الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
245
تيسرى فصل

بيعت عقبہ


246
عقبہ كى پہلى بيعت
كہتے ہيں كہ جب مسلمان ہونے والے يہ حضرات مدينہ پہنچے تو انہوں نے اہل مدينہ كے پاس رسول(ص) الله كا ذكر كيا اور ان كو اسلام كى دعوت دي_ يہ بات ان كے درميان پھيلى اور نوبت يہاں تك پہنچى كہ انصار كے ہر گھر ميں رسول(ص) الله كا ذكر ہونے لگا_
جب دوسرا سال يعنى بعثت كا بارہواں سال ہوا تو بارہ آدمى مكہ آئے جن ميں سے دو كا تعلق قبيلہ اوس سے اور باقيوں كا خزرج سے تھا_ انہوں نے عقبہ كے مقام پر رسول(ص) الله سے ملاقات كى اور عورتوں والى بيعت كي( يعنى وہ بيعت جس ميں جنگ كا تذكرہ نہ ہو )_بالفاظ ديگر انہوں نے اس بات كى بيعت كى كہ وہ كسى كو خدا كا شريك قرار نہيں ديں گے، چورى اور زنانہيں كريں گے، اپنى اولاد كو قتل كرنے سے احتراز كريں گے، اپنے ہاتھ پاؤں كے سامنے سے كوئي بہتان گھڑكے نہ لائيں گے، كسى نيك كام ميں نافرمانى نہيں كريں گے_ اگر وہ اس عہد كو پورا كريں گے تو ان كى جزا جنت ہوگى اور اگر عہدشكنى كريں تو ان كا انجام خدا كے ہاتھ ميں ہوگا تاكہ اگر وہ چا ہے تو ان كو مبتلائے عذاب كرے اور اگر چا ہے تو بخش دے_
جب وہ مدينہ لوٹے تو آنحضرت(ص) نے ان كے ساتھ مصعب بن عمير كو بھيجا تاكہ وہ انہيں قرآن اوراسلام كى تعليم دے اور ان ميں دين سے آشنائي پيدا كرے_ لوگ مصعب كو مقرى كے نام سے ياد كرتے تھے_حضور(ص) نے ابن ام مكتوم كو بھى مدينہ بھيجا (1) جيساكہ نقل ہوا ہے_ حضرت مصعب نے مدينہ ميں پہلى بار
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت نبويہ دحلان ج 1ص 151_152ا ور السيرة الحلبية ہ ج 2 ص 9 اس ميں ہے كہ واقدى نے بيان كيا ہے كہ ابن ام مكتوم بدر كے كچھ عرصہ بعد مدينہ آيا، ابن قتيبہ كے كلام ميں وہ بدر كے 2 سال بعد مدينہ ہجرت كركے آيا_ اس كے بعد حلبى نے ان اقوال كو جمع كرنے كى غرض سے يہ احتمال ديا ہے كہ وہ پہلے اہل مدينہ كو پڑھاتا تھا پھر مكہ واپس آگيا اور اس آمدورفت كے بعد وہ بدر كے بعد دوبارہ ہجرت كرگيا يہ ايك قابل قبول احتمال ہے_

247
نماز جمعہ قائم كي_
حضرت مصعب اور ان كے ديگر مسلمان ساتھى تبليغ اسلام ميں كامياب رہے اور حضرت سعد بن معاذ مسلمان ہوگئے جو اپنے قبيلے بنى عمير بن عبدالاشہل كے قبول اسلام كا باعث تھے_ چنانچہ وہ مصعب كے ہاتھوں قبول اسلام كے بعد اپنى قوم كے پاس گئے اور ان سے كہا: ''اے بنى عبدالاشہل تم اپنے درميان ميرى حيثيت كو كيسے پاتے ہو''؟
وہ بولے:'' تم ہمارے سردار ہو، تمہارى رائے ہم سے بہتر ہے، تم اورتمہارا حكم ہمارى بہ نسبت زيادہ با بركت ہے''_
يہ سن كر سعدنے كہا: ''پھر جب تك تم لوگ الله اور رسول(ص) (ص) پر ايمان نہ لے آؤ ، ميںتمہارے مردوں اور عورتوں كے ساتھ گفتگو حرام سمجھوں گا''_
راوى كہتا ہے قسم ہے الله كي، بنى عبد الاشہل كے كسى گھرميں نہ كوئي مرد ايسا رہا نہ عورت جو شام ہونے سے پہلے ہى مسلمان نہ ہوگيا ہو(1)_وہ سب ايك ہى دن ميں مسلمان ہوئے( سوائے عمرو بن ثابت كے جنہوں نے جنگ احد تك اسلام قبول نہ كيا،اس كے بعد مسلمان ہوئے_ كہتے ہيں كہ وہ مسلمان ہونے كے فوراً بعدكوئي سجدہ كرنے (نماز پڑھنے) سے پہلے شہيد ہوگئے مصعب بن عمير لوگوں كو بدستور اسلام كى دعوت ديتے رہے يہاں تك كہ انصار كے مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول كرليا سوائے قبيلہ اوس كے بعض لوگوں كے، جواپنے ايك سردار كى متابعت ميں مسلمان نہيں ہوئے تھے_ يہ سردار ہجرت رسول(ص) كے بعدمسلمان ہوا_(2)
يہ تھا مورخين كا بيان، ليكن ہم چند جگہوں پر اظہار نظر كرنا چاہتے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان تمام باتوں كے لئے ملاحظہ ہو: سيرہ ابن ہشام ج2 ص 79 ، 80 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 14 ، تاريخ الامم و الملوك (طبري) ج2 ص 90 اور السيرة النبويہ ( ابن كثير) ج2 ص 184_
2_ السيرہ النبويہ ( ابن كثير) ج2 ص 184 ، تاريخ الامم والملوك ج2 ص90 ، سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 79 ، 80 نيز سيرہ حلبيہ ج2 حاشيہ ص 14_

248
سعد بن معاذ كى اپنى قوم كو دعوت
خدا كى طرف دعوت دينے كا حكم فقط انبياء اور اوصياء كے ساتھ مختص نہيں بلكہ يہ حكم ہر مكلف كو(اس كى طاقت اور استطاعت كے مطابق) شامل ہے_ يہ ان امور ميں سے ہے جن كا عقل سليم حكم ديتى ہے اور ہر مكلف پر ان كو لازم قرار ديتى ہے_ يہ كام شرعى اجازت كا بھى محتاج نہيں_ كيونكہ عقل سليم اس بات كا باآسانى ادراك كرتى ہے كہ واجبات كا ترك كرنا، برائيوں كا مرتكب ہونا نيز افكار و اعتقادات اور كردار كا انحراف، موجودہ اور آئندہ نسلوں كيلئے عظيم نقصان كا باعث ہيں _اسى لئے صحيح طرزفكر اختيار كرنے، برائيوں سے اجتناب كرنے اور نيك كاموں كو انجام دينے كى دعوت دينے كا حكم ديتى ہے_
خدا كى طرف دعوت دينے كيلئے حضرت سعد كى بے چينى اس حقيقت كو واضح كرتى ہے_ چنانچہ بات يہاں تك پہنچتى ہے كہ سعد اپنى قوم سے كہتے ہيں كہ اگر وہ اپنى گمراہى پر برقرار رہيں تو وہ ان كے ساتھ ہر قسم كا رابطہ منقطع كرديں گے _
اس موقف كى عظمت كا صحيح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم يہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ اس دور ميں ايك عرب شخص كى تقدير اور خوش بختى كس حد تك قبيلے كے ساتھ مربوط تھى نيز فرد اور قبيلے كے درميان كس قدر ربط تھا_
قرآن بھى عقل و فطرت كے اسى حكم كى تائيد كرتا ہے_ اسى لئے قرآن دينى فہم و بصيرت ركھنے والے ہر فرد پر لازم قرار ديتا ہے كہ وہ الله كى طرف دعوت دے_ ارشاد الہى ہے (قل ھذہ سبيلى ادعوا الى الله على بصيرة انا ومن اتبعني) (1) يعنى كہہ ديجئے ميرا راستہ تو يہ ہے_ ميں الله كى طرف بلاتا ہوں_ ميں خود بھى عقل وبصيرت كے ساتھ اپنا راستہ ديكھ رہاہوں اور ميرے ساتھى بھي_
اس بات كى طرف بھى اشارہ ضرورى ہے كہ جو لوگ حق كو پہچان ليتے ہيں اور ايمان كى مٹھاس كو چكھ ليتے ہيں وہ بے اختيار كوشش كرتے ميں كہ دوسرے لوگ بھى حق كى طرف آئيں، اس پر ايمان لے آئيں، اس سے استفادہ كريں اور اس كى شيرينى كو چكھ كر لطف اندوز ہوں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ يوسف، آيت 108_

249
اسى لئے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ حضرت امام زين العابدين عليہ السلام جنہيں اپنے شيعوں كى فكر تھي_ (وہى شيعہ جو امت اسلامى كے برگزيدہ بندے ہيں اوراموى اور اس كے بعد عباسى حكومتوں كے دور ميں مختلف قسم كے مظالم و مصائب كا شكار رہے ) اس بات پر بے چينى كا اظہار فرما رہے ہيں كے شيعہ ان حالات كى نزاكت اور خطرات كو مدنظر نہيں ركھتے آپ مسئلہ امامت كے اظہار كيلئے ان كى بے چينى ديكھ رہے تھے_ يہ بے چينى ايمان كى مٹھاس اور تبليغ كلمہ حق كى ضرورت سے ان كى آشنائي كا نتيجہ تھي_
امام سجاد(ع) فرماتے ہيں، ميں ترجيح ديتا ہوں كہ شيعوں كے درميان موجود دو خصلتوں كو محو كرنے كے بدلے ميرے بازو كا گوشت كاٹ لياجائے _وہ دو خصلتيں يہ ہيں، جلدبازى اور راز دارى كى كمي_ (1)

بيعت
اس بيعت كا متن واضح طور پر اسلامى معاشرے كى بنيادى باتوں اور اہم اصولوں كو شامل ہے _يہ بيعت نظرياتى وعملى دونوں پہلوؤں كى حامل ہے _رسول(ص) خدا نے باہمى روابط سے متعلق معينہ ذمہ دارياں ان پر ڈاليں_ ان ذمہ داريوں كو نبھانے كيلئے ان سے عہدوپيمان ليا تاكہ وہ اس كى مخالفت كو زبان كے احترام وتقدس كے منافى سمجھيں_ يہ عہدوپيمان بيعت كے نام سے عمل ميں آيا جو ان كى طرف سے مذكورہ اصولوں پر كاربند رہنے كا مقدس وعدہ اور عہدوپيمان تھا_
ليكن آپ(ص) نے اس عہد كو توڑنے، بد عہدى كرنے اور دھوكہ دينے والے كيلئے كوئي سخت سزا معين نہيں كى كيونكہ حالات اس كى اجازت نہيں ديتے تھے_ آپ(ص) نے يہ بات ان ميں سے ہر ايك كے ضمير پر چھوڑ دي_ ساتھ ساتھ ان كو نظرياتى اصولوں كى رسى سے بھى باندھ ديا_ نيز خطا كى صورت ميں توبہ و اصلاح كى گنجائشے بھى ركھى تاكہ اگر كوئي شخص خلاف ورزى كرے تو اصلاح سے نااميد نہ ہوجائے بلكہ اس كى اميدباقى رہے_ آپ(ص) نے اس كا انجام خدا كے سپرد كرديا تاكہ وہ جسے چا ہے سزا دے اور جسے چا ہے بخش دے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سفينة البحار ج 1 ص 733 اور بحار ج 75 ص 69و 72 خصال سے ج 1 ص 24 كافى ج 2 ص 221 _

250
نماز جمعہ
اس سے قبل بيان ہوچكا ہے كہ مصعب بن عمير نے ہجرت سے قبل مدينے ميں مسلمانوں كيلئے نماز جمعہ قائم كي(1) بسااوقات يہ اعتراض ہوتا ہے كہ سورہ جمعہ ہجرت كے بعد نازل ہوئي_ پس مصعب نے جمعہ كا حكم نازل ہونے سے پہلے نماز جمعہ كيونكر پڑھائي؟
اس كا جواب يہ ہے كہ لفظ ''جمّع'' (جس كا استعمال مصعب والى روايت ميں ہوا تھا) سے مراد شايد يہ ہو كہ: اس نے نماز جماعت پڑھائي_ ليكن اگر ہم تسليم بھى كرليں كہ اس لفظ (جمع) سے مراد يہ ہے كہ اس نے نماز جمعہ پڑھائي تو اس كے باوجود سورہ جمعہ ميں خدا كا يہ ارشاد (يا ايھا الذين آمنوا اذا نودى للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا الى ذكر الله ) (2) يعنى اے مومنو جب جمعہ كے دن نماز كيلئے ندا دى جائے تو الله كے ذكر كى طرف دوڑو، جمعہ قائم كرنے كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ قائم شدہ نماز جمعہ كى طرف تيزى سے بڑھنے كا حكم ديتا ہے_ بنابريں ممكن ہے نماز جمعہ، سورہ جمعہ كے نزول سے قبل مكہ ميں حضور(ص) كى زبانى واجب ہوئي ہو ليكن وہاں اس كا قيام ممكن نہ ہوا ہو_ يا يہ كہ خفيہ طور پر نماز ہوتى رہى ہو ليكن اس كى خبر ہم تك نہ پہنچى ہو_
اس بات كى تائيد اس ارشاد الہى سے ہوتى ہے ( واذا را وا تجارة او لھوا انفضوا اليھا و تركوك قائما قل ما عند الله خير من اللھو ومن التجارة) (3) يعنى جب انہوں نے تجارت يا كھيل تماشا ہوتے ديكھا تو اس طرف لپك گئے اور تمہيں كھڑا چھوڑ ديا_ ان سے كہو كہ جو الله كے پاس ہے وہ كھيل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے_ يہ آيت اس بات كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ نماز جمعہ اس سے قبل واجب ہوچكى تھى اور يہ كہ ان لوگوں كا رويہ پيغمبر(ص) اسلام كے ساتھ كيسا تھا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو سيرہ حلبيہ ج 2 ص 9 و تعليقہ مغنى ( مطبوعہ حاشيہ سنن دارقطنى ) ج2 ص 5 از طبراني، كتاب '' الكبير '' و ''الاوسط'' ميں_
2_ سورہ جمعہ، آيت 9_
3_سورہ جمعہ، آيت 11_

251
اس دعوت كى تائيد دارقطنى كى اس روايت سے ہوتى ہے جو ابن عباس سے منقول ہے_ وہ كہتے ہيں نبي(ص) نے ہجرت سے پہلے جمعہ كى اجازت دى ليكن آپ(ص) مكہ ميں جمعہ قائم نہ كرسكے پس آپ (ص) نے مصعب بن عمير كو يوں خط لكھا: اما بعد جس دن يہودى لوگ بلند آواز سے زبور پڑھتے ہيں اس دن تم اپنى عورتوں اور بچوں كو جمع كرلو، جمعہ كے دن زوال كے وقت جب دن ڈھلنا شروع ہوجائے تو دو ركعت نماز، تقرب الہى كى نيت سے پڑھو_ابن عباس نے كہا مصعب وہ پہلا شخص تھا جس نے نماز جمعہ قائم كى يہاں تك كہ نبى كريم(ص) مدينہ آئے اور آپ(ص) نے بھى زوال كے بعد نماز جمعہ پڑھى اور اسے آشكار كيا_ (1)
كچھ روايات كى رو سے سب سے پہلے نماز جمعہ قائم كرنے والا اسعد بن زرارہ ہے_ (2)

عقبہ كى دوسرى بيعت
مصعب بن عمير مدينہ سے مكہ لوٹے اور رسول(ص) الله كى خدمت ميں اپنى جدوجہد كے نتائج پيش كئے چنانچہ آنحضرت(ص) كو اس امر سے زبردست مسرت ہوئي_ (3)
بعثت كے تيرہويں سال حج كے ايام ميں اہل مدينہ كاايك بہت بڑا گروہ حج كيلئے آيا جن كى تعداد پانچ سو بھى بتائي جاتى ہے_ (4) ان ميں مشركين بھى تھے اور ايسے مسلمان بھى جو مشرك زائرين سے اپنا ايمان چھپا كر آئے تھے_
ان ميں سے بعض مسلمانوں نے رسول(ص) الله سے ملاقات كي_ آپ(ص) نے ايام تشريق كى درميانى رات عقبہ كے مقام پر (عام لوگوں كے سوجانے كے بعد) ان سے ملاقات كا وعدہ فرمايا_ آپ(ص) نے ان كو حكم ديا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ در المنثور ج 6 ص 218دار قطن سے و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 12_
2_ در المنثور ج 6 ص 218 ابوداود ، ابن ماجہ، ابن حبان، بيہقي، عبد الرزاق، عبد بن حميد اور ابن منذر سے ، وفاء الوفا ج1 ص 236 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 59 و ص 9 اور سنن دارقطنى ج 2 ص 5 ، 6 اور سنن دار قطنى پر مغنى كا حاشيہ ص 5 ( جو سنن كے ساتھ ہى مطبوع ہے )_
3_ بحار ج 19ص 12ميں ہے كہ معصب نے نبى اكرم(ص) كے پاس رپورٹ لكھ بھيجى اعلام الورى ص 59 ميں بھى اسى طرح ہے_
4_ طبقات ابن سعد ج 1 حصہ اوّل1 ص 149 _

252
كہ وہ سونے والوں كو نہ جگائيں اور غيرحاضر افراد كا انتظار نہ كريں_يہاں سے ہميں بيعت كيلئے اس خاص وقت كے انتخاب كى اہميت كا بھى اندازہ ہوجاتا ہے كيونكہ اگر ان كا راز فاش بھى ہوجاتا تو چونكہ وہ حج كرچكے تھے اور شہر سے باہر نكل چكے تھے لہذا (قريش كيلئے) ان پر مؤثر طريقے سے دباؤ ڈالنے كى گنجائشے نہيں تھي_ نيز حضور(ص) كے اس حكم كہ نہ تو وہ سوئے ہوئے لوگوں كو جگائيں اور نہ غير حاضر افراد كا انتظار كريں كى علت بھى معلوم ہوجاتى ہے_ اس كى وجہ يہ تھى كہ دوسرے لوگ ان كى غيرمعمولى حركات كا مشاہدہ نہ كريں اور ان كا راز فاش نہ ہوجائے_
چنانچہ اس رات وہ لوگ اپنے كاروانوں كے ہمراہ سوگئے جب رات كا تہائي حصہ گزرچكا تو يكے بعد ديگرے چھپ چھپاكر اپنى وعدہ گاہ كى طرف سركنے لگے_ يوں كسى كو بھى ان كے چلے جانے كا احساس نہ ہو سكا_ يہاں تك كہ وہ درے ميں گھاٹى كے پاس جمع ہوگئے_ ان ميں سترياتہتر مرد تھے اور دو عورتيں تھيں_
اس مقام پر رسول(ص) الله سے ان كى ملاقات اس گھر ميں ہوئي جس ميں آپ تشريف فرماتھے_ يعنى حضرت عبدالمطلب كے گھرميں_ آپ(ص) كے ساتھ حضرت حمزہ(ع) ، حضرت علي(ع) اورآپ(ص) كے چچا عباس تھے_(1)
مدينہ سے آئے ہوئے ان لوگوں نے اس بات پر آپ(ص) كى بيعت كى كہ وہ آپ(ص) اور آپ(ص) كے گھرانے كى حفاظت اسى طرح كريں گے جس طرح وہ اپنے اور اپنے بال بچوں كى حفاظت كرتے ہيں_ نيز يہ كہ وہ ان كو پناہ ديں گے اوران كى مدد كريں گے _سستى كى حالت ہوياچستى كي، ہر صورت ميں آپ(ص) كى بات پر لبيك كہيں گے اور اطاعت كريں گے_ خوشحالى و تنگدستى دونوں صورتوں ميں مال خرچ كريں گے_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كريں گے ، خدا كيلئے بات كريں گے اور اس سلسلے ميں كسى كى ملامت سے نہ گھبرائيںگے_ (ان باتوں كے نتيجے ميں) عجم ان كا فرمانبردار ہوگا اور وہ حكمرانى كيا كريں گے _
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اعلام الورى ص 59، تفسير قمى ج 1 ص 273، بحار ج 19 ص 12_13 و 47، قصص الانبياء سے، سيرت حلبيہ ج 2 ص 16سيرت نبويہ دحلان ج 1 ص 152_

253
مالك نے عبادہ بن صامت سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے كہا : '' ہم نے ان باتوں پر رسول(ص) الله كى بيعت كى كہ ہم آپ(ص) كى بات مانيں گے اور اطاعت كريں گے خواہ حالات سخت ہوں يا سازگار، خواہ طبيعت ميں سستى ہو يا چستى نيز يہ كہ امر (حكومت) ميں اس كے اہل سے جھگڑا نہ كريں گے_ ہر جگہ حق كى بات پر (يا حق كے ساتھ) قيام كريں گے اور خدا كے معاملے ميں كسى كى ملامت سے نہ گھبرائيں گے''_ (1) سيوطى كہتا ہيں كہ لفظ امر سے اس كى مراد حكومت و سلطنت ہے_ (2)
عباس ابن نضلہ نے خصوصاً رسول(ص) الله كے قول ''عجم تمہارے زيرنگيں ہوں گے اور تم بادشاہى كيا كروگے'' سے مسئلے كى نزاكت كو سمجھا_ اور يہ جان ليا كہ وہ مكہ يا جزيرة العرب كے مشركين سے نہيں بلكہ پورى دنيا كے ساتھ ٹكرلينے كا اقدام كر رہے ہيں_ چنانچہ اس نے چاہا كہ وہ ان لوگوں سے مزيد اطمينان حاصل كرے اور بيعت كرنے والوں كى آنكھيں كھول دے تاكہ وہ سوچ سمجھ كر اقدام كريں اور كسى دن يہ نہ كہيں كہ اگر ہميں علم ہوتا كہ بات يہاں تك پہنچے گى تو ہم بيعت نہ كرتے_
اس لئے اس نے كہا: '' اے اوس اور خزرج والو كيا تم جانتے ہو كہ تمہارے اس اقدام كا مطلب كيا ہے؟ يہ تو عرب و عجم اور دنيا كے تمام حكمرانوں كے ساتھ اعلان جنگ ہے_ اگر تم يہ سمجھتے ہو كہ جب تم پر مصيبت ٹوٹ پڑے تو آپ(ص) كى مد د سے دست بردار ہوجاؤگے تو پھر انہيں دھوكہ نہ دو_ كيونكہ اپنى قوم كى مخالفت كے باوجود رسول(ص) الله كو عزت و تحفظ حاصل ہے''_
يہ سن كر جابر كے باپ عبدالله بن حزام، اسعد بن زرارہ اور ابوالھيثم بن تيھان نے كہا :''تم كہاں سے بات كرنے والے آگئے؟'' پھر كہا:'' اے الله كے رسول(ص) ہمارا خون اور ہمارى جانيں آپ (ص) كے لئے حاضر ہيں_ آپ(ص) اپنے اور اپنے رب كے حق ميں جو بھى شرط ركھنا چاہيں ركھيں''(3)_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الموطاء تنوير الحوالك كے طبع كے ساتھ ج 2 ص 4 ، سير اعلام النبلاء ج2 ص 7 ، مسند احمد ج5 ص 314 و 316 ، سنن نسائي ج7 ص 138 ، 139 ، صحيح بخارى ج4 ص 156، البدايہ والنہايہ ج3 ص 164 ، سيرہ نبويہ ابن ہشام ج2 ص 97 ، دلائل النبوة (بيہقي) ج2 ص 452 مطبوعہ دار الكتب العلميہ ، سيرہ نبويہ ابن كثير ج 2 ص 204 او رصحيح مسلم ج 6 ص 16 و 17 _
2_ تنوير الحوالك ج 2 ص 4 _
3_ ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج19 ص 12 و 13 از اعلام الورى ، دلائل النبوہ ( بيہقي)ج2 ص 450 مطبوعہ دار الكتب العلميہ ، تاريخ الخميس ج1 ص 318 ، سيرہ نبويہ ابن ہشام ج2 ص 88 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 162 ، سيرہ نبويہ ابن كثير ج2 ص 201 نيز سيرہ حلبيہ ج 2 ص 17_

254
يہ بھى كہاجاتا ہے كہ اسعد بن زرارہ نے بيعت عقبہ كے وقت كہا:'' اے رسول(ص) خدا ہر دعوت لوگوں كيلئے سخت اور دشوار تھي_ آپ(ص) نے ہميں دعوت دى كہ ہم اپنے دين كو چھوڑ كر آپ(ص) كا دين اپنائيں يہ ايك سخت مرحلہ تھا_ ليكن ہم نے اس مسئلے ميں آپ(ص) كى بات مان لي_ آپ(ص) نے ہم كو دعوت دى كہ ہم اپنى باہمى حمايتوں اور قرابتوں كو (خواہ وہ قريبى ہوں يا دور كي) قطع كرديں يہ بھى ايك سخت مرحلہ تھا_ ليكن ہم نے آپ(ص) كى بات پر لبيك كہا_ نيز ان حالات ميں جبكہ ہم عزت و حفاظت كے ساتھ زندگى گزار رہے تھے آپ(ص) نے ہميں دعوت دى كہ ہم ايك ايسے اجنبى كى قيادت كو تسليم كريں جسے اس كى قوم نے تنہا چھوڑ ديا تھا اور اس كے چچاؤں نے اسے دشمنوں كے رحم و كرم پر چھوڑ ديا تھا_ يہ بھى ايك كٹھن مرحلہ تھا ليكن ہم نے آپ(ص) كى بات تسليم كرلى ...''_ (1)
علاوہ ازيں يہ بھى كہا گيا ہے كہ عباس بن عبد المطلب بيعت عقبہ كے وقت موجود تھے كيونكہ وہ چاہتے تھے كہ اپنے بھتيجے كے حق ميں مزيد اطمينان اور ضمانت حاصل كرليں چنانچہ عباس نے كہا:'' اے خزرج والو ہمارے نزديك محمد(ص) كا جو مقام ہے وہ تمہيں معلوم ہے_ ہم نے اسے اپنى قوم سے جو ہمارے ہم مذہب ہيں محفوظ ركھا ہے_ بنابريں وہ اپنى قوم كے درميان معزز ہے اور اپنے شہر ميں خوب محفوظ ہے ليكن وہ صرف تمہارے پاس پناہ لينا اور صرف تم سے ملحق ہونا چاہتا ہے_ اگر تمہارا ارادہ يہ ہے، كہ جس مقصد كيلئے ان كو دعوت دے رہے ہو اس ميں اپنے قول پر عمل كروگے اور مخالفين كے مقابلے ميں ان كى حفاظت كروگے تو پھر اس ذمہ دارى كو اٹھاؤ_ ليكن اگر تمہارا يہ خيال ہے كہ انہيں وہاں لے جانے كے بعد دشمن كے حوالے كر كے الگ ہوجاؤگے تو ابھى سے ان كو چھوڑ دينا بہتر ہے كيونكہ وہ يہاں اپنى قوم اور شہر ميں بہرحال محفوظ و معزز ہيں''_
ايك اور روايت كے مطابق عباس نے ان سے كہا:'' محمد(ص) نے تمہارے سوا دوسروں كى بات كو ٹھكرايا ہے پس اگر تم صبر و استقلال، قوت، جنگى مہارت اور پورے عرب جو ايك ہى كمان سے تمہارے خلاف تير
--------------------------------------------------------------------------------
1_ حياة الصحابةج 1 ص 88 دلائل النبوة ابونعيم ص 105سے_

255
چلائيں گے يعنى متحد ہوكر تم سے لٹريں گے، ان كے ساتھ تنہا ٹكر لينے كى قدرت ركھتے ہو تو خوب سوچ لو اور آپس ميں مشورہ كرو''_
انہوں نے اس كا جو جواب ديا اس كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں_ پھر نبى كريم(ص) نے ان سے فرمايا كہ وہ بارہ نقيب چن كر ديں جو كفيل، ضامن اور اپنى قوم كى ضمانت ديں چنانچہ انہوں نے نو نقيب قبيلہ خزرج سے اور تين قبيلہ اوس سے چنے_ يوں يہ حضرات اپنى قوم كے ضامن اور نقيب قرار پائے_
ادھر قريش كو اس اجتماع كا پتہ چلا چنانچہ وہ مشتعل ہوئے اور مسلح ہوكر پہنچ گئے_
رسول(ص) الله نے ان كى آوازسن كر انصار كو وہاں سے چلے جانے كيلئے كہاتو انہوں نے كہا :''اے الله كے رسول(ص) اگر آپ(ص) ہميں حكم ديں كہ ہم اپنى تلواروں كے ساتھ ان كى خبر ليں تو ايسا ہى كريں گے''_ فرمايا: '' مجھے اس بات كا حكم نہيں ہوا اور خدا نے مجھے ان كے ساتھ جنگ كى اجازت نہيں دي''_ وہ بولے:'' اے رسول(ص) خدا پھر كيا آپ(ص) ہمارے ساتھ چليں گے؟ ''فرمايا:'' امر الہى كا انتظار كرو''_
قريش والے سب كے سب مسلح ہوكر آگئے ادھر حضرت حمزہ تلوار ليكر نكلے انكے ساتھ حضرت علي(ع) تھے_ جب مشركين كى نظر حضرت حمزہ(ع) پر پڑى تو بولے : '' يہاںكس لئے جمع ہوئے ہو''؟
حضرت حمزہ نے رسول خدا (ص) مسلمانوں اور اسلام كى حفاظت كے پيش نظراز راہ تقيہ فرمايا:'' ہم كہاں جمع ہوئے، يہاں توكوئي نہيں_ خدا كى قسم جو كوئي اس گھاٹى سے گزرے گا تلوار سے اس كى خبرلوں گا''_
يہ ديكھ كر وہ لوٹ گئے اور صبح كے وقت عبدالله بن ابى كے پاس جاكر كہا:'' ہميں خبر ملى ہے كہ تمہارى قوم نے ہمارے ساتھ جنگ كرنے كيلئے محمد(ص) كى بيعت كى ہے_ خدا كى قسم كسى عرب قبيلے كے ساتھ جنگ ہمارے لئے اس قدر ناپسند نہيں جس قدر تمہارے ساتھہے''_
عبدالله نے قسم كھائي كہ انہوں نے ايسا كوئي اقدام نہيں كيا نہ وہ اس بارے ميں كچھ جانتے ہيں اور نہ ہى انہوں نے اسے اپنے اقدام سے مطلع كيا ہے_ قريش نے اس كى تصديق كي_ يوں انصار وہاں سے چلے گئے اور رسول(ص) الله مكہ لوٹ آئے_
256
ليكن بعد ميں قريش والوں كو اس واقعے كى صحت كا يقين حاصل ہوگيا_ چنانچہ وہ انصار كى تلاش ميں نكلے نتيجتاً وہ سعد بن عبادہ اور منذر بن عمير تك پہنچنے ميں كامياب ہوگئے، منذرنے تو ان كو بے بس كر ديا ليكن سعد كو انہوں نے پكڑ كر سزا دى اس بات كى خبر جبير بن مطعم اور حارث بن حرب بن اميہ كوملى چنانچہ ان دونوں نے آكر اسے چھڑايا كيونكہ وہ ان دونوں كے مال تجارت كى حفاظت كرتا تھا اور اسے لوگوں كى دست درازى سے محفوظ ركھتا تھا_(1)
اپنى گفتگو كا سلسلہ جارى ركھنے سے پہلے ہم بعض نكات كى وضاحت كرنا چاہتے ہيں_ سب سے پہلے جس نكتے كى وضاحت كريں گے وہ يہ ہے:

بيعت عقبہ ميں عباس كا كردار
بعض روايات كى رو سے رسول(ص) خدا كے چچا عباس بيعت عقبہ ميں حضور(ص) كے ساتھ تھے_ اور ان كے علاوہ كوئي آپ(ص) كے ساتھ نہ تھا_ ان لوگوں كا كہنا ہے كہ عباس اگرچہ اس وقت مشرك تھے ليكن وہ اپنے بھتيجے كو درپيش مسئلے ميں حاضررہ كر آپ(ص) كے كام كوپكا كرنا چاہتے تھے ہم اس سلسلے ميں ابن عباس سے منسوب قول نقل كرچكے ہيں_
ليكن ہمارى نظر ميں يہ مسئلہ مشكوك ہے كيونكہ:
(الف) عباس سے منسوب كلام ميں واضح طور پر نبى كريم(ص) كى مدد سے ہاتھ كھينچنے كى ترغيب دى گئي ہے_ عباس كے مذكورہ كلام سے رسول(ص) الله كى تقويت نہيں ہوتى جيساكہ ان لوگوں كا دعوى ہے خاص كر عباس كا يہ كہنا اگر پورے عرب (جو ايك ہى كمان سے تمہارى طرف تير اندازى كريں گے) سے اكيلے ٹكر لينے كى طاقت ركھتے ہو ...اس بات كو واضح كرتا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان تمام واقعات كے سلسلے ميں جس تاريخى يا حديثى كتاب كا چاہيں مطالعہ فرماسكتے ہيں ، بطور مثال : بحار الانوار ج 19 ص 12 و 13، اعلام الورى ص 57 ، تفسير قمى ج1 ص 272، 273 ، تاريخ الخميس ج1 318 ، 319 دلائل النبوة ( بيہقي) مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج2 ص 450 ، البدايہ والنہايہ ج 3 ص 158 ، سيرہ نبويہ ابن كثير ج2 ص 193 تا 210 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 17 اور اس سے ماقبل و ما بعد نيز سيرہ نبويہ ابن ہشام ج2 ص 88 اور ماقبل و ما بعد و ديگر كتب_

257
(ب) عباس كے كلام ميں خلاف حقيقت نكات موجودہيں خصوصاً ان كا يہ كہنا كہ محمد(ص) نے تمہارے سوا دوسروں كى بات كو ٹھكرايا ہے كيونكہ اس كلام كا مطلب يہ ہے كہ انصار كے علاوہ ديگر سب لوگوں نے گويا بنى كريم(ص) كى موافقت كى تھى اور آپ(ص) كى حمايت پر آمادہ ہوئے تھے ليكن آپ(ص) نے ان كى حمايت كو ٹھكرا ديا تھا حالانكہ حقيقت اس كے بالكل بر عكس ہے_ البتہ صرف بنى شيبان بن ثعلبہ عربوں كے مقابلے ميں آپ(ص) كى حمايت پر راضى ہوئے تھے ليكن ايرانيوں كے مقابلے ميں نہيں_ ظاہر ہے كہ ''الناس كلہم'' سے مراد فقط بنى شيبان نہيں ہوسكتے_ رہا يہ احتمال كہ شايد اس سے مراد آپ(ص) كے رشتہ دارہوں تو جيساكہ ملاحظہ ہوا كہ يہ بات مذكورہ تعبير ''الناس كلہم'' (يعنى سارے لوگ) كے ساتھ سازگار نہيں_ اگر كوئي يہ احتمال دے كہ شايد عباس كى عبارت ''ابى محمد ًالناس'' (محمد(ص) نے سارے لوگوں كى بات ٹھكرادى )كى بجائے ''ابى محمداً الناس'' (لوگوں نے محمد(ص) كى بات نہ ماني) تھي_ تو اس كا جواب يہ ہے كہ اس احتمال كى صحت پر كوئي دليل نہيں كيونكہ ہمارے سامنے موجود الفاظ اس كے برعكس ہيں_
(ج) اس وقت تك مدينے كى طرف ہجرت كى بات ہى نہيں چلى تھى اور رسول(ص) الله كو مسلمانوں كے دارہجرت كى نشاندہى نہ كى گئي تھى اور نہ آپ(ص) نے اپنے ارادے كے بارے ميں انہيں كچھ بتايا تھا_ پھر عباس كو كيسے پتہ چلا كہ نبى كريم(ص) مدينہ كى طرف ہجرت كرنے والے ہيں؟ كيا اس سلسلے ميں عباس پر كوئي وحى اترى تھي؟ اس كى وجہ ہمارى سمجھ ميں تو نہيں آتي_ ہاں ہم خود عباس كى زبانى ان كا يہ قول پڑھتے ہيں'' محمد(ص) نے تو بس تمہارے پاس پناہ لينے اور تم سے ملحق ہونے كا ارادہ كيا ہے''_ پھركہتے ہيں ''اگر تم يہ سمجھتے ہو كہ اپنے پاس لے جانے كے بعد اس كو دشمن كے حوالے كر كے خود الگ ہوجاؤ گے تو پھر ابھى سے اس كا ساتھ نہ دو ...''
(د) عباس نے جو كچھ كہا وہ تو فقط ايك مسلمان اور پكا مومن ہى كہہ سكتا ہے اور عباس تو ابھى تك مسلمان بھى نہيں ہوئے تھے بلكہ وہ جنگ بدر تك كفر پر باقى رہے اور بدر ميں رسول(ص) الله كے ساتھ جنگ كرنے آئے البتہ مجبورى كے تحت_ پھر وہ مسلمان ہوئے جس كا آئندہ ذكر ہوگا بلكہ آگے چل كر عرض كريں گے كہ وہ فتح مكہ تك مسلمان نہيں ہوئے تھے _
258
يہاں ہم اس احتمال كو ترجيح ديتے يں كہ جس شخص نے رسول(ص) الله كے حق ميں بيعت كى گرہ مضبوط كرنے كيلئے بات كى تھى وہ عباس بن نضلہ انصارى تھا (1) نہ كہ عباس بن عبدالمطلب_ اس لئے كہ ہم ملاحظہ كرتے ہيں كہ ان دونوں سے منسوب اور منقول جملوں ميںبہت حد تك قدر شباہت موجود ہے_
پس شايد راوى كو عباس بن عبدالمطلب اور عباس بن نضلہ كے درميان ناموں كى شباہت كے باعث اشتباہ ہوا ہوگا اور يہ بھى ممكن ہے كہ بنى عباس نے مخصوص مفادات كے پيش نظراپنے جدامجد كيلئے ايك بڑى فضيلت ثابت كرنے كى كوشش كى ہو وغيرہ وغيرہ_

حضرت ابوبكر عقبہ ميں
بعض خلاف مشہور روايات كے مطابق حضرت ابوبكر عقبہ ميں موجود تھے اور عباس نے ان كو درے كے دھانے پر ركھا تھا_
ہم اس قول كے بطلان كو ثابت كرنے كيلئے زيادہ گفتگو نہيں كريں گے كيونكہ ديگر روايات صاف صاف كہتى ہيں كہ وہاں سوائے ان افراد كے جن كا ہم نے ذكر كيا يعنى حضرت حمزہ، حضرت علي(ع) اور عباس، كے علاوہ اور كوئي موجود نہ تھا حالانكہ خود مؤخر الذكر كى موجودگى بھى مشكوك ہے اور يہ كہ جب قريش كو اس اجتماع كاعلم ہوا تو طيش ميں آئے پھر جب وہ مسلح ہوكر پہنچے تو حضرت حمزہ اور حضرت علي(ع) درے كے دھانے تك آئے تھے_ گذشتہ بيانات كى روشنى ميں يہ واقعہ اس اجتماع كے آخرى لمحات ميں پيش آيا_

حضرت حمزہ اور حضرت على (ع) عقبہ ميں
بيعت عقبہ كے موقع پر حضرت حمزہ اور حضرت علي(ع) كى موجودگى كے بارے ميں جو كچھ نقل ہوا ہے اس كى تائيد عبدالمطلب كے گھر ميں ہى اس اجتماع كے انعقاد سے ہوتى ہے_ خصوصاً وہاں تو ان دونوں كى ضرورت بھى تھى تاكہ وہ قريش اور اس كى خود پسندى اور جبر وتعدى كے مقابلے ميں اس حيرت انگيز اور مردانہ كاركردگي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 2 ص 271، بحار ج 19، السيرة الحلبية ج 2 ص 17، السيرة النبوية دحلان ج 1 ص 153 _

259
كا مظاہرہ كرتے_ قريش كو درے ميں داخل ہونے سے روكتے اور اس اجتماع كے شركاء كو وہاں سے كھسك جانے كا موقع ديتے_ (1) چنانچہ جب قريش اس كے بعد درے ميں داخل ہوئے تو وہاں كسى كو نہ پايا_ نتيجتاً وہ عبدالله بن ابى كے پاس شكايت لے گئے ليكن اس نے انكار كيا_ پس اگر ان دونوں كى وہ كاركردگى نہ ہوتى تو حالات كوئي اور شكل اختيار كرليتے اور مسلمان ايك نہايت خطرناك مصيبت ميں پھنس جاتے_
عجيب بات يہ ہے كہ ہم بعض ايسى روايات بھى ديكھتے ہيں جن ميں حضرت علي(ع) نيز اللہ اور رسول(ص) كے شير يعنى حمزہ(ع) كى موجودگى كا تذكرہ نہيں ہے جبكہ يہى روايات قريش كے اكٹھے ہونے اور ان كے مشتعل ہونے كا تذكرہ كرتى ہيں ليكن درے كى طرف قريش كى يورش اور حضرت حمزہ(ع) و حضرت علي(ع) كى طرف سے مدافعت كے بارے ميں خاموش ہيں_ يہ روايات قريش كى طرف سے عبدالله بن ابى سے ملاقات، مسلمانوں كے تعاقب اور سعد بن عبادہ كى گرفتارى نيز مذكورہ واقعے كے آخر تك نقل كرنے پرہى اكتفا كرتى ہيں_
يہ لوگ اس حقيقت كو بھول گئے ہيں كہ وہ قريش جنہيں شركاء اجتماع كے جانے كے بعدجب اس اجتماع كا علم ہوا تھا تو انہوں نے مشتعل ہوكر عبدالله بن ابى سے ملاقات كى اور اس نے انكار كيا پھر جب حاجيوں كے جانے كے بعد قريش كو اس واقعے كا يقين ہوگيا تو انہوں نے مسلمانوں كا پيچھا كر كے ان كو پاليا اورسعد بن عبادہ كو اذيتيں ديں تو پھر يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ اس جائے اجتماع پر دھاوا بولنے اور انصار كو نبى كريم(ص) كے ساتھ رنگے ہاتھوں پكڑنے سے چشم پوشى كرتے ،كيونكہ اس اقدام سے قريش كو اپنى عذر خواہى كيلئے ايك اچھا بہانہ مل سكتا تھا_ پھر يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ قريش يہاں توخاموشى اختيار كرليں ليكن وہاں غيظ و غضب اورسخت گيرى كا مظاہرہ كريں_
بہرحال ہم اس ٹولے كے ہاتھوں معمولى دنيوى مفادات كى خاطر حق اور دين كے خلاف اس قسم كى بہت
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بعض حضرات يہ احتمال ديتے ہيں كہ سارے قريش نہيں بلكہ ان كے معدودے سر پھروں نے گھاٹى ميں گھسنے كى كوشش كى تھى اور حضرت حمزہ(ع) و حضرت علي(ع) نے ان كا راستہ روكا تھا ليكن ہم يہ كہتے ہيں كہ كيا فرق پڑتا ہے كہ سارے قريشى جمع ہوئے ہوں ليكن حضرت حمزہ(ع) اور حضرت علي(ع) نے مسلمانوں كے چلے جانے تك ان كا راستہ روكے ركھا ہو_

260
سارى خيانتوں كا مشاہدہ كرنے كے عادى ہوگئے ہيں_ يہ ضرب المثل كس قدر سچى ہے كہ ''لامر ما جدع قصير انفہ'' (قصير نامى شخص نے كسى كام كے واسطے اپنى ہى ناك كاٹ دى يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بعض لوگ حصول غرض كى خاطر ہرقسم كا وسيلہ استعمال كرتے ہيں)_
ممكن ہے كوئي يہ سوال كرے كہ فقط دو افراد كا قريش كے مقابلے ميں كھڑے ہوكر ان كو پيچھے ہٹا دينا كيسے ممكن ہے؟ جبكہ ان كا غيظ و غصب نقطہ عروج پر تھا_
اس كا جواب يہ ہے كہ قريش كى سازش كا جواب دينے كيلئے ايك شخص بھى كافى تھا_ وہ اس طرح كہ ايك يا دو آدمى درے كے دھانے پر كھڑے ہوجاتے (جہاں سے فقط چند افراد يا چھوٹى چھوٹى ٹوليوں كا گزرنا ہى ممكن تھا) يوں پہلى ٹولى كو پسپا كر كے باقيوں كو بھى پيچھے ہٹايا جاسكتا تھا چنانچہ عمرو بن عبدود (جو حضرت علي(ع) كے ہاتھوں قتل ہوا) كے بارے ميں كہا جاتا تھا كہ وہ ہزار شہسواروں كا مقابلہ كرنے كيلئے كافى تھا_ اس كى وجہ يہ تھى كہ اس نے درے كے دھانے پر كھڑے ہوكر ہزار سواروں كو اس ميں داخل ہونے سے روكا تھا كيونكہ جگہ كى تنگى كے باعث ہزار آدمى ايك ساتھ داخل نہيں ہوسكتے تھے_

ملاقات كو خفيہ ركھنے كى وجہ
اس ملاقات كو خفيہ ركھنے پر خاص توجہ دى گئي يہاں تك كہ جو لوگ مسلمانوں كے ساتھ كاروانوں ميں سوئے ہوئے تھے ان كو بھى كوئي بھنك نہ پڑسكى اور انہيں اپنے ساتھيوں كى عدم موجودگى كا احساس بھى نہ ہوا_ يہى حال اس اجتماع كے وقت، مقام اور طريقہ كار كا بھى تھا_ حالانكہ يہ ايك نسبتاً بڑا اجتماع تھا اور يہ باتيں ان مسلمانوں كى آگاہي، بيدارى اور حسن تدبير كى عمدہ مثال اور مضبوط دليل ہيں_
علاوہ برايں يہ اس بات كى بھى علامت ہے كہ جب مسلمان ظالم اور جابر طاقتوں كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنے كى پوزيشن ميں نہ ہوں تو اس وقت مخفيانہ طرز عمل اپنانا شكست اور پسپائي نہيں_يہاں سے يہ بھى ثابت ہوتا ہے كہ تقيہ (جس كے معتقد شيعہ اور اہلبيت معصومين(ص) ہيں اور جس كا قرآن نے حكم ديا ہے نيز جو

261
فطرت اور عقل سليم كا بھى تقاضا ہے) ہى حالات كے مقابلے ميں آگاہانہ اور لچك دار روش اپنا نے كا صحيح طريقہ كارہے_ يہ اس صورت ميں ہے كہ جب اہل باطل مادى طور پرطاقتورہوں اور اہل حق اپنا دفاع كرنے پر قادر نہ ہوں_

بيعت كى شرائط
يہاں ہم اس بات كا مشاہدہ كرسكتے ہيں كہ رسول(ص) الله نے انہيں اسلام كى تبليغ اور حفاظت كى راہ ميں آئندہ پيش آنے والى مشكلات اور سختيوں كے بارے ميں خبردار كيا تاكہ وہ لوگ شروع سے ہى آگاہ رہيں اور بغير كسى ابہام يا شك كے آگاہى و بيدارى كے ساتھ اقدام كريں تاكہ كل ان كيلئے اس قسم كے بہانے كى كوئي گنجائشے نہ رہے كہ وہ نہيں جانتے تھے كے حالات اس قدر سنگين صورت اختيار كرجائيں گے_
حضور اكرم(ص) لوگوں كے وہم و گمان سے مكمل طور پر اس بات كونكال باہر كرنا چاہتے تھے كہ آپ(ص) نے خدا نخواستہ ان كے ساتھ كوئي دھوكہ كيا ہو_ نيز آنحضرت(ص) ان ميں سے ہر ايك كو يہ بتانا چاہتے تھے كہ آپ(ص) سبز باغ دكھا كر كسى كو بھى پھنسانے كا ارادہ نہيں ركھتے اور نہ ہى خوبصورت خوابوں اور اميدوں كى خيالى دنيا ميں بسانا چاہتے ہيں كيونكہ آپ(ص) كے نزديك وسيلہ ہدف كا ہى ايك حصہ تھااگرچہ آپ(ص) ان كى مدد كے سخت محتاج تھے بلكہ آپ(ص) نے تو اپنى دعوت كے پورے عرصے ميں ان لوگوں كے سوا كسى قوم كو اپنا حامى نہيں پايا تھا_

نقيبوں كى كيا ضرورت تھي؟
وعدے اور عہد كى پابندى عربوں كى طبيعت ميں شامل تھى ہر قبيلہ اپنے كسى فرد يا حليف كے عہد وپيمان كو پورا كرنے كا اپنے آپ كو ذمہ دار سمجھتا تھا_
جب نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے انصار سے ايمان لانے اور آپ(ص) كى حمايت كرنے پر بيعت لى (جيساكہ بيان ہوچكا ہے) تو آپ نے ايك محدود پيمانے پر ان كو (اس بيعت كا) پابند بنانے كا ارادہ فرمايا

262
تاكہ مستقبل ميں كچھ ايسے ذمہ دار افراد موجود ہوں جن سے آپ(ص) اس عہد و پيمان كو پورا كرنے كا مطالبہ كرسكيں_ ان وعدوں كو پورا كرنے كى ذمہ دارى انہى نقيبوں پر آتى تھى اور انہى سے مذكورہ مطالبہ كيا جاسكتا تھا_ كيونكہ يہى لوگ اپنى اور اپنى قوم كى مرضى سے ان كے ضامن بنے تھے_
ليكن اگر رسول(ص) خدا ان امور كو حالات كے رحم و كرم پر چھوڑ ديتے تو ممكن تھا كہ ہر شخص اپنى ذمہ داريوں اور وعدوں سے جان چھڑاتا اور نتائج كى ذمہ دارى دوسروں پر ڈال كر اپنے آپ كو ان سے برى سمجھتا اور يہ خيال كرتا كہ انفرادى حيثيت سے اس پر كوئي ذمہ دارى عائد نہيں ہوتي_
ليكن جب بعض افراد ضامن بن گئے (جن كا تعلق مختلف قبائل سے تھا) تو ذمہ داريوں كا دائرہ بھى معين اور مشخص ہوگيا اور يہ بات ممكن ہوگئي كہ ضرورت كے موقع پر بالخصوص جنگ يا دفاع كى صورت ميں ان سے عہد كو پورا كرنے كا مطالبہ كيا جاسكے_
يوں اس مسئلے كو لوگوں كى انفرادى خواہشات بلكہ اس سے بھى اہم مسئلہ يعنى اجتماعى مسائل ميں افراتفرى اور بے نظمى سے نجات مل گئي_ يوں انفرادى و اجتماعى سطح پر معاشرے كو بنانے اور منظم كرنے كا مرحلہ شروع ہوا_

مشركين كا ردعمل
ہم يہاں مشاہدہ كرتے ہيں كہ مشركين نے عقبہ كى دوسرى بيعت كے مسئلے كو زبردست اہميت دي_ يہاں تك كہ انہوں نے مدينہ والوں كو داخلى كمزورى اور اوس اور خزرج كے درميان خانہ جنگيوں كے باعث پيدا شدہ خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہيں جنگ كى دھمكى دي_
جى ہاں قريش نے ان كو جنگ كى دھمكى دى حالانكہ اس قسم كى جنگ ان كيلئے زبردست اقتصادى نقصانات كا باعث بنتى كيونكہ شام (جو قريش كيلئے بہترين تجارتى منڈى تھا) كى طرف ان كے تجارتى قافلے مدينہ كے راستے سے گزرتے تھے_ اس كا مطلب يہ تھا كہ مشركين كو اس بيعت سے زبردست خطرہ لاحق ہوگيا تھا جس

263
كے باعث وہ دعوت اسلامى كو قبول كرنے اور اس كى حمايت كرنے والوں كے ساتھ اپنے دوستانہ روابط كو بھى قربان كرنے پر مجبور ہوچكے تھے اگرچہ وہ اہل مدينہ ہى كيوں نہ ہوں جن كے ساتھ جنگ سے وہ زبردست كتراتے تھے_ چنانچہ عبدالله بن ابى سے اس سلسلے ميں ان كى گفتگو كا ذكر پہلے ہوچكا ہے_ يہاں سے اس بات كى بھى نشاندہى ہوتى ہے كہ مكہ ہيں رہنے والے مسلمان ظلم و ستم كى چكى ميں كس طرح پس رہے تھے_

خلافت كے اہل افراد كى مخالفت
جيساكہ پہلے بيان ہوچكا ہے كہ رسول(ص) الله نے بيعت كے متن ميں اہل مدينہ كيلئے جو شرائط ركھى تھيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ مدينہ والے مسئلہ خلافت ميں اس كے اہل سے نزاع نہيں كريں گے_
بيعت كے متن ميں اس شرط كا ركھنا فتح و شكست كے نقطہ نظر سے اسلام كيلئے تقدير ساز تھا اور اس شرط كو نبھانے سے انكار كى صورت ميں پورى بيعت سے نكل جانے كا خطرہ تھا چنانچہ بنى عامر كے مسئلے ميں يہى ہوا تھا (جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا ہے)_ معلوم ہوتا ہے كہ يہ مسئلہ رسول(ص) الله كى نظر ميں(جن كا نظريہ اسلام كے حقيقى نظريات كاترجمان تھا)، نہايت اہميت كا حامل تھا اور آپ(ص) اس بارے ميں كسى قسم كى رو رعايت كيلئے ہرگز آمادہ نہ تھے اگرچہ عظيم ترين خطرات سے دوچار ہى كيوں نہ ہوں_ بالفاظ ديگر مسئلہ خلافت آپ(ص) كے اختيار ميں نہ تھا بلكہ خدا كے اختيار ميں تھا تاكہ جسے مناسب سمجھتا خلافت سے سرفراز كرتا_ يہ وہ امر تھا جس كو پہنچائے بغير تبليغ رسالت بے معنى ہوكررہ جاتي_
اس كے علاوہ ہم يہ نتيجہ بھى اخذ كرسكتے ہيں كہ رسول(ص) الله ابتدا سے ہى ايك خاص اور معينہ ہدف كيلئے راستہ ہموار كررہے تھے وگرنہ يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ آپ(ص) ايك طرف سے تو لوگوں كو حكومت و خلافت كے مستحق معينہ افراد سے نزاع نہ كرنے كا حكم ديں ليكن دوسرى طرف سے اس مخصوص خليفہ كى نشاندہى بھول جائيں_
يہاں اس واقعے كى كڑى كوپہلے ذكر شدہ دعوت ذوالعشيرہ، (جب حضور(ص) نے اپنے قريبى رشتہ داروں كو عذاب الہى سے ڈراتے وقت مذكورہ شخص كى نشاندہى كى تھي) كے واقعے سے ملانااور پھر اس واقعے كو پيغمبر(ص)

264
كى ان پاليسيوں، بيانات اور اشارات خصوصاً غدير كے واقعہ كے ساتھ جوڑنا ضرورى معلوم ہوتا ہے جن كا ذكر بعد ميں ہوگا_

ابھى تك جنگ كا حكم نازل نہيں ہوا تھا
ايك اور نكتہ كى طرف بھى توجہ ضرور رہے وہ يہ كہ رسول(ص) الله نے عقبہ ميں جمع ہونے والوں كو تلواروں كے ساتھ قريش كا مقابلہ كرنے كى اجازت نہيں دى كيونكہ اس اقدام كا مطلب اس دين اور اس كے مومن طرف داروں كا خاتمہ تھا_ خصوصاً ان كى قلت اور ايام حج كے پيش نظر جب لوگ ہر طرف سے مكہ ميں جمع ہوئے تھے اور وہ سب قريش كے طريقہ و مسلك و مزاج پرتھے نيز ديني، نظرياتى اور فكرى نقطہ نظر سے قريش كے تابع تھے_ يہاں تك كہ ان كے مفادات بھى قريش سے وابستہ تھے_ ان حالات ميں انصار كيلئے اپنے دشمنوں پر خود ان كے علاقے ميں فتح حاصل كرنے كا كوئي راستہ نہ تھا_
قريش كى نظر ميں مدينہ كى بڑى اہميت تھى خاص كر اس لحاظ سے كہ مدينہ شام كى طرف جانے والے قريش كے تجارتى قافلوں كى اہم گزرگاہ تھي_ اسى وجہ سے انہوں نے سعد بن عبادہ كو رہا كيا تھا ليكن يہى قريش انصاركے اس موقف پر خاموش نہ رہ سكتے تھے يوں قريش كے سامنے سوائے اس كے كوئي چارہ نہ رہتا كہ تمام حاجيوں حتى مدينہ كے مشركين كى موجودگى ميں انصار پرفيصلہ كن اور مہلك وار كرتے كيونكہ جنگ كرنے كى صورت ميں انصار متجاوز محسوب ہوتے اور قريش كيلئے اپنى صوابديد كے مطابق مناسب كيفيت اور كميت كے ساتھ اس تجاوز كا مقابلہ كرنا ضرورى ہوتا_