چوتھا حصہ: ابو مخنف كي روايت پر كئے گئے اعتراضات اور ان كے جوابات
تمھيد
واقعہ سقيفہ كے بارے ميں ابو مخنف كي روايت كے مطالعہ كے بعد ممكن ھے كہ كسي كے ذھن ميں اپني سوچ يا تاريخي معلومات كي بنا پر كچھ اعتراضات ابھريں كہ جنھيں وہ واقعاً اعتراض سمجھتا ھو يا ان كے بارے ميں صحيح اور مستند جواب چاھتا ھے، كتاب كا يہ حصہ اعتراضات كے بيان اور ان كے جوابات كے لئے مخصوص كيا گيا ھے، اس حصہ ميں ذكر ھونے والے اعتراضات محص فرضي نھيں ھيں بلكہ يہ وہ اعتراضات ھيں جو اھل سنت 173 كے ايك مورخ نے ابو مخنف كي روايت 174 كے بارے ميں كئے ھيں لھٰذا ھم اس بحث كو صحيح صورت ميں آپ كے سامنے پيش كرنے كے لئے ان اعتراضات كو ذكر كرنے كے بعد منصفانہ طور پر ان كا جواب ديں گے۔
پھلا اعتراض؛ روايت كي سند سے متعلق
اس سلسلے ميں سب سے پھلا اعتراض يہ ھے كہ روايت صرف ابو مخنف نے نقل كي ھے اور ابو مخنف كے ضعيف ھونے كے ساتھ ساتھ ھشام بن كلبي بھي ضعيف ھونے كے اعتبار سے ابو مخنف سے كم نھيں ھے، اس كے علاوہ يہ كہ "عبداللہ بن عبد الرحمان بن أبي عمرہ" اس واقعہ كا عيني شاھد نہ تھا اس لئے كہ وہ اس زمانہ ميں موجود نہ تھا 175۔
جواب:
اس اعتراض ميں چند مختلف مطالب كي طرف اشارہ ھے لھٰذا ھم ايك ايك كر كے ان كا جواب دے رھے ھيں۔
الف۔ يہ دعويٰ كہ اس روايت كو تنھا ابو مخنف نے نقل كيا ھے۔
يہ بات صحيح نھيں ھے بلكہ يہ معترض كي كم علمي اور ضروري تحقيق نہ كرنے كي دليل ھے اس لئے كہ ابو مخنف كي روايت كا مضمون يا وھي مضمون كچھ اضافہ كے ساتھ دوسرے مورخين نے بھي نقل كيا ھے جس كي تفصيل كچھ اس طرح ھے۔
1۔ دينوري نے اپني كتاب "الامامة والسياسة" ميں يہ روايت جس سند كے ساتھ نقل كي وہ يہ ھے ۔ حدثنا ابن عُفير، عن أبي عون، عن عبداللہ بن عبدالرحمان الانصاري رضي اللہ عنہ… 176
2۔ دوسري سند جسے جوھري نے يوں نقل كيا۔ أخبرني احمد بن اسحاق قال: حدثنا احمد بن سيار، قال: حدثنا سعيد بن كثير بن عفير الانصارى: ان النبي (ص) … 177
3۔ ابن اثير سلسلہ سند كي طرف اشارہ كئے بغير اعتماد كے ساتھ كھتا ھے، و قال ابو عمر الانصارى: لمّا قبض النبي (ص) 178
خلاصہ يہ كہ يہ تين يا چار سنديں ايك ھي روايت كو بيان كرتي ھيں يھاں تك كہ ان ميں بہت سے الفاظ اور جملے بھي ايك جيسے ھيں، ان چار سندوں ميں سے صرف ايك سلسلۂ سند ميں ابو مخنف ھيں۔
ب۔ دوسري بات جو اعتراض كے عنوان سے پيش كي گئي وہ يہ ھے كہ ابو مخنف اور ھشام بن كلبي دونوں ضعيف ھيں۔
ابو مخنف اور ان كي روايت پر اعتماد كے بارے ميں حصہ اول ميں تفصيل كے ساتھ بحث كي جاچكي ھے جس ميں بيان كيا گيا كہ شيعہ علماء رجال نے ان پر مكمل اعتماد كيا ھے اور اھل سنت كے مورخين نے بھي معمولاً ان پر اعتماد كيا ھے اور بعض نے تو فقط ان كي روايت ھي كو نقل كرنے پر اكتفا كي ھے كيا يہ چيز ان كے قابل اعتماد ھونے كي نشاندھي نھيں كرتي ھے؟
اور ھشام بن كلبي بھي شيعہ علماء رجال كے نزديك ايك معروف اور قابل اعتماد شخصيت ھيں جيسا كہ نجاشي ان كے بارے ميں كھتے ھيں كہ وہ فضل و علم كے حوالے سے مشھور اور امام صادق عليہ السلام كے نزديك ترين اصحاب ميں سے تھے 179۔
اھل سنت كے علماء نے فقط انھيں شيعہ ھونے كي وجہ سے "متروك" جانا ھے اور ظاھراً شيعہ ھونے كے علاوہ كوئي دوسري وجہ ضعيف ھونے كي ذكر نھيں كى، جيسا كہ ابن حبان نے ان كے بارے ميں كھا ھے كہ "وكان غالياً في التشيع" 180 اور ذھبي كا كھنا ھے كہ "وتركوہ كأبيہ و كانا رافضين" 181۔
ليكن ياقوت حموي كا كھنا ھے "الاخبارى، النسّابہ، العلامہ، كان عالماً بالنسب واخبار العرب و ايامھا و وقائعھا و مثالبھا…" 182 اخبارى، نسابہ، علامہ اور عربوں كے شجرۂ نسب اور ان كے مختلف ادوار كے حالات و واقعات اور عيوب كے عالم تھے، يہ پوري عبارت ان كي علمي عظمت پر دلالت كرتي ھے لھٰذا ھمارے پاس كوئي ايسي خاص دليل نھيں ھے كہ جس كي بنا پر انھيں چھوڑ ديا جائے اسي لئے ھم انھيں قابل اعتماد سمجھتے ھيں۔
ج۔ البتہ يہ دعويٰ كہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابي عمرہ نے اس زمانہ كو درك نھيں كيا لھٰذا وہ اس واقعہ كا عيني شاھد نھيں ھوسكتا بالكل صحيح ھے اور اس طرح يہ روايت منقطع ھوكر رہ جائے گي ليكن يہ چيز كسي خاص مشكل كا سبب نھيں بنے گي اور اس اعتراض كے دو جواب ھيں، نقضي اور حلّي۔
نقضي جواب:
اول يہ كہ علماء كرام تاريخي واقعات كے متعلق روايات كي سند كے بارے ميں كوئي خاص توجہ نھيں ديتے ھيں البتہ اس كا مطلب ھرگز يہ بھي نھيں كہ جس خبر كو جہاں سے سنا اسے قبول كركے نقل كرديا بلكہ اس كا مطلب يہ ھے كہ جس طرح فقھي روايات كي سند پر غور كيا جاتا ھے اس طرح كي توجہ يھاں نھيں كي جاتي بلكہ اگر كوئي خبر كسي ايسے عالم سے سني جائے جو مشھور و معروف اور قابل اعتماد ھو اور عقلاء اس پر اطمينان كا اظھار كريں تو اسے كافي سمجھتے ھيں اور سند كے بجائے اس كے مضمون پر غور كرتے ھيں۔
دوسرے يہ كہ اگر پوري تاريخ كو سندي اعتبار سے ديكھا جائے تو شايد ھي تاريخ ميں كوئي چيز باقي رھے۔ اس لئے كہ ايسي صورت ميں اكثر روايات كو ختم كرديا جائے اور فقط ان صحيح روايات پر اكتفا كي جائے جو احاديث كي كتابوں ميں موجود ھيں تو ايسے ميں گزشتہ واقعات كي صحيح تصوير پيش نھيں كي جاسكتي۔
تيسرے قابل توجہ بات يہ ھے كہ يھي احاديث كي كتابيں جب تاريخي واقعات كو بيان كرتي ھيں تو مرسل، منقطع و ۔ ۔ روايات سے پُر دكھائي ديتي ھيں، ھم يھاں بعنوان مثال فقط ان چند روايات كا تذكرہ كرتے ھيں جو واقعۂ سقيفہ كے بارے ميں ھيں اور قابل ذكر بات يہ ھے كہ معترض نے ابو مخنف كي روايت كے لئے جن روايات كا سھارا ليا ھے خود ان كا تعلق بھي "مرسلہ روايات" سے ھے۔
جو روايت مسند احمد بن حنبل 183 ميں حميد بن عبد الرحمٰن سے نقل ھوئي ھے يہ روايت ابوبكر اور عمر كے سقيفہ ميں جانے نيز ابوبكر كي سقيفہ ميں تقرير كہ جس ميں انھوں نے انصار كي فضيلت اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اس حديث كو نقل كيا ھے جس ميں آپ نے فرمايا: "حكومت قريش ميں ھوني چاھيے" اس كے بعد سعد بن عبادہ كي تصديق اور بيعت كرنے كو بيان كرتي ھے۔
معترض نے بارھا ابو مخنف كے مطالب كو رد كرنے كے لئے اس روايت سے استفادہ كيا ھے جب كہ يہ بھي ايك "مرسلہ روايت" ھے، جيسا كہ ابن تيميہ، جو اُن كے نزديك شيخ الاسلام ھے "منھاج السنہ" ميں اس روايت كے بارے ميں كھتا ھے "ھذا مرسل حسن" 184 يہ روايت مرسل اور حسن ھے۔
اور عجيب بات تو يہ ھے كہ معترض نے حاشيہ پر خود ابن تيميہ كا يہ جملہ نقل كيا ھے 185 ليكن اپنے آپ سے يہ سوال نھيں كيا كہ آخر ميں خود اس روايت كے مرسل ھونے كے باوجود كيوں اتنے وثوق سے اس پر عمل كر رھا ھوں۔
1۔ وہ روايت جو ابن ابي شيبہ 186 نے ابو اسامہ كے توسط سے بني زريق كے ايك آدمي سے واقعہ سقيفہ كے بارے ميں نقل كي ھے اور يہ روايت چونكہ بني زريق كے نامعلوم شخص سے نقل ھوئي ھے لھٰذا يہ سندي ابھام سے دوچار ھے اس كے باوجود معترض نے اس روايت پر بھي اعتبار كيا ھے 187۔
2۔ وہ روايت جو "الطبقات الكبريٰ" 188 ميں قاسم بن محمد بن ابي بكر صديق تميمي سے نقل ھوئي ھے يہ روايت بھي مرسل ھونے كے باوجود معترض كے لئے قابل استناد ھے 189
يہ مرسلہ روايات كي چند مثاليں تھيں تاريخ كے دسيوں سيكڑوں ابواب ميں سے ايك خاص باب كے بارے ميں اور يھي روايات ان لوگوں كي نظر ميں قابل اعتماد و استناد ھيں جو تاريخ كي اسناد كے بارے ميں مختلف شكوك و شبھات پيدا كرتے ھيں۔
چوتھے يہ كہ خود معترض نے اپني كتاب كے مقدمہ 190 ميں يہ بات كھي ھے كہ ايك مورخ كو فقط خبر پر نظر نھيں كرني چاھيے بلكہ اس كے مختلف پھلوؤں پر بھي غور كرنا چاھيے، لھٰذا كسي خبر كے بارے ميں اس كي صحت اور ضعف كا فيصلہ كرنا اس كے مختلف پھلوؤں كے مطالعہ كے بعد ھي صحيح ھے اس لئے كہ كبھي اس كا نتيجہ مسلّم حقائق كے انكار كا موجب بنتا ھے اور اپنے قول كي تائيد كے سلسلے ميں امام مالك كے اس قول كو بعنوان شاھد پيش كرتا ھے كہ "صحابہ كي بد گوئي نبي (ص) كي بدگوئي كے مترادف ھے"۔
اس بنا پر اگر كوئي خبر كتني ھي صحيح السند كيوں نہ ھو ليكن اگر وہ ايسے مطالب كو بيان كرے جو قابل قبول نہ ھوں مثال كے طور پر كسي صحابي كے عيوب و نقائص كو بيان كرتي ھو تو يہ روايت ان كے نزديك ضعيف ھے، لھٰذا سند كي تحقيق كرنے سے پھلے اس كے مطالب پر نظر كي جائے كہ كھيں كسي كےمسلم نظريات سے تعارض نہ ركھتي ھو تو اگر اس خبر كے مطالب قابل قبول ھيں تو سند كو بھي صحيح كرليا جائے گا!!
ايسي صورت ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام كو بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ جھاں اس نے كھا ھے كہ يہ حديث مرسل و حسن ھے، يعني مرسل بھي ھے اور حسن بھى، اور اس طرح ابن عدي كے كلام كو ابو مخنف كے بارے ميں بھي بخوبي سمجھا جاسكتا ھے كہ ابن عدي كا كھنا ھے كہ ابو مخنف نے ايسي روايات كو نقل كيا ھے كہ دل نھيں چاھتا كہ انھيں نقل كيا جائے 191 در حقيقت ابو مخنف كے ضعيف ھونے كا سبب ان كي روايات كا متن اور مضمون ھے جو ان كے مفروضہ نظريات كے خلاف ھے۔
لھٰذا تاريخ كي سند ميں غور و فكر اور شك و شبہ كے دعويٰ كي نہ كوئي حقيقت ھے اور نہ كوئي گنجائش ھے بلكہ ايسا محسوس ھوتا ھے كہ يہ دعويدار اس قسم كي باتوں سے اپنے مخالفين كے وجود سے ميدان كو صاف كرنا چاھتے ھيں، ليكن جب بات اپني اور اپنے عقائد كے اثبات كي آجاتي ھے تو پھر روايت كا متن اور اس كے مطالب ھي سب كچھ ھوتے ھيں (اور پھر سند كي صحت كا اس سے كوئي تعلق نھيں ھوتا)۔
حلّي جواب:
ممكن ھے كہ سلسلۂ اسناد ميں سے كلمۂ "عن" حذف ھوگيا ھو يعني در حقيقت اس طرح ھو۔ عبداللہ بن عبدالرحمن [ عن ابيہ] عن ابي عمرة الانصاري يہ محض ايك ضعيف احتمال نھيں ھے بلكہ اس كي بھت سي مثاليں موجود ھيں، اس كے علاوہ ھم اس مطلب كي تائيد كے لئے شواھد اور قرائن بھي ركھتے ھيں اور وہ يہ كہ ابن اثير كھتا ھے "قال ابو عمرة الانصارى" 192 يہ بات اس چيز كي طرف اشارہ كرتي ھے كہ جو نسخہ اس كے پاس موجود تھا اس ميں اس روايت كو ابو عمرة انصاري سے نقل كيا گيا ھے نہ عبداللہ بن عبد الرحمٰن سے اور اگر بالفرض اس احتمال كو قبول نہ كريں تو يہ بات واضح ھے كہ جب عبداللہ بن عبدالرحمٰن خود اس واقعہ كا شاھد عيني نھيں ھے تو يقيناً اس نے يہ خبر اپنے والد اور اس كے والد نے ابي عمرة انصاري (اس كے دادا) سے نقل كي ھے، اور عزيز و اقارب ميں سلسلۂ سند كا حذف كر دينا اس دور ميں ايك معمول تھا۔
اس كے علاوہ ان تينوں (ابو مخنف، جوھري اور دينوري) كي نقل شدہ روايات كے سلسلۂ اسناد ميں جو معروف افراد اور علماء موجود ھيں يہ خود روايات كے متن اور اس كے صحيح ھونے پر دليل ھيں۔ خاص طور پر وہ روايت كہ جسے جوھري نے نقل كيا ھے اس ميں ايسے اشخاص موجود ھيں كہ جن كے بارے ميں اھل سنت مكمل اعتماد و اطمينان كا اظھار كرتے ھيں، جيسے احمد بن سياركو ابن ابي حاتم اور دار قطنى نے قابل اعتماد كھا ھے 193، نيز سعد بن كثير كو ابن ابي حاتم نے صدوق (بھت زيادہ سچ بولنے والا) كھا ھے اور وہ كھتا ھے كہ وہ دوسروں كي كتابوں سے نقل كرتا تھا 194، اور انھيں كے بارے ميں ذھبي كا كھنا ھے كہ "كان ثقة، اماماً، من بحور العلم" 195 وہ ثقہ، امام اور علم كے سمندروں ميں سے تھے۔ يقيني طور پر اس قسم كے برجستہ اور قابل اعتماد افراد ھر خبر كو آساني سے نقل نھيں كرتے جس كا نتيجہ يہ نكلتا ھے كہ كسي بھي قسم كا كوئي اعتراض ابو مخنف كي روايت كي سند پر وارد نھيں ھوتا ھے۔
دوسرا اعتراض؛ سعد بن عبادہ كي تقرير كے تنھا راوي ابو مخنف ھيں
يعني ابو مخنف كي روايت ھي ميں فقط سعد بن عبادہ كي تقرير كا ذكر آيا ھے جس ميں انھوں نے انصار كو حكومت كے لئے سب سے زيادہ مستحق كھا ھے 196۔
جواب:
پھلي بات تو يہ كہ سعد بن عبادہ كي وھي تقرير مزيد تين سلسلوں سے نقل ھوئي ھے اور وہ تين سلسلے جوھرى، دينوري اور ابن اثير ھيں جنھوں نے اسے ذكر كيا ھے اور اگر فرض كر بھي ليا جائے كہ سعد بن عبادہ كي تقرير كو فقط ابو مخنف نے نقل كيا اور كسي دوسرے راوي نے اسے نقل نھيں كيا تو جب بھي يہ چيز اس كي نفي پر دليل نھيں ھے۔
دوسرے يہ كہ عموماً وہ تمام روايات جو اھل سنت سے سقيفہ كے بارے ميں نقل ھوئي ھيں نھايت ھي مختصر اور نقل بہ معني ھيں سوائے اُس روايت كے كہ جو سقيفہ كے بارے ميں عمر كے خطبہ پر مشتمل ھے كہ وہ ايك طويل خطبہ ميں سقيفہ كے ماجرے كو بيان كرتے ھيں، عمر كا خطبہ اس لحاظ سے كہ وہ واقعۂ سقيفہ كے عيني شاھد اور خلافت كے اميد واروں ميں سے ايك تھے خاصي اھميت كا حامل ھے يہ خطبہ تاريخ اور احاديث كي معتبر كتابوں ميں نقل ھونے كي 197 وجہ سے ايك اھم سند شمار ھوتا ھے، وہ مطالب جو عمر كے خطبہ ميں بيان ھوئے ھيں اگر چہ ابو مخنف كي روايت سے تھوڑے سے مختلف ھيں ليكن مجموعي طور پر ابو مخنف كي روايت كے اصلي اور بنيادي مطالب كي تائيد كرتے ھيں، يہ بات آئندہ كي بحث ميں روشن ھوجائے گي۔
اگر چہ عمر اپنے خطبہ ميں سعد بن عبادہ كي تقرير كي طرف كوئي اشارہ نھيں كيا ھے
ليكن يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ اس سے پھلے كہ ابوبكر اور عمر انصار كے اجتماع سے باخبر ھوتے اور سقيفہ پھنچتے سعد بن عبادہ كي مختصر سي تقرير ختم ھوچكي تھي۔ لھٰذا جب انھوں نے سعد بن عبادہ كي تقرير كو سنا ھي نھيں تو وہ اس كي طرف كيا اشارہ كرتے۔ليكن يہ بات كہ انصار سقيفہ ميں اپنے آپ كو امر حكومت كے لئے زيادہ سزاوار سمجھ رھے تھے ابو مخنف كي روايت ميں سعد بن عبادہ كے قول كي روشني ميں نقل ھوئي ھے اور اس ميں كسي قسم كے شك و شبہ كي گنجائش نھيں اس لئے كہ سقيفہ ميں انصار كے خطباء كي تقارير سے يہ بات واضح طور پر سامنے آتي ھے جيسا كہ عمر نے اس واقعہ كو بيان كرتے ھوئے كھا كہ جب ھم تھوڑي دير بيٹھے تو انصار كے خطيب نے خدا كي حمد و ثناء كي اس كے بعد كھا (اما بعد نحن انصار اللہ و كتبية الاسلام وانتم معشر المھاجرين رھط… 198) يعني ھم خدا كے انصار اور اسلام كے لشكر ھيں جب كہ تم لوگ گروہ مھاجرين سے ھو اور راندۂ درگاہ ھو، اگر چہ عمر نے اس خطيب كا نام نھيں ليا ليكن وہ خطيب حباب بن منذر انصاري تھا 199، بھر حال انصار كے خطيب كي يہ تقرير ان كے امر خلافت ميں اپنے آپ كو سب سے زيادہ مستحق سمجھنے كي دليل ھے اور اگر معترض كا كھنا يہ ھے كہ خود سعد بن عبادہ اس قسم كي كوئي فكر نہ ركھتا تھا تو يہ بات قطعي طور پر غلط ھے اس سلسلے ميں ھم آئندہ مزيد بحث كريں گے۔
تيسرا اعتراض؛ انصار نے سقيفہ ميں موجودہ مھاجرين كي مخالفت نھيں كى
ابو مخنف نے انصار كے بارے ميں جو يہ كھا ھے كہ "جب انھوں نے آپس ميں يہ فيصلہ كر ليا كہ امر ولايت سعد بن عبادہ كے سپرد كرديا جائے تو پھر كھنے لگے كہ اگر قريش كے مھاجرين نے اسے قبول نہ كيا اور وہ كھنے لگے كہ ھم مھاجر اور رسول خدا (ص) كے سب سے پھلے صحابي ھيں ۔ ۔ ۔ ۔ تو سعد نے ان كي مخالفت ميں يہ كھا كہ يہ تمھاري پھلي غلطي ھوگى" يہ جملے اس بات پر دليل ھيں كہ انصار پھلے ھي سے مھاجرين كي مخالفت كرنے كے سلسلے ميں اتفاق ركھتے تھے جب كہ يہ چيز بالكل غلط ھے اس لئے كہ صحيح روايات اس چيز كو بيان كرتي ھيں كہ انصار رضي اللہ عنھم، ابتدا ميں اپنے اجتھاد كے مطابق اور حكم سے ناواقفيت كي وجہ سے سعد كي بيعت كرنا چاھتے تھے يھي وجہ تھي كہ جب ابوبكر نے امر ولايت كے سلسلے ميں صحيح حكم ان تك پھونچا ديا تو ان سب نے اسے قبول كرليا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نہ كي 200۔
جواب
۔ يہ اعتراض دو دعوؤں پر مشتمل ھے۔
پھلے تو يہ كہ صحيح روايات اس چيز كو بيان كرتي ھيں كہ انصار ابتداء ميں اپنے اجتھاد اور صحيح حكم كے نہ جاننے كي وجہ سے سعد كي بيعت كرنا چاھتے تھے۔
دوسرے يہ كہ جب ابوبكر نے صحيح حكم ان كے سامنے بيان كيا تو سب نے اسے قبول كرليا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نہ كي۔
معترض كے يہ دونوں دعوے باطل ھيں۔
پھلا دعويٰ يہ كہ اس نے گذشتہ بيان كي نسبت صحيح روايات كي طرف دي ھے يہ ايك بے بنياد بات ھے جس كي كوئي دليل نھيں ھے اس لئے كہ ھم نے بے انتھا تحقيق اور اصل مضامين ميں نھايت تلاش و جستجو كے بعد بھي ايسي كوئي روايت نھيں پائي جو يہ بيان كرتي ھو كہ انصار حكم نہ جاننے اور اپنے اجتھاد كي روشني ميں سعد كي بيعت كرنا چاھتے تھے اور خود معترض نے جتني بھي روايات اپني كتاب ميں ذكر كي ھيں ان ميں سے ايك بھي اس قسم كے مطلب كو بيان نھيں كرتي لھٰذا معترض كے لئے ضروري تھا كہ وہ ايسي صورت ميں صحيح روايات كے معني كو مزيد واضح طور پر بيان كرتا۔
صرف بعض روايات ميں يہ ملتا ھے كہ انصار ابوبكر كي وہ تقرير سننے كے بعد جس ميں انھوں نے كھا تھا كہ ھم امير ھيں اور تم وزير، ابوبكر كي بيعت كرنے پر راضي ھوگئے 201
اور اسي طرح ايك دوسري روايت ميں يہ ملتا ھے كہ سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي اس بات كي تصديق كي كہ ولايت و حكومت قريش ميں ھوني چاھيے، اس روايت كے قرينوں سے يہ استفادہ ھوتا ھے كہ سعد بن عبادہ نے بغير كسي اعتراض كے ابوبكر كي بيعت كرلي تھي 202 ليكن اس قسم كي روايات اھل سنت كي ان روايات سے تعارض ركھتي ھيں جو صحيح السند ھيں ھم اس مطلب كي وضاحت دوسرے دعوے كے جواب ميں كريں گے۔
ليكن جو چيز قابل توجہ ھے وہ يہ كہ عام طور سے انصار صاحبِ نظر تھے اور پيغمبر اسلام (ص) بعض جنگوں ميں ان كي رائے كے مطابق عمل كيا كرتے تھے 203، ابوبكر نے بھي سقيفہ ميں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اس روايت كي طرف اشارہ كيا تھا جس ميں آپ (ص) نے فرمايا: اگر تمام لوگ ايك طرف جائيں اور انصار دوسري طرف تو ميں اسي طرف جاؤں گا جس طرف انصار گئے ھيں 204۔
ان تمام اوصاف كے ھوتے ھوئے ھم يہ نھيں كہہ سكتے كہ انصار نادان اور ھر چيز سے بے خبر تھے اور فقط صحيح حكم كے جاننے كي وجہ سے سعد بن عبادہ كي بيعت كرنا چاھتے تھے اور جب ابوبكر نے انھيں صحيح حكم سے آگاہ كيا تو سب نے اسے قبول كرليا كيا يہ بات حقيقت سے دور نھيں ھے؟ كيا يہ انصار اور اصحاب رسول خدا (ص) كي تحقير نھيں ھے؟ كيا حقيقتاً انصار اس قدر جاھل اور ابوبكر كي تقرير كے دو جملوں كے محتاج تھے؟
اس كے علاوہ اگر ابوبكر كي تقرير پر غور كريں تو اس ميں كوئي بات ايسي نھيں تھي كہ جس كا حكم انصار پھلے ھي سے نہ جانتے ھوں لھٰذا ضروري ھے كہ اعتراض كرنے والوں سے يہ پوچھا جائے كہ آخر ابوبكر نے انصار كو ايسا كون سا حكم سنايا تھا جو ان سے پوشيدہ تھا؟ ابوبكر نے انصار كي فضيلت اور ان كے جھاد كا ذكر كيا تھا جس كے بارے ميں وہ خود ان سے بھتر جانتے تھے، ابوبكر پيغمبر اسلام (ص) كے سببي رشتے دار تھے يہ بھي سب جانتے تھے اور اس روايت كے مطابق كہ جو نقل كي گئي كہ خلافت اور خليفہ كا تعلق قريش سے ھوگا 205، يہ بھي انصار بخوبي جانتے تھے جس كي دليل يہ ھے كہ وہ روايت يہ بھي كھتي ھے كہ سعد بن عبادہ نے يہ روايت پھلے سے سن ركھي ھے اور اس سلسلے ميں ابوبكر كي تصديق بھي كي تھي 206، خلاصہ يہ كہ آخر وہ كيا حكم تھا جو انصار سے پوشيدہ تھا اور ابوبكر نے اسے ان كے سامنے بيان كيا تھا؟!
اور دوسرا دعويٰ كہ جس ميں كھا گيا ھے كہ ابوبكر كي تقرير كے بعد سب نے اسے قبول كرليا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نہ كي يہ بھي مكمل بے بنياد ھے اگرچہ اھل سنت كي بعض روايتيں اس دعوے كي تصديق كرتي ھيں كہ تمام انصار ابوبكر كے سامنے مكمل طور سے تسليم ھوگئے اور كھنے لگے خدا كي پناہ جو ھم ابوبكر پر سبقت كريں 207 جيسا كہ وہ روايت ھے كہ جس ميں سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي تصديق كرتے ھوئے كھا كہ حاكم قريش سے ھونا چاھيے 208 اور مزيد چند روايتيں كہ جن ميں كھا گيا ھے كہ انصار نے ابوبكر كي بيعت كي۔
ليكن ھم اس كے جواب ميں يھي كھيں گے كہ ان دو حديثوں ميں سے ايك حديث مرسل ھے جسے ابن تيميہ نے مرسل حسن كھا ھے اور دوسري حديث سند كے اعتبار سے ضعيف ھے 209، لھٰذا يہ حديث ھرگز ايسے افراد كي طرف سے سند كے طور پر پيش نھيں كي جاسكتي جو صرف يہ چاھتے ھيں كہ تاريخ ميں فقط صحيح احاديث كا سھارا ليا جائے، اس كے علاوہ يہ روايتيں ان دو روايتوں سے تعارض ركھتي ھيں جو اھل سنت كے نزديك مقبول و معروف ھيں نيز يہ اھل سنت كے عظيم مورخين كے اقوال سے بھي تعارض ركھتي ھيں جس كي چند مثاليں آپ كي خدمت ميں پيش كر رھے ھيں۔
1۔ عمر نے اپنے مشھور و معروف خطبہ ميں واقعۂ سقيفہ كو اس طرح بيان كيا ھے كہ جب ابوبكر كي تقرير ختم ھوگئي اور انھوں نے كھا كہ ان دو افراد (عمر يا ابو عبيدہ) ميں سے كسي كي بيعت كر لو تو انصار كا ايك آدمي كھڑا ھوا اور كھنے لگا "منّا امير ومنكم امير يا معشر قريش" اب اگر انصار سب كے سب ابوبكر كے سامنے تسليم تھے (جيسا كہ اعتراض كرنے والے نے كھا ھے) تو پھر كيا وجہ تھي كہ قريش حكومت كو قبول نھيں كر رھے تھے اور چاھتے تھے كہ ان ميں سے بھي ايك امير ھو؟
2۔ اگر ايسا ھي تھا كہ جيسا اعتراض كرنے والا شخص كہہ رھا ھے كہ جب ابوبكر نے انصار كے لئے صحيح حكم كو بيان كيا تو سب نے قبول كرليا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نہ كي تو پھر يہ عمر اپنے خطبہ ميں كيا كہہ رھے ھيں كہ جب ابوبكر كي تقرير ختم ھوگئي اور انصار كے خطيب نے اپنا الگ امير بنانے كا اعلان كيا تو "فكثر اللغط وارتفعت الاصوات حتي فرقت من الاختلاف" ايك ھنگامہ اور شور و غل كا سماں تھا كہ مجھے وھاں اختلاف پيدا ھونے كا خدشہ ھوگيا، سوال يہ ھے كہ اگر سب نے قبول كرليا تھا تو پھر يہ ھنگامہ آرائي اور شور و غل كيسا تھا كہ عمر نے كھا كہ مجھے ڈر تھا كہ كھيں اختلاف نہ پھوٹ پڑے؟
كيا اس كا مطلب يہ نھيں ھے كہ انصار اس حكومت كو قبول كرنا نھيں چاھتے تھے؟ يا يہ كہ خود ان كے درميان آپس ميں اختلاف تھا، بھر حال ان تمام باتوں كي روشني ميں يہ دعويٰ بالكل بے بنياد اور كھوكھلا ھے كہ يہ كھا جائے كہ ابوبكر كي تقرير سننے كے بعد تمام انصار نے اسے قبول كرليا تھا اور كسي نے بھي اس كي مخالفت نھيں كي تھى!
3۔ عمر اپنے اسي خطبے كے آخر ميں كھتے ھيں كہ "خشينا ان فارقنا القوم ولم تكن بيعة ان يبايعوا رجلاً منھم بعدنا…" يعني ھميں اس بات كا ڈر تھا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ ھم اس قوم سے بيعت لئے بغير جدا ھوجائيں اور يہ اپنے ھي ميں سے كسي آدمي كي بيعت كرليں، يہ عبارت واضح طور پر انصار كي نظر اور ان كي رائے كو منعكس كر رھي ھے كہ وہ ابوبكر اور عمر پر كسي بھي قسم كا اعتماد نہ ركھتے تھے اس كے علاوہ ابوبكر اور عمر كي تقرير كے بعد بھي وہ يھي چاھتے تھے كہ اپنے ھي افراد ميں سے كسي كي بيعت كرليں۔
4۔ ابن ابي شيبہ نے ابو سامہ سے جو روايت نقل كي ھے 210 اس ميں كھا گيا ھے كہ جب ابوبكر قريش كے فضائل بيان كر چكے تو اس كے بعد كھا كہ آؤ اور عمر كي بيعت كرو تو انھوں نے منع كرديا عمر نے كھا كيوں؟ تو انصار نے كھا كہ انانيت و خود خواھي سے ڈر لگتا ھے 211، لھٰذا سوال پيدا ھوتا ھے اگر انصار ابوبكر پر مكمل اعتماد كرتے تھے تو پھر عمر كے بارے ميں كيوں ابوبكر كي پيش كش كو رد كرديا؟
5۔ وہ روايت جو "الطبقات الكبريٰ" 212 ميں ذكر ھوئي ھے "قال: لما ابطأ الناس عن ابي بكر، قال: من احقّ بھذا الأمر منّى؟ ألستُ اول من صلى؟ ألست؟ قال: فذكر خصالاً فعلھا مع النبى" اور جب لوگوں نے ابوبكر كي بيعت كرنے ميں سستي اور بے رغبتي كا مظاھرہ كيا تو انھوں نے كھا كہ كون اس منصب كے لئے مجھ سے زيادہ سزاوار ھے كيا وہ ميں نھيں ھوں كہ جس نے سب سے پھلے نماز پڑھي اور كيا ميں وہ نھيں كيا ميں وہ نھيں وغيرہ وغيرہ (راوي كا بيان ھے كہ) پھر وہ تمام كام جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ساتھ انجام دئے تھے بيان كئے، يہ روايت بھي بخوبي انصار كي ابوبكر سے بے رغبتي پر دلالت كرتي ھے كہ وہ اس بات پر مجبور ھوگئے كہ اپني تعريفيں خود ھي كرنے لگے تاكہ انصار سے اپني بات منوائي جاسكے، اگر چہ ھم ان فضيلتوں پر بھي يقين نھيں ركھتے ھيں اس لئے كہ يقيني طور پر ابوبكر وہ پھلے آدمي نھيں ھيں جنھوں نے نماز پڑھي ھے۔
6۔ ابن اثير سقيفہ كے واقعات كے بارے ميں لكھتا ھے كہ ابوبكر نے كھا كہ ميں اس بات پر راضي ھوں كہ تم عمر يا ابوعبيدہ ميں سے كسي ايك كي بيعت كرلو تو ايسے ميں تمام يا بعض انصار نے كھا كہ ھم حضرت علي عليہ السلام كے علاوہ كسي اور كي بيعت نھيں كريں گے 213، يہ مطلب اس چيز كو ثابت كرتا ھے كہ انصار حضرت علي عليہ السلام سے زيادہ كسي كو اس امر كا سزاوار نھيں سمجھتے تھے اور شيخين كي طرف كسي قسم كي كوئي خاص رغبت نھيں ركھتے تھے اور اگر شيخين بيعت كے معاملے ميں جلدي نہ كرتے تو حالات كي نوعيت كچھ اور ھوتي جس كي طرف عمر نے اپنے خطبہ ميں اشارہ بھي كيا ھے۔
7۔ بہت سے شواھد موجود ھيں كہ سعد بن عبادہ نے كسي بھي صورت ابوبكر كي بيعت نھيں كي تھى، ھم اس سلسلے ميں بھت جلد بحث كريں گے، لھٰذا يہ دعويٰ كہ ابوبكر كي بيعت سے كسي ايك شخص نے بھي انكار نہ كيا كم از كم سعد بن عبادہ كے بارے ميں صحيح نھيں ھے، اور اس بات سے صرف نظر كرتے ھيں كہ بھت سے افراد نے ابوبكر كي بيعت نھيں كي تھي اور يہ كہ سعد بن عبادہ ان ميں سے ايك تھا، لھٰذا وہ روايت جو اعتراض كرنے والے نے پيش كي ھے كہ سعد بن عبادہ نے ابوبكر كي اس بات كي تصديق كرتے ھوئے كہ "حكومت قريش ميں ھوني چاھيے" ان كي بيعت كرلي تھى، مرسلہ ھونے كے ساتھ ساتھ حقيقت سے بالكل دور اور محض جھوٹ ھے۔
8۔ مسعودي مختصر مگر واضح طور پر سقيفہ كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ھے "فكانت بينہ و بين من حضر من المھاجرين في السقيفۃ منازعة طويلة و خطوب عظيمة" 214 يعني اس كے اور سقيفہ ميں حاضر بعض مھاجرين كے درميان كافي دير تك لڑائي جھگڑا اور تلخ كلامي ھوتي رھي۔ ان تمام دليلوں اور شواھد كي روشني ميں اب اس بے بنياد دعوے كي كوئي گنجائش باقي نھيں رھتي كہ جس ميں كھا گيا ھے كہ تمام انصار ابوبكر كے سامنے تسليم ھوگئے تھے اور بڑے تعجب كي بات ھے كہ كيا اعتراض كرنے والے نے ان تمام شواھد اور دليلوں كو نھيں ديكھا؟ يا يہ كہ تعصب كي بنا پر ان حقائق سے انھوں نے اپني آنكھيں بالكل بند كرليں اسي لئے انھيں بالكل نظر انداز كرديا ھے!
چوتھا اعتراض؛ واقعہ سقيفہ كے وقت حضرت علي (ع) پيغمبر (ص) كے غسل ميں مشغول نہ تھے
"ابو مخنف كي روايت كچھ مطالب كے بيان كرنے ميں دوسرے اكثر مصادر و مآخذ سے تعارض ركھتي ھے (مثال كے طور پر) ابو مخنف كي روايت ميں ھے كہ جب عمر كو (انصار كے سقيفہ ميں جمع ھونے كي) خبر ملي تو وہ سيدھے وھاں سے پيغمبر اسلام (ص) كے گھر گئے جھاں ابوبكر موجود تھے اور حضرت علي عليہ السلام مكمل توجہ كے ساتھ پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين ميں مصروف تھے يہ خبر اس خبر صحيح سے تعارض ركھتي ھے جو يہ بيان كرتي ھے كہ پيغمبر (ص) كي تجہيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئي جب كہ واقعہ سقيفہ پير كے دن رونما ھوا۔ اور اسي طرح مالك اور دوسرے افراد سے جو روايت نقل ھوئي ھے كہ اس ميں يہ ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) كے گھر گوشہ نشيني اختيار كرلي تھي نيز ابن اسحاق كا كھنا ھے كہ جب ابوبكر كي بيعت ھوگئي تو لوگ نبي (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے آئے اور اسي بات كو طبري نے ذكر كيا ھے اور ابن كثير نے پانچ مقام پر يہ كھا ھے اور ابن اثير نے بھي اسي كو نقل كيا ھے ۔" 215
جواب۔
يہ اعتراض، جو ايك خاص اور اصلي نكتہ كي طرف اشارہ كرتا ھے وہ يہ كہ حضرت علي عليہ السلام پير كے دن جس دن واقعۂ سقيفہ پيش آيا پيغمبر اسلام (ص) كے غسل و كفن ميں مصروف نہ تھے، اس لئے كہ پھلي بات تو يہ كہ صحيح روايات كا كھنا ھے كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئي اور دوسري روايات يہ بتاتي ھيں كہ حضرت علي عليہ السلام جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين تھے۔
در حقيقت يہ اعتراض بالكل بے بنياد اور حقيقت سے بھت دور ھے اور اس كي دونوں دليليں باطل ھيں اس سے پھلے كہ ھم اس اعتراض كي دونوں دليلوں كے بارے ميں بحث كريں اس نكتہ كي طرف اشارہ كرنا ضروري سمجھتے ھيں كہ اگر پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين سے مراد ان كا غسل و كفن ھے تو يقيني طور پر اس كام كو حضرت علي (ع) ھي نے انجام ديا تھا جس ميں جناب عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس اور چند خاص افراد نے آپ كي مدد كي تھى، اگر چہ يہ بات اتني واضح ھے كہ جس كے لئے كسي دليل كي ضرورت نھيں ليكن نمونہ كے طور پر چند مقام كو بيان كرتے ھيں۔
1۔ ابن ھشام نے "السيرة النبويہ" 216 ميں واضح طور پر كھا ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كو حضرت علي (ع) نے غسل ديا۔
2۔ بلاذري نے "انساب الاشراف" 217 ميں بھت سي روايات ذكر كي ھيں اور تمام روايتيں اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ حضرت علي عليہ السلام نے ھي پيغمبر كو غسل ديا تھا اور اسي طرح ايك روايت (جو ابو مخنف كي روايت كي تائيد كرتي ھے) وہ ھے جس ميں كھا گيا ھے كہ جب علي ابن ابي طالب عليہ السلام اور عباس، پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين ميں مشغول تھے تو دو آدمي آئے اور ابوبكر كو سقيفہ كي كاروائي كي اطلاع دي 218۔
3۔ ابن جوزي نے "المنتظم" 219 ميں پيغمبر اسلام (ص) كے غسل كي جزئيات كو مكمل تفصيل كے ساتھ بيان كيا ھے جسے حضرت علي عليہ السلام نے انجام ديا تھا۔
4۔ يعقوبي 220 نے بھي عتبہ بن ابي لھب كا حضرت علي عليہ السلام كے بارے ميں يہ شعر نقل كيا ھے "ومن لہ جبرئيل عون لہ في الغسل والكفن" يعني حضرت علي عليہ السلام وہ ھيں كہ پيغمبر (ص) كے غسل و كفن ميں جبرئيل ان كے مددگار تھے۔
5۔ ابن اثير نے بھي پيغمبر (ص) كے غسل دينے والوں ميں حضرت علي عليہ السلام، عباس، فضل، قثم، اسامہ بن زيد اور شقر ان كا نام ليا ھے 221۔
لھٰذا اس بات ميں ذرہ برابر بھي شك و شبہ كي گنجائش نھيں كہ حضرت علي عليہ السلام نے ھي خاص افراد كے ساتھ مل كر پيغمبر (ص) كو غسل ديا تھا۔
لھٰذا يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ خود معترض اور ھر وہ محقق جو تاريخ كے بارے ميں ذرا بھي معلومات ركھتا ھو وہ اس حقيقت سے انكار نھيں كرسكتا، اب اس نكتہ كي طرف توجہ كے بعد اعتراض كرنے والے كي دونوں دليلوں كے بارے ميں بحث و تبصرہ كرتے ھوئے ان كا حال معلوم كرتے ھيں۔
پھلي دليل: اعتراض كرنے والے كا كھنا ھے كہ صحيح روايات كے مطابق پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى، لھٰذا ابو مخنف كي روايت ميں جو يہ بات موجود ھے كہ سقيفہ كے دن جو پير كا دن تھا حضرت علي عليہ السلام پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين ميں مشغول تھے يہ بھت سي روايات سے تعارض ركھنے كي وجہ سے قابل قبول نھيں ھے۔
ليكن جب ھم نے معترض كے كلام كے ثبوت ميں حاشيے پردئے گئے ان كے حوالوں كے مطابق سيرۂ ابن ھشام كي طرف رجوع كيا تو وھاں اس قسم كي كوئي روايت موجود نہ تھي كہ جو يہ بيان كر رھي ھو كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى بلكہ ابن ھشام نے ايك جگہ يہ كھا ھے 222 كہ "لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن رسول خدا (ص) كي تجھيز و تدفين كے لئے گئے" يہ وھي مضمون ھے كہ جسے معترض نے ابن اسحاق سے بھي نقل كيا ھے جس كي عربي عبارت يہ ھے۔ "لمّا بويع ابوبكر اقبل الناس علي جھاز رسول اللہ يو الثلاثا، طبري اور دوسرے افراد نے بھي اسي قسم كا مضمون نقل كيا ھے۔
يہ جملہ معترض كے دعوے كے برعكس يہ بيان كرتا ھے كہ لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن تجھيز پيغمبر (ص) كي طرف متوجہ ھوئے اور اس كے لئے پھنچے اور اس ميں اس بات كا ذكر نھيں ھے
كہ پھنچنے كے بعد انھوں نے كيا كيا، جو شخص كچھ بھي سمجھدار ھوگا وہ بآساني جان لے گا كہ معترض كے جملے "پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى" اور ابن اسحاق، ابن ھشام اور دوسرے افراد كے اس جملے ميں "لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے پھنچے" ميں كس قدر فرق ھے اور يہ نھايت افسوس كي بات ھے! (كہ مطلب كو موڑ توڑ كے پيش كيا گيا) اب روايت كے مضمون كي روشني ميں يہ بيان كرتے ھيں كہ روايت جو چيز بيان كرتي ھے وہ يہ ھے كہ لوگ ابوبكر كي بيعت كے بعد منگل كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين كے لئے پھنچے، ليكن اس چيز كو بيان نھيں كرتي كہ لوگ كس حد تك تجھيز و تكفين ميں حصہ لے سكے، اب جب كہ يہ بات روشن ھے كہ پيغمبر (ص) كو حضرت علي عليہ السلام نے غسل ديا تھا تو اس سے كھاں سے يہ بات سمجھ ميں آتي ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين ميں كوتاھي سے كام ليا اور اسے بعد كے لئے ٹال ديا؟ اور يہ كہ لوگوں كا منگل كے دن پيغمر (ص) كي تجھيز و تكفين كي طرف متوجہ ھونا كس طرح اس بات پر دليل بن سكتا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام پير كے دن پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين سے فارغ نھيں ھوئے تھے۔
اس كے علاوہ اگر دوسرے افراد پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين سے زيادہ اھم كام ميں مصروف تھے يعني وہ سقيفہ ميں حكومت كے لئے ايك دوسرے سے زور آزمائي كر رھے تھے تو حضرت علي عليہ السلام كسي بھي كام كو پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين پر ترجيح نھيں دے رھے تھے، پھر آخر كس وجہ سے وہ اس كام ميں تاخير كرتے؟ اور يہ ايسي چيز ھے كہ جسے بعض روايات سے بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ جب بعض انصار نے حضرت علي عليہ السلام سے كھا كہ اگر آپ ابوبكر سے پھلے بيعت كا مطالبہ كرتے تو كوئي بھي شخص آپ كے بارے ميں اختلاف نہ كرتا تو حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا كہ كيا تم لوگ يہ كھنا چاھتے ھو كہ ميں حكومت حاصل كرنے كے لئے پيغمبر اسلام (ص) كے جنازے كو اسي حالت ميں چھوڑ ديتا؟! 223 اور جيسا كہ ايك روايت ميں ھے كہ جب عمر اور ان كے دوست و احباب حضرت علي عليہ السلام سے بيعت طلب كرنے كے لئے جناب فاطمہ (ع) كے دروازے پر آئے تو انھوں نے دروازے كے پيچھے سے عمر كو خطاب كرتے ھوئے كھا:
"تركتم رسول اللہ جنازة بين ايدينا وقطعتم امركم بينكم" 224 يعني رسول خدا (ص) كے جنازے كو ھمارے سامنے چھوڑ كر تم نے اپنا كام كر دكھايا، يھاں ھم اس بات سے صرف نظر كرتے ھيں كہ اس وقت خاندان رسالت پر كيا گذر رھي تھي۔
بعض مورخين كي عبارتيں بھي اسي امر كي تائيد كرتي ھيں جيسا كہ مسعودي اس بارے ميں كھتا ھے كہ "جب بعض افراد سقيفہ ميں نزاع ميں مشغول تھے تو حضرت علي عليہ السلام، عباس اور بعض دوسرے مھاجرين پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين كر رھے تھے" 225، نيز ابن ھشام كا كھنا ھے "جب ابوبكر كو سقيفہ كي كاروائي كي اطلاع دي تو اس وقت تك پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز مكمل نہ ھوئي تھى"، اس جملے كا مطلب يہ ھے كہ تجھيز شروع تو ھوچكي تھي مگر مكمل نہ ھوئي تھي 226، يہ بيان ابن ھشام كي ايك نقل كي بنا پر تھا جب كہ وہ دوسري جگہ كھتا ھے "فلما فرغ من جھاز رسول اللہ يوم الثلاثاء…" 227 يعني جب منگل كے دن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تجھيز و تكفين مكمل ھوئي ۔ ۔ ۔، يہ عبارت بھي اعتراض كرنے والے كے دعوے كے مضمون سے مطابقت نھيں ركھتي اس لئے كہ اس عبارت ميں كھا گيا ھے كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن مكمل ھوئى جب كہ معترض كا كھنا تھا كہ پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن شروع ھوئى، ان دو عبارتوں كا فرق واضح ھے اور نہ فقط يہ كہ ايك معني ميں نھيں بلكہ ممكن ھےكہ يہ آپس ميں ايك دوسرے كے معارض بھي ھوں اور عجيب بات يہ ھے كہ اعتراض كرنے والے نے ايسا مكمل واضح اور روشن بيان ھونے كے باوجود ابن ھشام كي اسي عبارت كا حوالہ ديا ھے جب كہ اگر پھلي عبارت كا حوالہ ديتا تو شايد كچھ بات بھي بنتي۔
ان تمام باتوں كے علاوہ ابن اسحاق اور ابن ھشام كي عبارتيں بنيادي طور پر آپس ميں ايك دوسرے سے معارض ھيں اور وہ روايات يہ ھيں جو يہ بيان كرتي ھيں كہ "پيغمبر (ص) اسي دن عصر كے وقت يا منگل كي شب كو دفن ھوئے" اگر ان روايات كو قبول كرليا جائے تو پھر ابن ھشام كي يہ روايت جس ميں كھا گيا ھے كہ "پيغمبر (ص) كي تجھيز و تكفين منگل كے دن مكمل ھوئى" شايد اور سند كے طور پر پيش نھيں كي جاسكتي اس لئے كہ پيغمبر (ص) اس سے پھلے دفن ھوچكے تھے۔
البتہ يہ كہ پيغمبر (ص) كس دن دفن ھوئے اس بارے ميں روايات اور اقوال بھت ھي زيادہ مختلف ھيں جس كي وجہ سے يقيني طور پر كسي نتيجہ تك پھنچنا بھت مشكل ھے البتہ بعض قرائن اور شواھد كي بناء پر بعض اقوال كو بعض پر ترجيح دي جاسكتي ھے، شيخ مفيد نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دفن ھونے كا وقت وھي پير كا دن بيان كيا ھے 228 بعض روايات ميں پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن منگل كھا گيا ھے جيسے عائشہ كي روايت، وہ كھتي ھيں كہ "ھم رسول (ص) كے دفن سے اس وقت آگاہ ھوئے جب منگل كي رات، وقت سحر بيلچوں كي آوازيں سنيں" 229، بعض ديگر افراد نے بھي پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن منگل ھي بتاتي ھے، جيسے كہ ابن اثير 230 نے اور بعض نے بدھ كے دن كو بھي پيغمبر (ص) كي تدفين كا دن كھا ھے 231
ھماري نگاہ ميں يہ قول كہ پيغمبر اسلام (ص) اسي پير كے روز يا منگل كي شب كو دفن ھوئے دوسرے اقوال پر زيادہ ترجيح ركھتا ھے اس لئے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے پير كے روز ميں وفات پائي 232 اور حضرت علي (ع) نے بغير كسي تاخير كے اپنے احباب كے ساتھ مل كر آپ كو غسل و كفن ديا، اس كے بعد آپ نے انفرادي طور پر آنحضرت كي نماز جنازہ ادا كي 233 حضرت علي عليہ السلام كے بعد آپ كے تمام دوست احباب اور اصحاب سب ھي نے ايك ايك كر كے نماز جنازہ پڑھي 234 پھر حضرت علي عليہ السلام نے ان ھي افراد كي مدد سے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے جسم اقدس كو سپرد خاك كرديا 235 اور تدفين كے بعد جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لائے اور خلافت كے غصب ھوجانے پر احتجاجاً گوشہ نشين ھوگئے اور پھر گھر سے باھر نہ آئے 236 اس كے بعد انصار اور مھاجرين ميں سے بھي بعض صحابہ سقيفہ كي كاروائي پر اعتراض كے سلسلے ميں جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين ھوگئے 237، منگل كے دن ابوبكر كي عام بيعت كے 238 بعد ابوبكر كے فرمان كے مطابق عمر چند سپاھيوں كے ھمراہ جناب فاطمہ (ع) كے دروازے پر آئے 239 تاكہ جس طرح بھي ممكن ھوسكے ان افراد سے ابوبكر كي بيعت لي جاسكے جو جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين ھيں 240۔
جو بات مسلم ھے وہ يہ كہ حضرت علي عليہ السلام اور بني ھاشم نيز پيغمبر اسلام (ص) كے بعض صحابہ نے حضرت علي عليہ السلام كي اتباع كرتے ھوئے ابوبكر كي بيعت كرنے سے انكار كرديا 241 ليكن عمر نے دھمكي دي كہ اگر بيعت نہ كي تو گھر كو آگ لگادي جائے گي 242 ايسے ميں بعض نے عمر سے كھا كہ اس گھر ميں تو جناب فاطمہ (ع) ھيں، عمر نے كھا كہ چاھے جناب فاطمہ ھي كيوں نہ ھوں 243، بعض تاريخي كتابوں ميں يہ بات ملتي ھے كہ عمر كي دھمكي كے بعد جناب فاطمہ (ع) نے گھر ميں موجود افراد كو عمر كي دھمكي سے آگاہ كرتے ھوئے انھيں اس بات پر راضي كيا كہ وہ گھر سے باھر چلے جائيں، لھٰذا انھوں نے ايسا ھي كيا اور جاكر ابوبكر كي بيعت كرلي 244 ليكن اس بات كے پيش نظر كہ گوشہ نشين افراد كي اكثريت بني ھاشم پر مشتمل تھي اور بني ھاشم نے اس وقت تك بيعت نہ كي 245 جب تك كہ حضرت علي عليہ السلام نے بيعت نہ كي اور اكثر مورخين كا كھنا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے جب تك حضرت فاطمہ (ع) زندہ رھيں بيعت نہ كي 246 لھٰذا يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ عمر نے اپني دھمكي كو عملي كر دكھايا 247 اور حضرت علي عليہ السلام كو زبردستي مسجد تك كھينچتے ھوئے لائے اور دھمكي دي كہ اگر بيعت نہ كي تو انھيں قتل كرديا جائے گا 248، ليكن جناب فاطمہ (ع) كي طرف سے حضرت علي عليہ السلام كي زبر دست حمايت كي وجہ سے ابوبكر، حضرت علي عليہ السلام كو مجبور نہ كرسكے 249، حضرت علي (ع) جب وھاں سے باھر آئے تو سيدھے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي قبر پر گئے 250۔
اس واقعہ كو ذكر كرنے كا مقصد يہ تھا كہ تاريخ كي كتابوں نے دقيق طور پر اس بات كا ذكر نھيں كيا كہ يہ واقعہ كس دن پيش آيا اور معمولاً اسے سقيفہ كے بعد ذكر كيا ھے، اب اگر يہ تمام واقعات منگل كے دن ھوئے ھيں اور حضرت علي عليہ السلام مسجد سے باھر آنے كے بعد سيدھے پيغمبر (ص) كي قبر پر گئے ھيں تو اس كا نتيجہ يہ نكلتا ھے كہ پيغمبر (ص) يقيني طور پر منگل سے پھلے دفن ھوچكے تھے، تو اب شيخ مفيد كے بقول يا تو آپ (ص) اسي روز يعني پير كے دن دفن ھوئے يا پھر جناب عائشہ كي روايت كے بقول آپ منگل كے دن دفن ھوئے البتہ يعقوبي 251 كے كھنے كے مطابق آپ كي وفات (نومبر يا دسمبر) ميں ھوئي اور اس زمانے ميں دن چھوٹے ھوتے ھيں اور پيغمبر (ص) كي وفات وسط روز ميں ھوئي ھے تو منگل كي شب دفن ھونے والا قول زيادہ قوي محسوس ھوتا ھے بھر حال دونوں اقوال ميں كوئي خاص فرق نھيں ھے۔
پھلے اعتراض كے جواب ميں اس وضاحت كے بعد اس اعتراض كا جواب بھي روشن ھوجاتا ھے كہ "جناب علي عليہ السلام جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين تھے" اس لئے كہ ھم نے يہ ثابت كرديا كہ حضرت علي عليہ السلام تجھيز و تكفين كے بعد جناب فاطمہ (ع) كے گھر گوشہ نشين ھوئے تھے اور آپ نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے غسل و كفن ميں كسي بھي قسم كي تاخير اور كوتاھي نھيں كي تھي اور اس سلسلے ميں ھم نے بھت سے شواھد آپ كے سامنے پيش كردئے۔
اب ھم اعتراض كرنے والوں سے سوال كرتے ھيں كہ آپ كے پاس كيا دليل ھے كہ حضرت علي عليہ السلام پيغمبر (ص) كے غسل و كفن اور دفن سے پھلے ھي جناب فاطمہ (ع) كے گھر ميں گوشہ نشين ھوگئے تھے، اب چاھے وہ كسي بھي وجہ سے ھو، چاھے ابوبكر كي بيعت پر اعتراض كے سلسلے ميں يا بعض روايات 252 كے مطابق قرآن كي جمع آوري كے سلسلے ميں تو پھر ايسے ميں پيغمبر (ص) كو كس نے غسل ديا؟!
جو چيز مسلم و ثابت ھے وہ يہ ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كو حضرت علي عليہ السلام نے غسل و كفن ديا اور دفن كيا اب اگر پيغمبر (ص) كے غسل سے پھلے ھي آپ ابوبكر كي بيعت پر اعتراض كي وجہ سے جناب فاطمہ (ع) كے گھر گوشہ نشين تھے تو مشھور يہ ھے كہ جناب فاطمہ (ع) كي وفات تك آپ نے ابوبكر كي بيعت نھيں كي تو ذرا سوچئے كہ اس وقت تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے جنازہ پر كيا گذري ھوگى؟ كيا اس وقت تك غسل و كفن اور دفن انجام نہ پايا تھا اور اگر يہ سب كام ھوچكا تھا تو پھر اسے كس نے انجام ديا تھا؟
--------------
173. كتاب مرويات ابي مخنف في تاريخ الطبرى، يہ كتاب "يحيٰ بن ابراھيم بن علي يحييٰ" نے ڈاكٹر اكرم ضياء العمري كے زير نظر لكھي اور 1410 ھجري قمري ميں دار العاصمہ رياض ميں چھپي ھے۔
174. ايسا معلوم ھوتا ھے كہ ابي مخنف كي روايت پر كئے گئے اعتراضات در حقيقت ايك خاص راوي كے بارے ميں ايك خاص شخص كے اعتراض نھيں ھيں بلكہ يہ اھل سنت كے ايك خاص گروہ كا كام ھے جو ھميشہ اس كوشش ميں لگا رھتا ھے كہ شيعوں كے ھر نظريہ كو كمزور قرار ديا جائے اور كيونكہ اھل تشيع كي اكثر تاريخي روايات كا تعلق ابو مخنف سے ھے لھٰذا ابو مخنف كي روايات كو ضعيف ثابت كر كے وہ اپنے مقصد تك پھنچنا چاھتے ھيں۔
176. الامامة والسياسة: ج1 ص21
177. السقيفہ و فدك جوھرى: ص54، شرح نھج البلاغہ ابن ابي الحديد ج6 ص5
178. الكامل في التاريخ: ج2 ص12۔
180. كتاب المجروحين: ج2 ص91 (وہ ايك غالي شيعہ ھيں)
182. معجم الادباء: ج6 ص2779۔
183. مسند احمد بن حنبل: ج1ص 198 (حديث 18)
184. منھاج السنہ: ج1 ص536
185. مرويات أبي مخنف في تاريخ الطبرى: ص166
186. الكتاب المصنف: ج7 ص433 (حديث 40، 380)
188. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص182۔
190. مرويات ابي مخنف في تاريخ الطبرى: ص9۔
191. الكامل في ضعفاء الرجال: ص241 " و انما لہ من الاخبار المكروہ الذي لا استحب ذكرہ"
192. الكامل في التاريخ: ج2 ص12۔
193. تھذيب الكمال: ج1 ص3۔ 492
194. الجرح والتعديل: ج4 ص56۔
195. سيرہ اعلام النبلاء: ج1 ص4۔ 583
197. تاريخ طبرى: ج2 ص203۔ 403، السيرة النبوة: ابن ھشام ج4 ص309، الكامل في التاريخ: ج2 ص11، انساب الاشراف ج2 ص767، المنتظم: ج4 ص64، صحيح البخاري ج4 ص345 (حديث 6830)، مسند احمد بن حنبل: ج1 ص449 (حديث391)
198. سقيفہ سے متعلق عمر كا خطبہ۔
199. انساب الاشراف: ج2 ص766۔
202. مسند احمد بن حنبل: ج1ص198
203. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص567۔ (حباب بن منذر كي سوانح حيات ميں)
205. مرويات ابي مخنف في تاريخ الطبرى: 116۔
206. ممكن ھے كہ كوئي يہ كھے كہ اس حديث كو ابوبكر اور سعد بن عبادہ نے سنا ھوگا اور دوسرے افراد اس سے بے خبر تھے تو ھم جواب ميں كھيں گے كہ ھرگز ايسا نہ تھا، اس لئے كہ پھلي بات تو يہ كہ اگر اس حديث پر عمل كرنا سب پر لازم تھا تو پيغمبر (ص.نے اس حكم كو سب كے لئے كيوں بيان نہ كيا، دوسري بات يہ كہ اگر سعد بن عبادہ اس بات كو جانتے تھے تو پھر سقيفہ ميں كيوں حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے؟ تيسري بات يہ كہ آخر سعد بن عبادہ نے ابوبكر سے پھلے ھي اس حديث كو لوگوں كے سامنے كيوں نہ بيان كيا؟ مختصر يہ كہ اس قسم كا دعويٰ در حقيقت پيغمبر اسلام (ص.پر اپني رسالت كے سلسلے ميں كوتاھي كرنے كي تھمت اور بعض صحابہ كي توھين ھے كہ وہ رياست طلب تھے اور وہ بھي ان لوگوں كي طرف سے جو توھين صحابہ كو توھين پيغمبر (ص.سمجھتے ھوں۔
207. مسند احمد بن حنبل: ج1 ص282 (حديث 133)
208. مسند احمد بن حنبل: ج1 ص198۔
209. مرويات أبي مخنف في تاريخ الطبرى: ص115، )ھيثمي نے مجمع الزوائد ميں اسے نقل كرتے ھوئے اس كي سند كے ايك راوي كو ضعيف كھا ھے)
210. الكتاب المصنف: ج7 ص433 (حديث 40، 37)
211. "فقالوا: نخاف الاشرہ"
212. الطبقات الكبريٰ: ج3 ص182۔
213. الكامل في التاريخ: ج2 ص10۔ تاريخ الطبرى: ج3 ص202
214. التنبيہ والاشراف: ص247
216. السيرة النبويہ: ج4 ص312
217. انساب الاشراف: ج2 ص747، 748، 752، 764
219. ج4 ص44، 45، 29
220. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124
222. السيرة النبويہ: ج4 ص312۔
223. السقيفہ وفدك:ص 615، شرح نھج البلاغہ ابن ابي الحديد: ج6 ص13، الامامة والسياسة: ص30۔
224. الامامة والسياسة: ص30۔
225. التنبيہ والاشراف: ص247۔
226. السيرة النبويہ: ج4 ص307۔
227. السيرة النبويہ: ج4 ص314۔
228. الارشاد؛ ج1 ص198 "وكان ذلك في يوم الاثنين" اور اس كے ذيل ميں فرماتے ھيں "جب ابوبكر كي بيعت ھوچكي تو ايك شخص امير المومنين عليہ السلام كے پاس آيا اس وقت آپ پيغمبر اسلام (ص)كي قبر بنانے ميں مصروف تھے، اس نے امير المومنين (ع.سے كھا كہ لوگوں نے ابوبكر كي بيعت كي ھے"
229. المنتظم: ج4 ص49؛ الطبقات الكبريٰ: ج2 ص305 (البتہ جناب عائشہ سے ايك اور روايت بھي نقل ھوئي ھے جس ميں كھا گيا ھے كہ آپ كي تدفين شب بدھ كو ھوئي)
230. الكامل في التاريخ: ج2 ص15۔
232. جيسا كہ ابو مخنف كي روايت ميں تھا اور ھم نے اسے حصہ سوم ميں ثابت بھي كيا تھا۔
233. الارشاد: ج1 ص187۔ انساب الاشراف: ج2 ص755۔ الطبقات الكبريٰ: ج2ص9، 288۔
234. الارشاد: ج1 ص187۔
235. المنتظم: ج4 ص49، انساب الاشراف: ج2 ص757، تاريخ الطبرى: ج3 ص213 (ابن اسحاق كي نقل كے مطابق)
236. انساب الاشراف: ج2 ص769 (أبي نضرہ سے)
237. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124۔
238. تاريخ خليفہ بن خياط: ص62۔ مروج الذھب: ج2 ص301۔ المنتظم: ج4 ص64 نقل از ابن اسحاق۔
239. السقيفہ و فدك: ص50، 60۔
241. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124۔ مروج الذھب: ج2 ص301۔ الكامل في التاريخ: ج2 ص14 نقل از زھرى۔
242. انساب الاشراف: ج2 ص770۔ الامامة والسياسة: ص30۔ تاريخ الطبرى: ج3 ص202۔
243. الامامة والسياسة: ص30۔
244. السقيفہ و فدك: ص38۔
245. مروج الذھب: ج2 ص301۔ الكامل في التاريخ: ج2 ص14 نقل از زھرى
246. انساب الاشراف: ج2 ص770۔ مدائني نے جناب عائشہ سے نقل كيا ھے۔ مروج الذھب: ج2 ص301، 302۔ الكامل في التاريخ: ج2 ص10 اور 14۔
247. اس احتمال كي تائيد ميں بھت سي روايات بھي موجود ھيں جس كے لئے كتاب "مآساة الزھرا" علامہ جعفر مرتضيٰ عاملي كي طرف رجوع كيا جاسكتا ھے۔
248. الامامة والسياسة: ص30
249. الاماة والسياسة: ص31
251. تاريخ يعقوبى: ج2 ص113
252. انساب الاشراف: ج2 ص770۔ السقيفہ و فدك: ص64۔
|