تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه
 

نفاذ عدالت بدست علي(ص)
قريش كا جو شخص بھى وليد پر حد جارى كرنے كيلئے اگے بڑھتا وليد اس سے كہتا ،ذرا اپنے كو ديكھو، مجھ سے قطع رحم نہ كرو ، ميرے اوپر حد جارى كر كے اميرالمومنين كو غضبناك نہ كرو _
جب وہ يہ بات سنتا تو حد جارى كرنے سے باز اجاتا ، اسطرح كسى كو بھى وليد پر حد جارى كرنے كى ہمت نہ ہوئي _
يہ ديكھ كر على بن ابى طالب نے خود تازيانہ ليا اور اپنے فرزند حسن كے ساتھ وليد كے پاس پہونچے _
وليد نے حضرت على كو بھى بہكانے كيلئے وہى سب بات كہى _
امام حسن (ع) نے بھى وليد كى تائيد كرتے ہوئے باپ كو خبر دار كيا حضرت علي(ع) نے اپنے فرزند كے جواب ميں فرمايا :
اگر ميں بھى ايسا كروں تو خدا پر ايمان نہيں لايا _
يہ روايت ہے كہ ، وليد بن عقبہ نے حضرت على (ع) كو خدا كى قسم دى اور رشتہ دارى كى دہائي دى ،(بنى ہاشم اور بنى اميہ چچيرے بھائي تھے )حضرت على (ع) نے فرمايا :
اے وليد خاموش ہو جا ، كيو نكہ بنى اسرائيل كى ہلاكت كا سبب يہ تھا كہ حدود خدا كو معطل كرتے تھے
اپ نے يہ بھى كہا ، جانے بھى دے ،قريش مجھے اپنا جلاد كہيں گے _
وليد نے عبا اپنے دوش پر ڈالى پھر اسے تمام جسم پر اسطرح لپيٹ ليا كہ حضرت على (ع) نے كافى كشمكش كے بعد اسكى دوش سے اتارى حالانكہ اس نے اپنے جبّے كو بدن سے نہيں ہٹايا تھا ، اپ نے دو شاخہ تازيانے سے اس پر چاليس ضربيں لگا ئيں_
مسعودى لكھتا ہے ، جب حضرت على (ع) حد جارى كرنے كيلئے وليد كے پاس پہونچے ، وليد نے اپ كو گالى دى ،اپ
كو مدّمكھى والا كہا :
عقيل بن ابى طالب وہيں موجود تھے ، چلّا كر وليد سے كہا :
ابے او معيط كے ہٹے كتنى حيرت كى بات ہے كہ تو اپنى اوقات بھول گيا ہے ، كيا تجھے معلوم نہيں كہ تو اہل صفوريہ كا غلام زادہ ہے(1) وليد نے يہ ديكھا تو لو مڑى كى طرح حضرت على كے پائوں پر گر پڑا ، ادھر ادھر بھاگنے لگا ، زمين كھودنے لگا ليكن حد شرعى كے اجراء ميں تازيانہ اس پر تابر توڑ پڑتا ہى رہا عثمان نے جب اپنے بھائي كى اتنى خفّت ديكھى تو على (ع) پر اعتراض كيا _
تمہيں اسكے ساتھ ايسا سلوك كرنے كا حق نہيں ، حضرت على (ع) نے جواب ديا _
مجھے حق ہے ، جس شخص نے ايسى بد كارى كى ہے اسكے ساتھ اس سے بھى بد تر سلوك كرنا چاہيئےجبكہ وہ عدالت الہى كے نفاذ ميں بھاگے _
وليد نے حد شرعى بھگتنے كے بعد يہ اشعار پڑھے _

باعد اللہ ما بينى و بينكم
بنى امية من قربى و من نسب

ان يكثر المال لايذحم فعالكم
وان يعيش عائلا مولاكم يخب (2)

روايت ہے كہ جب وليد پر حد جارى ہو چكى تو لوگوں نے كہا كہ رسم كے مطابق اس كا سر بھى مونڈا جائے ، ليكن عثمان نے يہ بات نہيں مانى اور كہا ، عمر ايسا كرتے تھے ليكن اپنى حكومت كے اخرى زمانے ميں يہ رسم ترك كر دى تھى ، وليد بن عقبہ كى شرابخوارى كى وجہ سے حكومت كوفہ سے معزول كرنے اور حد شرعى جارى كرنے كے بعد بھى عثمان نے اپنے ہاتھ كوتاہ نہيں كئے ، ابكى انھوں نے قبيلہ كلب و بلقين كى زكوة وصول كرنے كيلئے مامور كرديا ، اس طرح شرابى گورنر ماليا ت كا افسر بن گيا _
ہم نے وليد بن عقبہ كى زندگى كے يہ چند اوراق پيش كئے ، اسے عجيب شخص اور اسكے يار دوستوں كو اس سے بھى عجيب تر پايا _
وليد كو ايسا شخص پہچانا كہ زنا اور شرابخوارى كى حيثيت سے لوگوں ميں مشہور ہے ، قران نے بد كار اور فاسق كى حيثيت سے شناخت كرائي ، اور يہى نام معاشرے ميں اسكى انفرادى پہچان بنا ہوا ہے ، وہ اپنے كمزور دل و دماغ كے بھائي عثمان پر جو تمام مملكت اسلامى كا فرماں روا ہے ، اسطرح مسلط ہے كہ جس پہلو چاہتا ہے لٹا ديتا ہے ، جيسا كہ ہم نے ديكھا كہ ان پر كس برى طرح چھايا ہوا ہے كہ مسلمانوں كى جان و مال پر دست درازى كر كے حكومت ہتھيالي_
خليفہ كے بھائي ہونے كا فائدہ اسطرح اٹھايا كہ اپنى ہوس رانى ميں ترقى كرتا رہا ، اور اس تحفظ كے سائے ميں مرتبہ خلافت كى بركت اسكے شامل حال ہوئي كہ اپنى خواہشات كے گھوڑے جدہر چاہتا جولان كرتا ، ايسى جولانى دكھاتا كہ جسكا تصّور بھى نہيں كيا جاسكتا _
اپنے ہم پيالہ عيسائي شاعر كو لمبى چوڑى زميندارى بخش دى اور اسكے لئے سور كا گوشت اور شراب كا مسلمانوں كے بيت المال سے حصئہ ماہانہ مقرر كيا ، اسے مستى ميں عبادت گاہ سے گذرنے كى اجازت دى _
جادوگر يہودى كو مسجد ميں گھسا لايا ، تاكہ وہ وہاں مسجد كے اندر ، عبادت كى جگہ پر بد كار حاكم كى تفريح كيلئے جادو اور شعبدے كى بساط لگائے اور اپنے كرتب سے جناب وليد كو خوش و مسرور كرے _
وہ خود سر خوش ، نشے ميں چور لڑكھڑاتا ہوا اپنے انہيں كپڑوں كے ساتھ جو محفل عيش ميں پہنے ہوا تھا مسجد كے اندر اتا ہے اور امام جماعت كى حيثيت سے نماز پڑھاتا ہے پھر صبح كى دو ركعت كے بجائے نشے ميں چار ركعت نماز پڑھا ديتا ہے سجدے كى حالت ميں بجائے تسبيح شراب وشباب كے نغمے گنگناتا ہے اور پھر قئے كر كے تمام محراب كا ناس مارتا ہے اس پہ لاابالى فاسق كى حالت يہ ہے كہ جب مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا گيا اور اشراف كوفہ اسكے گھناونے جرا ئم كى عذر تراشى كے لئے خليفہ كے پاس ساتھ جاتے ہيں تو اس وقت بھى شراب ، بو الہوسى اور مطرب و ساز كى باتيں كرتا ہے جبكہ انھيں غلط حركتوں پر اسے مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا گيا ہے حد شرعى اسكے انتظار ميں ہيں _
عام طور سے تمام مسلمانوں حكومت وقت كى روش پر نا راضگى ظاہر كرتے ہيں علانيہ اعتراض كرتے ہيں _
يہ اور اس جيسے بہت سے حالا ت عام لوگوں كے افكار ميں ہيجان پيدا كرتے ہيں ،رات دن لوگوں ميں اس پر بحث ہوتى ہے ، حكومت كے بدكار گورنروں كى حركتوں پر چرچے ہوتے ہيں اور حكومت وقت ان باتوں سے قطعى بے خبر ہے _
يہى چرچے اور اعتراضات اہستہ اہستہ انقلاب كى دستك ديتے ہيں كہ جلدہى عوام حكومت كے خلاف اٹھ كھڑے ہوں گے _
يہ چنگارى كبھى ابن مسعود كى پر خاش ، كبھى عمار كے اعتراض اوركبھى ابوذر اور جندب جيسے بزرگ اصحاب رسول كى شكل
ميں نظر اتى ہے _
ليكن اسى درميان دو اہم شخصيتيں تمام لوگوں سے زيادہ عام مسلمانوں كى توجہ كا مركز بن جاتى ہيں _
ان ميں اولين حضرت على بن ابى طالب كى معروف شخصيت ہے جو لوگوں كى زبان پر چڑھى ہوئي ہے تمام صحابہ كے بزرگ افراد اور عام مسلمانوں ميں اپ ہى كا چرچا ہے _
اپ يہ كى وہ اكيلى شخصيت تھى جس نے خليفہ كے بھائي پر شرعى حد جارى كى ، جبكہ خليفہ كا ميلان نہيں تھا _
اپ نے عثمان كے غصے اور نفرت كى ذرا بھى خيال نہ كيا ، نہ بنى اميہ كے انتقام خاندانى كا ہر اس دل ميں لائے حد شرعى جارى كرنے ميں ذرا بھى انجام كى پروا نہيں كى _
بڑے مزے كى بات يہ ہے كہ امام نے اس كے باپ كو بھى رسول خدا (ص) كے حكم سے جنگ بدر ميں قتل كيا تھا اور اج اس بد كار خبيث كو حدود شرعى كى رعايت نہ كرنے اور علانيہ شراب پينے كے جرم ميں كوڑے لگا رہے ہيں ، اسلئے حضرت على (ع) كو حق تھا كہ وہ فرماتے ، چھوڑو بھى ، قريش مجھے اپنا جلّاد كہتے رہيں_
حضرت على (ع) نے اس قسم كے اقدامات سے قريش كے دلوں ميں كينے جمع كردئے تھے ، يہ دشمن كى اگ اپ كى خلافت كے زمانے ميں لو ديتى ہوئي اطراف و جوانب ميں پھيل گئي ، اسكى مرگ بار چنگارياں بڑھتى ہى گيئں ، اخر كار انھيں چنگاريوں نے اپكے پورے خاندان كو اپنا لقمہ بنا ليا _

عثمان كے خلاف عائشه كى اشتعال انگيزياں
دوسرى اہم شخصيت ام المومنين عائشه كى تھى ، جو اس وقت عثمان پر بپھرى ہوئي تھيں، اور مخالفين كى صف ميں داخل ہو كر انكى قيادت كر رہى تھيں انھوں نے عثمان كے خلاف عوام كے احساسات بھڑكانے ميں ايسے مسلسل اور متواتر اقدامات كئے جو بجائے خود بے نظير تھے ، يہاں تك كہ ان كے بعد بھى كسى نے ايسى كرتب بازى نہيں كى ، انھوں نے رسول خدا (ص) كى جوتيوں كو ايسى حالت ميں نا قابل ترديد ثبوت كے طور پر پيش كر كے عثمان كے خلاف سنت رسول كى دہائي دى جبكہ لوگ پورى طرح رسول خدا (ص) كى ياد گار كے شيفتہ تھے انكى صحبت دلوں سے فراموش نہيں ہوئي تھى ، اپ كا سراپا ، حركات يہاں تك كہ لباس و پوشاك كے بارے ميں لوگ باہم چرچے كرتے رہتے تھے ، اس وسيلے سے عائشه نے عوام كو عثمان كے خلاف شديد طور پر مشتعل كرديا ، پھر وہ عوام كو منقلب كرنے اور بھڑكانے كيلئے خود ہى ميدان ميں كود پڑيں _
انھوں نے اپنى دقيق سياست سے مناسب وقت اور جگہ پر ايسا كارنامہ انجام ديا كہ جس سے ايك بہت بڑا گروہ خلافت عثمان سے بد ظن ہو گيا ، اور جيسا انھوں نے چاہا خليفہ كے حلقہ بگوشوں كو تتر بتر كرديا ، انكى يہ سياست ايسى شاندار تھى كہ خليفہ كے ہوا خواہ اور مخالفين ايك دوسرے كے امنے سامنے اگئے ، بات يہاں تك بڑھى كہ توتو ميں ميں ہوئي ، جو تم پيزا ر ہوئي اور بعد رسول پہلى لڑائي مسجد رسول ميں ہو ہى گئي جسكى وجہ سے مستبد اور مقتدر خليفہ اپنى حكومت و طاقت كے باوجود عوام كے سامنے گھٹنے ٹيكنے پر مجبور ہو گيا ، عوام كى خواہشات كے اگے گردن جھكاتے ہوئے اپنے شرابى اور بد كار بھائي كو معزول كرديا ، اور عدالتى چارہ جوئي كے لئے دارالسلطنت پر بلايا ، حالانكہ اگر ام المومنين كى ذہانت و صلاحيت لوگوں كو مشتعل كرنے ميں مداخلت نہ كرتى ، وہ خود اسكى قيادت نہ كرتيں تو ايسا اتفاق ہرگز پيش نہ اتا_
ادھر ديكھئے كہ ہم جانتے ہيں رسول خدا كى (ص) صرف وہى ايك زوجہ زندہ نہيں تھيں ، حفصہ ،ام سلمہ اور ام حبيبہ بھى زندہ تھيں ، ہر ايك كا سياست ميں كچھ نہ كچھ اثر تھا ، ليكن كوئي بھى اس مقابلے ميں(عوامى احساسات كو اپنى پسند كے مطابق مشتعل كرنا) ام المومنين عائشه كا ہم پلہ نہيں ہوسكتا تھا _
ضمنا يہ بھى واضح ہوتا ہے كہ عثمان اپنے دونوں پيش رو خلفاء كى سنت كے بر خلاف چل رہے تھے ،اسى مخالفت كى مسند بچھا لى تھى جس پر رسول كا سب سے بڑا مخالف اور مشركين كا ليڈر ابو سفيان اور اسى طرح شرابى اور منحوس بھائي ، اور حكم جيسا راندئہ رسول اس مسند پر بيٹھتا تھا ;
اپنے چچا حكم بن العاص جسے رسول خدا نے جلا وطن كر كے اس پر لعنت كى تھى ، مسلمانوں كى رائے كے خلاف دوسروں سے زيادہ اقتدار خلافت كا مقرب بنا ليا تھا اسكا اسقدر احترام كرتے تھے كہ جب وہ اتا تو تعظيم ميں كھڑے ہو جاتے ، اپنى جگہ پر بٹھاتے تھے اور خود اسكے سامنے دو زانو ہو كر بيٹھتے_
ہم نے يہ بھى ديكھا كہ مملكت كے مشرقى حصے كا نصف اكيلے اپنے منحوس ديوانے بھائي كى خوشامد اور دلجوئي ميں شاھى جاگير كے طور پر اعطا كردى اور پھر ايسے بد معاش اور بے شرم ادمى كو بيت المال ميں تصرف كى اجازت بھى ديدى ، اور ابن مسعود جيسے جليل القدر صحابى كو جنكا ماضى شاندر تھا اسى منحوس اور بد كار بھائي پر اعتراض كے جرم ميں سخت سزادى ، ان سے سخت كلامى اور گاليوں سے نوازا ، حكم ديا كہ انھيں ذلت كے ساتھ مسجد ميں نكال باہر كيا جائے ، جسكے نتيجے ميں انكى پسلياں چور ہو گئيں ، مزيد حكم ديا كہ انكا بيت المال كا وظيفہ بند كر ديا جائے انھيں شركت جہاد كى بھى اجازت نہيں دى ، زندگى كى اخرى سانسوں تك انھيں مدينے سے نكلنے كى اجازت نہيں دى ، يہ سارى كاروائي صرف اپنے بد كار
133
بھائي وليد بن عقبہ كى حمايت ميں ہوئي _
ہم نے يہ بھى ديكھا كہ اپنے بھائي كے خلاف گواہوں كو مسترد كر ديا ، پھر ہم نے ديكھا كہ اس نے كمبل اوڑھ ليا تاكہ تازيا نوں كى مار كا اثر كم ہو جائے ، حد جارى ہونے كے بعد سر مونڈنے كى بھى اجازت نہيں دى ، ان تمام باتوں كے بعد دوبارہ اسے ايك اہم علاقے كى وصولى زكوة پر مامور كرديا ;
عثمان كے مادرى بھائي وليد بن عقبہ كا مسئلہ اور اسكى كوفے پر پانچ سال حكومت ان كشاكشوں ميں ايك اہم ترين مسئلہ تھا جسميں ام المومنين عائشه نے بھر پور مداخلت كى ، با قاعدہ طور پر عثمان كى مخالفت ميں سامنے اگيئں ، خلا فت كے اقتدار سے لڑنے بھڑنے پر امادہ ہو گيئں _
ہم نے ديكھا كہ معركے ميں ام المومنين كس طرح كامياب نكليں اور مركزى اقتدار كو بات ماننے پر مجبور كر كے اپنى حشمت كا لوہا منوايا_

عمار ياسر
دوسرا مسئلہ جسميں ام المومنين نے شخصى طور سے مداخلت كى اور عوام كو خليفہ كے خلاف بھڑكايا ، عثمان اور عمارياسر كا قصہ ہے ;

پہلے عمار كو پہچانئے پھر اصل قصہ سنئے
ابو يقظان كنيت تھى ، عمار نام تھا ياسر كے فرزند تھے ان كے باپ ياسر قحطانى عرب كے قبيلہ مذجح سے تھے جنھوں نے يمن سے مكہ اكر ابو حذيفہ مخزومى سے پيمان دوستى باندھا ، انھوں نے ايك كنيز سے جنكا نام سميہ تھا شادى كرلى اور عمار ياسر پيدا ہوئے ، ابو حذيفہ نے عمار كو ازاد كرديا اسى وجہ سے عمار كو بنى مخزوم كے موا ليوں ميں شمار كيا جاتا ہے _
عمار ياسر ، ان كے بھائي عبداللہ اور ان كے ماں باپ سابقين اسلام سے تھے ، جنھوں نے بغير خوف خطر اپنے اسلام كا اظہار كيا ، اسكى پاداش ميں مشركين كى طرف سے شكنجہ و عذاب كے سوا كيا مل سكتا تھا _
ان لوگوں كو ا ہنى زرہ پنھادى جاتى تپتے سلگتے پتھروں پر عين دوپہر كى سورج كے سامنے لٹا ديا جاتا ، پھر اس پر سے بھارى پتھر سينے اور پيٹ پر ركھ ديا جاتا ، تاكہ جس دين كو قبول كيا ہے اس سے باز ايئں ليكن يہ اذيتيں ان كے
ايمان راسخ ميں ذرہ برابر بھى خلل نہ ڈال سكيں ، مشركين مكہ كى اسلام سے بيزارى كى پيشكش بھر پور بہادرى كے ساتھ ٹھكرا ديتے تھے _
ٹھيك اسى وقت كہ جب كفار مكہ كا عذاب جھيل رہے ہوتے ، ادھر سے رسول (ص) خدا گذرتے ، انكى رونگٹے كھڑے كردينے والى حالت ملاحظہ فرماتے كہ دوپہر كى دھوپ ميں تپتے پتھروں پر يوں تڑپ رہے ہيں جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے اور انسانى جذبات سے دور مشركين مكہ اپ كے كمزور جسم پر اذيتوں كى بھر مار كررہے ہيں _
اپ بڑے اطمينان بخش لہجے ميںان سے فرماتے ;اے ال ياسر صبر كرو ، جنّت تمہارے انتظار ميں ہے ، عمار ياسر كى والدہ حضرت سميہ ، ابو جہل كے ہتھيار كى مار سے مرگيئں ، اپ اسلام كى راہ ميں پہلى شھيد ہيں _
سميہ كے شوہر ياسر نے بھى مشركين مكہ كى مسلسل اذيتوں سے جان ديدي_
ليكن عمار نے اپنى دلى حالت كے بر خلاف مجبور ہو كر مشركوں كى ظلم و زيادتى سے چھٹكارا پانے كيلئے مشركين كى بات كہہ دى اور رسول كو برا بھلا كہا ، نتيجے ميں كفار نے انھيں چھوڑ ديا رسول خدا كو بتايا گيا كہ عمار كافر ہو گئے ، حق كے راستے سے منحرف ہو گئے _
انحضرت (ص) نے فرمايا ، عمار كے وجود سے ايمان ہرگز ختم نہيں ہوا وہ سر سے پير تك ايمان ميں ڈوبے ہوئے ہيں ، انكى رگرگ ميں ايمان بھرا ہوا ہے _
اسى حالت ميں روتے پيٹتے ، انسو بہاتے رسول (ص) كى خدمت ميں ائے ، رسول خدا (ص) نے ان كى انكھوں سے انسو پونچھتے ہوئے فرمايا :
اگر پھر تم سے وہ لوگ مزاحم ہوں تو تم نے جو كچھ كہا ہے پھر كہكے اپنے كو بچا لينا _
يہ ايت اسى موقع پر عمار ياسر كے حق ميں نازل ہوئي ، من كفر باللہ بعد ايمانہ الا من اكرہ و قلبہ مطمئن بالايمان_

اولين مسجد كى تعمير اور عمار ياسر
عمار نے مدينہ ہجرت كى اور جنگ بدر كے ساتھ دوسرى تمام غزوات ميں شركت كى ، جب رسول خدا نے
مدينے ہجرت كى تو عمار مسجد قبا كى تعمير ميں شريك تھے ، وہ اسلام كى پہلى مسجد بنانے والوں ميں شمار كئے جاتے ہيں (1)عمار ياسر اس مسجد كى تعمير ميں مستقل شريك رہے ، اس سلسلے ميں انھوں نے دوسرے اصحاب سے زيادہ سر كردگى دكھائي ، اينٹ پتھر لانے ميں بہت تيزى دكھاتے تھے _
اسى درميان ايك صحابى عثمان بن عفان بہت كم محنت كر رہے تھے كيو نكہ وہ قيمتى لباس پہنے ہوئے تھے ، جب دوسرے اصحاب اينٹ اور پتھر لاتے اور اسكا گرد و غبار ان كے بدن پر پڑتا تو وہ جھاڑنے لگتے ،على بن ابى طالب نے يہ منظر ديكھا تو كار كردگى اور فعاليت كے سلسلے ميں يہ رجز پڑھنے لگے ،

لا يستوى من يعمر المساجد
يدا ب فيھا قائما وقاعدا
و من يرى عن الغبار حائدا (3)

عمار سادہ دل شخص تھے ، وہ اس رجز كا اشاريہ نہيں جانتے تھے وہ بھى سادگى ميں يہى رجز پڑھنے لگے ، عثمان نے حضرت على (ع) كا اشاريہ سمجھ ليا تھا ، اسلئے گمان كيا كہ عمار جان بوجھ كر ان پر طنز كر رہے ہيں كہنے لگے ،اے فرزند سميہ ميں سمجھ رہا ہوں كہ تم كيا كہہ رہے ہو خدا كى قسم ،اس ڈنڈے سے تمہارى انكھ پھوڑ دوں گا _
رسول خدا (ص) سارا واقعہ ملاحظہ فرما رہے تھے ، عثمان كى دھمكى پر غصے ميں فرمايا ، عمار سے لوگ كيا چاہتے ہيں وہ انھيں بہشت كى طرف بلا رہا ہے اور وہ لوگ ہيں كہ اسے جہنم كى طرف بلا رہے ہيں
عمار كى منزلت ميرے نزديك ميرے اس كھال كى طرح ہے جو انكھ اور ناك كے درميان ہوتى ہے ، جس شخصيت كا يہ مرتبہ ہو اسے اذيت پہوچانے سے پرہيز كرو(4)
اور ايك روايت ميں ہے يہ قصد اس طرح ہے ، صحابہ نے جب رسول(ص) خدا كو غضبناك ديكھا تو عمار سے كہا كہ تم ہى كوئي ايسا طريقہ اپنائو كہ رسول (ص) خدا كا غصہ كم ہو _
تو عمار ياسر اپنے سر پر اينٹوں كا بوجھ اٹھاے ہوئے تھے اسى حالت ميں ہنستے ہوئے رسول خدا سے عرض كى _
اے رسول(ص) خدا ،اپ كے اصحاب نے تو مجھے مار ڈالا ، كيونكہ جتنا وہ خود اٹھا نہيں سكتے اس سے زيادہ مجھ پر لاد ديتے ہيں ،يہ سن كر رسول(ص) خدا نے اپنے دست مبارك سے عمار كے چہرے كا غبار صاف كرتے ہوئے فرمايا :
اہ ،اے سميہ كے فرزند ، يہ تمہيں قتل نہيں كريں گے تمہيں تو ايك باغى گروہ قتل كرے گا (5)
رسول خدا نے اكثر موقعوں پر عمار ياسر كى تعريف و ستائشے كى ہے منجملہ وہ موقع كہ خالد بن وليد نے عمار ياسر پر غصہ دكھايا بڑے تلخ و تند انداز ميں ان سے باتيں كيں اسوقت رسول(ص) خدا نے فرمايا :
جو شخص عمار ياسر سے دشمنى ركھے گا ،خدا بھى اسكا دشمن ہو گا _
عمار ياسر نے جمل و صفين ميں حضرت على (ع) كى ركاب ميں جنگ كى اپ اخرى حملوں كے وقت جب بھى اپ حركت فرماتے اپ كے ساتھ اصحاب رسول كا گروہ ان كے پيچھے پيچھے چلتا تھا ، ايسا معلوم ہوتا ہے كہ ان سب كے كانوں ميں صدائے رسول گونج رہى تھى _
تم بيشك باغى اور سر كش گروہ كے ہاتھوں قتل ہو گے (تقتلك الفئة الباغيہ )
عمار اگے اگے چلتے تھے اور اصحاب رسول پيچھے پيچھے ، اپ جنگ صفين ميں يہ رجز پڑھ رہے تھے _
اج كا دن وہ ہے كہ ميں اپنے دوستوں ، محمد اور اصحاب رسول سے ملاقات كروں گا (6)
اخر كار عمار اسى جنگ ميں معاويہ كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كئے گئے ، ان كے قتل پر دوسپاہيوں ميں برائے افتخار جھگڑا ہو گيا ، عمر و عاص نے كہا :
بخدا ،يہ دونوں جہنم ميں جانے كيلئے ايك دوسرے سے جھگڑا كر رہے ہيں ، خدا كى قسم ميرى ارزو ہے كہ اج سے بيس سال پہلے مر گيا ہوتا (7)

عثمان اور عمار
اب عمار ياسر كو پہچاننے كے بعد برا نہيں ہے كہ ہم يہ بھى سمجھ ليں كہ رسول خدا (ص) نے عمار كے حق ميں جو احاديث فرمائي ہيں ان كا عثمان نے كتنا پاس و لحاظ كيا ، اور ام المومنين نے اپنا رد عمل كس طرح ظاہر كيا ، انھوں نے عثمان كى ناك رگڑ نے كے لئے عمار كے وجود سے كتنا استفادہ كيا _
بلا ذرى لكھتا ہے :
جس دن لوگوں نے عثمان كو خبر دى كہ ربذہ ميں ابوذر كا انتقال ہو گيا عثمان نے كہا ، خدا ابو ذر پر رحمت نازل كرے (8)
عمار ياسر وہيں موجود تھے ، بڑے اثر انگيز انداز ميں كہا ہاں ، ميں دل كى گہرائيوں سے كہتا ہوں كہ خدا ان پر رحمت نازل كرے عثمان كيلئے يہ سرزنش قطعى غير متوقع تھى ، وہ چيخ پڑے ( يلعاض ايرابيہ )() جلا وطنى كى ندامت سے ٹسوے بہار ہے ہو ؟ تم خود جاكر انكى جگہ لے لو ، پھر حكم ديا كہ اسے گدّى ميں ہاتھ ديكر نكال باہر كردو _
عمار ياسر تيار ہو گئے كہ ربذہ چلے جائيں كيونكہ خليفہ كا فرمان تھا ، قبيلہ بنى مخزوم كے بہت سے لوگ جو عمار كے ہم پيمان تھے حضرت على كے پاس ائے اور ان سے گذارش كى كہ عمار ياسر كے بارے ميں عثمان سے گفتگو كركے اس حكم سے روكيں_
حضرت على (ع) عثمان كے پاس گئے اور كہا كہ :
اے عثمان خدا سے ڈرو ، تم نے ايك مقدس مسلمان كو اسطرح جلا وطن كيا كہ وہيں انكى موت ہو گئي ، اب تم عمار كے پيچھے پڑے ہو كہ انھيں بھى وہيں جلا وطن كر دو _
نتيجے ميں حضرت على (ع) اور عثمان كے درميان تلخ كلامى ہوئي ، يہاں تك كہ عثمان نے حضرت على (ع) سے سخت لہجے ميں كہا :
تم ان سے زيادہ جلا وطن كے مستحق ہو _
حضر ت على نے جواب ديا :
اگر چاہتے ہو تو حكم ديدو _
مہاجر ين نے جمع ہو كر خليفہ سے كہا كہ ، ايسا نہيں ہو سكتا ، جو بھى تم سے گفتگو كرتا ہے تم اسے جلا وطنى كا حكم دے ڈالتے ہو عثمان نے مجبورا عمار كے بارے ميں اپنا فيصلہ واپس لے ليا (9)
ايك دن اصحاب رسول خدا كے بہت سے افراد جن ميں مقداد بن عمرو عمار ياسر ، طلحہ و زبير شامل تھے ، اپس ميں مشورہ كر كے ايك خط عثمان كو لكھا جسميں ان كى تمام غلط حركتوں كو ايك ايك كر كے گنا يا گيا تھا كہ اگر تم نے اپنى يہ روش نہيں چھوڑى تو تمھارے خلاف شورش برپا كردى جائے گى اور بغاوت ہو جائے گى (10)
عمار نے يہ خط ليا اور خود ہى خليفہ كے سامنے پيش كيا انھيں كے سامنے لوگوں كو خط كا بعض حصہ پڑھكر سنا ديا _
عثمان نے ايك تو عمار كى گستاخى اور دوسرے خط كا مضمون ان دونوں باتوں سے سخت برھم ہوئے ، لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہو گئے چلّا كے بولے _
اس جماعت ميں ايك تم ہى يہ كام كرنے كيلئے تھے كہ خط ليكر ائے ہو؟ عمار نے جواب ديا_
كيونكہ ميں دوسروںسے زيادہ تمہارا خيرخواہ ہوں_
عثمان نے كہا ، سميہ كے فرزند ،تم جھوٹے ہو_
عمار نے جواب ديا:
(تم مجھے سميہ كا بيٹا كہكے پكار رہے ہو ؟) ہاں خدا كى قسم ميں سميہ اور ياسر كا فرزند ہوں
عثمان غصے ميں بد حواس ہو گئے تھے ، اپنے غلاموں كو حكم ديا _
عمار كے ہاتھ اور پائوں كو پكڑ كر ہر ايك اپنى طرف گھسيٹے ، غلاموں نے حكم كى تعميل ميں چہار ميخ (شكنجہ كى اذيت ناك قسم ) كى شكل بنا دى ، خود عثمان نے عمار ياسرپر لات اور گھونسے برسانا شروع كردئے ، اتنى لاتيں ماريں كہ اس بوڑھے كمزور كو عارضئہ فتق لاحق ہو گيا ، وہ بے ہوش ہو گئے _

بيت المال نجى ملكيت
دوسرے وہ مواقع جہاںعثمان نے عمار ياسر سے پر خاش دكھائي ايك موتى كا قصہ ہے جسے عثمان نے بيت المال سے لے ليا تھا _
بلاذرى نے يہ قصہ اس طرح لكھا ہے :
مدينے كے بيت المال ميں ايك موتيوں كا ہار تھا جسميں قيمتى جواہرات جڑے ہوئے تھے ، عثمان نے وہ اپنى ايك بيوى كے لئے ركھ ليا ، جب يہ خبر لوگوں كے كانوں ميں پہونچى تو لگے عيب جوئي كرنے اور مذمت كى بھر مار كردى ، ان كے منھ پر بھى تنقيد ہونے لگى _
عوام كے اعتراض ميں اسقدر شدت تھى كہ عثمان بھڑك اٹھے ، اسى غصے كى حالت ميں منبر پر ائے اور تقرير كرتے ہوئے كہا :
ہم ان اندھوں كو جنھيں دكھائي نہيں ديتا كہنا چاہتے ہيں كہ ھم اس مال ميں سے جتنا چاہيں گے لے ليں گے اور _
حضرت على (ع) نے انھيں ٹوكتے ہوئے كہا :
تمہيں روك ديا جائے گا ، ايسے نہيں چھوڑ ديا جائے گا كہ اسميں من مانا تصرف كرو _
عمار ياسر نے بھى چلا كر كہا :
ميں خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ ميں وہ پہلا انسان ہوں جس كو ايسى حركت بہت برى لگى ہے عثمان نے غصے ميں چلّا كر كہا :
( يابن المتكائ(11)) تيرى اتنى ھمت ہو گئي كہ مجھ سے سخت كلامى كرے اسكے بعد حكم ديا كہ اسے پكڑلو _
عمار كو گرفتار كر كے خليفہ كے گھر لے جايا گيا ، جب خليفہ ائے تو فرمان صادر كيا كہ عمار كو حاضر كر كے ميرے سامنے كھڑا كيا جائے پھر انھيں اتنا مارا كہ بيہوش ہو كر زمين پر ڈھير ہو گئے ، پھر اسى بيہوشى كى حالت ميں عثمان كے گھر سے باہر نكال ديا گيا ، دوسرے لوگوں نے انھيں اٹھا كر زوجہ رسول ام سلمہ كے گھر پہونچا ديا _
ظہر عصر اور مغرب كى نماز كا وقت نكل گيا ليكن عمار بيہوش تھے جب ہوش ميں ا ئے تو وضو كر كے نماز پڑھى ، اس وقت كہا :
الحمد للہ ، يہ پہلا دن نہيں ہے كہ خشنودى خدا كى راہ ميں مجھے شكنجہ و عذاب ديا گيا _
ہم يہ جانتے ہيں كہ عمار ياسر قبيلہ بنى مخزوم كے ہم پيمان تھے جب ھشام بن وليد مخزومى كو عمار ياسر پر ڈھا ئے گئے مصائب كى خبر ملى تو انھوں نے عثمان پر اعتراض كيا _
تم على اور بنى ہاشم كو تو ٹالتے ہو ، انھيں چھيڑتے بھى نہيں ليكن ہمارے اوپر زيادتى كرتے ہو ، ميرے بھائي كو مارتے مارتے ادھ موا كرديا ہے خداكى قسم اگر عمار مرگئے تو اس گندے پيٹ والے ( عثمان ) كو قتل كر دوں گا _
عثمان نے غصے ميں انھيں گالى ديتے ہوئے كہا :
اے قسريہ كے بيٹے (12) تيرى اتنى ہمت بڑھ گئي ہے؟
ھشام نے جواب ديا _
اچھا تو سمجھ لو كہ ميں دو مائوں سے قسريہ تك پہونچتا ہوں _
عثمان نے حكم ديا كہ ھشام كو گھر سے نكال ديا جائے ، ھشام خليفہ كے گھر سے سيد ھے ام سلمہ كے گھر گئے ، انھيں معلوم ہوا كہ ام سلمہ بھى عمار پر ڈھائے گئے ظلم و ستم سے سخت برہم ہيں _

عمار كى مدد ميں عائشه
جب عائشه كو عمار كے واقعہ كى خبر ملى تو سخت برھم ہوئيں اور عثمان كى روش پر اعتراض كرتے ہوئے رسول خدا كا بال ، لباس اور جوتياں نكاليں ، ہاتھ ميں ليكر چلّانے لگيں _
كتنى جلدى تم لوگوں نے اس بال ، لباس اور جوتيوں والے رسول كى سنت نظر انداز كردى ،حالانكہ رسول خدا كے يہ اثار ابھى پرانے بھى نہيں ہوئے ليكن تم لوگوں نے انكى سنت ترك كردي_
مسجد ميںعوام كا موجيں مارتا سمندر امنڈ پڑا ،اور سبحان اللہ كى صدائيں بلندكرنے لگا _
عمرو عاص ، جنھيں عثمان حكومت مصر سے معزول كركے عبداللہ بن ابى سرح كو حكومت ديدى تھى اسوجہ سے وہ سخت برہم تھے ، دوسروں سے زيادہ سبحان اللہ كى صدائيں بلند كررہے تھے ،تعجب اور حيرت كے عجيب عجيب كرتب دكھا رہے تھے اسى درميان عثمان غصے ميں اسقدر بد حواس ہو گئے كہ سمجھ ميں نہيں اتا تھا وہ كيا كہيں (13 )

ابن مسعود اور مقداد كى تدفين
عبداللہ بن مسعود كى تدفين كا واقعہ بھى عمار سے برہمى كا سبب بنا بن مسعود نے مرتے وقت وصيت كى تھى كہ عمار ان كى نماز جنازہ پڑھائيں اور عثمان كو خبر نہ كى جائے كہ وہ نماز جنازہ ميں حاضر ہو جائيں ، عمار نے وصيت پر عمل كيا جب عثمان كو اس واقعے كى خبر ملى تو عمار پر بہت غصہ ہوئے _
ليكن دير نہيں گذرى كہ مقداد نے بھى انتقال كيا ، انھوں نے بھى ابن مسعود كى طرح وصيت كى تھى كہ عثمان ميرى نماز جنازہ نہ پڑھائيں عمار نے مقداد كى نماز جنازہ پڑھائي اور دفن كر ديا ، عثمان كو خبر نہيں كى ،اب تو عثمان اور بھى زيادہ عمار سے غصہ ہوئے ، حالت يہ ہوئي كہ چلّانے لگے ، مجھ پر افسوس جو اس كنيز زادے سے جھيلا ، ميں نے اسكو خوب اچھى طرح پہچان ليا (14)
ان تمام واقعات ميں جو بات سب سے زيادہ اپنى طرف متوجہ كرتى ہے وہ يہ كہ عثمان نے عمار ياسر كو گالياں ديں ، يابن المتكاء يا عاض ايرابيہ ، كتب صحاح و مسانيد ميں ام المومنين عائشه كى حديث نقل كى گئي ہے كہ عثمان بہت شرميلے ، با حيا اور مہذب ہيں ، يہ بھى حديث ہے كہ خدا كى قسم ، عثمان كے سامنے فرشتے بھى شرم و حيا كا لحاظ كرتے ہيں اور رسول خدا (ص) كى قسم ، عثمان كے شرم وحيا كى وجہ سے ان سے بہت حيا فرماتے اسطرح كى اور بھى باتيں جو ان كے شرم و حيا كا ڈھنڈورا پيٹتى ہيں _
ضمنى طور سے ہم نے ام المومنين عائشه كو ديكھا كہ عقلمند حكمراں كى طرح مشتعل عوام كو عثمان كے خلاف بھڑكاتى ہيں وہ اچھى طرح سمجھ رہى ہيں كہ كن باتوں سے عوام كے احساسات و جذبات بھڑكيں گے _
انھوں نے پہلى بار عثمان كے خلاف عوامى جذبات بھڑكاتے ہوئے رسول خدا (ص) كى جوتياں دكھا كر انھيں چونكايا ، پھر جيسا وہ چاہتى تھيں لوگوں كے جذبات كو اپنے كنٹرول ميں كيا وہ اچھى طرح جانتى تھيں كہ وہ سادہ انداز دوسرى بار لوگوں كے جذبات بھڑكانے ميں اتنا كار گر نہيں ہو گا _
ليكن اس بار انھوں نے اس سے اگے بڑھكر لباس ، بال اور انحضرت(ص) كى جوتياں بھى نكال ليں ،يہ رسول كى تين سادہ يادگار يں لوگوں كے جذبات كو مشتعل كرنے اور عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجانے كيلئے كافى تھيں _
يہ دوسادے انداز بڑے اہم ثابت ہوئے ، ام المومنين عائشه نے اپنى مہارت و زيركى سے عثمان كا تيّا پانچہ كرديا جبكہ وہ اہم ترين اسلامى شخصيت تھے ، مسلمانوں كى نگاہ ميں رسول كے جانشين كى حيثيت سے محترم تھے _
عائشه نے بڑا اچھا ذريعہ اپنايا جسميں دليل و برہان كى ضرورت نہيں تھى ،انھوں نے خليفہ كى شخصيت كو ايك جانب اور سنت رسول اور انكى ياد گاروں نيز ازواج رسول كو دوسرى جانب كر كے بالكل محاذ پر كھڑا كر ديا ، اس طرح انھوں نے معاشرے كى نظر سے خليفہ كو اس قدر گراديا كہ عوام كو ان كے خلاف بغاوت كرنے ميں ذرا دقت نہيں ہوئي _
خليفہ كا ذليل ہونا يا محترم ہونا خود خليفہ كى ذاتى چيز نہيں تھى ، بلكہ وہ خلافت كے حدود سے تجاوز كر بيٹھے تھے ، ان زيادتيوں كى وجہ سے ان كا احترام ختم ہوگيا ، وہ بہت كمتر اور ذليل سمجھے جانے لگے اسى وجہ سے لوگوں كى جسارت اور زيادتى عثمان كے بعد خلفاء سے زيادہ تر ديكھى گئي _
اسى طرح ان حوادث سے واضح ہوتا ہے كہ دن بدن ام المومنين عائشه اور عثمان كے تعلقات خراب تر ہوتے جاتے رہے تھے _
وہ ايك دن عثمان كى شديد حمايتى سمجھى جاتى تھيں ، اور اج مضبوط ترين دشمنوں كى صف ميں نظر اتى ہيں ، جيسے جيسے وقت گذرتا گيا ، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے ، دشمنى كى اگ دونوں كے دامن كو زيادہ بھڑكاتى گئي _
شايد يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان دونوں كا لفظى جھگڑا اسى وقت شروع ہو گيا تھا جب عثمان نے ان كے وظيفے ميں كٹوتى كى تھى _
بعد ميں جيسے جيسے حالات اور حوادث پيدا ہوتے گئے ، اعتراضات عائشه اور عثمان كے جوابى الزام كا لہجہ بھى تلخ و تند ہوتا گيا ، اخر كار وہى ام المومنين جو عثمان كى دوسروں سے زيادہ دفاع كرتى تھيں انھيں اپنے كينہ و عناد كى زد پر ركھ ليا ،ان كو خليفہ كے زبردست دشمنوں ميں شمار كيا جانے لگا _
اس بار ام المومنين عائشه كا عثمان سے پيكار و مخالفت كا مسئلہ صرف اپنے يہ مفادات و مصالح كے لئے نہ تھا ، بلكہ ان كى عظمت اور شخصيت زيادہ سے زيادہ ہمارى نظر كو موہ ليتى ہے_

فصل چھارم
عائشه نے انقلاب كى قيادت كي
يہاں تك جو كچھ بيان كيا گيا وہ اہم ترين عوامل تھے جنھيں ام ا لمومنين عائشه نے عثمان كى مخالفت اور لوگوں كو ان كے خلاف شورش بر پا كرنے كيلئے ہتھيار كے طور پر استعمال كيا ورنہ عثمان اور ان كے حاشيہ نشينو ں كے خدا سے غافل غير شرعى حركات اور نا پسنديدہ اعمال ان سے كہيں زيادہ ہيں جنھيں بيان كيا گيا ، ان ميں سے ہر ايك روش بجائے خود اقتدار و خلافت اور شخصيت عثمان كے خلاف انقلاب اور شورش بر پا كرنے كيلئے لوگوں كے دلوں ميں جمى ہوئي تھى واضح بات ہے كہ يہ تمام عوامل لوگوں كو شورش سے ابھارنے اور اصحاب كو ان سے بد ظن كرنے كيلئے بہت موثر تھے _
ليكن وہى عوام (شايد انھيں كى ساختہ پر داختہ احاديث كى وجہ سے )خود اپنے اندر اتنى جرات نہيں ركھتے تھے كہ خود كو ايسى شخصيت كے خلاف جسے جانشين رسول اور خليفہ كيلئے پكارتے ہيں ،اعتراض كريں ، تلوار اٹھانے كى بات تو بہت دور كى ہے _
ليكن يہ جسارت و جرات ابن مسعود ، عمار ياسر ، ابوذر غفارى اور جندب جيسے عظيم اصحاب رسول كى شديد مخالفت اور شجاعانہ اقدامات نے پيدا كى ، بنابر يں عوامى انقلاب كيلئے با رودكا ڈھير بس ايك چنگارى كا منتظر تھا يہ اگ ام المومنين كے تاريخى فتوے نے بھڑكا دى اور اخر كار عثمان اپنے تمام اقتدار و عظمت كے ساتھ زميں بوس ہو گئے ، خاك و خون ميں غلطاں ہوگئے _
عائشه كے پاس بڑى ذہانت و فراست تھى انھوں نے اپنى صلاحيتوں سے عثمان كے خلاف عوامى شورش برپا كركے سب كچھ اپنے مفاد ميں كرنے كيلئے بھر پور استفادہ كيا ، كيونكہ انھوں نے ديكھا كہ لوگ عثمان كى ناكام حكومت سے تنگ اگئے ، ان كے مطلق العنان حاشيہ نشينوں كا ظلم عوام كى ہڈيوں ميں سرايت كر گيا تھا ، يہى وہ بات تھى جس پر توجہ كرتے ہوئے انھوں نے اپنى سيادت كا تحفظ كرتے ہوئے تمام لوگوں كو ہيجان ميں لانے اور عثمان كے خلاف بغاوت پر امادہ كرنے كى قيادت خود انھوں نے سنبھال لى ،اور وہ بھى اسطرح كہ جيسا وہ خود چاہيں ويسا ہى نتيجہ نكلے _
عوام عثمان كے ظلم و ستم كى وجہ سے انقلاب كے پياسے تھے ام المومنين عائشه كى تقريروںاور كاروائيوں نے نشاط تازہ بخشى _ انہيں كاميابى كى اميدوں سے نہال كيا عثمان كے كرتوتوں كے خلاف ام المومنين عائشه كا نام اور تقرير
144
يں نہ صرف مدينہ اور اسكے مضافات ميں ، بلكہ حجاز كے باشندوں اور پھر تمام مملكت اسلامى كے عوام كى زبان پر تھا خاص طور سے اس لئے كہ ان كا خاندان تيم بھى ان كى حمايت ميں تھا اور يہ انقلاب حساس ترين كردار نبھا رہا تھا _
بلاذرى جو خود مكيت خلفاء كا وقيع عالم ہے ، اپنى كتاب انساب الاشراف ميں لكھتا ہے _
خاندان تيم كے افراد محمد بن ابى بكر اور ان كے چچيرے بھائي طلحہ كى حمايت ميں عثمان كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے _
عائشه كے بھائي محمد بن ابى بكر نے تيميوں كى استقامت كے لئے مصر سے بغاوت كا اغاز كيا اور يہ اس وجہ سے ہوا كہ محمد بن ابى بكر اور محمد بن ابى حذيفہ نے گورنر مصر عبداللہ بنابى سرح كى چند غير شرعى باتوں كى وجہ سے بغاوت كى اخر مصر يوں نے وہاں اپنا قبضہ جما ليا اب يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ان تينوں تاريخى چہروں كا تعارف كرايا جائے جو اس عہد كے سيا سى حالات كے حساس كردار ہيں _

تين چہرے
1_ عبد اللہ بن سعد بن ابى سرح
عبداللہ بن سعد قريش كے قبيلہ عامر كے اس خانوادے سے تعلق ركھتا تھا جو ابى سرح كاتھا اسكى ماں نے عثمان كودودھ پلايا تھا اس بناء پر عثمان اور عبداللہ رضاعى بھائي تھے _
عبداللہ فتح مكہ سے پہلے اسلام لايا ،اور مدينہ ہجرت كى اسے رسول كے كاتبوں ميں شمار كيا جاتا ہے ،ليكن كچھ دن بعد مرتد ہو كر مكہ واپس چلا گيا ،اس نے وہاں سرداران قريش سے كہا _ محمد ميرى خواہشات اور ارادوں كے پابند تھے ميں جو كچھ كہتا وہ عمل كرتے مثلا وہ كہتے لكھو عزيز حكيم ميں ان سے پوچھتا ، كيا لكھ دوں عليم حكيم ،وہ جواب ديتے _
كوئي ہرج نہيں ، دونون ٹھيك ہے _
خدا وند عالم نے عبداللہ بن ابى سرح كے بارے ميں يہ ايت نازل كى _
ومن اظلم ممن افترى على اللہ كذبا سورة انعام ايت93
اور اس شخص سے بڑا ظالم اور كون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گڑے ،يا كہے كہ مجھ پر وحى ائي ہے حالانكہ اس پر كوئي وحى نازل نہيں كى گئي ہو ،يا جو اللہ كى نازل كردہ چيز كے مقابلے ميں كہے كہ ميں بھى ايسى چيز نازل كركے دكھا دوں گا _
كاش تم ظالموں كو اس حالت ميں ديكھ سكو جبكہ وہ سكرات موت ميں ڈبكياں كھا ر ہے ہوتے ہيںاور فرشتے ہاتھ
بڑھا بڑھا كر كہہ رہے ہوتے ہيں لائو نكالو اپنى جان ، اج تمہيں ان باتوں كى پاداش ميں ذلت كا عذاب ديا جائے گا _
جو تم اللہ پر تہمت ركھ كر نا حق بكاكرتے تھے ،اور اسكى ايات كے مقابلے مين سركشى دكھاتے تھے _ جب مكہ مسلمانو ںكے ہاتھوں فتح ہوا تو رسول خدا نے عبداللہ بن ابى سرح كے قتل كا فرمان صادر كيا ،اور حكم ديا چاہے وہ لباس كعبہ ہى سے چپكا ہوا ہو اسے قتل كردو _ عبداللہ اپنى موت سے ڈرا اور عثمان كى پناہ پكڑى ،عثمان نے اسے چھپا ديا ، پھر اسے خدمت رسول ميں لائے اور اسكے لئے امان طلب كى _ رسول خدا(ص) تھوڑى دير تك خاموش رہے ، اپ نے اپنا سر بلند نہيں كيا اخر اپ نے عثمان كى تائيد كردى جب عثمان چلے گئے تو انحضرت نے لوگوں كى طرف رخ كر كے فرمايا :
ميں اس لئے خاموش تھا كہ تم ميں سے كوئي اٹھكر اسكا سر تن سے جدا كر ديتا _ جواب ديا گيا ، اپ نے ہميں ذرا بھى اشارہ كيا ہوتا ،رسول خدا نے فرمايا ،پيغمبر كيلئے انكھ كا اشارہ مناسب نہيں _ جب عثمان خليفہ ہوئے تو ايسا پاپى شخص برادرى كے حوالے سے 25ھ ميں وہاں كے گورنر عمر وعاص كو معزول كر كے مصر كى حكومت ديدى گئي _ عبداللہ نے افريقہ كے بعض علاقے فتح كئے ، عثمان نے اسكے انعام ميں افريقہ كى غنيمت كا تما م خمس اسى كو بخش ديا _ وہ 34ھ تك حكومت مصر پر باقى تھا ، محمد بن ابى بكر اور ابن ابى حذيفہ كى شورش سے عسقلان بھاگ گيا ، وہ وہيں تھا كہ عثمان قتل كردئے گئے ، عبداللہ كى موت 57ھ ميں ہوئي (15)

2_ محمد بن ابى بكر
محمد خليفہ اول ابو بكر كے فرزند تھے ، انكى ماں اسماء بنت عميس قبيلہ خثعم سے تھيں ،ان كے پہلے شوہر جعفربن ابى طالب تھے انكى شھادت كے بعد ابوبكر كے عقد ميں ائيں ، ان سے محمد كى پيدائشے مكّے كے راستے ميں حجة الوداع كے موقع پر ہوئي _
جب ابوبكر نے انتقال كيا حضرت على (ع) نے اسماء سے شادى كى اسطرح محمد كى نشو ونما حضرت على (ع) كے گھر پر ہوئي ،حضرت على (ع) ہى نے انكى تربيت فرمائي ، نتيجے ميں وہ حضرت على (ع) كے جاں باز اور ثابت قدم صحابى تھے ، محمد نے حضرت علي(ع) كے ركاب ميں جنگ جمل ميں اپنى بہن عائشه كے خلاف جنگ كى ، پھر امام نے حكومت مصر كيلئے ان كا انتخاب فرمايا _
محمدپندرہ رمضان 35ھ ميں وارد مصر ہوئے اور وہاں كے انتظامى امور سنبھالے ليكن 38ھ ميں معاويہ نے عمر وعاص كى سر كر دگى ميں ايك بڑى فوج بھيجى ، عمرو نے محمد پر غلبہ پايا اور مصر فتح كر ليا ، اور معاويہ بن خديج نے انھيں قتل كيا پھر عمروعاص كے حكم سے گدھے كى كھال ميںانكى لاش ركھ كر جلا دى گئي (16)

3_ محمد بن ابى حذيفہ
ابو القاسم كنيت تھى ، محمد نام تھا ، ابو حذيفہ بن عتبہ كے فرزند تھے ، قريش كے قبيلہ عبد الشمس سے تھے ، انكى ماں سھلہ بنت سھيل بن عمر قبيلہ عامر سے تھيں ، محمد كے ماں اور باپ دونوں ہى حبشہ كے مہاجر تھے ، محمد وہيں حبشہ ميں پيدا ہوئے ، ابوحذيفہ جنگ يمامہ ميں مسيلمہ كذاب كے ہاتھوں شھيد ہوئے اور عثمان نے محمد كو اپنى فرزندى ميں لے كر انكى تربيت كى ، وہ عثمان ہى كے سايئہ عاطفت ميں پلے اور بڑھے _
جب عثمان خليفہ ہوئے تو محمد نے عثمان سے اجازت مانگى كہ كفار سے جھاد كيلئے مصر جائيں ، عثمان نے ان كا مطالبہ مان ليا محمد مصر چلے گئے ، جس زمانے ميں مسلمانوں نے عثمان كے خلاف شورش بر پا كى تو وہ بھى لوگوں كو حساس ترين لہجے ميں عثمان كے خلاف بھڑكانے لگے ،اخر كا رايك حملے ميں عبداللہ بن سرح پر قابو پا ليا اور اسے مصر سے بھگا ديا اور وہاں كے حكمراں بن گئے _ مصريوں نے محمد كى حكومت كو جان و دل سے مان ليا ، انكى بيعت كى اسطرح مصر كى زمام امور ان كے ہاتھ اگئي _ جب حضرت على (ع) خلافت كى مسند پر بيٹھے تو انھيں مصر پر باقى ركھا وہ حضرت على كى طرف سے بھى مصر كے انتظامى كام كاج ديكھتے رہے جب معاويہ حضرت على (ع) سے جنگ كيلئے صفين كى طرف چلا تو ان كا سامنا ہوا ،محمد معاويہ سے مقابلے كيلئے نكلے ، اور اسے شام كى طرف سے مصر كے پہلے شھر فسطاط ہى ميں روكا ، ليكن انھوں نے معاويہ سے مقابلے كى تاب نہيں ديكھى اسلئے اس سے صلح كر لى _ صلح كى شرائط ميں ايك شرط يہ بھى تھى كہ محمد اور ان كے ساتھى مصر سے نكل جائيں اور يہ لوگ امان ميں رہيں گے ، ليكن جب محمد اپنے تيس ساتھيوں كے ساتھ مصر سے نكلے تو معاويہ نے بزدلانہ طريقے سے اپنے معاہد ے كے خلاف انھيں قيد كر ليا اور دمشق كے زندان ميں بھيج ديا اخر كار معاويہ كے غلام رشديں نے انھيں قتل كرديا _ محمد نے رسول خدا (ص) كى صحبت بھى پائي تھى (17)
147
اب اس سے پہلے كہ ہم فرزند ابو بكر اور محمد بن حذيفہ كى شورش كا تذكرہ كريں يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ عمر وعاص جو خود فاتح مصر اور عمر كے زمانے سے وہاں كے گورنر تھے وہاں انكى ذمہ داريوں ميں امور ماليات اور امام جماعت دونوں باتيں شامل تھيں ، ليكن اسطرح انكى حكمرانى دير تك باقى نہيں رہى ، عثمان نے ماليات كے امور ميں ان كے ہاتھ كوتاہ كر ديئے اور يہ عہد ہ عبداللہ بن ابى سرح كو ديديا ، اور عمر وعاص كو حكم ديا كہ صرف لوگوں كو نماز پڑھائيں ليكن دير نہيں گذرى كہ يہ بھى ان سے چھين ليا ، اور يہ عہدہ بھى عبداللہ كو ديكر دونوں عہدے اپنے رضاعى بھائي كو ديديئے ، اسطرح ايك بار انھوں نے عمروعاص كے ہاتھ سے مصر كا اقتدار چھين ليا (18)

مصريوں كى شورش
بلاذرى لكھتا ہے :
اسكے بعد كہ تمام مملكت اسلاميہ اور اس پاس كے علاقے عثمان كے خلاف ايك رائے ہو گئے ،چاروں طرف سے اعتراض كى اواز يں بلند ہونے لگيں ،اسى زمانے ميں جبكہ عبداللہ سرح عثمان كى طرف سے مصر كا حكمراں تھا ،محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر مصر ميں وارد ہوئے اور محمد بن طلحہ كے ساتھ اپنے منصوبے ميں ايك رائے ہوگئے ،ان كے مصر ميں انے كى پہلى صبح تھى كہ محمد بن ابى حذيفہ نماز جماعت ميں تاخير سے انے كى وجہ سے مجبور ہو كر اس نے بلند اواز سے كہا ، عبداللہ سرح وہاں موجود تھا ، جب اس نے فرزند ابو حذيفہ كى اواز نماز سنى ، فرمان صادر كيا كہ جس وقت يہ نما ز پڑھ لے ميرے پاس حاضر كيا جائے _
جب محمد كو عبداللہ كے سامنے بٹھا يا گيا تو اس نے فرزند ابو حذيفہ سے پو چھا ،يہاں كيوں ائے ہو ؟
_ كفار سے جنگ ميں شركت كى غرض سے تمہارے ساتھ كون كون ہے ؟
_محمد بن ابى بكر
ميں قسم كھاتا ہوں كہ ايسا نہيںہے ، بلكہ تم لوگ بلوہ اور فساد كرانے ائے ہو ، پھر حكم ديا كہ دونوں كو قيد خانے ميں ڈال ديا جائے _ مجبور ہو كر ان دونوں نے محمد بن طلحہ كا ذريعہ پكڑ ا اور اس سے تقاضہ كيا كہ حاكم كے پاس سفارش كرے كہ ہميں كفار كے خلاف جنگ سے نہ رو كے _ اس تركيب سے عبداللہ نے ان دونوں كو ازاد كر ديا _ اور خود جنگ كيلئے روانہ ہو گيا ، ليكن چونكہ يہ دونوں مشكوك تھے اسلئے حكم ديا كہ ان كے لئے الگ كشتى تيار كى جائے ، اور اسلئے بھى كہ لوگوں سے ان كا ميل جول نہ بڑھے اس سے بھى روكنا تھا _ ليكن فرزند ابو بكر بيمار پڑ گئے ،اور وہ اس موقع پر حاكم مصر كے ساتھ نہيں جاسكے ،مجبورا محمد بن حذيفہ بھى انكى عيادت ميں رك گئے ، جب محمد بن ابى بكر شفاياب ہو گئے تو يہ دونوں مسلمانوں كے ايك گروہ كے ساتھ جھاد كيلئے نكلے _
اس مدت ميں سپاہيوں سے مسلسل ميل جول كى وجہ سے ان سے بات چيت ہوئي ،سپاھيوں نے انھيں ضرورى اطلاعات فراہم كرديں ،اسطرح يہ لوگ خارجى دشمنوں سے جنگ كرنے كے بعد واپس ہوں تو لوگوں كے دلوں ميں عثمان كے خلاف نفرت پيدا كريں ان كے كر توت بيان كر كے غم و غصہ بھر ديں (19)
بلاذرى دوسرى جگہ لكھتا ہے :
جس وقت حاكم مصر نے محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كو حراست ميں ليا تھا ، محمد بن حذيفہ نے لوگوں كو مخاطب كر كے تقرير كى مصر والوں كو جان لينا چايئے كہ ہم نے جہاد فى سبيل اللہ يعنى عثمان كے خلاف جنگ كو ملتوى كر ديا ہے _
تاريخ طبرى ميں ہے _
اسى سال كہ جب عبداللہ كفار سے جنگ كيلئے نكلا ، محمد بن حذيفہ اور محمد بن ابى بكر بھى اسكے ساتھ جنگ كرنے نكلے ،راستے ميں انھوں نے عثمان كى خلاف شرع حركتوں اور برے اعمال كے لوگوں سے تذكرے كرتے رہے _
كہ كس طرح انھوں نے سنت ابو بكر و عمر كو بھى پس بدل ڈالا ہے اب يہى ديكھئے كہ عبداللہ جيسا شخص جسكا خون رسول خدا (ص) نے مباح قرار ديا تھا ، قران نے اسكے كفر كى گواہى دى ہے ، ايسے شخص كو عثمان نے مسلمانوں كے جان و مال كا حكمراں بنا ديا ہے ، پھر يہ كہ طريد رسول كو اپنى پناہ ميں لے ليا ہے (جسے رسول نے دھتكار ديا تھا اسے انھوں نے پناہ ديدى ہے )رسول(ص) خدا نے جسے جلا وطن كيا تھا اپنے پاس بلايا ہے ، انھيں بنيادوں پر عثمان كا خون حلال ہے ، اور اسى طرح كى باتيں اسلامى
149
سپاہيوں سے كہہ ڈاليں تاكہ ان كے دل سے حكومت كى ہمدردى ختم ہو جائے _
نيز يہ بھى لكھا ہے كہ محمد (ص) نے لوگوں سے كہا :
خدا كى قسم ،ہم نے حقيقى جھاد چھوڑ ديا ہے ، پوچھا گيا ، كس جھاد كو كہہ رہے ہو ؟ جواب ديا ، عثمان سے جنگ اور جہاد پھر ان سے بيان كيا كہ عثمان كى كارستانياں كيا كيا ہيں ، يہاں تك كے ان كے دل خلافت سے اسقدر منحرف كر ديئےہ جب جہاد سے واپس اكر اپنے شہر و دربار ميں گئے تو تمام لوگ عثمان كے كرتوتوں كى ايسى ايسى برائياں بيان كرنے لگے كہ اس سے پہلے كبھى نہيں كى تھى (20)
محمد بن ابى حذيفہ اور محمد بن ابى بكر كے پر چار ميںاسقدر تاثير تھى كہ لوگ عبداللہ سرح كى حكومت اور اسكے كرتوتوں كے سخت مخالف ہو گئے جو انھيں مصريوں پر حكومت كر رہا تھا ، اس نے كوئي ظلم باقى ، نہيں ركھا تھا ، يہاں تك كہ عبداللہ نے مصر كے بعض ايسے معزز حضرات جنھوں نے عبداللہ سرح كى شكايت عثمان سے كى تھى انھيں اسقدر مارا تھا كہ ہلاك ہو گئے تھے _
مصريوں نے عثمان سے عبداللہ سرح كى جو داد فرياد كى تھى طبرى اور ديگر تاريخ نگاروں نے اسكى تما م تفصيل لكھى ہے منجملہ ان كے مصر والوں نے اپنى شكايت ميں عثمان كے سامنے ابن عديس كو بات كرنے كيلئے اگے كيا _
اس نے بھى عثمان كے سامنے عبداللہ كے خلاف بيان ديا ، اور ياد دلايا كہ كسطرح مسلمانوں اور ديگر اقليتوں كے ساتھ يہ شخص مظالم ڈھاتا ہے ، مال غنيمت كى تقسيم ميں انصاف نہيں كرتا ، خود اپنے پاس ركھ ليتا ہے ، جب اسكى نا انصافيوں پر اعتراض كيا جاتا ہے تو امير المومنين كا خط دكھاتا ہے كہ خليفہ نے ايسا ہى حكم ديا ہے (21)

اتش فتنہ بجھانے كيلئے امام كى مساعي
ابن اعثم اپنى تاريخ ص46 ميں لكھتا ہے :
مصر كے كچھ معزز افراد عبداللہ بن سعد بن سرح كى شكايت ليكر مدينہ ميں ائے اور مسجد رسول خدا ميں اترے
وہاں انھوں نے مہاجر ين و انصار كے گروہ سے ملاقات كى ، اصحاب نے جب ان كے مدينے انے كى وجہ پوچھيں تو انھوں نے كہا :
اپنے گورنر كى شكايت ليكر ائے ہيں _
حضرت على (ع) نے كہا :
اپنے كاموں اور انصاف طلب كرنے ميں جلدى نہ كرو اپنى شكايت خليفہ كے سامنے پيش كرو ، سارا واقعہ ان سے بيان كرو كيونكہ ممكن ہے كہ مصر كے حكمراں نے خليفہ كے حكم كے بغير يہ سارے كام كئے ہوں ،تم لوگ خليفہ كے پاس جائو ، اور اپنے مصائب ان كے سامنے دہرائو تو عثمان اسكى سختى سے باز پرس كريں گے اسے معزول كرديں گے ، اسطرح تمہارا مقصد حاصل ہو جاے گا ، اگر عثمان نے ايسا نہ كيا اور عبداللہ كے كر توتوں كى تائيد كى تو تم خود سمجھ جائو گے _
مصر والوں نے ان كا شكريہ ادا كيا اور دعائے خير كے بعد كہا صحيح يہى ہے جسے اپ نے بيان كيا ، ليكن ہمارى استدعا ہے كہ اپ خود ہم لوگوں كے ہمراہ وہا ں چليں _ حضرت على نے جواب ديا ، وہاں ميرى موجودگى كى ضرورت نہيں ، تم لوگ خود جائو اور سارا واقعہ ان سے بيان كرو يہى كافى ہے مصر والوں نے كہا :
اگر چہ يہى ہے ليكن ہمارى خواہش ہے كہ اپ بھى ہمراہ چليں اور جو كچھ پيش ائے اسكے گواہ رہيں _
حضرت على (ع) نے انھيں جواب ديا :
جو ذات ہم سب سے قوى تر ہے تمام خلاق پر مسلط ہے اور بند و ں پر سب سے زيادہ مہربان ہے وہ تم سب كا گواہ اور نگراں ہو گا _
اشراف مصر عثمان كے گھر گئے اور اندر انے كى اجازت طلب كى ،جب يہ عثمان كے سامنے پہونچے تو عثمان نے ان كا بڑا احترام كيا ،انھيںاپنے پہلو ميں بٹھايا ، پھر پوچھا _
كس لئے ائے ہو ؟ كون سى مصيبت اپڑى كہ تم بغير ميرے گورنر يا ميرى اجازت كے مصر سے نكل پڑے _
ہم اسلئے ائے ہيں كہ ا پ كے كاموں كى شكايت كريں اور اپ كا گورنر جو ہمارے اوپر ظلم ڈھارہا ہے اسكا مداوا چاہيں _
اسكے بعد ابن اعثم نے اس گروہ كے دلائل جو عبداللہ كے خلاف عثمان كے سامنے پيش كئے اور جو كچھ عثمان اور ان كے درميان واقعہ پيش ايا سارى تفصيل لكھى ہے _

عثمان كے خلاف مدينے والوں كى شورش
عثمان اور ان كے كارمندوں اور حاشيہ نشينوں كى غلط حركات بڑھتى ہى گئيں ،لوگوں كى شكايات اور اعتراض كى كوئي شنوائي نہيں تھى مخالفت و اعتراض كا سيلاب تمام اسلامى مملكت ميں پھيل گيا اخر اس سيلاب نے مدينے كو بھى اپنى لپيٹ ميں لے ليا _
بلاذرى ان حوادث كى اسطرح تشريح كرتا ہے_
جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے تو اكثر اصحاب رسول(ص) خدا ان سے خوش نہيں تھے ، كيو نكہ عثمان ميں اقربا پرورى بہت زيادہ تھى ، اپنى بارہ سالہ مدت خلافت ميں اپنے خاندان كے اكثر ايسے لوگوں كو ولايت و حكومت ديدى تھى ، جنھوں نے رسول كى صحبت بھى نہيں پائي تھى ، ان سے خلاف توقع كام سرزد ہوئے ، اسلئے اصحاب رسول خفا ہوتے اور اعتراض كرتے ، ليكن عثمان ان تمام باتوں كو نظرانداز كرتے ، كسى كا رندے كى سر زنش نہيں كرتے نہ انھيں معزول كرتے تھے ،خليفہ نے اپنے اخر چھہ سالہ دور حكومت ميں اپنے چچيرے بھائي كو تمام مسلمانوں پر برترى ديدى تھى ، انھيں حكومت ديكر لوگوں كى گردنوں پر مسلط كر ديا تھا _
منجملہ ان كے عبداللہ بن ابى سرح كو مصر كى حكومت ديدى تھى اس نے كئي سال مصر پر حكومت كى وہاں كے باشندوں نے بار بار اسكے ظلم و ستم كى شكايت كر كے داد چاہى ،يہاں تك كہ عثمان نے مجبور ہو كر عبداللہ كو خط لكھا اور ڈرايا دھمكايا ، ليكن عبداللہ نے نہ صرف يہ كہ اپنى گھنائو نى حركتيں نہيں چھوڑيں بلكہ ايك شكايت كرنے والے كو اسقدر مارا كہ وہ ہلاك ہو گيا (22)
جب مصائب حد سے زيادہ بڑھ گئے كہ مسلمانوں كو عثمان اور اسكے كارندوں كى غلط حركات برداشت سے باہر ہو گيا تو مدينے كے اصحاب رسول نے تمام شہروں كے مسلمان بھائيوں كو خطوط لكھے اور انھيں عثمان كے خلاف جھاد كرنے پر ابھارا _
طبرى نے اس خط كا متن يوں درج كيا ہے _
تم لوگ جھاد فى سبيل اللہ اور تبليغ دين كے لئے مدينے سے باہر ہو حالانكہ جو شخص تم پر حكومت كررہا ہے وہى دين محمد كو تباہ كر رہا ہے _
ابن اثير كى روايت ميں خط كا فقرہ يہ ہے ،تمھارا خليفہ دين محمد كو تباہ كر چكاہے _
شرح بن ابى الحديد ميں ہے كہ خط كے اخر ميں لكھا گيا تھا ، اسكو خلافت سے خلع كردو (اسكى خلافت كا جوا اتار پھينكو )اسكے بعد تو چاروں طرف سے ناراض لوگوں كا ہجوم پہونچ گيا اور اخر كار انھيں قتل كر ڈالا (23)
بلاذرى لكھتا ہے :
34ھ ميں كچھ اصحاب رسول نے اپنے تمام صحابہ دوستوں كو خط لكھ كر عثمان كى روش بيان كى يہ كہ انھوں نے قوانين اور سنت رسول كو بدل ڈالا ہے اس كے كارندوں نے جو مظالم ڈھائے ہيں انكى چاروں طرف سے شكايتيں ارہى ہيں اگر تم راہ خدا ميں جہاد كے خواہاں ہو توجلد مدينے پہونچو _
اس سال اصحاب رسول ميں ايك شخص بھى عثمان كى طرف سے صفائي دينے والا اور جانبدارى كرنے والا نہيں تھا ،سوائے زيد بن ثابت ( 24)ابو اسيد انصارى اور حسان بن ثابت (25)اور كعب بن مالك كے_
تما م مہاجرين اور دوسرے لوگ حضرت على (ع) كے گرد جمع ہوئے اور ان سے مطالبہ كيا كہ عثمان سے گفتگوكريں اور وعظ و نصيحت كر كے انھيں راہ راست پر لائيں _
حضرت على (ع) عثمان كے پاس گئے اور انھيں نصيحت كى _
لوگ ميرے پاس اكر تمھارے بارے ميں باتيں كرتے ہيں ، خدا كى قسم ميں نہيں جانتا كہ تم سے كيا كہوں، كوئي بات تم سے ڈھكى چھپى نہيں ، جسے ميں بتائوں ، تمھيں راستہ سو جھانے كى ضرورت نہيں جو كچھ ميں جانتا ہوں تم بھى جانتے ہو تم سے زيادہ نہيں جانتا كہ تمھيں اگاہ كروں _
تم نے رسول كى صحبت پائي ہے ، ان سے باتيں سن كر اور ديكھ كر ميرى طرح بہرہ حاصل كيا ہے ، ابو قحافہ اور خطاب كے بيٹے تم سے زيادہ نيك اور شائستہ تر نہيں تھے ، كيو نكہ تم رسول سے دامادى اور رشتہ دارى كى قربت ركھتے ہو ، تم رسول كے داماد ہو اسلئے اپنے اپ ميں ائو اور اپنى جان سے ڈرو تم اسطرح اندھے ہو كر چل رہے ہو كہ تمھيں بينا كرنا بہت مشكل ہے ، اور اسطرح جہالت و نادانى كے كنو يں ميں گر چكے ہو كہ تمھيں باہر نكالنا مشكل ہے _
عثمان نے جواب ديا _
خدا كى قسم ، اگر تم ميرى جگہ پر ہوتے تو اپنے رشتہ داروں كو نوازنے اور صلہ رحم كرنے كى بنا پر ميں تمھيں سر زنش نہيں كرتا ، اگر تم اپنے پريشان حالوں كو پناہ ديتے اور جنھيں عمر نے كاموں پر لگايا تھا انھيں ہٹا كر انھيں مقرر كرتے تو ميں تمھارى ملامت نہ كرتا _
تمھيں خدا كى قسم ہے ، اخر تمھيں بتائو كيا مغيرہ بن شعبہ كو جو كسى طرح بھى لائق نہ تھا ، عمر نے حكومت نہيں دى تھى _
كيوں صحيح ہے
تب اخر كيو ں اب جبكہ ميں نے اپنے رشتہ دارفرزند عامر كو گورنر ى ديدى ہے تو مجھے ملامت كررہے ہو ؟
تمھيں يہ بتا نا ضرورى ہے كہ جب عمر كسى كو حكومت ديتے تھے تو پورے طور سے اس پر حاوى رہتے تھے ، پہلے اسے اپنے پائوں تلے روند ليتے تھے ، جب اسكے خلاف شكايت ملتى تو اس پر سختى كرتے ، اسے حاضر ہونے كا نوٹس ديتے، اور اس بار ے ميں سخت كاروائي كا مظاہرہ كرتے تھے ، ليكن تم نے يہ سب كچھ نہيں كيا ، بلكہ اپنے رشتہ داروں كے سامنے ضعف نفس اور نرمى كا مظاہرہ كر رہے ہو _
كيا يہ لوگ ميرے رشتہ دا ر تمھارے بھى رشتہ دار اور اپنے نہيں ہيں (بيان كيا جا چكا ہے كہ بنى اميہ اور بنى ہاشم چچيرے بھائي ہيں )
ہاں ، اپنى جان كى قسم ، يہ ميرے قريبى رشتہ دار ہيں ليكن ان كے پاس فضيلت و تقوى نام كى چيز نہيں _
ان كے مقابل دوسر و ں كو ميرے نزديك امتياز حاصل ہے _
كيا عمر نے معاويہ كو حكومت نہيں دى تھى ؟
معاويہ اپنے سارے وجود سے عمر سے لرزتا تھا ، ان كا مطيع و فرمان بر دار تھا ، وہ عمر كے غلام ير فا سے اتنا ڈرتا تھا جتنا عمر سے نہيں ڈرتا تھا ليكن وہ بھى اج كل من مانى كررہا ہے ، كاموں ميں بے اعتنائي برت رہا ہے جدھر چاہتا ہے خواہشات كے گھوڑے دوڑاتا ہے اور تمھارى اطلاع كے بغير جو چاہتا ہے كر ڈالتا ہے اور لوگوں سے كہتا ہے كہ يہى عثمان كا حكم ہے اس كسمپرسى كى عوام شكايت كرتے ہيں تو تم ميں ذرا بھى جنبش نہيں ہو تى ، اور نہ كوئي اقدام كرتے ہو (26)
حضرت على (ع) نے يہ فرمايا اور عثمان كے پاس سے اٹھكر چلے گئے ،حضرت على كے جانے كے بعد عثمان منبر پر گئے اور تقرير كے درميان كہا ، ہر چيز كے لئے افت ہے اور ہر كام كے لئے نقصان ہے ، اس امّت كى افت اور نقصان ہے پارٹى بندى اور عيب جوئي كرنے والے لوگ جو ظاہر دارى ميں وہ كام كرتے ہيں جو تم پسند كرتے ہو اور چھپے چورى ايسى حركتيں كرتے ہيں جسے تم پسند نہيں كرتے ، شتر مرغ كى طرح ہر اواز پر دور پڑتے ہيں اور بہت دور كے گھاٹ كو پسند كرتے ہيں _
خدا كى قسم تم لوگ ايسے ہو كہ انھيں چيزوں كوعمر كے زمانے ميں مان ليتے تھے ميرے زمانے ميں تنقيد كرتے ہو ، اور حكم سے سر تابى كرتے ہو ، حالا نكہ عمر تمھيں پيروں سے روند تے تھے ، اپنے ہاتھو ں سے تمھارے سر كو ٹتے تھے ، اپنى زبان كى تيزى سے تمھارى جڑ اكھا ڑ پھينكتے تھے تم لوگ بھى جان كے خوف سے ان كے فرماںبردار رہتے _
ليكن ميں ہوں كہ تمھارے ساتھ نرمى اور ملائمت كا برتائو كرتا ہوں ، اپنى زبان اور ہاتھ كوتاہ كر لئے ہيں ، تو ميرے اوپر سختى كررہے ہو ميرى نا فرمانى كررہے ہو_
اس موقع پر مروان نے بھى كچھ كہنا چاہا ليكن عثمان نے كہا ، چپ رہو (27)

مروان حكم
چونكہ ان تفصيلات ميں مروان كا نام كئي جگہوں پر ايا ہے اسلئے مناسب ہے كہ اس مشھور شخصيت كا تعارف كر ديا جائے كيو نكہ اسكے بعد بنى اميہ كى سلطنت اسى كو ملى _
يہ مروان اس حكم بن ابى العاص كا بيٹا ہے جسكا ہم نے ( وليد كى گورنرى ) كے ذيل ميں تعارف كرايا ہے ، مروان كى كنيت ابو عبدالملك تھى ، جب اسكے باپ حكم كو فرمان رسول (ص) كے مطابق طائف جلا وطن كيا گيا يہ بچہ ہى تھا ، يہ اپنے باپ اور بھائيوں كے ساتھ عثمان كى خلافت كے زمانے تك جلا وطنى كى زندگى گذارتا رہا ، ليكن جب عثمان خليفہ ہوئے تو ان سب كو مدينہ بلا ليا ، مروان كو اپنے سے قريب كر ليا اور كتابت ديوان (سكر يٹرى ) كا عہدہ بھى ديديا مروان كا خليفہ كے يہاں رسوخ ہى اصل وجہ ہے عثمان كى بد بختى اور لوگوں كى رنجش كى ، بالا خر لوگوں نے بغاوت كر دى _
جس زمانے ميں بلوائيوں نے عثمان كا محاصرہ كر ركھا تھا ، مروان باغيوں سے نرمى كے بجائے پيكار پر امادہ ہو گيا ، اس جھڑپ ميں اسكى گردن پر شديد چوٹ ائي اور گردن كى ايك رگ ٹوٹ گئي وہ اخر عمر تك اس چوٹ كى وجہ سے گردن كى كجى جھيلتا رہا ، لوگ تمسخر كے طور پر خيط باطل كہتے تھے _
اسكے بھائي نے مروان كى بيوى كيلئے يہ اشعار كہے ہيں :

فواللہ ما ادرى وافى لسائل
حليلة مضروب القفا كيف تصنع

لجا اللہ قوما امر و اخيط باطل
على الناس يعطى ما يشاء و يمنع

ايك دن حضرت على (ع) نے مروان كو ديكھ كر فرمايا :
( تجھ پر افسوس ہے ، او ر امت محمد (ص) جو كچھ تيرے بچوں سے جھيلے گى اس پر افسوس ہے )
مروان جنگ جمل ميں ، حضرت على (ع) كے خلاف لشكر عائشه ميں شامل تھا جب معاويہ كو حكومت ملى تو اسے مدينہ مكّہ اور طائف كا گورنر بنا ديا ، ليكن 48ھ ميں اس كو ہٹا كر سعد بن ابى العاص كو گورنر بنا ديا _
جس وقت معاويہ بن يزيد بن معاويہ كا شام ميں انتقال ہو گيا اور اس نے كسى كو اپنا جانشين نہيں بنايا تو شام والوں نے مروان كى بيعت كر لي، ليكن ضحاك بن قيس فہرى اور اسكے دوستوں نے عبداللہ بن زبير كى بيعت كرلى ، نتيجے ميں مروان اور ضحاك كے درميان ( مرج راھط دمشق)ميں گھمسان كى جنگ ہوئي ضحاك قتل كيا گيا اور شام و مصر
مروان كے زير نگين اگئے ، اسكے بعد تمام مملكت اسلامى پر قبضہ كرنے كيلئے اس نے يزيد كى زوجہ سے شادى كر لي
ايك دن مروان نے يزيد كے بيٹے خالد كو غصہ ميں ( يا ابن رطبتہ الاست(28))كہكے پكارا ، خالد نے جواب ديا تو امانت ركھنے والوں كے لئے خائن ہے ، پھر جا كر اپنى ماں سے شكايت كر كے سارا مسئلہ بيان كيا خالد كى ماں نے اسكو خود اپنى توہين سمجھ كر بيٹے سے كہا:
يہ بات اپنے ہى تك ركھو ، خاص طور سے مروان نہ سمجھے كہ تم نے مجھ سے كہا ہے اس نے گالى كے بدلے ميں اپنى كنيز وں سے تنہائي ميں منصوبہ بيان كر كے ان سے مدد چاہى اور انتظار كرنے لگى ، جيسے مروان كمرے كے دروازے پر ايا اس نے زمين پر پٹك ديا ، خالد كى ماں نے خود كمبل اسكے منھ پر ڈال ديااور بيٹھ گئي ، اتنى دير بيٹھى رہى كہ مروان مر گيا _
مورخوں نے لكھا ہے كہ مروان ان چند لوگوں ميں ہے جو بيوى كے ہاتھوں مارا گيا (29) اسكے اخلاق ، معتقد ات اور طرز تفكر كى سارى باتيں اگلے صفحات ميں ائينگي_
156

داد خواہوں نے مدينے كا رخ كيا
بلاذرى لكھتا ہے : قتل عثمان كے ايك سال پہلے بہت سے باشندگان كوفہ و بصرہ و مصر مسجدالحرام ميں ايك اجتماع كر كے باہم مشورہ كيا _
كوفيوں كى سردارى كعب بن عبدة النھدى كو ، بصرہ والوں كى مثنى بن مخرمہ عبدى كو اور مصر والوں كى رياست بشر بن عتاب كو دى گئي _
يہ لوگ عثمان كى غلط حركات كا پر چار كريں كہ انھوں نے تغير و تبدل كو جس طرح جائز قرار ديا ہے ، خدا سے عہد و پيمان كر كے جس طرح پائوں سے روندا ہے ان تمام باتوں كو بيان كريں ، اخر ميں ان لوگوں نے پكا عہد كيا كہ عثمان كى غلط حركتوں پر خاموش نہ بيٹھيں گے ، پھر يہ طئے پايا كہ ہر ايك اپنے اپنے شہر و ديار ميں واپس جاكر پيغام بر كے
انداز ميں اس اجتماع كے مذاكرات كا خلاصہ لوگوں سے بيان كرے ، پھر سال ايندہ عثمان كے گھر پر اكر انكى كارستانيوں پر ملامت و سرزنش كريں _
اگر ا س طرح عثمان متنبّہ ہوں اور اپنى غلط حركتوں سے بازا جائيں تو ان لوگوں كا مقصد حاصل ہو جائيگا اور اگر باز نہ ائيں تو ان كے بارے ميں كوئي اخرى اور فيصلہ كن اقدام كيا جائے ، ان تمام لوگوں نے اپنے اس منصوبے پر عمل كيا (30)
چونكہ مصر كے باشندے دوسرے شھروں كے مقابل زيادہ ہى جوش وخروش كا مظاہرہ كر رہے تھے ، اسلئے عثمان نے اس شورش كى گرمى اور انقلاب كى چنگارى بجھانے كيلئے تيس ہزار درھم اور لباس و كپڑوں سے بھرا ايك اونٹ محمدبن ابو حذيفہ كے پاس بھيجا تاكہ مصريوں كا رہبر انقلاب انھيں ٹھنڈا كرے _
محمد بن ابوحذيفہ نے طئے كيا كہ ان تمام چيزوں كو مسجد ميں ركھا جائے تاكہ لوگ اسكا تماشہ ديكھيں ، پھر مسلمانوں كو مخاطب كر كے كہا :
اے مسلمانوكيا تم نہيں ديكھ رہے ہو كہ عثمان كس طرح مجھے دھوكہ دينا چاہتے ہيں ، وہ چاہتے ہيں كہ يہ رشوت ليكر ميں اپنا دين برباد كر دوں _
عثمان كى اس حركت اور فرزند ابوحذيفہ كے رد عمل نے مصريوں كا عناد اور بھى بڑھا ديا ، وہ عثمان كى اور زيادہ عيب جوئي كرنے لگے ، اس حركت كى وجہ سے مصر كے باشندوں ميں محمد بن ابو حذيفہ كى قيادت كا سكّہ اور بھى جم گيا وہ والہانہ انداز ميں انكى بات ماننے لگے (31)
عثمان نے جور قم اس كام كيلئے دى تھى ، وہ مدينے ميں واپس نہيں منگواسكے ، جو وعدے كے مطابق مسجد الحرام ميں لوگوں كو دى جاتى ، بلكہ متعينہ وعدہ اس طرح پورا كيا گيا كہ محمدبن ابى بكر كے ہمراہ مصر سے مدينہ لے جائي گئي_
محمدبن ابى بكر بہت سے مصريوں كے ساتھ مدينہ كى طرف چلے اور محمدبن ابوحذيفہ مصر ہى ميں رہ گئے ، ادھر عبدالرحمن بن عويس بلوى (32) پانچ سو ادميوں كے ہمراہ ماہ رجب ميں مدينے كے ارادے سے نكلے ، انھوں نے مشہور يہ كيا كہ عمرہ ادا كرنے جارہے ہيں _
گورنر مصر عبداللہ بن سعد بن ابى سرح كو جب ان تمام واقعات كى خبر ہوئي تو اس نے ايك تيز رفتار سوارى مدينے روانہ كى اور خليفہ كو رپورٹ دى كہ فرزند عويس بلوى اور اسكے ساتھى اپ سے ملنے كى غرض سے مدينے جارہے ہيں ، فرزند ابو حذيفہ نے اسكو عجرود تك رخصت كيا ، اس نے مشھور كيا ہے كہ عمرہ كى غرض سے مكّہ جارہے ہيں ليكن يہاں اپنے ساتھيوں ميں اعلان كيا ہے كہ ہم عثمان كا سامنا كرنے جارہے ہيں تاكہ اسے معزول كر ديں يا زندگى كا خاتمہ كرديں _
عبداللہ كے قاصد نے مصر سے مدينہ تك كا سفر گيارہ راتوں ميں طئے كر كے حاكم كا پيغام پہونچا ديا ، ادھر مصر والے بغير كسى ٹھہرائو كے مدينے كى طرف بڑھ رہے تھے تاكہ اپنے كو مدينے كے قريب مقام ذو خشب تك پہونچا ديں اور وہيں قيام كريں _
دوسرى روايت ہے كہ :
عبداللہ مصريوں كى اس سياسى سر گرمى كے بارے ميں عثمان سے تبادلہ خيال كى غرض سے اپنے صدر مقام سے چلا ، ابھى وہ ايلہ ہى پہونچا تھا كہ اسے اطلاع دى گئي كہ مصر يوں نے عثمان كے گھر كا محاصرہ كر ليا ہے ، اور محمد بن ابو حذيفہ نے عبداللہ كى غير موجودگى ميں مصر كے اندر بغاوت كردى ہے ، اس صورتحال ميں عبداللہ نے مصلحت يہى سمجھى كہ واپس مصر چلا جائے تاكہ كسى طرح سے اپنى حكومت بچا سكے _
ادھر جب محمد بن ابو حذيفہ نے مصريوں كى مدينے ميں پيش رفت ديكھى كہ عثمان كے گھر كا محاصرہ كر ليا ہے تو عبداللہ كى غير موجودگى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھيوں كى مدد سے بغاوت كردى اور بڑى اسانى سے مصر اپنے قبضے ميں كرليا ، مصر كے باشندوں نے بھى انكى اطاعت كركے دل و جان سے اسكى حكومت مان لى _
انھيں حالات كے درميان جب عبداللہ مصر پہونچا تو محمد بن ابو حذيفہ كے مصر ميں داخل ہونے سے روكا ، اس نے صورتحال كو اپنے مخالف ديكھ كر چشم پوشى اختيار كى اور بگٹٹ فلسطين كى طرف چلا گيا _
وہ وہاں عثمان كے قتل ہونے تك رہا _
طبرى نے زبير كا قول اس طرح لكھا ہے(33)
مصر والوں نے مقام سقيا يا ذو خشب سے عثمان كو خط لكھ كر اپنے ايك ادمى كے ذريعے خليفہ كے پاس پہونچا ، ليكن عثمان نے اس خط كا كوئي جواب نہيں ديا ، حكم ديا كہ خط لانے والے كو ذلت كے ساتھ گھر سے نكال ديا جائے ،عثمان كے پاس ائے ہوئے مصرى لگ بھگ چھ سو ادمى تھے ، وہ چار حصوں ميں بٹے ہوئے تھے ، ہر ايك كا ايك سردار عمر و بن بديل تھے ، صحابى رسول ہونے كى وجہ سے عبداللہ بن عديس نے انھيں كو سب كا سردار بنايا تھا _

مصر والوں كے خط كا متن يہ تھا
بسم اللہ الرحمن الرحيم
اما بعد اس بات كو سمجھ لو كہ;انّ اللہ لا يغير ما بقوم حتى يغير وا ما بانفسھم (خدا وند عالم اس وقت تك كسى قوم كى حالت نہيں بدلتا جب تك وہ خود اپنے اندر تبديلى نہ پيدا كر ے ) اسلئے ہم خدا كو تمھارا نگراں قرار ديتے ہيں اور اسكے غيظ و غضب سے ڈراتے ہيں ، خداوند نے تمہيں دنيا كى اسانياں فراہم كيں اسلئے اخرت كو مت چھوڑو ، كيونكہ اپنا اخرت كا فائدہ نظر انداز نہيں كرنا چاہئے ، اخرت كسى حال ميں فراموش نہيں كرنى چاہيئے _
اس بات كو سمجھ لو كہ ہم لوگ صرف خدا كيلئے غضبناك ہوئے ہيں اور اسى كے لئے راضى ہيں ، اور اب جبكہ ہم نے خدا كى راہ ميں قيام كيا ہے ، اپنى اپى ہوئي تلوار اس وقت تك نيام ميں نہيں ركھيں گے اور چين نہيں ليں گے جب تك تم سب كے سامنے اپنے گذشتہ كرتوتوں سے توبہ نہ كرلو ، اور اپنى حالت كو سامنے واضح كرو ، ہم لوگ اس وسيلے سے اپنى باتيں تمھارے كان تك ڈال رہے ہيں اور تمھارے مقابل ہم لوگوں كا ناصر و مدد گار خدا ہى ہے والسلام

عثمان نے باغيوں سے عہد وپيمان كيا

بلاذرى لكھتاہے :
مغيرہ بن شعبہ نے عثمان سے اجازت طلب كى تاكہ مصريوں سے بات چيت كر كے ان كے مطالبات معلوم كرے ، خليفہ نے انھيں اجازت دي، مغيرہ جب ان كے پڑائو پر پہونچے تو وہ سب كے سب چلّانے لگے_
اے كانے واپس جا ، اے بے حيا واپس جا ، اے منحوس واپس جا ، مجبوراََمغيرہ واپس چلے گئے ، عثمان نے عمرو
عاص كو بلا كر كہا :
تم اس گروہ سے ملاقات كرو ، اور انھيں قران كا حوالہ دو ميں ان كے تمام مطالبات پورے كروں گا _
جب عمرو مصر يوں كے پاس گئے ، تو انھيں سلام كيا ، ليكن سلام كے جواب ميں كہا :
خدا تجھے سلامت نہ ركھے ، اے دشمن خدا واپس جا ، اے نابغہ كے جنے واپس جا ، تو ہمارے نزديك امين نہيں ، نہ تيرى ضمانت پر بھروسہ كيا جا سكتا ہے _
عبداللہ بن عمر اور تمام حاضرين نے عثمان كو مشورہ دياكہ اب صرف حضرت على (ع) ہى اس مہم كو سر كر سكتے ہيں _
جب حضرت على (ع) تشريف لائے توعثمان نے ان سے كہا -;اے ابو الحسن اس سے ملاقات كر كے انھيں كتاب خدا اور سنت رسول كى دعوت ديجئے _
حضرت على (ع) نے فرمايا :
ميں يہ كام اس شرط پر انجام دے سكتا ہوں كہ مجھ سے عہد وپيمان كرو اور خدا كو اس پر گواہ قرار دو كہ جو كچھ ميں ان لوگوں سے وعدہ كروں گا تم اسے پورا كروگے _
عثمان نے كہا : مجھے قبول ہے _
حضرت على (ع) نے عہد وپيمان كو قسم اورخدا كى گواہى سے استوار كر كے جس سے قوى تر ممكن نہيں تھى ، عثمان كے پاس سے چلے ، اور اس گروہ كے سامنے پہونچے تو سب نے چلا كر كہا ، واپس جايئے ، حضرت على (ع) نے جواب ديا_
نہيں ، ميں تمھارے پاس ائوں گا ، اور كتاب خدا پر عمل كى دعوت دوں گا ، تمھارے مطالبات كے بارے ميں وعدہ كروں گا _
اسكے بعد اپ نے ان لوگوں سے وہ سارى باتيں بيان كر ڈاليں جو عثمان اور اپ كے درميان پيش ائي تھيں ، اور انھيں بشارت دى كہ عثمان نے اپنا عہد پورا كرنے كا وعدہ كيا ہے
مصر والوں نے كہا ، كيا اپ اسكى ضمانت ليتے ہيں ؟
اپ (ع) نے كہا _ہاں
انہوں نے كہا _ اگر ايسا ہے تو ہم بھى موافقت كرتے ہيں
ا س وقت كچھ مشاہير و بزرگان مصر حضرت على (ع) كے ہمراہ مدينہ وارد ہوئے اور عثمان كے گھر گئے ، انھوں نے اپنى باتوں ميں خليفہ كے كردار پر سرزنش كى عثمان نے كسى بھى اعتراض كو رد نہيں كيا ، سب كى تصديق كى اور وعدہ كيا كہ ان تمام
خرابيوں كو دور كروں گا مصر كے نمايندوں نے كہا _ ان باتوں كو لكھ كر ہميں ديدو تاكہ ہميں زيادہ اطمينان ہو_ عثمان نے انكى بات مان لى اور اپنے ہاتھوں مندرجہ ذيل تحرير لكھى :
بسم اللہ الرحمن الرحيم
يہ عہد ہے بندئہ خدا عثمان ا مير المومنين كا ان مومنوں اور مسلمانوں كے لئے جو ان سے رنجيدہ ہيں ، عثمان تحريراََ يہ عہد كرتا ہے كہ _
_اج كے كے بعد كتاب خدا اور سنت رسول كے مطابق عمل كروں گا
_جن كے حقوق لئے ہيں انھيں دوبارہ جارى كروں گا
_جو لوگ ميرے غضب سے ڈرے ہوئے ہيں انہيں امان ديكر انكى ازادى كيلئے كاروائي كروں گا
_جلاوطن لوگوں كو ان كے وطن واپس كروں گا
_سپاہيوں اور فوجيوں كو زيادہ عرصے تك محاذ پر نہيں ركھوں گا
_جنگى غنائم كو بغير كسى رعايت و استثناء كے سپاہيوں كے درميان تقسيم كروں گا
عثمان كى طرف سے حضرت على بن ابى طالب بھى مومنوں اور مسلمانوں كے ساتھ اس عہد وپيمان كے نفاذ كى ضمانت ليتے ہيں _
مندرجہ ذيل اشخاص نے اس عہد كى صحت پر گواہى دى _
زبير بن عوام ، طلحہ بن عبداللہ ، سعد بن مالك بن ابى وقاص ، عبداللہ بن عمر ، زيد بن ثابت ، سھيل بن حنيف ، ابو ايوب خالد بن زيد _
پھر اسكے بعد ہر گروہ نے اس عہدنامہ كى ايك كاپى لى اور واپس چلے گئے _

------------------------------------------------
1_ صفدريہ اردن ميں ايك ديہات ہے ، عقيل كا اشارہ سمجھنے كے لئے وليد كے بارے ميں گذشتہ باتيں پڑھيئے تو اسكا نسب سمجھ ميں ائے گا
2_اس شعر كا مطلب يہ ہے، اے بنى اميہ خداوند عالم ميرے اور تمھارے درميان جدائي ڈال دے كيونكہ جو تم ميں مال دار ہوتا ہے ، تو اس سے اچھا سلوك كرتے ہو اور اگر فقير ہو جاتا ہے تو تم سے قطعى نا اميد ہے
3_ اس رجز كا مطلب يہ ہے ، جو لوگ كہ مسجد بنانے ميں كوشاں ہيں اور اس كام ميں برابر دوڑ دھوپ كر رہے ہيں ، اسكے برابر وہ لوگ نہيں ہو سكتے جو اسكے گرد و غبار سے پرہيز كر رہے ہيں اور الگ تھلگ ہيں
4_سيرة بن ھشام ج2ص 114 _شرح سيرة بن ھشام بقلم ابوذر خشنى متوفى 604 ھ حديث كى عربى عبارت ہے مالھم لعمار يد عوھم الى الجنة و يدعونہ الى النار ان عمارا جلدة مابين عينى وانفى فاذا بلغ ذلك من الرجل فلم يستبق فاجتنبوہ
5_ حديث ہے : ويح ابن سميہ ليسوا بالذى يقتلونك انما تقتلك الفئة الباغيہ
6_ اليوم القى الاحبة 2_ عمار ياسر پنجشنبہ كے دن عصر كے وقت و صفر 35ھ ميں 93 سال كى عمر ميں شہيد ہوئے اپ كے حالات استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، بخارى كتاب جھاد ميں ديكھئے
7_ابوذر غفارى ، رسول خدا كے خاص صحابى انكا روحانى مرتبہ بہت بلند اور عوام كے زبان زد تھا ، انھوں نے عثمان پر پئے در پئے اعتراضات كئے اسلئے عثمان كے حكم سے ربذہ جلا وطن كر دئے گئے ؟ وہيں انتقال فرمايا ، اس سلسلے ميں كتاب عبد اللہ بن سبا ديكھى جائے
8_ يا عاض ايرابيہ ، يہ بڑى گندى گالى ہے ايسا غير مہذب فقرہ ہے كہ اسكے ترجمے سے بھى شرم اتى ہے اس لئے ميں نے اصل لفظوں ہى كو لكھ ديا ہے تاكہ اس حصے كى اخرى حديث عثمان كى حيا كا نمونہ بن جائے ، كہاں تو فرشتے بھى عثمان سے شرم كرتے ہيں (سردار نيا )
9_ بلاذرى ج5 ص49 ، تاريخ يعقوبى ج2 ص150
10_ بلاذرى ج5 ص49 عقد الفريد ج2 ص272 اس خط كى تفصيل ابن قتيبہ نے الامامة والسياسة ميں لكھى ہے
11_ يہ بہت گندى گالى ہے جو اولين اسلام حضرت سميہ كو دى گئي ، يہ عثمان كے شرم و حيا كا دوسرا ثبوت ہے ( سردار نيا )
12_قسريہ عرب كا ايك قبيلہ تھا جسے قريش سے نہيں سمجھا جاتا ،اسى لئے عثمان نے انھيں ماں كى طرف سے سرزنش كى ، ليكن ھشام كے باپ قريش سے سادات بنى مخزوم كى فرد تھے ، جواب ميں كہنا چاہتے تھے كہ قسريہ كى طرف نسبت باعث ننگ نہيں، ميرى ماں اور نانا دونوں قسريہ ہيں اسى لئے كہا كہ ميں دو مائوں سے قسريہ ہوں
13_ بلاذرى ج5 ص 48
14_ بلاذرى ج5 ص 49 _ تاريخ يعقوبى ج2 ص 147
15_ استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، ا نساب الاشراف ، مستدرك ،تفسير قرطبى وديگر تفاسير ، ابن ابى الحديد
16_ حالات محمد بن ابى بكر كيلئے استيعاب ج3 ص328 ، اصابہ ج3 ص451 اور ديگر تاريخيں ديكھى جا سكتى ہيں
17_ تاريخ طبرى ج5 ص 108
18_ استيعاب ج3 ص321 ، اسد الغابہ ج4 ص 315 ، اصابہ ج3 ص54 اور تاريخ طبرى ابن اثير در ذكر حوادث سال 30 تا36ھ
19_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 50 و تاريخ طبرى در بيان غزوہ ذات الصوارى سال 31
20_ تاريخ طبرى ج5 ص 70_ 71
21_ تاريخ طبرى ج5 ص 118 و ابن اثير ج3 ص 70
22_ انساب الاشراف بلاذرى ج 5 ص 25 _ 26
23_ طبرى ج5 ص51 ،ابن اثير ج5 ص70 ، شرح بن ابى الحديد ج1 ص165
24_زيد بن ثابت بن ضحاك انصارى ، انكى ماں كا نام نوار بنت مالك تھا ، يہ پہلے كاتب رسول تھے ، پھر يہى خدمت عمرو ابوبكر كى بھى كى ، جب عمر و عثمان مدينے سے مكہ جاتے تو انھيں كو جانشين بناتے زيد عثمان كے زمانے ميں بيت المال كے خزانچى تھے ، ايك دن عثمان زيد سے ملنے گئے تو زيد كا غلام وھيب گيت گارہا تھا ، عثمان كو اواز پسند ائي اسكا ہزار درہم سالانہ وظيفہ مقرر كر ديا ، زيد عثمان كے شديد حمايتى تھے ، انكى موت كى تاريخ ميں اختلاف ہے 42،سے 55 تك لكھا گيا ہے ، مروان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي ، ابو اسيد ساعدى اور كعب بن مالك بھى ان اصحاب ميں ہيں جنھوں نے بدر اولى اور ديگر غزوات ميں شركت كى ، صرف تبوك اور بدر ميں شركت نہيں كى ، ابو اسيد قتل عثمان سے پہلے اندھے ہو گئے تھے ، انكى تاريخ انتقال كے بارے ميں اختلاف ہے
25 _ حسان بن ثابت انصارى كى كنيت ابو عبدالرحمن تھى ، مشھور شاعر قبيلہ خزرج سے تھے ، ان كى ماں كا نام فريعہ بنت خالد انصارى تھا ، حسان كے بارے ميں رسول خدا نے فرمايا تھا ، خدا حسان كى اسوقت تك تائيد كرے جب تك وہ رسول كى مدح كرتا رہے ، حسان نے خوبصورت اسلوب ميں اشعار كہے رسول كى تعريف كى ، اور كفار كى ہجو كى ، حسان بہت بزدل تھے ، جنگ خندق كے موقع پر رسول خدا نے حسان كو بچو ں اور عورتوں كا نگراں بنايا تھا تاكہ دشمنوں كى نظر سے پوشيدہ رہيں ، عورتوں ميں صفيہ بھى تھيں ، اسى درميان ايك يہودى قلعہ كى ديوار سے جاسوسى كرنے لگا ، صفيہ نے حسان سے كہا اسے موقع نہ دو كہ ہمارى خبر ہو ، رسول خدا ھم سے مطمئن ہو كر جھاد كر رہے ہيں جاكر اس يہودى كو قتل كر دو ، حسان نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب ، تم خوب جانتى ہو كہ ميں اس ميدان كا انسان نہيں ہوں ، ميرے پاس حوصلہ نہيں ، صفيہ نے يہ سنكر خيمے كا ستون ليا اور قلعہ سے نكل كر يہودى كے سر پر مارا اور فاتحانہ قلعے ميں داخل ہوئيں ، حسان سے كہا ، اب جاكر اسكے كپڑے اتار لو ، حسان كو جيسے ڈر لگ رہا تھا كہ يہودى مقتول كے ساتھى ہجوم كركے اجائيں ، انھو ں نے جواب ديا ، اے دختر عبدالمطلب مجھے ان كپڑوں كى ضرورت نہيں حسان اسى بزدلى كى وجہ سے كسى جنگ ميں شريك نہيں ہوئے اور اس سعادت سے محروم رہے رسول خدا نے ماريہ كى بہن شيريں حسان كو بخش دى تھى جس سے عبدالرحمن تولد ہوئے ،يہ عبدالرحمن رسول خدا كے فرزند ابراہيم كے خالہ زاد بھائي تھے ، حسان نے اپنے باپ دادا كى طرح طويل عمر پائي 40 يا 50 يا54 ،ميں ايكسوبيس سال كى عمر ميں مرے ، اسد الغابہ استيعاب اصابہ ديكھئے كعب بن مالك انصارى قبيلہ خزرج سے تھے ، كنيت ابو عبداللہ يا ابو عبد الرحمن تھى ، ماں كا نام ليلى بنت زيد بن ثعلبيہ خزرجى تھا ، كعب نے عقبہ كى رات مكّے ميں (بيعت عقبہ ) كے موقع پر بيعت كرتے ہوئے رسول خدا كا ہاتھ دبايا تھا كعب نے تما م غزوات ميں شركت كى سوائے بدر و تبوك كے ، يہ ان تين افراد ہى تھے جنھوں نے تبوك نہ جانے ميں پشيمانى جھيلى اور توبہ كى اور قبوليت توبہ كى ايت اترى ، كعب شاعروں كى بڑى عزت كرتے ، بيت المال سے بخشش زيادہ كرتے بلا سبب مسلمانوں كا مال دے ڈالتے ، اسى لئے يہ دونوں عثمان كے زبردست حمايتى تھے
26_قارئين كى توجہ ان دونوں سابقين اسلام كى باتوں كى طرف موڑنا چاہتا ہوں ، خاص طور سے عثمان كے دلائل كى طرف جو مسلمانوں كے خليفہ ہيں اورحضرت على كے اعتراضات كے جواب ميں كہتے ہيں كہ مغيرہ بن شعبہ نا لائق تھا ليكن اسے عمر نے حكومت دى ، فرزند عامر كو خود عثمان اور دوسرے تمام لوگ نالائق سمجھ رہے ہيں ، ليكن اسے حكومت ديدى ، معذرت ميں صلہء رحم كا حوالہ دے رہے ہيں ، معاويہ كو حكومت ديدى جبكہ پورے طور سے جانتے ہيں كہ مسلمان كے بيت المال كو لوٹ رہا ہے ، مسلمانوں پر ظلم و تعدى كر رہا ہے (سردار نيا )
27_ بلاذرى ج5 ص60 ، تاريخ طبرى ج5 ص96 ، ابن اثير ج3 ص63 ، ابن ابى الحديد ج1 ص303 ، ابن كثير ج7 ص168
28_ انتہائي غير مہذب اور گندى گالى ہے
29_ حالات مروان كے لئے اسد الغابہ ج4 ص384 اور اسيتعاب و اصابہ ديكھئے
30_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 59
31_ تاريخ طبرى ج5 ص115 ، بلاذرى ج5 ص51
32_ عبدالرحمن بن عويس بلوى ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے حديبيہ كے موقع پر بيعت رضوان ميں شركت كى ، وہ فتح مصر كے وقت موجود تھے ، وہيں سے انھوںنے مصريوں كے ساتھ عثمان كے خلاف شورش ميں حصہ ليا ، معاويہ نے انھيں فلسطين ميں قيد كر ديا جب وہ قيد خانے سے بھاگے تو36ھ ميں قتل كا فرمان ديا ، اصابہ 4_ 171 ديكھى جائے
33_ تاريخ طبرى ج 5 ص 111 _ 112 _ بلاذرى ج 5 ص 64_65 ، ابن اثير ج3 ص 68 ، شرح نہج البلاغہ ج1 ص 162 تا 164