اقاى عسكرى نے ہر ممكن كوشش كى ہے كہ اپنے سلسلئہ مباحث ميں اس قسم كے عيوب سے جو ہر محقق كى تحقيق ميںسامنے اتى ہے دور رہيں ان كا مقصد متعين ہے ،اور وہ اسى كے تعاقب مين موضوع سے باہر نہيں نكلتے ہيں انھوں نے اپنے دائرئہ كار كو اشخاص اور مقامات كا پابند نہيں بنايا ہے بلكہ ان كا مقصد اصلى صرف حق اور حقيقت معلوم كرنا ہے اور اسى كے ا رد گرد رہے ہيں_
اس كے علاوہ انھوں نے اپنے ذاتى احساسات و جذبات سے الگ رہنے كى ہر ممكن كوشش كى ہے انھوں
نے صرف عقل كو جج بنايا ہے،،
انھوں نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر فضيلت دينے كا ذرا بھى پتہ نشان نہيں ،ذرا بھى مبالغہ نہيں ،، اگر كہا جائے كہ اقاى عسكرى بحث و تحقيق كى ڈگر ميں، اس كتاب جو چيزمحققين كو اپنى طرف مائل اور تعريف و تحسين پر امادہ كرنے والى ہے وہ يہ كہ انھوں نے كوشش كى ہے كہ اس علمى بحث ميں قانون كلى كى رعايت كريں ،اور احاديث ام المو منين مكمل حزم و احتياط كے ساتھ تحليل و تجزيہ كر كے حقيقت كو اشكار كيا ہے _
قتل على اور شكر عائشه،،
تاريخى قرائن ہميں مجبور كرتے ہيں كہ ام المومنين كى احاديث پر شك اور ترديد كريں جسے وہ احاديث جن ميں خلافت شيخين كا تذكرہ ہے اور حضرت علي(ع) كا نام نہيں ليا گيا ہے اسى طرح وہ احاديث جن ميں فضائل شيخين و عثمان اور حضرت علي(ع) روشن مذكور ہے ان ميں بلا شك وشبہ جذبات اور جانبدارى برتى گئي ہے ،، كيو نكہ ابو بكر اور ان كى نسبت باپ اور بيٹى كى ہے اسى طرح انھوں نے عمر كى باتيں كہى ہيں اور علي(ع) كا تذكرہ كيا ہے جو ابوبكر وعمر كے رقيب تھے ،ان ميں بد ترين فرق ہے _
پھر عثمان كے خلاف ان كى جد جہد لوگوں كو قتل عثمان پر ابھارنا اور پھر انھيں كے قتل كا انتقام لينے كے لئے قيام كرنا بھى مضبوط دليل ہے جو ہميں اس بات پر مجبور كرتى ہے كہ ان كى تمام احاديث كو شك اور ترديد كى نگاہ سے ديكھيں،اسى طرح وہ اقدامات جو انھوں نے حضرت على كے خلاف كيں على (ع) كے دشمنوں كى كمك ،طلحہ و زبير كہ جنھوں نے علي(ع) كى بيعت توڑ دى تھى ،ايك پليٹ فارم پر لانا،جنگ جمل كى اگ بھڑ كانا _ ................. يہ تمام باتيں بجائے خود اس بات كا واضح ثبوت ہيں كہ انھيں على جيسے پرہيز گار سے ديرينہ عداوت تھى اور اسى وجہ سے مسلمانوں كے گروہ ميں تفرقہ و اختلاف پيدا ہو ا ان كے دل ميں على كى ايسى نفرت تھى جو كبھى چين سے بيٹھنے نہيں ديتى تھى ،يہا ں تك كہ قتل على كى خبر سن كر سجدئہ شكر ادا كيا اور يہ شعر بطور تمثيل پڑھا،،
فالقت عصاھا و استقر نھا النوي ... كما قر عينا بالاباب المسافر
اس نے دوڑ دھوپ ختم كر دى اور چين پاليا ...... جسطرح مسافر كى اپنے ٹھكانے پر پہونچكر انكھيںٹھنڈى ہوتى ہيں _
انكى تمام احاديث اسى قسم كے اہم ترين تاريخى وقائع سے وابستہ ہيں جن پر بڑى حزم و احتياط برتنى چاہيئے انكى شخصيت اور ان كے ميلانات سے قطع نظر كركے حقائق دريافت كرنے كى كوشش كرنى چاہيئے _
حجابيت كے رخ سے بھى دوسروں كى طرح صحيح يہ ہے كہ وہ فتوى و اجتہاد ميں لغزش و خطا سے دوچارہوئي ہوں كيو نكہ ادمى چاہے وہ كوئي بھى ہو جب تك اپنى رائے اور سليقے پر عمل كر رہا ہے ممكن ہے كہ خطا و صواب كا نشانہ بنے ليكن محقق يہ حق نہيں ركھتا كہ عقل و درايت كو كنارے ركھ كر بزرگوں كى شخصيت كے مقابلے ميں اپنے كو چھوٹا بنا لے اور حقائق چھپا ئے_
اس بات كى اجازت نہيں ہے كہ نظريات و اجتہاد كے خطا وصواب كو اہميت ديكر سب كو يكساں شمار كرے بلكہ ضرورى ہے كہ تمام مفہوم حقيقت كو بيان كرے
اسى طرح جب تك ہم حق ديںہر مجتہد ميں امكان ہے كہ وہ لغزش و خطا سے دوچارہو جائے اور عدل الہى كى بارگاہ ميں باز پرس كى جائے ،ام المومنين بھى اس قاعدے سے مستثنى نہيں ہيں ان پر ظلم نہيں ہے ،بلكہ علمى و تحقيقى نقطئہ نظر سے ستم يہ ہو گا كہ علي(ص) اور عائشه كے بارے ميںہم جانبدارانہ فيصلہ كريں اور دونوں كو عدالت ميں يكساں سمجھ ليں ،اور حضرت علي(ص) نے جو اجتہاد ميں صحيح و صواب راستہ اختيار كيا (1) ان دوسرے لوگوں كے مقابل جنہوں نے اجتہاد ميں غلطى كى جيسے عائشه و معاويہ اور دوسرے اصحاب جنہوں نے حضرت علي(ص) سے جنگ كى اور مخالف كا راستہ اپنايايكساں سمجھ ليا جائے_
حضرت على (ع) خدا كو حاضر و ناظر جانتے تھے
حضرت على اس جہت سے كہ اپ باب مدينتہ العلم اور وصى محمد(ص) ہيں اسى طرح سے نہ اس حيثيت سے كہ بھر پور قدرت بيان اور واضح لہجے ميں حق بات كہتے تھے اور اس پر وہ جم بھى جاتے تھے اور يہ دين انھيں سے توانا ہوا اور حيثيت تشكيل پائي ،_نہيں_ ان تمام باتوں سے قطع نظر وہ ہر حيثيت سے تمام صفات كمال كے جامع تھے_
جس چيز نے على كو ان تمام امور سے بالا تر قرار ديا يہ تھا كہ وہ برابر اپنے كردار و گفتار ميں خدا كو حاضر و ناظر جانتے تھے ،
اور مسلمانوں كى مصلحتوں كے مقابل اپنى ذات ميں شدت پسند تھے ،وہ مسلمان معاشرے كے عام دنياوى فائدوں كو اپنے دنياوى فائدے پر ترجيح ديتے تھے_
اپ كے دوران خلافت ميں بلند ترين مراتب انسانيت ايك ذات ميں سمٹے ہوئے نظر اتے ہيں _
وہ اپنے اس دور ميںخاص طور سے لباس اور خوراك، احكام ميں عدالت، فريبى دنيا كے مظاھرات سے كنارہ كشى كا كامل نمونہ تھے_
دوسروں نے عہد ئہ خلافت حاصل كرنے كى كوششيں كر ڈاليں ،جبكہ خلافت خود حضرت على (ص) كى طرف دوڑى ائي ،دوسروں نے اپنے اور رشتہ داروں كے فائدوں كو مصالح عامہ پرترجيح دى ، جبكہ اپ نے عام لوگوں كے فائدوںكو اپنے اور رشتہ داروں پر ترجيح دى _
علي(ص) جس وقت كوفے ميں تھے ،عقيل بن ابى طالب (ص) اپنے بھائي كى خدمت ميں ائے حضرت على (ص) نے ان سے كہا :
اے بھائي بڑے اچھے ائے ،كس لئے كوفہ ائے ہو؟
جو مشاہرہ مجھے ملتا ہے وہ ميرى معيشت كےلئے نا كافى ہے ، زيادہ خرچ كا بو جھ ہے جسكى وجہ سے بہت زيادہ قرض لد گيا ہے ميں اس لئے ايا ہوں كہ ميرى مدد كيجئے _
خدا كى قسم اپنے مشاہرہ كے علاوہ ميرے پاس كچھ نہيں ،صبر كيجئے مال غنيمت تقسيم كرنے كا وقت ايئگا تو ميں اپ كو دوں گا _
ميں حجاز سے يہاں تك صرف اسى اميد پر ايا ہوں كہ كچھ نقد حاصل كر لوں گا اپ كا مشاہرہ ميرے درد كى دوا كيا كر سكے گا ، اور ميرا كون سابوجھ ہلكا كرے گا ،امام نے بھائي كو جواب ديا ،
كيا اپ اس كے علاوہ بھى ميرے گھر ميں مال دنيا سے كوئي چيز ديكھ رہے ہيں ،؟ يا اپ اس اميد پر بيٹھے ہيں كہ ميں مسلمانوں كا مال اپ كو دے دوں گا اور ميرا خدا اس صلئہ رحم كے بدلے اتش جہنم ميں جلائے گا _
كسى ترديد كے بغير ،على (ص) جسے پرہيز گار كے عدل و انصاف كو برداشت كرنے كى عقيل ميں طاقت نہيں تھى ،وہ معاويہ كى خدمت ميں پہونچ گئے جس كے يہاں حلال و حرام كا فرق نہيں تھا ،وہ مسلمانوں كے بيت المال كو ذاتى ملكيت سمجھتا تھا _
يہ واقعہ خود ہى ھمارى رہنمائي كر تا ہے كہ حضرت علي(ص) كى شخصيت كيا تھى وہ كس قدر پر ہيز گار تھے ،اور عمومى منافع كو خود اور اپنے سے وابستہ افراد كے مصالح پر ترجيح دينے ميں ان كا پا يہ كس قدر بلند تھا، بے باكانہ قسم كھائي جا سكتى
ہے كہ حضرت على (ص) كے علاوہ اصحاب ميں سے كوئي بھى اس بلند مرتبہ انسانيت و كمال تك نہيں پہونچا تھا ،
كيونكہ خود انھوں نے دل كى گہرائيوں سے ،اور جاوداں فقرہ ارشاد فرمايا تھا ،يا دنيا غرّى غيري
اے دنيا ميرے سوا دوسرے كو دھوكہ دينا
على اور مسند خلافت
ميں نہيں سمجھتا كہ كوئي صحابى ايسا ہو گا جس كے فتوى و اجتہاد ميںجائے تامل اور اعتراض كى گنجائشے نہ ہو ،سوائے على (ص) كے ،كيو نكہ ان كے اجتہاد ميں ذرا بھى شك وشبہ اور اعتراض نہيں كيا جا سكتا ،اس بات كو ميںپورى بےباكى سے كہہ رہا ہوں ، اور تمام دقيق سياسى معا ملات جو پيش ائے وہ اس دعوى كا ثبوت ہيں _
عمر نے معاملہ خلافت ميں مداخلت كيانتيجے ميںابوبكر مسند خلافت پر بيٹھ گئے ،انہوں نے اپنے فتوى ميں اس دليل پر زور ديا كہ فتنہ و اشوب ديكھ كر اس پر لگام چڑھائي گئي ہے ،ابوبكر كے بعد انھوں نے خود اس ذمہ دارى كاسنگين بوجھ اٹھا ليا اوربارہا اس بات كا اعتراف كيا كہ ابوبكر كے زمانے ميں غلطياں ہوئيں ،جس وقت بعض اصحاب نے ان كے فرزندعبداللہ كى بيعت كے بارے ميں ان سے بات كى تو انھوں نے جواب ديا ،خاندان عمر كے لئے يہى كافى ہے كہ ان كا ايك فرد اس كا ذمہ دار ہو ،اور عدل الہى كى بارگاہ ميں امت محمد كے بارے اس سے جواب طلب كيا جائے_
ليكن حضرت علي(ص) نے شيخين كے مقابلے ميں معاملہء خلافت كے سلسلے ميںيہ دليل دى كہ اس اھم كام كى مشغوليت تھى وہ جسد رسول (ص) كے دفن و كفن ميں مشغول تھے (1)
يہ سب سے بڑ ا اعتراض ابو بكر و عمر پر تھا ،اور حضرت علي(ص) ان دونوں كے مقابل حقدار نظر ائے ہيں _
عمر كے بعد على و عثمان كے درميان خليفہ كے انتخاب ميں عبدالرحمن بن عوف بھى جوان چھ افراد ميں تھے جنھيں عمر نے خليفہ منتخب كرنے كيلئے مجلس شورى بنائي تھى ،انھوں نے اپنى راے دى اور خليفہ كى ذمہ دارى كو اپنے فتوى سے متعين كيا ،اپنے اسى متعين فتوى كو ان دونوں كے سامنے پيش كيا حالانكہ وہ جانتے تھے كہ حضرت على ان كے اجتہاد
كے پابند نہيں ہو سكتے ، خلافت قبول كرنے كيلئے پہلے حضرت على كے سامنے شرط پيش كي_
حضرت على (ع) كے سامنے فرزند عوف نے جو شرطيں پيش كى تھيں ان ميں رضائے خدا و رسول اور مسلمانوں كے مفاد ات كى حد تك تو حريص تھے منصب خلافت حاصل ہوتا اور حكمرانى كرنا انكى نظر ميں ہيچ تھا ،جبكہ عثمان كى زيادہ توجہ منصب خلافت حاصل كرنے كى تھى وہ دل سے يہى چاہتے تھے ،دوسرے امور كى ان كى نظر ميں اہميت نہيں تھى ،اور خدا اس بات كو بہتر جانتا ہے كہ شروع ہى سے وہ جس بات پر، ہوئے تھے اسميں انھيں پورى سوجھ بوجھ كہاں تك تھى ، يا خلافت حاصل كرنے كے بعد ان ميں پيدا ہوئي ،كيو نكہ يہ باتيں نفسانيت كے امور سے تعلق ركھتى ہيں ،اورہم اس بارے ميں كوئي فيصلہ بھى نہيں كر سكتے ، كيو نكہ ھمارا استدلال صرف ظاہرى حالات كى روشنى ميں ہے_
''عائشه كا تاريخى فتوى ''
عائشه نے حضرت عثمان كى خلافت كے ابتدائي ايام ميں تو موافقت اور انكى تائيد كى ،پھر ان سے منحرف ہو كر ان كے خلاف فتوى دےديا ،اس وجہ سے ان كا اجتہاد قابل اطمينان نہيں ہے _
خلافت كے سلسلے مين انكے رقيب ہوتے ہوئے بھى دليل و بر ہان كے با وجود حضرت عائشه كى طرف عثمان سے جنگ اور مخالفت نہيں كى ،جب عثمان قتل ہو گئے تو حضرت على (ص) نے طلحہ و زبير اور ديگر تمام لوگوں كى بيعت قبول نہيں كى جس وقت تمام لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تو اپ نے مسجد ميں كھڑے ہو كر يہ فرمايا ، ميں تمہارى خلافت سے بيزار تھا ،ليكن تم ہو كہ ميرے سوا كسى كى حكومت پر راضى نہيں ہو ،اس بات كو سمجھ لو كہ ميں كوئي بھى كام بغير تمہارى صوابديدہ اور صلاح كے انجام نہيں دوں گا ،تمہارے بيت المال كى كنجى ميرے پاس ہے ليكن ايك درھم بھى بغير تمہارى مرضى كے نہيں چھوئوں گا _
پھر پوچھا ،كيا تم اس بات پر راضى ہو ؟
تمام لوگوں نے چلّاكر كہا ہاں
اسوقت اپ نے فرمايا :
بار الہا ان لوگوں پر تو گواہ رہنا
اس كے بعد اپ نے خلافت قبول فرمائي
حضرت على (ص) كى رائے صائب تھى اپ نے اس طرح لوگوں كيلئے كسى بہانے كى گنجائشے نہيں چھوڑى كيو نكہ ان لوگوں نے اپ كو خلافت قبول كرنے پر مجبور كيا تھا نہ يہ كہ اپ نے خود خلافت كى خواہش كى ، لہذا جس نے بھى اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچا اور على (ص) كى مخالفت كى وہ خود دغاباز اور مجرم ہے ،اور جو شخص اپ كا وفادار رہا وہ مومن اور سچا ہے _
عائشه نے دوسرى بار اجتہاد كا پرچم لہرايا يہ اس وقت كى بات ہے جب قاتلان عثمان سے انتقام لينے كيلئے انھيں اور طلحہ و زبير جنہوں نے على (ص) سے پيمان توڑا اور اپنى بيعت كچل ڈالى با قاعدہ ساتھ دينے پر امادہ ہوئے يہ مفاد پرستانہ اقدام بتاتا ہے كہ حضرت عائشه كى نيت انديشہ مفاد سے خالى نہيں تھى ،تمام لوگ كہنے لگے كہ يہ عثمان كا بدلہ لينے كيلئے نہيں اٹھى ہيں بلكہ مقصد صرف يہ ہے كہ مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف پيدا كيا جائے اور جو لوگ حضرت على (ع) سے وابستہ ہيں ان ميں انتشار پيدا كيا جائے يہاں تك كہ اگر حضرت على (ص) كے سوا كوئي اور ہوتا تو كبھى ايسا اقدام نہ كرتيں _
ام سلمہ كا تاريخى خط عائشه كے نام
حضرت على (ص) كے خلاف معاملہ خلافت كے سلسلے مين عمر كے اقدام كے بعد عائشه كا اقدام دوسرا رخنہ تھا جو بنياد اسلام ميں پڑا ،ميںيہ بات اپنى طرف سے نہيں كہ رہا ہوں اور اس سے ميرى كوئي خاص غرض بھى نہيں ہے بلكہ يہ حقائق نا قابل انكار ہيںجن پر بزرگان قوم اور مشھور مورخين متفق ہيں _
عائشه كى كار وائي صحابہ كے زمانے سے اج تك تمام لوگ ان لوگون كے لئے نفرت كا سبب بنى جو حق اور حقيقت كے طرفدار ہيں ،اس دعوى كى گواہى حضرت ام سلمہ ہين جو دوسرى زوجہء رسول ہيں ، انھوں نے پند ونصيحت بھرا خط عائشه كو لكھا اور اس اقدام سے باز رہنے كى خواہش ظاہر كى ،خاص طور سے انھيں مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف سے روكا _ خط
زوجہء رسول ام سلمہ كى طرف سے ام المومنين كو
ميں خدا كى حمد و ثنا ء كرتى ہوں اور اس كى وحدانيت كا اقرار كرتى ہوں
امابعد تم نے اس اقدام سے اپنے احترام كا پردہ چاك كيا جو رسول خدا اور ان كى امت كے درميان تھا ،اور ان كے
حرم كا حجاب پارہ پارہ كيا قران نے تمہارا دامن جمع كيا ہے ،اسے خود سرا خاك ميں نہ ملاو ،تمھارا مقام مرتبہ محفوظ ہے ،اسے بلاوجہ ضائع نہ كرو ،اس خدا ئے واحد سے ڈرو و جو اس امت كا نگہبان ہے _
رسول خدا (ص) نے عورتوں كى جہاد كا طريقہ متعين كيا ہے ،بلا شبہ اس سلسلے مين حكم صادر كيا ہے كيا تم نہيں جانتى ہو كہ انہوں نے تمہيں جنگ سے منع كيا ہے ؟ كيو نكہ اگر دين كے ستون ميں ٹيڑھا ہو جائے تو عورتوں كى طاقت سے كبھى سيدھا نہيںہو سكتا ،اور اسكى خرابى عورتوں سے اصلاح پزير ہرگز نہيں ہو سكتى ، عورتوں كا جہاد اپنے كو لئے ديئے ركھنا ،پاك دامنى اور قناعت ہے _
اگر تم اس طرح بيابانوں مين اپنے اونٹ كو اس گھاٹ اور اس گھاٹ ہاكتى رہو اور رسول خدا تمھين ديكھ ليں تو تو انھيں كيا جواب دو گى حا لا نكہ تمہيں جلد يا دير ان كے سامنے حاضر ہونا ہے _
ميںبے باكانہ قسم كھاتى ہون كہ اگر ميں اس حال ميں رسول سے ملاقات كروں كہ ان كى حرمت ضائع كى ہو اور مجھ سے كہاجائے كہ اے ام سلمہ جنت ميں اجاو تو ميں شرم سے پانى پانى ہو جاو ں گى _
اس لئے اپنے پروردگار كى حفاظت كرو اور گھر ميں بيٹھى رہو اگر تم اس امت سے سروركار نہ ركھو تو يہ بجائے خود ان كے حق ميں بہترين خدمت ہے ،اور ميںجانتى ہوں كہ رسول خدا سے جو باتيںميںنے سنى ہيںاگر اس سے تمہيں خبردار كروں تو تم سانپ كاٹے شخص كى طرح تڑپنے لگو گي، والسلام
خود يہ خط دوسرى دليل ہے كہ عائشه كا اجتہاد غلط تھا
اس خط ميں اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ انھيں مسلمانوں كى جماعت ميں ھم اھنگى كى فكر نہيں تھى ، نيز يہ بات بھى معلوم ہوتى ہے كہ ازواج رسول ميں سے دوسرى كوئي بھى عائشه كے اس اقدام كے ساتھ نہيں تھيں اور نہ انھوں نے عائشه كى مدد كى ،
اس كتاب كے مولف كا مقصد
اقائے عسكرى ، خداوند عالم انہيں حقيقت بيانى كى جزا دے ميں نے اپنے دقيق علمى بحث ميں ھرگز اس بات كا قصد نہيں كيا ہے كہ لوگوں كو عائشه نے اپنے اجتہاد دو فتوى ميں جو اشتباہات كئے ہيں ان كے خلاف لوگوں كو بھڑكائيں ،اور مسلمانوں كے احساسات ابھاريں بلكہ انھوں نے اپنے بيان كے درميان صرف خشنودى خدا كيلئے اس بات كى فكر كى ہے كہ تاريخى حالات كے مفاہيم جو زيادہ تر لوگوں كے ذہن اصحاب رسول ہونے كى وجہ سے پہچان نہيں پائے ہيں اور
تاريخ صحيح كى تفہيم نہ ہونے كى وجہ سے عظمت شريعت اسلام كى تفہيم سے محروم ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں، كہ اوضاع تاريخى كے مفہوم سے عام لوگ جو محروم ہيں اور اصحاب رسول كو پہچان نہيں سكتے ہيں اور ان كى باتوں ميں تميز نہيں كر سكے ہيں ،اور نتيجے ميں صحيح تاريخ سمجھنے اور ان كى شريعت اسلام ميں حيثيت كو پہچان نہيں سكے ہيں ان كى اصلاح و تصحيح كريں ، انھوں نے اس راہ ميں جو سعى كى ہے اس كا مقصد صرف يہ ہے كہ لوگ احاديث رسول خدا كو بغير اپنے احساسات و جذبات كى مداخلت جزوى فوائد و تعصب كے راويان حديث كے بارے ميں علم و دانش كى روشنى ميں ادراك كر سكيں _
كيونكہ اگر لوگ تمام يا كچھ حصئہ حديث رسول كو سمجھ ليں تو بڑى اسانى سے اسلامى فرقوں اور مذاہب كے درميان كا اختلاف كا سرا سمجھ ميں اجائے گا ،اور انہيں معلوم ہو جائے گا كہ كس حد تك يہ اختلاف مصنوعى اور حكمرانوں كا خاص غرض سے پيدا كيا ہو ا ہے انھوں ہى نے ايك گروہ كو دوسرے گروہ پر ترجيح دى ہے حكومت چلانے اور اپنى پار ٹى مضبوط كرنے كيلئے جن حديث كو ضرورى سمجھا بنا ليا يا اكثر صحابہ كى بيان كردہ حديث كو من كے مطابق بدل ليا ، صحيح بات يہ ہے كہ انھوں نے حكومت كے استحكام كيلئے صحابہ پر دروغ بافى كى اور اپنى غرض كے لئے من پسند باتيں گڑھ ليں _
اس سے پہلے كہ اپنى علمى بحث كو ختم كروں جسے صرف خشنودى خدا كيلئے معرض تحرير ميں لائي گئي ہے ، مناسب سمجھتا ہوں كہ دانشور محقق اقائے عسكرى كے كان ميں اہستہ سے ڈال دوں كہ وہ اپنے ان علمى مطالب كو جس كا بلند مقصد مذاہب اسلامى كو ايك دوسرے كے قريب لانا ہے اسے جارى ركھيں ،اپنے متين اور محكم اساس پر استوار اسلوب كو اس طرح قرار ديں كہ ارباب علم و دانش او ر اسكالروں كيلئے پسنديدہ ہوتاكہ اس طرح مسلمانوں ميںباہمى اتحاد و ہم اہنگى پيدا ہو ،اور كيا ہى اچھا ہوتا كہ تمام وجود جو بحث و تحقيق ميں مستغرق ہے ميرى اس پيش كش كو عملى شكل ديدے_
كيونكہ بنيادى طور سے اختلاف اور ذاتى دھڑا بندى ايك شيعہ اور سنى كے درميان سمجھ ميں انے والى بات نہيں ہے اور اسميں شك نہيں كہ يہ دونوں فرقے جب تك مقاصد اور وجوہات دونوں كے خالص ہيں تو ايك دوسرے كے نقائص دور كرنے اور درستگى لانے ميں دل وجان سے كوشش كريں _
ڈاكٹر حامد حفنى دائود
17 شوال 1381
23 مارچ 1992
كتاب كا مقصد تاليف
زيادہ تر ارباب تحقيق رسول خد(ص) ا كى احاديث كى طرف دير سے متوجہ ہوئے ہيں كہ احاديث كا ايك دوسرے سے ربط يا ان احاديث اور ايات قران كے درميان گھناونا اختلاف موجود ہے ،يہ امر اس بات كا سبب بنا كہ سلف كے دانشوروں نے رسول خدا پر اعتراضات اپ كى احاديث كى توجيہ و تاويل پر مشتمل كتابيں لكھيں ،ان ميں تاويل مختلف الاحاديث اور بيان مشكل الحديث اور بيان مشكل الاثار وغيرہ كتابيں لكھيں_
اس طرح نقادوںاور عيب جوئي كر نے والے ملحدوں اور عيسائي مبلغوں كے ساتھ كچھ مستشرقين كو بھى اس بات پر ابھارا كہ دشمنى وعناد كى راہ سے اس قسم كى احاديث كے استناد ميں اختلاف و تضاد دكھا كر پيغمر اسلام اور ان كے دين پر اعتراض كيا اور مذاق اڑايا،حالانكہ يہ دونوں گروہ اس بات سے غافل تھے كہ ان احاديث كے مجموعے كا بہت بڑاسرمايہ، خاص طور سے جن ميں باہم اختلاف ہے يہ سبھى ايك ہى روش اور ايك ہى سياق سے مربوط نہيں ہيں كہ انھيں اطمينان كے ساتھ سبھى كو رسول خدا كى واقعى حديث سمجھ كر يكجا بحث و تحليل كى جائے بلكہ يہ تمام احاديث خود ہى چند مختلف احاديث كا مجموعہ ہيں جنھيں مختلف راويوں اور بيان كرنے والوں كے طريقے سے ھم تك پہونچا ہے_
ارباب تحقيق كو سب سے پہلے يہ چاہيئے كہ راويان حديث كى دستہ بندى كريں مثلاوہ احاديث جو ام المومنين عائشه سے منسوب ہيں ياانس سے ابو ھريرہ يا عبداللہ بن عمر سے ان تمام كو الگ الگ جمع كر كے دوسرے ايسے راويان حديث جنہوں نے رسول خدا(ص) سے بہت زيادہ احاديث روايت كى ہيں ( ان كے حالات زندگى ،انكا انداز فكر اوران كا عقيدہ ) ان پر الگ الگ بحث و تحقيق كى جائے تاكہ حقيقت امر واضح ہو سكے _
مجھے يہ بات اس وقت معلوم ہوئي ،جب ميں صدر اسلام كے تاريخى حوادث كے ذيل ميں احاديث كے بحث و تحقيق ميں مشغول تھا ،خاص طور سے ان احاديث پر جو ام المومنين عائشه سے نقل كى گئي ہيں ،اس موقعہ پر ميرى نگاہ جذب ہو كر رہ گئي اور مجھے يقين حاصل ہو گيا كہ تاريخ اسلام ابتدائے بعثت سے بعثت يزيد كے زمانے تك كو اچھى طرح نہيں سمجھا گيا ہے _
يہ اسى وقت ممكن ہے كہ پہلے احاديث ام المومنين كو جو بجائے خود اكيلا تاريخ صدر اسلام كا اھم ترين سر چشمہ ہے حقيقت فہمى كيلئے اس كا غير جانبدارانہ مطالعہ كيا جائے
اس طرح مجھے يقين ہے كہ بعض ايات قرانى كو سمجھنا نيز وہ اسلامى فقہ جو اكيلى احاديث ام المومنين كى سند سے مروى ہيں ان كو بھى اسى اساس پر مطالعہ كرنا چاہيے _
جب ميں اسلام كے پہلے دور كى تاريخى تنظيم كا تجزيہ كر رہا تھا ،ميرے لئے نا گزير ہو گيا كہ اسى تقسيم يعنى حديث كى قدر وقيمت كے بارے ميں بحث كو تمام مبا حث كو مقدم قرار ديكر اسى كا تحليل و تجزيہ كروں _
اس قسم كے واردات كى اس حيثيت سے كہ صدر اسلام كے سر كردہ افراد ميں بڑى مشكل بات ہے اس وادى ميں قدم ركھنا كسى مسلمان محقق كيلئے كوئي اسان بات نہيں ہے ( غير جانبدارانہ تحقيق كريں )
پہلى زحمت دشوارى جو مشرق كے مسلمان اديبو ں كو پيش اتى ہے وہ خود ان كے عقائد ہيں جنكى انھوں نے عادت ڈال لى ہے اور ان كى زندگى ميں نشو و نما پاتا رہا اور ان كى نفسيات اور رگوں ميں رچ بس گيا ہے اور يہى عقائد اسلامى معاشرے ميں بھى رائج ہيں _
يہ لوگ صدر اسلام كے مسلمانوں كو عام ادميوں سے بر تر خيال كرتے ہيں اس عہد كو اور اس زمانے كے افراد كو مقدس سمجھتے ہيں اور جو كچھ ان كے اور اس زمانے كے بارے ميں سمجھ بيٹھے ہيں ،وہ دوسرے عہد كے مسلمانوں كے بارے ميں باور نہيں كرتے_
چنانچہ اس طرح كے اديب ،قلمكار متذكرہ الجھن كوبحث و تحقيق ميں نظر انداز نہيں كرتے ، تلاش حق و حقيقت كے بجائے ان كى باتيں اپنے معتقدات كے دفاع ميں لگ جاتى ہيں _
جب ميں نے يہ حقيقت سمجھ لى تو پكا ارادہ كر ليا كہ اس موضوع پر اپنے جذبات كو جو ام المومنين عائشه كى زوجہ ء رسول كى حيثيت سے قائل ہوں ،انھيں اڑے نہ انے دوں ، اور اسلام كى محترم شخصيات كو جو نظر انداز كر ديا جاتاہے انھيں دوسرے عام لوگوں كے مقابل فرق نہ قرار دوں اور انہيں اس نقطہء نظر سے پہچانوں كہ وہ بھى عام لوگوں كى طرح گونا گوں احساسات و جذبات ركھتے تھے ،اس طرح ميں حيات ام المومنين كے ادوار ميں جو حوادث پيش ائے حقيقت معلوم كرنے كيلئے صرف اسى كو موضوع بحث و تنقيد قرار دوں _
اگر چہ دعوى نہيں كرتا كہ ميں اپنے اس ارادے ميں پورى طرح كامياب ہو گيا ہوں ، ليكن اس سلسلے ميں اپنى بھر پور تلاش و كو شش كر ڈالى ہے اس كا جو كچھ فيصلہ ہے وہ دوسروں كو كر نا ہے ، ليكن خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ صرف صدر اسلام كى تاريخ ،قران اور اس كے احكام كى تحقيق كرنے والوں كو فائدہ پہونچانے كيلئے ميںنے يہ سارے پاپڑ بيلے ہيں ،_
اسلام يا ايمان و عقيدہ
دوسرى بات يہ كہ جيسے ہى كوئي قلمكار پكا ارادہ كر كے اس مشكل كو اپنى بحث و تحقيق سے اٹھاليتاہے تودوسرى مشكل گلے پڑ جاتى ہے كہ اس قسم كے مطالب كى نشر و اشاعت مسلمانوں كى ھم اہنگى كو متاثر كرتى ہے يہ سوال كھڑا ہو جاتا كہ اج جبكہ بہت سے مجاہدين اور مصلحين كى مسلسل مساعى سے خدا وند عالم نے مختلف گروہ ميں بٹے ہوئے مسلمانوں كى ارزو ں اور ميلا نات كو ايك دوسرے سے قريب كر ديا ہے ،ان ميں برادرى كے اسباب فراہم كر دئے ہيں كيا ايسى حالت ميں مناسب ہے كہ اسقدر طويل زمانے كے بيتے دور كے بارے ميں لكھا جائے كہ صرف يہى نہيں كہ باہمى ترديد و اعتراض كى ہو ا بن جائے بلكہ سوئے ہوئے جذبات بھڑك اٹھيں اور اپس ميں نفرت و عناد پيدا ہو جائے؟
ليكن اسى سوال كے مقابل ميں مسئلہ بھى سامنے اجاتا ہے كہ جسے اسانى سے نظر انداز نہيں كيا جاسكتا _
اگر خير انديش اصلاح پسندوں كى كوشش بيكار كرنے كا نام ديكر ايسى بحث و تحقيق پسنديدہ نہ سمجھى جائے تو اس صورت ميں تمام لو گوں پر علمى تحقيقات كے دروازے بند ہو جائيں گے اور يہ دانش و معرفت پر ايسا ظلم ہو گا جو معاف كرنے كے قابل نہيں ،كيونكہ اس نتيجے مين اسلامى حقائق پر گذرتے عہدوں اور زمانوں پر جمود فكر ى اور تعصب كى جمى دھول سے مختلف فرقوں ميں اختلاف و تفرقہ زيادہ پيدا ہو گا ،اور يہ مسلم ہے كہ كوئي بھى اصلاح پسند اورہم اہنگى كار سيا اس كى تائيد و تصديق نہ كرے گا _
اس سبب سے ہم پورے دلى خلوص كے ساتھ مسلمان بھائيوں كے درميان سے اصلاح پسند وں كى اواز كا جواب ديتے ہوئے خدا سے دعا كرتے ہيں كہ تفرقہ و اختلاف جڑ سے ختم كرنے كى توفيق عطا ہو _
ہم دانش و معرفت كے مرتبہ كى نسبت سے احترام خاص كے قائل ہيں اس كا معا ملہ دوسرے معا ملوں سے الگ سمجھتے ہيں _
كيونكہ جن لوگوں نے مسلمانوں ميں اتحاد و يكجہتى كى مسلسل كوشش كى بنياد ركھى ہے مقدس اسلام كے پر چم تلے يكجہتى كى اواز بلند كر رہے ہيں حالانكہ خود اسلام بين الاقوامى سياست كا انگيزہ نہيں ہے بلكہ وہ ايمان و عقيد ہ سے عبارت ہے بلكہ وہ واقعات كا ايسا تسلسل ہے جو بحث و تحقيق اور بھر پور علمى تنقيد سے پيدا ہونے والى چيز ہے ،ان حقائق كو مختلف بہانوں اور عنوانوں سے چھپانے سے ايمان و عقيدہ پر استوار وحدت وجود پزير نہيں ہو سكتى ،اور اسلام كى صحيح و مستقيم راہ گمراھى و ضلالت كے كنويں سے برا مد نہيں ہو سكتى _
خدا وند عالم سے دعا كرتا ہوں كہ متوا زن اور سيدھى راہ پر گامزن ہونے كى توفيق كرامت فرمائے كہ وہى سب كو سيدھى راہ دكھانے والا ہے _
عميق اسلامى يكجہتي،
تيسرى مشكل دل كى گہرائيوں سے نكلى ہوئي اواز ہے جسكا اصلى محرك ايمان ہے ،اس بات كا ايمان كہ اسلامى معاشرے ميں صرف اسلام كى حكومت ہونى چاہئے اور اسى بنياد پر ھمارى يكجہتى واستوار ہونا چاہيے اس بنا پرہم سب لوگوں كى تمام تر كوششيں اس بات كيلئے ہونى چاہئے كہ اسلام زندہ ہو اور اسى ذھن ميں رہنا چايئے ،اسى راہ سے اپنے كو مصروف ركھنا چاہيئے ،
اے راہ حق كے مجاہدو خدا اپ حضرات كو توفيق عطا كرے كيا اپ مسلمانوں كو اسلام كى طرف واپسى و خود سپردگى اور اسلامى قوانين كے نفاذ كى دعوت نہيں دے رہے ہيں ؟ كيا اس كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل اور حقيقى احاديث رسول اور حديث بيان كرنے والوں كے حال و مال كے تجزيے و مطالع كے سوا بھى كوئي راستہ ہے ؟ تاكہ اسى كے واسطے سے اايات قران كى شان نزول معلوم كريں اور اسى روشنى ميں احكام اسلام حاصل كر كے اسكى پيروى كريں اور دوسروں كو بھى عمل كرنے كى دعوت ديں اور چونكہ اسلامى احكام پر عمل ناگزير ہے اس لئے لا محالہ اس كا علم حاصل كرنا ھمارے لئے لازم ہے اور يہ بات مسلّم ہے كہ بغير علم حاصل كئے عمل انجام پذير نہيں ہو سكتا_ پورے وثوق كے ساتھ كہا جا سكتا ہے كہ اسلامى يك جہتى اور معاشرے كو اسلام كى طرف واپس لانے كيلئے مستقل سعى ميں اور تاريخ كى بحث و تحقيق نيز احاديث رسول كى چھان پٹك كے درميان كوئي تضاد نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى يك جہتى كيلئے اسكى حيثيت بنياد كى ہے ايك دوسرے كى متمم ہے كونكہ مسلمانوںكو اسلام كى طرف واپس لانا اسى وقت ممكن ہے جب باھم فكرى يك جہتى پيدا ہو ايات قرانى اور احاديث رسول و تاريخ اسلام كو اچھى طرح سمجھا جائے _
اسى طرح جب تك اسلامى معاشرے ميں ايمان واپس نہيں لايا جائيگا اس وقت تك مسلمانوں كے درميان دوستى و برادرى قائم نہيں ہو گى ،كيونكہ اگر اس كے سوا كچھ ہے تو مسلمان كى ھم اہنگى كى بنياد كا پرچم ہے ؟
اور كون سى چيز ہے جو انہيں ايك دل اور ايك جہت عطا كرے گى ، اس طرح بھائي چارگى اسى و قت قائم ہو سكتى ہے
جبكہ مسلمانوں كو ايك دوسرے كى حقيقت حاصل كرنے اور حقيقت كى پيروى كرنے كيلئے مسلمانوں كو ايك دوسرے كى رائيں سجھنے اور صحيح تنقيد عطا كى جائے ،تاكہ خدا كے ارشاد قرانى (ميرے بندے وہ ہيں جو ميرى بات سنتے ہيں اور سب سے بہتر كى پيروى
كرتے ہيں(2) صادق اسكے_ يہى ہمارى اواز ہے_
خداوندعالم كى بارگاہ ميں دعاہے كہ ھميں اور تمام مسلمان بھائيوں كو اسى عظيم ارشاد كى پيروى كى توفيق عنايت كرے_
يہاں تك جتنے اعتراضات گنائے گئے يہ مسلمانوں سے مخصوص تھے _
بزرگوں كى پرستش
تمام قوموں اور ملتوں كى تاريخ كى طرح ان متذكر ہ باتوں كے انداز پر تاريخ اسلام ميں بھى تين بڑى ركاوٹ اور مشكل برابر موجود رہى ،جو اكثر حقائق كے متلاشى اور تاريخ نگارشوں كے سد راہ رہى اور لوگوں كو علم و حقيقت كى پيروى سے روكتى رہي،
انكى اولين اور اھم ترين ركاوٹ پاك بزرگوں كے احترام كى عادت اس حد تك كہ جسے پرستش كہا جاسكتاہے ، كسى بھى بشر كى ابتدائے تاريخ سے عادت رہى كہ اپنے اسلاف كى حد سے زيادہ تعظيم كرتے ، بت پرستى يہيں سے پيدا ہوئي ہے ، چنانچہ _نسر، يغوث،يعوق، ود، سواع(3) ماضى ميں نيك اور صالح تھے
ان كے زمانے كے لوگ ان كا احترام كرتے تھے ،مرنے كے بعد ان كا احترام اتنا بڑھا كہ ان كى پوجا كى جانے لگي_
مزہ يہ ہے كہ ھم اپنے صالح اسلاف كو ان كى زندگى كے زمانے ميں ديكھتے ہيں كہ ان پر اس قدر تنقيد و ترديد كى جاتى ہے كہ ايك دوسرے كو قتل كا فتوى تك ديديتے ہيں ، ان كو ان كے عزيزوں اور ماننے والوں كا خون بہانا بھى جائز جانتے ہيں ، ليكن ان كے مرنے كے چند سال بعد اج كى نسل ميںان كى تعظيم و تكريم اتنى بڑھ گئي ہے كہ اب ان كى رفتار و گفتار پر تنقيد و تجزيہ بھى جائز نہيں سمجھتے نہ اجازت ديتے اور اس رہگذر پر دانش و نظر ميں اپنے اور دوسروں كو سناٹا كر ديا ہے _
اندھا تعصب
دوسرى تعصب كى ركاوٹ ہے يہ ايسى ركاوٹ ہے كہ اس پر برتى ہے اور خود يہ ركاوٹ ايسى ہے كہ ادمى كو جہالت و بے خبرى و نادانى كے اندھيرے ميں ڈال ديتى ہے ،يہ ايسى قربانگاہ ہے كہ طول تاريخ بشريت
ميں ہر ملك اور ہر عہد ميں جہاں ديكھئے بے شمار قربانياں بكھرى پڑى ہيں _
رے كا شھر ساتويں صدى ھجرى كے اوائل ميں تعصب مذہبى كى وجہ سے دو بار ويرانے ميں بدلا، (4) پہلے تو حنفيوں اور شافعيوں نے شيعوں كے خلاف ھنگامہ ارائي كى ، ان كا بے رحمانہ قتل عام كيا ، پہر شافعيوں نے حنفيوں پر دھاوا بولا اور انہيں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليا ، نتيجے ميں گھر ويران ہوئے ، شھر ويرانے ميں بدل گيا ، يہ قربانگاہ بے جا تعصب كے اثر كى معمولى سى جھلكى ہے ، حالا نكہ ايسى ھزاروں قربانياں تاريخ ميں بھرى پڑى ہيں جو مذموم تعصب كى وجہ سے واقع ہوئيں ،ان مضحكہ خيز قربانيوں كى نشاندہى كى جا سكتى ہے_
عوام فريب لوگ
تيسرى ركاوٹ تو سب سے زيادہ نفرت انگيز ہے، وہ راسخ اعمال ہيں جو ارباب اقتدار و طاقت نے مختلف عہد تاريخ ميں اس كى نمائشےكى ہے
يہ لوگ تھے جو بندوق كى نوك اور اپنے اثر سے جو چاہتے كر ڈالتے تھے ، جيسا كہ مقتدر شخصيات نے عوام فريبى كا جال بچھاتے ہوئے بحث و تحقيق كى باگ روك لى اور سن655ھ ميں با قاعدہ طريقے سے اجتہاد كا دروازہ قوم كے فقہاپر بند كر ديا(5)
نہ معلوم اب جبكہ اٹھ صدى بعد باب اجتہاد كھلنے كے مقدمات فراہم ہوئے ہيں اس راہ ميں كس حد تك انہوں نے ترقى كى ہے ، كيا اب بھى وقت نہيں ايا ہے كہ مسلمانوں كو بحث و تحقيق كى اجازت دى جائے ؟ اب تو پھانسى كى سزا صرف تقليد سلف ميں منحصر ہو كر رہ گئي ، كسى دوسرے معاملے ميں گردن نہيں مارى جاتي_
نہيں____ ايسا ھرگز نہيں ہو گا ، كيونكہ اصلاح پسندوں كى مسلسل كوششوں سے عكس دانش سے چہرئہ حقيقت اسقدر صاف نظر انے لگا ہے كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا ، بہت جلد ايسا وقت ارہا ہے كہ اس وقت كے لوگ بحث و تحقيق كى اجازت نہ ہونے سے جو زحمت اٹھانى پڑ رہى ہے اس پر ہنسيں گے ، جس طرح اج ھم تعصب بے جا كے مظاھرے كى وجہ سے شہر رے پر ہنس رہے ہيں _
ان متذكرہ ركاوٹوں كو جانے ديجئے ہم نے اصولى طور سے عادت بنالى ہے كہ جب بھى كسى كى تعريف و ستائشے سنتے ہيں اس كے عيوب سننے كے روا دار نہيں ہوئے نہ تنقيد برداشت كرتے ہيں ،اور اگر اس كى عيب گيرى پر امادہ ہوتے ہيں تو پھر تعريف نہيں سنتے_
ليكن ميں نے ام المومنين عائشه كے بارے ميں جو كچھ احاديث و تاريخ سے حاصل كيا ہے ،انھيں پيش كر رہا ہوں چاہے يہ تعارف ان كے حق ميں عيب جوئي تعارف كے بطور يا تنقيد ہو يا تعريف و ستائشے ہو _
اگر كوئي شخص اس پر مطمئن نہ ہو اور متذكرہ مشكلات پر قابو نہ پا سكتا ہو ،كيونكہ يہ ركاوٹيں قلمكار اور قارى كے درميان مشترك ہيں ، تو كتاب كو اس كے حوالے كر دے جو ان ركاوٹوں پر قابو پا سكتا ہو جى ہاں _ جو شخص ام المومنين عائشه كو تاريخ و حديث كے درميان سے پہچاننے كا خواہشمند ہے اسے احاديث مين تحقيق كا ميدان ممكن بن گيا ہے وہ تحليل و تجزيہ كر سكتا ہے ، صدر اسلام كى خاتون كے ادوار اس كے سامنے ہيں اور حقيقت كى پيروى كرنا نا شائستہ تر ہے ، اور سيدھى راہ چلنے والوں پر صلوات_
سيد مرتضى عسكرى ، بغداد، دانشكدئہ اصول الدين
(فصل اول)
ازواج رسول (ص)
زينب بنت جحش
رسول اكرم (ص) كے ازدواج كے يہاں تك جتنے واقعات بيان كئے گئے ان ميں زيادہ تر كى حكمت واضح ہے ليكن زينب سے ازدواج كى حكمت دوسرى ہى ہے اس حكمت كو بيان كرنے كے لئے ايك مقدمے كى ضرورت ہے ، وہ يہ كہ جہاں تك ميرى واقفيت ہے دنيا كے اصلاح پسند اپنے معاشرتى اصلاح كے منصوبے نافذ كرنے كے لئے دوسروں سے پہلے خود ہى اس پر عمل كرتے ہيں _
اپنا اصلاحى اقدام خود اور اپنے خاندان والوں سے شروع كرتے ہيں اس سلسلے ميں ہر طرح كى فدا كارى جو مقصد كيلئے ضرورى ہے ، اٹھا ئيں ركھتے ، اس كے بعد وہ اپنے قريبى لوگوں ، رشتہ داروں اور بعد ميں دوسرے افراد بشر كو اس پر عمل كرنے كى دعوت ديتے ہيں _
پيغمبر خدا (ص) يكتا مصلح عالم بشريت تھے ، وہ بھى اس قانون سے مستثنى نہيں تھے ، انھوں نے معاشرے كى اصلاح اور جاہليت كے نا پسند يدہ عادات و رسوم كو ختم كرنے كيلئے ، بحكم خدا پہلے اپنوں ہى سے تبليغ شروع كى ، اسى بنياد پر انہوں نے حجةالوداع كے موقع پر فرمايا تھا ، سب سے پہلا سود جسے ميں كالعدم قرار ديتا ہوں ،وہ ميرے چچا عباس كا سود ہے _(6)
ہر خون جو جاہليت كے زمانے ميں بہايا گيا وہ باطل ہے اور سب سے پہلا خون جسے ميں باطل كر رہا ہوں وہ ربيعہ كے فرزند كا ہے اور يہ خاندان عبد المطلب كى فرد ہے _(7)
رسول خدا (ص) كى سيرت ميں اس مفہوم كے تاريخى شواہد بہت زيادہ ہيں زينب بنت جحش كے ازدواج كا واقعہ اسى قسم كا ايك نمونہ ہے ، جسے رسول خدا نے جہالت و نادانى كى بنياد پر استوار اس رسم جاہليت كو ختم كرنے كيلئے انجام ديا ، اس ازدواج سے رسول خدا كے دو بنيادى مقاصد تھے _
1_ طبقاتى نا برابرى ختم كرنا
2_ منھ بولے بيٹے كے بارے ميں احكام توڑنا (8)
زيد بن حارثہ رسول خدا كے منھ بولے بيٹے تھے ، بچپن ميں كچھ عربوں كے ہجوم ميں پھنس كر اغوا كر لئے گئے ، پھر وہ مكہ ميں بيچنے كيلئے لائے گئے جس وقت زيد بيچے جا رہے تھے وہاں رسول خدا موجود تھے ، اپ نے انھيں پسند كر كے اپنى زوجہ خديجہ كے لئے خريد ليا ، زيد كو خديجہ نے رسول خدا ہى كو بخش ديا _
زيدكے ماں باپ اپنے جگر گوشے كے غائب ہونے سے سخت غم و اندوہ ميں مبتلا ہوئے ، ان لوگوں كو زيد كى كچھ خبر نہيں تھى ، ايك دن اچانك ٹكرائو ہو گيا اور زيد كے افراد قبيلہ كى نظر زيد پر پڑ گئي ، دونوں نے ايك دوسرے كو پہچان ليا ، زيد نے ان لوگوں كے ذريعہ كچھ اشعار لكھ كر اپنے ماں باپ كے پاس يہ پيغام بھيجا _
اپ لوگ ميرے بارے ميں رنجيدہ نہ ہوں ميں عرب كے سب سے شريف قبيلے ميں زندگى بسر كر رہا ہوں ، يہاں مجھے تمام قسم كى اسائشے ميّسرہے _
زيد كے باپ اور چچا كو جب زيد كے حال و مقام كى اطلاع ہوئي تو بھارى رقم ليكر مكے كى طرف چلے ، اس اميد پر كہ زيد كو خريد ليں گے ، جب يہ لوگ رسول خدا كى خدمت ميں ائے تو اپنے انے كا مقصد بيان كيا _
انحضرت (ص) نے فرمايا : اگر زيد مجھ سے جدا ہونا چاہيں تو مجھے كوئي اعتراض نہيں پھر اپ نے زيد كو بلايا ، جب زيد ائے تو اپنے باپ اور چچا كو پہچان ليا اور تصديق كى كہ يہى ميرے باپ اور چچا ہيں ، اس وقت رسول خدا نے زيد سے ان كے باپ اور چچا كے انے كا مقصد بيان كيا اور فرمايا كہ تم ازاد ہو چاہے ميرے ساتھ رہو يا اپنے باپ كے ساتھ جائو ، زيد نے جواب ديا ميں ہرگز كسى شخص كو بھى اپ كے اوپر ترجيح نہيں دوں گا _
زيد كے باپ نے زيد كا جواب سن كر كہا :
بيٹا تم باپ كے سامنے غلامى كو ازادى پر ترجيح دے رہے ہو _
زيد نے جواب ديا ، جى ہاں ، اس عظيم شخصيت كے مقابلے ميں اور رسول خدا كى طرف اشارہ كيا ، اس وقت رسول خدا نے زيد كا ہا تھ تھاما اور حجر اسماعيل كے پاس اكر بلند اواز سے فرمايا :
-----------------------------------------
1_ اس وجہ سے حضرت علي(ص) سقيفہ بنى ساعدہ ميں مو جود نہيں تھے ، اور ابو بكر و عمر نے انكى غير موجودگى ميں جلدى سے خليفہ چن ليا اگر انھوں نے اتنا صبر كيا ہوتا كہ رسول كو سپرد لحد كر ديا جائے اور على (ص) بھى وہاں سب كے ساتھ اجايئں تو شايد يہ واقعات پيش نہ ائے اور تاريخ اسلام كا دوسرا ہى نقشہ ہوتا_
2_سورہ زمر 18
3_يہ پانچ بت قريش كے تھے جن كا ذكر قران ميں ہے تفسير در منثور سورئہ نوح اية 24 اور تمام تفاسير ديكھى جاسكتى ہے _
4_ياقوت،لغت (ري) 4_55 3
5_بيپرس بند قدادى نے 665ھ ميں با قاعدہ مصر كے اندر باب اجتہاد بند كيا خطط مقريزى ص161 ديكھى جا سكتى ہے كسقدر ہے كہ خود مصر ميں صديوں بند ركھنے كے بعد خود ہى كھولا ہے_
6_رسول خدا كے چچا عباس زمانہء جاہليت ميں مشھور سود خوار تھے
7_ خاندان عبد المطلب كى فرد ربيعہ كا شير خوار فرزند قبيلہ بنى ليث ميں تھا جسے قبيلہ ھذيل كے افراد نے غلطى سے قتل كر ديا تھا ، بنى ہاشم اس تاريخ تك جبكہ رسول نے يہ اعلان فرمايا اس شير خوار كے اس قبيلے كے لوگوں سے قصاص كے خواہاں تھے
8_ رسم جاہليت تھى كہ كوئي شخص اگر كسى كو اپنا بيٹا كہہ ديتا اور وہ لڑكا بھى اس پر راضى ہوتا تو اسے تمام لوگ اسى كا بيٹا كہتے اور صلبى فرزند كے تمام احكام اسكے لئے ثابت رہتے
اے موجود لوگو گواہ رہو ، زيد ميرا بيٹا ہے ، وہ ميرا وارث ہوگا ميں اسكا وارث ہوں گا (يا من حضراشھد واان زيدا ابنى يرثنى وارثہ )
|