سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
پانچواں اعتراض؛ ابو مخنف نے بعض افراد كے نام ذكر كئے ھيں جو دوسر ے راويوں نے بيان نھيں كئے ھيں
ابو مخنف نے اپني روايات ميں بعض ايسے افراد كے نام ذكر كئے ھيں جن كا نام دوسرے راويوں نے ذكر نہيں كيا جيسا كہ انہوں نے ان دو آدميوں ميں سے جنہوں نے راستے ميں ابوبكر اور عمر سے ملاقات كي ايك كا نام عاصم بن عدى بتايا ھے جب كہ صحيح يہ ھے كہ ان ميں سے ايك كا نام "معن بن عدى" تھا (نہ عاصم بن عدى) 253

جواب
۔ جيسا كہ ابو مخنف نے اپني روايت اور عمر نے اپنے خطبہ ميں بھي اس بات كي طرف اشارہ كيا ھے كہ جب ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ جراح سقيفہ جارھے تھے تو دو آدميوں سے ان كي ملاقات ھوئي جنہوں نے ان حضرات كو سقيفہ ميں جانے سے روكا مگر ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ ان دونوں كي باتوں كي پروا كئے بغير سقيفہ روانہ ھوگئے۔
اب وہ دو آدمي كون تھے؟ عمر نے اپنے خطبہ 254 ميں ان دونوں كا نام ذكر نہيں كيا بلكہ فقط اتنا كہا ھے كہ راستے ميں دو نيك و صالح افراد سے ملاقات ھوئي جب كہ ابو مخنف كي روايت ميں ان دو افراد كے نام ذكر كئے گئے ھيں كہ ان ميں سے ايك "عويم بن ساعدہ" اور دوسرا شخص "عاصم بن عدى" تھا۔ مآخذ و منابع ميں تحقيق اور جستجو كے بعد يہ پتہ چلا كہ ان دو آدميوں ميں سے ايك شخص يقيني طور پر "عويم بن ساعدہ" تھا جب كہ دوسرے شخص كو معمولاً "معن بن عدى" كھا گيا ھے اور فقط ابو مخنف نے اس كا نام "عاصم بن عدى" بتايا ھے لھٰذا اس اعتبار سے ابو مخنف كي روايت باقي راويوں كي روايت سے تعارض ركھتي ھے، اور كيونكہ اكثر تاريخ اور احاديث كي كتابوں نے اس كا نام "معن بن عدى" بتايا ھے اس لئے يہ قول ترجيح ركھتا ھے لھٰذا يہ اعتراض اس اعتبار سے بجا ھے ليكن بعض روايات ميں يہ بات ذكر ھے كہ سقيفہ ميں انصار كے اجتماع كي خبر جس شخص نے ابوبكر اور عمر كو دي وہ معن بن عدى تھا 255 جس كا مطلب يہ ھے كہ وہ شخص پہلے ھي سے ابوبكر اور عمر سے مل كر انہيں سقيفہ كے اجتماع سے آگاہ كر چكا تھا، لھٰذا يہ كس طرح ممكن ھے كہ وہ شخص ان سے دوبارہ ملا ھو اور انہيں وھاں جانے سے روكا ھو؟!
اس بيان كے پيش نظر ابو مخنف كے كلام كو قابل قبول تصور كيا جاسكتا ھے كہ وہ دو آدمي ايك عويم بن ساعدہ اور دوسرا عاصم بن عدى تھا نہ معن بن عدى اس لئے كہ معن بن عدى پہلے ھي ان كے پاس آچكا تھا (واللہ العالم!)

چھٹا اعتراض؛ سقيفہ ميں ابوبكر كي تقرير كے تنہا راوي ابو مخنف ھيں
"ابو مخنف كي روايت ميں ابوبكر كا سقيفہ ميں جو خطبہ نقل ھوا ھے وہ دوسري كسي بھي جگہ لفظي يا معنوي اعتبار سے نقل نہيں ھوا ھے" 256۔

جواب۔
يہ بات تو كسي بھي صورت قابل ترديد نہيں كہ ابوبكر نے سقيفہ ميں مفصل خطبہ ضرور ديا ھے اس لئے كہ عمر كا كہنا ھے كہ ميں نے پہلے ھي سے كچھ مطالب بيان كرنے كے لئے اپنے ذھن كو تيار كر ركھا تھا ليكن ابوبكر نے مجھ سے پہلے ھي خطبہ دے ديا اور مجھ سے بھي زيادہ كامل تر خطبہ ديا 257۔
اور اسي طرح روايت احمد ميں جو حميد بن عبد الرحمٰن سے نقل ھوئي ھے كہا گيا ھے كہ "فتكلم ابوبكر ولم يترك شياً انزل في الانصار ولا ذكرہ رسول اللہ، من شأنھم الّا و ذكرہ" 258 يعني ابوبكر نے اپني تقرير شروع كي تو جو كچھ انصار كے بارے ميں قرآن ميں آيا تھا اور جو كچھ رسول (ص) نے فرمايا تھا سب كچھ كہہ ڈالا اور كوئي چيز بھي باقي نہ چھوڑي اور نيز ابن ابي شيبہ ابو اسامہ سے روايت نقل كرتے ھوئے كہتا ھے كہ ابوبكر نے انصار سے اس طرح خطاب كيا اے گروہ انصار ھم آپ لوگوں كے حق كے منكر نہيں ھيں۔ ۔ ۔ 259
يہ تمام موارد سقيفہ ميں ابوبكر كي مفصل تقرير پر دلالت كرتے ھيں ليكن روايات نے ابوبكر كي تقرير كو معنوي اعتبار سے نقل كيا اور ان كي تقرير كے كچھ ھي مطالب كے بيان پر اكتفا كيا ھے ليكن ابو مخنف كي روايت نے باريك بيني اور تفصيل كے ساتھ ابوبكر كي تقرير كو بيان كيا ھے
لھٰذا يقيني طور پر تاريخي اعتبار سے ابو مخنف كي روايت كافي اھميت كي حامل ھے اس لئے كہ اس ميں ايك واقعہ كے ان تمام پہلوؤں كا ذكر كيا گيا ھے جو اس ميں پيش آئے تھے اس بنا پر ابو مخنف كي روايت كا ان تمام روايات سے موازنہ نہيں كيا جاسكتا جو نقل بہ معني ھيں، اس كے علاوہ يہ كہ وھي خطبہ جو ابو مخنف نے سقيفہ كے بارے ميں نقل كيا ھے تاريخ كي دوسري كتابوں ميں بھي ديكھا جاسكتا ھے جيسے الامامة والسياسة 260، الكامل في التاريخ ابن اثير 261، السقيفہ و فدك جوھرى 262 ان تمام نے اسے مختلف اسناد كے ساتھ نقل كيا ھے لھٰذا يہ دعويٰ كہ سقيفہ ميں ابوبكر كي تقرير كے تنہا راوي ابو مخنف ھيں يہ بے بنياد اور باطل ھے۔

ساتواں اعتراض؛ پيغمبر اسلام (ص) كي ازواج سے متعلق
ابو مخنف كي روايت ميں ھے كہ ابوبكر نے سقيفہ ميں انصار سے خطاب كرتے ھوئے يہ كہا تھا كہ "و فيكم جُلة ازواجہ" يعني پيغمبر اسلام (ص) كي اھم ازواج تم ميں موجود ھيں ابوبكر كي طرف اس قسم كے بيان كي نسبت دينا صحيح نھيں ھے، اس لئے كہ پيغمبر (ص) كي تمام ازواج قريش سے تھيں اور كوئي بھي معتبر سند اس چيز كو بيان نہيں كرتي كہ پيغمبر (ص) كي كسي بيوي كا تعلق انصار سے رھا ھو 263۔

جواب۔
پہلي بات تو يہ كہ يہ بات قابل ترديد نہيں كہ پيغمبر (ص) كي تمام ازواج كا تعلق قريش سے تھا اور انصار سے نہ تھا ليكن اس جملے كے معني ھرگز وہ نہيں جو اعتراض كرنے والے سمجھے ھيں اور معترض كے عرب ھونے كي بنا پر يہ بات نہايت باعث تعجب اور قابل افسوس ھے كيونكہ اس جملہ كا متن يہ ھے "وجعل اليكم ھجرتہ وفيكم جُلة ازواجہ واصحابہ" اب اگر لفظ جلہ كو جيم پر پيش كے ساتھ پڑھا جائے تو اس جملے كے معني اس طرح ھوں گے "خدا نے پيغمبر (ص) كي ھجرت كو آپ لوگوں كي طرف قرار ديا اور آپ لوگوں كے درميان اور آپ ھي كے معاشرے (مدينہ) ميں پيغمبر (ص) كي اكثر ازواج مطھرہ اور ان كے اصحاب موجود ھيں"۔ اور اگر جلہ كي جيم پر زير دے كر پڑھا جائے تو معني يہ ھوں گے، "اس نے پيغمبر (ص) كي ھجرت كو آپ لوگوں كي طرف قرار ديا اور آپ كے معاشرے (مدينہ) ميں رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ازواج اور گرانقدر اصحاب موجود ھيں"۔
بہر حال "جلہ" كو كسي بھي طرح پڑھا جائے اس كے معني ميں كسي قسم كا كوئي فرق نہيں ھوگا اس لئے كہ بنيادي نكتہ لفظ "فيكم" كے معني ميں موجود ھے كہ جس كے معني "آپ لوگوں كے درميان ميں ھيں" اور ھرگز اس كے معني يہ نہيں كہ وہ تم ميں سے ھيں اس لئے كہ اس قسم كے معني كے لئے كلمہ منكم سے استفادہ كيا جاتا ھے، لھٰذا يوں كہا جاتا "ومنكم جلة ازواجہ واصحابہ" ليكن جو چيز متن روايت ميں ذكر ھے وہ يہ ھے "وفيكم جُلة ازواجہ واصحابہ" لھٰذا معترض كے لئے ضروري ھے كہ ايك بار پھر اچھي طرح عربي كے قواعد كو سيكھے تاكہ انہيں فيكم اور منكم كے فرق كا پتہ چل جائے۔
دوسري بات يہ كہ "الامامة والسياسة" نيز "السقيفہ و فدك" جوھري ميں يہ روايت ابو مخنف كي روايت كے الفاظ كے عين مطابق نقل ھوئي ھے اس ميں يہ جملہ "و فيكم جلة ازواجہ واصحابہ" موجود نہيں ھے اور كتاب الكامل ابن اثير 264 ميں اس جملہ كو بريكٹ ميں قرار ديا گيا ھے، اور اس كے بعد حاشيہ ميں يہ اشارہ كيا گيا ھے كہ يہ جملہ ابو مخنف كي روايت ميں موجود نہيں ھے اور طبري نے سياق جملہ كے پيش نظر اس كا اضافہ كيا ھے بس اگر ايسا ھے تو يہ اعتراض بنيادي طور پر ھي مخدوش ھے اس لئے كہ يہ عبارت ابو مخنف كي نہيں ھے اور اگر يہ اعتراض صحيح ھے تو طبري پر ھے نہ كہ ابو مخنف پر۔

آٹھواں اعتراض؛ حباب بن منذر اور عمر كے درميان نزاع سے انكار
"ابو مخنف كي روايت كے علاوہ كسي دوسري روايات ميں يہ بات نہيں ملتي كہ حباب بن منذر اور عمر كے درميان كافي دير تك تلخ كلامي اور نزاع ھوا ھو جب كہ جو چيز روايات ميں بيان ھوئي ھے وہ اس كے برعكس ھے جيسا كہ احمد كي روايت ميں ذكر ھوا ھے كہ تمام انصار نے كھا كہ ھم خدا كي پناہ مانگتے ھيں كہ اس امر ميں ابوبكر سے پيش قدمي كريں" 265۔

جواب۔
حقيقت يہ ھے كہ حباب بن منذر اور عمر كے درميان گفتگو بہت سي تاريخي كتابوں ميں ذكر كي گئي ھے، لھٰذا بنيادي طور پر يہ بات غير قابل انكار ھے اور اسي طرح يہ بات بھي يقيني ھے كہ "انا جُذَيلھا المحكك و عُذيقھا المرجّب منّا امير و منكم امير يا معشر قريش" يہ جملہ كھنے والا شخص حباب بن منذر ھے، رھي يہ بات كہ ان دونوں كے درميان كوئي نزاع بھي ھوا تھا يا بقول معترض كہ انصار كے قبول كر لينے كے ساتھ ساتھ تمام چيزيں بخوبي انجام پاگئيں تھيں، ھم اس بحث كو روشن اور واضح كرنے كے لئے تاريخ اور احاديث كي كتابوں كے مضامين كے چند نمونے آپ كے سامنے پيش كرتے ھيں۔
1۔ الطبقات الكبريٰ ميں قاسم بن محمد سے نقل ھے كہ حباب بن منذر جو جنگ بدر كے شركاء ميں سے ايك ھے كھڑا ھوگيا اور كہا كہ ايك امير ھمارا اور ايك امير تمہارا، حباب بن منذر كي گفتگو كے بعد عمر نے كہا: اگر ايسا ھے تو پھر مرجاؤ 266، يہ روايت حباب بن منذر كي گفتگو اور عمر كے ساتھ اس كي تلخ كلامي اور نزاع كو بيان كرتي ھے۔
2۔ جو روايات نسائي نے نقل كي ھيں وہ كچھ اس طرح ھيں، انصار نے كہا كہ ايك امير ھمارا ھو اور ايك امير تم لوگوں كا ھوگا تو عمر نے كہا: ايك نيام ميں دو تلواريں ركھنا صحيح نہيں ھيں 267، روايت كا يہ حصہ بالكل اس مضمون جيسا ھے جسے ابو مخنف نے نقل كيا ھے بس فرق يہ ھے كہ اس روايت ميں انصار ميں سے جس شخص نے يہ بات كہي تھي اس كا نام نہيں ليا جب كہ ابو مخنف اور دوسرے افراد نے انصار كي طرف سے بولنے والے شخص كا نام بتايا ھے كہ وہ حباب بن منذر تھا۔
3۔ عمر نے اپنے خطبہ ميں كہا ھے كہ انصار ميں سے ايك شخص نے كہا كہ "ميں ايك تجربہ كار شخص ھوں اور دنيا كے نشيب و فراز سے خوب واقف ھوں لھٰذا ايك امير ھمارا اور ايك امير تمھارا ھوگا، اے گروہ انصار! اس كے بعد اس طرح شور و غل اور ايك ھنگامہ آرائي ھوئي كہ مجھے ڈر تھا كہ كھيں اختلاف نہ ھوجائے" 268 عمر كے اس كلام كي روشني ميں انصار كي طرف سے بولنے والے شخص كے بعد اس طرح شور و غل شروع ھوا كہ عمر اختلاف پيدا ھوجانے سے خوفزدہ تھے۔
لھٰذا جيسا كہ تيسرے اعتراض كے جواب ميں ھم نے عرض كيا كہ ايسا نہ تھا كہ انصار بغير كسي چون و چرا كے ابوبكر اور عمر كے سامنے جھك گئے تھے، بلكہ يقيني طور پر كافي دير تك بحث و مباحثہ اور تلخ كلامي كا سلسلہ چلتا تھا اور وہ روايت كہ جسے معترض نے نقل كيا ھے كہ تما انصار ابوبكر كے سامنے جھك گئے تھے (جيسا كہ پہلے بتايا جاچكا ھے) وہ سند كے اعتبار سے ضعيف ھونے كے علاوہ اھل سنت كي صحيح روايت سے مكمل تعارض بھي ركھتي ھے۔
4۔ الامامة والسياسة 269 اور سقيفہ و فدك جوھري 270 نے بھي حباب بن منذر اور عمر كے درميان سخت گفتگو ھونے كو نقل كيا ھے اور ابن اثير نے الكامل 271 ميں اس گفتگو كے علاوہ ابو مخنف كي عين عبارت كو بھي نقل كيا ھے كہ ان دونوں نے ايك دوسرے سے كہا "خدا تجھے موت دے" الامامة والسياسة نے اس مطلب كے علاوہ حباب بن منذر اور عمر كے درميان پيغمبر اسلام (ص) كے زمانے كي دشمني كا بھي ذكر كيا ھے۔
5۔ طبري نے تو سيف بن عمر كے حوالے سے يھاں تك نقل كيا ھے كہ عمر اور حباب بن منذر كے درميان بات اتني بڑھ گئي كہ نوبت مار پيٹ تك پہونچ گئي 272
گذشتہ بيان كي روشني ميں نہ فقط دوسري روايات ابو مخنف كي روايت سے تعارض نہيں ركھتي ھيں بلكہ اس كي تائيد كرتي ھيں، اور اگر بات تعارض كے بارے ميں كي جائے تو جو كچھ تمام روايات ميں بيان كيا گيا ھے وہ روايت احمد سے تعارض ركھتا ھے جسے خود معترض نے سند كے طور پر پيش كيا ھے، نہ كہ روايت ابو مخنف سے۔

نواں اعتراض؛ انصار كي طرف سے مہاجرين كو ڈرانے دھمكانے كا انكار
مہاجرين كے بزرگ افراد كو مدينہ سے باھر نكالنے سے متعلق حباب بن منذر كي گفتگو اور انہيں ڈرانا دھمكانا ان باتوں سے تعارض ركھتا ھے جو كچھ قرآن نے انصار كے بارے ميں فرمايا ھے، قرآن سورہ حشر كي آيت نمبر نو ميں فرماتا ھے "اور جن لوگوں نے دارالہجرت اور ايمان كو ان سے پہلے اختيار كيا تھا وہ ھجرت كرنے والے كو دوست ركھتے ھيں اور جو كچھ انہيں ديا گيا ھے اپنے دلوں ميں اس كي طرف سے كوئي ضرورت نہيں محسوس كرتے ھيں اور اپنے نفس پر دوسروں كو مقدم كرتے ھيں چاھے انہيں كتني ھي ضرورت كيوں نہ ھو، اور جسے بھي اس كے نفس كي حرص سے بچا ليا جائے وھي لوگ نجات پانے والے ھيں" جو كچھ يہ آيت انصار كے ايثار كے بارے ميں بيان كرتي ھے اسے روايت كے مطالب كے ساتھ كيسے جمع كيا جائے؟ اور كس طرح محبت و نفرت، اخوت و دشمني ايك دوسرے كے ساتھ جمع ھوسكتے ھيں؟ لھٰذا اگر كوئي شخص انصار كے ايمان اور ايثار سے اچھي طرح واقف ھو تو وہ ھرگز اس بات پر يقين نہيں كرسكتا كہ جسے ابو مخنف كي روايت نے بيان كيا ھے بلكہ وہ اسے محض جھوٹ ھي كھے گا 273۔

جواب۔
پہلي بات تو يہ ھے كہ انصار كے فضائل اور ان كے ايثار ميں كسي قسم كے شك و شبہ كي كوئي گنجائش نہيں ھے انہوں نے اپنے مہاجر بھائيوں كے ساتھ كمال محبت اور ايثار كا برتاؤ كيا ھے اور اس سے بھي انكار نہيں كہ انہوں نے يہ كام صرف خدا كي خوشنودي كے لئے كيا تھا اور يہ بات واضح ھے كہ انصار كي طرف سے مہاجرين كے ساتھ يہ محبت و ايثار خدا اور رسول (ص) سے خالصانہ اور ان كي فرماں برداري كي بنا پر تھا۔
اب اگر انصار يہ گمان كريں كہ بعض مہاجرين ولايت و حكومت كے بارے ميں وحي الھي اور پيغمبر اسلام (ص) كي مسلسل تاكيدات سے سرپيچي كر كے حكومت پر قبضہ كرنا چاھتے ھيں اور ان كا مقصد اھل بيت (ع) كو خلافت سے دور كرنا اور انصار پر غلبہ حاصل كرنا ھے تو ايسي صورت ميں نہ فقط ان كي نسبت محبت كي كوئي راہ باقي نہيں رہ جاتي ھے بلكہ اگر خدا كي خاطر ان سے بغض ركھا جائے تو كوئي تعجب كي بات نہيں۔
دوسري بات يہ كہ كيا تمام انصار كا اطلاق حباب بن منذر پر ھوتا ھے؟ اسي طرح كيا تمام مہاجرين فقط وہ تين ھي افراد ھيں كہ اگر ايك انصار ايك مہاجر كے ساتھ سخت لہجہ ميں بات كرے تو ھم كہيں كہ يہ چيز قرآن كي اس آيت كے خلاف ھے جس ميں كہا گيا ھے كہ "انصا، مہاجرين كي نسبت دوست اور ايثار گر ھيں" لھٰذا اگر ايك انصاري كوئي نازيبا الفاظ ادا كرتا ھے تو اس سے دوسرے انصار كي شان و شوكت ميں كوئي كمي نہيں آتى، جيسا كہ سقيفہ ميں اس بات كا مشاھدہ بھي كيا گيا كہ بعض انصار نے حباب ابن مندر كي اس پيشكش كا كوئي مثبت جواب نہ ديا اسي طرح اگر بعض مہاجرين پيغمبر (ص) كي قرابتداري كا حوالہ دے كر پيغمبر (ص) كے جنازہ كو اسي حالت پر چھوڑ كر سقيفہ ميں حكومت حاصل كرنے كي كوششوں ميں لگے تھے تو اگر ايسے مہاجرين كے ساتھ اچھي طرح پيش نہ آيا جائے تو اس كا مطلب ھر گز يہ نہيں كہ تمام مہاجرين كے بارے ميں انصار كي يہي رائے ھے اور حباب بن منذر كي پوري گفتگو كا تعلق صرف سقيفہ ميں موجود مہاجرين ھي سے تھا۔ اس لئے كہ وہ كہتا ھے "ولا تسمعوا مقالة ھذا و اصحابہ… فان ابوا عليكم ما وسألتموہ فاجلوھم عن ھذہ البلاد" 274 يعني اس شخص (عمر) اور اس كے ساتھيوں كي گفتگو پر كان مت دھرو اور اگر انہوں نے تمہاري مرضي اور چاھت كے خلاف كوئي كام انجام ديا تو انہيں يہاں سے باھر نكال دو، اس بيان كي روشني ميں واضح ھوجاتا ھے كہ حباب بن منذر كي مراد سقيفہ ميں موجود چند افراد تھے، اس لئے كہ انگليوں پر گنے جانے والے چند افراد كے علاوہ اكثر مھاجرين وھاں موجود نہ تھے اور ان ميں سے اكثر سقيفہ كي كاروائي كے مخالف تھے 275
اور تيسري بات يہ كہ آيت كا مفہوم اور اس كي تفسير ھرگز اس معني ميں نہيں كہ جس كا معترض نے دعويٰ كيا ھے اس لئے كہ آيت ايك تاريخي واقع كو بيان كرتي ھے جو ايك خاص زمانے ميں پيش آيا ھے اور وہ تاريخي واقع يہ تھا كہ جب بعض مہاجرين نے سر زمين مدينہ كي طرف ھجرت كي تو مدينہ كے رھنے والوں نے ان كا گرم جوشي سے والھانہ استقبال كر كے ان كے لئے ايثار و قرباني كا مظاھرہ كيا اور يقيني طور پر آيت كے معني ھرگز يہ نہيں ھيں كہ مہاجرين اور انصار ميں سے كسي ايك فرد كا دوسرے كے ساتھ كسي بھي زمانے ميں لڑائي جھگڑا نہيں ھوسكتا، اس لئے كہ ايسے بے شمار مواقع پائے جاتے ھيں جو آيت كي نقض قرار پائيں گے، مثال كے طور پر وہ لڑائي جھگڑے جو خلفاء ثلاثہ كي حكومتوں كے دوران پيش آّئے كہ جن ميں ايك مسئلہ خود عثمان كے قتل كا تھا نيز حضرت علي عليہ السلام كے دور خلافت ميں شديد قسم كي جنگيں ھوئيں جيسے جنگ جمل، جنگ نہروان، جنگ صفين كہ ان جنگوں ميں دونوں طرف مہاجرين اور انصار كي تعداد موجود تھي اور كيا يہي مہاجرين اور انصار نہ تھے جو ان جنگوں ميں ايك دوسرے كو قتل كر رھے تھے، اب اس كے بعد بھي كيا قرآن مجيد كے مطابق ايسي كج فھمي كي كوئي تاويل ممكن ھے؟ يہ كتنا ضعيف اور فضول اعتراض ھے كہ جو معترض كي طرف سے كيا گيا ھے؟!

دسواں اعتراض؛ سقيفہ ميں اوس و خزرج كے درميان اختلاف سے انكار
ابو مخنف كي روايت كا ايك جملہ يہ ھے كہ قبيلہ اوس والوں كا كہنا تھا كہ اگر خزرج والے ايك مرتبہ خلافت پر آگئے تو ھميشہ اس پر باقي رھيں گے ظاھراً اس بات كے پيش نظر قبيلہ اوس والوں كا ابوبكر كي بيعت كرنا در حقيقت خزرج والوں كي حكومت سے جان چھڑانا تھا نہ يہ كہ ان كي بيعت ابوبكر كي فضيلت يا اسلام ميں سبقت كي وجہ سے تھي اور يہ چيز ان دونوں قبيلوں كے درميان اسلام سے پہلے جيسي دشمني كي نشاندھي كرتي ھے اور يہ كہ پيغمبر (ص) كي تربيت، خدا كي راہ ميں جان و مال سے جہاد سب كا سب عارضي اور وقتي تھا جس كا اب كوئي اثر تك باقي نہ تھا ايسا كہنا رسول خدا (ص) اور ان كے اصحاب پر بہت بڑي تہمت لگانا ھے جب كہ صحيح روايات اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ پيغمبر (ص) كے تربيت شدہ افراد كے سامنے جب حكم خدا كو سنايا گيا تو ان سب نے اسے قبول كرليا اس لئے كہ ابوبكر كے ساتھ كوئي لشكر تو نہيں تھا كہ جو وہ خوف و ھراس كي وجہ سے بيعت كرنے پر مجبور ھوگئے ھوں 276۔

جواب۔
پہلي بات تو يہ كہ كوئي شخص بھي انسانوں كي تربيت كے سلسلے ميں پيغمبر اسلام (ص) كي مسلسل كوششوں كا منكر نہيں ھے اور پيغمبر اسلام (ص) حتي الامكان كوشش كرتے تھے كہ قبيلوں كے درميان جو پراني دشمنياں چلي آرھي ھيں انہيں جڑ سے ختم كرديا جائے اور انہيں يہ بات سمجھائي جائے كہ كوئي قبيلہ كسي قبيلہ پر برتري اور فوقيت نہيں ركھتا اس كا معيار صرف تقويٰ الھي ھے۔ ( (انّ اكرم كم عند اللہ اتقاكم)) 277۔ بے شك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس سلسلے ميں بے انتہا كوششيں كيں اور اپنے كار رسالت كو احسن طريقہ سے انجام ديا اور اپني مكمل ذمہ داري ادا كي… "وما علي الرسول الّا البلاغ المبين" 278۔
ليكن قابل غور بات يہ ھے كہ كيا لوگوں نے بھي ان تمام دستورات و احكام پر عمل كيا اور ان تمام تعصّبات كو مكمل طور پر ختم كرديا؟ حقيقت يہ ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كي انتھك كوششوں كے نتيجہ ميں قبيلوں كے درميان شديد جنگيں تو ختم ھوگئيں مگر بحث بازي اور آپسي رقابت ختم نہ ھوئي اس لئے كہ اس زمانے ميں نہ يہ كام ممكن تھا اور نہ شايد يہ مصلحت رھي ھو كہ اس رقابت كو مكمل طور سے ختم كرديا جائے، عربوں ميں قوم اور قبيلہ كا تعصب اس قدر عميق اور پرانا ھے كہ اسے اتني جلدي ختم نہيں كيا جاسكتا تھا اور سچ بات تو يہ ھے كہ اس بات كا تعلق فقط عربوں سے ھي نہيں بلكہ عصر حاضر ميں غير عرب بھي اپنے قوم و قبيلہ اور تنظيموں كي طرف تمايل اور رغبت ركھتے ھيں اور يہ بيماري آخري دم تك انسانوں كا پيچھا نہيں چھوڑتي۔
اور يہ واضح ھے كہ يہ چيز پيغمبر (ص) كے لئے كسي بھي طرح نقص شمار نہيں ھوتي اس لئے كہ آپ كي ذمہ داري فقط تبليغ كي تھي جسے آپ نے كما حقہ انجام ديا اب جو چاھے مومن ھوجائے جو چاھے كافر 279۔
جيسا كہ بعض لوگوں كي گمراھي اور خدا و رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے احكامات سے ان كي سرپيچي كرنا رسول (ص) كے لئے كوئي نقص محسوب نہيں ھوتا اسي طرح وہ لوگ جو ايمان لے آئے سب كے سب ايمان كے ايك درجہ پر نہيں تھے بعض ايمان كے بلند درجہ پر فائز تھے اور بعض ايمان كے نچلے درجہ پر ھي باقي رھے، اب ان افراد كے ايمان كا كمزور ھونا بھي پيغمبر (ص) كے لئے كسي بھي قسم كا نقص نہيں ھے اس لئے كہ تمام افراد كي استعداد، كوششيں اور جد و جہد و امكانات ايك جيسے نہيں ھوتے، يا يوں كھا جائے كہ ھر آدمي اپني ظرفيت كے مطابق اس دريائے بے كراں سے سيراب ھوا۔
انصار اور مہاجرين اور دوسرے اصحاب پيغمبر (ص) بھي سب كے سب ايمان كے ايك درجہ پر فائز نہ تھے جسے قرآن نے بھي بيان كيا ھے كہ بعض تو فقط اسلام ھي لائے تھے اور ايمان نہ ركھتے تھے اور يہ بات واضح ھے كہ وھي شخص اپنے قوم و قبيلہ كے تعصب پر قابو پاسكتا ھے كہ جو بہت ھي زيادہ ايمان ايمان اور تقويٰ كي دولت سے مالا مال ھو، اب اگر كوئي اپنے ايمان كي كمزوري كي وجہ سے قبيلہ كے تعصب كو قابو ميں نہيں كرسكتا تو اس كا پيغمبر (ص) سے كيا ربط ھے اور يہ پيغمبر (ص) كے لئے كس طرح نقص ھے؟!
اس كے علاوہ اھل سنت كي بہت سي روايات اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد بہت سے مسلمان مرتد ھوگئے تھے، جيسا كہ جناب عائشہ كي روايت ھے آپ فرماتي ھيں "لما توفيٰ رسول اللہ ارتد العرب" 280، يعني رسول (ص) كي رحلت كے بعد عرب مرتد ھوگئے تھے۔ اب يہ نہيں معلوم كہ مسلمانوں كا مرتد ھوجانا پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے نقص شمار ھوگا يا نہيں مگر بعض لوگوں كي قبيلہ پرستي تعصب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليمات كے لئے نقص سمجھي جاتي ھے؟!
دوسري بات كہ اگر ابو مخنف كي روايت نے قبيلۂ اوس والوں كي طرف يہ نسبت دي ھے كہ وہ قبيلہ جاتي تعصب كا شكار تھے اور يہ چيز پيغمبر اسلام (ص) كي تعليمات پر انگلي اٹھانے كي وجہ سے قابل قبول نہيں ھے اس لئے كہ پيغمبر (ص) نے جن افراد كي تربيت كي تھي وہ تمام كے تمام ھر قسم كے تعصب سے پاك تھے۔ تو اب ايسے ميں بہتر ھے كہ ھم يھاں ابوبكر كي سقيفہ ميں كي جانے والي تقرير كو بيان كرديں كہ جسے اھل سنت كي صحيح روايات نے نقل كيا ھے تاكہ يہ اندازہ ھوجائے كہ اس ميں انہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليمات سے كس حد تك استفادہ كيا ھے۔
عمر نے سقيفہ كے بارےميں جو معروف خطبہ ديا تھا اس ميں سقيفہ كي كاروائي كے دوران ابوبكر كي تقرير كو انہوں نے اس طرح بيان كيا ھے كہ ابوبكر نے كہا "ولن يعرف ھذا الامر الّا لھذا الحي من قريش ھم أوسط العرب نسباً و داراً" 281، يعني يہ عہدۂ خلافت قريش كے علاوہ كسي اور كے لئے مناسب نہيں اس لئے كہ وہ نسب اور شہر كے اعتبار سے سب پر شرف ركھتے ھيں، كيا يہ كلام قبيلہ كي برتري جتانے كو ظاھر نہيں كرتا؟ كيا قريش كا نسب اور ان كا شہر دوسروں پر برتري كا سبب بن سكتا ھے؟ مگر كيا ابوبكر پيغمبر اسلام (ص) كي تعليمات سے بے بہرہ تھے كہ جو قبيلے اور شہر كي برتري كي گفتگو بيچ ميں لے آئے، كيا انہوں نے قرآن كي يہ آيت نہيں پڑھي تھي ( (انّ اكرمكم عند اللہ اتقاكم)) ؟! 282
دوسري روايت كہ جسے ابن ابي شيبہ نے ابو اسامہ سے نقل كي ھے، وہ كھتا ھے كہ ابوبكر نے سقيفہ ميں انصار سے خطاب كرتے ھوئے اس طرح كہا "ولكن لا ترضيٰ العرب ولا تقر الّا علي رجل من قريش لانھم افصح الناس ألسنة وأحسن الناس وجوھاً،و واسط العرب داراً واكثر الناس سجّية" 283 "ليكن عرب راضي نہ ھونگے اور قبول نہ كريں گے جب تك كوئي شخص قريش ميں سے نہ ھو اس لئے كہ وہ فصيح، خوبصورت، جگہ كے لحاظ سے صاحب شرف، نيك فطرت اور خوش مزاج لوگ ھيں" اور كيا كھيں؟ سقيفہ ميں ابوبكر كي يہ گفتگو كہ جس ميں قريش كي برتري كو بيان كيا جارھا ھے واضح طور پر ان كے قبيلہ جاتي تعصب كي نشاندھي كر رھي ھے جب كہ انہوں نے تقويٰ اور پرھيزگاري كي كوئي بات ھي نہيں كى، اب ايسي صورت ميں ابوبكر جو بعض اھل سنت كے نزديك بہت ھي زيادہ فضائل كے حامل ھيں بلكہ بعض نے تو يہ تك كہا ھے كہ وہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد سب سے افضل مرد ھيں جب ان كا حال يہ ھے تو اوس اور خزرج سے تعلق ركھنے والے لوگوں سے كيا توقع كي جاسكتي ھے؟
معترض نے اپنے اعتراض كے آخري حصے ميں بہت ھي عجيب و غريب بات كہي كہ "جب انصار نے حكم خدا كو سنا تو سب كے سب ابوبكر كے سامنے تسليم ھوگئے"، ھم اس كا جواب دے چكے ھيں كہ كيا ابوبكر كي گفتگو كے بعد سب كے سب تسليم ھوگئے تھے يا نہيں؟ اب رھي يہ بات كہ معترض نے ابوبكر كي تقرير كو حكم خدا بيان كرنے سے تعبير كيا ھے، ھم معترض سے يہ سوال كرتے ھيں كہ كس طرح تمام انصار ميں ايك فرد بھي حكم خدا سے آگاہ نہ تھا اور صرف ابوبكر ھي حكم خدا جانتے تھے؟! كس طرح ممكن ھے كہ وہ پيغمبر (ص) جو احكام الھي كے ابلاغ پر مامور تھے انہوں نے اس حكم خدا كو لوگوں كے لئے بيان نہ كيا ھو؟ اور يہ بات كہنا كہ ابوبكر حكم خدا سے باخبر تھے اور انہوں نے لوگوں كو حكم خدا سے آگاہ كيا، كيا يہ پيغمبر اسلام (ص) پر احكام تبليغ كے سلسلے ميں كوتاھي كرنے كي تہمت نہيں ھے؟
آخر كيا بات ھے كہ حضرت علي عليہ السلام و جناب فاطمہ (ع) كہ جو اھل بيت (ع) وحي ھيں نيز بني ھاشم اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دوسرے صحابہ نہ فقط يہ كہ اس حكم سے بے خبر تھے بلكہ وہ اس حكم كو قبول بھي نہيں كررھے تھے وہ حكم ابوبكر كي بيعت كرنا تھا۔
كيا واقعاً، وہ حكم جو ابوبكر نے سنايا تھا وہ حكم خدا تھا يا خود ان كا ذاتي حكم تھا؟۔
---------------
254. صحيح بخاري كے نقل كے مطابق۔
258. مسند احمد بن حنبل: ج1 ص198
259. كتاب المصنف: ج7 ص433 (حديث 40، 37)
260. الامامة والسياسة: ص23، 24،
261. الكامل في التاريخ: ج2 ص13
262. السقيفہ و فدك: ص56، 57۔
264. الكامل في التاريخ: ج2 ص13۔
266. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص182
267. فضائل الصحابہ: ص55، 56
268. سقيفہ ميں عمر كا خطبہ۔
269. الامامة والسياسة: ص25
270. السقيفہ و فدك: ص580
271. الكامل في التاريخ: ج2 ص13
274. سقيفہ كے بارے ميں ابو مخنف كي روايت كا مضمون۔
280. السيرة النبويہ: ابن ھشام: ج4 ص316۔
281. سقيفہ كے بارے ميں عمر كا معروف خطبہ۔
282. سورہ مباركہ حجرات: آيت13۔
283. الكتاب المصنف: ج،7، 433۔