|
سید کی آرزو
سید نے مسلم سوسائٹی کے لئے جو اصلاحی پروگرام اور معاشرتی نظریہ پیش کیا تھا اس کا اگر خلاصہ پیش کیا جائے تو ”اسلامی اتحاد“ سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ اور گروپ کے اختلافات کو اسلامی بھائی چارہ کی جگہ قطعاً نہیں لینی چاہئے اور مسلمانوں کے تہذیبی‘ نظریاتی اور روحانی اتفاق میں شگاف ڈالنے کے لئے کسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ان کے نزدیک مسلم دنیا وہ ہے جہاں کا ہر فرد تعلیم یافتہ اور عالم ہو‘ عہد حاضر کے آئینی اور ٹیکنالوجی علوم سے کماحقہ آگاہ ہو اور ہر قسم کی استعماریت اور استبدادیت سے آزاد ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا پیروکار بننا چاہئے نہ کہ اس کا الٹ۔ اسلام کا حاکم اس کے ابتدائی دنوں کے حاکم کی طرح ہونا چاہئے‘ یعنی سادہ اور بغیر پیچیدہ اسباب‘ آرائش و زینت کے جو بعد میں اسلامی تاریخ کے طویل دور میں ان کے ساتھ مل گئے‘ حق کے لئے جہاد کی روح مسلمانوں میں دوبارہ عود کر آئے اور ذاتی عزت و وقار اور دوسرے لفظوں میں استعماریت اور استبداد سے نفی ان کی ذات میں پیدا ہو جائے۔
جہاں تک ہمارا خیال ہے سید نے جاگیرداری نظام جو ان دنوں اسلامی سوسائٹی میں موجود تھا‘ کے متعلق کوئی رائے نہیں دی اور نہ ہی اسلامی تعلیمی اور خانوادگی نظاموں کے سلسلے میں رائے دی‘ حالانکہ وہ ان سے کافی وابستہ رہے۔ معلوم نہیں کہ سید کے خیال میں ان نظاموں کو اسلام کے طے شدہ معیار کے مطابق کس طرح اپنایا جا سکتا تھا‘ بے شک انہوں نے اپنے زمانے کی استبدادی حکومت کے خلاف بے رحم جنگ لڑی‘ لیکن انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا نقشہ نہیں کھینچا‘ جس کے ساتھ ان کا متواتر لگاؤ رہا‘ اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا‘ غالباً استعماریت اور استبدادیت کے خلاف ابتدائی مہمات میں وہ کافی مصروف رہے اور ان کو ایسا کرنے کا موقع نہ مل سکا‘ شاید ان کے خیال میں اسلامی انقلاب کے لئے پہلا قدم یہ تھا کہ مسلمانوں کو آمریت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف مہم میں لگانا چاہئے۔ جب ایک دفعہ وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو دوسرا صحیح قدم اٹھانا ان کے لئے مشکل نہیں ہو گا‘ لہٰذا مہم کا دوسرا حصہ سید نے آنے والوں کے لئے چھوڑ دیا۔
سید کی خصوصیات
سید قدرتی اور اکتسابی دونوں صلاحیتوں کے مالک تھے‘ اس قسم کا ملاپ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے‘ اس بات کی ان تمام لوگوں نے تصدیق کی ہے جنہوں نے سید کو قریب سے دیکھا۔ لاجواب ذہانت رکھنے کے ساتھ ہی فصاحت اور خطابت بھی عروج پر تھی‘ ان کی آواز میں جادو تھا‘ مصر میں ان کی خطابت لوگوں کے ذہنوں میں طوفان برپا کر دیتی اور لوگ جذبات سے چیخنے چلانے لگتے۔
اکتسابی صلاحیتوں میں سے اہم صلاحیت یہ تھی کہ ان کو صحیح اسلامی تہذیب ہوئی‘ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم قزدین‘ تہران اور نجف میں حاصل کی۔ خصوصاً نجف میں انہوں نے اپنے زمانے کی دو عظیم ہستیوں جناب مجتہداعظم خاتم الفقہاء حاج شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ اور نامور فلسفی و روحانی پیشوا ملا حسینقلی ہمدانی سے فیض حاصل کیا۔ سید نے علوم عقلی کی تعلیم ان سے حاصل کی اور یہ دونوں مرحوم بزرگ حاج ملا ہادی سبزواری کے شاگرد تھے۔ ان کے علاوہ نجف کے دو اہم معزز افراد بھی سید کے دوست بن گئے‘ ان میں سے ایک سید احمد تہرانی کربلائی اپنے دور کے مشہور عارف اور حکیم بزرگ تھے اور دوسرے سید سعید حبوبی جو عراق کے مشہور شاعر‘ ادیب‘ عارف اور مجاہداعظم تھے۔ ان کے انقلابی خیالات نے عراقی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دونوں سے سید کی دوستی مرحوم اخوند ہمدانی کے مکتب میں ہوئی۔
سید کے حالات زندگی لکھنے والے ان فلسفیانہ‘ اخلاقی‘ تربیتی‘ سلوکی اور علمی خیالات سے نابلند ہیں جو کہ اخوند ہمدانی کے مکتب میں رائج تھے اور وہ لوگ سید احمد تہرانی کربلائی اور سید سعید حبوبی کے متعلق بھی زیادہ نہیں جانتے۔ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ سید کے دل و دماغ پر اس مکتب اور دوسرے حضرات کا کیا اثر تھا‘ ان سطور کے لکھنے والے کو جب سید پر ان حضرات کے اثر کا علم ہوا تو سید کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے اور ان کی شخصیت کی ایک نئی اہمیت کا پتہ چلا۔
اسلامی تہذیب کے بارے میں وسیع علم کا ہونا اور اس کے عمیق اثرات نے سید کو ہندوستان کے دورے کے دوران یورپی تہذیب کی رو میں بہہ جانے سے بچایا۔
سید کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کو اپنے زمانے کے تمام علوم پر کافی دسترس تھی‘ وہ کئی بیرونی زبانیں جانتے تھے‘ مثلاً انگریزی‘ فرانسیسی اور روسی زبان۔ انہوں نے براعظم ایشیاء‘ یورپ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں سفر کیا‘ ہر مقام پر مناسب قیام کرتے رہے۔ ان ملکوں کی اہم شخضیات‘ سیاسی حضرات‘ صاحبان علم و دانش سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان تمام چیزوں نے وسیع النظری میں بہت اضافہ کیا۔
ان کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی دنیا کو بہت قریب سے دیکھا۔ حجاز‘ مصر‘ ہندوستان‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان کا دورہ کر کے تمام اہم لوگوں سے ملاقات کی‘ ہر ملک میں انہوں نے مناسب قیام کیا اور ان کی تحریکوں کا تجزیہ کیا اور ان کی شخصیات و رجحانات کا گہرا مطالعہ کیا‘ اس چیز نے سید کو ان غلطیوں سے بچا لیا جن کے دوسرے مصلح مرتکب ہوئے۔
ان کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ اسلامی ممالک کی سیاسی‘ اقتصادی اور جغرافیائی حالات کے متعلق ان کی معلومات وسیع تھیں‘ جو خط انہوں نے میرزا حسین شیرازی کو لکھا‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایران کے اس دور کے مسائل سے پوری طرح باخبر تھے اور ان کو پردہ سیاست کے پیچھے استعماری چال بازیوں و عیاریوں کا بھی پورا علم تھا۔
کواکبی
سنی اصلاحأ دنیا کا تیسرا علمبردار شیخ عبدالرحمان کواکبی ہے‘ وہ صفوی نژاد اور شام کا رہنے والا تھا اور شیخ صفی الدین اردبیلی کی نسل میں سے تھا‘ وہ ترکی اور فارسی زبانیں جانتا تھا اور عُبدہ کا براہ راست اور سید جمال کا بالواسطہ شاگرد تھا۔ وہ شام میں ۱۲۷۱ھ میں پیدا ہوا اور زندگی کا زیادہ حصہ اپنے ملک میں ہی گزرا۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ مصر گیا اور چند سال گزارنے کے بعد ۱۲۲۱ھ میں ۵۰ سال کی عمر پا کر وہیں فوت ہو گیا۔
کواکبی اسلامی فلاسفر تھا اور وہ استبدادیت کے خلاف اٹھا۔ وہ ان ترک استبدادی حکام کے خلاف برسرپیکار رہا جو شام پر حکومت کر رہے تھے۔ کواکبی نے دو یادگاریں چھوڑی ہیں‘ ایک کتاب ”طبائع الاستبداد“ جس کا فارسی ترجمہ ایران میں آئینی تحریک کے دوران شائع ہوا اور دوسری کتاب ”ام القریٰ“ جس میں اصلاح لانے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔
سید کی طرح کواکبی نے بھی سیاسی بیداری کو بنیادی طور پر اہم اور ضروری سمجھا۔ وہ یہ بھی یقین کرتے تھے کہ سیاسی حکومت چاہے وہ آئینی ہو یا کسی اور شکل میں بذات خود اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ استبدادیت کے سیلاب کو روک سکے‘ یہ ممکن ہے کہ کسی قسم کی حکومت بھی استبدادی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ حقیقت میں استبداد کو روکنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں میں اجتماعی سیاسی شعور پیدا کیا جائے اور ان کے ضمیر کو جگایا جائے‘ تاکہ وہ حکام پر کڑی نظر رکھ سکیں۔
استبدادیت کے اژدھا کو صرف عوام کے ضمیر کی بیداری ہی دور رکھ سکتی ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حکومت وقت کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں‘ حکومت ہرگز حکومت نہیں جب تک کہ لوگوں کی شعوری سطح بلند نہ ہو‘ لہٰذا کواکبی سید جمال کے مطابق‘ لیکن عُبدہ کے خلاف اس رائے پر قائم رہے کہ اصلاح کے تمام پروگراموں سے پہلے مسلمانوں کا سیاسی شعور بلند کیا جائے۔ کواکبی دین اور سیاست کی ہم بستگی کا سختی سے پابند تھا اور اس کا اعتقاد تھا کہ اسلام دین سیاست ہے اور اگر ”اسلامی توحید“ کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کے مفاہیم سے کماحقہ آگاہ ہو جائیں تو وہ استبدادیت کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بنا سکتے ہیں۔
دو ممتاز پیشروؤں کی طرح (سید جمال اور عُبدہ) کواکبی بھی اصلی توحیدی نظریے کے سیاسی اور عملی پہلوؤں پر اعتماد کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ افضل الذکر لا الہ الا اللہ ہے اور اس کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے‘ اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اور عبادت کا مطلب خضوع و خشوع ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کے آگے خضوع و خشوع ہے‘ ہر وہ امر جو اطاعت خدائے بزرگ کے زمرے میں نہیں آتا‘ وہ شرک اور بت پرستی ہے۔ کواکبی اسلامی توحید کو صرف فکری‘ اعتقادی اور نظری جو تھیوری پر اختتام پذیر ہو‘ نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کو عمل اور خارجی مقاصد کی طرف لے جانا چاہتا تھا‘ تاکہ نظام توحیدی کا ٹھوس نظریہ قائم ہو جائے۔
انصاف سے دیکھا جائے تو اسلام کی علمی‘ اجتماعی اور سیاسی وحدت کی تفسیر علامہ مجتہداعظم میرزا محمد حسین نائینی مرحوم سے زیادہ کسی نے نہیں کی‘ انہوں نے اپنی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ میں قرآن اور نہج البلاغہ سے لاجواب استدلال پیش کئے۔ کواکبی جیسے فلاسفر جس کی تلاش میں ہیں‘ مرحوم نائینی نے معتبر اسلامی مدارک سے اس کتاب میں خوب انداز سے پیش کئے‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے وقت کی شورش زدہ ذہنیت نے کتاب کے نشر ہونے پر اپنا ایسا ردعمل دکھایا کہ مرحوم نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔
کواکبی کی رائے میں ہر استبدادی حاکم اپنی کرسی کو بچانے کے لئے ”قدسی“ جبہ پہن لیتا ہے اور دینی علوم میں حصہ دار بننے کا بہانہ صرف اس لئے کرتا ہے کہ وہ مذموم مقاصد حاصل کرے‘ صرف جو چیز لوگوں کو اس بات سے بچا سکتی ہے کہ ظالم حکام ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں‘ وہ یہ ہے کہ عوام کی دینی اور سیاسی شعور کی سطح بہت ہی بلند ہو۔
کواکبی نے اسلام کے کچھ علماء سلف (اہل سنن میں) پر تنقید کی کہ انہوں نے نظم و ضبط کے نام پر عدل اور آزادی کا گلا گھونٹ دیا‘ یعنی انہوں نے امن و امان کے نام پر آزادی کی رکاوٹ کا سبب بن کر ظالم اور استبدادی حکام کے ہاتھ مضبوط کئے‘ آزادی کو جو کہ انسانیت کے لئے اللہ پاک کا… بہترین تحفہ ہے‘ قتل کیا اور عدل کو اپنے پاؤں تلے روندا۔
آزادی اور نظم و ضبط کے رابطہ میں کواکبی نے آزادی کو مقدم سمجھا اور اس طرح دین اور سیاست یا دین و آزادی میں‘ دین کو مقدم جانا‘ کیونکہ دین ہی صحیح آزادی (جو سیاسی ضمیر کو بیدار کرتی ہے) کو حاصل کرنے کا اہم سبب ہے‘ علم اور آزادی یا علم و سیاست کے موازنہ میں اس نے یقین کیا کہ تمام علوم ہمیں آزادی کی رو میں نہیں بہا لے جاتے اور اجتماعی آگاہی کی سطح پر ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا استبدادی حاکم کچھ علوم پر عبور نہیں رکھتا‘ بلکہ وہ خود ان کے رائج کرنے والا بن جاتا ہے‘ لیکن ان دوسرے علوم سے دہشت زدہ رہتا ہے جو کہ عوام میں اجتماعی اور سیاسی بیداری پیدا کرتے ہیں‘ انہوں نے لوگوں کو آمریت اور ظلم کے خلاف آزادی کی جستجو کے لئے بیدار کیا۔
کواکبی کہتا ہے:
”استبدادی حکام علوم لغت اور زبان پر عبور حاصل کرنے کے اس وقت تک مخالفت نہیں کرتے جب تک یہ سننے اور پڑھنے والوں میں حکمت اور شجاعت پیدا نہیں کرتی‘ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں حسان کی طرح کم ہی ایسے شاعر ہوتے ہیں جو اپنی سحر بیانی سے لوگوں کے جذبات کو ابھار کر ایک لشکر کی صورت میں دشمن کے مقابلے میں لے جاتے ہیں‘ مسنتقین اور شیلی دوبارہ پیدا نہیں ہوتے‘ اس طرح استبدادی حکام ان دینی علوم کو بھی برداشت نہیں کر سکتے‘ مثلاً آخرت‘ عملی زندگی اور روحانیت وغیرہ۔ جو علوم ان کے لئے خطرناک ہیں وہ یہ ہیں‘ علوم حقیقی زندگی‘ فلسفہ عقلی‘ ملک اور اس کی حکومت کا علم‘ تاریخ اور خطابت کا علم‘ وہ ان سے علوم سے خوف زدہ رہتے ہیں‘ جو جہالت اور بے عملی کے بادلوں کو اڑا لے جائیں اور آفتاب درخشاں ظاہر ہو کر پانے تابانی سے انسانی دماغوں میں حرارت اور روشنی پیدا کر دے۔
(سیری در اندیشہ ہائے سیاسی عرب‘ ۱۶۹)
|
|