تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار
عهد امير المومنين (ع)
مو لف : سيد مرتضى عسكرى
مترجم : سيد على اختر رضوى گوپالپوري طاب ثراہ
مقدمہ مترجم
محترم قارئين كے پيش نظر موجودہ كتاب ''احاديث ام المومنين عائشه '' كا ترجمہ ہے ، كتاب كا متن مشہور محدث علامہ مرتضى عسكرى نے لكھا ہے_
مو لف كتاب كے مذہبى ، معاشرتى و علمى خدمات اس قدر ہيں كہ دوست اور دشمن سبھى تحسين و ستائشے كرتے ہيں ، جنكى تفصيل كيلئے مستقل كتاب كى ضرورت ہے _
انہيں جناب كى علمى و ثقافتى خدمات كا ايك نمونہ ، احاديث ام المومنين عائشه ہے ، دانشور مو لف نے اس كتاب ميں عائشه كے انكار و عقايد اور اوصاف و اخلاق كو بھر پور طريقے سے واضح كر كے ان كى نفسيات قارئين كے سامنے مجسم كردى ہيں عائشه كے واقعى چہرے سے انھيں واقفيت ہو جاتى ہے _
عائشه كى حيات و زندگى پر مشتمل يہ كتاب ان كے زمانے ميں پيش انے والے اہم واقعات و حوادث كا تجزيہ پيش كرتى ہے _
ليكن محترم مو لف كا اس كتاب لكھنے سے اصل مقصد يہ نہيں كہ عائشه كے حالات زندگى لكھے جائيں ، بلكہ بلند تر اور وسيع تر مقصد پيش نظر ہے ، وہ چاہتے كہ وہ احاديث جو عائشه سے مروى ہيں انكا تحليل و تجزيہ كيا جائے ، انكا صحت و سقم اور وقعت و اعتبار كى حديں واضح كى جائيں _
اس عميق اور وسيع الذيل بحث سے قبل اس كتاب ميں مقدمہ كے عنوان سے بعض ان تاريخى حوادث كا تذكرہ كيا گيا ہے جن ميں عائشه نے مداخلت كى ، مو لف نے ان كا تحليل و تجزيہ كر كے اخلاقى حالت شخصيت اور جس راوى نے اسے بيان كيا ہے اسكا واقعى قيافہ پيش كيا ہے جس سے روايات كى قدر و قيمت اور عيار و ميزان واضح ہوتا ہے _
مولف محترم نے انھيں وقائع سے بھر پور حيات عائشه كے تجزيے كو مقصد قرار ديتے ہوئے يہ كتاب لكھى ہے ، اور انھيں متعدد فصلوں پر تقسيم كيا ، ان ميں حساس ترين مندرجہ ذيل تين قسميں ہيں _
1_ عائشه ، عثمان كے زمانے ميں
2_ عائشه، حكومت على كے زمانے ميں
3_ عائشه ، حكومت معاويہ كے زمانے ميں
حصّہ اوّل كا ترجمہ ، فاضل ارجمند جناب اقاى سردار نيا كے قلم سے ہوا ہے ، اور نقش عائشه در تاريخ اسلام كے نام سے شائع ہوا ، حصّہ دوم بھى مولف محترم كے حكم سے ترجمہ كيا گيا ہے ، جو موجود ہ كتاب كى شكل ميں ، قارئين كے پيش نظر ہے ، اسكا تيسرا حصّہ بھى خدا كى مددسے جلد ہى شائع كيا جائے گا _
اخر ميں چند باتوں كى ياد دہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے _
1_ چونكہ اصل كتاب عربى ميں ہے ، فارسى داں حضرات ميں چند ہى اس سے استفادہ كر سكتے تھے ، فارسى زبان ميں ترجمہ ہونے سے اسكى افاديت عام ہوگئي ، اسكا مقصد ہى يہى ہے كہ تمام لوگ اس سے بہرہ مند ہوسكيں ، اس لئے جہاں اصل مطلب ميں ضرورت سمجھى گئي ، توضيحى حواشى كا اضافہ كيا گيا ، تاكہ وہ تمام لوگ بھى استفادہ كر سكيں جنھيں تاريخى اصطلاحات سے پورى اشنائي نہيں ركھتے _
2_ مندرجہ بالا مقصد كے پيش نظر ترجمہ ء كتاب كے سلسلے ميں ازاد اسلوب اختيار كيا گيا ہے _
3_ ممكن حد تك مو لف كے مقصد كا تحفظ كرتے ہوئے مطالب كو ايك دوسرے سے علحدہ كر ديا گيا ہے ، كہيں كہيں اصل كتاب كے مطالب ميں اضافہ بھى كيا گيا ہے تاكہ قارئين كو تھكن كا احساس نہ ہو
4_ اگر قارئين كرام درميان مطالب تاريخى فقروں ميں تكرار كا مشاہدہ كريں تو اسے عيب اور نقص نہ سمجھيں ، كيونكہ اس كتاب كے محترم مو لف نے محض ايك تاريخى تسلسل كے بيان پر اكتفا نہيں كيا ہے ، بلكہ وہ چاہتے ہيں كہ حوادث تاريخى كو واضح انداز ميںبيان كر كے حقائق كو روشن اور نماياں كريں، اس بلند مقصد كيلئے نا گريز تھا كہ حادثات و واقعات كے تسلسل كو تھوڑے فرق كے ساتھ مختلف اسناد كے پيش نظر متعدد كتابوں كے حوالے سے درج كئے جائيں ، تاكہ تمام جزئيات سامنے اجائيں _
اسى وجہ سے اس كتاب ميں بعض واقعات تاريخى كے مدارك و ما خذ كے اختلاف كى وجہ سے تكرار پيدا ہو گئي ہے ، ظاہر ہے كہ يہ تكرار نقص يا عيب نہيں سمجھى جا سكتى بلكہ اس قسم كے اسلوب تحرير كوخوبى واعتبار كے حساب ميں ركھا جاتا ہے تاكہ جن حقائق كو پيش كيا جارہاہے وہ زيادہ سے زيادہ واضح ہو سكيں _
''واللہ ولى التوفيق و ھو يھدى السبيل ''
محمد صادق نجمى _ ھاشم ہريسي
قم المقدسہ 1393ھ
مقدمہ مولف
ہمارے پيش نظر جو تحقيق و تجزيہ ہے اسكا مقصد نہ تو علم كلام كے درپئے ہونا ہے نہ فقہى يا تاريخى اور دوسرا كوئي مقصد واضح لفظوں ميں كہا جائے كہ ہم نہيںچاہتے كہ كسى گروہ كے عقائد وافكار كى تنقيد كريں ، يا كسى دوسرے گروہ كے عقائد كے بارے ميں صفائي ديں يا اسكى طرفدارى كريں ، ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كسى كى ستائشے و تعريف اور دوسرے كى مذمت و بد گوئي كريں _
پھر ہم يہ بھى نہيں چاہتے كہ كوئي فقہى بحث چھيڑ كے حكم قتل اسلامي اسلامى فقہ كے اعتبار سے تحليل و تجزيہ كريں ، يہاں تك كہ ہمارا مقصد تاريخ نويسى بھى نہيں ہے كہ ہميں اس بات كى ضرورت ہو كہ تمام تاريخى حوادث كو تفصيل سے نقل كريں _
بلكہ ہمارا مقصد يہ ہے كہ بعض تاريخى حوادث كو مدارك اصلى و اولين كو معتبر كتب تاريخ سے نقل كر كے قارئين كرام كے حوالے كرديں تاكہ ان كا مطالعہ كركے عائشه كى شخصيت اور واقعى قيافہ پہچان سكيں ، ان كے افكار و عقائد اور روحانى علامتوں كو سمجھ سكيں ،نتيجے ميں ائندہ زير بحث انے والى انكى روايات و احاديث كى قدر و قيمت اور اعتبار واضح ہو سكے گا ، اس طرح انكى احاديث كے تحقيق و تجزيے كى راہ ہموار ہوگى _
يہى وجہ ہے كہ ہم نے اس كتاب ميں ان حوادث كو نظر انداز كيا ہے جو ہمارى بحث و تحقيق سے ربط نہيںركھتے تھے ، صرف انھيں وقائع و حوادث تاريخى كو نقل كيا ہے جو ميرے مقصد سے مربوط ہيں ، كيونكہ اس قسم كى واقعات نقل كرنے سے عائشه كى عجيب اور پيچدار شخصيت اور انكا سياسى و فكرى تدبر نماياں ہوتا ہے ، كہ وہ لوگوں كے افكار اپنى طرف مائل كرنے كى كسقدر مہارت ركھتى تھيں ، كسطرح دو خلفاء كے پائے حكومت كو متزلزل كر ڈالا ، ان ميں سے ايك (عثمان )كو قتل كرنے كا فتوى صادر كيا اور اپنا فتوى موثر بنانے كى راہ ہموار كى ، كيونكہ اگر انھوں نے فتوى نہيںديا ہوتا تو عثمان قتل نہ ہوتے ، خليفہ كا خون بہانے اور مرتبہء خلافت كى ھتك و حرمت برباد كرنے كى جرائت نہ ہوتى _
پھر يہ كہ انہوں نے كس طرح اپنى سياسى سوجھ بوجھ سے عثمان كے قتل ہونے كے بعد تيزى كے ساتھ ، بڑى اسانى سے ، ان سے اپنى سابقہ دشمنى و عداوت كے لباس كو بدل كر ، ان كے خون كا بدلہ لينے اور طرفدارى كرنے كا مظاہرہ كيا _ جى ہاں _ عائشه ايسى ہى زيرك اور ماہر تھيں كہ انہوں نے واقعى قاتل سے اپنى بيزارى ظاہر كى اور اپنے كو
ان كا طرفدار، اور قصاص لينے والا ، متعارف كرايا انتہائي تعجب كى بات تو يہ ہے كہ انہوں نے عثمان كے قاتلوں اور دشمنوں كو ان كے دوستو ں اور فرزندوں كے ساتھ ايك ہى لشكر مين ايك ہى صف ميں كھڑا كر ديا ، اسطرح عثمان كى خونخواہى كا لشكر ترتيب ديديا _
واقعى وہ بڑى مہارت ركھتى تھيں ، كہ حضرت على (ع) قتل عثمان ميں ذرہ برابر بھى شريك نہيں تھے ، انھيں پر قتل كا الزام تھوپ ديا اور انھيں كو قاتل كى حيثيت سے متعارف كرايا ، انكى وہ سابقہ عظمت و بزرگى جو انھيں اسلامى معاشرے ميں حاصل تھى ، انھيں يكسر حرف غلط بنا كر عوام كو ان كے خلاف بغاوت پر امادہ كر ديا _
جى ہاں ، يہ بے نظير سياسى صلاحيت اور عجيب و غريب توانائي عائشه ہى سے مخصوص ہے ، جنكا نام تاريخ ميں مشھور ہ ہوگيا ، اور بر جستہ شخصيت تاريخى حيثيت سے پيش كيا جاتا ہے _
افسوس كى بات يہ ہے كہ اج تك عائشه كے بارے ميں ان كے كردار كا صحيح طريقے سے تحليل و تجزيہ نہيں كيا گيا ہے ، نہ انكا واقعى قيافہ نماياں كياگيا ہے ، اس بارے ميں بہت سے حقائق سے پردہ نہيں اٹھا يا جا سكا _
اب ميں خدا ئے تعالى سے دعا كرتا ہوں كہ ہمارى اس راہ ميں مدد فرمائے ، كہ ميں اس تاريك گوشے كو واضح كر سكوں ، ان حقائق سے پردہ اٹھا سكوں ، عائشه كى شخصيت جيسى كہ ہے ، اسكى نشاندہى كرسكوں ،تاكہ اس طرح انكى احاديث كى قدر و قيمت اور حدود و اعتبار معلوم ہوسكے_
سيد مرتضى عسكري
بيعت كے بعد
حساس ترين فراز
جس وقت عثمان قتل كر دئے گئے ، اورمسلمانوں كے تمام معاشرتى و سياسى امور ان كے ہاتھوں ميں واپس اگئے ، خليفہ كى بيعت ہونے كى وجہ سے انكى گردنيں محدود اور دوسرا منتخب كرنے كى راہ مسدود تھى ، جب وہ اس سے رہائي پاگئے تو سب نے باہم حضرت على (ع) كى طرف رخ كيا اپ كے گرد ہجوم كرليا كہ اپ كى بيعت كر كے اپكو خليفہ منتخب كر ليں _
طبرى نے اس واقعے كو يوں لكھا ہے كہ :
رسول خدا (ص) كے اصحاب حضرت على (ع) كے سامنے اكر عرض كرنے لگے كہ يا علي مسلمانوں كے خليفہ عثمان قتل كر دئے گئے ، اور اج بھى تمام مسلمان ايك امام اور سر پرست كيلئے مجبور و ناچار ہيں ، اور انكى سرپرستى كے لئے اپ سے زيادہ موزوں اور لائق تر ہم كسى كو نہيں جانتے ، كيونكہ اسلام ميں اپ كى سابقہ زندگى سب سے زيادہ مفيد اور رسول خدا (ص) سے قرابت بھى سب سے زيادہ ہے _
اميرالمومنين نے انھيں جواب ديا :
نہيں ، تم لوگ ہميں يہ پيشكش ہر گز نہ كرو ، خلافت مير ے گلے مت منڈھو ، كيونكہ ميرے لئے خليفہ كا مشير اور وزير ، ہونا اس سے كہيں بہتر ہے كہ ميں كرسى خلافت پر ٹيك لگائوں _
اصحاب نے كہا : نہيں ، خدا كى قسم ، ہم اپ سے دستبردار نہيں ہونگے جب تك اپ ہمارى قبول نہ كرليں _
حضرت على (ع) نے فرمايا: اب جبكہ ميرے لئے تمھارى بيعت قبول كر لينے كے سوا چارہ نہيں ، تو ہونا يہ چاہيئے كہ مراسم بيعت مسجد ميں تمام مسلمانوں كى رضا و رغبت سے ظاہر بظاہر ہو _
اس كے بعد طبرى نقل كرتا ہے :
تمام مسلمانوں نے ، جن ميں طلحہ و زبير بھى تھے ، حضرت على كے اس ہجوم كى شكل ميں ائے اور يوں كہا :
يا على ہم اپ كے پاس اسلئے ائے ہيں كہ اپ كى بيعت كريں ، اور اپ كو خلافت و امامت كے لئے چن ليں _
امير المومنين نے ان لوگوں كے جواب ميں فرمايا :
مجھ سے باز ائو ، مجھے ميرے حال پر چھوڑ دو ، كيونكہ مجھے خلافت و حكومت كى ضرورت نہيں ہے ، ميں بھى تمھارى ہى طرح ايك مسلمان ہوں ، جسے بھى اس عہدے كيلئے مناسب ديكھو اسكے ہاتھ پر بيعت كر لو ، خدا كى قسم ميں بھى اس پر راضى ہو جائوں گا ، اور تمھارے اس اقدام پر كسى قسم كا اعتراض نہيں كروں گا _
ليكن وہ حضرت على (ع) كے ارشاد پر راضى نہ ہوئے ، انھوں نے بڑى سختى كے ساتھ زور ديتے ہوئے كہا :
يا على ، خداكى قسم ، ہم اپ كے سوا كسى كو بھى مسلمانوں كى رہبرى و پيشوائي كے لئے منتخب نہ كريں گے _
اس كے بعد طبرى لكھتا ہے :
عثمان كے قتل ہونے كے بعد عوام جتھ بنا كر اجتماعى شكل ميں كئي مرتبہ حضرت على كے پاس ائے ، اور ان سے تقاضہ كيا كہ مرتبہ خلافت كو قبول كر كے مسلمانوں كى حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليں ، ليكن امير المومنين نے ا ن لوگوں كے تقاضوں كا اثبات ميں جواب نہيں ديا ، انكى خواہش پورى نہيں كى ، مسلمانوں نے اخرى بار ان كے پاس اكر كہا كہ ، ياعلى ، اگر خليفہ كے انتخاب و تعين كا معاملہ اس سے زيادہ طول پكڑے گا تو مسلمانوں كے انتظامى معاملات چوپٹ ہو جائيں گے ، اس صورتحال ميں اپ جيسے لائق سر پرست كيلئے لازم ہو جا تا ہے كہ مسلمانوں كے امور كى اصلاح فرمائيں ، انكى اجتماعيت كى طوفان زدہ كشتى كو نجات و رہبرى كے ساحل پر لگائيں ، اب يہاں پر حضرت على نے لوگوں كو مثبت اور كار گر جواب ديا اپ نے فرمايا :
تم لوگوں نے حد سے زيادہ ميرے اوپر دبائو ڈالا ، حد سے زيادہ اصرار كيا ، ميرے سوا كسى كو قبول كرنے پر امادہ نہيں ہو ، تو اب ميرى بھى ايك پيشكش ہے ، اگر تم لوگوں نے اسے قبول كيا تو ميں بھى تم لوگوں كى بيعت قبول كرنے پر امادہ ہوں ، ورنہ كبھى تم لوگوں كى بيعت قبول نہ كروں گا ، نہ خلافت كا سنگين بوجھ كاندھے پر لونگا _
انہوں نے كہا: يا على ، اپ جو فرمائيں ہميں جان و دل سے قبول ہے ، پھر سارے عوام مسجد كى طرف چلے ، وہاں مجمع ہوا ، حضرت على بھى مسجد ميں تشريف لائے ، منبر پر جاكر اسطرح گفتگو شروع كى _
اے لوگو ميں نہيں چاہتا كہ كرسى خلافت پر بيٹھوں اور تم پر حكومت كروں ، ليكن اخر كيا كروں ؟ تم لوگ مجھے
نہيںچھوڑ تے ميرے كاندھے پر يہ سنگين بوجھ ڈالنا ہى چاہتے ہو _
ميںپہلے سے تم لوگوں كے سامنے يہ خاص بات ركھ دينا چاہتا ہوں اور تم سے اس پر عہد لينا چاہتا ہوں كہ ميرى خلافت كے دوران يہ دو باتيں سختى سے عملى جامہ پہن لينگى كہ :
1_ طبقاتى امتياز ات ختم ہو جائيں گے _
2_ تمام مسلمانوں كے درميان مساوات كا سختى سے نفاذ ہو گا ، ہاں ، ميرى خلافت كے زمانے ميں اس قانون كو عام ہونا چاہيے ، يہاں تك كہ ميں بھى ، جو تمھارا حاكم ہوں ، تمھارا بيت المال اور دولت كے تمام اختيارات ميرے قبضے ميں ہيں ، ميں بھى حق نہيں ركھتا كہ دوسرے لوگوں كے حقوق سے ايك درہم زيادہ لے لوں ، پھر امام نے مزيد فرمايا ، اپنى حرص وطمع كے دانت كند كرلو ، كسى قسم كے معاشرتى امتياز كى توقع نہ ركھو ، مجھ سے اضافى حقوق نہيں لے سكو گے ، كيا تم لوگ ان متذكرہ شرائط پر ميرى خلافت سے راضى ہو ؟ سب نے ايك زبان ہو كر كہا ، ہاں ، ياعلي
اس وقت امير المومنين نے دعا كى ، خدايا تو اس عہد پر گواہ رہنا ، اسكے بعد مسلمانوں كے ہاتھ بيعت كيلئے بڑھنے لگے اور مراسم بيعت شروع ہوئے (1)
بلاذرى كہتا ہے: گروہ در گروہ مسلمان تيزى اور كامل اشتياق كے ساتھ حضرت على (ع) كى طرف بڑھنے لگے ، وہ يہ بھى نعرے لگا رہے تھے ، ہمارے على امير المومنين ہيں ہمارے على امير المومنين ہيں ، ہمارے على امير المومنين ہيں _
يہ نعرے لگاتے ہوئے على (ع) كے گھر ميں داخل ہوئے اور كہا :
يا على ، اپ خود بہتر جانتے ہيں كہ مسلمانوں كے لئے حاكم ہونا ضرورى ہے ، ہم نے بھى اپ كو اپنا پيشوا ، امام بناياہے اب ہم ائے ہيں تاكہ اپ كى بيعت كريں اور اسلامى خلافت كے معاملات و حالات اپ كے حوالے كريں _
حضرت على (ع) نے ان كے جواب ميں فرمايا :
خليفہ اور امام كا انتخاب صرف تمھارے اجتماع سے انجام پذير نہيں ہو سكتا ، بلكہ ان لوگوں كو بھى شريك ہونا چاہيئے
جو جنگ بدر ميں شامل تھے ، يا جنھيں سبقت اسلامى كا شرف حاصل ہے ، انھيں كى رائے اور مشورے سے خليفہ متعين ہو تا ہے _
جس وقت حضرت على (ع) كى بات بدرى صحا بہ كے كانوں ميں پڑى وہ تمام لوگ بھى اپ كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہنے لگے _
يا على ہم نے اپ كو منتخب كيا ، ہاں ، اپ ہى كو _
كيونكہ اپ كے ہوتے كسى كے لئے خلافت سزا وار نہيں ، اور اس جگہ كے لئے اپ سے زيادہ بہتر اور موزوں دوسرا كوئي شخص نہيں _
حضرت على (ع) نے جب انكى بات سنى اور انكى رائے حاصل كر لى تو منبر پر تشريف لے گئے ، اور لوگوں كو خبر دار كيا كہ ميں نے خلافت قبول كر لى ہے ، مسلمانوں كے ہاتھ حضرت على (ع) كى طرف بڑھنے لگے اور مراسم بيعت كا اغاز ہو گيا ، طلحہ پہلے شخص تھے جنھوں نے حضرت على (ع) كى بيعت كى ، اتفاق سے ان كا ہاتھ شل تھا ، كہتے ہيں كہ اس عيب پر حضرت على (ع) نے بدشگونى سمجھى اور فرمايا ، دير نہيں گذرے گى كہ يہ اپنا عہد توڑ ڈالے گا (2)
ليكن طبرى نقل كرتا ہے كہ ،جس وقت طلحہ نے حضرت على (ع) كى بيعت كى حبيب بن ذ ويب نے ديكھ كر كہا ،يہ بيعت پورى نہ ہو گى كيونكہ پہلا ہاتھ جو بيعت كيلئے بڑھا ہے ناقص اور معيوب ہے(3) ليكن جو بھى صورت ہو ، مدينے والے اس بيعت كو طلحہ كے مشلول ہاتھ كى وجہ سے بدشگونى سجھ رہے ہوں ليكن عائشه نے اس كو نيك شگونى خيال كيا ، اور خوشحال ہو كر كہا كہ اب مدينے والے طلحہ كے اس ناقص ہاتھ پر بيعت كر كے انھيں كو خليفہ منتخب كريں _
جب فرمان قتل ، انتقام ميں بدل گيا
خلافت عثمان كے اخرى ايام ميں عائشه حالات خلافت سے سخت كبيدہ خاطر ہو گئي تھيں ، كيونكہ دو خلافتوں كے زمانے ميں وہ جن حالات سے بہرہ مند تھيں ، ان سے قطعى محروم ہو چكى تھيں ، يہى وجہ تھى كہ عائشه نے مخالفت عثمان كا پرچم بلند كيا تھا ، اس مہم ميں جٹ گئيں ، شہروں شہروں خطوط لكھے تاكہ عثمان كے روش سے مسلمانوں ميں جو برہمى
ہے وہ شورش اور انقلاب كا روپ دھار لے جب اتش فتنہ مشتعل اور اپنے كو كامياب ديكھا تو مكّہ كى راہ لى وہيں سكونت پذير ہو گئيں اور ہر لمحہ قتل عثمان اور بيعت طلحہ كا انتظار كرنے لگيں _
اس سلسلے ميں طبرى لكھتا ہے :
ايك دن اخضر نام كا شخص مدينے سے مكّہ گيا ، عائشه نے اسے ديكھ كر پوچھا مدينے كا كيا حال ہے ؟
اخضر نے جواب ديا ، عثمان نے مصر والوں كو قتل كر ڈالا
عائشه چلّائيں ، اناللہ وانا اليہ راجعون ، واقعى اب عثمان نے اپنى سركشى اس حد كو پہونچا دى ہے كہ جو لوگ ، اپنے حق كے لئے ظلم كے خلاف كھڑے ہوئے ہيں انھيں قتل كر ڈالتا ہے ؟ خدا كى قسم ميں اس ظلم و زيادتى پر كبھى راضى نہيں ہو ں گى ؟
اس كے بعد ايك دوسرا شخص ايا ، عائشه نے اس سے بھى پوچھا تم نے مدينے كے كيا حالات ديكھے ؟
اس نے جواب ديا ، مصر والوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، عائشه نے كہا ، كتنى حيرت كى بات ہے كہ اخضر نے قاتل كو مقتول سمجھ ليا تھا ، اسى تاريخ سے عربى زبان ميں يہ كہا وت بنگئي كہ فلاں شخص تو اخضر سے بھى زيادہ جھوٹا ہے _
بلا ذرى لكھتا ہے :
جس وقت قتل عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو حكم ديا كہ مسجدالحرام ميں ضميہ لگا يا جائے ، انھوں نے خيمے ميں جا كر يہ خطبہ ديا _
اے لوگو ، سمجھ لو كہ ميں عثمان كى روش كى وجہ سے پيش گوئي كرتى ہوں كہ وہ ايك دن اپنى قوم اور مسلمانوں كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو گا ، جسطرح ابو سفيان جنگ بدر ميں اپنى قوم كے ہاتھوں بد بختى كا شكار ہو ا _(4)
اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ جس وقت عثمان كى خبر مكے ميں عائشه كو ملى تو كہا ، عثمان رجعت خدا سے دور ہو ، وہ اپنے كالے كرتوتوں كى وجہ سے تباہى گھاٹ لگا ، كيونكہ خدا تو كسى پر بھى ظلم نہيں كرتا _
كبھى كہتيں ، خدايا اسے اپنى رحمت سے دور كر دے اسكے گناہوں كى وجہ سے ورطئہ ہلاكت ميں جھونك
دے ، اسطرح وہ اپنے كيفر كردار كو پہونچ گيا، اے لوگو ، قتل عثمان كى وجہ سے تم ہرگز غمگين نہ ہو ، قوم ثمود كا احمر جس نے ناقہء صالح پئے كيا تھا اور قوم ثمود كو ہلاكت ميں ڈالا تھا ، عثمان بھى اسى طرح تمھارے درميان باعث فساد و اختلاف نہ بن جائے
اگر عثمان قتل ہو گيا تو يہ لو ،يہ طلحہ موجود ہے ، يہ تمام لوگوں ميں سب سے لائق اور بہتر شخص ہے ، اسى كى بيعت كرلو اور اختلاف و تفرقہ سے بچو _
عائشه ان باتوں كے بعد جس قدر جلد ممكن ہوا تيزى سے مدينے كى طرف چليں ، راستے بھر مدينے كے اوضاع و حالات كا پتہ لگاتى رہيں ، ليكن طلحہ كے خليفہ ہونے ميں ان كو ذرا بھى شك وشبہ نہ تھا (5)
عائشه نے مدينے كى راہ تيزى سے طئے كى وہ اس فكر ميں غلطاں تھيں ، وہ بدبداتى رہيں_
(عثمان وہى يہودى شخص ، عثمان ا پنى عياريوں اور حماقتوں كا مجموعہ ، رحمت خدا سے دور ہو عثامن كو الگ كرو_ مجھ سے طلحہ كى بات كرو ، وہى جو ميدان جنگ كا شير ہے ، ميرے چچيرے بھائي طلحہ كى بات مجھ سے كرو ، اے طلحہ كيا كہنا تمھارے باپ كا جس نے تمھارے جيسا فرزند پيدا كيا لوگوں نے بڑا اچھا انتخاب كيا ہے ، انھوں نے صرف طلحہ كو خلافت كيلئے مناسب سمجھا ، اسى كو خلافت كے لئے منتخب كيا ، ہاں صرف وہى اسكے لائق بھى ہے ، گو يا دور سے ميرى انكھيں ديكھ رہى ہيں كہ لوگ بڑھكر اسكى بيعت كررہے ہيں ، ميرى سوارى تيز ھنكائو ، تيز ھانكو تاكہ ميں اسكے پاس پہونچ جائوں )
عائشه اسى غوطے ميں تھيں ، مدينے كى راہ طئے كر رہى تھيں كہ اثنائے راہ عبيد بن ام كلاب (6)كا سامنا ہوا ، وہ مدينے سے ارہا تھا ، اس سے پوچھا ، اے عبيد مدينے كى كيا خبر ہے ؟
عبيد نے جواب ديا ،لوگوں نے عثمان كو قتل كر ڈالا ، اور اٹھ دن بغير سر پرست رہے _
عائشه نے جھٹ سے پوچھا ، اسكے بعد كيا ہوا ؟
xعبيد نے كہا خدا كا شكر كہ بخير و خوبى كام انجام پا گيا ، مسلمانوں نے پورى د ل جمعى اور ايك دل و زبان ہو كر على بن ابى طالب كى بيعت كرلى ، انھيں كو امام منتخب كر ليا _
عائشه نے كہا ، خدا كى قسم ، اگر خلافت كا معاملہ على كے حق ميں تمام ہوا ہے تو اسمان پھٹ پڑے ، اے عبيد تجھ پر افسوس ہے ، ذرا غور تو كر، تو كيا كہہ رہا ہے ؟
عبيد نے كہا : اے عائشه ، اطمينان ركھيئے ، واقعہ ايسا ہى ہے ، جيسا ميں نے بيان كيا _
عبيد كى بات سنتے ہى عائشه نے صدائے فرياد بلند كى ، وہ زور زور سے چلانے لگيں ، ہائے واويلا كرنے لگيں عبيد نے كہا ، اے عائشه تم على كى بيعت سے نالاں اور خفا كيوں ہو ،خلافت على سے خوش كيوں نہيں ہو ، على تو خلافت كيلئے سب سے زيادہ سزاوار اور لائق ہيں ، على ہى ميں جن كے فضائل و مناقب كا كوئي پا سنگ نہيں
ابھى عبيد كى بات يہيں تك تھى كہ عائشه نے چلاكر كہا ، مجھے واپس لے چلو ، جتنى جلدى ہو سكے مجھے واپس لے چلو ، اسطرح وہ مكہ واپس چلى گئيں ، ليكن اپنا پہلا نعرہ جن ميں قتل عثمان كا فرمان صادر كيا تھا ، اب بدل ديا تھا ، اب وہ كہہ رہى تھيں ، خدا كى قسم عثمان بے گناہ اور مظلوم قتل كئے گئے ہيں ، مجھے ان كے انتقام كيلئے اٹھنا چاہيئے ، قيام كرنا چاہيئے_
عبيد نے كہا: اے عائشه ، مجھے سخت حيرت ہے كہ اپ كل تك عثمان كے كفر كا فتوى صادر كرتى تھيں ، قتل كا حكم ديتى تھيں ، اسكا نام بڈھا يہودى ركھ چھوڑا تھا ، كتنى جلدى اپ اپنى بات سے پلٹ گئيں كہ اج عثمان كو مظلوم اور بے گناہ كى حيثيت سے متعارف كرارہى ہيں ؟
عائشه نے كہا ، ہاں عثمان ايسے ہى تھے ، ليكن انھوں نے خود توبہ كر لى تھى ، يہ عوام تھے جنھوںنے ان كى توبہ پر توجہ نہ كى انھيں بے گناہ قتل كر ديا ، جانے دو ابھى بھى ان باتوں كو ، تمھيں ميرى گذشتہ باتوں سے كيا سروكار ؟جو كچھ ميں اج كہہ رہى ہوں اسے مانو ، اج كى ميرى بات كل سے بہتر ہے _
عبيد نے عائشه كى بات پر يہ چند اشعار كہے :
فمنك البداء و منك الغير
ومنك الرياح و منك المطر
وانت امرت بقتل الامام
و قلت لنا انہ قد كفر
فھبنا اطعناك فى قتلہ
و قاتلہ عند نامن امر
ولم يقسط السقف من فوقنا
ولم تنكسف شمسناوالقمر
وقد بايع الناس تد راء
بذ يل الشباو يقيم الصعر
ويلبس للحرب اثوابھا
ومامن وفى مثل من قدغد ر
اے عائشه ، ان تمام اختلافات و انقلابات كا سرچشمہ تمہيں ہو ، تمام لرزہ خيز طوفانوں اور فتنوں كو تمہيں نے پيدا كيا _ تمہيں نے قتل عثمان كا فرمان صادر كيا ، تمھيں نے كہا كہ وہ كافر ہو گياہے ، اگرچہ ہم نے تمھارے حكم سے عثمان كو قتل كيا ليكن در اصل عثمان كى قاتل تم ہو ،كہ تم نے قتل كا حكم ديا _
اے عائشه ،نہ تو اسمان پھٹ پڑا نہ چاند سورج گہنائے بلكہ لوگوں نے ايك عظيم انسان كى بيعت كر لى ، وہ بہادر مرد جو جنگى لباس زيب تن كرتا ہے ، اور سركش اور خود پسند لوگوں كى گردن اينٹھتا ہے ، كيا وہ شخص كہ جو وفادار ہو ، وہ اس كے مانند ہو سكتا ہے جو غدار ہو ؟
اسكے بعد عائشه مكہ واپس چلى گئيں اور مسجدالحرام ميں اپنا اونٹ بيٹھايا اور اپنے كو چھپا كر حجرالاسود كى طرف بڑھيں ، اسى ھنگام لوگوں نے چاروں طرف سے ان كو گھير ے ميں لے ليا _ جب عائشه نے اپنے گرد بڑا مجمع ديكھا تو انھيں مخاطب كر كے كہا :
اے لوگو مظلوم عثمان كو قتل كر ديا گيا ، مجھے بھى انكى مظلوميت پر رونا چاہيئے ، خدا كى قسم ،ان كے خون كا انتقام ضرور لوں گى _
كبھى كہتى تھيں :
اے قبيلئہ قريش على نے عثمان كو قتل كراديا ، عثمان وہ تھے جنكى ايك رات على كى تمام زندگى سے بہتر تھى ابو مخنف نے بھى اس روايت كو نقل كر كے كہا ہے :
جب عائشه كو معلوم ہوا كہ لوگوں نے على كى بيعت كرلى تو صدائے فرياد بلند كى ، ناس جائے ان لوگوں كا خلافت كو قبيلئہ تيم (7) ميں واپس نہيں كررہے ہيں ؟ (8)_
بيعت توڑ نے والے
عام طور سے تمام مسلمانوں نے جان و دل سے حضرت على (ع) كو خلافت كے لئے چن ليا ، ان كى بيعت بھى كر لى ، سوائے چند نفر كے ، جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، جيسے عبداللہ بن عمر ، محمدبن مسلم ، اسامہ بن زيد ، حسان بن ثابت اور سعدبن ابى وقاص _
حضرت على (ع) كے دوستوں ميں سے دو افراد عمار ياسر اور مالك اشتر نے ان سے اس بارے ميں گفتگو كى _
عمار نے كہا : اے اميرالمومنين ،عام مسلمانوں نے تو اپكى بيعت كرلى سوائے ان لوگوں كے جو انگليوں پر گنے جاسكتے ہيں ، اپ خود انھيں بيعت كرنے كيلئے بلايئے شايد اپ كى بات مان ليں ،اور صحابہ كى روش اور مہاجر و انصار كے رويّے سے روگردانى نہ كريں ، مسلمانوں كے اجتماع سے الگ نہ ہوں _
حضرت على (ع) نے فرمايا : اے عمار جو شخص ميرى پھيلى ہوئي اغوش ميں نہ اے اور دل و جان سے ميرى بيعت نہ كرے مجھے اسكى ضرورت بھى نہيں _
مالك اشتر نے عرض كى ، يا امير المومنين ،ان ميں سے بعض سر پھرے اگر چہ سبقت اسلامى بھى ركھتے ہيں ، ليكن صرف سابق الاسلام ہونا بيعت سے روگردانى كو جائز نہيں بنا سكتا ، خليفہ معين كرنا تو انتہائي حسّاس موضوع ہے ، بڑا اہم ہے ، اسكى مخالفت اجتماعيت سے انحراف ہے ، انھيں بھى دوسروں كى طرح بيعت كرنى چاہيئے اور مسلمانوں ميں تفرقہ و اختلاف نہيں پيدا كرنا چاہيئے _
حضرت على (ع) نے فرمايا : اے اشتر ، ميں ان لوگوں كے خيالات كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتاہوں ، اگر انھيں كے حال پر چھوڑ دوں تو يہ اس سے كہيں بہتر ہے كہ بيعت كے لئے مجبور كروں ، انھيں منحرفين ميں سعد بن ابى وقاص بھى تھا ، اس نے حضرت على كى خدمت ميں اكر كہا :
يا على ، خدا كى قسم مجھے اس بارے ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كہ اپ مرتبہ خلافت كے سب سے زيادہ لائق اور موزوں ہيں ، ليكن كيا كروں ، مجھے بھر پور يقين ہے كہ دير نہيں گذرے گى كہ كچھ لوگ اسى خلافت كے لئے جسے اپ كے حوالے كيا ہے اپ سے شديد نزاع واختلاف كريں گے ، بات خونريزى تك پہونچے گى _
ميں اپ كى اس شرط پر بيعت كر سكتا ہوں كہ زبان كى تلوار اپ ميرے اختيار ميں ديديں تاكہ جو بھى قتل كا
سزاوار ہو مجھے متعارف كرادے _
اميرالمومنين (ع) نے اسكے جواب ميں فرمايا: اے سعد
مسلمانوں نے ميرے باتوں پر اس شرط سے بيعت كى ہے كہ ميں كتاب خدا اور سنت رسول كے مطابق عمل كروں ، كيا ميں نے ان دونوں كى مخالفت كى ہے كہ تم ميرى مخالفت كررہے ہو ؟
تم بھى ازاد و مختار ہو كہ اسى شرط كے مطابق ميرى بيعت نہ كرو اور اجتماعيت سے الگ رہو(9) ان متذكرہ افراد كے علاوہ كچھ بنى اميہ كے لوگوں نے بھى على كى بيعت نہيں كى _
مشہور مورخ يعقوبى لكھتا ہے كہ ان چند منحرفين ميں سے كچھ كے نام يہ ہيں _
مروان بن حكم ، سعيد بن عاص ، وليد بن عقبہ يہ لوگ بھى حضرت على (ع) كى خدمت ميں ائے ،ان ميں تيز طرار وليد تھا اس نے حضرت على سے عرض كيا _
يا على ، اپ نے ہم سب كو اچھى طرح كوٹ ڈالا ، ہمارى كمريں توڑ ڈاليں ، ميں ہى ہوں كہ بڑے افسوس كے ساتھ كہتا ہوں كہ اپ نے ميرے باپ كو جنگ بدر ميں قتل كيا _
سعيد كے باپ كو بھى اپ نے قتل كيا جو قريش كا با اثر تھا ، اسكے قتل سے اپ نے قبيلہء قريش كى كمر توڑى _ اور يہ جو مروان ہے ، اسكے باپ كى بھى مذمت كى ، ہميں اور اسكے باپ كى برائي بيان كر كے ہمارے كليجے چھلنى كئے ، جس دن عثمان نے اس پر احسان اور صلئہ رحمى كا برتائو كيا ، اسكے حقوق ميں اضافہ كيا تو اپ نے اس پر عثمان كى لے دے مچائي ، ان پر سخت نكتہ چينى كى ، ان تمام گر ہوں اور خفگيوں كے باوجود ہم اپ كى بيعت كرنے كو تيار ہيں ، ليكن شرط يہ ہے كہ جو كچھ ہم لوگوں سے خلافت عثمان كے زمانے ميں غلطياں ہوئي ہيں ، ان كو نظر انداز فرمايئے ، ہم نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم كئے ہيں انھيں بھول جايئے ،ہم نے مسلمانوںكے مال و دولت كو لوٹا ہے انھيں واپس نہ ليجئے _ دوسرے يہ كہ قاتلان عثمان كو سزا كے طو رپر قتل كيجئے _
يہ تھا خلاصہ بنى اميہ كے تيز طرار شخص كى بات كا _
16
حضرت على (ع) ان كى باتيں سنكر غضبناك ہوئے ، اپ كے چہرے پر اثار غضب صاف ديكھے جاسكتے تھے ، اپ نے فرمايا ، تم نے يہ جو كہا كہ ميں نے تمھارے باپ اور بزرگوں كو قتل كيا ہے تو انھيں ميں نے نہيں قتل كيا ہے ، بلكہ انكى حق سے مخالفت اور دشمنى نے قتل كيا ہے ، شرك و بت پرستى كى طرفدارى نے قتل كيا ہے _
تم نے جو مجھے پيشكش كى ہے كہ ہم نے بيت المال سے بہت بڑى دولت لے لى ہے ، بے حساب مال لوٹا ہے ، تم سے نہيں لوں تو سن لو كہ اس بارے ميں بھى ہمارا عدالت و انصاف ہى كا ر فرما ہوگا ، عدالت كا جو بھى تقاضہ ہو گا ميں اسى كے مطابق برتائو كروں گا ، تم نے دوسرى پيشكش كى ہے كہ عثمان كے قاتلوں كو قتل كروں اگر ميں اج انھيں قتل كردوں تو ايك بہت بڑى داخلى جنگ مسلمانوں كے درميان چھڑ جائے گى _
امير المومنين نے مزيد فرمايا: يہ بہانہ ختم كرو ، جو كہتا ہوں اس پر كان دھر و ، يہى تمھارے حق ميں مفيد ہے ، ميں تمھيں كتاب خدا اور سنت رسول كى طرف بلا رہا ہوں ، حق كو قبول كرو اور باطل سے دور ہوجائو ، كيونكہ اگر كسى كى زندگى سايہ حق و عدالت ميں اسكے لئے تلخ ہو اور باطل كے سائے ميں تو اور بھى تلخ ہوگى ، يہى ہے ميرى اخرى بات ، دل چاہے مانو ، اور دل چاہے تو اپنے خيالات كى پيروى كرو ، جہاں جى چاہے چلے جائو _
مروان نے كہا :
ہم اپ كى بيعت كرتے ہيں ، اپ كے ساتھ ہيں تاكہ اسكے بعد كيا گذرتى ہے (10)
طلحہ و زبير نے بيعت توڑي
طلحہ اور زبير كافى عرصے تك ايك افت اور دنيائے اسلام پر حكومت كرنے كى ارزو دل ميں ركھتے تھے ليكن سب كا خيال على كى طرف تھا اورلوگ صرف انھيں كو اس مرتبے كے لا ئق سمجھتے تھے انھيں كو خليفہ بنانا چاہتے تھے يہى وجہ تھى كہ يہ دونوں خلافت كى ارزو سے منھ موڑ كر حضرت على كى بيعت كرنے پر امادہ ہوئے ، اپ كى بيعت كرنے ميں بظاہر سب پر سبقت كى كيونكہ وہ چاہتے تھے كہ بيعت كر كے خليفہ كى توجہ اپنى طرف مائل كر ليں
تاكہ اسى راستے حساس عہدے ان كے ہاتھ اسكيں اور حكومت ميں زيادہ سے زيادہ حصہ بٹور سكيں ليكن جب خلاف توقع حضرت على نے ان لوگوں كو بھى سارے مسلمان افراد كيطرح يكساں اور برابر قرار ديا ، ان كے لئے ذرہ برابر بھى امتياز نہيں برتا تو ان كى سارى اميد وں پر پانى پھر گيا اور ان كا تير نشانہ پر نہيں لگ سكا _
طلحہ اور زبير كى بے جا توقع كو يعقوبى نے اس طرح لكھا ہے :
طلحہ و زبير حضرت على (ع) كى خدمت ميں اكر بولے ، يا على ہم لوگ رسول (ص) خدا كے بعد ہر عہد ے اور مرتبے سے محروم ركھے گئے ، ہميں كوئي حصہ نہيں ديا گيا ، اب جبكہ خلافت اپ كے اختيار ميں ائي ہے تو ہميں اميد ہے كہ ہم دونوں كو بھى خلافت كے معاملات ميں شريك و سہيم قرار دينگے اور كوئي حكومت كا حساس عہدہ ہمارے اختيار ميں ديدينگے _
حضرت على (ع) نے انھيں جواب ديا كہ تم اس پيش كش سے باز ائو ، كيونكہ اس سے بالاتر مرتبہ كيا چاہتے ہو كہ ميرى حكومت و توانائي كو سختيوں اور مصائب ميں ميرا سہارا ہو اس حكومت كے استحكام تمھارے رويّے ميں منحصر ہے كيا اس سے بھى بالا تر اور بہتر مرتبہ كسى اور مسلمان كيلئے ممكن ہے ؟(11)
مورخين نے نقل كيا ہے كہ حضرت على نے يمن كى حكومت طلحہ كو دى اور يمامہ اور بحرين كى حكومت پر زبير كو مامور كيا ، جس وقت اپ نے حكومت كا منشور اور عہد نامہ انھيں دينا چاہا تو ان دونوں نے كہا :
اے امير المومنين اپ نے ہمارے ساتھ صلہ رحم فرمايا اور رشتہ دارى كا حق ادا كرديا _ حضرت على (ع) نے فوراََ وہ عہد نامہ ان سے لے ليااور فرمايا كہ ميں ہرگز صلہ رحم كے طور پر يا رشتہ دارى كا حق ادا كرنے كيلئے مسلمانوں كے اختيار ات كسى كو نہيں ديتا ہو ں _
طلحہ و زبير حضرت على (ع) كے اس سلوك سے غصّہ ہو گئے ، انھوں نے كہا يا على دوسروں كو ہم پر ترجيح ديتے ہيں اور ان كے مقابلہ ميں ہميں ذليل كرتے ہيں _
حضرت على (ع) نے فرمايا :كہ تم لوگ رياست و حكومت كيلئے حد سے زيادہ والہانہ پن كا مظاہر ہ كر رہے ہو ، ميرے خيال ميں حريص اور رياست طلب افراد اس كام كيلئے ہرگز موزوں نہيں ہيں كہ مسلمانوں پر حكومت كريں اور
ان كے اختيارات حوالے كيلئے جائيں (12)
طبرى اس سلسلے ميں يوں لكھتا ہے :
طلحہ و زبير نے حضرت على (ع) سے مطالبہ كيا كہ كوفہ اور بصرہ كى حكومت انھيں ديديں ، حضرت على (ع) نے انھيں جواب ديا كہ اگر تم دونوں ميرے پاس رہو اور خلافت و حكومت كو رونق بخشو تو اس سے كہيں زيادہ بہتر ہے كہ دور دراز علاقوں ميں جائو اور مجھ سے جدار ہو ، كيونكہ ميں تم لوگوں كے فراق سے احساس تنہائي اور دكھ محسوس كرونگا (13)
جيسا كہ كہا گيا حضرت على نے طلحہ و زبير كى خواہش كے مطابق عہدہ و منصب ان كے حوالہ نہيں كيا اور معاملہ خلافت ميں اپنے ساتھ حصّہ دار اور شريك بھى قرارنہيں ديا ، يہ پہلى وجہ تھى كہ طلحہ و زبير خلافت سے ناراض ہو گئے اور اسى بات نے انھيں حكومت سے رنجيدہ بنايا كہ نتيجہ ميں انھوں نے بيعت توڑ دى اور اخرى جنگ جمل واقع ہوتى _
دوسرى وجہ جو طلحہ و زبير كے بيعت توڑنے كى باعث ہوئي اور انھيں ميدان جنگ ميں كھينچ لائي ، يہ تھى كہ حضرت على (ع) بيت المال كو تمام مسلمانوں كے درميان مساويانہ تقسيم كرتے تھے ، اور كسى شخص كے بھى خصوصى امتياز كے قائل نہيں تھے يہاں تك كہ طلحہ و زبير بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، ليكن يہ مساوات كى روح اور عادلانہ رويّہ ان دونوں كو ہضم نہ ہوسكا اور يہ لوگ بات كو برداشت نہ كرسكے ، يہاں تك كہ ان لوگوں نے حضرت على (ع) پر شدّت كے ساتھ اعتراضات كئے اور مساوات كے خلاف ريشہ دوانيوں پر امادہ كيا _
_ابن الحديد كہتا ہے كہ حضرت على (ع) نے بيت المال كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اور ہر شخص كو تين دينار عطا كيا ، زمانہ خلافت عمر اور عثمان كے بر خلاف حضرت على (ع) نے تمام عرب و عجم كے مسلمانوں كو برابر و يكساں قرار ديا _
_طلحہ و زبير نے حضرت على (ع) كى اس مساوات پر اعتراض كرتے ہوئے اس عادلانہ بٹوارے كى مخالفت كى ، اور اپنا حصہ نہيں ليا _
_حضرت على (ع) نے انھيں اپنے پاس بلايا بلاكر پوچھا اللہ كو حاضر و ناظر جان كر بتائو كہ تم ہى لوگ ميرے پاس
نہيں ائے تھے اور مجھ سے مطالبہ نہيں كيا تھا كہ خلافت كى باگ دوڑ اپنے ہاتھ ميں لے ليجئے حالانكہ ميں اسے قبول كرنے سے انكار كر رہا تھا اور ميں نے سخت نا پسند يدگى كا مظاہرہ كيا _
_جى ہاں
--------------------------------------------------
1_ طبرى ج5 ص 152 ، كنز ل العمال ج3 ص 161 ، ترجمہ فتوح ابن اعثم ج2 ص 243
2_ انساب الاشراف ج1 ص 70 ، حاكم ج3 ص 114
3_ طبرى ج1 ص 153
4_ انساب ج5 ص 91 ، كنز العمال ج3 ص 161
5_ كيونكہ طلحہ خليفہ اول كے چچيرے بھائي تھے ، اس خاندان كے ہونے كى وجہ سے خلافت سے قربت حاصل تھى ، ليكن عائشےہ نے رسول (ص) كے چچيرے بھائي كے بارے ميں يہ رائے ظاہر نہيں كى
6_ عبيد قبيلہ ليث كى فرد تھا، اسكا عائشےہ سے مكالمہ اكثر مورخوں نے لكھا ہے ، جيسے طبرى ج5 ص172 ، ابن اثير ج3 ص80 ، طبقات بن سعد ج4 ص88 ، كنز العمال ج3 ص16
7_ تيم عائشےہ اور ان كے خاندانى ادمى طلحہ كا قبيلہ
8_ شرح نہج البلاغہ
9_ ترجمہ فتوح اعثم ص 163
10_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 125 ، مسعودى فصل بيعت على ترجمہ فتوح بن اعثم ص 193 _ 194
11_ يعقوبى فصل بيعت على ص 126
12_ رسول اللہ نے بھى حريص اور رياست طلب افراد كو كوئي منصب اور عہدہ حوالہ نہيں كيا ، صحيح بخارى ج4 ص 156 ، صحيح مسلم ج5 ص 6
13_ طبرى ج5 ص 153 ، تاريخ ابن كثير ج7 ص 127 _ 128
|