سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
حضرت علي (ع) كي جانشيني كے سلسلے ميں ابلاغ وحي كي كيفيت
سورہ (اذا جاء نصر اللہ والفتح) 74 نازل ھونے كے بعد پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس قسم كے جملے ادا كررھے تھے جن سے ايسا محسوس ھوتا تھا كہ اب آپ كي وفات كے دن نزديك ھيں 75 نيز حجة الوداع ميں آپ (ص) خطبات ميں صريحي يا غير صريحي طور پر اپني وفات كے نزديك ھونے سے باخبر كر رھے تھے 76، تو ايسي صورت ميں يہ ايك طبيعي و فطري بات تھي كہ لوگوں كے ذھن ميں يہ سوال پيدا ھو كہ پيغمبر (ص) كے چلے جانے كے بعد مسلمانوں كے امور كس كي زير قيادت انجام پائيں گے اور آئندہ كا لائحہ عمل كيا ھوگا؟ ظاھري طور پر ھر قوم و قبيلے كي يھي كوشش تھي كہ پيغمبر اسلام (ص) كا جانشين ان ميں سے ھو اور اس سلسلے ميں وہ اپنے آپ كو اس امر كا زيادہ سزاوار سمجھتے تھے اور اسي فكر ميں ڈوبے رھتے تھے۔ اگر چہ پيغمبر اسلام (ص) مواقع پر حضرت علي (ع) كي جانشيني كا اعلان كر چكے تھے 77 ليكن اب تك جو اعلان ھوا تھا معمولاً وہ بھت ھي كم افراد كے سامنے ھوا لھٰذا غدير خم پر يہ وحي آئي كہ اس بارے ميں ھر قسم كے شك و شبہ كو دور كرديا جائے اور حضرت علي عليہ السلام كي جانشيني كا واضح اعلان كيا جائے، وحي كے نزول كے بعد پيغمبر اسلام (ص) مناسب موقع كي تلاش ميں تھے تاكہ اس پيغام كو تمام لوگوں تك پھونچايا جاسكے ليكن چونكہ پيغمبر اسلام (ص) اس وقت كے ماحول سے اچھي طرح واقف تھے لھٰذا ايسے ماحول كو ابلاغ وحي كے لئے مناسب نھيں سمجھتے تھے اور اس انتظار ميں تھے كہ پھلے اچھي طرح ميدان ھموار ھوجائے اور نھايت مناسب موقع ملتے ھي وحي كے اس پيغام كو پھونچا ديا جائے، البتہ اس بات كي طرف بھي اشارہ ضروري ھے كہ وحي الھي نے صرف حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور جانشيني كے اعلان كا حكم ديا تھا اور اس كے اعلان كے لئے مناسب موقع كو پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو صوابديد پر چھوڑ ديا تھا 78 اب اگر بعض روايات 79 اس بات كي نشاندھي كرتي ھوں كہ پيغمبر اسلام (ص) ابلاغ وحي كے سلسلے ميں تاخير سے كام لے رھے تھے تو اس كا مقصد ھر گز كوتاھي نھيں ھے جيسا كہ شيخ مفيد (رح) فرماتے ھيں كہ پيغمبر (ص) پر پہلے ھي وحي نازل ھوگئي تھي ليكن اس كا وقت معين نھيں كيا گيا تھا لھذا پيغمبر اسلام (ص) ايك مناسب موقع كي تلاش ميں تھے اور جب غدير خم كے مقام پر پھنچے تو آيۂ تبليغ نازل ھوئي 80 اور يہ كہ اس سلسلے ميں پہلے ھي وحي آچكي تھي اور پيغمبر اسلام (ص) مناسب موقع كي تلاش ميں ھے اس كے لئے آيۂ تبليغ 81 خود منہ بولتا ثبوت ھے اس لئے كہ آيت ميں كھا گيا ھے "اے رسول (ص) جو كچھ آپ پر وحي كي جاچكي ھے اسے پھونچاديں" اور اس كے بعد آيت تھديد كرتي ھے كہ اگر اس كام كو انجام نہ ديا تو رسالت كا كوئي كام انجام نہ ديا يعني يقيني طور پر اس سلسلے ميں آپ پر پہلے كوئي وحي ضرور نازل ھوئي ھے جب ھي تو آيت ميں كھا گيا ھے كہ جو كچھ آپ پر نازل كيا جاچكا ھے اسے پھونچا ديجئے اور آيت ميں جو تھديد موجود ھے اس سے يہ بات ظاھر ھوتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) اسباب كي بنا پر ابلاغ وحي كو مناسب موقع كے لئے چھوڑے ھوئے تھے اور اس كے بعد آيت ميں ارشادِ قدرت ھے ( ( واللہ يعصمك من الناس)) "يعني خدا آپ كو دشمنوں كے شر سے محفوظ ركھے گا"۔
اس آيت اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ابلاغ وحي كي كيفيت پر غور كرنے سے يہ سوال پيدا ھوتا ھے كہ آخر اس وقت كس قسم كے حالات در پيش تھے اور معاشرہ كس نھج پر تھا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ابلاغ وحي ميں مناسب موقع تك تاخير كردى؟ اگر اس سوال كا صحيح اور درست جواب مل جائے تو اس سلسلے ميں اٹھنے والے بھت سے شبھات اور سوالات كا جواب ديا جاسكتا ھے اور ھميں اس وقت كے مسلمانوں كے سماجي اور سياسي حالات كے بارے ميں كافي حد تك معلومات ھوسكتي ھيں۔
تو آيئے ان سوالات كے صحيح جوابات جاننے كے لئے ھم اس دور كے مسلمانوں كے كچھ اھم سياسي اور سماجي حالات كے بارے ميں بحث اور تحقيق كرتے ھيں۔

1۔ نئے مسلمانوں كي اكثريت
اگر چہ پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات ميں مسلمانوں كي تعداد اپنے عروج پر پھنچ چكي تھي مگر ان ميں اكثريت نئے مسلمانوں كي تھى، اگر چہ ان ميں ايسے افراد بھي تھے جو پختہ ايمان ركھتے تھے ليكن ايسے افراد كي تعداد ان افراد كے مقابلے كچھ بھي نہ تھي جو صلابتِ ايماني كے مالك نہ تھے 82 اس لئے كہ بعض افراد اپنے مفاد كي خاطر مسلمان ھوئے تھے تو بعض اقليت ميں رہ جانے كي وجہ سے اور ان كے پاس مسلمان ھونے كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا، اور بعض افراد ايسے بھي تھے جو آخري دم تك اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رھے اور جب لڑنے كے قابل نہ رھے تو پھر دوسرا راستہ اپنا ليا۔ ابوسفيان اور اس كے ماننے والے اسي قسم كے افراد تھے اور فتح مكہ ميں ان كا شمار طلقا (آزاد شدہ) ميں ھوتا تھا لھٰذا ايسي صورت حال ميں واضح سي بات ھے كہ اس امر عظيم كو پھونچانا كوئي آسان كام نہ تھا بلكہ يہ بھت سي مشكلات كا پيش خيمہ بن سكتا تھا۔

2۔ مسلمانوں كے درميان منافقين كا وجود
پيغمبر اسلام (ص) كے دور ميں ايك سب سے بڑي مشكل مسلمانوں كے درميان منافقين كا وجود تھا يہ گروہ ظاھري طور پر مسلمان تھا مگر باطني طور پر اسلام پر كسي قسم كا اعتقاد نہ ركھتا تھا بلكہ موقع ملتے ھي اسلام كو نقصان پھونچاتا اور مسلمانوں كي گمراھي كا سبب بنتا۔
قرآن كريم نے اس سلسلے ميں سوروں ميں سخت ترين لھجہ ميں ان سے خطاب كيا ھے جيسے سورہ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، توبہ، عنكبوت، احزاب، فتح، حديد، حشر اور منافقون نيز مجموعي طور پر قرآن ميں سينتيس مقامات پر كلمۂ نفاق استعمال ھوا ھے۔
يہ افراد جن كي تعداد جنگ احد ميں تمام مسلمانوں كي ايك تھائي تھي "عبد اللہ بن ابى" كي سر كردگي ميں جنگ كرنے سے الگ ھوگئے اور مسلمانوں ميں تفرقہ كا باعث بنے كہ سورۂ منافقون انھيں لوگوں كے بارے ميں نازل ھوا ھے 83 اب آپ خود سوچيں كہ جب كہ نہ ابھي اسلام كے اس قدر طرفدار موجود ھيں اور نہ اس كے پاس كوئي خاص اقتدار ھے اور اعتقاد كو چھپانے كا بھي كوئي خاص مقصد دكھائي نھيں ديتا اس كے باوجود مسلمانوں كي كل آبادي ميں سے ايك تھائي تعداد منافقين كي تھي تو اب آپ اندازہ لگائيں كہ جب اسلام مكمل طور سے بر سر اقتدار آگيا اور سارے جزيرة العرب پر چھا گيا تھا تو ان كي تعداد كس قدر بڑھ چكي ھوگي۔
پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھميشہ اس گروہ كي مخالفت سے دوچار رھتے تھے اور خاص طور پر حجة الوداع ميں يہ تمام افراد پيغمبر اسلام (ص) كے ساتھ تھے اور يہ بات واضح و روشن تھي كہ يہ لوگ كسي بھي صورت حضرت علي عليہ السلام كي خلافت كو قبول نہ كرينگے اور فتنہ و فساد پھيلائيں گے اور امنيت خطرہ ميں پڑ جائے گي اور اس طرح خود اسلام اور قرآن كو نقصان پھنچے گا لھٰذا ايسي صورت حال كے پيش نظر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا فكر مند ھونا خالي از امكان نہ تھا۔
پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات تك منافقين كے وجود سے انكار نھيں كيا جاسكتا يھاں تك كہ عمر آپ كي وفات كا انكار كرتے ھوئے يہ كہہ رھے تھے كہ كچھ منافقين يہ خيال كر رھے ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) وفات پاگئے ھيں 84 اور اسي طرح بعض تاريخي كتابيں اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ اسامہ كے جوان ھونے پر اعتراض كر كے ان كي سرداري سے انكار كرنے والے افراد منافقين ھي تھے 85، يہ گروہ پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي ميں آپ كا بدترين دشمن سمجھا جاتا تھا ليكن نھيں معلوم آخر كيا ھوا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد خلفاء ثلاثہ كے لئے كسي قسم كي مشكل پيش نہ آئي اور يہ گروہ ايك دم سے غائب ھوگيا۔ كيا پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد يہ سب كے سب ايك دم بالكل سچے مسلمان ھوگئے تھے يا كوئي مصلحت ھوگئي تھي يا پھر ايسے افراد بر سر اقتدار آگئے تھے كہ جو منافقين كے لئے كسي بھي طرح مضر نہ تھے؟!

3۔ بعض افراد كي حضرت (ع) سے كينہ پرورى
عربوں كي ايك نماياں خصلت كينہ پروري ھے 86 اور اس بات كے پيش نظر كہ حضرت علي (ع) نے ابتداء اسلام ھي سے متعدد جنگوں ميں شركت كي اور بھت سے افراد آپ كے دست مبارك سے قتل ھوئے اور ان مقتولين كے ورثاء مسلمانوں كے درميان موجود تھے اور يہ افراد شروع سے ھي اپنے دلوں ميں حضرت علي عليہ السلام كي طرف سے كينہ ركھتے تھے لھٰذا يہ امكان تھا كہ يہ لوگ ھرگز آپ كي خلافت پر راضي نہ ھوں گے۔
يہ كھنا كہ يہ لوگ سچے مسلمان ھوگئے تھے اور انھوں نے ماضي كے تمام واقعات و حوادث كو بھلاديا تھا يہ اس بات كي دليل ھے كہ آپ عربوں كي خصلت سے اچھي طرح واقف نھيں ھيں خاص طور پر اس زمانے كے عربوں سے،مثال كے طور پر جب سورۂ منافقون نازل ہوا اور عبد اللہ بن ابى (جو منافقين كا سردار تھا) رسوا ھوگيا تو عبداللہ بن ابي كے بيٹے نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے عرض كي كہ آپ مجھے اجازت ديجئے كہ ميں اپنے باپ كو خود ھي قتل كردوں اس لئے كہ ميں يہ نھيں چاھتا كہ كوئي دوسرا اسے قتل كرے اور ميں اس كا كينہ اپنے دل ميں ركھوں 87، صدر اسلام ميں اس قسم كي بھت سي مثاليں موجود ھيں ليكن غور كيا جائے تو صرف يھي ايك مثال كافي ھے كہ كس طرح سے ايك آدمي اس بات پر راضي ھے كہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنے باپ كو قتل كردے ليكن كوئي دوسرا اسے قتل نہ كرے كھيں ايسا نہ ھو اس كا كينہ اپنے دل ميں لئے ركھے، اس واقعہ سے يہ بات كھل كر سامنے آتي ھے كہ بعض افراد حضرت علي عليہ السلام سے كينہ كيوں ركھتے تھے۔

4۔ حضرت علي (ع) كے جوان ھونے پر اعتراض
بعض افراد دور جاھليت كے افكار ركھنے كي وجہ سے كسي بھي صورت ميں اس بات پر راضي نہ تھے كہ وہ اپنے سے كم سن ايك جوان كي اطاعت كريں يہ لوگ ايك جوان كي حكومت كو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے، مثال كے طور پر عبداللہ بن عباس فرماتے ھيں: عمر كے دور خلافت ميں ايك روز ميں عمر كے ساتھ جارھا تھا انھوں نے ميري طرف رخ كر كے كھا كہ وہ (حضرت علي (ع)) تمام افراد ميں اس امر خلافت كے سب سے زيادہ سزاوار تھے ليكن ھم دو چيزوں سے خوفزدہ تھے ايك يہ كہ وہ كمسن ھيں اور دوسرے يہ كہ وہ فرزندان عبد المطلب كو دوست ركھتے ھيں 88، دوسري مثال يہ كہ جب حضرت علي عليہ السلام كو زبردستي ابوبكر كي بيعت كے لئے مسجد ميں پكڑ كر لائے اور ابو عبيدہ نے ديكھا كہ حضرت علي عليہ السلام كسي بھي صورت بيعت نھيں كر رھے ھيں تو اس نے حضرت علي عليہ السلام كي طرف رخ كيا اور كھا كہ آپ كمسن ھيں اور يہ آپ كي قوم كے بزرگ ھيں اور آپ ان كي طرح تجربہ كار نھيں ھيں لھٰذا ابوبكر كي بيعت كرليں اور اگر آپ آئندہ زندہ رھے تو آپ صاحب فضل و معرفت، متدين، رسول (ص) كے قريب ترين فرد ھونے كي وجہ سے اس امر كے لئے سب سے زيادہ سزاوار ھيں 89، تو حضرت علي عليہ السلام كو امر حكومت كا سب سے زيادہ سزاوار اور مناسب سمجھنے كے باوجود اس بات كو قبول كرنے پر راضي نہ تھے كہ ايك جوان ان پر حكومت كرے۔
اس چيز كا مشاھدہ زيد بن اسامہ كے لشكر ميں بھي كيا جاسكتا ھے جب پيغمبر اسلام (ص) نے اسامہ كو ايك ايسے فوجي دستہ كي سرداري كے لئے منتخب كيا كہ جس ميں قوم كے بزرگان بھي شامل تھے تو بعض افراد نے پيغمبر (ص) كے اس انتخاب پر اعتراض كيا جب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اس اعتراض كا پتہ چلا تو آپ غصہ ھوئے، منبر پر تشريف لائے اور فرمايا: كہ تم لوگ اس سے پھلے اس كے والد كے انتخاب پر بھي اعتراض كرچكے ھو حالانكہ يہ اور اس كے والد سرداري كي لياقت ركھتے تھے اور ركھتے ھيں 90۔
اگر چہ ايك لحاظ سے اس كي وجہ حسد بھي ھوسكتي ھے كيوں كہ جب ان افراد نے اس چيز كا مشاھدہ كيا كہ ايك جوان "حضرت علي (ع) " جيسا كہ جو اس قدر صلاحيت اور لياقت ركھتا ھے كہ رسول خدا (ص) كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ھے اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے چلے جانے كے بعد يھي جوان ھمارا امير اور حاكم ھوگا تو شدت سے آپ سے حسد كرنے لگے۔

5۔ پيغمبر اسلام (ص) كے احكام كي نافرمانى
مسلمانوں كے درميان بعض ايسے افراد بھي تھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي اطاعت بعض شرائط كے ساتھ كيا كرتے تھے جب تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اطاعت ان كے لئے مضر نہ ھوتو كوئي بات نھيں ليكن اگر آپ (ص) كوئي ايسا حكم ديتے كہ جو ان كي خواھشات كے مطابق نہ ھوتا يا يہ كہ وہ اپني ناقص عقل سے اس كي مصلحت درك نھيں كرپاتے تھے تو كھلے عام يا مخفي طور پر اس سے سرپيچي كرتے تھے، مثال كے طور پر حجة الوداع كے موقع پر كچھ فرائض كو انجام دينے سے بعض افراد نے مخالفت كى، پيغمبر اسلام (ص) نے حج كے دوران فرمايا: اگر كوئي شخص اپنے ساتھ قرباني كے لئے جانور نھيں لايا تو وہ اپنے حج كو عمرہ ميں تبديل كردے اور جو اپنے ساتھ جانور لائے ھيں وہ اپنے احرام پر باقي رھيں، بعض افراد نے اس امر كي اطاعت كي اور بعض افراد نے مخالفت كي 91 اور ان مخالفين ميں سے ايك عمر بھي تھے 92 اور اس كي دوسري مثال صلح حديبيہ كے موقع پر عمر كا اعتراض كرنا ھے 93 ، اسي كي ايك اور مثال اسامہ كي سرداري پر اعتراض 94 اور ان كے ساتھ جانے سے انكار كرنا ھے جب كہ پيغمبر اسلام (ص) بار بار اس امر كي تاكيد كر رھے تھے كہ مھاجرين اور انصار سب كے سب اسامہ كے لشكر كے ساتھ مدينہ سے باھر چلے جائيں ليكن بعض بزرگ مھاجرين نے بھانے بنا كر اس امر كي مخالفت كي 95 يھاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) نے ان لوگوں پر لعنت بھي كي جنھوں نے آپ كے اس حكم كي مخالفت كرتے ھوئے اسامہ كے لشكر ميں شركت نھيں كي 96۔
نيز اس كي ايك اور مثال نوشتہ لكھنے كا واقعہ ھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات ميں پيش آيا 97، پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا كہ قلم اور دوات لے آؤ تاكہ تمھارے لئے ايك ايسي چيز لكھ دوں جس كے بعد تم لوگ گمراہ نہ ھوگے! ليكن عمر نے كھا كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھذيان بك رھے ھيں بعض روايات ميں يہ بھي ھے كہ بعض افراد نے كھا كہ بات وھي قابل قبول ھے جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے كھي ھے اور بعض نے كھا كہ عمر صحيح كہہ رھے ھيں 98 يہ واقعہ اس بات كي دليل ھے كہ عمر اور بعض دوسرے افراد پيغمبر (ص) كے امر كي مخالفت كرتے ھوئے آپ (ص) پر ھذيان كي تھمت لگا رھے تھے!!! جس كے بارے ميں قرآن نے صريحي طور پر فرمايا: "ما ينطق عن الھويٰ" 99۔
گذشتہ بيان كي روشني ميں اس بات كو اچھي طرح سمجھا جاسكتا ھے كہ آخر پيغمبر اسلام (ص) ابلاغ وحي كے سلسلے ميں كسي مناسب موقع كي كيوں تلاش ميں تھے؟ يقيناً صرف اس لئے كہ پيغمبر اسلام (ص) مسلمانوں كے حالات سے اچھي طرح واقف تھے كہ وہ ان كي مخالفت كريں گے يعني اگر وہ حضرت علي عليہ السلام كي جانشيني اور خلافت كا اعلان كريں تو بعض لوگ كھلم كھلّا پيغمبر كے مد مقابل آجائيں گے اور ھرگز اس امر پر راضي نہ ھونگے ليكن آيۂ تبليغ كے آخر ميں خداوند عالم نے پيغمبر اسلام (ص) كو اطمينان دلايا كہ خداوند عالم آپ كو محفوظ ركھے گا يعني خدا آپ (ص) كو لوگوں كے شر اور ان كي علني مخالفت سے محفوظ ركھے گا۔ اس بات كي تائيدہ وہ روايت كرتي ھے جو جابر بن عبداللہ انصاري اور عبداللہ بن عباس سے تفسير عياشي ميں نقل ھوئي ھے "فتخوّف رسول اللہ ان يقولوا حامىٰ ابن عمّہ وان تطغوا في ذلك عليہ" 100 يعني پيغمبر (ص) كو اس بات كا خطرہ تھا كہ لوگ كھيں گے كہ پيغمبر (ص) نے يہ كام اپنے چچا زاد بھائي كي حمايت ميں كيا ھے اور اس طرح سركشي كريں گے، اگر چہ بعض 101 نسخوں ميں "حامى" كي جگہ خابيٰ اور "تطغوا" كي جگہ يطعنوا آيا ھے كہ ايسي صورت ميں كھا جاسكتا ھے كہ پيغمبر (ص) كا خوف لوگوں كے طعنوں كي وجہ سے تھا، اگر يہ لفظ بھي ھو تو تب بھي ھماري گذشتہ بات پر دلالت كرتا ھے ليكن يہ چيز بعيد ھے كہ پيغمبر محض لوگوں كے طعنوں سے بچنے كي خاطر ابلاغ وحي كو كسي مناسب موقع كے لئے ٹال رھے ھوں، ظاھراً تطغوا والي عبارت زيادہ صحيح ھے، يعني پيغمبر (ص) كو علني مخالفت اور سركشي كا خطرہ تھا۔
ھماري اس وضاحت كے بعد اس اعتراض كا جواب بھي ديا جاسكتا ھے كہ اگر آيت كي مراد يہ تھي كہ ولايت علي (ع) كا اعلان كرو اور پھر خدا نے پيغمبر (ص) كو لوگوں كے شر سے محفوظ ركھنے كا وعدہ بھي كيا تھا تو پھر كيونكر حضرت علي (ع) پيغمبر (ص) كي وفات كے بعد خلافت پر نھيں پھنچ پائے مگر كيا ممكن ھے كہ خدا كا وعدہ پورانہ ھو ؟! 102 اس كا جواب يھي ھے كہ وحي الھي نے وعدہ كيا تھا كہ پيغمبر اسلام (ص) كو لوگوں كي كھلم كھلا مخالفت اور سركشي سے محفوظ ركھے گا اور ايسا ھي ھوا جيسا كہ روايات غدير اس بات كي شاھد ھيں۔
اس كے علاوہ يہ كہ آيت ميں كھا گيا ھے "واللہ يعصمك من الناس" يعني خدا آپ (ص) كو لوگوں كے شر سے محفوظ ركھے گا اور اس سے مراد بھي وھي ھے جو بيان كيا جاچكا ھے كہ خدا رسول (ص) كو لوگوں كي علني مخالفت سے محفوظ ركھے گا اور آيت ميں يہ نھيں كھا گيا "واللہ يعصمہ من الناس" كہ خدا اسے (يعني حضرت علي عليہ السلام كو) لوگوں كے شر سے محفوظ ركھے گا كہ ھم اس آيت كو حضرت علي عليہ السلام كي ظاھري خلافت كے لئے وعدہ الھي قرار ديديں۔

6۔ غدير خم كے بعد اھل بيت (ع) كے خلاف سازشيں
غدير كے واقعہ نے مسلمانوں اور اسلامي معاشرہ كے لئے واضح طور پر ان كے آئندہ كا وظيفہ بيان كرديا تھا، جو لوگ خدا اور رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مطيع و فرمانبردار تھے انھوں نے اسے دل و جان سے قبول كرليا اور جو لوگ اندروني طور پر اس كے مخالف تھے مگر اس وقت اس كا اظھار كرنے كي قوت نہ ركھتے تھے انھوں نے بھي ظاھري طور پر اسے قبول كرليا اور حضرت علي (ع) كو ان كي جانشيني پر مبارك باد پيش كي اور اس كي واضح مثال ابوبكر اور عمر كا وہ معروف جملہ ھے "بخٍ بخٍ لك يا بن أبي طالب" ۔ 103
جو لوگ حضرت كي جانشيني اور خلافت كے مخالف تھے اور حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اگر چہ ظاھري طور پر اسے قبول كرچكے تھے مگر باطني طور پر بھت سخت پريشان اور فكر مند تھے اور ھر ممكن كوشش كر رھے تھے كہ كسي بھي طرح حضرت علي (ع) كو راستے سے ھٹا كر خود حكومت پر قابض ھوجائيں اور اس بات پر بھت سے شواھد موجود ھيں جن ميں سے بعض كي طرف ھم اشارہ كر رھے ھيں۔
-------------
74. السيرة النبوية ابن ھشام: ج4 ص300، الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص250، 251، انساب الاشراف: ج2، ص72، نھج البلاغہ: خطبہ68، ص52۔
75. سورہ مباركہ نصر: آيت1 (جب خدا كي مدد اور فتح كي منزل آجائے گي)
76. الطبقات الكبرىٰ ج1 ص192، 193۔
77. الطبقات الكبرىٰ ج1 ص181۔
78. جيسے، حديث طير، منزلت وغيرہ۔
79. الميزان في تفسير القرآن۔ ج446
80. تفسير عياشي۔ ج1 ص360، بحار الانوار۔ ج37 ص165، جامع الاخبار۔ ص10۔
81. ارشاد۔ ج1 ص170
82. سورہ مباركہ مائدہ آيت 67
83. اس روايت كي روشني ميں جو يہ بيان كرتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص.كي وفات كے بعد لوگ مرتد ھوگئے تھے، جيسے روايت ابن اسحاق ميں ھے كہ "ارتد العرب" (عرب مرتد ھوگئے.السيرة النبوية: ابن ھشام۔ ج4 ص316۔
84. سني اور شيعہ تفاسير اس چيز كو بيان كرتي ھيں۔
85. انساب الاشراف۔ ج2ص 742
86. تاريخ طبرى۔ ج3 ص184، الكامل في التاريخ ج2 ص5۔
87. تاريخ ادبيات عرب۔ ص35۔
88. تفسير طبري۔ ج14 جز 28، ص148۔ (حديث 26482)
89. السقيفہ و فدك، ص52، 70
91. السيرة النبوية: ابن ھشام ج4 ص299، 300۔ الطبقات الكبرىٰ۔ ج1 ص190، 249، تاريخ يعقوبى۔ ج2ص13، الكامل في التاريخ۔ ج2 ص5۔
92. الطبقات الكبرىٰ۔ ج1ص187، ارشاد۔ ج1 ص174
93. ارشاد۔ ج1 ص174
94. تاريخ طبرى: ج2 ص634
95. السيرة النبوية: ابن ھشام ج4 ص299، الطبقات الكبرىٰ ج1 ص190۔
97. السقيفہ و فدك: ص74، 75۔
98. الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص244۔ انساب الاشراف۔ ج2 ص738، تاريخ طبرى۔ ج3 ص192
100. سورۂ مباركہ نجم: آيت3 (پيغمبر ھرگز اپني مرضي سے بات نھيں كرتے)۔
101. تفسير عياشي۔ ج1 ص360
102. تفسير عياشي۔ ج1 ص360 كا حاشيہ، تفسير ميزان ج6 ص54۔