تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه
 



عمر و عاص 6ھ ميں فتح مكہ سے چھ مہينے قبل اسلام لائے ، اور خليفہ عمر كے زمانے ميں مصر ان كے ہاتھوں فتح ہوا تو عمر كے حكم سے وہاں كے گورنر بن گئے ، خلافت عثمان كے چوتھے سال تك وہ وہاں كے گورنر رہے ، پھر عثمان نے انھيں معزول كر ديا ، اسى وجہ سے عمر و عاص اس گروہ ميں شامل تھے جنھوں نے عثمان كى شديد مخالفت كى ، ان كے خلاف پر چار كر كے لوگوں كو ابھارتے ، يہاں تك كہ عثمان قتل كر دئے گئے _
اسكے بعد عمر وعاص معاويہ سے مل گئے اور انتقام خون عثمان كا نعرہ لگا كر على سے جنگ كي، انھيں كى عيارى سے جنگ صفين ميں قران نيزوں پر بلند كيا گيا ، جنگ اپنے اخرى مرحلے ميں تھى اور معاويہ كا كام تمام ہونا ہى چاہتا تھا كہ جنگ كا نقشہ پلٹ گيا _
جب حضرت على (ع) كے سپاہيوں نے اپنى جانب سے ابو موسى اشعرى كو حكم بنايا تو معاويہ نے اپنى طرف سے عمر و عاص كو حكم بنايا ، اخر كا ر عمر و عاص نے ابو موسى كو دھوكا ديا كہ على كو خلافت سے معزول كر ديا جائے ، اور ذرا موقع دئے بغير انھوں نے معاويہ كو خليفہ نامزد كر ديا ، اس حسن خدمت كے بدلے اور پہلے سے طئے شدہ معاہد ے كے مطابق انھيں مصر كى حكومت مل گئي ، محمد بن ابى بكر كے قتل ہونے كے بعد 43ھ تك يا كچھ بعد تك مصر كے حكمراں رہے ، وہيں ان كا انتقال ہوا اور وہيں دفن كئے گئے استيعاب ، اسد الغابہ ، اور طبقات ديكھى جائے _

مغيرہ بن شعبہ
مغيرہ بن شعبہ بن ابو عامر بن مسعود ثقفى ، جنگ خندق كے زمانے ميں اسلام لائے اسكے بعد مدينہ ہجرت كى ، جنگ حديبيہ ميں شريك تھے ، رسول خدا نے ان كو ابو سفيان كے ساتھ بنى ثقيف كے بتوں كو توڑنے كيلئے بھيجا ، مغيرہ كى انكھ جنگ ير موك ميں چلى گئي ، وہ عمر كى طرف سے بصرہ كے گورنر مقرر كئے گئے اور جب ان پر زنا كا الزام لگايا گيا اور لوگوں نے گواہى دى تو انھيں معزول كر ديا ، ليكن كچھ دن بعد كوفے كى گورنرى ديدى ، اخر كار جب وہ معاويہ كى طرف سے كوفے كے گورنر تھے انتقال كيا ، كہتے ہيں كہ انكى تين سو بيوياں تھيں اور بعض روايات ميں ہے كہ ايك ہزار عورتوں سے مسلمان ہونے كے بعد شادى كى (1)

سعد بن ابى وقاص
ابو اسحق كنيت تھى ، سعد نام تھا جوابى وقاص كے بيٹے تھے ، ابى وقاص كا نام مالك بن اھيب تھا جو قريش كے قبيلہ زھرہ سے تھے _
سبقت اسلامى ميں ان كا ساتواں نمبر ہے ، وہ مسلمانوں ميں پہلے تير انداز تھے جنگ بدر اور تمام غزوات ميں شركت كى ،فتح عراق كے موقع پر وہ سپہ سالار اسلام تھے ، انھوں ہى نے وہاں شھر كھولا اور شہر كوفہ كى بنياد ڈالى ، پھر عمر كى طرف سے وہاں كے گورنر ہوئے ، عمر نے انھيں مجلس شورى كا ايك ركن مقرر كيا تھا سعد نے قتل عثمان كے بعد گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى ، اخر كا ر 50ھ ميں اس زھرسے جسے معاويہ نے عيارى سے انھيں كھلا ديا تھا انتقال كيا انھيں بقيع ميں دفن كيا گيا ()
اب ہم پھر اپنے مطلب پر واپس اتے ہوئے خليفہ عمر اور ام المومنين عائشه كے احترامات متقابل كا تجزيہ كرتے ہيں
جس نے قيصر و كسرى كو زير نگين كيا ، انكى حكومت قبضے سے نكال كر اينٹ سے اينٹ بجادى ، جس نے اصحاب رسول پر كوڑے برساكر اپنى مطلق العنانى كا مظاہرہ كيا ، جس شخص كا نام سنتے ہى طاقتور سلا طين اور فرماں روا كانپ جاتے ، ہم ديكھتے ہيں كہ اپنے كو ام المومنين عائشه جيسى خاتون كے سامنے كسقدر حقير سمجھتا ہے ، عاجزى و انكسارى كا مظاہرہ كرتا ہے _
اپنى اخرى ارامگاہ كو انكى اجازت پر منحصر سمجھتا ہے
اسكا گھر شورى كا محل و مقام قرار ديتا ہے تاكہ وہيں عائشه كے گھر ميں مقتدر اسلامى حكومت و خلافت طئے پائے اور مسلمانوں كا حكمراں معين ہو ، اور اس ذريعے سے مسلمانوں كى نظر ميں ان كا مرتبہ و مقام زيادہ سے زيادہ بڑھے انھوں نے اپنے اس اقدام سے تمام دنيائے اسلام كى توجہ ان كے اور انكے گھر كى طرف موڑ دى اور خاص موقع شناسى كے ماتحت ان كا مرتبہ و مقام اسقدر بلند كيا كہ زندگى كى اخرى گھڑيوں ميں كوشش يہى رہى كہ مسلمانوں اور اسلامى معاشرے كى نظر ميں ان كا مرتبہ بلند تر رہے ، اس اقدام اور ان جيسے اقدامات سے عمر نے اپنى خلافت كے زمانے ميں ام المومنين كو اپنے ہمعصروں اور تمام مسلمانوں كے اسقدر ممتاز اور بر تر قرار ديا كہ انكى عظمت كے سامنے اسلامى معاشرہ حقير بن گيا ، اسكى وجہ سے وہ اسقدر طاقتور بن گئيں كہ ان كے بعد دو خلفاء سے انھوں نے شديد اختلاف كيا اور جنگ كرنے كيلئے نكل ائيں _
جى ہاں _ انھوں نے رسول كے دو دامادوںعثمان اور على سے اسقدر شديد اختلاف كيا كہ مسلمانوں كو ان كا خون بہانے كا حكم ديديا ، حالانكہ يہ دونوں اصحاب رسول اور مسلمانوں كے خليفہ تھے ، رسول خدا كے جانشين سمجھے جاتے تھے ، انھوں نے اپنے اثرات اور طاقت سے ايسے حوصلہ مندانہ اقدامات كئے ، اس بار بھى انھوں نے تاريخ اسلام كى رفتارپر اپنى ذہانت كى مدد سے حساس نقوش قائم كئے _

بكھرى نكھرى باتيں يہاں تك كہ جو كچھ بيان كيا گيا اسكا خلاصہ يہ ہے كہ جب حكومت وقت ، خاص طور سے خلافت شيخين كے زمانے ميں ام المومنين عائشه سے فتوى اور احكام حاصل كرتى ، انكى اہميت كو تمام ازواج رسول سے بڑھا چڑھا كر پيش
كرتى ، ان كا نام سب سے اوپر ليا جاتا ، ان كے نام كے درميان كسى دوسرى خاتون كا نام نہيں تھا ، اسكى تہ ميں يہ علت كار فرما تھى كہ خلافت اپنے تمام مرتبہ و مقام كے ساتھ ان كى طرف اپنى عنايات مركوز ركھتى تھى ، اور اسى راستے سے حكومت وقت اپنے مقاصد حاصل كرتى ، انكى ذاتى بلند پروازى كا ماحول تيار كرتى اور اج تك مسلمانوں اور اسلامى معاشرے ميں ان كا اسى وجہ سے رتبہ بلند ہے _
تمام ازواج رسول كے مقابل صرف انھيں كا مدينے سے نكلنا روكا گيا ، ان كے ساتھ دوسرے اصحاب كا ملنا جلنا بند كيا گيا ، اس زمانے ميں احاديث رسول كى روايت كم ہونے كى بنيادى وجہ يہى ہے ، كيونكہ زيادہ تر ان كے ہم عصر ، خاص طور سے مدينے كے باشندوں كو صحبت رسول كا شرف حاصل تھا ، اسى وجہ سے انكى احاديث ، دوسروں كى حديثوں كے مقابل حكومت شيخين كے زمانے ميں تعداد كے لحاظ سے بہت كم اور احتمال قوى ہے كہ سيكڑوں تك بھى نہيں پہونچتى ، يہ بھى احتمال ہے كہ اس مقدار كى حديثيں جو اس دور ميں روايت كى گئيں وہى احاديث ہيں جن سے ان كے باپ ابو بكر اور عمر كى خلافت كى تائيد ہوتى ہے ، ان ميں عثمان كا نام نہيں ہے جبكہ وہ خلافت شيخين كے زبردست حمايتى تھے ، اسى طرح فضائل ابوبكر و عمر كى حديثيں ان كے زمانہ حكومت ميں بطور نص كہى گئيں ، اسى عہد كى ہيں بلكہ ان لوگوں كے مرنے كے بعد انھوں نے تمام عمر ان كے فضائل و مناقب ميں حديثيں بيان كيں _
اور بالاخر ہم نے ديكھا كہ اس عہد كے ختم ہونے كے بعد عمر جو صحابى رسول تھے سلاطين زمان ان كے سامنے جھكتے تھے ، مختلف قوموں نے گردن جھكا دى تھى ، وہى عمر نے عائشه كى اسقدر جلالت قدر ظاہركرتے ہيں كہ انكى اجازت سے اپنى اخرى ارامگاہ قرار ديتے ہيں اور ان كے گھر كو دار الشورى بناديا ، اسى لئے ان كا وظيفہ تمام ازواج رسول سے زيادہ تھا ، مختلف موقعوں پر صرف انھيں سے سنت رسول دريافت كر كے شرعى ذمہ دارى حاصل كى گئي ، اكيلى انھيں كى شخصيت كو عالم اسلام ميں برترى دى گئي اور اپنے بعد عالم اسلام كے حاكم كى حيثيت سے متعارف كرايا گيا _
انھيں اتنى طاقت عطا كر دى گئي كہ ان كے بعد دونوں خليفہ سے مخالفت پر كمر بستہ ہو گئيں اور لوگوں كو ان كے قتل پر ابھارا اور اسطرح انھوں نے تاريخ اسلام كى رفتار متعين كرنے ميںحساس اور اہم ترين رول نبھايا_

فصل سوم
عائشه ... حكومت عثمان كے زمانے ميں
عثمان كون تھے ؟
ابو عبد اللہ اور ابوعمر و كنيت تھى ، عثمان بن عفان نام تھا ، قريش كے اموى خاندان ميں ابو العاص كى نسل سے تھے _
انكى ماں كا نام اروى تھا جو كريزبن ربيعہ بن عبد شمس كى بيٹى تھيں اروى كى ماں كا نام بيضاء بنت عبد المطلب تھا جو رسول كى پھوپھى تھيں ، عثمان ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے بہت پہلے اسلام قبول كيا _
انكى شادى رسول(ص) خدا كى بيٹى رقيہ سے ہوئي ، ان كے ساتھ حبشہ ہجرت كى وہاں سے واپسى كے بعد مدينہ ہجرت كى _
عثمان نے اپنى بيوى رقيہ كى عيادت كے بہانے جنگ بدر ميں شركت نہيں كى ،
جب رقيہ مر گئيں تو رسول كى دوسرى بيٹى ام كلثوم سے شادى كى ، ام كلثوم نے بھى باپ كى زندگى ہى ميں انتقال كيا ،
رسول(ص) خدا كى ان دونوں بيٹيوں سے عثمان كى كوئي اولاد نہيں ہوئي ; غلام مغيرہ ابو لولو كے ہاتھوں جب عمر زخمى ہوئے تو انھوں نے شورى كميٹى ميں عثمان كا نام بھى شامل كيا ،
ليكن اخرى مرحلے ميں شورى كميٹى كى ايك فرد عبد الرحمن كے انتخاب پر معاملہ منحصر ہو گيا ، اس ميں عبد الرحمن نے اعلان كيا كہ ميں خود خلافت سے دستبردار ہوتا ہوں اس شرط سے كہ ميں جسكى خلافت مان لوں تم لوگ بھى اسكو تسليم كر لو ،
جب انكى پيشكش مان لى گئي تو انھوں نے اعلان كيا كہ ميں اسى كى بيعت كروں گا جو كتاب اللہ اور
سنت رسول اور سيرت شيخين كى پيروى كرنے كا عہد كرے ،
پہلے يہ پيشكش على كے سامنے ركھى گئي ، على نے اخرى شرط (سيرت شيخين پر عمل ) قبول نہيں كى (2) نتيجے ميں عبد الرحمن عثمان كے ہاتھ پر بيعت كر لى كيونكہ انھوں نے عبد الرحمن كى تينوں شرطيں مان لى تھيں ، ان كے بعد عثمان كى بيعت بروز شنبہ پہلى محرم 24ھ سب نے كر لى _
عثمان خليفہ ہو گئے ، انھوں نے بارہ سال حكومت كى ، ہم انكى حكومت كا زمانہ دو حصوں ميں تقسيم كرتے ہيں ، ايك تائيد و حمايت كا دوسرا غصہ و بغاوت كا اخر كار وہى غصہ اور بغاوت يا ملك كى لا چاريوں كے خلاف عوامى قيام اور عثمان كے خاندان والوں كے كرتوت تھے ، جس نے عثمان كو تخت حكومت سے تختہ ء تابوت تك پہونچا ديا ، خليفہ بڑى اسانى سے قتل كر دئے گئے _
جيسا كہ ہم نے حالات ام المومنين كے ذيل ميں بيان كيا كہ عثمان كے قتل ميں عائشه نے بڑا اہم رول نبھايا ، عثمان كى تاريخ قتل ميں اختلاف ہے ، بارہ سے اٹھائيس ماہ ذى الحجہ 35ھ تك كے اقوال ہيں اسى طرح انكى عمر بھى 82سے 92 سال تك لكھى گئي ہے _
عثمان كا جنازہ تين روز بعد جنت البقيع كے باہر يہوديوں كے قبر ستان جس كا نام حش كوكب تھا ، اور بقيع اور اسكے درميان ديوار حائل تھى ، دفن كيا گيا ، جب معاويہ خليفہ ہوئے تو حش كوكب كى ديوار منہدم كر كے جنت البقيع ميں شامل كر ديا _

عائشه اور عثمان
تائيد و حمايت كا زمانہ
خلافت عثمان كا ابتدائي زمانہ ابو بكر و عمر كى حكومت كى طرح گذرا ، اور عائشه ايسا سمجھ رہى تھيں كہ پہلے كى طرح خليفہ عثمان بھى ميرا احترام كريں گے ، اور دوسرى ازواج رسول پر ان كا امتياز محفوظ ہے ، ان كا اقتدار جيسا پہلے تھا اج بھى ہے ، يہى وجہ تھى كہ عائشه بھى قريش كے دوسرے سربر اوردہ افراد كى طرح عثمان كى تائيد و حمايت ميں امادہ تھيں ، انھوں نے عثمان كے بارے ميں بے دريغ احاديث بيان كيں ، انكى شخصيت و خلافت كى حمايت كا اعلان كيا _
جو احاديث عثمان كى مدح و ستائشے ميں مروى ہيں ان ميں عثمان كے قتل ہونے كى بات نہيں ہے ، زيادہ احتمال يہ ہے كہ يہ احاديث اسى مختصر زمانے ميں روايت كى گئيں ہيں جس زمانے ميں وہ تائيد و حمايت كرتى تھيں ، اس قسم كى احاديث كے نمونے مسند احمد بن حنبل سے نقل كئے جاتے ہيں _
عائشه كا بيان ہے كہ ميں اور پيغمبر خدا(ص) ايك لحاف ميں ليٹے ہوئے تھے ، اتنے ميں ابو بكر نے اندر انے كى اجازت مانگى ، پيغمبر(ص) نے اسى حالت ميں كہ وہ ميرى اغوش ميں زير لحاف تھے ، اجازت ديدى كہ اندر اجائيں ، ابو بكر اندر ائے اور اپنى باتيں كہنے كے بعد باہر چلے گئے ، ابو بكر كے بعد عمر نے انے كى اجازت مانگى ، اس بار بھى پيغمبر(ص) نے اسى حالت ميں بلاليا اور باتيں پورى كر كے روانہ كر ديا ، جب عمر باہر گئے تو عثمان نے پيغمبر (ص) سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسول خدا (ص) نے اس بار اٹھكر اپنے كپڑے درست كئے ، پھر اندر انے كى اجازت دى ، عثمان اپنے كام كے بعد واپس گئے ، اس موقع پر ميں نے رسول خدا (ص) سے كہا ، ابوبكر و عمر كو اپ سے ملنا تھا اپ نے اسى حالت ميں ان سے ملاقات كى ، نہ اٹھكر بيٹھے نہ كپڑے ٹھيك ٹھاك كئے ، ليكن جس وقت عثمان ائے تو اپ نے خود كو ا س طرح ٹھيك ٹھاك كيا جيسے اپ ان سے شرم كرتے ہيں ؟
رسول خدا (ص) نے فرمايا: عثمان بہت زيادہ شرميلے اور حيا دار ہيں ، ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں ميرے پاس ائے تو شرم و حيا كى وجہ سے اپنے مطالبات نہ بيان كريں گے _
ايك دوسرى روايت كى بناء پر ( 3) عائشه كا بيان ہے كہ رسول(ص) خدا بستر پر سوئے ہوئے ميرى چادر تانے ہوئے تھے ، يہاں تك كہ جب عثمان نے ملاقات كيلئے اجازت مانگى تو پيغمبر(ص) نے مجھے حكم ديا ، اپنے كپڑے پہن لو _
عائشه نے كہا ، اے رسول(ص) خدا ، ابوبكر و عمر كى امد پر اپ اتنے بے حواس نہيں ہوئے اب اپ عثمان كے انے پر اتنى تيارى كر رہے ہيں كہ اپنے كپڑے پہن رہے ہيں ؟
ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا :
اے عائشه ميں ايسا كيوں نہ كروں اور اسكا احترام نہ كروں حالانكہ خدا كى قسم فرشتے بھى عثمان سے شرم وحيا كرتے ہيں (4)
ميرے خيال ميں اس حديث كو خلافت عثمان كے زمانے ميں بيان كيا گيا ہے ، كيونكہ جيسا كہ ہم اس حديث ميں ديكھ رہے ہيں ، اس حديث ميں بھى خلفاء ثلثہ كے نام اسى ترتيب سے لئے گئے ہيں جس ترتيب سے وہ ہوئے ہيں ، يہ چيز بجائے خود ہميں سمجھاتى ہے كہ شيخين كے بعد جب عثمان مسند خلافت پر بيٹھے ہيں تو اسے بيان كيا گيا ہے _
نيز يہ بھى واضح ہوتا ہے كہ حديث بالا اس وقت بيان كى گئي ہے جب ابھى عائشه كو عثمان سے اختلاف نہيں ہوا تھا ، نہ رنجش ہوئي تھى ، بلكہ قتل عثمان سے بہت پہلے بيان ہوئي ہے ، بلكہ اس سے بھى بہت پہلے جب عائشه انتقام خون عثمان كيلئے كھڑى ہوئي تھيں ، روايت ہوئي ہے
كيو نكہ اگر اس كے علاوہ بات ہو تو اسميں دوسرى احاديث كے مانند ان كے قتل ہونے كا بھى تذكرہ ہوتا ، ان تمام باتوں كو نظر انداز بھى كر ديا جا ئے تو يہ بات بہت واضح ہے كہ رسول(ص) خدا خود ادب و اخلاق كا سمندر تھے ، اخلاق كے مربى تھے ، بنا بريں يہ حديث رسول كو اپنى زوجہ كے ساتھ لحاف ميں بتا رہى ہے ، بغير كسى شرم و حيا كے ايك كے بعد دوسرے صاحب كمرے ميں اتے ہيں ، اور انحضرت (ص) پر كوئي اثر نہيں ہوتا ،ليكن عثمان كے اتے ہى كپڑے درست ہوئے ، اپنى زوجہ عائشه كو بھى كپڑے درست كرنے كا حكم ديا ، پھر يہ كہ رسول(ص) خدا نے ان تينوں صحابہ ميں فرق مراتب كيوں قرار ديا ؟ اور كيا بات ہے كہ صرف عثمان ہى سے فرشتے شرم كرتے ہيں ؟

برہمى و بغاوت كا زمانہ
عثمان كى خلافت كے نصف اول ميں عائشه نے انكى حمايت كى ، خود بھى فرماں بردار تھيں اور ذرا بھى مخالفت و نافرمانى كى ہوا نہيں بنائي _
يہاں تك كہ اس موقع پر بھى كہ جب تمام ازواج رسول نے حج كا ارادہ كيا تو پہلے انھيں سے اجازت مانگى ، عائشه كا اس مرتبہ بيان ہے _
جب عمر مر گئے اور عثمان حكمراں ہوئے تو ميں نے ام سلمہ اور ميمونہ و ام حبيبہ سے ايك شخص كو عثمان كے پاس بھيج كر حج كى اجازت طلب كى _
عثمان نے جواب ديا ، سيرت عمر كا لحاظ كرتے ہوئے ميں بھى انھيں كى طرح حج كيلئے بھيجوں گا ، اسلئے تمام ازواج رسول ميں جو بھى ادائے حج كى خواہشمندہے ، ميں تيار ہوں _
عثمان نے اپنا وعدہ پورا كيا ، اورہمارے ساتھ سب ازواج كو بڑے اہتمام و حجاب كے ساتھ حج كے لئے روانہ كيا ، صرف زينب نہيں تھيںكيونكہ وہ زمانہ ء عمر ہى ميں مر چكى تھيں اور سودہ بنت زمعہ جنھوں نے وفات رسول كے بعد كبھى گھر سے قدم باہر نہيں نكالا (5)
اس سال عثمان نے ازواج رسول كے ساتھ حج كيا ، اور تحفظ و نگرانى كى تمام ذمہ دارى عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن زيد كے حوالے كى _
يہ صفائي اور خلوص زيادہ دير نہ ٹك سكا ، گذرتے زمانے كے ساتھ عائشه اور عثمان كے درميان اختلاف ظاہر ہوگئے ،اخر كا ر عثمان نے عائشه كے وظيفہ كا دو ہزار اضافى حصہ كا ٹ ليا
تاريخ يعقوبى ميں ہے (6)عائشه و عثمان كے درميان رنجش ہوگئي اور عثمان نے وہ دو ہزار دينار جو عمر نے تمام ازواج كے مقابلے عائشه كو امتياز ى اضافہ كيا تھا كاٹ ليا ، اور دوسرى ازواج كى طرح ان كا بھى وظيفہ معين كيا _
عائشه و عثمان كے درميان اختلاف كى صحيح تاريخ ہميں معلوم نہيں ، بس ہم اتناہى جانتے ہيں كہ ان دونوں كا اختلاف نصف اخر ميں ظاہر ہواہم يہ بھى جانتے ہيں كہ يہ اختلاف كسى ايك واقعہ كے تحت نہيں ہوا بلكہ رفتہ رفتہ سلگتا ہوا شدت پكڑ گيا ، سنگين سے سنگين تر ہوتا گيا ، پھر عائشه اور عثمان كے درميان دراڑ عميق تر ہو گيا _
اسى طرح ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ عائشه پہلى شخص ہيں جنھوں نے پرچم بغاوت بلند كيا ، اور ناراض لوگوں كو اپنے گرد جمع كيا ، انكى قيادت كى يہاں تك كہ خليفہ قتل كر ڈالے گئے (7)
اور يہ بھى طئے ہے كہ جس وقت عثمان كے خلاف كشمكش و مخالفت كى اگ اور لوگوں كى شورش بھڑك رہى تھى ، اسوقت مسلمانوں كا كوئي بھى خاندان يا قبيلہ ابو بكر كے خاندان تيم سے زيادہ مخالفت ميں اگے نہ تھا (8)منجملہ ان امور كے جن سے عائشه اور عثمان كے درميان اختلاف زيادہ سے زيادہ بڑھتا گيا ، انجام كا ر دشمنى و نفاق ان دونوں ميں اشكار تر ہوا ان ميں وليد بن عقبہ كا مسئلہ ، ابن مسعود صحابى كے مسئلے پر عام طور سے لوگوں كو توجہ ہوئي ، ہم يہاں ہر ايك كے بارے ميں الگ الگ تجزيہ كريں گے _

وليد بن عقبہ اور كوفے كى گورنري
ہم نے بتايا كہ عثمان كى فرماں روائي كے ابتدا ئي زمانے ميں ام المومنين عائشه كى زبر دست حمايت حاصل تھى ، وہ چھ سال تك خاتون صدر اسلام كى حمايت سے سرفراز رہے عثمان بھى عائشه كے احترام ميں كمى نہيں كرتے تھے ، ليكن گذرتے زمانے كے ساتھ رفتہ رفتہ ان دونوں كے درميان اختلاف ابھرتا گيا ، گروہ بندى اور محاذ ارائي شروع ہو گئي _
ام المومنين لوگوں ميں اپنے اثرات عثمان كو دكھانے كيلئے ہر حادثے سے بيش از بيش استفادہ كرتى تھيں ، عثمان كے خلاف لوگوں كے جذبات ابھارنے ميں ہر مسئلے سے فائدہ اٹھاتيں ، يہ عناد اور اختلاف اسقدر بڑھ گيا كہ دونوں ايك دوسرے كى جان كے دشمن ہو گئے
عثمان نے اپنے رضاعى بھائي وليد بن عقبہ كو حكومت كوفہ حوالے كر دى جو بد كار ، شرابخوار و كمينہ تھا ، كوفے كے باشندے ايسے حكمراں كى شكايت ليكر مجبور اً ائے ، يہ ام المومنين كو بڑا اچھا بہانہ ہاتھ لگا كہ عثمان كى اينٹ سے اينٹ بجا دى جائے _
اب ميں بھى تاريخ كے دريچے سے اس زمانے ميں وليد كے كرتوتوں پر لوگوں كے رد عمل اور عائشه كے احكامات پر ايك نظر ڈال رہا ہوں _
وليد بن عقبہ ، يہ شخص خاندان ابى معبط بن ابى عمرو كى فرد تھا جسكا نام ذكوان تھا ، ذكوان كو اميہ بن عبد الشمس نے خريد اتھا بعد ميں اپنا بيٹا بنا ليا وليد كى ماں كانام اروى بنت كريز بن ربيعہ تھا ، جو عثمان كى ماں تھى ، اس بناء پر وليد عثمان كامادرى بھائي تھا وليد باپ عقبہ مكے ميں رسول خدا كا پڑوسى تھا ، بعثت كے ابتدائي زمانے ميں انحضرت (ص) كى مجلس ميں اكثر اتا جاتا رہتا تھا _
ايك دن عقبہ كے يہاں كچھ مہمان ائے اور انحضرت سے خواہش كى كہ اس نشست ميں اپ بھى تشريف لائيں ، رسول خدا نے اسكى خواہش قبول فرمائي اسكے مہمان ہو گئے ، ليكن اپ نے اسكا كھانا نہيں كھايا اور شرط لگادى كہ اگر تم خدا كى وحدانيت اور ميرى رسالت پر ايمان لے ائو تو ميں تمھارا كھانا كھائوں گا ، عقبہ نے اپ كى بات مان كر ايمان كا اقرار كر ليا ، اسطرح وہ مسلمان سمجھا جانے لگا ، جب قريش كو يہ بات معلوم ہوئي تو كہنے لگے عقبہ بھى اپنے باپ دادا كے دين سے پھر گيا _
عقبہ كا ايك دوست تھا ، وہ اس واقعے كے وقت مكے ميں نہيں تھا شام كى طرف سفر ميں گيا تھا ، جس رات وہ شام سے واپس ايا تو اپنى بيوى سے بات چيت كے درميان پوچھا _
_محمد اور ان كے ماننے والوں كا كيا حال ہے ؟
_وہ لوگ سخت جد وجہد كى وجہ سے روز بروز ترقى كر رہے ہيں _
_ميرا دوست عقبہ كيا كر رہا ہے ؟
_وہ بھى باپ دادا كے دين سے پھر گيا ہے اور محمد كا دين قبول كر ليا ہے _
_عقبہ كا دوست جسكا نام بعض روايات ميں ابى بن خلف اور بعض ميں اميہ بن خلف ہے يہ ماجرا سنكر سخت پريشان اور بے چين ہوا اس نے رات بے چينى ميں گذارى ، صبح كو جب عقبہ اس سے ملنے ايا اور سلام كيا تو اس نے سر نہيں اٹھايا ، نہ اسكى طرف ديكھا ، اسے كوئي جواب نہيں ديا ، عقبہ نے پوچھا :
_كيا بات ہے كہ ميرے سلام كا جواب بھى نہيں ديتے _
_كيسے سلام كا جواب دوں ، تم تو باپ دادا كے دين سے پھر گئے ہو ؟
_قريش بھى ميرے بارے ميں يہى كہتے ہيں ؟
_ہاں
_ميں كيا كام كروں كہ ان كے دلوں كى صفائي ہو جائے ؟
_بہت اسان ہے ، محمد كى بزم ميں جاكر منھ ميں پانى بھر كے ان كے اوپر كلّى كرو اور جتنى گندى گالى ہو سكتى ہے انھيں دے ڈالو _
عقبہ نے اپنے ساتھى دوست كے حكم پر عمل كيا اور جو بات كسى طرح مناسب نہيں تھى اسے كر ڈالا _
رسول خدا (ص) نے اس كى اس ذليل حركت پر كوئي رد عمل ظاہر نہيں كيا صرف اپنا چہرہ صاف كيا پھر عقبہ كى طرف رخ كر كے فرمايا :
اگر مكہ كے باہر ميں نے تجھے پاليا تو تيرى گردن مار دوں گا _
ايك دوسرى روايت ميں ہے ، عقبہ كے دوست نے اسكى سر زنش كرتے ہوئے كہا :
_اے عقبہ، تم اپنے باپ دادا كے دين سے پھر گئے ہو ؟
_نہيں ، ايسا نہيں ہے ، ايك دن محمد ميرے مہمان ہوئے اور قسم كھائي كہ اگر ميں مسلمان نہيں ہو جائو نگا تو كھانا نہيں كھائونگا مجھے بڑى شرمندگى ہوئي انھيں خوش كرنے كے لئے زبان سے كلمہ پڑھ ليا سچ بتاتا ہوں كہ دل سے ايسا نہيں كيا ہے _
_اب ميں كبھى تمھارى صورت نہيں ديكھوں گا ، جب تك تم ان كے اوپر كلّى نہ كرو ، پھر انھيں طمانچے لگائو ، لاتوں اور گھونسوں سے انكى ضيافت كرو ، اسطرح ان سے اپنى بيزارى كا اظہار كرو _
عقبہ نے اپنے دوست كے اس حكم پر اسوقت عمل كيا جب انحضرت دار الندوہ ميں حالت سجدہ ميں تھے _
رسول خدا (ص) نے اس سے فرمايا :
اگر ميں تجھے مكہ سے باہر ديكھوں گا تو سر كاٹ لوں گا _ * * * *
عقبہ اس واقعہ كے بعد رسول خدا كا سخت ترين دشمن ہو گيا ، پھر تو اس نے بكرى كى اوجھڑى لى اور اسكى سارى غلاظت اپ كے دروازے پر پھنيك ايا (9)
جنگ بدر ہوئي تو عقبہ كے ساتھى مشركوں كے ہمراہ رسول خدا سے جنگ كے لئے نكلے ، عقبہ سے بھى كہا كہ اس جنگ ميں شريك ہو ، ليكن اس نے عذر كرتے ہوئے كہا كہ ، ميں اس شخص سے ڈرتا ہوں ، كيونكہ مجھ سے اس نے ايك دن كہا تھا اگر تجھے مكہ سے باہر ديكھوں گا تو گردن ماردوں گا _
دوستوں نے جواب ميں كہا :
تمہارى ران كے نيچے سرخ بالوں والا اونٹ ہے ، اگر ہم لوگ شكست كھا گئے تو اسانى سے ميدان بدر سے بھاگ جائو گے _
عقبہ كو اسكے دوستوں نے اتنا سمجھايا بجھايا كہ وہ راضى ہو گيا ، وہ سب اسے ميدان تك گھسيٹ لائے _
جنگ شروع ہوئي ،اور اسكى بھٹى گرم ہوتى گئي ، اخر كار خداوند عالم نے مسلمانوں كو فتح عطا كى ، اس ہنگامے ميں عقبہ كا شتر بھاگا اور اسے ايك ہموار ميدان ميں پہونچا ديا ، مسلمان اسكے سر پر پہونچ گئے اور ديگر ستر قيديوں كى طرح اسے بھى گرفتار كر ليا _
جب عقبہ كو خدمت پيغمبر ميں لائے تو اپ اسے گھورنے لگے پھر اپ نے اسكے قتل كا حكم ديديا
عقبہ نے قتل كا فرمان سنا تو چلانے اور فرياد كرنے لگا _
ہائے اپ ان تمام قيديوں ميں صرف مجھے ہى كيوں قتل كر رہے ہيں _
رسول خدا(ص) نے فرمايا ، تيرا گناہ بہت سنگين ہے ، تجھے اسلئے قتل كيا جارہا ہے كہ تو نے خدا ورسول سے كفر كيا اور ظلم كيا ، پھر اپ نے حضرت على كو حكم ديا كہ اسكا سر بدن سے جدا كر دو _
قران كى يہ ايت اسى واقعے كى طرف اشارہ ہے _
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو اپنے دانتوں سے كاٹتا ہو گا ، كہے گا كاش ميں پيغمبر سے رسم و راہ ركھتا ، كاش ميں فلاں شخص كى بات نہ مانتا اس نے مجھے نصيحت قبول كرنے سے بہكا ديا ، جبكہ وہ ميرے پاس پہونچى تھى ، اور شيطان تو انسان كو بے سہارا چھوڑ نے والا ہے (10)

قرآن نے وليد كا تعارف كرايا
وليد اسى عقبہ كا بيٹا ہے جس دن مسلمانوں كے ہاتھوں مكہ فتح ہوا اور پيغمبر اسلام كے قبضے ميں ايا ، مشركوں اور گمراہوں كو بھاگنے كى راہ نہ رہى يہ وليد اسى دن مسلمان ہوا ، كچھ دن بعد رسول خدا نے اسكو قبيلہ بنى المصطلق كى زكواة وصول كر نے كيلئے بھيجا _
وليد تھوڑے ہى دن بعد واپس اگيا اور رپورٹ دى كہ قبيلے كے افراد مرتد ہو گئے ہيں ، زكات دينے سے انكار كر رہے ہيں _
وليد كے اس رپورٹ دينے كى وجہ يہ تھى كہ قبيلہ بنى المصطلق كے كچھ لوگ وليد كے انے كى خبر سنكر اسكے استقبال كيلئے ابادى سے باہر اگے تھے تاكہ فرستادہ ء رسول كو خوش امديد كہيں ، ليكن وليد نے انكى بھيڑ ديكھ كر اپنى دانست ميں يہ سمجھا كہ يہ لوگ برى نيت سے ائے ہيں ، بغير ان سے بات كئے تيزى سے مدينہ واپس لوٹ گيا اور يہ جھوٹى رپورٹ دے ڈالى _
رسول خدا (ص) نے خالد بن وليد كو مامور فرمايا كہ جا كر مذكورہ قبيلے كى حقيقت حال دريافت كرے اور رپورٹ دے ، خاص طور سے خالد كو انحضرت (ص) نے تاكيد فرمائي كہ خالد كسى معاملے ميں جلدى نہ كريں اور گہرائي كے ساتھ مسئلے كا تجزيہ كريں _
خالد نے واپس اكر رپورٹ دى كہ قبيلے كے افراد اسلام سے وابستہ ہيں ، ذرا بھى مرتد نہيں ہوئے ہيں ، ان حالات ميں يہ ايت نازل ہوئي جسميں خالد كو فاسق اور بد كردار كى حيثيت سے متعارف كرايا گيا _
اے وہ لوگو جو ايمان لائے ہو اگر كوئي فاسق اور بد كر دار تمھارے پاس كوئي خبر ليكر ائے تو تحقيق كر ليا كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ تم كسى گروہ كو نادانستہ نقصان پہونچا بيٹھو اور پھر اپنے كئے پر پشيمان ہو (11)
يہ ہيں مسلمانوں كے خليفہ عثمان جو اپنے كو رسول خدا كا جانشين سمجھتے ہيں ، ايسے فاسق مشھور بد كردار كو صرف رشتہ دارى كى وجہ سے كوفے كى گورنرى سپرد كرتے ہيں ،اور سعد بن وقاص كو وہاں سے ہٹا ديتے ہيں جو كوفہ كے مطلق العنان حكمراں اور پيش روخليفہ حضرت عمر كے زمانے سے گورنر چلے ارہے تھے ، حالانكہ سعد نے حكومت عمر كے زمانے ميں ان كے حكم سے كوفہ كى بنياد ركھى تھى جو دلالوں كى سر حد تھى ، اور وہ فوجى جو ايران كى جنگ ميں شامل تھے ، وہيں سكونت پذير ہو گئے تھے ، كوفہ والے سعد كا بہت احترام كرتے تھے _

بد كردار كو حكمراں كا عہدہ
جب وليد كوفے پہونچا اور سعد كو اسكى ماموريت كى خبر ہوئي تو وليد كى طرف رخ كر كے تعجب سے پوچھا _
ہم لوگ ايك دوسرے سے دور تھے ، ہم نہيں جانتے تھے كہ تمھارى پچھلى مكارى و حماقت ميرے بعد ہو شيارى و سمجھدارى ميںبدل گئي نتيجہ ميں تم نے لياقت بہم پہونچالى _
يا حقيقت ميں يہ ہم ہيں كہ احمق و نادان ہو گئے ہيں ؟ وليد نے جواب ديا اے سعد خفا نہ ہو ، يہ حكومت و سلطنت ہے جو گيند كى طرح ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں پہونچتى رہتى ہے ، سعد نے اطمينان سے جواب ديا ہاں ، ميں ديكھ رہا ہوں كہ تم لوگ بہت جلد اسے ملوكيت ميں بدل دو گے (12) كوفے كے باشندوں نے بھى اس تبديلى اور حكومت كے تغير پر اپنى خفگى ظاہر كرتے ہو كہا :
عثمان نے سعد بن وقاص كے بہت برے جانشين كو مقرر كيا ہے ، حكومت وليد بن عقبہ كے مسئلے پر ابو الفرج نے اغانى ميں خالد بن سعيد اموى سے يوں روايت كى ہے _
عباس بن عبد المطلب ، ابو سفيان ، حكم بن ابى العاص ، وليد بن عقبہ ہى وہ مخصوص افراد تھے جو مسند حكومت پر عثمان كے پہلو ميں بيٹھتے تھے_
ايك دن عادت كے مطابق وليد خليفہ كے پاس بيٹھا تھا اتنے ميں عثمان كا چچا حكم اگيا ، عثمان احترام حكم ميں اپنى جگہ سے اٹھكر الگ بيٹھ گئے اور حكم كو اپنى جگہ پر بيٹھا يا
حكم كيلئے عثمان كے اس برتائو سے وليد بہت خفا ہوا ، ليكن سامنے كچھ نہ بولا ،ليكن جب حكم چلا گيا تو عثمان سے كہنے لگا _
اے امير المومنين جس وقت اپ نے ميرے اوپر حكم كو ترجيح دى تو ميرے دل ميں يہ دو شعر گونجے _
عثمان نے كہا ، اخر حكم قريش كا بزرگ ہے ، اسكا احترام ميرے اوپر واجب ہے ،ليكن وہ دو شعر كيا ہيں ؟ وليد نے يہ دو شعر پڑھے _
ميں نے ديكھا كہ اپنے چچا كى بھائي سے زيادہ قدر كرتا ہے ، حالانكہ يہ نئي بات ہے ، قديم زمانے سے ايسا نہ تھا _
جب ميں نے ايسا ديكھا تو ميں نے ارزو كى كہ (عمر و خالد ) عثمان كے دونوں فرزند بڑے ہو جائيں اور قيامت كے دن مجھے چچا پكاريں
عثمان كا دل ان دو شعروں سے بھن گيا ، كيونكہ وہ مادرى بھائي تھا مزيد دل نہ دكھے اسلئے مملكت اسلام كا ايك گوشہ حوالے كرتے ہوئے كہا ''ميں نے تمھيں حكومت عراق عطا كى ''
اور اسطرح ايك گمنام اور قران كى زبان ميں فاسق ناموس اسلام كا مطلق العنان فرماں روا بنا ديا گيا _

خليفہ كے چچا حكم
اب نامناسب نہيں ہو گا كہ حكم كا بھى تعارف كر ا ديا جا ئے كہ وہ كون ہے اور اسكے كيا كرتوت ہيں كہ جسكا اتنا احترام عثمان جيسا خليفہ كر رہا ہے_
حكم بن ابى العاص عثمان كا چچا ہے اوراميہ بن عبد الشمس كے خاندان سے ہے ، بلاذرى جلد پنجم ص 27 پر لكھتا ہے :

رايت لعم المرء زلفى قرابة
دوين اخيہ حادثا لم يكن قدما

فاء ملت عمراً ان يشب و خالدا
لكى يدعوانى يوم مزحمة عما

حكم جاہلى زمانے ميں رسول خدا كا ہمسايہ تھا ، بعثت كے بعد وہ تمام پڑوسيوں سے زيادہ انحضرت كى اذيت ميں كوشاں تھا ، حكم فتح مكہ كے بعد اسلام لايا اور مدينے ميں سكونت اختيار كر لى ، ليكن مسلمانوں كى قربت كے باوجود اپنى دينى سستى اور بد اعتقادى ميں مشھور تھا ، كيونكہ حكم اگر چہ اسلام لے ايا تھا ليكن رسول خدا كے پيچھے پيچھے چلتا اور اپ كى نقل كرتا تھا ، ہاتھ اور منھ سے اپ كو چڑھا تا تھا ، نماز كے وقت مسخرہ پن ميں انگليوں كو ٹيڑى اور سيدھى كرتا، اصطلاحى حيثيت سے وہ گويا جو كربن جاتا _
ايك دن وہ رسول خدا كے پيٹھ پيچھے جو كروں كى حركتيں كر رہا تھا كہ انحضرت نے ديكھ ليا ، اپ نے غصہ ميں حكم ديا _
ايسا ہى ہو جا _
انحضرت (ص) كى نفرين كا يہ اثر ہوا كہ وہ تمام عمر اسى حالت ميں رہا ، سر اور منھ ہميشہ كپكپاتا رہتا تھا ، عمر بھر كى تھر تھرى لگ گئي _
مسلمانوں كو حق تھا كہ حكم كے اسلام كے بارے ميں مشكوك رہيں ، كيونكہ وہ اپنے مسخرہ پن كے تا عمر عذاب كے باوجود رسول خدا كى اذيت سے باز نہيں اتا ، ايك دن انحضرت(ص) اپنى ايك بيوى كے ساتھ حجرے ميں تھے كہ وہ سوراخ سے جھانكنے لگا ، انحضرت ڈنڈا ليكر باہر نكلے اور فرمايا كون مجھے اس كمينے چھپكلى بچے سے نجات دے گا (13)
پھر اپ نے فرمايا ، يہ اور اس كے بيٹوں كو حق نہيں كہ ميرے ساتھ ايك شھر ميں رہيں ، اپ نے ان كو طائف ميں جلا وطن كر ديا _
رسول خدا كى وفات كے بعد عثمان نے ابو بكر سے سفارش كى كہ حكم اور اسكے بيٹوں كو مدينے واپس بلا ليا جائے ، ابو بكر نے بات نہ مانى اور كہا :
ميرى يہ جراء ت نہيں كہ جسے رسول(ص) خدا نے دھتكار ديا ہے اسے مدينہ واپس انے كى اجازت دوں _
جب عمر خليفہ ہوئے تو عثمان نے اپنے مطالبے كى تجديد كى ليكن عمر سے بھى جواب سنا ، ليكن جب خود خليفہ ہوئے تو حكم اور اسكے بيٹوں كو مدينہ واپس بلا ليا اور كہا :
ميں نے رسول خدا كى خدمت ميں حكم كى سفارش كى تھى كہ حكم كو مدينہ بلا ليا جائے ، رسول(ص) خدا نے بھى اسے قبو ل فرما ليا تھا ، ليكن وفات رسول كى وجہ سے ايسا نہ ہو سكا _
مسلمان اس راندہ رسول كى مدينہ واپسى سے خو ش نہ تھے ، بلا ذرى ص225 پر لكھتا ہے حكم اسرار پيغمبر كو فاش كرتا ، انحضرت (ص) نے اس پر نفرين كى اور اسكے ساتھ بيٹوں كو بھى طائف جلا وطن كر ديا ، اور فرمايا وہ ميرے ساتھ ايك شہر ميں نہيں رہے گا _
حكم نے خلافت عثمان كے زمانے تك اپنے بيٹوں كے ساتھ طائف ميں گذر بسر كى ، يہاں تك كہ عثمان نے اسے مدينہ واپس بلا ليا ، صفحہ 28 پر ہے كہ عثمان كى اس حركت سے تمام مسلمان خاص طور سے انتہائي غم و غصہ ميں بھر گئے كہ انھوں نے حكم كو مدينہ واپس بلا ليا ، اور يمن كے قبيلہ ء خزاعہ كى ، وصولئي زكوة پر مامور كيا ، پھر تمام حاصل شدہ رقم جو تين لاكھ تھى اسى كو بخش دى ، ص 27 پر لكھا ہے كہ:
حكم خليفہ عثمان كے زمانے ميں مرا ، خود عثمان نے اس كى نما ز جنازہ پڑھى ، پھر اسكے احترام ميں حكم ديا كہ قبر پر خيمہ لگا يا جائے_
جى ہاں ، حكم جسے عثمان اپنى جگہ پر بٹھا تے ، خود اسكے ما تحت بيٹھتے ايسى اہم اور معروف شخصيت كے بارے ميں قارئين كيا فيصلہ كريں گے ؟
حكم كے حالات كيلئے استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ ديكھى جائے _

ابن مسعود پر كيا بيتي
ابو عبد الرحمن كنيت تھى ، عبد اللہ بن مسعود ھذلى نام تھا ، ان كے باپ مسعود قبيلہ زھرہ كے ہم پيمان تھے ، ابن مسعود سابقين اسلام ميں سے تھے ، اور اس وقت كہ جب كسى ميں ہمت نہ تھى كہ مكہ ميں بلند اواز سے قران پڑھ سكے انہوں نے اس بارے ميں پہل كى اور بلند اواز سے ايات الہى كو ان مشركين كے كانوں تك پہونچايا جو اس سے نا اشنا اور غافل تھے ، قريش نے فرزند مسعود كو سزا دئے بغير نہيں چھوڑا ، اپ كو اسقدر مارا كہ زخمى كر كے خون ميں لت پت ايك كونے ميں ڈال ديا رسول خدا(ص) انھيں اپنے پاس ركھتے ، وہ بھى رسول خدا كى دل و جان سے خدمت كرتے
يہاں تك كہ رسول خدا نے ان سے فرمايا ، جہاں تك ميرى اواز سن سكو تمھيں اجازت ہے _
ابن مسعود ہميشہ خدمت ميں رہے ، اپ سے كبھى جدا نہ ہوئے ، رسول خدا (ص) كى جوتياں اپنے پا س ركھتے اور پنھاتے ، اپ كے ساتھ ساتھ چلتے كبھى اپ كے اگے بھى چلتے تاكہ اپ كے محافظ رہيں ، جب رسول خدا نہاتے تو اپ پردہ كرتے تاكہ كوئي انحضرت (ص) كا بدن نہ ديكھ سكے ، جب اپ سوتے تو اپكى حفاظت كرتے ، اپ ہى انحضرت (ص) كو خواب سے جگاتے ابن مسعود نے حبشہ اور مدينہ دونوں ہجرت كى جنگ_ بدر اور دوسرى جنگوں ميں شريك رہے ، وفات رسول (ص) كے بعد اپ كى زندگى كے بارے ميں يہ ملتا ہے كہ (14)
عمر نے انھيں عمار ياسر كے ساتھ كوفہ بھيجا وہاں كے باشندوں كو خط لكھا كہ ميں عمار ياسر كو حكمراں بنا كر اور عبد اللہ بن مسعود كو انكا مشاور اور امور دين كا معلم بنا كر بھيج رہا ہوں ، يہ دونوں رسول خدا كے مخصوص اصحاب اور جنگ بدر ميں شريك رہے ہيں ، انكى پيروى كرتے ہوئے انكى باتيں دل و جان سے سنو ، ان كے فرماں بردار رہو ، اور اس بات كو سمجھ لو كہ ميں ابن مسعود كو بھيجكر تم لوگوں كو اپنے اوپر ترجيح دے رہا ہوں(15)
ابن مسعود كوفے والوں كو قران كى تعليم ديتے ، انھيں دينى مسائل بتاتے اسى كے ساتھ ساتھ وہ بيت المال كے خزانچى بھى تھے _
خليفہ عثمان نے اپنے رضائي بھائي وليد كو كوفے كا گورنر بنا ديا ، وليد كوفہ ايا اور حكمرانى كرنے لگا ، ليكن ابن مسعود كے ہاتھ ميں تمام ماليات كے امور رہے _
پہلے سے رسم چلى ارہى تھى كہ ہر گورنر جب چاہتا بيت المال سے قرض لے ليتا پھر معين مدت ميں واپس كر ديتا ، وليد نے بھى ايسا ہى كيا قرض كى معينہ مدت ختم ہونے كے بعد ابن مسعود نے اس سے تقاضا كيا ، پھر ٹال مٹول ہوا تو اپ نے اصرار كيا ، ابن مسعود كى يہ گستاخى وليد كيلئے ناقابل برداشت تھى ، ايك خط عثمان كو لكھ كر اس مزاحمت سے چھٹكارے كے سلسلے ميں مدد كى درخواست كى ، عثمان نے ابن مسعود كو فوراً خط لكھا (تمہارى حيثيت ميرى جانب سے صرف خزانچى كى ہے ، جو روپيہ بھى وليد خزانے سے لے تمھيں اسكے مطالبے كا حق نہيں )
جب يہ خط ابن مسعود كو ملا وہ سمجھ گئے كہ اس اہم ذمہ دارى كو وہ بخوبى نبھا نہ سكيں گے ، انھوں نے خزانے كى چابى وليد كے سامنے ڈالتے ہوئے كہا :
ميں اج تك سمجھتا تھا كہ مسلمانوں كے مال كا محافظ ہوں ، ليكن يہ نہيں معلوم تھا كہ تمھارا خزانچى ہوں ، مجھے اسكى ضرورت نہيں ، ميں اس عہدے سے استعفا ديتا ہوں_ (16)
ابن مسعود خزانچى كے عہدے سے مستعفى ہونے كے بعد بھى كوفے ہى ميں رہے اس واقعے كے بارے ميں عقد الفريد ميں ہے كہ :
ابن مسعود نے مسجد كوفہ ميں مسلمانوں سے خطاب كيا ، اے كوفہ والو تمھيں معلوم ہونا چايئے كہ اج رات تمہارے بيت المال سے ايك لاكھ كم ہو گيا ہے ، بغير اسكے كہ امير المومنين حكم ديں ،يا ميرى ذمہ دارى ختم كريں وہ نكال ليا گيا ہے _
وليد نے سارى كہانى اور ابن مسعود كى باتيں عثمان كو لكھ ديں عثمان نے بھى ابن مسعود كو اس عہدے سے برطرف كر ديا (17)
بلاذرى انساب الاشراف ميں لكھتے ہيں كہ :
جس وقت ابن مسعود نے وليد كے سامنے چابى پھينكى تو غصے سے كہا ، جو شخص احكام خدا كو اپنى خواہش كے مطابق پھرائے تو خدا وند عالم اسكى عاقبت خراب كردے گا ، اور جو شخص اپنى خواہش كے مطابق اسے بدل دے تو خدا اس پر غضبناك ہوتا ہے ، ميں عثمان كو ايسا ہى پا رہا ہوں ، كيا يہ جائز ہے كہ سعداور وقاص جيسى شخصيت كو ہٹا كر كوفے كى گورنرى وليد كو ديدى جائے ؟
ابن مسعود اكثر فرماتے ، سب سے اچھى بات قران ميں خدا كى بات ہے ، اور سب سے پسنديدہ راستہ وہى ہے جسے پيغمبر خدا نے دكھايا ، اور بد ترين كام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہى ہے ، اور گمراہى كا نتيجہ اتش دوزخ ہے (18) وليد نے يہ سارى باتيں اور ابن مسعود كى طنزيہ تقرير يں عثمان كو لكھ ماريں اخر ميں لكھا كہ ابن مسعود تمہارى برائياں كرتے ہيں ، تمھيں گالياں ديتے ہيں ، عثمان نے ان كو مدينے بلا بھيجا _
جس وقت كوفہ والوں كو مدينے ميں ابن مسعود كے حاضر ہونے كى خبر ملى اپ كے گرد جمع ہو گئے ، ان سے كہا كہ اپ نہ جايئے _
يہيں ہم لوگوں كے پاس رہيئے ہم لوگ اپ پر اذيت نہ ہونے ديں گے ابن مسعود نے ان لوگوں كو جواب ديا _
انہوں نے ميرے اوپر اطاعت كا حق ڈالا ہے ، جہاں تك ميرى بات ہے ميں نہيں چاہتا كہ ان كے اوپر فتنے كا دروازہ كھولنے والا پہلا شخص بنوں اور ان كے حكم كى نافرمانى كروں (19)
استيعاب ميں ہے كہ ابن مسعود نے كوفے والوں كو يہ جواب ديا ، يہ اوضاع و احوال اپنے پيچھے فتنے لئے ہوئے ہيں ، مجھے پسند نہيں كہ فتنہ ميرے ہاتھوں شروع ہو _
كوفے كے باشندے ابن مسعود كو رخصت كرنے دور تك گئے ، انھوں نے تمام لوگوں كو تقوى اور احكام خداوندى پر عمل كرنے كى نصيحت كى پھر ان لوگوں سے كہا كہ اپنے گھروں كو واپس جائيں ، اور خود مدينے كى طرف چل پڑے _
كوفے والوں نے بھى ابن مسعود كى ستايش كى ، جس وقت وہ مدينے كى طرف روانہ ہوئے تو انكى زحمتوں اور حقوق كا شكريہ ادا كرتے ہوئے كہنے لگے ، خدا وند عالم اپ كو جزائے خير دے ، اپ نے ہمارے ناواقفوں كو دين سے اشنا كيا ، اور واقفكاروں كو دين كا ثبات عطا كيا ، ہميں قران سكھايا ، دين و ائين سے اشنا كر كے بينا كيا ، واقعى اپ اچھے مسلمان ، اچھے خير خواہ اور مہربان بھائي كى طرح رہے ، پھر الوداع كہكے سبھى لوٹ گئے (20)
ابن مسعود مدينہ پہونچكر سيدھے مسجد ميں گئے ، اس وقت عثمان منبر پر تقرير كر رہے تھے ، ابن مسعود كو ديكھا تو گفتگو كا رخ بدل كے بولے _
يہ ديكھو چوپايہ پست خصلت اور پھكڑ تمہارے درميان اگيا ، مانند اسكے كہ جب روٹيوں كى طرف ہاتھ بڑھايا جائے تو جو كھايا ہے قئے كر دے _
ابن مسعود نے عثمان كے زخم زبان كا جواب ديا :
نہيں ، عثمان ميں ايسا نہيں ہوں ، بلكہ ميں وہ صحابى رسول ہوں جسے جنگ بدر اور بيعت رضوان ميں شريك ہونے كا فخر حاصل ہے (21)
عائشه بھى حجرے سے چيخ پڑيں ، ارے عثمان تم رسول كے ہمدم اور صحابى كے لئے ايسى بات كہہ رہے ہو؟
عثمان نے عائشه كے جواب ميں چلا كر كہا ، خاموش رہو ، اور پھر حكم ديا كہ ابن مسعود كو مسجد سے نكال باہر كر ديا جائے _
خليفہ كے حكم سے ابن مسعود كو بڑے توہين اميز انداز ميں مسجد سے نكالا گيا ، عبداللہ زمعہ نے انكو زمين پر پٹك ديا ، يہ بھى كہتے ہيں كہ عثمان كے غلام يحوم نے انھيں دونوں ٹانگيں پكڑ كر اٹھا يا اور اتنى زور سے زمين پر پٹكا كہ پسلياں ٹوٹ گئيں_
حضرت علي(ص) جو اس سارے منظر كو ديكھ رہے تھے _فرمايا اے عثمان صرف وليد بن عقبہ كى رپورٹ پر صحابى رسول خد(ص) ا كے ساتھ يہ سلوك كر رہے ہو؟ عثمان نے جواب ديا نہيں ،صرف وليد كى رپورٹ ہى نہيں ،ميں نے زبيد بن صلت كندى كو بھى تحقيقات كے لئے كوفہ بھيجا تھا ، ابن مسعود درد كى شدت سے تڑپ رہے تھے ،چلانے لگے ، خون عثمان حلال ہے حضرت على نے عثمان كو جواب ديا _
تم نے زبيد جيسے غير معتبر پر اعتماد كيا ہے ، يہ فرمايا اور ابن مسعود كو علاج كرانے كيلئے اپنے گھر ليكر چلے گئے _
ا بن مسعود اس حادثے كے بعد مدينے ہى ميں رہے ،عثمان نے انھيں مدينے سے باہر جانے كى اجازت نہيں دى ، يہاں تك كہ جب وہ اچھے ہو گئے تو روميوں سے جہاد كيلئے انھوں نے اجازت مانگى ليكن عثمان نے اجازت نہيں دي_
اس خاص موقع پر روايت ہے كہ جب ابوذر ان سے اجازت مانگ رہے تھے ، اور عثمان ابھى اجازت دينے نہ دينے كى كشمكش ميں تھے كہ مروان بول پڑا _
اس شخص نے عراق كو تمہارے خلاف بھڑ كايا ، عراقيوں كو تم سے بد گمان كيا ، اب شام كى بارى ہے ،يہ چاہتا ہے كہ وہاں كے لوگوں كو تمہارے خلاف بغاوت پر ابھارے اس طرح ابن مسعود زندگى بھر مدينے سے باہر نہ جاسكے، حقيقت ميں وہ نظر بند تھے ،يہاں تك كے قتل عثمان كے دو سال قبل انھوں نے انتقال فرمايا، اس درميان ابن مسعود مدينے ميں تين سال رہے بن مسعود اور عثمان كے درميان اخرى بات چيت بہت زيادہ لائق توجہ ہے _
جس وقت وہ بستر بيمارى پر پڑے زندگى كے اخرى لمحے گن رہے تھے ، عثمان انكى عيادت كے لئے سرھانے پہونچے اور كہا ، كيا تكليف ہے
اپنے گناہوں كا بوجھ
كيا خواہش ہے ؟
خداوند عالم كى بخشش و رحمت
كيا علاج كيلئے ڈاكٹر بلائوں؟
ڈاكٹر نے خود ہى مجھے بيمار كيا ہے
كيا تمہارا وظيفہ دينے كا حكم ديدوں
( دو سال سے بن مسعود كا وظيفہ بند تھا(22))
جب مجھے اسكى ضرورت تھى تم نے نہيں ديا، اب جبكہ ضرورت نہيں ہے ، تم مجھے دينا چاہتے ہو،
تمہارے بيٹوں كيلئے باقى رہے گا_
انكى روزى خدا ديتا ہے،
خدا سے دعا كرو كہ ( جو كچھ ميں نے تم پر ظلم ڈھايا ہے ) معاف كر دے
خدا سے دعا كرتا ہوں كہ تم سے ميرا حق لے،
ابن مسعود نے وصيت كى تھى انكى نماز جنازہ عمار ياسر پڑھائيں ، عثمان ميرے جنازے ميں شريك نہ ہوں ، ان كى وصيت كے مطابق عمل كيا گيا اور عثمان كو خبر كئے بغير جنت البقيع ميں دفن كر ديا گيا (23)
جب عثمان كوا بن مسعود كے مرنے كى خبر ملى تو سخت غصہ ہوئے اور كہنے لگے ، مجھے خبر ديئے بغير تم لوگوں نے ايسا كرديا؟
عمار ياسر نے جواب ديا ،انھوں نے خود وصيت كى تھى كہ تم ان كى نماز جنازہ نہ پڑھائو، عبداللہ بن زبير نے اسى كے مناسب حال شعر كہا ہے ، ميں جانتا ہوں كہ ميرے مرنے كے بعد نوحہ وزارى كرو گے حالانكہ تم نے ميرى روٹى روزى بند كردى تھى (24)
ابن مسعود كے يہ مختصر حالات تھے، ليكن وليد بن عقبہ كى حكومت كوفہ كى صرف يہى ايك داستان نہيں بلكہ اسكى حكمرانى كے زمانے ميں انتہائي بلا خيز اور فتنہ انگيز واقعات سرزد ہوئے ، چنانچہ مسيحى شاعر ابوزبيد اور شعبدہ باز يہودى كے ساتھ اس كے سلوك مشہور ہيں_

اگ سے كھلواڑ
ابو الفرج كتاب اغانى ميں ابن اعرابى كا بيان يوں روايت كرتا ہے جس وقت وليد اپنے مادرى بھائي عثمان كى طرف سے كوفہ كا گورنر بنا تو شرابى اور عيسائي شاعر ابو زبيد سے اسكى گاڑھى چھننے لگى ، وليد نے اسكو عقيل كى ملكيت والے گھر ميں ٹھہرايا ، پھر اسے بخش ديا ، يہ گھر زبيد جيسے شرابى شاعر كو دينے سے پہلى بار كوفے كے باشندے وليد كى برايئاں بيان كرنے لگے ، كيونكہ ابو زبيد عيسائي تھا ،جب وہ وليد كے پاس جاتا ، تو اسكا راستہ مسجد كوفہ ميں ہونے كى وجہ سے وہيں سے وليد كے پاس جاتاوہ رات بھر شراب كے جام چھلكاتا، پھر صبح كو شدت مستى سے بيخود ہو كر لڑ كھڑاتا ہوا مسجد ہى عبور كر كے اپنے گھر پہونچتا _
وليد كى يہ روش دين سے لاپرواہى ،اور مسلمانوں كے احساسات و معتقدات سے بے اعتنائي كا پتہ ديتى ہے كوفے والے تو يہ چاہتے تھے كہ وليد شراب پينا چھوڑ دے _
خلاف شرع كام كرنا بند كرے ، ابو زبيد جيسے شرابى مصاحب سے اپنا ناتہ توڑے ، اس كے بر عكس اس نے دو وسيع زميندارى شام دحيرہ ميں محل كے ساتھ اسكو بخش دى ، اور صرف اسى كے چوپايوں كى چراگاہ كو مخصوص كر كے ، دوسروں كو اس كے استفادے سے محروم كر ديا ، ابو زبيد نے بھى اسكى خصوصى مہربانى كے بدلے مدحيہ اشعار كہے اور اسكا شكر يہ ادا كيا ،(25)
بلاذرى لكھتا ہے _ وليد نے اپنے عيسائي شاعر و مصا حب ابو زبيد كے لئے مسلمانوں كے بيت المال سے شراب اور سور كاگوشت مقرر كيا تھا ، اسكے مقربين نے مشورہ ديا كہ اس سے عوامى احساسات بھڑك اٹھيں گے ،لوگ اپ كے خلاف ہو جائيں گے _
نتيجے ميں وليد نے شراب اور سور كا گوشت تو روك ديا ليكن حكم ديا كہ اسكى جتنى قيمت متعين ہوتى ہے
اسے ماہانہ دى جائے پھر اس پر اضافہ بھى كيا ، يہ كوفے كا گورنر عيسائي ابو زبيد كو مسلمانون كى مسجد سے گذرنے كى اجازت دئے ہوا تھا(26)
ايك دوسرى نا مناسب حركت وليد جسكى وجہ سے لوگ اسكے مربى عثمان سے بہت زيادہ بد ظن ہوئے يہ تھى كہ وليد نے حكم ديا تھا كہ ايك يہودى جو كر اپنى جادوگرى كى دوكان مسجد ميں لگا كر اپنے شعبدے دكھائے اور گورنر صاحب كى تفريح كا سامان فراہم كرے _
لوگوں نے وليد كو بتايا كہ زرارہ نام كا ايك يہودى كرتب ميں مشہور ہے وہ شعبدہ ، جادو اور سحر كى تمام قسموں ميں مہارت ركھتا ہے ، يہيں بابل كے پل كے پاس ديہات كا باشندہ ہے ، وليد نے حكم ديا ،اسے كوفہ لايا جائے تاكہ وہ اپنے ہاتھوں كے كرتب اورميٹھے شعبدوں كا تماشہ دكھائے ، وليد كے پيادوں نے اسكے حكم كى تعميل ميں سامنے لاكر حاضر كر ديا ، اس نے بھى حكم ديا كہ مرد يہودى مسجد كوفہ كے صحن ميں اپنے جادو كے كرتب كى دوكان لگادے ، اپنے ہنر كے تماشے اعلى حكام اور مسلمان پڑوسيوں كو دكھائے_
اسكى نمائشے كا ايك تماشہ يہ تھا كہ اندھيرى رات ميں بڑا سا ہاتھى گھو ڑے پر سوار تماشائيوں كو دكھا ديتا تھا_
ايك دوسرا كرتب يہ تھا كہ وہى شعبدہ باز اپنے كو اونٹ كى شكل ميں ہو كر رسى پر چلتا ہوا لوگوں كى نگاہوں كو دكھاتا تھا پھر وہ خود ہى ايك خچر كى شكل ميں ہو جاتا تھا جو اس اونٹ كے منھ ميں داخل ہو كر اسكے مخرج سے نكل جاتا تھا_
سب سے اخر ميں تماشہ دكھاتے ہوئے ايك تماشائي كو مجمع سے گھسيٹ لاتا تھا ،پھر بے دھڑك اسے تلوار سے قتل كر كے ،سر وبدن الگ الگ كر ديتا تھا ، پھر سارے تماشائي حيرت كے مارے پھٹى پھٹى انكھوں سے ديكھتے كہ وہ اس مقتول كے جسم پر تلوار پھير رہا ہے اور مقتول زندہ ہو كر اٹھ كھڑا ہو تا ہے _
جندب بن كعب ازدى اسى تماشائيوں كى جماعت ميں ،موجود تھے ، انھوں نے شعبدہ باز يہودى كے سارے تماشے اپنى انكھوں سے ديكھے جو شيطان اور گمراہى كى مسلسل كاروائيوںسے خدا كى پناہ طلب كر تے رہے ، جس سے انسان خدا كى ياد سے غافل ہو رہا تھا ،انھيں يقين تھا كہ يہ سب كچھ نظر بندى اور شعبدہ بازى ہے جسے اسلام نے سختى كے ساتھ منع كيا ہے ،بس پھر كيا تھا ،انھوں نے دير كرنا جائز نہيں سمجھا اور تلوار سونت لى ، ايك ہى وار ميں اس
يہودى كا سر تن سے جدا كر كے چلائے
جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل كان ذھوقا
حق اگيا اور باطل نيست ونابود ہو گيا باطل كو تو نيست و نابود ہونا ہى تھا _
يہ بھى كہتے ہيں كہ يہ سارا واقعہ دن كا ہے ،رات كا نہيں ، جندب كے پاس تلوار نہيں تھى ، وہ بازار گئے اور تلوار بنانے والے سے تلوار خريدى اور واپس اكر اس شعبدہ باز يہودى كى گردن مارى ، پھر وہ چلائے _
اگر تو سچا ہے تو اپنے كو زندہ كر لے _
جو بھى صورت ہو ، يہ وليد تھا جس نے مسجد كو شعبدہ باز يہودى كے تماشے كا مركز بنا ليا تھا جبكہ وہ عبادت كى جگہ ہے اور يہ جندب تھے كہ اس شعبدہ باز كو قتل كر كے عثمان كے بد كار حاكم كى تفريح كر كرى كركے اسكے عيش وعشرت ميں اندھيرا كر ديا _
اس مرتبہ تو وليد غصے ميں بھڑك اٹھا ،اس نے جندب كى گستاخى ديكھ كر حكم ديا كہ يہودى زرارہ كے انتقام خون ميں جندب كو قتل كرديا جائے ،ليكن ان كے رشتہ دار جو قبيلہ ازدسے تھے جندب كى حمايت ميں كھڑے ہو گئے انھوں نے قتل ہو نے سے بچا ليا ، نا چار وليدنے حيلہ شروع كيا اور قتل كو نظر انداز كركے بظاہر اسكے قتل سے در گذر كيا اور حكم ديا كہ جندب كو قيد كر ليا جائے _
جندب كو جيل ميں ڈال ديا گيا ، اور جيلر جس كا نام دينار تھا اسكے حوالے كر ديا گيا ، دينار كو جب قيد ہونے كى وجہ معلوم ہوئي ، جندب كى زھد و پار سائي اس نے خود انكھوں سے ديكھى ،يہ ديكھا كہ وہ تمام رات صبح تك عبادت ميں مصروف رہتا ہے ، اس نے جائز نہيں سمجھا كہ ايسے زاہد اور با ايمان شخص كے خون سے اپنا دامن الودہ كر ے جيلرنے ان سے كہا :
ميں دروازہ كھول رہا ہوں ، تم بھاگ جائو ، سلامتى سے اپنى جان بچالے جائو _
اگر ميں ايسا كروں تو تمہيں نہيں چھوڑا جائے گا تمہيں قتل كرديا جائے گا _
ميرا خون رضائے خدا كے لئے بہے گا ولى خدا كى نجات ميں بہے گا ، ميرى جان اتنى قيمتى كہاں ؟
اخر كار دينار جيلر كے اصرار سے جندب نے قدم باہر نكالا اور جيل سے فرار كر گئے _
صبح سويرے وليد نے جندب كے حمايتيوں سے دور تہيہ كئے ہو ا تھا كہ جندب كو قتل كرے اس نے حكم ديا كہ جندب كو خدمت ميں حاضر كيا جائے ، وليد كے پيادے جيل سے خالى ہاتھ واپس ائے ،انھوں نے خبر دى كہ جندب جيل سے فرار كر گئے ، خود سر اور بد كار حاكم كوفہ وليد كو دينار جيلر كى سہل انگارى پر بڑا غصہ ايا ،لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہو گيا ، حكم ديا
كہ اس تساہليء پر دينار كو قتل كرديا جائے ،(27)اور اسكا بدن مزبلہء كوفہ ميں دار پر لٹكا ديا جائے(28)
ادھر جندب قيد خانے سے بھاگ كر مدينہ پہونچے، وہيں سكونت اختيار كر لى جب عثمان كو معلوم ہوا تو انھوں نے ان كو سخت و سست كہا اس وقت حضرت على نے انكى سفارش كى عثمان نے امام كى سفارش مان لى ، وليد كو خط لكھا كہ جندب سے كوئي مزاحمت نہ كى جائے ،اس طرح جندب پھر كوفہ واپس چلے گئے _

انقلاب كى پہلى چنگاري
جب حاكم كوفہ وليد كى بدكارياں اور خلاف شرع حركتيں بہت زيادہ ہو گيئں تو رد عمل بھى ہوئے ،عثمان كے ناروا سلوك كى وجہ سے لوگوں كا غم و غصہ حد سے زيادہ بڑھ گيا ، باتيں ايك منھ سے دوسرے منھ رينگنے لگيں ايسے ميں عمر وبن زرارہ بن قيس نخعى اور كميل بن زياد نخعى يہ دونوں ہى كوفے كے سربر اوردہ لوگوں ميں تھے ، يہ پہلے افراد تھے جنھوں نے عثمان كى بيعت كا قلادہ گردن سے اتار پھينكا اور على كى بيعت كا اعلان كر ديا، لوگوں كو اپنے پاس جمع كر كے يہ تقرير كى _
اے لوگو عثمان حالانكہ حق و باطل كے درميان تميز ركھتے ہيںليكن جان بوجھ كر پس پشت ڈالتے اورنظرانداز كرتے ہيں پست اور كمينے لوگوں كو نيك اور تقوى شعاروں پر مسلط كر ديا ہے انھيں اقتدار و حكومت ديديا _
اس اجتماع ميں خالد بن عرفطہ بھى تھا ، فورا جا كر اس نے وليد كو خبر دى عمر وبن زرارہ كا واقعہ اور اسكى بھڑكانے والى تقرير سب بيان كر ڈالى _
وليد غصے ميں بھر گيا ،اس نے چاہا كہ خود سوار ہو كر جائے اور تمام لوگوں كو منتشر كردے ليكن اسكے مصاحبين اڑے اگئے_
اور سمجھا يا كہ وہ جتنا سمجھ رہا ہے يہ معاملہ اس سے بھى زيادہ خطرناك ہے ، كيو نكہ تمام لوگ بھڑ كے ہوئے ہيں ،ھنگامے پر امادہ ہيں اپنے حال پر رحم كرو اور فتنے كى اگ كو زيادہ ہوا نہ دو اسى درميان مالك بن حارث نے پيشكش كى كہ اگر وليد چاہے تو ان تمام لوگوں كا جوش ٹھنڈا كردوں وليد نے اثبات ميں جواب ديا
وہ اس اجتماع ميں پہونچا اور ان سے گفت و شنيد كرنے لگا انھيں فتنہ و اشوب سے ڈرا كر ،سب كو ٹھنڈا كر ديا _
وليد بھى نچلا نہيں بيٹھا، ا س نے شور ش اور عمرو بن زرارہ كى تقرير كا كچا چٹھا عثمان كو لكھ مارا ، پھر مدد كى درخواست كر كے اس صورتحال ميں خليفہ سے پوچھا كہ مجھے كيا كرنا چايئے؟
عثمان نے جواب ميں خط لكھا_
ابن زرارہ عرب بدو ہے ،بد معاش ہے اسے شام جلا وطن كر دو وليد نے خليفہ كے حكم سے ابن زرارہ كوشام جلا وطن كرديا(29)
جس وقت ابن زرارہ حق گوئي كے جرم ميں لا چار ہو كر كوفہ چھوڑ رہے تھے ، مالك اشتر،اسودبن يزيد ،علقمہ بن قيس اور قيس بن فہدان انھيں الوداع كہتے ہوئے دور تك گئے ،اس موقع پر قيس نے يہ دو شعر پڑھے _
خدا كى قسم ، رب كعبہ كى قسم خدا كى خشنودى كا پوشيدہ و علانيہ طلبگار ہوں _
ضرور بالضرور ہم وليد اور اسكے اقا عثمان كو جو گمراہى كى جائے پناہ ہے ،حكومت و خلافت سے كھرچے پھينكيں گے()

كوفے ميں عثمان كى باز پرس
جب كوفے كے مختلف لوگوں كى طرف سے بے شمار شكايتيں وليد كے خلاف عثمان كے پاس پہونچيں تو مجبور ہو كر سوچا كہ ظاہرى طور سے اور لوگوں كو دكھانے كيلئے اس كا سخت نوٹس ليا جائے اور اس سلسلے ميں اپنے ازاد كردہ غلام حمران كو انكوائرى كے لئے بھيجا تاكہ صورتحال سے جائزہ لے اور لوگوں كے ساتھ وليد كے سلوك كى رپوٹ دے ليكن وليد نے اس بلند مرتبہ حكومت كى انكوائرى كو دولت سے خريد ليا ،اس كے ہاتھ رشوت سے بھر كر خالى ہاتھ مدينہ واپس كرديا ، اور عثمان كى تمنا كے مطابق وليد كى شان ميں قصيدے پڑھ ڈالے ، عثمان نے راحت كى سانس لى اور خود كو اس روح فرسا غم سے فارغ كر ليا _

اقسم باللہ رب البيت مجتہدا
ارجوالثواب لہ سر او اعلانا

لاخلعن اباوھب و صاحبہ
كھف الضلالة عثمان بن عفانا

كچھ دن بعد مروان (30)نے حمران سے ملاقات كركے وليد كے بارے ميں صحيح صورتحال جاننے كيلئے اس سے پوچھا :
حمران نے جواب ديا ، وہاں كے حالات سخت بحرانى ہيں مروان نے بھى جو كچھ بيتى تھى خليفہ كے گوش گذار كر ديا ،
عثمان نے اس خيانت كے جرم ميں حمران كى جھوٹى رپورٹ كا سخت نوٹس ليتے ہوئے اسے بصرہ جلا وطن كرديا ، پھر اسے وہيں بصرہ ميں ايك اچھا سا گھر بھى عطا فرمايا (31)

مسلمانوں كا حكمراں اورشرابخواري
كوفے پر وليد كى حكومت پانچ سال تك رہى ، اس طويل مدت كے درميان اس نے اذربائيجان كے علاقوں ميں مشركوں سے جنگ كى ، ليكن جيسى اسكى سيرت تھى اور ايمان خام تھا اس حساس موقع پر بھى اس سے ايسى لغزش ہو گئي كہ حد جارى كى جاتى ،قوم كے بزرگ جمع ہوئے كہ اس پر حد جارى كريں ،اسى درميان حذيفہ نے قانون الہى كے نفاذ كى مخالفت كر دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ يہ شخص اسلاميء فوج كا سپہ سالار اس وقت محاذ جنگ پر ہے ، نتيجے ميں اس پر حد جارى نہيں ہوئي (32)
ميں نہيں جانتا كہ وليد حد كا مستوجب كيوں تھا ؟ شراب پينے كى وجہ سے يا كسى دوسرے ارتكاب حرام كى وجہ سے ، ليكن ايك بات مسلم ہے كہ وہ شراب كا رسيا تھا ، اور يہ برى لت اسميں اتنى تھى كہ عام مورخين كے مطابق وہ حد جارى ہونے كا مستوجب قرار پايا _
ابوالفرج اغانى ميں لكھتے ہيں ،وليد بن عقبہ زناكار اور شرابى شخص تھا ، ايك دن صبح سويرے مستى كى حالت
ميں نماز پڑھانے ايا ،اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت پڑھا دى _
حالت نماز ميں اس نے گنگنانا شروع كر ديا _
دل شباب و سنگيت كا رسيا ہے ،درانحاليكہ كہ جوان سے دونوں كا اثر ختم ہو گيا ہے (33)
جب اپنى دانست ميں اس نے نماز ختم كى تو مامومين كى طرف رخ كر كے بولا ،اگر كہو تو نماز كى چند ركعتيں اور بڑھا دوں ،اسى حالت ميں جو كچھ پيٹ ميں تھا قئے كردي(34)
اس بارے ميں مسعودى لكھتا ہے كہ:
وليد اپنے مصاحبوں ، گويوں اور سازندوں كے ساتھ تمام رات بادہ گسارى كر تا تھا ، ايك دن جب موذن نے صبح كى اذان دى تو وليد نے شب خوابى كے لباس ہى ميں بحالت مستى نماز پڑھانے پہونچ گيا ، محراب ميں لوگوں كو نماز پڑھانے كھڑا ہوا _
اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت پڑھا دى ، اپنا سجدہ طويل كر ديا ، بجائے تسبيح كے مسلسل كہتا رہا _
پيو اور مجھے پلائو ،جام چھلكائو
اور جب اپنے خيال ميں نماز سے فارغ ہوا ،لوگوں كى طرف رخ كر كے بولا اگر تم لوگ كہو تو چار ركعت سے زيادہ پڑھا دوں _
عتاب ثقفى پہلى صف ميں تھے ، بالكل وليد كے پيچھے نماز پڑھ رہے تھے ، چلانے لگے_
خدا تيرا ناس مارے ، تجھے كيا ہوا ہے ، خدا كى قسم ، مجھے خليفہ كے سوا كسى پر حيرت نہيں ہوتى كہ تيرے جيسے شخص كو ہم پر حكمراں بنا ديا ہے _
دوسرے لوگ بھى وليد كو كنكرياں مارنے لگے ، جب عثمان كے مادرى بھائي اور كوفے كے حكمراں نے اپنا قافيہ تنگ ديكھا تو ڈگمگاتے ہوئے اہستہ اہستہ چل كر اپنے كو دار الامارہ ميں پہونچايا ، حالا نكہ وہ يہ اشعار گنگنا رہا تھا_
ميں ہرگز شراب اور حسين دوشيزہ سے منھ نہ موڑوں گا، اپنے كو اس بھلائي اور لذت سے محروم نہيں ركھوں گا ، بلكہ اتنى شراب پيوں گا كہ سارا بھيجا سيراب ہو جائے پھر لوگوں كے درميان سے دامن بچا كر نكل جائوں گا_

قصہ گواہوں كا
كوفے كے عوام اخر كار وليد كى بدترين حركتوں سے تنگ اگئے اور جب انہوں نے اپنى متعدد شكايتيں اسكے بارے ميں بے اثر ديكھيں تو سب نے يہ رائے قائم كى كہ وليد كى شرابخوارى اور مستى كى پكى دليل اور دين و دنيا سے لا پرواہى كے نا قابل ترديد ثبوت خليفہ كے سامنے پيش كئے جائيں ، ہو سكتا ہے كہ خليفہ ہمارى دليل و ثبوت مان جائے اور ان كے درد دل اور مصائب دور كرنے كى طرف توجہ كرے ، اس رائے پر عمل كرنے كے سلسلے ميں بزرگان قوم نے مناسب سمجھا كہ وليد كى وہ انگوٹھى جس پر اسكا نام نقش ہے ، اور اسى سے وہ خطوں پر مہر كرتا ہے ، عثمان اسے خوب پہچانتے ہيں ،وليد كى مستى كے وقت اتار ليا جائے اور اسى كو خليفہ كے سامنے قطعى ثبوت كے طور پر پيش كيا جائے _
اس سلسلے ميں بلاذرى لكھتا ہے كہ :
جس دن وليد نشے كى حالت ميں نماز پڑھا رہا تھا ابوزينب نے اپنے دوست زھير بن عوف ازدى سے مدد چاہى كہ انگوٹھى نكالنے ميں اسكى مدد كرے ، زھير نے مدد كرنے پر امادگى ظاھر كى دونوں خاص طور سے اس فكر ميں تھے ،اتفاق سے اس دن وليد نماز عصر پڑھانے بھى نہيں ايا ، ابو زينب نے در بان كے ہاتھ ميں كچھ رشوت تھما دى ، دربان نے رشوت ديكھى تو الگ ہٹ گيا اور راستہ ديديا ابو زينب اور زھير گھر ميں داخل ہو گئے
وہ عجيب اور نفرت انگيز منظر تھا ، وليد نشے ميں دھت ہے ، اسے اپنے سر اور پير كا ہوش نہيں ، ان دونوں نے اٹھا كر اسے بستر پر لٹا ديا اس نے بستر پر ہى قئے كر دى ، ابو زينب نے اس سے زيادہ دير مناسب نہيں سمجھى دونوں نے انگوٹھى اتار لى اور باہر نكل گئے _

عثمان كے حضور
ابو زينب اپنے تين اور معزز ساتھيوں كے ساتھ كوفے سے بصرے كے راستے مدينہ كى طرف چل پڑے ،
اخر كار حاكم كوفہ وليد كى شكايت ليكر خليفہ عثمان كى خدمت ميں حاضر ہوئے
پہلے انہوں نے اپنى عرض خليفہ كے سامنے پيش كى اگر چہ ہميں اميد نہيں كہ اپ ہمارى شكايات پر توجہ ديں گے ،ليكن ہم اپنى ذمہ دارى سمجھتے ہيں كہ اپنى شكايات اپ كے گوش گذار كر ديں _
عثمان نے پوچھا ، مطلب كيا ہے ؟
ان لوگوں نے وليد كى سارى باتيں بيان كيں پيش امدہ تمام تفصيلات كى تشريح كر كے كوفے كى لا چارى كا نقشہ پيش كيا _
عبدالرحمن بن عوف اس بزم ميں موجود تھے ، شكايت كرنے والوں سے پوچھا ، مطلب كيا ہے ؟كيا كہہ رہے ہو وليد كو كيا ہو گيا ہے ؟ كيا وہ ديوانہ ہو گيا ہے ؟
شكايت كرنے والوں نے كہا :
نہيں بلكہ وہ شراب كے نشے ميں مست و بے خود ہو گيا تھا_
اس وقت عثمان نے ابو زينب سے پوچھا؟
تم نے خود ميرے بھائي كو شراب پيتے ديكھا_
جندب نے جواب ديا
نہيں ،ميں نے كبھى نہيں ديكھا ، ليكن ميں گواہى ديتا ہوں كہ ميں نے اسے نشے كى حالت ميں ديكھا ہے وہ قئے كر رہا تھا ،اور سارى قئے اسكے بدن پر ارہى تھى ، ميں نے اسكى مستى و بے خبرى كى حالت ميں انگوٹھى اتار لي_
عثمان نے پوچھا:
تم نے كيسے سمجھا كہ وليد نے شراب پى ہے؟
انہوں نے جواب ديا
ہم لوگ كيسے نہيں سمجھيں گے كہ وليد نے شراب پى ،جبكہ ہم نے خود زمانئہ جاہليت ميں شراب پى ہے ، انھوں نے وليد كى انگوٹھى دكھائي ، اور اسے قطعى ثبوت كے طور پر پيش كيا _
عثمان سخت بد حواس ہو رہے تھے ، لگے گواہوں كو ڈرانے دھمكانے ، سخت سے سخت سزا دينے كى بات كہہ كے گواہوں اور شكايت كرنے والوں كے سينے پر ہاتھ مار كے بھگا ديا _

گواہوں پر خليفہ كا عتاب
ابو زينب ہزاروں اميد و ارزو ليكر مدينے ائے تھے ،عثمان كى خدمت ميں پيش ہوئے تھے سارى تفصيل بيان كى تھى ، قطعى ثبوت بھى پيش كيا تھا_
عثمان نے صرف يہى نہيں كى كہ وليد كى شرابخوارى اور اسى حالت ميں نماز پڑھانے كى شكايت پر توجہ نہيں دى بلكہ سب كو ڈنڈا دكھايا ، گالياں ديں اور برا بھلا كہا_
يہ تمام شكايت كنندگان ڈنڈے اور تازيانے كھا كر حضرت على (ع) كى خدمت ميں ائے ، ان سے مسئلہ حل كرنے كى گذارش كى _
حضرت على (ع) نے عثمان سے ملاقات كي، بات چيت كے درميان اعتراض كيا كہ حدود الہى كو معطل كر رہے ہو ، اپنے بھائي كے خلاف گواہوں پر ڈنڈے بر سا رہے ہو ، تم قانون خدا متغير كر رہے ہو (35)
شكايت كنندگان نے عائشه سے بھى ملاقات كى تھى انھو ں نے عثمان سے چلا كر كہا :
شرعى حدود جارى نہيں كر رہے ہو ، گواہوں كى بے عزتى كر رہے ہو (36)
شكايت كرنے والوں نے گواہى دى تھى كہ وليد بن عقبہ حاكم كوفہ نے شراب پى ہے وہى شراب جو جاہليت ميں ميں پى جاتى ہے _(37)
انہوں نے گواہى دى تھى ،وليد نشے ميں دھت تھا ، اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت نماز پڑھا دى پھر نمازيوں كى طرف رخ كر كے كہا :
اج بہت زيادہ موج ميں ہوں اگر چاہو تو اس سے زيادہ پڑھا دوں ، اسى وقت اس نے محراب مين قئے كردى (38)
انہوں نے گواہى دى كہ الفاظ نماز كے بجائے گيت وسنگيت گنگنا رہا تھا ، اسكى انگلى سے انگوٹھى بھى نكال لى تھى ، يہ زبردست ثبوت تھا ان تمام باتوں كے با وجود ان كاكوئي مداوانہ ہوا، انھيں تكليف جھيلنى پڑى ، توہين ہوئي گالياں سنيں ، ڈنڈے سے تواضع ہوئي، اخر انھيں جان سے مارنے كى دھمكى دى گئي_

عائشه عثمان كے خلاف
ابوالفرج اغانى ميں لكھا ہے ، عثمان نے ان لوگوں كے اعتراض كے جواب ميں كہا ، مگر بات يہ ہے كہ ہر شخص اپنے امير و حكمراں پر كڑھتا ہے ، اس پر تہمت لگاتا ہے ، اس صورتحال مين صحيح حكم صادر كروں گا كہ تم لوگوں كى اچھى طرح خبر لى جائے اور سر زنش كى جائے _
يہ گروہ عثمان كى سزا كے ڈر سے عائشه كے گھر مين پناہ گزيں ہو گيا ، جب عثمان نے صبح سويرے عائشه كے گھر سے تلخ و تند باتيں سنيں تو بے اختيار چلائے _
كيا عراقى سركشوں اور بد كاروں كو عائشه كے گھر كے سوا دوسرى كوئي پناہ گاہ نہ ملى _
عائشه نے جب يہ توہين اميز اور نا قابل معافى دشنام عثمان كا اپنے بارے ميں سنا تو رسول خدا كى جو تياں ہاتھ ميں ليں اور اپنے سر پر ركھكر بلند اواز سے چلا ئيں _
كتنى جلدى تم نے اس صاحب كفش رسول كى سنت سے منھ موڑليا_
عائشه كى يہ بات بجلى كى طرح ايك منھ سے دوسرے منھ تك پہونچتى گئي ، پھر سارے مدينے والوں كے كانوں تك پہونچ گئي مسجد كے پاس لوگوں كا ہجوم ہوگيا، لوگوں كى زبان پر صرف عائشه اور عثمان كى بات تھى ، لوگوں كى باتيں ا س قدر ہيجان انگيز تھيں كہ اخر كار لوگوں ميں اختلاف پيدا ہو گيا ، اسى وقت دو شدت پسند پارٹياں بن گئيں_
بعض لوگوں نے عائشه كے اس اقدم پر تعريف و تحسين شروع كى اور كچھ منھ بنا كر سرزنش كرنے لگے _
عورتوں كو ان باتوں سے كيا مطلب؟
دونوں پارٹيوں كے مظاہرے موافقت و مخالفت ميں بڑھتے گئے نوبت يہاں تك پہونچى كہ ايك دوسرے كى جان كو اگئے ، اپس ميں سنگريزے ، جوتياں اور ڈنڈے برسانے لگے _
اس موقع پر بلاذرى نے اضافہ كرتے ہوئے لكھا ہے _
ام المومنين كے اعتراض كے مقابل عثمان چپ نہيں بيٹھے ، بڑے تلخ و تند انداز ميں چلائے تجھے معاملا ت ميں دخل دينے كا كيا حق ہے ، تجھے تو حكم ديا گيا ہے كہ اپنے گھر ميں چين سے بيٹھ _ اس اعتراض اور سر زنش كى وجہ سے لوگ دو گروہ ميں بٹ گئے ، كچھ لوگوں نے عثمان كو حق بجانب ٹھہرايا ، انكى تائيد و تصديق كى ، اور كچھ لوگ عائشه كى حمايت ميں چلانے لگے _
معاملات ميں دخل دينے كا ان سے زيادہ سزا وار كون ہے؟ دونوں پارٹيوں كى باتيں بڑھتى گئيں ، نوبت يہ اگئي كہ
ايك دوسرے كے سروں پر جوتے برسانے لگے اور جو رم پيزار رونما ہوئي تھى _ اس واقعے كو يعقوبى نے اپنى تاريخ ميں ،ابن عبدالبر نے استيعاب ميں لگ بھگ اسى طرح لكھ كر ام المومنين عائشه كے تاثير اقدام كى نشاندہى كى ہے_ اس واقعے كے بعد طلحہ و زبير عثمان كے پاس گئے اور سخت سرزنش كرتے ہوئے بولے
ہم ابتدا ہى ميں تم سے كہا تھا كہ وليد كو مسلمان كے كسى معاملے ميں مامور نہ كرو ، مگر تم نے ہمارى باتوں كو اھميت نہيں دى نہ مانا ، اب بھى دير نہيں ہوئي ہے جبكہ ايك گروہ نے اسكى شرابخوارى و مستى كى گواہى دى ہے ،تمہارى بھلائي اسى ميں ہے كہ كام كاج سے الگ كردو _
حضرت على (ع) نے بھى فرمايا :
وليد كو عہدے سے سبكدوش كردو ، جيسا كہ گواہوں نے چشم ديد گواہى دى ہے اس كے اوپر حد شرعى بھى جارى كرو _

وليد كى حكومت سے معزولي
اور مسجد كوفہ كے منبر كى تطہير
عثمان مجبور ہو گئے كہ وليد كو حكومت كوفہ سے معزول كريں مدينہ بلائيں ،اور نيا گورنر كوفہ كيلئے معين كريں _
انھوں نے سعيد بن العاص (39) كو حكومت كوفہ پر مامور كيا اور حكم ديا كہ وليد كو مدينہ روانہ كر ديں (40)
سعيد جب كوفہ پہونچا تو وليد كو پيغام ديا كہ تمھيں اميرالمومنين نے مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا ہے _
ليكن وليد نے كچھ دن حكم ميں ٹال مٹول كيا ، گويا سنا ہى نہيں ، ناچار سعيد نے كہا كہ ،اپنے بھائي كے پاس جلدى جائو كيونكہ انھوں نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمھيں ان كے پاس بھيجوں ، پھر فرمان صادر كيا كہ دارالامارہ خالى كر كے ميرے حوالے كرو _
وليد نے مجبور ہو كر اطاعت كرتے ہوئے حكومت اس كے حوالے كى اور خود عمارہ بن عقبہ كے مكان ميں ٹھر گيا _
اس وقت سعيد نے حكم ديا كہ مسجد كوفہ كے منبر كو پاك كيا جائے ، وہ كسى حال ميں بھى اس حكم پر عمل كو روكنے كيلئے امادہ نہيں تھا كہ كہيں بات نہ بڑھ جائے _
كچھ بنى اميہ كے اہم افراد جو سعيد كے حمايتى اور اسى كے ساتھ كوفہ ائے تھے انھوں نے خواہش كا اظہار كيا كہ منبر پاك كرنے كا كام نہ كيا جائے ، خاص طور سے انھوں نے ياد دلا يا كہ اگر تمھارے سوا كوئي اور يہ كام كرتا تو تمہيں روكنا چايئےھا، كيونكہ اس عمل سے وليد پر ہميشہ كيلئے كلنك كا ٹيكہ لگ جائے گا (كيو نكہ يہ دونون ہى بنى اميہ كے خاندان سے تھے )
ليكن سعيد نے كسى كى بات نہ مانى ، اخر كار اس نے طئے كرديا كہ بہرحال منبر كو دھويا جائے اور دار الامارہ كى تطہير كى جائے (41)
اغانى ميں ہے كہ عثمان نے وليد كو فرمان صادر كيا كہ مدينہ ائے اس نے جب مدينہ چلنے كيلئے كوفہ چھوڑا تو ايك گروہ جسميں عدى بن حاتم بھى تھے ، اس كے ساتھ ہوگيا كوفے سے نكلا تاكہ خليفہ كے پاس جاكر وليد كے كرتوتوں كا عذر تراشيں ، اس سفر كے درميان ايك دن وليد نے رسم عرب كے مطابق اونٹوں كيلئے يہ حدى پڑھنے لگا (42)

لا تحسنا قد نسينا الايجاف
والنشوات من عقيق اوصاف
وعرف قينات علينا عراف(43)
يہ سنتے ہى عدى اس پر برس پڑے ،ذرا دھيرج رہو تاكہ ديكھوں كہ اتنا سب كچھ ہونے كے بعد اب تم ہم لوگوں كو كہاں گھسيٹتے ہو_
جب وليد مدينے ميں عثمان كے پاس پہونچا اور گواہوں نے اسكے روبرو گواہى دى تو عثمان اس پر حدّ جارى كرنے كيلئے مجبور ہو گئے ، اسكے اوپر برديمانى كا جبہ اوڑھايا گيا تاكہ تازيانوں كى ضربيں اثر انداز نہ ہوں ، پھر حد جارى كرنے كيلئے كمرے ميں لے گئے_

---------------------------------------------------
1_ استيعاب درحاشيہ اصابہ ج2 ص18 _ 25 ، اصابہ ج2 ص30 _ 32
2_ عمر نے بستر مرگ سے چھ بزرگ نامور صحابہ كو خلافت كے لئے نامزد كيا ، اور طئے كيا كہ يہ لوگ تين روز كے اندر كسى ايك كو خليفہ منتخب كر ليں ، اگر ان ميں اكثريت كسى كو منتخب كر لے اور دوسرے مخالفت كريں تو انكى گردن مار دى جائے ، اور اگر تين تين دونوں طرف ہوں تو جدھر عبد الرحمن ہوں اسى كو خليفہ بنايا جائے ، عبد الرحمن نے موت عمر كے بعد خود كو خلافت سے دستبردار كر ليا اس شرط سے كہ جسكى وہ بيعت كريں سب لوگ اسے مان ليں ، عبد الرحمن اچھى طرح حضرت على كو پہچانتے تھے كہ وہ جاہ طلب سيرت شيخين كو ہرگز قبول نہ كريں گے ، چند روز حكومت كيلئے تئيس (23)سالہ رسول كى محنت برباد نہ كريں گے ، بلكہ عمر بھى اس بات كو جانتے تھے ،كيسے معلوم ہوا كہ انھوں نے عبد الرحمن كو اسكا حكم نہيں ديا ہوگا
انھيں باتوں كے پيش نظر عبد الرحمن نے على سے كہا ميں كتاب اللہ و سنت رسول اور سيرت شيخين كى شرط پر اپ كى بيعت كرتا ہوں ليكن على نے دين كے بدلے دنيا نہيں بيچى ، وہ جانتے تھے كہ اگر قبول نہ كيا تو حكومت نہ ملے گى ، اپ نے فرمايا كہ خدا و رسول كى روش پر بيعت قبول كرتا ہوںليكن سيرت شيخين پر عمل قبول نہيں ، ميں خود اپنى سيرت پر چلوں گا ، اگر عبد الرحمن نے يہ شرط على كے علاوہ كسى سے كى ہوتى تو وہ مان ليتا ، ليكن انھوں نے صرف اپنے داماد عثمان كے سامنے پيش كى ، اور عثمان نے بغير كے اسے قبول كر ليا ، واقعى سوچنے كى بات ہے كہ اخر سيرت شيخين كيا تھى كہ جسے عبد الرحمن نے پيش كيا اور على نے اسے مسترد كر ديا
3_ صحيح مسلم ج7 ص117 ، باب فضائل عثمان _ مسند احمد ج 6 ص155
4_صحيح مسلم ج7 ص 116 ، كنز العمال ج6 ص376 _ تاريخ بن عساكر _ النساب الاشراف بلاذري
5_ طبقات بن سعد ج 8 ص 209
6_ تاريخ بن اعثم كوفى ص 155 _ تاريخ يعقوبى ج2 ص 132
7_ طبرى ج5 ص 172
8_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 68
9_ طبقات بن سعد ج1 ص 86 مطبوعہ مصر
10_ سورہ فرقان ايت 27 و29 ، سيرہ بن ھشام ج1 ص385 وج2 ص25، تفسير طبرى ،قرطبى ، زمخشرى ، ابن كثير ، در منثور نيشاپورى امتاع الاسماع ص61و90
11_ سورہ ء حجرات ايت 6 ----''ان جاء كم فاسق ...''
12_ حالات وليد ، استيعاب ، طبقات ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور كنز العمال اور ايت زير بحث سے متعلق تمام تفاسير ديكھى جا سكتي
13_ من غديرى من ھذا الوزغ اللعين
14_ مسند احمد بن حنبل ج 5ص389 ، مستدرك ج3ص 315 و 320 ، حليہ ابو نعيم ج1ص 126 و 127 كنزالعمال ج 7ص 55 ، بخارى كى بعض روايات خود اپ ہى سے مروى ہيں
15_ اسد الغابہ 3/ 258
16_ انساب الاشراف بلاذرى ج5ص 36
17_عقد الفريد ج2 ص272
18_ ا نساب الاشراف ج5ص36
19_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج 5ص36
20_ استيعاب ميں حالات بن مسعود ديكھئے
21_ ابن مسعودنے اس جواب سے عثمان پر طنز كيا ، كيونكہ عثمان نہ تو جنگ بدر مين شريك تھے نہ بيعت رضوان ميں
22_ تاريخ بن كثير ج7 ص163 ، يعقوبى ج2 ص197 ، مستدرك ج3 ص13
23_ابن مسعود كى وفات 32ھ ميں ہوئي زبير نے انھيں راتوں رات عثمان كو خبر كئے بغير دفن كر ديا ، وفات كے وقت انكى عمر ساٹھ سال سے زيادہ تھى ،
24_ لاعرفتك بعد الموت تندبني .................... و فى حياتى ما زودتنى زادي
25_ اغانى ج3 ص 182_ 83
26_ انساب الاشراف بلاذرى ج 5 ص 29_ 30
27_ مروج الذھب مسعودى ج 1 ص37_43___اغانى ج4_ 186
28_مولف محترم نے واقعہ جندب اور يہودى جادوگر كے مختلف روايات كو مختلف منابع سے يكجا كيا ہے موجودہ حوالہ سب سے زيادہ كامل تر ہے اس لئے صرف اسى پر اكتفا كيا گيا،(سردارنيا)
29_ عمر بن زرارہ كے حالات كيلئے ديكھئے اسد الغابہ ج2 ص 201_202ج4ص104
30__ محترم قارئين ،مروان حكم كو ائيندہ صفحات ميں اچھى طرح معلوم كرليں گے ،اسكى نفسياتى و اخلاقى حالت نيز اسكے معتقدات كا انداز ہو جائے گا، ليكن يہاں ايك بات كى طرف دھيان دلا نا ضرورى ہے كہ مروان اس خوان سے بہت بڑے حصے كا قائل تھا وہ جانتا تھا كہ عثمان نے جس اموى خاندان كى حكمرانى مستحكم كى ہے اسكا ثبات اسى حالت ميں ممكن ہے كہ حكمرانوں كى سستى و غفلت كو ختم كيا جائے ، عثمان كے نور چشم وليد جيسوں كى حركتوں سے اسكى مشام ميں بوئے انقلاب پہونچنے لگى تھى ، وہ چاہتا تھا كہ انقلاب كى جڑ ختم كر دى جائے اس لئے اس نے خليفہ كے سامنے صحيح صورتحال ركھ دى ، ورنہ اس نے رسول اكرم كى زحمتوں اور دين اسلام كے تحفظ كے لئے ايسا نہيں كيا تھا ، نہ اسے اسلامى درد تھا
31_ انساب الاشراف بلاذرى ج5 ص 31
32_ بلاذرى ج5 ص35
33_ علق القلب ربابا بعد ما شابت و شابا
34_ اغانى ج4 ص178
35_ مروج الذھب مسعودى ج2 ص336
36_ بلاذرى ج5 ص33
37_ مروج الذھب مسعودى ج2 ص336
38_ مروج الذھب مسعودى ج2 ص336
39_سعيد بن عاص بن اميہ ، اسكى ماں كا نام ام كلثوم بنت عمر عامرى تھا ، ہجرت كے پہلے يا دوسرے سال پيدا ہوا ، اسكا باپ عاص جنگ بدر ميں على كے ہاتھ سے قتل ہو ا تھا ، عمر بيان كرتے ہيں كہ ميں خود جنگ بدر ميں اپنى انكھو ں سے ديكھ رہا تھا كہ عاص شير كى طرح ميدان ميں چنگھاڑتا ہوا ايا اور على نے ايك ہى ضربت ميں خاك چٹا دى ، سعيد ان نامى گرامى جوانوں اور خطيبوں ميں تھا جس نے عثمان كے حكم سے قران لكھا ، عثمان نے وليد كے بعد اس كو گورنر كوفہ بنايا اس نے اپنے ايام حكومت ميں طبرستان اور دوسرے ايرانى ملكوں كو فتح كيا ، جب عثمان قتل ہوئے تو سعيد گوشہ نشين ہو گيا ، جمل وصفين ميں شريك نہيں ہوا تو اس نے سعيد كو بلايا اور على كے خلاف ،اسكى مدد نہ كرنے پر سرزنش كى ، اس نے عذر معذرت كى ، پھر معاويہ نے مدينہ كا گورنر بناديا معاويہ جب بھى سعيد كو معزول كرتا مروان كو مدينہ كا گورنر بناتا اور مروان كو معزول كرتا تو سعيد كو بناتا سعيد كى موت59ء ميں ہوئي ، اصايہ ، استيعاب اور اسدالغايہ ديكھئے
40_بلاذرى 5_35
44_ اغانى ج4 ص 1181_
45_ قديم زمانے سے عرب ميں رسم تھى كہ سفر كے درميان خاص طور سے لمبے سفر ميں اونٹوں كو تيز ھنكانے كيلئے ترنم كے ساتھ موزون شعر پڑھتے تھے اسطرح اونٹ وجد ميں اكر اپنى تھكن بھول جائے ، مسافروں كو لطف بھى اتا تھا ، اس انداز شعر كو حدى كہتے ہيں ،واضح بات ہے كہ حدى ميں ايسے ہى اشعار پڑھے جايئں گے جو اسكى شخصيت كى عكاسى كرتے ہوں يا مسافر كے ھدف كا اظہار ہو(سردارنيا)
46_ اس شعر كا مطلب يہ ہے ، يہ گمان بھى نہ كرنا كہ شترا ن راہوار كے سواروں كو ہم نے فراموش كر ديا ہے اور شراب كينہ كى ياديں بھلا دى ہيں اور دوشيزائوں كى بھڑكيلى اوازيں اور نغمے ميںبھول گيا ہوں