4) موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں
کسی تحریک میں شامل موقع پرستوں کی رخنہ اندازیاں اور اثر و رسوخ سے اس تحریک کو بڑا خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ یہ صحیح رہنما کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کے اثرات کو زائل کریں اور ان کی کوششوں کو ناکام کریں۔ کوئی تحریک جب ابتدائی دشوار منازل کو طے کر لیتی ہے تو اس تحریک کے باایثار‘ صاحب ایمان اور مخلص کارکنوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے‘ کیونکہ اس منزل کے پانے کے فوراً بعد موقع پرست ان کے گرد اپنا حلقہ بنا لیتے ہیں‘ دشواریاں اور مشکلات جتنی کم ہوتی جائیں گی‘ اتنے ہی زیادہ موقع پرست تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کریں گے۔ وہ موقع پرست کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سچے اور باایثار انقلابیوں کو بتدریج راستے سے ہٹاتے جائیں‘ یہ عمل اتنا زیادہ ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ
”انقلاب خود اپنے بچوں کو جھاتا جاتا ہے۔“
لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ انقلاب خود نہیں ہوتا‘ جو اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے‘ بلکہ یہ موقع پرست کی رخنہ اندازی اور ریشہ دوانی سے غفلت برتنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زیادہ دور نہ جایئے! یہاں ایران میں وہ کون لوگ تھے جو آئینی انقلاب لائے اور وہ کون تھے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی پر اعلیٰ عہدے سنبھالے؟ اور اس کا آخری نتیجہ کیا نکلا؟
قوم پرست رہنما‘ قومی سورما اور آزادی کے تمام متوالے راستے سے ہٹا کر بھلا دیئے گئے اور انہوں نے بھوک و گمنامی کی حالت میں دم توڑ دیا‘ لیکن اس کے مقابلے میں وہ ”سورما“ جو آخری وقت تک انقلابیوں کے خلاف آمریت کے جھنڈے تلے لڑتے رہے‘ وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئینی حکومت کے بھیس میں مطلق العنانی وجود میں آئی۔
موقع پرستوں نے اپنے ہتھیار اسلام کے پہلے دور میں بھی استعمال کئے‘ خلیفہ عثمان کے زمانے میں وزارت اور مشاورت کے اہم عہدوں پر وہ لوگ فائز ہو گئے جو اس قابل نہیں تھے اور جو اہل تھے ان کو یا تو ملک بدر کر دیا گیا یا ان کے حلقہ اثر کو محدود کر دیا گیا‘ مثلاً ابوذر غفاریؓ اور عمار یاسرؓ۔
قرآن نے فتح مکہ(سورئہ حدید‘ ۱۰) سے قبل کے انفاق‘ جہاد اور فتح کے بعد کے انفاق اور جہاد کا تذکرہ کر کے درحقیقت جو فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد کے مومنوں‘ مجاہدوں اور اہل انفاق کے فرق کو واضح کیا ہے۔ جنہوں نے فتح سے پہلے قربانیاں پیش کیں‘ وہ ان کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے فتح کے بعد ایسا کیا۔ پہلے والے دوروں کی نسبت اعلیٰ وصفوں کے مالک ہیں‘ معنی صاف واضح ہیں کہ فتح سے پہلے صرف مصیبت و مشقت کے کڑوے گھونٹ تھے‘ لڑنے والوں کا یقین پختہ تھا اور ان کی قربانیں بے لوث اور سچی تھیں‘ وہ موقع پرستی اور ذاتی مفاد سے کوسوں دور تھے‘ لیکن فتح کے بعد قربانیاں اور کوششیں کسی ذاتی مقصد کے بغیر نہیں تھیں۔
پہلے مجاہدین کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ
”آپ کے ۲۰ نفر کافروں کے ۱۰۰ نفر کے برابر ہیں‘ لیکن اگر ان میں یقین کامل پیدا نہ ہوا ہو‘ اسلامی روح ان کے اندر پوری طرح نہ سمائی ہوئی ہو اور وہ اسلامی تحریک پر پختہ یقین نہ رکھتے ہوں تو اسلام وہاں صرف موقع پرستی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ان کے ایک ۱۰۰ آدمی دشمن کے ۲۰ آدمیوں کے برابر ہوتے ہیں۔“
مختصراً یہ کہ موقع پرستوں کے خلاف جہاد کرنا تحریک کو صہیح راستے پر چلانے کے لئے اشد ضروری ہے۔
۵) مستقبل کی مبہم و غیر واضح منصوبہ بندی
فرض کریں کہ ہم ایک ایسے بے تکے اور بوسیدہ مکان کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہم انتہائی مشکل حالات میں رہ رہے ہیں اور اس کی جگہ ایسا مکان بنانا چاہتے ہیں جس میں سابقہ مکان کے نقائص موجود نہ ہوں‘ ہمرای راحت و آرام کے ساز و سامان سے پوری طرح لیس ہو۔ اس صورت میں دو چیزیں ہمارے دماغ میں آئیں گی‘ ایک منفی احساس موجودہ بوسیدہ مکان کی برائیوں کے بارے میں اور مثبت احساس نئے مکان کے اوصاف کے بارے میں‘ جس کو ہم جلد سے جلد بنانا چاہتے ہیں۔ منفی احساس کے ضمن میں ہم پر آشکارا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘ ظاہراً اس بات کی تشریح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس فرسودہ مکان کو کیوں گرانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس مثبت احساس کے حوالے سے اگر نئے مکان کے بارے ہمیں مفصلاً بتا دیا جائے کہ اس میں کیا کیا سہولتیں ہوں گی تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی کہ ہم اس کو قبول کر لینے کے اعلان میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کریں‘ لیکن جبکہ ایک صورت میں کہ نئے مکان کا کوئی پلان ہمارے سامنے نہ رکھا جائے اور صرف یہ کہا جائے کہ اس بوسیدہ مکان کو گرانے کے بعد ایک عالی شان مکان تعمیر کیا جائے گا‘ تو یہ ہمارے تجسس کو بڑھائے گا اور ساتھ ہی تشویش کا عنصر بھی نمایاں ہو گا۔
یہ ایک مثال سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ فرض کریں‘ انجینئروں کے دو گروپ تعمیرات کے دو مختلف پلان دیتے ہیں‘ ایک گروپ نے نہایت محتاط طریقے سے پلان بنایا اور اس کی تمام تفصیلات اور اندرونی ڈھانچہ کی وضاحت کی ہے اور اس کے مقابل میں دوسرے گروپ نے جو تعمیرات میں کافی مہارت رکھنے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے‘ اپنے پلان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا ہے‘ صرف زبانی طور پر یقین دلایا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی بلڈنگ اعلیٰ درجہ کی ہو گی‘ تو یہ ممکن ہے کہ اس گروپ کی مبہم و غیر واضہ اعلان کی وجہ سے ہم دوسرے گروپ کی طرف مائل ہو جائیں۔
ہمارے مذہبی علماء انجینئروں کے اس گروپ جیسے ہیں جن کو لوگوں کا اعتماد تو حاصل ہے لیکن انہوں نے مستقبل کے کسی واضح پلان کے بارے میں عوام کو آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی ایسا پلان پیش کیا ہے جس کو منظور کرایا جا سکے‘ جب کہ دوسری جماعتوں کے پاس منصوبے اور نقشے موجود ہیں جو واضح ہیں اور بخوبی معلوم ہے کہ حکومت‘ قانون‘ آزادی‘ سرمایہ‘ ملکیت‘ عدالت اور اخلاقیات کے لحاظ سے وہ کس طرح کے معاشرے کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس تجربے سے ثابت ہے کہ مستقبل کا واضح لائحہ عمل کا نہ ہونا انسان کے لئے کافی نقصان دہ ہے‘ کسی تحریک کے لئے بڑا ضروری ہے کہ اس کا مستقبل کے پلان کے متعلق ان کے لیڈروں کے درمیان مکمل رضامندی اور اتفاق ہو‘ تاکہ ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے۔ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ثقافت کے خام مال کے لحاظ سے ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں اور ہمیں کسی اور سرچشمے کی ضرورت نہیں‘ صرف جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقصد کے لئے ثقافتی مال کو باہر نکال کر صاف کیا جائے اور اس کو کارآمد بنایا جائے‘ اس کے لئے ہوشیاری‘ محنت اور وقت کے صحیح استعمال کی ضرورت ہے۔
یہ چیز باعث اطمینان ہے کہ ہوشیاری اور بیداری کا ہمارے حوزہ ہائے علمیہ میں آغاز ہو چکا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور ہماری آرزو جلد پوری ہو جائے گی۔
اللھم حقق رجائنا و لا تخیب آمالن
|