اسكندريہ كے حكمراں مقوقس 7ھ اپنے بوڑھے بھائي مابور كے ساتھ ماريہ اور اسكى بہن شيريں كو رسول(ص) خدا كے ايلچى حاطب (1)بن بلتعہ كے ساتھ انحضرت(ص) كى خدمت ميں ہديہ بھيجا ، انھيں كے ساتھ ہزار مثقال سونا ، بيس ريشمى كپڑے ، مشھور خچر دلدل اور عفير نام كا گدھا روانہ كيا ، حاطب نے راستے ميں ماريہ اور شيريں كو اسلام قبول كرنے كيلئے كہا ان دونوں نے خوشى سے اسلام قبول كر ليا ، ليكن مابور مدينہ پہونچنے تك اپنے دين پر باقى تھا_
رسول خدا (ص) نے ماريہ كو اپنے لئے مخصوص فرماليا اور انھيں محلہ عاليہ(2) كے ايك گھر جو اج مشربہ ام ابراہيم كے نام سے مشھور ہے ركھا ازاد عورتوں كى طرح انھيں حجاب ميں ركھا اور ان سے ازدواج فرمايا ،ماريہ كو حمل ٹھرا اور اسى گھر ميں لڑكا پيدا ہوا جس وقت ابراہيم پيدا ہوئے انحضرت (ص) كى كنيز سلمى (3) نے دايہ كے فرائض انجام دئے ، سلمى كے شوہر ابو رافع نے جب انحضرت(ص) كو فرزند ابراہيم كے ولادت كى خوشخبرى سنائي تو اپ نے خوشى ميں انھيں انعام ديا _
ابراہيم كى ولادت 8ھ ميں ہوئي ، انصار كو اس سے بڑى خوشى ہوئي تھى انھوں نے ماريہ كى ضرورت پورى كرنے ميں ايك دوسرے سے بارى لے جانے كى كوشش كى اور بوجھ بٹانے كى ہر ممكن سعى كى ، كيونكہ وہ ماريہ سے رسول(ص) خدا كا والہانہ تعلق ديكھ رہے تھے _
اس لئے دوسرى ازواج كو جب ولادت ابراہيم كى خبر معلوم ہوئي تو ماريہ سے ان كا رشك و حسد بڑھ گيا ، وہ جل بھن گئيں ، انھوں نے اعتراض و شكايت كى زبانيں بھى كھول ديں ، ليكن اس طعن و ميں كوئي بھى عائشه سے اگے نہ بڑھ سكا _(4)
59
خود عائشه كا بيان :
مجھے ماريہ سے زيادہ كسى عورت پر رشك و حسد نہيں ہوا ، ماريہ بہت حسين تھى ، اسكے بال گھونگھريالے تھے ، جو ديكھتا ديكھتا ہى رہ جاتا ، اس پر مزيد يہ كہ رسول خدا اس سے بہت محبت كرتے تھے _
رسول خدا (ص) نے شروع ميں ماريہ كو حارثہ (5)بن نعمان كے گھر ميں ركھا اور جب ميں نے رسول(ص) خدا كى اس سے والہانہ محبت ديكھى تو ماريہ كى مخالفت ميں جٹ گئي ، اس قدر ستايا كہ ماريہ نے مجھ سے تنگ اكر رسول سے شكايت كى ، رسول (ص) خدا نے بھى اسے عاليہ كے مكان ميں منتقل كر ديا اور وہيں اسكے پاس جاتے ،يہ تو ميرے اوپر اور بھى گراں گذرا خاص طور سے ميرى اتش رنج اور جلن اتنى بڑھى كہ خدا نے اسے لڑكا بھى ديديا ، حالانكہ خدا نے مجھے اولاد سے محروم ركھا وہ يہ بھى كہتى ہيں _
جب ابراہيم پيدا ہوئے ايك دن رسول خدا بچے كو ميرے پاس لائے اور فرمايا :
_ذرا ديكھوتو مجھ سے كس قدر شباھت ركھتا ہے
_ نہيں ، ہرگز ايسا نہيں ، ميں تو كوئي شباہت نہيں ديكھتي
_ كيا تم اسے ميرى طرح گورا نہيں ديكھ رہى ہو ،بالكل ميرے بدن كى طرح ہے_
_ ارے جسے بھى بكرى كا دودھ پلايا جائے گا سفيد اور موٹا ہوہى جائےگا_
عائشه اور حفصہ كى انہيں حركتوں اور سخت جلن كى وجہ سے خدا نے ماريہ كى برائت ميں سورہ تحريم نازل فرمائي موثق روايات كى بناء پر رسول خدا نے حفصہ كے گھر ميں ماريہ سے ہمبسترى فرمائي _ جب حفصہ كو اس كى خبر ہوئي تو بھڑك اٹھيں _لگيں انحضرت سے چلّا چلا كر گلا شكايتيں كرنے ، اس قدر اسمان سر پر اٹھا يا كہ رسول خدا (ص) نے حفصہ كى دلجوئي اور خوشنودى كے لئے ماريہ كو اپنے اوپر حرام كر ليا ، ليكن اسى كے ساتھ حفصہ سے كہا كہ يہ بات كسى سے نہ كہنا ، اور اس راز كو كسى دوسرے سے بيان نہ كرنا حفصہ نے رسول خدا (ص) كى تمام تاكيدوں كو قطعى نظر انداز كر ديا ، اس راز كو عائشه
60
سے بيان كر ڈالا ، وہ بھى ايك تحريك ميں معاون ہو گئيں پھر تو دونوں كى عيارياں اور كج رفتارياں بڑھتى گئيں ، اخر كار ان دونوں كى سرزنش ميں سورہ تحريم نازل ہوئي اور خدا نے اس راز سے پردہ اٹھا يا _(6)
سورہ تحريم
خدا كے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے
اے پيغمبر(ص) تم كيوں اس چيز كو حرام كرتے ہو جسے خدا نے تمھارے لئے حلال كى ہے ، تم اپنى بيويوں كى خوشى چاہتے ہو ؟اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے _
اللہ نے تم لوگوں كے لئے اپنى قسموں كى پابندى سے نكلنے كا طريقہ مقرر كر ديا ہے ، اللہ تمھارا مولا ہے اور وہى دانا اور حكيم ہے _
اور جس وقت پيغمبر نے اپنى ايك بيوى (حفصہ ) سے راز كى ايك بات كہى تھى ، پھر جب اس بيوى نے اس راز كو (عائشه )پر راز ظاہر كر ديا ، خدا نے اس افشائے راز كو پيغمبر سے باخبر كر ديا (پيغمبر(ص) نے بھى ) اس پر كسى حد تك جو عائشه اور حفصہ كے درميان گذرى تھى تذكرے كے انداز ميں حفصہ سے بيان كيا اور بعض سے در گزر كيا ، پھر جب پيغمبر نے اس افشائے راز كى بات بتائي تو حفصہ نے پوچھا اپ كو اس كى كس نے خبر دى ؟ پيغمبر نے حفصہ كے جواب ميں فرمايا ، مجھے اس نے خبر دى ہے جو سب كچھ جانتا ہے اور اچھى طرح با خبر ہے
اگر تم دونوں (عائشه و حفصہ )خدا كى طرف واپس اتى ہو اور توبہ كرتى ہو تو تمہارے دل سيدھى راہ سے ہٹ گئے ہيں ، اور اگر پيغمبر (ص) كے مقابلے ميں تم نے باہم جتھہ بندى كى تو جان ركھو كہ اللہ اس كا مولى ہے اور اس كے بعد جبرئيل اور مومنوں ميں مرد صالح ہے ، اور سب ملائكہ اسكے ساتھى اور مددگار ہيں ،بعيد نہيں كہ اگر پيغمبر تم سب بيويوں كو طلاق ديدے تو اللہ اسے ايسى بيوياں تمہارے بدلے ميں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچى مسلمان ، با ايمان ، اطاعت گذار ، توبہ والى ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں خواہ شوہر ديدہ ہوں يا باكرہ _
61
اے لوگو جو ايمان لائے ہو بچائو اپنے اپ كو اور اپنے اہل و عيال كو اس اگ سے جسكا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہايت تند خو اور سخت گير فرشتے مقرر ہوں گے ، جو كبھى اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے اور جو حكم بھى انھيں ديا جاتا ہے اسے بجالاتے ہيں _
اے كافرو اج معذرتيں پيش نہ كرو تمھيں تو ويسا ہى بدلہ ديا جا رہا ہے جيسے تم عمل كر رہے تھے _
اے لوگو جو ايمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ كرو ، خالص توبہ ، اميد ہے كہ اللہ تمہارى برائياں تم سے دور كر دے اور تمھيں ايسى جنتوں ميں داخل فرمادے جن كے نيچے نہر يں بہہ رہى ہوں گى ، يہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے پيغمبر كو اور ان لوگوں كو جو اس كے ساتھ ايمان لائے ہيں رسوا نہ كرے گا ان كا نور ان كے اگے اگے اور ان كے دائيں جانب دوڑ رہا ہو گا ، اور وہ كہہ رہے ہوں گے كہ اے ہمارے پروردگار ، ہمارا نور ہمارے لئے مكمل كر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _
اے رسول ، كفار اور منافقين سے جہاد كرو اور ان كے ساتھ سختى سے پيش ائو ، ان كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھكانا ہے _
اللہ كافروں كے معاملے ميں نوح اور لوط كى بيويوں كو بطور مثال پيش كرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں كى زوجيت ميں تھيں ، مگر انھوں نے اپنے شوھروں سے خيانت كى اور اللہ كے مقابلے ميں ان كے كچھ بھى نہ كام اسكے ، دونوں سے كہہ ديا گيا كہ جائو اگ ميں جانے والوں كے ساتھ تم بھى چلى جائو اور اہل ايمان كے مقابلے ميں اللہ فرعون كے بيوى كى مثال پيش كرتا ہے جبكہ اس نے دعا كى ،اے ميرے رب ، ميرے لئے اپنے يہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس كے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے اور عمران كى بيٹى مريم كى مثال ديتا ہے جس نے اپنى عفت كى حفاظت كى پھر ہم نے اس كے اندر اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اس نے اپنے رب كے ارشادات اور اسكى كتابوں كى تصديق كى اور وہ اطاعت گزار لوگوں ميں سے تھى _
سورہ تحريم ام المومنين عائشه بنت ابو بكر اور حفصہ بنت عمر بن خطا ب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، اس سلسلے ميں سيكڑوں حديثيں ابن عباس كے طريق سے اور خود عمر بن خطاب كے طريق سے وار د ہوئي ہيں جن سے اس حقيقت كا پتہ چلتا ہے_ (7)
اور ميں انشاء اللہ بعد كے صفحات ميں جہاں ام المومنين عائشه كى احاديث پر بحث كروں گا ، وہيں تفصيلى تبصرہ كروں گا _
62
عائشه اور خديجہ كى ياديں
عائشه كا بيان ہے :
ازواج رسول(ص) خدا ميں خديجہ سے زيادہ مجھے كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، وجہ يہ تھى كہ رسول(ص) خدا انھيں بہت يا د كرتے تھے ہر وقت تعريف كرتے رہتے ، خصوصيت يہ تھى كہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو وحى كے ذريعے خبر دى تھى كہ خديجہ كے لئے جنت ميں ايك پر شكوہ اور سجا سجايا محل عطا فرمايا ہے _(8)
يہ بھى بيان ہے كہ_ حالانكہ ميں نے خديجہ كو نہيں ديكھا تھا ، پھر خديجہ سے زيادہ كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، كيونكہ اكثر ايسا ہوتا كہ رسول خدا (ص) خديجہ كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى تعريف و ستائشے كرتے ، اكثر اپ ايك گوسفند ان كے نام سے قربانى كرتے ،اسكى بوٹياں كركے تقسيم فرما ديتے (9)
يہ بھى حكايت كرتى ہيں كہ :
ايك دن خديجہ كى بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول خدا سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسول (ص) خدا نے جيسے ہى ہالہ كى اواز سنى ، خديجہ كى ياد اگئي اپ كى حالت شدت سے متغير ہوگئي اور بے اختيار فرمايا :
ہائے ميرے خدا ، ہالہ
يہ سنكر ميرى تو خديجہ سے جلن بھڑك اٹھى تھى ، فوراً كہا اپ اس بے دانت كى بڑھيا كو كتنا ياد كرتے رہتے ہيں ؟
زمانہ ہوا كہ وہ مر گئي اور خدا نے اس سے بہتر اپ كو عطا فرما ديا (10)
ايك دوسرى روايت ميں يہى بات يوں بيان كى ہے _
ميرے اس اعتراض پر رسول (ص) خدا كو ميں نے ديكھا كہ چہرہ بھڑك اٹھا ، چہرے كى حالت متغير ہو كر ويسى ہو گئي
63
جيسى وحى نازل ہوتے وقت ہوتى ، جب اپ اسمانى حكم كے منتظر ہوتے كہ پيغام رحمت نازل ہوتا ہے يا عذاب (11)
ايك دوسرى روايت ميں ہے _
عائشه كہتى ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا ، نہيں ... ہرگز خدا وند عالم نے مجھے اسكے بدلے اس سے اچھى عورت نہيں دى ، كيونكہ جسوقت تمام لوگ ميرا انكار كررہے تھے ، وہ مجھ پر ايمان لائيں ، لوگ جب مجھے جھوٹا سمجھ رہے تھے ، خديجہ نے ميرى تصديق كى ، جب لوگوں نے مجھے مالى پريشانيوں ميں ڈالا تو انھوں نے اپنى بے حساب دولت ميں مجھے شريك كيا ، خدا نے دوسرى عورتوں سے مجھے اولاد نہيں دى ،خديجہ سے مجھے اولاد عطا فرمائي(12)
رسول (ص) خدا ہميشہ اپنى اس پہلى رفيقہ حيات كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى يادوں اور ياد گاروں كى تجديد فرماتے ، ان كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك فرماتے ، انھيں دوسروں پر مقدم كرتے انكى ياديں تمام زندگى پر محيط رہيں ، يہى وجہ تھى كہ ام المومنين كا سينہ ان كى نفرت و حسد و جلن سے بھر گيا تھا ، اسى وجہ سے جب بھى خديجہ كا نام اتا ، اپ انھيں ياد كرتے تو يہ اعتراض كى زبان كھول ديتيں سب سے بد تر يہ كہ وہ خديجہ كى تعريف سنكر اندوہ سے پاگل ہو جاتيں اپنے كو سرزنش و مذمت كا سزاوار پاتيں ، انھيں باتو ں كى وجہ سے خديجہ كى بيٹى حضرت فاطمہ اور ان كے بچوں سے روابط خراب تھے ، كيونكہ رسول خدا ان سے والہانہ پيار كرتے _
اسى دشمنى اور اندرونى نفرت كے اثرات كا اندازہ مسند احمد بن حنبل كى روايت سے ہوتا ہے جسے نعمان بن بشير نے بيان كيا ہے _
ايك دن ابو بكر نے رسول خدا (ص) سے ملاقات كى اجازت چاہى اسى وقت انھوں نے كمرے سے عائشه كى اواز سنى جو چلا رہى تھيں _
خدا كى قسم ، ميں اچھى طرح جانتى ہوں كہ اپ على كو ميرے باپ سے زيادہ چاہتے ہيں
حضرت على (ع) نے اپنے بارے ميں نفرت و عناد كا ايك گوشہ ايك تقرير ميں بيان فرمايا ، ليكن وہ ...عائشه ، اس نے عورتوں كے مزاج كے مطابق عقل كو طاق پر ركھ ديا ہے ، كينہ و عناد كے شرارت اپنے دل ميں اسطرح بھڑكا لئے ہيں جيسے لوہاروں كى بھٹى دھونكى جاتى ہے ، اگر اس سے كہا جائے كہ جو سلوك ،ميرے ساتھ كرتى ہے دوسرے كے ساتھ بھى كرے تو ہرگز پسند نہ كر يگى نہ مانے گى اخر امير المومنين نے بات اس پر ختم كى _
اسكے باوجود اسكے سابقہ احترامات محفوظ ہيں ، اسكے كرتوتوں كا بدلہ خدا ديگا ، وہ جسے چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب ديتا ہے _
64
ابن ابى الحديد كى عبارت
و كانت تكثر الشكوى من عائشه ، و يغشا ھا نساء المدينہ فينقلن اليھا كلمات عن عائشه_
فاطمہ كا دل عائشه كے طعنوں سے بھر اہوا تھا كيونكہ مدينے كى عورتيں اپ كے پاس اتيں اور طعنوں بھرى باتيں عائشه كى پہونچاتى رہتى تھيں ابن ابى الحديد :
حضرت على بن ابى طالب(ع) كے بيان كينہ ء عائشه كے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى كے بيان و شرح كو بھى بيان كيا جائے كيونكہ يہ بيان غور طلب ہے ، وہ لكھتے ہيں :
ميں جس وقت علم كلام كى تحصيل ميں مشغول تھا ، ميں نے امام كے اس خطبے كو اپنے استاد شيخ ابو يعقوب يوسف بن اسماعيل لمعانى كے سامنے پڑھا ، اور ان سے خواہش ظاہر كى كہ اس كے راز سے مطلع فرمايئے ، شيخ نے ميرى خواہش قبول كى ، انھوں نے جو اس خطبے كى تشريح فرمائي اسكو بطور خلاصہ يہاں نقل كر رہا ہوں ، كيو نكہ انكى پورى بات اس وقت ميرے حافظے ميں نہيں ، پورى تفصيل كو اختصار كے ساتھ پيش كر رہا ہوں _
شيخ ابو يعقوب نے اس طرح كہا :
فاطمہ كى سوتيلى ماں
پہلى بار عائشه و فاطمہ كے درميان كينہ و دشمنى اسطرح شروع ہوئي كہ رسول خدا نے خديجہ كے انتقال كے بعد عائشه سے عقد فرمايا ، خديجہ كى جگہ عائشه كو ملى حالانكہ فاطمہ حضرت خديجہ كى بيٹى تھيں اور يہ بات ظاہر ہے كہ جس بيٹى كى ماں مر جائے اور اسكا باپ دوسرى شادى كرلے تو اس بيٹى سے باپ كى دوسرى زوجہ سے تعلقات ٹھيك نہيں رہتے ، اور يہ بات فطرى اور مسلم ہے ، كيونكہ ہر عورت اپنے شوہر كى پہلى زوجہ كى اولاد سے دشمنى كا برتائو كرتى ہے ، خاص طور سے ايسى حالت ميں كہ جب شوہر كى پہلى زوجہ سے شديد وابستگى كا مظاہرہ ہو
اسى طرح اگر بيٹى باپ كو دوسرى عورت كى طرف توجہ كرے اسكى سوتيلى ماں ہو تو غمگين اور نگراں رہتى ہے ، باوجود يكہ خديجہ دنيا سے گذر چكى تھيں ليكن بہر حال عائشه حضرت فاطمہ كى سوتيلى ماں تھيں ، اگر خديجہ زندہ ہوتيں اور
65
عائشه كے قدم پيغمبر كے گھر ميں ائے ہوتے تو دشمنى اور لڑائي سخت اور شديد ہوتى ، ليكن جبكہ ماں كا انتقال ہو چكا تھا تو يہ دشمنى وراثت ميں فاطمہ كو ملى تھى _
دوسرى طرف ديكھئے كہ كہا جاتا ہے كہ رسول(ص) خدا عائشه سے بہت محبت فرماتے تھے(13) انكى بہت مراعات فرماتے ، يہ بنيادى چيز كہ رسول جس قدر عائشه سے زيادہ محبت فرماتے اسى قدر حضرت فاطمہ كا رنج و اندوہ بڑھتا جاتا ، احساسات مجروح ہوتے رہتے_
فاطمہ(ع) پيغمبر (ص) كى پياري
رسول(ص) خدا اپنى بيٹى فاطمہ كو لوگوں كى توقع سے زيادہ پيار كرتے اور تعظيم فرماتے ، اور عام ادمى جسقدر اپنى بيٹى سے اظہار محبت كرتا ہے اسى سے كہيں زيادہ محبت فرماتے ، يہ پدرانہ شفقت و محبت حد سے زيادہ اور كہيں زيادہ نظر اتى ہے _
پيغمبر(ص) خدا چاہے وہ عام نشست ہو يا خاص ، مختلف موقعوں پر بارہا فرما چكے تھے ، فاطمہ تمام عالمين كى عورتوں كى سردار ہے ، وہ مريم بنت عمران كى مانند ہے (14)
جب فاطمہ عرصہ محشر سے گذرينگى تو عرش كى جانب سے منادى پكارے گا اپنى انكھيں بند كر لو كہ فاطمہ تمھارے درميان سے گذرنے والى ہيں (15)
اس قسم كى تمام احاديث ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كيا جا سكتا فاطمہ اور على سے شادى بھى خدا وند عالم نے مقرب فرشتوں كو گواہ بنا كر اسمان پر فرمائي تھى (16)
رسول(ص) خدا نے اكثر فرمايا كہ جو چيز فاطمہ كو رنج پہونچاتى ہے وہ مجھے رنج پہونچاتى ہے ، جو كچھ اسے غضبناك كرتى ہے مجھے غضبناك كرتى ہے (17)
66
وہ ميرى پارہ جگر ہے اسكى نگرانى سے ميں رنجيدہ و ملول ہوتا ہوں (18)
اس قسم كى احاديث سے رسول كى زوجہ عائشه كيلئے اس بات كا سبب بنا كہ وہ فاطمہ سے حسد كريں ، جس قدر رسول(ص) خدا اپنى بيٹى فاطمہ كا احترام فرماتے ان كا كينہ و عناد تيز سے تيز تر ہوتا ، حالانكہ ہم جانتے ہيں كہ اس سے بھى كمتر حسن سلوك بھى سوتيلى ماں كے كينہ و عناد كو بڑھاديتا ہے _
ليكن رسول كے اعزاز و اكرام فاطمہ سے جس قدر عائشه كے دل ميں كينہ و عناد تيز ہوتا ، حضرت على كے دل ميں خوشى بڑھتى اور فاطمہ كا احترام ان كے دل ميں زيادہ ہوتا اكثر ايسا ہوتا ہے كہ عورتيں اپنے شوہروں كے دل ميں عداوت و دشمنى پيدا كر ديتى ہيں كيو نكہ مثل مشہور ہے راتوں كى ہمدم (محدثات الليل )
حضرت فاطمہ(ع) عائشه كى بہت شكايت كرتيں اور مدينے كى ہمسايہ عورتيں كبھى كبھى اپ كے پاس اكر عائشه كى باتيں ان سے بيان كرتيں ، پھر حضرت فاطمہ(ع) كا رد عمل عائشه سے بيان كرتيں جس طرح فاطمہ اپنا درد دل اپنے شوہر على (ع) سے كہتى تھيں اسى طرح عائشه اپنے باپ سے اسكى شكايت كرتى تھيں كيو نكہ وہ جانتى تھيں كہ شوہر سے شكايت كرنے سے ان كے شوہر نہيں مانيں گے _
عناد كے كئي رخ
يہ معاملہ بجائے خود ابوبكر كے دل ميں نا پسند يدہ اثرات مرتب كرتا تھا ، وہ اس سے رنجيدہ ہوتے تھے ، اور جب وہ ديكھتے تھے كہ رسول(ص) خدا على كى تعريف و ستائشے كا كوئي موقع فرو گذاشت نہيں كرتے انھيں اپنے سے مخصوص قرار ديا ہے ، مقرب بنا ليا ہے تو ان كے دل ميں كينہ و عناد كى اگ بھڑك اٹھتى ، پيغمبر (ص) كے نزديك على كا مرتبہ و مقام ديكھ كر انھيں رشك اتا ، جبكہ وہ اپنے كو سسر ہونے كى حيثيت سے على سے زيادہ اسكا مستحق سمجھتے _
يہ حسد اور نفسياتى كسك عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ كے دل ميں بھى تھى عائشه اپنے باپ ابو بكر اور بھائي طلحہ كے پاس جاكر انكى توقعات كو سنتى تھيں ان كے دلى درد پر توجہ كرتيں ، وہ دونوں بھى اظہار ہمدردى كرتے ، اسطرح على و فاطمہ سے كينہ وعداوت كا تبادلہ ہوتا ، ان لوگوں كے دل ميں جس قدر بھى على سے عداوت سخت تر ہونے كى بات ہو ميں اسكى صفائي نہيں دے سكتا ، ادھر على (ع) و عائشه كے درميان حيات پيغمبر (ص) كے زمانے ميں ايسے واقعے پيش ائے ، گفتگو كے
67
تبادلے ہوئے جو ان كے پوسيدہ احساسات اور فتنے ابھارنے كيلئے كافى تھے _
جيسے كہ روايت ہے ، ايك دن رسول خدا (ص) نے على سے راز دار انہ بات كى اور يہ رازدارى كافى طويل ہوئي (19)عائشه اس بات كى فكر ميں لگى ہوئي تھيں اپنے كو اچانك ان دونوں كے درميان پہونچا ديا اور كہا كہ اخر كون سى اہم بات ہے كہ اپ دونوں اتنى دير سے گفتگو كر رہے ہيں ، كافى دير لگا دى ؟
بيان كيا جاتا ہے كہ رسول (ص) خدا اس ناگہانى امد سے سخت غضبناك ہوئے اسى كے ساتھ يہ بھى روايت كى جاتى ہے كہ رسول (ص) خدا كيلئے كھانا بھيجا گيا تھا انھوں نے اپنے نوكر كو حكم ديا كہ انتظار ميں رہے ، جيسے ہى كھانا ائے اسے پھينك دے اس قسم كے معاملات عام طور سے عورت اور شوہر كے گھر والوں كے درميان پيش اتے ہيں _
فرزندان فاطمہ سے رسول كا والہانہ پيار :
فاطمہ كو كئي لڑكے اور لڑكياں ہوئيں ، حالانكہ عائشه اولاد سے محروم رہيں اور عائشه كے بے اولاد ہونے كا بد ترين اور دردناك ترين پہلو يہ تھا كہ رسول خدا نے فرزندان فاطمہ كو اپنى اولاد كہا ،ہميشہ انھيں اپنا فرزند كہكے خطاب فرماتے مثلافرماتے ، ميرے فرزند كو لائو ...ميرے فرزند كو مت روكو ...اور يا ميرے فرزند كے ساتھ كيا كر رہا ہے؟
ان حالات ميں جب اپنے شوہر كو ايك بے اولاد عورت ديكھتى ہے كہ اپنے بيٹى كے فرزندوں كو اپنا فرزند كہہ رہا ہے اور ان كے ساتھ ايك شفيق اور مہربان باپ كى طرح برتائو كر رہا ہے ، اپنى جان سے زيادہ عزيز ركھتا ہے انكى قدر و منزلت بڑھا رہا ہے تو كيا سوچے گى ؟
كيا وہ ان بچوں اور انكى ماں سے محبت كريگى يا ان سے نفرت كريگى ؟كيا يہ مسلسل سلگنے والى بھٹى مہربانى اور صفائي چاہے گى يا زوال كى ارزو كريگى ، اس سے بھى زيادہ دردناك تر بات يہ تھى كہ رسول نے حكم ديا _
68
مسجد كى طرف كھلنے والے تمام دروازے بند كئے جائيں ، اسى وقت حكم ديا كہ ان كے داماد على كا دروازہ مسجد كى طرف كھلا رہے ؟(20)
اور يہ كہ پہلے ابو بكر كو سورہء برائة كى تبليغ كے لئے ديا كہ مكہ جا كر مشركين كو سنائيں پھر انھيں اس عہدے سے بر طرف كر كے اپنے داماد على كو ديديا (21)يہ بات بھى عائشه كيلئے بڑى ناگوار تھى جب خدا نے ماريہ كو ابراہيم جيسا فرزند عطا فرمايا ، على اپنى مسرت روك نہيں سكے ، جس طرح اپ دوسرى ازواج رسول كے ساتھ تعاون فرماتے تھے ، ماريہ كے ساتھ بھى تمام توجہ كے ساتھ كمك اور تعاون فرمايا _
جب ماريہ پر الزام لگايا گيا تو يہ على تھے جنھوں نے دل و جان سے انكى صفائي كى كوشش كى ، اس الزام كو بے بنياد ثابت كرنے كا عملى اقدام فرمايا يا اس سے بہتر لفظوں ميں كہا جائے كہ خدا نے على كے ہاتھوں حق ظاہر كيا اور الزام كا بطلان يوںظاہر كيا كہ انكھوں سے ديكھا جاسكے ، اور اس بارے ميں ذرا بھى چون و چرا كى گنجائشے نہ رہ جائے _
ان تمام باتوں نے عائشه كے دل ميں كينہ و نفرت بھر ديا ، ان كے خلاف تمام كينہ توزيوں كےلئے راسخ كر ديا _
جب ابراہيم كا انتقال ہوا تو ماريہ كے غم و اندوہ ميں طعنوں اور زبان كے زخموں نے بھى سر ابھارے يہ على و فاطمہ كو بھى جھيلنا پڑا كيونكہ يہ دونوں ماريہ كو اہميت ديتے تھے ، اور چاہتے تھے كہ ماريہ كو صاحب اولاد ہونے كى وجہ سے دوسرى ازواج خاص كر عائشه پر برترى حاصل ہو جائے ،ليكن تقدير نہ تو ان لوگوں كى ارزو كے مطابق تھى نہ ماريہ كى خواہش كے مطابق _
على اور مسئلہ خلافت
على كو ذرا بھى شك نہ تھا كہ بعد رسول خلافت انھيں كو ملے گى ، دوسرا كوئي بھى ان كا رقيب نہيں (22)يہى اطمينان قلب تھا كہ جس وقت ان كے چچا عباس نے غسل پيغمبر(ص) كے وقت كہا :
69
ہاتھ بڑھائو تاكہ تمہارى بيعت كر لوں تاكہ لوگ كہيں كہ رسول(ص) كے چچا نے اپنے بھتيجے كى بيعت كر لى ، يہ تمہارے حق ميں مفيد ہو گا پھر كسى كو تمھارى مخالفت كا يا رانہ نہ ہو گا _
على نے جواب ديا :
اے چچا كيا ميرے علاوہ بھى كوئي ہے جسے خلافت كى طمع ہو ؟
تم جلدہى ديكھ لو گے
مجھے پسند نہيں كہ مسئلہ خلافت پچھلے دروازے سے ظاہر ہو ، بلكہ ميں يہ چاہتا ہوں كہ تمام لوگ اشكار طريقے سے شريك ہوں اور خلافت كے بارے ميں رائے ديں ، يہ كہا اور خاموش ہو گئے _
اور جب رسول كى بيمارى نے شدت پكڑى تو رسول نے جيش اسامہ كو حركت كا حكم ديا (23) اور ابو بكر اور دوسرے اكابر قريش مہاجر و انصار كو حكم ديا كہ جيش اسامہ كے ساتھ اسامہ كى ما تحتى ميں چلے جائيں ، اگر يہ بات مان لى جاتى اور پيغمبر كى وفات ہوئي تو على كى خلافت مسلّم اور قطعى تھي_
خود على كا خيال تھا كہ اگر پيغمبر(ص) كى وفات ہو جائے تو مدينے ميں خلافت كا جھگڑا نہ ہو گا ، اس صورتحال ميں لوگ اسانى سے انكى بيعت كر ليں گے اور اس بيعت كا فسخ يا ان كا حريف ہونا ممكن ہى نہ تھا ، لا محالہ تمام لوگ انكى بيعت كريں گے _
ليكن ابو بكر نے عائشه كے اس پيغام كى بنياد پر كہ رسول خدا (ص) كى وفات كا ہنگام اگيا ہے، لشكر اسامہ سے علحدہ ہو كر مدينے پلٹ ائے _
ليكن جہاں تك لوگوں كو نماز پڑھانے والى ابو بكر كى بات ہے تو ميرى دانست ميں حضرت على نے اس كا ماحول تيار كرنے كيلئے عائشه كو متعارف كرايا ہے _
70
جيسا كہ لوگ كہتے ہيں كہ رسول خد(ص) ا نے فرمايا كہ كوئي جا كر لوگوں كو نماز پڑھا دے اور كسى معين شخص كا نام نہيں ليا ، وہ صبح كى نماز كا وقت تھا ، ليكن يہ حكم دينے كے بعد رسول (ص) خدا ذاتى طور سے اخرى لمحے ميں على اور فضل بن عباس كے كاندھوں كا سہارا لئے ہوئے باہر ائے اور محراب ميں بيٹھ گئے پھر اپ نے خود ہى نماز پڑھائي اور گھر واپس اگئے ، سورج نكل ايا تھا كہ دنيا سے تشريف لے گئے _
عمر نے اسى امادگى اور ابو بكر كا لوگوں كو نماز پڑھانا ان كے استحقاق خلافت كى دليل بنايا ہے ، وہ كہتے ہيں كہ :
تم ميں كون اپنے لئے جائز سمجھتا ہے كہ جسے رسول (ص) خدا نے نماز پڑھانے كيلئے مقدم قرار ديا اس سے مقدم سمجھے؟
اور يہ بات كہ رسول (ص) خدا گھر سے باہر ائے اور خود ہى نماز پڑھائي اس پر حمل نہيں كيا ہے كہ اس سے ابوبكر كى امامت روكنا تھا ، بلكہ كہتے ہيں كہ انحضرت (ص) اس بات پر مائل تھے كہ جہاں تك ممكن ہو خود ہى يہ كام انجام ديں اس واقع اور اس مسئلے كا سہارا ليتے ہوئے لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى حالانكہ اس سازش كا الزام على نے عائشه پر لگايا ہے كہ يہ پورا ماحول انھوں ہى نے تيار كيا تھا ، اپ نے بارہا اس بات كو اپنے اصحاب سے جو اپ كے اردگرد تھے فرمايا :
انحضرت (ص) نے عائشه و حفصہ سے اس معاملے ميں فرمايا ، تم دونوں يوسف والى عورتيں ہو ، اپ اس كاروائي سے اپنى نفرت اور ناپسنديدگى فرما رہے تھے _
خاص طور سے اپ نے عائشه سے اپنى برہمى ظاہر فرمائي ، كيو نكہ يہ عائشه اور حفصہ ہى تھيں جنھوں نے حكم رسول سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے اپنے باپ كو نماز پڑھانے كى پيش دستى كى اور رسول(ص) خدا كو جب اس نيابت كى اگاہى ہوئي تو رنجيدہ ہو كر بذات خود باہر ائے اور ابو بكر كو اس امامت سے روك كر زندگى كے اخرى لمحے ميں عملى طور سے عائشه كے اقدام كو ناكام بنايا _
اس صورتحال ميں رسول خدا (ص) وسيع تر ماحول تيار كئے ہوئے حالات ميں اس سے زيادہ كر بھى نہيں سكتے تھے كيونكہ عمر و ابوبكر نے ماحول پر پورے طور سے قبضہ كر كے لوگوں كو اسكے لئے تيار كر ليا تھا ، اس سلسلے ميں مہاجرين و انصار كے سربراوردہ افراد ان كے شريك تھے ، گردش زمانہ اور تقدير اسمانى نے بھى ان لوگوں كى مدد كى تھى _
يہ حادثے على كے لئے تمام دردوں سے اذيتناك تھے ، عظيم مصيبت اور بڑى افت تھى جو اپ كى روح كو تكليف پہونچاتى تھى ، اسكا ذمہ دار وہ صرف عائشه كو قرار ديتے تھے ، اس بات كو بار ہا اپ نے اصحاب سے كہہ كر خدا سے انصاف كا مطالبہ كيا _
71
اس سے بڑھكر يہ كہ على (ع) نے بيعت ابو بكر سے اس وقت تك ركے رہے جب تك اپ كو مجبور نہيں كيا گيا(24)اپ نے كيا كيا مصائب جھيلے يہ سارى باتيں مشھور ہيں _
جس وقت رسول خدا(ص) نے انتقال فرمايا ، اور جب تك طويل بيمارى كے بعد فاطمہ (ع) نے انتقال فرمايا ، برابر عائشه كى طرف جناب فاطمہ كو طعنوں بھرى باتوں كا سامنا كرنا پڑا جس سے اپ كى روح لرزاٹھى تھى ، جناب فاطمہ اور حضرت على (ع) كے لئے سوائے صبر كے چارہ نہ تھا ، وہ اپنے غم و اندوہ كى شكايت خدا ہى سے كر سكتے تھے _
عائشه اپنے باپ كى حمايت اور خلافت كى چكى پھرانے والوں ميں سر فہرست تھيں مرتبہ و مقام روز بروز بڑھتا رہا ، جبكہ حضرت فاطمہ(ع) اور حضرت على (ع) شكست خوردہ كى طرح طاقت و اقتدار سے الگ ركھے گئے ،فدك فاطمہ سے چھين ليا گيا ، اپ نے بارہا اسے واپس لينے كى كوشش كى ليكن تمام كوششوں كا كوئي نتيجہ نہ نكلا _(25)
اس درميان جو اپ كے پاس امد و رفت كرتيں عائشه كى طعنوں سے بھر پور باتيں اپ سے بيان كرتيں ، اس طرح اپ كے دل كو سخت تكليف پہونچتى اور انكى اور انكے شوہر كى باتيں عائشه سے بيان كر كے اتش كينہ و عداوت كو ان دونوں كے درميان بھڑكا تى تھيں _
ليكن ان دونوں گروہوں كے درميان انتہائي بد تر اختلاف موجود تھا ، ايك گروہ كامياب تھا اور دوسرا گروہ شكست خوردہ ، ايك حكمراں تھا دوسرا محكوم ، يہى وہ حالت ہے كہ غالب گروہ كى باتيں شكست خوردہ كو بڑى تكليف پہونچاتى ہيں ، اور يہ بات طئے ہے كہ دشمن كى ملامت سے ادمى كو جو روحانى اذيت ہوتى ہے وہ تمام مصيبتوں سے دردناك ہوتى ہے _
يہاں تك ميرے استاد كى بات پہونچى تھى كہ ميں نے عرض كى كيا اپ بھى كہتے ہيں كہ رسول (ص) خدا نے كسى معين شخص كو نماز پڑھانے كا حكم نہيں ديا تھا ، يہ صرف عائشه تھيں جنھوں نے خود سرانہ طريقے سے اپنے باپ كو اس كام پر مامور كيا تھا _
72
استاد نے جواب ديا ، ميں يہ نہيں كہتا ، يہ بات على نے كہى ہے ، اور ظاہر ہے كہ انكى ذمہ دارى الگ ہے اور ميرى ذمہ دارى الگ ہے ، وہ خود جائے واقعہ پر موجود تھے اور تمام باتوں كو اپنى انكھوں سے ديكھا تھا ، ليكن مجھے جو حديثيں ملى ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول خدا نے ابوبكر كو نماز پڑھانے پر مامور كيا تھا ، جبكہ على كا مدرك علم و اطلاع ہے ، انھوں نے تمام سرگرميوں كو خود ديكھا تھا ،يا كم سے كم اپ اس پر ظن قوى ركھتے تھے _
اسكے بعد استاد اپنى بات اگے بيان كرنے لگے_
بالاخر فاطمہ (ع) نے انتقال فرمايا ، اپ كے انتقال ميں تما م خواتين نے شركت كى سوائے عائشه كے جنھوں نے نہ صرف يہ كہ سستى دكھائي اور بنت نبى كى ماتم پرسى ميں نہيں گئيں بلكہ اس كے بر عكس اپنى خوشى اور شادمانى كا اظہار كيا جو على تك پہونچائي گئي _
على نے فاطمہ كے انتقال كے بعد ابوبكر كى بيعت كر لى ،اور جيسا كہ كہتے ہيں عائشه نے بيعت على كے بعد چونكہ كوئي انكے باپ كا حريف خلافت نہيں تھا نہ خلافت كا دعويدار تھا بہت زيادہ خوشى كا اظہار كيا ،يہى صورتحال خلافت عثمان كے زمانے تك رہى ، جبكہ پرانے كينے سينوں ميں موجيں مار رہے تھے ، اور خون بھڑك رہے تھے ،زمانہ جيسے جيسے گذرتا على پر مصائب بڑھتے ہى جاتے ، اپ كى روحانى اذيت ميں اضافہ ہى ہوتا ، دل كا درد بڑھتا جاتا يہاں تك كہ عثمان قتل كر دئے گئے ،عثمان كو قتل كرانے ميں عائشه نے خود ہى موثر كردار ادا كيا ، لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكا يا ، وہ عثمان كى سب سے بڑى مخالف تھيں ، قتل عثمان كے سلسلے ميں لوگوں سے كہتيں ، خدا عثمان كو قتل كرے _
عائشه نے اسلئے عثمان كو خون بہانے كى بات كہى كہ وہ چاہتى تھيں كہ عثمان خاندان بنى اميہ سے ہيں ، ان سے چھين كر ان كے خاندان تيم ميں پھر واپس اجائے ، اور اس سلسلے ميں انھوں نے اپنے چچيرے بھائي طلحہ كو اگے اگے كر كے خلافت كا اميد وار بھى بنا ديا تھا ،ليكن جب عثمان قتل كر دئے گئے تو لوگوں نے عائشه كى توقع كے خلاف على بن ابى طالب كو خلافت كے لئے چن ليا ،_ انكى بيعت كر لى ، جب يہ خبر عائشه كو ملى تو بے اختيار انہ فرياد كرنے لگيں ،ہائے افسوس عثمان پر ، عثمان مظلوم قتل كئے گئے _
ا س طرح عائشه نے دوسرى بار فرزند ابو طالب سے اپنى پرانى دشمنى ظاہر كى ، اور اس راہ ميں اتنى كوشش كى كہ لوگوں كو على (ع) كى خلاف اس قدربھڑكايا كہ جنگ جمل ہوگئي ، اور پھر بعد ميں وہى راہ اپنائي جسے ميں نے شروع ميں بيان كيا ،يہ شيخ ابو يعقوب كے بيان كا خلاصہ تھا جو نہ تو مذہب اہلبيت پر تھے نہ شيعہ كى طرح جانبدارى برتنے والے تھے _
ہم نے خطبہء امير المومنين كا بڑا حصہ پاشالى طريقے سے بيان كيا جسے بن ابى الحديد نے نقل كيا ہے ، اس سے ام
73
المومنين عائشه كى على سے كينہء ديرينہ كى وضاحت ہوتى ہے ، بن ابى الحديد كے استاد نے اپنے بيان ميں عائشه كى زندگى كے پيچيدہ اور مبہم گوشوں كى اچھى طرح تشريح كى ہے ، اسميں انھوں نے ازدواج كے دوران اہلبيت سے روابط كے حالات ، بعد وفات رسول(ص) اہلبيت (ع) كے خلاف كا روائيوں كى مكمل تشريح كى ہے ، ہم نے بھى جہاں تك ان كى زندگى كے رخوں كے اشارے كئے ہيں اسى پر اكتفا كرتے ہيں ، كيونكہ اگر انكى زندگى كے ادوار كا اس سے زيادہ تحقيقى تجزيہ كريں جس نے اسلامى معاشرے كو متاثر كيا ...جو بجائے خود ايك مستقل كتاب كى متقاضى ہے ، تو خوف ہے كہ ہم اپنے مقصد اصلى سے ہٹ جائيں گے ، ہمارا تو صرف يہ مقصد ہے كہ ام المومنين كى احاديث كا تجزيہ كريں _
خلاصہ
جو كچھ ہم نے قارئين تك پہونچايا اس كا خلاصہ يہ ہے كہ ، ام المومنين سخت متعصب خاتون تھيں ، طبيعت ميں حسد بھرا ہوا تھا جسے حيات رسول(ص) كے زمانے ميں دوسرى ازواج رسول سے ان كے برتائو اور اہلبيت كے ساتھ سلوك كو ديكھ كر معلوم كيا جاسكتا ہے _
اس كے علاوہ جب كہ ہم نے تھوڑا حصہ نقل كيا اور ائندہ تفصيل سے بيان كريں گے ، ام المومنين اپنى گرمئي مزاج خاندان والوں كے مفادات كے تحفظ ، اپنى پارٹى كى مصلحتوں(26) كے بارے بڑى غيرت مند اور متعصب تھيں ، اپنى طبيعى سختى كى صفت ہى كى وجہ سے انھوں نے سخت اور اہم كارستانياں اور سنگين افعال كے لئے اپنى تلخ و تند اور انقلابى باتوں كا جال بچھايا_
74
فصل دوم
شيخين
1_ ابو بكر كا لقب صديق اور عتيق تھا ، نام عبد اللہ تھا ، ابو قحافہ عثمان كے فرزند تھے قبيلہ تيم كى فرد تھے جو قريش كا قبيلہ تھا ،ان كى ماں كا نام ام الخير تھا ، جو سلمى يا ليلى كے نام سے موسوم تھيں ، عامر كى بيٹى تھيں ، يہ بھى تيم كے قرشى قبيلے كى تھيں _
ابو بكر عام الفيل كے دو يا تين سال بعد مكہ ميں پيدا ہوئے ، يہ ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے خديجہ ، على زيد اور جعفر كے بعد اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى _
ابو بكر نے رسول (ص) خدا كے ہمراہ مكہ سے مدينہ ہجرت كى ، جنگ بدر اور بعد كى جنگوں ميں شريك ہوئے ، وفات پيغمبر كے بعد اس سے پہلے كہ جنازہ رسول دفن ہو سقيفہ بن ساعدہ ميں اپنے ديرينہ ساتھى عمر كے تعاون سے ايك اسان انقلاب كے سھارے زمام امور اپنے ہاتھ ميں لى _
ابو بكر نے 22 جمادى الثانيہ 13 كو انتقال كيا ، ان كا جنازہ رسول كے پہلو ميں دفن كيا گيا ، عمر 63 سال پائي ، انكى خلافت كا زمانہ دو سال تين مہينے اور چھبيس يا دس دن تك رہا _
2_ ابو حفص ، فاروق ، عمر بن خطاب ، قريشى قبيلہ عدى كى فرد نفيلى كى نسل سے تھے ، انكى ماں كا نام حنتمہ تھا جو مغيرہ كے فرزند ھشام يا ہاشم كى بيٹى كہى جاتى ہيں _
عمر نے پچاس لوگوں كے بعد اسلام قبول كيا اور مسلمان ہوئے ، كچھ دن بعد مكہ سے مدينے ہجرت كى ، جنگ بدر اور دوسرى جنگوں ميں شريك رہے _
ابو بكر نے بستر مرگ پر انھيں اپنا جانشين بنايا ، ايام خلافت عمر ہى ميں اسلامى فتوحات جزيرة العرب كے باہر شروع ہوئيں ، عمر نے 55 سال يا بقولے 63 سال عمر پائي ، 26 ذى الحجہ 23 ميں مغيرہ كے غلام ابو لولو كے خنجر سے زخمى ہوئے _
پہلى محرم 24 ھ كو جوار ابو بكر ميں دفن كئے گئے ، زمانہء خلافت دس سال چھہ مہينے پانچ روز ہے ، ابو بكر و عمر صدر اسلام ميں ايك دوسرے كے جگرى دوست تھے ، ہميشہ دونوں كا نام ايك ساتھ اتا ہے اسى لئے انھيں شيخين كہا جاتا ہے _
75
سكھ چين كا زمانہ
صدر اسلام كى اكيلى خاتون مفتي
ام المومنين عائشه كى تمام زندگى سوائے ابو بكر اور ان كے دوست عمر كے زمانہ خلافت كے ، شديد سياسى كشمكش اور ناقابل شكست سر گرميوں ميں گذرى ، تاكہ يہ خلافت جو خاندان تيم سے نكل گئي ہے ، پھر واپس اكر ان كے عزيزوں اور رشتہ داروں كو حكمراں بنا سكے _
ليكن جيسا كہ ہم نے بتايا خلافت شيخين (ابو بكر و عمر )كے زمانے ميں اس خيال سے كہ ان كے گروہ نے دوسرے گروہوں پر بنام مدينہ پيش دستى كر كے زمام حكومت قبضے ميں كر ليا تھا ، بہت خوش تھيں اورذہن ودماغ كو بڑا سكون و اطمينان نصيب ہوا تھا كيونكہ اس زمانے ميں جو شخص خليفہ ہے يا جو اس كے حوالى موالى ہيں انكے نزديك ان كا مرتبہ و مقام سارى دنيا ميں اور دنيائے اسلام ميں بہت بڑھ گيا تھا ، اسكى وجہ سے دنيا بھر كى اور سارے مسلمان كى توجہ انھيں كى طرف مڑ گئي تھى ، تمام ازواج رسول كے مقابلے ميں صرف انھيں كى طرف گردن جھكتى تھى ، رسول خدا كى دوسرى تمام خواتين سے ان كا مرتبہ بلند تر ہو گيا تھا _
رسول خدا(ص) نے رحلت فرمائي تو اپ كى ازواج قيد حيات ميں تھيں ، ليكن تاريخ ہميں يہ نہيں بتاتى كہ عمر و ابو بكر نے عائشه كے علاوہ كسى بھى زوجہ ء رسول كو خاص مرتبہ و مقام عطا كيا ہو ، كيا معاملات كے تصفيے ميں يا فتوى كے سلسلے ميں ان كے علاوہ كسى كى طرف رجوع كيا جاتا ہو _
ہمارى اس دليل كو طبقات بن سعد ميں ملاحظہ كيا جاسكتا ہے جنھوں نے محمد بن ابى بكر كے فرزند قاسم كا قول نقل كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں :
عائشه زمانہ حكومت ابو بكر ، عمر اور عثمان ميں اكيلى وہ خاتون تھيں جو فتوى صادر كرتيں تھيں ، اور يہ صورتحال زندگى كے اخرى لمحے تك رہى (27)
دوسرى جگہ محمود بن لبيد كا قول لكھا ہے :
عائشه زمانہ حكومت ابوبكر و عمر و عثمان ميں فتوى صادر كرتيں اور احكام نافذ كرتى تھيں ، اور اخرى عمر تك يہ سلسلہ جارى رہا _
ابو بكر اور عمر كے علاوہ تمام صحابائے كبار ان سے مراجعہ فرماتے ، رسول(ص) خدا كى سنت اور مختلف مسائل ان سے پوچھتے اور انھيں سے حكم حاصل كرتے _
ان تمام باتوں كو جانے ديجيئے ، عمر نے جس وقت تمام ازواج رسول كا وظيفہ مقرر كيا تو عائشه كو سب پر مقدم ركھا ان كے حقوق دوسروں سے زيادہ قرار دئے
يہ معاملہ طبقات بن سعد ميں مصعب بن سعد كا قول اس طرح نقل كيا ہے _ عمر نے ازواج رسول كا ماہانہ وظيفہ دس ہزار مقرر كيا اور عائشه كو سب پر مقدم كر كے بارہ ہزار مقرر كيا ، عمر كى دليل يہ تھى كہ عائشه رسول خدا كى سب سے زيادہ چہيتى بيوى تھيں(28)
عائشه حج كے لئے گئيں
اس صورتحال كے با وجود خليفہ وقت عمر بن خطاب تمام ازواج رسول پر انھيں مقدم قرار دينے فتوى حاصل كرنے ، سنت رسول معلوم كرنے ، تمام مسلمانوں ميں ان كا مرتبہ و مقام بڑھانے ، دوسروں كے مقابل ان كا زيادہ وظيفہ مقرر كرنے كے با وجود ام المومنين عائشه كو دوسرى ازواج رسول كى طرح مدينے سے باہر جانے كى اجازت نہيں ديتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرہ كى بھى اجازت نہيں ديتے تھے _
عمر كى سياست يہ تھى كہ بڑے اور مشھور صحابہ مدينے سے باہر نہ جائيں اسى بنياد پر جب زبير نے جنگ ميں شركت كرنے كى اجازت چاہى تو جواب ديا (29)نہيں ، مجھے اتفاق نہيں ہے ،
كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہوں كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان پھيل جائيں گے تو گمراہى پھيلائيں گے(30)
ليكن عمر نے اپنى عمر كے اخرى سال ازواج رسول كو مدينے سے باہر جانے كى پاليسى بدل دى تھى ، يہ بات طبقات بن سعد ميں اس طرح ہے _
عمر بن خطاب ازواج رسول كو مدينے كے باہر جانے سے روكتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرے كيلئے بھى جانے سے روكتے ، ليكن 23 ھ ميں جبكہ انھوں نے اخرى حج كيا تمام ازواج نے سوائے زينب اور سودہ كے ان سے اجازت چاہى كہ حج كيلئے مدينے سے باہر جائيں سودہ اور زينب نے حج كيلئے بھى گھر سے قدم باہر نہ نكالا ، وہ كہتى تھيں _
ہم وفات رسول كے بعد ہرگز اونٹ كى پشت پر سوار نہيں ہوئے ، يہ اس بات كا كنايہ تھا كہ انھوں نے كبھى سفر نہيں كيا _(31)
خود سودہ كہتى ہيں ، ميں نے رسول (ص) خدا كى حيات ميں حج و عمرہ كيا اب حكم رسول كے مطابق گھر ميں بيٹھى ہوں _
بہر حال عمر نے ازواج رسول كى درخواست منظور كى اور حكم ديا كہ ان كے لئے ھودج تيار كئے جائيں ، ان پر سبز رنگ كى محمليں سجائي گئيں تاكہ ازواج رسول لوگوں كى انكھوں سے پوشيدہ رہيں ،
پھر ان كى نگرانى ميں عثمان اور عبد الرحمن بن عوف(32) كو معين كر كے ضرورى احكامات صادر كئے گئے ا ور اسطرح انھوں نے مدينے سے مكہ سفر كيا _
عثمان اگے اگے سوارى ہانك رہے تھے ، كبھى كبھى بلند اواز سے اعلان كرتے ، خبر دار ، كسى كو حق نہيں كہ محمل كے قريب ائے اور خواتين رسول كو ديكھے _
پھر وہ خود بھى كسى كو ان سے قريب انے سے روكتے ، چنانچہ راستے ميں ايك شخص محمل كے قريب ايا تو اسے للكارا _
دور رہو ، دور رہو _
عبد الرحمن سوارى كے پيچھے پيچھے تھے ، انھوں نے بھى ہانك لگائي ، الگ رہو _
مسور بن مخرمہ (33)كا بيان ہے:
اتفاق سے اگر كوئي شخص اپنى سوارى ٹھيك كرنے كيلئے راستے ميں ٹھر گيا اور اونٹ بيٹھا ديا تو عثمان جو قافلے كے اگے اگے چل رہے تھے ، اسكے قريب جا كر كنارے كرديتے اور اگر راستہ وسيع ہوتا تو حكم ديتے كہ قافلہ اپنا راستہ بدل كر اس مرد سے كنارے ہو جائے ، اور داہنے يا بائيں راستے سے نكل جائے ، اگر اس كے علاوہ صورتحال ہوتى تو قافلے كو حكم ديتے كہ قافلہ ٹھر جائے تاكہ اس شخص كا كام ختم ہو جائے اور اپنى سوارى پر سوار ہو كر اگے بڑھ جائے ، اسكے بعد عثمان حكم ديتے كہ قافلہ اگے چلے ، ميں خود گواہ ہوں كہ انھوں نے مكے سے چلنے والے لوگوں كو جو مخالف سمت سے سامنے ائے تھے ، حكم ديا كہ راستے كے داہنے يا بائيں جانب اپنے اونٹوں كو بٹھا ئيں تاكہ قافلے پر نگاہ پڑنے كا فاصلہ دور ہو جائے _
عمر راستے ميں جہاں بھى منزل قرار ديتے ازواج رسول وہيں اترتى تھيں ، انھيں اكثر گھاٹى كے اندر ركھا جا تا اور وہ خود گھاٹى كے دہانے پر قيام كرتے ، يا بعض روايات كى بنا پر ان ازواج رسول كو گھاٹى كے انتہائي حصے پر ركھا جاتا جہاں تك پہونچنے كا راستہ نہيں ہوتا ، يہ بھى كہتے ہيں كہ ان كى منزل درختوں كے سائے ميں ركھى جاتى اور كسى حال ميں بھى لوگوں كو اجازت نہيں تھى كہ ان كے پاس سے گذرے_
ام المومنين عائشه نے صرف اسى حج ميں مدينے سے قدم باہر نكالا ، پھر تمام زمانہ خلافت عمر ميں كبھى مدينے سے باہر نہيں گئيں ، وہ بڑے سكھ چين سے احترام كے ساتھ اپنے ہى گھر ميں زندگى گذارتى رہيں ارباب حكومت و اقتدار بعض معاملات ميں انھيں فتوى كے سلسلے ميں رجوع كرتے اور ان كے احكام پر عمل كرتے _
وہ بھى ان كے جواب ميں مناسب حال حديث رسول سناتى تھيں ، وظيفہ كے امتياز كے علاوہ يہى ايك بات كہ ارباب اقتدار صرف انھيں سے فتوى اور احكام حاصل كرتے اس كا ثبوت ہے كہ وہ حكومت كى نظر ميں تعظيم و احترام كى مستحق تھيں ، جس خاتون كى خود خليفہ تعظيم كرے اسكى دوسرے افراد كس قدر تعظيم كرتے ہوں گے يہ ہر شخص سمجھ سكتا ہے _
اب يہ ...
اس فصل كو ايك واقعے پر ختم كيا جاتا ہے ، جس سے اندازہ ہو تا ہے كہ خليفہ عمران كا كسقدر احترام كرتے تھے _
ازاد كردہء عائشه ذكوان كا بيان ہے كہ مال غنيمت كى ايك ٹوكرى فتح عراق كے بعد خليفہ عمر كى خدمت ميں پيش كى گئي ، اسميں ايك موتى تھا عمر نے اپنے ساتھيوں سے پوچھا ، جانتے ہو اس موتى كى قيمت كيا ہے ؟
سب نے كہا ، جى نہيں ، وہ لوگ يہ بھى نہيں سمجھ پا رہے تھے كہ اسے مسلمانوں ميں كسطرح سے تقسيم كيا جائے _
عمر نے كہا ، كيا تم لوگ اجازت ديتے ہو كہ موتى عائشه كو ديديا جا ئے ، كيونكہ رسول خدا ان كو بہت پيار كرتے تھے ؟
سب نے كہا ، جى ہاں
عمر نے وہ موتى عائشه كے پاس بھيجوا ديا
عائشه نے كہا ،خدا نے عمر كو كتنى عظيم فتح عطا كى ہے ؟(34)_
احاديث عائشه تقويت خلافت كے بارے ميں
حديث گڑھنے كے مواقع
قريب قريب يقين كے ساتھ يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ ام المومنين عائشه كى احاديث ان كے باپ ابوبكر كے زمانے ميں اور اسى طرح عمر كے زمانے ميں بہت كم گڑھى گئيں ، كيونكہ ان ايام ميں لوگوں كى تمام توجہ فتوحات كى طرف تھى بار بار لشكر كشى كى وجہ سے مال غنيمت حاصل ہو رہا تھا _
دوسرے يہ كہ عام طور سے فكرى ہم اہنگى اور عدم اختلاف تھا ، سبھى لوگوں نے پورے طور سے ان لوگوں كى خلافت مان لى تھى ، اور يہ كہ تمام مدينے كے باشندے كم و بيش صحبت رسول سے فيضياب تھے يا اصحاب كے ہم عصر تھے ، اسلئے بطور كلى حديث كى مقدار عددى اعتبار سے بہت كم تھى ، اور اس وقت زيادہ حديثيں گڑھنے كى ضرورت بھى نہيں تھى _
ليكن ان تمام حالات كے باوجود اس زمانے ميں بھى عائشه كى احاديث نقل كى گئيں ہيں ، جو حكومت وقت (ابو بكر و عمر ) كے اثبات ميں ہيں ، كيونكہ عائشه كى شخصيت اپنے باپ اور ان كے جگرى دوست عمر كى حكومت كے سخت ترين طرفداروں ميں سے تھى ، لوگوں كے دل ميں بہتر اور گہرے انداز ميں ثابت و راسخ كرنے كيلئے اس سے بہتر كيا تھا كہ ان كے مرتبہ و مقام كے بارے ميں رسول خدا كے ارشادات بيان كئے جائيں ، انھيں پيغمبر كى نظر ميں بلند مقام اور اہم ترين بتايا جائے _
اب يہاں بطور نمونہ اس قسم كى چند حديثيں نقل كى جاتى ہيں جنھيں حكومت ابو بكر و عمر كے زمانے كى سمجھنا زيادہ مناسب ہے _
يہ حديث مسلم نے اپنى صحيح ميں قول عائشه نقل كيا ہے جو اسى قسم كى ہے توجہ فرمايئے
عائشه كہتى ہيں كہ رسول(ص) خدا جسوقت بستر بيمارى پر تھے ، مجھ سے فرمايا ، اپنے باپ اور بھائي سے كہو كہ ميرے پاس ائيں تاكہ ميں ايك وصيت لكھ دوں ، كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہو ں كہ كوئي خام طمع اميد لگائے يا كہے كہ ميں خلافت كا زيادہ حقدار ہوں ، حالانكہ خدا و مومنين سوائے ابوبكر كے كسى دوسرے كو اسكا حقدار نہيں سمجھتے (35)
بخارى بھى ابو مليكہ سے ايسى ہى روايت نقل كرتے ہيں :
عائشه نے كہا كہ جب رسول(ص) خدا كى بيمارى شدت پكڑگئي تو عبد الرحمن بن ابى بكر سے فرمايا ، شانے كى ہڈى (36) يا كوئي تختى ميرے لئے فراہم كرو كہ ابو بكر كے بارے ميں وصيت ان كے نام كے ساتھ لكھ دوں تاكہ كوئي انكى مخالفت نہ كرے (37)
ليكن جيسے ہى عبد الرحمن اٹھے كہ حكم رسول بجالائيں ، رسول خدا (ص) نے فرمايا اے ابو بكر خدا و مومنين ہرگز اجازت نہ ديں گے كہ تمھارے خلاف نزاع بڑھے (اور چونكہ پيغمبر كے ارشاد كے مطابق خدا و مومنين خلافت و حكومت ابوبكر كے بارے ميں اج تك كسى قسم كے اختلاف كى اجا زت نہيں دے رہے ہيں اسلئے وصيت لكھنے كى ضرورت نہيں )
يہ بھى صحيح مسلم ميں ابو مليكہ كا قول مروى ہے، كہ عائشه سے پوچھا گيا ، اگر فرض كيا جائے كہ رسول خدا اپنا جا نشين معين كريں تو كس كا انتخاب فرمائيں گے ؟
عائشه نے جواب ديا ، ابو بكر كو
ابو بكر كے بعد كس كو خلافت كے لئے نامزد كريں گے ؟
عمر كو
ان كے بعد ؟
ابو عبيدہ جراح كو (38)
اس طرح كى روايات جنھيں ام المومنين عائشه سے فضائل شيخين ميںروايت كى گئيں ہيں بہت زيادہ ہيں ، ہم ان روايات كو تحقيق كے باب ميں انكا تجزيہ كريں گے ، يہاں اسے بطور نمونہ پيش كيا گيا _
ان احاديث كى پيدائشے كا زمانہ
يہ احتمال زيادہ ہے كہ اس قسم كى احاديث كى روايت اور شہرت ابو بكر اور عمر كے زمانہ ء خلافت ميں ہوئي ، كيونكہ ان دونوں خلفاء راشدين كا نام ايك كے بعد دوسرے كا ترتيب سے ليا گيا ہے ، ليكن يہ كہ اگر رسول كسى كو خليفہ بنانا چاہتے تو اسى ترتيب سے خليفہ بنا تے _
ہم اس قسم كى احاديث كو چار حصوں ميں تقسيم كرتے ہيں
پہلى قسم ان احاديث كى ہے جن ميں چاروں خلفاء كے نام اسى ترتيب سے على ابن ابى طالب تك لئے گئے ہيں _
جس ترتيب سے خليفہ بنے ہيں ، ميرے خيال ميں ايسى حديثيں حضرت على بن ابى طالب كے بعد بنائي گئي ہيں ، جبكہ چاروں خلفاء كا زمانہ ختم ہو چكا تھا _
محب طبرى نے رياض النضرہ ميں حديث رسول كو نقل كيا ہے وہ اسى قسم ميں اتى ہيں _
رسول خد(ص) ا نے فرمايا: ميں اور ابو بكر ، عمر ، عثمان اور على حضرت ادم كى خلقت سے ہزار سال پہلے انوار كى شكل ميں عرش كے دا ہنى جانب تھے ، جب ادم خلق ہوئے تو خدا وند عالم نے ہميں انكى پشت ميں قرار ديا اور اسى طرح پاكيزہ اصلاب ميں منتقل ہوتے رہے ، يہاں تك كہ مجھے صلب عبد اللہ ميں ابو بكر كو صلب ابو قحافہ ميں عمر كو صلب خطاب ميں ، عثمان كو صلب عفان اور على كو صلب ابو طالب ميں منتقل كيا _
پھر خدا وند عالم نے ان سب كو ميرے لئے چن ليا ، نتيجے ميں ابو بكر كو صديق اور عمر كو فاروق ، عثمان كو ذوالنورين اور على كو ميرا وصى قرار ديا ،پس جو شخص بھى ميرے اصحاب كى برائي كرے وہ ايسا ہے جيسے اس نے ميرى برائي كى ، اور جو شخص بھى مجھے دشنام دے اس نے خدا كو دشنام ديا ، اور جو شخص خدا كو دشنام ديگا اسے اوندھے منھ جہنم ميں جھونك ديا جائے گا
اس حديث كا وضعى زمانہ خود بخود روشن ہے
1_ اس قسم كى احاديث كا گڑ ھا جانا اور شائع ہونے كا زمانہ اس وقت كو سمجھنا چاہيئے جب چاروں خلفاء كى خلافت ختم ہو چكى تھى ، بلكہ بہت بعد ميں ہونا چاہيئے كيونكہ ميرى بيان كى ہوئي باتوں كے علاوہ اس حديث ميں دشنام دينا اور برا بھلا كہنے كى بات ہے ، اور ہم جانتے ہيں كہ سب و شتم كى رسم حكومت معاويہ كے زمانے ميں اور اسكے بعد
جارى ہوئي ، اور اسكا حكم اسى نے ديا تھا ، رسول خدا كے زمانے ميں يہ رسم نہيں تھى كہ كوئي كسى صحابى كو دشنام دے اور اس حكم كا خدا و رسول كى جانب سے مستحق قرار پائے _
2_ اگر چہ اس حديث ميں چاروں خلفاء كا نام ترتيب خلافت كے لحاظ سے ايا ہے ، اس قسم كى احاديث امام كے زمانے ميں نہ گڑھى جا سكتى ہے نہ مشھور كى جا سكتى ہے كيونكہ جس وقت امام نے خلافت قبول فرمائي تو تمام لوگ پورے طور سے دو گروہوں ميں بٹ گئے تھے ، ايك گروہ شدت سے عثمان كو برا بھلا كہہ رہا تھا ، دوسرا گروہ بھى حضرت على (ع) ولى كو اچھا نہيں سمجھ رہا تھا ، انھيں اچھائيوں كے ساتھ ياد نہيں كرتا تھا ،، اس صورتحال ميں كون شخص ايسى حديث وضع كر سكتا ہے ؟
3_ حكو مت معاويہ ميں بھى اگر چہ سب و شتم كا بازار ہر جگہ گرم تھا حديثيں گڑھنے ميں لوگ ايك دوسرے سے بازى ليجانے كى كوشش كر رہے تھے ، ليكن بنيادى حيثيت سے اس كو صرف على اور انكى اولاد اور بنى ہاشم كے خلاف مخصوص ركھا گيا تھا ، اور اموى سياست اس بات كى متقاضى تھى كہ حضرت على كو ديگر خلفاء راشدين سے الگ كر ديا جائے ، ان كا نام اس ستون سے حذف كر ديا جائے ، ان تينوں كو ہر حقيقت سے على پر برترى دى جائے ، اور ہم جانتے ہيں كہ يہى سياست اخرى حكومت بنى اميہ تك جارى رہى _
4_ ان تمام باتوں كے بعد ہم يہ كہے بغير نہيں رہ سكتے كہ اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ اس عہد ميں متعين ہوتا ہے جب بنى اميہ كا زوال ہو رہا تھا اور بنى عباس كو اقتدار ملنے كے اثار نماياں تھے _
اسكى دليل يہ ہے كہ خلفاء بنى عباس بھى جنھوں نے اپنے چچا كے فرزندوں علويين كے نام پر اقتدار حاصل كيا تو اپنے سلف بنى اميہ كى طرح معمولى بہانوں سے علويوں كا بے رحمانہ خون بہايا _
ان باتوں كى بنياد پر اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ يہى متعين ہوتا ہے كہ بنى اميہ كا دور ختم ہو رہا تھا اور اہلبيت كے نام پر لوگوں كو دعوت دى جا رہى تھى ، كيو نكہ يہى موقع تھا جب بنى ہاشم كے دونوں خاندان علوى اور عباسى مل كر اموى اقتدار كو اكھاڑ پھينكنے كى سعى كر رہے تھے اور بنى عباس كى سياست اس موقع پر ايسى تھى كہ اموى سياست كو ذكر دينے كيلئے نام على كو خلفاء ثلثہ كے نام كے ساتھ شائع كيا جائے در انحاليكہ ہم جانتے ہيں كہ خلفاء بنى اميہ ان تينوں خلفاء كو ہٹا كر صرف على ہى پر سب و شتم كرتے تھے ، حضرت على (ع) كے نام كو خلفاء راشدين كى فہرست سے حذف كر ديا تھا _
ايسا گمان ہوتا ہے كہ بنى عباس اتنے ہى پر مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے قدم اگے بڑھايا اور بنى اميہ كى
سياست اور ان كے دعوے كو باطل كرنے كيلئے خاص طور سے عثمان كا نام خلفاء كى فہرست سے حذف كر ديا ، درج ذيل حديث ميرے اس دعوے كى واضح دليل ہے كہ اسى عہد ميں بنائي گئي ہو گى _
جابر بن عبد اللہ انصارى روايت كرتے ہيں كہ ہم رسول خدا كے ساتھ مدينے كے ايك باغ ميں تھے ، اچانك اپ نے ميرى طرف رخ كر كے فرمايا ، ابھى تمھارے پاس ايك شخص ائے گا جو جنتى ہو گا _
ہم نے گردن اٹھا ئي كہ اس جنتى شخص كو ديكھيں اتنے ميں ابوبكر اگئے ، ہم نے انھيں اس بشارت كى مباركباد دى _
ذرا دير نہ گذرى تھى كہ رسول (ص) خدا نے دوسرى بار فرمايا :
ايك جنتى شخص ابھى تمھارے پاس ائے گا _
ہم نے سر اٹھايا تو ديكھا كہ عمر پہونچے ، ہم نے انھيں اس بشارت كى تہنيت پيش كى ذرا دير بعد تيسرى بار رسول (ص) خدا نے فرمايا ، ايك جنتى شخص تمہارے پا س ائے گا اور پھر رسول(ص) خدا نے درخت خرما كى شاخ كے نيچے اپنے ہاتھ اسمان كى طرف بلند كر كے فرمايا :
خدا وند كيا اچھا ہو كہ تو ارادہ فرمادے كہ وہ شخص على ہو اتنے ميں على پہونچے ، ہم نے اس عظيم موھبت پر انھيں تہنيت پيش كى _
ہم جو اس حديث كے صحيح نہ ہونے كى بات كہہ رہے يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ ہم رسول خدا اور ان ذريت طاہرہ اور تقوى شعار صحابہ كے فضائل كا انكار كر رہے ہيں ، نہيں ، ہر گز ايسا نہيں ، ہم ہرگز ان كے فضائل كے منكر نہيں ، ليكن يقين نہيں اتا كہ خدا نے صرف انھيں گروہ صحابہ كو جو مسند خلافت پر برا جمان ہوئے ، اور جو لوگ اس مرتبے پر فائز نہيں ہوئے ان كے درميان اس حد تك فرق كے قائل ہو جائيں كہ انكى طينت كو نور سے اور انكى طينت كو مٹى سے خلق كيا جائے_
ان باتوں كے علاوہ اور دوسرے دلائل جو ائندہ بيان كئے جائيں گے خود ہى حق ديتے ہيں كہ اس قسم كى احاديث كو صحيح و درست ماننے ميں جو خلفاء راشدين كا انكى خلافت كى ترتيب سے پئے در پئے ايا ہے شك اور ترديد كى نظر ڈاليں _
دوسرے قسم كى احاديث ميں وہ حديثيں اتى ہيں جن ميں تينوں خلفاء كا نام اول سے عثمان تك يكے بعد ديگرى ايا ہے _
ہمارے عقيدے كے مطابق اور پہلے قسم كى احاديث كے بارے ميں جو كچھ عرض كيا گيا اس كى روشنى ميں اس قسم كى احاديث بھى عثمان كى حكومت كے زمانے ميں گڑھى گئي ہيں ان سے پہلے نہيں گڑھى گئي ہيں ، چنانچہ ان ميں سے كچھ احاديث ميں عثمان كے قتل ہونے كا بھى بيان ہے ، اس سے يہى اندازہ لگايا جا سكتا ہے كہ عثمان كے قتل كے بعد يہ
حديثيں گڑھى گئي ہيں ، تاريخ قتل سے پہلے نہيں _
تيسرے قسم كى احاديث وہ ہيں جن ميں فقط شيخين كا نام ہے ، ايك كے بعد دوسرے كانام ايا ہے ، ہمارا تو اس بارے ميں عقيدہ يہ ہے كہ اس قسم كى احاديث عمر كے بر سر اقتدار انے كے بعد گڑھى گئي ہيں ، انكى خلافت سے پہلے نہيں _
چوتھے قسم كى احاديث وہ ہيں جن ميں صرف خلافت ابوبكر كا نام ہے اور چونكہ ان ميں صرف ابوبكر كا نام ہے عمر كا نام درميان ميں نہيں ہے اسلئے گمان قوى ہے كہ عمر كى حكومت سے پہلے ان كو گڑھا گيا ہے ، اس بنا ء پر احتمال يہ پيدا ہوتا ہے كہ ابو بكر كے نام سے وصيت لكھنے كى حديث ان كے خليفہ ہو جانے كے بعد روايت كى گئي ہے كيو نكہ ان ميں عمر كا نام نہيں ہے _
ليكن يہ حديث كہ (اگر يہ بات طئے كى جاتى كہ رسول خدا (ص) كسى كو اپنا جانشين بنائيں تو پہلے ابو بكر كو معين كر تے ، ان كے بعد عمركو اور ان كے بعد ابو عبيدہ جراح كو )گمان قوى ہے كہ يہ حديث عمر كى حكومت كے زمانے ميں عثمان سے پہلے گڑھى گئي ہے ، كيونكہ عمر خود ابو عبيدہ كے بارے ميں كہتے تھے كہ اگر ابو عبيدہ زندہ ہوتے تو انھيں كو خليفہ بناتا _
ہم نے بعض ان احاديث عائشه كو يہاں بيان كيا جنكى اشاعت خلافت شيخين كے زمانے ميں ہوئي حا لانكہ اس قسم كى ڈھير سارى احاديث موجود ہيں ، جنھيں ہم خلافت شيخين كا زمانہ ختم ہونے كے وقت سمجھنے پر مجبور ہيں انہيں ميں يہ حديث ہے كہ جناتوں نے عمر كى نوحہ سرائي كى اس حديث كى اشاعت قتل عمر كے بعد يا شايد بہت بعد ميں شائع ہوئي ہو گي_
عمر كے لئے جناتوں كا نوحہ
ہم نے اس سے پہلے كى فصل ميں بيان كيا كہ عائشه نے اپنے باپ ابو بكر اور ان كے پرانے ساتھى عمر كى حكو مت كى تائيد اور استحكا م كے لئے احاديث رسول بيان كيں ان ميں بعض كا تجزيہ كر كے كہا ہے كہ ان احاديث كى پيدائشے اور اشاعت كسى طرح بھى ابو بكر و عمر كے زمانے سے ميل نہيں كھاتيں ، بلكہ كئي سال بعد ان دونوں كى حكومتيں ختم ہو نے كے بعد زبانوں پر اتى ہيں ، انھيں ميں ايك حديث ہے جناتوں كى نوحہ خوانى عمر كے سوگ ميں ، جس كے بارے ميں احتمال قوى ہے كہ عمر كے موت كے كافى دنوں بعد يہ گڑھى گئي ہے ، متذكرہ حديث اس طرح ہے _
ام المومنين عائشه سے روايت كى گئي ہے كہ عمر كے قتل ہونے كے تين دن پہلے جناتوںنے مجلس عزا منعقد كى اور نوحہ خوانى كرتے ہوئے يہ اشعار پڑھے _
ابعد قتيل بالمدينہ اظلمت لہ الارض ، تھتز العضاہ يا سوق جزى اللہ خيراً من امام و باركت يد اللہ ، فى ذاك الاديم الممزق فمن يسع او يركب،جناحى نعامة ليد رك ما قدمت بالامس، ليسبق قضيت اموراً ، ثم غادرت بعدھا بوائق فى اكمامھا لم تفتق فما كنت اخشى ان يكون وفاتہ بكفى سبتى ازرق العين مطرق
استيعاب ج2ص 241 _كتاب الاغانى ج8ص 192
كيا اس مقتول كے بعد جو مدينہ ميں اپنے خون ميں نہايا اور دنيا تيرہ و تار ہو گئي ، روئے زمين پر دوبارہ بھى سبزہ اگے گا ؟
خدا وند عالم ہم سب كى طرف سے تمہارے جيسے امام كو جزائے خير دے ، اور تيرے شكم دريدہ كو اپنى رحمت اور كرم كا مورد قرار دے _
كوئي شخص بھى ہو لاكھ فكر كرے كہ تيرى طرح كارنامے انجام دے جو تو كر گيا اسے انجام دے ڈالے ہرگز عہدہ بر انہ ہو سكے گا ، اپنى حكمرانى كے زمانے ميں كاموں كو بڑے اچھے ڈھنگ سے انجام ديا ليكن تيرے بعد كتنے ہى فتنوں نے سر ابھارا ہے _
كبھى خواب و خيال ميں بھى نہ سوچا گيا تھا ، وہ يہ ديكھنے كو ملا كہ ايسے امام كى موت ايسے بد خصلت دشمن نيلى انكھ والے بھڑيئے كے ہاتھوں انجام پائے گى ہمارے خيال ميں يہ اشعار عمر كى موت كے بہت بعد كى پيدا وار ہيں _
كيونكہ ...
1_ متذكرہ اشعار ميں اٹھے ہوئے فتنوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے جو عثمان كى خلافت كے نصف اخر ميں پيش ائے ، نہ كہ عمر كے اخرى زمانے ميں يا عثمان كے اوائل حكومت ميں ذرا اس مصر عے پر توجہ فرمايئے ...ليكن تمہارے بعد كيسے كيسے سوئے ہوئے فتنے ظاہر ہوئے_
2_ اگر ہم مان بھى ليں كہ فتنہ ظاہر ہونا غير واضح كنايہ ہے ، پھر قاتل عمر كا تعارف اسقدر واضح كيسے ، وہ بھى جرم كے تين دن يا كچھ پہلے يہ ايسا معاملہ ہے كہ حادثہ واقع ہو جانے كے بعد ہونا چاہيئے نہ كہ اس سے پہلے _
3_ ام المومنين عائشه كے قول كى بناء پر جناتوں نے پاپ بھرے واقعے كے تين روز قبل اور وہ بھى نيلى انكھ والا بھيڑيا صفت كے ہاتھوں ، يہ ايسا معاملہ ہے جو قران كے واضح نص كے خلاف ہے كيونكہ كلام خدا كے بموجب ان جناتوں كو داستان سليمان پيغمبر ميں دو قدم بعد كى خبر نہ تھى ، تين روز پہلے كى بات تو دور كى ہے ، وہ سليمان پيغمبر كى موت كو نہ سمجھ سكے يہى جنات پورے ايك سال رنج و عذاب جھيلتے رہے ، حضرت سليمان كى موت ان كے چند قدم كے فاصلے پر ہوئي تھى ليكن وہ بے خبر رہے ، سليمان مرنے كے بعد ايك سال اپنے عصا كے سہارے ٹكے رہے وہ سليمان كو چند قدم كے فاصلے
سے ديكھتے رہے ، رات دن قصر بنانے ميں اپنى جان كھپاتے رہے ، اخر ايك سال بعد جب ديمك نے عصا كھا ليا تو عصا ٹوٹ گيا ، اور سليمان كا جسد بے جان زمين پر گرا ، اسوقت جناتوں كو معلوم ہوا كہ ہم نے ايك سال تك بلا وجہ جا ن كھپائي ، اس حساب سے اپ ہى بتايئےہ اس وحشتناك راز يعنى موت عمر كى تين دن پہلے سے انھيں اطلاع ہو گئي ، اور حصباء كى سر زمين پر ام المومنين كے سامنے انھو ں نے خليفہ كے سوگ ميں مجلس عزا منعقد كى ؟ بہر حال يہ حديث عمر كى وفات كے بعد روايت ہوئي ہو گى اس سے پہلے نہيں ، پھر يہ كہ اسے ام المومنين عائشه كے ابيات سمجھيں تب تو يہ صورتحال بنتى ہے _
جبكہ ہم ديكھتے ہيں كہ ابو الفرج نے اغانى (39) ميں شماخ شاعر كے حالات لكھتے ہوئے بتايا ہے كہ اس كے دو بھائي تھے دونوں ہى شاعر تھے ، ايك كا نام مزرد تھا اور دوسرے كا جزء ، اسى نے عمر كا مرثيہ كہا ہے ،
عليك سلام من امير و باركت ...يد اللہ فى ذاك الاديم الممزق _
اسكے بعد وہ تمام اشعار ہيں جنھيں شروع ميں نقل كيا گيا _
اور اشتقاق ميں كہتا ہے (40) كہ ضرار كے تين فرزند تھے جنھوں نے اسلام كا زمانہ پايا ، ان ميں ايك كا نام جزء تھا ، اسى نے عمر كا مرثيہ كہا _
عليك سلام اللہ ... اخر تك تمام اشعار
بہر حال ايسا معلوم ہوتا ہے كہ ان اشعار كو شماخ يا اسكے بھائي جزء سے اسى زمانے ميں منسوب كيا گيا _
ايك دوسرى روايت كى بنياد پر ام المومنين نے اپنى بہن ام كلثوم بنت ابى بكر كيلئے جو واقعہ گذرا اسے يوں بيان كيا ہے _ عمر نے جو اخرى حج كيا اسميں ازواج رسول كو اجازت دى كہ وہ بھى حج كريں ، اس سفر ميں عمر نے جب حصباء سے كوچ كيا تو ميں نے ايك شتر سوار كو ديكھا جو اپنا پورا چہرہ چھپائے ہوئے تھا صرف اسكى انكھيں نظر اتى تھيں ، اس نے پوچھا ، كيا وہ (عمر ) يہاں ٹھرے تھے ؟
ايك شخص نے جواب ديا ، ہاں اس جگہ وہ ٹھہرے تھے _
يہ سنكر شتر سوار نے اپنا اونٹ بٹھايا اور بلند اواز سے عمر كے ماتم ميں يہ اشعار پڑھنے لگا ،(ابعد قتيل ...اخر اشعار تك )
ميں نے اپنے ايك ساتھى كو حكم ديا كہ نوحہ پڑھنے والے كو پہچان كر مجھے بتائے ، وہ گيا ليكن نا كام واپس ايا كيونكہ اس نے منھ چھپائے ہوئے شتر سوار كو وہاں نہيں پايا ، حالانكہ وہ ميرے سامنے عمر پر نوحہ پڑھ رہا تھا ، خدا كى قسم ميں سمجھتى ہوں كہ وہ جناتوں ميں سے تھا _
اسكے بعد حديث ميں يہ ہے كہ :
جب عمر قتل كرديئےئے تو لوگوں نے ان اشعار كو فرزند ضرار كى طرف منسوب كر ديا _
اس روايت كو ابو الفرج نے اغانى ميں شماخ كے حالات زندگى بيان كرتے ہوئے لكھا ہے ، ابن عبد البر نے استيعاب ميں حالات عمر كے ذيل ميں لكھا ہے ، ليكن طبقات بن سعد ميں ذرا سى لفظى تبديلى كے ساتھ دونوں روايتيں ہيں ،ليكن تينوں روايتوں كا مفہوم ايك ہى ہے _
ابن حجر نے اصابہ ميں صحت سند پر زور ديتے ہوئے اس روايت كو عائشه كى بہن ام كلثوم كے واسطے سے نقل كيا ہے _
جس حديث كى سند كو ابن حجر صحيح سمجھتے ہيں وہ اس طرح مروى ہے كہ ان شعروں كى شھرت شماخ يا اسكے بھائيوں كى طرف سمجھى جا سكتى ہے _
وجہ يہ ہے كہ اس حديث ميں وضاحت ہے كہ ام المومنين خود ہى عمر كے ساتھ اخرى حج بجالاتے ہوئے مشعر الحرام ميں خود ديكھا كہ جناتوں نے عمر كے سوگ ميں نوحہ خوانى كى ، اسميں ذرا بھى شك اور ترديد كى گنجائشے نہيں ، اور جب ام المومنين عائشه نے ايسا فرمايا ہے تو يقينى طور سے جناتوں نے عمر كے قتل سے تين روز قبل عمر كے سوگ ميں نوحہ خوانى كى ، خليفہ اسى سفر سے واپسى كے بعد مدينے ميں قتل كئے گئے ، اس واقعے كے بعد لوگوں نے اپنى زبانوں پر دہرايا ، اور نا دانستہ طور پر ضرار كے فرزندوں كى طرف منسوب كر ديا _
ام المومنين نے خود ديكھا كہ شتر سوار منھ چھپائے قيام گاہ عمر سے اسى وقت جبكہ انھوں نے كوچ كيا تھا تلاش كرنے لگا ، ايك دوسرے مجھول الحال نے انكى قيام گاہ بتائي پھر نقاب دار شخص نے اپنا اونٹ بيٹھايا اور عمر كى موت كا مرثيہ پڑھنے لگا ، ٹھيك اسى وقت ام المومنين نے اپنے قافلے كے ساتھى كو وہاں بھيجا كہ نقاب پوش كا پتہ لگائے ليكن وہ
ادمى غائب ہو چكا تھا ، اس بنا ء پر ذرا بھى شك نہيں رہ جاتا كہ وہ نقاب پوش جنات تھا ، ورنہ وہ كيسے انكھوں سے پنہاں ہو جاتا ، اور كسى نے اسكو نہيں ديكھا ؟ اسى وجہ سے ام المومنين نے قسم كھائي (فواللہ انى لا حسبہ من الجن )خدا كى قسم ميرا تو يہى گمان ہے كہ وہ جنات تھا ، اب جبكہ ام المومنين نے اپنى انكھوں سے ديكھا اور قسم كے ذريعے بات ميں مزيد تاكيد پيدا كى تو كيا كسى كے لئے شك اور ترديد كى گنجائشے رہ جاتى ہے كہ ان اشعار كو جنات كے سوا كسى نے عمر كے قتل سے تين دن پہلے پڑھا ہو ؟
اس قسم كے بعد جو بھى دعوى كرے كہ يہ اشعار ضرار نے موت عمر كے بعد كہے ہيں اسے نہ مانيئے ، كيونكہ اسكا دعوى باطل ہو جائے گا ، وجہ يہ ہے كہ يقين حاصل ہو جاتا ہے كہ ان اشعار كو جناتوں نے موت عمر سے پہلے پڑھا ہے ، منى ميں پڑھا ہے اور عمر كے مدينہ پہونچنے سے پہلے پڑھا ہے _
اوپر جو كچھ كہا گيا اس كے علاوہ جو چيز مجھے اس حديث كى صحت كے بارے ميں مشكوك بناتى ہے يہ ہے كہ بالفرض اگر ہم مان ليں كہ جنات كو ديكھنا اور نوحہ پڑھنا صرف ام المومنين نے ديكھا تو ہميں ماننا پڑے گا كہ ہزاروں حاجيوں نے جو منى ميں موجود تھے اس جنات كو ديكھنے سے محروم رہے ، وہاں اكيلى ام المومنين ہى تو موجود نہيں تھيں ، بلكہ دوسرى ازواج رسول بھى تھيں ، زينب اور سودہ ہر منزل پر ان كے ساتھ ساتھ رہيں ، جہاں ٹھہرتيں يہ بھى ٹھہر جاتيں ، جہاں سے كوچ كرتيں يہ بھى كوچ كرتيں ، پھر ان ازواج رسول نے واقعہ كا مشاہدہ كيوں نہ كيا كہ سوگ عمر ميں جناتوں كے نوحے كى روايت صرف ام المومنين عائشه نے كى ہے ، اس مرثيے كو ادمى سے منسوب ہونے كى ترديد ميں اور بقول ام المومنين عائشه جناتوں كے ہونے كى تاكيد ميں طبقات بن سعد ميں ہے جو بطريق موسى بن عقبہ روايت كى گئي ہے (عائشه نے پوچھاكہ يہ شعر پڑھنے والا كون ہے ؟)
جزى اللہ خير ا من امام و باركت
لوگوں نے جواب ديا ضرار كا فرزند
عائشه كا بيان ہے كہ يہ سننے كے بعد ميں نے ضرار كے بيٹے سے ملاقات كى اور يہ بات اس سے پوچھى ، اس نے قسم كھا كر كہا كہ ميں اس موقع پر منى ميں تھا ہى نہيں _
ميرے لئے فرق نہيں كہ اس روايت كى سند گذشتہ حديث ام المومنين كے مانند صحيح ہے يا ابن حجر كے بقول
ضعيف ہے (41)، يہاں بات صرف اتنى ہے كہ مجھے اس حديث سے يہى سمجھ ميں اتا ہے كہ ان اشعار كے بارے ميں كہ وہ ادمى تھا يا جنات تھا ، اس وقت كے حاضر ين كو بھى شك اور ترديد تھا _
اسى بنياد پر اخرى حديث كا شبہ ختم كرنے كيلئے اسى كے گرد ا گرد دو حديث صحيح سند كے ساتھ ام المومنين سے روايت كى گئي _
احترامات متقابل
ام المومنين خلافت شيخين كے تمام زمانے ميں خلافت كى طرف سے خاص توجہ و احترام كى مستحق سمجھى جاتى تھيں ، وہ بھى اسكے مقابلے ميں خلافت كے خصو صى احترام كو ملحوظ ركھتيں خليفہ كى عظمت نماياں كرتيں ، ان كا مرتبہ لوگوں كى نظر ميں بڑھاتى تھيں ، مرتبہ خلافت كے حضور اپنى فروتنى سے تمام مسلمانوں كى خود سپردگى كا ماحول تيار كرتيں _
خلافت بھى عائشه كى شخصيت كا احترام ، انكى رضا جوئي اور بزرگى دو بالا كرنے اور دوسرى ازواج انھيں ترجيح دينے سے غفلت نہيں برتتى تھيں_
اس متقابل احترامات كى تمام زمانہ خلافت شيخين ميں رعايت كى گئي خاص طور سے عمر كى موت كے وقت تك قائم رہا ، احترام و الفت نيز دونوں طرف سے جھك كر ملنے كا نمونہ عمر اور عائشه كے مكالمہ سے ظاہر ہے_
بخارى نے فضائل اصحاب نبى كے باب ميں ، اور ابن سعد نے طبقات ميں عمر وبن ميمون كے طويل بيان كے ضمن ميں لكھا ہے كہ :
عمر نے اپنے بيٹے عبد اللہ كو حكم ديا كہ ام المومنين عائشه كى خدمت ميں جائو ، اور ميرى طرف سے يہ پيغام پہونچا ئو كہ عمر سلام عرض كرتا ہے اور استدعا كرتا ہے كہ مجھے مرنے كے بعد رسول اور ابو بكر كے پہلو ميں دفن ہونے كى اجازت مرحمت فرمائيں _
عبد اللہ اسى وقت ام المومنين كى خدمت ميں پہونچے تو ديكھا كہ وہ بيٹھى ہوئي رورہى ہيں ، عبد اللہ نے باپ كا پيغام ديا تو عائشه نے جواب ميں كہا ، ميں نے وہ جگہ خود اپنے لئے مخصوص ركھى تھى ، ليكن خليفہ كو اپنے اوپر ترجيح ديتى ہوں _
عبد اللہ اثبات ميں جواب پاكر خدمت خليفہ ميں پہونچے ، عمر نے پوچھا كيا خبر ہے ؟
نتيجہ اپ كى توقع كے مطابق ہے ، ام المومنين نے اجازت ديدى _
خدا كا شكر ، ميں اس مسئلے ميں بہت فكر مند تھا _
عائشه كا گھر دار الشوري
ابن عبد ربہ عقد الفريدميں لكھتے ہيں كہ :
عمر نے اپنى باتوں كے درميان چھ ادميوں كو خلافت كا نمائندہ بناتے ہوئے كہا ، عائشه كى اجازت اور رائے سے ان كے گھر ميں ا نا اور باہم ايك دوسرے سے مشورہ كر كے ايك شخص كو خليفہ مقرر كر لينا _
جب عمر مر گئے تو انھيں دفن كر ديا گيا ، مقداد بن اسود جو اس شورى كميٹى كے ممبر تھے انھوں نے سب كو عائشه كے گھر ميں انكى اجازت ليكر جمع كيا ، اسى وقت عمر و بن عاص اور مغيرہ بن شعبہ ائے اور عائشه كے دروازے پر بيٹھ گئے ،سعد بن وقاص نے ان دونوں كو سنگريزے مار كر وہاں سے بھگا ديا اور كہا :
تم ہم سے يہ كہنا چاہتے ہو كہ ہم بھى خليفہ مقرر كرنے كيلئے شورى كميٹى كے ايك ممبر تھے اور عائشه كے گھر ميں موجود تھے ، اسطرح تم دونوں اپنے كو ہم لوگوں كے ہم پلہ قرار دينا چاہتے ہو ؟
اب جبكہ بات ان چار كى ہوتى ہے ، ان كا تعارف فائدے سے خالى نہيں _
مقداد
مقداد بن اسود كندى _ عمر بن ثعلبہ كے فرزند تھے ، ليكن انھوں نے جاہلى زمانے ميںكسى خاندان كى فرد كو قتل كر ديا تھا اسلئے حضر موت كى طرف بھاگ گئے تھے ، وہيں قبيلہ كندہ كے ہم پيمان بن گئے ، پھر وہاں ابو شمر سے جھگڑا ہو ا ، اسكى پنڈلى كو تلوار سے زخمى كر ديا جسكى وجہ سے مكہ بھاگنا پڑا وہيں اسود بن عبد يغوث كے ہم پيمان ہوگئے ، انھيں كے فرزند كہے جانے لگے اس تاريخ سے انھيں مقداد بن اسود كہا جانے لگا ، جب خدا نے ايت نازل كر كے حكم ديا كہ ادعوھم لابائھم (لوگوں كو ان كے باپ كے نام سے پكارو )تو انھيں مقداد بن عمر و كہكے پكارا جانے لگا ، مقداد كا انتقال 33ھ ميں ہوا _
عمر و عاص
انكى كنيت ابو عبد اللہ يا ابو محمد تھى ، عمر وعاص قريش كے قبيلہ بنى سھم سے تھے ان كى ماں كا نام نابغہ بنت حرملہ تھا ، جو ايك جنگ ميں غنيمت كى شكل ميں بازار عكاظ ميں بكنے ائي ، اسے مغيرہ كے بيٹے وفا نے خريد كر پہلے عبد اللہ بن جد عان اور بعد ميں عاص بن وائل كو ديديا ، اخر نابغہ سے عمرو عاص پيدا ہوئے ،(عمر و عاص كى ماں نابغہ دور جاہليت كى مشھور ترين رنڈى تھى )
قريش نے عمر و عاص كو حبشہ بھيجا تاكہ نجاشى كى رائے جعفربن ابى طالب اور دوسرے ان مسلمانوں كے بارے ميں بدل سكے جنھوں نے حبشہ ہجرت كى تھى ، اور ان سب كو مكہ واپس لا سكے ، نتيجے ميں نجاشى نے عمر و كو اپنى بارگاہ سے دھتكار ديا _
-----------------------------------------
1_ حاطب كا نام عمر بن عمير اور كنيت ابو عبد اللہ تھى _ قبيلہ لخم كے تھے رسول نے انہيں 6ھ ميں مقوقس كے پاس بھيجا _ مقوقس نے ماريہ اور شيريں و ديگر ہدايا كے ساتھ روانہ كيا _ حاطب كى 31ھ ميں مدينہ ميں وفات ہوئي _ عثمان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي _ اسد الغابہ _ اصابہ اور استيعاب ديكھئے
2_ مدينے كے بالائي حصہ كو عاليہ كہتے _ وہاں قبيلہ بنى نظير رہتا تھا
3_ زوجہء رسول صفيہ كى كنيز سلمى تھيں_ وہ جنگ خيبر ميں موجود تھيں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا كى دايہ كے فرائض بھى انجام دئے تھے _ انہوں نے غسل فاطمہ ميں بھى شركت كى تھى
4_ طبقات بن سعد ج1 ص 134
5_ حارثہ قبيلہ بنى نجار سے تھے _ جنگ بدر اور بعد كى دوسرى جنگوں ميں شريك رہے حارثہ كى خلافت معاويہ كى زمانے ميں وفات ہوئي _ اسد الغابہ ج1 ص 358 _ اصابہ ج1 ص 1532
6_ طبقات بن سعد ج8 ص 134
7_صحيح بخارى مطبوعہ مصر سال 36_37 جلد 3/ ص137 ،تفسير سورہء تحريم ، كتاب فضائل القران جلد 3 / ص138 ، اور باب موعظہ الرجل جلد 3/ ص 147 ،كتاب المظالم جلد 4/ ص47 ، صحيح مسلم الرضاع جلد 1/ 509 صحيح ترمذى ج2 / 409 ، مطبوعہ ہندوستان ، صحيح نسائي ج1/ ص 302 ، اسكے علاوہ تفسير طبرى اور در منثور بھى ديكھى جا سكتى ہے
8_ بخارى ج2 ص277
9_ بخارى ج2 ص210
10_ حضرت خديجہ كے حالات زندگى ، فداكارياں ، امتيازى اور اہم ترين اخلاقى خصوصيات پر مستقل كتاب كى ضرورت ہے _ اپ كے حالات طبقات بن سعد ، استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ كے علاوہ وہ بہت سى كتابيں ديكھنے كى ضرورت ہے _
11_ مسند احمد ج6 ص 150، 154
12_ مسند احمد ج6 ص117 ،وسنن ترمذى ص247
13_ عائشےہ سے رسول خدا (ص) كى محبت كے سارے افسانے تنہا عائشےہ سے مروى ہيں اور ميں انشاء ا اگلے صفحات ميں ان پر تبصرہ كروں گا _
14_ كنزل العمال ج6 ص219 حديث شمارہ 3853_3854_3855
15_مستدرك ج3 ص153_156
16_ مستدرك ج3 ص158 _159 وكنز ج6ص218حديث 3834
17_ مصدر سابق
18_ كنزالعمال _ اسد الغابہ _ استيعاب _ حليہ ابو نعيم و خلاصہ تہذيب الكمال
19_ اس راز و نياز كو مورخوں نے جنگ طائف كے موقع پر بتايا ہے _ كہتے ہيں كہ جب راز و نياز كافى دير ہوا تو لوگوں نے كہنا شروع كيا كہ رسول نے اپنے چچيرے بھائي سے دير تك راز و نياز كيا ايك روايت ہے كہ يہ بات ابو بكر نے كہى تھى _ رسول خدا (ص) نے جواب ديا كہ ميں نے راز و نياز نہيں كيا بلكہ يہ خدا كى جانب سے راز و نياز تھا _ صحيح ترمذى ج2 ص 200 _ تاريخ خطيب ج7 ص 402_ كنز العمال _ اسد الغابہ
20_ مسند احمد كنز ج6 ص 152 حديث 2495 و منتخب كنز ج5 ص 29 _ مستدرك ج3 ص 125 _ صحيح ترمذى ج13 ص 176
21_ مسند احمد ج1 ص 331 و مستدرك ج3 ص 51 _52 _ مسند احمد ج1 ص 2 بطريق ابو بكر و على خصائص نسائي
22_ يہ ابن ابى الحديد كے استاد كى بات صحيح نہيں _ كتاب عبد اللہ بن سبا ج1 ص 106 _ فصل خلافت ملاحظہ ہو
23_ طبقات بن سعد ميں ہے كہ تمام مہاجرين و انصار كے سربراوردہ حضرات حكم رسول سے مامور تھے كہ لشكر اسامہ ميں شريك ہوں ان ميں ابو بكر عمر ابو عبيد ہ جراح سعد بن ابى وقاص وغيرہ تھے ، بعض نے اس حكم پر اعتراض كرتے ہوئے كہا كہ بڑے بڑے مہاجرين و انصار پر اس چھوكرے كو سردار بنا ديا ہے ، جب يہ خبر رسول كو ہوئي تو غصے ميں منبر پر گئے اور حمد و ثنائے الہى كے بعد فرمايا ، يہ كيسى باتيں ہيں جو لشكراسامہ كے بارے ميں سن رہا ہوں ، روز شنبہ انحضرت نے اس اعتراض كا جواب ديا اور تيسرے دن دو شنبہ كو انتقال فرمايا ، طبقات بن سعد ، تہذيب بن عساكر ، كنز العمال ملاحظہ فرمايئے
24_ تفصيلات كيلئے كتاب عبد اللہ بن سبا فصل سقيفہ ملاحظہ فرمائيں
25_ طبقات بن سعد ج2 _ صحيح بخارى _ المغازى باب غزوئہ خيبر ج3 ص 38 _ صحيح مسلم ج1 ص 72 _ ج3 ص 153 _ طبرى _ ابن كثير _ مسند احمد بن حنبل ج1 ص 4 _ ج 6 ص9
26_ ام المومنين عائشےہ نے رسول خدا كے گھر ميں اپنى پارٹى بنا لى تھى ، جيسا كہ خود اس بارے ميں كہتى ہيں ، ازواج رسول دو گروہوں ميں بٹ گئيں ، ايك پارٹى ميں عائشےہ حفصہ اور سودہ تھيں اور دوسرى پارٹى ميں ام سلمہ اور دوسرى ازواج تھيں ، بقيہ حديث سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب فاطمہ اسى دوسرى پارٹى ميں تھيں جو مخالف عائشےہ تھى ، اس سلسلے ميں صحيح بخارى ملاحظہ فرمايئے ليكن رسول خدا كے گھر كے باہر ام المومنين نے اپنے خاندان تحفظ كے مفادات اور اپنى پارٹى كى ترقى كيلئے برابر كام كرتى رہيں _
27_ طبقات بن سعد ج8 ص375
28_ طبقات بن سعد ج8 ص67 ، اجابہ 71 _75،كنز العمال ج7 ص116 منتخب كنز ،اصابہ ج4 س249 ، طبرى ج4 ص161 ، ابن كثير ج2 ص247 _مستدرك ج4 ص 8 _ شرح نہج البلاغہ ج3 ص 154 _ بلاذرى ص 454 _ 455 احكام السلطانيہ ماوردى ص 222_ واضح ہو كہ يہ خلافت كا سياسى مقتضا تھا كہ عائشےہ كو رسول كى چہيتى بيوى كى حيثيت سے متعارف كرايا جائے ليكن حقيقت ايسى نہيں تھى ، بلكہ خلافت نے اپنے زمانے ميں اس بات كو مشھور كيا
29_ ابن ابى الحديد ج4 ص457 ،تاريخ خطيب بغدادى ج7 ص453
30_ واقعى عمر كس بات سے ڈرتے تھے اور لوگوں كے گمراہى كا انديشہ كيوں تھا ؟ كيا انھيں اسكا ڈر تھا كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان جا كر حلال و حرام اور قوانين اسلام متغير كر كے گمراہى پھيلائيں گے ؟يا اس سے ڈر تے تھے كہ بعض اكابر صحابہ كے بارے ميں اصحاب رسول كى لوگوں كو جانكارى ہو جائے گى ، اور لوگ خلافت كے افراد سے بد ظن ہو جائيں گے ؟ يا بعض كو مدينے سے اسلئے جا نے نہيں ديتے تھے كہ انكى مخالفت كا انديشہ تھا ؟ بہر حال يہ مسئلہ الگ سے علمى استدلال كے ساتھ مطالع كا مستحق ہے ، عمر جيسے ھوشمند اور زيرك كى بات كو يو نہى نہيں اڑ ايا جا سكتا ، ان كے اقدام كو عوامى رنگ دنيا انصاف سے بعيد ہے انكى دور انديشى اور سياسى بصيرت پر ظلم ہے (سردار نيا )
31_ زينب اور سودہ كے گھر سے نہ نكلنے كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا نے اخرى حج ميں انھيں ازواج سے فرمايا تھا ، اس حج كے بعد تم سب كو گھر ميں بيٹھى رہنا ہے ، يہ بھى فرمايا كہ ميرے بعد تم ميں سے جو بھى تقوى اختيار كرے اور حكم كى مخالفت نہ كرے اور اپنے گھروں ميں نچلى بيٹھى رہے گى ، گھر سے قدم باہر نہ نكالے گى ، وہ قيامت ميں بھى ميرى زوجہ رہے گى طبقات بن سعد 8/ 208
32_ ابو محمد ، عبد الرحمن بن عوف قريش كے بنى زھرہ سے تھے ، انكى ماں شفا بھى اسى قبيلے سے تھيں ، عام الفيل كے دس سال بعد پيدا ہوئے ، جاہلى زمانے ميں عبد عمر يا عبد كعبہ نام تھا ، رسول خدا نے ان كے اسلام قبول كرنے كے بعد عبد الرحمن نام ركھا ، انھوں نے حبشہ اور مدينے مين ہجرت كى ، جنگ بدر ميں اور تمام جنگوں ميںشركت كى ، عمر نے انھيں شورى كى ايك فرد نامزد كيا تھا ، عبد الرحمن نے 31ھ يا يا32ھ مدينے ميں انتقال كيا اور بقيع ميں دفن كئے گئے ، اصابہ 2/ 408 _ 410 استيعاب در حاشيہ اصابہ ، اسد الغابہ 3/ 313 _ 317 ملاحظہ ہو
33_ ابو عبد الرحمن كنيت تھى ، مسوربن مخرمہ بن نوفل نام تھا ، قبيلہ قريش كے بنى زھرہ كى فرد تھے ، انكى ماں عاتكہ بنت عوف ، عبد الرحمن بن عوف كى بہن تھيں ، مسور ہجرت كے دوسرے سال پيدا ہوئے ، اور جس سال شاميوں نے ابن زبير پر چڑھائي كى اور خانہ كعبہ پر منجنيق سے گولے برسائے ، يہ مسور وماں حجر اسماعيل ميں نماز پڑھ رہے تھے ايك پتھر انھيں لگا اور مر گئے ، انكى موت ربيع الاول 64 ھ ميں ہوئي ، اسد الغابہ 4/ 365 ، طبقات بن سعد ، استيعاب اور اصابہ ديكھى جائے
34_ سير النبلاء ج2 ص 133 _ مستدرك حاكم و تلخيص ذھبي
35_ صحيح مسلم باب فضائل ابو بكر ج7 ص110 ، مسند احمد ج6 ص47_144،و طبقات بن سعد ، و كنز العمال _ منتخب كنز
36_ اس زمانے ميں كاغذ كى جگہ شانے كى ہڈى استعمال كى جاتى تھى
37_ صحيح مسلم ج7 ص110 ، طبقات بن سعد ،مسند احمد ، مستدرك ، كنزل العمال منتخب _ مستدرك ميں ابو عبيدہ نام ملتا ہے
38_ ابو عبيدہ جراح كا نام عامر بن عبد اللہ قرشى فہرى تھا ، سابقين اسلا م ميں تھے ، دونوں ہجرت ميں شريك ہوئے ، عمر كى طرف سے حاكم شام ہوئے 18ھ ميں وہيں مرض طاعون ميں انتقال كيا ، اور بعد ميں اردن ميں دفن كئے گئے ، استيعاب ، اصابہ اسد الغابہ
39_ اغانى ج 8ص 194 شماخ اور اسكے بھائيوں نے جاہليت اور اسلام دونوں زمانہ پايا ، ان ميں سب سے مشھور شاعر شماخ ہے ، جسكا شعر ى ديوان بھى مرتب كيا گيا ہے ، اس نے عثمان كے زمانے كى بعض جنگوں ميں شركت كى ہے ، اصابہ 2/ 152 ، اسد الغابہ 4/ 351
40_ اشتقاق ص 286 _ اسد الغابہ حالات عمر ، ديوان حماسہ ص 109 ديكھى جائے
41_ اصابہ ج3 ص 385 _ 386
|