اللہ سے ڈرو ، اور بيعت شكنى كے گناہ سے توبہ كرو اگر تم نے خوشى سے ميرى بيعت كى تھى تو اس صورت ميں مجھے تم پر اعتراض كا حق ہے كيونكہ معلوم ہونا چاہيئے كہ تم لوگ منافق ہو اور جس عمل پر تمھارا خود ايمان نہيں تھا اسے انجام ديا ، بظاہر مجھ سے موافقت كى اور باطن ميں ميرى مخالفت كى اے طلحہ اے مہاجرين كى بزرگ فرد اے زبير اے قريش كے بہادر اگر تم نے بيعت سے پہلے ميرى مخالفت كى ہوتى تو يہ تمھارے لئے زيادہ بہتر اور ابرو مندانہ بات ہوتى جو اج ميرى بيعت كر كے پيمان شكنى كے مرتكب ہو رہے ہو _
اے عائشه تو نے بھى حكم خدا كو پائوں سے روند ڈالا اپنے شوہر رسول خدا كے ارشاد اور حكم كو نظر انداز كيا كہ حكم خدا و رسول كے خلاف اپنے گھر سے باہر نكلى _
تو ايسا كام كرنا چاہتى ہے جس كا تجھ سے كوئي تعلق نہيں اس كے باوجود تو سمجھتى ہے كہ اس طرح مسلمانوں ميں صلح و صفائي پيدا ہوگى ، واہ ، تو بھى كسقدر دھوكے ميں ہے اور حقيقت سے بہت دور نكل گئي ہے _
اے عائشه مجھے بتا ، عورتوں كو فوجى كاروائي سے كيا سرو كار ؟ كہاں عورت اور كہاں مردوں كے ساتھ جنگ كيلئے نكلنا ؟ اے عائشه حقيقت يہ ہے كہ تو مسلمانوں كے درميان فتنہ و فساد برپا كر نا چاہتى ہے اور بے گناہ مسلمانوں كا خون بہانا چاہتى ہے _
اے عائشه تو اپنے خيال ميں عثمان كا انتقام لينے كيلئے ائي ہے ، تجھے خون عثمان سے كيا سروكار تيرے لئے انتقام عثمان كا نعرہ زيبا نہيں كيونكہ وہ بنى اميہ كى فرد تھے اور تو خاندان تيم كى ہے ، كيا تو ہى نہيں تھى كہ كل ان كے قتل كا حكم ديا تھا ؟اور تو نے كہا تھا كہ اس احمق اور يہودى صفت شخص كو قتل كر ڈالو ، اسے قتل كردو يہ اسلام سے پھر گيا ہے ، اج تو كس منھ سے اس كے انتقام اور طرفدارى كيلئے كھڑى ہو گئي ہو_
اے عائشه ، خدا كا خوف كر اور اپنے گھر واپس جا ،اپنى غفلت كا پردہ چاك مت كر ، فاتقى اللہ و ارجعى الى بيتك و اسبلى عليك والسلام
يہ تھا اس مضمون خط كا خلاصہ جسے امير المومنين نے بصرہ كے نزديك منزل زاويہ سے عائشه كے سرداران لشكر طلحہ و زبير اور عائشه كو لكھا يہ ،معقول اور جھنجھوڑ دينے والا خط ان لوگوں نے پڑھا ليكن ان لوگوں پر اس كا كوئي اثر نہيں ہوا اور نہ ان لوگوں نے جواب ديا _
بعض مورخوں نے لكھا ہے كہ عائشه نے اس خط كا يہ جواب ديا _
اے ابو طالب كے فرزند ہمارا اقدام عتاب و ملامت سے گذر چكا ہے اور اب ہم ہرگز تمھارا حكم نہيں مان سكتے تم سے جو بن پڑے كر ڈالو اور جو كچھ تمھارے قبضے ميں ہو ہمارے لئے اٹھا نہ ركھو (1)
تاريخ اعثم كوفى ميں ہے كہ طلحہ و زبير نے حضرت على كا تحريرى جواب نہيں ديا ليكن زبانى پيغام بھيجا كہ
اے على تم نے بہت سخت و سنگين راہ اختيار كى ہے اس راستے پر چلنا اپنے لئے لازمى سمجھ رہے ہو ، اب ہمارے لئے بھى سوائے اس كے كوئي راستہ نہيں كہ تمھارا حكم مانيں اور تم اس كے سوا كسى بات پر راضى نہيں ہو گے ہم بھى تمھارا حكم نہيں مان سكتے _
اے على تم اپنے راستے پر چلو اور ہمارے بارے ميں جو كچھ تم سے بن پڑے كر ڈالو
بہر صورت امير المومنين نے پند و نصيحت پر مشتمل يہ خط صلح و صفائي كيلئے عائشه كے سرداران لشكر كو لكھا تھا ، جو بے نتيجہ رہا ان لوگوں نے صلح و صفائي كى بات نہ سنى ، يہى وجہ تھى كہ اپ نے وہاں سے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كيطرف كوچ كيا اور شھر بصرہ ميں داخل ہوگئے _
قارئين كرام !
يہاں تك جو كچھ پيش كيا گيا اس سے دونوں مخالف فوجوں كى تيارى اور بصرہ ميں پہنچنے تك كے حالات كو كتب تاريخ اور معتبر ماخذ سے نقل كيا گيا ، اب بات كو يہيں پر ختم كرتے ہيں اور حادثہ جنگ جمل كو شروع سے بيان كرتے ہيں ،اس سلسلہ ميں مشھور تاريخ نگار ابو مخنف كا بيان نقل كرتے ہيں جس كو عراق كے حالات و اخبار كى بہت اچھى اطلاع تھى اور اسے ماہر عراقيات كہنا زيادہ بہتر ہو گا _
گورنر بصرہ كو طلحہ و زبير كا خط
مشہور مورخ ابو مخنف (2) اپنى مشہور كتاب تاريخ جنگ جمل ميں لكھتا ہے :
طلحہ زبير اور عائشه بہت تيزى كے ساتھ بصرہ ميں پہونچ گئے اور مقام حفر ابو موسى پر وارد ہوئے جو بصرہ سے قريب تھا ، وہاں سے انھوں نے گورنر بصرہ عثمان ابن حنيف كو اس موضوع كا خط لكھا :
اے عثمان ہمارا ارادہ ہے كہ بصرہ ميں داخل ہو ن ميرے انے سے بيشتر تم دارالامارہ كو خالى كر دو اور ہمارے لئے تيارى كرو ، اور تمھيں شہر كے اختيار ات بھى ہمارے حوالے كر دينا چاہيئے اور اپنے كو گورنرى كے عہدے سے علحدہ كر لو (ان داخل لنا دار الامارہ )
عثمان نے خط كے مضمون سے اخنف ابن قيس كو باخبر كيا جو شيوخ بصرہ ميں شمار كئے جاتے تھے اور عقل و دانائي ميں مشھور ،تيز طرار تھے ، يہ خط ديكر ان سے كہا اے اخنف طلحہ و زبير كا لشكر بصرہ كے قريب پہنچ چكا ہے انھيں لوگوں ميں زوجہ رسول بھى ہيں لوگ ان كيلئے چاروں طرف سے سيلاب كى طرح ٹوٹے پڑ رہے ہيں ، اس سلسلے ميں تمھارى كيا رائے ہے ؟
اخنف نے كہا: اے عثمان يہ وہى لوگ ہيں جنھوں نے مسلمانوں كو قتل عثمان پہ ابھارا تھا اور ان كا خون بہايا اور اج بھى شرم و حيا سے بالائے طاق ركھ كر ہمارى طرف ارہے ہيں تاكہ خون عثمان كا ہم سے انتقام ليں ، اگر يہ مقصد ليكر ہمارے شھر ميں اگئے تو اس شھر كے لوگوں ميں اختلاف اور دشمنى پيدا ہوگى اور ہميں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، ہمارا خون بہا دينگے _
اے عثمان تم اس شہر كے گورنر ہو لوگ تمھارے مطيع و فرمانبردار ہيں تمھيں اس حساس موقعہ پر اپنى حيثيت سے فائدہ اٹھانا چاہيئے ، اعلان جنگ كردو ، اور كچھ بصرے كے فوجيوں كو ليكر تيزى سے ان كى طرف جائو ، كيونكہ اگر تم نے انھيں موقعہ ديديا اور وہ بصرہ ميں ائے تو لوگ تمھارى اطاعت سے منحرف ہو جائيں گے اور ان لوگوں كى اطاعت كرنے لگيں گے _
عثمان نے كہا اے اخنف ميں بھى اس بات كو سمجھ رہا ہوں كہ ہمارى بہترى جنگ كرنے ميں ہے ، ليكن ميں كيا كروں ؟ ميں فتنہ و فساد سے ڈر رہا ہوں ، اور يہ كہ يہ فتنہ مجھ ہى سے شروع ہوگا يہ سونچ كر سخت خوفزدہ ہوں ، ميں چاہتا ہوں كہ صلح و صفائي ہوجائے ، اور جب تك حضرت على (ع) كا حكم نہ ائے ميں كوئي اقدام نہ كر سكوں _
اخنفكے بعد حكيم ابن جبلہ عثمان كے پاس ائے ، عثمان نے لشكر عائشه كے سرداروں كا خط ان كے سامنے ركھديا ، حكيم نے بھى اخنف كى رائے كى تائيد كى اور عثمان كو عائشه كے لشكر سے جنگ پر ابھارا ،حكيم نے بھى عثمان كا وہى جواب سنا جو اخنف سن چكے تھے ، حكيم نے جب اپنى پيشكش كا كوئي اثر نہيں ديكھا تو كہا :
اے عثمان اگر تم جنگ پر امادہ نہيں ہو تو مجھے اجازت دو كہ ميں اپنے قبيلہ والوں كے ساتھ ان كے خلاف قيام كروں ، اگر ان لوگوں كو امير المومنين كا حكم منوا سكوں اور ان كى بيعت كے تابع لاسكوں تو كيا اچھا ہے ، اور ديگر وہ نہ مانيں تو ہم تم سے مدد لئے بغير ان لوگوں كے ساتھ جنگ كريں _
عثمان نے كہا: اے حكيم ميں جنگ اور قتل سے ڈرتا نہيں كہ اپنے كو الگ كر كے تم كو تمھارے حال پر چھوڑ دوں ، بلكہ ميں بنيادى طور سے مسلمانوں كے ساتھ جنگ اور فتنہ و فساد كو اچھا نہيں سمجھتا اور اس سے بھاگتا ہوں ، ورنہ ميں خود اپنے دل و جان كے ساتھ جنگ پر اقدام كرتا اور اس راہ ميں پيش قدمى دكھاتا _
حكيم نے كہا ، ہاں ، صلح و صفائي تو اچھى ہے ليكن خدا كى قسم تم بھى جانتے ہو كہ اگر وہ لوگ بصرہ ميں داخل
ہوگئے تو لوگوں كا دل اپنى طرف موڑ ليں گے اور تم كو عہدے سے معزول كر دينگے _
ليكن حكيم نے جنگ كيلئے جس قدر اصرار كيا عثمان نے ان كى پيشكش نہيں مانى _
امير المومنين كا خط اپنے گورنر بصرہ كے نام
امير المومنين ربذہ ميں تھے كہ اپ كو خبر ملى كہ عائشه كا لشكر بصرہ كے قريب پہنچ گيا ہے اپ نے اپنے گورنر كو اس مضمون كا خط لكھا :
يہ خط بندئہ خدا امير المومنين على كى طرف سے اپنے گورنر عثمان ابن حنيف كے نام
اے عثمان باغى اور ظالم نے اللہ سے عہد كيا پھر اپنا عہد توڑ ديا ،اور اب ان كا رخ تمھارى طرف ہے ،شيطان نے ان لوگوں كو اتنا مغرور بنا ديا ہے كہ مرضيء خدا كے خلاف اقدام كر رہے ہيں ، ليكن خدا كا عذاب اس سے زيادہ درد ناك اور انتقام كا تازيانہ اس سے بہت سخت ہو گا _
اے عثمان وہ لوگ بصرہ ميں داخل ہوں تو انھيں حكومت وقت كى اطاعت اور ميرى بيعت كى دعوت دو اگر وہ اثبات و تائيد ميں جواب ديں تو ان كا احترام واجب ہے اور اگر تمھارى دعوت قبول نہ كريں ( اپنى مخالفت ميں مصر ہوں تو ان سے جنگ كرو تاكہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں كے درميان حاكم ہو خدائے دادگر كا فيصلہ عادلانہ ہو گا ) ميں اس خط كو تمہارے پاس ربذہ سے لكھ رہاہوں اور ميں خود بھى تمہارے پاس بہت جلد پہنچوں گا _ كاتب خط عبيد اللہ ابن ابى رافع بتاريخ 36ھ _ (3)
ابو مخنف كا بيان ہے كہ :جب على كا خط عثمان كے پاس پہنچا تو مشہور افراد ابوالاسود دئيلي(4) اور عمران ابن حصين كو بلايا اور انھيں مامور كيا كہ جاكر لشكر عائشه كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كے بغاوت كى وجہ اور مقصد كو پوچھيں _
ابو الاسود اور عمران حفر ابو موسى ميں واقع لشكر عائشه كى چھائونى ميں پہنچے پہلے انھوں نے عائشه سے ملاقات كر كے گفتگو كى اور موعظہ و نصيحت كى _
عائشه نے كہا اچھا ہوتا تم لوگ طلحہ و زبير سے ملاقات كرتے اور ان سے بھى گفتگو كرتے ، ابو الاسود اور عمران زبير كے پاس گئے ان سے بھى گفتگو كى _
زبير نے كہا ہمارے اس قيام كا دو بنيادى مقصد ہے _
1_ انتقام خون عثمان ، ہم ان لوگوں كو قتل كرنا چاہتے ہيں جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ہے_
2_ على كو چاہيئے كہ خلافت سے معزول ہو جائيں اور مسلمانون كى جماعت ،كسى دوسرے كو شورى كے ذريعہ سے منتخب كر لے _
ان لوگوں نے زبير كا جواب ديا :
جہاں تك انتقام خون عثمان كى بات ہے تو عثمان كو بصرہ والوں نے قتل نہيں كيا ہے كہ تم ان لوگوں سے انتقام لو _
اے زبير تم خود اچھى طرح جانتے ہو كہ قاتلان عثمان كون لوگ ہيں ؟ اور كہاں ہيں ؟
تم اور تمھارے ساتھى طلحہ نے اور عائشه نے جو اج انتقام خون عثمان كا پرچم لہرا رہے ہو كل تم عثمان كے سخت ترين دشمن تھے اور تمہيں تھے كہ لوگوں كو ان كے قتل پر ابھاررہے تھے_
اب رہ گئي حضرت على كے معزول ہونے كى بات تو تم عہدہء خلافت سے كيسے معزول كر سكتے ہو ؟ اور ان كا مسلّم حق كيسے چھين سكتے ہو ؟ جبكہ تمھيں نے باہيں پھيلا كر خوشى خاطر كے ساتھ ان كى بيعت كى تھى تمھارى بيعت ميں ذرا بھى زور زبردستى نہيں تھى _
اے زبير واقعى بہت تعجب كى بات ہے جس دن رسول (ص) خدارحمت حق سے ملحق ہوئے اور لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كى تونے ان كى بيعت كرنے سے انكار كيا تھا ، ہاتھ ميں تلوارليكر بھانج رہے تھے كہ خلافت كيلئے على سے بہتر كوئي نہيں ، ليكن اج انھيں سے ايسى سخت مخالفت پر امادہ ہو ، كہاں وہ طرفدارى ؟ اور كہاں يہ دشمنى و مخالفت ؟
زبير نے جب اپنے كو عثمان ابن حنيف كے نمائندوں كے سامنے زچ ہوتے ديكھا اور اپنے كو لاجواب پايا تو كہا :
تم لوگ طلحہ كے پاس جائو انھيں سے بات كرو ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _
ابو الاسود اور عمران طلحہ كے پاس گئے ليكن انھيں سخت مزاج اور فتنہ انگيز پايا انھوں نے سمجھ ليا كہ ان كا مقصد صرف جنگ كى اگ بھڑ كاناہے اس كے سوا اور كوئي مقصد نہيں وہ لوگ وہاں سے مايوس ہو كر عثمان ابن حنيف كے پاس واپس اگئے اور سارا واقعہ انھيں سناديا _
ابوالاسود نے اس سلسلے ميں كچھ اشعار كہے ہيں :
يابن حنيف قد اتيت فانفر
و طاعن القوم و جالد و اصبر
و ابرز لھا مستلثما و شمر
اتينا الزبير فدانى الكلام
و طلحہ كا لنجم او ابعد
و احسن قوليھما فادح
يضيق بہ الخطب مستنكد (5)
'' اے پسر حنيف اگاہ ہو جائو كہ دشمن كا لشكر جنگ كے سوا كوئي مقصد نہيں ركھتا تم بھى اٹھ كھڑے ہو اور ان كے مقابلہ ميں جنگ كرنے كيلئے اپنے كو امادہ كرو ، ان لوگوںكى سرزنش كيلئے كوشش كرو اور اس راہ ميں استقامت دكھائو ہم نے زبير سے
بات كى تو اس كى باتوں ميں نرمى ديكھى ليكن طلحہ بہت تند تھا ، وہ بے راہ روى كا شكار تھا ، اسكا فاصلہ صلح سے اتنا ہى ہے جتنا زمين كا اسمان سے ، ان كى سب سے اچھى بات بہت برى تھى بہت سخت تھى اور فتنہ انگيز تھى _
انھوں نے ہميں بہت ڈرايا دھمكايا ليكن ان كى سارى باتيں ہمارى نگاہ ميں بے وقعت تھيں _
ابو الاسود نے جيسے ہى اپنے اشعار ختم كئے ، عثمان ابن حنيف جوش مين بھر گئے اور كہا ، ہاں ، دونوں مقدس شھروں مكہ و مدينہ كى قسم تم نے جيسا كہ بيان كيا ميں ان لوگوں سے ايسى ہى جنگ كروں گا _
پھر حكم دياكہ فوجى تيارى كا عام اعلان كيا جائے اور سب لوگ جنگ كيلئے امادہ ہو جائيں ، بصرے ميں نعرے گونجنے لگے بصرے والے اسلحوں سے اراستہ ہو كر عثمان ابن حنيف كے پاس اگئے_
لشكر بصرہ وہاں كے ايك وسيع ميدان كى سمت جس كا نما مر بد تھا بڑھنے لگا ، جہاں لشكر عائشه كى چھائونى تھى اور دونوں لشكر اسى ميدان ميں امنے سامنے ہوگئے _
شعلہ بار تقريريں
مرد جشمى نے تقرير كي
لشكر بصرہ اور لشكر عائشه ميدان مربد ميں امنے سامنے تھے اتنے ميں لشكر بصرہ سے قبيلہ جشم كا ايك شخص كھڑا ہوا اور اپنے كو پہنچوانے كے بعد بصرے والوں سے اس طرح مخاطب ہوا _
اے لوگو يہ جمعيت جسے تم ديكھ رہے ہو شھر مكہ سے ايا ہے اور اس نے تمھارى طرف رخ كيا ہے ، ليكن نہ انھيں بد امنى كا ڈر ہے نہ فرار اور ہرج مرج كا كيونكہ يہ لوگ اس شھر ميں تھے كہ جو سب كے لئے امن و پناہ كى جگہ ہے اور تمام موجودات وہاں امن ميں رہتے ہيں يہاںتك كہ پرندے حيوانات اور درندے بھى اس شہر ميںلوگوں كے گزند سے اسودہ خاطر ہوتے ہيں ، اس بناء پر يہ لوگ خوف كى وجہ سے يہاں نہيں ائے ہيں بلكہ خون عثمان كا انتقام لينے ........... كيلئے سيلاب كى طرح ہمارے شہر ميں ٹوٹ پڑے ہيں حالانكہ ہم بصرے والوں نے نہ قتل عثمان ميں شركت كى نہ ہم ميں كا كوئي شخص ان كے قتل ميں شامل تھا _
اے لوگو ميرى بات پر توجہ دو اور اس لشكر كو جہاں سے ايا ہے وہيں واپس كردو اور اگر تم نے غيرت و صلاح كو راہ نہيں دى تو تمھارے درميان جنگ كى ايسى اگ بھڑكے گى جو كبھى خاموش نہ ہوگى اور اس كے شعلے تمہارى زندگى كو اپنا لقمہ بنا ليں گے _
اس شخص كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ بصرے كہ كچھ لوگوں نے اس پر سنگ بارى كر دى اور وہ خاموش ہو كر بيٹھ گيا _
طلحہ كى تقرير
ابو مخنف كا بيان ہے كہ اس جشمى شخص كى تقرير كے بعد طلحہ كھڑے ہوئے اور بہت كوشش كے بعد چيختے چلاتے لوگوں كو خاموش كيا اور كہا :
اے بصرے والو تم سبھى جانتے ہو كہ عثمان ابن عفان ايك شريف شخص اور با فضيلت ادمى تھے ، بہت اچھے سابق الاسلام تھے ، وہ انھيں مہاجرين ميں تھے كہ جن كے بارے ميں اللہ نے اپنى رضا كا اعلان كيا اور قران نے ان لوگوں كے فضائل بيان كئے _
ہاں ، عثمان گروہ مہاجرين كى فرد تھے اور صحابى رسول تھے ، مسلمانوں كے امام تھے ليكن اپنى خلافت كے اخرى زمانے ميں روش بدل دى تھى اوركبھى كبھى وہ عدالت كى راہ سے منحرف ہو جاتے تھے ، ہم نے اس معاملے ميں ان كو چونكايا ، (ان پر اعتراض كيا ) تو انھوں نے ہمارى باتوں كو قبول كيا اور اپنے كرتوتوں سے توبہ كى ، پھر وہ عدالت كى راہ پر چل پڑے ، ليكن كيا فائدہ ؟
وہ شخص كہ جس نے اج مسلمانوں كے معاملات كى لگام بغير مسلمانوں كى رضا اور اطلاع كے غاصبانہ طريقے سے اپنے ہاتھ ميں تھام لى ہے ، وہ ان پر ٹوٹ پڑا اور انھيں بے گناہ قتل كر ڈالا ، كچھ فسادى اور لاپرواہ لوگوں نے بھى اس ظالمانہ عمل ميں اس كى مدد كي_
ہاں ، عثمان تمام مسلمانوں كے نزديك قابل احترام تھے وہ بے گناہ اور مظلوم قتل كئے گئے _
اے بصرہ والو ہم اس پاك اور بے گناہ شخص كا انتقام لينے كيلئے يہاں ائے ہيں تاكہ ان كے قاتلوں كو قابو ميں كر كے قتل كريں اور مسلمانوں ميں استقلال پيدا كريں ، اور وہ اختيارات جوا ن كے ہاتھ سے نكل گئے ہيں واپس
لائيں ، شورى كے ذريعہ كسى شخص كو خلافت و حكمرانى كيلئے انتخاب كر ليں ، كيونكہ خلافت و حكمرانى صرف عوام كا حق ہے ، اور جو شخص استبدادى طريقے سے اور لوگوں كو دھوكا ديكر اس عہدے پر قبضہ جما لے اس كى استبدادى حكومت كا پايہ ہلا دينا چاہيئے اور ختم كر دينا چاہيئے _
زبير كى تقرير
طلحہ كى تقرير كے بعد زبير كھڑے ہو كر تقرير كرنے لگے وہ بھى طلحہ كيطرح عثمان كى بے گناہى اور يہ كہ على ان كے قاتل ہيں بيان كرنے لگے ، پھر انھوں نے طلحہ كے بيان كى تائيد كى _
يہيں پر كچھ بصرہ والے كھڑے ہو گئے اور طلحہ اور زبير پر اعتراض كرنے لگے ، انھوں نے واضح طريقے سے كہا :
اے طلحہ اے زبير كيا تم لوگوں نے حضرت على كى بيعت نہيں كى تھى اور ان كى اطاعت كا عہد و پيمان نہيں كيا تھا ، اخر كيا بات ہوئي كہ كل تم نے بيعت كى اور اج تم نے بيعت توڑ دى ؟
ان لوگوں نے جواب ديا ، ہم نے اپنے اختيار اور رضا و رغبت سے على كى بيعت نہيں كى ، اور ہمارى گردن پر كسى كى بيعت و اطاعت كا حق نہيں ہے جو ميرے اوپر اعتراض كرے اور ہميں بيعت شكنى كا الزام دے _
بات يہاں تك پہنچى تھى كہ اہل بصرہ كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا ، ہلّڑ ہنگامہ ہو نے لگا كيونكہ كچھ تو طلحہ و زبير كى طرفدارى كرنے لگے ، ان كى باتوں كى تائيد و تصديق كرنے لگے اور صحيح ہے صحيح ہے كے نعرے لگانے لگے اور كچھ دوسرے لوگ ان كو جھٹلانے لگے ، كہنے لگے كہ طلحہ و زبيرجھوٹ بول رہے ہيں ، ان كى باتوں ميں مكارى پائي جاتى ہے _
عائشه كى تقرير
ابو مخنف كا بيان ہے كہ: لوگوں كا اختلاف اور ہنگامہ كا فى طول پكڑ گيا ، يہاں تك كہ خود عائشه نے انھيں خاموش
كرنے كيلئے مداخلت كى ، اپنے اونٹ پر سوار ہوئيں لوگوں كے سامنے اكر بہت بلند اواز ميں كہا :
اے لوگو بس كرو ، اپنى بات كم كرو ، خاموش ہو جائو ، خاموش ، خاموش ، جب لوگوں نے عائشه كى اواز سنى تو خاموش ہوگئے ، ہلّڑ ہنگامہ خاموشى ميں بدل گيا ، جب مربد كے تمام گوشہ و كنار ميں خاموشى پھيل گئي تو عائشه نے بصرہ والوں سے اس طرح خطاب فرمايا :
اے لوگو امير المومنين عثمان راہ حق و عدالت سے منحرف ہوئے اور اصحاب رسول كو تكليف پہنچائي، فسادى اور ناتجربہ كار چھوكروں كو حكومت ميں لگا ديا ، ايسے منحرف اور فاسد لوگوں كى حمايت كى جنھيں رسول اللہ نے جلا وطن كيا تھا ، اور ان پر غضبناك ہوئے تھے _
مسلمانوں نے ان پر اعتراض كيا ان كے كر توتوں كے نتائج سے باخبر كيا انھوں نے بھى لوگوں كى نصيحتوں سے سبق حاصل كيا اور اپنے برے اعمال پر شرمندہ ہوئے ، اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں اور لغزشوں سے پاك كر ليا _
ليكن كچھ لوگوں نے ان كى توبہ كو اہميت ديئے بغير انھيں قتل كر ڈالا اس پاك اور بے گناہ شخص كا خون بہا ديا ، ان كے قتل سے ڈھير سارے گناہوں كے مرتكب ہوئے ، ان كى خلافت كا مقدس لباس اس مقدس ماہ ذى الجحہ (جس ميں جنگ حرام ہے ، اور اس شھر مدينہ ميں جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے )ہاں ان حالات و شرائط كے باوجود انھيں يوں قتل كر ڈالا جيسے قربانى كا اونٹ پئے كيا جاتا ہے _
اے لوگو جان لو كہ قريش عثمان كو قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بن گئے ہيں اور اپنے ہاتھ اور منھ كو خون سے الودہ كر ليا ہے ، قتل عثمان ان لوگوں كو مقصد تك نہ پہنچائے انھيں كوئي فائدہ نہ بخشے ، خدا كى قسم ، انھيں كوئي بلا گھير لے گى ، جو انھيں مليا ميٹ كر دے گي، ہاں ، انگاروں سے بھرى افت ، ان كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والى ، ايسى افت كہ ان كے سوتوں كو جگا دے اور بيٹھے ہوئے لوگوں كو اٹھا دے _
اے لوگو _اول تو يہ كہ عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا كہ ان كا قتل جائز ہو جائے دوسرے يہ كہ تم نے انھيں توبہ كى دعوت دى پھر ان كى توبہ پر اعتنا كئے بغير چڑھ دوڑے اور بے گناہ خون بہاديا ، پھر تم نے على كى بيعت كر لى ،اور ان كو غاصبانہ طريقے سے خلافت كى كرسى پر بيٹھا ديا _
ذرا سوچو _ميں نے تمھارے فائدے كيلئے عثمان كى فحاشيوں پر غم وغصہ كا مظاہرہ كيا تھا ، ليكن اج عثمان كے فائدے كيلئے جو تم نے ان پر تلوار كھينچى غم و غصہ كا مظاہرہ نہ كروں ؟ اور خاموش ہو جائوں ؟
اے لوگو ہوش ميں ائو ، كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اور اب تم لوگوں پر لازم ہے كہ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو اور جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو _
اس كے بعد ان چھ افراد ميں سے كہ جن كو عمر نے معين كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ مقرر كر لو ، ليكن ايسا ہر گز نہيں ہونا چاہيئے كہ جس نے قتل عثمان ميںشركت كى ہے وہ شورى ميں يا خليفہ معين كرنے ميں كسى قسم كى مداخلت كرے _
ابو مخنف كا بيان ہے كہ :عائشه كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگ موج دريا كيطرح جوش ميں بھر گئے اور پيچ و تاب كھانے لگے _
ايك نے كہا كہ حقيقت وہى ہے جو عائشه نے كہا :
دوسرے نے كہا كہ :عائشه نے غلط بات كہى ہے كيونكہ انھيں حق نہيں ہے كہ گھر سے باہر نكليں _
ايك بولا ، انھيں كيا حق پہنچتا ہے كہ معاشرتى معاملات ميں دخل ديں
اخركار ، ہر شخص اپنى اپنى ہانكنے لگا ، اوازيں بلند ہونے لگيں
لوگوں كى چيخ پكا ر بڑھنے لگى اوراختلاف پيدا ہونے لگا يہاں تك كہ جوتے لوگوں كے سروں پر چلنے لگے ، گھوسے اور مكّے ايك دوسرے كى ضيافت كرنے لگے _
بس يہيں سے بصرہ كے باشندے دوحصوں ميں بٹ گئے اور ايك دوسرے كے امنے سامنے محاذ ارائي اور صف بندى كرنے لگے _
ايك پارٹى گورنر بصرہ عثمان كى طرفدارى ہو گئي اور دوسرى پارٹى عائشه كى طرفدار ہوگئي اسطرح عائشه نے اپنى تھوڑى دير كى تقرير ميں كچھ لوگوں كو اپنا ہم خيال بنا ليا اور اپنے لشكر كى تعداد ميں اضافہ كر ليا _
پہلى جنگ
ابو مخنف كا بيان ہے كہ :ميدان مربد ميں جو تقريريں اور باتيں ہوئيں اس كے بعد لوگ متفرق ہو گئے
ليكن طلحہ و زبير نے عثمان ابن حنيف كو اسير كرنے كيلئے كچھ لوگوں كے ساتھ دارالامارہ پر قبضہ جمانے شہر كے مركزى حصے كى طرف چلے ، ليكن انھيں لشكر عثمان كى شديد مقاومت كرنى پڑى كيونكہ بصرے والے شہر كے تمام حصوں سے واقف تھے اور لشكر عائشه كے حملے سے قبل ہى تمام گلى كوچوں تك كو اپنے قبضے ميں كر ليا تھا اور گھات لگائے بيٹھے تھے _
جب عائشه كا لشكر شہر كے مركزى حصے كيطرف نہيں بڑھ سكا تو اپنا راستہ ميدان اور باغوں كى طرف بدل ديا ، لشكر بصرہ نے وہاں بھى روكا اور دونوں ميں گھمسان كى جنگ ہونے لگى اس مقاومت ميں حكيم ابن جبلہ نے اپنے قبيلے والوں كے ساتھ دوسروں سے كہيں زيادہ جد وجہد كى اور لشكر عائشه پر حملہ كيا ، بصرہ كى عورتوں نے بھى كوٹھوں سے سنگبارى كى اور اسطرح بصرے والوں نے لشكر عائشه كو پسپا كر كے قبرستان بنى مازن تك ڈھكيل ديا _
عائشه كے فوجى وہاں دفاعى حالت ميں ٹھر گئے تاكہ چھائونى سے ان كى مدد اسكے اور شكست خوردہ لشكر اس كمك كے ذريعے بصرہ كے باہر زابوقہ كى طرف جاسكے ، وہاں بھى ايك وسيع اور بنجر ميدان دار الرزق كے نام سے تھا ، وہيں چلے گئے اور اسى كو اپنى چھائونى بنا ليا ،اسطرح پہلى جنگ ميں گورنر بصرہ كو فتح حاصل ہوئي اور عائشه كا لشكر پيچھے ہٹ گيا _
اس كے بعد ابو مخنف كہتا ہے كہ: قبيلہ تيم كے ايك سردار عبداللہ ابن حكيم جن كو طلحہ و زبير نے قتل عثمان كے بارے ميں خط لكھ كر مدد طلب كى تھى ، وہ طلحہ كے پاس ائے اور اس خط كو دكھا كر رائے طلب كرتے ہوئے پوچھا _
اے طلحہ كيا تم ہى نہيں ہو كہ جس نے ہميں خط لكھا تھا اور ہميں قتل عثمان پر ابھارا تھا _
طلحہ نے كہا ہاں ، يہ خط ہمارى ہى طرف سے ہے عبداللہ نے كہا اے طلحہ ، تم پر حيرت ہے كہ اس خط كے مطابق تم كل ہميں عثمان كو معزول كرنے اور انھيں قتل كرنے پر ابھار رہے تھے اخر كا ر تم نے انھيں قتل كر ڈالا اور اج انھيں كى طرفدارى اور ان كا انتقام لينے كيلئے ہمارے پاس ائے ہو _
اے طلحہ خدا كى قسم ، تمھارا مقصد صرف يہ ہے كہ دنيا حاصل كر لو اور حكومت پر قبضہ جمالو ،اور ايك غلط اور نامناسب محرك تمھيں اس جنگ پر ابھار رہا ہے ورنہ تم نے كل على كى بيعت كيوں كى تھى اور راضى خوشى ان كے ہاتھ پر اپنا ہاتھ كيو ں ركھا تھا ، اور اج تم نے اپنى بيعت توڑ دى ہے ، اور ان كى مخالفت ميں كھڑے ہو گئے ہو ؟ ان تمام باتوں سے بد تر يہ كہ يہاں تم شھر كو فتنہ و فساد ميں الجھا نے ائے ہو اور ہميں اس فتنہ ميں شريك كر رہے ہو _
طلحہ نے كہا كہ: اے عبداللہ ميں نے على كى بيعت اپنى مرضى اور خوشى سے نہيں كى تھى ، حضرت على (ع) نے لوگوں كى بيعت قبول كرنے كے بعد مجھ كو بھى بيعت كى دعوت كى تو ميں نے بھى مجبور ہو كر ان كى دعوت قبول كر لى اور اپنى بيعت كا ہاتھ بڑھا ديا ، اگر ميں نے ان كى بات نہ مانى ہوتى تو جس طرح ميں خلافت سے محروم كر ديا گيا ( اپنى جان سے بھى ہاتھ دھو بيٹھتا كيونكہ لوگ ميرے اوپر ٹوٹ پڑتے اور ميرا كام تمام كر ديتے )_
ابو مخنف كا بيان ہے كہ: اس طرح پہلا دن بيت گيا ، اس كے دوسرے دن دونوں لشكر دوبارہ امنے سامنے ہوئے اور انھوں نے صف ارائي كى _
اس موقع پر عثمان ابن حنيف اپنے كچھ ساتھيوں كے ساتھ طلحہ وزبير كے پاس گئے اور انھيں نرم و ملائم انداز ميں نصيحت كى ، انھيں اختلاف و بيعت شكنى كے انجام سے ڈرايا _
ليكن طلحہ و زبير نے بجائے اس كے كہ ان كى نصيحت كو مانيں صاف صاف كہنے لگے كہ اے فرزند حنيف ہم يہاں خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے ائے ہيں ہم اس سے كبھى دستبردار نہيں ہو نگے _
عثمان ابن حنيف نے كہا ، تمھيں خون عثمان سے كيا سروكار ؟ ان كے بيٹے اور چچيرے بھائي انتقام كيلئے تم پر مقدم اور قريب تر ہيں ، وہ لوگ كہا ں ہيں ؟ خدا كى قسم خون عثمان كا انتقام ايك بہانا ہے اور بس ، حقيقت يہ ہے كہ تم لوگ خلافت ہتھيانا چاہتے ہو اور اس سلسلے ميں تم نے حد سے زيادہ كو شش كى ليكن مسلمانوں نے تمھارى طرف كوئي توجہ نہيں كى ، وہ حضرت على كى جانب مائل ہوگئے ، يہى وجہ تھى كہ حضرت على كى عداوت تمھارے دل ميں پيدا ہوگئي اور حسد كى اگ بھڑكنے لگى ، اسى گرہاں اور انگاروں نے تمھيں بيعت توڑنے اور مخالفت كرنے پر امادہ كيا ، ان گرہاں اور انگاروں كو ڈھاكنے كيلئے تم نے خون عثمان كا بہانا بنايا ہے ورنہ تم وہى ہو كہ عثمان كے خلاف ہنگامہ برپا كرنے ميں سب سے اگے تھے ، تمھيں سب سے زيادہ ان پر تنقيد كرتے تھے _
ابن حنيف كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ طلحہ و زبير نے دشنام درازى شروع كر دى اور بہت گندى باتيں زبان سے نكالنے لگے يہاں تك كہ بہت شرمناك طريقے سے ان كى ماں كا نام بھى لے ليا _
عثمان نے ايك نگاہ زبير پر ڈالى اور كہا :
اے زبير ميں كيا كروں ؟ تمھارى ماں صفيہ رسول خدا كى رشتہ دار ہيں ، اسى وجہ سے رسول خدا كے احترام
ميں تمھارى ماں كا نام لينے سے معذور ہوں _
اس كے بعد ايك نظر طلحہ پر ڈالى اور كہا :
اے طلحہ اے صعبہ كے فرزند ميرا اور تمھارا حساب كتاب اس سے بالا تر ہے جو باتوں سے ختم ہواس كا جواب صرف تلوار ہے ہمارے اور تمھارے درميان اسى كو فيصلہ كرنا ہے ، ميں واقعى ان گاليوں كا جواب تمھيں دوں گا _
عثمان نے ايك نظر اسمان پر ڈالى اور دعا كي خدايا تو گواہ رہنا كہ ميں نے ان لوگوں پر حجت تمام كر دى اور ان كيلئے عذر كى كوئي گنجائشے نہيں چھوڑى _
يہ كہناا اور عائشه كے لشكر پر ٹوٹ پڑے ، اور عملى طور سے اعلان جنگ كر ديا ، پھر دونوں لشكر كے درميان گھمسان كى لڑائي شروع ہو گئي ، جب جنگ نے بہت شدت اختيار كر لى تو يہ بات طئے پائي كہ دونوں كے درميان عہد نامہ صلح لكھا جائے تاكہ جنگ ختم ہو سكے _
صلح اور صلحنامہ
جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا كہ لشكر عائشه اور لشكر بصرہ كے درميان گھمسان كى جنگ ہوئي اور بہت سے لوگ لقمہء اجل بن گئے اس طرح يہ لڑائي گورنر بصرہ اور ان كے سپاہيوں كى كاميابى پر ختم ہوئي _
ابو مخنف كا بيان ہے كہ جنگ و خونريزى كے بعد (جس كا نام ہم نے پہلى جنگ ركھا ہے )دونوں لشكر كے سردار اس بات پر متفق ہوئے كہ چند شرائط كے مطابق باہم صلح كر لى جائے اور عہد نامہ لكھ ليا جائے ، تاكہ جب تك حضرت على بصرے ميں تشريف نہيں لائيں جنگ ركى رہے ، يہى بات دونوں لشكر كے درميان صلحنامہ كى شكل ميں لكھى گئي اور اس پر سرداران لشكر كے دستخط ہوئے _
صلحنامہ كا متن ان پانچ دفعات پر مشتمل تھا
يہ وہ عہد و پيمان ہے كہ جو عثمان ابن حنيف اور ان كے ساتھيوں نے طلحہ و زبير اور ان كے حمايتيوں كے ساتھ طئے پايا ہے ہر دو طرف كے لوگ اپنے كو اس عہد نامہ كا پابند سمجھتے ہيں كہ اس صلحنامہ كے مطابق عمل كرينگے اور ان كے دفعات كا احترام كر كے اسے نافذ كرينگے _
1_ طرفين كے كسى شخص كو بھى دوسرے سے چھيڑ چھاڑ كا حق نہ ہوگا اور اسائشے كے وسيلے سلب نہ كريگا نہ ايك دوسرے كو تكليف ديگا _
2_ طرفين حق ركھتے ہيں كہ ازادانہ طريقے سے فطرى اور معاشرتى خصوصيات سے بہر ہ مند ہوں اور سبھى يكساں طريقے سے بغير دو سرے كى مزاحمت كے نہروں و چراگاہوں اور شاہراوں اور بازاروں سے استفادہ كر سكيں گے اور ايك دوسرے كى ضرورت كو پورا كريں گے _
3_ شہرى انتظامات اور حكومت اور قصر كى حكمرانى ( مسجد اور پيشنمازى كے حالات ) اور بيت المال كے اختيارات سابق كيطرح عثمان ابن حنيف كے قبضے ميں رہيں گے _
4_ طلحہ و زبير اور ان كے ساتھ بصرہ ميں ازادى سے رہيں گے وہ بغير ركاوٹ كے تمام جگہوں پر اپنى چھائونى بنا سكتے ہيں اور شھر كے تمام حصوں پر ازادانہ رہ سكتے ہيں _
5_ يہ عہد نامہ اج كى تاريخ سے اس وقت تك نافذ رہے گا جبتك حضرت على بصرہ ميں اجائيں ، اور حضرت على كے تشريف لانے كے بعد طلحہ و زبير ازاد ہيں كہ وہ سابق كى اپنى بيعت على كے وفادار رہيں يا ہر ايك صلح و جنگ كا انتخاب كرے _
صلحنامہ كے اخر ميں اس جملے كا بھى اضافہ كيا گيا كہ طرفين اس صلحنامہ كے دفعات پر اسى طرح عمل كرينگے جيسے خدا اور انبياء كے عہد و ميثاق ميں برتا جاتا ہے ، اور اس وسيلے سے ان لوگوں نے مضبوط پيمان باندھا ( على الفريقين بما كتبو ا عہد اللہ و ميثاقہ )
صلح نامہ پر طرفين كے دستخط ہو گئے اور صلح و صفائي ہوگئي ، عثمان ابن حنيف اپنے لشكر كے ساتھ دار الرزق سے دار الامارہ كيطرف واپس چلے گئے اور اپنے ساتھيوں كو حكم ديا كہ جنگى ہتھيار اتار ڈالو اور اپنے گھروں كو واپس جائو ارام كے ساتھ زخميوں كا اعلاج و معالجہ كرو _
دوسرى جنگ
طلحہ و زبير نے دوسرى بار پيمان شكنى كي
لشكر بصرہ نے صلحنامہ كے دفعات پر بھر پور عمل كيا اور اس كے مفاد كے مطابق صلح كيا ، شھر بصرہ ميں جنگ سے پہلے كا امن واپس اگيا ،تمام حالات معمول پر اگئے ، ليكن طلحہ و زبير نے جس طرح على (ع) كى بيعت توڑى تھى دير نہيں گذرى كہ اس صلح اور عہد كو توڑ نے كى فكر ميں لگ گئے ، وہ سوچ رہے تھے كہ اگر كچھ دن بعد حضرت على (ع) بصرہ ميں اجائينگے تو ہم يہ تھوڑے سے فوجى اور معمولى سامان جنگ سے كس طرح مقابلہ كر سكيں گے ، وہ بہترين فوجى ساز وسامان سے اراستہ ہونگے (6)
يہى بات تھى كہ طلحہ اور زبير كى بے چينى بڑھ گئي اور ان كى انكھوں سے نيند اڑ گئي تھى ، وہ اس سلسلے ميں رات دن تبادلہء خيال كرتے رہتے تھے _
اخر كا رانہوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ اس عہد كو بھى بيعت على (ع) كى طرح توڑ ديں اور مخفى طور سے قبائل عرب كے رئيسوں اور بصرہ كے بزرگوں سے مدد طلب كريں اور انھيں اپنى حمايت كى دعوت ديں _
طلحہ و زبير نے اس منصوبے كے ماتحت قبيلوں كے بزرگوں كو خط لكھے اور انھيں انتقام خون عثمان كى دعوت دى اور على كى بيعت توڑنے اور بصرہ كے گورنر كى اطاعت سے باہر ہونے پر امادہ كيا _
قبيلہ اذد ، ضبہ ، اور قيس عيلان ان تين قبائل نے ان كى دعوت كا مثبت جواب ديكر ان لوگوں كى بيعت كر لى ، انھون نے وعدہ كيا كہ ہر طرح كى كمك اور حمايت كيلئے وہ تيار ہيں ، صرف يہى انگليوں پر گنے جانے والے تين قبيلے تھے جنھوں نے چھپے چورى ان كى موافقت كا عہد كيا _
طلحہ و زبير نے ايك دوسرا خط ہلال ابن و كيع كو لكھا جو قبيلہ بنى تيم كا سردار تھا ، ان لوگوں نے خط ميں اپنى حمايت كى دعوت دى ليكن ہلال نے ان كا كوئي جواب نہيں ديا نہ توجہ كى ، اور ان سے ملاقات بھى نہيں كى _
طلحہ و زبير مجبور ہو كر خود ہى ہلال سے ملاقات كيلئے ان كے گھر گئے انھوں نے اپنے گھر ميں بھى ان سے ملاقات نہيں كى اور اپنے كو چھپاليا ، ليكن انكى ماں نے سرزنش كرتے ہوئے كہا :
اے ہلال ، تمھارى جيسى شخصيت كيلئے شرم كى بات ہے كہ اپنے كو مہمانوں سے چھپائو اور قريش كے دو بزرگوں كى ملاقات سے انكار كر دو _
ہلال كى ماں نے اپنى بات اتنى بار كہى كہ فرزند كے دل پر اثر ہوا اور ہلال نے طلحہ و زبير كيلئے اپنا دروازہ كھولا ، ان سے ملاقات اور گفتگو كا نتيجہ يہ نكلا كہ وہ بھى طلحہ و زبير سے متاثر ہو گئے اور ان دونوں كى بيعت كرلى ، حمايت اور نصرت كا وعدہ بھى كيا _
قبيلہ تميم كے دو بڑے خاندان ، عمرو اور ہنزلہ كا خا ندان بھى ہلال كى پيروى كرتے ہوئے طلحہ و زبير كى بيعت پر امادہ ہو گيا _
قبيلہ تميم ميں صرف ايك خاندان ير بوع تھا جو حضرت على (ع) سے وابستہ تھا اپ كا خالص شيعہ اور وفادار تھا اسى نے ان دونوں كى بيعت سے انحراف كيا اسى طرح خاندان دارم بھى جو بنى تميم ہى كى شاخ تھا ، اسنے بھى ان دونوں كى بيعت سے انكار كيا _
اس طرح طلحہ اور زبير نے بصرہ كے اكثر قبيلوں كو اپنى طرف مائل كر كے انھيں اپنى حمايت و نصرت پر امادہ كر ليا _
دوسرى جنگ شروع ہوئي
جب لشكر عائشه كے سرداروں نے اپنے كو ہر طرح سے طاقتور ديكھ ليا تو ايك اندھيرى رات ميں ، جب سخت سردى تھى اور باد و باراں كا زور تھا ، اپنے كپڑوں ميں اسلحے چھپا كر جامع مسجد كى طرف چلے ،اور ٹھيك نماز صبح كے وقت مسجد ميں پہنچ گئے _
يہ وقت تھا كہ عثمان ابن حنيف محراب ميں تھے اور وہ لوگوں كو نماز پڑھانے كيلئے كھڑے ہو گئے تھے ، طلحہ و زبير كے ساتھيوں نے سامنے اكر انھيں محراب سے كھينچ ليا اور زبير كو ان كى جگہ پر كھڑا كر ديا ، اس موقع پر بيت المال كے محافظوں نے مسجد كے حالات كى خبر پاكر عثمان ابن حنيف كى نصرت ميں دوڑے اور زبير كو محراب سے كھيچ كر عثمان
ابن حينف كو پھر وہيں كھڑا كيا ، زبير كے ساتھيوں نے بھى دوسرى بار عثمان كو علحدہ كيا اور زبير كو ان كى جگہ پر بيٹھا يا ليكن پھر محافظوں نے سخت جد وجہد كى اور زبير كو پيچھے ہٹا كر عثمان كو محراب ميں پہنچا ديا _
يہ نزاع و كشمكش اور امام جماعت كى تبديلى اتنى دير تك جارى رہى كہ قريب تھا كہ سورج نكل ائے اور نماز صبح كا وقت ختم ہو جائے_
جو لوگ مسجد ميں تھے وہ چلانے لگے كہ اے مسلمانوں خدا سے ڈرو كہ نماز كا وقت جارہا ہے _
اخر كار اس اختلاف اور كشمكش كا نتيجہ يہ نكلا كہ زبير نے اخرى مر حلے ميں عثمان ابن حنيف پر كاميابى حاصل كر لى اور محراب پر قبضہ كر كے لوگوں كو نماز صبح پڑھائي كيونكہ ان كے ساتھى زيادہ تيار اور منصوبہ ميں پختہ تھے ، نماز پڑھانے كے بعد فوراً زبير نے حكم ديا كہ عثمان كو پكڑو اور گرفتار كر لو _
جيسے ہى يہ فرمان صادر ہوا زبير كے ساتھيوں نے اپنے كپڑوں سے تلواريں نكال ليں اورعثمان كے ساتھيوں پر حملہ كر ديا ، تھوڑى سى ردو كد مروان اور عثمان كے درميان واقع ہوئي ، عثمان ابن حنيف اور بيت المال كے محافظوں كى تعداد ستر تھى انھيں زبير كے ساتھيوں نے گرفتار كر ليا اور عثمان كو سخت اذيتيں دى ، اس قدر مار پيٹ كى كہ قريب تھا كہ وہيںان كى موت ہو جائے _
انہوں نے اسى پر بس نہيں كيا ان كى بھئوں اور سر اور چہرے كے بال كو قابل رحم حالت پر چھيل ڈالا _
اس طرح عائشه كا لشكر صلح كے باوجود اس جنگ ميں فتحمند ہوا اور شھر بصرہ پر قبضہ كر ليا _
جنگى قيديوں كى سر گذشت
ابو مخنف كا بيان ہے كہ :عائشه كے فوجيوں نے معاہدہ صلح كے بر خلاف گورنر ہائوس اور مسلمانوں كے بيت المال پر حملہ كر كے گورنر اور بيت المال كے محافظوں كو قيدى بنا ليا _
پھر انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا تاكہ ان لوگوں كے بارے ميں كوئي فيصلہ كريں وہ جيسا بھى حكم چاہيں ان لوگوں كے بارے مين حكم صادر كر ديں _
عائشه نے بھى ہر ايك كے بارے ميں الگ الگ فيصلہ سنايا _
محافظوں كى سر گذشت
عائشه نے بيت المال كے محافظوں كے بارے ميں اسطرح فيصلہ سنايا كہ زبير كو اپنے سامنے بلا كر كہا :
اے زبير انھيں لوگوں نے تم پر شمشير كھينچى تھى اور عثمان ابن حنيف اور بيت المال كا دفاع كيا تھا ، ان لوگوں كا قتل ،ميں تمھارے ذمہ قرار ديتى ہوں كہ ان كا سر تن سے جدا كر كے تلوار كا پانى پلائو _
ابو مخنف كا بيان ہے كہ يہ حكم پاتے ہى زبير نے اپنے فرزند عبداللہ كى مدد سے ان سب كے سر بھيڑ بكريوں كى طرح تن سے جدا كر ديا _
اس كا بيان ہے كہ :بيت المال كے محافظوں ميں ان ستر افراد كے علاوہ بھى كچھ ايسے تھے جو بيت المال كى حفاظت كيلئے بيت المال ميں موجود تھے اور طلحہ و زبير كو قبضہ نہيں كر نے دے رہے تھے ، زبير نے راتوں رات ان پر چڑھائي كر كے پراكندہ كر ديا اور بيت المال پر اپنا قبضہ جما ليا ، ان ميں پچاس ادميوں كو قيد كر كے تمام لوگوں كے سامنے بے رحمى سے گردن مار دى اور سب كى لاشيں ان ستر كے پہلو ميں ڈال ديں _
ابو مخنف لكھتا ہے كہ سقعب ابن زبير كے بيان كے مطابق اس دن قتل ہونے والے محافظوں كى تعداد چار سو تھى _
وہ مزيد كہتا ہے كہ :سب سے پہلا غدر اور حيلہ اسلام ميں يہى تھا جو طلحہ و زبير كے ذريعہ عثمان ابن حنيف كى بابت انجام پايا اور اسلام ميں مسلمانوں كا يہ پہلا گروہ تھا جو نہتّامظلومى كے عالم ميں تمام لوگوں كے سامنے انتہائي دردناك حالت ميں قتل كيا گيا ، يہ وہى بيت المال كے محافظوں كا گروہ تھا _
يہ تھى بيت المال كے محافظوں كى سر گذشت
پھر ابو مخنف لكھتا ہے كہ: طلحہ و زبير كا لشكر بيت المال كے محافظوں كو پراكند ہ كر نے اور قيد كرنے كے بعد بيت المال ميں داخل ہوئے ، جس وقت انكى نظر سونے چاندى اور بے شمار دولت پر پڑى تو مارے خوشى كے زبير نے يہ ايت پڑھى جو كفار سے جنگ كے بعد مال غنيمت حاصل ہونے سے متعلق ہے _
''وعدكم اللہ مغانم كثير ة تاخذو نھا ''( سورہ فتح ايت 20)
اللہ نے تم سے وعدہ كيا ہے كہ بے شمار مال غنيمت اور بہت بڑى دولت تمھارے حصہ ميں قرار ديگا ، خدا نے بہت جلد اپنا وعدہ پورا كيا اور يہ بے شمار دولت تمھارے قبضے ميں ديدى اب ان سے فائدہ اٹھائو _
يہ ايت پڑھنے كے بعد زبير نے كہا :
ميں اس دولت و ثروت كا بصرے والوں سے زيادہ حقدار ہوں _
اس كے بعد ان كے سپاہيوں نے لوٹ مار شروع كر دى جو كچھ بيت المال ميں تھا سب كو ہڑپ ليا ، ليكن جس دن امير المومنين نے ان لوگوں پر كاميابى حاصل كى تو اس تمام دولت كو واپس ليكر مسلمانوں كے درميان تقسيم كر ديا_
گورنر بصرہ كى سر گذشت
ابو مخنف نے عثمان ابن حنيف كا حال اسطرح لكھا ہے كہ :
انھيں عائشه كے سامنے پيش كيا گيا ، عائشه نے عثمان ابن عفان كے بيٹے ابان كو اپنے سامنے بلايا اور حكم ديا كہ اپنے باپ كے انتقام مين عثمان كو قتل كر دو _
اور اپنے اس فرمان كى يہ توجيہ بيان كى كہ عثمان ابن حنيف اگر چہ قاتل عثمان نہيں ہيں ليكن قاتلوں كے مددگار ہيں ،اور مدد گار بھى قتل عثمان ميں شريك ہيں اس وجہ سے ہر اس شخص كا قتل جائز ہے جو مددگار ہو اور اس سے عثمان ابن عفان كا قصاص ليا جاسكتا ہے _
عثمان ابن حنيف نے جب اپنے كو خطرے ميں ديكھا تو عائشه اور ان كے ساتھيوں سے خطاب فرمايا :
سمجھ لو كہ ميرے بھائي سہل ابن حنيف مدينے كے گورنر ہيں ، اگر تم نے مجھے قتل كيا تو خدا كى قسم وہ چين سے نہيں بيٹھيں گے ،ا ور تمھارے خاندان كے تمام افراد كو ميرے انتقام ميں قتل كر ڈاليں گے ، كسى كو زندہ نہيں چھوڑيں گے ، خدا سے ڈرو اور اپنے خاندان كى ذلت اور بد بختى كے بارے ميں سوچو ، ميرے قتل كے خطرناك نتائج سے ڈرو _
عثمان ابن حنيف كى بات كا ان لوگوں پر برا اثر ہوا اور اس ڈر سے كہ كہيں مدينے ميں سھل اپنے بھائي كے انتقام ميں ہمارے رشتہ داروں كو نہ پكڑ ليں ، ان كے قتل سے باز ائے
ابو مخنف كا بيان ہے كہ: جب لشكر عائشه كے سرداروں نے عثمان ابن حنيف كے قتل كا ارادہ بدل ديا تو انھيں قيد خانے سے بھى ازاد كر ديا اور انھيںپيشكش كى كہ تمھيں اختيار ہے كہ بصرہ ميں رہو يا حضرت على (ع) كے لشكر ميں اپنے كو پہنچا دو ، عثمان دوسرى بات اختيار كر كے بصرہ سے نكل گئے اور راستے ميں امام كے لشكر سے مل گئے ، جيسے ہى عثمان نے
امام كو ديكھا ان كى انكھوں سے انسو ئوں كى جھڑى لگ گئي اور كہا :
اے امير المومنين ميں جس دن اپ كے پاس سے چلا تھا ايك بوڑھا اور صاحب ريش تھا ، سفيد چہرہ تھا ، اور اج ميرى ہيئت ايسے جوان كى ہے كہ جس كے چہرے پر كوئي بال نہ ہو ميں اسى حالت ميں واپس ہوا ہوں _
امير المومنين اس حادثہ و جرم سے جو عثمان كے ساتھ پيش ايا تھا اتنے غمگين اور متاثر ہوئے كہ بے اختيار فرمايا ، انا للہ وانا اليہ راجعون ، اپ نے مصيبت كے موقعہ پر دہرايا جانے والا يہ فقرہ تين بار دہرايا _
تيسرى جنگ
پہلے دن جب عائشه كا لشكربصرہ ميں داخل ہوا تھا عثمان ابن حنيف سے گھمسان كى جنگ ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان لقمہ اجل ہوئے تھے اور اس جنگ كے بعد ايك صلحنامہ پر معاملہ ختم ہوا تھا _
ليكن طلحہ و زبير نے معاہدہ توڑ ديا اور مسجد و بيت المال پر حملہ كر كے دوسرى جنگ چھيڑ دى تھى ، يہ جنگ اس بات پر ختم ہوئي تھى كہ حضرت على كے گورنر كو نكال ديا گيا اور نگہبانوں كو قتل كيا گيا ، ليكن اسى كے بعد تيسرى جنگ بھى شروع ہو گئي جس كى تفصيل يہ ہے _
عثما ن ابن حنيف كے قيد اور جلا وطنى اور نگہبانوں كے قتل ہونے كى خبر حكيم ابن جبلہ كو ہوئي تو اپنے قبيلے كے تين سو افراد كے ساتھ جنگ كيلئے تيار ہو كر عائشه كے لشكر كى طرف بڑھے ، ان لوگوں نے بھى عائشه كو اونٹ پر سوار كيا اور حكيم كے لشكر كا مقابلہ كرنے پر تيار كر ديا دونوں لشكر كے درميان ايسى گھمسان كى جنگ ہوئي كہ مورخين نے اس كو چھوٹى جنگ جمل كا نام ديا اور امير المومنين كى جنگ كو بڑى جنگ جمل كہا ہے _
اخر كا ر اثنائے جنگ ميں قبيلہ ازد كا ايك شخص حكيم ابن جبلہ پر حملہ اور ہوا اس نے پائوں پر تلوار چلا كر بدن سے جدا كر ديا _
حكيم ابن جبلہ نے اپنے كٹے پائوں كو اٹھا كر بڑى شدت سے اس شخص پر كھينچ كر مارا كہ وہ زمين پر ڈھير ہوگيا پھر اپنے كو كشاں كشاںجاكر اس پر ڈال ديا ، وہ مرد ازدى حكيم ابن جبلہ كے بھارى بوجھ سے ايسا بے بس ہوا كہ ٹھنڈا ہو گيا ، حكيم ابن جبلہ بھى اس كے بے جان بدن پر اخر تك بيٹھے رہے ، ايك راھگير نے يہ منظر ديكھ كر ان سے پوچھا_
اے حكيم كس نے اپ كو يہ برا دن دكھايا _
حكيم نے كہا ، يہى شخص جو ميرے نيچے ہے _
اس راہ گير نے غور سے ديكھا تو ايك ازدى شخص ان كے بدن كے نيچے تھا _
حكيم ابن جبلہ اپنى بہادرى ميں مشھور تھے وہ اس طرح حق اور حقيقت كى طرفدارى ميں قتل كئے گئے اور شھادت سے سرفراز ہوگئے _
ابو مخنف كا بيان ہے كہ اس جنگ ميںوہ تمام تين سو افراد اور حكيم ابن جبلہ كے تين بھائي بھى قتل كر دئے گئے _
اس طرح تيسرى جنگ بھى لشكر عائشه كے حق ميں گئي اور پورا بصرہ شھر ان كے قبضے ميں اگيا ، اس تاريخ سے بصرہ كے تمام افراد يہاں تك كہ عائشه كے مخالف فوجيوں نے بھى لشكر عائشه كے سامنے ہتھيار ڈال ديئے اور ان سے مل گئے _
داخلى اختلافات
جب عثمان ابن حنيف بصرہ سے نكال ديئے گئے اور حكيم ابن جبلہ اپنے ساتھيوں كے ساتھ قتل كر ديئے گئے اور پورا بصرہ شھر بغير كسى ركاوٹ اور مزاحمت كے طلحہ اور زبير كے قبضے ميں اگيا تو اب كوئي اختلاف اور تصادم كى گنجائشے نہيں تھى ليكن اس بار داخلى كشمكش اور اختلاف شروع ہوگيا _
كيو نكہ طلحہ اور زبير دونوں ہى اس كوشش ميں تھے كہ پيش نماز ى انھيں حاصل ہو اور دونوں ايك دوسرے كے پيچھے نماز پڑھنے سے انكار كررہے تھے كيو نكہ ان كے خيال ميں يہ اقتداء ان كى اولويت كو ماننے كے مترادف تھى _
ان دونوں كا اختلاف بڑھتا گيا اور خطر ناك صورت اختيار كر گيا يہاں تك كہ خود عائشه نے اس معاملے ميں مداخلت كى انھوں نے اختلاف اس طرح ختم كيا كہ طلحہ وزبير عارضى طور سے پيش نمازى كے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائيں اور ان دونوں كے بجائے ان كے بيٹے بارى بارى لوگوں كو نماز پڑھائيں ، ايك دن محمد ابن طلحہ لوگوں كو نماز پرھائيں اور دوسرے دن عبداللہ ابن زبير _
ليكن ابن ابى الحديد كہتا ہے كہ عائشه نے طلحہ و زبير كا اختلاف ختم كرنے كيلئے حكم ديا كہ عبداللہ ابن زبير
------------------------------------------------------
1_ الامامة والسياسة ج1 ص55 _ 62 ، جمھرة رسائل العرب ج1 ص 379 ، ترجمہ تعليق اعثمى ص 174
2_ابو مخنف لوط كا بيٹا اور خاندان مخنف سے تھا جو ازدى گروہ سے تعلق ركھتا تھا خاندان مخنف حضرت على كے دوستوں ميں شمار كيا جاتا ہے ابو مخنف مرد فاضل محدث اور مورخ تھا اور اس سلسلے ميں اس نے بہت زيادہ كتابيں لكھى ہيں اسكى ايك كتاب كا نام الجمل ہے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ ميں جنگ جمل كى سارى داستانيں اسى كتاب سے نقل كيا ہے ابن نديم كا بيان ہے كہ علماء كو اس بات كا اعتراف ہے كہ ابو مخنف كو عراق كے حالات تمام مورخين سے زيادہ معلوم تھے جس طرح مدائنى كو خراسان و ہند و فارس كے حالات كى خصوصى مہارت تھى واقدى كو بھى حجاز كے حالا ت سے واقفيت تھى ، ابو مخنف نے 157ھ ميں وفات پائي
3_ عبيد اللہ ابن ابى رافع مدينہ كے باشندے تھے ازاد كردہ رسول اللہ اور ان كے باپ كو بھى رسول نے ازاد كيا تھا حضرت على نے انھيں اپنے خزانے كا انچارج اور منشى مقرر كيا تھا ، تہذيب التہذيب ج6 ص15
4_ ابو الاسود كا نام ظالم تھا وہ عمر و ابن سفيان ابن جندل كے فرزند تھے دئيلى قبيلہ دئل كى طرف منسوب ہے اور دئل قبيلہ كنانہ كى شاخ تھا وہ بزرگ تابعى تھے اور حضرت على كے دوستوں ميں شمار كئے جاتے تھے ، جنگ صفين ميں على كے ساتھ تھے امير المومنين نے علم نحو اور قواعد زبان عربى پورے طور سے انھيں تعليم كئے تھے ، انھوں نے اس كى شرح كر كے اسے ايك علمى بنياد ديدى ، ابو الاسود نے 85 سال كى عمر ميں عمر ابن عبدالعزيز كے زمانے ميں بصرہ ميں وفات پائي فہرست ابن نديم ص 60 ، 62 ،وفيات الاعيان ج2 ص216_ 219
5_ الامامة والسياسة ج1 ص 61 ، ابن اعثم ص 180 ، عقد الفريد ج4 ص 313 ، مروج الذھب و كامل ابن اثير ج5 ص 184 ، تاريخ يعقوبى ج2 ص 157 ، ابو مخنف در كتاب جمل
6_ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ پہلے صلح كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ليكن جب انھوں نے ديكھا كہ گورنر بصرہ سے مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ہے تو ظاہرى طور سے صلح كا ہاتھ بڑھا ديا تاكہ ان لوگوں كى غفلت سے فائدہ اٹھا كر اپنے بد ترين مقاصد حاصل كر ليں
|