونريزى ہوئي
يہ تمام ہنگامہ اور حادثے تيرى وجہ سے پيدا ہوئے
تونے ہى خليفہ كے قتل كا فرمان صادر كيا
اور تونے ہى اس كے كافر ہونے كا فتوى ديا
عمار كيطرف مسلسل تير اتے رہے ، انھوں نے بھى اپنے گھوڑے كو تازيانہ لگا كر اپنے كو لشكر سے علحدہ كر ليا ، حضرت على كے پاس اكر اپ نے عرض كيا ، اے امير المومنين _
كب تك صبر كيا جائے اور كہاں تك انتظار كيا جائے ؟
ميں نے تو يہى ديكھا كہ يہ گروہ اپ سے بالكل جنگ پر امادہ ہے _

حضرت على (ع) نے ا خرى بار اتمام حجت فرمايا
حضرت على (ع) نے جہاں تك ممكن ہوا صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمنوں پر مختلف طريقوں سے اتمام حجت فرماكر كوئي عذر اور بہانا نہيں چھوڑا _
1_ حضرت على (ع) نے دشمن كے سرداران لشكر كو خط لكھا اور انھيں بيعت شكنى اور جنگ و خونريزى سے ڈرايا _
2_ حضرت على (ع) نے عائشه اور ان كے سرداران لشكر كو پيغام بھيجوا يا اور صلح و صفائي كى دعوت دى _
3_ حضرت على (ع) بذات خود لشكر مخالف كے بزرگوں سے ملاقات كر كے انھيں موعظہ و نصيحت فرمائي_
4_ حضرت على (ع) نے دشمنوں كے سامنے قران پيش كر كے دعوت دى اور اس كے ذريعہ اتمام حجت فرمايا _
5_ حضرت على (ع) نے اپنے ساتھيوں كو ايك جنگى پروگرام مرتب كر كے انھيں سمجھايا جس كے دفعات ميں محبت ، مہربانى ، اور صلح و صفائي تھى ، اس پروگرام ميں جن باتوں كو پيش كيا گيا تھا ان ميں انسانى ہمدردى كا عنصر زيادہ تھا اور اپنے بد ترين دشمنوں سے بھى نرمى كا برتائو كرنے كا حكم تھا _
6_ اخر كار عمار ياسر كو جو حديث رسول(ص) كے مطابق ميزان حق و عدالت تھے حضرت علي(ع) نے انھيں لشكر عائشه كى طرف بھيجا كہ وہ انھيں حق كى دعوت ديں اس طرح دوبارہ اپ نے ان پر حجت تمام كى _
ان تمام مطالب كو گذشتہ فصلوں ميں معتبر تاريخى مدارك سے ثابت كيا گيا ہے _
حضرت على (ع) نے اخرى بار اس طرح اتمام حجت فرمايا كہ جب لشكر عائشه نے حضرت على كے ساتھيوں پر تير بارانى كى تو اپ نے اپنى فوج كو صبر كى وصيت فرمائي اورا نھيں جنگ سے روكتے ہوئے فرمايا :
اللھم اشھد اعذروا الى القوم اے اللہ ، اے انصاف كرنے والے خدا تو گواہ رہنا _
اے ميرے ساتھيو صبر اور بردبارى كا مظاہرہ كرو اور چھوڑ دو كہ دشمن پر اس سے زيادہ حجت تمام ہو جائے اور ان كيلئے كوئي عذر اور بہانے كى گنجائشے نہ رہ جائے _
ہاں ، حضرت على (ع) نے اس حد تك صلح و صفائي كى كوشش كى اور دشمن پر حجت تمام كى ليكن جتنى اپ كى صلح و صفائي كى كوشش بڑھتى گئي اپ كے دشمن جنگ و خونريزى پر اتنا ہى اصرار كرتے رہے ، اب حضرت على كا اخرى اتمام حجت بھى ملاحظہ فرمايئے ، اسے معتبر مورخين نے لكھا ہے _
حاكم نے اپنى كتاب مستدرك ميں بيان كيا كہ:
زبير نے عائشه كے لشكر والوں سے جو تير اندازى پر مامور تھے حكم ديا (ارموھم برشق ) تم سب ايك ساتھ ان لوگوں پر تير بارانى كرو حاكم اگے لكھتے ہيں كہ يہ جملہ در اصل اعلان جنگ تھا جو لشكر عائشه كے سردا ر كى طرف سے صادر ہوا تھا _
ابن اعثم اور زيادہ تر مورخين نے لكھا ہے كہ :
جس طرح رسول خدا (ص) نے جنگ حنين ميں ايك مٹھى خاك ليكر دشمنوں كى جانب پھينكتے ہوئے فرمايا تھا شاھت الوجوہ ، ان كے چہرے سياہ ہو جائيں _
عائشه نے بھى اس عمل رسول (ص) سے سوء استفادہ كيا اور اسے مسلمانوں كے خلاف جنگ جمل ميں برتا ، ايك مٹھى خاك اٹھائي اور چلا كر كہا شاھت الوجوہ ، اور وہ خاك حضرت على (ع) كے لشكر كى طرف پھينك دى _
اس موقعہ پر حضرت على كے ايك فوجى نے عائشه كى سرزنش كرتے ہوئے كہا ،'' و ما رميت اذ رميت و لكن ا لشيطان رمى ''
اے عائشه تم نے يہ مٹى حضرت على (ع) كے لشكر كى جانب نہيں پھينكى بلكہ يہ شيطان كا ہاتھ تھا ،جس سے يہ نا پسند يدہ حركت ہوئي (17)
يہ تمام اقدامات اصل ميں جنگ شروع كرنے كا فرمان تھا اس كے فوراً بعد عائشه كے فوجيوں كيطرف سے باقاعدہ جنگ شروع ہوگئي _
ابو مخنف اور دوسرے مورخين لكھتے ہيں كہ:
لشكر عائشه كى طرف سے تير اندازى شروع ہو گئي اور اتنى شدت سے على كى طرف پے در پے تير ارہے تھے كہ حضرت على (ع) كے فوجى صدائے فرياد بلند كرنے لگے _
اے امير المومنين ، دشمن نے ہمارے امان كو پارہ پارہ كر ديا ہمارے صبر كا دامن چاك كر ديا _
اپ بھى فرمان دفاع صادر فرمايئے
اس وقت ايك شخص كا جنازہ جو تيروں سے چھلنى تھا حضرت على (ع) كے خيمے كے پاس لايا گيا ، اور كہا گيا كہ اے امير المومنين يہ فلاں شخص كا جنازہ ہے اپ كا وفادار ساتھى تھا ، اسے دشمن نے قتل كيا ہے ، امام نے اسمان كى طرف رخ كر كے دعا كى ، اے انصاف ور خدا تو گواہ رہنا اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے فرمايا ، صبر كرو ، تاكہ دشمن پر كچھ اور حجت تمام كى جائے _
ايك دوسرا جنازہ بھى لاكر كہا :
اے امير المومنين ، يہ بھى فلاں شخص ہے جو دشمن كى تيروں سے اپنے خون ميں نہا گيا ہے _
حضرت على (ع) نے پھر اسمان كى طرف رخ كيا كہا اے خدا وند قہار تو ناظر اور ميرے حق كا گواہ ہے ، اور اس بار بھى جنگ كى اجازت نہيں دى ، اپنے ساتھيوں سے فرمايا :
تمھيں دشمن كى زيادتيوں كے مقابلے ميں اور بھى زيادہ صبر كا مظاہرہ كرنا چاہيئے ، جانے بھى دو تمھارى حقانيت اور حسن نيت جتنى زيادہ ثابت ہو گى ان لوگوں پر اتنى ہى حجت تمام ہو گى _
اسى درميان رسول (ص) كے صحابى عبداللہ ابن بديل خزاعى اپنے بھائي عبدالرحمن كى خون الودہ لاش لائے اور حضرت على (ع) كے سامنے زمين پر ركھ كر كہا :
يا على يہ ميرا بھائي ہے جسے دشمنوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كيا _
حضرت على (ع) نے مختلف طريقوں سے دشمن پر اتمام حجت فرمايا تھا، اب يہاں اپنے كو مجبور پا رہے تھے اپ كيلئے جنگ كے سوا كوئي چارہ نہيں رہ گيا تھا ، اپ نے كلمہ ،''انا للہ و انا اليہ راجعون '' زبان پر جارى فرمايا اوررسول خد(ص) ا كى زرہ پہنى جس كا نام ذات الفضول تھا ، سر پر عمامہ ركھا اور رسو ل خدا (ص) كے خچر پر سوار ہوئے جس كا نام دلدل تھا ، پھر اپنى مشہور تلوار جس كا نام ذوالفقار تھا كمر ميں حمائل كى اور عقاب نام كے پرچم كو اپنے فرزند محمد حنفيہ كے حوالے كيا ، امام حسن و حسين سے فرمايا :
ميرے بيٹو چونكہ تم لوگوں سے رسو ل خدا (ص) بہت زيادہ محبت فرماتے تھے اور تم انھيں سے منسوب ہو يہى وجہ ہے كہ ميں نے علم تمہارے حوالے نہيں كيا ، اور يہ علم تمہارے بھائي محمد كے حوالے كيا _
امام اس صورت سے امادہ جنگ ہوئے اور پھر اپ نے اپنے سپاہيوں كى سمت رخ كر كے يہ ايت تلاوت فرمائي
كيا تم لوگوں نے يہ سمجھ ركھا ہے كہ يوںہى جنت كا داخلہ تمہيں مل جائيگا (حالانكہ ابھى تم پر وہ سب كچھ نہيں گذرا ہے جو تم سے پہلے ايمان لانے والوں پر گذر چكا ہے )ان پر سختياں گذريں ، مصيبتيں ائيں ، ہلا مارے گئے ، يہاں تك كہ اس وقت كا رسول اوراسكے ساتھى اہل ايمان چيخ اٹھے كہ اللہ كى مدد كب ائيگى ، اس وقت انھيں تسلى دى گئي كہ ہاں اللہ كى مدد اور كاميابى بہت جلد واقع ہو گى . سورہ بقر ايت 214
امير المومنين نے يہ ايت تلاوت فرماكر جنگ كا عزم كر ليا اپ جنگ كيلئے بڑھتے ہوئے يہ دعا كر رہے تھے
اے خدا ہم سب كو صبر و تحمل اور استقامت عطا كر ، اپنى تائيد اور كامرانى سے سرفراز فرما ، اور اگر حساس موقعہ پيش ائيں يا خطرناك حالات سامنے ائيں تو ہمارى مدد و نصرت فرما _

حضرت على (ع) كى زبير سے ملاقات
دونوں طرف كى فوجيں امنے سامنے امادہ جنگ تھيں اسى وقت حضرت على (ع) نے اپنے لشكر سے عائشه كے لشكر كى طرف حركت كى اور زبير كو اپنے پاس بلا كر كہا :
_ اے زبير تم نے كس مقصد سے اور كيا سونچكر اتنے بڑے لشكر كو اس سرزمين پر كھينچ بلايا ہے ؟
_چونكہ ميں نے تمھيں خلافت كے لائق نہيں سمجھا اس لئے اس فوج كے ساتھ ايا ہوں كہ تمھيں خلافت سے علحدہ كردو _
_اے زبير جو كچھ تم كہہ رہے ہو يہ صرف بہانہ ہے كيونكہ ميں عثمان سے كمتر نہيں ہوں ، كہ خلافت كے لائق نہ رہو ں_
اے زبير تم تو خاندان عبد المطلب كے اچھے لوگوں ميں سے اور ہمارے خاندان كى فرد سمجھے جاتے تھے ، ليكن جب سے تمھارا بيٹا عبداللہ بر سر كا ر ہوا تو ہمارے اور تمہارے درميان جدائي ڈال دى _
اے زبير مجھے تعجب ہے كہ تم خود قاتل عثمان ہو ليكن اس كا بدلہ مجھ سے چاہتے ہو _
خداوند عالم ہم دونوں ميں سے جس نے بھى عثمان سے زيادہ عداوت كا مظاہرہ كيا اسے دردناك عذاب ميں ڈالے ، اور سخت افت سے دو چار كرے _
يہاں تك كہاكہ اے زبير تمھيں ياد ہوگا كہ ايك دن ميں اور تم ايك ساتھ تھے رسو ل خدا(ص) بھى ہمارے ساتھ چل رہے تھے انھوں نے مجھ سے فرمايا ، اے على ، ايك دن ايسا ہوگا كہ يہ تمھارى پھوپھى كا بيٹا نا حق تم سے جنگ كريگا _
زبير كو فوراً حديث رسول ياد اگئي اور انھوںنے كہا :
اے على ، خدا كى قسم ميں اج كے بعد تم سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ، يہ كہا اور اپنے بيٹے عبداللہ كى طرف
واپس جا كر كہا :
اے عبداللہ ميں جس راہ جارہا ہوں اس سے بہت زيادہ فكر مند ہوں ، نتيجہ محل سے خوفزدہ ہوں ، ميں صاف صاف كہتا ہوں كہ حضرت على (ع) سے جنگ كرنا ميرے نظريہ كے موافق نہيں ہے _
عبداللہ نے كہا : اے بابا ،اپ نے پہلے دن اس راہ ميںمضبوط ايمان اور عقيدے كے ساتھ قدم بڑھايا تھا ، اپ كے چہرے پر كسى قسم كا اضطراب نہيں محسوس كيا گيا ، ليكن اج اپ نے اپنا ارادہ بدل ديا ، اپ كو اپ كے دل ميں تشويش بھر گئي ،لازمى طور سے يہ كھلے ہوئے پرچم اور اٹھى ہوئي حضرت على (ع) كى تلواروں نے رعب و وحشت ميں مبتلا كر ديا ہے اور دل ميں اضطراب بھر ديا ہے _
ہاں اے بابا ، حقيقت يہ ہے كہ اپ موت كو اپنى انكھوں سے ديكھ كر علحدہ ہو رہے ہيں ، ورنہ ہمارے مقصد كى تقديس ميں كوئي شك نہيں _
عبداللہ نے اسى طرح كى مہمل باتيں باپ سے كہيں يہاں تك كہ باپ نے غصہ ميں چلا كر كہا: تيرا جيسا بيٹا ہونا ميرے لئے افسو س ناك ہے جو باپ كو ہلاكت اور بد بختى ميں جھونك رہا ہے ، اے بيٹا ، تم مجھے حضرت على (ع) سے جنگ پر ابھار رہے ہو ،حالانكہ ميں نے قسم كھائي ہے كہ ميں ان سے ہرگز جنگ نہ كروں گا ميں اس قسم كا كيا كروں ؟
عبداللہ نے كہا: بابا يہ بہت اسان ہے ، اپ اپنى قسم توڑ ديجئے اور قسم توڑنے كے كفارے ميں اپنے غلام سرجس كو خدا كى راہ ميں ازاد كر ديجئے _
زبير نے اپنے فرزند كى ہدايت كے مطابق غلام كو اپنا كفارہ قسم ميں ازاد كر كے دوبارہ صف لشكر ميں اكر امادہ جنگ ہو گئے _
ابن اعثم كوفى نے بھى حضرت على (ع) اور زبير كى ملاقات كا واقعہ اس طرح لكھا ہے كہ :
حضرت على (ع) نے ان سے كہا :
زبير ، تم نے ميرى مخالفت كا علم كس لئے بلند كيا ہے ؟ خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے
تم اور تمھارے دوست طلحہ نے عثمان كو قتل كيا ، ان كا خون تم دونوں كى گردن پر ہے اگر واقعى سچ كہہ رہے ہو تو اپنے كو عثمان كے بيٹوں كے حوالے كر دو تاكہ وہ باپ كے انتقام ميں تم لوگوں كو قتل كرے يا ان سے باپ كا خون بہا لے لے _

واقعہ كى تفصيل
طبرى نے اس واقع كو دوسرى جگہ زيادہ تفصيل سے لكھا ہے ، وہاں اضافہ كيا ہے كہ حضرت على (ع) دونوں لشكر كے درميان اس طرح قريب ہوئے كہ گھوڑوں كى گردنيں ايك دوسرے كے امنے سامنے تھيں ، اس وقت حضرت على (ع) نے ان دونوں سے كہا :
اے طلحہ و زبير تم لوگوں نے ايك بڑا لشكر جمع كر كے زبر دست طاقت فراہم كر لى ہے ، ہر طرح كى جنگى تيارى اور اسلحہ فراہم كر ليا ہے ، حالانكہ خدائے عادل كے سامنے تم لوگوں كے پاس كو ئي عذر اور حجت نہيں ہے ، لازمى طور سے اسى كى بارگاہ ميں لا جواب ہو خدا سے ڈرو ،اس كے غضب كا خوف كرو ، تم نے خدا كى راہ ميں اسلام اور كلمہ توحيد كى بلندى كيلئے مقدس جھاد كئے ہيں ان تمام بہترين خدمات كے مقابلے ميں يہ فتنہ و فساد اور داخلى اختلاف تم لوگوں نے پيدا كر ديا ہے ، اب مسلمانوں كو موت كے منھ ميں مت جھونكو ،ان تمام اجر اور ثواب كو اس گناہ كے بدلے ميں عذاب جہنم سے مت بدلو ، اس بوڑھيا كے مانند نہ ہو جائو كہ جس نے بڑى محنت سے مضبوط رسى بٹى پھر انھيں اتنى ہى كوشش سے دوبارہ پارہ پارہ كر ديا (ولا تكونا كا لتى نقضت غزلھا من بعد قوة انكاثا )_
اس كے بعد فرمايا: اے طلحہ و زبير كيا ہم تم بھائي بھائي نہيں تھے كہ ايك دوسرے پر ذرا بھى زيادتى كو جائز نہيں سمجھتے تھے ، اج كيا ہوا ہے كہ مجھ پر ايسى شورش پيدا كى ہے اور ميرا خون مباح ہونے كا اعلان كر ديا ہے _
طلحہ نے حضرت على (ع) كى ان نصيحتوں كو سن كر كہا : اے على ، تمھارا جرم و گناہ يہ ہے كہ تم لوگوں كو عثمان كے خلاف بھڑكايا اور ان كا نا حق خون بہايا _
حضرت على (ع) نے ان كے جواب ميں يہ ايت تلاوت فرمائي ، يومئذ يوفيھم اللہ دينھم الحق ، قيامت كے دن ہر شخص كو حق كے خلاف اقدامات كى سزا دى جائيگى _
حضرت على (ع) كامقصد يہ تھا كہ جس شخص نے بھى عثمان كا خون بھايا ہے اسے سزادى جائيگى وہ اپنے كئے كا بدلہ پائيگا، اسے نہيں جس پر نا حق الزام لگايا جا رہا ہے _
اس كے بعد حضرت على (ع) نے مزيد فرمايا :
اے طلحہ ميں بنيادى طور سے خون عثمان ميں شريك نہيں تھا تم مجھ سے اس خون كا مطالبہ كيسے كر رہے ہو
؟خدا لعنت كرے اس شخص پر كہ جس كى گردن پر خون عثمان ہے _
اس كے بعد زبير سے فرمايا :
اے زبير تمھيں يا د ہے كہ ايك دن رسول (ص) خداميرے پاس سے گذرے انھوں نے جب ديكھا كہ تم مجھ سے انتہائي محبت كا برتائو كر رہے ہو اور ميں مسكرا رہا ہوں تو تم نے كہا كہ يا رسول(ص) اللہ فرزند ابو طالب اپنى خود نمائي سے باز نہيں ائے _
رسول خدا تمھارى بات سے غضبناك ہوئے اور سر زنش كرتے ہوئے فرمايا :
اے زبير ، جس طرح اج تم حضرت على (ع) پر ناحق اعتراض كر رہے ہو ، خدا كى قسم وہ دن بھى ائيگا كہ نا حق ان سے جنگ كروگے _
اس موقعہ پر حديث رسول (ص) ياد ائي اور ندامت سے سر جھكا كر كہا كہ اگر يہ حديث مجھے ياد ہوتى تو ہرگز تم سے جنگ كا اقدام نہ كرتا ، اب جبكہ ميں جنگ كے ارادے سے گھر سے باہر نكل چكا ہوں ، ميں اپنے اس ارادے سے باز اتا ہوں ، خدا كى قسم اب ميں تم سے جنگ نہيں كرونگا _
طبرى كا بيان ہے كہ:
اس گفتگو كے بعد حضرت على (ع) اپنے لشكر ميں واپس اگئے ، اپ نے اپنے سپاہيوں سے فرمايا ، زبير نے مصمم ارادہ كر ليا ہے كہ ہم سے جنگ نہ كريں گے _
زبير بھى عائشه كے پاس گئے اور كہا ، اے عائشه ، ميں نے جس دن سے ہوش سنبھالا ہے كبھى ايسا اقدام نہيں كيا كہ جس كے نتيجے كے بارے ميں ميں نے غور نہ كر ليا ہو ، سوائے اس جنگ كے جس كا نتيجہ ميرے اوپر مبہم تھا ، ميں اس كے انجام سے بہت خوفزدہ ہوں _
عائشه نے كہا : اے زبير اپنى پورى بات كہو اور جو كچھ ارادہ كيا ہے صاف صاف بيان كرو
_ميں چاہتا ہوں كہ اس لشكر سے علحدہ ہو جائوں اور اپنے گھر واپس جائوں
زبير كا بيٹا وہاں موجود تھا ، اس نے اپنے باپ كى سخت ملامت كرتے ہوئے كہا :
بابا اب جبكہ دونوں لشكر كو ايك دوسرے كے امنے سامنے كھڑا كر ديا ہے ، اور كسى وقت بھى جنگ شروع ہونے كا
احتمال ہے ايسے حساس اور خطرناك موقعہ پر انہيں اپنے حال پر چھوڑ رہے ہو فرار كو ثبات پر ترجيح دے رہے ہو ؟
اے بابا حتمى طور سے على كى تلوار اور فوج دشمن كے بہادر شہسواروں كے ہاتھ ميں پرچم ديكھ كر ايسا خوف و ہراس تمھارے دل ميں پيدا ہو گيا ہے اور اب تم نے لشكر سے كنارہ كشى كا ارادہ كر ليا ہے _
زبير نے جواب ديا ، اے عبد اللہ ، خدا كى قسم ، كہ خوف اور وحشت كى بات نہيں ہے ليكن ميں نے قسم كھا لى ہے كہ على سے جنگ نہيں كروں گا _
عبد اللہ نے جواب ميں پيشكش كي
اے بابا ، اس كى تدبير اسان ہے كہ اپ قسم توڑ ديجئے اور اس كا كفارہ ادا كر كے جنگ شروع كر ديجئے
زبير نے بيٹے كى بات مان لى اور قسم توڑ كر كفار ے ميں اپنے غلام مكحول كو ازاد كر ديا اور دوبارہ صف لشكر ميں شامل ہوگئے
عبدالرحمن ابن سليمان تميمى نے اس واقعے كو نظم كيا ہے

لم اركا ليوم اخا الا خوان
اعجب من مكفر الايمان

بالعتق فى معصية الرحمن
يعتق مكحولا يصون دينہ

كفارة للّہ عن يمينہ
والنكث قد لا ح على جبينہ

ميں نے سارى عمر ميں ايسا دن كبھى نہيں ديكھا اس شخص نے مجھے حيرت ميں ڈالا ہے ، اس شخص نے اپنى قسم توڑى اور اپنا غلام كفارے كے طور پر ازاد كيا ، تاكہ قسم توڑنے كا گناہ اس كے دامن سے پاك ہو جائے ، ليكن اپنے اس عمل سے كہيں زيادہ بد تر گناہ كا مرتكب ہوا _
ايك دوسرے شاعر نے جو زبير كا فوجى تھا اس سلسلے ميں كچھ اشعار كہے ہيں
زبير نے اپنے غلام مكحول كو كفارئہ قسم كے طور پر ازاد كيا تاكہ وہ دينى لحاظ سے عہد شكن نہ كہا جائے ليكن اس كا كيا فائدہ ؟ كيونكہ اس كفارے كو ادا كرنے كے بعد اس پر عہد شكن كا داغ اور بھى زيادہ نماياں ہو گيا _

-----------------------------------------------------
1_ ان تمام مطالب ابن ابى الحديد نے ابو مخنف كے حوالے سے نقل كيا ہے
2- ( شرح نہج البلاغہ ، الامامة و السياسة ، ابن اعثم )
3_ يہ مثل عرب ميںاس وقت بولى جاتى ہے كہ اخر كيا بات ہوئي كہ ايسا ہو گيا ؟ شرح نہج البلاغہ ج1 ص72 ، عقد الفريد ج2 ص314 ، اغانى ج 16 ص 127 ، تاريخ دمشق ج5 ص363 _365
4_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص 165 ، اغانى ج 16 ص 126
5_ اس جواب كو ابن عبد ربہ نے عقد الفريد ج4 ص 314 ميں خود زبير سے منسوب كيا ہے ،ليكن ابن ابى الحديد اور ابن عسا كر نے ابن زبير سے منسوب كيا ہے ، جواب كا لہجہ بھى بتا رہا ہے كہ يہ زبير كے بجائے ابن زبير ہى كا جواب ہو سكتا ہے _
6_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص 175
7_ تاريخ ابن اعثم ص 175
8_ تاريخ ابن اعثم ص 175
9_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص 174 ، تاريخ جمل تاليف شيخ مفيد ص 159 _ 158
10_ قارہ قريش كے قبيلے تھے جو تير اندازى ميں مشہور تھے اسى وجہ سے ان لوگوں كو بطور ضرب المثل كہا جاتا تھا كہ جو شخص قبيلہ قارہ كو تير اندازى كى دعوت دے اس نے انصاف كيا _
11_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص 175 ، ابن ابى الحديد ج1 ص 101
12_ طبرى ج5 ص 199 ، اغانى ج 16 ص 126
13_ مستدرك ج3 ص 371، كنز ل العمال ج 6 ص 85 حديث 1311
14_ يعقوبى ج 2 ص 157 _ 160 ، مروج الذھب ج5 ص 188 ، ترجمہ تاريخ ابن اعثم ، اغانى ج 6 1 ص 127 ، شرح نہج البلاغہ
15_ كنز العمال ج6 ص 85 ، طبرى ج5 ص 205 ، ابن اثير
16_ طبرى ج5 ص 24 ، كامل ابن اثير ج2 ص 104 ، شرح نہج البلاغہ ج 2 ص 431 ، بحوالہ ابن اعثم و ابو مخنف
17_ ترجمہ تاريخ ابن اعثم ص 171 ، شرح نہج البلاغہ ج1 ص 85