الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
102
تيسرى فصل
شعب ا بوطالب تك كے حالات


103
حضرت حمزہ(ع) كے قبول اسلام كى تاريخ ميں اختلاف
كہتے ہيں كہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے بعثت كے دوسرے سال اسلام قبول كيا، كبھى يہ كہتے ہيں كہ ارقم كے گھر ميں حضوراكرم(ص) كے تشريف فرما ہونے كے بعد مسلمان ہوئے_ يہ دونوں باتيں آپس ميں منافات ركھتى ہيں كيونكہ حضور اكرم(ص) بعثت كے تيسرے سال كے اواخر ميں ارقم كے گھر تشريف لے گئے تھے_ يہ بھى كہا جاتا ہے كہ حضرت حمزہ عمر سے تين روز قبل مسلمان ہوئے جبكہ يہ بھى كہتے ہيں كہ وہ بعثت كے چھٹے سال مسلمان ہوئے جب آپ (ص) ارقم كے گھر سے نكلے_ اور اس ميں بھى واضح تضاد پايا جاتا ہے كيونكہ آنحضرت(ص) بعثت كے تيسرے سال كے اواخر ميں صرف ايك ماہ كيلئے حضرت ارقم كے گھر ميں رہے (جيساكہ كہا گيا ہے ...اور آئندہ اس كا بھى ذكرہوگاكہ حضرت عمر حضرت حمزہ كے اسلام لانے كے كئي سال بعد اسلام لائے)_

حضرت حمزہ كا قبول اسلام
ابن ہشام اور دوسروں نے ذكر كيا ہے كہ انہوں نے ہجرت حبشہ كے بعد اسلام قبول كيا يعنى بعثت كے تقريبا چھٹے سال_ ہم بھى اسى قول كو ترجيح ديتے ہيں كيونكہ جب وہ مسلمان ہوئے تو (جيساكہ مقدسى كہتا ہے) رسول(ص) الله اور مسلمانوں كو تقويت حاصل ہوئي_ يہ بات مشركين پر گراں گزرى چنانچہ انہوں نے عداوت اوردورى اختيار كرنے كے بجائے دوسرى راہ اختيار كى اور آپ(ص) كو مال و انعام كى لالچ دينے لگے_
104 انہوں نے آپ(ص) كو حسين لڑكيوں سے شاديوں كى بھى پيشكش كي_ (1) يہ پيشكش ہجرت حبشہ كے بعد كى بات ہے جيساكہ سيرت ابن ہشام سے ظاہر ہے _نيز حضرت حمزہ اعلانيہ دعوت شروع ہونے كے بعد مسلمان ہوئے جب حضرت ابوطالب اور قريش كے درميان مذاكرات كى ناكامى كے بعد قريش نے دشمنى اور ايذا رسانى كا راستہ اپنايا_
بہرحال حضرت حمزہ كا قبول اسلام ايك سنگ ميل كى صورت اختيار كرگيا جس كے بارے ميں قريش نے سوچا بھى نہ تھا _اس واقعے سے حالات كى كايا پلٹ گئي اور قريش كى قوت پركارى ضرب لگي_ ان كے خطرات ميں اضافہ ہوا اوران كى سركشى ومنہ زورى كو لگام لگ گئي(2)_
ايك دفعہ ابوجہل كوہ صفا كے پاس رسول(ص) الله كے نزديك سے گزرا ،اس نے آپ(ص) كو اذيت دى اور آپ(ص) كو برا بھلا كہا ، نيز اسلام كى عيب جوئي اور امر رسالت كى برائي كرتے ہوئے آپ(ص) كى شان ميں گستاخى كي_ حضور اكرم(ص) نے اس سے كوئي بات نہيں كي_
حضرت حمزہ(ع) شكارى تھے شكار سے لوٹتے تو پہلے خانہ كعبہ جاكر طواف كيا كرتے اور وہاں موجود افراد سے سلام وكلام كرتے اور پھر گھر لوٹتے تھے_ اس دفعہ حضرت حمزہ(ع) شكار سے لوٹے ہى تھے كہ ايك عورت نے ابوجہل كى طرف سے رسول اكرم(ص) كى بے ادبى كے بارے ميں انہيں بتايا_ حضرت حمزہ غضبناك ہوكر سيدھے مسجد الحرام آئے تو انہوں نے ابوجہل كو لوگوں كے ساتھ بيٹھے پايا _وہ اس كى طرف بڑھے ، جب قريب پہنچے تو اپنى كمان اٹھائي اور زور سے اس كے سر پردے مارى جس سے ابوجہل كا سر پھٹ گيا _پھر انہوں نے كہا اے ابوجہل كياتم اس شخص كى ملامت كرتے ہو؟ لو ميں اس كے دين پرہوں اور وہى كہتا ہوں جو وہ كہتا ہے، اگر تم ميں طاقت ہے تو آؤ ميرا مقابلہ كرو_ان باتوں سے قبل ابوجہل نے ان كے سامنے عاجزى دكھائي اور گڑ گڑانے لگا ليكن انہوں نے قبول نہ كيا _بنى مخزوم كے افراد ابوجہل كى حمايت كيلئے كھڑے ہوگئے اور حضرت حمزہ سے كہا:'' ہم ديكھتے ہيں كہ تم نے اپنا دين بدل ديا ہے'' _حضرت حمزہ نے كہا: '' كيوں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البدء و التاريخ ج4ص 148_149 اور يہى بات سيرت ابن ہشام سے بھى ظاہر ہے جس نے حضرت حمزہ كے قبول اسلام كا ذكر كرنے كے بعد ان امور كا بھى تذكرہ كيا ہے_
2_ ملاحظہ ہو : كنز العمال ج 14 ص 48 ابن عساكر اور بيہقى كى الدلائل النبوة سے_

105
نہ بدلوں ميں نے مشاہدہ كيا ہے كہ وہ الله كے رسول ہيں_اور ان كا قول حق ہے_ خدا كى قسم ميں اس دين سے بازنہيں آؤں گا اگر تم سچے ہوتو مجھے روك كر ديكھو''_
ابوجہل نے كہا: '' ابوعمارہ (حمزہ) كومت چھيڑو كيونكہ واقعاً ميں نے اس كے بھتيجے كو ناروا گالى دى تھي''_ مقدسى كہتا ہے كہ جب حضرت حمزہ مسلمان ہوئے تو اس سے اسلام اور مسلمانوں كى حيثيت مضبوط ہوئي (1) اور نبى كريم(ص) كو نہايت خوشى ہوئي_
قريش نے ديكھا كہ رسول(ص) الله قوت پكڑ گئے ہيں، بنابريں آپ كو گالى گلوچ دينے سے باز آگئے_ حضرت حمزہ نے رسول(ص) الله سے عرض كيا: '' بھتيجے اپنے دين كا كھلم كھلا پرچار كرو، خدا كى قسم مجھے يہ منظور نہيں كہ ميں اپنے سابقہ دين پر باقى رہوں خواہ مجھے پورى دنيا ہى كيوں نہ مل جائے'' (2)_ حضرت حمزہ كو قريش كے تمام جوانوں پر برترى حاصل تھى اور وہ سب سے زيادہ غيور تھے_(3)

حمزہ كا قبول اسلام جذباتى فيصلہ نہ تھا
بظاہربلكہ حقيقت ميں بھى انہوں نے اسلام كو معرفت كے ساتھ قبول كيا تھا _كيونكہ آپ كے مذكورہ قول (كہ ميرے لئے واضح ہوگيا ہے كہ وہ الله كے رسول(ص) ہيں اور ان كا قول حق ہے) سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے فقط جذبات سے مغلوب ہوكر اسلام قبول نہيں كيا تھا بلكہ انہوں نے رسول(ص) الله كے اقوال وكردار كے قريبى مشاہدے كى بنا پر پہلے سے ہى اطمينان حاصل كرليا تھا_
ان كا يہ كہنا كہ كيا تم اس كو برا بھلا كہتے ہو جبكہ ميں بھى اس كے دين پر ہوں اس بات كا واضح طور پرشاہد ہے كہ وہ پہلے سے ہى اسلام كو قبول كرچكے تھے ليكن حالات كے پيش نظراسے پوشيدہ ركھ رہے تھے تاكہ يوں وہ مسلمانوں اوراسلام كى بہتر حمايت كرسكيں ،كيونكہ مسلمان قريش كا مقابلہ كرنے كى پوزيشن ميں نہ تھے اور
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البدء و التاريخ ج 5 ص 98_
2_ ملاحظہ ہو : تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 72و ص 73اور السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 312_
3_ ملاحظہ ہو : تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 72_

106
كتنے ہى لوگ ايسے تھے جنہيں مزيد روحانى تربيت كى ضرورت تھى تاكہ وہ مشركين كے مقابلے ميں ان مشكل حالات سے عہدہ بر آہوسكتے_

ابوجہل نے بزدلى كيوں دكھائي؟
يہاں اس بات كى ياد دہانى ضرورى ہے كہ مشركين كاسرغنہ ابوجہل اس دن اپنے قبيلہ والوں كے ساتھ موجود تھا اور انہوں نے اس كى حمايت كيلئے آمادگى بھى ظاہركى تھى ليكن اس كے باوجود ابوجہل نے خدا اور رسول(ص) خدا كے شير كا سامنا كرنے ميں عاجزى اوربزدلى دكھائي_ اس كى ايك وجہ يہ تھى كہ وہ حضرت حمزہ كى مردانگي، قوت، غيرت اور شجاعت سے آگاہ تھا_وہ حضرت حمزہ كے عزم وارادے اور عقيدے كى راہ ميں جذبہ قربانى كا مشاہدہ كررہا تھا_
دوسرى طرف سے اسے تو فقط رسول(ص) الله سے دشمنى تھى اوراس كى وجہ حب دنيا اور اپنے مفادات كى حفاظت تھى اور وہ موت كا طلبكار نہ تھا ،بلكہ موت سے بچنا چاہتا تھا _وہ موت كو اپنے لئے سب سے بڑا خسارہ سمجھتا تھا ليكن حضرت حمزہ دين كى راہ ميں موت كو كاميابى گردانتے تھے ،پس ان كيلئے كوئي وجہ نہ تھى كہ موت سے ڈرتے يا اسے شہد كى طرح شيرين نہ سمجھتے_
تيسرى وجہ يہ تھى كہ ابوجہل، بنى ہاشم كامقابلہ كرنے كى پوزيشن ميں نہيں تھا كيونكہ بنى ھاشم كے درميان اس كے بہت سے حامى موجود تھے_ اگر وہ ان كے ساتھ لڑتا توخاندان اور قبائلى تعصب كے نتيجے ميں ان لوگوں سے ہاتھ دھو بيٹھتا جو اس كے ہم خيال اور ہم عقيدہ تھے_ بنى ہاشم قبائلى طرزفكر كى بنا پر حضور اكرم(ص) كا ساتھ نہيں چھوڑسكتے تھے اگرچہ آپ(ص) ان كے دين پر نہ تھے، عربوں كى سماجى ومعاشرتى پاليسياں بھى اسى طرزفكر كى تابع ہوتى تھيں _چنانچہ ابولہب كے علاوہ باقى بنى ہاشم نے حضرت ابوطالب سے وعدہ كيا تھا كہ وہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دشمنوں كے مقابلے ميں آپ(ص) كى حمايت اور حفاظت كريں گے_بلكہ ان حالات ميں اگر ابوجہل حضرت حمزہ كے خلاف كوئي اقدام كرتا تو اس سے آنحضرت(ص) - كو تقويت ملتى اور

107
بہت سے بنى ہاشم، آپ(ص) كى حمايت كرتے يا قومى جذبہ كے تحت دائرہ اسلام ميں داخل ہوجاتے اور يہ بات ابوجہل كو كسى صورت گوارا نہ تھي_
ان تمام حالات اور نتائج كو سامنے ركھتے ہوئے اس نے الله اور اس كے رسول(ص) كے شير (حمزہ) كے مقابلے ميں ذلت آميز خاموشى ميں ہى عافيت جاني_
خلاصہ يہ كہ دنيوى زندگى سے ابوجہل كى محبت يا اس كى بزدلى وغيرہ (جس كے باعث وہ حضرت محمد(ص) اور بنى ہاشم كى مخالفت كو مضر سمجھتا تھا) كے نتيجے ميں اس نے ذلت وپستى پر مبنى موقف اپنايا _يوں الله نے باطل كا سرنيچاكيا اور حق كا سر اونچا_

عَبَسَ وَ تَوَلّى ؟
مورخين نے فسانہ غرانيق كے بعد ايك اور واقعے كا تذكرہ كيا ہے جس كے بارے ميں '' عبس وتولي'' والى سورت نازل ہوئي يہ سورت، سورہ نجم كے بعد نازل ہوئي ہے_

اس قصے كا خلاصہ كچھ يوں ہے:
رسول(ص) الله قريش كے بعض رؤساكے ساتھ مصروف گفتگوتھے _يہ لوگ صاحبان مال وجاہ تھے_ اتنے ميں عبدالله ابن ام مكتوم آيا وہ نابينا تھا اس نے نبى اكرم(ص) سے قرآن كى آيت سننى چاہى اورعرض كيا: '' يا رسول(ص) الله مجھے وہ چيزيں سكھايئےوالله نے آپ(ص) كو سكھائي ہيں ''رسول(ص) الله نے اس سے بے رخى كى اور ترشروئي كا مظاہرہ كرتے ہوئے اس سے رخ موڑ ليا _آپ(ص) اس كى بات كو نا پسند كرتے ہوئے ان رؤسا كى طرف متوجہ ہوئے جن كو مسلمان بنانے كا آپ(ص) كو شوق تھا _اس وقت يہ آيات نازل ہوئيں:(عبس وتولى ان جائہ الاعمي_ و ما يدريك لعلہ يزكي_ او يذكر فتنفعہ الذكري_ اما من استغني_ فانت لہ تصدي ... و اما من جائك يسعي_ و ھو يخشي_ فانت عنہ تلہي_ ...) (سورہ عبس، آيت 1_10)

108
يعنى اس نے منہ بسور ليا اور پيٹھ پھيرلى كہ ان كے پاس ايك نابينا آگيا اور تمہيں كيا معلوم شايد وہ پاكيزہ نفس ہوتا يا نصيحت حاصل كرليتا تو نصيحت اس كے كام آتى ليكن جو مستغنى بنا بيٹھا ہے آپ(ص) اس كى فكر ميں لگے ہوئے ہيں حالانكہ آپ(ص) پركوئي ذمہ دارى نہيں ہے اگروہ پاكيزگى اختيار نہ كرے ليكن جو شخص آپ(ص) كے پاس دوڑ كرآيا ہے اور خوف الہى بھى ركھتا ہے آپ(ص) اس سے بے رخى كرتے ہيں_
ايك روايت ميں ہے كہ آپ(ص) كو اس كا آنا پسند نہ آيا اور سوچا كہ يہ قريشى خيال كريں گے كہ آپ(ص) كے پيروكار اندھے، غلام اور بيچارے لوگ ہى ہيں ،پس آپ(ص) نے منہ بسور ليا ...
حَكَمْ سے منقول ہے كہ اس آيت كے نزول كے بعد رسول(ص) الله نے كسى فقير يا غريب سے منہ نہيں موڑا اور كسى امير كو اہميت نہيں دي_ ابن زيد نے كہا ہے اگر رسول(ص) الله وحى كو چھپانے والے ہوتے تو اس آيت كو ضرور چھپاتے جو آپ(ص) كے بارے ميں نازل ہوئي_ (1)پس ابن زيد نے اس واقعے كى شدت قباحت كى بناپر رسول كريم (ص) كى توصيف كى ہے كہ رسول كريم (ص) نے اس واقعہ كے بہت زيادہ قبيح ہونے كے باوجود بھى اسے نہيں چھپايا ہے _
غيرشيعہ مفسرين ومحدثين كامذكورہ واقعے كے متعلق بنيادى طور پراتفاق ہے_ ليكن ہمارے نزديك يہ ايك جعلى كہانى ہے جس كا صحيح ہونا ممكن نہيں_ اس كى وجوہات درج ذيل ہيں:
الف: اسناد كا ضعيف ہونا، كيونكہ تمام اسانيد كى انتہاء يا تو عائشےہ، انس اور ابن عباس پرہوتى ہے جن ميں سے كسى نے اس واقعے كا اپنى آنكھ سے خود مشاہدہ نہيں كيا كيونكہ اس وقت يا تو وہ بچے تھے يا ابھى پيدا ہى نہيں ہوئے تھے _(2) يا ابومالك (3) حكم ابن زيد، ضحاك، مجاہد اور قتادہ پر منتہى ہوتى ہيں حالانكہ يہ سب تابعى ہيں _بنابريں روايت مقطوعہ ہے اور اس سے استدلال كرنا صحيح نہيں ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: مجمع البيان ج 10ص 437الميزان از مجمع و تفسير ابن كثير ج 4ص 470 از ترمذى و ابويعلي، حيات الصحابہ ج 2ص 520تفسير طبرى ج 30ص 33_34 و در منثور ج 6ص 314_315 نيز ديگر غير شيعى تفاسير_ ان تمام تفاسير ميں اس حوالے سے آپ مختلف روايات كا مشاہدہ كريں گے_ بطور مثال آخر الذكر كا مطالعہ كريں_
2_ رجوع كريں: الہدى الى دين المصطفى ج 1ص 158 _
3_ بظاہر اس سے مراد ابومالك الاشجعى ہيں جو تفسير و روايت ميں مشہور اور تابعى ہيں _

109
ب:عبارات والفاظ كا اختلاف (1) يہاں تك كہ ايك ہى راوى سے منقول الفاظ ميں اختلاف ہے چنانچہ ايك روايت ميں حضرت عائشه سے منقول ہے كہ رسول(ص) الله كے پاس مشركين كے رؤسا ميں سے ايك شخص حاضر تھا_
دوسرى روايت ميں حضرت عائشه ہى سے مروى ہے كہ عتبہ اور شيبہ حاضر تھے_
تيسرى روايت ميں حضرت عائشه كہتى ہيں كہ اس مجلس ميں قريش كے كئي بزرگان موجود تھے جن ميں ابوجہل اور عتبہ ابن ربيعہ وغيرہ تھے_
نيز ابن عباس سے منقول ايك روايت ميں ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام ، عتبہ، اپنے چچا عباس اور ابوجہل كے ساتھ مصروف گفتگو تھے ليكن ابن عباس ہى سے منسوب تفسير ميں مذكور ہے كہ وہ افراد عباس، اميہ بن خلف، صفوان بن اميہ اور ...تھے_قتادہ سے كبھى اميہ ابن خلف كانام نقل ہوا ہے اوركبھى ابى ابن خلف كا_
بقول مجاہد قريش كے سرداروں ميں سے ايك سردار موجود تھا_ دوسرى روايت ميں مجاہد سے منقول ہے كہ عتبہ ابن ربيعہ اور اميہ ابن خلف ... موجود تھے_
ان باتوں كے علاوہ خود روايات ميں بھى اختلاف ہے كہ اصل واقعہ كيا تھا؟ رسول اكرم(ص) كے الفاظ كياتھے؟ اور ابن ام مكتوم كے الفاظ كياتھے؟ يہاں ہم اسى قدر گفتگو پر اكتفا كرتے ہيں_ جو مزيد تحقيق كا طالب ہو وہ متعلقہ كتابوں كا مطالعہ اور موازنہ كرے_
ج:مذكورہ آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ وہ شخص جس كا آيت ميں تذكرہ ہوا ہے اس كى عادت، اور طبيعت ہى يہ تھى كہ وہ اميروں پر توجہ ديتا تھا اگرچہ كافرہى كيوں نہ ہوں اور فقيروں كى اصلاح پر كوئي توجہ نہيں ديتا تھا اگرچہ مسلمان ہى كيوں نہ ہوں حالانكہ ہم سب جانتے ہيں كہ ہمارے نبي(ص) اس قسم كى صفات وعادات كے مالك نہ تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الہدى الى دين المصطفى ج 1ص 158_159_

110
نيز فقيروں كے ساتھ ترشروئي اور بے اعتنائي آپ(ص) كى عادات ميں شامل نہ تھيں اگرچہ وہ آپ(ص) كے دشمن ہى كيوں نہ ہوں_ پھر آپ(ص) كيونكر اپنے چاہنے والوں اور مومنين كے ساتھ ايسا برتاؤ كرتے؟ (1) جبكہ الله نے آپ(ص) ہى كے بارے ميں فرمايا ہے: (بالمومنين رؤوف رحيم) (2)
بلكہ آپ كى عادت ہى يہ تھى كہ فقيروں كے ساتھ مل بيٹھتے اور ان پر توجہ ديتے_ يہاں تك كہ يہ بات اشراف قريش كو پسند نہ آئي اور ان پر شاق گزرى _ قريش كے بعض بزرگوں نے توحضور اكرم(ص) سے مطالبہ كيا كہ آپ(ص) ان غريبوں كو دورہٹاديں تاكہ اشراف آپ(ص) كى پيروى كريں_ يہ سن كر عمرنے ان بيچاروں كو دور كرنے كا اشارہ كيا اس وقت يہ آيت نازل ہوئي (ولاتطرد الذين يدعون ربہم بالغداة والعشى يريدون وجہہ) (3) يعنى ان لوگوں كو دورنہ ہٹاؤ جو صبح وشام اپنے پروردگار كو پكارتے ہيں اور اس كى مرضى كے طالب رہتے ہيں_
نيز خداوند نے اس سورہ سے قبل نازل ہونے والے سورہ قلم ميں اپنے نبي(ص) كى توصيف ميں فرمايا ہے كہ ''آپ(ص) خُلق عظيم كے مرتبے پر فائز ہيں''_ پھر آپ(ص) كيونكر مذكورہ عمل كے مرتكب ہوسكتے تھے جو اس آيت كے منافى ہو اور جس پر خدا كى طرف سے (نعوذ بالله ) آپ(ص) كى ملامت ومذمت ہو؟ كيا خدا (نعوذ بالله ) اپنے نبي(ص) كے اخلاق سے بے خبر تھا؟ يا يہ كہ باخبر ہونے كے باوجود كسى مصلحت كے تحت ايسا فرمايا _خدا ہميں گمراہى سے بچائے، آمين_
د:مذكورہ آيات ميں ارشاد ہوا ہے: (وما عليك الا يزكي) يعنى اگر وہ پاكيزگى اختيار نہ كرے توتم پر كوئي ذمہ دارى نہيں _يہ خطاب رسول(ص) الله كيلئے نہيں ہوسكتا كيونكہ آپ(ص) تو لوگوں كى ہدايت اور ان كو
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: الہدى الى دين المصطفى ج 1ص 158، الميزان ج 20ص 203، تنزيہ الانبياء ص 119، مجمع البيان ج 1ص 437_
2_ سورہ توبہ، آيت 128_
3_ رجوع كريں: الدر المنثور ج 3ص 12_13 بظاہر يہ آيت ہجرت حبشہ سے قبل اترى كيونكہ راويوں ميں ابن مسعود بھى ہے يا مہاجرين تك صلح كى افواہ پہنچنے اور ان كى مكہ واپسى كے بعد اتري_ ياد رہے كہ اس مقام پر حضرت عمر كا تذكرہ غلط ہے كيونكہ وہ اس وقت مسلمان نہيں ہوئے تھے_ وہ ہجرت مدينہ سے كچھ مدت پہلے ہى مسلمان ہوئے، جس كا ذكر آئندہ ہوگا_

111
پاكيزہ كرنے كيلئے ہى مبعوث ہوئے تھے، پھر يہ آپ(ص) كى ذمہ دارى كيوں نہ ہو؟ بلكہ آپ(ص) كى اصلى ذمہ دارى ہى يہى تھي_ ارشاد الہى ہے (ھو الذى بعث فى الاميين رسولا منہم يتلو عليہم آياتہ و يزكيہم و يعلمہم الكتاب و الحكمة) (1) يعنى خدا نے ہى اميوں كے درميان، انہى ميں سے ايك كو رسول(ص) بنا كر بھيجا جو ان كيلئے آيات الہى پڑھ كرسناتا ہے اور انہيں پاكيزہ كرتا ہے اور كتاب وحكمت سكھاتا ہے_ بنابريں كيونكر ہوسكتا ہے كہ خدا پيغمبر(ص) كواس بات كى ترغيب دے كہ لوگوں كے ايمان سے بے رغبت ہوجائيں؟ (2)
ھ:آيہ انذار (وانذر عشيرتك الاقربين واخفض جناحك لمن اتبعك من المؤمنين)(3) (جو سورہ عبس سے دوسال قبل نازل ہوئي ہے) ميں ارشاد ہوا ہے ''اے رسول(ص) اپنے قريبى رشتہ داروں كو ڈرايئےور آپ (ص) كى اتباع كرنے والے مومنين كے سامنے اپنے كندھوں كو جھكايئے_ تو كيا رسول(ص) الله بھول گئے كہ آپ(ص) كو مومنين كے آگے شانے جھكانے كا حكم ہوا تھا؟ اگر ايسا ہو تو پھراس بات كى كيا ضمانت ہے كہ اور بھى بہت سارى باتوں كو نہ بھولے ہوں؟ اور اگر بھولے نہيں تو پھراس صريحى حكم كى عمداً مخالفت كيوں فرمائي؟ (4)
و: آيت ميں كوئي ايسى بات نہيں ہے جو اس بات پر دلالت كرتى ہو كہ آيت ميں مخاطب رسول (ص) خدا كى ذات ہے _بلكہ خداوند عالم نے رسول (ص) خدا كو اس شخص كے متعلق خبر دى ہے جس نے '' عبس و تولى ان جاء ہ الاعمى '' اندھے كے آنے كى وجہ سے ترشروئي اختيار كركے منہ پھير ليا _ پھر خدا نے اس منہ بنانے والے كو مخاطب ہوكر كہا : '' و ما يدريك لعلہ يزكي'' تمہيں كيا پتہ ہوسكتاہے كہ وہ پاكيزہ دل ہو_
ز:علامہ طباطبائي نے فرمايا ہے كہ ترجيح وعدم ترجيح كا معيار، اميرى يا فقيرى نہيں بلكہ اعمال صالحہ، اخلاق
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ بقرة آيت 129
2_ تنزيہ الانبياء ص 119
3_ سورہ شعراء آيت 214و 215
4_ الميزان ج 20 ص 303

112
حسنہ اور صفات عاليہ كى موجودگى يا عدم موجودگى ہے اور يہ ايك عقلى حكم ہے جس كى تائيد دين حنيف نے كى ہے پھر حضور اكرم(ص) اس حكم كى مخالفت كيسے كرسكتے ہيں اور كيونكر ايك كافر كو اس كے مال وجاہ كى بنا پر كسى مومن پر ترجيح دے سكتے ہيں؟ كيا اسلام نے اس سے منع نہيں كيا؟ كيا عقل اور ضمير كے نزديك يہ عمل غيرمنطقى اور قبيح نہيں ہے؟ (1)
اگر كوئي يہ كہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اسلئے ايسا كيا تھا كيونكہ آپ(ص) ان مشركين سے ايمان كى توقع ركھتے تھے_ يوں دين كو تقويت مل جاتى اور يہ مستحسن كام ہے كيونكہ دين كى راہ ميں انجام پايا ہے_تواس كا جواب يہ ہے كہ يہ بات قرآن كى آيات صريحہ كے خلاف ہے_ آيات كى رو سے مذكورہ فرد كى مذمت اسلئے ہوئي ہے كيونكہ وہ اس امير پر اس كى امارت كے باعث توجہ دے رہا تھا اور اس فقير سے اس كى فقيرى كے باعث بے توجہى برت رہا تھا_
نيز اگر يہ بات درست ہوتى تو پھر لازم تھا كہ قرآن اس كے جذبہ دينى اور وظيفہ شناسى كو سراہتا نہ يہ كہ اس كى مذمت وتوبيخ كرتا_
بالآخر ہم يہ اشارہ كرتے چليں كہ بعض لوگوں نے كہا ہے: ''ممكن ہے يہ كہا جائے كہ آيت ميں خطاب كلى ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ رسول (ص) خدا جب بھى كسى فقير كو ديكھتے تو منہ بسوركر رخ پھير ليتے'' اس كا جواب يہ ہے كہ :
1_ يہ قول اس بات كے مخالف ہوجائے گا جس ميں انہوں نے كہا ہے كہ يہ واقعہ ايك دفعہ پيش آيا اور اس كا تكرار نہيں ہوا_
2_ اگر تمام ناداروں سے منہ پھير لينے كا ذكر مقصود ہے تو پھر اندھے كا ذكر كيوں آيا ہے ؟
3_ كيا يہ صحيح ہے كہ يہ فعل رسول (ص) خدا كى عادت ميں شامل ہو؟
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الميزان ج20 ص 304 كى طرف رجوع كريں_

113

جرم كسى اوركا:
مذكورہ باتوں كى روشنى ميں واضح ہوا كہ ان آيات ميں رسول(ص) اسلام نہيں بلكہ كوئي اور شخص مراد ہے اور اس حقيقت كى تائيد حضرت امام صادق(ع) سے منقول اس روايت سے ہوتى ہے كہ جب رسول(ص) الله ، عبدالله ابن ام مكتوم كو ديكھتے تو فرماتے تھے مرحبا مرحبا خدا كى قسم كہ الله كبھى بھى تيرے بارے ميں ميرى ملامت نہيں كرے گا _آپ(ص) اس كے ساتھ لطف ومہربانى اور احسان فرماتے تھے يہاں تك كہ وہ اسى لئے كثرت شرمندگى كى بنا پر آپ(ص) كى خدمت ميں حاضر نہيں ہوتا تھا_ (1)
اس بيان سے اس شخص كى مذمت كاپہلو نكلتا ہے جو ابن ام مكتوم كے معاملے ميں مذكورہ مخالفت كا مرتكب ہوا تھا اور اس احتمال كى مكمل نفى ہوجاتى ہے كہ رسول(ص) الله سے ايسا فعل سرزد ہوا ہو جو قابل سرزنش ہو_ اگر خدا نے آپ(ص) كى سرزنش كى ہوتى تو يہ نفى بے مقصد ہو كر رہ جاتى ہے_
ليكن خيانت كاروں كے ہاتھوں اس بات ميں تحريف ہوئي ہے اور انہوں نے يہ دعوى كيا ہے كہ رسول(ص) فرماتے تھے، مرحبا اس كيلئے جس كے بارے ميں خدانے ميرى ملامت كي، رجوع كريں درالمنثور اور ديگر كتب تفسير كى طرف، ليكن حقيقت وہى ہے جسے ہم نے ذكر كيا ہے_

ايك سوال كا جواب
سوال: جب مذكورہ آيت ميں مقصود كوئي اور ہو تو پھر خدانے (فانت لہ تصدي) (آپ(ص) اس كى فكر ميں لگے ہوئے ہيں) نيز (فانت عنہ تلہي) (آپ(ص) اس سے بے رخى كررہے ہيں)كيوں كہا؟_ ان دو عبارتوں سے يہى ظاہر ہے كہ ايك شخص كى طرف توجہ اور دوسرے سے بے رخى كرنے والا شخص جس كا ذكر آيت ميں ہوا ہے،دينى جذبے سے سرشار تھا اور اسى جذبے كے پيش نظر اس نے ايك طرف توجہ دى اور دوسرى طرف بے رخى اختيار كي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير البرہان ج3 ص 428 تفسير نور الثقلين ج/ 5 ص 509 مجمع البيان ج10 ص 437_

114
جواب: آيات ميں اس بات كى طرف كوئي اشارہ نہيں كہ مذكورہ توجہ خدا كى طرف دعوت دينے كيلئے تھي_ ممكن ہے كہ اس توجہ كى وجہ كوئي دنيوى مقصد ہو مثلا لوگوں كا اعتماد حاصل كرنا يا عزت حاصل كرنا وغيرہ_ رہى بات ارشاد الہى كى كہ (لعلہ يزكي) (شايد وہ پاكيزگى اختيار كرلے) تو اس ميں يہ نہيں بتايا گيا كہ يہ كام اس مخاطب كے ہاتھوں انجام پائے بلكہ ممكن ہے اس مجلس ميں حاضر كسى اور كے ہاتھوں يہ كام مكمل ہو مثلا رسول كريم(ص) يا كسى اور كے ذريعے_
اس كے علاوہ اگر ہم فرض كريں كہ وہ شخص تبليغ دين كى غرض سے ان اميروں كى طرف توجہ دے رہا تھاتب بھى يہ بات رسول(ص) خدا كے بارے ميں نہيں كيونكہ تبليغ رسول خدا كے ساتھ مخصوص نہيں چنانچہ ان لوگوں كے بقول آنحضرت(ص) كے علاوہ ايك اور شخص بھى اس تبليغ پر توجہ ديتا تھا چنانچہ اس كے ذريعے كچھ لوگ مسلمان ہوئے (بشرطيكہ يہ بات درست ہو)_

درست روايت
يہاں صحيح روايت وہ معلوم ہوتى ہے جو حضرت امام صادق(ع) سے مروى ہے_ اس حديث كے مطابق يہ آيات ايك اموى كے بارے ميں نازل ہوئيں جو نبى اكرم(ص) كے پاس حاضر تھا_ اتنے ميں ابن ام مكتوم آيا، اموى نے اسے گنداسمجھتے ہوئے تيورى چڑھائي اور سمٹ كر بيٹھ گيا نيز اس سے منہ پھير ليا پس ان آيات ميں خدانے اس كا قصہ بيان كيا اور اس كى مذمت كي_ (1)
واضح رہے كہ شروع ميں آيات كا خطاب اس شخص كى طرف نہ تھا بلكہ خدا نے اس كے بارے ميں غائب كا صيغہ استعمال كيا اور فرمايا اس نے منہ بسورا اور رخ پھير ليا كيونكہ اس كے پاس ايك نابينا آيا پھر اچانك اسے مخاطب قرار ديتے ہوئے فرمايا ہے (وما يدريك) ... (يعنى تجھے كيا معلوم ...)_
ليكن يہ بھى ممكن ہے كہ شروع ميں خدا نبى اكرم(ص) سے مخاطب ہو (اس شخص كے بارے ميں) اورپھر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مجمع البيان ج 10ص 437و تفسير البرہان ج 2ص 428و تفسير نور الثقلين ج 5ص 509 _

115
خطاب كا رخ خود اس شخص كى طرف پھيردياہو ليكن پہلا احتمال ذوق سليم كى رو سے مناسب تر اور لطيف تر معلوم ہوتا ہے_

جناب عثمان پر الزام
بعض روايات ميں عثمان پر الزام لگايا گيا ہے كہ مذكورہ واقعہ ابن ام مكتوم اور حضرت عثمان كے درميان واقع ہوا_ (1)
ليكن ہم اسے مشكوك سمجھتے ہيں كيونكہ حضرت عثمان نے ديگر مہاجرين كے ساتھ حبشہ كو ہجرت كى تھى پھر كيونكر مكے ميں يہ واقعہ پيش آسكتا تھا؟ ممكن ہے اس كا جواب يہ دياجائے كہ بقولے تيس سے زيادہ مہاجر دو ماہ بعد حبشہ سے واپس لوٹے (جن كا ذكر ہوچكا ہے) ان ميں حضرت عثمان بھى تھے_ (2)
بہرحال حضرت عثمان يا بنى اميہ كے كسى فرد پر الزام، معصوم نبى پر الزام كے مقابلے ميں آسان سى بات ہے_ (3) كيونكہ رسول(ص) الله سے اس قسم كے افعال كسى صورت ميں بھى سرزد نہيں ہوسكتے ليكن بعض لوگ معصوم نبى پر اس قسم كى تہمت لگانے كو رواسمجھتے ہيں اور دوسرے لوگوں كو اس قسم كے الزامات سے پاك ومنزہ ركھنے كى كوشش كرتے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير قمى ج 2ص 405، تفسير البرہان ج 4ص 427، تفسير نور الثقلين ج 5ص 508
2_ سيرت ابن ہشام ج 2ص 3
3_ ہم حضرت عثمان كى بعض صفات كو اس آيت كے مطابق بھى پاتے ہيں جيساكہ عثمان اور عمار كے قصے سے ظاہرہوتا ہے جب مدينے ميں مسجد كى تعمير جارى تھى تو اس دوران حضرت عمار حضرت علي(ع) كے رجز كو حضرت عثمان كى طرف اشارہ كرنے كيلئے دہرا رہے تھے_ رجز يہ تھا:
لايستوى من يعمر المساجدا
يدا ب فيھا قائما و قاعداً
و من يرى عن التراب حائدا
اس واقعہ كا ذكر آئندہ ہوگا _ انشاء اللہ

116
دشمنان دين كا اس مسئلے سے سوء استفادہ
يہاں اس بات كى طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے كہ بعض متعصب عيسائيوں نے عبس وتولى والے قصے كى آڑميں ہمارے نبى اكرم(ص) كى شان ميں گستاخى كرنے كى كوشش كى ہے_ (1) ليكن الله اپنے نور كو كامل كرتا ہے اگرچہ ان كافروں كو ناگوار گزرے ہم بھى يہاں يہ كہتے ہيں كہ يہ جعلى اور باطل چيزيں ہيں جن كے لئے خدا نے كوئي دليل نہيں اتارى ہے _

مزيد دروغ گوئياں
انہى لوگوں نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ اقرع بن حابس اور عينيہ بن حصن، رسول(ص) الله كے پاس آئے اورآپ كو عمار، صہيب، بلال اور خباب جيسے غريب مسلمانوں كے پاس تشريف فرما ديكھا_ تو ان كو حقير سمجھا اور خلوت ميں رسول(ص) الله سے كہا:'' عرب كے وفود آپ(ص) كے پاس آتے رہتے ہيں اور ہميں اس بات سے شرم آتى ہے كہ وہ ہميں ان غلاموں كے ساتھ بيٹھا ہوا ديكھيں _ پس جب وہ آجائيں تو ان كو يہاں سے اٹھاديں'' آپ(ص) نے فرمايا ٹھيك ہے_
انہوں نے كہا اس بات كا تحريرى طور پر وعدہ كريں، آپ(ص) نے كاغذ مانگا اور حضرت علي(ع) سے لكھنے كيلئے كہا اس وقت يہ آيت نازل ہوئي (و لاتطرد الذين يدعون ربہم بالغداة و العشى يريدون وجہہ ما عليك من حسابہم من ش ...) (2) يعنى جولوگ اپنے رب كو صبح وشام پكارتے ہيں اور اسى كو مقصود بنائے ہوئے ہيں انہيں اپنى بزم سے دور نہ كيجئے گا_ پس آپ(ص) نے وہ كاغذ دور پھينك ديا انہيں بلايا اور انہى كے ساتھ بيٹھ گئے_ پھر آپ(ص) كى عادت ہى يہ ہوگئي كہ ان كے ساتھ بيٹھتے تھے جب بھى اٹھنا چاہتے تو خود اٹھ جاتے اور انہيں وہيں بيٹھا ہوا چھوڑ ديتے_ اس سلسلے ميں خدا نے يہ آيت نازل كى (واصبر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: الھدى الى دين المصطفى ج 1ص 158 _
2_ سورہ الانعام، آيت 52 _

117
نفسك مع الذين يدعون ربہم بالغداة والعشى يريدون وجہہ ولا تعد عيناك عنہم) (1) (اور اپنے نفس كو ان لوگوں كے ساتھ صبر پر آمادہ كر جو صبح وشام اپنے رب كو پكارتے ہيں اور اس كى رضا چاہتے ہيں، خبردار كہ تمہارى آنكھيں ان كى طرف سے پھرنے نہ پائيں) اس كے بعد آپ(ص) ان كے ساتھ اس وقت تك بيٹھے رہتے تھے جب تك وہ خود پہلے اٹھ نہ جاتے، بعض روايات ميں ہے كہ ان كا مقصود ابوذر وسلمان تھے_ (2)
ان بے بنياد باتوں كى نفى عبدالله ابن ام مكتوم كے واقعے ميں مذكور بيانات سے ہى ہو جاتى ہے_ لہذا يہاں ہم تكرار كى ضرورت محسوس نہيں كرتے، علاوہ ازيں كئي ايك روايات كے مطابق پورى سورہ انعام مكے ميں بيك وقت نازل ہوئي_ (3)
اس صورت ميں يہ آيات كيونكر مذكورہ مناسبت سے مدينہ ميں اتريں؟ اگر كوئي يہ كہے كہ پورى سورت كا ايك ساتھ اترنا اس بات كے منافى نہيں كہ مذكورہ آيات اس خاص مناسبت سے اترى ہوں تويہ بات بھى نا قابل قبول ہے كيونكہ پورى سورت ہجرت سے قبل (ليكن انصار كے قبول اسلام كے بعد) ايك ساتھ اتري، جب يہ سورت اترى تو اسماء بنت يزيد انصاريہ نے رسول(ص) (ص) الله كى اونٹنى كى لگام تھام ركھى تھي(4) جبكہ فرض يہ ہے كہ آيت مدينے ميں نازل ہوئي_
اس كے علاوہ عبس وتولى والا واقعہ ہى اس بات كے اثبات كيلئے كافى ہے كہ نبى اكرم(ص) اس قسم كے كاموں سے باز رہتے خصوصاً اس صورت ميں كہ اگر كوئي غير معصوم شخص بھى ايسے عمل كا ارتكاب كرے تو اس كى مذمت كى جاتى ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ كہف آيت 28_
2_ حلية الاولياء ج 1ص146_345، و مجمع البيان ج 4 ص 305 ،306_ و البداية و النہاية ج 6 ص 56و كنز العمال ج 1ص 245و ج7ص 46ابن ابى شيبہ و ابن عساكرسے نيز الدر المنثور (مذكورہ آيات كى تفسير ميں متعدد مآخذ سے)_
3_ رجوع كريں: الميزان ج 7ص 110 _
4_ الدر المنثور ج 3 ص 22_

118
يہاں ہم اس بات كابھى اضافہ كرتے ہيں كہ سلمان تو مدينے ميں مسلمان ہوئے نيز ابوذر بھى مسلمان ہونے كے فوراً بعد پيغمبر(ص) سے جدا ہوكر عسفان ميں مكہ والوں كے قافلوں كى گزرگاہ پر رہنے لگے تھے (جس كا ذكر ہو چكا ہے)_
بظاہر مشركين نے اس بات پر زور ديا تھا كہ حضور صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم ان غريب مسلمانوں كو اپنے پاس نہيں بٹھائيں، اس سلسلے ميں انہوں نے حضرت ابوطالب سے بھى بات كى اور حضرت عمر نے بھى اس بات كو تسليم كرنے كا اشارہ كيا( جيساكہ نقل ہوا ہے)_ پس سورہ انعام كى يہ آيات ان لوگوں كے ردميں نازل ہوئيں _
ان آيات ميں اس بات كا تذكرہ نہيں كہ حضور(ص) نے ان كى رائے كو قبول كياہو جيساكہ مذكورہ روايات كا دعوى ہے _يہاں ہم روايات كے درميان موجوداختلاف، ان كے كمزور پہلوؤں اوران لوگوں كے باطل خيالات كو بيان كرنے سے احتراز كرتے ہيں اور ابن ام مكتوم كے واقعے ميں جو كچھ عرض كيا ہے، اسى پر اكتفا كرتے ہيں_البتہ يہ اضافہ بھى كرتے چليں كہ آيت '' ولا تطرد الذين يدعون ربہم ...'' كا ظاہر پر يہى بتاتا ہے كہ يہ ڈانٹ ان لوگوں پر پڑى ہے جن سے يہ كام سرزد ہوا ہے اور '' ما عليك من حسابہم من شي ...'' كے قرينہ سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ خدا نے مہربانى اور لطف فرماتے ہوئے اپنى نبى (ص) كو ان لوگوں سے عليحدہ ركھا ہے _

حضرت عمر بن خطاب كا قبول اسلام
كہتے ہيں كہ حضرت حمزہ كے قبول اسلام كے تين روز بعد بعثت كے چھٹے سال حضرت عمر مسلمان ہوئے_ وہ اپنى تلوار ليكر رسول(ص) الله اور آپ(ص) كے بعض اصحاب كى تلاش ميں نكلے تھے جن كى تعداد چاليس كے قريب تھي_ وہ كوہ صفا كے قريب ارقم كے گھر ميں جمع تھے_ ان ميں حضرت ابوبكر، حضرت حمزہ اور حضرت علي(ع) بھى تھے جو حبشہ نہيں گئے تھے_ راستے ميں نعيم بن عبدالله سے حضرت عمر كى ملاقات ہوئي اس كے پوچھنے پر

119
حضرت عمر نے بتايا كہ وہ حضرت محمد(ص) كو قتل كرنا چاہتے ہيں
نعيم نے سمجھايا كہ اگر وہ ايسا كرے تو بنى عبد مناف كے ہاتھوں سے نہيں بچ سكتا_ نيز يہ بھى بتايا كہ تمہارے بہنوئي اور بہن نے بھى اسلام قبول كرليا ہے_ يہ سن كر حضرت عمر ان كى طرف چل پڑے وہاں پر حضرت خباب بن ارت ،ان كو سورہ طہ كى تعليم دے رہے تھے_ جب حضرت عمر كى آہٹ سنائي دى تو حضرت خباب ايك كوٹھڑى ميں چھپ گئے اور فاطمہ بنت خطاب نے صحيفے كو اپنى ران كے نيچے چھپاليا_
حضرت عمر گھرميں داخل ہوئے اور مختصر سى گفتگو كے بعد اپنے بہنوئي پر ٹوٹ پڑے اور بہن كا سر زخمى كرديا_ اس وقت حضرت عمر كى بہن نے بتاديا كہ وہ دونوں مسلمان ہوچكے ہيں وہ جو چاہے كرے_ حضرت عمرنے جب اپنى بہن كو خون آلود ديكھا تو اپنے طرز عمل پر پشيمان ہوئے اور نوشتہ قرآن كو طلب كيا ،ليكن اس نے نہيں ديا يہاں تك كہ حضرت عمرنے اپنے خداؤں كى قسم كھائي كہ وہ اسے واپس كردے گا _اس وقت ان كى بہن نے كہا تم مشرك اور نجس ہو نيز تم غسل جنابت بھى نہيں كرتے ہو جبكہ قرآن كو پاك لوگ ہى چھو سكتے ہيں _يہ سن كر حضرت عمر اٹھے اور غسل (يا وضو) كياپھر اس نوشتہ كى ابتداء سے كچھ حصہ پڑھا اور (حضرت عمر كو لكھنا پڑھنا آتا تھا) پڑھنے كے بعد اسے پسند كيا _اتنے ميں حضرت خباب نے آكر يہ خبردى كہ پيغمبر اكرم(ص) نے ان كے حق ميں دعاكى ہے كہ خدا يا اس كے يا ابوجہل كے ذريعے اسلام كى تقويت فرما_
حضرت عمرنے كہا كہ وہ انہيں رسول(ص) الله كے پاس لے جائيں تاكہ اسلام قبول كرسكيں_ چنانچہ وہ رسول(ص) كى طرف نكلے، دروازہ كھٹكھٹايا، ايك شخص نے دروازے كے شگاف سے باہر نگاہ كي_جب عمر كو تلوار سجائے ديكھا تو سہم كر واپس ہوا اور رسول(ص) خدا كو خبردي_
يہ سن كر حضرت حمزہ نے كہا اسے آنے دو اگر وہ بھلائي كى تلاش ميں آيا ہے تو ہم بخل نہيں كريں گے ليكن اگر وہ برے ارادے سے آيا ہے تو ہم اسى كى تلوار سے اس كاكام تمام كرديں گے_ يوں انہيں اجازت ملى اور وہ آپ(ص) كى طرف آئے اور كمرے ميں آپ(ص) سے ملاقات كي_ حضرت عمرنے كہا كہ وہ تو مسلمان ہونے كيلئے آيا ہے_ يہ سن كر آنحضرت(ص) نے تكبير بلندكى اور مسلمانوں نے بھى ايسى تكبير كہى جسے مسجد الحرام ميں

120
بيٹھے ہوئے لوگوں نے بھى سن ليا_
اس كے بعد حضرت عمرنے رسول(ص) الله سے درخواست كى كہ آپ(ص) باہر نكل كر اعلانيہ اپنا كام شروع كريں_ حضرت عمر كہتے ہيں ہم نے آپ(ص) كو دوصفوں كے درميان باہرنكالا ايك صف ميں حضرت حمزہ تھے اور دوسرى صف ميں ميں تھا_ آپ(ص) كے اوپر غبار تھا جس طرح پسنے والے آٹے كا غبار ہوتا ہے _پھر ہم مسجد ميں داخل ہوئے، ميں نے قريش پر نظر كى وہ اتنے دل شكستہ ہوئے كہ اس قدر پہلے كبھى نہ ہوئے تھے_ اس دن رسول(ص) الله نے حضرت عمر كو فاروق كالقب ديا_
ايك اور روايت كے مطابق قريش نے مل كر مشورہ كيا كہ كون حضرت محمد(ص) كو قتل كرے، حضرت عمر نے كہا يہ كام ميں كروں گا پھر وہ اپنى تلوارگردن ميں لٹكائے نكل پڑے كہ راستے ميں حضرت سعد بن ابى وقاص سے ملاقات ہوگئي_ ان كے درميان لے دے ہوئي يہاں تك كہ دونوں نے اپنى تلواريں سونت ليں_ اتنے ميں حضرت سعد نے حضرت عمر كو اس كى بہن كے مسلمان ہونے كى خبر سنائي_
تيسرى روايت كى رو سے مسلمان باہر نكلے حضرت عمر ان كے آگے آگے يہ كہہ رہے تھے لا الہ الا اللہ محمد رسول(ص) الله _جب قريش نے حضرت عمر سے ان كے پيچھے موجود افراد كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت عمر نے ان كو دھمكى دى كہ اگر ان ميں سے كسى نے كوئي غلط حركت كى تو وہ تلوار سے حملہ كريں گے _ پھر وہ رسول(ص) الله كے آگے ہوئے آنحضرت(ص) طواف فرمارہے تھے اور عمر آپ(ص) كى حفاطت كررہے تھے پھر حضوراكرم(ص) نے نماز ظہراعلانيہ طور پر پڑھي_
چوتھى روايت ميں ہے كہ جن دنوں مسلمانوں پر بہت زيادہ تشدد ہو رہا تھا تو حضرت عمر مسلمان ہوئے اور وہ اپنے خالو ابوجہل كے پاس گئے (جيسا كہ ابن ہشام كہتا ہے البتہ ابن جوزى كا كہنا ہے كہ يہ بات غلط ہے كيونكہ عمر كا خالو ابوجہل نہيں بلكہ عاص بن ہاشم تھا ) حضرت عمرنے اسے خبردى كہ وہ مسلمان ہو چكے ہيں يہ سن كراس نے دروازہ بندكرديا حضرت عمر قريش كے دوسرے سردار كے پاس گئے تو وہاں بھى يہى ہوا _ حضرت عمرنے سوچا يہ بات مناسب نہيں كہ دوسرے مسلمانوں پرتشدد ہو ليكن مجھے كوئي نہ مارے، چنانچہ انہوں نے

121
ايسے شخص كا پتہ پوچھا جو سب سے زيادہ بات پھيلانے والاہو لوگوں نے اس شخص كى نشاندہى كي_ حضرت عمر نے اسے اپنے مسلمان ہونے كى خبردي_ اس شخص نے قريش كے درميان اس بات كا اعلان كيا يہ سن كر لوگ حضرت عمركو مارنے كيلئے اٹھے ليكن ان كے خالو نے انہيں امان دے دى يوں لوگوں نے انہيں چھوڑ ديا_
ليكن حضرت عمر نے اس كى امان ميں رہنے سے انكار كيا كيونكہ دوسرے مسلمانوں كو مارپڑ رہى تھى اوران كو نہيں_ راوى كہتا ہے كہ نتيجتاً حضرت عمر بھى مار كھاتے رہے يہاں تك كہ خدانے اپنے دين كو ظاہر كرديا_
پانچويں روايت كے مطابق طواف كرتے وقت حضرت عمر سے ابوجہل نے كہا : ''فلان شخص كا خيال ہے كہ تم نے اپنا دين چھوڑ ديا ہے'' _ حضرت عمر نے كلمہ دين پڑھا تو يہ سن كر مشركين ان پر ٹوٹ پڑے _ حضرت عمر، عتبہ ابن ربيعہ كوپچھاڑ كر مارنے لگے_ پھر اپنى دونوں انگليوں كو اس كى آنكھوں ميں ڈال ديا_ عتبہ چيخنے لگا تو لوگ بكھر گئے اور حضرت عمر بھى اٹھ كھڑے ہوئے_ يہ ديكھ كر سوائے بزرگوں كے كوئي ان كى طرف بڑھنے كى جرا ت نہ كرسكا اور حضرت حمزہ لوگوں كو وہاں سے ہٹانے لگے_
چھٹى روايت كى رو سے وہ قبول اسلام سے قبل شراب نوشى كيا كرتے تھے_ايك رات وہ اپنى پسنديدہ محفل كى طرف نكل پڑے ليكن وہاں كسى كو نہ پايا_ شراب فروش كو ڈھونڈا ليكن وہ بھى نہ مل سكا _پھر طواف كرنے گئے تو ديكھا كہ پيغمبر(ص) نماز پڑھ رہے ہيں_ حضرت عمر كا دل چاہا كہ آپ(ص) كى بات سنے چنانچہ وہ كعبے كے پردے كى آڑ ميں بيٹھ كر سننے لگے، يوں اسلام ان كے دل ميں داخل ہوا_ جب رسول(ص) خدا وہاں سے اٹھے اور اپنے گھر جو قطاء كے نام سے معروف تھا، كى طرف چلے تو راستے ميں حضرت عمر آپ(ص) سے جا ملے اوراظہار اسلام كر كے اپنے گھر كى راہ لي_
''العمدہ''كے مطابق كہتے ہيں كہ حضرت عمر تينتيس 33 مردوں اور چھ عورتوں كے قبول اسلام كے بعد دائرہ اسلام ميں داخل ہوئے_ ابن مسيب نے كہا ہے كہ چاليس مردوں اور دس عورتوں كے بعد حضرت عمر مسلمان ہوئے_ عبدالله بن ثعلبہ كا بيان ہے پينتاليس 45 مردوں اور گيارہ عورتوں كے بعد ايسا ہوا _ يہ بھى

122
كہا گيا ہے كہ حضرت عمر چاليسويں مسلمان تھے _ پھر حضرت عمركے قبول اسلام كے بعد يہ آيت اترى (يايہا النبى حسبك الله و من اتبعك من المومنين) (1) يعنى اے حضرت رسول(ص) آپ كيلئے بس خدا اور جو مومنين آپ كے تابع فرمان ہيں كافى ہيں_ (2)

مزيد تمغے
بعض افراد كا كہنا ہے كہ رسول(ص) الله نے حضرت عمر كے مسلمان ہونے سے قبل يوں دعا كى تھي: ''اے الله اسلام كى تقويت فرما ،عمر ابن خطاب كے ذريعے''_ ايك اور جگہ يوں نقل ہوا ہے: ''خدا اسلام كى مدد فرما (ياتقويت فرما) ابوالحكم بن ہشام كے ذريعے يا عمر ابن خطاب كے ذريعے'' _ آپ(ص) نے بدھ كے روز يہ دعا كى اور حضرت عمر جمعرات كے دن مسلمان ہوئے_
ابن عمر سے مروى ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا :''خدايا ابوجہل يا عمر بن خطاب ميں سے تيرے نزديك جو زيادہ محبوب ہے اس كے ذريعے اسلام كى تقويت فرما''_ ابن عمر كہتا ہے خداكے نزديك عمرزيادہ عزيز تھے_ يہ بھى كہا گيا ہے كہ حضرت عمر كا قبول اسلام ، اسلام كى فتح تھي، ان كى ہجرت اسلام كى نصرت تھى اور ان كى حكومت خدا كى رحمت تھى _جب وہ مسلمان ہوئے تو قريش سے لڑتے رہے يہاں تك كہ مسلمانوں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ انفال، آيت 64 _
2_ رجوع كريں: الاوائل (عسكري) ج 1ص 221_222نيز الثقات (ابن حبان) ص 72_75 البدء و التاريخ ج 5ص 88_90مجمع الزوائد ج 9ص 61از بزار و طبرانى تاريخ طبرى 23ہجرى كے حالات ميں، طبقات ابن سعد ج 3ص 191، عمدة القارى ( عيني) ج 8ص 68، سيرت ابن ہشام ج 1ص 366_374، تاريخ الخميس ج 1ص 295_297، تاريخ عمر بن خطاب(ابن جوزي)ص 23_35، البداية و النہاية ج 3 ص 31 اور 75_80 _نيز السيرة الحلبية ج1ص 329_335، السيرة النبوية (دحلان) ج 1ص 132_137، المصنف (حافظ) ج 5ص 327_328، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 12ص 182_183، اسباب انزول (واحدي)، حياة الصحابة ج 1ص 274_276 و الاتقان ج 1ص 15اور الدر المنثور ج 3ص 200 كشف الاستار از مسند البزار ج3 ص 169 تا 172 اور لباب النقول مطبوعہ دار احياء العلوم ص 113،ان كے علاوہ دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 4 تا 9 مطبوعہ دار النصر للطباعة اور ديگر كتب تاريخ اور حديث كى طرف رجوع كريں_

123
نے كعبہ كے پاس نماز پڑھي_ (1)
ان كے علاوہ اور بھى بہت كچھ كہاگيا ہے جس كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں_ ترمذى نے ان ميں سے بعض روايات كو صحيح مانتے ہوئے بھى ان تمام روايات پر تعجب كا اظہار كيا ہے _
ہم حضرت عمركے قبول اسلام سے مربوط تمام مذكورہ بالا باتوں اور روايات كو بھى شك كى نظروں سے ديكھتے ہيں بلكہ ہميں يقين ہے كہ يہ باتيں بالكل بے بنياد ہيں _ اس بات كى توضيح كيلئے درج ذيل نكات كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

1_ عمر كب مسلمان ہوئے؟
گذشتہ روايات كى رو سے وہ حمزہ بن عبد المطلب كے قبول اسلام كے تين دن بعد مسلمان ہوئے_ عمر كا قبول اسلام اس بات كا سبب بنا كہ پيغمبر اكرم(ص) ارقم كے گھرسے باہر نكليں ، يعنى جب مسلمانوں كى تعداد چاليس يا اس كے لگ بھگ ہوگئي_
يہاں درج ذيل امور قابل ذكر ہيں:
الف: وہ خود ہى كہتے ہيں كہ ارقم كے گھر سے نكلنے كا واقعہ بعثت كے تيسرے سال كا ہے جب رسول(ص) الله كو اعلانيہ تبليغ كا حكم ہوا، جبكہ اہلسنت كہتے ہيں كہ حضرت عمر بعثت كے چھٹے سال مسلمان ہوئے_
ب: ان كا كہنا ہے كہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ كے بعد اسلام قبول كيا چنانچہ جب مسلمان كوچ كي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان روايات كے بارے ميں رجوع كريں: البدء و التاريخ ج 5ص 88، سيرت مغلطاى ص 23و منتخب كنز العمال حاشيہ مسند احمد ج 4ص 470از طبراني، احمد، ابن ماجہ، حاكم، بيہقي، ترمذي، نسائي از عمر، خباب، ابن مسعود، الاوائل ج 1ص 221، طبقات ابن سعد ج 3حصہ اول ص 191_193 و جامع ترمذى مطبوعہ ہند ج 4ص 314_315، دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 7 نيز تحفہ الاحوذى ج 4ص 314 نيز البداية و النہاية ج 3ص 79و البخارى مطبوعة ميمنية، المصنف عبدالرزاق ج 5 ص325، الاستيعاب حاشية الاصابة ج 1 ص271 السيرة الحلبية ج 1ص 330تاريخ اسلام (ذہبي) ج 2ص 102و تاريخ الخميس و سيرت ابن ہشام و سيرت دحلان و مسند احمد و سيرت المصطفى و طبرانى در الكبير و الاوسط و مشكاة_ نيز ديگر كتب تاريخ اور حديث_

124
تيارى كررہے تھے تو حضرت عمر كا دل بھر آيا يہاں تك كہ مسلمانوں نے اميد ظاہر كى كہ حضرت عمر مسلمان ہوجائے گا اور ہجرت حبشہ بعثت كے پانچويں سال كا واقعہ ہے جبكہ ارقم كے گھر سے نكلنے كا واقعہ اس سے پہلے يعنى بعثت كے تيسرے سال وقوع پذير ہوا_
ج:حضرت عمر مسلمانوں كو ستانے ميں مشركين كے ساتھ تھے اور يہ بات ارقم كے گھر سے نكلنے اور اعلانيہ دعوت شروع ہونے كے بعد كى بات ہے ،بلكہ ہم تو يقين كے ساتھ كہہ سكتے ہيں كہ وہ بعثت كے چھٹے سال تك بھى مسلمان نہيں ہوئے تھے كيونكہ:
اولًا: يہى لوگ خود كہتے ہيں كہ حضرت عمر نماز ظہر كے فرض ہونے كے بعد مسلمان ہوئے چنانچہ رسول(ص) الله نے حضرت عمر كى مدد سے نماز ظہر اعلانيہ پڑھى (جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا ہے) جبكہ يہى لوگ كہتے ہيں كہ نماز ظہر واقعہ معراج (جو خود ان كے نزديك بعثت كے بارہويں يا تيرہويں سال پيش آيا) كے دوران واجب ہوئي_ بنابريں ان كى باتوں ميں تضاد ہے_ بعض لوگوں نے اس كى يہ توجيہہ پيش كى ہے كہ يہاں مراد نماز صبح ہے_ (1) ليكن يہ توجيہہ غلط ہے كيونكہ لفظ ''ظہر'' ، ''صبح'' كے لئے استعمال نہيں ہوتا اور اگر ان كى مراد يہ ہو كہ رسول كريم (ص) اپنى صبح كى نماز سورج كے ابھرنے تك مؤخر كر كے پڑھتے تھے تو يہ توجيہ بھى نامعقول ہے كيونكہ نبى اكرم(ص) اپنى نماز ميں كسى عذر شرعى كے بغير كيسے تاخير كرسكتے تھے؟
ثانياً: عبدالله بن عمر صريحاً كہتا ہے كہ جب اس كے والد مسلمان ہوئے تو اس وقت اس كى عمر چھ سال تھي_ (2) بعض حضرات كا خيال ہے كہ وہ پانچ سال كا تھا_ (3)
اس كى دليل يہ ہے كہ حضرت عمر كے قبول اسلام كے وقت عبدالله بن عمر گھركى چھت پر موجود تھااس نے ديكھا كہ لوگوں نے اس كے باپ كے خلاف ہنگامہ كر ركھا ہے ادر اسے گھر ميں محصور كرديا ہے_ اتنے ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت حلبى ج 1ص 335 _
2_ تاريخ عمر بن خطاب از ابن جوزى ص 19و طبقات ابن سعد ج 3ص 193 (حصہ اول) و شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 12ص 182_
3_ فتح البارى ج 7ص 135 _

125
عاص بن وائل نے آكر ان كو منتشر كرديا_ اس وقت ابن عمرنے اپنے باپ سے بعض چيزوں كے متعلق استفسار كيا جس كا ذكر آگے آئےگا_
نيز ابن عمر كہتا ہے كہ جب اس كا باپ مسلمان ہوا تو اس نے باپ كى نگرانى شروع كى كہ وہ كيا كرتا ہے، كہتا ہے اس وقت ميرے لڑكپن كا دور تھا اور ميں جو كچھ ديكھتا اسے سمجھتا بھى تھا_ (1) يہ اس بات كى دليل ہے كہ ابن عمر ان دنوں باشعور اور سمجھدار تھا_
اس سے يہ بھى پتہ چلتا ہے كہ حضرت عمرنے بعثت كے نويں سال اسلام قبول كيا جيساكہ بعض لوگوں كا خيال بھى ہے_ (2) كيونكہ ابن عمر بعثت كے تيسرے سال پيدا ہوا تھا ہجرت كے پانچويں سال جب جنگ خندق ہوئي تو ابن عمر كى زندگى كے پندرہ سال گزر چكے تھے چنانچہ رسول(ص) الله نے (بنابرمشہور) اس كو جنگ ميں شركت كى اجازت دى (3) بلكہ ابن شہاب كے مطابق تو حفصہ اور عبدالله ابن عمر اپنے باپ عمر سے پہلے مسلمان ہوئے تھے اور جب ان كا باپ عمر مسلمان ہوا تو اس وقت عبدا لله كى عمر سات سال كے لگ بھگ تھى (4) اس بات كا مطلب يہ ہے كہ حضرت عمر بعثت كے دسويں سال مسلمان ہوئے _ہم تو يہاں تك كہتے ہيں كہ حضرت عمر ہجرت سے قدرے پہلے تك مسلمان نہيں ہوئے تھے_ اس كى دليل درج ذيل امور ہيں:
الف: يہ كہ انہيں خبر ملى كہ ان كى بہن مردار نہيں كھاتي_ (5)
واضح ہے كہ مردار كھانے كى مخالفت سورہ انعام ميں ہوئي ہے جو مكہ ميں ايك ساتھ نازل ہوئي_ اس وقت قبيلہ اوس كى ايك عورت (اسماء بنت يزيد) نے بعض روايات كى بنا پر آپ(ص) كى اونٹنى كى لگام تھام ركھى تھى (6) واضح رہے كہ قبيلہ اوس اور مدينہ والوں نے آنحضرت(ص) كى طائف كى ہجرت كے بعد اسلام قبول كيا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 3ص 81و تاريخ الاسلام (ذہبي) ج 2ص 105و سيرت ابن ہشام ج 1ص 373_374 _
2_ السيرة النبوية (ابن كثير) ج 2ص 39البداية و النہاية ج 3ص 82و مروج الذہب مطبوعہ دار الاندلس بيروت ج 2ص 321_
3_ سير اعلام النبلاء ج 3 ص 209، تہذيب الكمال ج 15 ص 340 ، الاصابہ ج 2 ص 347، اسى كے حاشيہ پر الاستيعاب ج 2 ص 342 اور باقى منابع كے لئے ملاحظہ ہو ہمارى كتاب '' سلمان الفارسى فى مواجہة التحدي'' (سلمان فارسى چيلنجوں كے مقابلے ميں )ص 24_
4_ سير اعلام النبلاء ج 3 ص 209_
5_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج 5ص 326 _
6_ الدر المنثور ج 3ص 2از طبرانى اور ابن مردويہ_

126
كيا تھا اور ان كى عورتيں پہلى بيعت عقبہ كے بعد مكہ آئي تھيں_
ب:بعض لوگوں نے اس بات كو حقيقت سے قريب تر سمجھا ہے كہ حضرت عمر نے ہجرت حبشہ كے بعد چاليس يا پينتاليس افراد كے مسلمان ہونے كے بعد اسلام قبول كيا (1)اس كى تائيد يوں ہوتى ہے كہ بعثت كے پانچويں سال حبشہ جانيوالے افراد كى تعداد اسّى 80 مردوں سے زيادہ تھى اور ان كے بقول حضرت عمر بعثت كے چھٹے سال مسلمان ہوئے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ پينتاليس مسلمان ہونے والے افراد لازمى طور پر ہجرت كرنے والے ان اسّى افراد كے علاوہ ہونے چاہئيں_اگرچہ ابن جوزى نے حضرت عمر سے قبل مسلمان ہونے والوں كو شمار كيا ہے اور حبشہ كى طرف ہجرت كرنے والوں كى تعداد بيشتر بتائي ہے_ (2)
نيز اس امر كى تائيدان روايات سے بھى ہوتى ہے جن كے مطابق حضرت عمر بعثت كے چھٹے سال مسلمان ہوئے اور يہ كہ حبشہ جانے والوں كو ديكھ كر ان كا دل پسيجا يہاں تك كہ مسلمانوں كو حضرت عمر كے مسلمان ہونے كى اميد بندھي_
جب صورت حال يہ ہے تو واضح ہواكہ (جيساكہ مدينہ ميں مہاجرين وانصار كے درميان مواخات كى بحث ميں آگے چل كر ذكر ہوگا) اس وقت مہاجرين كى تعداد پينتاليس يا اس كے لگ بھگ تھى (3)يعنى ہجرت حبشہ كے بعد مسلمان ہونے والے صرف يہى پينتاليس كے قريب افراد تھے _ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ حضرت عمر ہجرت مدينہ سے كچھ ہى پہلے اسلام لائے تھے اور اس كے بعد ہجرت كى تھى اور شايد اسى لئے مكہ ميں وہ مشركين كى ايذا رسانى سے بچے رہے_
ج:حضرت عمر كے قبول اسلام كے حوالے سے روايات ميں ذكر ہوا ہے كہ ايك دفعہ رسول(ص) الله بلند
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الثقات از ابن حسان ج 1 ص 73، البداية و النہاية ج 3 ص 80، البدء و التاريخ ج 5 ص 88_
2_ تاريخ عمر بن خطاب از ابن جوزى ص 28_29_
3_ اگرچہ ابن ہشام نے ہجرت كرنے والوں كى تعداد ستر كے قريب بتائي ہے ليكن يہ بات قابل قبول نہيں كيونكہ رسول(ص) الله (ص) نے جن لوگوں ميں بھائي چارہ قائم كيا ان كى تعداد ايك سے زيادہ اسناد كے ساتھ منقول ہے اور يہ امر غيرقابل قبول ہے كہ حضور نے كسى صحابى كا بھائي چارہ دوسرے كے ساتھ قائم نہ كيا ہو_

127
آواز سے نماز پڑھ رہے تھے كہ حضرت عمرآپ(ص) كے قريب آئے اور سنا كہ آپ(ص) يہ آيات پڑھ رہے ہيں (وما كنت تتلو من قبلہ من كتاب ولاتخطہ بيمينك ... الظالمون) (1) واضح ہے كہ يہ دو آيتيں سورہ عنكبوت كى ہيں جو ياتو مكہ ميں نازل ہونے والى آخرى سورت ہے يا آخرى سے پہلى سورت_ (2) پس معلوم ہوا كہ حضرت عمر ہجرت كے قريب قريب مسلمان ہوئے تھے_
د:بخارى نے صحيح بخارى ميں نافع سے روايت كى ہے كہ لوگ كہتے ہيں كہ ابن عمر اپنے باپ حضرت عمر سے پہلے مسلمان ہوا _نافع نے اس كى يوں تاويل كى ہے كہ ابن عمرنے بيعت شجرہ كے موقع پرحضرت عمر سے پہلے بيعت كى تھى اسلئے لوگ كہتے ہيں كہ ابن عمر نے حضرت عمر سے پہلے اسلام قبول كيا_ (3)
ليكن ہم نافع سے سوال كرتے ہيں كہ كيا لوگ عربى زبان نہ جانتے تھے؟اگر جانتے تھے تو پھر انہوں نے يہ كہنے كى بجائے كہ ابن عمر نے اپنے باپ سے پہلے بيعت كى تھى كيونكر يہ كہا كہ وہ اپنے باپ سے پہلے مسلمان ہوا _نيز كيا ان ميں كوئي اتنا بھى نہ جانتا تھا كہ بيعت كرنا اور چيز ہے ، اسلام قبول كرنا اور چيز ہے_ پس بيعت سے مراد قبول اسلام كيسے ہوسكتا ہے؟
ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ اس زمانے ميں لوگ جو كہتے تھے وہى درست ہے، يعنى يہ كہ ابن عمر دس سال كى عمر ميں ہجرت سے كچھ پہلے مسلمان ہوااور اس كے بعد اس كے باپ مسلمان ہوئے اور مدينہ كى طرف ہجرت كي_

2_ حضرت عمر كو فاروق كس نے كہا؟
گذشتہ روايات ميں ہم نے پڑھا كہ جب حضرت عمر مسلمان ہوئے تو رسول(ص) الله نے ان كو فاروق كا لقب ديا _ ليكن ہمارى نظر ميں يہ بات نہايت مشكوك ہے كيونكہ زہرى كہتا ہے ''ہميں خبر ملى ہے كہ اہل كتاب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج 5ص 326نيز حضرت عمر كے قبول اسلام كے بارے ميں ذكرشدہ مآخذ كى طرف رجوع كريں_
2_ الاتقان ج 1 ص 10_11_
3_ صحيح بخارى (مطبوعہ مشكول) ج 5ص 163 _

128
نے پہلے پہل حضرت عمر كو الفاروق كہہ كرپكارا _ مسلمانوں نے يہ لفظ ان سے ليا ہے اور ہميں كوئي ايسى روايت نہيں ملى كہ رسول(ص) الله نے اس قسم كا لقب ديا ہو'' (1) جبكہ فاروق كا لقب انہيں ايام خلافت ميں ملا تھا(2)

3_ كيا حضرت عمر كو پڑھنا آتا تھا؟
روايات ميں مذكور ہے كہ حضرت عمر كو پڑھنا آتا تھا اور انہوں نے صحيفہ قرآنى كو خود پڑھا تھا_
ہمارے نزديك تو يہ بات بھى مشكوك ہے اور ہمارا نظريہ يہ ہے كہ حضرت عمر كو نہ پڑھنا آتا تھا نہ لكھنا خصوصاً شروع شروع ميں_ زندگى كے آخرى ايام ميں لكھنا پڑھنا سيكھ گئے ہوں تويہ اور بات ہے_ اس كى دو وجوہات ہيں:
پہلى وجہ: بعض حضرات نے صريحاً كہا ہے كہ خباب بن ارت نے انہيں نوشتہ قرآنى پڑھ كر سنايا تھا_ (3) پس اگر وہ پڑھ سكتے تو معاملے كى سچائي اور حقيقت جاننے كے لئے اسے خود كيوں نہيں پڑھا_
دوسرى وجہ: حافظ عبدالرزاق نے( ان لوگوں كے بقول) صحيح سند كے ساتھ مذكورہ واقعے كو نقل كيا ہے ليكن اس نے كہا ہے كہ حضرت عمرنے (اپنى بہن كے گھر ميں) شانے كى ہڈى (جس پر قرآن كى آيات مرقوم تھيں) تلاش كى اور جب وہ مل گئي تو حضرت عمرنے كہا مجھے پتہ چلا ہے كہ تو وہ كھانا نہيں كھاتى جو ميں كھاتا ہوں_ پھر اس ہڈى سے اپنى بہن كو مارا اور اس كے سر كو دوجگہوں سے زخمى كرديا _ پھر وہ ہڈى ليكر نكلے اور كسى سے پڑھوايا_ حضرت عمر ان پڑھ تھے _جب وہ نوشتہ انہيں پڑھ كرسنايا گيا تو ان كا دل دہل گيا_ (4)
اس بات كى تائيد عياض ابن ابوموسى كى اس روايت سے ہوتى ہے كہ عمر بن خطاب نے ابوموسى سے كہا:
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ عمر ابن خطاب ( ابن جوزى )ص 30، طبقات ابن سعد ج 3حصہ اول ص 193، البداية و النہاية ج 7ص 133، تاريخ طبرى ج 3ص 267سنہ23ہجرى كے واقعات اور ذيل المذيل ج 8از تاريخ طبري_
2_ ملاحظہ ہو: طبقات الشعراء (ابن سلام ) 44_
3_ تاريخ ابن خلدون ج2ص 9 _
4_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج 5ص 326_

129
''اپنے محرر كو بلاؤ تاكہ وہ ہميں شام سے پہنچنے والے چند خطوط پڑھ كر سنائے''_ ابوموسى نے كہا : ''وہ مسجد ميں داخل نہيں ہوتا'' عمرنے پوچھا : ''كيا وہ مجنب ہے؟ ''جواب ملا : ''نہيں بلكہ وہ تو نصرانى ہے'' _ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ اٹھاكر اس كى ران پر مارا ،قريب تھا كہ ران كى ہڈى ٹوٹ جاتي_ (1)
ممكن ہے كوئي يہ جواب دے كہ پڑھے لكھے ہونے كے باوجود بھى خلفاء كبھى كبھى اپنے عہدے كو مدنظر ركھتے ہوئے بذات خود نہيں پڑھتے تھے ، يا يہ كہ وہ خطوط عربى ميں نہيں لكھے گئے تھے_
ليكن بظاہر يہ تكلفات بعد كى پيداوار ہيں _علاوہ برايں شاميوں كى زبان ہميشہ عربى رہى ہے اور يہ بعيد بات ہے كہ انہوں نے عربى كے علاوہ كسى اور زبان ميں خطوط لكھے ہوں_
مذكورہ بات كى تائيد يوں بھى ہوتى ہے كہ حضرت عمر عالمانہ ذہنيت كے مالك نہ تھے_ اس كى دليل يہ ہے كہ انہوں نے بارہ سال ميں سورہ بقرہ يادكيا_ جب ياد كرليا تو حيوان كى قربانى دي_(2)
بلكہ يہ بھى منقول ہے كہ جب حضرت عمر نے حضرت حفضہ سے كہا كہ وہ رسول(ص) الله سے كلالہ كا حكم معلوم كرے اور حضرت حفصہ نے آپ(ص) سے سوال كيا تو آپ(ص) نے چند تحريروں كى صورت ميں انہيں املا كر ديا_ پھر فرمايا: '' عمر نے تجھے اس كا حكم ديا ہے ؟ميرا تو يہ خيال ہے كہ وہ اسے نہيں سمجھ پائے گا_ (3)
بہت سے لوگوں كى روايت كے مطابق نبى كريم(ص) نے حضرت عمر كے روبرو يہى بات كہي_ (4)
ہاں ممكن ہے حضرت عمرنے مشقت اٹھاكر نئے سرے سے لكھنا پڑھنا سيكھا ہو جيساكہ بخارى نے نقل كيا ہے كہ حضرت عمر كہاكرتے تھے اگر لوگ يہ نہ كہتے كہ عمر نے قرآن ميں اضافہ كيا ہے تو آيہ رجم كو اپنے ہاتھ سے لكھتے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ عيون الاخبار (ابن قتيبة) ج 1 ص 43، الدرالمنثور ج2 ص 291 از ابن ابى حاتم و بيہقى در شعب الايمان اور حياة الصحابہ ج2 ص 785 از تفسير ابن كثير ج 2 ص 68_
2_ تاريخ عمر از ابن جوزى ص 165، الدر المنثور ج 1ص 21از خطيب نيز البيہقى در شعب الايمان و شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 12ص 66، الغدير ج 6ص 196از مآخذ مذكور و از تفسير قرطبى ج 1 ص34 اور التراتيب الاداريہ ج2 ص 280 از تنوير الحوالك ج 2 ص 68_
3_ المصنف ( حافظ عبد الرزاق) ج 10ص 305 _
4_ رجوع كريں: الغدير ج 6ص 116 (ايك سے زيادہ مآخذ سے منقول) اور ص 128 _

130
بہر حال معاملہ جو بھى ہو ليكن خليفہ ثانى كے پڑھے لكھے ہونے كے متعلق شك كرنے والے ہم پہلے آدمى نہيں ہيں بلكہ يہ موضوع تو پہلى صدى ہجرى سے ہى معركة الآراء رہا ہے يہى زہرى كہتاہے كہ '' ہم عمر بن عبدالعزيز ( جو اس وقت مدينہ كا گورنر تھا _ پھر اس كے بعد عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ مدينہ كا گورنر بنا تھا) كے پاس بيٹھے اس موضوع كے متعلق بحث كررہے تھے تو اس نے كہا :'' اگر ان لوگوں كے پاس اس بارے ميں كوئي خبر ہے تو ميں يہ پوچھنا چاہوں گا كہ كيا عمر لكھنا جانتا تھا؟'' عروة نے كہا : '' ہاں جانتا تھا'' اس نے پوچھا : '' تمہارے پاس اس كى كيا دليل ہے ؟ ''عروہ نے كہا : '' عمر كا يہ كہنا كہ اگر لوگ يہ نہ كہتے كہ عمر نے قرآن مجيد ميں اضافہ كيا ہے تو ميں آيت رجم كو اپنے ہاتھوں سے قرآن ميں لكھتا اس كى دليل ہے'' _ عبداللہ كہتاہے : '' كيا عروہ نے تمہيں يہ بتايا ہے كہ اسے يہ حديث كس نے بتائي ہے ؟ ''ميں نے كہا : '' نہيں'' عبيداللہ كہتاہے: '' عروة كى مثال اس مچھر كى طرح ہے جو خون تو چوستاہے مگر اپنا نشان كہيں نہيں چھوڑتا ہمارى حديثيں چورى كرتاہے ليكن ہميں چھپا ديتاہے'' يعنى حديث ميں نے بيان كى ہے_

نكتہ :
جب يہ بات مشكوك يا ثابت ہوجائے كہ حضرت عمر پڑھے لكھے نہيں تھے تو لا محالہ ان كا يہ قول بھى مشكوك ہوجائے گا كہ وہ كاتب وحى تھے_ اور شايد يہ بھى ان تمغوں ميں سے ہے جنہيں حضرت عمر كے ان وفاداروں نے گھڑا ہے جنہيں حضرت عمر كى اس فضيلت سے محرومى بہت گراں گزرى ہے _ مزيد يہ كہ ہم يہ بھى ديكھتے ہيں كہ جناب عمر نے ابوموسى كى ران پر اس زور سے مارا كہ اس كے ٹوٹنے كا خطرہ پيدا ہوگيا صرف اس لئے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ حلية الاولياء ج 9ص 34از كنز العمال ج 5ص 50از ابن سعد، سعيد بن منصور، ابن منذر، ابن ابى شيبہ اور ابن ابى حاتم_
2_ كنز العمال ج 6 ص 295_

131
كہ اس نے نصرانى محرر ركھا ہوا تھا_ جبكہ وہ لوگ خود ہى كہتے ہيں كہ خود حضرت عمر كا اپنا ايك نصرانى غلام تھا جو آخرى دم تك مسلمان نہيں ہوا تھا _ وہ اسے اسلام لانے كى پيشكش كرتے ليكن وہ انكار كرتا رہا يہاں تك كہ حضرت عمر كى وفات كا وقت قريب آيا تو انہوں نے نصرانى غلام كو آزاد كرديا(1) _ خليفہ ثانى كے موقف ميں يہ كتنا تضاد ہے ؟ اور اس كى كيا توجيہ ہوسكتى ہے ؟ صرف يہ كہ ابوموسى پر اس كا اعتراض اس كے منصبى لحاظ سے صرف اس بناپر تھا كہ مسلمانوں كے داخلى امور ميں ايك نصرانى سے كام ليتا تھا_ اور يہ كام مسلمانوں كى خدمت غير مسلم سے كرانے والا مسئلہ بھى نہيں (كيونكہ حساس مسئلہ تھا_ جبكہ خليفہ وقت كے پاس ايك نصرانى گھر كا بھيدى تھا _از مترجم)

4_ كيا واقعى حضرت عمر اسلام كى سربلندى كا باعث بنے ہيں؟
منقول ہے كہ حضرت عمر كى بركت سے اسلام كو تقويت يا سربلندى ملى اور رسول(ص) الله نے خدا سے دعا مانگى تھى كہ وہ حضرت عمر كے ذريعے اسلام كو سربلندى اور تقويت عطا كرے ...بلكہ بعض روايتوں كے مطابق تو وہ زمانہ جاہليت ميں بھى زور آور تھے _ كيونكہ جب انہوں نے ابوبكر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا كہ يہ لوگوں كا ہمدرد اور مونس ہے تو حضرت ابوبكر نے ان سے كہا :''ميرا تو تيرى حمايت كرنے كا ارادہ تھا اور تو ميرے متعلق يہ كہہ رہا ہے _ اس لئے كہ تو جاہليت ميں تو زور آور تھا ليكن اسلام ميں بزدل ہے ...''(2) ہمارے نزديك يہ بات نہ فقط مشكوك ہےبلكہ بے بنياد ہے اور اس كى وجوہات يہ ہيں:
--------------------------------------------------------------------------------
1_ حلية الاولياء ج9 ص 34 از كنز العمال ج5 ص 50 از ابن سعد، سعيد بن منصور ، ابن منذر ، ابن ابى شيبہ اور ابن ابى حاتم، طبقات الكبرى ج6 ص 109 ، التراتيب الاداريہ ج1 ص 102 ، نظام الحكم فى الشريعة والتاريخ والحياة الدستوريہ ص 58 از تاريخ عمر ( ابن جوزي) ص 87 و ص 148 _
2_ كنز العمال ج6 ص 295_

132
الف: جب شيخ ابطح حضرت ابوطالب ،خدا اور رسول(ص) كے شير حضرت حمزہ(جنہوں نے مشركين كے سرغنہ ابوجہل كا سر پھوڑا تھا )اور بنى ہاشم كے ديگر صاحبان عزت وشرف افراد كے بارے ميں يہ نہيں كہتے كہ ان سے اسلام كو عزت وتقويت ملى تو پھر حضرت عمر اسلام كى تقويت اور عزت كا باعث كيسے بن سكتے ہيں؟ جو خود ايك معمولى خادم (1) كى حيثيت سے شام كے سفر ميں وليد بن عقبہ كے ساتھ گئے تھے_ (2) وہ عمر جن كے قبيلے ميں كوئي قابل ذكر بزرگ يا رئيس نہ تھا_ (3)
وہ عمر جنہوں نے رسول(ص) خدا كے ساتھ گزرنے والى پورى زندگى ميں شجاعت ومردانگى كى كوئي ايك مثال بھى قائم نہيں كي_ ہم تو ديكھتے ہيں كہ حضرت عمرنے نہ ہى كوئي لڑائي لڑي، نہ كسى جنگ ميں كوئي جرا ت مندانہ اقدام كيا، جبكہ رسول(ص) الله كے دور ميں بہت سى جنگيں ہوئيں _
بلكہ اس كے برعكس ہم تو كئي جنگوں ميں حضرت عمر كو ميدان جنگ سے فرار كرتے ہوئے ديكھتے ہيں_ مثال كے طور پر جنگ احد، جنگ حنين اور جنگ خيبر ميں _جيساكہ سيرت نگاروں، تاريخ نويسوں اور محدثين كى ايك بڑى تعداد نے اس كا ذكر كيا ہے_ آئندہ اس كا تذكرہ ہوگا انشاء الله _
زمخشرى نے يہاں ايك عجيب لطيفے كى بات نقل كى ہے اور وہ يہ كہ انس بن مدركہ نے ايام جاہليت ميں قريش كے ايك گلے پر ڈاكہ ڈالا اور اس كو لے كر چلتا بنا _اپنى خلافت كے دوران حضرت عمرنے اس سے كہا :''ہم نے اس رات تمہارا تعاقب كيا تھا اگر ہمارے ہاتھ لگ جاتے تو تمہارى خير نہيں تھي'' اس نے جواب ديا:''اس صورت ميں آج آپ، لوگوں كے خليفہ نہ ہوتے''_ (4)
جى ہاں اسلام كى سرافرازى اور تقويت حضرت عمر كے ذريعے كيسے ہوسكتى تھي؟ كيونكہ نہ توانہيں بذات خود كوئي حيثيت حاصل تھي، نہ ہى اپنے قبيلے كى وجہ سے كوئي عزت تھى اور نہ ہى وہ اتنے بہادر تھے كہ لوگ ان سے ڈرتے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: اقرب الموارد لفظ ''عسف''_اور''عسيف '' كا ايك اور معنى كرايہ كامزدور يا غنڈہ بھى ہے _
2_ المنمق ( ابن حبيب) مطبوعہ ھند صفحہ 147اور شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 2ص 183_
3_ المنمق ص 147 _
4_ ربيع الابرار ج 1ص 707 _

133
ب: چاہے ہم اس بات كے قائل ہوں كہ حضرت عمر شعب ابى طالب ميں محصور ہونے كے واقعہ سے پہلے مسلمان ہوئے يا يہ كہيں كہ اس واقعہ كے بعد مسلمان ہوئے ، پھر بھى حالات ميں كوئي بہترى نہيں آئي بلكہ حالات جوں كے توں رہے كيونكہ اگر ہم حضرت عمر كے قبول اسلام سے پہلے اور اس كے بعد دعوت اسلام كے تدريجى سفركو ملاحظہ كريں تو معلوم ہوگا كہ ان كے قبول اسلام كے بعد كوئي زيادہ پيشرفت نہيں ہوئي بلكہ معاملہ اس كے برعكس ہوا_ ايك طرف سے مشركين نے پيغمبر اكرم(ص) اور بنى ہاشم كو شعب ابوطالب ميں محصور كرديا ، يہاں تك كہ وہ بھوك سے مرنے كے قريب ہوگئے _ان كے مرد درخت ببول كے پتے كھاتے تھے اور ان كے بچے بھوك سے بلبلا تے تھے_
ادھر مشركين نے رسول(ص) الله كو قتل كرنے كى سازش كى اور وفات ابوطالب كے بعد جب آپ(ص) سفر طائف سے لوٹے تو بہت مشكل سے شہر مكہ ميں داخل ہوسكے_ ان سخت حالات ميں عمر نے كہيں بھى كسى قسم كا حل پيش كرنے ميں مدد نہيں كى _ان باتوں كے علاوہ ابولہب نے رسول(ص) الله كو ستانے كيلئے مسلسل اذيتوں كا سلسلہ شروع كر ركھا تھا_
ج: امام بخارى نے صحيح بخارى اور ديگر كتب ميں عبدالله بن عمر سے نقل كيا ہے كہ جب عمر ڈركے مارے گھرميں محصور تھے، اس وقت عاص بن وائل ان كے پاس آيا اور اس نے پوچھا'' تمہاراكيا حال ہے؟'' وہ بولے :''تمہارى قوم كا كيا پتہ ہے اگر مسلمان ہوجاؤں تووہ مجھے قتل كرديں '' _وہ بولا :'' جب ميں نے تجھے امان دے دى ہے تو وہ تجھے كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _حضرت عمر كہتے ہيں:''جب اس نے يہ كہا تو مجھے سكون حاصل ہوا اور ميں ايمان لايا'' _ اس كے بعد اس نے ذكر كيا ہے كہ عاص نے كس طرح لوگوں كو حضرت عمر سے دور ركھا _ذہبى نے حضرت عمر كے اس قول ''مجھے اس كى قوت وجبروت سے حيرت ہوئي ...''كا بھى اضافہ كيا ہے _ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: صحيح بخارى ج 5ص 60_61مطبوعہ مشكول (اس ميں دو روايتيں مذكور ہيں) نيز تاريخ الاسلام (ذہبي) ج 2ص 104، نسب قريش از مصعب زبيرى ص 409تاريخ عمر از ابن جوزى ص 26و السيرة الحلبية ج 1ص 332، سيرت نبويہ (دحلان) ج 1ص 135، سيرت ابن ہشام ج 1ص 374،ر البداية و النہاية ص 82 اور دلائل النبوة (بيہقي) مطبوعہ دار النصر ج 2 ص9_

134
پس جس شخص كو لوگ قتل كى دھمكى ديں اور وہ ڈركے مارے گھرميں دبك كر بيٹھ جائے وہ صاحب عزت وجبروت نہيں ہوسكتا اور نہ ہى اسلام كو اس كے طفيل قوت وحيثيت حاصل ہوسكتى ہے_
البتہ اسلام كے صدقے خود انہيں عزت ومقام حاصل ہوا (جس كا آگے چل كر ذكر كريں گے) ان باتوں كے علاوہ بعض روايات ميں ذكر ہوا ہے كہ ابوجہل نے حضرت عمر كوپناہ دى تھي(1) بنابرايں مناسب يہ تھا كہ ہمارے نبي(ص) اس شخص كے ذريعے دين كى تقويت و عزت كيلئے دعا كرتے جس نے عمر كو پناہ دى تھى اور جس كے جبروت سے لوگ حيرت زدہ تھے، گھر كے كونے ميں چھپنے والے خوفزذہ حضرت عمر كے ذريعے نہيں_
د:عجيب بات تو يہ ہے كہ جن دو افراد كے حق ميں اہلسنت كى روايات كے مطابق رسول(ص) الله نے دعا كى ان ميں سے ايك كا سر حضرت حمزہ نے اپنى كمان سے بڑى طرح پھوڑ ديا ، وہ بھى اس كے طرفداروں كے عين سامنے اور وہ بات كرنے كى بھى جرا ت نہ كرسكا _پھر وہ جنگ بدر ميںہى ( جو مشركين كے ساتھ پہلى جنگ تھي)، مسلمانوں كے ہاتھوں مارا گيااور دوسرا شخص بھى رسول(ص) كى توقعات كے خلاف نكلا_يعنى خدانے رسول(ص) الله كى دعا اس كے حق ميں قبول نہيں فرمائي،كيونكہ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ اس كے ذريعے اسلام كى كوئي تقويت نہيں ہوئي_ جبكہ رسول(ص) اللہ فرمايا كرتے تھے : ''ميں نے اپنے رب سے كوئي دعا نہيں كى مگر يہ كہ خدانے اسے قبول كرليا'' (2) ليكن يہاں توبات ہى برعكس ہے، كيونكہ عبدالرزاق كہتا ہے كہ جب حضرت عمرنے اپنے اسلام كو ظاہر كيا تو مشركين سيخ پا ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں كى ايك جماعت كوسخت اذيتيں ديں_ (3)
ھ: يہاں نعيم بن عبدالله النحام عدوى اور عمر بن خطاب عدوى كے درميان موازنہ فائدے سے خالى نہيں ہے_ نعيم حضرت عمر سے قبل مسلمان ہوا اور اپنے ايمان كو چھپاتا رہا_ اس كى قوم نے اسے ہجرت كرنے سے روكا كيونكہ بنى عدى كے يتيموں اور بيواؤں پر مال خرچ كرنے كى بنا پر اسے قوم كے درميان عزت و شرف
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ عمر(ابن جوزي) ص 24 و 25 اور ملاحظہ ہو: كشف الاستار ج3 ص 171 اور مجمع الزوائد ج9 ص 64 البتہ يہاں ذكر ہوا ہے كہ اس كے ماموں نے اسے پناہ دى تھى اور ابن اسحاق كہتاہے كہ يہاں ان كے ماموں سے مراد'' ابوجہل'' ہے _ ليكن ابن جوزى اس بات سے قانع نہيں ہوئے _ پس مراجعہ فرمائيں_
2_ رجوع كريں: حالات زندگى حضرت علي(ع) از تاريخ عساكر با تحقيق محمودى ج 2 ص 275_276 (حاشيہ كے ساتھ) اور 278، فرائد السمطين باب 43حديث 172، كنز العمال ج 15ص 155طبع دوم از ابن جرير (جس نے اسے صحيح قرار ديا ہے)، ابن ابى عاصم اور طبرانى در الاوسط نيز ابن شاھين در السنة اور رياض النضرة ج 2ص 213_
3_ رجوع كريں المصنف (عبدالرزاق) ج5ص328_

135
حاصل تھا چنانچہ انہوں نے كہا :''آپ ہمارے ہاں ہى ٹھہر يئےور جس دين كى چاہيں پيروى كرتے رہيں خدا كى قسم كوئي شخص بھى آپ كو نقصان نہيں پہنچا سكتا مگر يہ كہ پہلے ہمارى جانيں چلى جائيں''_ (1)
عروہ نے نعيم كے گھرانے كے بارے ميں كہا ہے كہ بنى عدى كے كسى فردنے اس گھرانے كے خلاف كوئي اقدام نہيں كيا (2) يعنى اس كے مقام و منزلت كے پيش نظر انہوں نے كچھ نہيں كہا _ادھر حضرت عمر كو ديكھئے كہ رسول(ص) الله نے حديبيہ ميں انہيں مكہ بھيجنا چاہا تاكہ وہ آپ(ص) كى طرف سے رؤسائے قريش كو ايك پيغام پہنچائے _يہ پيغام اس كام سے متعلق تھا جس كيلئے آپ(ص) آئے تھے _ ليكن عمرنے انكار كيا اور كہا:''ميں قريش سے جانى خطرہ محسوس كرتا ہوں اور مكے ميں بنى عدى كا كوئي فرد ايسا نہيں جو ميرى حمايت و حفاظت كرے''_ پھر اس نے حضور اكرم(ص) كى خدمت ميں عثمان بن عفان كو بھيجنے كيلئے اشارہ كيا_ (3)
و:ابن عمرنے نعيم النحام كى بيٹى كا رشتہ مانگا تو نعيم نے اسے ٹھكراديا اور كہا :''ميں اس بات كى اجازت نہيں دے سكتا كہ ميرا گوشت مٹى ميں مل جائے'' پھر اس كى شادى نعمان بن عدى بن نضلہ سے كردي_(4)
ز:دوران خلا فت شام كے دورے پر جاتے ہوئے جب حضرت عمر نے اپنے موزے اتار كر كاندھے پر ركھے اور اپنى اونٹنى كى مہار تھام كر پانى ميں داخل ہوئے تو ابو عبيدہ نے اعتراض كيا_ حضرت عمرنے جواب ديا:'' ہم ذليل ترين قوم كے افراد تھے ليكن خدانے ہميں اسلام كے ذريعے عزت دى پس جب ہم اسلام كے علاوہ كسى اور چيز كے ذريعے عزت طلب كريں گے تو خدابھى ہميں ذليل كردے گا''_ (5) حضرت عمر سے منقول ايك اور عبارت يوں ہے ''ہم وہ لوگ ہيں جنہيں خدانے اسلام كى بركت سے حيثيت بخشى ہے ، پس ہم كسى اور چيز كے ذريعے عزت و حيثيت طلب نہيں كريں گے''_ (6)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اسدالغابة ج 2ص 33نيز رجوع كريں: نسب قريش ( مصعب) ص 380_
2_ نسب قريش (مصعب) ص 381 _
3_ البداية و النہاية ج4 ص 167از ابن اسحاق، حيات صحابہ ج 2ص_ 397_398از كنز العمال ج 1 ص 84، 56 و ج 5ص 288از ابن ابى شيبہ، روياني، ابن عساكر اور ابويعلي، طبقات ابن سعد ج 1 ص 461اور سنن البيہقى ج 9ص 221 _
4_ نسب قريش ( مصعب) ص 380 _
5_ مستدرك حاكم: ج 1ص 61اور اس كى تلخيص (ذہبي) حاشيہ كے ساتھ جس نے بخارى و مسلم كى شرط كے مطابق اسے صحيح قرار ديا ہے_
6_ مستدرك حاكم ج 1ص 62 _

136
ح:فتح مكہ كے موقع پرجب ابوسفيان جھنڈوں كا جائزہ لے رہا تھا اور اس كى نظر حضرت عمر پر پڑى جو ايك جماعت كے سا تھ تھے تو اس نے عباس سے پوچھا :'' اے ابوالفضل يہ متكلم كون ہے؟'' وہ بولے:'' عمر بن خطاب ہے''_ ابوسفيان نے كہا:'' خدا كى قسم بنى عدى كو ذلت وپستى اور قلت عدد كے بعد عزت وحيثيت ملى ہے''_عباس نے كہا :''اے ابوسفيان خدا جس كا مرتبہ بلندكرنا چاہے كرتا ہے، عمر كو خدا نے اسلام كى بدولت عزت بخشى ہے''_ (1)

5_ حضرت عمر كا غسل جنابت
اہلسنت كہتے ہيں كہ حضرت عمر كى بہن نے ان كو غسل كرنے كيلئے كہا تاكہ وہ نوشتہ قرآنى كو چھوسكيں حالانكہ قرآن كو چھونے كيلئے مشرك كا غسل عبث ہے ،كيونكہ ان ميں اصل مانع شرك تھا نہ جنابت ،اسى لئے ان كى بہن نے كہا تھا كہ تم مشرك اور نجس ہو اور قرآن كو پاك لوگ ہى چھوسكتے ہيں_ (2)
رہا غسل جنابت تو كہتے ہيں كہ زمانہ جاہليت كے لوگ بھى غسل جنابت كيا كرتے تھے (3) پھر حضرت عمر كى بہن نے ان سے يہ كيونكر كہا كہ تم غسل جنابت نہيں كرتے ہو_ ہاں اگر عام لوگوں كے برخلاف حضرت عمر كى عادت ہى غسل جنابت نہ كرنا تھى تويہ اور بات ہے _مشركين كے غسل جنابت كرنے پر ايك دليل يہ ہے كہ ابوسفيان نے جنگ بدر سے شكست كھاكر لوٹنے كے بعد قسم كھائي تھى كہ وہ حضرت محمد(ص) كے ساتھ جنگ كرنے سے قبل غسل جنابت نہيں كرے گا _واضح رہے كہ جنگ سويق ابوسفيان نے اپنى مذكورہ قسم كو نبھانے كيلئے لڑى تھي(4) اس بات كا ہم آگے چل كر تذكرہ كريں گے ...
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مغازى الواقدى ج 2ص 821اور كنز العمال ج 5ص 295از ابن عساكر اور واقدي_
2_ الثقات ج 1ص 74نيز رجوع كريں مذكورہ روايت كے مآخذ كى جانب_
3_ سيرت حلبى ج 1ص 329 از دميرى اور سہيلي، دميرى نے كہا ہے يہ ابراہيم و اسماعيل كے دين كى يادگار ہے نيز كہا ہے بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ كفار ايام جاہليت ميں غسل جنابت كرتے تھے اور اپنے مْردوں كو بھى دھوتے تھے ان كو كفن بھى ديتے تھے نيز ان كيلئے دعا بھى كرتے تھے_
4_ البدايہ والنہايہ ج3 ص 344، السيرة النبويہ ( ابن كثير) ج 2 ص 540 ، تاريخ الخميس ج1 ص 410 ، السيرة الحلبيہ ج 2 ص 211 ، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 139، السيرة النبويہ ( دحلان، سيرہ حلبيہ كے حاشيہ پر مطبوع) ج2 ص 5 بحارالانوار ج 20 ص 2 اور تاريخ الامم والملوك ج 2 ص175_

137
6_ حضرت عمر كا قبول اسلام اور نزول آيت؟
كہتے ہيں كہ (يا يہا النبى حسبك الله ومن اتبعك من المؤمنين) والى آيت حضرت عمر كے قبول اسلام كى مناسبت سے اتري_ يعنى اس وقت جب اس نے تينتاليس افراد كے بعد قبول اسلام كيا(1) ليكن اس قول كى مخالفت كلبى سے مروى اس روايت سے ہوتى ہے كہ يہ آيت غزوہ بدر كے متعلق مدينہ ميں نازل ہوئي (2) واقدى سے منقول ہے كہ يہ آيت بنى قريظہ اور بنى نظير كے بارے ميں اترى ہے_(3) يہ نكتہ بھى قابل غور ہے كہ يہ سورہ انفال كى آيت ہے جو مكى نہيں، مدنى ہے زہرى سے بھى مروى ہے كہ يہ آيت انصار كے بارے ميں نازل ہوئي (4)_
اس كے علاوہ مذكورہ آيت سے قبل كى آيات جنگ وجہاد سے متعلق ہيں اور ظاہر ہے كہ جہاد كا حكم مدينے ميں نازل ہوا تھا اسى لئے يہ آيت ان آيات كے ساتھ مكمل طور پر ہماہنگ ہے_ قارئين ان آيات ميں غوروفكر فرمائيں_اس آيت كامدنى ہونا اس لحاظ سے بھى مناسب معلوم ہوتا ہے كہ مدينے ميں ہى اسلام كو قوت وشوكت اور مومنين كو عزت حاصل ہوئي_

آخرى نكات
آخر ميں ہم درج ذيل امور كى ياد دہانى كراتے ہيں كہ:
1) حضرت عمر كے قبول اسلام سے مربوط روايات كا مطالعہ كرنے والا اس حقيقت كا مشاہدہ كرتا ہے كہ ان كے درميان مكمل تضاد موجود ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الدرالمنثور ج 3 ص 200 از طبرانى ، ابو شيخ و ابن مردويہ نيز ملاحظہ ہوں وہ احاديث جنہيں بزار _ ابن منذر اور ابن ابى حاتم سے نقل كيا گيا ہے _
2_ مجمع البيان ج 4ص 557 _
3_ شيخ طوسى كى كتاب التبيان ج 5ص 152 _
4_ الدرالمنثور ج 3 ص 200 از ابن اسحاق و ابن ابى حاتم_

138
2) ان ميں سے ايك روايت كے مطابق عمر كى نعيم النحام يا سعد سے ملاقات اور ان كے درميان گفتگو ہوئي نعيم نے عمر كو اس كى بہن اور بہنوئي كے مسلمان ہونے سے آگاہ كيا اور اسے ان دونوں كے خلاف اكسايا_ يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جب سعد مسلمان تھا او رنعيم عمر سے پہلے پوشيدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا تو پھر وہ عمر كو اس كى بہن اور بہنوئي كے خلاف كيونكر اكساتاہے ؟ اگر كوئي يہ كہے كہ نعيم كو حضرت عمر سے رسول(ص) الله كے بارے ميں خطرہ محسوس ہوا_ اسلئے اس نے مذكورہ فعل انجام ديا تو اس كا جواب يہ ہے كہ رسول(ص) الله كے پاس تو حضرت حمزہ اور حضرت علي(ع) جيسے پورے چاليس بہادر مرد موجود تھے اس كے باوجود بھى رسول(ص) كى جان كو خطرہ محسوس ہوتا ہے _ ليكن نعيم كو ان دونئے مسلمانوں كے بارے ميں حضرت عمر كا خوف محسوس نہيں ہوا جبكہ ان كى مدد كرنے والا بھى كوئي نہيں تھا اور نہ ان كے پاس كوئي موجود تھا_
3) رہا ان لوگوں كا يہ كہنا كہ مسلمانوں نے عمر كے قبول اسلام كے بعداعلانيہ نماز پڑھى تو اس كے جواب ميں ہم انہى لوگوں كا يہ قول پيش كرتے ہيں كہ سب سے پہلے على الاعلان نماز پڑھنے والاابن مسعود تھا_ نيز ابن مسعود كے علاوہ ديگر حضرات كے بارے ميں بھى اس قسم كى بات كرتے ہيں_

نتيجہ بحث
مذكورہ عرائض كى روشنى ميں عرض ہے كہ جو شخص حضرت عمر كے قبول اسلام كى روايات كا مطالعہ كرے گا وہ بآسانى اس نتيجے پر پہنچ سكتا ہے كہ درحقيقت وہ حضرت حمزہ كے قبول اسلام كے واقعے كى پردہ پوشى كى كوششيں ہيں ،وہ حمزہ جس كى وجہ سے اسلام كو حقيقى طور پر شان وشوكت نصيب ہوئي اور رسول(ص) الله كو زبردست سروراور خوشى حاصل ہوئي _يہى وجہ ہے كہ وہ لوگ مذكورہ روايات ميں حضرت عمر كا موازنہ حضرت حمزہ سے بار بار كرتے ہيں اور ان دونوں كو مساوى حيثيت ديتے ہيں بلكہ حضرت عمر كو ايك حدتك ترجيح بھى ديتے ہيں_
اسى طرح ان لوگوں نے يہ بھى كوشش كى ہے كہ امان كو رد كرنے كے بارے ميں عثمان بن مظعون كى فضيلت حضرت عمر كے نام منتقل كرسكيں_ بلكہ ہم بعض روايات ميں ديكھتے ہيں كہ شام كے اہل كتاب نے

139
حضرت عمر كو خوشخبرى دى تھى كہ اس نئے دين كى لگام مستقبل ميں ان كے ہاتھ آجائے گى (1)جس طرح انہوں نے بصرى ميں حضرت ابوبكر كو بھى اسى قسم كى خوشخبرى سنائي (2)_نيز خود رسول(ص) الله كو بھى خوشخبرى دى تھى (3)_ انہوں نے حضرت عمر كے اندر ان علامات كا مشاہدہ كيا تھا جن سے ان كے دعوى كى تقويت ہوتى تھي، جس طرح اس سے قبل حضرت ابوبكر ميں ان كا مشاہدہ كيا تھاادھر حضرت عمر كا اسلام قبول كرنا تھا اور ادھر ان لوگوں كى پورى كوشش اس بات پر مبذول رہى كہ حضرت عمر كيلئے فضائل اور كرامات وضع كريں_فتبارك اللہ احسن الخالقين_
ابن عرفة نے كہا ہے:'' صحابہ كے اكثر فضائل بنى اميہ كے دور ميں گھڑے گئے ہيں تاكہ بنى ہاشم كے مقام كو گھٹا سكيں''_چنانچہ معاويہ نے لوگوں كو خلفائے ثلاثہ كى شان ميں احاديث وضع كرنے كا حكم ديا تھا ،جس كا بعد ميں تذكرہ ہوگا_يہاں ہم مذكورہ عرائض پر اكتفا كرتے ہيں اور حقيقت اور ہدايت كے متلاشيوں كيلئے اسے كافى سمجھتے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: الرياض النضرة ج 2 ص 319_
2_ ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج 1 ص 274 ، 275 و ص 186 اور الرياض النضرة ج1 ص 221_
3_ ہم نے اس كتاب كى پہلى جلد ميں آغاز وحى كى روايات كے تحت عنوان اس واقعہ ميں ورقہ بن نوفل كے كردار كى طرف بھى اشارہ كيا تھا اور اس كے سقم كو بھى ثابت كيا تھا _ پس وہاں مراجعہ فرمائيں_