تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه
 

يہ ديكھ كر زيد كے باپ اور چچا خوشى سے پھولے نہيں سمائے ، اور وہ واپس ہو گئے ، اس تاريخ سے زيد جو ازاد كردئہ رسول خدا تھے تمام لوگ انھيں زيد بن محمد كہنے لگے _
زينب بنت جحش رسول خدا كى پھوپھى زاد بہن تھى انحضرت ہى انكى كفالت فرماتے تھے ، ان سے شادى كے بہت سے لوگوں نے پيغامات دئے تھے انھوں نے يہ معاملہ رسول خدا كے حوالے كر ديا تھا ، ا نحضرت نے ان سے فرمايا كہ تم زيد سے شادى كرو _
زينب نے يہ سنا تو بھڑك اٹھيں ، كہنے لگيں ، ميں اپ كى پھوپھى زاد بہن ہوں ، اور اپ مجھے اپنے ازاد كردہ شخص كے حوالے كر رہے ہيں ؟زينب كے بھائي بہن بھى طبقاتى اختلاف كى وجہ سے اس بات پر راضى نہيں تھے ، اسى وقت خدا كى طرف سے يہ حكم نازل ہوا _
كسى مومن مرد يا عورت كو يہ اختيار نہيں كہ جب خدا ورسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كر ديں تو وہ بھى اپنے امركے بارے ميں صاحب اختيار ہو جائے اور جو بھى خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا وہ بڑى كھلى ہوئي گمراہى ميں مبتلا ہو گا
اس ايت نے تينوں كے بارے ميں اعلان كر ديا كہ وہ خاموشى سے رسول كے فيصلے كو مان ليں ، زينب نے زيد سے اپنى شادى كى امادگى ظاہر كر دى ، رسول خدا نے اپنے اسى مقصد كے ماتحت جسميں طبقاتى نا برابرى اور اشراف گيرى كا زعم ختم كرنا تھا زينب كى زيد سے شادى كر دى
زيد كے گھر زينب چلى گئيں ، وہيں ايك دوسرى عورت ام ايمن جو ازاد كردئہ رسول خدا تھيں اور ان كے فرزند كے ساتھ رہنے لگيں ، مانى بات ہے كہ يہ طرز زندگى زينب كو رنجيدہ كرنے والى تھى ، اسى وجہ سے زيد كے ساتھ بد سلوكى ہونے لگى _
بات يہاں تك بڑھى كہ زيد نے رسول خدا سے شكايت كى اور اجازت مانگى كہ زينب كو طلاق ديديں ، ليكن رسول خدا نے فرمايا :
امسك عليك زوجك و اتق اللہ ، خدا سے ڈرو ، اور اپنى زوجہ كو طلاق مت دو ، ليكن زينب كى بد سلوكى نے زيد كو اسقدر پريشان كيا كہ انكے اصرار كى وجہ سے رسول خدا بھى زينب كو طلاق دينے پر رضا مند ہو گئے اور زيد نے
زينب كو طلاق ديدى _
جب زينب كے عدہء طلاق كى مدت ختم ہوئي تو رسول خدا كو حكم خدا وندى ہوا كہ ايك دوسرى رسم جاہليت ختم كرنے كيلئے ، زينب سے شادى كر ليں تاكہ لوگ عملى حيثيت سے ديكھ ليں كہ منھ بولے بيٹے كيلئے و صلبى فرزند كے احكا م ثابت نہيں ہيں ،اگر كسى كا منھ بولا بيٹا طلاق ديدے تو وہ اس سے شادى كر لے ، اس معاملے كو نافذ كرنا رسول خدا كيلئے بڑا مشكل تھا ، وہ لوگوں كى ياوہ گوئيوں كو ديكھ رہے تھے ، يہاں تك يہ ايت نازل ہوئي جس سے انحضرت كى روحانى حالت اور شديد بے چينى ظاہر ہوتى ہے _
تم لوگوں سے ڈرتے ہو ؟حالا نكہ خدا اسكا زيادہ سزاوار ہے كہ اس سے ڈراجائے ؟جب زيد نے اپنى حاجت پورى كر لى تو ہم نے اس عورت كا عقد تم سے كر ديا تاكہ مومنين كے لئے منھ بولے بيٹوں كى بيويوں سے عقد كرنے ميں كوئي ہرج نہ رہے (1)
اس واضح ايت كے بعد رسول خدا نے زينب سے شادى كر لي
ان تمام باتوں سے معلوم ہو گيا كہ رسول خدا كى زيادہ تر شاديوں كى حكمت و مصلحت يہ تھى كہ معاشرے ميں احكام الہى كا نفاذ ہو اور جاہليت كے زمانے سے چلى رہى ناپسنديدہ رسموں كو ختم كيا جائے اسميں اپ كى خواہش نفس اور جنسى شھوت ذرا بھى دخل نہ تھا _

وہ خواتين جنھوں نے بے مھر اپنے كو رسول (ص) خدا كيلئے پيش كيا
كچھ دوسرى عورتيں بھى تھيں جنھوں نے بغير مھر اپنے كو رسول خدا كى خدمت ميں پيش كيا ، اس پيشكش كو قران نے لفظ (وھبت)سے تعبير كيا ہے اسكى غرض يہ تھى كچھ عورتوں نے خود ہى اپنے كو بغير مہر كے پيش كيا تھا كہ اپ انھيں اپنے حيالہء عقد ميں لے ليں ، سيرت و تاريخ كى كتابوں ميں ان چند عورتوں كا نام ملتا ہے ، ان ميں ايك خولہ بنت حكيم بھى تھيں _

خولہ بنت حكيم ہلاليہ
خولہ ان خواتين ميں تھيں جنھوں نے اپنے كو پيغمبر كے لئے ہبہ كيا ، رسول خدا نے جواب ميں ٹال مٹول دكھائي ، وہ پيغمبر كے گھر ميں خدمت كرتى تھيں ، يہاں تك اپ نے ان كا نكاح عثمان بن مظنون سے كر ديا وہ عثمان كى وفات تك انھيں كے گھر رہيں (1)_

دوسرى خواتين
سہل ساعدى كى روايت ہے كہ ايك عورت خدمت رسول ميں ائي اور اپنے كو اپ كے حوالے كرتے ہوئے پيش كيا ، رسول نے جواب ميں سكوت فرمايا ، وہاں ايك مسلمان موجود تھا ، اس نے عرض كى ، يا رسول اللہ ، اگر اپ كو اس عورت كى حاجت نہيں ہے تو اسكى شادى ميرے ساتھ كر ديجئے ، انحضرت نے فرمايا اس عورت كو كيا مہر دو گے ؟
اس نے عرض كى ، يہى لباس جو ميرے بدن پر ہے
انحضرت نے فرمايا : اگر يہ لباس جو پہنے ہوئے ہو اسے ديدوگے تو تم خود برہنہ ہو جائو گے ، كوئي دوسرى چيز دواس نے عرض كى ،اسكے سوا تو ميرے پاس كچھ بھى نہيں
انحضرت(ص) نے فرمايا :چاہے ايك لوہے كى انگوٹھى ہى ہو
اس نے عرض كى ، ميرے پاس وہ بھى نہيں
انحضرت نے فرمايا : كيا تمھيں كچھ قران كے سورے ياد ہيں _
اس نے كہا : جى ہاں ،مجھے فلاں فلاں سورے ياد ہيں اس نے كئي سوروں كا نام ليا _
انحضرت (ص) نے فرمايا: ميں اس عورت كى شادى تم سے انھيں قرانى سوروں كے بدلے كرتا ہوں جو تمھيں ياد ہيں _
سيرت كى كتابوں ميں دوسرى چند خواتين كے نام بھى ملتے ہيں جنھوں نے اپنے كو رسول كيلئے ہبہ كيا ان ميں ام شريك اور ام ليلى كا نام ہے يہ خواتين خدمت رسول ميں جسطرح پہونچيں ان كى دل خراش داستان كتابوں ميں ملتى ہے ليكن رسول خدا نے ان ميں كسى سے بھى شادى نہيں كى _

رسول كے لئے حكم خصوصي
گذشتہ صفحات ميں ان با ايمان خواتين كے كچھ حالات بيان كئے گئے جو اس وقت مدينے ميں تھيں ، ہم نے يہ بھى ديكھا كہ كسطرح اسلام كى بلند مصلحتوں كے پيش نظر رسول خدا نے مختلف سركش قبايل سے اپنائيت اور ازدواج كا سلوك اپنايا ، اسى كے ساتھ يہ بھى قابل توجہ ہے كہ ہر مسلمان كو چار شادياں كرنے كى اجازت ہے ،ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ رسول خدا(ص) اس حكم سے مستثنى ہيں ، يہ استثناء سورہء احزاب كى ايت 50_52ميں اسطرح ہے _
اے پيغمبر ہم نے اپ كے لئے اپ كى بيويوں كو جن كا مہر ديديا ہے اور كنيزوں كو جنھيں خدا نے جنگ كے بغير عطا كر ديا ہے اور اپ كے چچا كى بيٹيوں كو اور اپ كى پھوپھى كى بيٹيوں كو اور اپ كے ماموں كى بيٹيوں كو اور اپ كے خالہ كى بيٹيوں كو جنھوں نے اپ كے ساتھ ہجرت كى ہے اور اس مومنہ كو جو اپنا نفس نبى كو بخش دے ،اگر نبى اس سے نكاح كرنا چاہے تو حلال كر ديا ہے ، يہ صرف اپ كے لئے ہے باقى دوسرے مومنين كے لئے نہيں ہے ، ہميں معلوم ہے كہ ہم نے ان لوگوں پر ان كى بيويوں اور كنيزوں كے بارے ميں كيا فريضہ قرار ديا ہے تاكہ اپ كے لئے كوئي زحمت اور مشقت نہ ہو _
ان ميں سے جسكو اپ چاہيں كر ليں اور جس كو چاہيں اپنى پناہ ميں ركھيں اور جن كو الگ كر ديا ہے ان ميں سے بھى كسى كو چاہيں تو كوئي ہرج نہيں ہے ، يہ سب اسلئے ہے تاكہ ان كى انكھيں ٹھنڈى رہيں اور يہ رنجيدہ نہ ہوں ، اور جو كچھ اپ نے ديديا ہے اس سے خوش رہيں اور اللہ تمھارے دلوں كا حال خوب جانتا ہے ، اور وہ ہر شئے كا جاننے والا اور صاحب حكمت ہے ، اس كے بعد اپ كے لئے دوسرى عورتيں حلال نہيں ہيں اور نہ يہ جائز ہے كہ ان بيويوں كو بدل ليں چاہے دوسرى عورتوں كا حسن كتنا ہى اچھا كيوں نہ لگے ، علاوہ ان عورتوں كے جو اپ كے ہاتھوں كى ملكيت ہيں اور خدا ہر شئے كى نگرانى كرنے والا ہے_
خود يہى حكم خدا تھا جسكى ايات ميں وضاحت كى گئي ، اور نتيجے ميں رسول خدا (ص) كے لئے راہيں كھول دى گئيں كہ وہ خود ہى جس بات كى صلاح ديكھيں اقدام فرمائيں،پيغمبر(ص) نے بھى جيسى مصلحت ديكھى ، اقدام فرمايا يہاں تك اپ كى وفات كے وقت اپ كى ازدواج كى تعداد نو تك پہنچ گئي ، ليكن يہ اس وجہ سے نہيں ہے كہ رسول خدا كے لئے نو عورتوں كى اجازت ہے اور دوسرے تمام مسلمانوں كو چار كى اجازت ہے _
گذشتہ ايات ميں پيغمبر كى حدود ازادى بيان كى گئي اسميں حسن و زيبائي كو الگ كر كے خواتين معين كرنے كا حكم ديا گيا ، يہ مصلحت انديشى كے سوا كوئي دوسرا پہلو نہيں ہے ، شايد اسى دليل سے موجو د خواتين كو چھوڑ كر دوسرى اختيار كرنے كى اجازت نہيں دى گئي ، جبكہ مرد مسلمان كيلئے يہ بات جائز ہے كہ چار عورتوں كو چھوڑ كر دوسرى چار عورتوں سے عقد كرنے كيلئے طلاق كى اجازت ہے _
رسول خدا (ص) نے اپنے اس اختيار سے انسانى ضرورتوں كے انتظام كے لئے اسلام كے بلند مصالح اور معنوى سياسى ہدايت كے لئے عزت دار عورتوں سے استفادہ فرمايا ، ليكن جب فتح مكہ كے بعد اسائشے فراہم ہو گئي تو اسكے بعد رسول خدانے كسى بھى خاتون سے ازدواج نہيں فرمايا ، كيونكہ اس حكم خاص سے استفادہے كى كوئي ضرورت باقى نہيں تھى _

نتيجہ تحقيق
رسول اكرم (ص) كے حالات ازدواج سے يہ بات روشن ہو جاتى ہے كہ انحضرت نے اپنى پچاس سال كى عمر تك جو انسان كى طبيعى توانائي كا حد كمال ہے صرف ايك خاتون سے شادى كى جو اپ سے پندرہ سال بڑى تھيں اور انھوں نے پينسٹھ سال كى عمر ُ،پائي تھى ، اپ اسى طرح مكہ ميں رہے يہاں تك كہ مدينے ميں ہجرت فرمائي اور بے سہارا مسلمان معاشرے كے انتظامى امور كى سنگين ذمہ دارى اپڑى _
جس زمانے ميں اوارہ وطن مومنوں كا گروہ اپ كى خدمت ميں اتا تھا كبھى انكى تعداد اسّى ہوتى جو مسجد كے صفّہ پر رہتے تھے ، بعض ان ميں شرمگاہ چھپانے بھر كے لباس سے بھى ٹھيك سے نہيں ركھتے تھے ، اسى زمانے ميں ايسى بے سہارا عورتيں بھى ہو گئيں جنكے شوہر جنگوں ميں مارے گئے ، وہ اپنے باپ كے گھروں ميں بھى واپس نہيں جا سكتى تھيں ، كيونكہ وہ ان كو خدا و رسول كا دشمن اور نجس سمجھتى تھيں ، خود وہاں ايسے حادثے معاشرے ميں گذر رہے تھے كہ اساس حيثيت سے عورتوں كا وجود بھارى بوجھ سمجھا جاتا تھا كيونكہ باپ اپنى بچيوں كو فاقے كے ڈر سے زندہ دفن كر ديتے تھے ، رسول خدا سے جنگ كے زمانے ميں بھى اپ كو شكست دينے كيلئے انكى بيٹيوں كو طلاق كى پيشكش كرتے تھے ، اخر كار نوبت يہاں تك پہونچى تھى كہ اگر بيوہ عورتوں كے باپ ہوتے تو اپنے ساتھيوں سے اصرار كرتے تھے كہ شادى كر ليں جيسے عمر كى بيٹى حفصہ كے ساتھ ايسا ہى ہوا _
كيا اس صورتحال ميں حفصہ سے رسول خدا كى شادى ايك بيوہ كى نفسياتى شكست اور عثمان و ابوبكر سے ازردگى ختم كرنے كيلئے نہيں تھى ؟
اسى زمانے ميں دوسرى خواتين جيسے ام سلمہ جو بڑى عمر كى اور صاحب اولاد تھيں اور ان كے شوھر جنگ احد ميں مارے گئے تھے ،شھر غربت ميںكيا كر سكتى تھيں كيا ان كے لئے ايسا ممكن تھا كہ اسى خانوادے ميں واپس جائيں جنكے تشدد سے تنگ اكر انھوں نے حبشہ كى طرف فرار كيا تھا _
يا وہ دوسرى خاتون زينب بنت خزيمہ جنكى رسول خدا سے پہلے دو مرد وں سے شادياں ہوئي تھيں اور دوسرے شوہر جنگ احد ميں شھيد ہوئے تھے ، وہ اپنى زندگى كے دن كيسے كاٹ سكتى تھيں ؟
اسى طرح ابو سفيان كى بيٹى ام حبيبہ جو اپنے خاندان كى سختيوں سے تنگ اكر اپنے شوہر كے ساتھ حبشہ بھاگ گئي تھيں ، وہاں ان كے شوہر كا انتقال ہوگيا انكى بيچارگى كا درمان سوائے اس كے اور كيا تھا كہ رسول كے زير سايہ اجائيں ام حبيبہ اسى ابو سفيان كى بيٹى ہيں جس نے اسلام كا نام و نشان مٹانے اور رسول خدا كو ذليل كرنے كيلئے كوئي پاپ نہيں چھوڑا _
رسول خدا (ص) كے خلاف جو بھى سركشى كا پرچم بلند ہوا اسكا بانى مبانى ابو سفيان ، اپ نے اسى ابو سفيان كى ابرو كا اسطرح تحفظ فرمايا كہ جسكا گمان بھى نہيں كيا جاسكتا تھا ، ہاں ، اگر قريش نے ابو سفيان كى سر كشى ميں يہ كوشش كى تھى كہ اپ كى بيٹيوں كو طلاق دلا كر انكے گھر واپس كرديا جائے اج وہى پيغمبر ہيں ، اسى ابو سفيان كى بيٹى كو حبشہ سے نكاح نامے كے ساتھ اپنى زوجہ بنا ليا ، انھيں اعزاز و اكرام كے ساتھ مدينہ بلوايا ، يعنى انھيں عرب كے شريف ترين شخص كى خاتون بنا ليا ، رسول خدا خانوادہ ء عبد المطلب سے جو تھے يہى وہ بات تھى كہ ابو سفيان جھومنے لگا ، اور ايسا جملہ زبان سے نكالا جو ہميشہ كيلئے ضرب المثل بن گيا ذالك الفحل لا يقدع انفہ _
يہ وہ مرد ہے كہ اسكى ناك نہيں رگڑى جا سكتى اسكے دماغ پر ہتھوڑا نہيں لگايا جا سكتا ، ايسى كردار كى عظمت كا رد عمل تمام بنى اميہ كے افراد خاندان ميں كيا تھى جو كچھ گذشتہ صفحات ميں نقل كيا گيا اسكى مثال ميرے علم ميں تو نہيں ہے ليكن اس واقع كى نطير جو مجھے معلوم ہے قبيلہ بنى المصطلق كے سردار كى بيٹى كى شادى كا واقعہ ، تفصيلى انداز ميں نظر اتا ہے
قبيلہ بنى المصطلق خزائمہ كى ايك شاخ تھا ، اور مدينے سے پانچ منزل پر رہتا تھا ، اسكا سردار حارث رسول خدا (ص) سے جنگ كرنے كيلئے قبائل عرب كو ملا كر ايك بڑا لشكر تيار كر چكا تھا كہ ناگہان رسول خدا نے اچانك ان پر حملہ كر ديا ،
اس وقت دوسرے قبائل جو اسكى كمك ميں ائے تھے سبھى بھاگ گئے ، رسول خدا نے ان سے اسلام قبول كرنے كو كہا ، انھوں نے قبول نہيں كيا ، جنگ بھڑك اٹھى ، حارث كے قبيلے نے شكست كھا كر ہتھيار ڈال دئے ، قيديوں ميں خود حارث كى بيٹى بھى تھى ، جس انصارى نے اسے اسير كيا تھا رسول خدا نے اسكو خريد كر ازاد كر ديا ، پھر اس سے خود ہى عقد كر ليا ، اور اپنى ازواج ميں شامل كر ليا ، حالانكہ اگر چاہتے تو بطور كنيز اس سے ہم بستر ہوتے ، مسلمانوں نے اس ازدواج كے احترام ميں اپنے تمام قيديوں كو ازاد كر ديا ، اس اعلى ظرفى كى خبر حارث كو ملى تو مدينے ايا اور اسلام قبول كر ليا اسكے بعد تمام قبيلے والے مسلمان ہو گئے ، صلح حديبيہ كے زمانے ميں اسكا قبيلہ اور خزائمہ كا قبيلہ جس طرح قريش ہم پيمان ہوئے تھے يہ بھى ہم پيمان ہوئے _
يہيں سے جنگ زدہ عرب كے قبائل كى حكمت پر نظر جاتى ہے ، وہ لوگ جب چاہتے تھے كہ صلح و اشتى قائم ہو تو ظالم قبيلہ مظلوم قبيلے كو اپنى بيٹى ديديتا تھا ، اور اس طرح شادى بياہ كے ذريعے سياسى رابطہ بر قرار ہو جاتا تھا ، واضح بات ہے كہ رسول خدا كى تمام شادياں اس قاعدے سے مستثنى نہيں تھيں ، مثلاً صفيہ سے اپكا نكاح جو خيبر كے يہودى سردار كى بيٹى تھيں يا ريحانہ جو بنى نظير كے يہوديوں ميں سے تھيں اور اسكا شوہر بنو قريظہ كا يہودى تھا _
اس طرح كى شاديوں سے رسول خدا كا مقصد واضح ہوتا ہے كہ اپ سركش قبائل سے رشتہ قائم كرنا چاہتے تھے ، اس حكمت كى وضاحت اس سے بھى ہوتى ہے كہ اپ نے كوئي ايك رشتہ بھى انصار سے قائم نہيں كيا ، كيونكہ انصار كى بيوہ عورتيں خود اپنے گھر اور ٹھكانے ميں تھيں ، اپنے خاندان ميں تھيں ، ان كو كسى سرپرستى يا معاشى تعاون كى ضرورت نہيں تھى ، بلكہ انصار ہى نے مكہ كے مہاجروں كى مالى مدد كى ، انھيں گھر ، لباس اور كھانا ديا ، ان تمام شاديوں سے رسول خدا كى حكمت عملى روشن ہے صرف دو مواقع ہيں جنكے تجزيے كى ضرورت ہے ، پہلى تو عائشه سے اپ كى شادى ، كيونكہ رسول خدا نے ان سے نو سال پورے ہوتے ہى ازدواج فرمايا ،اور خود ہى يہ رواج موجودہ عادات كے مخالف ہے ،اور جو لوگ شھرى زندگى بسر كرتے ہيں ان كے خصوصيات سے ميل نہيں كھاتا _
اس اعتراض كے جواب ميں اول تو ہم يہ كہيں گے كہ اس عہد كے زمانى و مكانى حالت كو اج كے زمانى و مكانى حالت پر قياس كرنا غلط ہے ، ہم يہ بھى كہيں گے كہ خود رسول ہى نے ايسى كم عمر ميں شادى نہيں كى ، بلكہ اپ نے بھى اپنى پيارى بيٹى كا عقد نو سال ہى كى عمر ميں كيا ،اور يہ بات اسلامى قانونى لحاظ سے صحيح ہے دوسرے يہ كہ انسان كى فطرت ہے كہ گرم شہروں ميں جلد بالغ ہو جاتا ہے اور جلد ہى ٹوٹ پھوٹ بھى جاتا ہے ، يہ چيز اج ہندوستان ميں ديكھى
جا سكتى ہے ، وہاں كى اكثر لڑكياں جلد بالغ اور بچے والى ہو جاتى ہيں اور جلد ہى بوڑھى بھى ہوجاتى ہيں ، اسى كے مقابل تبتى كہساروں معاملہ اس كے الٹا ہے ، جيسا كہ كہا جاتا ہے وہاں مردوں كا سن كبھى كبھى دو سو سال تك پہونچ جاتا ہے اور سو سال ميں وہ جوان نظر اتا ہے _
دوسرا واقعہ زينب بنت جحش كے نكاح كا ہے ، جو رسول كے منھ بولے بيٹے اسامہ كى مطلقہ تھيں ، اس ازدواج كى حكمت ميں نے وہيں بيان كى ہے _
ان تمام تجزيوں سے رسول خدا كى متعدد ازواج كى حكمت واضح ہے پھر ان كے بارے ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اخر كيا بات ہوتى كہ رسول خدا كے خلاف بد گمانى اور غلط فہمى تعدد ازواج كے بارے ميں پيدا ہو گئي ، اس سوال كا جواب يہ ہے كہ جس وقت ہم نے حديث و سيرت كے تجزيے كئے تو ہم نے ديكھا كہ تمام غلط فہمياں صرف اور صرف ان حديثوں سے رسول خدا كے عورت باز ہونے كى نشان دہى ہوتى ہے ، اور خود يہى اہم ترين مسئلہ اس كتاب كے لكھنے كا سبب بنا ہے _
ايندہ فصلوں ميں ہم بعض روايات پر بحث كريں گے _

عائشه رسول(ص) كے گھر ميں
رشك، و غيرت
ہم نے بتايا كہ عائشه نفسياتى اعتبار سے بلند پرواز جاہ طلب ، تند خو اور شوھر كے لئے دل ميں رشك برتنے والى تھيں ، وہ شوہر كے دل ميں دوسرے كو جاگزيں نہيں ديكھ سكتى تھيں _
ان كے شديد غيرت و حسد كا نمونہ اس وقت نظر اتا ہے جب رسول خدا نے وقتى مصلحت كے تحت دوسرى شادى كى _
عائشه كا حسد اس وقت سامنے اتا ہے جب ام سلمہ زينب اور دوسرى خواتين رسول كے گھر ميں ائيں ، اس دور ميں ان لوگوں كا نام درميان ميں اتا ہے اور بے جھجھك اپنے اندرونى احساسات كو بغير كسى پردہ پوشى كے ظاہر كيا ہے ، اور اپنى شديد غيرت كو لچر اور بے بنياد خيالات ميں بيان كيا ہے _ خاص كر ان راتوں ميں جب رسول خد(ص) ا عبادت كے لئے گھر سے نكلتے ہيں ، رسول خدا اندھيرى راتوں ميں جس وقت كے تمام دينا سكون و اطميان سے سو رہى ہوتى
اپنے خدا سے راز و نياز ميں مصروف ہو جاتے ، كچھ رات گذرتى تو خداسے خلوت و عبادت كرتے ، اس قسم كى عبادت كا اقدام اسطرح ہوتا كہ رسول خدا كى ہر رات كسى زوجہ كيلئے مخصوص ہوتى ، يہى وجہ تھى كہ كچھ رات گذرنے كے بعد گھر سے باہر نكلتے جيسے مسجد ميں يا بقيع كے قبرستان ميں جاتے ، اور وہيں عبادت كرتے ، اسى طرح ايك رات جبكہ عائشه كى بارى تھى ، رسول خدا كو انھيں كے گھر رہنا تھا ، جس وقت رسول (ص) خدا نے كچھ رات گذرنے كے بعد عبادت كے لئے گھر سے قدم نكالا عائشه كى نسوانى رشك و غيرت بھڑك اٹھى ، انھوں نے رسول خدا كا تعاقب كيا ، ان كے پيچھے پيچھے چليں تاكہ يہ ديكھيں كہ رسول خدا كہاں جا رہے ہيں اور كيا كر رہے ہيں ؟
عائشه نے خود ہى مختلف مواقع اور مختلف راتوں ميں اس تعاقب كے نمونے بيان كئے ہيں ، ايئےم انھيں كى زبانى سنيں _

راتوں كا تعاقب
عائشه كہتى ہيں ، ايك رات ميں نے محسوس كيا كہ رسول (ص) خدا اپنے بستر پر نہيں ہيں ، ميرے غم و غصے سے بھرے و سوسے اور خيالات نے اس گمان پر مجبوركيا كہ يقينى طور سے كسى دوسرى عورت كے يہاں گئے ہيں ، يہ سوچكر ميں اپنى جگہ سے اٹھى اور انھيں تلاش كرنے لگى كہ ناگاہ انھيں مسجد ميں پايا ، وہ مسجد ميں پڑے فرما رہے تھے _
ربّ اغفرلى (خدا يا مجھے بخش دے )(2)_
ايك اور جگہ فرماتى ہيں :
ميں نے ايك رات ديكھا كہ پيغمبر اپنے بستر پر نہيں ہيں ميں نے دل ميں سوچا كہ يقينا كسى دوسرى زوجہ كے يہاں گئے ہيں ، كان كھڑے كر كے ادھر ادھر تلاش كرنے لگى ناگہاں ديكھا كہ بارگاہ خدا وندى ميں ركوع كر رہے ہيں (3)
ان كا يہ بھى بيان ہے كہ ميں نے ايك رات اپ كو اپنے بستر پر نہيں پايا ، انھيں ڈھونڈھنے كيلئے اپنى جگہ سے اٹھى اور
تاريك رات ميں ہر طرف بے اختيار ہاتھ چلانے لگى اچانك ميرا ہاتھ ان كے تلوے پر پڑ گيا ، وہ مسجد كے اندر بارگاہ خدا وندى ميں سجدہ كى حالت ميں فرما رہے تھے (4)_
اسى طرح وہ فرماتى ہيں :
ايك رات ميرى بارى تھى كہ رسول خدا ميرے گھر رات بسر كريں ، اپ نے عباء دوش سے اتار كر ايك طرف ڈالا ، جوتے ڈھونڈ ھكر بستر كے نزديك پيروں كے پاس ڈالا اسوقت اپنے چادر منھ پر ڈالى اور ليٹ گئے ، دير تك ايسے ہى رہے اس حد تك كہ اندازہ كر ليا كہ ميں سو گئي ہوں پھر اپ اپنى جگہ سے اٹھے دھيرے سے اپنى عبا اٹھائي اسطرح جوتے پہنے كہ اواز نہ ہو ، پھر اپ نے كواڑكھولى اور گھر سے اسطرح نكلے كہ پيروں كى چاپ بھى نہ سنائي دے ، ميں بغير كچھ سونچے اپنى جگہ سے اٹھى ، اپنے كپڑے پہنے ، اوڑھنى سر پر ڈالى اس پر عبا كھينچ كر تيزى كے ساتھ گھر سے نكلى اور ان كا پيچھا كرنے لگى ،ميں نے انھيں بقيع كے قبرستان ميں پايا ، رسول خدا وہاں بيٹھے اور كافى دير ٹھرے رہے پھر ميں نے ديكھا كہ تين بار ہاتھوں كو اسمان كى طرف بلند كيا ،پھر واپس ہوئے ميں بھى واپس ہوئي ،وہ تيز بڑھنے لگے ،ميں بھى تيز چلنے لگى ،وہ اور تيزى سے قدم بڑھائے ميں نے بھى ايسا ہى كيا ، وہ دوڑنے لگے تو ميں بھى دوڑى ، اخر كار ان سے پہلے گھر ميں اگئي اور بس اتنى دير كہ اپنے كپڑے اتار لے اور ليٹ گئي ، اتنے ميں رسول خدا اگئے ، اس وقت ميرى سانس پھول رہى تھى رسول خدا نے فرمايا ، اس طرح تيز سانسيں كيوں لے رہى ہو؟
كچھ نہيں ، اے خدا كے رسول
تم خود كہو گى يا ميرا واقفكار خدا اس راز سے اگاہ كرے گا ؟
ميرے ماں باپ فدا ہوں ، بات اصل ميں ايسى اور ايسى تھي
اچھا تو وہ سياہى جو ميرے اگے اگے تھى وہ تم تھيں ؟
جى ہاں _اسوقت رسول خدا نے ہتھيلى سے ميرى پشت پر اسقدر زور سے مارا كہ درد ہونے لگا _
تو نے ايسا گمان كيا تھا كہ خدا و رسول تيرے اوپر ظلم كريں گے ؟(5)
يہ بھى بيان ہے :
ايك رات رسول خدا ميرے پاس سے نكل كھڑے ہوئے ميرى غيرت اور حسد خويش ميں ايا ، غصے ميں بھر گئي ، جب انحضڑت واپس ائے اور ميرا حال ديكھا تو وجہ پوچھى ، اور فرمايا عائشه تجھے كيا ہوگيا ہے پھر بھى تو حسد اور غصہ كرتى ہے _
اخر ميرے جيسى اپ جيسے كى حسد كيوں نہ كرے _
تو پھر اپنے شيطان كے جال ميں پھنس گئي ہے( 6)
يہ بھى بيان ہے :
جب كچھ رات گذر گئي ، رسول خدا اٹھے اور گھر سے نكل گئے ميں نے گمان كيا كہ كسى زوجہ كے گھر گئے ہوں گے _
پھر ميں اٹھى اور دھيرے دھيرے ان كا پيچھا كرنے لگى ، يہاں تك كہ اپ بقيع كے قبرستان ميں گئے ، وہاں اپ بيٹھ گئے ، اور ان مومنوں سے جو ابدى نيند سوئے ہوئے تھے خطاب فرمايا :
اے گروہ مومنين تم پرصلوات
اچانك اپ مڑے تو مجھے اپنا پيچھا كرتے پايا تو فرمايا :
وائے ہو اس پر ، اگر قابو چلے تو كيا كيا كر گذرے (7)

عائشه اور ديگر ازواج رسول (ص)
مد بھيڑ _سوتاپا
ام المومنين عائشه سے رنگ و صورت سے رشك و حسد اور نسوانى غيرت ، اور بد خلقى ظاہر ہوئي ہے ، جس كے نمونے دوسرى ازواج رسول كے لئے اپے سے باہر ہونے ، برتن توڑنے اور كھانوں كو پھينكنے ، چال ڈھال كے ڈھنگ اور مد بھيڑوں ميں نظر اتے ہيں ، ميں نے ان دونوں باتوں كى الگ الگ طريقے سے بحث و تحقيق كى ہے ، پہلے عائشه كے رد عمل كو پيش كرونگا كہ دوسرى خواتين نے رسول خدا كے لئے كھانا تيار كر كے خدمت ميں حاضر كيا تو عائشه كا رد عمل كيا ہوا ، اسكے بعد دوسرى ازواج رسول سے انكى مد بھيڑوں كو مورد بحث و تحقيق قرار دوں گا _

بد حواسياں
فلما رايت الجاريہ اخذتنى رعدة حتى استقلنى افكل ، فضربت القصعة فرميت بھا
ميں نے جيسے ہى كھانے لئے ہوئي كنيز كو ديكھا تو ميں تھر تھر كانپنے لگى ، پھر تو ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن تھاما اور دور پھينك ديا _
اتفاق ايسا ہوا كہ انحضرت(ص) عائشه كے گھر ميں تھے ، ايك دوسرى زوجہ نے اپ كے لئے كھانا تيار كر كے بھيجا اس وقت ام المومنين قابو سے باہر ہو گئيں اور شديد رد عمل ميں ايسا غصہ دكھايا كہ اسكے نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں

عائشه اور ام سلمہ كى غذا
ايك دن رسول خدا (ص) عائشه كے گھر ميں تھے ام سلمہ نے رسول خدا (ص) كے لئے كھانا تيار كر كے ايك برتن ميں ركھ كر بھيجا ، عائشه كو پہلے يہ ام سلمہ كى ہى يہ خوش خدمتى معلوم ہو گئي تھى وہ خود كو عبا ميں لپيٹے ہوئي تھيں ، ہاتھ ميں پتھر تھا ،اسى پتھر سے كھانے كے برتن كو ايسا مارا كہ برتن ٹوٹ گيا ،رسول خدا (ص) نے عائشه كى يہ حركت ديكھى تو اس برتن كے بدلے دوسرا برتن ام سلمہ كے لئے بھيج ديا(8)

عائشه اور حفصہ كا كھانا
خود ہى عائشه كا بيان ہے:
ميں نے رسول(ص) خدا كے لئے كھانا تيار كيا تھا ، اتنے ميں مجھے خبر ملى كہ حفصہ نے بھى ايسا ہى كيا ہے ، ميں نے اپنى كنيز كو حكم ديا كہ تيار رہو اگر ديكھنا كہ حفصہ مجھ سے پہلے كھانا لے ائي ہے تو اس سے چھين كر دور پھينك دينا ، كنيز حكم بجا لائي اور ايسا ہى كيا ، نتيجے ميں حفصہ كے كھانے كا برتن ٹوٹ گيا اور جو كچھ برتن ميں تھا چرمى دستر خوان پر بكھر گيا ،رسول (ص)
خدا نے بذات خود گرے ہوئے كھانے كو جمع كر كے مجھ سے فرمايا :
اپنا برتن لائو اور حفصہ كے ٹوٹے برتن كے بدلے اسے بھيج دو (9)

عائشه اور صفيہ كا كھانا
صفيہ كا تعارف گذشتہ صفحات ميں كيا گيا ، اب ذرا ام المومنين عائشه كے بارے ميں بھى سنئے ، خود عائشه كى زبانى كھانے كا برتن دور پھينكنا اور صفيہ كا برتن ٹوٹنا ملاحظہ فرمايئے عائشه كہتى ہيں :
ايك دن رسول(ص) خدا ميرے گھر ميں تھے ، صفيہ نے كھانا پكا كر انحضرت كى خدمت ميں بھيجا ، جب ميں نے كھانا لئے ہوئے كنيز كو ديكھا تو ميرے جسم مين لرزہ پڑ گيا يہاں تك كہ ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن چھين كر دور پھينك ديا ، ميں نے رسول(ص) خدا كى انكھيں غصے سے لال ديكھيں ان كے تمام وجود سے غم و غصہ جھلك رہا تھا ، ميں نے فوڑاً كہا :
رسول خدا كے غصے سے حضرت كى پناہ چاہتى ہوں ، مجھے اميد ہے كہ نفرين نہ فرمائيں گے ، تو بہ كرو _
اب ميں اس عمل كى تلافى كيسے كروں ؟
ويسا ہى كھانا بھيجو اور ويسا ہى برتن فراہم كر كے بدلے ميں بھيجو (10)_

مد بھيڑيں
تغار على قلب زوجھا ، فلا تريد ان تشاركھا فيہ انثى غيرھا
عائشه اپنے شوہر پر بہت حاسد تھيں يہ حداست تھا كہ اپنے سوا دوسرى عورت كے لئے شوہر كے دل ميں ذرا گنجائشے نہيں ديكھ سكتى تھيں اب موقع ہے كہ ديگر ازواج رسول سے ام المومنين عائشه كى تند مد بھيڑوں اور گرما گرم اقدامات كا مطالبہ كيا جائے_

عائشه و صفيہ
عائشه اور صفيہ ايك گھر يلو مد بھيڑ ميں ايك دوسرے كے ساتھ بد كلامى كرنے لگيں طعنہ زنى كے ساتھ مار پيٹ كرنے لگيں _
جب رسول خدا كو ان دونوں كے جھگڑے اور دعوے كى خبر ہوئي تو صفيہ سے فرمايا جو عائشه كى ملامت اور ڈينگو ں سے سخت رنجيدہ تھيں
تم نے يہ كيوں نہ كہا كہ ميرے باپ ہارون تھے اور چچا حضرت موسى تھے ؟(11)
خود عائشه كا بيان ہے :
ميں نے رسول خدا سے شكايت كرتے ہوئے كہا كہ صفيہ ايسى اور ويسى ہے ، ميں نے اسكى بڑى مذمت كى رسول خدا نے ميرا جواب ديا :
صفيہ كے بارے ميں تم نے ايسى باتيں كہى ہيں كہ اس سے سمندر بھى گندہ ہو جائے (12)
صفيہ كا بيان ہے :
ميں رسول خدا كى خدمت ميں روتى ہوئي پہونچى ،مجھے روتے ہوئے ديكھا تو فرمايا :
جس كى بيٹى كيو ں رورہى ہو؟
ميں نے سنا ہے كہ عائشه و صفيہ بيٹھ كر ميرى برائياں كرتى ہيں (13)

سودہ كے ساتھ
ام المومنين عائشه كا سودہ كے ساتھ دعوى اور تھپڑ بازى كا قصہ يوںپيش ايا كہ ايك دن عائشه نے سودہ كوشعر گنگنا تے ہوئے سن ليا ،عدى و تيم تبتغى من تحالف_
عدى اور تيم (دونوں كے نام ہيں ) اس بات كے در پے ہيں كہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كے ہم پيمان ہوں _
سودہ سے يہ شعر سن كر ام المومنين لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہوگئيں _
عمر كى بيٹى حفصہ سے كہا :
سودہ اپنے شعر سے ميرى اور تمھارى مذمت كر رہى ہے (1)ميں اس بد تميزى كى سزا دونگى جب تم ديكھنا كہ ميں سودہ كا گلا دبا ديا ہے تو ميرى مدد كو اجانا _
پھر وہ اٹھيں اور سودہ كے پاس پہونچى ان كا گريبان پكڑ ليا ، اور ان كے اوپر گھونسے اور لاتيںبرسانے لگيں ، حفصہ بھى ام المومنين كى پشتيبانى ميں كھڑى تھيں ، ام سلمہ نے يہ منظر ديكھا تو سودہ كى مدد كرنے پہونچ گئيں _
اب تو چار عورتيں غصے اور كينہ توزى كا مظاہرہ كر رہى تھيں ، نتيجے ميں گھوسے بازى سے اواز تيز ہوتى گئي ، لوگوں نے رسول خدا كو خبر دى كہ اپ كے ازواج جان لينے دينے پر امادہ ہيں ، انحضرت تشريف لائے اور ان سے خطاب فرمايا :
تم سب پر افسوس ہے اخر تم لوگوں كو كيا ہو گيا ہے ؟
عائشه نے جواب ديا :
خدا كے رسول اپ نے سنا نہيں كہ سودہ يہ شعر پڑھ رہى ہے عدى و تيم تبتغى من تحالف _
وائے ہو تم پر ، اس شعر مين تمھارے قبيلہ تيم كى طرف نہيں ہے نہ حفصہ كے قبيلہ عدى كى طرف اشارہ ہے ، بلكہ يہ تو بنى تيم كے دو قبيلوں كى طرف اشارہ ہے _

بے مہر يہ عورتوں كے ساتھ

عائشه كا بيان ہے:
ايسى عورتوں پر جو بغير مہر لئے اپنے كو رسول خدا كيلئے پيش كرتيں اور اپ كى زوجہ بننے كى خواہشمند ہوتيں ، ميرا خون
1_ جيسا كہ بيان كيا گيا عائشےہ قبيلہء تيم سے تھيں اور حفصہ قبيلہء عدى سے يہ دونوں تيم و عدى قبيلے الگ الگ قريش كے قبيلے تھے
جوش مارنے لگتا ، مارے غصے كے ميں ان سے كہتى ، كيا ازاد اور اہميت والى عورت بھى خود كو دوسروں كے لئے بخشتى ہے ؟
خاص طور سے ايسے وقت جبكہ يہ ايت نازل ہوئي ،اپنى ازواج ميں سے جسے چاہو الگ كردو اور جسے چاہو اپنے لئے ركھو ، تمھارے اوپر كوئي گناہ نہيں (سورہ احزاب ايت 50_ 51)
ميں نے رسول خدا كى طرف رخ كر كے كہا ، ميں ديكھ رہى ہوں كہ خدا بھى اپ كى خواہش كے مطابق ايت اتار ديتا ہے (14)
ابن سعد نے اپنى طبقات ميں تفصيلى طور سے خواتين كے بارے ميں جنھوں نے بغير مہر لئے اپنے كو رسول كے لئے پيش كيا ، اور انحضرت(ص) كى زوجہ بننے كى خواہش كى ان كے بارے ميں قلم فرسائي كى ہے ، خاص طور سے اس خاتون كے لئے جن كے بارے ميں ابھى اشارہ كيا گيا ، اسكا نام شريك اورغزيہ بتايا ہے (15)اسى بات كو ابن حجر نے بھى كتاب اصابہ ميں تفصيل سے لكھا ہے (16)
ليكن بطور كلى علماء نے ان متذكرہ خاتون كے بارے ميں جسكى طرف قران نے اشارہ كيا ہے ، اختلاف كيا ہے ، اور يہ اختلاف اس صورت سے ہے كہ جس خاتون يا جن خواتين نے اپنے كو بے مہر لئے خدمت رسالت ميں پيش كيا اور ام المومنين عائشه كے غم و غصے كا شكار ہوئيں وہ ايك ہيں يا كئي عورتيں ہيں ، اگر چہ ايت صرف ايك عورت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، افسوسناك بات تو يہ ہے كہ اس خاتون كے نام كى اج تك نشاندہى نہيں ہو سكى _
ليكن اس دليل سے كہ عائشه نے جن خواتين كيلئے غم و غصہ ظاہر كيا اسے جمع كے لفظ سے بيان كيا ہے (كنت انحا ء على اللائي و ھبن )
( ميں ان عورتوں پر جو بے مہر لئے )اس سے ثابت ہوتا ہے كہ وہ كئي خواتين تھيں امام احمد نے اپنى مسند ميں اس بات كو جمع كى ضمير كے ساتھ ام المومنين كى طرف نسبت دى ہے _
وہ (عائشه )ان عورتوں كو ملامت كرنے لگيںجنہوںنے اپنے كو بغير مہر لئے رسول كى خدمت ميں پيش كيا (17)
مسلم نے اپنى صحيح ميں ھشام كى روايت نقل كى ہے كہ خولہ بنت حكيم ان عورتوں ميں تھيں جنھوں نے بغير مہر لئے رسول
سے ازدواج كى خواہش ظاہر كى ، اور اپنے كو رسول كے لئے بخشا ، عائشه اس بات پر بہت غصہ ہوئيں اور كہاكيا يہ عورت كيلئے شرمناك نہيں ہے كہ خود كو كسى مرد كيلئے بخشے اور بغير مہر كے ازدواج كى خواہش كرے (18)

مليكہ كے ساتھ
رسول خدا نے فتح مكہ كے بعد مليكہ بنت كعب سے عقد فرمايا ، مليكہ كے باپ كعب فتح مكہ كے موقع پر خالد كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے _
كہتے ہيں كہ مليكہ انتہائي حسين و خوبصورت عورت تھى ، گويا اس وصال سے عائشه كا نفرت و عناد بر انگيختہ ہونا بنيادى بات ہو سكتى ہے كيونكہ عائشه اپنى خاص موقع شناسى اور نسوانى تندى احساس لئے ہوئے مليكہ سے مليں اور كہا ، تمھيں شرم نہيں اتى كہ اپنے باپ كے قاتل كو شوہر بنا ليا ہے ؟
مليكہ اسانى سے عائشه كى اس سرزنش كا شكار ہوگئيں اور ايسا دھوكہ كھايا كہ رسول خدا سے الگ ہو گئيں ، رسول خدا نے بھى انھيں طلاق ديدى اس كے رشتہ دار رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ :
اے خدا كے رسول وہ ابھى نوجوان ہے ، وہ دھوكہ كھا گئي ہے ، اس سے جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس كى اپنى رائے سے نہيں ہوا ہے اسے معاف كر ديجئے اور واپس بلا ليجئے ، ليكن رسول خدا نے اسے قبو ل نہ فرمايا (19)

اسماء كے ساتھ
اسماء بنت لقمان قبيلہ كندہ كى خاتون تھيں ، وہ خاص طور سے عائشه كے رشك و حسد كا شكار ہوئيں ، رسول خدا نے اسماء سے عقد فرمايا عائشه تو اس قسم كى باتوں ميں سخت حساس ہو ہى جاتى تھيں اسكى مسافر ت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبضے ميں كر ليا اور طعنہ ديا كہ ،
( اب دوسرى بار اوارہ وطن ہے اور انھيں بھى ہم سے چھين كر اپنے لئے خاص ، ہم سے لے لى )
قبيلہ كندہ كا ايك وفد جسميں اسماء كا باپ لقمان بھى تھا ، رسول خدا كى خدمت ميں ايا رسول خدا نے ان سے اسماء كى خواستگارى كى جب رسول كى ازواج نے اسماء كو ديكھا تو رشك كرنے لگيں اور رسول كى نظر سے گرانے كے لئے مكارى سے بوليں ،اگر خوش قسمت بننا چاہتى ہو تو جسوقت رسول خدا تمھارے پاس ائيں ان سے كہو ،تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں اسماء اسانى سے دھوكہ كھا گئي ، جيسے ہى رسول خدا نے كمرے ميں قدم ركھا اور اس كى طرف بڑھے ، اسماء نے كہا :
تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں
جو بھى خدا كى پناہ طلب كرے ، وہ اسكى امان ميں ہے ، اب تم اپنے گھر واپس جائو ، اپ غصے ميں بھرے كمرے سے باہر نكل ائے اسماء كا واقعہ حمزہ بن ابواسيد ساعدى اپنے باپ سے روايت كرتے ہوئے اسطرح نقل كرتے ہيں ، رسول خدا نے قبيلہ جون و كندہ كى اسماء بنت نعمان سے عقد كيا ، مجھے بھيجا كہ اسے جاكر لے ائوں وہ ائي تو عائشه و حفصہ نے سازش كى كہ اسے ايك خضاب كرے اور دوسرى سر ميں كنگھى كرے اسى درميان دونوں ميں سے كسى نے ايك نے اسماء سے كہا :
رسول خدا(ص) اس عورت سے خوش ہوتے ہيں جو كہتى ہے كہ ميں خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ، تم بھى اگر انكى پيارى بننا چاہتى ہو تو ايسا ہى كہو ،رسول خدا اسماء كے پاس ائے تو جيسا اسے پڑھايا گيا تھا اس نے رسول خدا سے كہا ، اپ سے خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ،يہ سنتے ہى رسول خدا نے استين سے اپنا منھ چھپا كر تين بار فرمايا:
تو نے سب سے بڑى پناہ پكڑى ، پھر اپ كمرے سے باہر اگئے اور مجھ سے فرمايا :
ابو اسيد اسكو اسكے خاندان ميں واپس پہونچا دو اور دو روٹى بھر كے تھيلے بطور تحفہ ديدينا اسماء اس اچانك واقعے سے سناٹے ميں تھى ، جو فريب ديا گيا تھا ،اسكى وجہ سے بہت رنجيدہ تھى عمر بھر اس واقع كو ياد كرتى رہى ، وہ كہتى تھى اب مجھے اسماء نہ كہا كرو بلكہ بد بخت كہا كرو اور اسطرح پكا را كرو ادعونى الشقية (ميرے لئے بد بخت كو بلا دو )(20)
اس واقع سے معلوم ہوتا ہے كہ جن خواتين نےام المومنين كے سكھانے پڑھانے سے خدا كى پناہ طلب كى وہ ايك سے زيادہ تھيں _

ماريہ كے ساتھ

---------------------------------------------------------------------
1_ حيلہ ابو نعيم جلد 2/53 حالات زينب و تفسير ايہ كيلئے مجمع البيان ملاحظہ ہو
2_ مسند احمد ج6 /ص 147
3_ مسند احمد ج6ص 151
4_ مسند احمد ج6 ص58 و ج6 ص201
5_ مسند احمد ج6 ص21 2
6_مسند احمد ج6 ص 115
7_ مسند احمد ,ج6صفحات 86 و 111, بروايت قاسم مسند طيالمى حديث 1429
8 _ صحيح مسلم باب الغيرة
9_ مسند احمد ج6 /111،و كنزالعمال ج4 ,ص44
10_ مسند احمد ج 6 ص 277 ،144_ نسائي ج2 ص 159، سيرة حلبيہ 283 ،284
11_ طبقات ابن سعد ج,8
12_ ترمذى بحوالہ زر كشى اجابہ ص73
13_ مستدرك الصحيحين ج4 ، ص29
14_ صحيح بخارى تفسير سورہ احزاب ميں ج3 ص118_ صحيح مسلم ج4 ص 274
15_ طبقات بن سعدج 8ص 154_156
16_ اصابہ ابن حجر ج4 ص 361و 174
17_ مسند احمد ج4 ص 134 _ صحيح بخارى ج4 ص 162 - ابن ھشام ج4 ص 325 _
18_ صحيح مسلم ج3 ص 163
19_ طبقات ابن سعد ج8 ص 148_ تاريخ ذھبى ج1 ص 335 _ تاريخ ابن كثيرہ ج5 ص 199 _ اصابہ ج4 ص 392
20_ ذيل المذيل طبرى ج12 ص79 و مستدرك حاكم ج7 ص34 _ استيعاب ج2 ص 703 _ اصابہ ج3 ص 530 95 ميں ہے كہ اسماء تمام عمر خون تھوكتى رہى اسے دق ہو گئي تھى اور وہ مر گئي _