الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
357
تيسرى فصل
قباكى جانب


358
مدينہ كى راہ ميں
حضرت امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے ''جب رسول(ص) الله غار سے نكل كر مدينہ كى طرف روانہ ہوئے تو چونكہ قريش نے آنحضرت(ص) كى گرفتارى پر سواونٹوں كا انعام ركھا تھا اس لئے سراقہ بن جشعم بھى حضور اكرم(ص) كى تلاش ميں نكلا اور آپ(ص) كے پاس پہنچ گيا_ آپ(ص) نے دعا فرمائي ''اے خدا جس طريقے سے تو چا ہے، مجھے سراقہ كے شر سے بچا ''_نتيجتاًسراقہ كے گھوڑے كے پاؤں زمين ميں دھنس گئے جس سے اس كى ٹانگ دوھرى ہوگئي اور وہ مشكل ميں پڑگيا اس نے كہا اے محمد(ص) ''اگر تمہيں يقين ہوكہ ميرے گھوڑے كى ٹانگوں پر جو مصيبت آئي ہے وہ تيرى طرف سے ہے تو خدا سے دعا كرو كہ وہ ميرے گھوڑے كو چھوڑ دے_ مجھے جان كى قسم (اس صورت ميں) اگر تم لوگوں كو ميرى طرف سے كوئي نيكى نہ پہنچى تو كم از كم كوئي بدى بھى نہيں پہنچے گي''_ چنانچہ رسول(ص) خدا نے دعاكى اور الله نے اس كے گھوڑے كو آزاد كرديا ليكن وہ دوبارہ رسول(ص) الله كا تعاقب كرنے لگا_ يہاں تك كہ تين بار اس واقعے كا تكرار ہوا جب تيسرى بار اس كے گھوڑے كى ٹانگيں رہا ہوئيں تو اس نے كہا:'' اے محمد(ص) يہ رہا ميرا اونٹ جس پر ميرا غلام سوار ہے اگر آپ(ص) كو سوارى يا دودھ كى ضرورت پڑے تو اس سے استفادہ كر لينا اور يہ رہا بطور نشانى اورعلامت ميرے تركش كا ايك تير_ اب ميں لوٹتا ہوں اور آپ كے تعاقب سے دوسروں كو روكتا ہوں''_ آپ (ص) نے فرمايا:'' مجھے تمہارى كسى چيز كى ضرورت نہيں''_
نبى كريم(ص) كى طرف سے سراقہ كى پيشكش كو ٹھكرانے كى وجہ شايد يہ دليل ہوكہ آپ(ص) نہيں چاہتے تھے كہ كسى مشرك كا آپ(ص) پر كوئي حق ہواور اس بات كى تائيد كرنے والى بعض روايات كا ذكر گزرچكا ہے_اس كے بعد آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر جارى ركھا يہاں تك كہ ام معبد كے خيمے تك پہنچ گئے آپ(ص) وہاں

359
اتر گئے اور اس عورت كے پاس مہمان بننے كى خواہش كى وہ بولى ميرے پاس كچھ بھى موجود نہيں ہے_ اتنے ميں رسول(ص) خدا كى نظر ايك بكرى پر پڑى جوكسى تكليف كے باعث باقى چوپايوں كے ساتھ نہ جاسكى تھي_ آپ(ص) نے فرمايا كيا اس كو دوہنے كى اجازت ہے؟ وہ بولى ہاں، ليكن اس ميں كوئي فائدہ نہيں ہے_ آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس كى پشت پر پھيرا تو وہ تمام بھيڑ بكريوں سے زيادہ موٹى تازى ہوگئي پھر آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس كے تھن پر پھيرا تو اس كے تھن حيرت انگيز طريقے سے بڑھ گئے اور دودھ سے لبريز ہوگئے_ آپ(ص) نے ايك برتن مانگ كر دودھ دوہا_ يوں سب نے اتنا دودھ پيا كہ سير ہوگئے_
پھر ام معبد نے اپنا بيٹا آپ(ص) كے حضور پيش كيا جو گوشت كے ايك لوتھڑے كے مانند تھا_ وہ نہ تو بات كرسكتا تھا اور نہ اٹھ سكتا تھا_ آپ(ص) نے ايك كجھور اٹھا كر چبايا اور اس كے منہ ميں ڈال ديا_ وہ فوراً اٹھ كر چلنے اور باتيں كرنے لگا_ پھر آپ(ص) نے اس كجھور كى گٹھلى زمين ميں دبادى تو اسى وقت ايك درخت بن گئي اور تازہ كجھور اس سے لٹكنے لگيں_ پھر آپ(ص) نے اس كے آس پاس كى طرف اشارہ كيا تو وہ زمين چرا گاہ بن گئي_
اس كے بعد آپ وہاں سے روانہ ہوئے_ آپ(ص) كى رحلت كے بعد اس درخت نے پھل نہيں ديا_ جب حضرت على (ع) شہيد ہوئے تو وہ سوكھ گيااور پھر جب امام حسين(ع) شہيد كئے گئے تو اس سے خون بہنے لگا_ (1)
جب ابومعبد واپس آيا اور وہاں كا منظر ديكھا تو اس كى علت پوچھي_ ام معبد بولى قريش كا ايك مرد ميرے ہاں سے گزرا ہے اس كے حالات اور واقعات اس قسم كے تھے (ام معبد نے آپ(ص) كى جو توصيف كى وہ مشہور و معروف ہے)_ يہ سن كر ابومعبد نے جان ليا كہ وہ نبي(ص) ہيں_ چنانچہ وہ رسول(ص) الله كے پاس گيا اور اپنے گھرانے كے ساتھ مسلمان ہوگيا_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الخميس ج 1 ص 335 از ربيع الابرار _
2_ ام معبد كا واقعہ مورخين كے درميان مشہور و معروف ہے_ مذكورہ عبارت ابتدا سے لے كر يہاں تك بحار الانوار ج 19 ص 75_76 سے نقل ہوئي ہے_ جو الخرائج و الجرائح سے لى گئي ہے نيز ملاحظہ ہو: تاريخ الخميس ج1 ص 334، دلائل النبوة بيہقى مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج1 ص 279 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 49 _ 50 و ديگر منابع و مآخذ_

360
مشكلات كے بعد معجزات
نبى كريم صلى الله عليہ وآلہ وسلم اور آپ(ص) كى واضح كرامات اور روشن معجزات كے سامنے مذكورہ معجزات كى اتنى زيادہ اہميت نہيں كيونكہ آپ(ص) اشرف المخلوقات تھے اور خدا كے نزديك تا روز قيامت اولين وآخرين كے مقابلے ميں آپ(ص) كا مقام سب سے زيادہ معزز و مكرم تھا_
دوسرى طرف سے ہجرت كى دشواريوں كے فوراً بعد ان كرامات كا ظہور اس حقيقت كى تائيد كرتا ہے (جس كا ہم پہلے بھى ذكر كرچكے ہيں اور وہ يہ) كہ ہجرت كا عمل معجزانہ طريقے سے بھى انجام پاسكتا تھا ليكن الله كى منشا بس يہى ہے كہ سارے امور عام اسباب كے تحت انجام پذير ہوں تاكہ رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم مشكلات زندگى سے نبرد آزما ہونے اور دعوت الى الله كى سنگين ذمہ داريوں كو( تمام تر سختيوں، مصائب اور كٹھن مراحل ميں)بطور احسن نبھانے كے حوالے سے ہر شخص كيلئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ قرار پائيں_
علاوہ ازيں يہ امر انسان كى تربيت اور اس كو تدريجاً معاشرے كا ايك فعال، تعميرى اور مفيد عنصر بنانے كے عمل ميں بھى مددگار ثابت ہوسكتا ہے تاكہ وہ انسان فقط طفيلى يا دوسرے كے رحم وكرم پرہى اكتفا كرنے والا نہ بنا رہے _ان كے علاوہ ديگر فوائد ونتائج بھى ہيں جنہيں گزشتہ عرائض كى روشنى ميں معلوم كيا جاسكتا ہے_

اميرالمؤمنين(ع) كى ہجرت
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپنا سفر ہجرت جارى ركھا يہاں تك كہ آپ(ص) مدينہ كے قريب پہنچے_ آپ(ص) سب سے پہلے قبا ميں عمرو بن عوف كے گھر تشريف لے گئے_ حضرت ابوبكر نے آپ(ص) سے مدينہ ميں داخل ہونے كى درخواست كى اور اس پر اصرار كيا_ ليكن آپ(ص) نے انكار كرتے ہوئے فرمايا:'' ميں داخل مدينہ نہيں ہوں گا جب تك ميرى ماں كا بيٹا اور ميرا بھائي نيز ميرى بيٹي( يعنى حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ(ع) ) پہنچ نہ جائيں''_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الفصول المہمة (ابن صباغ مالكي) ص 35 (يہاں نام لئے بغير ذكر ہوا ہے) امالى شيخ طوسى ج 2 ص 83 نيز اعلام الورى ص 66 بحار ج 19 ص 64، 106، 115، 116 و 75 اور 76 و ج22 ص 366 از الخرائج و الجرائح_

361
جب شام ہوئي تو حضرت ابوبكر آنحضرت(ص) سے جدا ہوئے اور مدينہ ميں داخل ہوكر كسى انصارى كے ہاں چلے گئے ليكن رسول(ص) الله قبا كے مقام پر ہى كلثوم بن ہدم كے ہاں تشريف فرما رہے_ (1)
پھر آنحضرت(ص) نے اپنے بھائي حضرت علي(ع) كو ايك خط لكھا اور انہيں جلدسے جلد آپ(ص) كى طرف آنے كا حكم ديا_ يہ خط آپ(ص) نے ابوواقد ليثى كے ہاتھ ارسال فرمايا_
جب رسول(ص) خدا كا خط حضرت على (ع) كو ملا تو آپ(ع) سفر ہجرت كيلئے آمادہ ہوگئے اور اپنے ساتھ (مكہ ميں) موجود بے چارے اور ضعيف مسلمانوں كو اس كى اطلاع دى اور حكم ديا كہ وہ رات كى تاريكى ميں خاموشى كے ساتھ جلدى سے ذى طوى كى طرف حركت كريں_ اميرالمومنين حضرت علي(ع) حضرت فاطمہ بنت الرسول، اپنى والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم اور فاطمہ بنت زبير بن عبدالمطلب كو ساتھ ليكر نكلے_ رسول(ص) الله كے آزاد كر دہ غلام ايمن بن ام ايمن اور ابوواقد بھى ان كے ساتھ ہولئے_ ابوواقد جانوروں كو ہانك رہے تھے_ اس نے جب ان سواريوں كے ساتھ تندى برتى تو اميرالمؤمنين عليہ السلام نے اس كو نرمى كا حكم ديا_ اس نے تعاقب كے خوف كا عذر پيش كيا اميرالمؤمنين(ع) نے فرمايا اطمينان ركھو، بتحقيق رسول(ص) الله نے مجھ سے فرمايا ہے (يعنى غار سے روانگى كے وقت ، جيساكہ پہلے بيان ہوچكا ہے) ''اے على (ع) اس كے بعد يہ لوگ تمہيں كوئي تكليف نہ پہنچا سكيں گے''_
ضجنان كے قريب تعاقب كرنے والے ان تك پہنچ گئے جن كى تعداد سات تھى اور وہ نقاب پہنے ہوئے تھے_ آٹھواں آدمى حارث بن اميہ كا آزاد كردہ غلام جناح تھا_
حضرت على (ع) نے عورتوں كو اتارا اورتلوار سونت كر ان لوگوں كے پاس آئے ان لوگوں نے انہيں واپس چلنے كيلئے كہا انہوں نے فرمايا: ''اگر ميں ايسا نہ كروں تو؟'' وہ بولے :''تمہيں مجبوراً چلنا پڑے گا وگرنہ تمہيں سركے بالوں سے پكڑ كرلے جائيں گے اور يہ تمہارے لئے موت سے بھى بدتر ہوگا''_
پھر وہ سوار حملہ كرنے كيلئے سواريوں كى طرف بڑھے ليكن حضرت على (ع) ان كے اور سواريوں كے درميان
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اعلام الورى ص 66 اور بحار ج 19 ص 106 از اعلام الوري_

362
حائل ہوگئے اتنے ميں جناح نے اپنى تلوار سے وار كيا ليكن حضرت على (ع) نے پہلو بچا كر اس كا وار ضائع كرديا پھرآپ(ع) نے اس كے كندھے پروار كيا، تلوار تيزى سے اترتى چلى گئي يہاں تك كہ اس كے گھوڑے كى پشت تك جاپہنچى اس كے بعد حضرت على (ع) درج ذيل رجز پڑھتے ہوئے اپنى تلوار كے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے_

خلوا سبيل الجاھد المجاھد
آليت لا اعبد غير الواحد

اس زحمت كش مجاہد كا راستہ نہ روكو ميں نے خدائے واحد كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرنے كى قسم كھا ركھى ہے_
يہ ديكھ كر وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے اور كہنے لگے :''اے فرزند ابوطالب ہمارى طرف سے بے فكر ہوجاؤ''_ انہوں نے فرمايا:'' ميں اپنے چچا زاد بھائي كے پاس يثرب جارہاہوں_ جس كى يہ خواہش ہو كہ ميں اس كے گوشت كے ٹكڑے كروں يا اس كا خون بہادوں تو وہ ميرے پيچھے آئے يا ميرے نزديك آنے كى كوشش كرے''_پھر حضرت على (ع) اپنے دونوں ساتھيوں (ايمن اور ابوواقد) كے پاس آئے اور فرمايا:'' اپنى سواريوں كو آزاد چھوڑ دو''_ اس كے بعد وہ بے فكر ہو كر سفر كرتے رہے يہاں تك كہ ضجنان پہنچ گئے_ وہاں انہوں نے تقريباً ايك دن اور ايك رات استراحت فرمائي بعض كمزور اور بے چارے مومنين وہاں پہنچ كر حضرت علي(ع) سے مل گئے ان ميں رسول(ص) الله كى آزاد كردہ كنيز ام ايمن بھى تھيں_ اس رات انہوں نے كھڑے ہو كر بيٹھ كراور پہلوؤں كے بل ليٹ كر الله كى عبادت كى يہاں تك كہ جب صبح ہوگئي تو حضرت علي(ع) نے ان كے ساتھ نماز فجر پڑھى _اس كے بعد ان كے ساتھ دوبارہ سفر كا آغاز كيا اور ہرمنزل پر اس عمل كا اعادہ كرتے گئے يہاں تك كہ مدينہ پہنچ گئے_ ان كى آمد سے قبل ہى ان كى شان ميں يوں وحى نازل ہوئي_ (الذين يذكرون الله قياما وقعودا وعلى جنوبھم ويتفكرون فى خلق السموات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا ... فاستجاب لہم ربہم انى لا اضيع عمل عامل منكم من ذكر او انثى ) (1) يعنى جولوگ كھڑے ہوكر، بيٹھ كر اور پہلوؤں كے بل خدا كو ياد كرتے ہيں اور زمين و آسمان كى خلقت ميں غور كرتے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ آل عمران آيت 191_195 _

363
اور كہتے ہيں خدايا تونے ان كو بے مقصد خلق نہيں كيا پس خدا نے ان كے جواب ميں فرمايا: تم ميں سے كسى كا عمل ضائع كرنے والا نہيں ہوں، خواہ مرد ہو يا عورت_
جب رسول خدا صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كو حضرت علي(ع) كى آمد كى خبر ملى تو فرمايا :''على (ع) كو ميرے پاس بلاؤ''عرض كيا گيا :''اے الله كے رسول(ص) وہ چلنے پر قادر نہيں ہيں ''_يہ سن كر آنحضرت(ص) خود ان كے پاس آئے اور انہيں اپنے سينے سے لگايا_ جب ان كے سوجے ہوئے پيروں پر حضور(ص) كى نظر پڑى تو شفقت كى بنا پر گريہ فرماياكيونكہ ان كے قدموں سے خون ٹپك رہا تھا_
حضور(ص) نے على (ع) سے فرمايا:'' اے على (ع) تم ايمان كے لحاظ سے اس امت كے سب سے پہلے مومن ہو اور الله اور رسول(ص) كى طرف ہجرت كرنے والے سب سے پہلے ليكن رسول (ص) خدا سے ملحق ہونے والے سب سے آخرى فرد ہو_ مجھے قسم ہے اس كى جس كے اختيار ميں ميرى جان ہے تجھ سے محبت نہيں كرے گا مگروہ جو مومن ہوگا اور اس كا ايمان آزمايا جاچكا ہوگا اور تجھ سے بغض نہيں ركھے گا مگروہ جو منافق يا كافر ہوگا''_ (1)
بنابريں يہ واضح ہوا كہ كھلم كھلا ہجرت كرنے اور ہجرت سے روكنے والوں كو قتل كى دھمكى دينے والے شخص على ابن ابيطالب تھے نہ كہ عمرابن خطاب_ حضرت عمر كى طرف اس بات كى نسبت كے غلط ہونے سے متعلق تھوڑى سى بحث پہلے گزر چكى ہے_ يہ سوائے اس كے كچھ نہيں كہ اميرالمومنين (ع) كے ديگر بہت سے فضائل كى طرح ان كى اس فضيلت كو بھى دوسروں سے منسوب كرنے كى كوشش كى گئي ہے_

تبع اول كا خط
بعض لوگ كہتے ہيں كہ تبع اول آپ(ص) كى ولادت سے سينكڑوں سال قبل آپ(ص) پر ايمان لاچكا تھا_يہ واقعہ طويل ہے اور ہم اس كے ذكر سے اجتناب كرتے ہيں كيونكہ ہميں اس كى صحت كے بارے ميں اطمينان حاصل نہيں ہے البتہ قرطبى اور ابن حجت حموى نے (قرطبى سے) ثمرات الاوراق (ص 290_ 291) ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ امالى شيخ طوسى ج 2 ص 83_86 بحار ج 19 ص 64 _ 67، 83 اور 85 تفسير برہان ج 1 ص 332_333 از الشيبانى (در نہج البيان) الاختصاص (شيخ مفيد) المناقب (ابن شہر آشوب) ج 1 ص 183_184، اعلام الورى 190 اور امتاع الاسماع (مقريزي) ج 1 ص 48 _

364
اس كا تذكرہ كيا ہے جو حضرات تحقيق كے طالب ہوں وہ ادھر رجوع كريں_

حضرت ابوبكر معروف بزرگ؟
بعض جگہوں ميں ذكر ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم مدينہ آئے تو حضرت ابوبكر آپ(ص) كے ساتھ ايك ہى سوارى پر سوار تھے اور يہ كہ حضرت ابوبكر ايك جانے پہچانے بزرگ تھے ليكن رسول(ص) خدا ايك غير معروف نوجوان تھے_ لوگ حضرت ابوبكر سے ملاقات كرتے اور پھر ان سے پوچھتے تھے كہ اے ابوبكر يہ تيرے آگے كون ہے؟ احمد كے الفاظ ہيں'' يہ لڑكا كون ہے جو تيرے آگے ہے؟'' وہ جواباً كہتے تھے :''يہ مجھے راستہ دكھاتا ہے''_ لوگ يہى سمجھتے تھے كہ آپ(ص) ان كو سفر كے راستے سے آگاہ كرتے ہيں حالانكہ ان كا مقصد يہ تھا كہ آپ(ص) راہ حق دكھانے والے ہيں_
تمہيد ميں مذكور ہے كہ ''رسول(ص) الله سوارى پر حضرت ابوبكر كے پيچھے بيٹھے تھے اور جب لوگ حضرت ابوبكر سے پوچھتے تھے كہ يہ تمہارے پيچھے كون ہے؟ ... ''
قسطلانى نے صاف الفاظ ميں يوں بيان كيا ہے كہ يہ واقعہ بنى عمرو بن عوف كے ہاں سے روانگى يعنى قباسے مدينے كو روانگى كے وقت كا ہے_
ايك اور روايت ميں مذكور ہے كہ ''جب آپ(ص) مدينہ تشريف لائے اور مسلمانوں نے آپ(ص) كا استقبال كياتو اس وقت حضرت ابوبكر لوگوں كے سامنے كھڑے ہوگئے اور پيغمبر(ص) بيٹھ گئے_ اس وقت حضرت ابوبكر بوڑھے تھے اور پيغمبر(ص) جوان_ جن لوگوں نے رسول اكرم(ص) كو نہيں ديكھا تھا ہ حضرت ابوبكر كو رسول(ص) سمجھ كر ان كے پاس آتے تو وہ رسول(ص) الله كا تعارف كراتے تھے يہاں تك كہ جب سورج كى شعاعيں رسول(ص) الله پر پڑنے لگيں تو حضرت ابوبكر نے اپنى چادر سے آپ پر سايہ كرديا تب جاكر لوگوں نے آپ(ص) كو پہچانا_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان سارى باتوں يا بعض باتوں كيلئے رجوع كريں ارشاد السارى ج6 ص 214 ، سيرت حلبى ج2 ص 41 ، صحيح بخارى مطبوعہ مشكول باب ہجرت ج6 ص 53 و سيرت ابن ہشام ج2 ص 137 ، مسند احمد ج3 ص 287 ، المواہب اللدنية ج1 ص 86 ، عيون الاخبار (ابن قتيبہ) ج2 ص 202 والمعارف (ابن قتيبہ) ص 75 ، الغدير ج7 ص 258 (مذكورہ مآخذ ميں سے متعدد كتب نيز الرياض النضرة ج1 ص 78 _ 80 اور طبقات ابن سعد ج2 ص222 سے منقول)_

365
ليكن يہ باتيں درست نہيں ہوسكتيں كيونكہ:
الف: يہ امر قابل قبول نہيں كہ حضرت ابوبكر معروف تھے ليكن رسول(ص) خدا غير معروف_ كيونكہ آنحضرت(ص) مكے آنے والے مختلف قبائل سے سالہا سال تك ملاقاتيں كرتے رہے تھے_ يوں آپ كا ذكر ہر جگہ پھيل چكا تھا اور اہل مدينہ كے اسّى سے زيادہ افراد صرف تين ماہ قبل آپ(ص) كى بيعت كرچكے تھے پھر كيونكر ہوسكتا ہے كہ حضرت ابوبكر تو جانى پہچانى شخصيت ٹھہريں ليكن رسول(ص) خدا غير معروف؟(1)اس كے علاوہ حضرت ابوبكر تو قبا پہنچتے ہى رسول (ص) خدا سے جدا ہوكر مدينہ چلے گئے تھے اور مدينہ پہنچنے تك آپ(ص) كے ساتھ نہيں رہے تھے_
ب: اہل مدينہ نہايت بے صبرى سے آپ(ص) كى آمد كے منتظر تھے اور جب آپ(ص) تشريف لائے تو تقريباً پانچ سو سواروں (2) نے حرّہ كے اس طرف آپ(ص) كا استقبال كيا تھا_ اس وقت عورتيں بچے اور جوان اس طرح كا ترانہ الاپ رہے تھے_

طلع البدر علينا
من ثنيات الوداع ...

ثنيات وداع سے آج ہمارے لئے چودہويں كا چاند نكل آيا ہے_
آپ(ص) قبا ميں چند روز لوگوں سے ملتے رہے تھے پھر كيا يہ ممكن ہے كہ آپ(ص) (بقول قسطلاني) ، قبا سے مدينہ تشريف لاتے وقت غير معروف ہوجائيں(3)؟ _
پھر يہ كيسے ممكن ہے كہ آپ(ص) مدينہ ميں داخل تو ہوئے ہوں ليكن آپ(ص) كے ساتھ قبا يا مدينہ كے رہنے والوں ميں سے كوئي بھى نہ ہو تو پھر اس وقت حضرت على (ع) كہاں چلے گئے تھے؟ كيا اہل مدينہ آپ(ص) كے ديدار كے لئے جتھوں كى صوت ميں يا اكيلے قبا نہيں آئے تھے؟ پھر انجان لوگوں كو جاننے والوں نے كيوں نہيں بتا يا اور چپ كيوں سادھ گئے؟
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الغدير ج7 ص 258 كى طرف رجوع كريں_
2_ الثقات ( ابن حيان) ج1 ص 131 و دلائل النبوة ج2 ص 233 وفاء الوفاء ج1 ص 255 از تاريخ صغير (بخاري) و سيرت حلبى ج2 ص 52 و سيرت نبويہ (دحلان) حاشيہ حلبيہ ج1 ص 325 اور تاريخ الخميس ج1 ص 326_
3_ ارشاد السارى ج6 ص 214_

366
ج: رسول(ص) خدا ابوبكر سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے كيونكہ آنحضرت(ص) عام الفيل ميں پيدا ہوئے اور حضرت ابوبكر بھى اپنى خلافت كے آخر ميں رسول(ص) الله كى عمر كو پہنچ چكے تھے (جيساكہ ان كا دعوى ہے) كيونكہ ان كى عمر وفات كے وقت رسول(ص) الله كى عمر كے برابر يعنى ترسٹھ سال ہوچكى تھي_(1)
بنابريں يہ كيسے معقول ہوسكتا ہے كہ وہ تو عمر رسيدہ بزرگ ہوں ليكن رسول(ص) خدا جوان؟ ہمارى ان معروضات كى روشنى ميں يزيد بن اصم (جو دوسرى صدى ہجرى ميں تہتر سال كى عمر ميں مرے) سے مروى اس قول كا بطلان بھى معلوم ہوجاتا ہے كہ رسول(ص) خدا نے حضرت ابوبكر سے فرمايا'' ميرى عمر زيادہ ہوگى يا تمہاري؟'' انہوں نے جواب ديا ''آپ(ص) كى بزرگى اور عزت وشرف مجھ سے زيادہ ہے آپ(ص) مجھ سے بہتر ہيں ليكن ميں عمر ميں آپ(ص) سے بڑاہوں''_ (2)
يہ بہانہ كہ رسول(ص) الله كے بر خلاف حضرت ابوبكر كے چہرے اور داڑھى ميں بڑھاپے كے آثار زيادہ نماياں تھے_ (3) يا يہ كہ حضرت ابوبكر تاجر تھے اس لئے لوگ ان كو ملك شام جانے آنے كى وجہ سے پہچان چكے تھے_ درست نہيں كيونكہ بالوں كا سفيد ہونا يا نہ ہونا بڑھاپے اور جوانى كو نہيں چھپا سكتا _حتى كہ ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں ''ما ھذا الغلام بين يديك؟'' (يہ لڑكا كون ہے جو تيرے آگے ہے؟) غور كيجئے ايك ايسے مرد كو جس كى عمر پچاس سال سے زيادہ ہوچكى ہو ''لڑكا'' كہنا كس قدر ستم ظريفى ہے؟
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المعارف (ابن قتيبہ) ص 75 جس ميں اس بات كے متفق عليہ ہونے كا دعوى كيا گيا ہے ، اسدالغابة ج 3 ص 223، مرآة الجنان ج 1 ص 65 و ص 69 ، مجمع الزوائد ج 9 ص 60، الاصابہ ج 2 ص 341 تا 344 الغدير ج7 ص 271 جس ميں مذكورہ مآخذ كے علاوہ درج ذيل مآخذ سے بھى نقل ہوا ہے _ الكامل ابن اثير ج1 ص 185 اور ج 2 ص 176 عيون الاثر ج 1 ص 43 و سيرت حلبى ج 3 ص 396 الطبرى ج 2 ص 125 اور ج 4 ص 47 الاستيعاب ج 1 ص 335 جس ميں كہا گيا ہے كہ اس بات ميں كسى كو اختلاف نہيں كہ وفات كے وقت ان كى عمر 63 سال تھى و سيرت ابن ہشام ج 1 ص 205_
2_ الغدير ج7 ص 270 از الاستيعاب ج 2 ص 226 الرياض النضرة ج1 ص 127 تاريخ الخلفاء ص 72 خليفة بن خياط، احمد بن حنبل اور ابن عساكر سے_
3_ فتح البارى ج7 ص 195 ، الغدير ج7 ص 260 ،261 _

367
اسكے علاوہ ابن عباس نے صحيح سند كے ساتھ روايت كى ہے كہ حضرت ابوبكر نے رسول خدا(ص) سے عرض كيا كہ اے الله كے رسول(ص) ، آپ تو بوڑھے ہوگئے، فرمايا مجھے سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے بوڑھا كرديا ... محدثين نے ابن مسعود اور ابن ابى جحيفہ سے بھى اس قسم كى روايت نقل كى ہے كہ لوگوں نے كہا ''اے الله كے رسول(ص) ہم ديكھ رہے ہيں كہ آپ (ص) تو بوڑھے ہوگئے ہيں''_ فرمايا:'' مجھے ہود اور اس كے ساتھ والى سورتوں نے بوڑھا كرديا ہے''_ (1) واضح ہے كہ مذكورہ سورتيں مكى ہيں_ مذكورہ روايات كا مطلب يہ ہے كہ بڑھاپے نے وقت سے پہلے رسول(ص) الله كو آليا_ اسى لئے لوگ اس كے بارے ميں سوال كر رہے تھے_ (2)
رہا يہ كہنا كہ حضرت ابوبكر تاجر تھے اور شام آيا جايا كرتے تھے تو اس سلسلے ميں ہم پہلے عرض كرچكے ہيں كہ ايام جاہليت ميں وہ بچوں كو پڑھاتے تھے اور اس كے بعد درزى كا كام كرنے لگے_ علاوہ ازيں رسول(ص) الله بھى تو شام كا سفر كيا كرتے تھے اور خصوصاً آپ (ص) كو قريش اور عربوں كے درميان حاصل بزرگى و سيادت اور اہل مدينہ كے ساتھ رشتہ دارى كى بناپرلوگوں كے درميان آپ(ص) كى پہچان بدرجہ اولى اور زيادہ ہونى چاہئے_
ان سارى باتوں كے علاوہ ہم پہلے بيان كرچكے ہيں كہ رسول(ص) الله سالہا سال تك مكہ آنے والے قبائل كے ساتھ بنفس نفيس ملاقاتيں بھى كرتے رہے تھے_
نيز آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى صفات بھى آپ(ص) كى شخصيت كا تعارف كراتى تھيں _ چنانچہ ام معبد نے اپنے شوہر سے آپ(ص) كى صفات كا تذكرہ كيا تو اس نے آپ(ص) كوپہچان ليا_ رہے حضرت ابوبكر تو ان كى صفات كا تذكرہ حضرت عائشه وغيرہ كى زبانى اس كتاب ميں پہلے گزر چكا ہے_آخر كار ہميں يہ سمجھ نہيں آتا كہ رسول (ص) خدا اور حضرت ابوبكر ايك ہى ناقہ كے سوار كيسے ہوگئے؟ حالانكہ پہلے بيان ہوچكا ہے كہ دو اونٹ تھے يعنى ہر كسى كے پاس اپنى سوارى تھي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مستدرك الحاكم ج2 ص 343 و تلخيص مستدرك ذہبى ( اسى صفحے كے حاشيہ ميں) نيز اللمع (ابو نصر) ص 280 و تفسير ابن كثير ج2 ص 435 و الغدير ج7 ص 361 مذكورہ مآخذ اور تفسير قرطبى ج7 ص 1 و تفسير الخازن ج2 ص 335 نيز جامع الحافظ ترمذى و نواد ر الاصول(حكيم ترمذي) ابويعلي، طبرانى اور ابن ابى شيبہ سے _
2_ الغدير ج7 ص 261_

368
علامہ امينى رحمة الله عليہ كا نقطہ نظر
علامہ امينى (قدس سرہ) كا نظريہ يہ ہے كہ ''آپ(ص) مجھ سے بزرگ ہيں ليكن ميں آپ سے زيادہ عمر رسيدہ ہوں'' والى بات رسول(ص) الله اور سعيد بن يربوع المخزومى كے درميان پيش آئي ہے سعيد 54 ہجرى ميں ايك سوبيس سال كى عمر ميں چل بسے تھے_
ان كا يہ بھى خيال ہے كہ سقيفہ كے دن اپنے مخالفين كے مقابلے ميں حضرت ابوبكر كى دليل ان كى بزرگسالى تھي_ بنابريں ان كے چاہنے والوں نے اس دعوے كى تائيد ان كے مذكورہ جعلى قول سے كرنے كى كوشش كى كہ وہ رسول(ص) الله كے مقابلے ميں عمر رسيدہ ليكن رسول(ص) الله ان كے مقابلے ميں زيادہ برگزيدہ ہيں اور يہ كہ رسول(ص) الله ايك غير معروف جوان بلكہ ايك لڑكے تھے اور حضرت ابوبكر ايك جانے پہچانے بزرگ تھے_ (1)

مكہ ميں منافقت كا كھيل
ہجرت كے بعد كے حالات كا ذكر چھيڑنے سے پہلے مكى زندگى سے مربوط ايك مسئلے كى طرف اشارہ اور اس كے بعض ظاہرى پہلوؤں پر اظہار نظر مناسب معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس مسئلے كا ہجرت كے بعد مدنى زندگى سے بھى گہرا تعلق ہے_ وہ مسئلہ يہ ہے كہ كيا ہجرت سے قبل مسلمان ہونے والے مكيوں ميں منافقين بھى تھے جن كا ظاہر كچھ اور باطن كچھ اور تھا يا نہيں ؟
اور كيا مكے كى فضا اس قسم كے افراد كو جو بظاہر اسلام قبول كريں اور اندر سے كافر ہى رہيں، وجود ميں لانے كيلئے سازگار تھى يا نہيں؟
اس سلسلے ميں علامہ طباطبائي كا حاصل كلام يہ ہے_
ممكن ہے كوئي كہے كہ نہيں مكے ميں منافقين كا كوئي وجود نہ تھا كيونكہ وہاں رسول(ص) خدا اور مسلمانوں كو طاقت اور اثرونفوذ حاصل ہى نہ تھاكہ جس كے باعث لوگ ان سے مرعوب اور خائف ہوتے يا ان سے كسي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الغدير ج 7 ص 271_

369
قسم كے مادى يا روحانى فائدے كى اميد ركھتے _پس وہ كيونكر ان كے قرب كے متلاشى ہوتے اور اپنى باطنى كيفيت كے برعكس ايمان كا اظہار كرتے؟
بلكہ مسلمان تو مكے ميں كمزور مظلوم اور ستمديدہ تھے_ بنابريں ہونا تو يہ چاہ ے تھا كہ قريش كے رؤسا اور بزرگان كے مقابلے ميں (خواہ خوف كى بنا پر ہو يا اميد ورغبت كى بنا پر) مسلمانوںكى جانب سے اندرونى كيفيت كو چھپانے كى كوشش كى جاتى نہ اس كے برعكس _
اس كے برعكس مدنى زندگى ميں رسول(ص) الله كى پوزيشن مستحكم ہوچكى تھى مسلمانوں كا اثر ونفوذ واضح ہوچكا تھا اور وہ اپنى حفاظت يا اپنا دفاع كرنے كى طاقت حاصل كرچكے تھے_ مدينہ كے ہر گھر ميں آنحضرت(ص) كے اعوان و انصار اور پيروكار موجود تھے جو آپ(ص) كے اوامر كى متابعت اور اپنى ہر قيمتى اور نفيس چيز كو آپ(ص) كے حكم پر قربان كرتے تھے_ رہے باقى ماندہ مٹھى بھر لوگ تو وہ آپ(ص) كى اعلانيہ مخالفت كا دم خم نہ ركھتے تھے_ چنانچہ انہوں نے اپنى خيريت اسى ميں جانى كہ بظاہر مسلمان ہوجائيں اور باطناً كافر ہى رہيں تاكہ جب بھى موقع ملے مسلمانوں كے ساتھ مكر وفريب اور سازش وحيلہ گرى سے كام لے سكيں_
خلاصہ يہ كہ اس انداز ميں بعض لوگوں نے ابتدائي مسلمانوں كے درميان منافقوں كى عدم موجودگى پر استدلال كيا ہے_ ليكن يہ استدلال جيساكہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہيں بے بنياد ہے_
كيونكہ مكے ميں بھى منافقت كى وجوہات موجود تھيں _اور اس كام كيلئے وہاں كے ماحول ميں بھى گنجائشے موجود تھي_ ان ميں سے بعض اسباب كا ہم يہاں تذكرہ كرتے ہيں:
(الف): منافقت كے اسباب فقط وہى نہيں جن كا اوپر تذكرہ ہوا ہے يعنى صاحب اقتدار كا خوف يا اس سے وابستہ اميد اور لالچ كيونكہ ہم مختلف معاشروں ميں مختلف قسم كے لوگوں كا مشاہدہ كرتے ہيں جو خوبصورت نعروں پر، ہر قسم كى دعوت پر لبيك كہنے كيلئے آمادہ ہوتے ہيں بشرطيكہ وہ ان كى اميدوں اور آرزوؤں كے ساتھ سازگار ہو، ان كى خواہشات كى برآورى كى اميد دلاتى ہو اور اس ميں ان كى رغبتوں كا سامان ہو_ پس وہ اس كى حمايت كرتے ہيں اگرچہ وہ ظالم ترين طاقتوں كے زيرسايہ ہى كيوں نہ ہوں اور

370
خود، ان كى حالت انتہائي كمزور اور ضعيف كيوں نہ ہو_ يوں وہ اس كى خاطر اپنے وجود كو بہت سے خطرات ميں جھونك ديتے ہيں نيز مشكلات اور سختيوں كو جھيلتے ہيں فقط اس اميد ميں كہ شايد كسى دن ان كى اميدوں كى كلى كھل جائے اور ان كے اہداف حاصل ہوجائيں جن كے خواب وہ ديكھا كرتے ہيں ،مثال كے طور پر حصول اقتدار اور حصول ثروت وجاہ ومقام وغيرہ_
جى ہاں وہ يہ سب كر گزرتے ہيں اگرچہ وہ اكثر وبيشتر اس دعوت پر فقط اتنا ہى ايمان ركھتے ہيں جتنا ان كے مذكورہ بالا اہداف واغراض كے حصول كيلئے ضرورى ہو اور واضح ہے كہ اس قسم كا لالچى منافق دعوت كى كاميابى كى صورت ميں اس دعوت كيلئے بدترين دشمنوں سے بھى زيادہ خطرناك ثابت ہوتا ہے كيونكہ اگر اسے يہ احساس ہو كہ دعوت اس كى تمام آرزؤوں كو پورا نہيں كرسكتى (اگرچہ كسى مصلحت كے تحت ہى سہي) تو وہ منحرف اور خائن ہوجاتا ہے (1) اس كے علاوہ وہ اس دعوت كو انحراف كى طرف لے جانے نيز اسے سابقہ روش اور راہ مستقيم سے ہٹاكر ان غلط راہوں كى طرف لے جانے پر زيادہ قادر ہوتا ہے جن راہوں كى تاريكى اور ظلمت سے فائدہ اٹھا كر وہ اپنى خواہشات تك آسانى سے رسائي حاصل كرسكے_ پھر ان كاموں كى توجيہہ كے سارے بہانے بھى اسى كے پاس ہى ہوتے ہيں خواہ اس كى توجيہات كتنى ہى كمزور اور بے بنياد كيوں نہ ہوں_
ليكن اگر دعوت كو ناكامى كا سامنا ہو تو وہ اپنى پوزيشن مضبوط كرچكنے كى صورت ميں اپنے ہم خيال لوگوں سے يہ كہہ سكتا ہے كہ ہم درحقيقت تمہارے ساتھ ہيں ان لوگوں كے ساتھ تو بس مذاق كر رہے تھے_ بقول قرآن (اناكنامعكم انمانحن مستھزؤون) ان باتوں كى روشنى ميں يہ حقيقت سامنے آتى ہے كہ مدينے ميں اگر منافقت عام طور پر حفاظتى مقاصد يا مخصوص مفادات وروابط كے بچاؤ كے پيش نظر تھى تو مكہ والى منافقت اسلام ومسلمين كيلئے يقيناً زيادہ خطرناك، زيادہ نقصان دہ اور زيادہ پريشان كن ہوگى جيساكہ ہم پہلے وضاحت كرچكے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان ج 19 ص 289 _

371
خلاصہ يہ كہ اس بات كا قوى احتمال ہے كہ مكہ ميں رسول(ص) الله كے بعض پيروكار اسلام كے مخلص نہيں تھے بلكہ ان كو فقط اپنى ذات سے غرض تھي_اس بات كى تائيد اس حقيقت كو خاص كرملاحظہ كرنے سے ہوتى ہے كہ اسلام نے اپنى دعوت كے روز اول سے ہى قطعى وعدوں كا اعلان كيا تھا كہ اس كے علمبردار بہت جلد زمين كے حكمراں اور قيصر وكسرى كے خزانوں كے مالك بن جائيں گے_ (1)
چنانچہ جب عفيف كندى نے عباس بن عبدالمطلب سے پيغمبر(ص) ، على (ع) اور خديجہ (ع) كى نماز كے بارے ميں پوچھا تو عباس نے جواب ديا:'' يہ محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب ہيں_ اس كا دعوى ہے كہ خدانے اسے بھيجا ہے اور قيصر و كسرى كے خزانے بہت جلد اس كے ہاتھ لگ جائيں گے''_ عفيف افسوس كرتا تھا كہ وہ اس دن مسلمان كيوں نہ ہوا تاكہ وہ على (ع) كے بعد مسلمانوں ميں دوسرے نمبر پر ہوتا_ (2)
نيز جب آنحضرت(ص) كے چچا حضرت ابوطالب(ع) نے آپ(ص) سے قوم كى شكايت كا سبب پوچھا تو آپ(ص) نے فرمايا: ''ميں ان كو ايك كلمے (يعنى مقصد) پر متحد كرناچاہتا ہوں جس كے نتيجے ميں عرب ان كے مطيع اور عجم ان كے خراج گزار بن جائيں_ (3)
اسى طرح يہ بھى منقول ہے كہ آپ(ص) نے بكر بن وائل سے قبائل كو دعوت اسلام دينے كے سلسلے ميں فرمايا: ''اور تم خدا سے يہ عہد كروگے كہ اگر تم زندہ رہو تو ان (عجم)كے گھروں ميں داخل ہوگے ان كى عورتوں سے نكاح كروگے اور ان كے بيٹوں كو غلام بنالوگے''_
شيبان بن ثعلبہ سے بھى آپ(ص) نے تقريباً اسى قسم كى بات اس وقت كى جب آپ(ص) نے اپنے قريبى رشتہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الميزان ج 19 ص 289 _
2_ ذخائر العقبى ص 59، دلائل النبوة ج 1 ص 416، لسان الميزان ج 1 ص 395 ابويعلى اورخصائص نسائي سے، الكامل ابن اثير ج 2 ص 57 مطبوعہ صادر اور تاريخ طبرى ج 2 ص 57 نيز حياة الصحابہ ج1 ص 33 _
3_ سنن بيہقى ج 9 ص 88 و مستدرك الحاكم ج 2 ص 432 حاكم اور ذہبى نے تلخيص ميں اسے صحيح قرار ديا ہے نيز تفسير ابن كثير ج 4 ص 28 و حيات الصحابہ ج 1 ص 33 كہ ترمذى نيز تفسير طبري، احمد، نسائي اور ابن ابى حاتم سے نقل كيا ہے_

372
داروں كو عذاب الہى سے ڈرايا_ (1)
اس نكتے كى خوب وضاحت اس بات سے ہوتى ہے جو قبيلہ بنى عامر بن صعصعہ كے ايك فرد نے اس وقت كہى جب رسول(ص) (ص) الله ان كو دعوت اسلام دينے آئے تھے_ اس نے كہا ''الله كى قسم اگر يہ قريشى جوان ميرے ہاتھ آتا تو ميں اس كے ذريعے عرب كو ہڑپ كرجاتا'' اس كے بعض مآخذ كا پہلے تذكرہ ہوچكا ہے_
مختصر يہ كہ جب مذكورہ منافقت كا مقصد ذاتى اغراض كيلئے اس دعوت كے قبول كرنے كو آلہ كار قرار دينا ہو تو (اس منافق كيلئے) سوائے اس كے چارہ نہيں كہ وہ اس دعوت كى وہاں تك حفاظت كرے جہاں تك وہ اپنے مفادات ومقاصد كى حفاطت پر مجبور ہو، يعنى جب تك وہ اس دعوت كے ذريعے اپنى آرزؤوں كى تكميل اور اپنے مقاصد تك رسائي كى اميد ركھتا ہوگا تب تك وہ اس دعوت اورتحريك كى حفاظت كرے گا_
يہيں سے يہ نكتہ بھى واضح ہوتا ہے كہ ضرورى نہيں منافق اس دعوت (جس پر وہ ايمان نہيں ركھتا) كے خلاف مكروسازش كرنے اور اس كو خراب وبرباد كرنے كى كوشش كرے بلكہ بسا اوقات اس كا پورا لگاؤ اس كے ساتھ ہوتا ہے، اس كيلئے مال و متاع اور جاہ و حشمت كى قربانى ديتا ہے ہاں اس صورت ميں كہ بعد ميں اس سے بہتر نتائج حاصل كرنے كى اسے توقع ہو_ ليكن جان كى قربانى نہيں ديتا اس حقيقت كا مشاہدہ مكے كے بعض مسلمانوں كى حالت سے بخوبى ہوتا ہے جو دعوت اسلامى كى حمايت اس وقت تك كرتے رہے جب تك موت سے روبرو نہ ہونا پڑا ليكن جب موت كا مرحلہ پيش آيا تو وہ جنگوں سے بھاگ جاتے، پيٹھ پھيرتے اور نبى اكرم(ص) كو اپنے حال پر چھوڑ ديتے تھے_ اس نكتے كا مشاہدہ بہت سے موقعوں پر ہوتا ہے البتہ بعض اوقات اس قسم كے لوگوں ميں سے بعض كے اوپر بتدريج جذبہ دينى غالب آتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ منزل اطمينان كو پہنچ جاتے ہيں بعد ميں ہم غزوہ احد پر بحث كے دوران اس جانب انشاء الله اشارہ كريں گے_ بحث كا نتيجہ يہ نكلاكہ :
(الف):بعض لوگوں كا بنيادى ہدف اور ان كا معيار ذاتى مفاد ہوتا ہے_ بنابريں جب تك دين كے ذريعے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں : الثقات ج 1 ص 88، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 140، 142 اور 145 كہ دلائل النبوة (ابن نعيم) حاكم اور بيہقى سے نقل كيا ہے_ حيات الصحابة ج 1 ص 72 و 80 از البداية و النہاية اور كنز العمال ج 1 ص 277 سے منقول ہے_

373
ان كے مفادات حاصل ہوتے رہيں وہ بھى اس دين كا ساتھ ديتے ہيں ليكن جونہى وہ دين كو اپنے مفادات كى راہ ميں ركاوٹ اور ان كيلئے باعث خطر سمجھتے ہيں تو پھر وہ اس كے خلاف مكر وسازش اور اسے تباہ وبرباد كرنے كيلئے كسى قسم كى سعى وكوشش سے دريغ نہيں كرتے اور ہر قسم كا وسيلہ اپناتے ہيں_
(ب): دوسرے سبب كى طرف علامہ طباطبائي نے يوں اشارہ كيا ہے كہ يہ بات ممكن ہے كہ كوئي شخص ابتدائے بعثت ميں ايمان لے آئے پھر وہ كسى ايسے امر سے روبرو ہو جس كے باعث اس كاايمان متزلزل ہو، وہ دين ميں شك كرے اور مرتد ہوجائے ليكن اس كى نظر ميں اہميت كے حامل بعض مفادات مثال كے طور پر دشمنوں كى شماتت سے بچاؤ يا خانداني، قبائلى اور تجارتى روابط كى حفاظت يا نسلى تعصب اور غيرت وغيرہ جن كے باعث سارے يا كچھ مسلمانوں سے رابطہ ضرورى ہو يا كسى خاص قسم كے جاہ ومقام يا اس سے مربوط كسى اور مسئلے كى بنا پر اس كى پردہ پوشى كرتا ہو_ (1)
بسا اوقات ہم تاريخ ميں ايسے افراد كا مشاہدہ كرتے ہيں جو اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ وہ اس امر ميں اكثر شك كيا كرتے تھے اور يوں وہ مذكورہ حقيقت كى تائيد كرتے ہيں_ يہاں تك كہ صلح حديبيہ كے موقع پر وہ ايسے شك كا شكار ہوئے جس كا شكار مسلمان ہونے كے بعد كبھى بھى نہ ہوئے تھے_(2)
ادھر غزوہ احد ميں جب انہوں نے سنا كہ آنحضرت(ص) شہيد ہوگئے تو وہ معركہ جنگ سے فرار اختيار كرگئے اور ان ميں سے بعض تو يہ كہتے ہيں كہ ہم ان كى طرف (دوستى كا) ہاتھ بڑھاتے ہيں كيونكہ وہ ہمارى قوم كے ہى افراد اور ہمار ے چچازاد بھائي ہيں_ (3)
(ج): مسلمانوں كى مكى زندگى كے دوران منافقوں كى موجودگى پر دلالت كرنے والى بعض آيات كى طرف علامہ طباطبائي نے بھى اشارہ كيا ہے مثال كے طور پر خداوند متعال كا يہ ارشاد: (ليقول الذين في
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان ج 19 ص 289 _
2_ مغازى واقدى ج 2 ص 607 _
3_ السيرة الحلبية ج 2 ص 227 جنگ احد كے واقعے ميں اس سلسلے ميں مزيد گفتگو مآخذ كے ذكر كے ساتھ ہوگي_

374
قلوبہم مرض والكافرون ما ذا اراد الله بھذا مثلاً) (1) يعنى تاكہ دل كے بيمار اور كفار يہ كہيں كہ بھلا الله كا اس عجيب مثال سے كيا مطلب ہوسكتا ہے؟ يہ آيت ايك مكى سورہ كى ہے_
نيز الله تعالى كا يہ ارشاد (ومن الناس من يقول آمنا بالله فاذا اوذى فى الله جعل فتنة الناس كعذاب الله ولئن جاء نصر من ربك ليقولن انا كنا معكم اوليس الله باعلم بما فى صدور العالمين وليعلمن الله الذين آمنوا وليعلمن المنافقين) (2)
يعنى لوگوں ميں سے كوئي ايسا بھى ہے جو كہتا ہے كہ ہم الله پر ايمان لے آئے ليكن جب راہ خدا ميں اسے تكليف دى گئي تو اس نے لوگوں كى طرف سے ڈالى ہوئي آزمائشے كو عذاب الہى كے برابر قرار ديا_ اب اگر تيرے رب كى طرف سے فتح و نصرت آگئي تو يہى شخص كہے گا ہم تو تمہارے ساتھ تھے كيا دنيا والوں كے دلوں كا حال الله كو بخوبى معلوم نہيں_ الله تو ضروريہ جانتا ہے كہ ايمان والے كون ہيں اور منافق كون؟_
ياد رہے كہ سورہ عنكبوت بھى مكى ہے_ يہ آيت راہ خدا ميں ايذاء رسانى اور آزمائشے كے بارے ميں گفتگو كرتى ہے يہ باتيں مكہ كى ہيں نہ كہ مدينہ كي_ اس آيت ميں الله كا يہ فرمان (ولئن جاء نصر من ربك) يعنى اگر تيرے رب كى طرف سے فتح و نصرت آگئي اس آيت كے مدنى ہونے پر دلالت نہيں كرتا كيونكہ فتح ونصرت كى مختلف شكليں ہوسكتى ہيں_
يہاں اس نكتے كا اضافہ كرتا ہوں كہ الله تعالى اس آيت ميں بطور عام مستقبل كے منافقين كى بھى تصوير كشى فرما رہا ہے_
اس كے بعدعلامہ طباطبائي كہتے ہيں: ''اس بات كا احتمال كہ شايد فتنہ (آزمائشے) سے مراد ہجرت كے بعدمكہ ميں مسلمانوں كو پيش آنے والى مشكلات ہوں تو اس كى گنجائشے ہے كيونكہ ہجرت كے بعد مكہ ميں ستائے جانے والے لوگ ہجرت سے قبل رسول(ص) الله پر ايمان لاچكے تھے اگرچہ انہيں بعد ميں اذيت دى گئي''_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ مدثر آيت 31 _
2_ سورہ عنكبوت، آيت 11_
3_ تفسير الميزان ج 20 ص 90_91_

375
مذكورہ باتوں پر ايك اہم تبصرہ
علامہ طباطبائي آخر ميں يہ تبصرہ كرتے ہيں كہ ''ہم رسول(ص) الله كى وفات كے وقت تك منافقين كا كوئي نہ كوئي تذكرہ سنتے رہتے ہيں_ ان ميں سے تقريباً اسّى افراد تبوك ميں آپ(ص) كو چھوڑ گئے_ ادھر عبدالله بن ابي، جنگ احد ميں تين سو افراد كے ساتھ جدا ہوگيا تھا_ آپ(ص) كى وفات كے بعد ان منافقين كا بلا واسطہ ذكر ختم ہوگيا اور اسلام و مسلمين كے خلاف ان كى سازشوں، مكاريوں اور حيلوں كے بارے ميں كوئي بات سننے ميں نہيں آئي_ كيا آپ(ص) كى وفات كے ساتھ ہى يہ سارے منافقين عادل، متقي، پرہيزگار اور انسان كامل بن گئے؟
اگر يہى بات ہو تو كيا ان كے درميان رسول(ص) الله كى موجودگى ان كے مومن ہونے كى راہ ميں ركاوٹ تھي؟ جبكہ الله نے آپ(ص) كو رحمة للعالمين بناكر بھيجا تھا؟ (ہم الله كى پناہ مانگتے ہيں ان غلط باتوں سے جو نزول بلا اور غضب كا باعث ہوں) يا يہ كہ رسول(ص) الله كى رحلت كے ساتھ ہى يہ منافقين بھى (جن كى تعداد سينكڑوں بتائي جاتى ہے) مرگئے؟ كيا بات ہے كہ تاريخ اس سلسلے ميں ہميں كچھ نہيں بتاتي؟
يا نہيں بلكہ حقيقت يہ تھى كہ ان منافقين كو حكومت كے اندر وہ چيز ملى جو ان كى نفسانى خواہشات سے ہم آہنگ نيز ان كے ہوا و ہوس اور مفادات كے ساتھ سازگار تھي؟ يا اس كى كوئي اور وجہ اور حقيقت تھي؟'' يہ فلسفہ ميرى سمجھ ميں تو نہيں آتا_ شايد ہوشيار اور زيرك لوگ اس كو سمجھتے ہوں_