الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
401
دوسرا عنوان
جناب ابوبكر كى شجاعت اور سائبان ميں ان كى موجودگي_
مورخين اہل سنت كہتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے سب سے بہادر ترين شخص كے بارے ميںلوگوں سے پوچھا تو انہوں نے كہا : '' آپ (ع) ہيں '' ليكن آپ(ع) نے اس كى نفى كى _ اور خود ہى اقرار كرتے ہوئے فرمايا: ''جنگ بدر كے موقع پر آنحضرت(ص) كے لئے ايك سائبان بنانے كے بعد يہ پوچھا گيا كہ اس سائبان ميں رسول خدا(ص) كے ساتھ كون رہے گا تا كہ مشركين آپ(ص) پر حملہ نہ كرسكيں اور حملہ كى صورت ميں وہ آپ(ص) كا بچاؤ كرسكے؟_ خدا كى قسم اس خطير ذمہ دارى كو نبھانے كے لئے ہم ميں سے صرف ابوبكر ہى آگے بڑھا_ وہ آنحضرت (ص) كے سر پر تلوار لہرا رہا تھا تا كہ اگر كوئي مشرك آپ(ص) پر حملہ كرنے كى كوشش كر ے بھى تو وہ اس پر حملہ ميںپہل كردے _ اس لئے وہى سب سے زيادہ بہادر شخص ہے '' (1)
حلبى شافعى كہتا ہے :'' اس روايت سے شيعوں اور رافضيوں كى يہ بات بھى رد ہوجاتى ہے كہ خلافت كے مستحق صرف حضرت على عليہ السلام ہى ہيں كيونكہ وہ سب سے زيادہ بہادر شخصيت ہيں '' پھر حلبى اور دحلان نے ابوبكر كے سب سے زيادہ شجاع ہونے پر يہ دليل پيش كى ہے كہ '' نبى (ص) كريم نے حضرت على عليہ السلام كو يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ وہ ابن ملجم ملعون كے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائيں گے پس وہ جب بھى جنگ
---------------------------------------------------------
1)تاريخ الخلفاء سيوطى ص 36و ص 37، مجمع الزوائد ج 9ص 47البتہ اس نے كہا ہے كہ اس كى سند ميں چند ايسے راوى ہيں جنہيں ميں نہيں جانتا ، البدايہ والنہايہ ج 3 ص 271، ص 272از بزار ، حياة الصحابہ ج 1 ص 261از گذشتہ دونوں منابع، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 156، الفتح المبين دحلان ( بر حاشيہ سيرہ نبويہ) ج 1 ص 122 ، از الرياض النضرہ ج 1 ص 92_

402
ميں شركت كرتے اور كسى دشمن كا سامنا ہوتا تو انہيں يہ پتا ہوتا تھا كہ وہ ميرا كچھ نہيں بگاڑ سكتا _ اس كے سامنے وہ اس طرح تھے جيسے اس كے ساتھ ايك بستر پر ليٹے ہوں _ ليكن ابوبكر كو اس كے قاتل كے بارے ميں كوئي پيشين گوئي نہيں كى گئي تھى _ اس لئے جنگ ميں حصہ ليتے ہوئے وہ يہ نہيں جانتا تھا كہ پہلے مارے گا يا ماراجائے گا _ اس حالت ميں جتنى تكليفيں وہ برداشت كرسكتے تھے كوئي اور نہيںكر سكتا تھا _
اور عمر كے منع كرنے كے باوجود بھى زكات نہ دينے والوں سے اس كى جنگ بھى ابوبكر كى شجاعت اور بہادرى پر دلالت كرتى ہے _ اور جب آنحضرت(ص) كى وفات حسرت آيت ہوئي تو تمام لوگوں كى عقليں زائل ہوگئيں اور حضرت على (ص) بھى شدت غم سے بيٹھ سے گئے ، عثمان كى زبان بھى بندہوگئي اور وہ بولنے سے رہے ليكن اس سخت موقع پر بھى ابوبكر ثابت قدم رہا _ ليكن جنگوں ميں وہ حضرت على (ع) كى طرح اس لئے مشہور نہيں ہوا كہ آنحضرت(ص) نے اسے بہادروں سے لڑنے سے منع كرديا تھا''(1) _
دحلان كہتا ہے :'' امامت اور رہبرى سنبھالنے كے لئے شجاعت اور ثابت قدمى دو لازمى عنصر ہيں _ خاص كر جب مرتدوں و غيرہ سے جنگ كے لئے ان چيزوں كى اشد ضرورت ہو '' (2) _
وہ لوگ يہ بھى كہتے ہيں :'' جنگ بدر كے موقع پر ابوبكر آنحضرت(ص) كے ساتھ تخت پر بيٹھا ہوا تھا _ اس لئے اس كا مرتبہ رئيسوں اور سرداروں والا تھا _ اور سردار كى شكست سے لشكر بھى شكست كھا جاتا ہے جبكہ حضرت على عليہ السلام كا مرتبہ ايك سپاہى كا ساتھا اور سپاہى كے قتل سے كوئي لشكر كبھى شكست نہيں كھاتا'' (3) ان لوگوں كے پاس يہى وہ سارے دلائل ہيں جن كو انہوں نے جناب ابوبكر كے ديگر تمام صحابہ حتى كہ حضرت على (ع) سے بھى زيادہ بہادر اور شجاع ہونے پر پيش كيا ہے_
---------------------------------------------------------
1)گذشتہ تما م باتوں كے لئے ملاحظہ ہو الفتح المبين دحلان ( بر حاشيہ سيرہ نبويہ) ج 1 ص 123تا ص 125، سيرہ حلبى ج 2 ص 156و از تفسير قرطبى ج 4 ص 222_
2)الفتح المبين دحلان ( بر حاشيہ سيرہ نبويہ )ج 1 ص 124تا ص 126_
3)تاريخ بغداد خطيب ج 8 ص 21، المنتظم ابن جوزى ج 6 ص 327 و العثمانيہ جا حظ ص 10_

403
مذكورہ باتيں نادرست ہيں
ہميں يقين سے كہ مذكورہ باتيں يا تو نادرست ہيں يا پھر بلا دليل ہيں _ سائبان كى بات ہى سرے سے غلط ہونے كے دلائل تو پہلے ذكر ہوچكے ہيں _ بقيہ باتوں كے غلط ہونے كے دلائل مندرجہ ذيل ہيں :

الف : كئي مقامات پر ابوبكر كا فرار
دحلان نے يہ تو اقرار كرليا كہ امر امامت كے لئے شجاعت اور ثابت قدمى نہايت لازمى عناصر ہيں _ ليكن ہميں ابوبكر كئي مقامات پر بھاگتے ہوئے دكھائي ديتے ہيں _ جنگ خيبر ، حنين اور احد ميں اس كا فرار بہت مشہور و معروف ہے _ ان جنگوں كى گفتگو كے دوران اس كے منابع بھى بيان ہوں گے _ اور ابوبكر كى خلافت كے معترف ابن ابى الحديد نے جنگ خيبر(1)_ ميں ابوبكر اور عمر كے فرار كے متعلق كہا ہے:

و ما انس لا انس الذين تقدما
و فرہما و الفر قد علما حوب
و للراية العظمى و قد ذہبا بھا
ملابس ذل فوقہا و جلابيب
ميں ان دونوں آگے بڑھ جانے والوں كے جنگ سے فرار كو كبھى نہيں بھلا سكتا _ حالانكہ وہ يہ جانتے بھى تھے كہ جنگ سے فرار ايك بہت بڑا گناہ ہے_ وہ دشمن كے پاس لشكر اسلام كا عظيم جھنڈا لے كر گئے ليكن اسے وہيں گر ا كر اپنے ساتھ ذلت اور خوارى كى چادريں لے آلئے_
---------------------------------------------------------
1) غزوہ احد ميں ان كے فرار كى بات كثير منابع كے ساتھ اس كتاب كى چوتھى جلد ميں آئے گى ، غزوہ حنين ميں ان كے فرار كى بات بھى اس غزوہ كى بحث ميں آئے گى اور غزوہ خيبر ميں ان كے فرار كى بات كثير منابع كے ساتھ عنقريب آئے گى _ اس روايت كو بزار نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے اسى طرح اس روايت كو طبرانى ، ايجى ، بيضاوى اور ابن عساكر نے بھى بيان كيا ہے _ اس لئے ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ج 9 ص 124، المواقف (جيسا كہ اس كى شرح ميں آيا ہے ) ج 3 ص 276 اور اس كے شارحين نے بھى اس كے صحيح ہونے كا اقرار كيا ہے ، المطالع ص 483 از بيضاوى در طوالع الانوار ، زندگانى حضرت على (ع) بن ابى طالب از تاريخ ابن عساكر با تحقيق محمودى ج 1 ص 82 و الغدير ج 7 ص 204، مزيد منابع كا ذكر آگے نے گا انشاء اللہ _

404
پھر يہ بھى كہا:
احضرہما ام حضر اخرج خاضب
وذان ہما ام ناعم الخذ مخضوب
عذرتكما ان الحمام لمبغض
و ان بقاء النفس للنفس مطلوب
ليكرہ طعم الموت و الموت طالب
فكيف يلذ الموت و الموت مطلوب
بھاگتے وقت وہ ايسے دوڑے جيسے باغ ميں چرنے والا شتر مرغ ڈر كے مارے لمبے لمبے ڈگ بھر تا ہوا بھاگتا ہے_ اور اپنے پيچھے بھى نہيں ديكھتا_ كيا يہ دونوں جنگجو ہيں يا آرام و آسائشے ميں پلنے والے اور نرم گالوں والے ہيں جنہوں نے ہاتھوں پر مہندى لگائي ہوئي ہو (دوسرے لفظوں ميں ہاتھوں ميں چوڑياں پہنى ہوئي ہوں) _ جس صورت ميں موت ہمارے پيچھے لگى ہوتى ہے وہ كتنى ناپسنديدہ لگتى ہے تو اس وقت ان كى كيا صورتحال ہوگى جب وہ مرنے چلے ہوں؟
نيز يہ شعر بھى كہا:
و ليس بنكر فى حنين فرارہ
ففى احد قد فرقدما و خيبراً
حنين ميں ان كا فرار بھى ناقابل انكار ہے اور احد اور خيبر ميں تو وہ پہلے فرار كر ہى چكے تھے_
ليكن ہم ان ابى الحديد سے كہتے ہيں كہ جس شخص كو خدا كى عظمت اور قدرت نيز خدا كے( اپنے نيك بندوں ، مجاہدوں اور دين كى حمايت كرنے والوں كو ديئےوئے) وعدوں پر گہرا يقين اور ان تمام چيزوں كى معرفت ہو اسے موت بہت پيارى ہوتى ہے _ جنگ و جہاد كے موقع پر موت كے بارے ميں اميرالمؤمنين حضرت على عليہ السلام كے ارشادات اس بات كى بہترين دليل ہيں _
ابوبكر تو احد ميں بھى جنگ سے پيٹھ دكھا كر بھاگ گيا تھا _ اسكافى كہتا ہے : '' اس وقت آنحضرت(ص) كے پاس آپ(ص) كے ساتھ موت پر بيعت كرنے والے صرف چار افراد كے علاوہ كوئي اور نہ رہا تھا _ حالانكہ ان ميں ابوبكر كا كوئي ذكر نہيں ہے '''(1)
---------------------------------------------------------
1)الغدير ج 7 ص 206از سيرہ حلبيہ ج 3 ص 123_

405
بہرحال اس بات كا ذكر غزوہ احد كى گفتگو ميں كثير منابع كے ساتھ آئے گا ، انشاء اللہ _ وہ غزوہ خندق ميں بھى عمرو بن عبدود كے مقابلے ميں جانے سے بھى بزدلى دكھاتے ہوئے كنى كترا گيا _ جنگ حنين ميں بھى وہ بھاگ گيا تھا ، كيونكہ آنحضرت(ص) كے پاس اس مشكل گھڑى ميں حضرت على (ع) ، عباس ، ابوسفيان بن حارث اور ابن مسعود كے سوا اور كوئي بھى نہ رہا (1)
خلاصہ يہ كہ ابوبكر نے شركت تو تمام جنگوں ميں كى ليكن ان تمام جنگوں ميں نہ صرف اس سے غلطى سے بھى ايسا كوئي فعل سرزد نہيںہواجو اس كى بہادرى اور شجاعت پر دلالت كرتا( اس نے نہ تو جنگوں ميں عملى حصہ ليا نہ كسى كو قتل كيا حتى كہ كسى كو زخمى تك بھى نہيں كيا )بلكہ اس سے تو ان تمام چيزوں كے بالكل برعكس افعال سرزد ہوئے اور وہ اكثر جنگوں ميں اس كا فرار كرجانا ہے _ بلكہ وہ تو ہميشہ لوگوں كو بھى بزدلى دكھانے پر اكساتا اور انہيں رن چھوڑ كر بھاگ جانے كا مشورہ ديتا رہتا تھا _ پھر اس جيسى صفات كے حامل شخص كو بہادر كيسے كہا جائے گا ؟ اگر جنگ بدر ميں حصہ نہ لينے كا اس كے پاس ايك بہانہ تھا كہ مؤرخين نے اسے آنحضرت(ص) كے ساتھ اس جھوٹے تخت پر بٹھايا ہوا تھا جنہيں چھوڑ كر وہ كہيں نہيں جاسكتا تھا تو جنگ احد ، حنين اور خيبر و غيرہ ميں تو يہ چيزيں نہيں تھيں ؟ اس وقت وہ كہاں تھا؟ جب رسول(ص) خدا كو مشركين نے چاروں طرف سے گھيرا ہوا تھا اور وہ نور الہى كو ہميشہ كے لئے بجھاناچاہتے تھے_ كيا اس وقت بھى ا بوبكر تخت سردارى پر بر اجمان تھے ؟ اور حضرت رسول(ص) خدا كى حيثيت ( نعوذ باللہ) ايك لڑنے والے عام سپاہى كى سى تھى جو اپنے سردار ابوبكر كى جان كى حفاظت كے لئے بے جگرى سے لڑرہے تھے ؟ كيونكہ ابوبكر كے قتل يا شكست سے لشكر ہى شكست كھاجاتا ؟ پھر وہ خيبر ميں علم پھينك كر كہاں بھاگ گيا تھا جب ايك يہودى ''يا سر'' مسلمانوں كى صفوں كو چيرتا ہوا آنحضرت(ص) تك آپہنچا تھا اور آنحضرت(ص) كو بنفس نفيس اس سے جنگ لڑنى پڑى تھى اور اس وقت آشوب چشم كى بيمارى ميں مبتلا مدينہ رہ جانے والے حضرت على (ع) (2)كو بلوانا پڑاتھا اور انہوں نے ہى آكر مرحب كو پچھاڑ كر
---------------------------------------------------------
1)شرح نہج البلاغہ ابى ابن الحديد ج 13 ص 293_
2) البتہ بعض روايتوں ميں ملتا ہے كہ حضرت على (ع) لشكر كے ساتھ ہى تھے ليكن آشوب چشم كى وجہ سے اپنے خيمے ميں آرام كر رہے تھے اور اگر يہاں كوئي معجزہ در كار نہ ہو تو يہى روايت قرين قياس لگتى ہے _

406
قتل كيا تھا اور خدا نے حضرت على (ع) كے ہاتھوں قلعہ خيبر فتح كرايا تھا اور يہ واقعہ اتنا مشہور و معروف ہے كہ بچے بچے كو بھى اس كا علم ہے _ اور جنگ احد ميں بھى اسى نے بھاگ كر دشمنوں كو آنحضرت(ص) تك پہنچنے كا موقع فراہم كيا تھا _ جن ميں سے كسى نے آنحضرت(ص) كے رخ انور پر پر پتھر دے مارا تھا جس سے آپ(ص) كا چہرہ زخمى ہوگيا تھا اور آپ(ص) كو بہت تكليف ہوئي تھى _ اس كے علاوہ اور بھى بہت سى باتيں قابل ذكر ہيں_
بہرحال ان كے يہ كہنے كاكيا مطلب ہوسكتا ہے كہ آنحضرت (ص) اسے لڑنے سے منع فرمايا كرتے تھے ؟ تو كيا آپ(ص) نے اسے جنگ احد ، حنين ، خيبر اور ديگر جنگوں ميں بھى لڑنے سے منع فرمايا تھا ؟ اور كيا آنحضرت(ص) اسے لڑنے سے منع كر كے خود جنگ ميں كود پڑتے تھے ؟ حتى كہ آپ(ص) كا جسم شريف زخمى بھى ہوجايا كرتا تھا؟ كيا يہ سب كچھ آپ(ص) اپنے سردار ابوبكر بن قحافہ كے دفاع كے لئے كيا كرتے تھے؟ بہرحال اسكافى تو كہتا ہے كہ ابوبكر نے نہ كبھى كوئي تيز پھينكا ہے نہ تلوار چلائي ہے اور نہ جنگوں ميں كوئي خون بہايا ہے وہ توصرف لشكر كى سياہى ہوا كرتا تھا _ نہ مشہور تھا نہ معروف ، نہ اس سے كسى كو كوئي كام ہوتا تھا اور نہ اسے كسى سے كوئي كام ہوتا تھا _
اسكافى كے طويل كلام كا خلاصہ يہ ہے كہ ابوبكر كا آنحضرت(ص) سے تقابل ممكن ہى نہيں ہے اور نہ اسے ايسا سردار قرار ديا جاسكتا ہے جس كى ہلاكت سے لشكر كے تباہ و برباد ہونے كا خدشہ ہو كيونكہ نبى (ص) كريم ہى سردار لشكر اور اس نئے دين كے بانى تھے اور آپ(ص) ہى اپنے دوست اور دشمن كى خوب پہچان ركھتے تھے اور سب دوست و دشمن صرف آپ(ص) كو ہى سيد اور سردار جانتے اور مانتے تھے _ آپ(ص) نے ہى قريش اور پورے عرب كو اپنے نئے دين سے سخت غضبناك كيا ہوا تھا _ اور پھر ان كے بڑے بڑوں كو قتل كر كے انہيں گھبرا ہٹ اور پريشانى ميں مبتلا كيا ہوا تھا _ آپ(ص) ہى وہ شخصيت تھے جس پر اس امت بلكہ جنگجوؤں كا دار و مدار تھا _ ليكن ابوبكر كسى بھى چيز پر كسى بھى لحاظ سے اثر انداز نہيں تھا _ ابوبكر بھى عبدالرحمن بن عوف اور عثمان و غيرہ جيسے ديگر مہاجرين كى طرح تھا _ بلكہ عثمان تو اس سے زيادہ مشہور اور مالدار تھا _ پس مذكورہ جنگوں ميں سے كسى بھى معركہ ميں اس كے قتل سے اسلام كبھى كمزور نہيں ہوسكتا تھا ، نہ ہى كبھى مٹ سكتا تھا _ پس اسے كيسے رسول(ص) خدا كى طرح قرار ديا جاسكتا ہے ؟ جبكہ آپ(ص) كا كہيں ٹھہرنا بھى كسى مصلحت اور تدبير اور حمايت كے تحت ہوتا تھا _ آپ(ص) اپنے اصحاب كى نگرانى كيا

407
كرتے تھے ،حكمت عملى مرتب فرماتے تھے ، ان كا موقف اور كردار معين كرتے تھے اور آپ(ص) كى صحت و سلامتى صحابہ كے لئے باعث اطمينان ہوتى تھى _ اور اگر آپ(ص) لشكر كے ہر اول دستے ميںہوتے تو تما م صحابہ كا ذہن آپ(ص) كى چال اور رستے ميں مصروف ہوجاتا اور وہ يكسوئي كے ساتھ دشمن كے ساتھ نہ لڑپاتے _ اور صحابہ كے پاس ايسى كوئي اور شخصيت بھى نہيں تھى جو ان كا ملجاء و ما وى ہوتى ، ان كى قوت اور طاقت بنتى ، انہيں ان كى كمزوريوں كى نشاندہى كرتى اور مناسب موقع پر بذات خود كسى مہم ميں حصہ ليتى _
ہاں اگر ابوبكر ( نعوذ باللہ ) نبى (ص) كريم كے ساتھ آپ(ص) كى نبوت ميں شريك ہوتا اور عرب كو بھى وہ آنحضرت(ص) كى طرح مطلوب ہوتا تو ان لوگوں كى بات صحيح ہوتى _ ليكن وہ تو اعتقاد كے لحاظ سے سب مسلمانوں سے كمزور اور عربوں كا سب سے بے ضرر شخص تھا _ اس نے كبھى لڑائي نہيں كى تھى بلكہ وہ توصرف لشكر كى سياہى تھا_ پھر اسے رسول(ص) خد اكے مقام و مرتبے كے برابر كيسے قرار ديا جاسكتا ہے ؟ اس كے بعد اسكافى نے جنگ احد ميں اس كے اپنے بيٹے عبدالرحمن كے ساتھ لڑائي كا ماجرا ذكر كرتے ہوئے كہا ہے كہ رسول(ص) خدا كا ابوبكر كو يہ كہنا كہ جنگ سے رك جاؤ اور ہميں اپنے وجود سے نفع اٹھانے دو _ اس وجہ سے تھا كہ آپ(ص) جانتے تھے كہ يہ شخص لڑنے اور بہادروں كا سامنا كرنے والانہيںہے اور اگر يہ لڑنے چلا بھى گيا تو مارا جائے گا _ پھر اسكافى نے آيت (فضل اللہ المجاہدين على القاعدين اجرا عظيماً) اور ديگر آيتيں ذكركيں اور مزيد يہ بھى كہا كہ اگر بزدل اور كمزور لوگ جنگ ميں حصہ نہ لينے كى وجہ سے سردارى كے لائق بن سكتے ہيں تو حسان بن ثابت ميں يہ قابليت سب سے زيادہ پائي جاتى تھي_
حالانكہ قريشى سب سے پہلے تو رسول(ص) خدا كو قتل كرنا چاہتے تھے اور اس كے بعد وہ حضرت على عليہ السلام كى جان كے پيچھے پڑے ہوئے تھے _ كيونكہ وہ آنحضرت(ص) كے سب سے زيادہ قريب، مشابہ اور آپ(ص) كے سب سے سرسخت حامى اور مدافع تھے ، اور حضرت على (ع) كا قتل آنحضرت(ص) كو بہت كمزور كر سكتا تھا اور (نعوذ باللہ ) آپ(ص) كى كمر توڑكر ركھ سكتا تھا _ جبكہ جبير بن مطعم نے اپنے غلام وحشى كو حضرت محمد(ص) ، على (ع) يا حمزہ كو قتل كرنے كى صورت ميں آزادى كا وعدہ ديا تھا_اور اس ميں بھى ابوبكر كا كوئي ذكر نہيں _ اور حضرت على عليہ السلام كے حالات كى

408
رسول(ص) خدا كے حالات سے وابستگى كى وجہ سے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) كو ہر وقت حضرت على (ع) كى جان كا خطرہ لاحق رہتا تھا اور آپ(ص) اس كى سلامتى اور حفاظت كى دعائيں مانگا كرتے تھے _ اسكافى كى باتوں كا خلاصہ اختتام كو پہنچا(1) _
ليكن اسكافى نے ابوبكر كى وہ حالت ذكر نہيں كى جب اس نے سراقہ كو نيزہ سنبھالے ہوئے اپنى طرف آتے ہوئے ديكھا تھا _ جبكہ سراقہ ايك ايسا آدمى ہے جس كى بہادرى كاكوئي قصہ بھى نہيں ملتا (2) _

ب: ابوبكر كے ذريعہ بنى (ص) كريم كى حفاظت
اور يہ روايت كہ ابوبكر آپ(ص) كے ساتھ تلوار سونتے كھڑا تھا تا كہ اگر كوئي مشرك آپ(ص) پر حملہ كرنا چاہے تو وہ آگے بڑھ كر پہلے اس كا كام تمام كردے _ يہ بھى مندرجہ ذيل دلائل كى روسے صحيح نہيں ہے _
1_ ايك تو اس روايت كى اسناد ضعيف ہيں (3) _
اس كے علاوہ ان كا يہ مشہور قول بھى اس كى نفى كرتا ہے كہ سعد بن معاذ ، انصار كے ايك گروہ كے ساتھ سائبان ميں آپ(ص) كى حفاظت كى ذمہ دارى نبھا رہا تھا اور بعض نے اس تعداد ميں حضرت على (ع) كا بھى اضافہ كيا ہے (4)_
شايد انہوں نے حضرت على (ع) كا اضافہ اس مذكورہ عمل كے سبب كيا ہے كہ حضرت على (ع) تھوڑى تھوڑى دير لڑكر پھر آنحضرت (ص) كى خيريت دريافت كرنے آجاتے تھے _ پس جب آپ(ص) اور ابوبكر سائبان كے اندر تھے اور وہ انصارى سعد بن معاذ كے ساتھ اس سائبان كے باہر كھڑے پہرہ دے رہے تھے تو پھر مشركين آنحضرت(ص) تك كيسے پہنچ سكتے تھے؟ كہ اگر حملہ ہوتا تو ابوبكر پہل كر كے اس حملہ آور كا كام تمام كرديتا ؟ پھر كيا ان پہرے
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 13 ص 278 تا ص 284_
2)تقويہ الايمان ص 42_
3)اس كى اسناد كو ہيثمى نے مجمع الزوائد ج9 ص 461 ميں ضعيف قرا ر ديا ہے _
4) البدايہ و النہايہ ج 3 ص 271 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 156و ص 161_

409
داروں كے حالات ابوبكر كے حالات سے زيادہ سخت نہيں تھے؟ كيونكہ اس كا دفاع اور اس كى حفاظت كرنے والے لوگ باہر موجود تھے اور وہ اندر اطمينان اور آرام سے بيٹھا ہوا تھا _ ليكن ان لوگوںكى حفاظت كرنے والا كوئي نہ تھا ؟
2_ علامہ امينى فرماتے ہيں :'' اس پر مزيد يہ كہ آنحضرت(ص) كى حفاظت كى خطير ذمہ دارى صرف ابوبكر يا سعد بن معاذ كے ساتھ خاص نہيں تھى _ كيونكہ دوسرے لوگوں نے بھى ديگر مقامات پر آپ(ص) كى حفاظت كا بيڑہ اٹھايا تھا _ بطور مثال : بلال ، ذكوان اور سعد بن ابى وقاص نے وادى القرى ميں ، ابن ابى مرثدنے جنگ حنين كى رات ، زبير نے جنگ خندق كے دن، محمد بن مسلمہ نے جنگ احد ميں ، مغيرہ نے صلح حديبيہ كے موقع پر اور ابوايوب انصارى نے خيبر كے رستے ميں آپ(ص) كى حفاظت كا بيڑا اٹھايا تھا _ اور آپ(ص) كى يہ حفاظت حجة الوداع كے موقع پر اس آيت ( و اللہ يعصمك من الناس ) ترجمہ : '' اور خدا تمہيں لوگوں كے شر سے بچائے گا ''_كے نزول تك جارى رہى _ پھر اس آيت كے نزول كے بعد حفاظتى مہم ختم كردى گئي _ يہ تمام باتيں تو اس صورت ميں ہيں جب ابوبكر كى حفاظت والى جعلى بات كو صحيح تسليم كرليا جائے'' (1)_
گذشتہ باتوں ميں اگر چہ اعتراض كى گنجائشے بھى موجود ہے ليكن سمہودى '' اسطوان المحرس '' (حفاظتى ستون ) كے متعلق گفتگو كرتے ہوئے كہتا ہے كہ يحيى كہتا ہے كہ مجھے موسى بن سلمہ نے خود بتايا كہ ميں نے جعفر بن عبداللہ بن حسين سے حضرت على (ص) بن ابى طالب كے ستون كے متعلق پوچھا تو اس نے كہا : '' يہ حفاظتى چوكى تھى ، جس كے روضہ اطہر كى طرف والے حصے كے سامنے حضرت علي(ع) بيٹھ كر آنحضرت(ص) كى حفاطت كيا كرتے تھے '' (2)_
3_ علامہ امينى ہى فرماتے ہيں : '' اگر رسول(ص) كى حفاظت كے لئے ابوبكر كے تلوار سونتنے والى حديث صحيح ہوتى تو وہ حضرت على (ع) ، حمزہ اور عبيدہ و غيرہ سے زيادہ ان آيتوں كے اپنى شان ميں نزول كا حق دارتھا (ہذان
---------------------------------------------------------
1) الغدير ج 7 ص 202 نيز مذكورہ باتيں منقول از عيون الاثر ج 2 ص 316، المواہب اللدنيہ ج 1 ص 383 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 334، شرح المواہب زرقانى ج 3 ص 204_
2) وفاء الوفاء ج 1 ص 447_

410
خصمان اختصموا فى ربہم )اور ( من المومنين رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ عليہ ) ليكن يہ آيتيں اس كے باے ميں نہيں بلكہ مذكورہ شخصيتوں كے بارے ميں نازل ہوئيں _ اسى طرح وہ حضرت على (ع) سے بھى زيادہ اس آيت كے نزول كا حق دار ہوتا ( ہوالذى ايّدك بنصرہ و بالمؤمنين) اس كے علاوہ ديگر آيتوں كا بھى مصداق ٹھہرتا ليكن ايسا نہيں ہوا _ اسى طرح'' لا سيف الا ذوالفقار و لافتى الّا على '' كى ندا دينے والے رضوان پر ضرورى ہوتا كہ وہ اپنى اس ندا ميں حضرت علي(ع) كے نام كى جگہ ابوبكر كا نام ليتا اور ذوالفقار كى جگہ اس كى تلوار كا ذكر كرتا _ كيونكہ مذكورہ جعلى روايت كى روسے اس خطير ذمہ دارى كابيڑہ اس كے علاوہ كوئي اور اٹھانے كى بھى جرات نہيں كرسكا تھا اور اس شخص كے ذريعہ سے رسول (ص) خدا اور دين كى حفاظت ہوئي تھي''(1) _

ج : ابوبكر ميدان جنگ ميں
ابوبكر كے سائبان ميں آنحضرت(ص) كى حفاظت كرنے والى بات كى مندرجہ ذيل باتيں نفى كرتى ہيں:
1_ وہ خود كہتے ہيں كہ جنگ بدر كے موقع پر ابوبكر ميمنہ ( لشكر كے دائيں حصہ ) كا سردار يا اس حصہ ميں شامل تھا (2)_
2_ وہ خود ہى كہتے ہيں كہ اس كے بيٹے عبدالرحمن نے اپنے باپ سے كہا : '' بابا آپ نے جنگ بدر ميں مجھے كئي مرتبہ نشانہ بنانا چاہا ليكن ميں آپ سے چوك گيا '' (3)_
3_ يہ بھى وہ خود ہى كہتے ہيں كہ جب جنگ بدر ميں عبدالرحمن نے اپنا حريف طلب كيا تواس كا باپ اس كے مقابلے كے لئے نكلا جس پر رسول(ص) خدا نے اسے روكتے ہوئے فرمايا : '' اپنے وجود سے ہميں فائدہ اٹھانے دو'' (4) _
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: الغدير ج 2 ص 46 تا ص 51، ج 7 ص 202، ص 203تھوڑى سى تبديلى كے ساتھ_
2) المغازى واقدى ج 1 ص 58 و البدايہ والنہايہ ج 3 ص 275_
3) الروض الانف ج 3 ص 64اور مستدرك حاكم ج 3 ص 475 اور حياة الصحابہ ج 2 ص 332، ص 333از كنز ج 5 ص 374ميں آيا ہے كہ يہ واقعہ جنگ بدر ميں پيش آيا_
4) سنن بيہقى ج 8 ص 186، حياة الصحابہ ج 2 ص 332و ص 333از حاكم ازواقدى _

411
البتہ اس واقعہ پر اسكافى كا حاشيہ بھى گذر چكا ہے اور مزيد باتيں جنگ احد كے موقع پر بھى ہوں گى _ انشاء اللہ _

د: حضرت على (ع) كى ناكثين اور قاسطين سے جنگ
رہا ان لوگوں كا حضرت على (ع) كے متعلق آنحضرت(ص) كى اس پيشين گوئي كا ذكر كہ حضرت على عليہ السلام ناكثين اور قاسطين سے جنگ كريں گے اور ابن ملجم كے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمائيں گے اور اس طرح ان كے دعوے كے مطابق وہ دشمن كا سامنا كرتے وقت ايسے ہوتے تھے جيسے اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہوں تو ان باتوں سے ابوبكر كى شجاعت اور افضليت بھى ثابت نہيں ہوتى _ اس بارے ميں ہم مندرجہ ذيل نكات كے ذكر پر اكتفا كرتے ہيں :
1_ اسكافى كہتا ہے : '' آنحضرت(ص) نے حضرت على (ع) كو قاسطين اور ناكثين سے جنگ كرنے كى پيشين گوئي اس وقت كى تھى جب جنگوں كا موسم گذر چكا تھا ، لوگ دين الہى ميں جوق در جوق داخل ہو رہے تھے ، جزيہ ادا كيا جارہا تھا اور سارا عرب آپ(ص) كے سامنے جھك گيا تھا'' (1)
2_ اور آنحضرت(ص) نے حضرت علي(ع) كو ابن ملجم كے ہاتھوں شہيد ہونے كى پيشين گوئي غزوہ العشيرہ ميں كى تھى _ جب آپ(ص) نے حضرت على عليہ السلام كو ابوتراب (ع) كى كنيت سے نوازاتے ہوئے فرمايا تھا : '' كائنات كا بدبخت ترين شخص تمہارى ڈاڑھى كو تمہارے سر كے خون سے رنگے گا '' _ ليكن اس ميں بھى آپ(ص) نے حضرت على (ع) كى شہادت كا وقت معين نہيں فرمايا تھا _ ہوسكتا تھا ايك ما ہ بعديہ سانحہ ہوجائے اور ہوسكتا تھا كئي سال تك بھى نہ ہو _
3_ اس بارے ميں بداء بھى واقع ہوسكتا تھا _ اور وہ اس طرح كہ آنحضرت(ص) كى پيشين گوئي اس لحاظ سے تھى كہ اگر كوئي ركاوٹ آڑے نہ آئي تو اس فعل كا مقتضى موجود ہے _
---------------------------------------------------------
1)شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 13ص 287_

412
4_ اگر ہم اس پيشين گوئي كو اس وقت مان بھى ليں تب بھى وہ اپنے بستر پر آرام سے سوئے ہوئے شخص كى طرح كيسے ہوگئے ؟ حالانكہ يہ بھى ممكن تھا بلكہ ہوا بھى ہے كہ آپ(ع) جنگ احد وغيرہ ميں حد سے زيادہ زخمى ہوگئے تھے _ نيز يہ بھى ممكن تھا كہ آپ(ع) كى كوئي ہڈى و غير ٹوٹ جاتى يا آپ(ع) كا كوئي عضو كٹ سكتا تھا _ كيا رسول(ص) خدا كى مذكورہ پيشين گوئي سے ان كے لئے يہ بھى ثابت ہوگيا تھا كہ حضرت على (ع) ان تمام چيزوں سے بھى در امان ہيں؟ كہ ان كے نزديك آپ(ع) اپنے بستر پر سوئے ہوئے شخص كى طرح قرار پائے ؟ پھر مسلمان حضرت على (ع) كى بہادريوں كى تعريف كيوں كرتے تھے؟ نيز خيبر، احد اور بدر و غيرہ جيسے كئي مقامات پر خدا اور رسول (ص) خدا نے آپ(ع) كى مدح سرائي كيوں كى ؟ پھر وہ اسے آپ(ع) كے امتياز فضيلت اور عظمت كى وجہ كيوں سمجھتے تھے؟ پس اگر يہ بات صحيح تھى تو پھر تو سب لوگ حتى كہ عورتيں بھى حضرت على (ع) سے زيادہ بہادر ہوئيں(1) _
5_ وہ لوگ خود ہى روايت كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) (ص) نے زبير كو يہ پيشين گوئي كردى تھى كہ وہ حضرت على (ع) سے لڑے گا جبكہ وہ آپ(ع) كے حق ميں ظلم كر رہا ہوگا اور طلحہ كے بارے ميں يہ آيت نازل ہوئي :
( ما كان لكم ان تؤذوا رسول(ص) اللہ و لا ان تنكحوا ازواجہ من بعدہ)
تمہارے لئے رسول(ص) خدا كو تكليف پہنچانا اور آنحضرت (ص) كى وفات كے بعد ان كى ازواج سے شادى رچانا مناسب نہيںہے_
اور وہ '' احجار الخلافة'' ( خلافت كے پتھروں) والى حديث بھى خود ہى روايت كرتے ہيں جس ميں ان كے دعوى كے مطابق ابوبكر آگے آگے تھے ( جبكہ يہ يقينى بات ہے كہ يہ واقعہ تمام جنگوں سے پہلے پيش آيا ہے ) _ اس كے علاوہ اور بھى بہت سے اصحاب كے حق ميں نہايت زيادہ احاديث موجود ہيں _ اسى طرح خود رسول(ص) خدا بھى يہ جانتے تھے كہ يہ دين عنقريب سب پر غالب آئے گا اور كاميابى اور كامرانى كے ساتھ دوبارہ مكّہ
---------------------------------------------------------
1)يہاں اس بات كا ذكر بھى فائدے سے خالى نہيں ہے كہ ابوبكر كو بھى اس نئے دين كى سردارى اور حكومت كى پيشين گوئي كى گئي تھي_ اور يہ پيشين گوئي حضرت على (ع) كے متعلق پيشين گوئي سے زيادہ واضح اور حتمى تھى _ وہ اس بناپر كہ ابوبكر جب تك اس امت كا حاكم نہيں بنتا اسے كچھ نہيں ہوگا اور دوسرا يہ كہ وہ آنحضرت(ص) كى وفات كے بعد بھى كچھ عرصہ زندہ رہے گا تا كہ اس امت پر حكومت كرے _ ليكن ہم يہ ديكھتے ہيںكہ وہ رسول (ص) خدا كے دور كى جنگوں ميں ہى مشكل مرحلے ميں جان بچا كر بھاگ جاتا ہے _ اس كى مزيد تفصيل كسى اور موقع پر آئے گى _ انشاء اللہ _

413
ميں داخل ہوں گے _ اور مسلمانوں كے ہاتھ قيصر و كسرى ( روم اور ايران ) كے خزانے لگيں گے _ اور اس كے علاوہ اور بھى بہت سى پيشين گوئياں ہيں جن كى جستجو اور ذكر كى يہاں گنجايش نہيںہے تو كيا ان پيشين گوئيوں كى وجہ سے ان كا جہاد اكارت گيا؟ ان كى فضيلتيں ختم ہوگئيں ؟ اور بہادرى بزدلى ميں تبديلى ہوگئي؟

ہ: زكات نہ دينے والوں سے جنگ
اور رہى زكات نہ دينے والوں سے ابوبكر كى جنگ، تو اس نے يہ جنگ بذات خود نہيں لڑى تھى _ بلكہ اس كى حكومت اور مقام كے تحفظ كے لئے اس كى فوج نے لڑى تھى _ كيونكہ وہ لوگ اسے خلافت كا اہل نہيں سمجھتے تھے بلكہ وہ يہ جانتے تھے كہ وہ ان سے ناحق زكات لے رہا ہے _ اور بعينہ يہى صورتحال ان لوگوں سے جنگ ميں بھى تھى جنہيں وہ '' اہل الردہ '' ( مرتد لوگ) كہتے تھے(1)
اور يہ بات واضح ہے كہ فيصلہ ميں ہٹ دھرمى اور اڑے رہنا جنگ ميں شجاعت كى دليل نہيں ہے كيونكہ بسا اوقات ايسا بھى ہوتا ہے كہ جب كوئي شخص يہ ديكھ رہا ہوكہ ميرے فيصلے دوسرے لوگ نافذ كريں گے تو اس موقع پر كوئي بزدل شخص ايك بہادر شخص سے بھى زيادہ اپنے فيصلے پر ڈٹارہتا ہے _

و: وفات رسول(ص) كے وقت اس كى ثابت قدمي
اور وفات رسول(ص) كے وقت اس كى ثابت قدمى كے متعلق مندرجہ ذيل بيانات كافى ہيں :
1_ علامہ اميني فرماتے ہيں : '' اگر شجاعت كا معيار كسى كى وفات پر آنسو نہ بہانا ہے تو اس صورت ميں تو ابوبكر خود آنحضرت(ص) سے بھى زيادہ بہادرہوجائے گا _ كيونكہ آنحضرت(ص) تو عام لوگوں كى وفات پر بھى ان كے
---------------------------------------------------------
1) حقيقت يہ ہے كہ لوگوں كے وہم و گمان ميں بھى نہ تھا كہ آپ(ع) كے بعد حضرت على (ع) كے علاوہ كوئي اور حاكم اور خليفہ بنے گا _ وہ لوگ حضرت علي(ع) كو ہى حق دار سمجھتے تھے _ مدينہ والے تو اسى دن يا چند دنوں ميں دباؤ يا لالچ ميں آگئے تھے ليكن دوسرے شہروں كا معاملہ مختلف تھا _ حتى كہ اسامہ بھى جب تك مدينہ سے باہر رہا اس نے ان لوگوں كى بات قبول نہيں كى تھى _ اوروہ لوگ زكات و غيرہ صرف حق دار كوہى دينا چاہتے تھے اسے لئے انہيںنہيں دى تھى ليكن انہوں نے اپنى حكومت بچانے كے لئے ان پر مرتد و غيرہ كا ليبل لگا كر ان سے جنگ شروع كردى حالانكہ حقيقت ميں ايسا كچھ نہيں تھا _

414
بقول ثابت قدم نہيں رہے _ اس لئے كے آپ(ص) نے عثمان بن مظعون كو بوسہ ديا ، اس كے لئے بلند آواز سے گريہ كيا اور آنسو آپ(ص) كے رخسار پر رواں تھے(1) نيز اس لحاظ سے تو عثمان بن عفان بھى نبى (ص) كريم سے زيادہ بہادر ہوجائے گا كيونكہ اس كى بيوى كى موت بھى شب وفات اسے عورتوں سے ہم بسترى سے نہ روك سكى ليكن آپ(ص) اپنى لے پالك بيٹى كى وفات پر آنسو بہاتے رہے_ (2) _
2_ عمر كے جنون ، عثمان كے گونگے پن اور حضرت علي(ع) كى غم و اندوہ سے بے حالى كا جو حال انہوں نے ذكر كيا ہے اگر صحيح ہوتا ا ور دحلان كے دعوے كے مطابق خلافت كے حصول سے مانع ہوتا ( كيونكہ امر امامت اورخلافت كے لئے شجاعت اور ثابت قدمى دو اہم عناصر ہيں اور مذكورہ افراد كے مذكورہ عمل كى وجہ سے ان ميں يہ صفات مفقود ہوگئي تھيں)تو ان لوگوں نے بعد ميں ان كى خلافت كيسے قبول كرلى ؟ حالانكہ اس وقت بھى تو امر امامت كے لئے ضرورى اہم چيزوں سے وہ محروم تھے؟ جبكہ حضرت على (ع) كے عاجز ہونے كے متعلق ہم كہتے ہيں كہ وہ عاجز كيسے ہوگئے ؟ حالانكہ آنحضرت نے آپ(ع) كى گود ميں وفات پائي تھى ليكن اس كے باوجود انہوں نے آنحضرت(ص) كى تغسيل ، تجہيز اور تكفين كى سارى ذمہ دارى نبھائي _ يہاں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) كى وفات نے حضرت علي(ع) پر گہرا اثر تو چھوڑا ليكن وہ اپنى مصروفيات سے عاجز نہيں آئے ليكن دوسرے لوگو ں كو تو آنحضرت(ص) كى وفات كا ذرا بھى صدمہ نہيں ہوا اور وہ لوگ آپ(ص) كى تجہيز و تكفين كے اہم كام كو نظر انداز كر كے حاكم بننے يا چننے نكل كھڑے ہوئے _
3_ انہوں نے ابوبكر كى ثابت قدمى كا جو تذكرہ كيا ہے تو يہ ثابت قدمى (اگر اسے آنحضرت(ص) كى وفات كا صدمہ ہوا تھا تو) صرف اس بات پردلالت كرتى ہے كہ اس نے يہ صدمہ برداشت كرليا اور بس _ جبكہ ہم حضرت على عليہ السلام كو ديكھتے ہيں كہ آپ(ع) حقيقت ميں اس صدمہ كا سامنا كر رہے ہيں _ جبكہ وہ آپ كي
---------------------------------------------------------
1)الغدير ج 7 ص 214، از سنن بيہقى ج 3 ص 406، حلية الاولياء ج 1 ص 105، الاستيعاب ج 2 ص 495، اسد الغايہ ج 3 ص 387، الاصابہ ج 2 ص 464، سنن ابوداؤد ج 2 ص 58 ، سنن ابن ماجہ ج 1 ص 481و بعض ديگر منابع جنہيں علامہ احمدى نے اپنى كتاب التبرك ص 355 ميں ذكر كيا ہے پس وہاں ملاحظہ فرمائيں _
2)الغدير ج 2 ص214، ج 3 ص 24از الروض الانف ج 3 ص 24، مستدرك حاكم ج 4 ص 47، الاستيعاب ج 2 ص 78 ،اس نے اسے صحيح جانناہے و الاصابہ ج 4 ص 304، ص 489_

415
وفات سے فكرمند نہيںہوا تھا _ يہانتك كہ لوگوں كے سامنے اسے نبي(ص) پر اپنے غم كى دليل پيش كرنا پڑي(1)
بہرحال ابوبكر كى شجاعت اور بہادرى كے اثبات ميں ان كے دلائل نادرست ، ناكافى اور بے فائدہ ہيں_
---------------------------------------------------------
1)حياة الصحابہ ج 2 ص 84و كنزالعمال ج 7 ص 159 از ابن سعد _

417
تيسرا عنوان
ذوالشمالين كا قصہ اور نبي(ص) كا سہو
ہم پہلے يہ بتاچكے ہيں كہ ذوالشمالين جنگ بدر ميں شہيد ہوگيا تھا ليكن كچھ روايتيں اس كى نفى كرتى ہيں _ ان كا خلاصہ يہ ہے كہ ابوہريرہ يہ دعوى كرتا ہے ميں نبى (ص) كريم كے ساتھ ظہريا عصر كى نماز پڑھ رہا تھا كہ آپ(ص) نے دور كعتوں كے بعد سلام پھير كر نماز تمام كردى جس پر بنى زہرہ كے حليف ذوالشمالين بن عبد عمرو نے كہا : ''كيا آپ(ص) نے نماز ميں تخفيف كردى ہے ( يعنى نماز قصر پڑھى ہے ) يا پھر بھول گئے ہيں ؟ '' جس پر آپ(ص) نے فرمايا : '' يہ دوہاتھوں والا كيا كہتا ہے ؟'' تو صحابيوں نے كہا :'' يا رسول(ص) اللہ وہ سچ كہتا ہے '' _ جس پر آپ(ص) نے ناقص رہ جانے والى دو ركعتيں پورى كرديں_ اور اس روايت كے متعلق مختلف قسم كى كئي دستاويزات ہيں جن ميں سے بعض ميں آيا ہے كہ آپ(ص) نے ذوالشمالين كو يہ جواب ديا : '' ايسى كوئي بات نہيں ہے''' جبكہ بعض ميں آيا ہے كہ آپ(ص) نے غضبناك حالت ميں مسجد كى ايك لكڑى سے ٹيك لگايا اور كچھ لوگ آپ(ص) كو نماز ميں كمى كے متعلق بتانے كے لئے جلدى سے صفوں سے باہر نكلے _ اور بعض دستاويزات ميں آيا ہے كہ آپ(ص) جانے لگے تو پيچھے سے ابوبكر ، عمر اور ذوالشمالين آپ(ص) سے آملے (1)
---------------------------------------------------------
1)صحيح بخارى باب سوم از ابواب'' ما جاء فى السہو فى الصلاة'' ، صحيح مسلم ابواب سہو ، فتح البارى ج 3 ص 77تا ص 83 نيز اس كے حاشيہ پر بخاري، المصنف حافظ عبدالرزاق ج 2 ص 296، ص 297، ص 299 ، مسند احمد ج 2 ص 271، ص 284، ص 234، مؤطا مالك ج 1 ص 115 منقول از كنز العمال ج 4 ص 215 و ص 214از عبدالرزاق و ابن ابى شيبہ ، تہذيب الاسماء و اللغات ج 1 ص 186، الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 1 ص 491 و ص 492 ، الاصابہ ج1 ص 489 ، اسد الغابہ ج 2 ص 146، سنن بيہقى ج 2 ص 231، سنن نسائي باب '' ما يفعل من سلم من الركعتين ناسياً و تكلم '' و ديگر ابواب و كتب_

418
البتہ بعض روايتوں ميں آيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے صبح كى نماز دو ركعت كى بجائے ايك ركعت پڑھى _ جب ذوالشمالين نے آپ(ص) كو اس كے متعلق بتايا تو آپ(ص) نے اس كا ہاتھ پكڑ كر اسے صفوں ميں پھراتے ہوئے لوگوں سے اس بارے ميں پوچھا _ پھر آپ(ص) نے لوگوں كے ساتھ مزيد ايك ركعت پڑھى اور دو سجدہ سہو ادا كيا پھرسلام پھير كر نماز تمام كى _ صحيحين ( بخارى و مسلم ) ميں ہے كہ جب آپ(ص) نے نماز ظہر يا عصر ادھورى پڑھى اور خرباق نے آپ(ص) پر اعتراض كيا اور بعض صحابيوں نے بھى اس كے اعتراض كے صحيح ہونے كى گواہى دى تو آپ(ص) غضبناك حالت ميں كھڑے ہوئے اور اپنى چادر گھسيٹتے ہوئے اپنے حجرے (گھر) ميں چلے گئے پھر دوبارہ ان كے پاس باہر آكر باقى دو ركعتيں ادا كيں اور سہو كے دو سجدے بھى ادا كئے _
جبكہ بزار كے مطابق ، جب آنحضرت(ص) نے نماز پڑھ لى اور اپنى كسى زوجہ كے پاس گئے تو پيچھے سے ذوالشمالين نے آكر آپ(ص) سے پوچھا كہ نماز قصر ہوگئي ہے كيا؟ جس پر آپ(ص) نے اس كا ہاتھ پكڑ كر لوگوں ميں پھر ايااور ان سے اس بارے ميں پوچھا تو انھو ں نے بھى آپ كو گذشتہ كى طرح جواب ديا _
البتہ اس طرح كى روايتيں شيعہ كتابوں ميں بھى صحيح اسناد كے ساتھ ذكر ہوئي ہيں_جنہيںسماعہ بن مہران ، حسن بن صدقہ ، سعيد اعرج،جميل بن دراج،ابوبصير ،زيد شحام، ابو سعيدقماط، ابوبكر حضرمى اور حرث بن مغيرہ نے روايت كى ہے_ليكن ہم كہتے ہيں كہ:
1_ روايات كے الفاظ مختلف، مضطرب اور ايك دوسرے سے ناموافق ہيں_اور روايات كے منابع كى طرف رجوع كر كے ان كے تقابل سے اچھى طرح معلوم ہوجائے گا_جس كا مطلب يہ ہے كہ سب روايتوں كا صحيح ہونا ناممكن ہے_
2_اس طرح كى بعض حديثوں كو ذكر كر نے كے بعد نووى كہتا ہے:''ان حديثوں ميں اس طرح كے الفاظ بہت ہيں جن ميں بحالت اسلام ابو ہريرہ كى موجود گى كى تصريح كى گئي ہے_حالانكہ مؤ رخين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ ابو ہريرہ ساتويںہجرى كو جنگ خيبر كے سال يعنى جنگ بدر كے سات برس بعد مسلمان ہواتھا_جبكہ زہرى كے بقول ذوالشمالين جنگ بدر ميں شہيد ہو گيا تھا اور نماز كا اس كا مذكورہ واقعہ جنگ بدر

419
سے پہلے كا ہے ...''(1)_يہ بھى اضافہ كرتے چليں كہ شعيب بن مطير نے اپنے والد كا واقعہ سناتے ہوئے كہاہے كہ وہ ذواليدين سے ملا اور اس نے آنحضرت (ص) كى نماز كا مذكورہ واقعہ اسے بتايا_حالانكہ مطير بہت متاخر ہے اور اس نے نبي(ص) كا زمانہ نہيں ديكھا تھا(2)اور حضرت امام جعفر صادق(ع) سے منقول روايت ميں بتايا گيا ہے كہ ذواليدين ہى ذوالشمالين ہے(3)اسى طرح ديگر منابع ميں بھى آيا ہے(4)
اسى طرح بعض ديگر روايتوں ميں يہ دونوںالقاب يكجا بيان ہوئے ہيں(5)پس وہاں مراجعہ فرمائيں_پس صاحب استيعاب و غيرہ كا ابو ہريرہ كى گذشتہ روايت كے بل بوتے پر دونوں(ذواليدين اور ذوالشمالين) كے ايك شخص ہونے والے قول كو غلط كہنا(6)نہ صرف بے جا ہے بلكہ صحيح بات اس كے بر عكس ہے يعنى بظاہر ابو ہريرہ نے ان حديثوں ميں گڑبڑكر كے اس واقعہ ميںموجود نمازيوں ميں اپنى جگہ بنالى ہے_
بہرحال عمران بن حصين كى وہ روايت جس ميں ذواليدين كو خرباق كے نام سے ياد كيا گيا ہے وہ بھى ہمارى مذكورہ بات كى نفى نہيں كرتى _ كيونكہ خرباق بھى ذوالشمالين كا لقب ہوسكتا ہے_
اور خرباق كى '' سُلَمى '' كے نام كے ساتھ توصيف بھى ہمارے لئے نقصان دہ نہيں ہے كيونكہ سُلَيم ، ذواليدين يا ذوالشمالين كے اجدادى سلسلے ميں كسى ايك جد كا نام تھا (7)اور اسى نسبت سے اسے سلمى كہا جاتا ہوگا_
---------------------------------------------------------
1)تہذيب الاسماء واللغات ج1ص186،نيز ملاحظہ ہو:در منثور عاملى ج1ص109 ،نيز ذوالشمالين كے بدر ميں قتل ہونے كے بارے ميں ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعدج3ص119_
2)ملاحظہ ہو:تہذيب الاسماء ج1حاشيہ ص186_
3)الكافى كلينى ج3ص357،وسائل الشيعہ ج5ص311،ودر منثور عاملى ج1ص109و110_
4)ملاحظہ ہو:طبقات ابن سعد ج3حصہ1ص118و التراتيب الاداريہ ج2 ص 385_
5)وہ روايتيںمسند احمد،كنز العمال از عبد الرزاق و ابن ابى شيبہ،المصنف عبد الرزاق ج2ص296،ص271،ص274،ص297،ص299كى ہيں_نيز ملاحظہ ہو:ارشاد السارى ج3ص267،جوہرى نے دونوں ناموں كے ايك شخص كے ہونے كے متعلق استيعاب ميں ''ذواليدين''كى تعريف ميں گفتگو كى ہے_اسى طرح طبري،شرح مؤطا مالك سيوطى نيز تہذيب الاسماء و اللغات ج1ص186،وغيرہ ميںبھى يہ بات بيان ہوئي ہے_
6) الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج1ص491،اسدالغابہ ج2 ص142وص145وص146 ، التراتيب الاداريہ ج2ص385،از شروحات بخاري_
7) ملاحظہ ہو : طبقات ابن سعد ج 3 حصہ 1 ص 118 ، الاصابہ ج 1 ص 489 و اسد الغابہ ج 2 ص 141 و ص 145_

420
اور ابن قتيبہ نے بھى اس كے ايك ہى شخصيت ہونے كى تصريح كرتے ہوئے كہا ہے كہ بعض اوقات يہ بھى كہاجاتا ہے كہ اس كا نام خرباق تھا _ اور قاموس ميں بھى '' ذواليدين خرباق '' آيا ہے (1)_
3_ ہمارے پاس موجود رواتيں بنى (ص) كريم كے ايسے افعال اور اعمال كا تذكرہ كرتى ہيں جن كى وجہ سے نماز كى شكل و صورت ہى محو ہوجاتى ہے _ اور يہ يقينى بات ہے كہ نماز كى صورت كا ختم ہونا اس كے باطل ہونے كا باعث ہے _ خاص كر جب آنحضرت (ص) ( بعض روايتوں كے مطابق) قبلہ سے رخ پھير كر لوگوں كى طرف متوجہ ہوں _ كيونكہ قبلہ كى طرف پيٹھ كرنا چاہے بھول كرہى كيا جائے نماز كو باطل كرنے كا باعث ہے _ ليكن كلينى كى روايت ميں يہ وضاحت موجود ہے كہ آپ(ص) اپنى جگہ پر بيٹھے رہے تھے _(2)يہ سب تو اس صورت ميں ہے جب ہم كہيں كہ نماز كى خاطر كى ہوئي كوئي بات نماز كو باطل نہيں كرتي_
4_آنحضرت(ص) نے يہ كيسے كہہ ديا كہ ايسى كوئي بات ہى نہيں ہے ؟ كيونكہ اگر آپ(ص) اپنے لئے كسى بھول چوك كو ممكن قرار ديتے تھے تو بہتر تھا كہ آپ(ص) يوں فرماتے :'' ميرے خيال ميں يہ بات نہيں ہے '' _ مگر يہ كہا جائے كہ آپ(ص) نے اپنا نظريہ بيان كيا ہوگا _ كيونكہ آپ(ص) كو يقين تھا كہ آپ(ص) سے كوئي بھول چوك نہيں ہوئي _ اور ذواليدين كى بات بھى آپ(ص) ميں كسى قسم كا شك و شبہہ پيدا نہ كرسكى بلكہ آپ(ص) اپنے مؤقف پرڈٹے رہے ليكن جب آپ(ص) نے ذواليدين كا اصرار ديكھا تو آپ(ص) كے دل ميں شك پيدا ہوا _
5_ پھر آپ(ص) غضبناك ہوكر اپنى عبا گھسيٹ گھسيٹ كر كيوں چل ديئےكيا آپ(ص) كو ذواليدين كى باتوں پر غصہ آگيا تھا؟ اگر يہ غصہ اس بات پر تھا كہ انہوں نے آپ(ص) كو حقيقت سے آگاہ كيا تھا؟ تو يہ بات كسى بھى لحاظ سے آپ(ص) كے شايان شان نہيں ہے _ اور اگر يہ غصہ اس وجہ سے تھا كہ انہوں نے آپ(ص) پر الزام لگايا تھا اور آپ(ص) كو جھٹلانے پر ايكا كرليا تھا اور آپ(ص) سے ايسى بات منسوب كى تھى جو آپ(ص) كے شايان شان نہيں تھى _ تو پھر آپ(ص) نے پلٹ كر ان كے ساتھ نماز مكمل كيوں كى تھى ؟ اور سہو كے دو سجدے كيوں كئے تھے؟
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج 2 ص 385_
2) الكافى ج 3 ص 356_

421
6_ يہ نہيں معلوم كہ وہ نماز كيسے صحيح ہوسكتى ہے جس كے درميان ميں آپ(ص) اٹھ كر حجرے ميں چلے گئے تھے پھر واپس آكر نماز مكمل كى تھى _ اور بھى اسى طرح كى ديگر باتيں ہيں جو قابل ملاحظہ ہيں_

شيعوں كے نزديك سہو كى روايات
بہر حال اہل بيت (ع) سے بھى اس بارے ميں روايتيں ذكر ہوئي ہيں جن ميں سے پانچ سند كے لحاظ سے معتبر احاديث بھى ہيں ليكن كسى ميں بھى كوئي ايسى بات نظر نہيںآتى جس كى رو سے ان پر مذكورہ اعتراضات ہوسكيں_ تسترى نے اس موضوع پر ايك الگ مقالہ لكھا ہے جو قاموس الرجال كى گيا رہويں جلد كے آخر ميں چھپا ہے _ شائقين وہاں مراجعہ فرمائيں _ ليكن شيخ نے التہذيب ميں زرارہ كى ايك روايت بيان كى ہے _وہ كہتا ہے :'' ميں نے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے پوچھا كہ كيا رسول (ص) خدا نے بھى كبھى سجدہ سہو كيا ہے ؟ تو انہوں نے فرمايا كہ نہيں انہيں كوئي فقيہ بھى ادا نہيں كرتا '' _ پھر چند ايك ايسى حديثيں بھى بيان كى ہيں جن ميں رسول (ص) خدا كے سہو كى باتيں بيان ہوئي تھيں پھر كہا :'' ليكن ميں اس روايت كے مطابق فتوى ديتا ہوں كيونكہ رسول (ص) خدا كے سہو كو بيان كرنے والى حديثيں عامہ اہل سنت كے نظريہ كے مطابق ہيں '' (1)
اس نے روايتوں پر يہ اعتراض بھى كيا ہے كہ يہ روايتيں خبر واحد ہيں جنہيں ناصبيوں اور سادہ لوح شيعوں نے روايت كيا ہے _ اس لئے نظرياتى لحاظ سے ان پر اعتبار كرنا صحيح نہيں ہے كيونكہ اس صورت ميں يہ گمان كى پيروى كے مترادف ہوجائے گا (2) _

يہ ماجرا كس لئے ؟
ممكن ہے بعض ا فراد سہو النبى (ص) كى يہ توجيہ كريں كہ خدا نے رسول(ص) كو اپنى عظمت اور شان كے باوجود مندرجہ ذيل مصلحتوں كے پيش نظر سہو اور نسيان ميں مبتلا كرديا تھا كہ :
---------------------------------------------------------
1)الدار المنثور عاملى ج 1 ص 107 _
2)الدار المنثور عاملى ج 1 ص 113_

422
1_ لوگ آنحضرت (ص) كے متعلق غلّو كرتے ہوئے آپ(ص) كو خدا نہ سمجھ بيٹھيں يا آپ(ص) كے لئے بعض ايسى صفات ثابت نہ كر بيٹھيں جو آپ(ص) ميں ہيں ہى نہيں_
2_ خدا مسلمانوں كو علم فقہ سمجھانا چاہتا تھا _ جس طرح يہ بات حسن بن صدقہ كى اس روايت ميں موجود ہے جسے كلينى نے ذكر كيا ہے _ (1)
اور خدا انہيں يہ بھى بتانا چاہتا تھا كہ رسول (ص) بھى ان ہى كى طرح كے ايك انسان ہيں _ پس آپ(ص) كى ايسى كوئي بھى توصيف جو آپ(ص) كو انسانيت سے خارج كردے وہ بے جا اور ناقابل قبول ہے _
3_ خدا نے ہى آپ(ص) كو امّت پر رحمت كے نزول كے لئے نسيان اور سہو ميں مبتلا كرديا _ كيونكہ پہلے جو شخص بھول جاتا تھا تو كيا آپ لوگوں نے مشاہدہ كيا كہ اسے لعنت ملامت كى جاتى او ركہا جاتا كہ تمہارى نماز قبول نہيں ہوئي؟ ليكن اگر آج كوئي شخص نماز ميں كوئي چيز بھول جاتا ہے تو كہتا ہے كہ كوئي بات نہيں رسول (ص) خدا بھى بھول گئے تھے _اوريوں آپ(ص) كا يہ عمل سب كے لئے اسوہ بن گيا ...(2)_
اس طرح كى باتيں آپ(ص) كے سفر ميں نماز صبح كے وقت سوتے رہنے كے متعلق ( روايت كے صحيح ہونے كى صورت ميں ) بھى ہوئي ہيں _ليكن ہمارى نظر ميں يہ سب نادرست ہيں _ اسے آئندہ ثابت كريں گے _ انشاء اللہ

ان توجيہات كے نقائص
ليكن يہ توجيہات ناكافى اور نادرست ہيں _ كيونكہ بھولنے پر كسى كى لعنت ملامت اس وقت صحيح ہے جب اس كى بھولنے كى عادت ہى نہ ہو _ جبكہ انسانوں كى عادت ہى بھولنا ہے _ اور جو شخص دوسروں كى طرح بھولتا ہو وہ دوسروں كو لعنت ملامت كيسے كرسكتا ہے ؟
---------------------------------------------------------
1) الكافى ج 3 ص 356_
2) الكافى ج 3 ص 357_

423
اور رہى رسول (ص) خدا كے بارے ميں غلّو كى بات تو غلّو كا شائبہ دور كرنے كے اور بھى طريقے ہوسكتے تھے جن سے كوئي اور مشكل بھى پيش نہ آتى _ اسى طرح سہو اور نسيان كے احكام بھى دوسرے بہت سے احكام كى مانند بنى (ص) كريم كو اس ميں مبتلا كئے بغير بتائے جاسكتے تھے _
اس كے علاوہ اس سہو ميں ايك بہت بڑا مفسدہ ( عيب) بھى پايا جاتا ہے اور وہ آنحضرت (ص) كى تمام تعليمات اور ارشادات پر عدم اطمينان ہے _

ايك اعتراض اور اس كا جواب
اس آخرى اعتراض كى وضاحت كچھ يوں ہے كہ نبي(ص) كريم كا ہر قول ، فعل اور تقرير(1) حجت اور قابل عمل ہے _ اور سہو كا واقعہ آپ(ص) كے افعال و اقوال كى حجيت كے مسلمانوں كے متفقہ فيصلے كے منافى ہے _ اور يہ چيز آپ(ص) پر اعتماد اور اطمينان كے اٹھ جانے كا باعث بنتى ہے نيز لوگوں كا عدم اطمينان آپ(ص) كى نبوت اور رسالت كى حكمت كے بھى منافى ہے(2) _
البتہ اس اعتراض كا يہ جواب ديا جاسكتا ہے كہ يہ سہو اس وقت آپ(ص) كے قول و فعل كى حجيت كے منافى ہوتا جب آپ(ص) اپنى اس بھول پر باقى رہتے اور لوگ اس سے ايك غلط حكم اخذ كرليتے ليكن جب خدا نے فوراً ہى آپ(ص) كو ياد دلايا بلكہ كسى نہ كسى طريقے سے اس كا حكم بھى آپ(ص) اور لوگوں كے لئے واضح كرديا تو اس ميں عقلى اور شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے (3)_
خلاصہ يہ كہ خدا كا كسى مصلحت كے پيش نظر آپ(ص) كو سہو ميں مبتلا كرنا ان كے اس مقولے سے متصادم ہے كہ اس نسيان كا مطلب كسى نامعلوم چيز كے حوالے ہونا ہے _ (يعنى نسيان كا مطلب نامعلوم چيز كا ارتكاب
---------------------------------------------------------
1)تقرير كا مطلب يہ ہے كہ كوئي شخص آنحضرت(ص) كے سامنے كوئي بات كرے يا كوئي كام كرے اور آنحضرت(ص) كے سامنے سے روكنے ٹوكنے ميںبھى كوئي مانع نہ ہو اور آپ(ص) اس شخص كى تائيد كريں يا كم از كم نہ ٹوكيںتووہ بات يا فعل بھى قابل عمل اور جائز ہوجائے گا _
2)ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج 1 ص 384 تا ص 386_
3)ملاحظہ ہو : فتح البارى ج 3 ص 81_

424
ہے دوسرے لفظوں ميں بھولنا ہے _ جبكہ اگر مصلحت مقصود تھى تو اس كا مطلب ہے بھول چوك نہيں تھي) _
اور بھول پر باقى نہ رہنے كا جو دعوى كيا گيا ہے وہ آنحضرت (ص) كى شان اور كرامت كى حفاظت اور آپ(ص) كے فرامين پر اطمينان كيلئے نا كافى ہے ( كيونكہ آپ(ص) بھولے تو پھر بھى ہيں _ خدا نے اس مسئلے كو جلدى ياد دلاديا _ اور وہ بھى كسى اور شخص كے ذريعہ ديگر معاملات ميں كيا ضمانت ہے كہ آپ(ص) نہيں بھوليں گے ؟ اور اگر نعوذ باللہ بھول بھى گئے تو خدا آپ(ص) كو فوراً ياد دلادے گا ؟ اگر جلدى بھى ياد دلادى ، اس سے كوئي نيا حكم اخذ نہيں ہوگا ؟ اور پھر آپ(ص) كے حافظے پر كتنا اعتبار رہ جائے گا؟ اور ...) اسى طرح يہ سہو اور بھول لوگوں كى نظر ميں آپ(ص) كى قداست پر بھى برا اثر ڈالتى ہے اور يہ بات نہايت ہى واضح ہے _
اسى مناسبت سے يہاں سہو ، نسيان اور خطا سے آنحضرت (ص) كى عصمت اور پھر گناہوں سے آنحضرت(ص) كى عصمت اور ان كے جبرى يا اختيارى ہونے پر بحث ميں كوئي مضائقہ نہيں ہے _پس گفتگو دو حصوں ميںہوگي_ پہلا حصہ سہو ، نسيان اور خطا سے عصمت سے بحث سے متعلق ہے اوردوسرا حصہ گناہوں سے عصمت سے متعلق ہے _

سہو ، خطا اور نسيان سے بچنا اپنے اختيارميں ہے
بظاہر بھول چوك اور خطاؤں سے بچنا انسان كے اپنے اختيار ميں ہے _ اور نماز ميں پيش آنے والے واقعہ كو اگر صحيح تسليم كرلياجائے تو يہى كہا جائے گا كہ يہ خدا كى طرف سے كسى مصلحت كے پيش نظر آپ(ص) كو سہو ميں مبتلا كرنا تھاوگرنہ آپ(ص) خود نہيں بھولے تھے_ اس بات كا اثبات مندرجہ ذيل نكات كے بيان ميں پوشيدہ ہے _
1_ كوئي شخص اگر اپنے آپ كو نہ بھولنے ، حفظ كرنے اور دقت كرنے كى مشق كرائے تو وہ ياد ركھنے اور نہ بھولنے پر زيادہ قادر ہوجائے گا _اور اس شخص كى خطا كى نسبت اس دوسرے شخص سے بالكل كم ہوگى جسے كسى چيز كى پروا نہيں ہوتى كہ اسے كوئي چيز بھول جائے يا ياد رہ جائے ، كسى چيز كا اضافہ ہو يا پھر حافظہ ميں كمى ہو _ پس اگر وہ اس كام پر خصوصى توجہ دے گا تو اس ميں نسيان اور خطا كا احتمال بھى كم ہوجائے گا _ اور جتنا جتنا اس

425
كام كو وہ اہميت دے گا اتنا اتنا اس كے خطا اور نسيان كا احتمال بھى كم ہوتا جائے گا _ اور يہ چيز محسوس اور تجربے سے معلوم كى جاسكتى ہے _ اور عام انسان كى بہ نسبت يہ بات صادق ہے _ اور كسى كے ادراكات ، ذہنى اور فكرى قوتيں جتنى زيادہ اور طاقتور ہوں گى اسے اپنے حافظے اور دماغ پر زيادہ قابو ہوگا اور خطا، نسيان اور سہو كا احتمال اتنا ہى كم ہوگا _ جس طرح دودھ پلانے والى ماں كے لئے اپنے دودھ پيتے بچے سے غفلت عام طور پر ناممكن ہوتا ہے _ اور ہمارے نبى (ص) تو ہر كمال اور فضيلت كى چوٹى پر فائز ہيں _ آپ(ص) وہ اولين انسان ہيں جو روئے زمين پر خلافت الہى كا حقيقى نمونہ ہيں _ آپ(ص) وہ انسان ہيں جو خدا كى ذات ميں فنا ہيں يعنى آپ(ص) كا ہدف اور مقصد خدا كى خوشنودى كا حصول اور اہداف خداوندى كا تحقق تھا _ پس طبيعى بات تھى كہ آپ(ص) كى گرد پاتك بھى كوئي نہ پہنچ پاتا اور كوئي بھى بشر آپ(ص) كے حافظے كا مقابلہ نہ كرپاتا _ خاص كر ان امور ميں جو آپ(ص) كے اعلى مقاصد ، اپنے رب كى عبادت اور اطاعت سے متعلق تھے _ اور خصوصاً جب آپ(ص) خدا كو حقيقتاً ہر موقع پر حاضر اور ناظر جانتے تھے _ اور يہ بات اتنى واضح ہے كہ مزيد كسى وضاحت كى كوئي ضرورت نہيںہے _
مزيد يہ كہ آنحضرت(ص) نے دين اور احكام دين كى حفاظت كے لئے جتنى كوشش اور جد و جہد فرمائي وہ آپ(ص) پر خدا كے الطاف و احسانات كا باعث بنى اور ( والذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا) اور (ولينصرن اللہ من ينصرہ ) نيز ( ان تتقوا اللہ يجعل لكم فرقانا) كے مصداق آپ(ص) كى بھلائيوں اور تائيدات ايزدى ميں اضافہ ہوتا چلا گيا اور آپ(ص) كے سب راستے صاف ہوتے چلے گئے _
2_بعض چيزيں ايسى ہيں جونسيان كا باعث بنتى ہيں _اور ہر شخص ان چيزوں سے پرہيز كرسكتا ہے _ اس بناپر وہ ان چيزوں سے پرہيز كر كے ان كے اثرات يعنى سہو اور نسيان سے بھى بچ سكتا ہے _ روايات ميں بھى ان ميں سے بعض چيزوں كا ذكر آيا ہے _ بطور مثال جو چيزيں نسيان كا باعث بنتى ہيں ان ميں سے ايك پنير (cheese) كھانا، قبروں كے كتبے پڑھنا ، ہرادھنيا كھانا ، بہت زيادہ پانى پينا ، جسم كے بعض حصوں كے ساتھ بے فائدہ چھيڑ چھاڑ كرنا ، زيادہ پريشان ہونا جو اكثر وبيشتر گناہوں كى كثرت كى وجہ سے لاحق ہوتى ہے_ اور ان جيسے اور كام كرنا ہيں _

426
جبكہ بعض چيزيں ايسى بھى ہيں جو حافظے كو زيادہ كرتى ہيں _ بطور مثال كثرت سے ياد دہانى ، كشمش كھانا ، قرآن مجيد كى تلاوت كرنا ، خدا كا ذكر كرنا اورنيكى كے كا م كرنا ہيں اور بھى كئي چيزيں ہيں جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ہے _ واضح ہے اسباب اور وسائل پر قدرت ركھنے كا مطلب اس امر يعنى مسبب پر قدرت ركھنے كى طرح ہے ( يعنى اگر آپ اپنے آپ كو خود ہپنا ٹائز كرسكتے ہيں ، كشمش و غيرہ كھا سكتے ہيں اور قرآن مجيد كى تلاوت كرسكتے ہيں اور اس طرح كے حافظے بڑھانے والے ديگر كام كرسكتے ہيں تو اس كا مطلب ہے كہ آپ اپنا حافظہ بڑھا سكتے ہيں ) _ پس انسان اپنے آپ كو فلاں چيز كے نہ بھلانے پر مكلف اور مامور كرسكتا ہے يا اپنے حافظے بڑھانے والے كام كرسكتا ہے كيونكہ اسے اس كے اسباب فراہم كرنے كى قدرت حاصل ہے _ اور ايسے مسبب( امور) كا فريضہ شريعت ميں بھى زيادہ ہے جسے انسان صرف اس كے اسباب ( مقدمات و غيرہ) كے اوپر قدرت ركھنے اور انہيں فراہم كرنے سے ہى انجام دے سكتا ہے_
3_ بہت سى آيتيں ايسى ہيں جو نسيان كى مذمت كرتى ہيں _ بلكہ بعض آيتوں ميں تو نسيان پر فورى سزا دينے يا دنيا ميں ہونے والے نسيان كى وجہ سے آخرت ميں عذاب دينے كى دھمكى بھى دى گئي ہے _ نمونے كے لئے ہم مندرجہ ذيل آيات پيش كرتے ہيں :
( و من اظلم ممن ذكّر بآيات ربہ فاعرض عنہا و نسى ما قدمت يداہ) (1)
اور اس شخص سے زيادہ ظالم اور كون ہوسكتا ہے جسے اپنے پروردگار كى نشانياں ياد دلائي جائيں ليكن وہ ان سے روگردان ہوجائے اور اپنے كرتوتوں كو بھى بھول جائے_
يہاں پر آيت كے سياق اور لفظ '' ذكّر'' كى موجود گى كى وجہ سے لفظ '' نسى '' سے تجاہل عارفانہ مراد نہيں ليا جاسكتا _ حالانكہ بعض مفسرين نے يہى كہنا چا ہا ہے _ يہى صورتحال مندرجہ ذيل آيتوں كى بھى ہے _
پس ان آيتوں ميں لفظ نسيان كا مطلب تجاہل عارفانہ نہيں بلكہ حافظے سے ہٹ جانا يعنى سستى ، روگرداني
---------------------------------------------------------
1)كہف /57_

427
اور اہميت نہ دينے كى وجہ سے بھول جانا ہے _
(يحرفون الكلم عن مواضعہ و نسو ا حظاً مما ذكّروا بہ)
'' الفاظ كو اپنى جگہ سے بدل كر تحريف كے مرتكب ہوتے ہيں اور اس ( عذاب ) سے اپنا حصہ بھول جاتے ہيں جس كى انہيں ياد دہانى كرائي گئي تھى '' (1)
( فاليوم ننساہم كما نسوا لقاء يومہم ہذا)
'' پس قيامت كے دن ہم بھى انہيں اس طرح خود سے بے خبر كرديں گے جس طرح انہوں نے اس دن كى ملاقات كو بھلا ديا تھا '' (2 )
( و لا تكونوا كالذين نسوا اللہ فانساہم انفسہم )
'' اور ان لوگوں جيسے مت بنو جنہوں نے خدا كو بھلاديا تھا جس كے نتيجے ميں خدا نے بھى انہيں خود سے بے خبر كرديا تھا '' (3)
( نسواللہ فنسيہم )
''' انہوں نے خدا كو بھلا ديا تو خدا نے بھى انہيں اپنے حال پر چھوڑديا '' (4)
(اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسكم )
'' كيا تم لوگ دوسروں كو تو نيكيوں كا حكم ديتے ہو ليكن اپنے آپ كو بھول جاتے ہو ؟'' (5)
( فذوقوا بما نسيتم لقاء يومكم ہذا )
'' پس اس دن كى ملاقات كو فراموش كرنے پر عذاب كا مزہ چكھو'' (6)
---------------------------------------------------------
1)مائدہ /13_
2)اعراف /10_
3)حشر /9_
4)توبہ /67_
5)بقرہ/4_
6) حم سجدہ/14_

428
( ربّنا لا تؤاخذنا ان نسينا او اخطانا) (1)
'' پروردگار گر ہم بھول جائيں يا ہم سے كوئي خطا سر زد ہوجائے تو ہمارا مؤاخذہ نہ كرنا ''
اور خدا سے ايسى خواہش تب صحيح اور جائز ہوسكتى سے جب نسيان پر مؤاخذہ اورگرفت بھى صحيح اور جائز ہو_ اور اس بارے ميں آيات بہت زيادہ ہيں جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ہے _
اسى طرح بعض آيتيں ايسى بھى ہيں جو نسيان سے منع كرتى ہيں _ اور لازمى بات ہے كہ نہى اور ممانعت كسى اختيارى اور مقدور كام سے ہوسكتى ہے _ جو چيز بس ميں نہ ہو اس سے ممانعت عبث ہے اور خدا سے يہ كام محال ہے _ ارشاد ربانى ہے :
( و لا تنس نصيبك من الدنيا ) (2)
'' اور دنيا سے اپنے حصے كو فراموش مت كر''
( و لاتنسوا الفضل بينكم ) (3)
'' اور ايك دوسرے سے بھلائي كو فراموش مت كرو ''
اور مذكورہ آيتوں ميں نسيان سے مراد'' ترك ''لينا بھى ہمارے مدعا كى نفى نہيں كرتا كيونكہ اس ترك سے مراد سستى اور اہميت نہ دينے سے پيدا ہونے والے نسيان كى وجہ سے ترك كرنا ہے _ اس علم كے ساتھ كہ مكلف ( انسان ) كے امكان اور بس ميں ان چيزوں كا نہ بھولنا اور ياد ركھنا بھى ہے _ كيونكہ سبب پر قدرت ركھنا مسبب پر قدرت ركھنے كے مترادف ہے _ پس اس صورت ميں نسيان اور فراموشى پر عذاب عقلى لحاظ سے قبيح نہيں ہوگا (4)
---------------------------------------------------------
1)بقرہ /286_
2)قصص/77_
3)بقرہ /237_
4)ملاحظہ ہو : اوثق الوسائل ص 262_

429
پختہ ارادہ
ہم مندرجہ ذيل آيت ميں مشاہدہ كرتے ہےں كہ خدا نے نسيان كے اختيارى ہونے كى طرف اشارہ كيا ہے_ ارشاد الہى ہے:
( ولقد عہدنا الى آدم من قبل فنسى و لم نجد لہ عزماً)
'' اور ہم نے اس سے پہلے آدم (ع) سے عہد لے ليا تھا ليكن وہ بھول گيا اور ہم نے اس ميں ارادے كى پختگى نہيں ديكھى '' _
پس يہ آيت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ اگر آدم(ع) ميں طاقت ، تحمل اور پختہ ارادہ ہوتا تو وہ ايسا كام كبھى نہ كرتا_ جس كا مطلب يہ ہے كہ اس كا نسيان، صبر و تحمل پر قدرت نہ ركھنے كى وجہ سے تھا ( يعنى بے صبرى كى وجہ سے وہ عہد خداوندى كو بھول گيا ) _ اور نسيان بھى بے صبرى كى پيدا وار ہے _ پس انسان كى قدرت ، ارادے كى پختگى ، تحمل اور طاقت جتنى بڑھتى جائے گى اس آيت كى روسے اس كا نسيان اتنا ہى كم ہوتا جائے گا _ اور نسيان كے اختيارى ہونے كى ايك اور دليل آنحضرت(ص) كا يہ ارشاد بھى ہے كہ '' رفع عن امتى النسيان '' (ميرى امت سے نسيان پر مؤاخذہ اٹھا ليا گيا ہے ) اور يہ مؤاخذہ خدا كے لطف و كرم سے مسلمانوں كى آسانى كے لئے اٹھايا گيا ہے (1) _
اور اٹھائي وہ چيز جاتى ہے جسے ركھا اور وضع كيا جائے اور وہ يہاں مؤاخذہ ہے _ اور مؤاخذہ صرف اختيارى امور پر ہوتا ہے چاہے اس پر اختيار اس كے سبب پر اختيار كے ذريعہ سے ہى ہو _ كيونكہ ہم نے پہلے بھى كہا ہے كہ سبب پر قدرت مسبب پر قدرت كے برابر ہے _

تبليغ و غيرہ ميں عصمت
گذشتہ باتوں كے بعد ہم يہ كہتے ہيں كہ جب آنحضرت (ص) كے لئے سہو ، نسيان اور خطا سے عصمت ثابت
---------------------------------------------------------
1)اس كا مطلب ہے كہ گذشتہ امتوں كا نسيان كى وجہ سے مؤاخذہ ہوتا تھا _

430
ہوگئي ہے تو يہ عصمت بلا قيد و شرط ہوگى _ يہ نہيں ہوگا كہ ايك مقام كے لئے تو ثابت ہوليكن دوسرے كے لئے نہيں _ كيونكہ ملكہ ہميشہ ناقابل تبعيض اور ناقابل تجزيہ ہوتا ہے پس اس بنا پر بعض افراد كا يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) صرف تبليغ دين ميں معصوم ہيں _ بلكہ آپ(ص) ہر وقت اور ہرجگہ معصوم ہيں اور يہ بات بھى بالكل واضح ہے _
گناہوں سے عصمت بھى اختيارى ہے :

ايك جواب طلب سوال
تمام مسلمانوں كا عام اعتقاد يہ ہے كہ تمام انبياء عليہم السلام ہر لحاظ سے معصوم ہيں (1) اور شيعيان اہل بيت (ع) عصمت و طہارت تمام انبياء كے علاوہ بارہ اماموں كو بھى معصوم جانتے ہيں _ اور وہ اس لئے كہ ان كى اطاعت اور پيروى سب پر واجب ہے _ اور اگر (نعوذ باللہ ) ان سے گناہ سرزد ہوتے ہوںتو پھر ان كى اطاعت كا جواز ہى معقول نہيں ہے چہ جائيكہ ان كى اطاعت واجب ہو _ اس لئے كہ اس كا مطلب خود گناہوں كے ارتكاب كو جائز قرار دينا ہے اور يہ بات نامعقول ہے _ كيونكہ ايك تو اس صورت ميں گناہ اپنے گناہ ہونے سے خارج ہو كر ايك جائز فعل كى صورت اختياركرليں گے اور دوسرا يہ كہ يہ بات انبياء كى بعثت اور نبوت كى حكمت اور فلسفے كے بھى خلاف ہوگا _ البتہ ہم يہاں ان باتوں كى مكمل تفصيلات اور مختلف اقوال پر تفصيلى بحث كے در پے نہيں ہيں _ يہاں ہم فقط اس سوال كا جواب دينا چاہتے ہيں كہ كيا انبياء اور ائمہ عليہم السلام كى عصمت كا مطلب يہ ہے كہ ان ميں گناہ كرنے كى سكت اور استطاعت ہى نہيں ہے اور وہ اطاعت كے علاوہ كسى اور كام كى قدرت ہى نہيں ركھتے؟ دوسرے لفظوں ميں كيا وہ اطاعت كرنے اور گناہوں سے
---------------------------------------------------------
1)گرچہ بعض افراد كو تمام انبياء (ع) كے عمومى عصمت پراعتراض ہے ليكن شيعيان اہل بيت (ع) اس بات كے قائل ہيں كہ تمام انبيائ(ع) اپنى ولادت سے رحلت تك معصوم اور خدا كى حمايت اور رہنمائي كے زير سايہ ہوتے ہيں _ اور ان كى عصمت صرف ان كے دور نبوت كے ساتھ خاص نہيںہے _

431
دورى اختيار كرنے پر مجبور ہيں؟ اگر وہ ان باتوں پر مجبور ہيں تو پھر وہ كس بات پر افضل ہيں ؟ ان پر يہ فضل و كرم كيوں كيا گيا ؟ ہم ان كى طرح اس بات پر مجبور كيوں نہيں ہوئے ؟ خدا كس لئے ہميں ناپسنديدہ كاموں كے انجام كے لئے كھلا چھوڑ ديتا ہے پھر ہميں جہنم ميں عذاب اور جنت سے محروم كر كے ہميں سزا كيوں دے گا ؟ پھر مجبور ہو كر اطاعت كرنے او رگناہوں سے دورى اختيار كرنے والے شخص كو جنت دينا اور جہنم سے دور ركھنا كيا صحيح اور مناسب ہے ؟

جواب :
اس سوال كا جواب يہ ہے كہ گناہوں كے ارتكاب سے بچاؤ اختيار ى ہے _ اس بات كى تفصيل كے لئے قدرے تفصيل كى ضرورت ہے _ پس ہم مندرجہ ذيل نكات ميں اس كى وضاحت كرتے ہيں :

اسلام اور فطرت
جو شخص بھى اسلام كى آسمانى تعليمات كا مطالعہ اور ان ميں غور و فكر كرے گا تو اسے اس قطعى حقيقت كا ادراك ہوگا كہ يہ تعليمات انسانى فطرت اور طبيعت كے ساتھ بالكل سازگار ہيں البتہ اگر اس خالص فطرت پر غير متعلقہ بيرونى عوامل يكبار گى دباؤ ڈال كرا سے دبا نہ ديں (1) _
حتى كہ آپ زمانہ جاہليت كے بعض افراد كو مشاہدہ كريں گے كہ انہوں نے جھوٹ بولنے ، شراب پينے ، زنا كرنے اور بتوں كى پوجا كرنے كو اپنے اوپر حرام كيا ہوا تھا او ركتاب '' امالى '' كے مطابق جناب جعفر بن ابى طالب اور چند دوسرے لوگ بھى انہى افراد ميں سے تھے(2) _
اسى طرح قيس بن اسلت نے بتوں سے دورى اختيار كر لى تھي، وہ جنابت كا غسل كيا كرتا تھا ، حيض
---------------------------------------------------------
1)اس بارے ميں ماہنامہ المنتظر فروري1999 كے صفحہ 28 پر مترجم كا چھپنے والا مضمون '' انسان ميں دينى فطرت كا وجود'' بھى قابل ملاحظہ ہے_
2)''شخصيات اور واقعات '' كى فصل ميں تحريم خمر كى گفتگو كے دوران ان افراد كا ذكر بھى آئے گا جنہوں نے اپنے او پر شراب حرام كر ركھى تھى _

432
والى عورتوں كو صاف ستھرى ہونے نيز سب كو صلہ رحمى كا بھى حكم ديتا تھا ...(1) _
جناب عبدالمطلب بھى اپنى اولاد كو ظلم اور زيادتى نہ كرنے كا حكم ديتے تھے اور انہيں اخلاق حسنہ پر اكساتے تھے ، پست كاموں سے روكتے تھے ، آخرت پر يقين ركھتے تھے، بتوں كى پوجا نہيں كرتے تھے اور خدا كى وحدانيت كے قائل تھے _ اور اس نے ايسے رسوم كى بنياد ركھى جن كى اكثريت كى قرآن نے تائيد كى ہے اور وہ سنت قرار پائے ہيں _ جن ميں سے ايك نذر كى ادائيگى ، دوسرى ،محرموں سے نكاح كى حرمت ، تيسرى چور كے ہاتھ كاٹنا ، چوتھى ،لڑكيوں كو زندہ در گور كرنے كى ممانعت ، پانچويں ،شراب كى حرمت ، چھٹى ، زنا كى حرمت اور ساتويں ،ننگے بدن بيت اللہ كے طواف سے ممانعت ہے (2) _
اور قرآن نے نہ صرف يہ تصريح كى ہے بلكہ وعدہ بھى كيا ہے اور اپنے اوپر لازم بھى قرار ديا ہے كہ يہ نيادين ، دين فطرت ہوگا _ اس لحاظ سے كہ اگر اس كى تعليمات ميں سے كوئي حكم بھى خلاف فطرت ثابت ہوجائے تو اسے ٹھكرايا جاسكتا ہے اور اسے جعلى ، عجيب و غريب اور غير آسمانى قرار ديا جاسكتا ہے _ ارشاد خداوندى ہے:
(فاقم وجہك للدين حنيفاً فطرة اللہ التى فطرالناس عليہا لا تبديل لخلق اللہ ذالك الدين القيم و لكن اكثر الناس لا يعلمون) (3) _
'' پس اپنا رخ اس پائندہ اور سيدھے دين كے مطابق كرلو كہ يہ ايسى خدائي فطرت كے مطابق ہے جس پر اس نے لوگوں كو خلق كيا _ اور خلق خدا كے لئے اس ميں كوئي تبديلى نہيں ہوگى _ يہ ايك سيدھا دين ہے ليكن اس كے باوجود اكثر لوگ اس سے بے خبر ہيں ''
اور علّامہ طباطبائي كے بقول '' يہ اس وجہ سے ہے كہ انسان ايسى فطرت پر پيدا ہوا ہے جو اسے اپنے
---------------------------------------------------------
1)سيرہ نبويہ ابن كثير ج2 ص 190و ص 191_
2)سيرہ حلبيہ ج 1 ص 4 و سيرہ نبويہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ج 1 ص 21_
3)روم /30_

433
نقائص دور كرنے اور ضروريات پورى كرنے كى طرف راہنمائي كرتى ہے او راس كو زندگى ميں فائدہ مند اور نقصان وہ چيزوں سے مطلع كرتى ہے _ ارشاد پروردگار ہے :
( و نفس و ماسوّاہا فالہمہا فجورہا و تقواہا ) (1)
'' نفس (روح) كى اور اس كوہموار كر كے اسے اچھائيوں اور برائيوں كے الہام كرنے والے كى قسم ''
پس دين اسلام ايك ايسا نظام اور دستور ہے جو انسان كى ہدايت كرتا ہے ، اچھائيوں اور بھلائيوں كى طرف اس كى راہنمائي كرتا ہے اور اسے برائيوں اور بدبختيوں سے روكتا ہے_ اور يہ نظام ،نفس انسانى كو كئے جانے والے ان خدائي الہامات كے بالكل مطابق ہے جن كى خدا نے اسے پہچان كرادى تھى _ اسى طرح عقل بھى اس كى پرورش اور حفاظت كرتى ہے اور اسے راستہ دكھا كر اسے ڈگمگانے يا اپنے خواہشات كى سركشى كے نتيجے ميں پيدا ہونے والے اپنے من پسند ادراكات اور احكام كى طرف جھكاؤ سے روكتى ہے اسى لئے تو كہا جاتا ہے كہ عقل اندرونى شريعت ہے اور شريعت بيرونى عقل ہے _ اس بناپر ہم ديكھتے ہيں كہ ہدايت كى پيروى نہ كرنے والے اور سيدھے راستے پر نہ چلنے والے كو قرآن مجيد ان الفاظ سے ياد كرتا ہے:
( ارايت من اتخذ الہہ ہواہ افانت تكون عليہ وكيلاً ام تحسب ان اكثرہم يسعمون او يعقلون ان ہم الّا كالانعام بل ہم اضل سبيلا) (2)
'' كيا آپ(ص) نے اس شخص كى حالت ديكھى ہے جس نے اپنى خواہشات كو اپنا خدا بنايا ہوا ہے ا ور اس كى پيروى ميں لگا ہوا ہے ؟ كيا پھر بھى آپ(ص) اس پر اعتبار كرتے ہيں؟ يا يہ سمجھتے ہيں كہ ان كى اكثريت سنتى اور سمجھتى ہے ؟ ( ايسا نہيں ) بلكہ وہ تو جانوروں كى طرح بلكہ ان سے بھى بدتر لوگ ہيں ''
---------------------------------------------------------
1)فرقان /44_

2)شمس/8_
434
نيز يہ بھى كہتا ہے :
( و لقد ذرانا لجنہم كثيراً من الجن و الانس لہم قلوب لا يفقہون بہا و لم اعين لا يبصرون بہا و لہم اذان لا يسمعون بہا اولئك كالانعام بل ہم اضل و اولئك ہم الغافلون ) (1)
'' اور ہم نے تو بہت سے جنوں اور انسانوں كو جہنم كے لئے تيار كيا ہوا ہے كيونكہ ( قصور ان كا اپنا ہے) ان كے دل و دماغ توہيں ليكن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہيں ، آنكھيں تو ہيںليكن وہ ان سے حقيقت كو ديكھتے نہيں اور دماغ توہيںليكن وہ ان سے ہدايت كى باتيں سنتے نہيں_ يہ لوگ تو جانوروں كى طرح بلكہ ان سے بھى بدتر ہيں اور يہى لوگ غافل ہيں ''
پس قرآن مجيد ايسے لوگوں كو جانور كى طرح سمجھتا ہے جو اپنى خواہشات نفسانى كى اطاعت و پيروى كرتے ہيں، عقل كى ہدايت اور كہنے پر عمل نہيں كرے اور اسى عقل سے سازگار امر و نہى الہى پر كان نہيں دھرتے _ يہ لوگ ان جانوروں كى طرح ہيں جو اپنى مرضى اور خواہش پر كسى بھى طرف كو نكل پڑتے ہيں اور ان كے پاس عقل نام كى كوئي ايسى چيز نہيںہوتى جس سے وہ روشنى اور ہدايت حاصل كرتے اورنہ ہى وہ ايسے راستے ( شريعت ) پر چلتے ہيں جو انہيں عقل كے احكام كى طرف راہنمائي كرتا _ بلكہ قرآن تو ان لوگوں كو جانوروں سے بھى بدتر سمجھتا ہے _ كيونكہ اگر جانور اقتضائے عقل بشرى كے خلاف كوئي كام كريں _ بطور مثال درندگى كريں ، خرابى مچائيں يا كوئي چيز تلف كرديں تو نہ تو انہيں كوئي ملامت كى جائے گى اور نہ ہى ان سے كوئي حساب كتاب ہوگا _ كيونكہ انہوں نے اپنى عادت اور غريزے كے مطابق كام كيا ہے _ اس لئے كہ يہ غريزے اور خواہشات ہى ہيں جو انہيں چلاتے ہيں اور ان كے رفتار اور سلوك پر حاكم ہوتے ہيں اور ان كے پاس تو عقل ہى نہيں ہوتى كہ جس سے وہ ہدايت حاصل كرتے _ ليكن اگر يہى جانور عقل مندى كا كوئي كام كرنے لگيں ، بطور مثال
---------------------------------------------------------
1) اعراف / 179_

435
اگر ہم يہ ديكھ ليں كہ كوئي بھيڑيا كسى بھيڑ پر حملہ نہيں كر رہا يا كوئي بلى كسى چو ہے كا پيچھا نہيں كر رہى تو ان كے اس فعل سے ہم تعجب كرنے لگيں گے اور وہ ہمارى محفلوں كا موضوع گفتگو بن جائيں گے _ كيونكہ يہ چيز ان كے متوقعہ فطرت اور جبلت كے برخلاف ہے چاہے ان كا يہ كام سوجھ بوجھ كے ساتھ نہ بھى ہو ، كيونكہ ان كى عقل ہى نہيں ہوتى بلكہ وہ يہ كام سدھائے جانے ، عادت بنانے اور مانوس ہونے كے نتيجے ميں كرتے ہيں ( جس طرح سركسوں ميں جانوروں كے كئي كر تب دكھائے جاتے ہيں) _
ليكن انسان اگر ظلم كرنے لگے ، جھوٹ بولنے لگے ، غيبت كرنے لگے، بر باد ى كرنے لگے يا اپنى بہترى ، دين يا عقل كے خلاف كوئي اور كام كرنے لگے تو وہ اپنى فطرت اور جبلّت كے تقاضوں كے خلاف كام كرے گا ، اپنے راستے سے منحرف ہوجائے گا اور انسانيت سے خارج ہوجائے گا اور اس صورت ميں وہ جانوروں سے بھى بدتر ہوگا _ ( كيونكہ وہ اپنى بے عقلى اور بے شعورى كے باوجود محير العقول كام كرجاتے ہيں جبكہ مذكورہ افراد عقل و شعور ركھنے كے با وجود نامعقول كام كرتے ہيں ) مزيد يہ كہ جب ہم يہ ديكھتے ہيں كہ جانور اپنے لئے مضر كسى كام كا ارتكاب نہيں كرتے ليكن انسان اپنى نفسانى خواہشات اور شہوات اور غريزوں كے پيچھے لگ كر اپنے لئے مضر كاموں كا ارتكاب كر جاتے ہيں اور اپنى سعادت اور خوشبختى كو تباہ كر ڈالتے تو ہميں يہ كہنا ہى پڑے گا كہ بے شك جانور اس انسان سے زيادہ ہدايت يافتہ اور عقلمند ہيں _
پس گذشتہ تمام باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے كہ انسان اپنے لئے فائدہ مند چيزوں كے حصول اور مضر چيزوں سے دورى كى كوششوں پر پيدا كيا گيا ہے _ اور اسلامى احكام انسانى فطرت اور طبيعت كے مطابق ہيں_ اور انسان كى اپنے لئے مضر چيزوں سے دورى اور باعث سعادت اور راحت چيزوں كے حصول كى كوششيں اس ميں ايسى فطرى خصوصيات ہيں جن سے دورى ، اختلاف اور چھٹكارا ممكن نہيں ہے _ اسى بناپر ہم ديكھتے ہيں كہ ايك عقل مند انسان ( چا ہے وہ مؤمن نہ بھى ہو ) فطرى طور پر ايسے كام نہيں كرتا جن كے مضر اور برے ہونے پر اسے پختہ يقين ہو _ بطور مثال وہ اپنے ارادے اور اختيار سے زہر نہيں كھائے گا _بلكہ وہ كسى ايسى جگہ پر بھٹكے گا بھى نہيں جہاں كے متعلق اسے يہ يقين ہو كہ اس كى وہاں موجود گى سے اسے

436
كسى بھى قسم كا نقصان پہنچ سكتا ہے _ اسى طرح وہ اپنى اولاد و غيرہ كو كبھى قتل نہيں كرے گا ، مگر يہ كہ اس پر خواہشات يا نيند يا غصہ و غيرہ جيسے عقل كو زائل كرنے والى ان چيزوں كا غلبہ ہوجائے جو اس موقع پر عقل كے تسلط اور مناسب كار كردگى سے مانع ہوتى ہيں _ بلكہ ہم ايك بچے كو بھى ديكھتے ہيں كہ وہ پہلے آگ كو ہاتھ لگانے كى جرات تو كر بيٹھتا ہے ليكن جب آگ اسے تكليف پہنچاتى ہے اور اسے بھى اس بات كا يقين ہوجاتا ہے كہ آگ تكليف ديتى ہے تو پھر وہ اپنے ارادے اور اختيار سے آگ كے قريب بھى نہيں بھٹكتا مگر اس پر نيند جيسى كوئي زبردست قوت غالب آجائے جو اس كے اس شعور پر غلبہ پالے_
پس عقل مند لوگ( چاہے وہ مومن نہ بھى ہوں بلكہ بچے تك بھى ) زہر كھانے ، اپنے آپ كو آگ ميں جلانے اورہر اس چيز كے ارتكاب سے معصوم ہيں جن كے مضر اور برے ہونے كا انہيں يقين ہو _
مگر يہ كہ يہاں كوئي ايسى زبردست طاقت ان كے ارادوں اور ان كے عقل پر غلبہ پا كر ا نہيںذہن پر تسلط سے منع كردے اور كام كرنے سے روك دے اور ان كے سامنے مضر خواہشات كو صحيح اور فائدہ مند جلوہ نما كر كے انہيں دھوكے ميں مبتلا كردے _

عصمت كے لئے ضرورى عناصر
گذشتہ معروضات ميں دقت كرنے سے يہ واضح ہوجائے گا كہ بچے كا آگ سے بچنا اور عقل مندوں كا زہر كھانے سے پرہيز كرنا مندرجہ ذيل امور سے متعلق اور انہى كے نتيجے ميں ہے :
1_ انسان اپنى آسودگى ، سعادت اور تكامل ميں مدد كرنے والى چيزوں كے حصول اور اپنے لئے مضر ، برى اور باعث بدبختى چيزوں سے دورى اختيار كرنے كى كوششوں كى فطرت پر پيدا ہوا ہے _ يعنى انسان كى ارتقاء پسند فطرت _
2_ كسى خاص حقيقت كا ادارك پھر مذكورہ كسوٹى پر اس حقيقت كى پر كھ اور جانچ پڑتال_
3_ عقل كى قوت اور ايسے موقعوں پر اس كا تسلط اور تمام نفسانى اور شہوانى طاقتوں پر اس كا غلبہ اور ان

437
خواہشات اور طاقتوں كو ان رستوں پر ڈالنا جن ميں انسان كى بھلائي ، آسودگى اور سعادت ہو _
4_انسان كا اختيار اور ارادہ اور اس كا ان نفسانى خواہشات سے بچاؤ جو اس سے ارادے اور اختيار كو سلب كرليتى ہيں _
پس جب يہ چار چيزيں مكمل ہوں تو انسان ان چيزوں كے ارتكاب سے معصوم ہوجائے گا جنہيں وہ يقينى طور پر اپنے لئے مضر سمجھے گا _ او راپنے آپ كو ان كاموں كى انجام دہى كا پابند سمجھے گا جنہيں وہ اپنى ترقى ، ارتقاء اور انسانيت كى بھلائي كے لئے مفيد سمجھے گا _ اور مذكورہ عناصر كى تكميل كے بعد ہم انسان كو صرف سيدھے رستے پر چلتا ہوا ہى ديكھيں گے جو اپنى بھلائي اور بہترى كے كام انجام دے گا اور اپنے لئے مضر اور نقصان دہ كاموں سے پرہيز كرے گا _ اور اس ميں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ شخص كون ہے اور كس وقت كيا كررہا ہے _
اور جب وسعت اور گہرائي كے لحاظ سے لوگ اپنے ادراك كے درجات ، ذہنى اور فكر ى سطح ، نفسانى اور شہوانى خواہشات جيسے دوسرسے باطنى طاقتوں پر عقل كے تسلط كے قوت اور ضعف اور ادراكات كى نوعيت كے لحاظ سے ايك دوسرے سے مختلف ہيں تو طبيعى بات ہے كہ ان كى عصمت كے درجات اور مقامات بھى مختلف ہوں گے _ يہ اختلاف ان كے ادراكات ، بصيرتوں ، اعتدال اور باطنى قوتوں كے اختلاف كى وجہ سے ہوتا ہے _ اسى لئے اكثر اوقات علماء كو ديگر لوگوں سے زيادہ مذكورہ امور كا پابند ديكھا جائے گا بلكہ بسا اوقات ان سے كسى بھى غلطى كا ارتكاب مشاہدہ نہيں ہوگا _ اور يہ اس وجہ سے ہے كہ ان كا ادراك وسيع اور زيادہ ہے نيز دوسروں كى بہ نسبت ان كے ادراك كى نوعيت ، كيفيت اور گہرائي بہت فرق كرتى ہے _ بلكہ اس صورت ميں يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ خدا نے تمام انسانوں كے لئے يہ واجب قرار ديا ہے كہ سب معصوم ہوں_ اور وہ اس طرح كہ خدا نے تمام انسانوں پر اپنى اطاعت والے تمام كاموں ( واجبات) پر عمل در آمد اور تمام برائيوں اور نافرمانى والے كاموں ( گناہوں) سے اجتناب كو ضرورى قرار ديا ہے _ اور يہ فريضے اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ ہر مكلّف (انسان) ميں يہ طاقت پائي جاتى ہے كہ وہ كسى بھى گناہ كا مرتكب نہ ہو كيونكہ

438
تكليف اور فريضہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط اس كى انجام دہى پر قدرت اور طاقت ركھنا بھى ہے ( يعنى جب كسى ميں كسى كام كى قدرت ہى نہيں ہے تو اس كو اس كام كا پابند كرنا معقول نہيں ہے اور خدا كبھى كوئي نامعقول كام نہيں كرتا ) _ وگرنہ خدا كو يہ استثناء بيان كرتے ہوئے بطور مثال يہ كہنا چاہئے تھا كہ ايك دو گناہوں كے علاوہ باقى سب گناہوں سے بچوكيونكہ تم سب سے پرہيز نہيں كرسكتے _ بلكہ يہ استثناء تو اس فعل كو سرے سے گناہ ہونے سے ہى خارج كرديتى ہے ( يعنى وہ فعل جائز ہوجاتا ہے جبكہ گناہ كا مطلب اس كا عدم جواز ہے _ اس صورت ميں گناہوں اور ناقابل ارتكاب افعال كا دائرہ محدود ہوجاتا ہے _ بہرحال چونكہ لوگ ان گناہوں سے بچ سكتے ہيں اس لئے خدا نے ان سے بچنے كا حكم ديا ہے وگرنہ خدا ايسا نہ كرتا ) _ اس لحاظ سے سلمان فارسى ، ابوذر ، مقداد ، عمار اور شيخ مفيد و غيرہ جيسے لوگوں كو بھى بطور مثال كسى بھى گناہ اور نافرمانى كے عمدى ارتكاب سے معصوم كہا جاسكتا ہے _ البتہ ان لوگوں ميں اور نبى (ص) اور امام (ع) ميں يہ فرق ہے كہ نبى (ص) اور امام (ص) گناہوں كا تصور بھى نہيں كرسكتے اور نہ ہى انہيں گناہوں كے ارتكاب كى كوئي رغبت ہوتى ہے كيونكہ انہيں حقيقت حال كا علم ہوتا ہے اور ان كاموں كى برائيوں اور بھلائيوں كا عين اليقين ہوتا ہے _ اس كے علاوہ انہيں خدا كى جلال اور عظمت كى وسيع اور گہرى معرفت ہوتى ہے اور خدا كے حاضر ہونے كا شدت سے احساس ہوتا ہے _ جبكہ دوسرے لوگوں كو انبياء اور ائمہ كى معرفت كى طرح اكثر احكام كى صحيح علّت اور خدا كى عظمت ،جلال اورملكوت كا صحيح علم اور ادراك نہيں ہوتا _ اس لئے وہ بعض گناہوں ميں رغبت تو ركھتے ہيں ليكن وہ صرف خدا كى اطاعت ميں اور خدا كا حكم مانتے ہوئے ان گناہوں سے پرہيز كرتے ہيں _
خلاصہ يہ كہ لوگوں كى ( ذہنى ، عملى اور ہر قسم كى ) سطح مختلف ہوتى ہے جس كى وجہ سے فرائض پر پابندى كے لحاظ سے ان كے درجات بھى مختلف ہوتے ہيں اور عام طور پر علماء فرائض كے زيادہ پابند ہوتے ہيں _ اگر چہ كہ ان ميں بھى بعض ايسے افراد مل جاتے ہيں جن كى نفسانى خواہشات كے مقابلے ميں ان كى عقل كمزور پڑجاتى ہے _ جس كى وجہ سے فرائض پر ان كى پابندى ميں بھى ضعف اور فرق آجاتا ہے جس كى وجہ سے دوسرے علماء كى بہ نسبت ان كى معصوميت كا مرتبہ كم ہوجاتا ہے _ البتہ ايسے لوگ بہت كم ہوتے ہيں بلكہ حقيقى علماء ميں ايسے لوگ ہوتے ہى نہيں ہيں _ اسى لئے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ خدا حقيقى علماء كى تعريف كرتے

439
ہوئے كہتا ہے :
(انما يخشى اللہ من عبادہ العلمائ)
'' خدا سے توصرف علماء ہى ڈرتے ہيں '' (1)

توضيح اور تطبيق:
انبياء اور ائمہ كو توفيقات اور عنايات الہى اور ان سے بڑھ كر وحى اور خدا سے رابطے نيز شريف اور عظيم پشتوں سے پاكيزہ رحموں ميں منتقل ہونے كى وجہ سے صرف صفات حسنہ اور انحصارى كمالات ہى حاصل ہوئے ہيں _ انہى وجوہات كى بناپر وہ وسعت ادراك اور مثالى انسانى سلوك كى چوٹى ہيں _ نيز حقائق اور مستقبل قريب اور بعيد ميں ان كے مثبت اور منفى اثرات اور نتائج سے بھى وہ بلا شك صحيح معنوں ميں واقف تھے اور ان كى واقفيت اور ادراك ميں كسى شك وشبہ كى بھى گنجائشے نہيں تھى _ وہ خوبيوں ، ذہنى اور صحيح نفسانى اور نفسياتى طاقتوں كے بھى درجہ كمال پر فائز تھے _ وہ سب لوگوں سے زيادہ دانا ، تمام عقلمندوں سے بھى زيادہ عاقل ، ہر بہادر سے بھى زيادہ بہادر اور تمام نيك اور اچھى صفات كے حامل ہونے كے لحاظ سے وہ سب مخلوقات سے زيادہ كامل اور افضل تھے _ كيونكہ وہ انسانى طبعى اور فطرى تقاضوں سے ذرہ برابر بھى ادھر ادھر نہيں ہوسكتے تھے _ اور ان كى عقل اتنى پختہ اور طاقتور تھى كہ نفسانى اور شہوانى خواہشات جيسى ديگر باطنى طاقتيں انہيں نہ تو دھوكہ دے سكتى تھيں اور نہ ان پر غلبہ پاسكتى تھيں_ بلكہ ان كى عقل ہى ہميشہ ان پر غالب رہتى ، ان پر حكومت كرتى ، انہيں منظم كرتى ، انہيں چلاتى اور ان پر نگرانى كرتى تھى _
بلاشك وہ انہى صفات اور خصوصيات كى وجہ سے فطرى طور پر كسى گناہ اور ناپسنديدہ عمل كے ارتكاب سے اس طرح معصوم تھے جس طرح كوئي بچہ آگ كو چھيڑنے سے بچتا ہے اور عقلاء زہر كھانے سے كتراتے ہيں اورہر اس چيز كے ارتكاب سے بچتے ہيں جوان كے وجود ، شخصيت ، مستقبل اور موقف كے لئے نقصان دہ ہوتا ہے _
---------------------------------------------------------
1)فاطر /28_

440
پس گذشتہ باتوں كے علاوہ ، عقل كا نقصان دہ اور فائدہ مند نيز اچھى اور برى چيزوں كا صحيح معنوں ميں ادراك ، نيز خدا اور خدا كى عظمت ، جلالت ، احاطہ ، قدرت ، حكمت اور تدبير كى كمال معرفت اور امر و نہى كے مقام صدور كى پہچان اور قيامت ، ثواب اور سزا پر اس كا پختہ ايمان ، يہ سب چيزيں مل كر اس شخص كے لئے برائيوں اور گناہوں كے ارتكاب كے تصور كو بھى ناممكن اور نا قابل قبول بنا ديتى ہيں كيونكہ عقل اور گناہ ايك دوسرے كے متضاد اور مخالف ہيں _ يہى وجہ ہے كہ جب ہم كسى شخص سے ملتے ہيں اور اس كے تمام حالات ، عادات ، خصوصيات ، ترجيحات اور افكار سے واقف ہوتے ہيں تو اس سے منسوب ايسى سارى باتيں جھٹلانے پر مجبور ہوجاتے ہيں جو اس كى شخصيت كے مناسب نہيں ہوتيں _ اور جتنا جتنا ہمارے لئے ثابت ہوتا جائے گا كہ اس كى مذكورہ صلاحيتيں پختہ اور راسخ ہيں اتنا ہى ہمارے لئے اس سے منسوب باتوں كا قبول سخت اور دشوار ہوتا جائے گا _ اور گذشتہ باتوں كى روسے جو شخص برائيوں سے دور اور اچھائيوں پر پابند رہنے كى كوشش كرے گا تو توفيقات الہى بھى اس كے شامل حال ہوتى جائيں گى كيونكہ ( ولينصرن اللہ من ينصرہ) ، ( و من يتق اللہ يجعل لہ فرقاناً ) اور ( والذين اہتدوا زاد ہم ہدى و آتا ہم تقوا ہم )
پھر خدا نيك لوگوں كى اس جماعت ميں سے اس شخص كو چن ليتا ہے جس كى عقل ان لوگوں ميں سب سے كامل اور شخصيت سب سے افضل اور خير اور كمال كى صفات كى جامع ہوتى ہے _ ليكن يہ واضح ہے كہ ان لوگوں كے متعلق خدا كے علم اور چناؤ كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ كسى قول يا فعل پر مجبور ہيں _ اسى بناپر عصمت سے كوئي جبر اور زبردستى لازم نہيں آتى كہ يہ كہا جائے كہ معصوم تكوينى ( پيدائشےى ) طور پر سرے سے گناہوں كے ارتكاب كى طاقت نہيں ركھتا _ بلكہ عصمت ان معنوں ميں ہوتى ہے كہ ان سے يہ افعال سرزد نہيں ہوتے _ اور علمى الفاظ ميں يوں كہا جائے گا كہ معصوم ميں گناہوں كا مقتضى ہى موجود نہيں ہوتا (اس كے دل ميں گناہ كى طرف رغبت ہى نہيں ہوتي) اور نہ ہى اس ميں گناہوں كے ارتكاب كے لئے علّت مؤثرہ پائي جاتى ہے (اسے گناہوں كے ارتكاب پر كوئي چيز نہيں ابھار سكتى ) _ بلكہ اس كے دل ميں ارتكاب گناہ كا تصور بھى نہيں ابھرتا _ پس ان معنوں ميں كہاجاسكتا ہے كہ ان سے گناہوں كا سرزد ہونا محال ہے _ يہ بالكل اسى طرح ہے جس طرح

441
ہم يہ كہيں كہ بچے كا اپنے آپ كوآگ ميں گرانا محال ہے تو اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ يہ كام اس كے لئے مقدورہى نہيں ہے _ بديہى اور واضح سى بات ہے كہ يہ كام اس كے لئے مقدور تو ہے ليكن ہمارے اس كہنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ يہ كام كرے گا ہى نہيں _ اس طرح جب ہم يہ كہتے ہيں كہ خدا كا ظلم كرنا محال ہے اور خدا كبھى ظلم نہيں كرسكتا تو اس كا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے كہ خدا ظلم كرنے پر قادر نہيں ہے _ كيونكہ بلاشك وہ اپنے سب سے زيادہ فرمانبردار بندے كو بھى عذاب ميں مبتلا كرسكتا ہے _ ليكن ہمارے كہنے كا يہ مقصد ہوتا ہے كہ خدا ايسا كام نہيں كرے گا كيونكہ يہ كام حكمت خداوندى كے منافى ہے اور خدا كى شان اور عظمت كے بھى خلاف ہے_
پس گذشتہ تمام باتوں كى روسے يہ معلوم ہوجاتا ہے كہ خدا كا اپنے بعض بندوں كو چن كر ان كے ہاتھ سے معجزہ دكھلانا اس بندے كے كامل اور معصوم ہونے پر دلالت كرتا ہے كيونكہ جس طرح پہلے بھى اشارہ كرچكے ہيں يہ معقول ہى نہيں ہے كہ خدا لوگوں كى ہدايت اور قيادت كے لئے اس شخص كا انتخاب كرے جو خود گناہگار اور نافرمان ہو _

حضرت محمد(ص) افضل ترين مخلوق
گذشتہ باتوں كى رو سے اب ہمارے لئے سمجھنا آسان ہوگيا ہے كہ ہمارے نبى حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ و سلم كيوں تمام مخلوقات حتى كہ ديگر تمام انبياء ومرسلين سے بھى افضل ہيں _ تو اس كا جواب يہ ہے كہ گرچہ تمام انبياء معصوم ہيں اور سب كو گناہوں كے ا ثرات اور نتائج كابخوبى علم تھا اور وہ سب خدا كى عظمت اور جلالت اور ملكوت كى معرفت بھى ركھتے تھے بلكہ دوسرے لوگوں سے زيادہ معرفت ركھتے تھے، ليكن ہمارے نبي(ص) كو ان اثرات اور ان كے پہلوؤں اور ہر نسل كے مختلف جوانب پر اس كے انعكاس كا اور اسى طرح خدا كے لامتناہى جلال اور بے اندازہ عظمت كا زيادہ گہرا اور حقيقى ادراك اور علم تھا _ كيونكہ عقل ، حكمت ، دانائي ، گہرے ادراك ، شجاعت ، كرم اور حلم ميں بلكہ ، مثالى اور نمونہ عمل انسان كى تمام صفات حميدہ اور اخلاق حسنہ

442
ميں بلكہ تمام چيزوں ميں آنحضرت (ص) سب سے كامل ، افضل اور اولين شخصيت ہيں _ پس اس لئے آپ(ص) سب سے افضل ہيں كہ آپ(ص) كى عصمت سب سے زيادہ عميق ، پائيدار ، زيادہ پر اثر اور وسيع تھى _ اسى بناپر آپ(ص) اپنى عبادتوں ميں خدا سے سب سے زيادہ راز و نياز كرنے والے اور سب سے زيادہ ڈرنے والے تھے _

حديث ''علماء امتى كانبياء بنى اسرائيل '' كا صحيح مطلب
اسى طرح جب ہم اس حديث كو مشاہدہ كرتے ہيں جس ميں آيا ہے كہ '' علماء امتى كا نبياء بنى اسرائيل '' (1) _(ميرى امت كے علماء بنى اسرائيل كے انبياء كى مانند ہيں ) تو اپنے آس پاس موجود ان علماء كو ديكھتے ہوئے اس حديث كا صحيح مطلب نہيں سمجھ سكتے جن سے بعض لا يعنى باتوں اور صغيرہ گناہوں كے سرزد ہونے كا احتمال رہتا ہے _كيونكہ يہ معقول نہيں ہے كہ يہ شخص جس سے گناہوں كے ارتكاب كا انديشہ رہتا ہے اس معصوم كى طرح ہوجائے جس كے متعلق نہ يہ انديشہ رہا ہو ، نہ اس سے سرزد ہوا ہو اور نہ اس كے دل ميں گناہ كا خيال تك آيا ہو _ اس لئے اس كى يہ توجيہ كى جاتى ہے كہ يہ علماء معرفت ، علم اور بصيرت كے لحاظ سے ان انبياء كى مانند ہيں كيونكہ يہ علماء دينى ، تاريخى اور ديگر معارف ميں ان حقائق سے مطلع ہوئے جن كا علم گذشتہ انبياء كو نہيں تھا _ ليكن يہ توجيہ قرآنى منطق سے ميل نہيں كھاتي_ كيونكہ قرآن مجيد ، تقابل اور افضيلت كا معيار تقوى اور اعمال صالحہ كو قرار ديتا ہے _ ارشاد خداوندى ہے ( ان اكرمكم عند اللہ اتقاكم ) ترجمہ: '' خدا كے نزديك تم ميں سے سب سے زيادہ باعزت سب سے زيادہ متقى شخص ہے '' (2)
اور حديث قدسى ميں بھى آيا ہے : '' ميں جنت ميں اس شخص كولے جاؤں گا جو ميرى اطاعت كرے گا چاہے وہ حبشى غلام ہى ہو اور دوزخ ميں اسے لے جاؤں گا جو ميرى نافرمانى كرے گا چاہے وہ قريشى سردار ہى ہو '' _
---------------------------------------------------------
1)بحار الانوار ج 2 ص 22 از غوالى اللئالى _
2)حجرات /13_

443
پس لازمى ہے كہ بنى اسرائيل كے انبياء سے افضل علماء سے مراد نہ صرف ان انبياء كى طرح معصوم شخصيات ہوں بلكہ انہيں ان انبياء سے يہ امتياز بھى حاصل ہو كہ ان كا ادراك ان سے زيادہ بھى ہو اور اس امت بلكہ نسلوں پر ہر فعل كے اثرات كاانہيںعين اليقين بھى ہو _ بلكہ گذشتہ عہد كے لوگوں كى تاريخ ، عقائد اور تبديليوں كا بھى مشاہدہ كرچكے ہوں اور ان سے مطلع ہوں اور خود بھى ان سے زيادہ زمانے اور صعوبتيں ديكھ چكے ہوں اور بنى اسرائيل كے انبياء بھى انہيں پہچانتے ہوں _ مزيد يہ كہ ان كے پاس ان تمام معلومات اور واقعات اور ان كے تمام جوانب اور مستقبل قريب يا بعيد ميں ان كے تمام پوشيدہ اور ظاہر اثرات كے ادراكات كے تحمل اور ان سے نتيجہ گيرى كرنے كے لئے بہت زيادہ طاقت اور قدرت بھى ہونى چاہئے تا كہ جس طرح ہم نے پہلے بھى تفصيل سے بتايا ہے ان كى عصمت ان سے زيادہ دقيق ، عميق ، پائيدار ، پر اثر اور وسيع ہو_ اور ہميں تاريخ ميں بارہ اماموں كے علاوہ ايسى خصوصيات كامالك كوئي اور شخص نہيں ملتا _ اور رسول(ص) خدا نے بھى انہيں ثقلين كا ايك حصہ اور كتاب خدا كا ہم پلّہ قرار ديا تھا اور امت پر ان سے تمسك ، ان سے ہدايت كے حصول اور ان كے اوامر اورنواہى كى پيروى كو واجب قرار ديا تھا جن ميں سے پہلى شخصيت حضرت على (ع) اور آخرى حضرت مہدى (ع) ہيں _