سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
گيارھواں اعتراض؛ ابوعبيدہ كي تقرير كے تنہا راوي ابو مخنف ھيں
انصار سے ابو عبيدہ كا خطاب كرنا فقط ابو مخنف كي روايت ميں ملتا ھے اور كسي دوسري روايت ميں اس كا كہيں كوئي تذكرہ نہيں ھے 284۔

جواب
۔ ابو عبيدہ وہ شخص ھے جو ابوبكر اور عمر كے ساتھ سقيفہ گيا اور اس كي كاروائي ميں موجود تھا شروع ميں ابوبكر نے لوگوں كو ابوعبيدہ اور عمر كي بيعت كرنے كي پيشكش كي اور اسي چيز سے اس جلسہ ميں اس كي اھميت كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے، اس بات كو مد نظر ركھتے ھوئے ممكن ھے كہ اس نے بھي اس جلسہ ميں تقرير كي ھو جيسا كہ پہلے بھي عرض كيا جاچكا ھے كہ جو روايات سقيفہ كي كاروائي كو بيان كرتي ھيں وہ نہايت مختصر اورنقل بہ معني ھيں اس لئے دوسرے راويوں كا نقل نہ كرنا ابو مخنف كي مفصل روايت كے بارے ميں اس كي ضعيف ھونے پر دليل نہيں ھے، اس كے علاوہ ابو عبيدہ كے خطاب كو فقط ابو مخنف ھي نے نقل نہيں كيا بلكہ دينوري نے الامامة والسياسة 285 ميں، ابن اثير 286 نے الكامل ميں اور يعقوبي 287 نے اسے اپني تاريخ يعقوبى ميں بالكل ابو مخنف كي روايت كي طرح نقل كيا ھے۔

بارھواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ اور عمر كے درميان نزاع سے انكار
اس بات پر اتفاق ھے كہ عمر نے سقيفہ ميں سعد بن عبادہ سے خطاب كرتے ھوئے كہا "قتل اللہ سعداً" يعني خدا سعد كو قتل كرے ليكن عمر كے اس جملہ سے مراد جيسا كہ كتاب غريب الحديث ميں ذكر ھوا ھے كہ "دفع اللہ شرّہ" يعني خدا اس كے شر كو دفع كرے نہ يہ كہ خدا سعد كو موت دے، جب كہ ابو مخنف كي روايت عمر اور سعد بن عبادہ كے درميان بحث و مباحثہ اور تلخ كلامي كو بيان كرتي ھے اور دوسري تمام روايات اس كے برعكس ھيں 288۔

جواب۔
پہلي بات تو يہ كہ بہت سي تاريخ اور احاديث كي كتابوں نے واضح طور پر اس تلخ كلامي كي طرف اشارہ كيا ھے۔
1۔ انساب الاشراف 289 ميں روايت نقل ھوئي ھے كہ عمر نے سعد كے بارے ميں كہا "اقتلوہ فانہ صاحب فتنہ" يعني اسے قتل كردو كہ وہ فتنہ گر ھے۔
2۔ يعقوبي 290 كا كہنا ھے كہ عمر نے كہا "اقتلوا سعداً قتل اللہ سعداً" يعني سعد كو قتل كردو، خدا سعد كو ھلاك كرے۔
3۔ عمر كے خطبہ كے سياق و سباق سے بھي يہي معني سمجھ ميں آتے ھيں اس لئے كہ اس سے پہلے كہ عمر يہ بات كہيں لوگوں كے ازدھام كي وجہ سے سعد كے ايك قريبي فرد نے كہا كہ "كہيں سعد كچل نہ جائے" تو عمر نے يہ جملہ سننے كے بعد كہا "قتل اللہ سعداً" اللہ سعد كو موت دے دے 291۔
4۔ دينوري 292 نے بھي اس تلخ كلامي كو ان الفاظ كے ساتھ نقل كيا ھے "اقتلوہ (اسے قتل كردو) قتلہ اللہ (خدا اسے موت دے)" اگر چہ اس نے اس قول كے كہنے والے كے نام كو ذكر نہيں كيا ليكن يہ بات متفق عليہ ھے كہ وہ شخص عمر ھي تھے اور يہ صراحت اور وضاحت جو اس عبارت ميں موجود ھے ھر قسم كي تفسير اور تاويل كے راستہ كو بند كرديتي ھے۔
دوسري بات يہ كہ ۔ "قتل اللہ سعداً" در حقيقت اس جملہ كے معني يہ ھيں كہ خدا سعد كو ھلاك كرے۔ لھٰذا اگر اس جملے كے كہنے والے كي مراد اس كے حقيقي معني نہ ھوں اور وہ اسے مجازي معني ميں استعمال كر رھا ھو تو اسے دو مسئلوں كي طرف توجہ ركھني چاھيے، ايك يہ كہ حقيقي اور مجازي معني كے درميان رابطہ ضروري ھے اور دوسري بات يہ كہ حقيقي معني كو مجازي معني ميں استعمال كرنے كے لئے قرينے كي ضرورت ھوتي ھے۔
يہاں پر كسي بھي قسم كا تناسب اور رابطہ حقيقي معني اور معترض كے كلام ميں نہيں پايا جاتا ھے اس لئے كہ جملہ كے حقيقي معني ايك قسم كي بددعا ھے جب كہ معترض كے معني اس كے برعكس ھيں جو ايك قسم كي دعا سمجھي جاتي ھے اور اسي طرح كوئي قرينہ ايسا موجود نہيں ھے كہ جو اس بات پر دلالت كرتا ھو كہ كلام كے كہنے والے نے اسے مجازي معني كے لئے استعمال كيا ھے، اس لئے كہ كسي بھي تاريخ اور حديث كي كتاب ميں قرينۂ مذكور موجود نہيں ھے اور نہيں معلوم كہ جن لوگوں نے يہ مضحكہ خيز تاويل پيش كي ھے اس لئے ان كي كيا دليل ھے؟۔
ظاھراً معترض اور جن لوگوں نے اس تاويل كو پيش كيا ھے شايد وہ يہ سمجھتے ھيں كہ سعد بن عبادہ نے سقيفہ ميں ابوبكر كي بيعت كرلي تھي اور انہوں نے كسي قسم كي كوئي مخالفت نہ كي ليكن يہ ايك نہايت ھي غلط فكر ھے اس لئے كہ تاريخ اور احاديث كي بہت سي كتابوں ميں سعد بن عبادہ كي طرف سے ابوبكر اور عمر كي شديد قسم كي مخالفت نقل ھوئي ھے كہ جس كي تفصيل تيرھويں اعتراض كے جواب ميں بيان كي جائے گي۔

تيرھواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ كا ابوبكر كي بيعت نہ كرنے سے انكار
''سقيفہ كے بارے ميں تمام محدثين اور مورخين نے جو روايات نقل كي ھيں ان كي روشني ميں تمام مہاجرين اور انصار كے ساتھ سعد بن عبادہ نے بھي ابوبكر كي بيعت كرلي تھي اور فقط روايت ابو مخنف ميں ھے كہ سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي بيعت نہيں كي تھي اور اس قسم كے دوسرے مسائل جيسے اس كا ان كے ساتھ نماز ميں شريك نہ ھونا وغيرہ كيا سعد بن عبادہ كا ابوبكر كي بيعت كرنے يا نہ كرنے كا ان پر كوئي اثر ممكن ھے كہ جس كي اطاعت پر امت نے اجماع كرليا تھا؟ بہر حال كوئي صحيح روايت ايسي نہيں ملتي جو سعد بن عبادہ كے بيعت نہ كرنے كو بيان كرتي ھو بلكہ جو كچھ نقل ھوا ھے وہ اس كے بيعت كرنے كو بيان كرتا ھے 293

جواب۔
معترض كا دعويٰ يہ ھے كہ تمام مہاجرين اور انصار نے ابوبكر كي بيعت كرلي تھي ليكن ھمارا كہنا يہ ھے كہ محدثين اور مورخين نے جو سقيفہ كے بارے ميں روايات نقل كي ھيں ان سے پتہ چلتا ھے كہ سقيفہ كي كاروائي كے بعد بہت سے انصار اور مہاجرين نے جن كا شمار رسول خدا (ص) كے اكابر صحابہ ميں ھوتا تھا ابوبكر كي بيعت كرنے سے انكار كرديا تھا، ذيل ميں ھم چند مثاليں بيان كرتے ھيں۔
1۔ سقيفہ كے بارے ميں عمر اپنے خطبہ ميں كہتے ھيں كہ "خالف عنّا علّي والزبير ومن معھما" 294 يعني حضرت علي عليہ السلام اور زبير اور جو لوگ ان كے ساتھ تھے انہوں نے ھماري مخالفت كى! اس كا مطلب يہ ھے كہ حضرت علي عليہ السلام اور تمام بني ھاشم اور زبير اور ان كے قوم اور دوست و احباب نے ابوبكر اور عمر كي مخالفت كي۔
3۔ يعقوبي كا كہنا ھے "و تخلّف عن بيعة ابي بكر قوم من المھاجرين والانصار، ومالوا مع علي بن ابي طالب، منھم: العباس بن عبد المطلب والفضل بن العباس والزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمرو و سلمان الفارسي و ابوذر الغفاري و عمار بن ياسر و البرّاء بن عازب و ابي بن كعب" 295 يعني انصار اور مہاجرين كے ايك گروہ نے بيعت نہيں كي اور وہ لوگ حضرت علي عليہ السلام كي بيعت كرنا چاھتے تھے جن ميں عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبير بن عوام بن عاص، خالد بن سعيد، مقداد بن عمرو، سلمان فارسى، ابوذر غفارى، عمار ياسر، برّاء بن عازب اور ابي بن كعب شامل ھيں۔
4۔ مسعودي كا كہنا ھے كہ جب تك حضرت علي عليہ السلام نے بيعت نہيں كي بني ھاشم ميں سے كسي نے بھي بيعت نہيں كي 296 اس بات كو ابن اثير نے بھي لكھا ھے 297۔
ھم نے ابوبكر كي بيعت كے مخالفين كے عنوان سے جن چند افراد كے نام پيش كئے ھيں وہ فقط بعنوان مثال اور بطور شاھد ھيں و گرنہ تاريخي كتابوں ميں ابوبكر كي بيعت كے مخالفين كي تعداد اس سے كہيں زيادہ بتائي گئي ھے 298۔
ان مطالب كے پيش نظر اور تاريخي كتابوں پر سرسري نظر ڈالنے سے بھي اس بات كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے كہ معترض كا يہ دعويٰ كہ پوري امت نے ابوبكر كے مقدم ھونے اور ان كي اطاعت پر اجماع كرليا تھا بے بنياد اور بلا دليل ھے اور يہ بات كسي بھي طرح صحيح نہيں ھے اس لئے كہ يہ كيسا اجماع تھا كہ جس كے مخالف حضرت علي عليہ السلام، اھل بيت پيغمبر (ص) اور تمام بني ھاشم جيسے لوگ تھے؟ نيز يہ كس قسم كا اجماع تھا كہ پيغمبر اسلام (ص) كے جليل القدر صحابہ جيسے سلمان فارسى، ابوذر غفارى، مقداد اور عمار ياسر وغيرہ۔ ۔ ۔ ۔ اس كي مخالفت كر رھے تھے؟!
رھي يہ بات كہ بيعت كے مخالفين پر كيا گذري اور ان كے ساتھ كيا برتاؤ ھوا اس سلسلے ميں تاريخ كي كتابوں ميں بہت اختلاف ھے ليكن مجموعي طور پر كہا جاسكتا ھے كہ ان مخالفين ميں سے بعض نے دھمكيوں 299 سے خوفزدہ ھوكر اور بعض نے مال كي لالچ 300 ميں بيعت كرلي تھى، اور ان ميں بعض وہ تھے كہ جو جبر و اكراہ كے باوجود بھي ابوبكر كي بيعت كرنے پر راضي نہ تھے 301 ان افراد ميں حضرت علي عليہ السلام تھے كہ جو جبر و اكراہ كے باوجود ابوبكر كي بيعت كرنے پر راضي نہ ھوئے 302
اور يہ كہ حضرت علي عليہ السلام اپنے آپ كو خلافت كا مستحق سمجھتے تھے اور شروع ميں انہوں نے ابوبكر كي بيعت نہيں كي يہ بات ناقابل انكار حقيقت ھے بلكہ اس بات پر اجماع ھے جب كہ بعض نے كہا ھے كہ اگر چہ وہ ابتداء ميں ابوبكر كي بيعت كرنے پر تيار نہ تھے ليكن كچھ ھي عرصہ بعد ابوبكر كي بيعت كرلي تھي اور اس سلسلے ميں مشھور قول يہ ھے كہ جناب فاطمہ (ع) كي شھادت كے بعد ابوبكر كي بيعت كي 303
سب سے پہلے ھم اس چيز كو بيان كرنا ضروري سمجھتے ھيں كہ حضرت علي عليہ السلام كي بيعت كرنے سے كيا مراد ھے؟
اگر بيعت سے مراد يہ ليا جائے كہ ابوبكر قانوني طور پر پيغمبر اسلام (ص) كا جانشين اور خليفہ تسليم كرنا ھے تو حضرت علي عليہ السلام نے ھرگز اس معني ميں كبھي بھي ابوبكر كي بيعت نہيں كي اس لئے كہ آپ نے ابتداء ميں ھي ابوبكر كي بيعت نہ كركے يہ ثابت كرديا تھا كہ آپ انہيں پيغمبر اسلام (ص) كا خليفہ نہيں مانتے تھے بلكہ اپنے آپ كو رسول خدا (ص) كا برحق خليفہ سمجھتے تھے اور اس سلسلے ميں آپ كبھي بھي متذبذب نہيں رھے لھٰذا آپ كے بارے ميں اس معني ميں بيعت كا گمان كرنا آپ پر ظلم كے مترادف ھے اس لئے كہ اس كے معني يہ ھيں كہ آپ نے اپني گذشتہ غلطي كا اقرار كرليا تھا۔
اور اگر بيعت كے معني مقابلہ نہ كرنے، مخالفت نہ كرنے، خلفاء كے كاموں ميں مداخلت نہ كرنے اور مسلمانوں كي مشكلات كے حل كے لئے ان كي مدد اور اسلامي معاشرہ كو انحراف سے بچانے كے ھيں تو اس سلسلہ ميں يہ كہنا بہتر ھوگا كہ وہ تو ابتداء ھي سے اس كے پابند تھے نيز جب لوگ كسي اور كي طرف رخ كر رھے تھے تو ان سے سلمان فارسى كا يہ كہنا كہ تمھارا بيعت كرنا اور نہ كرنا سب برابر ھے 304 حضرت علي عليہ السلام رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دفن كے بعد جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لائے اور گوشہ نشين ھوگئے 305 اور حفظ اسلام اور مصالح مسلمين كي خاطر خلفاء سے جنگ اور مقابلہ كے لئے كوئي اقدام نہ كيا بلكہ اگر كسي نے لوگوں كو كسي بھي قسم كے اقدام كے لئے تيار بھي كيا تو آپ نے انھيں روك ديا جيسا كہ عتبہ بن ابي لہب نے ايك جوشيلي تقرير ميں بني ھاشم سے كہا كہ وہ اس سلسلے ميں كچھ كريں تو آپ نے انہيں خاموش رہنے كا حكم ديا 306 اور ابوسفيان كہ جو خاندان عبد مناف كي طرف سے مسلحانہ قيام چاھتا تھا اسے آپ نے اپنے سے دور كرديا 307۔
ليكن خلفاء كي بيعت كيونكہ اتفاقي و ناگہاني ھوئي تھي 308 لھٰذا ان كا خيال تھا كہ لوگ حضرت علي عليہ السلام كي طرف ضرور رجوع كريں گے اور حضرت علي (ع) بھي اپنا حق لے كر رھيں گے اس لئے انھوں نے جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں لشكر كشي ميں عجلت كا مظاھرہ كيا اور زبردستي حضرت علي عليہ السلام كو مسجد ميں لے آئے اور ان سے ابوبكر كي بيعت طلب كي ليكن آپ نے منع كرديا اور فرمايا كہ رسول خدا (ص) كا برحق خليفہ ميں ھوں 309، ليكن كچھ ھي عرصہ گزرنے كے بعد خليفہ اس بات كو اچھي طرح جان گئے كہ وہ حضرت علي عليہ السلام كے تحفظ كي خاطر اپنے مسلّم حق سے سبكدوش ھوسكتے ھيں، اور اسلامي معاشرہ كي اصلاح كے لئے ھر ممكن كوشش كرينگے۔ بس يہ خلفاء تھے كہ جنہيں اپني كي ھوئي غلطي كا احساس ھوگيا تھا جس كے نتيجہ ميں انہوں نے حضرت علي (ع) كے ساتھ اپنے رويہ كو تبديل كيا نہ يہ كہ حضرت علي عليہ السلام ان كو خليفۂ رسول (ص) سمجھتے تھے۔
گذشتہ بيان كي روشني ميں زندگي كے آخري لمحات ميں ابوبكر كي زبان سے نكلے ھوئے جملوں كو بخوبي سمجھا جاسكتا ھے كہ "اے كاش ميں نے جناب فاطمہ (ع) كے گھر پر لشكر كشي نہ كي ھوتي 310 اس لئے كہ انہيں بعد ميں اس بات كا احساس ھوا كہ اس كام سے نہ انہيں كوئي فائدہ پہونچا اور نہ اس كي ضرورت ھي تھي بلكہ اس سے جناب فاطمہ (ع) كا غضب جن كا غضب خدا اور رسول (ص) كا غضب ھے 311 ان كے شامل حال ھوگيا 312 اور اس بنا پر دنيا و آخرت ميں خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ھوگئے۔
لھٰذا اگر بيعت پہلے والے معني ميں مراد لي جائے تو حضرت علي عليہ السلام نے ان كو ھرگز رسول (ص) كا خليفہ اور جانشين نہيں مانا اور ان كي بيعت نہ كي اور اگر بيعت كے دوسرے معني مراد لئے جائيں تو حضرت علي عليہ السلام نے پہلے ھي دن سے خلفاء كے بارے ميں چشم پوشي كو اپنا وظيفہ سمجھا اور گوشہ نشين ھوگئے اور كسي بھي صورت ان كا مقابلہ اور ان كے خلاف بغاوت نہ كي۔
يہاں تك تو ھم نے يہ بيان كيا كہ بعض صحابہ نے كس طرح ابوبكر كي بيعت كي تھي ليكن ان تمام افراد كے درميان ايك فرد ايسا بھي تھا كہ اس نے (ظاھراً اپني ضد كي وجہ سے) ابوبكر كي بيعت نہ كي اور وہ سعد بن عبادہ تھا بہت سي روايات كے مطابق اس نے ھرگز ابوبكر اور عمر كي بيعت نہ كي اور پھر وہ شام چلا گيا اور وھاں پر مشكوك انداز ميں قتل كرديا گيا۔
معترض كا دوسرا دعويٰ يہ ھے كہ سعد بن عبادہ نے سقيفہ ميں ھي ابوبكر كي بيعت كرلي تھي اور فقط ابو مخنف كي روايت ميں سعد بن عبادہ كے بيعت نہ كرنے كا ذكر ھے جب كہ كسي بھي صحيح روايت ميں ايسا بيان نہيں ھے تمام روايتيں اس كے بيعت كرنے كو بيان كرتي ھيں، بہر حال سعد بن عبادہ كي بيعت كرنا يا نہ كرنا كون سا ايسا خاص اثر ركھتي ھے؟
ھم مدعي كے اس دعوے كو باطل كرنے كے لئے فقط چند مثالوں پر ھي اكتفاء كريں گے۔
1۔ بلاذري نے مدائني سے روايت كي ھے كہ : سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي بيعت نہيں كي تھي اور پھر عمر نے اس كے پاس ايك شخص كو بھيجا كہ يا تو بيعت كرے يا پھر قتل ھونے كے لئے تيار رھے اور بيعت نہ كرنے كے سبب عمر كے حكم سے اسے قتل كرديا گيا 313۔
2۔ مسعودي كا كہنا ھے كہ سعد بن عبادہ نے بيعت نہيں كي اور مدينے سے شام چلا گيا اور ھجرت كے پندرھويں سال قتل كرديا گيا 314،
3۔ ابن جوزي 315 كا كہنا ھے كہ تمام انصار و مہاجرين نے بيعت كي مگر سعد بن عبادہ نے بيعت نہ كي اس كے بعد وہ ابن اسحاق سے نقل كرتا ھے كہ سعد بن عبادہ نے بيعت نہيں كي اور ان كي نماز جماعت ميں بھي شريك نہ ھوتا تھا اور يہ نقل ابو مخنف كي روايت كے مطالب سے شباھت ركھتي ھے۔
4۔ جوہري كتاب السقيفہ و فدك 316 ميں كہتا ھے كہ سعد بن عبادہ نے ابوبكر، عمر اور كسي كي بھي بيعت نہيں كى، اور اس كے نماز ميں شريك نہ ھونے كو بھي بيان كيا ھے، ۔ ۔ ۔ جيسا كہ ابو مخنف كي روايت بيان كرتي ھے۔
5۔ دينوري 317 نے ابو مخنف كي اصل عبارت كو نقل كيا ھے كہ وہ ان كي نماز جماعت ميں شريك نہ ھوتا تھا وہ عمر كے دور خلافت ميں شام چلا گيا اور وھاں اس كا انتقال ھوگيا جب كہ اس نے كسي كي بيعت نہيں كي تھي۔
6۔ ابن اثير 318 نے بھي سعد كے آخري دم تك بيعت نہ كرنے كو ذكر كيا ھے۔
7۔ ابن سعد 319 كا كہنا ھے كہ ابوبكر نے جس آدمي كو سعد سے بيعت لينے كے لئے بھيجا تھا سعد نے اسے منفي جواب ديا اور كہا "لا واللہ لا ابايع…" يعني خدا كي قسم ھرگز ميں بيعت نہ كروں گا۔
8۔ ان تمام شواھد كے باوجود بھي كيا يہ كہنا صحيح ھے كہ سعد بن عبادہ كي بيعت نہ كرنے كو فقط ابو مخنف نے نقل كيا ھے كيا واقعاً ان تمام شواھد ميں سے ايك نمونہ بھي معترض كي نظر كے سامنے سے نہيں گزرا، يا عمداً ان حقائق سے چشم پوشي كي گئي ھے؟
اور معترض نے كس طرح يہ اعتراض كرتے ھوئے صرف محدثين اور مورخين كے اقوال كا سہارا ليا ھے اور كسي بھي صحيح روايت كا حوالہ نہيں ديا ليكن اس مطلب كے جواب كے سلسلے ميں صحيح روايت كي تلاش ميں ھے كيا يہ تاريخ اور احاديث كي كتابيں معتبر نہيں ھيں اور فقط مسند احمد بن حنبل كي نقل شدہ مرسلہ روايت صحيح اور قابل قبول ھے؟!
اس كے علاوہ يہ كہ ھم اھل سنت كي صحيح روايات كے ساتھ اس روايت كے تعارض كو بيان كرچكے ھيں، نيز وہ تمام روايتيں جن كو معترض نے دليل كے طور پر پيش كيا ھے 320 سعد بن عبادہ كي ابوبكر كي بيعت كرنے كو بيان نہيں كرتيں، اس كے علاوہ مسند احمد بن حنبل 321 كي روايت ميں بھي سعد بن عبادہ كي طرف سے ابوبكر كي بيعت كرنے كا بيان نہيں ھے، بلكہ روايت ميں يہ ھے كہ سعد نے ابوبكر كي گفتگو كي تصديق كي تھي جب كہ ھم اس روايت كے غلط ھونے كو پہلے ھي ثابت كرچكے ھيں۔
اور جہاں تك اس بات كا تعلق ھے كہ سعد بن عبادہ بيعت كريں يا نہ كريں اس سے ابوبكر كي ولايت و حكومت پر كيا اثر پڑتا ھے؟
تو اس كے جواب ميں ھم كہيں گے كہ سعد بن عبادہ قبيلہ خزرج كا سردار تھا لھٰذا اس كا بيعت كرنا يا نہ كرنا اھميت كا حامل تھا، اس كے علاوہ اس كا شمار پيغمبر اسلام (ص) كے جليل القدر اصحاب ميں ھوتا تھا، كس طرح وہ لوگ كے جو پيغمبر اسلام (ص) كے تمام صحابہ كے طيب و طاھر ھونے كے دعويدار ھيں مگر جب سعد بن عبادہ كا نام آتا ھے تو ايسا ھوجاتے ھيں كہ جيسے وہ كوئي تھا ھي نہيں؟! اور اگر سعد بن عبادہ ابوبكر كي بيعت كرنے ميں پيش پيش ھوتا تو كيا واقعاً بعض كے نزديك اس كا يھي مقام ھوتا؟

حرف آخر
اگر چہ سقيفہ ميں جس چيز كي بنياد ركھي گئي اور پھر ھر ممكنہ كوشش كے ذريعہ اسے مضبوط كيا گيا كہ جو اھل بيت (ع) رسول كي گوشہ نشيني اور لوگوں كے لئے علم و معارف كے سرچشمہ سے محرومي كا سبب بنى، اس كے باوجود اھل بيت (ع) اطہار كا حق تعصب كي كالي گھٹاؤں كے اندر بھي خورشيد كے مانند درخشاں اور قابل نظارہ ھيں۔
ھم اميد ركھتے ھيں كہ محترم قارئين نے اس كتاب كے مطالعہ سے اس بات كا اندازہ كرليا ھوگا كہ جمود و انكار اور اتہامات كے گرد و غبار كے ڈھيروں تلے دبے ھوئے حقائق تك پہنچنا كوئي مشكل كام نہيں ھے اور پيغمبر اسلام (ص) كي عترت كي حقانيت اور صداقت كو جاننے كے لئے دل كا ذرہ برابر پاكيزہ اور انصاف پسند ھونا ھي كافي ھے، يھاں تك كہ ان چيزوں كا مشاھدہ ان كتابوں ميں بھي بآساني كيا جاسكتا ھے جو ان كے حقائق پر پردہ ڈالنے كے لئے لكھي گئيں ھيں۔

(وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين)
سيد نسيم حيدر زيدى، قم المقدسہ 3 صفرالمظفر 1426 ھجرى
-------------
254. صحيح بخاري كے نقل كے مطابق۔
258. مسند احمد بن حنبل: ج1 ص198
259. كتاب المصنف: ج7 ص433 (حديث 40، 37)
260. الامامة والسياسة: ص23، 24،
261. الكامل في التاريخ: ج2 ص13
262. السقيفہ و فدك: ص56، 57۔
264. الكامل في التاريخ: ج2 ص13۔
266. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص182
267. فضائل الصحابہ: ص55، 56
268. سقيفہ ميں عمر كا خطبہ۔
269. الامامة والسياسة: ص25
270. السقيفہ و فدك: ص580
271. الكامل في التاريخ: ج2 ص13
274. سقيفہ كے بارے ميں ابو مخنف كي روايت كا مضمون۔
280. السيرة النبويہ: ابن ھشام: ج4 ص316۔
281. سقيفہ كے بارے ميں عمر كا معروف خطبہ۔
282. سورہ مباركہ حجرات: آيت13۔
283. الكتاب المصنف: ج،7، 433۔
285. الامامة والسياسة: ص25۔
286. الكامل في التاريخ: ج2 ص14۔
287. تاريخ يعقوبى: ج2 ص123
289. انساب الاشراف: ج2 ص765۔
290. تاريخ يعقوبى: ج2 ص123۔
292. الامامة والسياسة: ص27۔
294. سقيفہ كے بارے ميں عمر كا خطبہ۔
295. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124۔
296. مروج الذھب: ج2 ص301۔
299. السقيفہ و فدك: ص38۔
300. السقيفہ و فدك: ص37۔
301. انساب الاشراف: ج2 ص769، 770، تاريخ يعقوبى: ج2 ص126۔ السقيفہ و فدك: ص60۔
304. انساب الاشراف: ج4 ص776
305. السيرة النبويہ ابن ھشام: ج4 ص 307، انساب الاشراف: ج2 ص776 سب نے (حضرت علي عليہ السلام گوشہ نشين ھوگئے.عبارت نقل كي ھے۔ الكامل ميں ابن اثير، عمر كا خطبہ نقل كرتے ھوئے كہتا ھے (علي عليہ السلام، زبير اور وہ لوگ جنہوں نے ھماري مخالفت كي جناب فاطمہ (ع.كے گھر ميں ھيں.حضرت علي عليہ السلام نہج البلاغہ كے خطبہ سوم شقشقيہ ميں فرماتے ھيں كہ كيوں كہ مصلحت نہ ديكھي لھٰذا صبر و تحمل كو ھي قرين فھم و عقل سمجھا۔
306. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124
308. انساب الاشراف: ج2 ص766، السقيفہ و فدك ص44، ابوبكر كا قول ھے كہ (ميري بيعت ايك اتفاق اور حادثاتي تھي)
309. الامامة والسياسة: ص28، 29۔
310. السقيفہ و فدك: ص73، الامامة والسياسة: ص36۔
311. الامامة والسياسة: ص31، الغدير: ج7 ص231 سے 235 تك مجموعي طور پر انسٹھ طريقوں سے اس روايت كو نقل كيا ھے۔
312. الامامة والسياسة: ص31، (عمر نے ابوبكر سے كہا كہ جناب فاطمہ (ع.كي خدمت ميں چلتے ھيں كہ ھم نے انہيں ناراض كيا ھے.والبداية والنہاى: ج5 ص270 (جناب فاطمہ (ع.ابوبكر سے ناراض تھيں اور آپ نے آخر دم تك ان سے بات نہيں كي)، الغدير: ج7 ص226 سے 231 تك۔
314. مروج الذھب: ج2 ص301۔
315. المنتظم: ج4 ص67۔
316. السقيفہ و فدك: ص59، 60۔
317. الامامة والسياسة: ص27۔
318. الكامل في التاريخ: ج2 ص14۔
319. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص616۔
320. مرويات ابي مخنف في تاريخ الطبرى: ص112 سے 118 تك۔
321. مسند احمد بن حنبل: ج1 ص198۔