تيسرا حصہ: سقيفہ كے رونما ھونے كي صورت حال
تمھيد
عام طور سے تاريخ ميں رونما ھونے والے ھر حادثہ كا پيش خيمہ كوئي نہ كوئي گذرا ھوا واقعہ ھوتا ھے بلكہ ممكن ھے كہ گذرے ھوئے واقعہ كو آئندہ واقع ھونے والے واقعہ كي علت كھا جائے، واقعۂ سقيفہ اگر چہ ايك اتفاق اور ناگھاني حادثہ تھا ليكن گذشتہ عوامل اس كے وقوع پذير ھونے ميں مؤثر تھے۔
روايت ابي مخنف خود اس اھم واقعہ كو تو بيان كرتي ھے مگر اس كے عوامل و اسباب كي طرف كوئي اشارہ نھيں كرتي يا بھتر ھے كہ يہ كھا جائے كہ تاريخ طبرى نے ابو مخنف كي كتاب سقيفہ ميں سے صرف اسي حصہ كو نقل كيا ھے اور اگر ھمارے پاس خود اصلي كتاب موجود ھوتي تو شايد اس كے پھلوؤں سے مزيد واقفيت ھوتي بھر حال ھر محقق اصل واقعہ كو بيان كرنے سے پھلے اس كے علل و اسباب كي تلاش ميں رھتا ھے اور اجمالي طور پر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانے كے حالات و واقعات سے آگاھي ذھن ميں اعتراضات كا سبب بنتي ھے خاص طور پر جب واقعہ غدير پر نظر كي جائے، اس لئے كہ حديث غدير كا شمار متواتر احاديث ميں ھوتا ھے 61 كہ شيعہ اور سني اس پر اتفاق نظر ركھتے ھيں كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے 10 ھجري ميں حجة الوداع كے بعد اٹھارہ ذي الحجہ كو غدير خم كے مقام پر تمام افراد كو ٹھرنے كا حكم ديا اور پھر ايك طويل خطبہ پڑھا اور فرمايا "من كنت مولاہ فعلي مولاہ" جس كا ميں مولا ھوں بس علي عليہ السلام بھي اس كے مولا ھيں، تاريخ كے اس اھم واقعہ كے رونما ھونے ميں كسي بھي قسم كے شك و شبہ كي گنجائش نھيں ھے۔
رسول اكرم (ص) كے قول كي صراحت اور بے شمار قرائن حاليہ اور مقاليہ اس بات كا واضح ثبوت ھيں كہ مولا سے مراد ولايت اور جانشيني ھي ھے اور يہ ممكن نھيں ھے كہ كوئي منصف مزاج اور مخلص محقق اس قدر شواھد اور ادّلہ كے باوجود اس بات ميں ذراسي بھي ترديد ركھتا ھو۔
پھر آخر كيا ھوا كہ پيغمبر (ص) كي رحلت كے بعد ابھي واقعۂ غدير خم كو دو ماہ اور چند روز ھي گزرے تھے كہ لوگوں نے ھر چيز كو بھلا ديا تھا، اور سب سے عجيب بات يہ ھے وہ انصار جو اسلام ميں درخشاں ماضي ركھتے تھے جنھوں نے اس سلسلے ميں اپني جان و مال تك كي پروانہ كي وہ سب سے پہلے سقيفہ ميں جمع ھوكر خليفہ اور جانشين پيغمبر (ص) كا انتخاب كرنے لگے۔
اور اس سے بھي زيادہ عجيب بات يہ ھے كہ شيعہ اور سني روايات 62 كے مطابق پيغمبر (ص) كے چچا عباس بن عبد المطلب، پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي كے آخري لمحات تك آنحضرت (ص) سے يھي پوچھتے رھے كہ كيا آپ كے بعد ولايت و ولي عھدي ھمارے خاندان ميں ھے؟ اگر ھے تو ھم اسے جان ليں اور اگر نھيں ھے تو لوگوں كو ھمارے بارے ميں وصيت كردي جائے۔
اگر پيغبر (ص) نے حكم وحي سے حضرت علي عليہ السلام كو اپنا جانشين بناديا تھا تو اس سوال كاكيا مطلب ؟اور وہ بھي نزديك ترين فرد كے ذريعے؟يہ ايك ايساسوال ہے جو مستند اور صحيح جواب چاھتا ھے اور فقط چند ادبي عبارتوں اور شاعرانہ گفتگو سے اس كاجواب نہيں ديا جا سكتا۔
اس سوال كے مستند اور صحيح جواب كے لئے ضروري ھے كہ سب سے پہلے ان واقعات پر ايك سر سري نگاہ ڈالي جائے جو پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي بعثت سے لے كر واقعہ سقيفہ تك رونما ھوئے، اور ان كے عوامل و اسباب كا بغور جائزہ ليا جائے، پھر سقيفہ كے واقعے كي ابو مخنف كي روايت كي روشني ميں تحقيق كي جائے۔
ھجرت سے ليكر غدير خم تك كے واقعات
1۔ پيغمبر اسلام (ص) كي ھجرت كے اسباب
پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اپني نبوت كے ابتدائي حصہ ھي ميں قريش سے تعلق ركھنے والے بدترين دشمنوں كا سامنا كرنا پڑا اور بے انتھا زحمت و مشقت كے بعد بھي صرف چند لوگ ھي مسلمان ھوئے ان ميں سے اكثر كا تعلق معاشرے كے غريب و فقير عوام سے تھا جب كہ امير اور دولت مند افراد آپ كي مخالفت پر اڑے ھوئے تھے اور اسلام كو ختم كرنے كے لئے ھر ممكن كوشش كرتے رھے لھٰذا انھوں نے آپ (ص) كو اس قدر تنگ كيا كہ آپ (ص) كے پاس ھجرت كے علاوہ كوئي اور چارہ نہ تھا۔
پيغمبر اسلام (ص) نے دين اسلام كي تبليغ كے سلسلے ميں كسي قسم كي كوئي كوتاھي نہ برتي بلكہ ذرا سي فرصت سے بھي زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھاتے رھے، يھي وجہ تھي كہ جب آپ كي ملاقات بزرگان مدينہ اور وھاں كے معزز افراد سے ھوئي تو آپ نے انھيں اسلام كي دعوت دي تو انھوں نے اسلام كو قبول كرليا اور پيغمبر اسلام (ص) سے عھد و پيمان كيا جسے "بيعة النساء" كھا جاتا ھے، شايد اس كے بيعة النساء كھنے كي وجہ يہ ھے كہ اس عھد و پيمان ميں كوئي جنگي معاھدہ نھيں ھوا تھا 63۔
مشركان قريش نے اسلام كو جڑ سے ختم كرنے كے لئے پيغمبر اسلام (ص) كے قتل كا منصوبہ بنايا ليكن پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم وحي كے ذريعہ ان كے ارادہ سے باخبر ھوگئے لھذا آپ نے يہ فيصلہ كيا كہ رات كو پوشيدہ طور پر مكہ سے مدينہ كي طرف ھجرت كر جائيں تاكہ مشركين آپ (ص) كے مكہ سے باھر جانے سے باخبر نہ ھونے پائيں آپ (ص) نے حضرت علي (ع) سے كھا كہ تم ميرے بستر پر ليٹ جاؤ اور اس طرح حضرت علي عليہ السلام نے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي جان پر اپني جان كو فدا كرديا اور اطمينان كے ساتھ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بستر پر ليٹ گئے اور اپنے يقينِ كامل اور مستحكم ايمان كي وجہ سے ايك لمحہ كے لئے بھي شك و ترديد اور خوف و ھراس كا شكار نہ ھوئے اور اپنے آپ كو ايسے خطرہ ميں ڈال ديا كہ جس كے بارے ميں جانتے تھے كہ كچھ ھي دير بعد دشمنوں كے نيزے اور تلواريں مجھ پر ٹوٹ پڑيں گي 64 پيغمبر (ص) نے اس فرصت سے فائدہ اٹھايا اور مكہ سے مدينہ كي طرف ھجرت كر گئے۔
2۔ ھجرت كے بعد كے حالات اور پيغمبر (ص) كي حمايت ميں انصار كا كردار
آخركار پيغمبر اسلام (ص) نے مدينہ كي طرف ھجرت كي اور اھل مدينہ نے پيغمبر (ص) اور دوسرے تمام مھاجرين كا شاندار استقبال كيا اور پيغمبر اسلام (ص) اور دين خدا كي خاطر ان كے سخت ترين كينہ پرور دشمنون يعني مشركين مكہ كے سامنے سينہ سپر ھوگئے اور سچ بات تو يہ ھے كہ اس سلسلے ميں كسي بھي قسم كي كوشش اور قرباني سے دريغ نہ كيا، قرآن نے سورۂ حشر 65 ميں ان كے ايثار و فداكاري كي طرف اشارہ كرتے ھوئے ان كي مدح سرائي كي ھے۔
مختصر يہ كہ انصار پيغمبر اسلام (ص) كي حمايت اور دين اسلام كي بقاء و ترقي كي خاطر مشركين قريش سے نبرد آزما ھونے اور اپنے آپ كو سخت ترين جنگوں ميں مشغول ركھنے پر آمادہ ھوگئے، انھوں نے جو پھلي جنگ مشركين قريش سے لڑي وہ جنگ بدر تھي جس ميں مسلمانوں كي تعداد بہت زيادہ نہ تھى، اس كے باوجود مشركين قريش كے ستر افراد كو قتل كرديا جن ميں اكثر سردار قريش تھے 66 اورمسلمانوں كے كل چودہ افراد شھادت كے درجہ پر فائز ھوئے جن ميں آٹھ افراد كا تعلق انصار سے تھا 67۔
ابھي جنگ بدر كو ختم ھوئے كچھ وقت نہ گزرا تھا كہ جنگ احد واقع ھوگئي اور اس ميں بھي مسلمان، مشركين كے تيئيس افراد ھلاك كرنے ميں كامياب ھوگئے ليكن بعض مسلمانوں كي تساھلي كي وجہ سے جنھيں عينين نامي پھاڑي پرجمے رھنے كو كھا گيا تھا مسلمانوں كے تقريباً ستر افراد شھيد ھوگئے 68۔ معمولاً دو بڑي جنگوں كے درميان كچھ سريہ اور غزوات بھي يكے بعد ديگرے وقوع پذير ھوتے رھتے تھے۔
ھجرت كے پانچويں 69 سال تمام دشمنان اسلام متحد ھوگئے اور اسلام كو جڑ سے ختم كرنے كے لئے دس ھزار كے لشكر كے ساتھ مدينہ كا اس طرح محاصرہ كيا كہ پورے مدينہ ميں خوف وھراس پھيل گيا، تاريخ ميں اس جنگ كو جنگ خندق يا جنگ احزاب كے نام سے ياد كيا جاتا ھے۔
ليكن مولا علي عليہ السلام كي شجاعت و بھادري اور آپ كي وہ تاريخي ضربت جو آپ نے عمر و بن عبدود (جو عرب كا ايك نامور پھلوان تھا) كے سر پر لگائي تھي اس نے اس جنگ كو مسلمانوں كے حق ميں كرديا اور پھر شديد بارش اور طوفان كي وجہ سے مشركين نھايت خوف زدہ ھوگئے اور انھوں نے مدينہ كا محاصرہ ختم كرديا 70، مجموعي طور پر پيغمبر اسلام (ص) نے مدينہ ھجرت كے بعد دس سال كے عرصہ ميں چوھتر جنگوں كا سامنا كيا جن ميں سريہ اور غزوات بھي شامل تھے 71 ان تمام جنگوں ميں انصار نے اھم كردار ادا كيا يھاں يہ كھنا غلط نہ ھوگا كہ اسلام نے انصار كي مدد كي وجہ سے كافي ترقي كي اور اسي نصرت و مدد كي وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) نے انھيں انصار كے نام سے ياد كيا۔
مسلمانوں كي تعداد ميں روز بروز اضافہ ھورھا تھا اور اس دوران بعض لوگ اسلام كو حق سمجھتے ھوئے مسلمان ھورھے تھے جبكہ بعض افراد اسلام كي قدرت اور شان و شوكت ديكھ كر يا پھر اس منفعت كے مد نظر مسلمان ھوئے جو انھيں اسلام قبول كرنے كے بعد حاصل ھوسكتي تھي۔
بالآخر آٹھ ھجري ميں مكہ فتح ھوا اور اسلام سارے جزيرة العرب پر چھا گيا، اھل مكہ نے جب اسلام كے سپاھيوں كي يہ شان و شوكت ديكھي تو ان كے پاس اسلام لانے كے علاوہ كوئي دوسري راہ نہ تھي 72، اس وقت مسلمانوں كي تعداد اپنے عروج پر پھنچ چكي تھي ليكن وہ ايماني لحاظ سے مضبوط نہ تھے اور چند حقيقي مسلمان اور پيغمبر (ص) كے مطيع و فرمانبردار افراد كے علاوہ اگر بقيہ تمام افراد كو مصلحتي مسلمان كھا جائے تو بے جانہ ھوگا۔
مسلمانوں كي بڑھتي ھوئي تعداد كي وجہ سے اب انصار جزيرة العرب كے تنھا مسلمان نہ تھے بلكہ مسلمانوں كے جم غفير ميں ايك چھوٹي سي جماعت كي حيثيت ركھتے تھے ليكن پيغمبر اسلام (ص) ھميشہ انصار كي حمايت اور ان كي قدر داني كرتے تھے اس لئے كہ انھوں نے اسلام كے ابتدائي دور ميں كسي قسم كي قرباني سے دريغ نھيں كيا تھا، عرصہ دراز پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليم و تربيت كے زير سايہ رھنے كي وجہ سے ان كي اكثريت با ايمان تھي يھاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) نے اپني زندگي كے آخري لمحات ميں بھي انھيں فراموش نہ كيا اور ان كے سلسلے ميں سب كو يہ وصيت فرمائي۔ "انھم كانو عيبتي التي أويتُ اليھا فأحسنوا الي محسنھم و تجاوزوا عن مُسيئتھم" 73 "انصار ميرے قابل اعتماد اور ھم راز تھے ميں نے ان كے پاس پناہ لي لھٰذا ان كے نيك افراد كے ساتھ نيكي اور ان كے بروں سے در گذر سے كام لينا" انصار بھي پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي عنايات اور حمايت كي وجہ سے ھميشہ جوش و خروش سے سرشار رھتے تھے۔
-------------
61. سعد بن عبادہ بشير بن سعد كے چچا زاد بھائي تھے۔
62. اس روايت كي تمام اسناد كو علامہ اميني نے اپني كتاب "الغدير" ميں بيان كيا ھے۔
64. السيرة النبويہ: ابن ھشام۔ ج2 ص73۔
65. تاريخ طبرى: ج2 ص 372، التفسير الكبير: ج6 ص50۔
66. آيت19۔
69. تاريخ يعقوبى۔ ج2 ص49
70. الكامل في التاريخ۔ ج1 ص568
71. تاريخ يعقوبى۔ ج2 ص50
72. الطبقات الكبرىٰ۔ ج2 ص5، 6 (غزوات كي تعداد 27 اور سريہ كي تعداد 47، غزوہ يعني وہ جنگ جس ميں پيغمبر اكرم (ص.خود شريك تھے، سريہ يعني وہ جنگ جس ميں پيغمبر اكرم (ص.خود شريك نہيں تھے بلكہ كسي كي سپہ سالاري ميں فوج بھيج ديتے تھے)
73. تاريخ يعقوبى: ج2 ص60 (قريش نہ چاھتے ھوئے بھي حكم خدا كے سامنے تسليم ھوگئے)
|