445
چوتھا عنوان
خمس كا شرعى حكم اورسياست
محترم قارئين سے ہم نے وعدہ كيا تھا كہ عہد نبوي(ص) ميں لاگو ہونے والے خمس كے حكم كى مختصر وضاحت كريں گے _ اور چونكہ علّامہ على احمدى نے اس موضوع پر نہايت مفيد گفتگو كى ہے اس لئے ہم بھى كچھ اضافات كے ساتھ حتى الامكان انہى كى باتوں سے استفادہ كريں گے _
ارشاد خداوندى ہے :
( و اعلموا انّما غنمتم من شي فان للہ خمسہ و للرسول و لذى القربى و اليتامى و المساكين و ابن السبيل )
''او رجان لو كہ تمہيں جس چيز سے غنيمت ( نفع) حاصل ہو تو اس ميں سے پانچواں حصہ خدا ، رسول (ص) ، رسول (ص) كے قريبيوں (ذوالقربي) ، يتيموں ، مسكينوںاور ( بے پناہ ) مسافروں كا ہے''(1)
غنيمت كا معني
بعض مسلمان فرقوں كے علماء كا نظريہ ہے كہ '' غنيمت وہ مال ہے جو ميدان جنگ ميں كفار سے حاصل
---------------------------------------------------------
1)انفال /41_
446
ہو''_ جبكہ شيعوں كا اپنے ائمہ كى پيروى ميں ( لغويوں كى تشريح كے مطابق) يہ نظريہ ہے كہ '' غنيمت ہر وہ مال ہے جو كسى بدلے اور معاوضہ كے بغير ( يعنى مفت ) حاصل ہو '' _ لغوى كہتے ہيں : '' غُنم : مشقت كے بغير كسى چيز كو پانا ، مفت حاصل كرنا '' ، '' اغتنام : فرصت كو ( يا كسى چيز كو)غنيمت سمجھنا '' اور '' غنم الشيي غنما : كسى چيز كا بلا مشقت حصول اور بدلے كے بغير ہاتھ لگنا '' _
راغب كہتا ہے : '' غنم كا اصل مطلب كسى چيز كو اچانك پانا اور اسے حاصل كرنا ہے ليكن پھر ہر اس چيز كو ''غنم '' كہا جانے لگا جسے غلبہ پاكر حاصل كياجائے '' (1) يہ تو ہوئي لغويوں كى بات _
پھر جب ہم احاديث اور خطبوں ميں كلمہ '' غنم '' كے استعمال كو ديكھتے ہيں تووہاں بھى ہميں يہ معلوم ہوتا ہے كہ مذكورہ لفظ كا استعمال ہر چيز كے ہمہ قسم حصول پر ہوتا ہے يعنى ہر قسم كے نفع پر اس كا اطلاق ہوتا ہے _ ہمارے اس مدعا پر دليل كے لئے حضرت على (ع) كے يہ فرامين بھى كافى ہيں :
( من اخذ بہا لحق و غنم )(2)
'' جو دين كى شاخوں كو پكڑ لے گا وہ اس كى حقيقت تك پہنچ جائے گا اور فائدہ مند ر ہے گا ''
( ويرى الغنم مغرماً و الغرم مغنماً )(3)
'' وہ نفع كو نقصان سمجھتا ہے اور گھاٹے كو فائدہ ''
(و اغتنم من استقرضك )(4)
'' ا ور تم اس شخص كو غنيمت سمجھو جو تم سے كوئي چيز ادھا رمانگے ''
( الطاعة غنيمة الاكياس )(5)
'' اطاعت عقلمندوں كے لئے فائدہ مند اور غنيمت ہے ''
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: لسان العرب ، اقرب الموارد ، مفردات راغب ، قاموس النہايہ ابن اثير ، معجم مقايس اللغہ ، تفسير رازى ، مصاحبہ اللغات و لغت كى ديگر كتب _
2)نہج البلاغہ خطبہ 118 ( بعض ميں 120 ہے ) _
3)نہج البلاغہ كلمات قصار حكمت 150_
4) نہج البلاغہ خط نمبر 31_
5)نہج البلاغہ كلمات قصار حكمت نمبر 331_
447
اس كے علاوہ حديث ميں بھى ہے كہ :
( الرہن لمن رہنہ لہ غنمہ و عليہ غرمہ )(1)
'' رہن كا مال گروى ركھنے والے شخص كى ملكيت ہے اس كا نفع بھى اسى كا ہوگا اور نقصان بھى ''
( الصوم فى الشتاء الغنيمة الباردة )(2)
'' سرديوں كا روزہ بلا مشقت ( مفت ) كى كمائي ہے ''
اسى طرح ارشاد خداوندى ہے :
( عنداللہ مغانم كثيرہ ) (3)
'' خدا كے پاس تو بہت سارے خزانے ( اور فائدے ) ہيں ''
اسى طرح جب آنحضرت (ص) كو كوئي زكات دى جاتى تو آپ(ص) يہ دعا فرماتے:
( اللّہم اجعلہا مغنماً ولا تجعلہا مغرماً ) (4)
'' خدايا اسے فائدہ مند ( اور با بركت ) بنا گھاٹا ( اور تاوان ) مت بنا ''
نيز فرمايا:
(غنمية مجالس الذكر الجنة ) (5)
'' وعظ و نصيحت كى محفلوں كا فائدہ جنت ہے ''
نيز روزے كى تعريف ميں فرمايا :
(ہو غنم المؤمن) (6)
'' يہ مومن كے لئے غنيمت اور مفت كى كمائي ہے ''
---------------------------------------------------------
1)النہاية ابن اثير مادہ '' غنم''_
2)النہاية ابن اثير مادہ ' ' غنم '' _
3)نساء /94_
4)سنن ابن ماجہ (كتاب الزكات ) حديث نمبر 1797_
5)مسند احمد ج 2 ص 177_
6) ملاحظہ ہو : مقدمہ مرآة العقول ج 1 ص 84و ص 85_
448
اس كے علاوہ بھى كثير احاديث اور روايات ہيں _
پس اس بنا پر لغت ميں '' غنم '' كا معنى ہے ''ہر وہ چيز جو كسى بھى طرح سے حاصل ہو '' _ ليكن بعض لوگوں كى طرف سے '' بلا مشقت '' كا اضافہ اس كے گذشتہ استعمال كے برخلاف ہے _ اور اس سے مجازى معنى مراد لينے كا مطلب يہ ہوگا كہ اكثر مقامات پر اس لفظ كا مجازى معنى ميں استعمال ہونے كا عقيدہ ركھا جائے _ جبكہ قرآن مجيد ميں ہى خود آيت خمس كا اطلاق ہر اس مال پر ہوتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو _ اور ان ميں وہ مال غنيمت بھى ہے جو جنگ ميں بڑى مشقت كے بعد حاصل ہوتا ہے _ اور بعض شخصيات (1) كا يہ كہنا بھى كہ '' اس لفظ كا اصل معنى پہلے ہر قسم كا نفع اور فائدہ تھا ليكن بعد ميں صرف مال غنيمت كے ساتھ خاص ہوگيا '' صحيح نہيں ہے كيونكہ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ حديث شريف ميں يہ الفاظ صرف ان معنوں ميں ہى استعمال نہيں ہوئے بلكہ اصل معنوں ميں اس سے زيادہ استعمال ہوئے ہيں _ پھر اگر يہ شك بھى پيدا ہوجائے كہ يہ لفظ اپنے اصلى معنى ميں استعمال ہوا ہے يا نہيں تو اس صورت ميں اس لفظ كا اصلى لغوى معنى مراد ليا جائے گا _ پس آيت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ ہر اس چيز پر خمس واجب ہے جو انسان كو حاصل ہو چاہے وہ كافروں سے جنگ كے ميدان سے بھى نہ ہو _ اور اس چيز كا اعتراف قرطبى نے بھى كرتے ہوئے كہا ہے : '' لغت كے لحاظ سے تو آيت ميں منافع كو جنگ كے مال غنيمت سے مخصوص نہيں كيا جاسكتا '' ليكن اس بارے ميں وہ كہتا ہے : '' ليكن علماء نے اس تخصيص پر اتفاق كرلياہے '' ( 2)اور اس كى اس بات كا مطلب يہ ہے كہ علمائے اہل سنت نے آيت كے ظاہرى مفہوم اورمتبا در معنى كے خلاف اتفاق كرليا ہے _
آنحضرت (ص) كے خطوط ميں خمس كا تذكرہ
اسى طرح آنحضرت (ص) كے خطوط بھى اس بات كى تاكيد اور تائيد كرتے ہيں كہ خمس جس طرح جنگ كے مال غنيمت پر واجب ہے اسى طرح جنگ كے علاوہ ديگر منافع ميں بھى واجب ہے _ اور غنيمت سے اس كا
---------------------------------------------------------
1)اس سے مراد علّامہ بزرگوار جناب سيد مرتضى عسكر ى صاحب ہيں جنہوں نے يہ بات مرآة العقول كے مقدمہ ميں لكھى ہے _
2) تفسير قرطبى ج 8 ص 1 _
449
عام معنى مراد ہے (1) پس مندرجہ ذيل باتيں ملاحظہ ہوں _
1_ قبيلہ بنى عبدالقيس نے آنحضرت (ص) سے كہا ، '' ہم پورے سال ميں صرف حرام مہينوں ميں ہى آپ(ص) كے پاس آسكتے ہيں كيونكہ ہمارے رستے ميں قبيلہ مضر كے كافروں كى ايك شاخ پڑتى ہے _ اس لئے آپ(ص) ہميں ايسے قطعى احكام بيان فرماديں جنہيں ہم واپس جا كر قبيلہ والوں كو بھى بتائيں اور جن پر عملدار آمد سے ہم جنت بھى جاسكيں '' اور انہوں نے آپ(ص) سے كھانے پينے كے مسائل بھى پوچھے _ اس پر آنحضرت(ص) نے انہيں چار چيزوں كا حكم ديا اور چار چيزوں سے روكا _ آپ(ص) نے انہيں خدائے واحد پر ايمان لانے كا حكم ديا _ پھر پوچھا : '' جانتے ہو خدائے واحد پر ايمان لانے كا كيا مطلب ہے ؟ '' انہوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسول(ص) بہتر جانتے ہيں '' _ پھر آپ(ص) نے فرمايا : '' اس كا مطلب يہ گواہى دينا ہے كہ خدا كے سوا كوئي معبود نہيں ، ( حضرت ) محمد (ص) اللہ كے رسول (ص) ہيں ، نماز قائم كرنا ہے ، زكات ادا كرنا ہے ، ماہ رمضان كے روزے ركھنا ہے اور ہر بچت اور نفع سے خمس ادا كرنا ہے ...'' (2) _
يہاں يہ بات واضح ہے كہ بنى عبدالقيس كا قبيلہ بہت كمزور قبيلہ تھا جو صرف حرام مہينوں ميں ( جن ميں جنگ حرام تھى اور كسى كو كسى سے كوئي سر و كار نہيں ہوتا تھا ) ہى اپنے گھروں سے باہر نكل سكتے تھے اور ان ميں لڑنے جھگڑنے كى كوئي سكت ہى نہيں تھى ( ليكن آپ(ص) نے پھر بھى انہيں خمس ادا كرنے كا حكم ديا) نيز ہمارے مدعا كى تائيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ جنگ كے مال غنيمت كا اختيار قائد اور سردار لشكر كے پاس ہوتا ہے اور وہى اس كا ذمہ دار ہوتا ہے ، وہ اس سے خمس نكال كر باقى واپس كرديتا ہے جسے سپاہيوں ميں آپس ميں بانٹ ديا جاتا ہے اور اس ميں قائد كو خود افراد سے كوئي غرض نہيں ہوتى جبكہ آپ(ص) كے اوامر سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ(ص) نے انہيں ايسے احكام كے بجالانے كا حكم ديا جن كا تعلق صرف افراد كے ساتھ تھا يعنى وہ انفرادى احكام تھے اور وہ ہر فرد كا فريضہ تھے جن كو اسے كيفيت يا كميت ميں اضافے كے ساتھے بجالاتے رہنا چاہئے
---------------------------------------------------------
1)مولانا محمد حسين نجفى صاحب كے لئے خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے _
2)بخارى طبع مشكول ج 1 ص 22 و ص 32 و ص 139 ، ج 2 ص 131 و ج 5 ص 213، ج 9 ص 112 ، صحيح مسلم ج 1 ص 36، سنن نسائي ج 2 ص 333 و مسند احمد ج 1 ص 228 و ص 361، ج 3 ص 318 و ج 5ص 36 ، الاموال ابو عبيد ص 20 ، ترمذى باب الايمان ، سنن ابو داؤد ج 3 ص 330 و،ج 4 ص 219 ، فتح البارى ج 1 ص 120 و كنز العمال ج 1 ص 20 و ص 19 حديث نمبر 4_
450
تھا جس طرح ايمان ، نماز اور زكات ہے _ اسى طرح خمس بھى زكات و غيرہ كى طرح ہے اور يہ ان سے كوئي مختلف نہيں ہے _
2_ آنحضرت (ص) نے عمرو بن حزم كو يمن بھيجتے ہوئے اسے ايك لمبا دستور نامہ بھى ساتھ لكھ كرديا تھا جس ميں آيا ہے كہ آپ(ص) نے اسے اضافى اور بچت كے مال سے خدا كا حصہ خمس وصول كرنے كا حكم ديا تھا (1) اور اس جملے كا معاملہ بھى گذشتہ جملے كى طرح ہے _
3_ آنحضرت (ص) نے يمينوں كے قبيلہ بنى عبد كلال كو شكريے كا ايك خط لكھا جس ميں آپ(ص) نے عمروبن حزم كے ذريعہ بيان ہونے والے آپ(ص) كے گذشتہ احكام كى تعميل كرنے پر خود عمروبن حزم اور قبيلہ بنى عبدكلال كا شكريہ ادا كرتے ہوئے فرمايا : '' تمہارا نمائندہ ملا اور ميں تصديق كرتا ہوں كہ تم نے اپنے اضافى مال سے خدا كا خمس ادا كرديا ہے '' (2)_
يہاں يہ بھى وضاحت كرديں كہ ہم تاريخ ميں بعد از اسلام اس قبيلے كى كسى سے كسى جنگ كا مشاہدہ نہيں كرتے كہ انہوں نے اس جنگ سے مال غنيمت لوٹا ہو اور اسے عمروبن حزم كے ہمراہ بھيجا ہو _
4_ آنحضرت(ص) نے قبيلہ قضاعہ كى شاخ قبيلہ سعد ہذيم اور جذام كو ايك خط لكھا جس ميں آپ(ص) نے انہيں حكم ديا كہ وہ خمس اور صدقات كو آپ(ص) كے دو نمائندے ابّى اور عنبسہ كے يا جس كو آپ(ص) بھيجيں، اس كے حوالے كريں (3) حالانكہ يہ قبيلے تازہ اسلام لائے تھے اور ان كى كسى سے جنگ بھى نہيں ہوئي تھى كہ اس سے مراد مال غنيمت كا خمس ليا جاتا_
---------------------------------------------------------
1)تاريخ ابن خلدون ج 2 ، تنوير الحوالك ج 1 ص 157 ، البدايہ و النہايہ ج 5 ص 76 ، سيرہ ابن ہشام ج 4 ص 242 ، كنز العمال ج 3 ص 186 ، الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 2 ص 517، الخراج ابو يوسف ص 77، مسند احمد بن حنبل ج 2 ص 14 و ص 15 ، سنن ابن ماجہ ج 1 ص 573ص 575و ص 577 سنن دارمى ج 1 ص 281 و ص 385 و ج 2 1ص16تا ص 195 ، الاصابہ ج2 ص 532، سنن ابو داؤد ج 2 ص 98وص 99 ، الدر المنثور ج 2 ص 253 ، التراتيب الاداريہ ج 1 ص 248 و ص 249 و سنن ترمذى ج 3 ص 17 ، نيز از رسالات نبويہ 204 ، طبرى ج 2 ص 388 ، فتوح البلدان بلاذرى ص 80 ، اعلام السائلين ص 45 ، مجموعة الوثائق السياسية ص 175 ، فريدون ج 1ص 34 ، اھدلى ص 68 و الامتاع مقريزى ص 139_
2)الاموال ابوعبيد ص 21 ، سنن بيہقى ج 4 ص 89 ، كنز العمال ج 3 ص 186 و ص 252و ص 253 از طبرانى و غيرہ ، مستدرك حاكم ج 1 ص 395 ، الدر المنثور ج 1ص 343، مجمع الزوائد ج 3 نيز ازتہذيب ابن عساكر ج 6 ص 273 و ص 274 ، جمہرة رسائل العرب ج 1 ص 89 ، مجموعة الوثائق السياسيہ ص 185 از اھدلى ص 67 و 68 از ابن حبان و المبعث ص 141 _
3)طبقات ابن سعد ج 1 حصہ 2 ص 23 و ص 24 ، مجموعة الوثائق السياسيہ ص 224 و مقدمہ مرآہ العقول ج 1 ص 102و ص 103_
451
5_ اسى طرح مختلف قبيلوں اور ان كے سرداروں كو بھيجے گئے سولہ سے بھى زيادہ ديگر خطوط ميں آنحضرت(ص) نے ان پر خمس واجب قرار ديا تھا _ اور وہ قبائل اور شخصيات درج ذيل ہيں : قبيلہ بكائ، بنى زہير ، حدس، لخم ، بنى جديس،لاسبذيين ، بنى معاويہ ، بنى حرقہ، بنى قيل ، بنى قيس ، بنى جرمز، اجنادہ اور اس كا قوم و قبيلہ ، قيس اور اس كا قبيلہ ، مالك بن احمر، بنى ثعلبہ كے بزرگ صيفى بن عامر ، فجيع اور اس كے ساتھى ، قبيلہ بنى عامر كے سردار نہشل بن مالك اور جہينہ بن زيد ، نيز يمنيوں ، بادشاہان حمير اور بادشاہان عمان كو خطوط ميں بھى اس بات كى تاكيد كى تھى ان خطوط اور دستاويزات كو مندرجہ ذيل منابع ميں مشاہدہ كيا جاسكتا ہے (1)
ان خطوط پر ايك نظر
يہاں يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان خطوط ميں ذكر ہونے والے الفاظ '' مغنم ،غنائم اور مغانم '' سے مراد صرف جنگ سے حاصل ہونے والا مال غنيمت ہے _ ليكن يہ بات صحيح نہيں ہوگى ، كيونكہ :
1_ اس موقع پر جنگوں كا اعلان ، ان كى قيادت اور ان كا نظم و انتظام خود رسول (ص) خدا كے يا آپ(ص) كى طرف سے قيادت كے لئے منصوب كسى شخص كے ذمہ ہوتا تھا _ پھر آپ(ص) كے بعد آنے والے خلفاء يا ان كى طرف سے منصوب افراد كى يہ ذمہ دارى ہوتى تھى _ اور كسى قبيلے كو بھى اپنى طرف سے جنگ چھيڑنے يا جنگ كى ٹھاننے كا كوئي اختيار اور حق نہيں ہوتا تھا _ اور تاريخ ميں بھى ہميں كسى ايسى جنگ كا تذكرہ نہيں ملتا جس ميں
---------------------------------------------------------
1)اسعد الغابہ ج 4 ص 175 و ص 271 و ص 328 و ج 5 ص 40 و ص 389 و ج 1 ص 300 و الاصابہ ج 3 ص 338 و ص 199 و ص 573 ، ج 1 ص 53و ص 247 و ص 278 و ج 2 ص 197 ، طبقات ابن سعد ج 1 ص 274 ، ص 279 ، ص 66 ، ص 269 ص 271، ص 268 ، ص 270 ، ص 284، ج 7 حصہ 1 ص 26 و ج 5 ص 385، رسالات نبويہ ص 237 ، ص 102، ص 103، ص 131، ص 253، ص 138، ص 188 ، ص 134 ، مجموعہ الوثائق السياسيہ ص 121 ، ص 264 و ص 273از اعلام السائلين ، ص 98، ص 99 و ص 252، ص 250، ص 216، ص 196، ص 138، ص 232، ص 245، ص 180 ، كنز العمال ج 2 ص 271ج 5 ص 320، ج 7 ص 64از رويانى ، ابن عساكر ، ابوداؤد ، كتاب الخراج و طبقات الشعراء جحمى ص 38، سنن بيہقى ج 6 ص 303 ، ج 7 ، ص 58 و ج 9 ص 13، مسند احمد ج 4 ص 77، ص 78 و ص 363 ، سنن نسائي ج 7 ص 134، الاموال ابوعبيد ص 12، ص 19، ص 20 ، ص 30 ، الاستيعاب تعارف عمر بن تولب و ج 3 ص 381،جمہرة رسائل العرب ج 1 ص 55 و ص 68از شرح المواہب زرقانى ج 3 ص 382 ، صبح الاعشى ج 13 ص 329 نيز مجموعة الوثائق السياسيہ از اعلام السائلين ، نصب الرايہ ، المغازى ابن اسحاق ، المصنف ابن ابى شيبہ ، معجم الصحابہ المنتقى ، ميزان الاعتدال ، لسان الميزان ، تاريخ يعقوبى ، صبح الاعشى و الاموال ابن زنجويہ ، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 64، البدايہ و النہايہ ج 5 ص 46 و ص 75و ج 2 ص 351از ابونعيم ، تاريخ طبرى ج 2 ص 384، فتوح البدان بلاذرى ص 82 ، سيرہ حلبيہ ج 3 ص 258 ، سيرہ ابن ہشام ج 4 ص 248 و ص 260 ، سيرہ زينى دحلان ج 3 ص 30 ، المصنف ج 4 ص 300 ، طبقات الشعراء ابن سلام ص 38 و مجمع الزوائد ج 8 ص 244_
452
انہوں نے مستقل طور پر كوئي جنگ كى ہو _ اور اگر ايسا ہوتا بھى تو اس صورت ميں مناسب يہ تھا كہ آپ(ص) ان كے قائدين اور جرنيلوں كو خط لكھتے كيونكہ مال غنيمت كا خمس نكال كر آپ(ص) كو بھيجنے اور باقى كو جنگجوؤں ميں تقسيم كرنے كى ذمہ دارى انہى پر عائد ہوتى تھى _
2_ يہ مذكورہ قبيلے حجاز، شام ، بحرين اور عمان ميں بستے تھے اور اكثر قبيلے اتنے چھوٹے اور كمزور تھے كہ ان ميں جنگ كرنے كى طاقت ہى نہيں تھى كہ آپ(ص) ان سے جنگ كے مال غنيمت كا مطالبہ كرتے _
3_ اگر ان الفاظ سے مراد صرف جنگ كا مال غنيمت ہوتا تو اس كا مطلب يہ ہوتا كہ ہر كسى كو ہر جگہ اور ہر وقت دشمن پر چڑھائي كرنے كى كھلى چھٹى دے دى جاتى جس سے انار كى پھيل جاتى اور اسلامى حكومت كے لئے بہت زيادہ اور مہلك ، خطرات كا باعث بنتى اور كسى عاقل ، سمجھدار اور با تدبير شخصيت سے كوئي ايسا حكم جارى نہيں ہوسكتا _ نيز ہم نے تاريخ ميں بھى كوئي ايسا حكم اور اس حكم پر عمل در آمد سے پھيلنے والى انار كى كى كوئي مثال نہيں ديكھى _
4_پہلے بھى بتاچكے ہيں كہ ان خطوط ميں خدا اور رسول(ص) پر ايمان اور خمس اور زكات كى ادائيگى جيسے كچھ انفرادى احكام كا بيان تھا _ جو ہميں اس بات كا يقين دلاتا ہے كہ ماہيت كے لحاظ سے خمس بھى ان احكام سے كوئي مختلف نہيں ہے _ اور يہ كوئي نادر حكم نہيں تھا كہ ان كى عملى زندگى سے غير متعلق ہوتا اور كئي دہائيوں بلكہ صديوں تك انہيں اس پر عمل كرنے كا موقع نہ ملتا بلكہ يہ تو ان كى روزمرہ زندگى كا ايك عمومى حكم تھا _
وافر مال پر خمس واجب ہے
آنحضرت نے وائل بن حجر كو بھى ايك خط لكھا جس ميں آپ(ص) نے فرمايا : '' سُيُوب پر بھى خمس واجب ہے''(1)
---------------------------------------------------------
1) اسد الغابہ ج 3 ص 38، الاصابہ ج 2 ص 208 و ج 3 ص 413 ، بحارا لانوار ج 6 9ص 83و ص 190 ، الاستيعاب ( برحاشيہ الاصابہ ) ج 3 ص 643 ، جامع احاديث الشيعہ ج 8 ص 73 ، العقد الفريد ج 1 باب الوفود ، البيان و التبيين ، وسائل الشيعہ كتاب الزكاة باب تقدير نصاب الغنم ، معانى الاخبار ص 275، شرح ا لشفاء قارى ج 1 ص 18، تاريخ ابن خلدون ج 2 ، سيرہ نبويہ دحلان ( بر حاشيہ سيرہ حلبيہ ج 3 ص 49، الشفاء قارى ج1 ص 14 نيز از المعجم الصغير ص 243 ، رسالات نبويہ ص 67 و ص 297از المواہب اللدنيہ ، زرقانى نيز نہايہ ابن اثير، لسان العرب ، تاج العروس ، نہاية الارب و غريب الحديث ابوعبيد ميں ذيل لفظ ''سيب '' اور''قيل''و طبقات ابن سعد ج 1 ص 287_
453
زيلعى كہتا ہے : '' سَيب يعنى عطاء كسى اور چيز كا يونہى مل جانا اور سُيُوب يعنى زمين ميں چھپا ہوا خزانہ '' (1)
جبكہ لغت كى اكثر كتابوں ميں '' سُيُوب'' كى وضاحت بھى '' عطا '' يعنى و افر مال سے كى گئي ہے _ اس بناپر ہم يہ پوچھنے كا حق ركھتے ہيں كہ كچھ لوگوں نے سُيُوب كو صرف چھپے ہوئے خزانے سے كيوں مخصوص كيا ہے جبكہ چھپے ہوئے خزانے تو سُيُوب كا ايك حصہ اور فرد ہيں اور سيوب كا لفظ عام اور مطلق ہے ( جس كا اطلاق ہر وافر مال پر ہوتا ہے ) كيا يہ خمس كے حكم كو ہر اضافى مال سے مستثنى كرنے كے لئے لغت ميں ان كا اجتہاد اور جھوٹى اور باطل تاويل نہيں ہے؟
بلكہ انہوں نے تو اسے زمانہ جاہليت ميں مدفون خزانوں سے مخصوص كرديا ہے _
اور ہمارى سمجھ ميں تو اس كى وجہ بالكل بھى نہيں آئي كيونكہ لفظ '' سيوب '' ان شرطوں كے ساتھ بالكل بھى مخصوص نہيں ہے كيونكہ ہر اضافى مال اور ہرچھپے ہوئے خزانے كو سيوب كہا جاتا ہے _ نيز يہ لفظ تو زمانہ جاہليت ميں بھى استعمال ہوا كرتا تھا اور يہ معقول ہى نہيں ہے كہ خود زمانہ جاہليت كے لوگ بھى سيوب كے متعلق يہ كہيں كہ اس سے مراد زمانہ جاہليت ميں مدفون خزانہ ہے
لگتا يہى ہے كہ اس بات سے ہميں انہوں نے يہ سمجھا نے كى كوشش كى ہے كہ اس طرح وہ مال ان كافروں سے لوٹا ہوا مال غنيمت بن جائے گا جن سے جنگ واجب ہے _ تا كہ يہ بات ان كے مذہب كے موافق ہوجائے _ جبكہ ہم كہتے ہيں كہ لغت كى كتابيں كہتى ہيں كہ سيب كا اصل معنى مہمل ، فاضل اور چھوڑى ہوئي چيز ہے اور '' سائبہ '' سے مراد ہر وہ جانور ہے جس كا كوئي مالك اور نگران نہ ہو اور زمانہ جاہليت ميں بھى جس اونٹنى كو آزاد اور بلا مالك اور نگران چھوڑ ديا جاتا اسے '' سائبہ'' كہا جاتا تھا _ اور حديث ميں بھى ہے كہ '' كل عتيق سائبة '' ( ہر پرانى چيز كسى كى چھوڑى ہوئي ہوتى ہے ) _ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ احاديث ميںبھى '' سيوب'' سے مراد ہر متروك اور چھوڑى ہوئي اور ايسى فاضل چيز ہے جس كى انسان كو روزمرہ ميں ضرورت نہ ہو اس لئے اس پر خمس واجب ہوجاتا ہے _
---------------------------------------------------------
1)تبيين الحقائق ج 1 ص 288_
454
مزيد دلائل
آنحضرت (ص) نے عرب كے بعض قبيلوں كو لكھا كہ زمين كى وادياں ، ميدان ، ٹيلے ، اوپر اور نيچے سب تمہارے لئے ہے تا كہ تم اس كے نباتات اور سبزيوں سے استفادہ كرو اور پانى پئو اور اس كا خمس بھى ادا كرو (1)اس كلام كا سياق و سباق ہميں واضح طور پر يہ بتاتا ہے كہ يہاں مراد جنگ كے مال غنيمت كا خمس نہيں ہے، كيونكہ جنگ كے مال غنيمت كا زمين كى واديوں ، ٹيلوں ، ميدانوں اور ان كے ظاہر اور باطن سے استفادہ كرنے اور اس كے- نباتات اور پانى سے استفادہ كرنے كا آپس ميں اور پھر ان كا اور ( ان كے نظريئےے مطابق)خمس كا آپس ميں كوئي تعلق ہى نہيں بنتا اور نہ ہى اس جملے كى كوئي تك بنتى ہے _ مگر اس صورت ميں كہ زمين سے حاصل ہونے والى ہر چيز پر خمس كے وجوب كا بھى قائل ہوا جائے _ اس بات كى تاكيد اور تائيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ آنحضرت(ص) نے خمس كے ذكر كے بعد بھيڑ بكريوں كى زكات كا تذكرہ بھى كيا ہے اور يہ بھى فرمايا ہے كہ اگر وہ كاشتكارى كريں گے تو ان سے بھيڑ بكريوں كى زكات معاف ہوگى _البتہ بظاہر يہ بات انہيں زراعت كى ترغيب دينے كے لئے كى گئي تھى _
معدنيات اور مدفون خزانوں پر بھى خمس ہے
اہل سنت كے نزديك بھى معدنيات اور مدفون خزانوں پر خمس كا حكم ثابت ہے (2)
---------------------------------------------------------
1) طبقات ابن سعد ج 4 حصہ 2 ص 167 نيز از مجموعة الوثائق السياسيہ ص 219 ، رسالات نبويہ ص 228 ، كنز العمال ج 7 ص 65و جمع الجوامع مسند عمروبن مرّہ اور اسے مرآة العقول ج 1 ميں النہايہ ابن اثير اور لسان العرب لفظ '' صرم '' سے نقل كيا گيا ہے _
2)الاموال ابوعبيد ج 33 ص 337، ص 473، ص 477، ص 476، ص 468، ص 467، نصب الرايہ ج 2 ص 382، ص 381 و ص 380، مسند احمد ج 2 ص 228 ، ص 239، ص 254، ص 274، ص 314، ص 186، ص 202، ص 284، ص 285، ص 319، ص 382 ، ص 386، ص 406، ص 411، ص 415، ص 454،ص 456،ص 467، ص 475، ص 482، ص 493، ص 495، ص 499، ص1 50و ص 507، ج 3 ص 354، ص 353،ص 336، ص 356، ص335، ص 128و ج 5 ص 326، كنز العمال ج 4 ص 227و ص 228، ج 19 ص 8و ص 9و ج 5ص 311 ، مستدرك حاكم ج 2 ص 56، مجمع الزوائد ج 3 ص 77 و ص 78و از طبرانى در الكبير و الاوسط و از احمدو بزار ، المصنف عبدالزراق ج 10 ص 128 و ص 66، ج 4 ص 117 ، ص 64ص 65، ص 116 و ص 300 و ج 6 ص 98 از خمس العنبر، مقدمہ مرآة العقول ج 1 ص 97 و ص 96،المغازى واقدى ص 682، سنن بيہقى ج 4 ص 157، ص 156و ص 155 و ج 8 ص 110 ، المعجم الصغير ج1 ص 120، ص 121و ص 153 ، الطحاوى ج 1 ص 180، سنن نسائي ج 5 ص 44و ص 45،بخارى طبع مشكول ج 2 ص 159 ، ص و 160 در باب'' فى اكاز الخمس'' نيز درباب ( ...بقيہ اگلے صفحہ پر ...)
455
اصطخرى كہتا ہے : '' حكام معدنيات كا خمس بھى ليا كرتے تھے '' (1) _
اور مالك اور مدينہ والوں كے علاوہ اہل سنت كے باقى مكاتب فكر نے زمين ميں چھپى ہوئي چيزوں ميں سے معدنيات پر خمس كو واجب قرار ديا ہے اور اسے مال غنيمت كى طرح جانا ہے (2)_
ليكن ابوعبيد كہتا ہے كہ يہ مدفون خزانے كے زيادہ مشابہ ہے (3) _
اسى طرح عمر بن عبدالعزيز نے عروہ كو خط لكھ كر اس سے خمس كے متعلق بزرگان كا نظريہ پوچھا تو عروہ نے جواب ميں لكھا كہ عنبر بھى مال غنيمت كى طرح ہے اس كا خمس لينا واجب ہے (4) _
شيبانى كہتا ہے كہ معدنيات اور مدفون خزانوں پر بھى خمس واجب ہے اوريہ بھى اضافى چيزوں ميں سے ہيں (5) _
نيز حضرت على عليہ السلام نے بھى يمن ميں مدفون خزانے كا خمس نكالاتھا _ البتہ اس بارے ميں بعد ميں گفتگو كريںگے_ اسى طرح جابر سے بھى مروى ہے كہ '' جو بھى اضافى مال حاصل ہو اس پر خمس واجب ہے'' _ نيز اسى طرح كى ايك اور روايت ابن جريح سے بھى مروى ہے(6)_
نيز روايتوں ميں يہ بھى آيا ہے كہ جو شخص بھى دشمن سے كوئي زمين لے اور اسے سونے يا چاندى و غيرہ كے بدلے ميں بيچے تو اس كا خمس بھى نكالنا ضرورى ہے (7) _
---------------------------------------------------------
'' من حفربئراً فى ملكہ '' نيز مطبوعہ 1309 ھ ج 4 ص 124 ، الہدايہ شرح البدايہ ج1، ص 108، خراج ابويوسف ص 26سنن ابن ماجہ ج 2 ص 839 و ص 803 ، سنن ابو داؤد ج 3 ص 181و ج 4 ص 19، شرح الموطا زرقانى ج 2 ص 321، كتاب الاصل شيبانى ج 2 ص 138، سنن دارمى ج 1 ص393 و ج 2 ص 196، نيل الاوطارج 4ص 210، موطا ج 1 ص 244 و ج 3 ص 71( مطبوعہ با تنوير الحوالك ) ، منحة المعبود ج 1ص 175، ترمذى ج 1 ص 219و ج 3 ص 138 ، صحيح مسلم ج 5 ص 127، ص 11و ص 225، العقد الغريد ، نہاية الارب، الاستيعاب ، تہذيب تاريخ دمشق ج 6 ص 207 ، تاريخ بغداد ج 5 ص 53 و ص 54، مصابيح السنہ طبع دار المعرفہ ج 2 ص 17 ، المسند حميدى ج 2 ص 462 و مسند ابويعلى ج 10 ص 437، ص 461و ص 459و ج 11ص 202نيز اس كے حاشيہ ميں ملاحظہ ہوں كثير منابع _
1)مسالك الممالك ص 158_
2) ملاحظہ ہو : الاموال ابوعبيد ص 472_
3)الاموال ص 474_
4)المصنف عبدالرزاق ج 4 ص 64و ص 65_
5)كتاب الاصل شيبانى ج 2 ص 138_
6) المصنف عبدالرزاق ج 4 ص 116_
7)المصنف عبدالرزاق ج 5 ص 179و ص 180و ص 181و ج 9 ص 67 و تحف العقول ص 260_
456
بہرحال يہ باتيں تو ہر كسى كے سمجھ ميں آنے والى ہيں كہ گذشتہ تمام چيزوں كا شمار جنگ كے مال غنيمت سے نہيں ہوتا ليكن ان پر بھى خمس كا حكم لگايا گيا ہے تو پھر خمس والى آيت كو جنگ كے مال غنيمت سے مخصوص كرنے كا كيا معنى رہ جاتا ہے ؟ بہرحال اتنا ہى كافى ہے كيونكہ ہدايت كے متلاشيوں كے لئے اس ميں كافى قانع كنندہ دلائل موجود ہيں _
لطيفہ
يہاں مزے كى ايك يہ بات بھى ذكر كى جاتى ہے كہ حضرت ابوبكر نے بھى اپنے مال كا خمس نكالنے كى وصيت كرتے ہوئے كہا : '' ميں اس چيز كى سفارش كر رہا ہوں جسے خدا نے اپنے لئے پسند فرمايا ہے '' پھر اس آيت كى تلاوت كى :( و اعلموا انما غنمتم من شيي فان للہ خمسہ و للرسول ... )(1)
خمس لينے والے نمائندے
ايسا لگتا ہے كہ آنحضرت(ص) كے صدقات لينے والے نمائندوں كى طرح خمس لينے والے نمائندے بھى تھے كيونكہ آنحضرت(ص) نے عمرو بن حزم كو يمنى قبيلے بنى عبد كلال سے خمس لينے كا حكم دے كريمن بھيجا تھا اور اس كے خمس بھيجنے پر ان كا شكر يہ بھى ادا كياتھا _ اور حضرت على عليہ السلام كو خالدبن وليد سے مال غنيمت كا خمس وصول كرنے كے لئے بھيجا تھا (2)_
بلكہ ابن قيّم كہتا ہے كہ آنحضرت(ص) نے حضرت على بن ابى طالب عليہ السلام كو خمس لينے اور قضاوت كے لئے يمن بھيجا (3) _
---------------------------------------------------------
1)المصنف عبدلرزاق ج 9 ص 66_
2) نصب الرايہ ج 2 ص 382، المصنف عبدالرزاق ج 4 ص116 ، مجمع الزوائد ج 3 ص 78 نيز ملاحظہ ہو: بحارالانوار ج 21 ص 360 از اعلام الورى _
3)-البدايہ و النہايہ _
457
اور يہ بات بھى معلوم ہے كہ يمنيوں نے بخوشى اسلام قبول كيا تھا اور مسلمانوں اور يمنيوں كے در ميان كسى قسم كى كوئي لڑائي نہيں ہوئي تھى _ اور حضرت على (ص) نے يمن ميں مدفون خزانے پر خمس نكالاتھا (1)
نيز محميہ بن جزء قبيلہ بنى زبيد كا ايك فرد تھا ، آنحضرت (ص) نے اسے خمس وصول كرنے كى ذمہ دارى سونپى تھي(2)_
اور حضرت على (ع) كو خمس كى وصولى كيلئے بھيجنے والى بات كى يہ تاويل بھى نادرست ہے كہ آنحضرت(ص) نے انہيں صدقات كى وصولى كے لئے بھيجا تھا _ كيونكہ آنحضرت (ص) كسى ہاشمى كو صدقات كى وصولى كا كام نہيں سونپتے تھے اور اس بارے ميں عبدالمطلب بن ربيعہ اور فضل بن عباس كا واقعہ بھى بہت مشہور ہے (3)
بلكہ آپ(ص) اپنے غلاموں كو بھى ايسا كام نہيں سونپتے تھے كيونكہ آپ(ص) نے ابو رافع كو بھى اس كام سے منع كرتے ہوئے اس سے فرمايا تھا : '' كسى قوم اور گروہ كا غلام بھى انہى كى طرح ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ حلال نہيں ہے '' (4)
كتاب اور سنت ميں خمس كے استعمال كے مقامات
قرآن مجيد ميں خمس كى آيت اس بات پر تصريح كرتى ہے كہ خمس خدا ، اس كے رسول (ص) ، رسول(ص) كے قريبيوں ، يتيموں، مسكينوں اور غريب مسافروں كے لئے ہے _ اور آنحضرت(ص) اپنى رحلت تك اپنے قريبيوں كو خمس كا حصہ ديا كرتے تھے (5)
---------------------------------------------------------
1)زاد المعاد ج 1 ص 32 نيز ملاحظہ ہو : سنن ابوداؤد ج 3 ص 127 باب كيف القضائ_
2) الاموال ابوعبيد ص 461_
3)مجمع الزوائد ج 3 ص 91 ، اسد الغابہ تعارف عبدالمطلب بن ربيعہ ، نوفل بن حارث و محميہ ، صحيح مسلم ج 3 ص 118 باب تحريم الزكاة على آل النبى (ص) ، سنن نسائي ج 1 ص 365، سنن ابو داؤد ، الاموال ابوعبيد ص 329، المغازى واقدى ص 696، ص 697، تفسير عياشى ج 2 ص 93_
4)سنن ابوداؤد كتاب الزكاة ج 2 ص 212، ترمذى كتاب الزكاة ج 3 ص 159، نسائي كتاب الزكاة ج 1ص 366 ، مجمع الزوائد ج 3 ص 90و ص 91، كنز العمال ج 6ص 252تا ص 256، امالى شيخ طوسى ج 2 ص 17، بحار الانوار ج 96ص 57 ، سنن بيہقى ج 7 ص 32_
5)ملاحظہ ہو : تفسير طبرى ج 15 ص 504و ص 506نيز اس كے حاشيہ پر تفسير نيشابورى ج 15، احكام القرآن جصاص ج 3 ص 65و ص 61و الاموال ابوعبيد ص 22و ص 447، ص 453و ص 454_
458
رہے يتيم اور مسكين ، تو اس بارے ميں حضرت امام زين العابدين (ع) سے جب مذكورہ آيت ميں (واليتامى و المساكين) كے بارے ميں پوچھا گيا تو انہوں نے فرمايا : '' اس سے مراد ہمارے يتيم اور مسكين ہيں'' (1) _
اہل بيت (ص) كى روايات ميں خمس
ائمہ اہل بيت كى روايتوں كے مطابق اللہ ، رسول (ص) اور ذوى القربى كا حصہ امام(ص) كے لئے ہے جبكہ يتيموں ، مسكينوں اور ابن السبيل ( مسافروں) كا حصہ سادات بنى ہاشم كے لئے ہے (2) _
اور بنى ہاشم ميں بھى خاندان بنى عبدالمطلب كے لئے ہے (3)_
اور خمس ميں مرد اور عورت مشترك ہيں پس خمس كا آدھا حصہ ان تينوں قسم كے افراد ميں ان كے مستحق ہونے كى صورت ميں (4) ( ان كى رسول(ص) خدا كے ساتھ قرابت دارى اور غربت كى وجہ سے ) تقسيم كيا جائے گا _ اور جناب عبدالمطلب كے ساتھ ان كى مادرى نسبت كافى نہيں ليكن اگر صرف پدرى نسبت بھى ہو تب كفايت كرتى ہے_
اہل سنت كى روايتوں ميں خمس
كتب صحاح ميں ايك ايسى روايت مذكور ہے جو عہد نبوي(ص) ميں خمس كے استعمال كو بيان كرتى ہے _ جبير بن مطعم كہتا ہے كہ جنگ خيبر ( ا لبتہ ايك روايت ميں جنگ حنين آيا ہے ) كے موقع پر رسول(ص) خدا نے ذوى القربى كے حصہ ميں سے بنى ہاشم اور بنى مطلب كا حصہ نكالا جبكہ بنى نوفل اور بنى عبدشمس كا حصہ نہيں نكالا تو ميں
---------------------------------------------------------
1)تفسير نيشابورى بر حاشيہ تفسير طبرى و تفسير طبرى ج 15 ص 7_
2)ملاحظہ ہو : وسائل الشيعہ ج 9 ص 356، ص 358، ص 359، ص 361، ص 362_
3)وسائل الشيعہ ج 9 ص 358 ، ص 359 و مقدمہ مرآة العقول مرتضى عسكرى ج 1 ص 116و ص 117_
4)يعنى اگر سادات مستحق نہ ہوں تو خمس نہيں لے سكتے _ اور بڑى بڑى كوٹھيوں اور بنگلوں والے نيز نئي ماڈل كى گاڑيوں والے تو كسى صورت ميں مستحق نہيں ہيں _ اور اگر ثروت مند ہونے كے باوجود خمس ليتے ہيںتو دوسرے مستحقين كا حق غصب كرتے ہيں جو سراسر ناجائز ہے_
459
اور عثمان بن عفان آنحضرت(ص) كے پاس گئے اور آپ(ص) سے عرض كيا : '' يا رسول (ص) اللہ ہم بنى ہاشم كى فضيلت كے منكر نہيںہيں كيونكہ خدا نے ان كى مدد اور حمايت كى وجہ سے آپ(ص) كو يہ مقام اور مرتبہ ديا ہے _ ليكن بنى مطلب ميں ايسى كيا بات ہے كہ آپ(ص) نے انہيں حصہ عطا كيا ليكن ہميں چھوڑ ديا حالانكہ ہمارى رشتہ دارى تو يكساں ہے ؟'' تو رسول(ص) خدانے فرمايا :'' زمانہ جاہليت اور اسلام دونوں ميں ہم اوربنى مطلب ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوئے ( البتہ نسائي كى روايت ميں آپ(ص) كے يہ الفاظ آئے ہيں كہ انہوں نے ہمارا ساتھ نہيں چھوڑا) پس ہمارى اور ان كى بات ايك ہى ہے'' اور آپ(ص) نے اپنے دونوں كى انگلياں ايك دوسرے ميں پھنسائيں(1)
گذشتہ معروضات كے بعد يہاں ہم بعض علماء (2)كى فرمائشےات كے خلاصے كو كچھ كمى بيشى كے ساتھ نقل كرنا چاہتے ہيں اور وہ مندرجہ ذيل ہے:
عہد نبوي(ص) كے بعد خمس كا استعمال
آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خمس بہت سى تبديليوں كا شكار ہوا جس كا ذكر ذيل ميں آئے گا _
خليفہ اوّل كے دور ميںاگر ہم جناب ابوبكر كے اور اس دور كے حالات كا مطالعہ كريں تو ہميں معلوم ہوگا كہ اس وقت حكومت كى سارى توجہ اس نئي حكومت كے مخالف گروہوں اور ابوبكر كى بيعت نہ كرنے والوں كي
---------------------------------------------------------
1)صحيح بخارى باب غزوة خبير ج 3 ص 36مطبوعہ 1311 ، ج 4 ص 111 و ج 6 ص 174، سنن ابو داؤد ج 3 ص 145و ص 146، تفسير طبرى ج 15 ص 5، مسند احمد ج 4 ص 81، ص 85و ص 83، سنن نسائي ج 7ص 130و ص 131، سنن ابن ماجہ ص 961، المغازى واقدى ج 2 ص 696، الاموال ابوعبيد ص 461و ص 462، سنن بيہقى ج 6 ص 340تا ص 342، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 209، المحلى ج 7 ص 328، البدايہ و النہايہ ج 4 ص0 20 ، شرح نہج البلاغہ ج 15ص 284، مجمع الزوائد ج 5ص 341و نيل الاوطار ج 8 ص 228از برقانى و بخارى و غيرہ ، الاصابہ ج 1 ص 226و بداية المجتہد ج 1 ص 402، الخراج ابو يوسف ص 21و تشييد المطاعن ج 2 ص 818و ص 819 از زاد المعاد، الدر المنثور ج 3 ص 186از ابن ابى شيبہ ، البحرالرائق ج 5 ص 98و تبيين الحقائق ج 3 ص 257و نصب الرايہ ج 3 ص 425و ص 426 ، مصابيح السنہ ج2 ص 70، تفسير القرآن العظيم ج 2 ص312 ، فتح القدير ج 2 س 310، لباب التاويل ج 2 ص 185، مدارك التنزيل ( مطبوعہ بر حاشيہ خازن ) ج 2 ص 186و الكشاف ج 2 ص 221_نيز مذكورہ بات مندرجہ ذيل منابع سے بھى منقول ہے : الجامع لاحكام القرآن ج 7 ص 12، فتح البارى ج 7 ص 174 وج 6 ص 150 ، تفسير المنار ج 10 ص 7 ، ترتيب مسند الشافعى ج 2 ص 125و ص 126و ارشاد السارى ج 5 ص 202_
2) اس سے مراد علامہ بزرگوار جناب سيد مرتضى عسكرى صاحب ہيں_
460
سركوبى كے لئے لشكر كى فراہمى اور ترسيل پر تھى _ اس لئے اس وقت خمس اور خاص كر ذوالقربى كے حصہ كو اسلحہ اور سواريوں كے بندو بست ميں خرچ كيا _ اسى بناپر مؤلفين نے ذكر كيا ہے كہ آنحضرت(ص) كى وفات كے بعد صحابيوں ميں خمس كے متعلق اختلاف پيدا ہوگيا _ ايك گروہ نے كہا كہ رسول(ص) كا حصہ ان كى رحلت كے بعد خليفہ كے لئے ہے _ دوسرے گروہ نے كہا كہ ذوى القربى كا حصہ رسول(ص) كے قريبيوں كے لئے ہے ، جبكہ ايك اور گروہ نے كہا كہ ذوى القربى كا حصہ خليفہ كے قرابت داروں كے لئے ہے _ جس پر آخر ميں سب نے اس بات پر اتفاق كرليا كہ رسول(ص) اور ذوى القربى كے حصول كو لشكر كى تجہيز اور تيارى ميں خرچ كرديا جائے _
سنن نسائي اور الاموال ابوعبيد ميں آيا ہے كہ يہ صورتحال ابوبكر اور عمر دونوں كى خلافت كے دور ميں رہى _ البتہ ايك روايت ميں ہے كہ آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد ابوبكر نے قريبيوں كے حصے كو مسلمانوں ميں تقسيم كر كے اسے '' فى سبيل اللہ '' كا حصہ قرار ديا _ قريب قريب ايسى ہى ايك اور روايت ذكر ہوئي ہے جس ميں ابوبكر كے ساتھ عمر كا ذكر بھى ہے _ اور اس كے علاوہ بھى كئي روايات ہيں (1)_
ان تمام باتوں كى وضاحت جبير بن مطعم كى اس روايت سے ہوتى ہے كہ رسول(ص) خدا بنى ہاشم اور بنى مطلب كا حصہ تو خمس سے نكالتے تھے ليكن بنى عبد شمس اور بنى نوفل كا حصہ بالكل نہيں نكالتے تھے _ اور ابوبكر بھى جناب رسول (ص) خدا كى طرح خمس كو تقسيم كيا كرتا تھا ليكن جس طرح رسول(ص) خدا اپنے قريبيوں كو حصہ ديا كرے تھے ابوبكر آنحضرت(ص) كے قريبيوں كو وہ حصہ نہيں ديتا تھا ...(2) _
خليفہ ثانى كے دور ميں
خليفہ ثانى كے دور ميں فتوحات زيادہ ہوگئيں اور مال زيادہ ہوگيا تو خمس كو مسلمانوں ميں تقسيم كرديا گيا _
---------------------------------------------------------
1) ان تمام باتوں اور اس سے متعلق ديگر باتوں كے لئے ملاحظہ ہو : سنن نسائي ج 2 ص 179، كتاب الخراج ص 24و ص 25، الاموال ابوعبيد ص 463 ، جامع البيان طبرى ج 15 ص 6 ، احكام القرآن جصاص ج 3 ص 62 و ص 60، سنن بيہقى ج 6 ص 342و ص 343، سنن ابو داؤد بيان مواضع الخمس ، مسند احمد ج 4 ص 83 و مجمع الزوائد ج 5 ص 341_
2)مسند احمد ج 4 ص 83_
461
اور عمر نے بنى ہاشم كو كچھ حصہ دينا چاہا تو انہوں نے اپنے پورے حصے كا مطالبہ كيا اور كچھ حصہ لينے سے انكار كرديا _ تو اس نے بھى انہيں پورا حصہ دينے سے انكار كرتے ہوئے انہيں اپنے حصے سے ہى محروم كرديا _ يہ بات ابن عباس كى ايك روايت ميں بھى آئي ہے _ جب نجدہ حرورى نے ابن عباس سے پوچھا كہ ذوى القربى كا حصہ كس كا ہے تو اس نے جواب ديا : ''وہ ہم اہل بيت (ص) كا حصہ ہے ، عمر نے بھى اس حصہ سے ہمارے غير شادى شدہ افراد كى شادى كرانے ، ہمارے شادى شدہ افراد كى خدمت كرنے اور ہمارے قرضے چكانے كى پيشكش بھى كى ليكن ہم نے اس سے اپنے پورے حصہ كا مطالبہ كيا اور اسى پر اكتفا نہيں كيا تو اس نے بھى ہميں پورا حصہ دينے سے انكار كرديا اور ہميں اپنے حال پر چھوڑديا اس وجہ سے ہم نے بھى اسے اپنے حال پر چھوڑديا '' _ اس طرح كى ايك روايت حضرت على عليہ السلام سے بھى مروى ہے كہ عمر نے انہيں بھى كچھ حصہ دينے كى كوشش كى تھى اور يہ كہا تھا كہ اسے يہ معلوم نہيں ہے كہ اگر حصہ زيادہ ہوجائے تب بھى انہيں پورا حصہ ملے گا ليكن انہوں نے پورا حصہ لينے كے بغير كچھ بھى لينے سے انكار كرديا (1)
خليفہ سوم كے دور ميں
عثمان نے افريقہ كى پہلى فتوحات سے حاصل ہونے والے مال غنيمت كا خمس عبداللہ بن سعد بن ابى سرح كو ديا (2)حالانكہ يہ شخص مرتد تھا_اور دوسرى مرتبہ كى فتوحات كا خمس مروان بن حكم كو عطا كيا _ اس بارے ميں اسلم
---------------------------------------------------------
1)حديث ملاحظہ ہو در : الخرا ج ابو يوسف ص 21، ص 22، ص 23، ص 24 ، المغازى واقدى ص 697، الاموال ابوعبيد ص 465 ، ص 466، ص 467، سنن نسائي ج 2 ص 178، ص 177، ج 7 ص 129، ص 128 ، شرح معانى الآثار ج 3 ص 335و ص 220، مسند حميدى حديث نمبر 532، الجامع الصحيح ( السير) حديث نمبر 1556، احكام القرآن جصاص ج 3 ص 63، لسان الميزان ج 6ص 148، صحيح مسلم ج 5 ص 198باب ''النساء الغازيات ير ضخ لہن '' ، مسند احمد ج 10 ص 225و ج 1 ص 320،ص 308، ص248، ص 249، ص 224، مشكل الآثار ج 2 ص 136، ص 179و مسند شافعى ص 183، ص 187، حلية ابونعيم ج 3 ص 205و تفسير طبرى ج 10 ص 5 ، سنن ابوداؤد ج 3 ص 146كتاب الخراج ، سنن بيہقى ج 6ص 344، ص 345، ص 332،كنز العمال ج 2 ص305، المصنف ج 5 ص 228 نيز ملاحظہ ہو ص 238، المحاسن و المساوى ج 1 ص 264، وفاء الوفاء ص 995 ، الروض الانف ج 3 ص 80 ، مسند ابويعلى ج 4 ص 424و ج 5 ص 41 ، ص 42_
2) ملاحظہ ہو : تاريخ الاسلام ذہبى ج 2 ص 79، ص 80، تاريخ ابن اثير مطبوعہ يورپ ج 3 ص 71 و شرح نہج البلاغہ ج 1 ص 67_
462
بن اوس ساعدى نے ( جس نے عثمان كى بقيع ميں تدفين سے ممانعت كى تھى ) يہ شعر كہا :
و اعطيت مروان خمس العباد
ظلمالہم و حميت الحمى (1)
اور تم نے حق داروں سے ظلم كے ساتھ ان كا حق چھين كر رشتہ دارى كى بناپر مروان كوخمس ديا اور اچھى طرح لوٹ ماركى _
اور لوگوں نے اس بات پر دو وجوہات كى بناپر عثمان پر ناراضگى كا اظہار كيا _
1_ گذشتہ دونوں خليفوں نے اگر چہ مستحقوں سے ان كا حق چھين ليا تھا ليكن انہوں نے خمس كو رفاہ عامہ ميں خرچ كيا ليكن عثمان نے اسے اپنے گمراہ اور ذليل رشتہ داروں كے ساتھ خاص كرديا _
2_ عثمان نے جن لوگوں كو ناحق اتنا كثير مال بخش ديا تھا ان كا كردار بھى صحيح نہيں تھا بلكہ بہت ہى برا كردار تھا اور وہ ہر لحاظ سے انحراف اور كجروى ميں مشہور و معروف تھے _
خمس كے بارے ميں حضرت على عليہ السلام كى سيرت
جب حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے پوچھا گيا كہ جب حضرت على عليہ السلام مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ذوى القربى كے حصہ كا كيا كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا : '' انہوں نے ابوبكر اور عمر كا طريقہ اپنا يا '' پوچھا گيا : '' وہ كيسے؟ جبكہ آپ حضرات كا اس بارے ميں اپنا الگ نظريہ ہے ؟ '' انہوں نے فرمايا : '' ان كا نظريہ ذاتى نہيں ہوتا بلكہ رسول(ص) خدا اور خدا كا نظريہ ہوتا ہے ''' پوچھا گيا : '' تو پھر ركاوٹ كيا تھي؟ '' فرمايا : ''خدا كى قسم انہيں يہ بات ناپسند تھى كہ ان پر ابوبكر اور عمر كى مخالفت كا الزام لگايا جائے( اور اس الزام كے بہانے ان پر خواہ مخواہ چڑھائي كردى جائے) '' (2)
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : الكامل ج 3 ص 71، طبرى مطبوعہ يورپ حصہ 1 ص 2818، ابن كثير ج 7 ص 152، فتوح افريقياابن عبدالحكم ص 58و ص 60 ، بلاذرى ج 5 ص 25، ص 27، ص 28، تاريخ الخلفاء سيوطى ص 156، الاغانى ج 6ص 57_
2) الاموال ابوعبيد ص 463، الخراج ص 23، احكام القرآن جصاص ج 3 ص 63، سنن بيہقى ج 6 ص 323، انساب الاشراف ج 1 ص 517 ، تاريخ المدينہ ابن شبہ ج 1 ص 217 ، كنز العمال ج 4 ص 330از ابوعبيد و از ابن انبارى در المصاحف_
463
سنن بيہقى ميں آيا ہے كہ حضرت امام حسن (ع) ، حضرت امام حسين (ع) ، ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر نے حضرت على (ع) سے خمس ميں سے اپنے حصے كا مطالبہ كيا تو انہوں نے ان سے فرمايا : '' وہ تو آپ لوگوں كا حق ہے ليكن ميں آجكل معاويہ سے جنگ ميں مصروف ہوں اس لئے اگر تم چاہو تو فى الحال اپنے حق سے چشم پوشى كرسكتے ہو '' (1) پس ان احاديث اور روايات كى روسے حضرت على (ع) نے خمس ميں لائي ہوئي ابوبكر اور عمر كى تبديليوں كو بالكل بھى نہيں چھيڑا كيونكہ يہ كام لوگوں كو آپ(ع) كے خلاف ابھارتا اور لوگ آپ(ع) پر ابوبكر اور عمر كى مخالفت كا الزام لگاتے_ اورچونكہ معاويہ سے بر سر پيكار تھے تو اس لازمى كام كو ديگر تمام كاموں پر فوقيت اور ترجيح دينا اور اس مہم كو كسى ايسے مناسب وقت كے لئے چھوڑ ركھنا ضرورى تھا جس وقت اتنى زيادہ اور خطرناك مشكلات در پيش نہ ہوں_
معاويہ كے دور ميں
بنى ہاشم كو گذشتہ خلفاء كے دور ميں تمام مسلمانوں كے حصے سے ہى سہى كچھ نہ كچھ ملتا رہتا تھا _ ليكن معاويہ كے دور ميں تو وہ سرے سے خمس سے محروم ہى ہوگئے ، اس نے سب مال اپنے لئے خاص كرديا _ اور مسلمانوں ميں خمس كا ايك پيسہ بھى نہيں بانٹا تھا _ على بن عبداللہ بن عباس اور حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا : ''معاويہ كے دور سے لے كر اب تك ہميں خمس كا كوئي حصہ نہيں ملا '' (2)
اور جب عمر بن عبدالعزيز نے بنى ہاشم كو خمس كا كچھ حصہ دينے كا حكم ديا تو كچھ ہاشميوں نے اكٹھے ہو كر اسے شكريہ نامہ لكھا جس ميں اس كى صلہ رحمى پر اس كا شكريہ ادا كيا گيا اور اس خط ميں آيا ہے كہ '' ان پر معاويہ كے دور سے ہميشہ ظلم اور جفا ہوتا آيا ہے '' (3)
اسى طرح زياد نے خراسان كے اپنے گور نر حكم بن عمرو غفارى كو بہت زيادہ مال غنيمت ملنے پر اسے اسي
---------------------------------------------------------
1) سنن بيہقى ج6 ص 363_
2) طبقات ابن سعد مطبوعہ يورپ ج 5 ص 288_
3)ايضاً_
464
طرح خط لكھا :'' امّا بعد ، اميرالمؤمنين ( يعنى معاويہ) نے حكم ديا ہے كہ سب سونا چاندى اسى كے لئے عليحدہ كيا جائے اور مسلمانوں ميں ايك پيسہ بھى تقسيم نہ كيا جائے '' _ اور طبرى نے سونے چاندى پر چوپاؤں كا بھى اضافہ كيا ہے (1)_ ليكن حكم نے اس كا حكم ماننے سے انكار كرتے ہوئے مال غنيمت كو مسلمانوں ميں بانٹ ديا _ جس پر معاويہ نے اسے گرفتار كر كے جيل ميں ڈال ديا_ اور وہ وہيں قيد ميں ہى مرگيا اور وہيں دفن ہوا اور معاويہ نے كہا:'' ميں بہت انتقامى ہوں'' (2) _
عمر بن عبدالعزيز كے دور تك
عمر بن عبدالعزيز كے دور تك خمس امويوں كے ہاتھ ميں رہا اور انہوں نے اسے اپنے باپ كا مال سمجھ كر استعمال كيا ،ليكن اس نے بعض مصلحتوں كے پيش نظر بنى ہاشم كو ان كے كچھ حقوق دينے كى كوشش كى اور اس نے كچھ حقوق ادا بھى كئے اور ان سے يہ وعدہ بھى كيا كہ اگر ان كا كوئي حق رہ گيا ہو تو وہ سب ادا كردے گا (3)
ليكن خود عمر بن عبدالعزيز كے دور كى طرح اس كى يہ كوششيں بھى جلد ہى دم توڑ گئيں ، كام دھرے رہ گئے اور وعدے ناتمام رہ گئے _ اور تما م امور پھر اسى ڈگر پر چلنے لگے جس پر دشمنان اہل بيت (ع) نے چلايا تھا _ اور يہ بات تاريخ اور سيرت كى كتابوں كے قليل سے مطالعے سے بھى معلوم ہوسكتى ہے _
خمس كے متعلق علمائے اہل سنت كے نظريات
خلفاء اور حكام كے كرتوتوں كے نتيجے ميں اور ان كرتو توںپر پردہ پوشى كے لئے علمائے اہل سنت كے خمس كے متعلق نظريات بھى ايك دوسرے سے متضاد ہيں _ اس بارے ميں ابن رشد كہتا ہے : '' خمس كے متعلق بھي
---------------------------------------------------------
1)مستدرك حاكم و تلخيص مستدرك ذہبى بر حاشيہ مستدرك ج 3 ص 442، طبقات ابن سعد مطبوعہ يورپ ج 7 ص 18، الاستيعاب ج 1 ص 118، اسد الغابہ ج 2 ص 36، طبرى مطبوعہ يورپ ج 2 ص 111، ابن اثير مطبوعہ يورپ ج 3 ص 391، ذہبى ج 2 ص 220، ابن كثير ج 8 ص 47_
2)تہذيب التہذيب ج 2 ص 437و مستدرك حاكم ج 3 ص 442_
3)ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج 5 ص 281، ص 285، ص 287،ص 289 ، الخراج ص 25، و سنن نسائي باب قسم الفيء ج 2 ص 178_
465
چاروں مشہور مذاہب كا آپس ميں اختلاف پايا جاتا ہے _ ان ميں سے ايك نظريہ يہ ہے كہ خمس كو آيت كى تصريح كے مطابق پانچ حصوں ميں تقسيم كيا جائے گا _ اور يہ شافعيوں كا نظريہ ہے _ دوسرا نظريہ يہ ہے كہ اسے چار حصوں ميں تقسيم كيا جائے گا _ تيسرا نظريہ يہ ہے كہ آجكل صرف تين قسموں ميں تقسيم كيا جائے گا كيونكہ آنحضرت(ص) كى رحلت سے آپ(ص) كا اور ذوى القربى كا حصہ ساقط ہوگيا ہے _اور چوتھا قول يہ ہے كہ خمس فى ء (يعنى مال غنيمت ) كى طرح ہے جو ہر امير اور غريب ميں برابر تقسيم كيا جائے گا _ جو لوگ خمس كى چار يا پانچ حصوں ميں تقسيم كے قائل ہوئے ہيں ان كا آپس ميں اس بات پر اختلاف ہے كہ آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد آپ(ص) كے اور آپ(ص) كے قريبيوں كے حصہ كاكيا كيا جائے گا _ ايك گروہ كہتا ہے كہ ان كے حصے كوخمس كے ديگر تمام حصہ داروں ميں برابر تقسيم كرديا جائے گا _ جبكہ دوسرے گروہ كا كہنا ہے كہ اسے باقى سپاہيوں ميں بانٹ ديا جائے گا _ حالانكہ ايك اورگروہ كا كہنا ہے كہ رسول(ص) خدا كا حصہ امام ( حاكم ) كو اور آپ(ص) كے قريبيوں كا حصہ امام كے رشتہ داروں كو ديا جائے گا _ ليكن چوتھے گروہ كا كہنا ہے كہ اسے اسلحہ وغيرہ اور لشكر كى تيارى كے لئے مخصوص كيا جائے گا _ نيز ان لوگوں كا اس بات پر بھى اختلاف ہے كہ قرابت داروں سے مراد كون لوگ ہيں؟(1)_
جبكہ ابن قدامہ كہتا ہے : '' ابوبكر نے خمس كوتين حصوں ميں تقسيم كيا اور يہ نظريہ اصحاب قياس يعنى ابوحنيفہ اور اس كى جماعت كا بھى ہے كيونكہ وہ كہتے ہيں كہ خمس كو ''يتامى '' ، '' مساكين ''اور '' ابن السبيل '' كے تين حصوں ميں تقسيم كيا جائے گا _ اور انہوں نے آنحضرت(ص) كى رحلت كى وجہ سے آپ(ص) كا اور آپ(ص) كے قريبيوں كا حصہ ختم كرديا _ اور مالك كہتا ہے كہ خمس اور في دونوں ايك ہى چيز ہيں انہيں بيت المال ميں جمع كرديا جائے گا'' ابن قدامہ اس كے آگے كہتا ہے :'' اور ابوحنيفہ كا نظريہ آيت كے مفہوم كے مخالف ہے كيونكہ خدا نے اپنے رسول(ص) اور اس كے قريبيوں كے لئے ايك حصہ ركھا ہے اور خمس ميں ان دونوں كا حق بھى اسى طرح دائمى ركھا ہے جس طرح باقى تين قسم كے افراد كا حصہ ركھا ہے ، پس جس نے اس كى مخالفت كى اس نے آيت كي
---------------------------------------------------------
1) بداية المجتہد حكم الخمس ج 1 ص 401_
466
تصريح كى مخالفت كى ليكن ابوبكر اور عمر كا '' ذوى القربي'' كے حصہ كو '' فى سبيل اللہ '' ميں قرار دينے كے متعلق جب احمد كو بتاياگيا تو اس نے خاموشى اختيار كر لى اور اپنا سر ہلاديا ليكن اس نظريئےوقبول نہيں كيا _ اور اس نے ابن عباس اور اس كے ہم خيالوں كے نظريئےو كتاب اللہ اور سنت رسول (ص) كے ساتھ موافقت اور مطاقبت كى وجہ سے بہتر جانا ہے ''(1)
اور ابويعلى اور ماوردى كا نظريہ ہے كہ خمس كے استعمال كى تعيين خلفاء (حكام) كى مرضى پر منحصر ہے (2)
خمس كے متعلق اہل بيت (ع) اور ان كے پيروكاروں كا نظريہ
اہل بيت (ع) اور شيعيان اہل بيت(ع) كے نزديك خمس كے چھ حصے ہوں گے _ ان ميں سے تين حصے خدا ، اس كے رسول(ص) اور آنحضرت كے قريبيوں كے ہےں جنہيں اپنى حيات طيبہ ميں آنحضرت(ص) خود ليں گے اور آپ(ص) كى رحلت كے بعد يہ معاملہ بارہ اماموں كے سپرد ہوگا _ اور باقى تين حصے بنى ہاشم كے يتيموں ، مسكينوں اور مسافروں كا ہے البتہ اگر وہ سب غريب اور محتاج ہوں _
وہ يہ بھى كہتے ہيں كہ ہر اس مال كا خمس نكالنا واجب ہے جو كسى مسلمان كو حاصل ہوچاہے وہ دشمنوں سے حاصل ہو يا كہيں اور سے وہ صرف اپنے دعوے پر ہى اكتفا نہيں كرتے بلكہ اپنے مدعا پر ائمہ اہل بيت (ع) سے مروى ان بہت سى حديثوں سے استدلال كرتے ہيں جو خمس كے متعلق ہيں _ كيونكہ ائمہ اہل بيت (ع) ثقلين كا ايك حصہ ہيں جن سے تمسك كا ہميں حكم ديا گيا ہے اور وہ نوح (ع) كى كشتى اور مغفرت كا دروازہ ہيں _ خدا ہم سب كو ان سے زيادہ سے زيادہ محبت ، ان سے تمسك اور ان كے رفتار اور گفتار كى پيروى كرنے كى توفيق عطا فرمائے _
آمين ثم آمين
---------------------------------------------------------
1)المغنى ابن قدامہ ج 7 ص 351باب قسمة الفي والغنيمہ_
2)احكام السلطانيہ ماوردى باب قسم الفي ص 126، احكا السلطانيہ ابويعلى ص 125_
|