129
چوتھى فصل:
شرعى احكام
131
اذان كى تشريع :
يہاں پرمؤرخين ذكر كرتے ہيں كہ : ہجرت كے پہلے سال اذان تشريع كى گئي _ ايك قول يہ ہے كہ دوسرے سال ميںتشريع ہوئي ليكن اس چيز كى تحقيق ہمارے لئے زيادہ اہم نہيں_
البتہ تشريع اذان كى كيفيّت اس طرح بيان كى جاتى ہے كہ : آنحضرت (ص) اس فكر ميںتھے كہ لوگوں كو نماز كے لئے كس طرح اكٹھا كيا جائے تو آپ (ص) كى خدمت ميں عرض كيا گيا كہ آپ(ص) ايك پر چم نصب كريں جب لوگ ديكھيں گے تو ايك دوسرے كو اطلاع دے ديں گے تو آپ (ص) نے اسے پسند نہ فرمايا _ صحابيوںنے ( يہود يوںكے بگل كى طرح ) بگل بجانے كا مشورہ ديا_ آپ (ص) نے اسے بھى پسند نہيں كيا اور فرمايا كہ يہ يہود يوںكى رسم ہے _ انہوں نے ناقوس ( بجانے كا ) مشورہ ديا تو آپ (ص) نے (اسے بھى ناپسند كرتے ہوئے )فرمايا كہ يہ نصارى كى عادت ہے غالباً آپ (ص) نے پہلے اسے ناپسندفرمايا پھر اس كا حكم دے ديا اوراسے لكڑى سے بنايا گيا_
عبداللہ بن زيد گھر واپس آئے جبكہ نبى اكرم(ص) كے فكرمندہونے كى وجہ سے غمگين تھے _ اس رات انہوں نے خواب ميں اذان ديكھي_ خود عبداللہ بن زيد بيان كرتے ہيں: ''صبح كے وقت رسول اللہ (ص) (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور آپ (ص) كواذان كے متعلق بتايا پھر عرض كى كہ يا رسول(ص) اللہ ميں نيند اور بيدارى كى حالت ميں تھا كہ كوئي ميرے پاس آيااور اس نے مجھے اذان كى كيفيت دكھائي ''_
وہ كہتے ہيں كہ حضرت عمر بن خطاب اس واقعہ سے پہلے اذان كو ديكھ چكے تھے اورانہوں نے بيس دن تك اسے چھپائے ركھا _ پھر جب نبى اكرم(ص) كو بتايا تو آپ (ص) نے فرمايا كہ پھر مجھے بتانے سے كون سى چيز مانع
132
تھي؟ جواب ديا كہ عبداللہ بن زيد نے مجھ پر سبقت لے لى ليكن ميں جھجكتا رہا ( اس پر ) رسول اللہ (ص) (ص) نے فرمايا كہ بلال اٹھو اور ديكھو كہ عبداللہ بن زيدتجھے كس چيز كا حكم ديتا ہے تم اسے بجا لاؤ _يوںحضرت بلال نے اذان كہى ( الحديث) _تشريع اذان كى كيفيّت كے سلسلہ ميں وارد ہونے والى روايات ميں سے ايك نصّ يہ تھي_ يہ روايت مختلف الفاظ كے ساتھ وارد ہوئي ہے مزيد اطلاع كے لئے حاشيہ ميں مندرج كتب كى طرف رجوع كريں (1)_
اذان كى روايات پر بحث:
ہم معتقد ہيںكہ يہ بات درست نہيں اور اس سلسلہ ميںہمارے پاس مندرجہ ذيل دلائل ہيں_
ايك : ان روايات كے مطالعہ اور ايك دوسرے كے ساتھ تقابل سے ظاہر ہوتاہے كہ ان روايات ميں سخت اختلاف پايا جاتا ہے اور يہ چيز كسى روايت كے ضعيف ہونے كا باعث بنتى ہے اور اس پر كئي طرح كے سوالات اٹھتے ہيں_مثلاً گذشتہ روايت كہتى ہے كہ ابن زيد نے نيند اور بيدارى كى حالت ميں اذان ديكھي_
دوسرى روايت ميں اس كے برعكس يہ ہے كہ انہوں نے يہ اذان حالت خواب ميں ديكھى جبكہ تيسرى روايت ميں آيا ہے كہ خود ابن زيد نے كہا '' لوگ اگرباتيں بنا كرميرے درپے نہ ہوتے تو ميں يقيناً يہى كہتا كہ ميں تو سو ہى نہيں رہا تھا بلكہ حالت بيدارى ميں تھا ''_ ايك اور روايت يوں كہتى ہے '' يقيناً ابن زيد نے اذان ہوتے ہوئے ديكھى اور پھر نبى اكرم(ص) كو اس كى اطلاع دي'' مزيد ايك روايت ميں ہے كہ يقيناً جبرائيل نے دنيا كے آسمان پر اذان دى حضرت عمر اور حضرت بلال دونوںنے سنا ، ليكن حضرت عمرنے حضرت بلال
--------------------------------------------------------------------------------
1)سنن ابى داؤد ج/1 ص 335،338 ، المصنف عبد الرزاق ج /1ص455تا465، السيرة الحلبيةج/2 ص 93 تا 97 ، تاريخ الخميس ج/1 ص 359، الموطا ج1 نيزشرح موطا للزرقانى ج/1ص120تا 125،الجامع الصحيح للترمذى ج/1ص358تا361،مسند احمدج/4 ص 42 ، سنن ابن ماجہ ج/1ص 124، سنن البيہقى ج/1 ص390و391،سيرةابن ھشام ج/2ص154،155،125،نصب الراية ج/1 ص 259تا261، فتح البارى ج/2 ص 63تا66، طبقات ابن سعدج/1جزء 2ص 8،البدايةوالنھاية ج/3 ص232و 233، المواھب اللدنية ج/1ص71، منتخب كنزالعمال(حاشيہ مسنداحمدپر)ج/3 ص273، اور 275 ، تبيين الحقائق للزيلعى ج /1 ص 90، الروض الانف ج/2 ص 285،286، حياة الصحابة ج/3 ص 131، از كنز العمال ج/4 ص 263،246،اور اسى طرح ابى شيخ ابن حبان اور ابن خزيمہ سے بھى نقل كيا گياہے ، سنن الدار قطنى066 ج/1، 241 ، 242 ، اور 245 ، علاوہ ازين ديگر كثيركتب_
133
پر سبقت ليتے ہو پہلے جاكر پيامبر اسلام (ص) كو اس كى اطلاع دى _جب حضرت بلال آنحضرت (ص) كى خدمت آئے تو آپ (ص) نے فرمايا: '' تم سے پہلے عمر نے مجھے اس كى اطلاع دے دى ہے'' _
ليكن ايك روايت ميں ملتاہے كہ فقط ابن زيد نے اس اذان كو ديكھا _اس كے برعكس ايك روايت يوں كہتى ہے كہ انصار كے سات افراد نے اذان ديكھى جبكہ ايك قول ميں يہ تعداد چودہ بيان ہوئي ہے، ايك روايت ميں عبداللہ بن ابى بكر كابھى اضافہ كيا گيا ہے ... علاوہ بر ايں ايك روايت ميں ہے كہ يقيناً يہ بلال ہى تھے جنہوںنے سب سے پہلے ''اشھد ان لا الہ الا اللہ حى على الصلاة'' كہا_ اس پر حضرت عمر نے ''اشھد ان محمد رسول اللہ'' كا اضافہ كيا پس نبى اكرم(ص) نے يہ سنتے ہى حضرت بلال سے فرمايا :''جيسے عمر نے كہا ہے تم بھى ويسے ہى كہو''_
بعض روايات ميں اذان كى فصليں ايك مرتبہ اور بعض ميں دو مرتبہ ذكر ہوئي ہيں_ان روايات ميں طرح طرح كے ديگر اختلافات بھى پائے جاتے ہيں ليكن ان سب كو بيان نہيں كيا جاسكتا _ اس سلسلے ميں آپ اصل منابع كى طرف رجوع كركے روايات ميں تقابل كرسكتے ہيں _
دو: يہ بات كہ حضرت عمر اور حضرت بلال نے خود حضرت جبرائيل (ع) كى آواز سنى يا ابن زيد نے يہ اذان حالت بيدارى ميں ہوتے ہوئے ديكھى ، قابل قبول نہيںكيونكہ اس كا مطلب يہ ہوگا كہ يہ سب لوگ بھى نبى ہيں كيونكہ انہوں نے جبرائيل (ع) كو اپنى آنكھوں سے ديكھااو ر جبرائيل (ع) سے ايك شرعى ، توقيفى حكم سنا جبكہ يہ امر تو انبياء (ع) و رسل (ع) سے مخصوص ہے_
حالت خواب ميں ديكھى گئي اذان كے متعلق عسقلانى لكھتے ہيں:
'' عبداللہ ابن زيد كے خواب كى بنياد پر اذان كے حكم شرعى كے ثبوت پر يہ اعتراض كيا گياہے كہ غير نبى (ع) كا خواب حكم شرعى نہيں ہوتا _ البتہ اس كاجواب يہ ديا جاسكتاہے كہ ممكن ہے كہ وحى بھى اس كے مطابق نازل ہوئي ہو؟'' (1)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) فتح البارى ج/ 2 ص 62 _
134
ليكن يہ جواب قانع كنندہ نہيں كيونكہ صرف احتمال سے كوئي چيز ثابت نہيں ہوتى _حالانكہ ان كے ہاں معتبر اور قابل اعتماد مذكورہ روايات ميں ايسے كسى احتمال كى طرف اشارہ بھى نہيں پايا جاتابلكہ يہ روايات فقط رسول اكرم(ص) كے اس حكم پر اكتفاء كرتى ہيں كہ آپ (ص) نے حضرت بلال سے فرمايا كہ ابن زيدسے اذان كى تعليم حاصل كرو _
اس كے علاوہ اس معاملے ميں شروع ہى سے آپ (ص) پر وحى نازل كيوں نہ ہوئي _ حالانكہ آپ (ص) سر گردان ، فكرمنداور رنجيدہ خاطر تھے اورآپ (ص) كى سمجھ ميں ہى نہيں آرہا تھا كہ كيا كريں_
يہاںايك يہ سوال باقى رہ جاتاہے كہ اذان، اس كيفيت سے كيوں شروع ہوئي جبكہ باقى سب احكام ايسے نہيں ہيں؟
''سہيلى ''نے اس كا جواب يوں ديا ہے كہ اذان در اصل خدا كى شان اور ذكر كو بلند كرناہے پس غير نبى كى زبان پر اس كى شان نہايت بلند اور عظيم المرتبت ہونى چاہئے اس لئے اسے پہلے صحابيوں كو سكھا يا گيا(1)_
اگر چہ عسقلانى و غيرہ نے اس جواب كو سراہا ہے ليكن يہ جواب بھى بے معنى اور كم وزن ہے _اگر يہ جواب صحيح ہو تو شريعت ميں نماز، زيارتيں، دعائيں، اسى طرح خدا كى توحيد كا اقرار اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى گواہى اور ديگر احكام اسلام سب كے سب غيرنبى كى زبان سے جارى ہونے چاہئيں_ كيونكہ اس كا مطلب اللہ كا ذكر بلند كرنا اور اس كے حكم كو عظمت سے بجا لاناہے_ يہى حال خصوصاً ان قرآنى آيات كا بھى ہے جن ميں حضور سرور كائنات (ص) كى تعريف و توصيف بيان ہوئي ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے_
(وَ انَّكَ لَعَلى خلق عظيم )
اور اس طرح كى ديگر آيات بھى ہيں_ گذشتہ مطالب كے علاوہ ہم يہ كہيں گے كہ پيامبر اسلام (ص) كا زيد كے خواب كے مطابق عمل كرنے كا حكم دينا تو وحى كے بغير بلكہ اپنى ذاتى خواہش كے تابع ہوگا جبكہ يہ بات خداوند متعال كے اس فرمان( و ما ينطق عن الھوى ) سے منافات ركھتى ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) الروض الانف ج/ 2 ص 285_
135
پيامبر اسلام (ص) كا دينى امور ميں اپنے صحابيوں سے مشورہ كرنا يقيناً محال ہے كيونكہ آنحضرت(ص) ''وحي'' كے ہوتے ہوئے اس امر سے مستغنى تھے _البتہ دنياوى امور ميں آپ (ص) اپنے اصحاب سے مشورہ فرمايا كرتے تھے_ آپ (ص) كئي وجوہات كى بنا پر چاہتے تھے كہ دنياوى امور كو مشورت سے انجام ديں _انشاء اللہ جنگ بدر و احد كے واقعات ميں ہم ان وجوہات كا ذكر كريںگے_
تين: يہ كيسے ممكن ہے كہ پيامبر گرامى اسلام (ص) نے پہلے تو يہود و نصارى كے فعل سے موافقت كو ناپسند فرمايا ہو اور پھر اسى پر ہى رضايت دے دى ہو؟ ايك قبيح امر كيسے اچھا ہوگيا ؟ ايك برائي اچھائي ميں تبديل ہوگئي يا حضرت (ص) ان لوگوںسے موافقت پر مجبور تھے اور آپ (ص) كے پاس اور كوئي چارہ ہى نہ تھا؟ آپ (ص) نے ايك منادى كيوں نہ مقرر فرما ديا جو لوگوں كو نماز كے لئے بلاتا؟ جيسا كہ نماز يا ديگر مواقع پر آپ (ص) ايسا ہى كيا كرتے تھے اوروہ ''الصلاة جامعة'' پكار پكار كر لوگوں كو اكٹھا كرتے تھے_
اس مشكل كے حل كے لئے صرف نبى اكرم(ص) اور عبداللہ ابن زيد (يا حضرت عمر ) ہى كيوں فكرمند تھے؟ اور يہ مشكل آپ(ص) كى رضامندى سے صرف ناقوس بنانے پر ہى حل ہوگئي؟ اور كوئي حل باقى نہيں رہا تھا؟ يا كوئي اور آدمى موجوود نہيں تھا؟_
بہر حال اس سے اہم بات يہ ہے كہ وہ يہ روايت كرتے ہيں (گرچہ ہم اس كى تصديق و تائيد نہيں كرتے بلكہ اس كے جھوٹ ہونے پر ہميں يقين ہے) كہ جن امور ميں وحى نازل نہيں ہوئي تھى ان تمام امور ميں رسول (ص) كريم اہل كتاب كى پيروى كرنا چاہتے تھے(1) تو پھر مذكورہ معاملے ميں يہ كيونكر ہوا كہ آپ(ص) نے كراہت و ناپسنديدگى كا اظہار فرمايا اوراسى كے لئے فكرمند اور پريشان ہوئے_ يہ تو بہت عجيب و غريب تناقض گوئي ہے جسے آنحضور( صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) كى طرف نسبت دى گئي ہے_
چہار: الصباح المزنى ، سدير الصيرفي، محمد بن النعمان الا حول اور عمر بن اذينہ كہتے ہيں كہ ايك دن ہم امام صادق (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو آپ (ص) نے فرمايا :'' اے عمر بن اذينہ يہ ناصبى اپنى اذان و نماز كے
--------------------------------------------------------------------------------
1) روز عاشور كے روزے كے متعلق گفتگو ميں اس كى طرف اشارہ كريں گے (انشاء اللہ )
136
متعلق كيا كہتے ہيں''؟ ميں نے عرض كيا:'' ميرى جان آپ (ص) پر قربان ہو وہ كہتے ہيں كہ اسے ابى بن كعب انصارى نے خواب ميں ديكھا تھا''_ حضرت (ص) نے فرمايا :'' خدا كى قسم جھوٹ بولتے ہيں كيونكہ خدا وند قدوس كے دين كى شان خواب ميں دكھائے جانے سے بالاتر ہے'' _ ايك دوسرى روايت ميں يہ ہے كہ حضرت (ع) نے فرمايا:'' اللہ نے تمہارے نبى (ص) پر اس كے متعلق وحى نازل فرمائي ليكن يہ لوگ گمان كرتے ہيں كہ حضرت(ص) نے اسے عبداللہ بن زيد سے سيكھا ہے'' (1)_
2 _ابى علاء سے روايت ہے كہ ميں نے محمد بن حنفيہ سے كہا: '' ہم تو يہ بيان كرتے ہيں كہ اذان كى ابتداء ايك ايسے خواب سے ہوئي جسے ايك انصارى نے خواب ميں ديكھا تھا'' اس پر محمد حنفيہ سختغصہ ہوگئے اورگرج كر كہا :''شريعت مقدسہ اسلام اور دينى معارف كى بنيادوں كو تم نے نشانہ بنا ليا ہے_تمہارا گمان ہے كہ اسے ايك انصارى نے خواب ميں ديكھا ہے جس ميں جھوٹ اور سچ دونوں كا احتمال پايا جاتا ہے _ اور اكثر اوقات تو يہ خواب ويسے ہى بے تعبير اور لاحاصل ہوتے ہيں''؟
ميں نے كہا :''يہ حديث تو لوگوں ميں پھيل چكى ہے''؟
انہوں نے كہا :'' خدا كى قسم يہ غلط ہے_'' پھر كہا :''مجھے ميرے والد گرامى نے بتايا تھاكہ حضرت جبرائيل (ع) نے شب معراج بيت المقدس ميں اذان و اقامت كہى اور پھر جب رسول (ص) خدا نے آسمان كى طرف معراج فرمائي تو انہيں پھر دہرايا''(2)_
3_ اس طرح امام حسن مجتبى (ع) نے بھى اس بات كا انكار فرماياہے _ جب آپ (ع) كے سامنے اذان كے بارے ميں گفتگو ہوئي اور عبداللہ ابن زيد كے خواب كا تذكرہ كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا '':اذان كى عظمت اس افسانے سے كہيں بالاتر ہے_
حضرت جبرائيل (ع) نے آسمان ميں دو دو مرتبہ اذان كہى اور پھراسى طرح اقامت كہى اور آنحضرت(ص) كو اس
--------------------------------------------------------------------------------
1)بحار الانوار ج/18 ص354 ، علل الشرائع ص 112 / 113 ، النص والاجتہاد ص 205 عن الشہيد فى الذكرى نيز وسائل الشيعہ ج4 ص 612 و 613_
2) السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 96 ، النص والاجتہاد ص 205 و كتاب العلوم (امالى احمد بن عيسى بن زيد) ج1 ص 90_
137
كى تعليم دي'' (1)_
4 _ جب حضرت امام حسين (ع) سے اذان اور لوگوں كى باتوں كے متعلق پوچھا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا:
'' تمہارے نبى (ص) پر وحى نازل ہوتى ہے اور تم لوگ يہ گمان كرتے ہو كہ آپ (ص) نے عبداللہ بن زيد سے اذان سيكھى ہے ؟ جبكہ ميں نے اپنے والد حضرت على ابن ابى طالب (عليہما السلام) سے سنا ہے كہ جب حضرت رسول (ص) خدا كو معراج پر لے جايا جانے لگا تو ايك فرشتے نے اتر كر اذان اور اقامت كى فصلوں كو دو دو مرتبہ دہرا كرا ذان و اقامت كہى پھر جبرائيل (ع) نے آپ (ع) سے كہا : '' يا محمد (ص) نماز كى اذان بھى اسى طرح ہے '' (2)_
البتہ اقامت كى فصلوں كاايك ايك مرتبہ ہونا اہل بيت (ع) كى قطعى تعليمات كے بالكل مخالف ہے_ كيونكہ يہ يقينى بات ہے كہ اہل بيت (ع) كى روايات اور نظريات ميں اس كى دودو فصليں بيان ہوئي ہيںاور اصحاب تابعين اور فقہائے اسلام كى اكثريت كى بھى يہى رائے ہے _ايك ايك مرتبہ والى بات امراء كے ہاتھوں كى صفائي معلوم ہوتى ہے كيونكہ بقول مورخين اس ذريعہ سے انہوں نے اقامت كى تحقير، بے قدرى اور توہين كرنے كى كوشش كي(3) ورنہ اقامت كى فصليںبھى دو دو مرتبہ ہيں_
پانچ: خو د عبداللہ ابن زيد سے روايت ہے : '' ميں نے رسول اللہ (ص) سے اذان سنى ہے ، آپ(ص) نے دو دو مرتبہ اذان و اقامت كہي(4)''_
پس اگر ابن زيد نے ہى خواب ميں اذان ديكھى ہوتى تو وہ دوسروں كى نسبت اس ا مر سے سب سے زيادہ آگاہ ہوتا ، پھر اس كى رسول (ص) خدا سے يہ حديث كيسي؟
چھ: داؤود ى كى ابن اسحاق سے حكايت ہے كہ عبداللہ بن زيد اور حضرت عمر كے خواب ميں ديكھنے سے آٹھ روز قبل حضرت جبرائيل (ع) اذان لے كر آنحضور (ص) كى خدمت ميں آئے'' _ اس بات كى تائيد اس
--------------------------------------------------------------------------------
1) النص و الاجتہاد ص 205 از مشكل الآثار ،ابن مردويہ اور كنزالعمال ج/6 ص 277 نيز مستدرك حاكم ج3 ص 171_
2) گذشتہ و آئندہ منابع ملاحظہ فرمائيں_
3) المصنف عبدالرزاق ج/ 1 ص 463 ، سنن البيہقى ج/ 1 ص 425 _
4) مسند ابى عوانہ ج/ 1 ص 331 سنن دارقطنى ج/ 1 ص 241_
138
روايت سے بھى ہوتى ہے كہ حضرت عمر ناقوس( گھنٹي) خريدنے جارہے تھے كہ اطلاع ملى ابن زيد نے خواب ميں اذان ديكھى ہے وہ رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں بتانے كے لئے واپس آئے تو آپ (ص) نے فرمايا: '' تمہارے بتانے سے پہلے وحى نازل ہوچكى ہے ''(1) _
سات: ہم اذان كے شرعى حكم كے ہجرت سے قبل مكہ ميں نزول كو ترجيح ديتے ہيں ، كيونكہ يہ بات محمد حنفيہ والى گذشتہ روايت ميں بيان ہوچكى ہے اور مندرجہ ذيل روايات ميں بھى مذكور ہے_
1_ جناب زيد بن على نے اپنے اجداد طاہرين (ع) سے روايت كى ہے: ''رسول اللہ (ص) كو شب معراج اذان كى تعليم دى گئي اور نماز فرض ہوئي ''_ يہ بات امير المومنين (ع) ، امام باقر ، ابن عمر اور حضرت عائشہ سے بھى روايت كى گئي ہے(2)_ امام باقر (ع) سے بھى صحيح سند كے ساتھ تقريباً يہى مطلب نقل ہوا ہے(3)_
2 _ انس روايت كرتے ہيں كہ جب نماز فرض ہوئي تو اس وقت جبرائيل (ع) نے آنحضرت (ص) كو اذان كا بھى حكم ديا(4)_
امام باقر (ع) كى اس مذكورہ روايت كو سھيلى نے بھى صحيح قرار ديا ہے جس ميں آيا ہے كہ اذان كا شرعى حكم شب معراج لاگو ہوا_ ليكن اس روايت پر يہ اعتراض كرتے ہيں كہ ايك تو اس كى سند ميں زياد بن منذر ہے جو شيعہ تھا (5) اور دوسرايہ كہ نبى اكرم (ص) نے ہجرت كے موقع پر اذان كا حكم نہيںديا تھا (6)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) المصنف عبدالرزاق ج/1ص456،تاريخ الخميس ج/1 ص360،البداية والنہاية ج/ 3 ص 233 ، السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 96 ، 97_
2)منتخب كنزالعمال ( مسند احمد كے حاشيہ پر ) ج/3 ص 273 از طبرانى سے اوسط السيرة الحلبيہ ج/ 1 ص 373 ، ج/ 2 ص 93 ، 95 مجمع الزوائد ج/ 1 ص 329 و 328 ، نصب الراية ج/1 ص 262 و 260 ، المواھب اللدنيہ ج/1 ص 71 ، 72 فتح البارى ج/ 2 ص 63 ، الدرالمنثور ج4 ص 154 از بزار ، ابن مردويہ ، طبرانى و ابو نعيم در دلائل النبوہ ، الروض الانف ج/ 2 ص 285 و 286 ، البدايةوالنہاية ج/3 ص 233 ، تبيين الحقائق از البزار، النص والاجتہاد ص 205 از مشكل الآثار و شہيد در ذكرى ، كنزالعمال ج14 ص 4 ، از ابن مردويہ، قصار الجمل ج1 ص 13 ، الوسائل ج4 ص 660 و كافى ج3 ص 302_
3) الكافى ج/3 ص 302_
4) المواھب اللدنيہ ج/1 ص 72 و فتح البارى ج/2 ص 63_
5) نصب الراية ج/ 1 ص 261_
6) البداية و النہايہ ج / 3 ص 233 ، مستدرك الحاكم ج/ 3 ص 171 ، نصب الرايہ ج/ 1 ص 261 ، حاكم نے اس بارے ميںسكوت كيا ہے جبكہ ذھبى نے نوح بن دراج پر جرح كى ہے شايد انہوں نے اپنى عادت كے مطابق اس كے شيعہ ہونے كى بناپر ايسا كيا ہے_
139
جبكہ ان كے پہلے اعتراض كے متعلق تو معلوم ہوچكاہے كہ وہ ہے ہى بے بنياد ليكن دوسرے اعتراض كى بھى كوئي اہميت نہيں ہے كيونكہ يہى تو اختلاف كا مقام ہے _ اسى مناسبت سے يہاں ذكر كرتے چليں كہ:
روايات ميں يہ بھى آياہے كہ جب حضرت آدم (ع) جنت سے نكالے گئے تو جبرائيل (ع) نے اس وقت اذان كہى (1) گذشتہ بيانات سے ابن عباس سے مروى يہ روايت بھى غلط ثابت ہوجاتى ہے كہ سورہ جمعہ كى اس آيت ''يا ايھا الذين آمنوا اذا نودى للصلاة من يوم الجمعة ''كے نزول كے ساتھ ہى اذان فرض ہوئي تھى (2) اس روايت كے رو سے تو اذان كے شرعى حكم كا نزول ، ہجرت كے ساتويں سال سورہ جمعہ كے نزول كے ساتھ اور جنگ احد ميں يا اس كے كچھ عرصہ بعد قتل ہونے والے عبداللہ بن زياد كى وفات كے بعد جا بنے گا _
اسى روايت كو مدنظر ركھتے ہوئے حاكم نے كہا ہے'' بخارى و مسلم نے عبداللہ بن زيد كى خواب ميں اذان والى اس روايت كو مذكورہ حديث كى وجہ سے چھوڑ ديا ہے كيونكہ عبداللہ اس سے پہلے ہى رحلت كرگئے تھے كيونكہ كہا گيا ہے كہ عبداللہ بن زيد جنگ احد ميں اور بقولے اس كے كچھ ہى عرصہ بعد شہيد ہو گئے تھے''(3)_
ليكن درمنثور كى عبارت يوں ہے ''نماز كے فرض ہونے كے ساتھ اذان رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئي _ (يا ايھا الذين آمنوا اذا نودى للصلاة ... ) اب اس عبارت سے ان كا مقصود يہ ہوسكتاہے كہ اذان مكہ ميں اس وقت شروع ہوئي جب نماز فرض كى گئي ليكن مذكورہ آيت كو دليل كے طور پر پيش كيا ہے كہ اللہ تعالى نے قرآن مجيد ميں بھى اذان كے بارے ميں اشارہ كيا ہے ... اگر يہ صحيح ہو تو اس روايت كا ماسبق سے كوئي تعارض اور اختلاف نہيں_
آٹھ: حضرت عائشہ ، عكرمہ ، قيس بن ابى حازم و غيرہ سے روايت ہے كہ اللہ تعالى كے اس قول '' و
--------------------------------------------------------------------------------
1)فتح البارى ج/ 2 ص 64 ، السيرة الحلبيہ ج/2 ص 93_
2)فتح البارى ج 2 ص 62، الدر المنثور ج 6 ص 218از ابو شيخ_
3) مستدرك الحاكم ج/4 ص 348_
140
من احسن قولاً ممن دعا الى اللہ و عمل صالحاً''(1) سے مراد اذان و اقامت كے درميان دو ركعت نماز كى ادائيگى ہے (2)_
يہ بات واضح ہے كہ مذكورہ آيت سورہ مباركہ فصلت كى ہے جو مكى سورت ہے_ يہ آيت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ اذان و اقامت كا حكم مكہ ميں ديا گياتھااور يہ آيت اذان اور اقامت كے احكام اور مسائل بيان كرنے كے لئے نازل ہوئي ہے_
البتہ اس دعوى كہ '' يہ آيت بھى ان آيتوں ميں سے ہے جن كا حكم ان كے نزول كے كچھ عرصہ بعد لاگو ہوا '' اس كى سوائے ابن زيد كى گذشتہ روايت كے كوئي اور دليل نہيں ہے اور يہ ہم جان چكے ہيںكہ اس روايت پراعتماد نہيں كياجاسكتا بلكہ اس كے جھوٹے ہونے پر بھى دليل قائم كى گئي ہے_
نو: مفسرين نے اس آيت ( و رفعنا لك ذكرك) كے متعلق كہا ہے كہ يہ آيت اذان كے بارے ميں نازل ہوئي ہے (3) اور كئي مفسروں نے اسے ابن عباس اور مجاہد سے نقل كيا ہے (4) اور يہ آيت سورہ انشراح ميں ہے اور يہ بھى مكى ہے_
آخرى بات
حضرت امام جعفر صادق (ع) سے صحيح سند كے ساتھ روايت ہے كہ حضرت (ع) نے فرمايا '' جب جبرائيل (ع) اذان لے كر رسول اللہ (ص) كے پاس تشريف لائے تو جبرائيل (ع) نے خود اذان و اقامت كہي_ اسى موقع پر آنحضور (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ حضرت بلال كو بلالائيں _آپ (ع) نے حضرت بلال كو بلايا تو آنحضرت (ص) نے حضرت
--------------------------------------------------------------------------------
1)اس سے بہتر بات كس كى ہوگى جو لوگوں كو اللہ اور عمل صالح كى طرف دعوت دے_
2) السيرة الحلبيہ ج/2 ص93، درمنثور ج / 5 ص 364 ، از عبد بن حميد ، سعيد بن منصور، ابن ابى حاتم ، ابن مردويہ ، ابن ابى شيبہ ، ابن منذر خطيب در تاريخ _
3) الكشاف مطبوعہ دار الفكر ج4 ص 266 ، جوامع الجامع ص 545 ، البحر المحيط ج8 ص 488 ، مجمع البيان ج10 ص 508 ، التفسير الكبير ج32 ص5 و مدارك التنزيل ( مطبوعہ بر حاشيہ الخازن) ج4 ص 389_
4) ملاحظہ ہو: تفسير القرآن العظيم ج4 ص 525، الجامع لاحكام القرآن ج20 ص 106 و لباب التاويل ج4 ص 389_
141
بلال كو اذان كى تعليم دى اور اذان دينے كا امر فرمايا'' (1)_
اور اس روايت ميں گذشتہ روايتوں كے ساتھ كوئي تضاد نہيں پايا جاتا_ كيونكہ عين ممكن ہے كہ جبرائيل (ع) مكہ ميں اذان لے كر نازل ہوئے ہوں _ اسى طرح وقت معراج تشريع ہونے والى اذان فرداً فرداً كہى جانے والى اذان ہو جبكہ جس اذان كو جبرائيل (ع) (مدينہ ميں ) لے كر نازل ہوئے اور رسول (ص) خدا نے بلال كو اس كى تعليم دى اور اسے بلند آواز سے كہنے كا حكم ديا وہ اذان اعلان ( نماز جماعت كے قيام كا اعلان كرنے والى اذان ) ہو_
مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ كے متعلق شايد زيادہ مناسب وہ روايت ہو جو يہ كہتى ہے: ''مسلمان جب مدينہ پہنچے تو وہ اكٹھے ہوكر وقت نماز كا انتظار كيا كر تے تھے جبكہ كوئي منادى بھى نہيں تھا_ ايك دن انہوں نے اس بارے ميں آپس ميں گفتگو كي_ بعض نے كہا كہ ناقوس (گھنٹي) بجائي جائے جيسے عيسائي بجاتے ہيں_ بعض نے كہا كہ يہوديوں كى طرح بگل بجايا جائے _ حضرت عمر نے كہا كہ ايسے كچھ افراد مقرر كئے جائيں جو لوگوں كو نماز كے لئے بلائيں جس پر رسول اسلام (ص) نے حضرت بلال سے فرمايا كہ اٹھو اذان دو''(2)
اس روايت كے مطابق اختلاف خود مسلمانوں كے درميان پيدا ہوگيا اور وہ ہى تھے جو ايك دوسرے سے بعض ذرائع اور اسباب كى فرمائشے كرنے لگے تھے _ جبكہ اس جھگڑے كو آنحضرت (ص) نے حضرت بلال كو اذان كا حكم دے كر نمٹايا_ اس سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ اذان كا شرعى حكم اس سے قبل (مثلاً شب معراج )آچكا تھا _
ليكن يہ افراد يا تو نو مسلم ہونے كى وجہ سے اس امر سے بے خبر تھے يا وہ سب يا بعض افراد اس بات سے باخبر تو تھے ليكن يہ اذان والى بات ان كے دل كو نہيں لگى تھى اس لئے وہ اس ميں تبديلى كے خواہش مند تھے_
بہر حال اس موضوع پر مزيد مطالعہ كے لئے امام عبدالحسين شرف الدين كى بہترين كتاب '' النص والاجتہاد '' كى طرف مراجعہ فرمائيں (3)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) الوسائل ج/1 ، ص 326، الكافى ج/3 ص 302 ، النص والاجتہاد ص 205 ، اس روايت كو جناب شيخ صدوق اور شيخ مفيد رحمھما ا اللہ تعالى نے بھى نقل كيا ہے_
2) سنن دار قطنى ج/1 ص 237_
3)النص و الاجتہاد ص 197 تا 205_
142
اذان ميں حى على خير العمل:
وہ امور جو مسلمانوں ميں اختلاف كا باعث بنے ، ان ميں سے ايك اذان ميں '' حى عل الفلاح '' كے بعد دو مرتبہ ''حى على خير العمل'' كہنے كا مسئلہ بھى ہے_ بعض اس كے قائل ہيں اور بعض انكار كرتے ہيں _
مسلمانوں كا ايك گروہ اپنے پيشواؤںكى اطاعت ميں اذان ميں''حى على خير العمل''كہنے كو صحيح نہيں سمجھتا _ انہيںاہل سنت و الجماعت كہتے ہيں_ البتہ بعض اس كو مكروہ سمجھتے ہيں_ اسكى دليل وہ يہ ديتے ہيں كہ يہ جملہآنحضور (ص) سے ثابت نہيں ہے جبكہ اذان ميں اضافہ مكروہ ہے(1) _
عما د الدين يحيى بن محمد بن حسن بن حميد مقرى كى توضيح المسائل سے نقل كرتے ہوئے قاسم بن محمد بن على كہتاہے: '' رويانى نے كہا ہے كہ مشہور قول كے مطابق شافعى اس كے جواز كا قائل ہے نيز مالكى مذہب كے علاوہ حنفى اور شافعى مذہب كے اكثر علماء كا بھى كہناہے كہ '' حى على خير العمل'' كا جملہ اذان كا ہى حصہ تھا_ اسى طرح زركشى نے اپنى بحر المحيط نامى كتاب ميں كہا ہے : '' بعض مسائل تو ايسے ہيں جن كے متعلق دوسرے شہروںكے علاوہ خود مدينہ كے اندر ہى اختلاف پايا جاتا تھا_ خود مدينہ والوں كے پيشوا جناب عبداللہ ابن عمر اذان كى فصلوں كو ايك ايك كركے پڑھتے تھے اور اس ميں '' حى على خير العمل'' بھى كہتے تھے ... _ يہانتك كہ مقرى كہتاہے كہ رويانى كى يہ بات درست ہے كہ شافعى كا مشہور قول ''حى على خير العمل '' كے اثبات كے متعلق ہے (2)_
ليكن اہل بيت (ع) اور ان كے شيعہ '' حى على خير العمل'' كو اذان و اقامت كا جزء سمجھتے ہيں بلكہ اسكے بغير اذان و اقامت كو صحيح نہيں سمجھتے_ ان كے نزديك اس حكم پر سب كا اجماع ہے_(3)
--------------------------------------------------------------------------------
1) سنن بيہقى ج/1 ص 425 ، البحر الرائق ج/1 ص275 شرح المھذب سے _
2)الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 307
3) الانتصار للسيد المرتضى ص 39_
143
اس نظريئےو شوكانى نے عترت سے منسوب كيا ہے (1) اور كہا ہے كہ البحر ميں مہدى نے اس قول كو شافعى كے دو اقوال ميں سے ايك قرار ديا ہے(2) شوكانى كہتاہے كہ يہ قول شافعى مذہب كى موجودہ كتابوں ميں موجود قول كے برخلاف ہے(3)_
ليكن اس بات ميں شيعيان اہل بيت (ع) كے ہاں قطعاً كوئي اختلاف نہيں پايا جاتا_ اس پر ان كى دليل اجماع اور اہل بيت (ع) كى بہت سارى روايات ہيں مثلاً مندرجہ ذيل روايات ہيں_
ابو ربيع ، زرارہ، فضيل بن يسار، محمد بن مہران كى امام صادق (ع) سے روايات، فقہ الرضا ميں امام ہشتم (ع) كى روايت ،ابن سنان، معّلى بن خنيس ، ابو بكر حضرمى اور كليب اسدى كى امام صادق (ع) سے روايات، ابو بصير كى امام باقر (ع) يا امام صادق (ع) سے روايت ، محمد بن ابى عمير كى امام ابوالحسن الكاظم (ع) سے روايت، امير المؤمنين على (ع) اور حضرت محمد حنفيہ كى پيامبر اسلام (ص) سے روايت اور عكرمہ كى ابن عباس سے روايت ہے(4)_
اس اختلاف كے ہوتے ہوئے ہمارے لئے اہل (ع) بيت عليہم السلام اور ان كے ماننے والوں كا نظريہ اختيار كرنے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہيں ہے _ اس سلسلے ميں ہم فقط اجماع پريا پھر صرف اہل بيت (ع) سے مروى روايات پر بھروسہ نہيں كررہے حالانكہ يہ ہستياں ثقلين كا ايك حصہ ہيں اور خدا نے ان سے ہر قسم كى پليدى كو دور ركھاہے اور انہيں ہر قسم كى آلائشےوں سے بالكل پاك اور پاكيزہ ركھاہے بلكہ اسكے علاوہ بھى ايسے بہت سے شواہد اور دلائل ہيں جو دوسروں كے ہاں بھى پائے جاتے ہيں_
بطور مثال وہ بعض روايات جو صحيح اسناد كے ساتھ مندرجہ ذيل شخصيات سے منقول ہيں_
1_ عبداللہ بن عمر 2_ حضرت امام زين العابدين (ع)
3_ سھل بن حنيف 4 _ بلال
--------------------------------------------------------------------------------
1)نيل الاوطار ج2 ص 18_
2)نيل الاوطار ج2 ص 18 ، 19 ، البحر الزخار ج2 ص 191 نيز الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 307 ، 308 ، مؤخر الذكر دونوں كتابوں ميں شافعى كے ايك قول كى بجائے شافعى كا آخرى (حتمي) نظريہ ذكر ہوا ہے_
3) نيل الاوطار ج2ص 19_
4)الوسائل، جامع احاديث الشيعہ، البحار، مستدرك الوسائل ابواب اذان_
144
5_حضرت امام على (ع) 6_ ابو محذورة
7 _ابن ابى محذورة 8_ زيد بن ارقم
9_ حضرت امام باقر (ع) 10 _ حضرت امام صادق (ع)
11 _ حضرت امام حسن (ع) 12_ حضرت امام حسين (ع)
اس كے علاوہ اور بھى بہت سى شخصيات ہيں_
عبداللہ بن عمر سے روايات:
1 _ مالك بن انس، نافع سے روايت كرتے ہيں كہ جناب عبداللہ بن عمر بسا اوقات ''حى على الفلاح'' كے بعد ''حى على خير العمل'' كہتے تھے (1)_
2_ ليث بن سعد ، نافع سے روايت كرتے ہيں كہ جناب ابن عمر سفر ميں كبھى بھى اذان نہيں كہتے تھے بلكہ وہ صرف ''حى على الفلاح'' كہتے تھے اور بسااوقات ''حى على خير العمل'' كہتے تھے (2)_
3 _ ليث بن سعد، نافع سے روايت كرتے ہيں كہ جناب عبداللہ بن عمر اذان ميں بعض اوقات''حى على خير العمل'' كا اضافہ كرتے تھے، يہى روايت انس بن مالك نے نافع كے ذريعے عبداللہ بن عمر سے نقل كى ہے(3) نيز عطاء نے بھى عبداللہ بن عمر سے يہى روايت نقل كى ہے(4)_
4_محمد بن سيرين نے عبداللہ بن عمر سے روايت كى ہے كہ وہ ہميشہ اذان ميں ''حى على خير العمل'' كہتے تھے(5)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) سنن بيہقى ج/ 1 ص 424 الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 297 و ص 308 و 312_
2) سنن بيہقى ج/ 1 ص 424 نيز ملاحظہ ہو نيل الاوطار ج2 ص 19_
3) سنن بيہقى ج /1 ص424 ، دلائل الصدق ج/ 3 جزء دوم ص 100 از مبادى الفقہ الاسلامى للعرفى ص 38 شرح تجريد ، جواہر الاخبار اور صعدى كى الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخارج 2 ص 192 كے مطابق ، ابن ابى شيبہ نے اسے ''الشفائ'' ميں نقل كيا ہے، نيز الاعصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 308 _
4) الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 299 نيز ملاحظہ ہو ص 310_
5) سنن بيہقى ج/ 1 ص 425 نيز الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 308 از سنن بيہقي_
145
5_ نسيربن ذعلوق ، ابن عمر كے بارے ميںكہتے ہيں كہ وہ ہميشہ سفر ميں '' حى على خير العمل'' كہتے تھے(1)_
6_ عبدالرزاق، ابن جريح سے اور وہ نافع سے روايت كرتے كہ عبداللہ بن عمر سفر ميں جب بھى نماز پڑھتے تو نماز كے لئے اقامت كہتے اور اس ميں دو يا تين مرتبہ يوں كہتے تھے''حى على الصلاة حى على الصلاة، حى على خير العمل (2)
7_ عبدالرزاق ، معمر سے وہ يحيى بن ابى كثير اور وہ كسى ايك شخص سے روايت كرتے ہيں كہ عبداللہ بن عمر اذان ميں ہميشہ ''حى على الفلاح ''كے بعد ''حى على خير العمل'' كہتے تھے اور پھر'' اللہ اكبر، اللہ اكبر ، لا الہ الا اللہ'' كہتے (3)اسى روايت كوابن ابى شيبہ نے ابن عجلان اور عبيداللہ ، نافع اور عبداللہ ابن عمر كى سندسے روايت كى ہے(4)
8_ زيد بن محمد نے نافع سے روايت نقل كى ہے كہ عبداللہ بن عمر جب بھى اذان كہتا تھا '' حى على خير العمل'' كہتا تھا (5) صاحب اعتصام نے ابن عون ، ابن جريح ،عثمان بن مقسم ، عبداللہ بن عمر اور جويريہ بن اسماء كى نافع سے روايتيں بيان كى ہيں (6) اس لئے وہاں انہيں ملاحظہ فرمائيں _ اسى طرح كى ايك روايت حلبى و غيرہ نے بھى عبداللہ بن عمر سے روايت كى ہے (7)
امام زين العابدين (ع) سے روايات
9_ حاتم بن اسماعيل نے حضرت امام صادق (ع) سے انہوں نے اپنے والد گرامى سے اور انہوں نے حضرت
--------------------------------------------------------------------------------
1) مذكورہ منابع_
2) مصنف عبدالرزاق ج/ 1 ص 464_
3)سنن بيہقى ج1 ص 460 نيز الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 299_
4) مصنف ابن ابى شيبہ ج1 ص 145 حاشيہ مصنف عبدالرزاق ج1 ص 460 از مذكورہ كتاب نيز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 296_
5) الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 295_
6) الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 296 تا299_
7) سيرہ حلبيہ ج2 ص 98 ، الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 311 ، 312 ، از ابن حزم در كتاب '' الاجماع''_
146
امام على بن الحسين (ع) سے روايت كى ہے كہ آپ (ع) ہميشہ اذان ميں '' حى على الفلاح'' كہنے كے بعد'' حى على خير العمل'' كہتے تھے اور فرماتے تھے كہ يہى پہلى اذان ہے(1)_
اور ان كے ''يہى پہلى اذان ہے ''فرمانے كا مطلب صرف يہى ہوسكتا ہے كہ رسول اللہ (ص) كے زمانے ميں اذان يہى تھي(2)_
10_حلبى اور ابن حزم وغيرہ نے حضرت امام على ابن الحسين (ع) سے بالكل ايسى ہى روايت بيان كى ہے _ اسكا ذكر آئندہ آئے گا_
سہل بن حنيف سے روايات:
11_ بيہقى كا بيان ہے كہ اذان ميں '' حى على خير العمل'' كے ذكر كوسہل بن حنيف نے ابو امامہ سے روايت كى ہے(3)_
12 _ ابن وزيرنے محبّ طبرى الشافعى كى كتاب احكام الاحكام سے يوں نقل كيا ہے كہ '' سہل بن حنيف نے اذان ميں حى على خير العمل كے ذكر كوصدقہ بن يسار كے ذريعے سے ابى امامہ سے روايت كيا ہے _ وہ جب بھى اذان ديتے تو'' حى على خير العمل '' ضروركہتے تھے_ سعيد بن منصور نے بھى اس روايت كو ذكر كيا ہے (4)_
حضرت بلال سے روايات:
13 _ عبداللہ بن محمد بن عمار نے عمار اور عمر فرزندان حفص بن عمر سے اور انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے
--------------------------------------------------------------------------------
1) سنن بيہقى ج/ 1 ص425، دلائل الصدق ج/3 جزء دوم ص 100 از مبادى الفقہ الاسلامى ص 38 از مصنف ابن ابى شيبہ ، جواھر الاخبار والآثار ج/2 ص192، الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 299 ، 308 ، 310 ، نيل الاوطار ج2 ص 19 نيز كتاب العلوم ج1 ص 92_
2) دلائل الصدق ج/3 جزء دوم ص 100 از مبادى الفقہ الاسلامى ص 38 _
3)سنن بيہقى ج/1 ص 425_
4)دلائل الصدق ج / 3 جزء دوم ص 100 از مبادى الفقہ الاسلامى ص 38 نيز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 309 و 311 _
147
اور انہوں نے حضرت بلال سے نقل كيا ہے كہ حضرت بلال صبح كى اذان ميں ''حى على خير العمل''كہتے تھے تو آنحضور(ص) نے فرمايا:''حى على خير العمل'' كو چھوڑ كر اس كى جگہ ''الصلاة خير من النوم'' كہو_ تو اس نے حى على خير العمل كہنا ترك كرديا(1)_
لگتا يہى ہے كہ اس روايت كا آخرى حصہ راويوں كى ستم ظريفى كے باعث اضافہ ہو گيا ہے كيونكہ ''الصلاة خير من النوم ''كو پيامبر خدا (ص) كے بعد خود جناب عمر بن خطاب كى جانب سے اضافہ كيا گيا اور بہت سارى روايات ميں اس بات كى صراحت و وضاحت بھى موجود ہے (2) شايد كسى اورفرصت ميںہم اس پربحث كرسكيںگے_
14 _ حضرت بلال جب بھى صبح كى اذان ديتے تو ''حى على خير العمل'' ضرور كہتے تھے (3)_
15_ قوشجى و غيرہ كہتے ہيں كہ ايك دن حضرت عمر نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے كہا : ''لوگو تين چيزيں رسول اللہ (ص) كے زمانے ميں تھيں _ميں ان سے منع كرتاہوں اور انہيںحرام قرار ديتاہوںاور ان كے ارتكاب پر سزابھى دونگا_ وہ تين چيزيں يہ ہيں :
1_ متعة النسائ_
2 _ متعة الحج _
3 _ حى على خير العمل ''(4)_
مذہب اشاعرہ كے متكلم اور مناظر قوشجى نے جناب عمر كے مذكورہ حكم كے متعلق يہ عذر پيش كيا ہے كہ
--------------------------------------------------------------------------------
1)مجمع الزوائد ج/ 1 ص 330 از الطبرانى در الكبير ،مصنف عبدالرزاق ج/1 ص 460 ، سنن بيہقى ج / 1 ص 425 ، كنز العمال ج /4 حديث نمبر 5504، منتخب كنز العمال بر حاشيہ مسند ج / 3 ص 276 ، از ابو الشيخ دركتاب الاذان ، دلائل الصدق ج/ 3 جزء دوم ص 99_
2)مؤطا امام مالك ج/1 ص93،سنن دار قطني، مصنف عبدالرزاق ج/ 1 احاديث نمبر 1827 ، 1829، 1832 ص 474 ، 475 ، كنزالعمال ج/ 4 احاديث نمبر 5567 ، 5568 ، منتخب كنز العمال برحاشيہ مسند ج/ 3 ص 278 اس ميں '' الصلاة خيرمن النوم'' كو بدعت قرار ديا گيا ہے نيز ملاحظہ ہو_ الترمذى ، ابوداؤود اور ديگر كتب_
3)منتخب كنز العمال بر حاشيہ مسند ج / 3 ص276 ، دلائل الصدق ج/3 جزء دوم ص 99 ، از كنزالعمال ج/3 ص 266 _
4) شرح تجريد قوشجى مبحث الامامة ص484 ، كنز العرفان ج/2 ص158 از الطبرى در المستنير، صاحب الغدير ج / 6 ص 213 ميںكہتے ہيں كہ طبرى نے المستبين ميں حضرت عمر سے اسكى نسبت دى جبكہ شيخ على البياضى نے اپنى كتاب الصراط المستقيم ميں طبرى سے اس روايت كى حكايت كى ہے: و جواھر الاخبار والآثار ج/2ص 192 از تفتازانى در حاشيہ شرح العضد _
148
''اجتہادى مسائل ميں كسى مجتہد كى دوسرے مجتہد سے مخالفت بدعت اور كوئي نئي بات نہيں ہے''(1)_
قوشجى كا يہ عذر ناقابل قبول اور بے ہودہ ہے كيونكہ ہم ثابت كرچكے ہيں نبى اكرم صلى للہ عليہ و آلہ و سلم كبھى بھى خواہشات نفسانى سے گفتگو نہيں فرماتے _ اس سلسلے ميں قرآن حكيم كى يہ آيت ''ما ينطق عن الھوى _ ان ھو الا وحى يوحى '' اور اسى طرح كى ديگر آيات بھى دليل ہيں ليكن حضرت عمر كے پيروكاروں نے اس كى بات كو صحيح قرار دينے كے لئے نبى (ص) كے رتبے كو نيچے لے آنے كى كوشش كى ہے_
اس اجتہاد كى صحيح توجيہ وہى ہے جسے حضرت عمر نے خود بيان كى ہے_ ان كا خيال تھاكہ لوگ جب يہ سنيں گے كہ '' نماز بہترين عمل ہے'' تو لوگ آہستہ آہستہ نماز پر ہى اكتفا اور بھروسہ كرليں گے اور جہاد كو ترك كرديں گے_ خود حضرت عمر نے ہى اس مطلب كى وضاحت كى ہے_ اس كاذكر بعد ميں آئے گا_
اس مذكورہ توجيہ كا مطلب يہ ہوگا كہ اس كى نہى وقتى مصلحت كے پيش نظر تھي، شرعى طور پر حرمت كا حكم لاگو كرنے والى نہيں تھى _ كيونكہ يہ بات تو اسے بھى معلوم تھى كہ اسے شريعت ميں دخل اندازى كا كوئي حق حاصل نہيں ہے_
16_ حلبى كہتے ہيں: '' ابن عمر اور على (ع) ابن الحسين (ع) رضى اللہ تعالى عنھما سے منقول ہے كہ دونوں شخصيات جب اذان ديتيںتوحى على الفلاح كے بعدحى على خيرالعمل كہتى تھيں''(2)
17_ علاء الدين حنفى اپنى كتاب التلويح فى شرح الجامع الصحيح ميں كہتے ہيں:'' بہر حال ''حى على خير العمل'' كے متعلق تو ابن حزم نے ذكر كياہے كہ عبداللہ بن عمر اور سہل بن حنيف كے بيٹے ابوامامہ(3) سے صحيح احاديث كى روسے نقل ہوا ہے كہ دونوںاذان ميں ''حى على خير العمل'' كہا كرتے تھے (4)اورصاحب '' التلويح '' اس كے متعلق مزيد كہتے ہيں كہ حضرت على ابن الحسين(ع) كى بھى سيرت يہى تھى (5) _
--------------------------------------------------------------------------------
1) شرح تجريد للقوشجى ص 484_
2) السيرةالحلبيہ مطبوعہ سہ1382 ، باب الاذان ج/2 ص98 _
3)اصل عبارت ميں اسى طرح مذكور ہے وگرنہ صحيح يہ ہے كہ ابوامامہ اور سہل بن حنيف كہا جائے _ مولف
4) دلائل الصدق ج/3 جزء دوم ص 100از مبادى الفقہ الاسلامى للعرفى ص38 ، المحلى ج/ 3 ص 160و الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 311_
5) دلائل الصدق ج 3 جزء دوم ص 100از مبادى الفقہ الاسلامى للعرفى ص 38 و الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 311_
149
18_ سيد مرتضى كہتے ہيں '' ... اہل سنت يہ بھى كہتے ہيں كہ يہ (حى على خير العمل) پيامبر (ص) اسلام ہى كے زمانے كے بعض امور ميں سے ہے ليكن اس كے بارے ميں يہ بھى كہا اور دعوى كيا جاتاہے كہ يہ امور نسخ ہوگئے اور ان كے احكام اٹھ گئے تھے تا ہم جس نے نسخ كا دعوى كيا ہے اسے اپنے دعوى كے لئے دليل لانے كى ضرورت ہے ليكن اس كے پاس اسكے اس دعوى كى كوئي دليل نہيں ہے ...''(1)_
19_ عبدالرزاق نے معمر سے ،انہوں نے ابن حماد سے ،انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے جد سے اور انہوں نبى اكرم(ص) سے روايت كى ہے كہ آپ (ص) نے حديث معراج ميں فرمايا: ''پھر جبرائيل (ع) كھڑے ہوئے، اپنے دائيں ہاتھ كى شہادت كى انگلى كان ميں ركھى پھر اذان دى اور اسكے جملوں كو دو دو مرتبہ ادا كيا اور اس كے آخر ميںحى على خير العمل كو بھى دو مرتبہ ادا كيا ''(2)_
20 _ ابن النباح اذان ميں ''حى على خير العمل'' كہا كرتے تھے (3)_
قاسم بن محمد كا كہنا ہے كہ كتاب السنام ميںيہ عبارت درج ہے:'' صحيح بات تو يہ ہے كہ اذان كى تشريع حى على خير العمل كے ساتھ ہى ہوئي ہے _ كيونكہ پہلى بات تو يہ ہے كہ انہى جملوں كے ساتھ اذان دينے پر اتفاق رائے جنگ خندق كے موقع پر ہوا تھا اور دوسرى يہ كہ اس سے نماز كے لئے پكارا جاتا ہے _ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ہے كہ تمہارا سب سے بہترين عمل نماز ہے _ اور اس بات پر بھى اتفاق ہے كہ عبداللہ بن عمر ، حضرت امام حسن عليہ السلام ، حضرت امام حسين عليہ السلام ، بلال اور بزرگ صحابہ كى ايك جماعت بھى حى على خير العمل كے ساتھ اذان ديتے تھے_ يہ بات موطا امام مالك كى شرح اور ان كى ديگر كتب ميں بھى ذكر ہوئي ہے _ صوفى مذہب كے بزرگ ، صاحب فتوح مكہ ( شايد فتوحات مكيّہ ) كا كہنا ہے كہ تمام مذاہب نے تعصب كى بنا پر اذان سے حى على خير العمل كے ترك كرنے پر اجماع اور ايكا كر ليا ہے _ پھر كہتا ہے كہ علامہ بزرگوار عزالدين ابو ابراہيم ، محمد بن ابراہيم كے يہ الفاظ ہيں : '' ميں نے حى على خير العمل سے متعلق
--------------------------------------------------------------------------------
1)الانتصار ص 39_
2) سعد السعود ص 100،البحار ج/4 ص 107،جامع احاديث الشيعہ ج/2ص 221_
3) الوسائل، جامع احاديث الشيعہ، قاموس الرجال_
150
دو روايتوں كى اسناد كے متعلق تحقيق كى تو ابن عمر اور حضرت امام زين العابدين (ع) تك ان كے سارے سلسلے كو صحيح پايا''(1)_اور امام سروجى نے شرح الہداية للحنفيہ ميں حى على خير العمل كى احاديث كو كثير منابع اور اسناد سے نقل كيا ہے (2)_
21 _ حضرت امام على عليہ السلام سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ''ميں نے رسول اللہ (ص) كويہ فرماتے سنا كہ جان لو يقيناً تمہارا سب سے بہترين عمل نماز ہے_ پھر آپ(ص) نے بلال كو حكم فرمايا كہ اذان ميں ''حى على خير العمل'' كہے ''_اس حديث كو ''الشفائ'' ميں روايت كيا گيا ہے(3)_
22_ محمد بن منصور نے اپنى كتاب'' الجامع'' ميں بعض پسنديدہ شخصيات كى سند كے ساتھ اورا نہوں نے رسول (ص) خدا كے ايك موذن ابو محذورة سے روايت كى ہے _وہ كہتے ہيں كہ مجھے خود آنحضرت (ص) نے امر فرمايا تھاكہ ميں اذان ميں '' حى على خير العمل'' كہوں (4)_
23_ محمد بن منصورسے روايت ہے كہ ابو القاسم (ع) نے انہيں حكم ديا كہ اذان ميں ''حى على خير العمل'' كا ذكر كرو اور فرمايا كہ رسول اللہ (ص) نے بھى ايسے ہى حكم فرمايا تھا _'' الشفائ'' ميں بھى اسى طرح مذكورہے(5)_
24_ ابوبكر احمد بن محمد السرى كى روايت ہے كہ اس نے موسى بن ہارون سے ،انہوں نے الحمانى سے،انہوں نے ابوبكر بن عياش سے ،انہوں نے عبدالعزيز بن رفيع سے اور انہوں نے ابو محذورہ سے روايت كى ہے _
ابو محذورہ كہتے ہيں كہ ميں اسوقت نوجوان تھا جب مجھے نبى اكرم (ص) نے فرمايا كہ اذان كے آخر ميں '' حي
--------------------------------------------------------------------------------
1)الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 310 نيز ص 312_
2)ايضاً ص 311_
3)جواھر الاخبار و الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخار ج/2 ص 191 ، الامام الصادق (ع) والمذاہب الاربعة ج/ 5 ص 284_نيز الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 309_
4) البحر الزخار ج/2 ص 192 ،نيز اسى صفحے كے حاشيہ پر جواھر الاخبار والآثار نيز كتاب العلوم ج 1 ص 92_
5)جواھر الاخبار والآثار ج/ 2 ص 191_
151
على خير العمل'' كہا كرو (1)_
25 _ الشفاء ميں ھذيل بن بلال مدائنى كى روايت ہے_ وہ كہتے ہيں كہ ميں نے ابن ابى محذورہ كو ''حى على الفلاح'' كے بعد ''حى على خير العمل '' كہتے ہوئے سنا (2)_
26_ زيد بن ارقم نے اذان ميں ''حى على خير العمل'' كہا (3)_
27_ شوكانى نے كتاب الاحكام سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ ہمارے نزديك پورى طرح سے ثابت ہے كہ رسول اكرم(ص) كے زمانے ميں اذان ميں ''حى على خير العمل'' كہا جاتا تھا اور يہ سلسلہ جارى رہا يہاں تك كہ حضرت عمر كے زمانے ميں ترك كرديا گيا _(4)_
28_ حسن بن يحيى نے بھى اسى طرح كہا ہے اور اس كا يہ قول كتاب '' جامع آل محمد (ص) '' سے مروى ہے(5)_
اسى كے متعلق محمد كہتا ہے كہ ميں نے احمد بن عيسى سے پوچھا كہ كيا تم اذان ديتے وقت دو مرتبہ حى على خير العمل بھى كہتے ہو؟ اس نے كہا كہ بالكل كہتاہوں _ميں نے پوچھا كہ اذان اور اقامت دونوں ميں كہتے ہو؟ اس نے كہا ہاں البتہ ميں دھيمى آواز سے پڑھتا ہوں _ اسى كے متعلق كہتے ہيں كہ مجھے محمد بن جميل نے نصر بن مزاحم سے ، انہوں نے ابوجارود اور حضرت اما م محمد باقر عليہ السلام سے حديث بيان كى ہے كہ حضرت امام باقر (ع) اپنى اذان اور اقامت ميں حى على خير العمل كہا كرتے تھے (6)_
29_حضرت امام على ابن الحسين (ع) سے روايت ہے كہ رسول اللہ (ص) كى سيرت تھى كہ موذن كے ساتھ اذان كے الفاظ دہراتے تھے اور جب كوئي موذن يہ كہتا: ''حى على الصلاة، حى على الفلاح،حى على خيرالعمل'' آنحضرت (ص) فرماتے '' لا حول و لا قوة الا باللہ ...''(7)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) ميزان الاعتدال للذھبى ج/1ص 139، لسان الميزان للعسقلانى ج/ 1 ص 268_
2) سابقہ حوالہ ص 192، جواھر الاخبار والبحر الزخار_
3) الامام الصادق (ع) والمذاھب الاربعة ج/ 5 ص 283_نيز ملاحظہ ہو نيل الاوطار ج 2 ص19 از محب طبرى در الاحكام_
4) نيل الاوطار ج/2 ص 19_
5) نيل الاوطار ج/2 ص19 _
6) كتاب العلوم معروف بہ امالى احمد بن عيسى ج 1 ص 92_
7)دعائم الاسلام ج/ 1 ص 145 ، البحار ج/84 ص 179_
152
30_ حضرت امام محمد باقر (ع) اپنے والد گرامى امام على ابن الحسين (ع) سے روايت كرتے ہيں كہ آپ (ع) جب بھى حى على الفلاح كہتے تو اس كے بعد ''حى على خير العمل'' كہتے تھے (1)_
31_ زركشى بحر المحيط ميں تحرير كرتے ہيں : ''بعض مسائل ايسے ہيں جن كے متعلق دوسرے شہروں كے علاوہ خود مدينہ كے اندر ہى اختلاف پايا جاتا تھا خود مدينہ والوں كے پيشوا جناب ابن عمر اذان كى فصلوں كو ايك ايك كركے پڑھتے تھے اور اس ميں '' حى على خير العمل '' بھى كہتے تھے'' (2)_
32_ كتاب ''السنام'' كے الفاظ يہ ہيں : ''صحيح يہى ہے كہ اذان كا حكم ''حى على خير العمل''كے ساتھ ہى آيا '' (3)_
33_ حضرت امام على (ع) سے مروى ہے كہ آپ(ع) اذان ميں '' حى على خير العمل '' كہا كرتے تھے اور اسى عادت كو شيعوں نے اپنا ليا ہے(4)_
34_ الروض النضير ميں ہے كہ مالكى علماء كى ايك كثير تعداد اسى طرح حنفى اور شافعى علماء اس بات كے قائل ہيں كہ ''حى على خير العمل'' كا جملہ اذان كا حصہ ہے(5)_
بے جا اعتراضات :
1_ يہ دعوى كہ كتب صحيحين ( بخارى و مسلم ) ميں اس قسم كى كسى حديث كا ذكر نہ ہونا اس بات پر دلات كرتا ہے كہ اذان ميں يہ جملہ معتبر اور صحيح نہيں ہے _ اور اگر يہ جملہ پہلى اذان ميں شامل تھا بھى تو مذكورہ كتب ميں ان كا ذكر نہ ہونے كى وجہ سے يہ جملہ بعد ميں منسوخ ہوگيا (6) يہ دعوى صحيح نہيں ہے _ كيونكہ :
ايك : كتب صحيحين ميں احكام پر مشتمل تمام احاديث ذكر نہيں كى گئيں _
--------------------------------------------------------------------------------
1)جواھر الاخبار والآثار للصعدى ج/2 ص192_
2)الروض النضير ج/1 ص542_و الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 307_
3 ) ايضاً_
4) الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 308_
5) الروض النضير ج1 ص 542_
6)ملاحظہ ہو: نيل الاوطار ج2 ص 19_
153
دو : اگر يہ جملہ منسوخ ہوگيا ہوتا تو اس كا علم عبداللّہ بن عمر ، حضرت امام زين العابدين (ع) اور زيد بن ارقم و غيرہ جيسى شخصيات كو ضرور ہوتا _ تو ( اگر ايسا تھا تو ) ان شخصيات نے كس بنا پر اس اذان كو حتى كہ رسول (ص) خدا كى رحلت كے بعد بھى جارى ركھا ؟
تين : اس بحث ميں مذكور بعض روايتوں ميں صراحت كے ساتھ آيا ہے كہ اذان سے مذكورہ جملے كو حذف كرنے والا پہلا شخص خليفہ ثانى عمر بن خطاب تھا _ اور اس كى وجہ بھى اس كے خيال ميں ايك وقتى مصلحت تھى _ اگر اس كى يہ بات صحيح بھى تسليم كرلى جائے تو پھر بھى اس وقتى مصلحت كے ٹل جانے كى صورت ميں رسول (ص) خدا كے حكم كے متروك ركھنے كى كيا ضرورت رہتى ہے ؟ اور شايد كئي صحابيوں ، تابعيوں اور دوسرے لوگوں كے علاوہ اہل بيت عليہم السلام اور ان كے پيروكاروں كا اذان ميں اس جملے كى ادائيگى پر كاربند رہنے كا مطلب يہ ہو كہ ان بزرگواروں نے خليفہ ثانى كے اجتہادى فتوے كو قبول نہيں كيا تھا اور وہ اس كے موافق نہيں تھے _
2_ ان تمام تصريحات كے بعد معلوم ہوجاتا ہے كہ بعض افراد كا يہ دعوى كہ '' اذان ميں مذكورہ جملہ كہنا مكروہ ہے كيونكہ يہ جملہ نبى (ص) كريم سے ثابت نہيں ہے '' _ ( 1) بھى صحيح نہيں ہے _ اس لئے كہ مذكورہ شخصيات كے ذريعہ سے نبى (ص) كريم كى صحيح احاديث بيان ہوچكى ہيں _ يہ تمام بزرگ شخصيات بھى ''حى على خير العمل '' كہنے كى قائل اور پابند تھيں اور يہ نبى (ص) كے اہل بيت ، رسالت كى كان اور ثقلين كے ايك جزء كا نظريہ بھى تھا _ اور '' حى على خير العمل '' كا جملہ كئي عرصے تك اہل بيت (ع) ، علويوں اور ان كے پيروكاروں كا شعار ، نعرہ اور پہچان رہا _ حتى كہ تحريك فخ كے بانى جناب حسين بن على كى انقلابى تحريك كى ابتداء بھى اسى نعرے كى بنياد پر ہوئي تھى _ اس بارے ميں مندرجہ ذيل بيانات ملاحظہ فرمائيں :
'' حى على خير العمل '' ، نعرہ بھى اور موقف بھي
الف : مسجد نبوى (ص) ميں حضور (ص) كريم كے سرہانے مقام جنائز كے ساتھ بنے گلدستہ اذان پر عبداللّہ بن حسن
--------------------------------------------------------------------------------
1) البحر الرائق ج 1 ص 275 از شرح المہذب نيز سنن بيہقى ج 1 ص 425_
154
افطس نے چڑھ كر مؤذن كو تلوار دكھاتے ہوئے كہا كہ '' حى على خير العمل '' كے ساتھ اذان دو_ مؤذن نے اس كے ہاتھ ميں تلوار ديكھ كر خوف كے مارے مذكورہ جملے كے ساتھ اذان دے دى _ العمرى (منصور كى طرف سے مدينہ كے گورنر) نے جب يہ اذان سنى اور اسے گڑبڑ كا احساس ہوا تو دہشت زدہ ہو كر چيخ پڑا : '' جلدى سے دروازے بندكر دو اور مجھے پانى پلاؤ'' (1)_
ب: تنوخى نے كہا ہے كہ اسے ابوالفرج نے بتايا ہے كہ ميں نے خود اپنے كانوں سے قطعى طور پر سنا ہے كہ منصور كے زمانے ميں علوى حى على خير العمل كے ساتھ اذان ديتے تھے (2) _
ج: ابن كثير نے 448ھ كے واقعات ميں رافضيوں كے بارے ميں بتايا ہے كہ وہ حى على خير العمل كے ساتھ اذان ديا كرتے تھے (3) _
د: حلبى كہتا ہے : '' بعض مؤرخين كے بقول (ع) آل بويہ كے دور حكومت ميں رافضي''حى على الصلوة '' اور '' حى على الفلاح '' كے بعد '' حى على خير العمل '' كہا كرتے تھے _ پھر جب سلجوقيوں كا دور حكومت آيا تو انہوں نے مؤذنوں كو مذكورہ جملے كہنے سے منع كرديا اور اس كے بدلے ميں انہيں صبح كى اذان ميں '' الصلواة خير من النوم '' كہنے كا حكم ديا _ اور يہ 448 ہجرى كى بات ہے '' (4)_
ہ: ابن فرحون كہتا ہے كہ حضور بنى (ص) كريم كے حجرہ سے ملحق ايك ہال سا بنايا گيا تھا تا كہ ڈوبتے سورج كى تمازت سے بچاجاسكے _ وہ كہتا ہے : '' يہ ہال نماكمرہ ايك بدعت اور گمراہى تھى جس ميں شيعہ نماز پڑھا كرتے تھے '' _ پھر كہتا ہے : '' ميں خود بعض افراد سے سنا كرتا تھا كہ وہ اس كے دروازے پر كھڑے ہوكربلند آواز سے حى على خير العمل كہتے تھے _ وہ كمرہ ان كى درس گاہ اور ان كے علماء كاخلوت كدہ تھا _يہاں تك كہ خدا نے اسے ان كے اوپر گراديا اور ايك شب اس كے دروازے تك بھى اكھڑ گئے ... '' (5)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) مقابل الطالبين ص 446_
2) نشوار المحاضرات ج 2 ص 133_
3) ملاحظہ ہو : البداية و النہايہ ج 2 ص 63_
4) سيرہ حلبيہ مطبوعہ 1382ھ باب الاذان ج 2 ص 105، البدايہ والنہايہ ج 12 ص68 واقعات 448 ھ_
5) وفاء الوفاء ج 2 ص 612_
155
ابن قاسم نويرى اسكندرانى كہتا ہے : '' معز جب مصر پہنچا تو اس نے عمرو بن عاص اور ابن طولون كى جامع مسجدوں ميں حى على خير العمل كے ساتھ اذان دينے كا حكم ديا _ اور يہ سلسلہ 7 56 ہجرى ميں عبيديوں كى حكومت كے خاتمے تك جارى رہا اور ان كى حكومت كے خاتمے كے ساتھ ہى حى على خير العمل كا ذكر بھى ختم ہوگيا _ ان كى حكومت كا خاتمہ سلطان صلاح الدين يوسف بن نجم الدين ايوب ( صلاح الدين ايوبى ) نے كيا تھا '' (1) _
و: 0 35 ہجرى ميں دمشق ميں سلطان معز كے نائب جعفر بن فلاح كے حكم سے مؤذنوں نے ''حى على خير العمل '' كے ساتھ اذان دى (2) _ اسى سال ميں بساسيرى نے بغداد پہنچ كر اذان ميں '' حى على خير العمل '' كا اضافہ كيا(3)_
ز: نو يرى كہتا ہے : '' اپنے آپ كو فاطمى سمجھنے والے عبيدى شيعہ تھے _ وہ اپنى اذانوں ميں '' حى على الصلاة'' اور '' حى على الفلاح '' كے بعد '' حى على خير العمل '' بھى كہتے تھے_ جس طرح مكہ اور مدينہ ميں زيدى ايام حج كے علاوہ عام دنوں ميں بھى اپنى اذانوں ميں دو مرتبہ '' حى على خير العمل '' كہتے تھے ، وہ بھى اسى طرح كرتے تھے _ اسى طرح يمن كے صعدہ اور ديگر علاقوں ميں بھى ايسا ہى ہوتا تھا '' (4)_
ح : صلاح الدين ايوبى كے خلاف حلب كے گور نر كى حمايت كے لئے شيعوں كى شرائط كا ذكر كرتے ہوئے ابن كثير كہتا ہے : '' رافضيوں نے حلب كے گورنركى حمايت كے لئے اس پر يہ شرطيں عائد كيں كہ ايك تو اذان ميں دوبارہ حى على خير العمل كو ذكر كيا جائے ، نيز يہ اذان تمام جامع مسجدوں اور گليوں اور بازاروں ميں دى جائے _ ہمارے لئے ايك جامع مسجد مخصوص كى جائے ، بارہ اماموں كانام سر عام لينے كى اجازت
--------------------------------------------------------------------------------
1) الالمام با لا علام فيما جرت بہ الاحكام ج 4 ص 24 نيز ملاحظہ ہو : تاريخ الاسلام ذہبى واقعات 381 ھ ص 32 و تاريخ الخلفاء ص 402 _
2) تاريخ الاسلام واقعات 350 ھ ص 48 ، البداية و النہايہ ج 11 ص 270 نيز ملاحظہ ہو : تاريخ ابن الوردى ج 1 ص 408 و مآثر الانافہ ج 1 ص307_
3) تاريخ الخلفاء ص 418_
4) الالمام ج 4 ص 32 نيز ملاحظہ ہو ص 40 و ص 41_
156
دى جائے ، نماز جنازہ ميں پانچ تكبيريں پڑھى جائيں اور ہمارے نكاح اور جنازے ( جيسے دينى امور ) كو حلب كے شيعہ رہنما شريف طاہر ابو المكارم حمزہ بن زہرہ حسينى كے سپرد كيا جائے اور حلب كے گور نر نے يہ تمام شرائط منظور كرليں '' (1)_
اس عبارت كے حذف ہونے كا سبب :
يہ عبارت اذان سے كيوں حذف ہوئي ؟ حضرت عمر نے خود اس راز سے پردہ اٹھاياہے جيسا كہ پہلے بھى گذرچكاہے_
35_ ابن شاذان نے اہل سنت و الجماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے كہا: '' تم لوگوںنے ہى قاضى ابويوسف سے ايسى روايت ذكر كى ہے جسے محمد بن الحسن اور انكے اصحاب نے بيان كياہے نيز امام ابوحنيفہ سے بھى روايت كى ہے ، وہ كہتے ہيں كہ رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبكر كے عہد ميں اور حضرت عمر كى خلافت كے ابتدائي دور تك اذان ميں''حى على خير العمل'' كہا جاتا تھا _اس كے بعد حضرت عمر نے كہا كہ مجھے اس بات كا انديشہ ہے كہ جب تك ''حى على خير العمل'' كہا جاتا رہے گالوگ صرف نماز پر اعتماد اور اكتفا كرتے رہيںگے اور جہاد كو ترك كرديں گے، پس اس نے اذان سے ''حى على خير العمل'' حذف كرنے كا حكم ديا''(2)_
36 ،37،38 _ اسى طرح كى روايات حضرت امام صادق (ع) ، حضرت اما م باقر (ع) اور ابن عباس سے بھى منقول ہيں(3)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) الكنى و الالقاب ص 189 و البدايہ و النہايہ ج 12 ص 289 _
2)الايضاح لابن شاذان ص 201 و 202_نيز ملاحظہ ہو : الاعتصام بحبل اللہ المتين ج1 ص 296، ص299 ، 304،305 ،306 ، 307 و كتاب العلوم ج1 ص 92_
3)دعائم الاسلام ج/1 ص 142، البحار ج/ 84 ص 156 و 130، علل الشرائع ج/2ص 56 ، البحر الزخار ، جواھر الاخبار والآثار ان دو كتابوں كے حاشيہ پر ج/2 ص 192 ، دلائل الصدق ج / 3 جزء دوم ص100 عن مبادى الفقہ الاسلامى لمحمد سعيد العرفى ص 38 عن سعد الدين تفتازانى شرح العضد كے حاشيہ پر جو ابن حاجب كى مختصر الاصول پر ہے، سيرت المصطفى (ص) للسيد ھاشم معروف الحسنى ص 274 الروض النضير ج/ 2 ص 42سے نيز الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 1 ص 310_
157
اس رائے پہ تبصرہ:
ہميں اس بات پر باو رہے كہ خليفہء ثانى كى نسبت رسول اسلام (ص) كے زمانے ميں جہاد يقيناً زيادہ اہميت ركھتا تھا_ آپ (ص) كے زمانے ميں لوگوں كو اس كى زيادہ ضرورت تھى ليكن اس كے باوجود آپ(ص) نے اذان سے اس جملے كو نہيں نكالا _ جس سے ہم يقين كے ساتھ كہہ سكتے ہيںكہ حضرت عمر قوت اور لياقت كے لحاظ سے قابل قبول حد تك بھى اجتہاد كى صلاحيت نہيں ركھتے تھے _ كيونكہ وہ اس مسئلے كے تمام تر پہلوؤں اور نتائج و عواقب كا خيال نہيں ركھ سكتے تھے( جيسا كہ نبى اكرم(ص) كرسكتے تھے)_
البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ اس كى يہ توجيہہ اس بات كى دليل ہے كہ اس كى نظر ميں وقتى اسباب تھے جن كا اس كے خيال ميں يہ تقاضا تھا كہ اس جملے كو نكال ديا جائے، تا ہم انہوں نے يہ كبھى نہ سوچا ہوگا كہ تا ابد اس جملے كو اذان سے نكال ديا جائے گا_بہر حال يہ تو معلوم ہے كہ انہوں نے ايسا كيا تو صرف ايك محدود زمانے كے لئے تھا_
جو ہوا سو ہواليكن اب ہم يہ سمجھنے سے قاصر ہيں كہ اس جملے كو اذان سے آج تك كيوں حذف ركھا گيا ہے حالانكہ اب تو وہ حالات بھى نہيں رہے جن كى وجہ سے ''حى على خير العمل'' كو اذان سے نكال دياگياتھا؟_
ہم سب مل كر رسول اعظم(ص) اورا ن كے اہل بيت (ع) كى سنت و سيرت كى طرف دوبارہ لوٹ كيوں نہيں جاتے؟
نماز ميں اضافہ:
بعض معتبر اور صحيح روايات ميں ذكر ہوا ہے(1) كہ شروع شروع ميں نماز دو، دو ركعت تھى جنہيں خوداللہ تعالى نے ابتدائي طور پر اپنے بندوں پر فرض فرمايا تھا _ ليكن اللہ رب العزت نے اپنے حبيب (ص) كو يہ اختيار بھى دياكہ آپ (ص) كسى جديد وحى كى ضرورت محسوس كئے بغير مناسب اوقات كے لئے ان كى ركعتوں ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1)الوسائل ج / 3 ،ابواب اعداد الفرائض و نوافلہا ، باب عدد الفرائض اليوميہ و جملة من احكامھا_
158
اضافہ فرماديں _ آپ (ص) نے مغرب كى نمازميں ايك ركعت نيز ظہرعصر اور عشاء كى نمازوں ميں دو دو ركعتوں كا اضافہ فرمايا_
ان اضافى ركعتوں كے بارے ميںايك قول يہ ہے كہ ان كا اضافہ ہجرت كے پہلے سال ہوا _ جبكہ ايك دوسرے قول كے مطابق حسنين شريفين عليھما السلام كى ولادت كے بعد ايسا ہوا _ غالباً پہلى رائے صحيح ہے كيونكہ اس بات كا ذكر قبلہ كى تبديلى والى حديث ميں ہوا ہے جو آپ حضرات (ع) كى ولادت سے پہلے كا واقعہ ہے_
بہر حال نماز ميں يہ اضافہ غير معقول نہ تھا كيونكہ شرعى احكام تدريجى طور پر نازل ہوئے، خاص طور پر وہ احكام جن كى پابندى عربوں كے لئے مشكل ہو سكتى تھى كيونكہ جن امور كے وہ عادى ہوچكے تھے اور ان كا تعلق انكى بود و باش اور رہن سہن سے تھا ان كى مخالفت انكے لئے مشكل تھي_
نماز كے فرض ہونے ميں ايك اور نظريہ:
گذشتہ بحث كے علاوہ يہاں بعض ايسى روايات ملتى ہيں جن ميں آيا ہے كہ نماز شروع ميں ہى كامل فرض ہوئي تھى يا پھر يہ كہ كم از كم مكہ ميں نماز كامل تھي_ ان ميں سے بعض روايات مندرجہ ذيل ہيں_
1_ سب سے پہلى نماز جسے رسول اسلام (ص) نے ادا فرمايا وہ نماز ظہر تھي_ جبرائيل (ع) تشريف لائے اور فرمايا ''انا لنحن الصافون'' ''و انا لنحن المسبحون'' (1)بے شك ہم بارگاہ ايزدى ميں صف بستہ ہيں، اور بے شك ہم ہى اسكى تسبيح بجالانے والے ہيں _ اسكے بعد جبرائيل (ع) آنحضور (ص) كے سامنے كھڑے ہوگئے ،اس كے پيچھے آنحضرت (ص) كھڑے ہوئے اور آپ (ص) كے پيچھے سب مرداور پھر ان كے پيچھے خواتين كھڑى ہوگئيں پس سب نے چار ركعت نماز ظہر ادا كى پھر جب نماز عصر كا وقت آيا تو جبرائيل (ع) كھڑے ہوئے اور پہلے كى طرح يہ عمل انجام ديا_ اسكے بعد روايت نماز مغرب كى تين ركعت اور عشاء كى چار ركعت كا ذكر كرتى ہے(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) صافات /165_
2) المصنف حافظ عبدالرزاق ج / 1 ص 453 ، سنن بيہقى ج/1 ص 262 ،از ابى داؤد فى مراسيلہ ، درمنثور ج/ 5 ص 293_
159
البتہ يہ بات واضح ہے كہ سورة الصافات مكى ہے پس روايت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ نمازمكہ ميں ہى كامل طورپر فرض ہوئي تھي_
2 _ نافع بن جبير و غيرہ سے روايت ہے كہ شب معراج ، صبح تك جبرائيل (ع) آنحضرت(ص) كے پاس رہے حتى كہ زوال كا وقت بھى ہو گيا ... پھر روايت ذكر كرتى ہے كہ جبرائيل (ع) نے آپ (ص) اور ديگر افراد كے ہمراہ نماز ظہر چار ركعت ادا كى اور پھر اسى طرح نماز عصر بھى ادا كى ... (1)_
3 _ حسن بصرى روايت كرتے ہيں نماز حضر ( غير سفر كى نماز) شروع سے ہى چار ركعت فرض ہوئي(2)_
ليكن شيعوں اور سنيوںكے ہاں ايسى بہت سارى صحيح اور قطعى روايات كى موجودگى ميں (جو اس امر پر دلالت كرتى ہيں كہ غير سفر كى نماز شروع ميں دو ركعت فرض ہوئيں اور بعد ميں ان ميں اضافہ ہوا)ہم ان مذكورہ روايات كو قبول نہيں كر سكتے_
البتہ يہ ممكن ہے كہ ان روايات كا مطلب يہ ہو كہ نماز تو شروع ميں ہى نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پاس كامل آئي ليكن مصلحتاً پہلے دو ركعت فرض كى گئي پھر سارى فرض كى گئي اور مذكورہ امر آنحضور (ص) كے سپرد كرديا گيا كہ مناسب وقت پر اس كى تبليغ فرماديں_ اسى لئے پہلى دو ركعتوں كو فريضہ كہا جاتا ہے يعنى يہ فريضہ اللہ كى جانب سے بندے پر براہ راست تھا اور باقى ركعتوں كو سنت كہا جاتا ہے يعنى نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ذمے تھا كہ موزوں موقع پر اس حكم كو پہنچاديں _اور اسے ہى مصلحت اقتضائي كہتے ہيں_
زكوة كا فريضہ:
كہتے ہيں كہ اموال كى زكاة جنگ بدر كے بعد دوسرى ہجرى ميں فرض ہوئي اور يہ حكم زكوة فطرہ كے
--------------------------------------------------------------------------------
1)مصنف الحافظ عبدالرزاق ج/ 1 ص 455 اور اس كے ذيل ميں ابى داؤد كا حاشيہ _
2)البداية والنہاية ج/ 3 ص 331 ، تفسير طبرى سورة النساء آيت 101_
160
وجوب كے بعد آيا _ ايك اور رائے كے مطابق زكوة تيسرى ہجرى ميں فرض ہوئي اور ايك قول چوتھى ہجرى كابھى ہے(1)_
ليكن يہ درست نہيں _صحيح قول يہ ہے كہ زكوة مكہ ميں فرض ہوئي_ بعض اسى كے قائل بھى ہيں(2) اسكے دلائل مندرجہ ذيل ہيں_
1_ قرآن حكيم كى كئي مكّى آيات ميں زكوة كى ادائيگى كا حكم آياہے جن ميں سے بعض آيات مندرجہ ذيل ہيں_
( فساكتبہا للذين يتقون و يؤتون الزكاة )
(اعراف 156)
پس ميں عنقريب جنت ان لوگوں كے لئے لكھ دوں گا جو صاحبان تقوى اور زكوة ادا كرنے والے ہيں_ ( يہ سورہ مكى ہے)
(والذين ھم للزكاة فاعلون) ( المؤمنون 4)
اور( كامياب مومن وہى ہيں) جو زكوة ادا كرنے والے ہيں_ ( يہ سورہ مكى ہے)
(الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكاة)
(النحل 3، لقمان 4)
وہ لوگ جو نماز قائم كرتے اور زكوة ديتے ہيں_(يہ دونوں سورتيں مكى ميں)
(الذين لا يؤتون الزكاة و ھم بالآخرة ھم كافرون )
(فصلت 7)
وہ لوگ جو زكوة ادا نہيں كرتے اور آخرت كے بھى منكر ہيں_ (يہ سورہ مكى ہے)
--------------------------------------------------------------------------------
1) تاريخ الخميس ج/ 1 ص 407، سيرہ حلبيہ ج 1 ص 339 و ديگر كتب_
2)وفاء الوفاء ج/ 1 ص 277_
161
اسى طرح سورہ الروم _ 39 بھى ملاحظہ فرمائيں جو مكّى ہے_
خداوند عالم جناب اسحاق (ع) ، يعقوب (ع) ، لوط (ع) اور حضرت ابراہيم عليہم السلام كے متعلق فرماتا ہے:
( و اوحينا اليہم فعل الخيرات و اقام الصلاة و ايتاء الزكاة)
(انبياء 73)
اور ہم نے ان پر وحى نازل كى كہ اچھے كام كرو، نماز قائم كرو اور زكوة ادا كرو _
اسى طرح خدا حضرت عيسى عليہ السلام كى زبانى فرماتا ہے:
(' و اوصانى بالصلاة و الزكاة مادمت حيّاً) (مريم 31)
اور مجھے مرتے دم تك نماز اور زكات كى ادائيگى كا حكم ملا ہے _
نيز حضرت اسماعيل عليہ السلام كے متعلق فرماتا ہے:
(' و كان يامر اہلہ بالصلاة و الزكاة) (مريم 55)
وہ اپنے گھر والوں كو نماز اور زكات كى ادائيگى كا حكم ديا كرتے تھے _
يہ تمام مذكورہ آيات مكى سورتوں كى ہيں _ اور ان آخرى آيتوں ميں تو سابقہ امتوں ميں زكات كے فرض ہونے كى بات ہوئي ہے اور ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ زكات كا حكم منسوخ نہيں ہوا ( جس كا مطلب يہ ہے كہ زكات نہ صرف مدينہ كى بجائے مكہ ميں فرض ہوئي بلكہ پہلے سے ہى فرض تھي)_
2_ حضرت ابوطالب (ع) نے نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے متعلق فرمايا : '' اسے اللہ نے صلہ رحمى ، نماز قائم كرنے اور ادائيگى زكوة كے حكم كے ساتھ مبعوث فرمايا ہے''(1)_
3_ جرير بن عبداللہ بجلى روايت كرتے ہيں كہ جب نبى اكرم (ص) مبعوث ہوئے _ ميں آپ (ص) كى خدمت ميں قبول اسلام اور بيعت كرنے كے لئے پہنچا تو آپ (ص) نے استفسار فرمايا: '' جرير تم يہاں كس لئے آئے ہو؟''_ ميں نے عرض كيا :
--------------------------------------------------------------------------------
1) الاصابہ ج /4 ص 119 ، البحار ج/ 35 ص 151،الطرائف ص 304 ، الغديرج/7 ص 368 از نہاية الطلب شيخ ابراھيم الخليلي_
162
''ميں آپ(ص) كے ہاتھوں پر اسلام قبول كرنے آيا ہوں ''_پس آپ(ص) نے مجھے حكم ديا كہ لا الہ الا اللہ اور ميرى رسالت كى گواہى دو،واجب نماز قائم كرو، اسى طرح فرض زكوة بھى ادا كرو (1)_
4_ جناب ثقة الاسلام كلينى نے على بن ابراھيم سے ،انہوں اپنے والد سے، انہوں حماد سے، انہوں حريز سے، انہوں محمد بن مسلم اور ابوبصير، بريداور فضيل سے ،ان سب نے حضرت امام باقر اورحضرت امام صادق عليہما السلام سے روايت كى ہے _امام (ع) نے فرمايا : ''اللہ تعالى نے زكاة بھى نماز كے ساتھ فرض كى ہے ''(2) اور جيسا كہ ملاحظہ فرمارہے ہيں اس روايت كى سندبھى بہت عمدہ ہے _
5_ اس نظريئےى تائيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ حضرت جعفر بن ابى طالب نے حبشہ كے بادشاہ كے سامنے زكوة كا ذكر بھى ان چيزوں ميں فرماياجن كے متعلق انہيں اللہ نے حكم ديا ہے(3)_
ماسبق سے متعارض روايت
گذشتہ مطالب سے بظاہر اختلاف اور تضاد ركھنے والى ايك صحيح السند روايت بھى ہے جو يہ كہتى ہے كہ جب سورہ توبہ ميں مذكور زكاة كى آيت نازل ہوئي (جبكہ يہ سورت مدنى اور نازل ہونے والى آخرى سورتوں ميں سے ہے ) تو اس كے نزول كے بعد آنحضرت(ص) نے اپنے ايك منادى كو فرمايا تو اس نے لوگوں ميں يہ اعلان كيا'' اللہ نے تم پر زكاة فرض فرمائي ہے''_اسكے ايك سال بعد دوبارہ ڈھنڈ ھورچى سے فرمايا تو اس نے مسلمانوں ميں اعلان كيا '' اے مسلمانواپنے اموال كى زكاة دو تا كہ تمہارى نمازيں قبول ہوں '' راوى كہتا ہے كہ اس اعلان كے بعد آپ(ص) نے مختلف علاقوں ميں زكات اور صدقہ اكٹھا كرنے والے عامل (ايجنٹ ) بھيجے(4)_
--------------------------------------------------------------------------------
1)تدريب الراوى ج/2 ص 212 از الطبرانى درالاوسط، الاصابہ ج/ 1 ص 232ميں حديث كے پہلے حصے كا ذكر كيا گيا ہے_
2)الوسائل ج/4 ص 5 ، فروع الكافى ج/ 3 ص 498_
3)الثقات لابن حبان ج / 1 ص 65 ، حلية الاولياء ج / 1 ص4 11 ، 116 از ابن اسحاق ، البداية والنہاية ج/ 3 ص 69 ، 70 ، 74 ، تاريخ الخميس ج/ 1 ص 290 ، سنن بيہقى ج/ 9 ص 144 ، سيرة ابن ہشام ج/ 1 ص 360 ، مجمع الزوائد ج/6 ص 27 و 24از طبرانى اور احمد اس كى سند كے تمام افراد صحيح بخارى كے افراد ہيں حياة الصحابة ج/1 ص 354 و 357 از گذشتہ بعض منابع و فتح البارى ج/7 ص 30 اور اس نے اس كى سندكو حسن قرار ديا ہے _
4)الكافى ج/3 ص 497، تفسير البرھان ج/2 ص 156_
163
ليكن يہ روايت ان دسيوں آيات سے متضادہے جو زكاة كے فرض ہونے كے بارے ميں سورہ توبہ سے قبل نازل ہوئيں ان كى تعداد تقريباً تيس تك جاپہنچتى ہے اور وہ سب كى سب زكات كے فرض ہونے پر دلالت كرتى ہيں_ ان سب سے استحباب كا معنى لينا يا زكوة فطرہ مراد لينا واقعاًبعيد ہے_
بنابرايں اس روايت كو اس مفہوم پر محمول كريں گے كہ اگر چہ زكوة اس آيت كے نزول سے پہلے فرض ہوئي ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس آيت كے نزول كے بعد اس كى ادائيگى اور حصول كے متعلق سخت گيرى كى _ يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ زكات كے وجوب كا حكم تو مكہ ميں آيا ليكن اس كے حصول كے فريضہ اور ادائيگى كے لزوم كا حكم مدينہ ميں اس آيت كے نزول سے آيا _
زكات فطرہ كا فرض ہونا
چونكہ زكات فطرہ ، زكوة اموال سے پہلے فرض ہوئي پس يہ بھى مكہ ميں فرض ہوئي _ اس كے دلائل مندرجہ ذيل ہيں:
1 _ گذشتہ روايت
2_ '' سفر السعادة'' كى روايت، جس ميں آيا ہے كہ آنحضرت (ص) ايك منادى كو مكہ كے گلي، كوچے، محلے اور بازاروں ميں اس اعلان كے لئے بھيجا كرتے تھے كہ صدقہ فطرہ ( زكوة فطرہ) ہر مسلمان مرد و خاتون پر واجب ہے(1) البتہ ہم اس وقت كے حالات اور مسلمانوں اور مشركوں كے درميان بہت زيادہ كشيدگى كے سبب اس عمل كو بعيد سمجھتے ہيں_
روزے كا فرض ہونا:
كہتے ہيں كہ ماہ مبارك رمضان كے روزے مدينہ ميں دوسرى ہجرى ميںاس وقت فرض ہوئے (2) جب يہ آيات مباركہ نازل ہوئيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1)السيرة الحلبيہ ج/2 ص 136_
2) البداية والنہاية ج/ 3 ص 254_
164
( كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم ... شھر رمضان الذى انزل فيہ القرآن ھدى للناس و بينات من الھدى و الفرقان فمن شھد منكم الشھر فليصمہ) (بقرة 183 تا 185)
جناب قمى نے تحرير فرماياہے كہ ماہ مبارك رمضان كے روزے فرض ہونے سے پہلے بھى لوگ كچھ ايام روزے ركھتے تھے(1) حلبى كہتا ہے كہ ماہ رمضان المبارك كے روزے فرض ہونے سے پہلے آنحضرت (ص) اور آپ(ص) كے صحابہ ہر مہينے ميں ايام البيض (13، 14، 15 تاريخ ) كے تينوں دن كے روزے ركھا كرتے تھے (2)_
روزوں كے مكہ ميں فرض ہو نے كى دليل حضرت جعفر بن ابى طالب كى وہ گفتگو ہے جو انہوں نے حبشہ كے بادشاہ كے ساتھ كى _ اس ميں انہوں نے كہا كہ نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ہميں نماز، زكوة اور روزوں كا حكم ديا ہے_
ايك اعتراض اور اس كا جواب
بعض افراد نے اس حديث پر ايك نوٹ لكھا ہے كہ ميرے گمان ميں حضرت جعفر بن ابى طالب(ع) اور بادشاہ حبشہ كا قصہ گھڑا گياہے كيونكہ اس ميں روزوں كا ذكر ہے جو ہجرت حبشہ كے بعد فرض ہوئے(3)_ ليكن ان كى يہ بات قابل قبول نہيں كيونكہ حضرت جعفر بن ابى طالب كا كلام ہى اس بات كى دليل ہے كہ روزے مكہ ميں فرض ہوئے _ يہاں ہم يہ سوال كرتے ہيں كہ خود جناب جعفر كا كلام اس بات كى دليل كيوں نہيں بن سكتا كہ روزے مكّہ ميں واجب ہوئے؟ جبكہ جناب قمى اور حلبى كا قول بھى ذكر ہوچكا ہے_البتہ ہوسكتاہے يہاںان كى مراد ماہ مبارك رمضان كے روزے ہوںتو اس صورت ميں قمى اور حلبى كے مذكورہ قول سے ان كا جواب نہيں ديا جا سكتا_
--------------------------------------------------------------------------------
1)تفسير القمى ج/ 1 ص 65_
2)فجر الاسلام ص 76_
3)السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 132 و 136تفسير ابن كثير ج/1 ص 213 و 214_
165
ليكن مكّہ ميں ماہ رمضان المبارك كے روزے فرض ہونے كى ہمارے پاس دليل يہ ہے كہ جب عمرو بن مرة الجھنى نے اسلام قبول كيا تو حضور (ص) نے اسے تبليغ كے لئے اس كى قوم كى طرف بھيجا _ اس نے اپنى قوم سے كہا : '' ميں اللہ كے رسول (ص) كى جانب سے تمہارى طرف نمائندہ بناكر بھيجا گياہوں، ميں تمہيں جنت كى طرف دعوت ديتاہوں، جہنم كى آگ سے تمہيں ڈراتا ہوں، تمہيں خون كى حفاظت ، صلہ رحمي، اللہ كى عبادت، بتوں كو چھوڑنے ، بيت اللہ كے حج اور ماہ رمضان المبارك جو بارہ مہينوں ميں سے ايك ماہ ہے، اس كے روزوں كا حكم ديتاہوں پس جواسے قبول كرے گا اس كے لئے جنت ہے'' _ اور يہ واقعہ بعثت كے ابتدائي ايام كا ہے(1)_
يہاں اس بات كى طرف اشارہ كرنا ضرورى ہے كہ سابقہ امتوں ميں بھى روزے فرض تھے جيسا كہ ارشاد رب العزت ہے_
(كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم ... اياماً معدودات ...)
يہاں اياماً معدودات سے مراد ماہ رمضان كے روزے ہيں جيسا كہ آيت خودہى بيان فرمارہى ہے_
روز عاشور كا روزہ :
يہاں مؤرخين يہ بھى بيان كرتے ہيں كہ رسول اسلام (ص) جب مدينے ميںتشريف لائے توماہ مبارك رمضان كے روزے فرض ہونے سے پہلے آپ(ص) نے مشاہدہ كيا كہ مدينے كے يہودى روز عاشور كا روزہ ركھتے ہيں يعنى ماہ محرم كى دسويں تاريخ كو روزہ ركھتے تھے (2)_
آپ(ص) نے ان سے اس كى بابت پوچھا تو انہوں نے (صحيحين اور ديگر كتابوں كے مطابق )جواب ديا: '' يہ
--------------------------------------------------------------------------------
1)البدايةوالنہايةج/2ص252از ابو نعيم، مجمع الزوائدج/8ص244 از طبرانى ، حياة الصحابہ ج/1 ص191،كنزالعمال ج/ 7 ص64از رويانى اور ابن عساكر _
2)اسدالغابہ ج/ 5 ص507 _
166
دن بڑا عظيم دن ہے اس دن اللہ تعالى نے حضرت موسى (ع) اور ان كى قوم كو نجات بخشى نيز فرعون اوراسكى قوم كو غرق كيا ''_ تو آپ(ص) نے فرمايا: '' ميں موسى (ع) سے بہتر ہوں تم سے زيادہ روزے كا حقدار ہوں '' _پس آپ (ص) نے بھى اس دن روزہ ركھا اوردوسروں كو بھى روزہ ركھنے كا حكم ديا (1)_
نيز صحيحين اور ديگر كتابوں ميں حضرت عائشہ اور ديگر افراد سے روايت ہے كہ قريش زمانہ جاہليت ميں عاشور كے دن روزہ ركھتے تھے اور آنحضرت (ص) بھى اس روز روزہ ركھتے تھے_ جب آپ(ص) نے مدينہ ہجرت فرمائي تو اس دن خود بھى روزہ ركھا اور روزہ ركھنے كا حكم بھى ارشاد فرمايا _جب ماہ مبارك رمضان كے روزے فرض ہوئے تو آپ(ص) نے فرمايا :'' جو چاہے اس (عاشور كے )دن روزہ ركھے اور جوچاہے ترك كردے اسے اختيار ہے '' (2)_
مسلم و غيرہ نے ذكر كيا ہے كہ آنحضور (ص) نے اپنى رحلت كے صرف ايك سال پہلے روز عاشور كو روزہ ركھا تھا(3)_
ان روايات كا جھوٹ:
ہمارا عقيدہ ہے كہ يہ سب خيال بافياں ہے_كيونكہ:
1_ ان روايات كى اسناد مشكوك اور قابل اعتراض ہيں _خصوصاً ان روايات كے اكثر راوى مشكوك ، قابل اعتراض اور متہم ہيں_ ان ميںابوموسى اشعرى جيسے كئي ايسے بھى ہيں جوہجرت كے كئي سال بعد مدينہ آئے نيز ابن زبير جيسے كئي ايسے بھى ہيں جو ہجرت كے موقع پر بچے تھے _پس وہ اس سے پہلے كے حالات كى گواہى
--------------------------------------------------------------------------------
1)المصنف ج/4 ص 289 و 290 ، البخارى مطبوعہ الميمنية ج/ 1 ص 244 ، صحيح مسلم مطبوعہ صبيح در مصر ج/3 ص150،السيرة الحلبيہ ج/2ص 132 ، 133، تاريخ الخميس ج/1 ص 360،البداية والنہاية ج/1ص274 و ج/ 3 ص 355 ، تفسير ابن كثير ج/1 سورة بقرہ ميں ماہ رمضان كے روزوں والى آيات، مشكل الآثار ج/3 ص 85 ،90و زاد المعاد ج 1 ص 164 و 165_
2)گذشتہ حوالہ جات ،نيز الموطا ج /1 ص279 ، البخارى طبع مشكول ج/5 ص 51 ، مشكل الآثار ج/3 ص 86 و 87 و زاد المعاد ج 1 ص 164 و 165_
3) صحيح مسلم ج/ 3 ص 151_
167
كيسے دے سكتے ہيں؟اس كے علاوہ ان روايات ميں معاويہ جيسے كئي ايسے بھى ہيں جو ہجرت كے چند سال بعد فتح مكہ كے موقع پر اسلام لائے _
2_ان روايات ميں تناقض پايا جاتاہے جس كو نظر انداز نہيں كيا جاسكتا مثلاً:
ايك روايت يہ كہتى ہے كہ آپ (ص) مدينہ ميں يہوديوں كى پيروى ميں عاشورا كے دن روزہ ركھتے تھے اورخود آپ(ص) كو اس بارے ميں كوئي علم نہ تھا_ دوسرى روايت يہ كہتى ہے كہ آپ(ص) اور اسى طرح مشركين بھى زمانہ جاہليت ميں روزہ ركھتے تھے_ تيسرى روايت يہ كہتى ہے كہ جب ماہ مبارك رمضان كے روزے فرض ہوئے تو آپ(ص) نے روز عاشورا كا روزہ ترك فرمايا _ ايك اور روايت يہ كہتى ہے كہ جب آپ (ص) نے روزہ ركھا تو آپ(ص) سے كہا گيا كہ يہوديوں كے نزديك يہ دن بڑا باعظمت ہے اسكے بعد آپ (ص) نے عہد كيا كہ آئندہ سال 9 محرم كو روزہ ركھيں گے ليكن اس سے پہلے آپ (ص) كى رحلت ہوگئي (1) اور فتح مكہ كے موقع پر مسلمان ہونے والے معاويہ كى روايت كہتى ہے كہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب كو اس دن كے روزے كا حكم نہيں ديا تھا _ بلكہ ان سے فرمايا تھا كہ خدانے اس دن كے روزے كو تم پر فرض نہيں كيا ليكن ميں روزہ دار ہوں اس لئے تم ميں سے جو چاہے روزہ ركھے اور جو چاہے كھائے پئے_
روايات ميں ان اختلافات كے علاوہ اور بھى اختلافات اور مسائل ہيں جو دقت و تحقيق سے ظاہر ہوسكتے ہيںان ميں سے بعض كو ابن قيم نے بھى ذكر كيا ہے (2)_ مذكورہ بالا اختلافات سے اگر ہم چشم پوشى كرليں تو بھى مندرجہ ذيل پيچيدگياں پائي جاتى ہيں_
1لف: سب سے پہلى روايت سے يہ نتيجہ نكلتاہے كہ نبى اكرم (ص) اپنے برادر حضرت موسى (ع) كى سنت و سيرت سے آگاہ نہ تھے جبكہ يہ امر آپ(ص) نے يہوديوں سے سيكھا اور پھر انہى ہى كى پيروى كى _ ان كے نزديك تو شايد اس بات سے كوئي فرق نہيں پڑتا اور نہ ہى اس ميں كوئي مضائقہ ہے كيونكہ ( نعوذباللّہ و نستغفر اللّہ من
--------------------------------------------------------------------------------
1)صحيح مسلم ج 3 ص 151 نيز گذشتہ منابع _
2) ملاحظہ ہو : زاد المعاد ج 1 ص 164و 165_
168
ذلك) يہى لوگ روايت كرتے ہيں كہ جن امور ميں وحى نازل نہيں ہوئي تھى ان ميں آپ(ص) اہل كتاب كى موافقت اور پيروى كرنا پسند فرماتے تھے (1) _ليكن پھر بعض مقامات پر آپ(ص) كے متعلق ايسى روايتيں نقل كرتے ہيں جو آپ(ص) كے اس عمل كے بالكل برخلاف ہيں _
ان روايات كے نتيجے ميں تو ان لوگوں كے نزديك خود آنحضرت (ص) كى ذات گرامى ميں ہميشہ تناقض عمل پايا جاتا رہا يہاں تك كہ اس مقام ميں بھى _ وہ اس طرح كہ يہاں تو يہوديوں كى پيروى فرماتے ہيں ليكن اذان كے مسئلے ميں يہوديوں كى طرح بگل بجانے اور عيسائيوں كى طرح ناقوس بجانے كى مخالفت فرماتے ہيںنيز حائضہ عورت كے مسئلے ميں بھى ان كى مخالفت فرماتے ہيں_
حالانكہ آپ (ص) دوسروں كو يہود و نصارى كا رنگ ڈھنگ اختيار كرنے سے منع اور اسلام ميں انكى اتباع كى مخالفت فرماتے ہيں(2)_بلكہ آپ (ص) كى يہ مخالفت اس حد تك پہنچ گئي تھى كہ يہودى كہنے لگے تھے :'' يہ شخص چاہتا كيا ہے ؟ يہ تو ہر بات ميں ہمارى مخالفت كرتاہے'' (3) ابن الحاج كہتاہے: '' آپ (ص) تمام امور ميں اہل كتاب كى مخالفت فرماتے تھے اور ان كى موافقت ناپسند فرماتے تھے _ يہاں تك كہ يہودى پكار اٹھے كہ محمد(ص) تو ہر بات ميں ہمارى مخالفت كرتاہے'' (4)_
ايك حديث ميں يہ بھى ہے كہ '' جو كسى قوم سے مشابہت اختياركرتا ہے وہ انہى ميں سے شمار ہوتا ہے'' (5)_
ب: محرم كے دسويں دن پر عاشورا كا اطلاق حضرت امام حسين (ع) ، آپ (ع) كے اہل بيت (ع) اور اصحاب رضوان اللہ تعالى عليھم كى شہادت كے بعد ائمہ اہل بيت عليھم السلام اور آپ (ع) كے شيعوں كى جانب سے آپ (ع) كى مجالس عزاكے بپا كرنے پر ہوا _
--------------------------------------------------------------------------------
1) صحيح البخارى مطبوعہ الميمنية ج / 4 ص 67 باب فرق الشعر فى اللباس، السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 132 و زاد المعاد ج 1 ص 165_
2) اس سلسلے ميں اہل سنت كى بنيادى اہم كتابوں كى طرف رجوع كرسكتے ہيں _ نيز مفتاح كنوز السنہ از البخارى كتاب 60 و 77 باب 50 و 67 ، صحيح مسلم كتاب 3، حديث 16 و كتاب 37 باب 8 ، الترمذى كتاب 44 حديث 24، كتاب 22 باب 10و كتاب 40 باب 7،النسائي كتاب3، 48 و83 اسى طرح ديگر معروف و غير معروف كتابوں كى ايك كثير تعداد ہے نيز ملاحظہ ہو : مسند ابو يعلى ج 10 ص 398، 399و 366 نيز اس كے حاشيہ ميں متعدد منابع _
3) السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 115 سنن ابو داؤد ج 2 ص 250 و مسند ابى عوانہ ج 1 ص 312_
4)المدخل ابن الحاج ج 2 ص 48_
5)ايضاً_
169
لفظ عاشورا اس سے قبل بالكل غير معروف تھا_ اس بات كى اہل لغت نے بھى وضاحت كى ہے_ ابن اثير كہتے ہيں '' يہ ايك اسلامى نام ہے'' (1) ابن دريد كا كہناہے'' يہ ايسا اسلامى لفظ ہے جو زمانہ جاہليت ميں معروف نہ تھا''(2)_
ج: يہوديوں كى شريعت ميں كبھى بھى يوم عاشورا كا روزہ نہ تھا اور نہ ہى آج وہ يہ روزہ ركھتے ہيں _ اس حوالے سے ان كے ہاں اس دن كوئي عيد يا كوئي اور مناسبت بھى نہيں ہے(3)_
گذشتہ مطالب اور ان جعلى احاديث كا كذب ثابت ہونے كى روشنى ميں اس بات كى گنجائشے بالكل نہيں رہتى كہ آنحضور(ص) نے روز عاشورا كا روزہ اس لئے ترك كيا ہو كہ يہودى مسلمانوں كے بارے ميں كينہ ركھتے تھے، جيسا كہ بعض كا گمان ہے(4)_
روز عاشورا كے ديگر فضائل:
روز عاشورا كى فضيلت كے بارے ميں بڑى ہى عجيب و غريب روايات ملتى ہيں _ بلكہ اس كے فضائل محرم كى پہلى تاريخ سے ہى شروع ہوجاتے ہيں _اس بارے ميں اتنے فضائل ملتے ہيں كہ ان كا مطالعہ كرنے والا آپے سے باہر ہوجائے گا اور پھولے نہيںسمائے گا_ مثلاً يہ كہ قطعى طور پر اس دن سے افضل ترين كوئي دن نہيں يہاں تك كہ ليلة القدربھى اس كى فضيلت كا مقابلہ نہيں كرسكتى _ اس دن ايسے اہم ترين واقعات رونما ہوئے جنہيں تاريخ بشريت كبھى فراموش يا اس سے تجاہل نہيںكرسكتى _يہاں تك كہ پيامبراسلام (ص) كى ولادت و ہجرت بھى اس دن ميں ذكر كئے گئے ہيں حالانكہ يہ بات متفقہ ہے كہ يہ دونوں واقعات ربيع الاوّل ميں ہوئے (5) اس دن خدا نے فرعون اور اس كے لشكر كو غرق كر كے حضرت موسى (ع) اور
--------------------------------------------------------------------------------
1) نہايہ ابن اثير ج 3 ص 240_
2)الجمھرة فى لغة العرب ج/ 4 ص 212 _
3) مقالہ حسن السقاف _ مجلہ الہادى سال ہفتم شمارہ 2 ص 36_
4)اليہود فى القرآن ص 20 و 26_
5)بعض فضائل كے بارے ميں آپ رجوع كريں تاريخ الخميس ج/1 ص 360 و 361 ، السيرة الحلبية ج / 2 ص 133 و 134 ، الآلى المصنوعة ج/1ص 108 ، 116 اور ديگر كتب_
170
اس كى قوم كو نجات دلائي تھى _حضرت نوح (ع) كى كشتى پہاڑ كى چوٹى پر ركى اور حضرت آدم (ع) كى توبہ قبول ہوئي و غيرہ(1)_
يوم عزاء يا عيدكا دن ؟
ابوريحان البيرونى الآثار الباقيہ ميں ، امام حسين (ع) كے متعلق روز عاشور كے واقعات كا ذكر كرنے كے بعدلكھتے ہيں: '' اس دن بنواميہ نے نئے نئے لباس پہنے،زينت اور آرائشے كي، آنكھوں ميں سرمے لگائے ، عيد منائي ، وليمے اور خوشياں كيں، دعوتيں كيں، ايك دوسرے كو مٹھائياں كھلائيں اور اچھى اچھى اشياء ايك دوسرے كو كھلائيںاور خوشبو لگايا_ يہ رسم ان كى حكومت كے زمانے سے عام سنى مسلمانوں ميں جارى ہوئي جو ان كى حكومت كے خاتمے كے بعد تك بھى جارى رہى _ ليكن شيعہ سيدالشہداء حضرت امام حسين (عليہ الصلوة و السلام) كى شہادت كے غم ميں نوحہ خوانى اور گريہ كرتے رہے ... ''(2)_
مقريزى كہتے ہيں : ''مصر كے علويوں نے عاشور كے دن كو '' يوم الحزن''قرار ديا اور اس دن بازار بند ہوتے تھے''_ اسكے بعد لكھتے ہيں'' جب علويوں كى حكومت كا خاتمہ ہوگيا اور بنى ايوب كى حكومت آئي تو انہوں نے روز عاشور كو خوشى اور سرور كا دن قرار ديا _اس دن وہ اپنے اہل و عيال پر كھلے دل سے خرچ كرتے، وسيع دستر خوان بچھاتے اورہنسى مذاق كى محفليں ہوتيں، نئے برتن استعمال كرتے ، سرمہ لگاتے، اہل شام كى طرح حمام جاتے اور ايك دوسرے پر پانى پھينكتے_ يہ رسم عبدالملك بن مروان كى حكومت كے زمانے ميں حجاج بن يوسف نے شروع كى تھى تاكہ حضرت على ابن ابى طالب كرم اللہ وجہہ كے شيعوں كو ذليل كيا جائے كيونكہ يہ لوگ حضرت اما م حسين بن على عليہما السلام كى شہادت كى وجہ سے عاشور كو غم، عزا اورحزن كے دن كے طور پر مناتے تھے ''_ اس كے بعد مقريزى لكھتے ہيںكہ ہميں بنى ايوب كے ايسے آثار بھى ملے ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے عاشورا كے دن كو خوشى ، سرور اور عيد كا دن قرا رديا تھا (3)_
--------------------------------------------------------------------------------
1) ان كے بعض منابع تقريباً تين صفحات قبل ذكر ہوچكے ہيں _ نيز ملاحظہ ہو : عجائب المخلوقات بر حاشيہ حياة الحيوان ج 1 ص 114_
2)الكنى والالقاب ج/ 1 ص 431نيزملاحظہ ہو : الحضازة الاسلامية فى القرن الرابع الھجرى ج 1 ص 137 از الاثار الباقيہ مطبوعہ يورپ ص 329 ، عجايب المخلوقات مطبوع بر حاشيہ حياة الحيوان ج 1 ص 115 و نظم درر السمطين ص 230_
3) الخطط للمقريز ى ج/1 ص 490_ نيز ملاحظہ ہو : الحضارة الاسلامية فى القرن الرابع الھجرى ج 1 ص 138 _
171
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروى زيارت عاشورا ميں آيا ہے : '' پروردگارا يہ دن ايسا ہے جسے بنى اميہ اور ہندہ جگر خور كى اولاد نے با بركت ( او رعيد كا ) دن جانا ہے '' (1) _ ليكن ان لوگوں نے جناب ابن عباس كى زبانى ''موعدكم يوم الزينة ''كى آيت كى تفسير ميں يہ حديث بھى گھڑى ہے كہ زينت( عيد ) كے دن سے مراد عاشورا كا دن ہے (2)_
جعلى احاديث:
حضرت امير المؤمنين (ع) ، ان كى اولاد(ع) اور انكے ماننے والوں كے دشمنوں نے اپنى دنيا كے بدلے آخرت كو بيچنے والے كچھ ايسے افراد ڈھونڈلئے جنہوں نے نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے نسبت دے كر روز عاشور كى فضيلت كے بارے ميں بہت سارى احاديث گھڑيں _جن كا خلاصہ يہ ہے كہ اس دن زيب و زينت انجام دينا، خضاب لگانا، خوشى منانا، اپنے اہل و عيال پہ زيادہ خرچ كرنا، نئے كپڑے پہننا، روزہ ركھنا، مرغوب غذائيں پكانا، اچھے كھانے تيار كرنا، غسل كرنا، خوشبو لگانا اور سرمہ لگاناو غيرہ مستحب ہيں _ ليكن يہ سارى باتيں اہل بيت (ع) سے بغض اور دشمنى كا مظہر ہيں(3)_
تا ہم وہ بات جوان جھوٹى احاديث كو بے وقعت اور كم وزن كرديتى ہے وہ يہ ہے كہ تمام علماء اور ناقدين حتى كہ ابن تيميہ جيسے مذہب اہل بيت سے منحرفين اور منكرين نے بھى چندايك احاديث كے سوا سب كو جھوٹى اور جعلى قرار ديا ہے(4)_
ليكن ابھى تك رسنے و الازخم اور نہ مٹنے والى ذلت تو يہ ہے كہ ايك طرف سے وافر مقدار ميں دلائل،
--------------------------------------------------------------------------------
1) مصابيح ( مفاتيح ) الجنان ص 291 _
2) تاريخ واسط ص 78 _
3) اللئالى المصنوعة فى الاحاديث الموضوعة ج/1 ص 108 _ 116 ، السيرة الحلبية ج/2 ص134، نوادر الاصول للحكيم الترمذى ص 246_عجايب المخلوقات ( مطبوعہ بر حاشيہ حياة الحيوان )ج 1 ص 14 و 115 ، نظم دررالسمطين ص 230، اقتضاء الصراط المستقيم ص 300 ، تذكرةالموضوعات ص 118 ، در منثور ج 4 ص 303 ، الحضارة الاسلامية فى القرن الرابع الھجرى ج 1 ص 138 ، الصواعق المحرقہ ص 182و المدخل ابن الحاج ج 1 ص 289 _
4) تذكرة الموضوعات للفتنى ص118،اللئالى المصنوعةج/1ص108_116، السيرة الحلبية ج/2 ص 134 ، اقتضاء الصراط المستقيم ص 301 ، الصواعق المحرقہ ص ص 181، ص 182 ، نظم درر السمطين ص 228_230و المدخل ابن الحاج ج 1 ص 290 و ص 291 _
172
قرائن اور شواہد كے ہوتے ہوئے وہ يزيد پر لعنت كى حرمت اور اس كى تكفير كے عدم جواز كے فتوے ديتے ہيں(1) اور دوسرى طرف سے وہ حضرت امام حسين (ع) كى مقتل كى روايتوں كے بيان (2) نيز عاشورا كے دن عزادارى اور سوگوارى كى حرمت كے فتوے لگاتے ہيں (3)
(و سيعلم الذين ظلموا اى منقلب ينقلبون )(شعراء 227)
اور عنقريب ظالم جان ليں گے كہ وہ كہاں پلٹائے جائيں گے_
وہ ظالم جنہوں نے محمد و آل محمد عليھم السلام كے حقوق پر ظلم كيا اور ان كے ايام غم ميں خوشياں منائيں وہ عنقريب اپنى ان زيادتيوں كا مزہ چكھ ليں گے _
عاشوراكى يادمٹا نے كے مختلف طريقے:
عاشورادشمنان اہل بيت (ع) كى نظروں ميں نوك دار كانٹے كى صورت چبھتا رہا_ لہذا انہوں نے اس انقلاب اور اس كى مقاومت كو روكنے كے لئے ہر حيلہ اورحربہ استعمال كيا_ صرف يہى نہيں كہ انہوں نے عاشور كو عيد كے طور پر منايا بلكہ ديگر امور بھى انجام ديئےذشتہ بيانات كے علاوہ ہم مندرجہ ذيل نكات ميں انكى طرف اشارہ كررہے ہيں_
1_ابن عماد كہتے ہيں: '' شيعہ لوگ صديوں سے آج تك عاشورا ميں رونے پيٹنے اور سينہ كوبى كرنے نيز غدير كے دن زيب و زينت كے ساتھ عيد منانے كى گمراہى ميں پڑے رہے جس كے مقابلہ ميں متعصب سنيوں نے بھى اپنى بدعتيں ايجاد كرليں '' ... اسكے بعد ابن عماد كہتے ہيں :''عاشورا كے مقابلے ميں عاشورا كے آٹھ دن بعد سنيوں نے يوم مصعب بن الزبير منانا شروع كيا _ اس دن ''مسكن ''ميںاسكى قبر كى زيارت اور گريہ كرتے ہيںاور اسے امام حسين (ع) كى مثل قرار ديتے كيونكہ اس نے بھى صبر كيااور جنگ كى يہاں تك كہ
--------------------------------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : الصواعق المحرقہ ص 221 ، احياء علوم الدين ج 3 ص 125 ، العوالم من القواصم مع حاشيے و الاتحاف بحب الاشراف ص 62و 68 بلكہ بعض بے وقوف تو اسے اپنا راہنما ، امام اور رہبر مانتے ہيں اور ايڑى چوٹى كازور لگا كر اسے معصوم ثابت كرنے كى ناكام كوشش كرتے ہيں _
2) الصواعق المحرقہ ص 221_
3) اقتضاء الصراط المستقيم ص 299 _300 و نظم دررالسمطين ص 228_
173
قتل ہوگيا اور اس لئے بھى كہ اسكا والد نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا پھوپھى زاد تھا ...'' (1)_
افسوس صد افسوس كہ مصعب جيسے دنياپرست ، جاہ طلب اور دشمن اہل بيت (ع) كو سيد الشہداء (ع) جيسى عظيم ہستى كى مثل بنادياگيا جو گلستان پيامبر (ص) كا حسين اور خوشبو دار پھول ہے، جنت كے جوانوں كا سردار ہے، امت كا امام ، طالب حق اور دين كا مددگار ہے _ وہ تو كبھى بھى ان كے ہم پلہ نہيں ہو سكتا _
البتہ يہ سب كچھ معدن رسالت ، مراد آيت مودّت يعنى اہل بيت(ع) نبوت كے خلاف قديم اور پوشيدہ كينے اور دشمنى كا نتيجہ تھا_حالانكہ انہى شخصيات كے متعلق خداوند عالم نے محبت و مودّت كا حكم فرماياہے:
(قل لا اسالكم عليہ اجراً الا المودة فى القربى ...)
(شورى ،23)
2_ابن كثير نے 363 ھ كے واقعات لكھتے ہوئے كہاہے: '' لوگوں نے اس سال روز عاشور رافضيوں كى پيروى ميں ايك بہت ہى برى بدعت شروع كى تو بغداد ميں اہل سنت اور رافضيوں كے درميان ايك بہت بڑا فتنہ بپا ہوا_ دونوں فريق كم عقل يا بے عقل اورصحيح راستے سے بھٹكے ہوئے تھے_ہوا يہ كہ اہل سنت ميں سے كچھ افرادنے ايك خاتون كو اونٹ پر سواركركے اسے بى بى عائشہ كا نام ديانيز دو اور افراد سوار ہوئے جنہيں طلحہ اور زبير كہا گيا _ انہوں نے كہا ہم اصحاب على (ع) سے جنگ كرنے آئے ہيں_ بس پھر كيا تھا فريقين كى ايك كثير تعداد اسى ڈرامے ميں قتل ہوگئي''(2)ليكن اس صاحب نے شيعوں كو اہل بيت (ع) اوران كے پيرو كاروں كے دشمن يعنى ناصبيوں كے برابر قرار دے كر ان پر ظلم اور زيادتى كى ہے _ كيونكہ شيعوں كا يہ فعل عين دين اور عين عقل ہے ليكن ان كے دشمنوں كاكام بے عقلى ، بے دينى اور حماقت پر مبنى تھا _
3_ قوت اور طاقت كا استعمال كيا گيا _ تاريخ كى كتابوں ميں موجود ہے كہ ہر سال لوگ محرم كا چاند كيسے ديكھتے تھے_ان سالناموں ميں '' اس روز(روز عاشور) رافضيوں اور اہل سنت كى ايك كثير تعدادآپس ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1) شذرات الذھب ج/3 ص 130از العبر، الامام الصادق (ع) والمذاھب الاربعہ ج/1 ص 95 ، بحوث مع اھل السنہ و السلفيہ ص 145 ، المنتظم لابن الجوزى ج/7 ص 206_
2) البدايہ و النہايہ ، ج 11 ص 275 ، الامام الصادق(ع) و المذاہب الاربعہ ، ج 1 ص 94، بحوث مع اہل السنة و السلفيہ ص 144و ص 134_
174
لڑتى تھى '' اس سلسلے ميں المنتظم ابن الجوزى اور ديگر كتب كى طرف رجوع كريں (1)_
ان ميں سب سے زيادہ دردناك اور شديدترين واقعہ شايد ''كرخ بغداد'' كاہے_ جس ميں شيعيان اہل بيت (ع) كوگھير كران كے گھروں كو آگ لگائي گئي اور انكے ہزاروں مردوںاور بچوں كو قتل كرديا گيا(2)_
اس بارے ميں چند دستاويزات كا ذكر ہم نے اپنى كتاب ''صراع الحرية فى عصر المفيد'' ( شيخ مفيد كے دور ميں آزادى كى جنگ) ميں كيا ہے _ خواہشمند افراد وہاں مراجعہ فرمائيں_
البتہ يہاں يہ ذكر كرتے چليں كہ 437 ہجرى ميں بغداد ميں روز عاشورا شيعوں اور سنيوں كے درميان ايك سخت جھگڑا ہوا ليكن آخر كار فريقين نے اس بات پر اتفاق كرليا كہ وہاں موجود يہوديوں كے گھروں كو لوٹ ليا جائے اور ان كے گرجاؤں كو نذر آتش كرديا جائے (3)
اور 442 ہجرى كے واقعات ميں لكھتے ہيں : '' بغداد كے شيعوں اور سنيوں نے آپس ميں صلح كرلى اور سب كے سب حضرت امام على (ع) اور حضرت امام حسين (ع) كے روضہ ہائے اقدس كى زيارت كو گئے اور پھر كرخ ميں سب نے صحابہ كے حق ميں دعائے رحمت اور مغفرت كى '' (4)_
يہاں ہم انہى مطالب پر اكتفا كرتے ہيں، كيونكہ يہاں اس سے زيادہ تحقيق و جستجو كى ضرورت اور گنجائشے نہيں ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) بحوث مع اہل السنة و السفليہ ص 145_ شايد يہ سلسلہ امام زمانہ (عج) كے ظہور تك كبھى بھى ركنے ميں نہ آئے ، روز عاشور عزاداروں كا قتل عام اب صرف جزيرہ نمائے عرب يا عراق تك محدود، نہيں ہے بلكہ پاكستان، ہندوستان ، ايران اور ديگر ممالك تك اس كا دائرہ وسيع ہوگيا ہے اور ہوتا جا رہا ہے_ اور ذرائع بھى جديد ہوگئے ہيں_ اس سے ايك بات كا علم ضرور ہوتا ہے كہ ان لوگوں كے تمام تر مظالم كے باوجود شيعہ مذہب دن دوگنى اور رات چوگنى ترقى كر رہا ہے _ اس لئے مظالم كا دائرہ بھى وسيع ہوتا جا رہا ہے_ ليكن سوال تو يہ ہے كہ ايسا كيوں ہے؟ اگر يہ مذہب مطابق عقل ہے تو اس پر خون خرابا كيسا؟ اور اگر بدعت ہے تو كيا اپنے مذہب كى بدعتيں ختم ہوگئي ہيں جو شيعوں كے در پے ہوئے ہيں؟ اور اگر يزيد اور اس كے اگلوں پچھلوں پر لعنت برداشت نہيں تو يہ كيسے مسلمان ہيں كہ شاتم رسول (ص) يہوديوں اور عيسائيوں كے تو جگرى دوست ہيں ليكن قاتلان رسول(ص) و آل رسول(ص) پر لعنت كرنے والوں كے جانى دشمن؟ كيا يہ مسلمان ہيں جنہيں ديكھ كے شر مائيں يہود؟
2) البدايہ و النہايہ ، ج 11 ص 275
3)البدايہ و النہايہ ، ج 12 ص 54
4) البدايہ و النہايہ ، ج 21 ص 16_ ان بيانات سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں بھى يہوديوں يا ان كى ريشہ دوانيوں كا وجود رہا مسلمان آپس ميں لڑتے رہے اور ايك دوسرے كو كاٹتے رہے_ اور جو نہى كسى خطے سے ان كا وجود ختم ہوا اور ان كے وجود سے وہ خطہ پاك ہوا تو وہ خطہ امن و آشتى كا گہوارہ بن گيا_ عراق كى تازہ ترين صورتحال اس كى گواہ ہے نيزان لوگوں كا ايك مقولہ'' لڑاؤ اور حكومت كرو'' نہايت مشہور ہے_
|