كچھ مواخات كے متعلق :
الف : بہترين متبادل
واضح سى بات ہے كہ يہ نو مسلم اپنے قوم ، قبيلے اور برادرى سے در حقيقت بالكل كٹ كر رہ گئے تھے_حتى كہ ان كے عزيز ترين افراد بھى دھمكيوں اور ايذاء رسانيوں كے ساتھ ان كے مقابلے پر اتر آئے تھے_ ان كى حالت يہ ہوگئي تھى كہ اپنے رشتہ داروں نے ان سے قطع تعلق كر ليا تھا اور وہ بے كس اور لا وارثوں كى طرح ہوگئے تھے_ اور بعض افراد كو يہ احساس بھى تھا كہ اب وہ بالكل اكيلے اور بے يار و مدد گار ہوگئے ہيں_ يہاں پر اسلامى برادرى اور اخوت ان كے اس خلاء كو پر كرنے، اكيلے پن كے احساس كو ختم كرنے اور ان كے اندر مستقبل كى ا ميد اور اس پر يقين جگانے كے لئے آئي _ اور اس مواخات نے ان كے اندر اتنا گہرا اثر چھوڑا كہ وہ اتنا تك سمجھنے لگے كہ يہ بھائي چارہ تمام امور ميں ہے حتى كہ وراثت ميں بھى برابرى اور ساجھا ہے_ جس كى طرف ہم نے پہلے بھى اشارہ كيا ہے_
ب: انسانى روابط كا ارتقائ
عمل مواخات سے غرض يہ تھى كہ اس سے انسانى روابط كو مصلحت انديشى كے دائرہ سے بلند تر كر ديا جائے اور انہيں اتنے حد تك خالص الہى روابط ميں تبديل كرديا جائے كہ وہ حقيقى اخوت و برادرى تك پہنچ جائيں اور مسلمانوں كے باہمى لين دين ميں يہ تعلق دارى ہماہنگى و ہمنوائي كى صورت ميں ظاہر ہو اور ايسى ذاتى رنجشوں سے بہت دور ہو جو بسا اوقات آپس ميں تعاون كرنے والے دو بھائيوں كے درميان چاہے نجى اور ذاتى طور پر ہى سہى ، كسى نہ كسى معاملے ميں قطع تعلق كا باعث بنتى ہيں_
اگر چہ اسلام نے نظرياتى طور پر مسلمانوں كو ايك دوسرے كا بھائي بنايا ہے اور يہ تاكيد كى ہے كہ ہر مؤمن دوسرے مؤمن كابھائي ہے چاہے وہ اسے اچھا لگے يا بُرا _ اور ہر مؤمن كے لئے يہ ضرورى قرارديا ہے كہ وہ
103
اس اخوت اور برادرى كے تقاضوں كو پورا كرے _ ليكن اس كے با وجود اس محبت ، صداقت اور عشق كى جڑوں كو مضبوط كرنے كے لئے اس برادرى كا عملى مظاہرہ بھى ضرورى تھا_ كيونكہ ايك اعلى مقصد كے لئے بے مثال نمونہ كا ہونا ضرورى ہے_
ج: نئے معاشرے كى تشكيل ميں مؤاخات كا كردار:
حضرت رسول كريم(ص) ايك ايسے جديد معاشرے كى تشكيل كے در پے تھے جو فلاح و بہبود كى بہترين مثال ہو اور ہر قسم كے حالات و شرائط ميں دعوت الى اللہ اور دين خدا كى نصرت كى راہ ميں پيش آنے والى ہر قسم كى مشكلات كو برداشت كرنے كى صلاحيت ركھتا ہو_
مسجد نبوى كى تعمير كى بحث ميں گزر چكاہے كہ خود مہاجرين ،خود انصار اور ان دونوںكے درميان بہت زيادہ معاشرتى ، قبائلى ،خاندانى ، ذاتى ، جذباتى حتى كہ گہرے عقائدى اور نظرياتى اختلافات پائے جاتے تھے_ علاوہ ازيں كچھ ايسے اقتصادى اور نفسياتى حالات بھى تھے جو خاص كر مہاجرين كے لئے پريشان كن تھے _اس كے ساتھ ساتھ مزيد كچھ خطرات بھى اس نو خيز معاشرے كو در پيش تھے يہ خطرات چاہے داخلى ہوں جيسے اوس اور خزرج كے باہمى اختلافات كے خطرات تھے جن ميں سے اكثر ابھى تك بھى مشرك تھے، پھر ان ميں سے بعض منافق بھى تھے ، ساتھ ہى مدينہ كى يہوديوں سے بھى خطرات در پيش تھے_ اور چاہے وہ خارجى ہوں جيسے جزيرة العرب كے يہوديوں اور مشركوں كے خطرات بلكہ پورى دنيا سے خطرات در پيش تھے_
اس نئے دين كو مستحكم بنيادوں پر استوار كرنے اور اسكے دفاع كيلئے عملى طور پر ايك عظيم ذمّہ دار ى اس معاشرے كے كندھوں پر تھي، ان حالات ميں قبيلوں ، گروہوں اور افراد ميں بٹے اور بكھرے اس معاشرے ميںمضبوط روابط كو وجود ميں لانا ضرورى تھا تا كہ معاشرے كے افراد ايك دوسرے كے ساتھ ايك محكم رشتہ ميں منسلك ہوجائيں_ اور مضبوط احساسات اور جذبات كى ايسى عمارت كھڑى كرنے كى ضرورت تھى جو عقيدے كى بنياد پر استوار ہو _اس طرح اس نئے معاشرے ميں كسى بھى فرد پر ظلم و زيادتى نہ ہو اور معاشرے
104
كے تمام افراد عدل و انصاف اورنظم و انتظام سے بہرہ مند ہوں_ لوگ محبت و اخوت كا اعلى اور مكمل نمونہ ديكھيں، اسى طرح كا معاشرہ ان نفسياتى كشمش اور تاريخى اختلافات سے پاك ہوگا (بلكہ انہيں آہستہ آہستہ جڑ سے اكھاڑے گا) جنہيں معاشرے كے افراد نے باہمى تعلقات ميں اپنا شيوہ بناليا تھا_ اور جس كے كئي وجوہات كى بنا پر ظاہر ہونے كاخطرہ وسيع ، سخت اور زيادہ تباہ كن ہو سكتا تھا_ پس ايسے مضبوط باہمى روابط برقرار كرنے كى ضرورت تھى جسے آنحضرت (ص) نے ''مواخات ''كے عمل سے انجام ديا ، مؤاخات كے اس عمل ميںآخرى ممكنہ حد تك دقت نظرى اور صديوں كى ايسى منصوبہ بندى شامل تھى جس ميں باہمى روابط اور امداد كے فروغ اور استحكام كے لئے انتہائي حد تك كامل ضمانت فراہم كى گئي تھى خصوصاً جب آپ(ص) نے دو ايك جيسے افرادكے درميان مؤاخات قائم كردى تھى _
يہ مواخات دو بنيادوں پر قائم تھي:_
اوّل : حق : _
حق ،انسانى تعلقات ميں ايك بنيادى عنصر ہے_ اسى بنياد پر انسانوں كے روابط و تعلقات قائم ہيںاورزندگى كے مختلف شعبوں ميں معاملات اور باہمى لين دين پر يہى چيز حكمفرما ہے _ہاں ... حق ہى اساس و بنياد ہے، ذاتى اور انفرادى شعور و ادراك اور ذاتى ، قبائلى اور گروہى مصالح اورمفادات نہيں _واضح ہے كہ اخوت ، باہمى ہمدردى اور احساسات كے ذريعہ سے جب حق بيان ہو اور يہ امور حق سے آراستہ ہوں تو يہ چيز حق كى بقاء ،دوام اور ان لوگوں كى حق كے ساتھ وابستگى اور حق سے دفاع كى ضمانت فراہم كرتى ہے ليكن اگر حق كو بزور بازومسلط كيا جائے تو جوں ہى يہ قوت غائب ہوگى تو حق كے بھى غائب ہونے كا خطرہ لا حق ہوجائے گا كيونكہ اس كى بقاء كى ضمانت چلى گئي ہے پس اب اس كى بقاء اور وجود كے لئے كوئي وجہ باقى نہيں رہي_ بسا اوقات اس طرح سے حق كى بقاء بھى كينہ اور نفرتوں كو جنم ديتى ہے جس سے بسا اوقات ظلم و طغيان اپنى انتہائي ، بدترين او رخوفناك صورت ميں ظاہر ہوتاہے_
105
دوم : باہمى تعاون:_
پس يہ برادرى صرف جذبات كو بھڑكانے اور ذاتى شعور كو بيدار كرنے كيلئے نہ تھى بلكہ نتيجہ خيز احساس ذمہ دارى تھى جس پر اسى وقت ہى فورى عملى اثرات مرتب ہوئے اور انسان اسى وقت سے ہى اس كى گہرائي اور تاثير كو واضح طور پر محسوس كرسكتاہے بالكل اسى بھائي چارے كى طرح جس طرح قرآن كريم ميں ذكر كيا گيا ہے '' انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بين اخويكم'' (1) كيونكہ اس آيت مجيدہ ميں خداوند نے مؤمنين كے درميان صلح كى ذمہ دارى كو ايمانى بھائي چارے كا حصہ بيان فرمايا ہے _جب بھائي چارہ ثمر آور اور نيك نيتى پر مشتمل ہو توفطرى بات ہے كہ يہ بردارى اور اسى طرح اس كى حفاظت اور پابندى بھى ممكن ترين حد تك دائمى ہوگي_ اس مؤاخات كے عظيم اور گراں قدر نتائج جہاد كى تاريخ ميںبھى ظاہر ہوئے_ خداوند كريم نے اپنے نبي(ص) پر جنگ بدر ميں احسان جتلاتے ہوئے فرماياہے : وان يريدوا ان يخدعوك، فان حسبك اللہ، ھو الّذى ايدك بنصرہ و بالمومنين و الف بين قلوبھم، لو انفقت ما فى الارض جميعاً ما الفت بين قلوبھم ، و لكن اللہ الف بينہم ، ان اللہ عزيز حكيم (2)_ اور اگر وہ تمہيں دھو كہ دينا بھى چاہيں تو آپ(ص) كو اطمينان ہے كہ آپ كى حمايت كے لئے خداہى كافى ہے جس نے اپنى مدداور مومنوں كے ذريعہ سے پہلے سے ہى آپ(ص) كى تائيد اور حمايت كر ركھى ہے اور اسى نے ہى مومنوں كے دلوں كو آپس ميں (محبت كے ذريعہ) جوڑ ديا ہے وگر نہ آپ(ص) چاہے تمام دنيا و مافيہا كو بھى خرچ كر ڈالتے تب بھى ان كے دلوں ميں محبت نہيں ڈال سكتے تھے ، ليكن خدا نے يہ محبت ڈال دى ہے اور خدا تو ہے ہى عزت والا اور دانا_
حضرت ابوبكر كے خليل:
مؤرخين يہاں روايت كرتے ہيں كہ نبى اكرم(ص) نے فرمايا :'' اگر مجھے كسى كو دوست بناناہو تا تو ميں ضرور ابوبكر كو دوست بناتا''(3) ليكن يہ كس طرح صحيح ہو سكتاہے حالانكہ خود ہى آنحضرت (ص) سے روايت كرتے ہيں:
---------------------------------------------------------
1) الحجرات 10_
2) الانفال 62_
3) مصنف عبدالرزاق ج / 10 از ابن الزبير اور اس كے حاشيہ ميں سعيد بن منصور سے روايت نقل كى گئي ہے الغدير ج/9 ص 347 ،از صحيح البخارى ج/5 ص 243 باب المناقب اور باب الہجرة ج/6 ص 44_نيز الطب النبوى ابن قيم ص 207_
106
_بے شك ميرى امت ميں سے ميرا دوست ابوبكر ہے (1)_
_ ہر نبى (ص) كا دوست ہوتاہے اور ميرا دوست سعد بن معاذ (2) يا عثمان بن عفان ہے (3) _
حالانكہ حقيقت يہ ہے كہ : حضرت عثمان كى دوستى والى حديث كو اسحاق بن نجيح ملطى نے گھڑا ہے (4) اور حضرت ابوبكر كى دوستى والى حديث ( جيسا كہ معتزلى نے بھى اس كى تصريح كى ہے) (5)نبى اكرم (ص) اور على (ع) كے درميان مواخات والى حديث كے مقابلہ ميں گھڑى گئي ہے _
سلمان كى دوستى ، كس كے ساتھ؟
پھر وہ كہتے ہيں كہ نبى (ص) كريم نے جناب سلمان اور ابو دردا كے درميان اخوت قائم كي(6)
ايك اور روايت ميں ہے كہ آپ(ص) نے جناب سلمان او رحذيفہ كے درميان مواخات برقرار فرمائي (7) جبكہ ايك اور روايت ميں ہے كہ آپ(ص) نے ان كے اور مقداد كے درميان رشتہ اخوت برقرار كيا(8)
حديث مواخات كاانكار اور اس كا جواب :
ليكن ابن سعد كہتاہے كہ ہميں محمد بن عمر نے خبر دى ہے كہ مجھے موسى بن محمد بن ابراہيم بن حارث نے اپنے باپ سے ايك قول نقل كركے بتايا ہے نيز مجھے محمد بن عمر نے كہا ہے كہ محمد بن عبداللہ نے مجھے زہرى سے
---------------------------------------------------------
1) ارشاد السارى ج/6 ص 83 ،84، كنزالعمال ج/6 ص 138 ، اور ص 140 ، الرياض النضرة ج/1 ص 83_نيز الغدير مذكورہ كتب سے_
2)الغدير ج/9 ص 347 ، از كنزالعمال ج/6 ص83،منتخب كنزالعمال (مسند كے حاشيہ پر ) ج/5 ص 231_
3)تاريخ بغداد خطيب ج6 ص 321 و الغدير ج9 ص 346 و 347_
4)ملاحظہ ہو: الغدير ج 9 ص 743_
5)شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 11 ص 49_
6) الاصابہ ج2 ص 62 ، اس كے حاشيہ ميں الاستيعاب ج2 ص 60 و ج4 ص 59 ، الغدير ج10 ص 103 تا 104 و ج3 ص 174 اس ميں اس روايت پر مناقشہ كيا گيا ہے ، السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 152 ، اسد الغابہ ج2 ص 330 _331 ، طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج4 حصہ اول ص 60 تہذيب تاريخ دمشق ج6 ص 203 ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج18 ص 37 ، تہذيب الاسماء ج1 ص 227، قاموس الرجال ج7 ص 256 ، نفس الرحمان ص 91 و 85 از ابن عمرو المناقب خوارزمى فصل 14 نيز تہذيب التہذيب ج4 ص 138_
7)طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج4 حصہ اول ص 60_
8)نفس الرحمان ص 85 از حسين بن حمدان_
107
ايك روايت بيان كى ہے_ يہ دونوں (حارث كا باپ اور زہري) واقعہ بدر كے بعد ہر قسم كى مواخات كے منكر ہيں اور كہتے ہيں كہ بدر نے (بھائي چارے كى بنياد پر) ميراث كا معاملہ ہى ختم كرديا تھا جبكہ سلمان اس وقت غلامى كى زنجير ميں جكڑے ہوئے تھے اور وہ اس كے بعد آزاد ہوئے تھے اور انہوں نے سب سے پہلے پانچويں ہجرى ميں واقع ہونے والى جنگ خندق ميں شركت كى تھى (1)_
اس لئے بلاذرى نے يہ كہا ہے كہ '' ... اور ايك گروہ كا كہناہے كہ آپ (ص) نے ابودر داء اور سلمان كے درميان مواخات برقرار فرمائي _ حالانكہ سلمان واقعہ احد اور خندق كے درميانى عرصہ ميں مسلمان ہوئے _ اور واقدى كہتاہے كہ علمائ، بدر كے بعد كسى بھى قسم كى مواخات كے منكر ہيں اور كہتے ہيں كہ بدر نے ہر قسم كى (مؤاخاتي) وراثت كو منقطع كرديا ہے''(2)_
'' ... اور ابن ابى الحديد كا كہناہے كہ ابوعمر كے بقول رسول (ص) خدا نے جب مسلمانوں كو ايك دوسرے كا بھائي بنايا تو سلمان كو بھى ابودرداء كا بھائي بنايا تھا_ ليكن مخفى نہ رہے كہ يہ قول ضعيف اور عجيب و غريب ہے''(3)جبكہ ہميں مذكورہ بيانات پر كئي اعتراضات ہيں جنہيں ہم مندرجہ ذيل نكات كى صورت ميں بطور خلاصہ بيان كرتے ہيں :
1 _ ان كا يہ كہنا كہ جنگ بدر كے بعد مواخات كا سلسلہ منقطع ہوگيا تھا_ گذشتہ باتوں كى رو سے صحيح نہيں ہے _ پس ان لوگوں كے اس بات كو عجيب و غريب سمجھ كر انكا ر كرنے كى كوئي وجہ نہيں ہے_
2 _ ان كا يہ كہنا بھى كہ '' بدر كے بعد مواخات كا سلسلہ منقطع ہونے كى وجہ سے سلمان كا كسى بھى آدمى كے ساتھ اخوت كا مسئلہ صحيح نہيں ہوسكتا'' درست نہيں كيونكہ يہاں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ آپ(ص) نے بدر سے پہلے سلمان كى ( چاہے وہ غلام ہى ہو) كسى اور آزاد آدمى سے مواخات كيوں نہيں كى ؟ اس پرمزيد يہ كہ عنقريب ہم بيان كريں گے كہ جناب سلمان ہجرت كے پہلے برس ميں ہى مسلمان اور آزاد ہوگئے تھے_
---------------------------------------------------------
1) طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج4 حصہ اول ص 60_
2)انساب الاشراف ( حصہ حيات طيبہ رسول (ص) كريم ) ج1 ص 271_
3) نفس الرحمان ص 85 از انساب الاشراف_
108
3_ پس بلاذرى كا يہ دعوى كہ'' سلمان ، احد اورخندق كے درميانى عرصے ميں مسلمان ہوئے تھے'' صحيح نہيں ہے كيونكہ جس طرح ہم نے كہا ہے وہ ہجرت كے پہلے سال ہى مسلمان ہوگئے تھے_ ہاں البتہ مورخين يہ كہتے ہيں كہ وہ جنگ خندق سے كچھ عرصہ قبل آزاد ہوئے تھے_
پس جب وہ مواخات كے عمل كے موقعہ پر مسلمان تھے تو كسى بھى مسلمان كے ساتھ ان كى مؤاخات ہوسكتى تھي، چاہے وہ دوسرا آدمى آزاد ہو، كيونكہ اسلام كى نگاہ ميں ايمان اور انسانيت و غيرہ كے لحاظ سے آزاد اور غلام ميں كوئي فرق نہيں ہے _
يہ تو اس صورت ميں ہے جب انہيں اس وقت تك غلام مان ليا جائے_
4_بدر كے بعد جس چيز كا سلسلہ منقطع ہوگيا تھا وہ ايسے مؤاخاتى بھائيوں كے درميان توارث كا حكم ہے، خود مؤاخات نہيں _ يہ بھى ان لوگوں كے بقول ہے وگرنہ ہمارا نظريہ تو يہ ہے كہ توارث كا مسئلہ تو اس سے پہلے بھى نہيں تھاشايد بعض مسلمانوں نے يہ گمان كرليا تھا كہ بھائي بننے والوں كے درميان توارث كا سلسلہ بھى موجود ہے تو آيت اس گمان كى نفى اور اس شك كے ازالہ كے لئے ناز ل ہوئي _ اس آيت كے نزول كازمانہ اور جنگ بدر كازمانہ ايك ساتھ ہوگئے جس سے دو اور غلط فہمياں پيدا ہوئيں اور وہ يہ كہ :
الف: توارث كا سلسلہ پہلے يقينى تھا_
ب: توارث كا سلسلہ منقطع ہوتے ہى اخوت كا سلسلہ بھى منقطع ہو گياہے_
جبكہ يہ دونوں گمان ، باطل اور نادرست ہيں_
5_ان كے اس قول '' سلمان اور ابودردا كے درميان بھائي چارہ ہوا تھا '' كے مقابلے ميں مندرجہ ذيل اقوال ہيں:
الف: ہمارے امام زين العابدين عليہ السلام كا فرمان ہے: '' اگر ابوذر كو معلوم ہوجاتا كہ سلمان كے دل ميں كيا ہے تو وہ اسے قتل كرڈالتا، حالانكہ رسول (ص) خدا نے دونوں كے درميان بھائي چارہ قائم كيا تھا _ تو پھر
109
دوسرے لوگوں كے متعلق آپ كا كيا خيال ہے ؟'' (1)_
ب: حضرت امام جعفر صادق (ع) كا فرمان ہے : '' نبى (ص) كريم نے سلمان اور ابوذر كے درميان مواخات برقرار كيا تھا اور ابوذر پر يہ شرط عائد كردى تھى كہ وہ سلمان (كاہر كہنا مانے گا اور اس ) كى نافرمانى نہيں كرےگا(2)_
ج: ہمارا بھى يہى نظريہ ہے كہ سلمان كى مؤاخات ، ابوذر كے ساتھ ہى صحيح اور مؤرخين و محدثين كے اس بات كے زيادہ موافق ہے كہ نبى (ص) كريم نے ہر شخص كو اسى كى طرح كے فرد كا بھائي بنايا _ اور ابودردا كى نسبت ابوذر ہى گفتار و كردار كے لحاظ سے سلمان سے زيادہ مشابہت ركھتے تھے كيونكہ قرآن اور حكومت كے ٹكراؤ كى صورت ميں جناب سلمان قرآن مجيد كا دامن تھامنے اور اس كا ساتھ ديتے ہوئے اس پر ڈٹ جانے كى تاكيد كيا كرتے تھے_ اسى طرح جب كوئي حكومت كسى بڑے انحرافى رستے پر چل نكلتى تو جناب ابوذر حكومت كے خلاف سخت مؤقف اختيار كرتے تھے _ پس وہ حق كى طرفدارى كرتے تھے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے كا پر زور اعلان كرتے تھے_ اسى طرح جناب ابوذر اور جناب سلمان كا واقعہ سقيفہ اور اس كے نتائج پر ايك ہى موقف تھا ... (3)_
ليكن ابودردا ئ ... وہ حكومت كا ترجمان اور جابر حكمرانوں كا مددگار بن گيا تھا_ يہانتك كہ ہم معاويہ كو ديكھتے ہيں كہ وہ اس اچھائي كے بدلے ميں اس كى تعريف توصيف اور تمجيد ميں رطب اللسان رہتا تھا(4)
اسى ابودرداء نے ( جيسا كہ بيان ہوچكا ہے ) سلمان كو ايك خط ميں مقدس سرزمين كى طرف دعوت دى تھي_ اور اس كے گمان ميں سرزمين مقدس، شام ہے مكہ اور مدينہ نہيں پس پڑھتے جائيں اور تعجب كرتے جائيں كيونكہ زمانے كا دستور نرالا ہوتاہے_
---------------------------------------------------------
1) بصائر الدرجات ص 25 ، الكافى ج1 ص 331 الغدير ج7 ص 35 از مذكورہ دونوں، اختيار معرفة الرجال ص 17 ، بحار الانوار ج22 ص 343 ، مصابيح الانوار ج1 ص 348 ، قاموس الرجال ج4 ص 418 ،419 بظاہر يہ روايت معتبر بھيہے _
2) الكافى ج8 ص 162 ، بحارالانوار ج22 ص 345 از كافى نيز نفس الرحمان ص 91_
3)ملاحظہ ہو مؤلف كى كتاب '' سلمان الفارسى فى مواجہة التحدي''_
4)طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج2 حصہ 2 ص 115
110
اس كے متعلق يہ تذكرہ ہى كافى ہوگا كہ يزيد بن معاويہ نے بھى ابودرداء كى مدح اور تعريف كى (1) جبكہ معاويہ نے اسے دمشق كا گورنر بنايا تھا (2) اس پرمزيد يہ كہ رسول (ص) خدا نے ابودردا كى مذمت كرتے ہوئے فرمايا تھا كہ تمہارے اندر جاہليت پائي جاتى ہے _ اس نے پوچھا كہ كفر والى جاہليت يا اسلام والي؟ تو آپ (ص) نے فرمايا كہ كفر والى جاہليت (3)_
د: جب جناب سلمان ہجرت كے پہلے سال مسلمان ہوئے تھے (جيسا كہ ايك عليحدہ فصل ميں اس كے متعلق گفتگو ہوگي) اور ابودرداء جنگ احد كے بعد بہت دير سے مسلمان ہوا تھا (4) تو نبى (ص) كريم نے سلمان كو كسى كا بھائي بنائے بغير اتنا لمبا عرصہ كيوں چھوڑے ركھا ؟
ھ : اگر ہم واقدى كے اس قول كو مان ليں كہ '' علماء ، بدر كے بعد كسى بھى قسم كى مواخات كے منكر ہيں اور كہتے ہيں كہ واقعہ بدر نے (اخوت كى بنياد پر ) ہر قسم كى ميراث كو منقطع كرديا ہے '' (5) تو اس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ علماء ، سلمان اور ابودرداء كے درميان مؤاخات كے منكر ہيں _ كيونكہ ابودرداء جنگ بدر كے بہت عرصہ بعد مسلمان ہوا تھا_
و: اور آخر كار بعض روايتوں ميں آيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے ابودردا اور عوف بن مالك اشجعى كے درميان رشتہ اخوت برقرار فرمايا تھا (6) اور شايد يہ روايت ہى زيادہ صحيح اور قبول كرنے كے زيادہ قابل ہو ...
ابوذر ،سلمان كى مخالفت نہ كرے
كلينى نے حضرت امام صادق (ع) سے روايت كى ہے كہ رسول اللہ(ص) نے سلمان اور ابوذركے درميان
---------------------------------------------------------
1) تذكرة الحفاظ ج1 ص 25
2) الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج3 ص 17 و ج4 ص 60 ، الاصابہ ج3 ص 46 نيز التراتيب الاداريہ ج2 ص 426، 427
3) الكشاف ج3 ص 537 ، قاموس الرجال ج 10 ص 69_
4)الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج3 ص 16، نيز ملاحظہ ہو ج4 ص60_
5)قاموس الرجال ج7 ص 256 و ج10 ص 69 ، انساب الاشراف ( حصہ حيات طيبہ نبى (ص) كريم) ج1 ص 271 نيز ملاحظہ ہو: طبقات ابن سعد ج4 حصہ اول ص 60_
6)طبقات ابن سعد ج4 حصہ اول ص 22_
111
مؤاخات برقرار فرمائي اور ابوذر پر يہ شرط عائد كى كہ وہ سلمان كى نافرمانى نہ كرے (1) اور واضح سى بات ہے كہ ابوذر كے سلمان كى اطاعت كرنے كى وجہ يہى ہوسكتى ہے كہ يہ اطاعت حق تك پہنچانے والى اور اخوت اور حق كے دوام اور ان سے وابستگى اور اس سے دفاع تك لے جانے والى تھى اور اس كى ايك اوروجہ يہ بھى ہے كہ سلمان خدائے بزرگ و برتر تك رسائي اور اعلى مقاصد تك پہنچنے كے لئے ذہنى ، نظرياتى اور علمى بلكہ ہر قسم كى حركات و سكنات كے لحاظ سے اعلى سطح پراس عظيم دينى شعور اور اعلى ظرفى كا عملى نمونہ تھے جو ثمر بخش پختہ ايمان اور راسخ عقيدہ كا، حمايت يافتہ تھا،تا كہ زندگى اس ايمان كے سائے ميں بسر كريں _ بہر حال جناب سلمان ميں صحيح معنوں ميں تمام كمالات بدرجہ اتم موجود تھے_ كيونكہ ايمان كے كل دس درجے ہيں اور سلمان دسويں درجے پر فائز تھے ، ابوذر نويں درجے پر اور مقداد آٹھويں درجے پر تھے (2)_
آنحضرت(ص) كے ابوذر كو سلمان كى اطاعت كرنے كے حكم سے ہميں يہ سبق ملتاہے كہ : اطاعت كا معيار اور ميزان صرف يہى مذكورہ چيز ہے _ قرآن كريم نے بھى اسى چيز كو يقين اور تقوى تك پہنچنے كا وسيلہ قرار دياہے_ فرمان الہى ہے:(ہل يستوى الذين يعلمون والذين لايعلمون) (3) اور (انمايخشى اللہ من عبادہ العلمائ)(4) اور(ان اكرمكم عنداللہ اتقاكم)(5) پس اس صورت ميں ايك دوسرے پر فضيلت حاصل كرنے اور امتيازى حيثيت پيدا كرنے ميں رنگ و خون اور جاہ و مال و غيرہ كا كسى قسم كا اور كسى بھى شخص كے حق ميں كوئي كردار نہيں ہے_ بلكہ ان تمام امور ميں معيار اور ميزان صرف اورصرف وہ تقوى ہے جو پختہ ايمان، روشن فكر اور عظيم دينى شعور كے زير سايہ ہوتى ہے_ اسى وجہ سے ابوذر پر ضرورى تھا كہ وہ سلمان كى نافرمانى نہ كرے_ وہ سلمان جو علم و معرفت كے ا س درجہ پر فائز تھے كہ اگر ابوذر كو معلوم ہوجاتا كہ سلمان كے دل ميں كيا ہے اسے قتل كرديتا (6)_ فضل سے منقول ہے كہ اسلام كے
---------------------------------------------------------
1) روضة الكافى ص 162_
2) قاموس الرجال ج/4 ص 423 ازخصال للصدوق _
3) الزمر 9_
4) فاطر 28_
5) الحجرات 13_
6) قاموس الرجال ج/4 ص 418_
112
زير سايہ پرورش پانے والے تمام لوگوں ميں سے كوئي شخص ايسا نہيں جو سلمان فارسى سے زيادہ فقيہ ہو (1)_
اور بالكل اسى طرح سے دوسرے زبر دستى حاكم بننے والے جاہلوں ، طاغوتوں اور جابر لوگوںكى اطاعت كى بجائے ائمہ ھدى (ع) كى اطاعت ضرورى ہے جو علم و معرفت اور در نتيجہ تقوى كى انتہائي بلندترين چوٹى پر فائز ہيں اور زمين پر خلافت الہى كا حقيقى نمونہ ہيں _
4_ جديد معاشرے ميں تعلقات كى بنياد:
نبى اكرم (ص) نے مدينہ تشريف لانے كے كچھ عرصہ بعد اور بعض كے بقول پانچ مہينوں (2) كے بعد اپنے اور يہوديوں كے درميان ايك تحرير يا سند لكھى جس ميں آپ(ص) نے انہيں اپنے دين اور اموال كا مالك رہنے ديا ليكن ان پر يہ شرط عائد كى كہ وہ آپ(ص) كے خلاف كسى كى مدد نہيں كريں گے اور جنگ اور اضطرارى صورت حال ميں ان پر آپ (ص) كى مدد كرنا ضرورى ہوگا جيسا كہ اس كے بدلہ ميں مسلمانوں پر بھى يہ چيز لازم ہے ليكن يہود يوں نے بہت جلدى اس عہد و پيمان كو توڑديا اور مكر وفريب سے كام لينے لگے _ ليكن جو دوسروں كے لئے كنواں كھودتا ہے ، اسى كے لئے كھائي تيار ملتى ہے _
قابل ملاحظہ بات يہ ہے كہ اس سند ميںصرف اغيار كے ساتھ مسلمانوں كے روابط كى نوعيت و كيفيت كے بيان پر ہى اكتفاء نہيں كيا گيا بلكہ اس كا اكثرو بيشتر حصہ خود مسلمانوں كے درميان روابط كے ايسے ضرورى اصولوں اور قواعد پر مشتمل ہے جو احتمالى غلطيوں كے واقع ہونے سے پہلے ہى ان كى روك تھام كرسكے اور يہ سند ايك ايسے دستور العمل كى مانند ہے كہ جس ميںنئي حكومت كے داخلى و خارجى روابط كا بنيادى ڈھانچہ پيش كيا گيا ہو _حق بات تو يہ ہے كہ يہ سند ان اہم ترين قانونى اسناد ميں سے ايك ايسى سند ہے جس كا مطالعہ ماہرين قانون اور قانون گذاروں كو پورى دقت اور توجہ كے ساتھ كرنا چاہيے تا كہ اس سے دلائل او ر احكام استخراج كرسكيں اور اسلام كے اعلى مقاصد اور قوانين كى عظمت و بلندى كو درك كرسكيں _ نيزاس سند كا ديگر
---------------------------------------------------------
1)قاموس الرجال ج 4 ص 418 و غيرہ _
2) تاريخ الخميس ج/1 ص 353_
113
انسانوں كے بنائے ہوئے ان قوانين كے ساتھ موازنہ كرنا چاہئے جن پر اس امت كے فكرى طورپر مستضعف افرادبھى مرے جا رہے ہيں حالانكہ يہ قوانين انسان كى فطرى و غير فطرى ضروريات كا تسلى بخش جواب دينے سے قاصر ہيں_يہاں پر ہم سند كے متن كو درج كرتے ہيں_
سند كا متن
ابن اسحاق كے بقول :
رسول(ص) خدا نے مہاجرين اور انصار كے ليے ايك قرار داد تحرير فرمائي جس ميں يہود يوں كے ساتھ بھى عہد و پيمان كيا اور انہيں اپنے دين اور مال كا مالك رہنے ديا اور طرفين كے لئے كچھ شرائط بھى طے پائيں_
بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللہ كے رسول محمد(ص) كى جانب سے يہ معاہدہ يثرب اور قريش كے مسلمانوں ، مومنوں، ان كے پيروكاروں ، ان سے ملحق ہونے والوں اور ان كے ساتھ مل كر جہاد كرنے والوںكے درميان ہے_ دوسرے لوگوں كے مقابلے ميں يہ سب كے سب ايك امت ہيں _ قريشى مہاجرين اپنے رسوم و رواج كے مطابق آپس ميں خون بہا كے معاملات طے كريں گے جبكہ اپنے قيديوں كا فديہ بہتر طريقے سے اور برابر برابر مسلمانوں سے لے كرادا كريں گے_ (البتہ يہ شقيں ذو معنى الفاظ ركھتى ہيں ليكن ان كا يہى معنى مناسب لگتاہے_مترجم)
بنى عوف بھى اپنے رسوم و رواج كے مطابق خون بہا كے گذشتہ معاملات طے كريں گے جبكہ ہر قبيلہ اپنے قيديوں كا فديہ بہتر طريقے سے اور برابر برابر مؤمنين سے لے كرادا كرے گا _
اسى طرح بنى ساعدہ ، بنى الحارث ، بنى جشم، بنى نجار، بنى عمرو بن عوف ، بنى النبيت اور بنى اوس بھى اپنے رسوم و رواج كے مطابق خون بہا كے گذشتہ معاملات طے كرليں گے جبكہ اپنے قيديوں كا فديہ بہتر طريقے سے اور برابر برابر مؤمنين سے لے كراداكريں گے _
114
اور مومنين اپنے درميان كسى كثير العيال مقروض كو اپنے حال پر نہيں چھوڑيں گے اور مناسب طريقے سے اسے فديہ اور خون بہا كا حصہ عطا ء كريں گے _
اور پرہيزگار مؤمنين سب مل كربا ہمى طور پر بغاوت كرنے والے يا ظلم ، گناہ، دشمنى يا مومنين كے درميان فساد پھيلانے جيسے كبيرہ كا ارتكاب كرنے والے كے خلاف اقدام كريں گے چا ہے وہ ان ميں سے كسى كا بيٹا ہى كيوں نہ ہو_
اور كسى مومن كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ دوسرے مومن كو كسى كافر كى خاطر قتل كرے اور مومن كے خلاف كافر كى مدد كرے_
اور خدا كا ذمہ ايك ہى ہے اسى لئے مسلمانوں ميں سے ادنى ترين شخص بھى كسى كو پناہ دے سكتا ہے_
اور دوسرے لوگوں كے مقابلے ميں تمام مؤمنين ايك دوسرے كے دوست اور ساتھى ہيں_
اورجو يہودى بھى ہمارى پيروى كرے گا تو اس كى مدد اور برابرى كے حقوق ضرورى ہيں_اور اس پر ظلم نہيں كيا جائے گا اور اس كے خلاف كسى كى مدد نہيں كى جائے گى _
اورتمام مومنين كى صلح و سلامتى ايك ہے اور كوئي مومن بھى دوسرے مومن كى موافقت كے بغير جہاد فى سبيل اللہ ميں كسى سے صلح نہيں كرسكتا مگر سب اكٹھے ہوں اور عدالت كى رعايت كى جائے _
اور جو قبيلہ بھى ہمارے ساتھ مل كر جنگ كرے گا اس كے سب افراد ايك دوسرے كى مدد كريںگے _
اور مومنين كا جو خون راہ خدا ميں بہے گا وہ اس ميں ايك دوسرے كى مدد كريں گے اور(راضى بہ رضا رہنے والے) متقى مومنين بہترين اور محكم ترين ہدايت پر ہيں _
كسى مشرك شخص كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ قريش كے كسى شخص يا اس كے مال كو پناہ دے اور مومن كے اس پر مسلط ہونے سے مانع ہو_
اور جو شخص بھى ناحق كسى مومن كو قتل كرے گا اور قتل ثابت ہوجائے تواسے اس كے بدلے قتل كيا جائے گا مگر يہ كہ مقتول كے وارثين ( ديت لينے پر) راضى ہوجائيں اور تمام مؤمنين كواس قاتل كے خلاف قيام كرنا
115
پڑے گا اوران پر قاتل كے خلاف اٹھ كھڑا ہونا ضرورى اور واجب ہوگا_
اور جو مومن اس معاہدے ميں درج امور كا اقرار كرتا ہے اور خدا اور قيامت پر ايمان ركھتاہے اس كے لئے جائز نہيں كہ وہ كسى بدعت گزار كى مدد كرے يا اس كو پناہ دے اورجو شخص بھى اس كو پناہ دے گا يا اس كى مدد كرے گا تو قيامت كے دن خدا كى لعنت اور غضب كا مستوجب قرار پائے گا اور اس سے اس چيز كا معاوضہ يا بدلہ قبول نہيں كيا جائے گا_
اور جب بھى كسى چيز كے متعلق تمہارے درميان اختلاف واقع ہو تو ( اس اختلاف كو حل كرنے كا ) مرجع و مركز خدا اور ( اس كے رسول ) محمد(ص) ہيں_
اور جنگ كے دوران يہود ى بھى مومنين كے ساتھ ساتھ جنگ كے اخراجات برداشت كريں گے اور بنى عوف كے يہوديوں كا شمار بھى مومنين كے ساتھ ايك گروہ ميں ہوگا( اس فرق كے ساتھ كہ ) يہود يوں اور مسلمانوں كا اپنا اپنا دين ، دوستياں اور ذاتيات ہوں گے مگر جو شخص ظلم يا گناہ كا ارتكاب كرے گا تو ( اس صورت ميں) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ كو ہى ہلاكت ميں ڈال دے گا _ بنى نجار كے يہوديوں كا معاملہ بھى بنى عوف كے يہوديوں كى طرح ہے_ اسى طرح بنى حارث ، بنى ساعدہ ، بنى اوس اور بنى ثعلبہ كے يہوديوں كا معاملہ بھى بنى عوف كے يہوديوں كى طرح ہے مگر جو شخص ظلم يا گناہ كاارتكاب كرے گا تو ( اس صورت ميں ) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ كو ہى ہلاكت ميں ڈالے گا_ ثعلبہ كے خاندان ، جفنہ كا معاملہ بھى ثعلبہ كى طرح ہے_ اسى طرح بنى شطيبہ كا معاملہ بھى بنى عوف كے يہوديوں كى طرف ہے_ اور نيكى اور برائي كا عليحدہ عليحدہ حساب كتاب ہے_ ثعلبہ كے ساتھيوں كا معاملہ بھى انہى كى طرح ہے_ نيز يہوديوں كے قريبى افراد كا معاملہ بھى انہى كى طرح ہے_
اور(حضرت) محمد(ص) كى اجازت كے بغير كوئي بھى يہودى مدينہ شہر سے خارج نہيں ہوگا نيز كسى بھى قبيلہ كو اس معاہدے سے خارج نہيں كيا جائے گا_ اور زخميوںكا بدلہ لينے ميں بھى كوئي زيادہ روى نہيں كى جائے گى اور جو ناحق خونريزى كرے گا اس كا اور اس كا گھر والوں كا خون بہايا جائے گا_ ليكن مظلوم ہونے كى
116
صورت ميں اسے اس بات كى اجازت ہے اور خدا بھى اسى بات پر راضى ہے_
يہودى اور مسلمان ہر ايك اپنے اخراجات خود برداشت كريں گے اور اس معاہدے كو قبول كرنے والوں ميں سے كسى فريق كے خلاف جنگ كى گئي تو يہ ايك دوسرے كى مدد كريں گے_
اوريہ لوگ پند و نصيحت اور نيكى كے كاموں ميں ايك دوسرے كى مدد كريں گے ، گناہ كے كاموں ميں نہيں _ كوئي شخص بھى اپنے حليف سے بدى نہيں كرے گا اور (اس صورت ميں)مظلوم كى مدد كى جائے گى _
اور يہود ى مسلمانوں كے ساتھ مل كر جنگى اخراجات برداشت كريں گے جب تك وہ جنگ ميں مصروف ہيں _اس معاہدے كو قبول كرنے والوں كے لئے يثرب (مدينہ) شہر جائے امن وا حترام ہے_
اور ( ہر شخص كا)ہمسايہ اور پناہ گير خود اسى كى طرح ہے اور اسے ضر ر اور تكليف نہيںپہنچنى چاہئے _ كسى شخص كو نا حق پناہ نہيں دى جائے گى مگر اس كے خاندان كى اجازت سے_
اور اگر اس معاہدے كو قبول كرنے والے اشخاص كے درميان ايسا جھگڑا اور نزاع واقع ہو جس سے فساد كا خوف ہو تو اسے حل كرنے كا مرجع و مركز خدا اور ( اس كا رسول ) محمد(ص) ہے اور خداوند متعال يقيناً اس عہد و پيمان كے مندرجات پر ر اضى خوشنود ہے_
مشركين قريش اور ان كے مددگاروں كو پناہ نہيں دى جائے گى يثرب پر حملہ كرنے والوں كے خلاف سب ايك دوسرے كى مدد كريںگے_ اگر (مؤمنين ) انہيں صلح كى دعوت ديں(1) اور وہ قبول كرليں تو تمام مؤمنين بھى اس كے مطابق عمل كريں گے اور اگر وہ مومنين كو صلح كى دعوت ديں گرچہ ان كامؤمنين كى طرح يہ حق ہے مگر جو شخص دين كے بارے ميں جنگ كرے تو اس كى پيشكش كو قبول نہيں كيا جائے گا_ اور ہر شخص كو اپنے ذمہ لئے جانے والا حصہ (2) ادا كرنا چاہئے_اوس كے يہود ى خود اور ان كے ساتھيوںكے بھى وہى حقوق ہيں جو اس معاہدے كو قبول كرنے والوں كے لئے ثابت ہيں_ ان كے ساتھ بھى اچھا سلوك كيا جائے_ اچھائي اور
---------------------------------------------------------
1) كتاب الاموال ابوعبيد كى روايت ہے كہ اگر ( مومنوں ميں سے) يہوديوں كا كوئي حليف انہيں صلح كى دعوت دے گا تو سب كو ان كے ساتھ صلح كرنى پڑے گى اور اگر وہ يہ كام كريں تو مومنوں كى طرح ان كابھى يہ حق بنتا ہے مگر جو دين كے خلاف جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہوں_
2)الاموال كے مطابق ، ہر كسى كو اپنے ذمہ لئے جانے والے خرچہ كا حصہ ادا كرنا چاہئے_
117
برائي كا عليحدہ حساب كتاب ہے اور جو بوئے گا وہى كاٹے گا_ خداوند اس معاہدے كے مندرجات پر خوشنود وراضى ہے اوراس قرار داد كى خلاف ورزى صرف ظالم اور گناہگار افراد ہى كريں گے_ ( اور اس قرارداد كو قبول كرنے والے اشخاص ميں سے ) جو شخص بھى مدينہ سے خارج ہو يا مدينہ ميں رہے امان ميں ہے مگر يہ كہ ظلم كرے اور گناہ كا مرتكب ہو _يقينا خدا اور اس كا رسول محمد(ص) نيك اور پرہيزگار لوگوں كى پناہ گاہ ہيں(1)_
يہ ايك اہم اور بلند پايہ سند ہے ليكن مؤرخين نے (1)اسے زيادہ اہميت نہيں دى اور محققين و مؤلفين نے اس ميں تحقيق كرنے ميں كوتاہى كى ہے ، ہم روشن فكر اشخاص كو اس سند ميں غور و خوض اور گہرے سوچ بچار كى دعوت ديتے ہيں اور اميد ركھتے ہيں كہ اس كى عظمت كے مطابق اسے اہميّت دى جائے گى واللہ ھو الموفق والمسدد_البتہ ہم بھى اپنى حيثيت كے مطابق اس كے متعلق چند نكات بيان كريں گے_
معاہدہ يا معاہدے؟
مؤرخين ، اس معاہدے كے متعلق كہتے ہيں كہ يہ ايسا دستور العمل ہے جو ايك طرف سے تو مہاجرين اور انصار كے درميان اور دوسرى طرف سے مسلمانوں اور يہوديوں كے درميان تعلقات كى نوعيت معين كرتاہے بعض مؤرخين كا دعوى ہے كہ يہ ايك معاہدہ نہيں ہے بلكہ يہ كئي عليحدہ عليحدہ سلسلہ وار معاہدوں كا مجموعہ ہے جنہيں مندرجہ ذيل دو مرحلوں ميں آپس ميں تركيب كيا گيا ہے :
پہلا مرحلہ : اس مرحلہ ميں مختلف عرب قبائل كو رسول (ص) خدا كى قيادت ميں مدينہ ميں يكجا كيا گيا _
دوسرا مرحلہ : اس مرحلہ ميں كسى بھى بيرونى دباؤ كے مقابلے كى خاطر مدينہ كے يہوديوں كے تعاون كے حصول كے لئے مذكورہ قبائل كے اجتماع اور تعاون كى قوت سے مدد لى گئي_
---------------------------------------------------------
1) سيرة ابن ھشام ج/2 ص 147 تا 150 ، البداية والنھاية ج/3 ص 224 تا 226، الاموال ص 202 تا ص 207،مجموعة الوثائق السياسيہ نيز مسند احمد ج 1 ص 271 و مسند ابويعلى ج 4 ص 366_367 ميں بھى اس بات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے_
118
اور يہ بھى لازمى نہيں ہے كہ يہ معاہدے ايك ہى وقت ميں طے پائے ہوں _ بلكہ ان دومرحلوں ميں بھى كئي ايسے چھوٹے چھوٹے مراحل ہيں جو (اس معاہدے كى شقوں پر نظر ثانى كا باعث بننے والے) ہر نئے پيش آنے والے حالات و واقعات كے مطابق دقتاً فوقتاً مذكورہ معاہدے كى شقوں اور جملوں ميں اضافہ كا باعث بنے _ جن كى رو سے مدنى معاشرے كے مختلف اركان كے درميان مذكورہ تبديلى كے اثرات كى حامل شقوں اور جملوں كا اضافہ ہوا _ ليكن مذكورہ بيانات پر ان لوگوں كى دليل يہ ہے كہ اس معاہدے ميں بعض جملوں كا تكرار ہوا ہے _ خاص كر جب يہ ملاحظہ كيا جائے كہ يہ جملے ايك ہى شق اور شرط كو بيان كررہے ہيں بطور مثال مندرجہ ذيل عبارتيں ہيں جو يہ بيان كررہى ہيں كہ '' جنگ كے دوران يہودى بھى مومنوں كے ساتھ ساتھ جنگ كے اخراجات برداشت كريں گے'' اور '' اس معاہدے كے حليفوں كے درميان جب بھى كسى چيز كے متعلق اختلاف واقع ہو تو اسے رسول (ص) خدا كے حضور پيش كريں '' اسى طرح '' اچھائي اور برائي كا حساب جدا جدا ہے'' اور '' ہر قبيلہ اپنے قيديوں كا فديہ بہتر طريقے سے اور برابر برابر تمام مومنين كے درميان تقسيم كريں گے'' جبكہ يہ جملے اوس اور خزرج كے مختلف قبيلوں كى بہ نسبت كئي بار تكرار ہوئے ہيں (1)_
جبكہ ہم يہ كہتے ہيں كہ واضح سى بات ہے كہ يہ دليل ان كے اس گمان كے اثبات كے لئے ناكافى ہے _ كيونكہ يہ تكرار يقينا ہر قبيلے كى بہ نسبت اس معاہدے كى جداگانہ تاكيد كے لئے آيا ہے جو تحريرى معاہدوں ميں دقت اور صراحت كے حصول كے لئے ايك پسنديدہ امر ہے تا كہ كسى بہانہ جو اور حيلہ گر كے لئے عذر اور بہانہ كا كوئي بھى موقع نہ رہے_ اور يہ وضاحت اور تصريح ہر گروہ ، خاندان اور قبيلہ كے لئے بيان ہوئي ہے كيونكہ مقصود يہ تھا كہ اس گروہ يا قبيلہ كو وضاحت سے ہر وہ بات معلوم ہوجائے جو اس كے لئے اور اس سے مطلوب ہے پس يہ معاہدہ ان تمام قرار دادوں كا مجموعہ ہے جسے ہر قبيلہ نے دوسرے قبيلوں ،گروہوں يا خود قبيلہ كے افراد كے ساتھ طے كئے تھے_ پس ان تمام قراردادوں كا بيان ضرورى تھا_ اسى بناپر اس ايك معاہدے ميں كئي مختلف معاہدوں كى خصوصيات پيدا ہوگئيں_البتہ اس معاہدے ميں مذكور يہوديوں سے مراد بنى اسرائيل
---------------------------------------------------------
1) مذكورہ بيانات كے لئے ملاحظہ ہو كتاب '' نشا الدولة الاسلاميہ ص 25 ، 27''
119
كے يہودى نہيں ہيں اور ان كے قبيلے قينقاع، نضير اور قريظہ ہيں _ بلكہ يہاں پر يہوديوں سے مراد قبائل انصار كے يہودى ہيں_كيونكہ انصار كے قبيلوں كے چند گروہ يہوديت اختيا ر كرچكے تھے اور معاہدے ميں بھى ان كا ذكر ان كے قبيلہ كے ذكر كے ساتھ ہوا ہے _ ابن واضح كا كہنا ہے : '' اوس اور خزرج كا ايك گروہ يمن سے خارج ہونے كے بعد خيبر ، قريظہ اور نضير كے يہوديوں كے ساتھ ہمسائيگى كى وجہ سے يہودى ہوگيا_ نيز بنى حارث بن كعب، غسان اور جذام كے افراد بھى يہودى ہوگئے ''(1)_ اسى طرح بعض روايتوں ميں يہ بھى آيا ہے كہ انصار كى ايك نسل اس سبب سے يہودى ہوگئي تھى كہ جب بھى كسى عورت كا بچہ زندہ نہ بچتا تھا تو وہ اپنے آپ سے يہ عہد كرتى تھى اور يہ نذر مان ليتى تھى كہ اگر اس كا بچہ زندہ بچا تو وہ اسے يہودى بنائے گى _ پھر جب قبيلہ بنى نضير كو جلا وطن كيا جانے لگا تو انہى كے بزرگوں نے كہا كہ ہم اپنے بچوں كو اكيلا نہيں چھوڑ سكتے جس پر خدا نے ( لا اكراہ فى الدين ) ( دين اختيار كرنے پر كوئي جبر نہيں) والى آيت نازل كى _ مورخين و محدثين كہتے ہيں كہ يہ حكم ان مذكور افراد كے لئے خاص ہے جو اسلام كے آنے سے پہلے يہودى ہوگئے تھے(2)_
معاہدے پر سرسرى نگاہ :
بہر حال معاملہ جو بھى ہو _ ليكن يہ معاہدہ يا معاہدے اس نئے معاشرے ميں تعلقات استوار كرنے كے سلسلے ميں كئي نہايت اہم اور بنيادى نكات كے حامل ہيں اس بات پر بطور مثال ہم مندرجہ ذيل امور كى طرف اشارہ كرتے ہيں:
1 _ اس معاہدے ميں يہ طے پايا كہ تمام تر قبائلى ، نسبتى ، فكرى نيز كمى اور كيفى لحاظ سے نظرياتي،معاشى ، معاشرتى اور ديگر اختلافات كے با وجود مسلمان ايك امت اور گروہ ہوں گے_
---------------------------------------------------------
1) تاريخ يعقوبى ج1 ص 257_
2)ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج2 ص 267 ، الجامع لاحكام القرآن ج3 ص 280 از ابوداؤد ، لباب التاويل ج1 ص 185 فتح القدير ج5 ص 275، از ابوداؤد، نسائي ، ابن جرير ، ابن منذر، ابن ابى حاتم، ابن حبان ، ابن مردويہ ، بيہقى در سنن و ضياء در المختارہ ، درمنثور ج1 ص328
120
اس عہد كے كئي سياسى پہلو ہيں _ نيز اس كے حقوقى اور ديگر اثرات بھى ہيں_ اس كے ساتھ ساتھ سياسى اور معاشرتى ڈھانچے اور نجى ، جذباتى ، فكرى ، معاشى حتى كہ بنيادى حالات و تعلقات پر بھى اس كے عمومى سطح پر گہرے اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہيں_ ليكن ہم اس كى تفصيل اور جزئيات ميں جانے كے درپے نہيں ہيں_
2_ اس معاہدے ميں قريش مہاجرين كو ديت اور خون بہا كے معاملے ميں اپنى عادت اور رسم پر باقى ركھنا بھى شامل ہے_ گرچہ مؤرخين كہتے ہيں كہ يہ شق بعد ميں منسوخ ہوگئي تھى ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ يہ شقيں بعد ميں بھى برقرار رہيں_ جبكہ يہ ان رسومات ميں سے ہے جنہيں جناب عبدالمطلب نے رواج ديا تھا _ يا دين حنيفيت سے ان تك پہنچى تھى _ اس وجہ سے استثنائي طور پر صرف اس رسم كو اسلام ميں باقى ركھا گيا اور بطور مثال قريشيوں كى تجارتى يا دوسرے نجى رسومات كو باقى نہيں ركھا گيا_
حتى كہ اگر بعض مقامات پر يہ صورتحال نہ بھى ہو تو عين ممكن ہے كہ شرعى احكام كى تشريع اور انہيںلاگو كرنے كے باب ميں اس دور كے معاشى اوراقتصادى صورتحال كو پيش نظر ركھتے ہوئے تدريج كا سہارا ليا گيا ہو_
3_ مہاجرين اور دوسرے قبائل كا اپنے قيديوں كا فديہ عدل و انصاف سے سب قبائل ميں تقسيم كرنے كا فريضہ ہميں يہ بتاتا ہے كہ تمام قبائل كو ايك دوسرے كى كفالت اور معاشرتى اور اجتماعى احساس ذمہ دارى كى حالت ميں گذر بسر كرنا ہوگى _ مزيد يہ كہ يہ چيز ان لوگوں كے درميان ايك قسم كے تعلق ، ايك دوسرے كے دفاع اور خطرے اور مشكلات كے لمحات ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كى ضامن ہے_ اس كے علاوہ اپنے جنگى حليف كو يہ احساس دلانا ہے كہ يہاں اس كے خيرخواہ موجود ہيں اور اس كے قيدى ہونے كى صورت ميں اسے آزاد كرانے كے لئے اپنا مال خرچ كرنے پر بھى تيار ہيں اور يہ بات اس كى امنگوں ، خود اعتمادى اور دشمن كا مقابلہ كرنے كے ارادوں ميں اضافہ كا باعث بنے گا_ اس پر مزيد يہ كہ اگر اقتصادى اور معاشى بوجھ كو بہت سے افراد مل كر برداشت كريں تو وہ بوجھ ہلكا ہوجاتا ہے_ اور مشكلات سے دوچار (غريب) افراد پر بھى زيادہ بوجھ نہيں پڑتا_
121
يہاں پر قابل ملاحظہ بات يہ ہے كہ اس شق ميں قسط (عد ل و انصاف) اور معروف (نيكى اور بھلائي) كے الفاظ استعمال ہوئے ہيں _ كيونكہ قسط كا لفظ قبيلہ كے افراد ميں حصّہ رسد كى برابر تقسيم ميں كسى بھى قسم كى كمى يا بيشى كے انكار اور ممانعت پر دلالت كرتا ہے _ ليكن معروف كا لفظ اس سے بھى وسيع مطلب پر دلالت كرتا ہے كيونكہ يہ لفظ بتاتا ہے كہ اس شق يا كسى بھى ايسے شرعى حكم كا عملى نفاذ بہتر اور احسن انداز ميں ہونا ضرورى ہے جس كا تعلق عام لوگوں سے ہوتا ہے اور وہ حكم ان كى مالى يا غير مالى حالات كى معاونت كے متعلق ہو _ پس صادرہ احكام يا عمومى قانون كے بہانے مذكورہ طريقے اور راستے سے ادھر ادھر ہونا صحيح نہيں ہے_
4_ اس معاہدے ميں يہ بھى طے پايا كہ اگر كسى مقروض كا كوئي ايسا خاندان نہ ہو جو اس كے قيدى كى رہائي كے بدلے، فديہ دينے ميں اس كى مدد كرسكے تو اس قيدى كى رہائي كے لئے تمام مسلمانوں پر اس كى مدد لازمى ہے_ اور يہ شق ، قبائل پر فديہ كى ادائيگى ضرورى قرار دينے والے مذكورہ حكم سے پيدا ہونے والے شگاف كو پركرنے كے لئے منظور كى گئي ہے_ اور اس نكتہ كى طرف بھى توجہ ضرورى ہے كہ مذكورہ دونوں شقيں اس وقت كى مالى مشكلات كو حل كرنے كے لئے وضع ہوئيں جب مسلمانوں كے پاس ايسا كوئي بيت المال (خزانہ دارى )نہيں تھا جو ان مشكل اور كٹھن حالات ميں مسلمانوں كى كفايت كرتا _ كيونكہ يہ وہ وقت تھا جب مسلمان دوسروں كى ضروريات تو اپنى جگہ ، اپنى ذاتى ضروريات تك پورى كرنے سے قاصر تھے_ اور كوئي ايسا متبادل ذريعہ بھى نہيں تھا جس سے وہ اس بارے ميں استفادہ كرتے_
5_ اس معاہدے ميں يہ بھى آيا ہے كہ ظالموں كو دور بھگانے كا فريضہ صرف مظلوموں پر ہى نہيں بلكہ سب پر عائد ہوتا ہے_ شايد يہ اس معاہدے كى اہم ترين شقوں ميں سے ايك ہے_ چاہے اس جيسے عہد كو معاشرے كى جڑوں پر اثرات كے لحاظ سے ديكھا جائے، پھر ان اثرات كے تعلق كو معاہدے اور سياسى موقف ، ظلم كے مسئلہ كے ساتھ حكمرانوں كے برتاؤ كے تناظر ميں ديكھا جائے اور پھر اس معاہدے كے مثبت يا منفى رد عمل كے ساتھ ديكھا جائے جو ظلم سے مقابلے كو ايك معاشرتى اور اجتماعى فريضہ قرار ديتا ہے اور اسے صرف حكمران كے ساتھ ہى مخصوص نہيں كرتا، (گرچہ اكثر اوقات اس كے لئے اقتدار اور مقام كى ضرورت
122
رہتى ہے)_ يا چاہے عوام اور امت پر روحانى ، نفسياتى اور ديگر اثرات كے لحاظ سے اس جيسے عہد كو ديكھا جائے تو يہ پہلو بھى نہايت خطير اور باا ہميت ہے _ البتہ اس كى تفصيل ميں جانے كى گنجائشے نہيں ہے كيونكہ اس كے لئے اسلامى شريعت كى طبيعت اور فطرت كے گہرے اور دقيق مطالعہ كى ضرورت ہے_
6_ اس معاہدے ميں ايك يہ شق بھى ہے كہ كسى كافر كے بدلے ميں كسى مسلمان كا خون نہيں بہا يا جائے گا_ اور اس شق ميں يہ تاكيد پائي جاتى ہے كہ انسان كى بزرگى اور قدر و قيمت صرف اسلام كے ساتھ ہى بڑھتى ہے_ اور يہ بات اس مقولہ سے ماخوذ ہے كہ كسى فرد يا اجتماع كے افكار و عقائد ہى اس كى قدر و قيمت كا معيار ہيں_ يہى چيزيں ہيں جو اس كى قدر بڑھاتى ہيں يا پھر گھٹاتى ہيں_ پس اسلام ، ايك مسلمان كى روح كو بلندى تك پہنچا نے والے ايسے اقدار كا مجموعہ ہے جن كے ذريعہ وہ مسلمان اپنى ذات ميں انسانيت كے بلند و بالا معانى سموئے ہوئے ہو اور پھر ان پر حقيقى اور عملى زندگى ميں عمل پيرا بھى ہو_ ان اقدار كے حامل مسلمان سے ايسے افراد كا قياس ممكن ہى نہيں ہے جو يا تو اپنى انسانيت پر كاربند نہيں رہتے يا بہت قليل مقدار ميں ان اقدار كے حامل ہوتے ہيں يا سرے سے ان كے اندر انسانيت ہى نہيں پائي جاتي_ يہ صورتحال تو اس صورت كے علاوہ ہے جس ميں كوئي شخص وقت پڑنے پر انسانيت كے دفاع اور اس كى راہ ميں عزيز اور قيمتى چيزوں كى قربانى تو دريغ ، بلكہ وہ تو انسانيت كے لئے كسى وقعت بلكہ خود انسانيت كا بھى قائل نہ ہو اور ہر حال ميں اسے اپنا مفاد عزيز ہوتاہے_
7_ اس معاہدے ميں يہ مذكور ہوا ہے كہ مسلمانوں كا كمتر شخص بھى دشمنوں كو امان دے سكتا ہے ليكن كسى مسلمان كے مقابلے ميں كسى كافر كو پناہ اور امان نہيں دى جائے گي_ يہ شق بھى گذشتہ نكتہ ميں مذكور مطلب پر تاكيد كرتى ہے_ كيونكہ اسلام شرف اور بزرگى كو مال ، قبيلہ اور كسى دوسرى چيز ميں نہيں بلكہ صرف انسانيت ميں ديكھتا ہے اور انسانيت ہى ہے جو اس كى قدر بڑھاتى ہے_ يہاں پر ہم يہ اضافہ بھى كرتے چليں كہ اس جيسا پيمان مسلمانوں كے درميان مساوات كے احساس كو مزيد پختہ كرتا ہے_ پس جب تك تمام مسلمانوں ميں انسانيت كا يہ اعلى نمونہ موجود ہے تب تك امير كو غريب پر اور طاقتور كو كمزور پر كوئي برترى نہيں ہے_ اس
123
صورتحال ميں انہيں صرف ان اعلى اقدار سے احسن انداز ميں استفادہ كرنا چاہئے تا كہ ان كى زندگى كے تمام شعبوں ميں بہترى ، بھلائي ، علم و فضل او رتقوى غالب ہو_
8_ اس معاہدے ميں يہ بھى طے پايا كہ مسلمان كسى بھى بدعتى كى حمايت اور مدد نہيں كريں گے بلكہ نہايت صلابت، مضبوطى ، پائيدارى اور مستعدى سے اس كا اور اس كى بدعت كا مقابلہ كريں گے_ معاہدے كى اس شق ميں معلوم ہوتا ہے كہ اسلام ، ذہنى اور فكرى سلامتى كے لئے بہت زيادہ اہميت كا قائل ہے_ اور ثقافتى ، عقائدى اور فكرى ميدان ميں حفاظت اور صيانت كى بہت زيادہ تاكيد كرتا ہے_ پھر اس صيانت كو عملى جامہ پہنانے كے لئے وہ عوام يا دوسرے لفظوں ميں امت كو اصلى كردار فراہم كرتا ہے_ اور اس سے قبل كہ اس بدعت كا طوفان اس امت كو اپنے ساتھ اڑالے جائے اور اس سمندر كى موجزن لہريں انہيں بہالے جائيں، اسلام ان انحرافات سے نمٹنے كے لئے عوام كو گروہى اور انفرادى كردار ادا كرنے كى تاكيد كرتا ہے_ كيونكہ يہ بدعت ابتداء ميں امت كے افراد كو نشانہ بناتا ہے تا كہ ان كى اجتماعى طاقت كو مذاق بنا كر اسے حقيرو ذليل كرے اور پھرا نہيں تسخير كركے ان كى طاقت كو اپنى بنياديں مضبوط كرنے اور اپنے ارادوں كو عملى جامہ پہنانے كے كام لائے _ جس كے بعد عوام كى يہ طاقت ايك ايسے پنجے اور كدال كى صورت اختيار كرلے گى جو ہر فضيلت پر كارى ضرب لگا كر اسے تباہ كرنے او ر ہر پستى اور برائي كو پھيلانے كے كام آئے گي_
9_ اس معاہدے ميں غلبہ اسلام كى بھى بنياد ركھ دى گئي ہے كيونكہ اس معاہدے ميں اسلام كے سخت ترين دشمنوں يعنى يہوديوں (مراد انصار قبيلوں سے دين يہوديت اختيار كرنے والے افراد) كى طرف سے بھى اسلام كے غلبہ كا تحريرى اعتراف بھى موجود ہے_ حالانكہ يہودى صرف اور صرف اپنے آپ كو ہى تمام امتيازات اور خصوصيات كا مالك جانتے تھے اور ضرورى تھا كہ ہر فيصلے كا مبداء ، منتہاء اور محور يہى ہوں _ خلاصہ يہ كہ يہ اپنے آپ كو حكمران اور پورى دنيا كو اپنا ايسا غلام اور حلقہ بگوش سمجھتے تھے جو پيدا ہى ان كى غلامى كرنے كے لئے ہوئے ہيں_ بہرحال اس معاہدے ميں يہ طے پايا كہ كوئي بھى يہودى رسول (ص) خدا كى اجازت كے بغير مدينہ سے باہر قدم بھى نہيں ركھے گا_ اور حاكميت اور فرمانروائي كسى اور كے ساتھ نہيں بلكہ
124
دين خدا اور رسول (ص) خدا كے ساتھ خاص ہے_
ہوسكتا ہے كہ يہ عہد اور فيصلہ اس لئے بھى كيا گيا ہو كہ داخلى طور پر يہوديوں كو اسلام اور مسلمانوں كے متعلق برا سو چنے والے بيرونى دشمنوں كے مفاد ميں فتنہ انگيزيوں اور جاسوسيوں كا كوئي موقع ميسر نہ آسكے_ اور اس لئے بھى يہ عہد ليا گيا كہ مسلمانوں كے ساتھ اور آس پاس رہنے والے لوگوں كو بھى معلوم ہوجائے كہ يہاں پر بھى ايك ايسى طاقت موجود ہے جسے بہر صورت تسليم كرنا ہى پڑے گا اور اس كے ساتھ حقائق كو مد نظر ركھتے ہوئے برابرى اور سچائي كے ساتھ تعلقات قائم كرنے ہوں گے_
10_ اس معاہدے ميں (جس ميں مذكورہ عہد كى گہرى تاكيد كى گئي ہے اور جسے يہوديوں نے تسليم بھى كيا اور تحريرى طور پر اس كا ثبوت بھى ديا) يہ بھى بيان ہوا ہے كہ يہوديوں اور مسلمانوں كے درميان پيدا ہونے والے تمام تنازعوں اور مشكلات كے حل كا مرجع اور مركز صرف رسول (ص) خدا كى ذات والا صفات ہى ہے_ البتہ ہم يہاں اس شق كے سياسى مدلول اور يہوديوں نيزمدينہ كے رہائشےى ديگر افراد اسى طرح پورے علاقے كے باسيوں پر ذاتى ، انفرادى اور اجتماعى اثرات پر بحث كرنے كے درپے نہيں_ البتہ يہ ضرور بتاتے چليں كہ اس شق كى وجہ سے عقائد كى حفاظت كا سامان بھى فراہم كيا گيا اور اگر تھوڑى سى دقت كى جائے تو يہ بھى معلوم ہوگا كہ اس ميں فقہى پہلوؤں كى مراعات بھى كى گئي ہے _اس بارے ميں كسى اور مقام پر تفصيلى بحث كريں گے_
11_ ان تمام شقوں كے علاوہ اس معاہدے نے فتنہ انگيزى نہ كرنے كى شرط پر انصارى يہوديوں كے '' امن '' اور '' آزادي'' جيسے عمومى حقوق كے تحفظ كى ضمانت بھى دى ہے_ اور يہ دونوں خاص كر آزادى كا حق عطا كرنا اس بات كى غمازى كرتا ہے كہ جب تك كوئي چيز حقيقت اور سچائي كى بنيادوں پر برقرار رہتى ہے اور حقيقت كے راستے پر گامزن ہوتى ہے تب تك اسلام كو بھى كسى چيز سے خطرہ محسوس نہيں ہوتا _ اسلام صرف اور صرف فتنہ انگيزى اور فساد سے ڈرتا ہے_ يہ چيز اس بات كى طرف ہمارى راہنمائي كرتى ہے كہ اسلام علم اور معرفت كے حصول كى تاكيد كرتا ہے كيونكہ اسلام ہى ہے جو ( تخريبى رستوں سے ہٹ كر صرف) تعميرى راستوں ميں علم اور معرفت سے سب سے زيادہ استفادہ كرسكتاہے_
125
12_ پھر اس معاہدے ميں منافقوں اور مشركوں بلكہ يہوديوں كى طرف سے بھى يہ اعتراف پايا جاتا ہے كہ مسلمان ہى سب سے بہتر اور معتدل تر ہدايت پر ہيں_ حالانكہ انہى لوگوں نے پہلے يہ پھيلا ركھا تھا كہ يہ نبى ہمارے اتفاق اور اجتماع ميں رخنہ ڈالنے اور ہمارى اميدوں اور لائحہ عمل پر پانى پھيرنے آيا ہے اور اسى طرح كے ديگر الزامات بھى تھے جو بطور مثال عمرو بن عاص نے حبشہ ( ايتھوپيا) كے بادشاہ نجاشى سے ذكر كئے تھے_
13_ اس معاہدے ميں قبيلہ پرستى كو بھى ناجائز قرار دے ديا گيا كيونكہ قبيلہ پرستى ، افراد قبيلہ كى ہر قسم كى اور ہر صورت ميں مدد كا باعث بنتى تھى چاہے وہ دوسروں پر ظلم اور زيادتى كے بھى مرتكب ہوتے_
اس معاہدے ميں يہ طے پايا كہ قاتل جو بھى ہو اور جہاں بھى ہو تمام مؤمنوں پر اس كا تعاقب اور پيچھا ضرورى ہے _ نيز اس شق ميں رياست ، سردارى اور مجرم كے قبيلہ كى قسم جيسے ديگر امتيازى قوانين اور سلوك كو بھى باطل قرار ديا گيا _ جس طرح بنى قريظہ اور بنى نضير كى حالت تھى _ كيونكہ اس معاملے ميں بنى قريظہ پر بنى نضير كو امتيازى حيثيت حاصل تھي_
14_ پھر اس قرار داد نے مسلمانوں كو ( تمام مشركوں كو چھوڑكر ) صرف قريشيوں كے اموال ضبط كرنے كا حق بھى ديا_ كيونكہ قريشيوں نے بھى ان سے تمام اموال چھين كر انہيں اپنے گھروں سے نكال باہر كرديا تھا_ اور يہ ضبطى اس ادلے كا بدلہ ہوگا_ حتى كہ مشركوں نے بھى مسلمانوں كے اس حق كا اعتراف كيا حالانكہ وہ بھى اس معاہدے كے فريق تھے_ اس شق كے متعلق مشركوں نے يہ كہنا شروع كرديا كہ اس معاملے ميں وہ قريش كى كوئي مدد نہيں كرسكتے اور اس معاملے كو دوسرے رنگ ميں ڈھالنا شروع كر ديا تھا _ اسى شق نے انسانى ضمير ميں انسانيت كى قدر بڑھائي اور اسے فعال كردار عطا كيا جسے يا تو وہ لوگ بھلا چكے تھے يا بھلانے لگے تھے_
15_ ہم يہ ديكھتے ہيں كہ اس معاہدے ميں '' مسلمانوں'' كى بجائے'' مومنوں'' كا لفظ استعمال كيا گيا ہے_ روابط اور تعلقات كے ميدان ميں اس لفظ كے بہت اثرات ہيں _ اسى طرح مخلصين كے لئے بھى اس ميں اشارے پائے جاتے ہيں تا كہ ان كے خلوص اور اخلاص ميں اضافہ ہو نيز ان منافقوں كے لئے بھى
126
اشارے پائے جاتے ہيں جو خدا اور مؤمنوں كو دھو كا دينا چاہتے ہيں حالانكہ وہ صرف اپنے آپ كو ہى دھوكا ديتے ہيں_ اسى طرح مختلف گروہوں كى شناخت ميں اس كے سياسى اثرات بھى ہيں تا كہ يہ پہچان اور امتياز مذہبى اور دينى تعصب كى روسے نہ ہو _
16_ اس معاہدے ميں ايمان كى عظمت كا اظہار بھى ہے جس كى روسے ترجيحات اور امتيازات عطا ہوتے ہيں_ نيزكفر كو پست ترين رتبہ ديا گيا ہے كيونكہ اس معاہدے ميں يہ كہا گيا ہے كہ كافر كے مقابلے ميں كوئي بھى مؤمن كسى مؤمن كو قتل نہيں كرے گا اور نہ ہى مؤمن كے خلاف كسى كافر كى مدد اور حمايت كرے گا_
17_ يہ شق كفر اور ايمان كے لشكر كے درميان امتيازات كى واضح جنگ اور اس حالت جنگ كى بنياد ڈالنے كى جانب ايك قدم ہے_
18_ ملاحظہ ہو كہ يہ قرار داد يہ بيان كر رہى ہے كہ جو اس معاہدے كے مندرجات كا اقرار كرتا ہے اسے كسى بدعتى كى مدد ، حمايت اور پناہ كا كوئي حق نہيں پہنچتا_ اور يہ شق امن عامہ كو پھيلانے ، لوگوں كو ايك طرح سے مطمئن اور آسودہ خاطر ركھنے نيز اوس اور خزرج پر منڈلاتے ہوئے خوف كے بادلوں كو كم كرنے كى طاقت ركھتى ہے_ اسى طرح اس شق ميں مسلمانوں كے ساتھ ايك ہى علاقے ميں بسنے والے يہوديوں اور مشركوں كو ڈھكى چھپى دھمكى بھى پائي جاتى ہے_
19_ اسى طرح دشمنوں كے سامنے مسلمانوں كا يہ دعوى ہے كہ '' وہ ايك دوسرے كى مدد كرنے والى ايك متحد اور منسجم طاقت ہيں'' _ اور دوسروں كے دلوں ميں اپنى ہيبت اور رعب و دبدبہ بٹھانے كے لئے نيز قبائلى يا ديگر قسم كے جذبات سے كھيل كر ان كے ذريعے مسلمانوں كى صفوں ميں نفوذ كرنے والوں كى سوچ اور طمع كو دور كرنے اور مٹانے كے لئے اس دعوے كا بہت زيادہ اثر اور كردار ہے_
20_ آخر ميں يہ نكتہ بھى ملاحظہ ہو كہ يہ معاہدہ مشركوں كے لئے كسى اضافى حق كا قائل نہيں ہوا بلكہ اس كے برعكس ان پر كئي پابندياں عائد كرديں_ پس اس معاہدے كى روسے كسى مشرك كو قريش كے كسى شخص يا مال كو پناہ اور امان دينے بلكہ ان كى خاطر مومنوں اور قريشيوں كے درميان حائل ہونے كا بھى كوئي حق نہيں ہے_
127
يہى وہ چند نكات تھے جنہيں ہم عجلت ميں سرسرى طور پر ذكر كرنا چاہتے تھے _ اميد ہے كہ كسى فرصت ميں بہت سے ديگر نكات كا بھى مطالعہ كريں گے_
5_ يہوديوں سے صلح :
بنى قريظہ ، نضير اور قينقاع كے يہودى ( نبى اكرم (ص) كى خدمت ميں ) آئے اور انہوں نے رسول اللہ (ص) سے صلح كى خواہش كى تو آنحضرت (ص) نے ان كے لئے تحرير لكھ دى كہ (يہ صلح) اس شرط پر ہوگى كہ وہ آپ (ص) كے خلاف كسى شخص كى مدد نہيں كريں گے _ نيز زبان ، ہاتھ، اسلحہ يا سوارى كے ساتھ يعنى كسى بھى ذريعے سے اور خفيہ يا علانيہ اور رات يا دن ميں يعنى كسى بھى طريقے سے اور كسى بھى وقت آپ (ص) كے كسى بھى صحابى كے لئے كسى بھى قسم كى كوئي مزاحمت ايجاد نہيں كريں گے _ اور اگر انہوں نے ان ميں سے كوئي كام انجام ديا تو ان كا خون بہانے، ان كے بچوں اور عورتوں كو قيدى بنانے اورا ن كے اموال ضبط كرنے كا اختيار رسول(ص) اللہ كو ہوگا _اور ہر قبيلہ كے لئے جدا گانہ تحرير لكھ دى (1)_ ليكن يہودى ، اس معاہدے كو توڑ كر دوبارہ اپنى مكر و فريب والى عادت پر پلٹ گئے_
---------------------------------------------------------
1) اعلام الورى ص69،البحارج/19س ص 110/111 عنہ، السيرة النبوية لدحلان ج/1 ص 175_
|