تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار عهد امير المومنين (ع)
 

_كيا تم لوگوں نے بغير زور زبر دستى كے خود اپنے ہى اختيار سے ميرى بيعت نہيں كى تھى اور خلافت و حكومت كے معاملات ميرے حوالے نہيں كئے تھے
_جى ہاں
_پھر اخر كون سى ميرے اندر نا پسنديدہ بات تم نے ديكھى كہ ميرے اوپر اعتراض كر رہے ہو اور ميرى مخالفت كررہے ہو
_يا على اپ خود بہتر جانتے ہيں كہ ميں تمام مسلمانوں كے مقابلے ميں سابق الاسلام ہوں اور صاحب فضيلت ہوں ، ہم نے اس اميد پر اپ كى بيعت كى تھى كہ ميرے مشورہ كے بغير معاملات حكومت كے اہم كام نہيں كيجئے گا ليكن اب ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ ہمارے مشورہ كے بغير اہم كام كررہے ہيں اور بغير ہمارى اطلاع كے بيت المال مساويانہ تقسيم كر رہے ہيں
_اے طلحہ و زبير ؟ تم چھوٹى چھوٹى باتوں پر اعتراض كررہے ہو اور اہم امور و مصالح سے چشم پوشى كررہے ہو ، اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو شايد اللہ تمھارى توبہ قبول كر لے _
_اے طلحہ و زبير مجھے بتائو تو كہ كيا ميں نے جو تمھارا واجبى حق ہے ، اس سے محروم ركھا ہے ، تم پر ظلم و ستم روا ركھا ہے _
_معاذاللہ اپ سے كوئي ظلم نہيں ہوا ہے _
_ كيا بيت المال كى يہ دولت ميں نے اپنے لئے مخصوص كر لى ہے _
_كيا دوسروں سے زيادہ حق لے ليا ہے _
_نہيں ، خدا كى قسم ايسا كام اپ سے نہيں ہوا ہے _
_كيا كسى مسلمان كے بارے ميں تمھيں ايسى بات معلوم ہوئي ہے كہ جو ميں نہيں چاہتا ہوں يا اسے نافذ
كرنے ميں سستى اور كمزورى دكھائي ہے _
_نہيں خدا كى قسم
_پھر تم نے ميرى حكومت ميں كيا بات ديكھى كہ مخالفت كررہے ہو اور اپنے كو مسلمانوں كے معاشرے سے الگ تھلگ كررہے ہو _
_ايك ہى چيز نے ہميں اپ سے رنجيدہ خاطر كيا ، اور حكومت سے بد ظن بنايا ہے كہ اپ نے خليفہ ء دوم عمر بن خطاب كى روش كى مخالفت كى ہے ، وہ بيت المال كى تقسيم كے وقت سابق الاسلام افراد اور صاحبان فضيلت لوگوں كا خيال ركھتے تھے ، اور ہر شخص كو اس كے مرتبہ و مقام كے لحاظ سے حصہ ديتے تھے _
ليكن اپ ہيں كہ تمام مسلمانوں كو مساوى قرار ديديا ہے اور ہمارے امتياز كو نظر انداز كيا ہے ، حالانكہ يہ مال و دولت ہمارى ہى تلواروں سے اور ہمارى ہى كوششوں اور جانبازيوں سے حاصل ہوا ہے ، كيسے جائز ہو گا كہ جن لوگوں نے ہمارى تلواروں كے خوف سے اسلام قبول كيا وہ ہمارے برابر ہو جائيں ؟
_تم نے معاملات خلافت ميں مشورے كى بات كہى توسن لو كہ مجھے خلافت سے ذرا بھى رغبت نہيں تمہيں نے مجھے اس كى طرف بلايا اور مجھے زبردستى مسند خلافت پر بيٹھا يا ميں نے بھى مسلمانوں كے اختلاف اور بكھرائو كے ڈر سے اس ذمہ دارى كو قبول كيا ، جس وقت ہم يہ ذمہ دارى قبول كررہے تھے تو عہد كيا تھا كہ كتاب خدا (قران ) اور سنت رسول ہى پر عمل كرونگا ہر مسئلہ كا حكم انھيں دونوں سے حاصل كرونگا مجھے تمہارے مشورے كى ضرورت نہيں ہے تاكہ تمھارے خيالات سے امور خلافت ميںمدد حاصل كروں اسى قران و سنت نے مجھے دوسرے لوگوں كے استنداد سے بے نياز بنا ديا ہے ، ہاں ، اگر كسى دن كوئي اہم معاملہ پيش ائيگا كہ جس كے بارے ميں كوئي حكم قران و سنت ميں نہ ہو ، اور اپنے مشورے كا محتاج سمجھوں گا، تو تم سے مشورہ كرونگا ، اب رہى بيت المال كے مساويانہ تقسيم كى بات ، تو يہ بھى ميرى خاص روش نہيں ہے ميں پہلا شخص نہيں ہو ں كہ يہ رويّہ اپنايا ہو ، ميں اور تم رسول خدا كے زمانے ميں تھے ہم نے ان كا رويّہ ديكھا كہ ہميشہ بيت المال كو مساويانہ تقسيم كرتے تھے اور كسى شخص كے لئے ذرہ برابر امتياز كے قائل نہيں تھے _
اس كے علاوہ اس مسئلہ كا حكم قران ميں بھى ايا ہے كہ ہم مساوات اور برابر كا برتائو كريں اور مہمل امتيازات كوٹھكرا ديں ، يہ قران تمھارے درميان ہے ، اس كے احكام ابدى ہيں اس ميں ذرہ برابر بھى باطل اور نا روابات شامل نہيں ہوئي ہے _
تم جو يہ كہہ رہے ہو كہ يہ بيت المال تمھارى تلواروں سے حاصل ہوا اس طرح تمھارے امتياز كا لحاظ كيا جائے ، پچھلے زمانہ ميں ايسے لوگ تھے كہ جنھوں نے اپنے جان و مال سے اسلام كى مدد كى انھوں نے مال غنيمت حاصل كيا ، اس كے باوجود رسول خدا(ص) نے بيت المال كى تقسيم ميں ان كے لئے كوئي امتياز نہيں برتا ، ان كى سبقت اسلامى اور سخت جدوجہد اس كا باعث نہيں ہوتى كہ انھيں زيادہ حصہ ديديا جائے ، ہاں ، يہ جانبازى حتمى طور سے ان لوگوں كو اللہ كى بارگاہ ميں لائق توجہ قرار ديتى ہے وہ قيامت كے دن اپنے اس عمل كى جزا پائيں گے ، خدا جانتا ہے كہ ميں اس بارے ميں تمھارے اور تمام مسلمانوں كيلئے اتنا ہى جانتا ہوں ، خدا وند عالم ہم سب كو راہ راست كى ھدايت كرے ، ہميں صبر عطا كرے ہمارى مددو نصرت كرے ، خدا وند عالم ان لوگوں پر رحمت نازل كرے جو حق كى حمايت كرتے ہيں ظلم و ستم سے پر ہيز كرتے ہيں اور اس كيلئے برابر كو شاں ہيں _(1)
طبرى نے بھى اس سلسلہ ميں لكھا ہے :
جب طلحہ تمام قسم كے امتياز سے مايوس ہو گئے تو يہ مشہور كہاوت زبان پر جارى كى _
مالنا من ھذا الامر الا كلحسة الكلب انفہ (ہميں تو اس كام ميں بس اتنا ہى فائدہ حاصل ہوا جتنا كتّا اپنى زبان سے چاٹنے ميں فائدہ محسوس كرتا ہے )(2)
ہاں ، ہم على كى خلافت سے نہ تو پيٹ بھر سكے اور نہ كوئي منصب پا سكے _
طلحہ و زبير حضرت على (ع) كى بيعت كرنے كے بعد كسى منصب اور عہدہ كے منتظر تھے انھوں نے چار مہينے تك اس كا انتظار كيا وہ اس عرصے ميں حضرت على كى روش ديكھتے رہے كہ شايد وہ اپنا رويّہ بدل ديں ليكن انھوں نے كسى قسم كى نرمى يا اس رويّہ سے انحراف محسوس نہيں كيا كوئي تبديلى نہيں پائي اس طرح وہ عہدے اور منصب كے حصول سے قطعى مايوس ہوگئے ، ادھر انھيں اطلاع ملى كہ عائشه نے حضرت على (ع) كى مخالفت كا پرچم مكّہ ميں لہرا ديا ہے تو انھوں نے پكا ارادہ كر ليا كہ عائشه كى مدد كرنے كيلئے مكہ جائيں ، وہ دل ميں يہى خيال لئے ہوئے حضرت امير المومنين كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور زيارت خانہء كعبہ كيلئے سفر كى اجازت چاہى حضرت على (ع) نے بھى بظاہر ان سے اتفاق كيا اور سفر كى اجازت تو ديدى ليكن اپنے دوستوں سے فرمايا ، خدا كى قسم ان لوگوں كے
سفر كا مقصد خانہ كعبہ كى زيارت نہيں ہے بلكہ انھوںنے زيارت كو بہانہ بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد صرف بيعت توڑنا (غدارى اور بے وفائي كرنا ہے )
بہر صورت جب حضرت على (ع) نے ان لوگوں كو سفر كى اجازت ديدى تو انھوں نے دوبارہ بيعت كى ، اور مكہ كى طرف جانے لگے وہاں مكہ ميں پہونچ كر حضرت كے مخالف گروہ عائشه كے لشكر ميں مل گئے(3)_

لشكر كى تيّاري
جب مدينہ كے راستے ميں عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے حضرت على كى بيعت كر لى ہے تو وہ مخالفت كا پكا ارادہ كر كے مكہ واپس چلى گئيں اور وہاں مخالفت على كا پرچم لہرايا ، كھلم كھلا لوگوں كو اپ كى مخالفت پر ابھارا جب حضرت على (ع) كى مخا لف پارٹيوں كو اس كى اطلاع ملى تو چاروں طرف سے عائشه كى طرف پہچنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے _
طلحہ و زبير جو حضرت على (ع) كى مساوات كے سخت مخالف تھے ، جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا ، حضرت على (ع) سے بيعت توڑ كر اور ان كى صحبت چھوڑ كر مكہ چل پڑے پھر وہ عائشه كے لشكر ميں شامل ہوگئے (4)
ادھر بنى اميہ كو حضرت على (ع) سے پرانى دشمنى تھى وہ اس موقعے كے انتظار ميں تھے كہ حضرت على (ع) كى بغاوت كريں جب انھيں مخالفت عائشه كى خبر ملى تو وہ بھى مدينے سے مكہ گئے اور اس پرچم كے سايہ ميں پہنچ گئے جسے عائشه نے حضرت على (ع) كى مخالفت كيلئے لہرايا تھا _
ادھر ان گورنروں اور عاملوں كى ٹولى تھى جو عثمان كے زمانہ ميں عہدہ پائے ہوئے تھے ، ان سب كو حضرت على (ع) نے ايك كے بعد ايك معزول كيا اور معزول كر كے عہدوں سے ہٹا ديا يہ بھى مختلف شہروں سے بڑى بڑى دولت ليكر جو مسلمانوں كے بيت المال سے حاصل كى گئي تھى ، عائشه كے لشكر ميں جمع ہونے لگے ، اخر كا ر يہ تمام مختلف الخيال گروہ جن كے دماغ ميں حضرت على (ع) كے خلاف ايك مخصوص مقصد تھا چاروں طرف سے عائشه كے لشكر ميں شامل ہونے لگے _
23
طبرى نے زہرى كا بيان نقل كيا ہے كہ :
طلحہ و زبير عثمان كے قتل ہونے كے چار مہينہ كے بعد مكہ ائے اور عبداللہ ابن عامر (1)بھى ايا جو عثمان كى طرف سے بصرہ كا گورنر تھا اورحضرت على (ع) نے اس كو معزول كر ديا تھا وہ ايك بہت بڑى دولت ليكر مكہ ايا ، ادھريعلى بن اميہ (2)وہ بے حساب دولت ليكر چار سو اونٹوں كے ساتھ مكہ ميں وارد ہوا عبداللہ بن عامر نے بھى لشكر كى تيارى ميں چار لاكھ دينار زبير كو ديئے سپاہيوں كے ہتھيار كا انتظام كيا اور وہ مشہور اونٹ جس كو عسكر كہا جاتا ہے ، اور جسے اسّى دينار يا بقول مسعودى دو سو دينار ميں خريدا تھا ، عائشه كو ديا تاكہ جنگ ميں وہ اس پر سوار ہوں_
عائشه كا ھودج اسى اونٹ پر باندھا گيا ، عائشه كو اس پر بٹھايا گيا اس طرح على كى مخالفوں كى ٹولى مكہ ميں جمع ہوئي اور ايك زبر دست لشكر تيار ہوگيا اور لڑنے كيلئے چلا _

عراق كى طرف
طبرى كا بيان ہے كہ: عائشه نے حضرت على (ع) كے مخالف گروہ كو مكہ ميں اپنے گرد جمع كر ليا اور اس طرح ايك بہت بڑا اور وسائل سے اراستہ لشكر بنا ليا اس كے بعد سرداران لشكر بھى جمع ہو كر گہار مچانے لگے _
ان ميں سے كچھ لوگوں نے كہا كہ ہميں سيدھے مدينے كيطرف چلنا چاہيئے اور اپنى اس طاقت اور لشكر سے على كے
1_ عثمان كا خالہ زاد بھائي
2_يعلى بن اميہ كى كنيت ابو صفوان اور ابو خالد تھى ، فتح مكہ ميں اسلام لايا جنگ حنين طائف اور تبوك ميں شركت كى عمر نے اس كو يمن كے ايك شہر كا حاكم بنا ديا تھا يعلى نے ايك چراگاہ وہا ں اپنے لئے مخصوص كر لى تھى عمر نے اس جرم كى باز پرس كيلئے مدينہ طلب كيا ليكن مدينہ پہونچنے سے پہلے ہى عمر قتل ہو گئے ، پھر عثمان نے اس كو صنعاء كا حكمراں بنايا اور حساس عہدہ حوالہ كيا اس طرح اس نے اس سے شديدوابستگى ظاہر كى جب مسلمانوں نے عثمان سے بغاوت كى تو وہ يہ مدد كرنے كيلئے صنعاء سے چلا راستہ ميں اپنى سوارى سے گرا اور اس كا گھٹنا ٹوٹ گيا ، عثمان كے قتل كے بعد وہ مكہ پہونچا اور اعلان كيا كہ جو بھى عثمان كے انتقام ميں اٹھے گا ميں اس كے ہتھيار اور اخراجات كا ذمہ دار بنوں گا اسى عہد كے مطابق اس نے چار ہزار درہم زبير كو ديئے اور قريش كے ستر سپاہيوں كو مسلح كيا مسلح كركے گھوڑے اور اونٹ ديئے اسى نے عائشےہ كو وہ اونٹ حوالہ كيا تھا كہ جس پر وہ جنگ جمل ميں سوار ہوئي تھيں ، يعلى نے جنگ جمل سے ان اخراجات كے علاوہ خود بھى شركت كى ليكن جنگ كے بعد توبہ كر كے حضرت على كے صف ميں شامل ہو گيا وہ جنگ صفين ميں حضرت على كے لشكر ميں تھا ، يہ مطلب ہے اسكے ابن الوقت ہونے كا
خلاف جنگ كرنا چاہيئے _
كچھ دوسروں نے رائے دى كہ ہم اس كمزور طاقت اور كم افراد كے ساتھ حضرت على كے لشكر كا مقابلہ نہيں كر سكتے اور نہ مركز اور اسلامى راجدھانى پر حملہ كر كے حكومت وقت سے جنگ كر سكتے ہيں (ہميں چاہيئے كہ پہلے شام كى طرف چليں اور معاويہ سے مدد طلب كريں ان سے فوجى كمك اور جنگى سازوسامان حاصل كريں اس كے بعد حضرت على (ع) سے جنگ كريں )
كچھ دوسروں نے يہ پيش كش كى كہ ہميں پہلے عراق كى طرف كوچ كرنا چاہيئے اور دو عراق كے بڑے شہروں كوفہ اور بصرہ كى طاقت جمع كرنى چاہيئے ، جہاں طلحہ اور زبير كے حمايتى ہيں اس طرح ہم وسائل جنگى سے زيادہ تيار ہو جائينگے اس كے بعد ہم لوگوں كو مدينہ چل كر على سے جنگ كرنى چاہيئے _
سبھى اركان شورى نے اس رائے كو پسند كر كے تائيد كى ، اسى پر عائشه نے امادگى ظاہر كر كے اپنے فوجيوں كو تيار ہونے كا حكم ديا اور وہ سات سو جنگى سپاہيوں كے ساتھ مكہ سے عراق كيطرف چليں ، ليكن اثنائے راہ ميں چاروں طرف سے لوگ ان كے گرد جمع ہو كر ان كے لشكر ميں شامل ہونے لگے اخر كار اس فوج كى تعداد تين ھزار تك پہونچ گئي (5)

ام سلمہ نے عائشه كو سمجھايا
ابن طيفوركا بيان ہے :
جس دن عائشه نے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كى طرف حركت كى ام سلمى نے ان سے ملاقات كر كے كہا :
اے عائشه اللہ نے تمھيں پابند بنايا ہے اس كے حكم سے سرتابى نہ كرو اللہ نے اپنے پيغمبر(ص) اور تمھارے درميان اور لوگوں كے درميان حجاب كا احترام قرار ديا ہے ، وہ پردہ پھاڑ كر رسول(ص) كا احترام مت برباد كرو ، اللہ نے تمھيں گھر ميں بيٹھنے كا حكم ديا ہے اسے صحرا نوردى ميں مت بدل دو _
اے عائشه رسول(ص) خدا تمھيں بہت اچھى طرح پہچانتے تھے _
تمھارى حيثيت سے بھر پور واقفيت ركھتے تھے اگر ايسے معاملات ميں تمہارى مداخلت بہتر ہوتى تو لازمى طور سے تمھيں كوئي حكم ديتے اور تم سے كوئي معاھدہ كرتے ،ليكن صورت حال يہ ہے كہ صرف يہى نہيں كہ انھوں نے اس بارے ميں تم كو كوئي حكم نہيں ديا ہے بلكہ ايسے اقدامات سے تمھيں منع كيا ہے _
اے عائشه اگر رسول خدا (ص) تمھيں اس طرح سفر كى حالت ميں ديكھيں تو انھيں تم كيا جواب دوگى ؟ خدا سے ڈرو ، اور خدا كے رسول سے حيا كرو كيونكہ خداوند عالم تمھارى اس روش كو ديكھ رہا ہے وہ تمھارے سارے اعمال كا نگراں ہے اور تمھارا چھوٹا سا عمل بھى رسول خدا(ص) سے پوشيدہ نہيں ہے _
اے عائشه تم نے جو راستہ اپنايا ہے يہ انسانيت سے گرا ہوا راستہ ہے كہ اگر ميں تمھارى جگہ پر ہوتى اور مجھے حكم ديا گيا ہوتا كہ جنت ميں جائوں تو مجھے شرم اتى كہ وہاں ميں رسول خدا(ص) سے ملاقات كروں گى ، تم بھى اپنى شرم و حيا ختم نہ كرو اور مرتے دم تك ايك گھر كے كونے ميں بيٹھى رہو تاكہ رسول اللہ تم سے راضى رہيں _
بعض مورخين كے بيان كے مطابق ام سلمى نے اخرميں يہ فرمايا كہ:
اے عائشه تمہارے بارے ميں جو كچھ ميں نے رسول اللہ سے سنا ہے ، اگر انھيں دہرائوں تو تم اس طرح تڑپنے لگوگى جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے ، اور تم صدائے فرياد بلند كرنے لگوگى _
عائشه نے ام سلمى كا جواب ديا اے ام سلمى اگر چہ ميں نے ہميشہ تمھارى نصيحت مانى ہے ليكن ميں اس معاملہ ميں تمھارى بات نہيں مان سكتى ، كيونكہ يہ بہت مبارك سفر ہے جس كا ميں نے ارادہ كيا ہے ، ديكھو مسلمانوں كى دو پارٹيوں ميں اختلاف ہے اب ان ميں صلح و صفائي ہو جايئگى ، ميں ان اختلافات كو ختم كركے دم لونگى ،
نعم المطلع مطلعاًاصلحت فيہ بين فئتين متناجزتين(6)_

راستے كى باتيں
عائشه نے اپنے اس لشكر كو كوچ كا حكم ديا كہ جو حضرت على (ع) كے مخالف گروہوں او ر پارٹيوں سے تشكيل پايا تھا اور عراق كى طرف چليں اس طويل راستے ميں بصرہ پہچنے تك ايسے واقعات و حوادث پيش ائے جنھيں يہاں پيش كيا جاتا ہے _

پيش نمازى پر اختلاف
طبرى لكھتاہے :
جس وقت عائشه كا لشكر مكہ سے چلا شھركے باہر مروان نے نماز كيلئے اذان دى ، اس كے بعد طلحہ و زبير كے سامنے اكر بولا _
ميں تم دونوں ميں سے كس كو امير سمجھوں كہ جسے لوگوں كے سامنے پيش نمازى كيلئے متعارف كرائوں چونكہ طلحہ و زبير اپنے نظريہ كو ايك دوسرے كے سامنے واضح طور سے بيان نہيں كر سكتے تھے كہ اپنے كو اس مقام كيلئے پيش كريں ، ان دونوں كے بيٹوں نے اپنى رائے ظاہر كى ہر ايك اپنے باپ كو پيش كرنے لگا عبداللہ نے اپنے باپ زبير كو اور محمد نے بھى اپنے باپ طلحہ كو پيش كيا ، اس طرح دونوں كے درميان اختلاف پيدا ہوگيا جب عائشه كو اس واقعہ كى اطلاع ملى تو وہ سمجھ گئيں كہ پيش نمازى كے بہانے سے نفاق اور اختلاف كا بيج لشكر كے درميان بويا جارہا ہے انھوں نے مروان كو اپنے پاس بلاكر كہا اے مروان تو كيا چاہتا ہے ؟اپنى اس حركت سے لشكر ميں اختلاف كيوں پيدا كررہا ہے نماز ميرے بھائي كا بيٹا عبداللہ ابن زبير پڑھائيگا عائشه كے فرمان كے مطابق جب تك لشكر بصرہ پہنچے عبداللہ نماز پڑھاتے رہے اور تمام لوگ انھيں كے پيچھے نماز پڑھتے رہے _
معاذ ابن عبداللہ نے جب پيش نمازى كے مسئلے ميں طلحہ و زبير كے درميان اختلاف ديكھا تو كہا :
خدا كى قسم ، اگر فتح اور كاميابى ہمارے حصہ ميں ائي تو مسئلہ خلافت ميں ہم لوگ سخت اختلاف كا شكار ہو جائيں گے
كيونكہ نہ تو زبير اس منصب سے دستبردار ہونگے كہ وہ طلحہ كو ديديں اور نہ طلحہ يہ منصب زبير كو دينگے (7)_

انتظامى معاملات كا اختلاف
طبرى كا بيان ہے كہ جب عائشه كا لشكر ذات عرق پر پہنچا تو سعيدابن عاص (8) جو بنى اميہ كے اشراف قريش ميں تھا اور عائشه كے لشكر كا فوجى تھا اس نے مروان اور اس كے ساتھيوں سے كہا كہ اگر واقعى تم خون عثمان كا انتقام لينا چاہتے ہو تو كہاں جارہے ہو ؟چونكہ عثمان كے قاتل تو اسى لشكر ميں موجود ہيں (9)
انھيں كو قتل كردو اور اپنے گھروں كو واپس چلو ، حضرت على (ع) سے جنگ كر كے اپنے كو موت كے منھ ميں كيوں جھونكا جائے ؟
مروان اور اسكے ساتھيوں نے جواب ديا ، ہم اس لئے جا رہے ہيں كہ طاقت حاصل كر سكيں اس طرح ہم عثمان كے تمام قاتلوں كو قتل كر سكيں گے _
اس كے بعد سعيد نے طلحہ و زبير سے ملاقات كى اور كہا ميرے ساتھ سچائي كے ساتھ ائو صحيح صحيح بات كہو كہ اگر اس جنگ ميں تمھيں فتح ملى تو حكومت و خلافت كو كس شخص كے حوالے كرو گے ؟
انھوں نے كہا ہم دونوں ميں سے جس كو بھى عوام چن ليں _
سعيد نے كہا :سچ ، اگر تم خون عثمان كے انتقام ميں اٹھے ہو تو كيا اچھا ہوتا كہ اس خلافت كو بھى انھيں كے بيٹوں كے حوالے كردو _
ان لوگوں نے جواب ديا ہم مہاجر ين كے بوڑھوں اور بزرگوں كو الگ كر ديں اور نا تجربہ كار جوانوں كو اس كام ميں لگا ديں ؟
سعيد نے كہا : ہم بھى نہيں چاہتے كہ خلافت خاندان عبد مناف سے ليكر دوسروں كے اختيار ميں ديديں (10)يہ كہكر
وہاں سے چلا ايا _
عبداللہ ابن خالد اسيد بھى بنى اميہ سے تھا وہ لشكر سے الگ ہوگيا ، مغيرہ ابن شعبہ جو قبيلہ سقيف سے تھا ، جب اس نے اس حادثہ كا مشاہدہ كيا تو اپنے قبيلہ كے افراد سے پكار كر كہا جو بھى قبيلہ ثقيف كا ہے وہ واپس ہو جائے ، وہ لوگ بھى جو راستے ميں ائے تھے واپس ہوگئے (11)اور بقيہ لشكر اگے بڑھتا رہا _

تيسرا اختلاف
طبرى اپنى بات اگے بڑھاتے ہوئے لكھتا ہے كہ امارت كے اس اختلاف كے بعد اور چند افرادكى واپسى كے بعد عثمان كے دونوں فرزند وليد اور ابان بھى عائشه كے لشكر ميں تھے منزل ذات سے اگے بڑھے _
ليكن لشكر ميں تيسرى بار بھى اختلاف پيدا ہو گيا كہ كچھ لوگ كہنے لگے كہ ہميں شام كيطرف چلنا چاہيئے اور كچھ لوگ عراق كى رائے دے رہے تھے اس بارے ميں زبير نے اپنے بيٹے عبداللہ اور طلحہ نے اپنے بيٹے علقمہ كو مجلس شورى ميں نامزد كيا ان دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے كيا كہ ہم لوگوں كو عراق كى جانب چلنا چاہيئے ، اس طرح نظر ياتى اختلاف اور فوجى كشا كش ختم ہوئي (12)

حوا ب كا واقعہ
چوتھا بھى پيش ايا ، جب عراق كے راستے ميں عائشه كا لشكر تھا اسى وقت اثنائے رائے ميں طلحہ و زبير كو معلوم ہوا كہ حضرت على (ع) مدينہ سے چل چكيں ہيں اور وہ منزل ذيقار ميں پہنچ گئے ہيں ، اور كوفے كا راستہ ان پر بند ہو چكا ہے ،طلحہ و زبير نے كوفہ جانے كا خيال بدل ديا اور بے راہہ سے استفادہ كرتے ہوئے بصرے كى طرف چلنے لگے يہاں تك كہ وہ اس جگہ پہچے جس كا نام حوا ب تھا ، وہاں عائشه كے كانوںميں كتّوں كے بھونكنے كى اواز پہنچى _ انھوں نے پوچھا اس جگہ كا كيا نام ہے _
29
لوگوں نے جواب ديا ، حوا ب
فوراً عائشه كو حضرت رسول (ص) اللہ كى حديث ياد اگئي كہ اپ نے اپنى ازواج سے كہا تھا كہ تم ميںسے ايك كو حوا ب كے كتّے بھونكيں گے اور ان ازواج كو منع كيا تھا _
عائشه كو اس حادثہ نے بے چين كر ديا كيونكہ انھيں حديث رسول ياد تھى وہ گھبراہٹ ميں كہنے لگيں انا للہ و انااليہ راجعون ، ہائے ميں وہى عورت ہوں كہ جس كى رسول خدا(ص) نے خبر دى تھى _
عائشه اس خيال كے اتے ہى اس سفر سے پلٹنے لگيں انھوں نے پكّا ارادہ كر ليا كہ ميں واپس جائوں گى _
جب عبداللہ ابن زبير كو عائشه كے واپسى كى اطلاع ہوئي تو ان كے پاس اكر حوا ب كے بارے ميں گفتگو كى اور يہ ظاہر كيا كہ جن لوگوں نے اپ كو بتايا ہے انھيں دھوكا ہوا ہے ، اس جگہ كا نام حوا ب نہيں ہے _
عبداللہ ابن زبير اس واقعے كے بعد ہميشہ عائشه كى نگرانى كرتے رہے كہ مبادا دوبارہ بھى كوئي شخص ان سے ملكر اس سفر سے موڑدے _
جى ہاں ، فرزند زبير نے حوا ب كے بعد سے عائشه كے ھودج كے پاس سائے كيطرح چلتے رہے يہاں تك كہ بصرہ وارد ہو گئے (13)_

سرداران لشكر كى وضاحت
طبرى كا بيان ہے كہ :
عائشه كا لشكر مكے سے چل كر بصرہ كے نزديك پہنچا اور وہاں ايك مقام جس كا نام حفر ابو موسى تھا اتر پڑا عثمان ابن حنيف انصارى حضرت على (ع) كى طرف سے بصرہ كے گورنر تھے جب انھيں واقعہ كى اطلاع ملى تو ابوالاسود دئيلى كو مامور كيا كہ لشكر عائشه ميں جاكر ان كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كى خواہش و مقصد كى تحقيق كريں _
ابو الاسود نے اپنے كو عائشه كے لشكر ميں پہونچايا ، پہلے انھوں نے خود عائشه سے ملاقات كى اور پوچھا _
اے عائشه بصرہ انے كا مقصد كيا ہے _
عائشه نے جواب ديا عثمان كے خون كا ان كے قاتلوں سے انتقام لينے يہاں ائي ہوں
ابوالاسود نے كہا اے عائشه بصرہ ميں كوئي بھى عثمان كا قاتل نہيں ہے كہ اپ ان سے انتقام ليں _
عائشه نے كہا: اے ابوالاسود تم ٹھيك كہتے ہو ، عثمان كے قاتل بصرے ميں نہيں ہيں اور ہم بھى يہاں اس لئے نہيں ا ئے ہيں كہ قاتلوں كو بصرہ ميں تلاش كريں بلكہ اس لئے ائے ہيں كہ اس شہر كے لوگوں سے مدد طلب كريں اور ان لوگوں كى مدد و حمايت سے مدينہ كے قاتلان عثمان سے انتقام ليں جوحضرت على (ع) كے ارد گرد ہيں _
اے ابو الاسود جس دن عثمان نے تمہيں تازيانے سے اذيت دى تھى تو مجھے دكھ ہوا تھا اور ميں نے صاف طور سے ان كے اوپر سخت اعتراض كيا ليكن تم لوگوں نے تو انھيں تلواروں سے قتل كيا يہ كيسے مناسب ہے كہ ميں خاموش رہ جائوں اور ان كى مظلوميت پر فرياد نہ كروں ، ان كا انتقام نہ لوں ؟
اے ابوالاسود نہيں ، ميں ہرگز خاموش نہيں رہونگى _
_ ابوالاسود نے كہا :اے عائشه اپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار اپ تو رسول(ص) خدا كے حكم كے مطابق پردہ نشين ہيں اپ كى صرف يہى تكليف ہے كہ اپنے گھر ميں بيٹھى رہيں قران كى تلاوت كريں ، اور پروردگار كى عبادت بجالائيں ، اے عائشه اسلام ميں عورتوں پر جھاد نہيں ہے ، اس كے علاوہ خون عثمان كا انتقام تو تمھارا حق بھى نہيں ، حضرت على خون عثمان كے انتقام كا زيادہ حق ركھتے ہيں كيونكہ وہ رشتہ كے لحاظ سے تم سے زيادہ عثمان كے قريب ہيں كيونكہ دونوں ہى خاندان عبد مناف سے ہيں ، ليكن تم قبيلہ تيم سے ہو _
عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ميں اپنا ارادہ بدلوں گى نہيں ، اب اس راہ سے واپس نہيں جائوں گى جب تك اپنا مقصد نہ حاصل كر لوں اور اپنے قيام كے نتيجہ تك نہ پہونچ جائوں _
اے ابوالاسود تم نے كہا عوتوں پر جنگ و جھاد نہيں ، كون سى جنگ ؟ اور كيسا جھاد ؟ كيا اس معاملے ميں جنگ و جھاد كى بھى بات ہے ، ميرى جو حيثيت ہے (كيا كسى كو جرائت ہو سكتى ہے كہ مجھ سے جنگ كرے )
ابوالاسود نے كہا: اے عائشه اپ كو دھوكا تو يہيں ہوا ہے كيونكہ اپ سے ايسى جنگ ہوگى كہ اس كا اسان ترين ميدان شعلوں سے بھرا ہوا اور كمر شكن ہوگا _
ابوالاسود نے يہيں بات ختم كردى ، پھر انھوں نے زبير سے ملاقات كى اور كہا:
اے زبير وہ دن بھولا نہيں ہے جب لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى تھى ، اور اپ قبضہ شمشير پر ہاتھ ركھ كر نعرہ لگا رہے تھے _
( كوئي شخص خلافت كيلئے على سے بہتر اور لائق نہيں ہے ، خلافت كا لباس صرف على كيلئے موزوں ہے ان كے علاوہ كسى كو زيب نہيں ديتا ، ليكن اج وہى شمشير اپ نے ہاتھ ميں ليكر انھيں على كے خلاف قيام كيا ہے _
اے زبير كہاں وہ دلسوزى اور طرفدارى ، اور كہاں يہ عداوت و مخالفت ؟
زبير نے ابوالاسود كے جواب ميں قتل عثمان كا مسئلہ پيش كيا _
_ابو الاسود نے كہا :ہم نے تو جيسا كہ سنا ہے قتل عثمان ميں اپ ہى لوگ شريك ہيں ، حضرت على (ع) كو ذرہ برابر بھى اس كے قتل ميں دخل نہيں زبير نے كہا اے ابوالاسود ذرا طلحہ كے پاس جائو ، ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _
ابوالاسود كا بيان ہے: كہ ميں طلحہ كے پاس گيا ليكن وہ بہت تند مزاج اور فتنہ انگيز تھے ، وہ بہت زيادہ جنگ كى باتيں كرتے رہے ميرى تمام نصيحتيں اور باتيں بے اثر رہيں (14)
دوسرى روايت كے مطابق ابوالاسود كا بيان ہے كہ ميں اور عمران ابن حصين بصرہ كے گورنر عثمان ابن حنيف كى طرف سے عائشه كے پاس گئے اور ان سے يہ وضاحت چاہى كہ _
اے عائشه كيا وجہ ہوئي كہ اپ يہاں تك پہنچ گئيں ، كيا اپ كے اس قيام اور سفر كے بارے ميں رسول(ص) خدا كا فرمان ہے يا اپ نے اپنى ذاتى رائے سے يہ اقدام كيا ہے _
عائشه نے كہا: اس بارے ميں ميرے پاس رسول(ص) خدا كا كوئي فرمان يا حكم نہيں ہے بلكہ جس دن سے عثمان قتل كئے گئے ميں نے ذاتى طور سے ان كے خون كا انتقام لينے كى ٹھان لى ، كيونكہ ہم عثمان كے زمانے ميں واضح طور سے ان پر اعتراض كيا كرتے تھے كہ مسلمانوں پر كيوں ظلم ڈھا رہے ہو ، انھيں تازيانے كيوں لگا رہے ہو ، عام زمينوں اور چرا گاہوں كو اپنے اور خاندان والوں كے مويشيوں كيلئے كيوں مخصوص كر لى ہے ، اس سفّاك اور ظالم وليد كو
جسے رسول(ص) خدا نے جلا وطن كيا تھا اور قران نے فاسق كا نام ديا (15) ايسے شخص كو مسلمانوں كا حكمراں بنا ديا ، ہاں ، ہم نے يہ تمام باتيں اس كے كان ميں ڈاليں اس نے ميرى تمام باتيں مان ليں اپنے كارندوں كى حركات پر شر مندہ بھى ہوا ، اور اپنے توبہ سے اپنے كو پاك كر كے غلطيوں كى تلافى كى _
ليكن تم لوگوں نے اس كے توبہ كو ذرہ برابربھى اہميت نہيں دى ، تلواريں كھينچے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور اس كے گھر ميںاسے مظلوم اور بے گناہ قتل كرديا ، تم لوگ اسلامى سر زمين مدينہ كى عظمت اور خلافت كى شان و شوكت ، ماہ ذى الحجہ كى حرمت ان تمام چيزوں كو اسلام نے محترم قرار ديا ہے تم نے ان سبكو روند ڈالا ، كيسے اور كيوں ميں اس ظلم و ستم كے مقابلہ ميں خاموش رہوںاور اس سركشى اور زيادتى كے مقابلے ميںچپ بيٹھ جائوں_
ابو الاسود نے كہا: اے عائشه اپ كو تلوار اور تازيانے سے كيا سروكار ؟ كيا رسو ل (ص) خدا نے اپ كو ايسے معاملات ميں مداخلت سے منع نہيں كيا تھا ؟
انھوں نے اپ كے لئے گھر كى كوٹھى پسند نہيں كى تھى اپ اپنے شوہر كے حكم كے خلاف اپنے گھر سے باہر كيوں نكل ائيں اور مسلمانوں كے درميان فتنہ و ہنگامہ كھڑا كيا ؟
عائشه نے كہا: اے ابوالاسود ، كون سا فتنہ و فساد ؟كيا كوئي ايسا بھى ہے جو مجھ سے جنگ كرے ؟ يا ميرے خلاف زبان كھولے كہ فتنہ و فساد پيدا ہو ؟ ہرگز ايسا واقعہ پيش نہيں ائيگا ميرے مقابلہ ميں ايسى حركت كى كسى كو جرائت نہيں ہو گى _
ابوالاسود نے كہا: اے عائشه اگر يہ مخالفت اور ہنگامہ ارائي اگے بڑھتى رہى تو لوگ اپ سے جنگ كرينگے اور ايك عظيم فتنہ برپا ہو جائيگا _
عائشه نے كہا: اے ابو الاسود ، اے قبيلہ عامر كے پست فطرت ، اے بنى عامر كے چھو كر ے بات كم كر ، كون شخص ہے جو زوجہ رسول سے جنگ كر سكے (16)
ابو الاسود اور عائشه سے يہيں پر بات ختم ہو گئي ، ليكن عائشه نے ابو الاسود كى بات كا ذرا بھى اثر نہيں ليا ، اپنا ارادہ نہيں بدلا ، انھوں نے اپنے لشكر والوں كے ساتھ حفر ابو موسى سے اگے بڑھكر بصرہ كے نزديك ايك جگہ پڑا ئو ڈال ديا _

سردار ان لشكر نے تقريريں كيں
لشكر عائشه بصرہ پہنچ گيا اور شہر كے وسيع ميدان --''مربد''كو اپنى چھائونى بنايا _
عثمان ابن حنيف انصارى جوحضرت على (ع) كى جانب سے بصرہ كے حكمراں تھے ، دوبارہ كچھ لوگوں كو مربدبھيجا ، تاكہ لشكر عائشه كا انتہائي مقصد دريافت كريں _
عائشه نے جب اپنى فوج ميں ايك بڑا اجتماع ديكھا اور بصرے والوں كو بھى ايك جگہ ديكھا تو موقعہ غينمت خيال كركے ان كے سامنے اس طرح تقرير كى _
اے لوگو امير المومنين عثمان اگر چہ حق و عدالت كے راستے سے منحرف ہوگئے تھے ، انھوں نے رسو ل خد(ص) ا كے اصحاب كو اذيت دى ، ناتجربہ كار اور فاسد جوانوں كو حكومت ديدى ، ايسے لوگوں كى حمايت كى جن پر رسول خدا (ص) غضبناك تھے اور انھوں نے مسلمانوں كى ابادى سے جلا وطن كيا تھا ، عمومى چراگاہوں كو اپنے لئے اور بنى اميہ كيلئے خاص كر ليا تھا ليكن ان تمام باتوں كے با وجود جب لوگوں نے ان پر اعتراض كيا اور اس كے انجام گوش زد كئے تو انھوں نے لوگوں كى نصيحتوں سے سبق ليا اپنے خراب كرتوتوں سے پشيمانى كا اظہار كيا اور اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں سے پاك كر ليا _
ليكن كچھ لوگوں نے ان كے توبہ كو وقعت نہيں دى ان كى پشيمانى پر اعتنا نہيں كيا اور انھيں قتل كر ڈالااور اس پاكيزہ شخص اور بے گناہ شخص كا خون بہا ڈالا اسے قتل كر كے بہت سے بڑے گناہوں سے اپنے كو الودہ كيا كيونكہ وہ خلافت كا مقدس لباس پہنے ہوئے تھے ، جس مہينے ميں جنگ اور خونريزى حرام ہے اسى ماہ ذى الحجہ ميں ، اور اس شہر ميں كہ جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے ، اسى شہر ميں قربانى كے اونٹ كى طرح انھيں قتل كر ڈالا ان كا خون زمين پر بہا ديا _
اے لوگو جان لو كہ قريش قتل عثمان كے اصل مجرم ہيں انھيں قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بنا ليا ہے اور اپنے مكّے خود اپنے منھ پر مارے ہيں قتل عثمان سے وہ اپنا مقصد نہ پائيں ان كى حالت كو كوئي فائدہ نہ ہو ، خدا كى قسم ان
لوگوں كو افت گھير لے گى جو انھيں نيست و نابود كر ديگى انگاروں سے بھر پور افت ، انھيں جڑ سے اكھاڑنے والى ، ايسى افت كہ سوئے لوگوں كو جگا ديگى اور بيٹھے لوگوں كو اٹھا ديگى _
ہاں ، خدا ئے عادل اس بے حد ظلم كے مقابلے ميں ايسے لوگوں كو ان پر مسلط كر ديگا كہ ان پر ذرا بھى رحم نہ كرينگے اور انھيں بد ترين اور سخت عذابوں سے انھيں اذيت ديگا _
اے لوگو عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا جو ان كے قتل كو جائز بنادے پھر يہ كہ تم لوگوں نے ان سے توبہ كرنے كو كہا اس كے بعد ان كى توبہ كو وقعت ديئے بغير (ٹوٹ پڑے اور بے گناہ ان كا خون بہا ڈالا اس كے بعدتم نے لوگوں كے مشورہ كئے بغير على كى بيعت كر لى اور غاصبانہ طريقے سے انھيں كر سى خلافت پربٹھاديا ) تم لوگ سونچو كہ ميں تمھيں لوگوں كے فائدہ كيلئے عثمان كے حق ميں تمہارى ان شمشيروں سے جوان پر برسائي گئيں غضبناك نہيں ہو جائوں اور خاموش رہوں ؟
اے لوگو ہوش ميں ائو كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اب تم لوگ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو ،جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو ، اس كے بعد ان لوگوں ميں سے جنھيںعمر نے خلافت كيلئے نامزد كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ منتخب كر لو ، ليكن ايسا نہيں ہونا چاہيئے كہ جس شخص نے عثمان كو قتل كيا (17)وہ خلافت كے بارے ميں يا شورى ميں خليفہ معين كرنے كيلئے شامل ہو اور ذرا بھى مداخلت كرے (18)زھرى كا بيان ہے كہ عائشه كى تقرير ختم ہوتے ہى طلحہ و زبيرنے بھى اٹھ كر لوگوں كے سامنے يہ تقرير كى _
اے لوگوں ، ہر گناہ كى توبہ ہے اور ہر گنہگار پشيمان ہونے كے بعد وہ پلٹتا ہے جس كے اثر سے وہ پاك اور مغفور ہو جاتا ہے ، عثمان بھى اگر چہ گنہگار تھے ليكن انكا گناہ توبہ اور امرزش كے قابل تھا ہم بھى كسى حيثيت سے ان كے قتل كا ارادہ نہيں ركھتے تھے ہم صرف يہ چاہتے تھے كہ ان كى سرزنش كريں اور اس طرح انھيں توبہ پر مجبور كريں ، ليكن كچھ نادان اور ھنگامہ پسند ادميوں نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا اور ہمارے جيسے صلح و پسند (ملائم اور حليم لوگوں پر حاوى ہو گئے اور نتيجہ ميں انھيں قتل كر ڈالا )ابھى طلحہ و زبير كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ بصرہ والے چاروں طرف
سے اعتراض كرنے لگے اور چلانے لگے _ اے طلحہ تمھارا خط ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس كا لہجہ بہت سخت تھا ، اج كى تمھارى بات سے اور اس خط كے مضمون سے كوئي مناسبت اور ميل نہيں ہے ،اس موقعہ پر زبير نے لوگوں كو مطمئن اور خاموش كرنے كيلئے كھڑے ہو كر تقرير شروع كر دى ، اور كہا اے لوگو :
ميںنے عثمان كے بارے ميں تمھيں كوئي خط نہيں لكھا اگر تمھارے پاس اس بارے ميں كوئي خط پہنچا ہے تو وہ دوسروں نے لكھا ہو گا _
اپنى پہلى بات كو زيادہ اب و تاب سے بيان كرنے لگے اور عثمان كى مظلوميت لوگوں كے سامنے زيادہ وضاحت سے بيان كى اس ضمن ميں حضرت على اور ان كے ماننے والوں كى شدت كے ساتھ تنقيد اور مذمت كى _(19)_
35

مقرروں پر اعتراض
عائشه اور ان كے سرداران لشكر كى اتشيں تقريروں كے بعد جو مربد ميں ہوئي تھيں كچھ سامعين كھڑے ہو گئے اور انھوں نے واضح لفظوں ميں اعتراضات كئے _
طبرى نے ان تقريروں كو نقل كرنے كے بعد لكھا ہے كہ اسى موقعہ پر خاندان عبدالقيس كا ايك شخص كھڑا ہو كر بولا ، اے زبير خاموش ہو جا ، ميں بھى كچھ كہنا چاہتا ہوں اور جو كچھ لازم ہے وہ لوگوں تك پہونچانا چاہتا ہوں _
عبداللہ ابن زبير اس پر بپھر كر بولے ، اے مرد عبدى تيرى كيا حيثيت كہ بات كرے ليكن اس شخص نے ابن زبير كى سرزنش پر كوئي توجہ نہيں كى اور عائشه كے لشكر والوں سے كہنے لگا تم مہاجر ين كے گروہ ميںہو تم نے زندگى ميں عظيم فضيلت و افتخار حاصل كيا كيونكہ تم ہى تھے جنھوں نے رسول اكرم (ص) كى پہلى اواز پر لبيك كہى ، اور تمام لوگ تمھارے بعد تمھارى پيروى ميں اسلام سے وابستہ ہوئے ، اسے جان و دل سے قبول كيا اور جس وقت رسول(ص) خدا لقائے الہى سے جا ملے تمھيں لوگ تھے جنھوں نے اپنوں ميں سے ايك كا انتخاب كيا اور اسكى بيعت كى ، باوجود اس كے كہ تم نے اس انتخاب ميںہم سے مشورہ نہيں كيا اور ہمارى اطلاع كے بغيريہ اقدام كر ڈالا ، پھر بھى ہم نے تمھارى
مخالفت نہيں كى ، تم جس بات كو پسند كرتے تھے ہم اس پر راضى رہے ان كى زندگى ختم ہوئي اور كسى شخص كو تمھارے درميان سے خلافت كيلئے چن ليا گيا تم لوگوں نے ہميں اطلاع ديئے بغير اس كى بيعت كرلى ہم نے بھى اسے مان ليا ، اور تمھارى خوشنودى خاطر كيلئے ہم نے اسكى بيعت كرلى ، اس نے بھى جب دنيا سے رخت سفر باندھا تو امارت و خلافت كو چھہ ادميوں كے درميان ڈال كر معاملہ شورى كے حولے كر ديا ، ان چھہ افراد ميں سے عثمان كو منتخب كر كے تم نے بيعت كر لى ليكن دير نہيں گذرى كہ تم نے اسكى روش كو ناپسند كيا ، اس كے كرتوتوں پر اعتراض كيا ، يہاں تك كہ تم نے اس كے خون سے اپنا ہاتھ رنگين كيا حالانكہ تم نے نہ اسكى خلافت ميں ہم سے مشورہ كيا تھا اور نہ قتل ميں ، وہيں تم لوگ على كے گھر پر چڑھ دوڑے ان سے حد سے زيادہ اصرار كيا يہاں تك كہ انكو زبردستى اس كام پر امادہ كيا اور انكى بيعت كرلى ، پيمان خلافت باندھ ليا ، يہ تمام باتيں تو ا ن لوگوں نے ہمارى اطلاع كے بغير اور ہمارے مشورے كے بغير انجام ديا ليكن اب ہم نہيں جانتے كہ كس دليل سے اسكے خلاف تم نے فتنہ ابھارا ہے اور ان سے امادہء جنگ ہو گئے ہو ؟
كيا حضرت على (ع) نے مسلمانوں كے مال و دولت ميں خيانت اور زيادتى كى ہے يا خلاف حق كوئي كام كيا ہے يا تم لوگوں كى پسند كے خلاف كسى عمل كے مرتكب ہوئے ہيں _
نہيں ، ہر گز نہيں ، حضرت على (ع) كا دامن ان تمام باتوں سے پاك ہے _
پھر ہم لوگ ان پر كيا اعتراض كريں ؟ اور كيوں ان سے جنگ كريں ؟
ابھى اس شخص كى بات يہيں تك پہونچى تھى كہ لشكر عائشه سے كچھ لوگ اسكى حق گوئي پر بھڑك اٹھے اور اسكے قتل كا ارادہ كيا اس شخص كے خاندان كے لوگ اور رشتہ دار اسكى مدد ميں كھڑے ہو گئے ، اسكى طرف سے دفاع كرنے لگے ، يہاں تك كہ وہ اپنى جان بچا كر لشكر كے درميان سے بھاگ گيا _
ليكن حادثہ يہيں پر ختم نہيں ہو گيا ، اور دوسرے دن عائشه كے لشكر اور اس شخص كے قبيلہ كے درميان جنگ ہوگئي اس شخص كے قبيلے كے ستر ادميوں كو ان لوگوں نے بزدلانہ طريقے سے قتل كر ديا (20)
جس وقت يہ واقعہ امام نے سنا توبہت زيادہ غمگين ہوئے اپ نے ان لوگوں كى تعزيت ميں شعر اس مضمون
كے پڑھے :
بہت افسوس اور دكھ ہوا اس ظلم پر جو قبيلہ ربيعہ پر ڈھايا گيا ، ربيعہ كے لوگ اپنے امام كى بات ہميشہ سنتے اور اطاعت كرتے ہيں _
ہاں ، وہ ہميشہ طرفدار حق رہے
اور حق كى راہ ميں انھوں نے اپنا خون نثار كيا

يا لھف قلبى على ربيعہ
ربيعہ السامعة المطيعہ
سنتھا كانت بھا الوقيعہ (21)
اس كے بعد طبرى نے نصر ابن مزاحم سے نقل كيا ہے كہ جاريہ ابن قدامہ لشكر عائشه كے مقابل كھڑے ہو كر بولے اے عائشه خدا كى قسم خون عثمان كا بہانا بہانے كا گناہ اس سے كمتر ہے كہ تو اس ملعون اونٹ پر سوار ہے اور اپنے گھر سے باہر نكل كر مردوں كى طرح ميدان جنگ ميں چلى ائي ہے
اے عائشه تيرا اسلامى معاشرے ميں احترام كيا جاتا ہے ، ليكن اس عمل سے تو نے اپنى وقعت برباد كر دى اپنى عظمت و احترام كا ناس مارديا اور اپنے كو قتل اورہلاكت ميں جھونك ديا كيو نكہ جو بھى تجھ سے جنگ كرے گا وہ تيرا خون بہانے سے باز نہيں ائے گا _
اے عائشه اگر تو اپنے جى سے اور اپنے اختيار سے ادھر ائي ہے اور يہ راہ اپنائي ہے تو يہيں سے اپنے گھر واپس جا اور اگر تو زبردستى يہاں تك لائي گئي ہے تو مسلمانوں سے مدد طلب كر تاكہ تجھ كو ان لوگوں كے چنگل سے چھڑا ئيں جنھوں نے تجھ كو مجبور كر ركھا ہے اور تجھ كو تيرے گھر پہنچا ديں (22)
طبرى اگے لكھتا ہے :
جيسے ہى جاريہ كى بات ختم ہوئي فوراً بنى سعد كا ايك جوان كھڑا ہو كر طلحہ و زبير سے بولا _
اے زبير كيا تو رسول خدا (ص) كا صحابى اور حمايتى نہيں تھا ، اے طلحہ كيا تو وہى نہيں ہے جس نے اپنى تلوار سے اور
جان و دل سے رسول(ص) خدا كے دشمنوں كے مقابل حمايت كى تھى _ ليكن اج كيا ہوا كہ وہ تمام يارى اور وفادارى ظلم اور خيانت سے بدل گئي ؟
ميں ہرگز تم لوگوں كا ساتھ نہيں دوں گا كيونكہ تم نے اپنى عورتوں كو تو گھروں ميں بيٹھا ركھا ہے اور زوجہء رسول كو اپنے ساتھ يہاں تك كھينچ لائے ہو تمھارے اس اقدام سے ہم راضى نہيں ہونگے _
اس جوان نے يہ كہا اور لشكر سے اپنے كو علحدہ كر ليا پھر ........ اس نے چند اشعار بھى پڑھے :

صنتم حلائلكم و قد تم امكم
ھذالعمر ك قلة الانصاف

امرت بجر ذيولھا فى بيتھا
فھوت تشق البيد بالايجاف

غرضاً يقاتل دونھا ابنائھا
بالنبل و الخطى والاسياف

ھتكت بطلحة و الزبير ستورھا
ھذا المخبر عنھم والكافى (23)

ترجمہ:خدا كى قسم يہ بڑى نا انصافى ہے كہ اپنى عورتوں كو تم نے گھروں ميں بيٹھا ركھا ہے اور زوجہ رسول كو ميدان ميں كھينچ لائے ہو عائشه كو يہ حكم ديا گيا تھا كہ اپنے گھر ميں بيٹھيں اور اپنے ابرو كى حفاظت كريں ، ليكن انھيں ......... صحرا نوردى اور گھوڑوں كو اسے روند نے كى ھوس نے انھيں برباد كر ڈالا ہے ان كا مقصد صرف يہ ہے كہ مسلمانوں كو جو ان كے بيٹوں كيطرح ہيں اپنے سامنے شمشير و نيزہ سے لڑا ديں اور وہ اس كا تماشہ ديكھيں _
طلحہ و زبير نے بھى اپنى حيثيت اور احترام كا ناس مار ديا يہ ان لوگوں كا بہت پست مقصد اور منحوس ارمان ہے_
اس كے بعد طبرى نے مزيد لكھا ہے كہ: اسى موقعہ پر قبيلہ جہينہ كا ايك جوان محمد ابن طلحہ كے سامنے پہنچا جو بہت عابد و زاھد سمجھے جاتے تھے اور ان سے قاتلان عثمان كے بارے ميں پوچھا محمد نے جواب ديا خون عثمان تين لوگوں پر ہے _
ايك تہائي اس خاتون كى گردن پر ہے جو ھودج ميں سوار ہے ، دوتہائي اس شخص كى گردن پر ہے جو سرخ اونٹ والا ہے (جو سرخ اونٹ پر سوار ہے ، طلحہ ) اور تيسرا حصہ خون عثمان كا على كے گردن پر ہے ،
39
وہ جوان محمد كى بات پر ہنسا اور يہ اشعار پڑھنے لگا _

سالت ابن طلحة عن ھالك
بجوف المدينہ لم يقبر

فقال ثلاثة رھط ھم
اما توا ابن عفان واستعبر

فثلث على تلك فى خدرھا
و ثلث على راكب الاحمر

وثلث على بن ابيطالب
و نحن بدوية قر قر

فقلت صدقت على الاولين
واخطا ت فى الثالث الازھر (24)

ترجمہ :ميں نے فرزند طلحہ سے عثمان كے قتل كے بارے ميں وضاحت چاہى كہ مسلمانوں نے انھيں اپنے قبرستان ميں كيوں نہيں دفن ہو نے ديا ، اس نے مجھے جواب ديا كہ عثمان كا خون ان تين افراد كى گردن پر ہے _
ايك تو وہ عورت جو ھودج ميں سوار ہے دوسرا وہ كہ جو سرخ اونٹ پر سوار ہے اور تيسرے على بن ابيطالب ہيں ، اور ہم لوگ تو صحرا نشين عوام تھے ہميں ان باتوں ميں دخل نہيں دينا چاہئے ،
ميں نے اس كا جواب ديا كہ تم نے سچ كہا كہ ھودج سوار ، اور اونٹ سوار ہى عثمان كو قتل كرنے والے ہيں _

--------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج7 ص 39
2_ طبرى ج5 ص 53
3_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 127 ، تاريخ ابن اعثم ص 166 _ 167
4_ يہ دونوں عائشےہ كے رشتہ دار تھے كيونكہ طلحہ ان كے خاندانى تھے اور زبير ان كى بہن كے شوہر تھے
5_طبرى ج5 ص 167
6_ فائق زمخشرى ج1 ص 290 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص 79 ، عقد الفريد ج3 ص 69 ، تاريخ يعقوبي
7_طبرى ص168
8_ سعيد ابن عاص يہ شخص بنى اميہ كا تيز طرار ادمى سمجھا جاتا تھا اميرالمومنين (ع) نے اس كے باپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا تھا ، يہ عثمان كا منشى تھا اور عثمان كى طرف سے كوفے كا حكمراں تھا على (ع) نے اس كو معزول كر ديا تھا
9_ اس كا مطلب طلحہ زبير اور عائشےہ سے تھا
10_ خاندان عبد مناف كى فرد ميں بنى ہاشم اور بنى اميہ شامل ہيں اس وقت على (ع) خليفہ تھے اس لئے بنى اميہ كى فرد سعيد اس بات پر راضى نہيں تھا كہ خلافت بنى ہاشم سے نكل كر خاندان تيم ميں پہنچے اور طلحہ كو حاصل ہو يا زبير كو ملے كہ جو بنى اسد كے خاندان سے تھا
11_ طبرى ج5 ص168 _ طبقات ج5 ص23
12_ طبرى ج5 ص 168 ، طبقات ج5 ص 23
13_ طبرى ج5 ص178 ، عبد اللہ بن سبا ج1 ص 100
14_ الامامة و السياسة ج1 ص 57 ، شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج2 ص 81 ، طبرى ج5 ص 178
15_ سورہ حجرات ايت 6
16_ بلاغات النساء ص 9 ، عقد الفريد ج3 ص 98 ، البيان والتبيين جاحظ ج2 ص 209
17_قاتل عثمان سے ان كى مراد حضرت على ہيں
18_ الامامة و السياسة ج1 ص 51 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج2 ص 499
19_ طبرى ج2 ص 178
20_ طبرى ج5 ص 178
21_ طبرى ج5 ص 204
22_ طبرى ج5 ص 176
23_ طبرى ج5 ص 176
24_ طبرى ج5 ص 176