ليكن حضرت على (ع) كے بارے ميں تم نے غلطى كى اور دھوكے كا شكار ہوئے _
جنگ جمل
پہلى جنگ شروع ہوئي
طبرى كا بيان ہے كہ :جب عائشه كا لشكر بصرہ پہونچا تو حضرت على كى طرف سے وہاں كے گورنر عثمان ابن حنيف لشكر كے سامنے ائے اور ان سے پوچھا كہ تم لوگوں كو حضرت على كے بارے،ميں كيا اعتراض ہے كہ تم نے ان سے بغاوت كى ہے ؟
ان لوگوں نے كہا :كہ ہمارا پہلا اعتراض يہ ہے كہ انھيں ہمارے اوپر كوئي برترى اور تفوق نہيں ہے ليكن وہ ہم لوگوں پر حكومت كرنا چاہتے ہيں اور يہ رويہ ہمارے لئے قابل قبول نہيں_
دوسرا اعتراض يہ ہے كہ انھوں نے ايسے كام كئے ہيں كہ جو ہر طرح سے اعتراض و تنقيد كے قابل ہيں _
عثمان ابن حنيف نے كہا كہ ميں حضرت على (ع) كى طرف سے اس شہر كا حكمراں ہوں مجھے كوئي اختيار نہيں ہے تھوڑى مہلت دو كہ ميں اميرالمومنين كو ايك خط لكھ كر تمھارے مطالبات كى اطلاع دے دوں تاكہ وہ جيسا كہيں اور جو حكم ديں اس پر عمل كيا جائے _
عثمان ابن حنيف كى منصفانہ پيش كش قبول كر لى گئي اور اسى پيش كش كے مطابق ان لوگوں نے باہم عہد كيا اور خدا كو بھى اس پر گواہ قرار ديا ، عثمان ابن حنيف نے يہ سارا واقعہ امام كو لكھ ديا ليكن دوروز سے زيادہ نہ ہوا كہ عائشه كے لشكر نے بصرہ كا امن و سكون درہم بر ہم كر ڈالا اور عثمان پر ہلّا بول ديا ، انھيں قيد كر ليا انھيں تازيانوں سے اذيت دى اور بہت قابل رحم حالت ميں ان كے سر اور ڈارھى كو تراش ڈالا(1)
كچھ دوسرے مورخوں يعقوبى ، مسعودى اور صاحب استيعاب نے يوں بيان كيا ہے :
عائشه او ر عثمان ابن حنيف كى فوجوں كے درميان اس مضمون كا عہد نامہ ہوا تھا كہ طرفين جنگ كى اگ بھڑ كانے سے پرہيز كرينگے اور شہر بصرہ كے انتظامى امور پہلے كى طرح عثمان ابن حنيف كے اختيار ميں رہيں گے يہاں تك كہ خود حضرت على (ع) بصرہ ميں تشريف لائيں اور اپنے مخالفين سے گفتگو كر كے اپنے نقطہ نظر كى تحريرى وضاحت كريں _
صلحنامہ كا يہى مضمون دونوں لشكر كے درميان لكھا گيا پھر حضر ت على (ع) كے حكمراں نے اس صلحنامہ كے مطابق اپنے ساتھيوں اور فوجيوں كو حكم جارى كيا كہ جنگى ہتھيار اتار ديں تاكہ صلح و صفائي كى راہ ہموار ہو سكے ليكن تھوڑے دن نہ ہو ئے تھے كہ ايك انتہائي ٹھنڈى اور بارش كى راہ ميں كچھ عائشه كے لشكر والے عبداللہ ابن زبير كى سركردگى ميں بصرہ كے گورنر پر حملہ كر بيٹھے، حضرت على (ع) كے گورنر عثمان كو قيد كر ليا پھر بيت المال لوٹنے كيلئے بڑھے اور پاسبانوں كو منتشر كر ديا ان كے چاليس ادميوں كو بھى قتل كر ديا (2)
مسعودى كا بيان ہے كہ: اس حملہ ميں مقتولوں اور زخميوں كى تعداد ستر تك پہونچ گئي ان ميں سے پچاس كو قيد كر كے عوام كو مرعوب كرنے كيلئے ان كى انكھوں كے سامنے گردن مار دى گئي _
طبرى اور صاحب استيعاب كہتے ہيں _ عثمان ابن حنيف كو قيد كرنے كے بعد ابان ابن عثمان كو عائشه كے پاس بھيجا گيا تاكہ ان كے بارے ميں حكم حاصل كيا جائے ، عائشه نے بھى انكے قتل كا حكم ديا اور كہا :
اے ابان ، عثمان ابن حنيف كو اپنے باپ كے انتقام ميں قتل كر ڈالو اور اپنے باپ كا انتقام اس سے لے لو _ جس وقت عثمان ابن حنيف كے فرمان قتل كى اطلاع لوگوں كو ہوئي تو ايك عورت عائشه كے پاس اكر بولى _
اے ام المومنين تمھيں خدا كى قسم ہے عثمان ابن حنيف كا احترام كرو كيو نكہ وہ رسول خدا(ص) كے صحابى اور ساتھى ہيں اس بات كو نظر انداز نہ كرو اور ان كے قتل سے باز ائو _
عائشه پر اس عورت كى بات كا اثر ہوا اور حكم ديا كہ ابان كو واپس لايا جائے ابان دوبارہ عائشه كے پاس ائے تو عائشه نے اس سے كہا :كہ ابان قتل عثمان سے باز ائو اور انھيں قيد خانے ميں ڈال دو _
ابان نے كہا: اے عائشه ، اگر ميں جانتا كہ تم عثمان كے معاملہ ميں تخفيف كا حكم دو گى اور ان كے قتل كو قيد سے بدل دوگى تو ميں واپس نہيں اتا ، كيا ميں تمھارے پہلے حكم كو نافذ كر دوں اور اپنے باپ كے انتقام ، ميں اسكى گردن مار دوں _
اس موقع كے مطابق نظريہ و صلاح مجاشع ابن مسعود چاليس تازيانہ عثمان ابن حنيف كے بدن پر لگايا گيا ، ان كے سر اور ڈاڑھى كو چھيل ڈالا گيا ان كى حالت قابل رحم ہو گئي اور اس كے بعد انھيں قيد خانے ميں ڈال ديا گيا (3)
مشھور مورخ يعقوبى كا بيان ہے كہ :
گورنر كے قصر پر حملہ كر كے عثمان كو گرفتار كيا گيا پھر عائشه كا لشكر بيت المال كيطرف حملہ اور ہوا اور جو كچھ اس ميں تھا مال غنيمت كى طرح لوٹ ليا ، اس طرح عائشه كے لشكر نے پہلى جنگ جيت لى ، اور شہر بصرہ كى حكمرانى (بيت المال اور شہر كے تمام اختيارات ان لوگوں كے زير نگيں اگئے )_
دوسرى جنگ شروع ہوئي
طبرى كا بيان ہے: عثمان بن حنيف كى گرفتارى كا واقعہ جب حكيم بن جبلہ كو معلوم ہوا ، جو بصرے كے معزز اور مشھور بزرگ تھے (4) بصرے كے بكر بن وائل اور عبد قيس قبيلے كے افراد كو ليكر عبد اللہ بن زبير كے پاس گئے ، اور ان سے درخواست كى كہ جس صلحنامہ كے مضمون كى مخالفت كر كے توڑا گيا ہے اسے نافذ كيا جائے اس كے مطابق عثمان بن حنيف كو قيد خانے سے نكال كر گورنر ہائوس ميں پہونچايا جائے ، تاكہ جب تك حضرت على (ع) ائيں حكومت بصرہ انھيں كے اختيار ميں رہے _
حكيم بن جبلہ نے اخر ميں كہا ، اے عبداللہ ، خدا كى قسم اگر ميں كچھ مدد گار فراہم كر سكتا تو تو تمھارى اس عہد شكنى اور بے گناہ مسلمانوں كے قتل پر تم سے سخت جنگ كر كے مقتولوں كا انتقام لے ليتا ، اے عبداللہ ، اب تمھارا خون بہانا ہمارے اوپر حلال اور مباح ہو گيا ، كيو نكہ تم نے ہمارے بے گناہ مسلمان بھائيوں كو قتل كر كے انكا خون زمين پر بہايا ہے ، اے عبداللہ ،تم خدا كے غضب سے نہيں ڈرتے كہ اتنے مسلمانوں كو تلواروں كى باڑھ پر ركھ ليا ، ان كا خون زمين پر بہا ديا ؟
عبداللہ بن زبير نے كہا : اے حكيم ہم نے انھيں قتل عثمان كے بدلے ميں قتل كيا ہے ، ان كا خون عثمان كے خون كے بدلے بہايا ہے _
حكيم نے كہا ، اے عبداللہ ، خدا سے ڈرو ، اسكے غضب كا خوف كرو ، كيونكہ ان ميں سے ايك بھى قتل عثمان ميں شريك نہيں تھا نہ ان كا قاتل تھا _
عبداللہ بن زبير نے كہا : اے حكيم ، ہمارى اخرى بات يہى ہے كہ عثمان بن حنيف جب تك خلافت على كى بيعت گردن سے نہ اتار ے ان سے بيزارى كا اظہار نہ كرے ، اسے قيد خانے سے ازاد نہيں كيا جائے گا _
اس وقت حكيم نے ، اسمان كى طرف رخ كر كے كہا: اے دادگر خدا ، تو گواہ رہنا كہ جو كچھ لازمى اور ضرورى موعظہ تھا ميں نے ان لوگوں كے گوش گذار كر ديا ليكن ميرى نصيحت نہيں سنى (اللھم انك حكم عدل فاشھد )
اسكے بعد حكيم نے اپنے ساتھيوں كى طرف رخ كر كے كہا ، اب ميں اپنى تكليف يہى سمجھ رہا ہوں كہ ان لوگوں سے جنگ كروں اب جو بھى تم ميں سے تكليف جنگ كا قائل نہ ہو وہ مجھ سے علحدہ ہو جائے ، يہ كہكر اپنے ساتھيوں كے ساتھ لشكر عائشه پر حملہ كر ديا ، اسطرح لشكر عائشه اور حكيم كے ساتھيوں كے درميان خونريز جنگ ہوئي ، حكيم جنگ كر ہى رہے تھے كہ عائشه كے ايك فوجى نے موقع پاكر اپ كى پنڈلى پر تلوار مارى ، حكيم كا پير پنڈلى سے كٹ گيا ، اور زمين پر گر پڑے ، حكيم نے اپنى وہى پنڈلى اپنے ہاتھ ميں ليكر تيزى سے اس پر پڑے ، اپنے كٹے پير كو اسكى گدّى پر اسقدر زور سے مارا كہ وہ زمين پر ڈھير ہو گيا ، حكيم نے خود كو كشاں كشاں ، اپنے كٹے پائوں كے ساتھ جاكر اپنے كو اس پر ڈال ديا ، پھر اسے قتل كر كے لاش پر ٹيك لگا كر بيٹھ گئے ، اسى وقت ايك راہگير نے پوچھا ، اے حكيم ، كس نے تمھيں يہ برے دن دكھائے ؟
فرمايا: يہى شخص جو ميرے نيچے ہے_
ليكن يہ زخم اتنا كارى اور موثر تھا كہ تھوڑى دير بعد اپكى روح قفس عنصرى سے پرواز كر گئي(5) طبرى كا بيان ہے ، لشكر عائشه نے حكيم كے قتل كے بعد دوبارہ عثمان بن حنيف كو قتل كرنے كا ارادہ كيا _
عثمان نے كہا كہ تم جانتے ہو ميرے بھائي سھل بن حنيف مدينے كے حاكم اور گورنر ہيں ، اگر تم نے مجھے قتل كيا تو وہ بھى تمہارے رشتہ داروں كو مدينے ميں قتل كر ديں گے ، يہى وجہ ہوئي كہ وہ لوگ قتل سے باز ائے اور انھيں ازاد كر ديا (6)_
داخلى جنگ شروع ہوگئي
لشكر عائشه پہلى اور دوسرى جنگ ميں فتح مند رہا ، شہر بصرہ كو ہر لحاظ سے اپنے قبضے ميں كر ليا ، ليكن اسى كے بعد شديد اختلاف اور داخلى جنگ شروع ہو گئي ، كيو نكہ
طلحہ كى كوشش تھى كہ اس فتح كے بعد پہلى نماز كى امامت اور پيشنمازى ان كے حوالے ہو ، كيونكہ يہ پيشنمازى خلافت كى نشانى بھى سمجھى جاتى تھى ، زبير بھى اسى كوشش ميں تھے كہ يہ مرتبہ و مقام وہ خودجھپٹ ليں ، اسطرح ان دونوں ميں سخت اختلاف اور كشا كش پيدا ہو گئي كہ محراب اور پيشنمازى كيسے حاصل كى جاسكے ، يہ معاملہ اتنا كھنچا كہ قريب تھا وقت نماز بھى نكل جائے ، چنانچہ مسلمانوں كى اواز يں ہر طرف سے بلند ہونے لگيں ، الصلاة الصلاة ، اے اصحاب رسول نماز پڑھو ، كہيں نماز كا وقت نہ نكل جائے _
ليكن ان دونوں ميں اختلاف بڑھتا ہى چلا گيا ، يہاں تك كہ خود عائشه نے مداخلت كى اور حكم ديا كہ طلحہ و زبير محراب پيشنمازى سے الگ رہيں ، ايك دن طلحہ كے فرزند محمد نماز پڑھائيں اور دوسرے دن زبير كے فرزند عبداللہ نماز پڑھائيں _
صاحب طبقات كا بيان ہے :
اس طرح عائشه كى پيشكش كے باوجود اختلاف ختم نہيں ہوا كيونكہ اب يہ جھگڑا شروع ہوا كہ ان دونوں ميں پہلے كون پيشنماز بنے دوبارہ ايسا شديد اختلاف ہوا كہ ہر ايك اپنے كو محراب تك لے جانا چاہتا تھا ، اور دوسرا اپنى كوشش كرتا تھا اس مشكل كو قرعہ اندازى كے ذريعے حل كيا گيا _
اسى نماز ميں محمد بن طلحہ نے سورہ سال سائل بعذاب واقع كى تلاوت كى اس تلاوت كا مقصد يہ تھا كہ وہ عبداللہ پر طعن كر رہے كہ ان كا غرور ٹوٹ گيا ، كاميابى ان كے نصيب ميں رہى (7)
صاحب اغانى كہتا ہے طلحہ و زبير اور ان كے بيٹوں كى پيشنمازى كے واقع كو ايك شاعر نے يوں نظم كيا ہے _
تبارى الغلاما اذ صليا
و شح على الملك شيخاھما
و مالى و طلحہ و ابن الزبير
و ھذالذى الجذع مولاھما
فامھما اليوم غيرتھما
ويعلى بن اميہ دلاھما
ترجمہ:يہ دونوں پيشنمازى كے لئے محراب ميں جھگڑا كر رہے ہيں ،اور يہ اس بات كا ثبوت ہے كہ يہ دونوں حكومت كے حريص ہيں _
ان دونوں كے باپ طلحہ و زبير بھى حد سے زيادہ حكومت كے حريص ہيں مجھے طلحہ و زبير سے كيا سروكار ؟
كيونكہ ان دونوں كے امام حضرت على (ع) تو ہمارے دسترس ميں ہيں ،طلحہ و زبير كو ان كى ماں نے دھوكہ ديا ، اور يعلى بن اميہ نے ان دونوں كو ورطہء ہلاكت اور بد بختى كا راستہ دكھا يا (8)_
جب حقيقت روشن ہوئي
طبرى نے جون بن قتادہ سے نقل كيا ہے كہ :
ميں زبير كے پاس تھا اتنے ميں ايك سوار نے اكر كہا:
اے امير اپ پر سلام
زبير و عليك السلام
گھوڑے سوار نے كہا ، اے امير ، حضرت على كا لشكر فلاں جگہ پہونچ چكا ہے ، ليكن وسائل جنگى كے اعتبار سے بہت مفلس ہے ، تعداد بھى بہت كم ہے ، ان سب كے دل ميں خوف بھرا ہوا ہے ، سبھى مرعوب ہيں _
وہ جيسے ہى گيا ايك دوسرے سوار نے اكر كہا :
اے امير ، اپ پر سلام
زبير ، و عليك السلام
سوار نے كہا: اے امير حضرت على (ع) كا لشكر فلاں جگہ ٹھرا ہوا ہے ،ليكن انھوں نے اپ كے لشكر اور وسائل جنگى كا حال سنا تو انكے دل خوف سے دھڑكنے لگے ، وہ اسى راستے سے واپس چلے گئے جس سے ائے تھے _
زبير نے كہا : خاموش ہو جا ، تو كيا كہہ رہا ہے؟تيرى باتوں سے چاپلوسى اور جھوٹ ظاہر ہو رہا ہے ، كيونكہ اگر على ايك ڈنڈے كے سوا بھى كوئي اسلحہ فراہم نہ كر سكيں تو اسى ڈنڈے سے جنگ كرنے چلے ائيں گے ، اپنے راستے سے پلٹيں گے نہيں _
جون بن قتادہ كا اگے بيان ہے كہ: حضرت على (ع) كا لشكر بصرہ كے نزديك پہونچ چكا تھا ، ايك اور سوار زبير كے پاس اكر بولا :
اے امير اپ پر سلام :
زبير .......... وعليك السلام :
سوار ، اے امير ، حضرت على (ع) كا لشكر تيزى سے اپكى طرف بڑھتا ارہا ہے ، ان كے ساتھ عمار بھى ہيں ، ميں نے انھيں اپنى انكھوں سے ديكھا ہے اور ان سے بات كى ہے
زبير ، تمھيں دھوكہ تو نہيں ہوا ؟ عمار كو على كے لشكر ميں نہيں ہونا چاہيئے _
سوار ،اے امير ، خدا كى قسم ، مجھے كوئي دھوكہ نہيں ہوا _
واقعى عمار ياسر حضرت على (ع) كے لشكر ميں ہيں _
زبير ، خدا كى قسم ، خدا عمار كو على كے لشكر ميں نہ قرار دے _
سوار ، اے امير ، خدا گواہ ہے كہ وہ انكے لشكر ميں موجود ہيں _
اخر كار زبير جتنا انكار كرتے رہے وہ سوار اتنا ہى زيادہ اصرار كے ساتھ كہتا رہا كہ عمار ياسر حضرت على كے لشكر ميں ہيں _
زبير نے جب سوار كا اصرار ديكھا تو قريب كے ايك شخص كو حكم ديا كہ حضرت على كے لشكر ميں جاكر واقعہ كى نزديك سے تحقيق كرے _
جون بن قتادہ كا بيان ہے ، وہ شخص گيا اور دير نہيں گذرى كہ واپس اكر بولا :
اے زبير ، خدا كى قسم ، اس نے جو كہا تھا صحيح تھا ، ميں نے بھى عمار كو حضرت على (ع) كے لشكر ميں ديكھا ہے _
بس يہيں پر زبير كے سامنے حقيقت روشن ہو گئي ، وہ بے اختيار چيخ پڑے ، ہائے ميرى كمر ٹوٹ گئي ، ميں
نے دھول چاٹ لى _
(يا جدع انقاہ يا قطع ظھراہ )ان كے جسم ميں ايسى تھرتھرى پڑ گئي كہ جسم كا اسلحہ حركت كر رہا تھا _
جون كہتا ہے: ميں نے يہ منظر خود اپنى انكھوں سے ديكھا ، اور ميں خواب غفلت سے بيدار ہو گيا ، ميں نے دل ميں كہا :
مجھ پر افسوس ہے ، ميں چاہتا تھا كہ اس شخص كى ركاب ميں جنگ كروں ، اسكے لئے جان ديدوں ، حالانكہ وہ خود اپنے كو باطل كے راستے پر سمجھ رہا ہے ، لازمى طور سے اس نے رسول خدا سے اس بارے ميں كوئي بات سنى ہوگى ، تبھى اسكے جسم ميں لرزہ ہے (9)
(جى ہاں ، رسول (ص) خدا نے عمار كو حق كے ميزان و معيار كى حيثيت سے متعارف كرايا تھا كہ جدھر عمار ہوں گے ادھر ہى حق بھى ہوگا ، يہى وجہ تھى كہ حضرت على كے لشكر ميں عمار ياسر كى موجودگى سے تشويش ميں مبتلا ہو گئے تھے )
طلحہ و زبير اپنے مقصد ميں مشكوك تھے
طبرى نے عوف اعرابى كا بيان نقل كيا ہے :
طلحہ و زبير مسجد بصرہ ميں تھے ، اتنے ميں ايك شخص اكر ان دونوں سے بولا
تمھيں خدا كا واسطہ ، كيا تم دونوں كو اس جنگ كے بارے ميں رسول (ص) خدا نے كوئي حكم ديا تھا؟
چونكہ طلحہ كے پاس كوئي جواب نہيں تھا ، اسلئے تجاہل برتنے لگے ، وہ مسجد ميں چلے گئے _
پھر اس شخص نے زبير كى طرف رخ كر كے يہى سوال كيا اے زبيركيا اس جنگ كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے تمھيں كوئي حكم ديا تھا ، يا تم نے اپنى خواہش سے يہ اقدام كيا ہے ؟
زبير نے كہا ، نہيں ، اس بارے ميں ہميں رسول(ص) خدا نے كوئي حكم نہيں ديا تھا ، ميں بصرہ ميں اس لئے ايا ہوں كہ تمہارے بصرہ كے بيت المال ميں بے حساب دولت اور پيسہ جمع ہو گيا ہے ، اسميں ہم بھى حصہ دار بن سكيں _ طبرى نے اس قصے كو نقل كرنے كے بعد زبير كے خاص غلام اور پيشكار ابو عمرہ كا بيان بھى اسى مفہوم كا نقل كيا ہے ، پھر طبرى لكھتا ہے كہ :جب بصرہ والوں نے طلحہ و زبير كى بيعت كر لى تو زبير نے بصرہ والوں كے سامنے تقرير كى _ اگر اسلحوں سے
اراستہ ايك ہزار افراد ميرا ساتھ ديں تو ميںہرگز على كو موقع نہ دوں كہ بصرہ ميں داخل ہو سكيں ، ايك ہى شب خون ميں ان كى فوج كو ختم كردوں ، ليكن بصرے كے كسى شخص نے بھى جواب نہيں ديا ، نہ انكى تائيد كى ، زبير نے جب يہ حالت ديكھى تو كہا :
اے لوگو يہ وہى فتنہ و فساد ہے جسكے بارے ميں رسول خدا(ص) برابر ہمارے گوش گذار كرتے تھے ، ہميں اس سے روكتے رہتے تھے _
ابو عمرہ كا بيان ہے : ميں نے زبير پر اعتراض كرتے ہوئے كہا اے زبير ، جب تم اپنے اس عمل كو تباہى و فساد سمجھ رہے ہو ، اسے فتنہ كہہ رہے ہو توادھر دوڑ كر كيوں اگئے ہو ؟
زبير نے كہا : چپ ہو جا ، ہم اگر چہ دوسروں كو راستہ بتا رہے ہيں ليكن خود اپنے راستے كے بارے ميں حيران و سرگرداں ہيں ، اس اقدام كے بارے ميں مشكوك ہيں (اناينصر ولاينصر)
ہاں ، ميں نے اپنى زندگى ميں جب بھى كوئي اقدام كيا اسكے انجام كے بارے ميں خوب سونچ سمجھ ليا تبھى اقدام كيا ليكن اس كام كے بارے ميں ہميں انجام كى كوئي خبر نہيں (10)
اسكے بعد طبرى نے علقمہ بن وقاص كا بيان نقل كيا ہے (11) جس زمانے ميں طلحہ ، زبير اور عائشه حضرت على سے جنگ كرنے كيلئے بصرہ كى طرف بڑھ رہے تھے ، ميں طلحہ كى روش و رفتار كا گہرى نظر سے مطالعہ كررہاتھا ميں نے ہميشہ پريشان اور متفكر ہى ديكھا ، اكثر وہ تنہائي ميں بيٹھے رہتے ، گريبان ميں منھ ڈالے سوچتے رہتے ، ايك دن ميں نے ان سے پوچھا _
اے طلحہ ، اپ اتنے فكر مند كيوں ہيں ؟كيا وجہ ہے كہ اپ اسقدر پريشان نظر ارہے ہيں ؟اگر على سے جنگ پسند نہيں تو لشكر سے علحدہ ہو جايئے ، اپنے گھر واپس جايئے _
طلحہ نے جواب ديا ، اے علقمہ ، ايك دن تھا كہ ہم تمام مسلمان دشمن كے مقابلے ميں ايك دل اور ايك زبان تھے ، ليكن بڑے افسوس كى بات ہے كہ اج ہم مسلمان ہى دو مخالف گروہ كى شكل ميں امنے سامنے ہو رہے ہيں ،
ايك دوسرے كو جنگ كى دعوت دے رہے ہيں_
اخر ميں كہا :اے علقمہ ،قتل عثمان كے سلسلے ميں مجھ سے بڑى غلطى ہوئي ہے ، جسكى تلافى سوائے اسكے ممكن نہيں كہ ميرا بھى خون ان كے انتقام ميں بہہ جائے (12)
يہ دونوں واقعہ جنھيں ميں نے معتبر مدارك سے نقل كيا ہے اچھى طرح واضح كرتے ہيں كہ طلحہ وزبير اپنے اقدام ميں مشكوك تھے ، اپنے مقصد و ہدف پر ان كا ايمان و عقيدہ نہيں تھا ، اپنے اقدام كو شك و ترديد كى نگاہ سے ديكھتے تھے ، اسكے خطر ناك انجام سے ہر اساں تھے ، كبھى كبھى وہ اپنے شك و ترديد كا بے اختيار انہ اظہاربھى كر ديتے تھے _
ليكن اسكے بر خلاف امير المومنين اپنے مقصد و ہدف پر كامل ايمان ركھتے تھے ، اپنے خطبوں ميں فرماتے تھے ، بھر پور يقين ہے كہ اس جنگ ميں خدا وند عالم ميرا مددگار ہوگا ، وہ مجھے اسميں كامياب قرار ديگا ، كيونكہ مجھے يقين ہے كہ اس جنگ ميں بے گناہ اور حق پر ہوں ، اپنے اقدام پر ذرا بھى شك نہيں (و انى لعلى يقين من امرى و فى غير شبھة من دينى )
اپ فرماتے تھے ( وان معى بصيرة)مجھے اپنے اقدام كى پورى بصيرت ہے _
عائشه كے پاس دو خط
1_زيد ابن صوحان كو خط
طبرى نے مجاہد ابن سعيد سے نقل كيا ہے كہ عائشه نے زيد ابن صوحان كو خط لكھا جو عالم اور پر ہيز گار اور صحابى رسول تھے ، خط كا مضمون يہ تھا _
يہ خط ہے زوجہ رسول عائشه بنت ابوبكر كا اپنے نيك فرزند زيد ابن صوحان كو پيارے فرزند ميں تم سے ہر قسم
كے مدد كى اميد ركھتى ہوں ، جيسے ہى يہ خط پہنچے تو ميرے پيارے نصرت و مدد كيلئے ميرى طرف تيزى سے ائو ، اور اگر ميرا يہ مطالبہ قبول نہ كرو تو كم سے كم على سے علحدہ رہو اور انكى مدد سے پرہيز كرو _
زيد نے عائشه كو يوں جواب ديا :
يہ خط ہے زيد ابن صوحان(13) كى طرف سے زوجہ ء رسول عائشه بنت ابوبكر كو
اے عائشه ہاں ميں تمھارا وفادار اور فرمانبردار فرزند ہوں بشرطيكہ اس خطرناك اقدام سے باز اجائو اور جس راستے سے تم ا رہى ہوا پنے گھر واپس چلى جائو اور اگر ميرى پيكش قبول نہ كرو اور ميرى نصيحت نہ مانو تو صرف يہ نہيں كہ ميں تمھارا فرزند نہيں ہوں گا ، بلكہ وہ پہلا شخص ہو ں گا كہ تم سے دشمنى كروں اور سخت جنگ كروں (14)
اس خط كا اثر تھا كہ زيد ابن صوحان نے عائشه كے بارے ميں شيريں اور تاريخى جملہ كہا تھا _
خدا رحمت كرے عائشه پر ، ميرے ساتھ انھوں نے عجيب معاملہ كيا ان كى ذمہ دارى تھى گھر ميں بيٹھنا اسے ہمارے حوالہ كيا اور ہمارى ذمہ دارى ہے جنگ و جھاد اسے اپنے ذمہ لے ليا ہے _
2_ حفصہ كو خط
ابو مخنف كا بيان ہے كہ جب عائشه كو معلوم ہوا امير المومنين كا لشكر ذيقار ميں پہنچ گيا ہے تو ايك خط حفصہ
بنت عمر كو جو رسول اللہ كى دوسرى زوجہ تھيں لكھا
اے حفصہ ايك اچھى خبر اور بہت حيرت انگيز اطلاع تمھيں پہچاتى ہوں ، على اپنے لشكر كے ساتھ مدينہ سے چلكر منزل ذيقار ميں پہنچ گئے ہيں وہاں وہ ميرے لشكر كى طاقت اور جنگى سازو سامان كے بارے ميں سنكر بہت مرعوب اور خوفزدہ ہيں ، رعب كے مارے ان كا سر جھك گيا ہے اور ان كے پائوں نہيں اٹھ رہے ہيں_
اج على تھكے گھوڑے كيطرح اور خود باختہ ہيں كہ نہ وہ پيچھے ہٹ سكتے ہيں كيونكہ ان كو پير كٹنے كاڈر ہے اور نہ اگے بڑ سكتے ہيں كہ وہ قتل ہونے سے ڈر رہے ہيں _
جب يہ خط حفصہ كے پاس پہونچا تو انھوں نے اپنى كنيز وں ( نوكروں اور خاندان كى لڑكيوں )كو جمع كيا جمع كر كے حكم ديا كہ عائشه كے خط كو گيت كے انداز مين پڑہيں اور ڈھول بجا كر اس طرح كہيں _
مالخير ؟مالخير ؟على فى الكفر كا لخرس الاشقر ان تقدم عقر و ان تاخر نحر
طلقاء كى عورتيں اور لڑكياں اور على كے مخالفين (جب ان سب نے يہ واقعہ سنا تو حفصہ كے گھر ميں ائے اور ان لوگوں نے اس جشن ميں شركت كى )
حضرت امير المومنين كى بيٹى ام كلثوم كو جب يہ واقعہ معلوم ہوا تو اپنے سر پر اس طرح سے چادر ڈالى كہ پہچان ميں نہ ائيں ،اور كچھ عورتوں كے ساتھ حفصہ كے گھر ميں پہنچيں اور ايك گوشے ميں بيٹھ گئيں ، تھوڑى دير كے بعد اپنے چہرے سے چادر ہٹائي ، جب حفصہ كى نظر ام كلثوم پر پڑى تو بہت شرمندہ ہوئيں اور اپنى اس نا زيبا حركت پر اظہار ندامت كيا _
ام كلثوم نے كہا :اے حفصہ تم سے اور عائشه سے يہ كيا بعيد ہے ، اج تم ميرے باپ على كى دشمنى اور عداوت ميں ايك دوسرے كى مدد كررہى ہو ، اسى طرح تم نے رسول اللہ كو تكليف پہچانے ميں ايك دوسرے كى مدد كى تھى ، يہاں تك كہ تمھارى مذمت اور ملامت ميں قران كا ايك پورا سورہ نازل ہو گيا (15) حفصہ نے كہا: اے ام كلثوم خدا تم پر رحم كرے مجھے معاف كرو ، اس سے زيادہ ميرى ملامت نہ كرو ، اس كے بعد حكم ديا كہ ام كلثوم كے سامنے عائشه كا يہ خط پھاڑ ڈالو (16)_
على كا لشكر مدينے سے چلا
يہاں تك حضرت على امير المومنين كے مخالفوں كے حالات كو بيان كيا گيا تھا اور يہ بتايا گيا تھا كہ يہ تمام گروہ اپس ميں كس طرح مل كر ايك فوج كى شكل ميں انحضرت كے خلاف محاذ ارائي كيلئے امادہ ہوئے اور اسى طرح اس كا نام لشكر عائشه ركھا گيا ، اور وہ مكہ سے شھر بصرہ كو قبضے ميں كرنے تك كے حالات بيان كئے گئے _
اب موقعہ ہے كہ يہاں سے مدينہ چل كر على كا پتہ لگائيں اور وہاں سے بصرہ تك پہنچنے كے حالات بيان كريں كہ كيا حالات پيش ائے _
جس وقت حضرت امير المومنين كے كان ميں يہ بات پہونچى كہ عائشه نے بغاوت كى ہے اور طلحہ و زبير نے مخالفت پر كمر بستہ ہو كر عائشه كى فوج كے ساتھ عراق كا رخ كيا ہے تو اپ نے تمام مہاجرين و انصار اور مسلمانوں كو حكم ديا كہ مسجد مدينہ ميں جمع ہوں _
اپ نے يہ تقرير فرمائي
اے لوگوعائشه نے ميرى مخالفت كا پرچم لہرايا ہے اور ميرے خلاف لشكر ترتيب ديا ہے اب وہ اپنے لشكر كے ساتھ عراق كى طرف جا رہى ہيں ، طلحہ وزبير نے بھى ميرى بيعت توڑ كر عائشه كى مدد كرنے كا بيڑا اٹھا يا ہے ، كيونكہ طلحہ ان كے چچيرے بھائي ہيں اور زبير بھى ان كى بہن كے شوھر ہيں ، طلحہ و زبير اس بيعت شكنى اور مخالفت سے حكومت كى ارزو ركھتے ہيں ، اور انھوں نے خلافت و حكومت پر قبضہ كرنے كى لالچ كى ہے ، اگر وہ كامياب ہو جائيں تو خلافت پر قبضہ كرليں ، ان دونوں كے درميان لازمى طور سے شديد اختلاف پيدا ہو گا ، كيونكہ ہر ايك اس خلافت كا خواستگار ہے ، اور اس مرتبہ تك پہچنے كيلئے ايك دوسرے كى گردن مار ديگا (خون بہا ديگا )ليكن ميں بھر پور يقين ركھتا ہو ں كہ يہ دونوں اس مرتبہ تك نہيں پہنچيں گے اور نہ كامياب ہونگے اور نہ خليفہ ہو سكيں گے _
اور يہ جو عائشه ہے يہ شتر سوار عورت ، خدا كى قسم وہ اس سفر ميں جو بھى پہاڑ يا صحرا كى طرح چل رہى ہے يا بيابا ن كا چكر لگا رہى ہے وہ صرف مخالفت حكم الھى اور معصيت كى راہ چل رہى ہے ، اپنے كو جرم اور گناہ سے الودہ كر رہى ہے ، وہ اس راہ ميں اپنے كو اپنے ساتھيوں كو ہلاكت و بد بختى كے بھنور ميں كھينچ رہى ہے ، ہاں ، خدا كى قسم ، اس جنگ ميں
لشكر عائشه كا ايك تہائي حصہ قتل ہو جائے گا اور ايك تہائي فرار اختيار كريگا اور ايك تہائي بھى نادم و پشيمان ہو گا _
اے لوگو يہ عائشه وہى عورت ہے كہ جس پر حوا ب كے كتے بھونكيں گے (كہ يہ واقعہ رسول خدا (ص) كى پيشگوئي كے مطابق عائشه كے باطل ہونے پر اور گنہگار ہونے پر مضبوط دليل ہے )
اب رہے طلحہ و زبير ، خدا كى قسم وہ دونوں خود اچھى طرح جانتے ہيں كہ باطل كيطرف جارہے ہيں اور معصيت و گناہ كا راستہ اپنا رہے ہيں ، انھيں يقين ہے كہ ميرى بيعت توڑنے اور مخالفت كرنے كيوجہ سے وہ گنہگار اور خطا كار ہيں ، واہ، وہ بھى كيسا عالم ہے جو اپنے ہاتھ ميں علم و دانش كى مشعل ليكر بھى جھالت و نادانى كے بھنور ميں ہلاك ہو جائے اور بد بختى اس كا مقدر بن جائيگا ، اس كا علم و دانش اسے كوئي فائدہ نہ پہونچا سكے ، و ربّ عالم قتلہ جھلہ و معہ علمہ لا ينفعہ ،خدا وند عالم ميرے ساتھ ہے اور ميرا مدد گار ہے وہ مجھے كبھى نہ چھوڑے گا حسبنا اللہ و نعم الوكيل_
اسكے بعد امير المومنين كے اگے ارشاد فرمايا :
اے لوگو اگاہ ہو جائو كہ اج بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگياہے اس فتنہ كى سلسلہ جنبانى بھى وہى سر كش گروہ (فئہ باغيہ )كر رہا ہے ، جسكى رسول خدا نے بار بار خبر دى تھى ، اور ہميں اس سے اگاہ كيا تھا ، اپ نے اس فتنے كى پيشگوئي مجھ سے فرما دى تھى _
اے لوگو يہ ہمارے اوپر اور تمھارے اوپر لازم ہے كہ ان فتنہ پر دازوں اور باغيوں كو خاك چٹا ديں ان سب كو پچھاڑ دين اور مسلمانوں كے درميان سے ہٹا كر فتنہ و فساد كو خاموش كر ديں ، كہاں ہيں حق اور حقيقت كے محافظ ، كہاں ہيں وہ غيرت مند اور با ايمان مرد _
كہاں ہيں وہ لوگ كہ جو حق و باطل سے ظالم اور مفسد كو عادل اور صالح كے درميان امتياز پيدا كرديں _
اے لوگو ميں نے قريش كے ساتھ كيا برائي كى ہے ؟ ہم سے مخالفت كا كيا حساب كتاب ہے كہ انھوں نے ميرے خلاف يہ سب ہنگامہ كھڑا كر ديا ہے ، خدا كى قسم ميں بھى باطل كو پھاڑ كر اس كے پہلو سے حق كو ظاہركر دوں گا باطل كے ضخيم پردوں كو پارہ پارہ كر دونگا اور اس سے حق كا خوب صورت چہرہ نماياں كر دوں گا ، اور قريش كو نالہ و زارى
ميں مبتلا كر كے چھوڑوں گا ان سے كہہ دو جہاں تك وہ چاہتے ہيں بد بختى اور جھالت ميں سر دھنتے رہيں اور اپنى ذلت و بے چارى پر روتے رہيں حضرت اميرالمومنين كى يہ پہلى تقرير اس طرح ختم ہوئي دوسرے اور تيسرے دن بھى لوگوں كو امادہ كرنے كيلئے اپ نے اتشيں تقرير مسجد مدينہ ميں فرمائي يہاںتك كہ اخرى دن اپ نے اعلان جنگ كر كے لشكرتيار كيا پھر اپ نے حكم ديا كہ تيار ہو كر مدينہ سے كوچ كرو (17)
مسعودى كا بيان ہے كہ: حضرت على (ع) نے سہل ابن حنيف انصارى كو مدينہ ميں اپنا جانشين بنايا اور مدينہ كے معاملات ان كے حوالے كئے ، پھر سات سو افراد كے ساتھ عراق كى طرف چل پڑے ان ميں چار سو افرادايسے تھے جنھيں مہاجر و انصار ہونے كا شرف حاصل تھا ستّر وہ تھے جنھوں نے جنگ بدر ميں رسول اللہ كے ساتھ شركت كى تھى ، انھيں بدرى كہا جاتا ہے ، ان كے علاوہ بھى جو لوگ تھے ، صحابى تھے اور مسلمانوں ميں احترام كى نظر سے ديكھے جاتے تھے ، اس طرح على ابن ابيطالب نے اپنے لشكر كو امادہ كر كے پہلے مكہ كى راہ لى پھر عراق كى طرف چل پڑے يہاں تك كہ اس مقام پر پہنچے جس كو ربذہ كہا جاتا ہے (18)
xxx
لشكر على (ع) ربذہ ميں
امير المومنين(ع) اپنے فوجيوں كے ساتھ پہلى منزل پر اترے جسے ربذہ كہا جاتا ہے وہاں اپ نے چند دن قيام فرمايا
عثمان ابن حينف جو امام كى طرف سے بصرہ كے گورنر تھے (انھيں عائشه كے لشكر نے اسير كر كے ضرب و شتم كے ساتھ وہاں سے نكال ديا تھا ) انھوں نے اپنے كو حضرت على (ع) تك پہنچايا اور ملاقات كى _
طبرى نے عثمان ابن حنيف اور امير المومنين كى ملاقات كا واقعہ محمد بن حنفيہ كے بيان كے مطابق نقل كيا ہے :
عثمان ابن حنيف جب بصرہ سے حضرت على (ع) كى خدمت ميں ائے اور ربذہ پہنچے تو ان كے سر اور چہرے كے بال اڑے ہوئے تھے جنھيں عائشه كى فوج نے اكھاڑ ديا تھا ، عثمان اسى ہيئت كے ساتھ حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور غم و اندوہ كے ساتھ كہا ، اے امير المومنين جس دن اپ نے مجھے بصرہ كى گورنرى عطا كى تھى اس دن ميں بوڑھا اور ميرى داڑھى بھرى ، اور سفيد تھى ،ليكن اج ميں ايك نوجوان اور نابالغ كى صورت ميں اپ كے پاس واپس ايا ہوں _
حضرت على (ع) نے فرمايا : اے عثمان صبر كرو كيونكہ خداوند عالم اس اذيت كے بدلے تم كو اچھى خبرعطا كريگا ، اس كے بعد امام نے اپنے لشكر كى طرف رخ كر كے فرمايا :
اے لوگو طلحہ و زبير نے اپنى بيعت توڑ دى اور لوگوں كو ميرے خلاف بغاو ت پر ابھارا ، مجھے اس بات پر تعجب ہے كہ انھوں نے ابوبكر و عمر كے ساتھ كيسے موافقت كى تھى اور ان دونوں خليفہ كے فرمان پر گردن جھكا دى تھى ، ليكن اج وہ ميرى مخالفت پر امادہ ہيں خدا كى قسم يہ دونوں اچھى طرح جانتے ہيں كہ ميں ان دونوں خليفہ سے كمتر نہيں ہوں ، اس كے بعد حضرت على (ع) نے طلحہ و زبير پر اس طرح بددعا كي
خدايا ان كا منصوبہ مليا ميٹ كر دے ان كے عمل كى بنياد درہم برھم كر دے ، خدايا ان كے كرتوتوں كى سزا جلد ديدے _
ا لّھم فاحلل ما عقد اًولا تبرم ما احكما فى انفسھما (19)
امير المومنين نے وہيں سے كوفہ كے گورنر عبداللہ ابن قيس كو خط لكھا جو ابو موسى اشعرى كے نام سے مشھور تھے _
اے ابو موسى كچھ لوگوں نے ميرى بيعت توڑ دى ہے _
ميرے دوستوں اور ماننے والوں كو تلوار كى باڑھ پر ركھ ليا ہے ، انھيں قتل كر ڈالا ہے ،اور اس طرح مسلمانوں كے درميان عظيم فتنہ و فساد برپا كيا ہے ، انتظامى حالت اور امن و چين كو درہم برہم كر ديا ہے_
اے ابو موسى تم ميرى جانب سے حكمراں ہو ، تمھيں چاہيئے كہ حق كى راہ ميں ميرے مدد گاربنو ، جيسے ہى ميرا يہ خط پہونچے تم كوفہ كے كچھ لوگوں كو تيار كر كے ہتھيار كے ساتھ ميرى طرف روانہ كرو ، تاكہ وہ لوگ اس حساس موقعہ پر ميرى مدد كريں ، اور ان ظالم اور بيعت شكن (اور فتنہ پرور لوگوں سے جنگ كر كے ان كى اوقات بتا ديں _ والسلام
حضرت على (ع) نے اپنے اس گورنر كے خط كے علاوہ بھى ايك خط كوفے والوں كو لكھ كر اپنى نصرت كى دعوت دى ليكن ابو موسى نے امام كے خط پر كوئي توجہ نہيں دى ، اس نے صرف يہى نہيں كہ امام كے خط كا اثبات ميں جواب نہيں ديا بلكہ كوفے والوں كو بھى امام كى مدد سے روكا ، حضرت على (ع) كا خط جو لوگ ليكر گئے تھے وہ مايوس واپس ائے ، امير المومنين نے ايك دوسرا خط ابو موسى كو لكھا جس ميں ابو موسى كى سخت سر زنش كى اور ان كے نا شائستہ عمل كى مذمت كى _
اس كے بعد حضرت على (ع) ربذہ سے جو مكہ كے راستے ميں تھا ، اپنے لشكر كے ساتھ عراق كى جانب متوجہ ہوئے اور اگے بڑھتے رہے _(20)
لشكر على (ع) ذى قار ميں
حضرت على (ع) اپنے لشكر كے ساتھ ربذہ سے چل كر دوسرى منزل پر پہنچے جس كا نام ذيقار تھا ، وہيں اپ نے كوفے والوں كو دوسرا خط لكھا اور اپنے فرزند امام حسن كو مامور فرمايا كہ اہل كوفہ تك يہ خط پہنچا كر اس كے مضمون سے لوگوں كو مطلع كريں اور انھيں حضرت على (ع) كى مدد پر امادہ كريں _
حضرت حسن مجتبى (ع) كوفہ تشريف ليگئے اور اپنے والد ماجد كا خط كوفہ والوں كو سنا كر والد كى مدد كيلئے ابھارا _ حضرت
حسن مجتبى (ع) نے اپنا كا م بخوبى انجام ديا اور بہت اچھا نتيجہ نكلا كيونكہ كوفے كے بہت زيادہ لوگوں پر امام كى تقرير كا اثر ہوا اور وہ لشكر حضرت على (ع) كى طرف چل كر اپ كے لشكر سے مل گئے طبرى نے اس واقعہ كو يوں لكھا ہے كہ ابو ليلى كا بيان ہے حضرت على (ع) نے ايك خط كوفے والوں كو لكھا كہ :
بسم اللہ الرحمن الرحيم
كوفے والو ميں چونكہ خدا و رسول كے بارے ميں تمھارے عقيدے سے واقف ہوں اس لئے تمھيں دوسروں پر ترجيح ديتا ہوں اور ميں نے تمھارى طرف رخ كيا ہے تمھارے شھر كے قريب اچكا ہوں جو بھى ميرى نصرت كريگا ، وہ اپنى دينى ذمہ دارى كو پورا كرے گا ، حق و عدالت كى نصرت كرے گا '' فمن جاء نى و نصرنى فقد اجاب الحق و قضى الدين عليہ'' (21)______1_ طبرى ج5 ص 186
ابو طفيل كا بيان ہے كہ: حضرت على (ع) نے كوفے والوں كو خط لكھنے كے بعد مجھ سے پيش گوئي فرمائي كہ باشندگان كوفہ ميں سے بارہ ھزار اور ايك شخص نے ميرے خط كا مثبت جواب ديا ہے ، وہ ميرى نصرت كيلئے ارہے ہيں _
اسكے بعد ابو طفيل كہتا ہے :
جو لشكر كوفے سے ايا تھا اس كا اچھى طرح شمار كيا گيا ، ان كى تعداد بغير كمى و زيادتى كے وہى تھى كہ جس كى امام نے پيشگوئي فرمائي تھى (22)
ابن عبد ربہ كہتا ہے كہ كوفے كے لوگوں نے حضرت على (ع) كى طرف بڑ ھتے ہوئے منزل ذيقار كى فوجى چھائونى ميں اپنے كو پہچا ديا ، امير المومنين نے ان كے سامنے يہ تقرير كي
بسم اللہ الرحمن الرحيم
بعد حمد و صلاة
اے لوگو جان لو كہ جن دنوں سارے جھان ميں فتنہ و فساد پھيلا ہوا تھا اور خاص طور سے عرب پر فتنہ كى حكمرانى تھى جبكہ انسان جنگ و خونريزى اور اختلاف كے پائوں تلے روندا جارہاتھا ، جبكہ خوف اور اذيت كا چاروں طرف ڈيراتھا، خدائے مہربان نے اپنے پيغمبر محمد مصطفى (ص) كو سارے عالم كى ہدايت كيلئے مبعوث فرمايا اور ان كے وسيلے
سے فساد و خونريزى كو ختم كيا ، نفاق كو مہربانى سے بدل ديا ، معاشرتى رخنوں اور طبقاتى اختلافات كا ان كے درميان سے خاتمہ كيا ، خوف و خطر سے بھرے راستوں كو امن و امان بخشا ، پرانے كينہ و عناد كو جڑ سے اكھاڑ ديا ، پھر انھيں اس حال ميں اپنى طرف واپس بلايا كہ اللہ ان كى كوششوں سے راضى تھا اور ان كے كارناموں سے خوشنود تھا ، اپنى بارگاہ ميں وہاں بھى وہ محترم ہيں ، انھيں بہشت ميں بہترين منزلت و مقام عطا كيا _
ليكن افتاب نبوت كے غروب ہوتے ہى تمام مسلمانوں پر حوصلہ شكن مصيبت نازل ہو گئي جو اس قوم ميں اس سے پہلے نازل نہيں ہوئي تھى _
رسو ل خدا (ص) كے بعد ابو بكر نے لوگوں كے اختيارات كى زمام اپنے ہاتھ ميں لى ، انھوں نے اپنى حكومت كے زمانے ميں اپنى حد بھر مسلمانوں كے ساتھ اچھا سلوك برتا اور مسلمان بھى نسبتاً ان سے راضى تھے _
ابو بكر كے بعد عمر كرسى حكومت پر بيٹھے اور انھوں نے ابو بكر كى روش اپنائي ، ان دونوں كے بعد عثمان حكومت و خلافت پر بيٹھے انھوں نے مسلمانوں كے اختيارات پر قبضہ كيا ليكن ايسى راہ و روش اپنائي كہ تمام مسلمان غم و غصہ ميں بھر گئے ، يہاں تك كہ ان كے قتل كا ارادہ كيا اور اخر كا ر انھيں قتل كر ڈالا ، اس وقت تم لوگ ميرى طرف بڑھے اور مجھے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ اس خلافت كو قبول كرنے پر امادہ كيا ، ميں نے جتنا بھى اپنے كو بچانا چاہا تم نے ہاتھ پھيلايا ميں نے جتنا ہاتھ كھينچا تم نے اتنا ہى مجھے اپنى طرف كھينچا ،ميں نے بہت كہا كہ مجھے اس عہدے سے معذور ركھو تم نے اتنا ہى زيادہ سختى سے اصرار كيا تمھارا اصرار بڑھتا رہا ، تم نے كہا ہم اپ كے سوا اس عہدے كيلئے كسى كو بھى قبول نہ كريں گے ، ہم كسى دوسرے كے پاس نہيں جائيں گے _
اے لوگو تم ميرى طرف يوں ٹوٹ پڑے جيسے پياسہ اونٹ كسى چشمے كيطرف جاتا ہے اور شوق كے ساتھ والہانہ پن كے انداز ميں اپنا منھ ڈال ديتا ہے تم اسى طرح ميرے گھر پر ہجوم كر كے ائے ايسا معلوم ہوتا تھا كہ جيسے كسى كو قتل كرنا چاہتے ہو ، اخر كار تم نے ہميں اتنا مجبور كيا كہ ميں نے تمھارى پيشكش قبول كر لى اور تم نے ہمارى بيعت كر لى _
طلحہ و زبير نے ميرے ہاتھ پر بيعت كا ہاتھ ركھا ليكن دير نہيں گذرى كہ خانہ كعبہ كى زيارت كے بہانے مدينے سے نكل گئے ،ليكن وہ خانہ ء كعبہ كے بجائے بصرہ كى طرف چل پڑے ، وہاں انھوں نے فتنہ پھيلايا اور وہاں كے مسلمانوں كو اذيت ديكر بہت سے لوگوں كو قتل كر ڈالا ، خدا كى قسم وہ لوگ بہتر جانتے ہيں كہ ميں گذشتہ خلفاء سے كمتر نہيں ہوں _
پھر امام نے فرمايا :اگر ميں حقيقت كے چہرے سے پردہ اٹھانا چاہوں تو اس سے بھى زيادہ كہہ سكتا ہوں ، حقائق كو روشن كر سكتا ہوں _
اس كے بعد اپ نے اسمان كى طرف رخ كيا اور فرمايا : خدا يا گواہ رہنا ، انھوں نے ميرے احترام اور رشتہ دارى كى رعايت نہيں كى ميرى بيعت كا عہد توڑ ديا ، لوگوں كو ميرى عداوت و دشمنى پر ابھارا _
خدايا تو ہى ان كے منصوبوں كو مليا ميٹ كر اور جس قدر جلد ہو انكے برے كرتوتوں كى سزا دے (23)
ذيقار ميں حضرت على (ع) كى دوسرى تقرير
منزل ذيقار ميں حضرت على (ع) كے قيام كى مدت ختم ہوئي اور اپ نے اپنے لشكر كو وہاں سے اگے بڑھانا چاہا ليكن اپ نے مناسب سمجھا كہ چلنے سے پہلے ايك شعلہ بار تقرير كى جائے _
ابن عبدالبر نے اس تقرير كو اس طرح نقل كيا :
اے لوگو اللہ نے ہر انسان پر جھاد واجب قرار ديا ہے كيونكہ جھاد كے ذريعہ سے دين خدا كى مدد ہوتى ہے ، اس كے بغير دنيا و اخرت كے امور اصلاح پزير نہيں ہوتے ، اے لوگو ، ميں اج چار شخصيتوں كے مقابل كھڑا ہوں جو ايك دوسرے كے معاون بن گئے ہيں _
طلحہ_ بہت پست اور لوگوں ميں سب سے سخى انسان
زبير_ اپنے وقت كا بہادر ترين انسان
عائشه_ مسلمانوں ميں جن كى بات سب سے زيادہ مانى جاتى ہے
يعلى بن اميہ_ يہ بھى بہت بڑا فتنہ پرداز شخص ہے
خدا كى قسم ، ميرے بارے ميں ان لوگوں كا اعتراض صحيح نہيں ہے ، كيونكہ ميں نے كوئي بھى ناپسنديد ہ كام
انجام نہيں ديا ہے ، نہ مسلمانوں كے مال كيطرف ہاتھ بڑ ھايا ہے ، نہ اپنے خواہش نفس كى پيروى كى ہے اے لوگو ان لوگوں نے مجھ سے اس حق كا مطالبہ كيا ہے جسے انھوں نے خود كھوديا ہے ، جس خون كو انھوں نے بہايا ہے اس كا انتقام مجھ سے لينا چاہتے ہيں ، ہاں خدا كى قسم ، انھيں كے ہاتھ خون عثمان سے رنگين ہيں ، ان كے قتل ميں ميں ذرہ برابر بھى شريك نہيں ہوں ، وہى لوگ ہيں جنھيں رسول (ص) خدا نے باغى گروہ (فئہ باغيہ ) قرار ديا ہے ، انھيں ظالم قرار ديا ہے اور انھيں سر كش قوم ميں شامل كيا ہے _
ہاں ، كون سا ظلم اس سے بڑھ كر ہوگا كہ عثمان كو خود انھوں نے قتل كيا ليكن ان كے خون كا بدلہ بے گناہوں سے لے رہے ہيں اور ان سے كہ جو قتل ميں شريك نہيں تھے
كون سى سر كشى اس سے بڑھ كر ہوگى كہ انھيں ميرى عدالت و لياقت كا اعتراف بھى ہے ، انھوں نے ميرى بيعت كى اور بار بار مجھ سے عہد كيا ليكن اپنا عہد توڑ ديا اور بيعت ختم كر دي
صرف ميرے دل كو يہ سونچكرسكون ملتا ہے كہ ان پر خدا كى حجت تمام ہوگئي اور خدائے دانا ان كى خائن نيتوں سے اگاہ ہے _
خدا كى قسم طلحہ زبير عائشه يہ خود اچھى طرح جانتے ہيں كہ حق ميرے ساتھ ہے اور وہ باطل كى راہ پر ہيں ليكن اس كے باوجود ميں ان لوگوں كو حق و عدالت كى پيروى اور صلح و صفائي كى دعوت دوں گا ، اگر انھوں نے ميرى دعوت قبول كى تو ميں بھى انھيں معاف كر دوں گا ، ان كى لغزش و جرم سے چشم پوشى برتوں گا ، اور اگرپھر بھى وہ سر كشى و تمرد پر امادہ رہے تو ان كا جواب تيز تلوار سے دونگا ، كيو نكہ تلوار ہى حق كى سب سے بڑى مددگار اور باطل كو مليا ميٹ كرنے والى ہے (24)
لشكر على (ع) زاويہ ميں
حضرت على (ع) ذيقار سے چل كر بصرہ كے نزديك اس مقام پر پہنچے جسے زاويہ كہا جاتا تھا وہاں اپ نے كچھ دن قيام فرمايا ، اس تيسرى منزل پر بھى حضرت على (ع) كى چھائونى ميں كچھ واقعات پيش ائے _
منجملہ يہ كہ حضرت على (ع) نے يہاں سے ايك خط اپنے مخالف سرداروں كو لكھا :
سبط ابن جوزى نے اس خط كا مضمون نقل كيا ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحيم
يہ خط ہے امير المومنين كى طرف سے طلحہ ، زبير اور عائشه كى طرف ، تم لوگوں پر سلام
اے طلحہ اے زبير تم خود جانتے ہو كہ مجھے خلافت كى خواہش نہيں تھى ليكن لوگوں نے حد سے زيادہ اصرار كيا اور مجھے اس عظيم ذمہ دارى كو قبول كرنے پر امادہ كيا اور ميں نے يہ سنگين ذمہ دارى يعنى خلافت كو قبول كر ليا ، اور تم دونوں نے بھى اپنى باہيں پھيلائے خوش و خاطر كے ساتھ ميرى بيعت كى ، اج ميں تم پر واضح كر دينا چاہتا ہوں اور اس سلسلہ ميں وضاحت چاہتا ہوں كہ اگر تمھارى بيعت اس دن خوشى كى خاطر سے نہيں تھى تو كيوں اج پيمان شكنى كر رہے ہو ، اپنى بيعت توڑ رہے ہو _
--------------------------------------------------
1_ طبرى ج5 ص 178
2_ ا استيعاب حالات حكيم ابن جبلہ
3_ طبرى ج5 ص 182
4_ حكيم بن جبلہ مرد صالح اور متدين تھے عبد قيس گروہ كے رئيس و سردار بھى تھے بعض مورخوں كے مطابق وہ صحابى رسول بھى تھے ، اسد الغابہ ج2 ص 39
5_ طبرى ج5 ص 182 ، استيعاب شرح حال حكيم بن جبلہ
6_ طبرى ج5 ص 181
7_ طبقات ج5 ص 39
8_ اغانى نے ابو مخنف سے نقل كيا ہے ، مسعودى نے بھى اختلاف پيشنمازى كو لكھا ہے
9_ طبرى ج5 ص 250
10_ طبرى ج5 ص 184
11_ علقمہ بن وقاص ليثى زمانہ رسول ميں پيدا ہوا ، جنگ خندق ميں شريك تھا عبد الملك بن مروان كے زمانہ ميں اس كا انتقال ہوا _ اسد الغابہ ج4 ص 51
12_ طبرى ج5 ص 183 ، مستدرك ج3 ص 372 ، يہاں طلحہ نے قتل عثمان ميں شركت كا خود ہى اعتراف كيا ، پھر وہ حضرت على سے خون عثمان كا مطالبہ كيوں كر رہے ہيں
13_ زيد ابن صوحان كى كنيت ابو سلمان يا ابو سليمان تھى انھيں صحابى رسول ہونے كا شرف حاصل تھا مرد فاضل و تقوى شعار تھے اپنى قوم كے رئيس تھے ، صعصعہ اور سيحان بھى دونوں صوحان كے فرزند تھے اور زيد كے بھائي تھے
منقول ہے كہ رسول خدا نے زيد كے بارے ميں فرمايا تھا ، زيد كيا اچھا زيدہے ؟
جندب كيا اچھا جندب ہے ؟ جب رسول اللہ سے اس كى وجہ پوچھى گئي تو فرمايا كہ ميرى امت ميں دو شخص خصوصى امتياز سے سر فراز ہيں ، ايك زيد جس كا ہاتھ اس كے دوسرے اعضاء سے پہلے جنت ميں پہنچ جا ئيگا اور دوسرے جندب جو شمشير (تلوار ) كھينچے گا ، تو حق كو باطل سے الگ كر ديگا رسول خدا كى پيش گوئي كے مطابق زيد ابن صوحان كا ہاتھ جنگ جلولہ ميں كٹ گيا ، اور جندب نے بھى ايك جادو گر كو تلوار كى وار سے قتل كيا تھا
14_ اما بعد فانا ابنك الخالص ان اعتزلت ھذا الامر و رجعت الى بيتك و الا فانا اول من نا بذك ، طبرى ، شرح نہج البلاغہ ج2 ص81 عقد الفريد ، جمھرة رسائل العرب ج1 ص379
15_ ان كى مراد سورہ تحريم سے ہے ، يہ سورہ عائشےہ اور حفصہ كے بارے ميں نازل ہوا تھا '' ان تتوبا الى اللہ فقد صغت قلوبكما و ان تظاھرا عليہ' اس ايت سے ان كيا مذمت كى گئي'
16_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص157
17_ ارشاد شيخ مفيد ص118 ، خبطہ 102 ، 103 ، 107 _ نہج البلاغہ ايھا الناس ان عائشےہ سارت الى البصرة و معھا طلحة والزبير وكل منھما يرى الامر لہ دون صاحبہ ا ما طلحہ فا بن عمھا و اما الزبير فخنتنھا ، واللہ لو ظفر وا بما ارا د وا ، و لن ينالوا ذالك ابداً،ليضربن احدھما عنق صاحبہ ، بعد تنازع منھما شد يد ، واللہ ان راكبة الجمل الاحمر ، ما تقطع عقبة ولا تحل عقدة الا فى معصية اللہ و سخطہ ، حتى تورد نفسھا و من معھا موارد الھلكة اى واللہ ليقتلن ثلثھم ، و ليھربن ثلثھم و ليتوبن ثلثلھم و انھا الّتى تنبحھا كلاب الحوائب و انھما ليعلمان انھما مخطئان و رب عالم قتلہ جھلہ و معہ علمہ ولا ينفعہ حسبنا اللہ و نعم الوكيل _ و قد قامت الفتنة فيھا الفئة الباغية اين المحتسبوں ؟اين المومنون؟
مالى و القريش ؟اما واللہ لا بقرن الباطل حتى يظھر الحق من خاصرتہ ، فقل لقريش فلتضج ضجيجھا
18_ مروج الذھب ج2 ص367
19_ طبرى ج5 ص 186
20_طبرى ج5 ص 184
21_طبرى ج5 ص 184
22_طبرى ج5 ص 199
23_ عقد الفريد ج4 ص 318
24_ استيعاب حالات طلحہ ، عقد الفريد ، تاريخ جنگ جمل اغانى ج 11 ص 119
|