فرزند ابو بكر اور مصر كى گورنري
بلاذرى اوردوسرے مورخين كے مطابق عثمان نے اس عہد نامے كے علاوہ ايك دوسرا عہد نامہ مصر والوں كو ديا ، اسميں عبداللہ بن ابى سرح كو بر طرف كر كے محمد بن ابى بكر كو وہاں كا گورنر بنايا _
بلاذرى لكھتا ہے: عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ نے اٹھكر عثمان سے تلخ كلامى كى ، عائشه نے بھى پيغام بھيجا
كہ عبداللہ كو معزول كر كے مصريوں كا حق دو ، اس موقع پر حضرت على تشريف لائے اور مصريوں كى طرف سے كہا ، يہ لوگ تم سے مطالبہ كرتے ہيں كہ عبداللہ كو حكومت سے بر طرف كر كے كسى دوسرے شخص كو وہاں كا گورنر بنائو ، اسى طرح سب لوگ اس پر الزام لگاتے ہيں كہ اسكى گردن پر بہت سے بے گناہوں كا خون ہے ، اسے كار كردگى سے بر طرف كرو اور ان كے درميان فيصلہ كرو ،اگر يہ الزام صحيح ثابت ہو كہ عبداللہ نے ان كو قتل كيا ہے اس كے بارے ميں قانون خدا وندى جارى كر كے ان كے حقوق دو _
عثمان نے مصريوں سے خطاب كيا ، تم خود ہى كسى كا انتخاب كردو تاكہ اسكے حق ميں فرمان جارى كردوں ، سبھى مصريوں نے محمد بن ابى بكر كا نام اپس كے مشورہ سے ليا اور كہا ، محمد كو حكومت دينے كا فرمان جارى كر ديجئے (1) عثمان نے مصريوں كى بات مان لى ، اور حكومت مصر كا فرمان محمد كے نام لكھ ديا ،اور مہاجرين و انصار كے ايك گروہ كو اسكے نفاذكا نگراں بناديا تاكہ يہى لوگ عبدللہ كے الزام كى بھى داد خواہى كريں ،اور تحقيقاتى رپورٹ عثمان كے حوالے كريں _
اس طرح بھر پور صلح و اشتى كے ساتھ طرفين ايك دوسرے سے جدا ہوئے مصر والے خوش خوش مدينے سے مصر كى طرف جانے لگے _
حضرت على خليفہ عثمان كى حمايت سے كنارہ كش ہوئے
عثمان كى سياسى توبہ
حضرت على (ع) كى استقامت سے عثمان اور مصريوں كے درميان صلح صفائي ہو گئي عثمان نے تحرير بھى حوالے كر دى كہ ان كے مطالبات پورے كئے جائيں گے ، وہ سبھى لوگ خوش خوش عثمان كے گھر سے چلے گئے تو حضرت على (ع) نے عثمان سے فرمايا ، اٹھو اور لوگوں كے سامنے تقرير كركے اپنے نظريہ و عقيدے كا اظہار كرو ، خدا كى بارگاہ ميں اپنى دلى توبہ كو گواہ بنائو كيو نكہ اكثر شہروں كے اوضاع و احوال ميں بے چينى ہے ہر جگہ تمھارے كرتوتوں كا چرچا ہے ، اسلئے اس بار انديشہ ہے كہ كوفے والے تم پر چڑھ دوڑيں ، پھر تم مجھ سے كہو گے _
اے على جاكر ان سے بات كرو ; اس صورت ميں مجھے ان سے بات كرنے كا يارانہ رہے گا ،وہ لوگ بھى ميرا كوئي بہانہ يا عذر نہيں سنيں گے _
يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بصرہ والے تمہارے خلاف اٹھ كھڑے ہوں ،پھر تم مجھے فرمان صادر كرو كہ على جائو ان سے بات چيت كرو اور جب ميں تمھارے فرمان كو نظر انداز كروں تو تم مجھے اپنا قاطع رحم سمجھو ادائے حق ميں كوتاہى كا الزام دو _
عثمان اٹھكر مسجد ميں ائے اور تقرير كى ، اپنے گذرى باتوں پر ندامت كا اظہار كر كے توبہ كى ، تقرير كے درميان كہا :
اے لوگو خدا كى قسم تم لوگوں نے جو كچھ ميرے اوپر تنقيد كى ميں ان سب كو جانتا ہوں ، جو كچھ ميں نے ماضى ميں كيا ہے سبھى ميرى علم و واقفيت ميں تھا ، لاعلمى ميں نہيں كيا ہے ليكن اس درميان ميرى خواہش نفس نے مجھے سخت دھوكہ ديا _
حقائق كو الٹا ميرے سامنے پيش كيا ، اخر كار اس خواہش نفس نے مجھے گمراہ كر ديا ، مجھے جادہء حق و حقيقت سے منحرف كرديا _
ميں نے خود رسول خدا سے سنا ہے كہ فرماتے تھے _
جو شخص غلطى كا مرتكب ہو جائے تو اسے توبہ كرنا چاہيئے_
اور جو شخص گناہ كا مرتكب ہو تو اسے توبہ كرنى چاہيئے_
اور اس سے زيادہ اپنے كو گمراہى ميں نہ الجھائے ركھے _
اگر ظلم و ستم پر اصرار كرتا رہے گا تو وہ اس گروہ ميں شمار كيا جائے گا جو حق كے راستے سے پورى طرح منحرف ہيں ميں خود پہلا شخص ہوں جس نے اس فرمان سے نصيحت حاصل كى ، اب ميں ان تمام گذشتہ باتوں سے خدا كى بارگاہ ميں استغفار كرتا ہوں ، ميں انكى تلافى كروں گا ، اور ميرے جيسے كيلئے يہى مناسب ہے كہ گناہ سے استغفار اور توبہ كرے _
اب ميں جيسے ہى منبر سے اتروں تو معزز اور اشراف حضرات ميرے پاس اكر اپنے اپنے مطالبات پيش كريں _
قسم خدا كى ، اگر خدا يہى چاہتا ہو كہ ميں بندئہ زر خريد رہوں تو اچھى طرح وہى روش اپنائوں گا ، اور جب لوگوں سے ذليل و خوار ہو جائوں گا تو فروخت شدہ غلام كى طرح صبر و شكيبائي كا رويہ اپنا لوں گا ، جب بيچا گيا تو صا بر ہے اور اناد ہوا تو شاكر ہے ، اور كوئي كام خدا ہى كى طرف منتہى ہوتا ہے ، اور تمام امور كى بازگشت اسى كى طرف ہے _
تم ميں جو لوگ شائستہ كردار ہيں ، مجھ سے منھ نہ موڑيں اور سمجھ ليں كہ مثال كے طور پر اگر ميرا داہنا ہاتھ ان پر فرمان كى طرح نہيں ہے تو ميرا باياں ہاتھ ان پر فرماں بردار كى طرح ہے
لوگوں كو عثمان كى اس تقرير سے رقّت طارى ہو گئي ، يہاں تك كہ بہت سے لوگ رونے لگے ، ان كى بيچارگى دور ماندگى اور توبہ و استغفار سے بہت زيادہ متاثر ہوئے ، اسى حالت ميں سعيد بن زيد نے عثمان سے كہا :
اے اميرالمومنين كوئي شخص بھى اپكا اتنا دلسوز نہيں ہے جتنے خود اپ اپنے دلسوز ہيں ، اب اپ خود اپنا
محاسبہ كيجئے اور جو وعدہ كيا ہے اس پر عمل كيجئے _
مروان كى وعدہ خلافي
جب عثمان منبر سے نيچے ائے تو سيدھے اپنے گھر گئے ، وہاں انھوں نے مروان ،سعيد اور ديگر بنى اميہ كو موجود پايا يہ سبھى عثمان كى تقرير كے وقت مسجد ميں موجود نہيں تھے ، جيسے ہى عثمان بيٹھے ، مروان نے ان سے كہا :
امير المومنين اجازت ہے كہ ميں كچھ كہوں :
عثمان كى زوجہ نائلہ اس سے پہلے بول پڑيں _
نہيں ، بہتر يہى ہے كہ تم كچھ نہ بولو ، خاموش رہو ، اسكے بعد وہ كہنے لگيں _
خدا كى قسم ، حالات كى كشاكش اتنى بڑھ گئي ہے كہ لوگ بلا شبہ ان سے بغاوت كر بيٹھيں گے اور قتل ہى كر ڈاليں گے ، ان كے بچوں كو يتيم كر ديں گے ، انھوں نے اس شورش كے دن ايسى بات كہى كہ كسى طرح بھى مناسب نہيں تھى اب انھيں اس سے باز انا چاہيئے
مروان اس بے جامزاحمت سے بہت غصہ ہوا ، وہ اپے سے باہر ہو كر نائلہ سے سخت لہجے ميں بولا تمھيں ان باتوں سے كيا سروكار باپ مرتے مر گيا اور يہ بھى نہ جان سكا كہ صحيح و ضو كيسے كيا جاتا ہے _
نائلہ نے غصہ و نفرت كے ساتھ جواب ديا
مروان ، خاموش ہو جا ، تم ميرے مرے باپ كا نام درميان ميں لا رہے ہو ، ان پر جھوٹا الزام لگا رہے ہو ؟حالانكہ تمہارا باپ ايسا ہے كہ كسى كو اسكى جانبدارى كا يارا نہيں _
خدا كى قسم ، اگر تيرا باپ عثمان كا چچا نہ ہوتا ، اور فطرى بات ہے كہ برا چچا بھتيجے سے وابستہ ہوتا ہے ، تو تيرے باپ كيلئے بھى ايسى بات كہتى كہ تو انكا ر نہيں كر سكتا _
مروان نے مجبور ہو كر نائلہ سے منھ پھير ليا _
دوبارہ عثمان كى طرف متوجہ ہو كر پہلى بات كى تكرار كى _
عثمان نے اسے بات كرنے كى اجازت دى تو مروان نے كہا ، ميرے ماں باپ اپ پر قربان ، كيا اچھا ہوا
كہ اپ نے يہ باتيں اس وقت كہى ہيں جب اپ كے پاس طاقت و اقتدار ہے، اپ اس طرح ذليل نہ ہوتے ، اس حالت ميں ،ميںپہلا شخص ہوتا جو اپ سے خوش ہوتا ، اپ كى تائيد كرتا ، يہاں تك كہ ظاہر بظاہر اسكى كمك كرتا ، ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ اپ نے يہ باتيں اس وقت كہى ہيں جب پانى چكّى ميں گھس چكا ہے ، اور اپ كے اقتدار كا اتنا ہى حصہ باقى رہ گيا ہے جتنا خاشاك اور جھاگ كا حصہ زمين پر باقى رہتا ہے _
اپ نے نہايت ذلت و خوارى كے ساتھ عوام كے سامنے اپنى ضرورت كا ہاتھ پھيلاديا اور انتہائي خاكسارى و بے چارگى كے ساتھ ان كے سامنے سپر انداز ہوگئے _
خدا كى قسم اگر اپ بار بار گناہ كر كے صرف خدا كى بارگاہ ميں استغفار كرتے تو اس سے كہيں زيادہ مناسب تھا كہ اپ نے عوام كے سامنے عاجز ى اور توبہ كا مظاہرہ كيا اگر اپ چاہتے تھے كہ اپنى توبہ سے لوگوں كے دل جيت ليں تو ان كے سامنے اپنى غلطيوں اور گناہوں كا اقرار كرنا صحيح نہيں تھا ، اسى عاجزى اور غلطيوں كے اقرار كى وجہ سے لوگ اسطرح اپ كے دروازے پر امنڈ پڑے ہيں _
عثمان نے مروان سے كہا :
تم خود باہر جاكر ان لوگوں سے بات كرو كيونكہ مجھے اب ان سے بات كرتے شرم اتى ہے _
مروان گھر سے نكلا ، عثمان كے وعدے كى وجہ سے لوگوں كا ہجوم دروازے پر اگيا تھا ، شانے سے شانہ چھل رہا تھا _
ٹھيك اسى وقت مروان ان كے سامنے پہونچ گيا اور ان كى طرف رخ كر كے چلّانے لگا _
كيا بات ہے لوٹ پاٹ كرنے ائے ہو ، تمہارا منھ كالا ، ہر شخص كو ديكھ رہا ہوں كہ دوسرے كو روك كر خود اگيا ہے ، جسے ميں ديكھنا چاہتا ہوں وہ لوگ نہيں ہيں
كيا معاملہ ہے ، كيا ہمارى حكومت پر دانت تيز كئے ہوئے ہو اسطرح ہجوم كر كے ہمارى حكومت چھيننے ائے ہو ؟
نكل جائو ، دفعان ہو جائو ، خدا كى قسم ، اگر ہمارى طرف رخ كيا تو ايسى مار پڑے گى جسے تم سوچ بھى نہيں سكتے تمہيں بڑا مہنگا پڑے گا _
تم لوگ بھى كيا گدھے ہو ، اپنے گھروں كو واپس جائو ، تم لوگ دھوكے ميں ہو ، ہم ہرگز تم سے پيچھے نہيں ہٹيں گے نہ اپنا اقتدار تمہارے حوالے كريں گے _
عثمان كى دور انديش زوجہ
لوگوں نے ابھى تھوڑى دير پہلے عثمان سے جو كچھ ديكھا سنا تھا اور اب جو كچھ ديكھ رہے تھے ،سخت حيرت و استعجاب ميں تھے ، وہ كيا تھا ، اب يہ كيا ہے ، اسكا جواب بہت مشكل تھا ، سب كے سب حضرت على كى بارگاہ ميں گئے اور تمام واقعات كى اطلاع دى
حضرت على (ع) غصّے ميں بھرے عثمان كے پاس ائے اور سخت لہجے ميں بولے ابھى تم نے مروان كو نہيں چھوڑا نہ وہ تمھيں چھوڑ رہا ہے وہ تمھارا دين اور تمہارى عقل دونوں بر باد كر دے گا ؟تمھيں ذليل اونٹ كى طرح جہاں چاہتا ہے گھسيٹتا پھرتا ہے ،تم سر جھكائے چلتے چلے جارہے ہو _
خدا كى قسم ، مروان نہ تو مكمل ايمان ركھتا ہے نہ سالم فكر ، حق كى قسم ، ميں ديكھ رہا ہوں كہ وہ تمھيں ہلاكت ميں ڈال ديگا پھر وہ تمھيں نجات نہيں دے سكے گا ، تم نے اپنى حيثيت اور اپنا شرف پامال كر ديا ، اب اپنے كرتوتوں كى سر نوشت ميں گرفتار ہو ، ميں اب اس كے بعد يہاں نہيں ائوں گا نہ تم سے كوئي سروكار ركھوں گا ، نہ تمھارے كر توت پر سرزنش كروں گا _
جب حضرت على (ع) اس حالت ميں گھر سے باہر چلے گئے توعثما ن كى زوجہ نائلہ ائيں اور اجازت طلب كر كے بوليں ،ميں نے على كى بات سنى ، اب وہ دوبارہ تمھارے پاس نہيں ايئں گے ، تم نے اپنے كو پورے طور سے مروان كے قبضے ميں ديديا ہے ، وہ جہاں چاہتا ہے تمھيں لئے پھرتا ہے ، عثمان نے جواب ديا _
بتائو بھى اب ميں كيا كروں ؟
نائلہ نے جواب ديا
خدائے واحد سے ڈرو ، ابوبكر و عمر كا طريقہ اپنائو اگر تم نے مروان كى بات مانى تو تمھيں قتل كرا ديگا _
لوگوں كى نظر ميں مروان كى كوئي قدر و منزلت نہيں ، وہ لوگ مروان ہى كى وجہ سے تم سے روگرداں ہيں ، كسى كو على كے پاس بھيجو اور انھيں اشتى سے بلائو ، كيونكہ وہ تمھارے رشتہ دار ہيں ، اور لوگوں نے ان سے كوئي ظلم بھى نہيں ديكھا ہے _
عثمان نے كسى كو بھيجا كہ حضرت على (ع) كو بلالائے ، مگر حضرت على (ع) نے انكار كرتے ہوئے فرمايا: ميں ان سے كہہ
چكا ہوں كہ اب نہيں ائوں گا_
ادھر جب نائلہ كى بات مروان كو معلوم ہوئي تو عثمان كے پاس پہونچا اور ان كے سامنے بيٹھ كر بات كرنے كى اجازت چاہى _
عثمان نے اجازت دى تو مروان نے كہا :
يہ نائلہ ، فرافصہ كى بيٹى عثمان نے اسكى بات كاٹتے ہوئے كہا اسكے بارے ميں كوئي بات نہ كہو ، خدا كى قسم وہ تم سے زيادہ ميرى رعايت كرتى ہے اور تم سے زيادہ ميرى ھمدرد ہے _
مروان مجبوراََچپ ہوگيا
طبرى اپنى تاريخ ميں لكھتا ہے (2)
عبدالرحمن اسود نے مروان كے بارے ميں كہا :
خدا مروان كا منھ كالا كرے ، عثمان لوگوں كے سامنے ائے اور ان كے راضى ہونے كى باتيں كہيں _
يہ قربت اور صفائي ان پر ايسى محيط تھى كہ بے اختيار منبر پر رونے لگے ، لوگ بھى رونے لگے ، ميں نے خود ديكھا كہ عثمان كى داڑھى انسوئوں سے تر تھى ، وہ اسى حالت ميں كہہ رہے تھے خدا يا تجھ سے بخشائشے كا طلبگارہوں ، خدا يا تجھ سے بخشايش كا طلبگار ہوں _ خدايا تجھ سے بخشايش كا طلبگار ہوں _ بخدا اگر ايسا ہو كہ ميں زر خريد غلام ہو جائوں تو ميں گردن جھكا دوں ، اور راضى رہوں گا ، جب ميں گھر پہنچوں تو تم لوگ ميرے پاس ائو ، خدا كى قسم ، اب كبھى تم سے پنہاں نہيں رہوں گا ، دروازے پر دربان نہيں ركھوں گا ،تمھارا حق دوں گا اور زيادہ ہى دوں گا ، اور تم لوگوں كى خوشنودى كا سامان زيادہ سے زيادہ فراہم كروں گا ،ميں تم لوگوں كو زبان ديتا ہوں كہ مروان اور اسكے رشتہ داروں كو اپنے پاس سے دھتكاروں گا _
جب عثمان اپنے گھر پہونچے تو حكم ديا كہ گھر كا دروازہ كھول ديا جائے اور اس پر دربان نہيں ركھا جائے _
ليكن مروان ان كے ساتھ گھر كے اندر گيا ، دير نہيں گذرى كہ خليفہ كى رائے تبديل كردى ، انھيں فريب ديا ، اور اسقدر مكّارى و حيلہ كام ميں لايا كہ لوگوں كے ساتھ صلح و صفائي كے ارادہ سے منھ موڑ ديا ، نتيجہ يہ ہوا كہ
عثمان شرم سے تين دن تك گھر سے باہر نہيں نكلے (3)
اس دن مروان خود عثمان كے گھر سے باہر نكلا اور چلّانے لگا چند لوگوں كو چھوڑ كے جنھيں ميں چاہتا ہوں ، بقيہ تم سب كا منھ كالا ہو ، اپنے گھروں كو واپس جائو ، اگر اميرالمومنين كو تم ميں كسى سے كوئي كام ہو گا تو ادمى بھيج كے بلواليں گے ورنہ اسے گھر سے نكلنے كا حق نہيں ہے _
اس موقع پر ميں حضرت على كو تلاش كرنے نكلا ، جب مسجد ميں پہونچا تو انھيں ديكھا كہ قبر رسول اور منبر كے درميان بيٹھے ہوئے ہيں اپكے پہلو ميں محمد بن ابى بكر اور عمار ياسر بيٹھے ہوئے لوگوں كے ساتھ مروان كے سلوك بيان كر رہے ہيں ،حضرت على نے مجھے ديكھا تو فرمايا ،جس وقت عثمان تقرير كررہے تھے تم وہاں تھے ؟ميں نے جواب ديا ، جى ہاں
حضرت على (ع) نے پوچھا ، مروان نے جو كچھ لوگوں سے كہا اسے بھى تم نے سنا ؟
ميں نے جواب ديا ، جى ہاں ،اس وقت حضرت على (ع) نے فرمايا :
خدا مسلمانوں كى فرياد كو پہونچے ، اگر ميں گھر ميں بيٹھ رہتا ہوں اور اس سے سروكار نہيں ركھتا تو عثمان كہتے ہيں ،اپ نے نہ ميرا خيال كيا نہ ميرے حق كا خيال كيا نہ رشتہ دارى كا خيال كيا ، اور اگر بيكار نہيں بيٹھتا اور لوگوں سے بات كرتا ہوں تو مروان ٹپك پڑتا ہے اوربا وجود اس كے كہ وہ مسن ہيں ، صحابى رسول ہيں عثمان كے ساتھ كھلواڑ كرنے لگتا ہے ، جہاں چاہتا ہے گھسيٹتا پھرتا ہے ،يہى باتيں ہو رہى تھيں كہ عثمان كا پيادہ ايا اور حضرت على سے بولا ، عثمان اپ كو بلا رہے ہيں _
حضرت على (ع) نے غصّے ميں بلند اواز سے فرمايا :
ان سے كہہ دو كہ اب ميں نہيں ائوں گا اور نہ تمھارے اور مسلمانوں كے درميان واسطہ بنوں گا _
عثمان كا پيادہ حضرت على (ع) كا جواب پہونچا نے چلاگيا،اگے عبدالرحمن بن اسود اپنى بات يوں بيان كرتے ہيں كہ اس واقعے كے دو رات بعد ميں نے عثمان كو ديكھا كہ اپنے گھر سے چلے ارہے ہيں ميں نے عثمان كے غلام نائل سے پوچھا _
اميرالمومنين كہاں جارہے ہيں ؟
حضرت على كے گھر
اس كے دوسرے دن ميں حضرت على (ع) كى خدمت ميں پہونچا تو انھوں نے خود فرمايا :
گذشتہ شب عثمان ميرے پاس اكر كہنے لگے ، اب ميں دوبارہ اپنى گذشتہ غلط حركتيں نہيں دہرائوں گا ، ميں نے جو كچھ وعدہ كيا ہے اسے پورا كروں گا ميں نے ان كے جواب ميں كہا كيا اس كے بعد كہ تم نے منبر رسول پر لوگوں كے سامنے تقرير كى انھيں ہر طرح تعاون كرنے كى زبان دى ، انھيں مطمئن كر كے تم اپنے گھر پلٹے ، اسكے بعد مروان تمھارے گھر سے نكلا اور ان لوگوں سے جو تعاون كے اميدوار تھے گالياں دينے لگا انھيں برا بھلا كہا ، سبھى كو دكھ پہونچايا _
عثمان رنجيدہ ہو كر گھر سے جاتے ہوئے كہہ رہے تھے ، ميرى رشتہ دارى كا تم نے كچھ بھى خيال نہ كيا ، مجھے ذليل كيا اور لوگوں كو ميرے اوپر گستاخ بنا ديا ، ميں نے جواب ديا خدا كى قسم ميں اج سے پہلے تمہارا سب سے بڑا مددگار اور ساتھى تھا ، لوگوں كى اذيت سے تمھيں بچاتا تھا ، ليكن جب بھى ميں نے تمھار ى خوشنودى كى خاطر اپنے كو گرا يا ، مروان ٹپك پڑا اور تم نے اسكى بات مان لى ، اور ميرى سارى كوششوں پر پانى پھيرديا حضرت على (ع) نے اخر ميں فرمايا ، عثمان نكلے اور اپنے گھر چلے گئے _
عبداللہ الرحمن كا بيان ہے كہ ، ميں نے اس تاريخ سے حضرت على (ع) كو خليفہ كے معاملے ميں دخل ديتے نہيں ديكھا ، نہ پہلے كى طرح ان كا دفاع كرتے ديكھا (4)_
محاصرئہ عثمان
ہم نے ديكھا كہ حضرت على (ع) نے عثمان كى جان بچانے كيلئے كئي بار سچے دل سے اقدامات كئے ، اور جن لوگوں پر انھوں نے اور ان كے كارندوں نے ستم ڈھائے تھے ان كے درميان ايلچى بھى بنے تاكہ شعلہء انقلاب ٹھنڈا ہو جائے ، خليفہ كى جان بچ جائے ، ليكن ان تمام تدبيروں اور كوششوں ميں ہر بار عثمان قسم كھاتے ، عہد كرتے كہ لوگوں كى گردن سے عمّال بنى اميہ كے ہاتھ كوتاہ كروں گا ، ليكن احمق حاشيہ نشينوں كے بہكانے خاص طور سے بنى اميہ كى فرد
مروان كى وجہ سے ہر وعدہ پيروں تلے روند ڈالتے نتيجے ميں ايك دوسرا فتنہ كھڑا ہو جاتا ، مجبور ہو كر وہ دوبارہ حضرت على سے چارہ جوئي كى درخواست كرتے ،خليفہ كى سستى اور رذالت اس حد كو پہونچ گئي كہ امام نے ناگريز طور پر اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچ ليا ، اور عثمان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا تاكہ وہ اور ان كا مشير مروان اور دوسرے سرداران بنى اميہ ان لوگوں سے جو اپنا حق لينے اور انصاف چاہنے كيلئے عثمان كا محاصرہ كئے ہوئے ہيں ، اپس ميں سمجھ ليں _
عكرمہ نے عثمان كے محاصرے كى تفصيلات كو ابن عباس سے نقل كيا ہے ،عثمان كا دوسرى بار محاصرہ كيا گيا ، پہلى بار عثمان بارہ روز تك مصريوں كے محاصرے ميں تھے ، اخر ميں على نے مقام ذى خشب پر ان سے ملاقات كر كے واپس كيا ، خدا كى قسم على نے بھر پور خلوص نيت سے عثمان كو چھٹكارا دلانے كا ايثار كيا ، اور كوئي اقدام اٹھا نہيں ركھا ، يہاں تك كہ عثمان سے انھيں دلتنگ كرديا گيا وجہ يہ تھى كہ مروان و سعيد كے علاوہ دوسرے رشتہ دار عثمان كو على كے خلاف بھڑكاتے رہتے تھے ، اور عثمان بھى على كے بارے ميں جو باتيں كہى جاتيں انھيں مان ليتے تھے اور تصديق كرتے تھے ،وہ سب عثمان سے كہتے كہ اگر على چاہيں تو كسى كى ھمت نہيں كہ اپكے قريب اكر كچھ بول سكے ادھر اپ عثمان كو نصيحت كرتے ، انھيں ہدايت ديتے مروان اور اسكے رشتہ داروں كے حق ميں ان سے سخت باتيں كہتے ، وہ سب بھى حضرت على كے اس سلوك سے خفا ہو كر عثمان سے كہتے اپ تو ان كے امام اور پيشوا ہيں ،ان سے برتر ہيں ، ان كے رشہ دار ہيں ،چچيرے بھائي ہيں ، اپ كے سامنے وہ ايسے ہيں اور اپ كے پيٹھ پيچھے اپكو كيا كہتے ہيں ؟اس طرح كى باتيں اتنى بار عثمان سے كہى گيئں كہ على نے عثمان كے تعاون سے اپنا دامن كھينچ ليا ابن عباس كا بيان ہے _
جس دن ميں مدينے سے مكّہ جارہا تھا ، اس دن ميں على كے پاس گيا ،اور ان سے كہا ، عثمان نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں مكّہ چلاجائوں حضرت على (ع) نے كہا :
عثمان حقيقت پسند نہيں رہ گئے كہ كوئي انھيں نصيحت و رہنمائي كرے ، انھوں نے اپنے گرد مٹھى بھر ذليل اور پست فطرت افراد كو جمع كرليا ہے جنھوں نے زميندارياں ہضم كرلى ہيں اور ماليات و خراج كو اپنے سے مخصوص كرليا ہے ، لوگوں كى گاڑھى كمائي مال غنيمت كى طرح كھا رہے ہيں _
ميں نے انھيں جواب ديا
وہ ہم لوگوں سے رشتہ دارى كى وجہ سے حق ركھتے ہيں كہ اپ انكى حمايت كريں ، اس بارے ميں اپكا كوئي عذر قابل قبول نہيں ، ابن عباس اخر ميں بولے _
خدا جانتا ہے كہ ميں نے چہرے پر عثمان سے نرمى اور شفقت كو واضح طور سے ديكھا ، ليكن دوسرى طرف ميں نے ديكھا كہ ان حالات پر وہ بہت بر ہم ہيں _
اسى طرح عكرمہ كہتا ہے (5)
عثمان جمعہ كے دن منبر پر گئے ، حمد خدا بجالائے ، ٹھيك اسى موقع پر ايك شخص كھڑا ہوا اور عثمان سے بولا اگر صحيح كہہ رہے ہو تو قران كو اپنا رہنما بنائو اسكے احكام پر عمل كرو _
عثمان نے اس سے كہا ، بيٹھ جائو ، وہ شخص بيٹھ گيا ليكن پھر دوبارہ اٹھكر اعتراض كرنے لگا ، عثمان نے تين بار اسے بيٹھنے كا حكم ديا ، اس درميان لوگوں ميں اختلاف بڑھ گيا ايك دوسرے پر كنكرياں مارنے لگے ، سنگبارى اتنى شديد تھى كہ اسمان نظر نہيں ارہا تھا ، سنگريزوں كى مار سے عثمان كى حالت يہ ہوئي كہ وہ منبر سے بيہوش ہو كر گر پڑے ، اسى حالت ميں لوگوں نے انھيں گھر پہونچا يا ، ٹھيك اسى وقت عثمان كا ايك نوكر ہاتھ ميں قران ليكر گھر سے باہر نكلا اور بلند اواز سے يہ ايت پڑھنے لگا _
انّ الذين فرقو ا دينھم انعام ايت159
جن لوگوں نے اپنے دين كو ٹكڑے ٹكڑے كر ديا اور گروہ گروہ بن گئے ، يقيناان سے تمھارا كوئي واسطہ نہيں انكا معاملہ تو اللہ كے سپرد ہے (6)
على (ع) نے اپنے كو عثمان كے گھر پر پہونچايا ، وہ بيہوش تھے اور ان كے گرد بنى اميہ بيٹھے ہوئے تھے ،حضرت على (ع) نے فرمايا :
اميرامومنين كو كيا ہو گيا ہے ؟
تمام بنى اميہ ايك اواز ہو كر چلّانے لگے _
عليتم نے ہميں مار ڈالا ، امير المومنين كو يہ دن دكھايا ، بخدا اگر تم اپنى ارزو پاگئے تو ہم بھى تمھارے اوپر زندگى تلخ كرديں گے _
حضرت على (ع) نے انكا يہ جواب سنا تو غصّے ميں بھرے ہوئے خليفہ كے گھر سے نكل ائے
عكرمہ كا يہ بھى بيان ہے كہ :
مدينہ كے باشندوں نے عثمان كو خط لكھا جسميں انكى غلط باتوں كو گنا يا گيا تھا ، اور اصرار كيا گيا تھا كہ وہ توبہ كريں ، تحرير ميں قسم كھا كر كہا گيا تھا كہ ہر گز نہيں بخشيں گے جب تك حكم خدا كے مطابق عمل نہ كرو گے ، ان كا حق نہ ديدوگے ، ورنہ قتل كرديا جائے گا
عثمان موت كى دھمكى سے بہت زيادہ ڈرے ہوئے تھے بنى اميہ كے اپنے طرفداروں ، اپنى بيوى اوربچوں سے بچائو كے بارے ميں مشورہ كرتے ہوئے كہا :
تم سب لوگ ديكھ رہے ہو كہ چاروں طرف سے دبائو پڑرہا ہے لوگوں كى بغاوت كا شعلہ مجھے اپنى لپيٹ ميں لے چكا ہے اب كيا تدبير كى جائے ؟
سب نے رائے دى كہ كسى كو بھيجكر على كو بلايئےور كہيئے كہ وہ لوگوں سے بات كريں ، ان كے مطالبات پورے ہونے كا وعدہ كريں تاكہ اس درميان امدادى كمك پہونچ جائے ;
عثمان نے كہا :
اب عوام دھوكہ نہيں كھايئں گے ، كوئي عذر يا بہانہ ہرگزنہيں مانيں گے ، ميں نے پہلى دفعہ ان سے عہد و قرار كيا ليكن اس پر عمل نہيں كيا ، اس بار يقينى طور پر مجھ سے عہد خدا وندى كا مطالبہ كر كے ضامن بھى چاہيں گے ، جب ميں ايسا كروں گا تو وہ پورا كرنے كى مانگ كريں گے ، مروان نے كہا :
اے اميرامومنين ، جب تك اپ كو طاقت نہ پہونچ جائے اس وقت تك ان سے قريب رہيئے انھيں كسى طرح بہلاتے رہيئے ،ان سے مجادلہ كرتے رہيئے ، جو كچھ اپ سے مطالبہ كررہے ہيں ، اپ وعدہ كرتے رہيئے ، جتنا بھى ہو سكے ان سے نرم گفتگو كيجئے اور جب كہ وہ لوگ اپ سے بغاوت كررہے ہيں تو اس عہد و پيمان كى كوئي وقعت بھى نہيں نہ اعتبار رہے گا _
عثمان نے يہ بات مان لى اور كسى كو حضرت على (ع) كے پاس بلانے كيلئے بھيجا ، جب اپ تشريف لائے تو ان سے كہا :
اپ ان لوگوں كا سلوك ديكھ رہے ہيں ، اپ نے ديكھا كہ انھوں نے كيا كيا ،اور ميں نے كيسا مظاہرہ كيا ، ميرى حيثيت كو اپ اچھى طرح جانتے ہيں ، ميں اس گروہ سے اپنى جان كے بارے ميں بے خوف نہيں ہوں ، اپ جس طرح سے ہو سكے ان كے شر كو مجھ سے دور كيجئے ، خدائے تعالى ضامن ہوگا ، يہ لوگ جو كچھ چاہتے ہيںميں خود اپنى ذات سے اور اپنے رشتہ داروں سے انھيں ديدوں گا ، اگر چہ اس راہ ميں ميرا خون بھى بہا ديا جائے _
حضرت على (ع) نے فرمايا :
يہ لوگ اپ كے خون سے زيادہ اپكے انصاف كے ضرورتمند ہيں ، اپ كو معلوم ہونا چاہيئے كہ ميں نے اس دروازے كى اڑ ميں اپ كى مخالفت ميں ايسے لوگوں كو ديكھا ہے كہ جب تك وہ اپنا حق نہيں لے ليں گے كسى طرح بھى اپ سے نرمى كا برتائو نہ كريں گے ، اپ نے پہلى مرتبہ ان سے خدا كو گواہ كركے عہد و پيمان كيا كہ ان گورنروں اور كارمندوں كو برطرف كردوں گا جنكى وجہ سے يہ عوام اپ سے غصہ ہيں ،اور ميں نے بھى اسى عہد و پيمان كى بنياد پر ان لوگوں كو اپ كے پاس سے پراگندہ كيا _
ليكن اپ نے كسى ايك وعدے كو بھى پورا نہيں كيا نہ اس پر عمل كيا ، اب دوسرى بار مجھے دھوكہ مت ديجئے ، اور بيہودہ باتوں سے مجھے نہ بہلايئے ، كيونكہ اگر اس بار ان سے ملاقات كروں گا تو حق و عدالت كى روشنى ميں ان كا حق ديدوں گا _
_مجھے منطور ہے ، اپ ان سے وعدہ كرليجئے ، خدا كى قسم ان باتوں كو پورا كرنے كيلئے ميں اقدام كروں گا _
حضرت على (ع) عثمان كے گھر سے نكلے اور لوگوں سے كہا :
تم لوگ اپنے حق كا مطالبہ كررہے ہو ، وہ تمھيں مل جائے گا ، عثمان نے تمھارى بات مان لى ہے ، انھوں نے اپنے اوپر لازم كر ليا ہے كہ تمھارے بارے ميں حق و عدالت وہ خود اور دوسروں كى طرف سے مراعات كريں گے
_ہميں منظور ہے ، ليكن ہميں اطمينان دلايئےيو نكہ ہم ان كے قول پر عمل نہ كرنے كى وجہ سے اعتماد نہيں كرتے _
حضرت على (ع) نے جواب ديا :
_حق تم لوگوں كے ساتھ ہے پھر اپ عثمان كے پاس واپس گئے اور انھيں صورتحال كى خبر دى _
عثمان نے كہا :ہميں مہلت ديجئے ، تاكہ اس مہلت كے سائے ميں ان كے مطالبات كو عملى جامہ پنھاسكوں ، كيونكہ يہ ميرے بس ميں نہيں ہے كہ ان كے تمام مطالبات كو ايك دن ميں پورا كرسكوں _
حضرت على (ع) نے فرمايا :
جو امور مدينے سے متعلق ہيں ان ميں مہلت كى ضرورت نہيں ، ليكن ديگر تمام شہروں ميں جتنے دن كے اندر كام ہو سكے اتنے دن كى وہ لوگ مہلت ديدينگے _
عثمان نے جواب ديا :
_ٹھيك ہے ، ليكن اسكے باوصف مدينے سے متعلق معاملات كيلئے بھى تين دن كا موقع ما ن گئے _
_بہت ٹھيك ہے ، اس وقت حضرت باہر ائے اور تمام لوگوں سے سارى روئداد بيان كي، پھر اپ نے عثمان اور ان لوگوں كے درميان عہد نامہ لكھا كہ تين روز كے اندر عثمان مظلوموں كى داد كو پہونچيں اور وہ تمام كارستانياں جن سے قوم بيزار ہے اب ان سے باز ايئں اور اس عہد نامہ ميں خدا كا محكم ترين واسطہ جو اسكے بند ے سے ہو سكتا ہے قرار ديں ، عثمان كے اس وفائے عہد پر تمام مہاجرين و انصار كے سر براوردہ حضرات نے گواہياں ثبت كيں ، نتيجے ميں مسلمانوں نے عثمان سے ہاتھ اٹھاليا اور اس اميد ميں كہ عثمان اپنا عہد پورا كريں گے سب لوگ واپس چلے گئے _
ليكن لوگوں كے واپس ہونے كے بعد عثمان بيكار نہيں بيٹھے ، بجائے اسكے كہ عوامى مطالبات پورے كرنے كى سبيل كريں وہ جنگى تياريوں ميں لگ گئے ، اسلحے فراہم كرنے لگے تاكہ لوگوں سے مقابلہ كر سكيں ، حكومت كے قيديوں كو اچھى توانائياں سميٹنے لگے _
جب تين دن كى مہلت گذرگئي ،اور عہد پورا كرنے كا عثمان كا وعدہ دور دور تك نظر نہيں ايا لوگوں كى چارہ جوئي نہيں كى گئي كسى كارندے كو برطرف نہيں كيا گيا تو عوام نے دوبارہ ان كے اوپر چڑھائي كردى ،صحابى رسول عمرو بن حزم انصارى نے ذى خشب ميں جمع مصريوں كو جاكر خبر دى كہ عثمان نے كوئي وعدہ پورا نہيں كيا اسلئے دوبارہ انقلاب كيلئے امادہ ہو جائو ، وہ لوگ بھى عمرو كے ساتھ مدينے ائے ، پھر اپنى طرف سے نمائندوں كو عثمان كے پاس بھيجا ، نمائندوں نے ان سے جاكر كہا :
_كيا تم نے اپنے گذشتہ كرتوتوں پر توبہ نہيں كى تھى اور زبان نہيں دى تھى خدا كو گواہ نہيں بنايا تھا كہ جن باتوں سے عوام ناراض ہيں اب ان سے ہاتھ اٹھالوں گا ؟
_ہاں ، ميں اب بھى اس عہد پر باقى ہوں
_اگر ايسا ہى ہے تو يہ خط كيسا ہے ، جسے تم نے اپنے گورنر مصر عبداللہ كو لكھا ہے ، ہم نے اسے تمھارے قاصد سے حاصل كيا ہے ؟
_ميں نے ايسا كوئي كام نہيں كيا ہے ، مجھے اسكى كوئي اطلاع نہيں _تمہارا قاصد تمھارے خاص اونٹ پر سوار تھا ، تمھارا خط تمھارے ہى سكريٹرى نے لكھا تھا ، تمھارى ہى مہر ہے ، خلافت كى مہر _جہاں تك اونٹ كى بات ہے تو ممكن ہے كہ چرا ليا گيا ہو ، ادھر يہ ہے كہ دو خط ممكن ہے يكساں شباہت ركھتے ہوں ، ميرى مہر بھى ہو سكتا ہے كہ جعلى ہو _ ہم تمھارے معاملے ميں جلدى نہيں كريں گے ،اگر چہ ہم لوگوں كے نزديك تمھارى غلطى ثابت ہے ، اسكے باوجود اپنے بد كا رگورنروں كو ہمارے سروں سے ہٹائو اور كسى ايسے كو حكومت دو جسكا ہاتھ ہمارے جان مال سے رنگا ہوا نہ ہو ، ہمارے ساتھ انصاف
كرو ، ہمارا حق واپس كرو اگر ايسا گورنر جسے ميں نے معين كيا ہے تم اس سے خوش نہيں ہو اور ميں اسے ہٹادوں اور تمہارى خواہش كے مطابق گورنر بنا دوں تو اخر ميں كس كام كا ہوں ؟اسوقت تو ميرى نہيں تمھارى حكومت ہوگى ، ميرى كوئي حقيقت نہيں رہ جائے گي _قسم خدا كى ، يا تو يہ كام كرو يا خلافت سے دستبردار ہو جائو اگر تم نے مقابلہ كيا توہم تمہيں قتل كر ديں گے ، اچھى طرح سوچ كر اپنى زندگى كے بارے ميں فيصلہ كرو يہ خيال اپنے دماغ سے نكال دو كہ ميں خلافت سے دستبردار ہو جائونگا ،ميں ہر گز اس لباس كو نہيں اتار سكتا جسے خداوند عالم نے مجھے پنھايا ہے _
حيرتناك خط !!
اب ذرا ہم لوگ اس خط كو بھى ديكھيں جسكى طرف مصر والوں نے اشارہ كيا ہے ، اور اسے خليفہ كى خيانت كا نا قابل ترديد ثبوت بنا كر گھسيٹتے پھر رہے ہيں ، پيش كيا ہے ، وہ خط كيا تھا ، اسے لوگوں نے كس طرح حاصل كيا تھا ؟
ہم بھول نہيں گئے كہ پہلى بار جب عثمان مصريوں كے محاصرے ميں تھے اور حضرت على نے صلح و صفائي كر كے انھيں چھڑايا تھا ، انھوں نے پچھلے كرتوتوں پر توبہ كى تھى تو مصريوں نے بھى انھيں اس شرط پر چھوڑ ديا تھا كہ ان كى داد كو پہونچيں گے اور گورنر مصر عبداللہ بن سعدابن ابى سرح كو معزول كرديں گے _
عثمان نے حكومت مصر كا فرمان محمد بن ابى بكر كے نام لكھ ديا اور كچھ مہاجرين و انصار كو عوام كى شكايت دور كرنے كيلئے ان كے ساتھ بھيجا تھا مصر كے باشندے اصحاب كى زير نگرانى عثمان كے اصلاحى اقدامات نافذ كرنے كيلئے مصر جانے پر تيار ہو گئے ، وہ سبھى مصر كى طرف رواں دواں تھے ، جب وہ ايلہ (7) يا اسكے ايك منزل كے اس پاس پہونچے تو اپنے پيچھے ايك سوار كو اتے ديكھا جو مصر كى طرف جارہا تھا ، لوگوں نے اسكا پتہ نشان پوچھا ، وہ سوار سياہ صورت تھا ، اپنے كو اميرالمومنين عثمان كا غلام بتايا اس نے كہا كہ اميرالمومنين كا پيغام ليكر عبداللہ بن ابى سرح گورنر مصر كے پاس جارہا ہے _ تمام مصر والوں نے باہم مشورہ كر كے بھلائي اسى ميں ديكھى كہ اس غلام كى تلاشى لى جائے ، ممكن ہے عثمان نے ان لوگوں كے توقع كے خلاف عبداللہ كو كوئي حكم ديا ہو ، ليكن پورى تلاشى كے بعد بھى جب كچھ بر امد نہ ہوا تو
طئے كر ليا كہ اسے چھوڑ ديں اور راستہ نہ روكيں ، اسى درميان كنانہ بن بشير نے كہا :
خدا كى قسم ، جب تك مشك كے اندر كى بھى تلاشى نہ لے لوں گا اسے نہيں چھوڑوں گا ، تم لوگ پورى احتياط نہيں كر رہے ہو سب نے كہا :
سبحان اللہ ، كيا يہ بھى ممكن ہے كہ مشك كے اندر خط ہو _
كنانہ نے كہا ، انسان كى مكارى رنگارنگ ہوتى ہے ، اسكے مكر سے بے خوف نہيں ہونا چاہيئے _
اسكے بعد مشك كا دہانہ كھول كر سارا پانى بہا ديا گيا ،اچانك اسميں ايك سر بمہر شيشى بر امد ہوئي ، اس شيشى ميں ايك نلكى ركھى گئي تھى جب وہ نلكى كھولى گئي تو اسميں سے اس مضمون كا خط بر امد ہوا _
اما بعد ، جب عمرو بن بديل تمہارے پاس ائے تو اسے پكڑ كر گردن مار دو ، اور ابن عديس اور كنانہ اور عروہ كے ہاتھوں كو كاٹ ڈالو ، پھر ان سب كو خون ميں تڑ پتا ہوا چھوڑدو كہ ان كى جان نكل جائے ، جب يہ مر جايئں تو ان سب كى لاش شاخ خرما پر لٹكا دينا _
جب مصر والوں نے خط پڑھا تو بيك اواز چلّائے _
خون عثمان حلال ہے ، پھر سفر روك ديا اور مدينے پلٹ ائے ، حضرت على (ع) سے ملاقات كر كے سارا ماجرا بيان كيا پھر اپ كى خدمت ميں وہ خط پيش كيا _
حضرت على (ع) اس خط كے بارے ميں عثمان سے پوچھا ،عثمان نے قسم كھا كر كہا كہ وہ خط ان كا نہيں ہے نہ اسكے بارے ميں كچھ جانتے ہيں اور كہا كہ :
_ يہ خط ميرے سكريٹرى كا لكھا ہوا ہے ، اسميں مہر بھى ميرى ہى ہے ، پھر كس كے بارے ميں گمان ہے ؟ اسكا الزام تم كس پر ديتے ہو ، عثمان نے جواب ديا _
_ميں تمھارے اوپر الزام ديتا ہوں ، كيو نكہ يہ سبھى لوگ تمھارے حكم پر عمل كر رہے ہيں اور تم انھيں مجھ سے منتشر نہيں كر رہے ہو ، حضرت على غصّے ميں بھرے ہوئے عثمان كے گھر سے چلے ائے اپ عثمان كى طرف رخ كركے فرمايا :
_نہيں يہ تمھارے حكم سے لكھا گيا ہے
يہ بھى روايت ہے كہ اس وقت بنى اميہ نے حضرت على سے كہا ، اے على ، تم نے ہمارے معاملات كو بر باد كيا ، لوگوں كو ہمارے خلاف بھڑكايا ، حضرت على نے ان كا جواب ديا
_اے بے وقوف نادانو مجھ پر كيسے الزام لگارہے ہو ، جبكہ ميں نے لوگوں كو عثمان سے پراكندہ كيا ، بارہا ان كے حالات سدھارنے كى كوشش كى ، اب اس سے زيادہ كيا كر سكتا تھا _ پھر ان سے منھ موڑ كر باہر نكل ائے ، اپ فرماتے جاتے تھے _
خدا يا ، تو جانتا ہے كہ ميرا دامن ان باتوں سے پاك ہے جسكا يہ بنى اميہ ميرے اوپر الزام لگا رہے ہيں ، اگر اس درميان عثمان كا خون بہے تو
ميں اسكا ذمّہ دار نہيں ہوں
واضح رہے كہ مہر خلافت پہلے حمران كے پاس تھي(8)جب عثمان نے اسكو بصرہ جلا وطن كيا تو اس سے ليكر خلافت كى مہر مروان كے حوالے كردى تھى _ كہا جاتا ہے كہ مصريوں نے جو خط حاصل كيا تھا ، مروان بن حكم مستقل طور سے مہر اپنے پاس ركھتا تھا ، اس نے عثمان كو خبر كئے بغير خط پر مہر لگا دى تھى _
جب مصريوں نے عثمان كو خط دكھايا تو عثمان نے انكار كرتے ہوئے كہا :
يہ خط جعلى اور بناوٹى ہے ، مصر والوں نے كہا :
_ليكن خط كى رائيٹنگ تو تمھارے سكريٹرى كى نہيں ہے
_ٹھيك ہے ، ليكن اس نے بغير ميرے حكم كے لكھا ہے
_تمھارا غلام اس خط كا قاصد ہے
_صحيح ہے ، ليكن وہ بھى ميرى اجازت كے بغير مدينے سے نكلا
_ليكن وہ تو تمھارے خاص اونٹ پر سوار تھا
_ہوسكتا ہے ، وہ اونٹ مجھ سے پوچھے بغير اور ميرى اجازت كے بغير لے گيا ہو گا
_اب دو ہى صورت ہے ، يا تم صحيح كہہ رہے ہو اور حقيقت بھى يہى ہے ، يا تم جھوٹ بول رہے ہو اور سارى كاروائي تمہارى ہے _
چنانچہ يہ خط تمھارے حكم سے عبداللہ كو لكھا گيا ، اور ہم لوگوں سے تم جھوٹ بول كر خلافت سے دستبردارى كے مستحق ہو گئے ہو كيونكہ تم نے بغير كسى وجہ كے ہمارا خون بہانے كا حكم ديا _
اگر يہ بات ہے كہ تم سچ بول رہے ہو اور خط غلام اور اونٹ كے مسئلے سے بالكل پاك اور بے خبر ہو تو تمھارى نفسياتى كمزورى اور غفلت كى وجہ تمھارے گھنائونے رشتہ دار مسلمانوں كے معاملات ميں دخل دے رہے ہيں ، اسطرح تم خلافت سے ہٹائے جانے كے مستحق ہو ، كيونكہ تم ہرگز خلافت كے لائق نہيں ہو ، كيونكہ دوسرے لوگ تمھارى بے خبرى سے فائدہ اٹھا رہے ہيں ، تمھارى طرف سے ايسے فرمان صادر كر رہے ہيں ، كيا ايسے كو ہم اپنا اميرو پيشوا سمجھيں
انھوں نے يہ بھى كہا كہ :
تم نے اپنى خلافت كے زمانے ميں بہت سے اصحاب رسول اور ديگر مسلمانوں كو صرف اس جرم ميں برى طرح مارا پيٹا كہ وہ تمھيں اچھى راہ دكھا رہے تھے ،تمہيں حق و عدالت كى طرف واپس لانا چاہتے تھے ، اب وہ وقت اگيا ہے قصاص كيلئے اپنے كو تيار كرو ، عثمان نے جواب ديا :
پہلى بات تو يہ كہ ہو سكتا ہے كہ امام اور پيشوا اشتباہ كا شكار ہو جائے ، اور ميں كسى حالت ميں بھى قصاص كے لئے اپنے كو تمھارے حوالے نہيں كروں گا ، كيونكہ ميں اكيلے سب كا قصاص بھگتنے كيلئے تيار ہو جائوں تو تباہ ہو جائوں گا (9)
مصر والوں نے كہا :
تم نے ڈھير سارى غلطياں كى ہيں ، تمھارے كرتوت بڑے بھيانك اور سنگين ہيں ، ان ميں سے ہر ايك تمھارى بر طرفى اور خلع خلافت كے لئے كافى ہے ، جب ان باتوں كو تمھارے كان ميں ڈالا گيا تو تم نے توبہ كى ، اظہار ندامت و شرمندگى كيا ليكن توقع كے خلاف انھيں باتوںكو كر كے اپنى توبہ توڑدى جب ہم لوگ تمھارے پاس داد خواہى كيلئے اے تو تم نے توبہ و استغفار سے ہميں موہ ليا _
محمد مسلمہ نے اس موقع پر تمہارے خلاف ہمارے اقدامات پر سخت سر زنش كى ، دوسرى طرف تمھارے وعدوں كى انھوں نے ضمانت لى اور جب اس بار تم نے انھيں ہمارے اور اپنے درميان وساطت كيلئے بلايا تو تم سے منھ پھير ليا ، تم سے علحدگى اختيار كرتے ہوئے كہا :
اب ميں كبھى ان كے معاملے ميں مداخلت نہيں كروں گا _
بہر حال ہم پہلى بار كم تعداد ميں ائے تھے اور واپس چلے گئے تاكہ تمھارے لئے كوئي بہانہ باقى نہ رہے ، اور خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے جو تم پر گواہ ہے تمھارا وعدہ پورا ہونے كى اميد ميں بيٹھے رہے ، ليكن ان تمام توبہ و دلجوئي كے باوجود تمھارا حيرتناك خط ہميں حاصل ہو گيا جسے تم نے اپنے گورنر كو لكھا تھا كہ ہميں قتل كردو ، ہاتھ پير كاٹ دو ، پھانسى پر لٹكا دو ، اور اب تم ڈھكو سلہ كر رہے ہو كہ تمھيں اسكى كوئي اطلاع نہيں ، حالانكہ وہ فرمان تمھارے غلام كے ہاتھ ميں تھا جو
تمھارى خاص سوارى پر تھا ، اس خط ميں تمھارے سكريٹرى كى تحرير تھى ، تمھارى خلافت كى مہر تھى _ اور اب تمھارى گذشتہ باتوں كو ديكھتے ہوئے كہ تمھارے كارندے ہم پر ظلم و ستم كررہے ہيں ، تم نے بيت المال كو اپنى ذاتى ملكيت بنا لياہے ، تمھارے رشتہ داروں نے اسے اپنى چيز سمجھ ليا ہے _
ان تمام سنگين معاملات كو تم نے بڑى سادگى سے ليا ، پھر تم نے توبہ و شرمندگى كا اظہار كيا ، اسكے بعد تم نے توبہ توڑ كر ان غلطيوں كو دہرا يا ، يہ سب سوائے تمھارے كوئي بھى ايسى گھنائونى اور خلافت حق باتيں نہيں كر سكتا_
ہم نے پہلى بار تم سے ہاتھ اٹھاليا ، جبكہ يہ مناسب نہيں تھا اسى وقت تمہيں بر طرف كر دينا چاہيئے تھا اور كسى دوسرے ايسے صحابى رسول كو جسكا دامن تمھارى طرح الزامات سے الودہ نہ ہو تمھارى جگہ پر بٹھا دينا چاہيئے تھا _
اب بھى موقع ہے ، خلافت سے كنارہ كش ہو جائو ، كيو نكہ علحدگى ہى سب سے زيادہ صلح پسندى كى راہ ہے ، اسميں ہم دونون كا فائدہ ہے_
عثمان نے جواب ديا :
كچھ اور تو نہيں كہنا چاہتے ہو ، تم نے اپنى سارى باتيں كہہ ڈاليں ؟
مصر والوں نے جواب ديا ،ہاں
پس از حمد خدا ، اما بعد ، تم لوگوں نے اپنى باتوں ميں عدل و انصاف كى رعايت نہيں كى ، جلدى بازى ميں ايسا فيصلہ كيا جو انصاف سے بعيد ہے _
تم كہتے ہو كہ ميں خلافت سے دستبردار ہو جائوں ، تو سمجھ لو كہ ميں ہر گز اس لباس كو نہيں اتاروں گا جسے خدا نے ميرے بدن پر پنھايا ہے ، اور جس اقتدار سے خدا نے مجھے نوازا ہے ، تمام لوگوں ميں مجھے منتخب كيا ہے ، اسے ہرگز نہيں چھوڑوں گا ، ليكن ميں توبہ كرتا ہوں ، اور برائيوں سے باز اتا ہوں اب ہرگز ايسے كام نہيں كروں گا ، جسے مسلمان نا پسند كرتے ہيں ، كيونكہ خدا كى قسم ميں رحمت حق كا طلبگار ہوں ، اسكے غضب سے ترساں ہوں _
مصريوں نے كہا :
اگر يہ پہلى بار ہوتا كہ تم غلطى كرتے پھر توبہ كرتے اور توبہ پر ثابت قدم رہتے اور گذشتہ غلط كاموں كو نہ دہراتے تو ہم پر لازم تھا كہ تمھارى پيشكش قبول كر ليں ، اور تمھيں چھوڑ ديں ، اور جيسا كہ تم جانتے ہو باوجود اسكے كہ تم نے ڈھير سارى غلطياں كى تھيں ہم نے پہلى دفعہ كى توبہ پر تمھيں چھوڑ ديا حالانكہ ذرا بھى ہميں انديشہ نہيں تھا كہ تم اپنے گورنر كو ہمارے خلاف خط لكھ كر ہمارے قتل كا فرمان جارى كرو گے ، اب جبكہ تم نے يہ كام كر ہى ڈالا ہے اور ہميں وہ خط
بھى دستياب ہو گيا ہے تواب دوبارہ تمھارى توبہ پر كيسے اطمينان كر ليں ، تمھارى توبہ كيسے مان ليں ؟
ہم نے تو تمھيں ازما ليا ہے كہ تم توبہ شكن ہو ، تم گناہو ں سے توبہ كر كے پھر اسكا ارتكاب كرتے ہو ، اب تم سمجھ لو كہ ہم كسى قيمت پر واپس نہيں ہوں گا ، تمھارى جگہ پر كسى دوسرے كا انتخاب كريں گے ، اگر تمھارے حمايتى ، رشتہ دار اور ماننے والے ہم سے جنگ پر امادہ ہوں گے تو ہم لوگ بھى جان پر كھيل جايئں گے ، ان سے جنگ كريں گے تاكہ تم پر قابو حاصل كريں اور تمھيں قتل كريں يا خود اس راہ ميں قتل ہو جائيں _
عثمان نے جواب ديا :
_ليكن حكومت سے دستبردا ر ہونا تو قطعى محال ہے
كيونكہ اگر مجھے پھانسى بھى ديدى جائے تو يہ ميرے لئے اس بات سے اسان ہے كہ جس اقتدار خلافت كو خدا نے مجھے عطا كيا ہے ميں اس سے دستبردار ہو جائوں _
_اور تم جو يہ كہتے ہو كہ جو لوگ ميرى حمايت ميں بوليں گے تم ان سے جنگ كرو گے تو ميں كسى كو حكم نہيں دوں گا كہ وہ تم سے جنگ كرے ، اگر اس درميان كوئي شخص بھى تم سے مقابلہ كرے تو وہ ميرے حكم سے نہيں ہو گا ، كيونكہ ميرى جان كى قسم اگر تم سے جنگ كا ارادہ ركھتا تو اسى بارے ميں ميں لكھ كر حكم ديتا اور مدينے كو پيادوں اور سواروں سے بھر ديتا ، يا پھر عراق و مصر پناہ ليتا ، ان باتوں كے ہوتے تم لوگ اپنے بارے ميں سوچو ، اگر ميرى جان پر رحم نہيں كرتے تو خود اپنى جان سے ڈرو ، كيونكہ اگر تم نے ميرا خون بہا ديا تو بڑے خون بہيں گے _
جب مصر كے نمائندے نكل گئے تو عثمان نے محمد بن مسلمہ كو بلايا اور حكم ديا كہ مصر والوں كو واپس كرديں ، محمد نے جواب ديا :
_خدا كى قسم ، ميں ايك سال ميں دوبار جھوٹ نہين بولوں گا
بلاذرى لكھتا ہے (10)
مصر والے مدينے سے تين منزل پر تھے كہ خليفہ كا قاصد ديكھا گيا جو مصر كى طرف تيزى سے جارہا ہے ، جب انھوں نے خليفہ كا خط حاصل كيا تو محمد بن ابى بكر نے تمام مہاجرين و انصار جو ساتھ ميں جارہے تھے انكے سامنے خط كھول كر پڑھا ، خط كا متن يہ تھا _
جب فرزند ابوبكر اور فلاں و فلاں تمھارے پاس ايئں تو جو حيلہ اپنا سكو انھيں قتل كر ڈالو ، اور محمد بن ابى بكر كا فرمان ليكر پھاڑ ڈالنا اور تا حكم ثانى تم اپنے منصب پر باقى رہو ، اور جو بھى تمھارى شكايت ليكر ميرے پاس انا چاہے اسے قيد كر لو _
جب مصريوں كو مضمون خط كى اطلاع ہوئي تو جوش و خروش كے ساتھ تيزى سے مدينے واپس ائے ، فرزند ابو بكر نے اس خط پر پہلے اپنے چند ساتھيوں كى مہر لگوالى ، جب وہ مدينے پہونچے توحضرت على (ع) ، طلحہ ، زبير ،سعد اور ديگر تمام اصحاب رسول كو جمع كيا اور غلام كے خط حاصل كرنے كا سارا واقعہ بيان كيا ، پھر انھيں كے سامنے خط كھو ل كر پڑھا _ جلسہ ختم ہونے كے بعد مدينہ كا كوئي بھى شخص ايسا نہ تھا جسے عثمان سے شديد نفرت نہ ہو گئي ہو ، اس مسئلے نے واقعہ ابن مسعود ، عمار ياسر اور ابوذر كے غمناك تاثر ميں مزيد اضافہ كرديا _
تمام اصحاب رسول اپنے گھر چلے گئے ، وہ عثمان كے اس خط سے اپنے دل ميں شديد رنج و افسوس محسوس كررہے تھے _
لوگوں نے عثمان كا محاصرہ كرليا ، اور محمد بن ابى بكر نے طلحہ اور دوسرے بنى تيم كے افراد كى مدد طلب كى ، عائشه نے بھى اپنى زبان سے عثمان كے دل ميں كچو كے لگائے _
البدء والتاريخ ميں ہے كہ (11) محمد بن ابى بكر اور طلحہ و زبير و عائشه عثمان كے زبر دست مخالف تھے ، مہاجرين و انصار نے بھى انھيں ان كے حال پر چھوڑ كر كوئي سروكار نہيں ركھا تھا ، جو حالات پيش ارہے تھے اس پر كوئي توجہ نہيں كر رہے تھے _
عائشه نے مسجد ميں عثمان پر اعتراض كيا ، اور انكے كرتوتوں كوگنايا ، رسول خدا كے بال ، لباس اور جوتيوں كو باہر نكال كر فرمايا كہ:
كتنى جلدى تم نے رسول كى سنت اور سيرت كو پس پشت ڈال ديا اور فراموش كر ڈالا _
عثمان نے جب يہ باتيں سنيں تو ابوبكر كے خاندان كو برا بھلا كہنے لگے وہ غصے ميں اس قدر اپے سے باہر تھے كہ جومنھ ميں ارہا تھا بك رہے تھے _ عثمان كے زبردست مخالفين ميں قبيلہ تيم كے اہم ترين افراد تين تھے ، ام المومنين عائشه ، ان كے بھائي محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ ، اور جيسا كہ مورخين لكھتے ہيں كہ عائشه اور
عثمان كے درميان بارہا توتو ميںميں ہوئي ، چنانچہ تاريخ يعقوبى ميں ہے (12)
عثمان منبر رسول پر تقرير كررہے تھے كہ ناگہاں عائشه نے رسول خدا كا پير اہن اپنے سر پر ركھا اور لہراتے ہوئے چلانے لگيں _
اے مسلمانو يہ رسول خدا (ص) كا لباس ہے ، ابھى يہ پرانا بھى نہيں ہوا ہے كہ عثمان نے اسقدر جلدسنت رسول كو فراموش كرديا ہے ، بالكل مليا ميٹ كر ديا ہے_
عثمان نے جو يہ خلاف توقع حملہ ديكھا تو قران كا سہارا پكڑنے كے سوا چارہ نہيں ديكھا ، وہ جواب ميں قران كى يہ ايت پڑھنے لگے ;
پروردگار ، عورتوں كى مكارى و عيارى سے مجھے بچا كيو نكہ ان عورتوں كى مكارى بہت عظيم ہوتى ہے (13)
182
عائشه كا تاريخى فتوي
عائشه جن كے دل عثمان سے خونم خون تھا ، اور سر ميں اپنے چچيرے بھائي طلحہ كى تمنائے حكومت كروٹيں لے رہى تھى ، لوگوں كى بغاوت اور محاصرے سے بھر پور استفادہ كيا ، انكى موت كا تاريخى فتوى صادر كرديا _
اس بارے ميں ابن اعثم كوفى لكھتاہے (14)
ام المومنين عائشه كو جب معلوم ہو گيا كہ يہ تمام لوگ عثمان كے قتل كا مصمم ارادہ كئے ہوئے ہيں تو چلّا كر بوليں_
اے عثمان تم نے مسلمانوں كے بيت المال كو اپنى ذاتى ملكيت بناليا ہے ، بنى اميہ كے ہاتھوں كو مسلمانوں كے جان ومال پر مسلط كرديا ہے ، انھيں اقتدار سونپ ديا ہے ، اسطرح تم نے سارے مسلمانوں كو مصائب و الام ميں جھونك ديا ہے؟خدا وند عالم زمين و اسمان كى بركت تم سے اٹھا لے ، اگر ايسا نہ ہو تا كہ تمام مسلمانوں كى طرح تم بھى نماز پڑھتے ہو تے تو تمہيں اونٹ كى طرح قتل كر ڈالا جاتا (15)
جب عثمان نے عائشه كى يہ باتيں سنيں تو قران كى يہ ايت پڑھنے لگے _
كافروں كے لحاظ سے اللہ نے مثال پيش كى ہے نوح كى بيوى اور لوط كى بيوى كى جو ہمارے بندوں ميں سے دونيك بندوں كى زوجيت ميں تھيں تو انھوں نے ان سے غدارى كى تو ان دونوں نے ان دونوں كو خدا كے عذاب سے كچھ بھى نہيں بچايا ، اور كہا گيا كہ داخل ہو جائو دونوں اگ ميں داخل ہونے والوں كے ساتھ (16)
جى ہاں يہ حقير كرنے والى ايت پيش كركے عثمان نے عائشه كا جواب ديا عائشه جنكا مزاج سخت متعصب اور تند و سر كش تھا ، وہ ايسى خاتون تھيں كہ غصے كے عالم ميں وہ اپنے اپ ميں نہيں رہتى تھيں _
يہ جواب سنكر اور وہ خط جسے ان كے بھائي محمد نے مصر كے راستے ميں حاصل كيا تھا اور جسميں محمد كے قتل كا فرمان تھا ، ام المومنين اپنے خاندان پر جان ديتى تھيں ، ايسى منقلب اور غضبناك ہوئيں كہ كسى قسم، كى پرواہ كئے بغير واضح لفظوں ميں فتوى صادر كرديا _
انھو ں نے چلّا كر كہا ،اس نعثل كو قتل كردو يہ كافر ہو گيا ہے (17)
جيسے ہى يہ فتوى ام المومنين كى زبان سے نكلا تو جيسے خشك خرمن ميں چنگارى بھڑك اٹھے ، تيزى كے ساتھ ايك سے دوسرے منھ تك پہونچى ، جنگل كى اگ كى طرح تمام زبانوں پر پھيل گئي ، مدينہ كا كوئي معزز شخص بھى ايسى بات نہيں كہہ سكتا تھا بلكہ اسكا تصور بھى نہيں كر سكتا تھا _
ايئےب ذرا نعثل كا مطلب بھى سمجھ ليں
نعثل كا مطلب لغت ميں مندرجہ ذيل ہے (18)
1_تيندوا، لكڑ بگھا
2_بد حواس بڈھا ، احمق ، نادان ،ناسمجھ
3_مصر ميں ايك لمبى داڑھى والا اسى نام سے پكارا جاتا تھا
4_ مدينے ميں ايك يہودى كا يہى نام تھا ، عثمان كو اسى سے تشبيہ دى گئي
ليكن سچى بات تو يہ ہے كہ ام المومنين كى نظر ميں جو اپنى فراست اور ہوشمندى سے سر شار تھيں ، انھوں نے كسى ايك معنى پر اكتفا نہيں كى تھى ، انكى نظر ميں يہ تمام معانى تھے ، انھوں نے اپنى فطرى قدرت بيان اور فصاحت و بلاغت كو بروئے كار لاتے ہوئے ان تمام معانى كو اس مختصر اور حتمى جملے ميں سميٹ ليا تھا ، اور پھر سنساتے تير كى طرح اپنے دشمن عثمان پر چلا ديا ، جو ٹھيك ان كے سينہ ميں پيوست ہو گيا اور ہميشہ كيلئے ان كے دامن پر باقى رہ گيا _
يہى مختصر جملہ ضرب المثل كى طرح عثمان كے دشمنوں كى زبان پر چڑھ گيا ، يہاں تك كہ اس فتوى كى بنياد پر خليفہ اپنے مخالفوں كے ہاتھوں قتل كردئے گئے ، يہ نام اپنے تمام معانى كے ساتھ مدتوں ان كے دشمنوں كى زبان پر جارى رہا ، اور ہميشہ كے لئے تاريخ ميں ثبت ہو گيا ، اعورشنى اپنے شعروں ميں لكھتا ہے _
برئت الى الرحمن من دين نعثل
ودين ابن صخرايھا الرجلان (19)
ميں دين نعثل عثمان سے اور صخر كے بيٹے معاويہ كے دين سے بيزار ہوں _
محمد بن سيرة بن ابى زھير قرشى كا يہ شعر ہے
نحن قتلنا نعثلا بالسيرة
اذ صد عن اعلامنا المنيرة
ہم نے بنام سنت نعثل كو قتل كيا ہے ، جبكہ وہ ہمارے درخشاں پرچم كى پيش رفت ميں ركاوٹ بن گيا _
جب عمر و عاص نے جنگ صفين ميں بعض شعر پڑھتے ہوئے يہ مصرع كہا ،ردوا علينا شيخنا كما كان (20)
ہمارے بزرگ اور ہمارے سردار (عثمان )كو جيسا كہ وہ تھا ہميں واپس كردو _
تو عراقى لشكر سے جواب ملا _
ابت سيوفنا مذ حج و ھمدان
بان ترد نعثلا كما كان (21)
(قبيلہ مذحج و ہمدان كى تلوار يں انكار كر رہى ہيں كہ نعثل عثمان صحيح و سالم واپس كيا جاسكے)
عمرو عاص نے دوبارہ گہار مچائي
ردوا علينا شيخنا ثم بجل (22)
ہمارا شيخ و سردار ہميں واپس كردو يہى ہمارے لئے كافى ہے _
عراقيوں نے جواب ميں كہا ،
كيف نرد نعثلا و قد قحل (23)
نعثل كو ہم كيسے واپس كريں ، وہ تو سڑ گل گيا ہے _
عائشه كے تاريخ فتوى كا تجزيہ
اگر چہ عائشه كے فتوى صادر كرنے سے قبل تك لوگوں اور عثمان كے درميان صلح و صفائي كا تھوڑا بہت روشندان كھلا ہوا تھا ، كيونكہ حضرت على اور دوسرے لوگ بيچ بچائو كر رہے تھے ، ليكن ام المومنين كى طرف سے فتوى صادر ہوتے ہى ، وہ روشندان پورے طور سے بند ہوگيا ، عثمان كى موت يقينى ہو گئي ، پھر جو ہونا تھا ہوا _ ام المومنين كو شيخين كے زمانے ميں جو مرتبہ و مقام حاصل ہو گيا تھا اسے اپ نے گذشتہ صفحات ميں ملاحظہ كيا ، انھيں دونوں نے مسلمانوں كى نگاہ ميں ام المومنين كى عظمت بڑھانے كا سامان كيا اور اسقدر احترام كيا كہ انھيں سے فتوے اور احكامات حاصل كرتے تھے _
ادھر عائشه كے فتوے اور احكامات كى تاثير اتنى بڑھائي گئي اور وہ بھى اسقدر موقع شناس تھيں فتوى كا نفاذ فوراََ ہو جاتا ، جيسا كہ _ ليفہ كے بارے ميں ان كا فرمان قتل صادر ہوتے ہى سرداران بنى اميہ جو اقتدار كے مالك تھے وہ ايك طرف ہو گئے اور مسلمانو ں كے سارے طبقے دوسرى طرف ، ان دونوں پارٹيوں ميں شديد اختلاف و كشمكش كا بازار گرم ہو گيا ، فتنہ و اشوب كے شرارے تمام اطراف مملكت ميں راجدھانى سے ليكر دور دراز علاقوں ميں پھيل گئے ، ہم نے ان كى تفصيلات كى طرف گذشتہ صفحات ميں اشارہ كيا اگر چہ زيادہ تر كو اختصار كے پيش نظر بيان نہيں كيا _ ام المومنين كے اس فتوى پر عمل كر نے كيلئے تمام مسلمان امادہ اور كمر بستہ ہو گئے ، چاہے وہ اصحاب رسول ہوں يا دوسرے ، انھوں نے پكا ارادہ كرليا
كہ يہ فتوى بہر حال عملى جامہ پہنے گا اب دو ہى راستے تھے ، جنگ يا عثمان كى برطرفي خود جنگ كى بھى دوصورت تھى ، يا تو خود خليفہ جوبلوائيوں كے محاصرے ميں ہے اسكى طرف سے جنگ كرے اور انقلابيوں كے خلاف تلوار اٹھائے يا لوگوں كى صف ميں شامل ہو جائے ، اور خلافت كے خلاف شورش و انقلاب برپا كرنے والوں كے ساتھ ہو كر جنگ كرے _ حضرت على (ع) اور سعد وقاص جو اصحاب شورى ميں تھے _ يہ دونوں خاموشى اختيار كئے ہوئے تھے ، گوشہ نشين تھے ، ليكن طلحہ و زبير انقلابيوں كے ساتھ تھے ، ان لوگوں نے شورش پسندوں كى قيادت سنبھال ركھى تھى _
عثمان كو نعثل پكارنے والے لوگ
نعثل كا نام لوگوں كى زبان پر چڑھ گيا ، ام المومنين كا فرمان كہ نعثل كو قتل كردو ، ايك دوسرے كى زبان پر چڑھتے چڑھتے عام ہو گيا ، اگرچہ ام المومنين كى پہلى ذات ہے جس نے عثمان كا نام نعثل ركھا ، اور انكى طرف سے عثمان كا يہ نام علم كى شكل اختيار كر گيا ، ليكن عثمان كى حيات ہى ميں بعض اور لوگ بھى تھے جنكا دل عثمان كى زيادتيوں كى وجہ سے خون ہو گيا تھا ، انھوں نے انكے منھ پر يہ نام دہرايا ، ان ميں جبلہ بن عمر و ساعدى (24) بھى ہيں _
طبرى لكھتا ہے كہ :
جبلہ اپنے گھر پر زنجير در پكڑ ے كھڑے تھے اتنے ميں ادھر سے عثمان گذرے تو جبلہ نے كہا :
اے نعثل ، خدا كى قسم ميں تجھے قتل كروں گا پھرتجھے اونٹ پر سوار كر كے جہنم رسيد كردوں گا _
بلاذرى لكھتا ہے :
جبلہ اپنے دروازے كى زنجير تھامے كھڑے تھے ، عثمان گذرے تو كہا ، يہ زنجير ديكھتا ہے ؟يہ زنجير گردن ميں ڈال دونگا ورنہ اپنے حمايتوں سے ہاتھ اٹھا لے ، تو نے بازار مدينہ كو حارث بن حكم كے نام قبالہ لكھ ديا ہے ، اور تو نے يہ يہ كرتوت كئے ہيں _
جبلہ كا اعتراض اس بات پر تھا كہ عثمان نے بازار مدينہ كا سارا انتظام اپنے چچيرے بھائي حارث بن حكم كے ہاتھ ميں ديديا تھا ، اسكى حالت يہ تھى كہ تمام اجناس اور اہم سامان بظاہر عثمان كے نام خريد كر جس بھائو چاہتا لوگوں كو بيچتا تھا اسطرح وہ اكيلے بازار كا سارا منافع خود كھاتا تھا اور كسى كو اعتراض كى ہمت نہ تھى _
حارث كو جانے ديجئے ، حكم اسكا بھائي خلافت ميں حد سے زيادہ رسوخ ركھتا تھا ، بازار والوں سے ٹيكس ليتا ، خلاف شرع اور انسانيت سے گرى ہوئي حركتيں كرتا تھا _
بازار والوں نے بارہا عثمان سے شكايت كى ، حارث كى عياريوں سے انھيں مطلع كيا ليكن اپنے چچيرے بھائي حارث كى عزت اس قدر زيادہ تھى كہ بازاريوں كى بات پر توجہ ديكر اسے روك نہيں سكتے تھے ، اسے ہٹا كر اس مصيبت كو دفع بھى نہيں كرتے تھے ، نہ حارث كے خلاف كاروائي كرتے ،عثمان كے بہى خواہوں نے اور ان تمام لوگوں نے جو عوام كو خلافت كى تمام باتيں بے چون و چرا ماننے كا مشورہ ديتے ، يہ سبھى عثمان كى مطلق العنانى كو ديكھتے ہو ئے بارہا جبلہ سے اصرار كرتے كہ اپنى مخالفت سے بازائيں ، ليكن انھوں نے سب كى باتيں پورى طاقت سے ٹھكرا ديں ، بار بار كے اصرار اور دبائو پر انھوں نے كہا :
نہيں خدا كى قسم ، ميں ہرگز اس بات پر تيار نہيں ہوں كہ اج تمھارى بات مان كر كل قيامت كے دن عدل خدا وندى كى بارگاہ ميں اوندھے منھ گر كر پريشان حالى سے كہوں _
بار الہا ، ميرا كوئي بس نہيں تھا ، ميرا كوئي اختيار نہيں تھا _
ميں نے بزرگوں اور رئيسوں كا حكم سنا اور فرماں بردارى كى ، انھوں نے ہى ہميں بد بختى اور گمراہى ميں جھونكا _
طبرى ايك دوسرى جگہ لكھتے ہيں ;
ايك دن عثمان كچھ لوگوں كے سامنے سے گذرے ، اور لوگوں كو سلام كيا ، انھوں نے سلام كاجواب ديا ، جبلہ نے ان لوگوں سے كہا ، ايسے شخص كا جواب كيوں ديتے ہو جس نے ايسا اور ايسا كيا ، پھر عثمان كى طرف رخ كر كے كہا :
خدا كى قسم ، ميں اسى لوہے كى زنجير كو تمھارى گردن ميں ڈال دوں گا ، ورنہ اپنے طرفداروں كو اپنے پاس سے دھتكار و _
عثمان نے پوچھا ، كن طرفداروں كے بارے ميں كہہ رہے ہو؟خدا كى قسم ميں نے كسى كو اپنے سے قريب نہيں كيا ہے نہ كسى كو خاص اہميت دى ہے _
تم ايسا دعوى كررہے ہو ،جبكہ تم نے مروان ، معاويہ ،عبداللہ بن عامر بن كريز ، عبداللہ بن سعد جيسوں كو اپنا مقرب بنا ليا ہے ، جن كے بارے ميں قران مذمت كرتا ہے ، رسول خدا ان كا خون مباح قرار دے چكے ہيں _
عثمان كا خالہ زاد بھائي تھا عبداللہ بن عامر ، كيونكہ عثمان كى ماں كا نام اروى بنت كريز تھا ، عبداللہ كو عثمان نے كيسے مصر كى حكومت بخشى خود يہ داستان بڑى دلچسپ ہے _
ايك دن زياد بن ابيہ كا مادرى بھائي شبلى بن خالد عثمان كے پاس ايا ، جبكہ ان كے اردگرد بنى اميہ كے بہت سے سر كردہ افراد بيٹھے ہوئے تھے ، اس نے اتے ہى كہا :
كيا تمھارے درميان ايسا غريب نہيں ہے جسكے دل ميں مالدارى كى تمنا ہو ؟
كيا تمھارے درميان ايسا گمنام شخص نہيں ہے جس كے دل ميں شھرت كى ارزو كروٹيں ليتى ہو ؟
كيا تمھارے درميان كيا تمھارے درميان كيا تمھارے درميان جبكہ عراق كا قبالہ اسطرح ابو موسى اشعرى كے نام لكھ ديا گيا ہے جبكہ وہ نہ تو قريش سے ہے نہ قبيلہ مضرسے ہے بلكہ وہ يمن كے قبيلے كا ہے (25) عثمان پر شبلى كى ان باتوں كا بڑا اثر ہوا ، جھٹ سے اپنے سولہ سالہ خالہ زاد بھائي عبداللہ بن عامر كو بصرے كى حكومت بخش دى اور ابو موسى اشعرى كو برطرف كرديا (26)
طبرى نے حاطب كا بيان نقل كيا ہے (27)
ميں خود اس دن مسجد ميں موجود تھا ، عثمان وہى عصائے رسول لئے ہوئے تھے جسے ابوبكر و عمر تقرير كےوقت لئے رہتے تھے ، وہ عصا كے سھارے تقرير كررہے تھے ، اتنے ميں جھجاہ نے بلند اواز سے چلّا كر كہا ، او نعثل ، اس منبر سے اتر_ ابوحبيبہ كا بيان ہے كہ جھجاہ غفارى كھڑے ہو كر چلّائے اے عثمان ، ميں نے اونٹ ، عبا اور زنجير تمھارے واسطے مہيا كر ركھى ہے ، تم منبر سے اتر و تو عبا سے تمھارى گردن باندھ دوں ، تمھيں زنجير ڈال كر اونٹ پر سوار كردوں اور كوہ اتش فشاں (جبل الدخان )ميں پہونچا دوں _
عثمان نے جھجاہ كا جواب ديا
خدا تيرا ناس مارے ، اور وہ بھى تباہ كرے جسے تو نے مہيا كيا ہے _
راوى كا بيان ہے :
جھجاہ نے يہ بات اكيلے اور تنہائي ميں نہيں كہى ، بلكہ تمام لوگوں كى موجودگى ميں ان كے سامنے كہى اس موقع پر تمام بنى اميہ كے طرفداروں اور عزيزوں نے عثمان كو اپنے حلقے ميں ليكر انھيں گھر تك پہونچا ديا ، يہ اخرى موقع تھا جب ميں نے عثمان كو ديكھا ، كہتے ہيں كہ اس واقعہ كے بعد عثمان ايك يا دوبار سے زيادہ گھر سے نہيں نكلے ، كيو نكہ اسكے بعد وہ بلوائيوں كے محاصرے ميں اگئے اور اخر كار قتل كئے گئے _
عثمان اور عائشه كا امنا سامنا
جب عثمان نے لوگوں كى خواہش ٹھكرا دى اور ام المومنين نے قتل كا فتوى صادر كر ديا تو لوگوں نے انكا محاصرہ كر ليا ، اس درميان دوسرے شھروں كے لوگ بھى عثمان كے كارندوں سے تنگ تنگ تھے ، جس وقت ان لوگوں كے پاس ام المومنين كے فتوى كا خط پہونچا كہ عثمان كے خلاف بغاوت كردو تو وہ بھى عائشه كے اس حكم پر عمل كرنے كيلئے مدينہ پہونچنے لگے (28) عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ نے بلوايئوں كى قيادت سنبھال ركھى تھى ، اور ہر وقت واجبى احكام ديتے رہتے تھے (29)خليفہ كيلئے اب كوئي پناہ گاہ نہيں رہ گئي تھى ، خاص طور سے عائشه كے فتوى كے بعد چھٹكارے كى تمام راہيں بند ہو گئي تھيں _
جب عثمان نے حالات سخت ديكھے تو مروان اور عبدالرحمن بن عتاب اموى كو حكم ديا كہ عائشه سے ملاقات كريں جو امادئہ سفر حج ہيں ، تاكہ صلح و صفائي كى راہ نكلے ، يہ دونوں عائشه كى خدمت ميں پہونچے ااور اس طرح عرض كيا _
اگر اپ اپنا سفر روك ديں اور مدينے ہى ميں رہيں تو اميد بند ھتى ہے كہ اپ كے وجود كى بركت سے اس شخص (عثمان)
كى زندگى بچ جائے _
اس پر مروان نے اضافہ كيا
اور خليفہ نے زبان دى ہے كہ سفر كے اخراجا ت كے لئے اپ نے اگر ايك درہم فراہم كيا ہے تو دو درہم اسكے بدلے پيش كيا جائے گا _
عائشه نے جواب ديا :
ميں نے سامان سفر باندھ ليا ہے اور اپنے اوپر حج لازم كر ليا ہے ، خدا كى قسم ميں تمھارى خواہش كے مطابق عمل نہين كرونگى ، عبدالرحمن اور مروان نا اميد ہو كر اپنى جگہ سے اٹھے اس موقع پر مروان نے يہ شعر پڑھا _
و حرق قيس على البلاد فلما اضطر مت احجما
(قيس نے ميرے شھر ميں اگ لگا ئي ، اور جب شعلے اسمان سے باتين كرنے لگے تو مجھے چھوڑ كر چلتا بنا )
عائشه نے مروان سے يہ كنايہ سنكر بڑے درشت لہجے ميں كہا :
اے مروان ، تو نے سمجھ ركھا ہے كہ ميں تيرے اقا (عثمان) كے بارے ميں كسى شك و ترديد ميں مبتلا ہوں ؟بخدا ميرى ارزو ہے كہ اسے اپنے كسى بنڈل ميں ٹھونس كر ، جسكى مجھے طاقت بھى ہے ، اسے سمندر ميں ليجا كر پھينك ائوں _
ام المومنين مدينے سے مكّے كى طرف نكل گيئں ، اس سال عثمان كے حكم سے عبداللہ بن عباس امير الحاج تھے _
ابن عباس سے عائشه كى مقام صلصل ميں ملاقات ہوئي تو ام المومنين نے ان سے كہا ، ابن عباس تمھيں خدا كى قسم ديتى ہوں كہ جيسى تم تيز و طرّار زبان ركھتے ہو ، جو لوگ اس شخص (عثمان ) كے خلاف جو شورش بر پا كئے ہوئے ہيں اسے ٹھنڈا نہ كرو ، لوگوں كو اس خود خوا ہ اور سر كش كے بارے شك و ترديد ميں مبتلا نہ كرو عوام اپنے كام ميں خود ہى صاحب نظر اور اپنى راہ انھوں نے خود طئے كى ہے ، اور دوسرے شہروں سے ان باتوں كے لئے جو گروہ گروہ لوگ ائے ايك پليٹ فارم پر جمع ہو گئے ہيں ، ميں نے خود طلحہ كو ديكھا ہے كہ خزانے كى چابى ان كے ہاتھ ميں ہے ، اگر وہ اپنے ہاتھ ميں زمام حكومت لے ليں تو بلاشبہ اپنے چچيرے بھائي ابوبكر كى روش كے مطابق چليں گے _
ابن عباس نے عائشه كا جواب ديا
ليكن اماں جان ، اگر اس شخص پر مصيبت نازل ہو ا ور قتل كر ديا جائے تو لوگ ہمارے پيشوا على كے سوا كسى دوسرے كے اگے سر نہيں جھكائيںگے _
عائشه نے جھٹ سے كہا :
كافى ہے ، مجھے تم سے تكرار اور توتو ميں ميں كى طاقت نہيں (30)
عثمان ، طلحہ كے محاصرے ميں
ام المو منين عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ جو ان كے انتہائي منظور نظر تھے دھيرے دھيرے تمام حالات پر مسلط ہوگئے ، ان كے اختيار ات كا دائرہ وسيع سے وسيع تر ہوتا گيا ، يہاںتك كہ اخر ميں وہ قوم كے خزانے (بيت المال) پر بھى قابض ہو گئے ، اسى وجہ سے ان كا اعتبار و اختيار بڑھتا جارہا تھا _
ادھر عثمان كے محاصرے كا دائرہ جتنا تنگ ہوتا جارہا تھا خليفہ كا اقتدار اور اثر گرتا جارہا تھا ، دن بدن محدود تر ہوتا جارہا تھا _
جب عثمان نے حا لات كو سخت و دشوار ديكھے اور اركان دولت كے پيروں سے زمين كھسكتى ديكھى اپنى جان خطر ے ميں نظر ائي تو خانوادئہ عبدالمطلب كى فرد عبداللہ بن حارث نوفل كے ذريعے يہ شعر لكھ كر حضرت على (ع) كے پاس بھيجا _
فان كنت ماكولا فكن انت اكلى
والا فادركنى و لما امزق (31)
(اگر بات اس پر طئے پائے كہ ميں كھايا جائوں تو تم ہى مجھے كھا لو ، واگر ايسا نہيں تو اس سے پہلے كہ مجھے چكھا جائے ميرى فرياد كو پہونچو )
حضرت على (ع) اسوقت خيبر ميں تھے ، مدينے ميں موجود نہيں تھے ، عوام طلحہ كے گرد جمع ہو كر ان سے احكامات لے رہے تھے ، جب عثمان كا قاصد پہونچا اور ان كا پيغام پہونچايا تو حضرت على مدينہ واپس ہوئے اور سيدھے عثمان كے پاس پہونچے ، عثمان نے ان سے كہا :
ميرا حق اپ پر كئي حيثيتوں سے ہے ، اسلام ، برادرى ، خاندان ، دامادى رسول ، اس وقت اپ ان تمام باتوںكو نظر انداز كرديں _
اور ہم اپنے كو جاہلى عہد مين فرض كر ليں ، تو يہ خاندان عبد مناف كے لئے بڑے شرم كى بات ہے كہ حكومت و اقتدار كو قبيلہ تيم كا ايك شخص اپنے چنگل ميں دبا لے _
حضرت على (ع) نے جواب ديا :
اب تم ديكھو ، يہ فرما كر سيدھے مسجد النبى ميں پہونچے ، وہاں اپنا ہاتھ اسامہ كے شانے پر مارا اور دونوں طلحہ كے گھر پہونچ گئے ، اندر داخل ہوئے تو شور و غوغا سے كان پڑى اواز سنائي نہيں دے رہى تھى ، حضرت على نے اپنے كو طلحہ كے پاس پہونچايا اور كہا ، اے طلحہ ، يہ كيا ھنگامہ ارائي مچا ركھى ہے؟
طلحہ نے جواب ديا :
اے ابوالحسن اپ بہت دير ميں ائے اپ اس وقت ائے جب وقت گذر چكا ہے _
ايك روايت كى بنا ء پر حضرت على (ع) نے طلحہ سے كہا :
خدا كى قسم ديتا ہوں كہ لوگوں كو عثمان سے پراكندہ كر دے_
طلحہ نے جواب ديا :
خدا كى قسم ميں ہرگز يہ كام نہيں كروں گا جب تك كہ بنى اميہ لوگوں كے سر نہ جھكا ديں
حضرت على (ع) نے طلحہ سے پھر كچھ نہ كہا: اپ باہر نكل ائے اور بيت المال كے پاس پہونچكر فرمايا ، اسے كھولا جائے ، چونكہ چابى نہيں تھى تو اپ نے حكم ديا كہ تالہ توڑ ديا جائے اور جو كچھ بيت المال ميں ہے باہر نكالا جائے ، اپ نے وہ سب بذات خود لوگوں ميں تقسيم كر ديا_
جب كہ طلحہ كے گھر ميں خزانہ تقسيم ہو نے كى خبر پہونچى تو جو عوام طلحہ كے پاس تھے انھوں نے اس فائدہ سے محروم رہنا بہتر نہيں سمجھا ، ايك ايك كر كے طلحہ كى بزم سے چورى چھپے حضرت على (ع) كى طرف چلے ائے ، يہاں تك كہ طلحہ اكيلے رہ گئے _
جب حضرت كے اس اقدام كى خبر عثمان كو ہوئي تو وہ بہت زيادہ خوش ہوئے ، اسى حالت ميں طلحہ منھ بسو رے ہوئے عثمان كے پاس پہونچے ، اور عرض كى _
اے امير المومنين ، ميں نے جو كام كيا ہے خدا سے مغفرت طلب كرتا ہوں ، ميرے سر ميں ايك خيال سما گيا تھا ليكن خدا نے نہيں چاہا ، ميرے اور ميرى ارزو كے درميان ركاوٹ پيدا ہو گئي _
عثمان نے جواب ديا :
خدا كى قسم ، تم توبہ كرنے نہيں ائے ہو بلكہ اس لئے ائے ہو كہ اب تم اپنے كو شكست خوردہ اور مغلوب پا رہے ہو _
ميں تمھارے اس عمل كا انتقام خدا كے سپرد كرتا ہوں
طلحہ نے عثمان پر پانى بند كيا
حضرت على (ع) نے پانى پہونچايا
طبرى لكھتا ہے (32)،عثمان چاليس دن تك محاصرے ميں رہے ، اس مدت ميں طلحہ لوگوں كو نماز پڑھاتے تھے _
اور انساب الاشراف بلاذرى ميں ہے (33)
اصحاب رسول خدا ميں سے كوئي بھى عثمان كى مخالفت ميں طلحہ سے اگے نہ بڑھ سكا ، طلحہ وزبير بلوائيوں كى زمام امور اپنے ہاتھ ميں لئے تھے _
اور طلحہ عثمان كے گھر تك پانى ليجا نے والوں كو روكتے تھے ، وہ پينے والا پانى عثمان تك نہيں پہونچنے ديتے تھے _
حضرت على (ع) اپنى زميندارى ميں تھے جو مدينے سے ايك ميل پر تھى اپ نے طلحہ كو پيغام بھيجا كہ اس شخص كو چھوڑ دو كہ خود اپنے كنويں رومہ سے پانى حاصل كرے ، اسے پياسہ كيوں مار رہے ہو _
ليكن طلحہ نے اپ كى بات نہيں مانى اور پانى نہيں جانے ديا _
طبرى لكھتا ہے (34)
جب محاصرہ كرنے والوں نے اپنى كاروائي تيز كر دى اور عثمان كے گھر تك پانى نہيں جانے ديا تو عثمان نے ايك شخص كو حضرت على كے پاس بھيجا اور ان سے مدد طلب كى تاكہ ان كے گھر پر پانى پہونچ سكے ، حضرت على نے طلحہ سے گفتگو كى ، اور جب اپ نے ديكھا كہ وہ ٹال مٹول سے كام لے رہے ہيں تو سخت غضبناك ہوئے ، اپ كو غضبناك ديكھ كر طلحہ كيلئے على كى بات مان لينے كے سوا كوئي چارہ نہيں رہ گيا ، اخر كار پانى سے لدے ہوئے جانور عثمان كے گھر تك پہونچ سكے _
بلاذرى لكھتاہے (35 )
عوام نے عثمان كا محاصرہ كر ركھا تھا ، اور ان پر پانى بند كرديا تھا مجبور ہو كر خود ہى گھر سے باہر اكر چلّائے _
_كيا تمھارے درميان على ہيں ؟جواب ملا نہيں
_پوچھا ، كيا سعد ہيں ؟جواب ديا گيا نہيں
عثمان كچھ دير خاموش رہے پھر سر اٹھا كر كہا :
كوئي ہے جو على سے كہہ دے كہ ہميں پانى پہونچا ديں ؟
يہ خبر جب حضرت على (ع) كو ہوئي تو بھرى ہوئي تين مشكيں عثمان كے گھر تك پہونچواديں ، بنى ہاشم اور بنى اميہ كے غلاموں نے پانى سے بھرى مشكيں اپنے حصار ميں كر ليں تاكہ باغيوں سے محفوظ رہيں ، اسطرح وہ پانى عثمان كے گھر تك پہونچا ، ان ميں سے بعض غلام زخمى بھى ہو گئے _
قتل عثمان كيلئے طلحہ اگے بڑھے
اس دارو گير ميں مجمع بن جاريہ انصارى طلحہ كى طرف سے گذرے
طلحہ نے ان سے پوچھا :
_اے مجمع ، عثمان كے سلسلے ميں كيا كر رہے ہو ؟
مجمع نے جواب ديا ، خدا كى قسم ميرا خيال ہے كہ اخر كار تم لوگ اسے قتل ہى كر دوگے
طلحہ نے طعنہ ديتے ہوئے جواب ديا :
_اور اگر وہ قتل ہو گئے تو فى المثل دنيا زير وزبر ہو جائے گى
عبداللہ بن عباس بن ربيعہ كا بيان ہے :
(محاصرئہ عثمان كے زمانے ميں )ميں ايك دن ان كے گھر گيا كچھ دير ان سے گفتگو رہى ، ہم بات كر رہے تھے كہ عثمان نے ميرا ہاتھ پكڑا اور اشارہ كيا كہ گھر كے پچھواڑے كى بات سنيں ، ميں نے ايك شخص كو كہتے سنا كہ _كس
195
بات كا انتظار ہے ؟دوسرے نے كہا :
صبر كرو ، شايد واپس ہو جائے ميں اور عثمان كان لگائے ہى ہوئے تھے كہ طلحہ كى اواز سنى ابن عديس كہاں ہے ؟ ايك شخص نے جواب ديا _ يہاں ہے ........... وہ يہاں ائے ........ ابن عديس سامنے ائے تو طلحہ نے ان كے كان ميں كچھ كہا :
اس وقت ابن عديس واپس چلے گئے اور اپنے ساتھيوں كو حكم ديا اب اسكے بعد مت اجازت دو كہ كوئي بھى عثمان كے پاس امد ورفت كرے ، اس وقت عثمان نے كہا :
خدا وند ا، تو ہى طلحہ كى شرارتيں مجھ سے ٹال ، اس نے لوگوں كو ميرے خلاف بھڑ كا دياہے ،اور انھيں بغاوت پر امادہ كيا ہے ........... بخدا مجھے اميد ہے كہ وہ اس معركے ميں كوئي بھلائي نہيں پائے گا _ اس كا خون بھى بہايا جائے گااس نے ميرا پردئہ احترام تباہ كيا ، جبكہ اسے اسكا حق نہيں تھا _
عبداللہ كا بيان ہے :
جب ميں نے خليفہ كے گھر سے نكلنا چاہا تو فرزند عديس كے حكم كے بموجب لوگوں نے باہر نكلنے سے روكا ، اتنے ميں محمدبن ابى بكر وہاں سے گذرے اور كہا :
ان سے مت بولو ، اس وقت مجھے لوگوں نے چھوڑا _
عثمان كا خاتمہ
جب على (ع) سے كہا كہ لوگ عثمان پر كمر بستہ ہيں اور انھوں نے مصمم ارادہ كر ليا ہے تو اپ نے اپنے فرزند وں حسن وحسين كو حكم ديا _
اپنى تلواريں اٹھا لو اور عثمان كے دروازے پر جاكر بيٹھ جائو كسى شخص كو بھى خليفہ پر قابو مت پانے دينا _
فرزند ان على حكم بجالائے ، تعميل حكم ميں عثمان كے دروازے پر پہونچے ، خليفہ كے گھر پر عجيب ھنگامہ برپا تھا ، لوگ عثمان كا كام تمام كرنے كيلئے بار بار بڑھ رہے تھے ، اس موقع پر ہاتھا پائي بھى ہوئي موافقين اورمخالفين نے ايك دوسرے كے خون سے اپنى تلواريں بھى رنگين كر ڈاليں ، اسى موقع پر امام حسن كا رخسارہ بھى خون سے بھر گيا ،حضرت على
(ع) كے غلام قنبركا سر پھٹ گيا ، برى طرح مجروح ہو گئے _
محمد بن ابى بكر نے يہ ديكھا تو ڈرے كہ كہيں بنى ہاشم فرزندان على كى يہ حالت ديكھ ھنگامہ نہ كھڑا كر ديں انھوں نے دو بلوائيوں كو پكڑ كر گھسيٹ كر ان سے كہا :
اگر بنى ہاشم يہ صورتحال ،خاص طور سے امام حسن كے رخسار پر خون بہتا ديكھيں گے تو ڈرہے كہ عوام كو اپنى تلواروں سے مار بھگائيں گے ، اور ہمارا سارا پروگرام نقش بر اب ہو جائے گا ، بہتر يہى ہے كہ لوگ ديوار پھاند كر جائيں اور چپكے سے عثمان كا كام تمام كرديں
اسوقت فرزند ابو بكر اور وہ دونوں ادمى ايك انصارى كے مكان ميں گھسے جو عثمان كا پڑوسى تھا ، اسكے كوٹھے پر چڑ ھكر عثمان كے مكان ميں كود گئے ، محمد اور ان كے ساتھيوںكا اقدام عثمان كے طرفداروں سے پوشيدہ تھا ، كيونكہ محاصرے كے درميان گھر ميں صرف عثمان اور انكى زوجہ نائلہ تھيں يہ دونوں كو ٹھے پر چڑھ گئے تھے
جيسے ہى محمد اپنے دونوں ساتھيوں كے ساتھ گھر ميں گھسے محمد نے ان دونوں سے كہا
ميں تم سے پہلے اندر جاتا ہوں ، جب ديكھنا كہ ميں نے عثمان كے دونوں باز و تھام لئے ہيں تو دونون اندر گھس انا پھرخنجر سے مار مار كر اسكا خاتمہ كر دينا _
يہ كہكر كمرے ميں گھس گئے ، عثمان كى داڑھى مضبوطى سے تھام لى ، عثمان نے سر اٹھا كر محمد كو ديكھا تو كڑك كر بولے _
اگر تمھارے باپ موجود ہوتے اور ميرى يہ توہين ديكھتے تو تمھارى حركت كى مذمت كرتے _
يہ بات سنتے ہى محمد كا ہاتھ لرزنے لگا ، وہ ڈھيلے پڑ گئے ، ليكن اسى لمحے وہ دونوں بھى اندر گھس چكے تھے ، ان دونوں نے مل كر كام تمام كرديا (36)
ابن ابى الحديد لكھتا ہے: (37)
جس دن عثمان قتل كئے گئے ، طلحہ اپنا منھ كپڑے سے چھپا ئے ہوئے تھے ، اسطرح انھوں نے اپنے كو لوگوں سے مخفى كر ركھا تھا ، عثمان كے گھر كى طرف تير چلاتے ، جب انھوں نے ديكھا كہ مدافعت كر نے والوں كى وجہ سے گھر ميں گھسنا ممكن نہين ہے تو اپنے ساتھيوںكے ساتھ ايك انصارى كے كوٹھے پر چڑھ گئے ، وہاں سے عثمان كے گھر ميں
گھسے اور انھيں قتل كيا _
طبرى نے (38)اس مرد انصارى كا نام عمر و بن حزم لكھا ہے اسكى زبانى اسطرح واقعہ بيان كرتے ہيں _ وہ لوگ عمرو بن حزم كے گھر ميں گھسے جو عثمان كے پڑوسى تھے ، اور مداخلت كرنے والوں سے تھوڑى دير جھڑپ كى ، خدا كى قسم ميں بھولتا نہيں كہ جس وقت سودان بن حمران وہاں سے باہر اكر چلّايا طلحہ كہاں ہيں ، ميں نے عثمان كو قتل كر ڈالا_
بلاذرى لكھتا ہے :
جب حضرت علي(ع) قتل عثمان سے اگاہ ہوئے تو اپنے كو عثمان كے گھر پر پہونچايا ،اور ان كے بيٹوں سے كہا :
تم لوگ خليفہ كے گھر ميں موجود تھے ، عثمان كيسے قتل ہو گئے ؟پھر اپ نے ايك كے منھ پر طمانچہ مارا اور دوسرے كے سينے پر گھونسہ مارا اور غصّے ميں بھرے ہوئے گھر سے باہر نكل ائے _
راستے ميں اتفاقا طلحہ سے ملاقات ہو گئي ،وہ پہلے كى طرح اپنى كاروائيوں ميں مصروف تھے ، طلحہ نے على كو ديكھا تو كہا :
اے ابو الحسن تمھيں كيا پڑى ہے كہ اسطرح غصّے ميں بھرے ہيں ؟
حضرت على (ع) نے جواب ديا :
تجھ پر لعنت ہے ، كيا تم صحابى رسول كو قتل كررہے ہو ؟طلحہ نے جواب ديا :
اگر اس نے مروان كو اپنے سے دور كر ديا ہوتا تو قتل نہ ہوتا حضرت على (ع) نے ان سے منھ پھير ليا اور گھر چلے گئے _
دفن خليفہ كا ماجرا
سبھى اس بات پر اڑے رہے اور تين دن تك عثمان كا جنازہ پڑا رہا يہاں تك كہ حضرت على نے ذاتى طور سے مداخلت كى تب وہ دفن ہوئے (39)
طبرى لكھتا ہے :
عثمان كے طرفداروں نے حضرت على سے دفن خليفہ كے بارے ميں گفتگو كى اور ان سے مطالبہ كيا كہ خليفہ كے خاندان والوں كو اجازت دى جائے كہ عثمان كا جنازہ دفن كريں ، حضرت على (ع) نے اس معاملے ميں اقدام كيا اور
انھيں اجازت دى ، جب لوگوں كو اس بات كى خبر ہوئي تو اپنے دامن ميں پتھر بھر كر جس راستے سے عثمان كا جنازہ جانا تھا بيٹھ گئے _
عثمان كے جنازے ميں انگليوں پر گنے جانے والے لوگ تھے ان كا ارادہ تھا كہ يہوديوں كے قبر ستان حش كوكب ميں عثمان كو دفن كريں ، جب تابوت ان لوگوں كے درميان پہونچا تو لوگوں نے تابوت پر سنگبارى كى ، تابوت گرانے كيلئے ہجوم كر ليا ، جب يہ بات حضرت على كو بتائي گئي تو كچھ لوگوں كو مامور فرمايا كہ لوگوں كى جنازہ عثمان سے مزاحمت ختم كرائيں ،اور جنازے كى حفاظت كريں ان لوگوں نے حضرت على (ع) كے حكم كے مطابق جنازے كو اپنے حلقہ ميں لے ليا اور حش كوكب تك پہونچا ديا ، اس طرح عثمان كا جنازہ حش كوكب ميں دفن ہو سكا _
عثمان كو مغرب كے كچھ دير بعد تاريكى ميں دفن كيا گيا ، صرف مروان اور عثمان كى پانچوں لڑكياں اور تين غلاموں كے سوا جنكى مجموعى تعداد پانچ ہوتى ہے ، كوئي دوسرا جنازہ عثمان ميں شريك نہيں تھا ، دفن كے وقت عثمان كى بيٹى نے بلند اواز سے نوحہ و زارى كى تو بلوائيوں نے سنگبارى كركے چلّانا شروع كرديا ، نعثل ، نعثل (40)
جب معاويہ خليفہ ہوئے تو حكم ديا كہ حش كوكب كى ديوار منھدم كر كے جنت البقيع كے قبر ستا ن ميں شامل كرليا جائے ، اور يہ بھى حكم ديا كہ تمام مسلمان اپنى اموات كو قبرستان كے ارد گرد دفن كريں تاكہ اسطرح عثمان كى قبر مسلمانوں سے متصل ہو جائے _
------------------------------------------------------
1_ گمان قوى ہے كہ اس انتخاب ميں فرزند ابو بكر كا مصر كى گورنرى كيلئے عائشےہ اور طلحہ اور ديگر مشاھير بنى تميم كے اثرات كے ما تحت نام ليا گيا ہو گا
2_ تاريخ طبرى ج5 ص 112، ابن اثير ج3 ص 96
3_ خليفہ كے فرائض ميں نماز جماعت پڑھانا بھى تھا ، وہ تين دن تك نماز نہيں پڑھا سكے ( سردار نيا )
4_ تاريخ گواہى ديتى ہے كہ حضرت على نے عثمان كا سب سے زيادہ دفاع كيا يہاںتك كہ عثمان كے رشتہ دار بنى اميہ سے بھى زيادہ دفاع كيا ، ان كا دفاع مفيد بھى تھا ، مولف محترم نے تاريخى احاطہ بندى نہيں كى ہے ، صرف چند نمونے پيش كئے ہيں (سردار نيا )
5_ تاريخ طبرى ج5 ص 113
6_ سورہ انعام ايت 159 ....... لست منھم فى شئي ...........
7_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 26 ، تاريخ طبرى ج5 ص199 ، رياض النفرہ ج2 ص123 ، عقد الفريد ج2 ص 263
8_ حمران كى جلا وطنى كا حال وليد بن عقبہ كے حالت ميں گذر چكا ہے يہ عثمان كا ازاد كردہ تھا
9_رسول خدا نے اپنى زندگى كے اخرى ايام ميں مسجد ميں منبر پر تشريف لے گئے اور خطبہ ميں فرمايا ، جس شخص كو بھى مجھ سے اذيت پہونچى ہو اٹھے اور مجھ سے قصاص لے قيامت كے دن پر اٹھا نہ ركھے ايك صحابى اٹھے اور كہا كہ ايك جنگ كے موقع پر ہم لوگ جارہے تھے اور اپ اونٹ پر سوار تھے اپكا تازيانہ ميرے شكم پر لگ گيا تھا ميں اسكى تلافى چاہتا ہوں ، رسول خدا نے حكم ديا كہ وہى تازيانہ لا كر صحابى كو ديا جائے ، اس شخص نے كہا كہ اس وقت ميرا پيٹ برہنہ تھا رسول خدا نے اپنا پيٹ برہنہ كر ديا اور اپنے كو قصاص كے لئے تيار كرليا ، مسجد ميں سناٹا چھا يا ہوا تھا ، لوگوں كى سانسيں ركى ہوئي تھيں ، رسول خدانے مرض تپ ميں اپنے كو قصاص كے لئے امادہ كيا تھا ، ٹھيك اسى وقت صحابى نے اپنے كو رسول كے شكم مبارك پر ڈال ديا اور بوسے لينے لگا ، اور كہا جسم رسول سے قصاص لينے كى ميرى ہمت ميں خدا كى پناہ طلب كرتا ہوں ، عثمان اسى رسول كے خليفہ تھے
10_ انساب الاشراف بلا ذرى ج5 ص 67_68
11_ البدء و التاريخ ج5 ص 205
12_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 175
13_ سورہ يوسف ايت 23 و الا تصرف عن كيد ھن
14_تاريخ بنى اعثم 1_155
15_ممكن ہے كہ يہ سرزنش ام المومنين اس سے قبل ہو گى جب ان كے بھائي محمد بن ابى بكر كو مصريوں كے ساتھ قتل كا خط حاصل كيا تھا ، ام المومنين نے پھر اس خط كے بعد عثمان كے نماز كى طرف كوئي توجہ نہيں كى اور قتل عثمان كا فتوى صادر كر ديا
16_ مفسرين كے مطابق اساس سورہ تحريم عائشےہ اور ايك دوسرى زوجہ كے اقدامات كا نتيجہ تھا ، انھيں دونوں كے بارے ميں يہ سورہ نازل ہوا ، عثمان نے مقام معارضہ ميں سورہ تحريم كى دسويں ايت پڑھي'' اقتباس امرا ة نوح و امرا ة لوط ''
17 _ تاريخ طبرى ج4 ص477 ، تاريخ بن اعثم ج1 ص155 ابن اثير ج3 ص87 ، ابن ابى الحديد ج2 ص77نھايہ ج4 ص156
18_ لغت ميں نعثل كا مطلب ديكھنے كيلئے نہايہ ابن اثير قاموس ، تاج العروس لسان العرب اور المنجد ديكھئے
19_ انساب الاشراف ج5 ص 105
20_ كتاب صفين ص456 _ 256_257_454
21_ كتاب صفين ص 456_256_257_454
22_ كتاب صفين ص456 _ 256_257_454
23_ كتاب صفين ص 456_256_257_454
24_ ان كے نسب كے بارے ميں اختلاف ہے ليكن سب نے لكھا ہے كہ يہ اصحاب رسول ميں صاحب علم و فضل تھے ، حضرت على (ع) كے ہمراہ جنگ صفين ميں شريك ہوئے ، اخر عمر ميں مصر سكونت اختيار كر لى تھى ، اسد الغابہ ج1 ص269 ملاحظہ ہو
25_ جاننا چاہيئےہ شبلى قبيلہ مضر كا تھا اسكو يہ بات سخت ناگوار تھى كہ بصرہ كى گورنرى ايك يمنى شخص كو ديدى گئي ہے
26_ استيعاب و اسد الغابہ و اصابہ ديكھئے
27_ تاريخ طبرى ج5 ص114 ، ابن اثير ج3 ص70 ، ابن ابى الحديد ج1 ص 165 ، ابن كثير ج7 ص 157 ، اصابہ ج1 ص253 وغيرہ
28_ بلا ذرى 5_ 18
29_عبد الرحمن بن عتاب اموى نے عائشےہ كى طرف سے جنگ جمل ميں شركت كى ، كہتے ہيں كہ اس جنگ ميں ان كا ہاتھ كٹ گيا اور ايك گدھ اٹھا لے گيا ، يمامہ ميں ليجا كر اس ہاتھ كو ڈال ديا ، وہاں كے باشندوں نے اس كى انگوٹھى سے پتہ لگايا اور اسكا ہاتھ پہچانا ، نسب قريش 187 تا 193
30_ تاريخ طبرى ج5 ص 140 ، تاريخ بن اعثم ص 156 ، ہم نے طبرى اور بلاذرى سے ليا ہے
31_ ا نساب الاشراف بلاذرى 5_78 ، طبرى 5_154، ابن اثير ج3 ص 63 ، كنز العمال ج6 ص 389 ، زھرہ الادب ج1 ص 75 ، وابن اعثم ديكھى جائے
32_ طبرى ج5 ص 117
33_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 81
34_ طبرى ج5 ص 13
35_ انساب الاشراف ج5 ص 68
36_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 69 طبرى ج5 ص 118
37_ ابن ابى الحديد ج5 ص 404
38_ طبرى ج5 ص 122
39_ طبرى ج5 ص 43 ، ابن اثير ج3 ص 76 ، ابن اعثم ص 159 ، رياض النفر ہ ج2 ص 131
40_ طبرى ج5 ص 143 ، ابن اثير ج3 ص 76 ، ابن اعثم ص 159 ، رياض النفرہ ج2 ص 131
|