الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
315
ابن تيميّہ كيا كہتا ہے:
ابن تيميّہ نے اميرالمؤمنين عليہ السلام كى شان ميں اس آيت كے نزول سے انكار كرتے ہوئے كہا ہے كہ محدثين اور سيرت نگاروں كا اس كے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے اس كے علاوہ حضرت على (ع) كو صادق (رسول(ص) الله ) كے اس قول سے ''كہ ان كى طرف سے تجھے كوئي پريشانى لاحق نہيں ہوگي'' اطمينان قلبى حاصل ہوگيا تھا_ بنابريں جان كى قربانى يا فداكارى كا مسئلہ ہى در پيش نہ تھا_ يہ آيت سورہ بقرہ ميں مذكور ہے جس كے مدنى ہونے پر سب كا اتفاق ہے بلكہ كہا گيا ہے كہ يہ آيت صہيب كے بارے ميں اس وقت نازل ہوئي جب انہوں نے ہجرت كي_ (1)
ہم يہ عرض كرتے ہيں كہ:
الف: اگر حضرت على (ع) كى بہ نسبت يہ آيت مدنى ہے تو صہيب كے متعلق بھى تو يہ آيت مدنى ہے_ بات تو ايك ہى ہے_
ب: اسكافى معتزلى نے جاحظ كے دعوے ''كہ رسول(ص) الله نے علي(ع) سے فرمايا (تمہيں كوئي تكليف نہ پہنچے گي'' كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے يہ واضح طورپر جھوٹ اور جعلى حديث ہے جوبات معروف ہے اور منقول بھي_ وہ يہ ہے كہ آپ(ص) نے حضرت علي(ع) سے فرمايا :''ميرے بسترپر سوجاؤاور ميرى حضرمى چادر اوڑھ لو_ آئندہ يہ لوگ (مشركين) مجھے نہ پاسكيں گے_ اور ميرا بستر نہ ديكھ سكيں گے شايد يہ لوگ تمہيں ديكھ كر صبح تك مطمئن ہوجائيں_ پس جب صبح ہوجائے تو ميرى امانت كى ادائيگى كے پيچھے چلے جانا''_
جاحظ نے جوبات كى ہے اسے كسى نے نقل نہيں كيا فقط ابوبكر اصم (بہرے) نے اسے گھڑا ہے اور جاحظ نے اس سے اخذ كيا ہے جبكہ اس كى كوئي بنيادہے ہى نہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 27 _

316
اگر (رسول(ص) الله سے منسوب) يہ بات صحيح ہوتى تو حضرت علي(ع) كو مشركين كى طرف سے كوئي تكليف نہ پہنچتي_ حالانكہ اس بات پر سب كا اتفاق ہے كہ انہيں مارا گيا اور انہيں پہچاننے سے قبل ان كى طرف پتھر پھينكے گئے، يہاں تك كہ وہ درد سے پيچ وتاب كھاتے رہے اور انہوں نے ان سے كہا ہم نے تمہارا پيچ وتاب كھانا ديكھا_ (1)
اسكے علاوہ پہلے گزر چكا ہے كہ جب رسول(ص) الله نے حضرت على (ع) سے آپ(ص) كے بستر پر رات گزارنے كے بعد غار ميں ملاقات كے دوران امانتوں كو واپس كرنے اور مكہ ميں اس كا اعلان كرنے كا حكم ديا تو اس وقت فرمايا تھا كہ ان كو كوئي تكليف نہيں پہنچے گى اور يہ اطمينان دلايا تھا كہ تمہارا يوں اعلان كرنا مشكلات اور مسائل پيدا كرنے كا باعث نہيں بنے گا_

ج: ہمارى بات كى دليل يہ ہے كہ:
1) اگر ابن تيميہ كى بات درست ہوتى تو پھر ان كا اپنے اس اقدام پر فخر كرنے كا كيامطلب رہ جاتا ہے؟ چنانچہ روايت ہے كہ جب حضرت عائشه نے اپنے باپ اور غارميں رسول(ص) الله كے ساتھ ان كى مصاحبت پر فخركيا تو عبدالله بن شداد بن الہاد نے كہا:'' تيرا على بن ابيطالب(ع) سے كيا مقابلہ جو تلواروں كے سائے ميں رسول(ص) الله كى جگہ پر سوگئے''_ يہ سن كر حضرت عائشه خاموش ہوگئي اور ان سے كوئي جواب نہ بن پڑا_ (2)
2) حضرت انس سے منقول ہے كہ حضرت على (ع) نے اپنے نفس كو قتل ہونے كيلئے آمادہ كرليا تھا_(3)
3) بلكہ علي(ع) نے خود اس بات كى تصريح فرمائي اور ان اشعار كے ذريعے ہرقسم كے شبہات دور كرديئے جن كا تذكرہ ہوچكا ہے انہوں نے فرمايا تھا:
وقيت بنفسى خير من وطئي الثري ...
ميں نے اپنى جان پيش كر كے اس شخص كو بچايا جو اس زمين پر چلنے والوں ميں سب سے بہتر تھا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 13 ص 263 _
2_ امالى شيخ طوسى ج 2 ص 62 اور بحار الانوار ج 19 ص 56 (از امالي)
3_ امالى شيخ طوسى اور بحارالانوار

317
نيز يہ بھى فرمايا_
وبت اراعيہم متى يثبتونني
وقد وطنت نفسى على القتل والاسر
وبات رسول(ص) اللہ فى الغار آمنا
ھناك وفى حفظ الالہ وفى ستر (1)
ميں نے رات اس انتظار ميں گزارى كہ وہ كب مجھے گرفتار كرتے ہيں_ ميں نے اپنے نفس كو قتل يا اسير ہونے كيلئے آمادہ كر ركھا تھا ادھر رسول(ص) الله نے غار ميں امن وسكون سے اور الله كى پناہ ميں چھپ كر رات گزاري_
د:امام على (ع) ہى سے نقل ہوا ہے كہ ''آپ(ص) نے مجھے اپنے بستر پر سونے اور اپنى جان كے بدلے آپ(ص) كى حفاظت كا حكم ديا_ پس ميں نے آپ(ص) كى اطاعت ميں اس كام كى طرف شتاب كيا_ ميں اندر سے خوش تھا كہ آپ(ص) كے بدلے ميں قتل ہو جاؤں گا_ يوں آپ(ص) اپنے سفر پر نكل پڑے اور ميں آپ(ص) كے بستر پرسوگيا_ قريش كے مرد اس يقين كے ساتھ كہ وہ رسول(ص) الله كو قتل كريں گے_ جب گھر ميں داخل ہوئے جہاں ميں موجود تھا _ميرا اور ان كا آمنا سامنا ہواتو ميں نے اپنى تلوار سے ان كى خبرلى اور جس طرح ميں نے ان سے اپنا دفاع كيا اسے الله اور لوگ بخوبى جانتے ہيں''_ پھر انہوں اپنے اصحاب كى طرف رخ كيا اور فرمايا:'' كيا ميرا بيان درست نہيں؟'' وہ بولے ''كيوں نہيں اے اميرالمومنين(ع) ''_ (2)
يہ بھى كہا گيا ہے كہ انہوں نے على (ع) كو مارا اور كچھ دير قيد ركھا اور پھر چھوڑ ديا_ (3)
ابن تيميہ كا يہ دعوى كہ جبرئيل كى طرف سے ان كى حفاظت اور اس بارے ميں نزول آيت والى روايت تمام محدثين اور سيرت نگاروں كے نزديك جھوٹى ہے،يہ كسى صورت ميں صحيح نہيں ہوسكتا كيونكہ ابن تيميہ كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نور الابصار ص 86، شواہد التنزيل ج 1 ص 102، مستدرك الحاكم ج 3 ص 4، تلخيص مستدرك (ذہبي) اسى صفحے كے حاشيے پر، نيز امالى شيخ ج 2 ص 83 تذكرة الخواص ص 35 و فرائد السمطين ج 1 ص 330 و مناقب خوارزمى ص 74_75 و فصول المہمة (ابن صباغ) ص 31، بحار الانوار ج 19 ص 63 اور تاريخ الخميس ج 1 ص 325 نيز اس شعر كے منابع بھى بہت زيادہ ہيں جن كى جستجو كى گنجائشے نہيں ہے_
2_ بحارالانوار ج 19 ص 45 ميں، خصال ج 2 ص 14_15 سے نقل ہوا ہے _
3_ تاريخ الخميس ج 1 ص 325 _

318
علاوہ كسى نے بھى اس روايت كو نہيں جھٹلايا ہے _بنابريں اس نے ان لوگوں كى طرف ايسى بات كى نسبت دى ہے جن كا خود ان كو علم نہيں اور وہ اس سے برى ہيں بلكہ حاكم اور ذہبى كى طرف سے اس روايت كو صحيح قرار دينے كى بات آپ پہلے پڑھ چكے ہيں_ اس كے علاوہ ايسے بہت سے لوگوں كا بھى ذكر ہوچكا ہے جنہوں نے بڑے بڑے علماء اور حفاظ سے اس روايت كو بغير كسى ردوكد كے نقل كيا ہے ليكن ممكن ہے كہ ابن تيميہ كے شيطان نے اس پر وحى كى ہو كہ وہ ان لوگوں كى طرف ايسى چيز منسوب كرے جس سے وہ برى ہيں_
ھ: حلبى نے ابن تيميہ كے اعتراض كا يوں جواب ديا ہے_''اس نے امتاع ميں يہ نہيں بتايا كہ رسول(ص) الله نے حضرت على (ع) سے مذكورہ بات كہى تھي_ بنابريں ان كا نبي(ص) كى حفاظت كيلئے اپنى جان كى قربانى پيش كرنا تو واضح ہے اور دوسرى طرف سے يہ ممكن ہے كہ مذكورہ آيت ايك دفعہ حضرت علي(ع) كے حق ميں اور ايك دفعہ حضرت صہيب كے بارے ميں اترى ہواس صورت ميں حضرت علي(ع) كے بارے ميں لفظ شراء سے مراد بيچنا ہوگا يعنى انہوں نے اپنى جان نبي(ص) كى جان كے بدلے بيچ دى اور حضرت صہيب كے بارے ميں اس لفظ سے مراد ''خريدنا'' ہوگا_ صہيب نے مال دے كر اپنى جان خريد لي_ رہا اس آيت كا مكى ہونا تو يہ بات سورہ بقرہ كے مدنى ہونے كے منافى نہيں كيونكہ سورتوں كا مكى يا مدنى ہونا آيات كى اكثريت كے پيش نظر ہوتا ہے_(1)
ليكن حلبى كے اس جواب كى بعض باتيں قابل تنقيد ہيں كيونكہ لفظ شراء ''كو ايك دفعہ بيچنے'' كے معنى ميں اور ايك دفعہ خريدنے كے معنى ميں استعمال كرناقابل قبول نہيں كيونكہ لفظ مشترك كے ايك سے زيادہ معانى ميں استعمال كا موجب بنتا ہے جبكہ علماء كى ايك جماعت نے اس سے منع كيا ہے_ علاوہ ازيں صہيب كو اپنا مال خرچ كرنے كى وجہ سے دوسروں پر كوئي ترجيح حاصل نہيں ہوتي_ كيونكہ بہت سے مہاجرين ہجرت كے باعث اپنے اموال سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے_ وہ ان كو مشركين كے پاس چھوڑ كر راہ خدا ميں مكہ سے نكل گئے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 27 _

319
صہيب كا واقعہ اور ہمارا نقطہ نظر
نقل كرتے ہيں كہ جب رسول(ص) الله نے غار كى طرف حركت كا ارادہ فرمايا تو حضرت ابوبكر كو دو يا تين بار صہيب كے پاس بھيجا_ انہوں نے صہيب كو نماز پڑھتے پايا چنانچہ انہيں اچھا نہ لگا كہ وہ نماز توڑ ديں_ جب واقعہ ہوچكا تو صہيب حضرت ابوبكر كے گھر آئے اور اپنے دونوں بھائيوں (ابوبكر اور رسول(ص) الله ) كے بارے ميں پوچھا_ چنانچہ انہيں واقعے كے بارے ميں بتايا گيا_ نتيجتاً وہ اكيلے ہى ہجرت كيلئے آمادہ ہوگئے ليكن مشركين نے انہيں نہ چھوڑا يہاں تك كہ انہوں نے اپنا مال ومتاع ان كے حوالے كرديا_ جب قباء كے مقام پر رسول(ص) الله كے ساتھ مل گئے تو آپ(ص) نے فرمايا صہيب فائدے ميں رہا صہيب فائدے ميں رہا_ يا فرمايا اس كى تجارت سود مند رہى چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت اتارى (ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله ) (1)
اس روايت كے الفاظ مختلف ہيں جيساكہ تفسير درمنثور اور ديگر تفاسير كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے _يہاں اتنا كہناہى كافى ہے كہ ان ميں سے ايك روايت كے مطابق يہ آيت اس وقت اترى جب مشركين نے صہيب كو سزا دينے كيلئے پكڑ ليا_ اور صہيب نے كہا ميں ايك بے ضرربوڑھا آدمى ہوں خواہ ميرا تعلق تم سے ہو يا تمہارے غير سے_ كيا تم ميرا مال ليكر مجھے اپنے دين كے معاملے ميں آزاد نہيں چھوڑ سكتے؟ نتيجتاً انہوں نے ايسا ہى كيا_ (2)
ايك اور روايت نے اس كا تذكرہ اس واقعے كى طرح كيا ہے جو حضرت علي(ع) كے ساتھ ہجرت كے وقت پيش آيا يعنى جب مشركين انكى دھمكى سے ڈر كر واپس چلے گئے تھے_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 2 (صہيب كے ذكر ميں)، السيرة الحلبية ج 2 ص 23 و 24، الدر المنثور ج 1 ص 204 از ابن سعد، ابن ابى اسامہ، ابن منذر، ابن ابى حاتم و ابونعيم '' الحلية '' ميں اسى طرح ابن عساكر، ابن جرير، طبراني، حاكم، بيہقى در الدلائل اور ابن ابى خيثمہ سے (عبارات ميںكچھ اختلاف ہے) _
2_ السيرة الحلبية ج 3 ص 168 _
3_ السيرة الحلبية ج 3 ص 168 _

320
ليكن يہ قصہ صحيح نہيں كيونكہ:
1) رسول(ص) الله كا ان حالات ميں صہيب كے پاس تين بار حضرت ابوبكر كو بھيجنا معقول بات نہيں خصوصاً ان حالات ميں جبكہ انہى كے بقول مشركين رسول(ص) الله كے ساتھ حضرت ابوبكركو بھى تلاش كررہے تھے اور انہيں تلاش كرنے والے كيلئے سو اونٹوں كاانعام مقرر كيا تھا(1)_( اگرچہ ہمارى نظر ميں يہ بھى درست نہيں جيساكہ آپ آئندہ صفحات ميں مشاہدہ كريں گے) ليكن بہرحال اس بات ميں شك كى گنجائشے نہيں كہ قريش كى كوشش اس لئے تھى كہ حضرت ابوبكر كے ذريعے رسول(ص) الله كا سراغ لگايا جائے_
2) حالت نماز ميں صہيب كو رسول(ص) الله كا پيغام پہنچانے سے ان كى نماز كيوں ٹوٹتى كيونكہ حضرت ابوبكر كيلئے يہ ممكن تھا كہ اپنى بات صہيب سے كہتے اور ان كى نماز توڑے بغير لوٹتے يا ايك دو منٹ ٹھہر كر اس كا نماز سے فارغ ہونے كا انتظار كر ليتے_ پھر اس قسم كا اتفاق نہايت ہى كم ہوتا ہے_لہذا كيسے ہوسكتاہے كہ وہ دو يا تين بار آئيں اور صہيب پھر بھى مشغول نماز ہوں_
3) كيا وجہ ہے كہ رسول(ص) الله نے صہيب كو تو اہميت دى ليكن دوسرے بے چارے مسلمانوں كو نظر انداز كرديا؟ (جن كے اوپر قريش ہرقسم كا تشدد روا ركھتے تھے) اور ان كے پاس تين بار تو كيا ايك بار بھى كسى كو نہ بھيجا؟ كيا يہ بات امت كے بارے ميں آپ(ص) كے عادلانہ رويہ اور عطوفت ومہربانى سے ہم آہنگ ہے؟ ہاں مگر يہ كہا جائے كہ شايد صہيب كے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر مشركين كى كڑى نظر تھى يا يہ كہ صہيب دوسروں سے زيادہ گرفتار بلا تھے يا اسى طرح كے ديگر احتمالات جن كى طرف بعض لوگوں نے اشارہ كيا ہے_
4) ہم بعض ايسى روايات بھى پاتے ہيں جن كے مطابق حضرت ابوبكر نے (نہ كہ رسول(ص) الله نے) صہيب سے كہا تھا اے صہيب تيرى تجارت سود مند رہى (1) جيساكہ ابن ہشام نے بھى اس واقعے كو ذكر كيا ہے ليكن اس نے نزول آيت كا تذكرہ نہيں كيا_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_تاريخ الخميس ج1 ص 330 سيرت حلبى ج 2 ص 39 البدايہ والنہايہ ج3 ص 182 اور ارشاد السارى ج6 ص 218_
2_ مجمع البيان ج 6 ص 361، بحار الانوار ج 19 ص 35، السيرة الحلبية ج 2 ص 24 نيز ملاحظہ ہو صفين (منقري) ص 325__
3_ سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 121 _

321
ايك اور روايت ميں ہے كہ يہ آيت مقداد اور زبير كے بارے ميں اترى تھي_ جب وہ خبيب كى لاش سولى سے اتارنے مكہ گئے تھے_ (3)
5) آيت ميں اس شخص كى تعريف ہوئي ہے جو اپنى جان كو راہ خدا ميں فدا كرے نہ اس شخص كى جو اپنا مال قربان كرے جبكہ صہيب والى روايت مؤخر الذكر سے متعلق ہے نہ كہ اول الذكر كے متعلق_
6)جيساكہ ہم پہلے بھى عرض كرچكے ہيں فقط صہيب نے ہى راہ خدا ميں اپنا مال نہيں ديا تھا لہذا يہ اعزاز فقط ان كے ساتھ كيسے مختص ہوسكتا ہے_
7) يہى لوگ نقل كرتے ہيں كہ رسول(ص) الله كى ہجرت كے بعد حضرت علي(ع) اور حضرت ابوبكر كے علاوہ كوئي مہاجر مكے ميں نہ رہا مگر وہ جو كسى كى قيد ميں يا كسى مشكل ميں مبتلا تھے_ (4)
8) وہ روايت جو كہتى ہے كہ صہيب بوڑھے تھے اور مشركين كيلئے بے ضرر تھے خواہ ان كے ساتھ ہوں يا دوسروں كے ساتھ، وہ صحيح نہيں ہوسكتى كيونكہ صہيب كى وفات سنہ 38 يا 39 ہجرى ميں ستر سال كى عمر ميں ہوئي_ (1) بنابريں ہجرت كے وقت ان كى عمر 31 يا 32 سال بنتى ہے_ اس لحاظ سے وہ اپنى جوانى كے عروج پر تھے اورانكى عمر وہ نہ تھى جو مذكورہ جعلى روايت بتاتى ہے_
يہ سارى باتيں ان تضادات كے علاوہ ہيں جو صہيب سے مربوط روايات كے درميان موجود ہيں_علاوہ ازيں ان روايات ميں سے بعض ميں صہيب كے حق ميں نزول آيت كا ذكر نہيں ہوا _نيز يہ روايات يا تو خود صہيب سے ہى مروى ہيں يا ايسے تابعى سے جس نے رسول(ص) الله كا زمانہ نہيں ديكھا مثال كے طور پر عكرمہ، ابن مسيب اور ابن جريح_ ہاں فقط ايك روايت ابن عباس سے مروى ہے جو ہجرت سے صرف تين سال پہلے پيدا ہوئے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرہ حلبى ج 3 ص 168 _
2_ سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 123 اور سيرہ مغلطاى ج 31 _
3_ الاصابة ج 2 ص 196 _

322
ياد رہے كہ صہيب كا تعلق رسول(ص) الله كے بعد حكمراں طبقے كے حاميوں اور اميرالمؤمنين(ع) عليہ السلام كى بيعت سے انكار كرنے والوں ميں سے تھا_ وہ اہلبيت رسول(ص) (عليھم السلام) سے عداوت ركھتا تھا_ (1) شايد صہيب كى ہجرت كے ذكر سے ان كا مقصد يہ ہو كہ جو فضيلت صرف حضرت على (ع) كے ساتھ خاص ہے اور ان كے لئے ہى ثابت ہے اسے صہيب كے لئے بھى ثابت كريں يوں وہ ايك تير سے دوشكار كرنا چاہتے تھے كيونكہ ان كے شيطانوں نے انہيں يہ مكھن لگا يا كہ على (ع) تو خسارے ميں رہے جبكہ آپ (ع) كے دشمن فائدے ميں رہے_
ہ:رہا ابن تيميہ كا يہ كہنا كہ سورہ بقرہ مدنى ہے_ اگر وہ آيت علي(ع) كے حق ميں اترى ہوتى تو اس سورہ كو مكى ہونا چاہيئے تھا_ اس كا جواب واضح ہے كيونكہ اگر يہ تسليم كيا جائے كہ مذكورہ آيت شب ہجرت ہى اترى تھى (جب حضرت على (ع) بستر نبي(ص) پر سوئے تھے) تو ظاہر ہے كہ اس وقت رسول(ص) خدا غار ميں تھے اور آپ(ص) كے ساتھ سوائے حضرت ابوبكر كے اور كوئي نہ تھا_ بنابر ايں آنحضرت (ص) كو مدينہ پہنچ كر وہاں ساكن ہونے سے پہلے نزول آيت كے اعلان كا موقع ہى نہ مل سكا_ اس كے بعد مناسب موقعے پر آپ(ص) كو اپنے چچازاد بھائي اور وصى كى اس عظيم فضيلت كے اظہار كى فرصت ملي_ اس لحاظ سے اگر اس آيت كو مدنى اور سورہ بقرہ كا جز سمجھ ليا جائے تو اس ميں اعتراض والى كونسى بات ہے؟ جبكہ سورہ بقرہ ،جيساكہ سب جانتے ہيں ہجرت كے ابتدائي دور ميں نازل ہوا تھا_اس كے علاوہ اگر كسى مكى آيت كو كسى مدنى سورہ كا حصہ بنا ديا جائے تو اس ميں كوئي حرج ہے كيا؟
ادھر حلبى كا يہ بيان كہ يہ آيت دوبار نازل ہوئي، ايك بے دليل بات ہے بلكہ مذكورہ دلائل اس بات كى نفى كرتے ہيں_

ابوبكر كو صديق كا لقب كيسے ملا؟
كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ خدائے تعالى نے واقعہ غار ميں حضرت ابوبكر كو صديق كا لقب ديا جيساكہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں قاموس الرجال ج 5 ص 135_137 (حالات صہيب) _

323
''شواھد النبوة'' نامى كتاب ميں يوں منقول ہے: ''جب الله نے اپنے رسول(ص) كو ہجرت كى اجازت دى تو آپ(ص) نے جبرئيل (ع) سے پوچھا ميرے ساتھ كون ہجرت كرے گا؟ حضرت جبرئيل(ع) نے كہا ابوبكر صديق''_ (1)
ليكن ہمارے نزديك يہ بات مشكوك ہے كيونكہ:
الف: حضرت ابوبكر كو صديق كا لقب دينے كے بارے ميں روايات ميں اختلاف ہے_ اس كے سبب اور وقت كے بارے ميں بھى روايات مختلف ہيں_
كوئي يہ كہتا ہے كہ يہ واقعہ غار ثور ميں ہوا (جيساكہ يہاں ذكر ہوا) اور كوئي كہتا ہے كہ جب نبى كريم(ص) نے معراج كے سفر سے واپس آكر لوگوں كو بيت المقدس كے بارے ميں بتايا اور حضرت ابوبكر نے اس سلسلے ميں آپ(ص) كى تصديق كى تو يہ لقب ملا_ (2)
تيسرے قول كے مطابق بعثت نبوى كے دوران جب حضرت ابوبكر نے آپ(ص) كى تصديق كى تو يہ لقب حاصل ہوا_ (3)
چو تھا قول يہ ہے كہ جب رسول(ص) الله نے آسمانوں كى سير فرمائي تو آپ(ص) نے وہاں بعض جگہوں پر حضرت ابوبكر كا لقب ''صديق'' لكھا ہوا ديكھا(4) پھر نہيں معلوم كون سى بات صحيح ہے_
ب: ہمارے ہاں متعدد روايات موجود ہيں جو سند كے لحاظ سے صحيح ''يا حسن'' ہيں_ ان كا ذكر دسيوں مآخذ ميں موجود ہے_ يہ روايات صريحاً كہتى ہيں كہ ''صديق'' سے مراد امير المؤمنين علي(ع) ہيں نہ كہ حضرت ابوبكر_ ان ميں سے چند ايك كاہم يہاں ذكر كرتے ہيں_
1) امام على (ع) سے سند صحيح (امام بخارى ومسلم كے معيار كے مطابق) كے ساتھ مروى ہے كہ انہوں نے فرمايا: ''ميں خدا كا بندہ اور رسول(ص) كا بھائي ہوں، ميں ہى صديق اكبر ہوں_ ميرے بعد اس بات كا دعوى كوئي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الخميس ج 1 ص 323، شواہد النبوة سے اور السيرة الحلبية ج 2 ص 29 _
2،3_ السيرة الحلبية ج 2 ص 29 اور ج 1 ص 273 وغيرہ واقعہ معراج ميں اس كا ہم ذكر كر چكے ہيں اور اس كے بعض مآخذ كا بھي_
4 _ كشف الاستار ج3 ص 163، مسند احمد ج 4 ص 343، مجمع الزوائد ج9 ص 41 ، تہذيب التہذيب ج5 ص 38 اور الغدير ج5 ص 326 ، 303 از تاريخ الخطيب_

324
نہ كرے گا مگر وہ جو سخت جھوٹا اور افترا پرداز ہوگا ميں نے ديگر لوگوں سے سات سال قبل نماز پڑھى ہے''_(1)
بظاہر حضرت على (ع) كى مراد يہ ہے كہ آپ (ع) سن رشد كو پہنچنے كے بعد اور بعثت سے قبل كے زمانے سے اسلام كے عام ہونے اور '' فاصدع بما تؤمر '' والى آيت كے نزول تك رسول (ص) اللہ كے ساتھ دين حنيف كے مطابق عبادت كرتے تھے_ يوں ابن كثير كايہ كہنا كہ'' يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ حضرت علي(ع) لوگوں سے سات سال قبل نماز پڑھتے؟ لہذا يہ بات بالكل نامعقول ہے'' (2) باطل ہوجاتا ہے_
2) قرشى نے شمس الاخبار ميں ايك لمبى روايت نقل كى ہے جس كا مفہوم يہ ہے كہ الله نے شب معراج حضرت علي(ع) كو صديق اكبر كا لقب ديا_ (3)
3) ابن عباس سے منقول ہے كہ صديق تين ہيں حزقيل مومن آل فرعون، حبيب نجار صاحب آل ياسين، اور على ابن ابيطالب عليہ السلام_ ان ميں سے تيسرا سب سے افضل ہے_
اسى مضمون سے قريب قريب وہ روايت ہے جو سند حسن كے ساتھ ابوليلى غفارى سے منقول ہے جيساكہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مستدرك الحاكم ج 3 ص 112 و تلخيص مستدرك (ذہبي) اسى صفحے كے حاشيے ميں نيز الاوائل ج 1 ص 195، فرائد السمطين ج 1 ص 248 و شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13 ص 228 اور ج 1 ص 30، البداية و النہاية ج 3 ص 26، الخصائص (نسائي) ص 46 (ثقہ راويوں سے) سنن ابن ماجہ ج 1 ص 44 (صحيح سند كے ساتھ) تاريخ طبرى ج 2 ص 56، الكامل (ابن اثير) ج 2 ص 57، ذخائر العقبى ص 60 از خلفى و الارحاد و المثانى (خطى نسخہ نمبر 235 كوپرلى لائبريري) و معرفة الصحابة (مصنفہ ابونعيم خطى نسخہ نمبر 497 كتابخانہ طوپ قپوسراي) ج 1 تذكرة الخواص ص 108 (ازاحمد در مسندالفضائل) حاشيہ زندگى نامہ امام علي(ع) (تاريخ ابن عساكر بہ تحقيق محمودي) ج 1ص 44_45 نقل از كتاب المصنف ابن ابى شيبہ ج 6 ورق نمبر 155الف كنزالعمال ج 15 ص 107 (طبع دوم) از ابن ابى شيبہ و نسائي و ابن ابى عاصم (السنة ميں) و عقيلى و حاكم و ابونعيم نيز عقيلى كى كتاب الضعفاء ج 6 صفحہ نمبر 139 سے علاوہ ازيں معرفة الصحابة (ابونعيم) ج 1 ورق نمبر 22 الف و تہذيب الكمال (مزي) ج 14 ورق نمبر 193 ب اور از تفسير طبري، مسند احمد (الفضائل ميں حديث نمبر 117 ) سے وہ احقاق الحق ج 4 ص 369 اسى طرح ميزان الاعتدال ج 1 ص 417 ج 2 ص 11 اور 212 سے، الغدير ج 2 ص 314 ميں مذكورہ مآخذ ميں سے كئي ايك نيز رياض النضرة ص 155_158 اور 127 سے منقول ہے نيز مراجعہ ہو اللآلى المصنوعة ج1 ص 321_
2_ البداية و النہاية ج 3 ص 26 _
3_ الغدير ج 2 ص 313_314_

325
سيوطى نے بھى اس كى تصريح كى ہے_ (1) اسى طرح حسن بن عبد الرحمان بن ابوليلى سے بھى منقول ہے_(2)
بنابريں رسول(ص) الله كا صديقين كو فقط تين افراد ميں منحصر كرنا اس بات كے منافى ہے كہ حضرت ابوبكر كو بھى صديق كانام ديا جائے_ اس طرح سے تو تين كى بجائے چار ہوجائيں گے يوں حصر غلط ٹھہرے گا_
4) معاذہ كہتى ہيں ''ميں نے على (ع) سے (بصرہ كے منبر پر خطبہ ديتے ہوئے )سنا كہ انہوں نے فرمايا:''ميں ہى صديق اكبر ہوں_ ميں ابوبكر كے مسلمان ہونے سے پہلے مومن تھا اور ابوبكر كے قبول اسلام سے پہلے اسلام لا چكا تھا'' (3)بظاہر لگتا يہى ہے كہ آپ (ع) حضرت ابوبكر كے لوگوں كے درميان معروف ہونے والے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ جامع الصغير ج 2 ص 50 از كتاب معرفة الصحابة (ابونعيم) ابن نجار، ابن عساكر و صواعق محرقہ (مطبوعہ محمديہ) ص 123 اور تاريخ بغداد ج 14 ص 155، شواہدالتنزيل ج 2 ص 224 و ذخائرالعقبى ص 56 و فيض القدير ج 4 ص 137، تاريخ ابن عساكر حالات امام علي(ع) بہ تحقيق محمودى ج 2 ص 282 اور ج 1 ص 80، كفايہ الطالب ص 123_187 اور 124، الدرالمنثور ج 5 ص 262 از تاريخ بخاري، ابوداؤد، ابونعيم، ديلمي، ابن عساكر اور رازى (سورہ مومن كى تفسير ميں)، منافب خوارزمى ص 219 و مناقب امام على (ابن مغازلي) ص 246_247 و معرفة الصحابة (ابونعيم) قلمى نسخہ نمبر 497 كتابخانہ طوپ قپوسراي، نيز كفاية الطالب كے حاشيہ ميں كنز العمال (ج6 ص 152) سے بواسطہ طبراني، ابن مردويہ اور رياض النضرة ج 2 ص 152 و گذشتہ مآخذ ميں سے چند ايك كا محمودى نے تاريخ ابن عساكر ميں امام علي(ع) كے حالات زندگى كے حاشيے ميں ذكر كيا ہے، رجوع كريں ج 1 ص 79_80، مذكورہ مآخذ ميں سے بعض سے منقول ہے نيز از سيف اليمانى المسلول ص 49 و الفتح الكبيرج ص 202 و غاية المرام ص 417 _647و مناقب على امام احمد كى كتاب الفضائل ميں حديث نمبر 194_239 نيز مشيخ-ة البغدادية (سلفي) ورق نمبر 9 ب اور 10 ب و الغدير ج 2 ص 312 مذكورہ مآخذ سے نيز حاشيہ شواہد التنزيل از الروض النضير ج 5 ص 368 سے منقول ہے_
2_ مناقب خوارزمى حنفى ص 219 _
3_ ذخائر العقبى ص 56 از ابن قتيبہ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13 ص 228، انساب الاشراف (محمودى كى تحقيقات كے ساتھ) ج 2 ص 146 و الآحاد المثانى (قلمى نسخہ نمبر 235 كتابخانہ كوپرلي) البداية و النہاية ج 7 ص 334، المعارف (ابن قتيبہ) ص 73_74، الغدير ج 2 ص 314 جو گزشتہ مآخذ ميں سے بعض نيز ابن ايوب اور عقيلى سے بواسطہ كنز العمال ج 6 ص 405 چاپ اوّل مروى ہے_ نيز رجوع كريں الغدير ج 3 ص 122 از استيعاب ج 2 ص 460 و از مطالب السئول _ ص 19 (جس ميں كہا گيا ہے كہ آپ اكثر اوقات اس بات كا تكرار فرماتے تھے)، نيز الطبرى ج 2 ص 312 از رياض النضرة ج 2 ص 155 اور 157 اور عقد الفريد ج 2 ص 275 سے_

326
ابن عباس اور ابويعلى غفارى والى بات كے بارے ميں رجوع كريں_ الاصابة ج 4 ص 171 اور اس كے حاشيے الاستيعاب ج 4 ص 70 1 اور ميزان الاعتدال ج 2 ص 3 اور 417 كى طرف_
لقب كى نفى كرنا چاہتے ہيں_
5) حضرت ابوذر اور ابن عباس سے مروى ہے كہ ان دونوں نے كہا :''ہم نے رسول(ص) الله كو علي(ع) سے يہ فرماتے سنا كہ انت الصديق الاكبر وانت الفاروق الذى يفرق بين الحق والباطل يعنى تمہى صديق اكبر ہو اور تمہى حق وباطل كے درميان فرق كو واضح كرنے والے فاروق ہو''_ (1) اسى روايت سے تقريبا مشابہ روايت ابوليلى غفارى سے مروى ہے_
6) حضرت ابوذراور حضرت سلمان سے منقول ہے كہ رسول(ص) الله نے حضرت علي(ع) كا ہاتھ پكڑكرفرمايا:'' يہ سب سے پہلا شخص ہے جو مجھ پر ايمان لے آيا_ يہى شخص سب سے پہلے روز قيامت مجھ سے مصافحہ كرے گا_ صديق اكبر يہى ہے اوريہى اس امت كا فاروق ہے جو حق وباطل كے درميان فرق كو واضح كرے گا''_ (2)
7) ام الخير بنت حريش نے صفين ميں ايك طويل خطبے ميں اميرالمومنين(ع) كو ''صديق اكبر'' كے نام سے ياد كيا ہے_ (3)
8) محب الدين طبرى كہتے ہيں كہ رسول(ص) الله نے حضرت علي(ع) كو صديق كانام ديا_ (4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 13 ص 228، فرائد السمطين ج 1 ص 140 نيز تاريخ ابن عساكر (حالات زندگى امام علي(ع) باتحقيق محمودي) ج 1 ص 76_78 (كئي ايك سندوں كے ذريعہ سے) اس كے حاشيے جاحظ كى كتاب عثمانيہ كے جواب ميں (جو اس كے ساتھ مصر ميں چھپى ہے) اسكافى سے ص 390 پر منقول ہے_ نيز رجوع كريں اللئالى المصنوعة ج 1 ص 324 وملحقات احقاق الحق ج 4 ص 29_31 اور 34، الغدير ج 2 ص 313 از رياض النضرة ج 2 ص 155 از حاكمى و از شمس الاخيار (قرشي) ص 30 و از المواقف ج 3 ص 276 و از نزھة المجالس ج 2 ص 205 و از حمويني ...
2_ مجمع الزوائد ج 9 ص 102 از طبرانى اور بزار، الغدير ج 2 ص 313 و ج10 ص49 از بزار اور كفاية الطالب ص 187 بواسطہ ابن عساكر، شرح نہج البلاغة( معتزلي) ج 13 ص 228 اور اكمال كنز العمال ج 6 ص 156 بيہقي، ابن عدي، حذيفہ، ابوذر اور سلمان سے منقول نيز الاستيعاب ج2 ص 657 والاصابہ ج4 ص 171 سے بھى منقول ہے _
3_ العقد الفريد مطبوعہ دار الكتاب ج 2 ص 117، بلاغات النساء ص 38، الغدير ج2 ص313 ميں ان دونوں سے نيز صبح الاعشى ج 1 ص 250 اور نہاية الارب ج 7 ص 241 سے نقل كيا گيا ہے_
4_ الغدير ج 2 ص 312 از الرياض النضرة ج 2 ص 155 وغيرہ _

327
9) خجندى كا كہنا ہے كہ وہ (حضرت علي(ع) ) يعسوب الامہ اور صديق اكبر كے لقب سے ياد كئے جاتے تھے_ (1)
10) ايك اور روايت ميں مذكور ہے ''پس عرش كے اندر سے ايك فرشتہ انہيں جواب ديتا ہے اے انسانو يہ كوئي مقرب فرشتہ نہيں نہ كوئي پيغمبراور نہ عرش كو اٹھانے والا ہے_ يہ تو صديق اكبر علي(ع) ابن ابيطالب ہيں ...'' (2)
11) قرآن كى آيت (اولئك ہم الصديقون) حضرت علي(ع) كے بارے ميں نازل ہوئي_ اسى طرح (الذى جاء بالصدق وصدق بہ) والى آيت نيز (اولئك الذين انعم الله عليھم من النبيين والصديقين ...) والى آيت بھى حضرت علي(ع) كے حق ميں اترى ہيں_ (3)
12) انس كى ايك روايت ميں مذكور ہے ''واما علي(ع) فہو الصديق الاكبر'' ... (4)
يعنى حضرت علي(ع) ہى صديق اكبر ہيں_
گذشتہ باتوں كى روشنى ميں ہم اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ ''صديق'' كا لقب امام علي(ع) ہى كے ساتھ مختص ہے كسى اور كيلئے اس كا اثبات ممكن نہيں_
علاوہ ان باتوں كے علامہ امينى نے ''الغدير'' كى پانچويں جلد كے صفحہ نمبر 327، 328، 321، 334اور 35 نيز ساتويں جلد كے صفحہ نمبر 244، 245 اور 246 پر ايسى روايات كا تذكرہ كيا ہے جن كى رو سے حضرت ابوبكر صديق كہلائے گئے ہيں_ اس كے بعد جواباً حقيقت كو يوں بيان كيا ہے كہ ان كے جعلى اور بے بنياد ہونے ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الغدير ج 2 ص 312 از الرياض النضرة ج 2 ص 155 وغيرہ _
2_ كنز العمال ج 15 ص 134 چاپ دوم_
3_ بطور مثال رجوع كريں : شواھد تنزيل ج 1 ص 153_154_155 ، اور ج 2 ص 120 اس كے حاشيوں ميں متعدد مآخذ مذكور ہيں_ نيز حالات امام علي(ع) در تاريخ دمشق بہ تحقيق محمودى ج 2 ص 418 اور اس كے حاشيے ملاحظہ ہوں_ نيز مناقب ابن مغازلى ص 269، غاية المرام ص 414، كفاية الطالب ص 333، منہاج الكرامة (حلي)، دلائل الصدق (شيخ مظفر) ج 2 ص 117، درالمنثور ج 5 ص 328 اور دسيوں ديگر مآخذ_
4_ مناقب خوارزمى حنفى ص 32 _

328
كسى قسم كاشك باقى نہيں رہتا كيونكہ بڑے بڑے ناقدين اور محدثين مثال كے طور پر ذہبي، خطيب، ابن حبان، سيوطي، فيروز آبادى اور عجلونى وغيرہ نے ان كے جعلى اور بے بنياد ہونے كى تصديق كى ہے_ جو حضرات اس مسئلے سے آگاہى كے خواہشمند ہوں وہ الغدير كى طرف رجوع كريں جس ميں تحقيق كى پياس بجھانے اورشبہات كا ازالہ كرنے كيلئے كافى مواد موجود ہے_

يہ القاب كب وضع ہوئے؟
بظاہر يہ اور ديگر القاب اسلام كے ابتدائي دور ميں ہى چورى ہوئے يہاں تك كہ اميرالمومنين امام علي(ع) منبر بصرہ سے يہ اعلان كرنے اور بار بار دہرانے پر مجبورہوئے كہ آپ ہى صديق اكبر ہيں نہ كہ ابوبكر اور جوبھى اس لقب كا دعويدار ہو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے ليكن طويل عرصے تك امت كے اوپر حكم فرما اور ان كے افكار واہداف پر مسلط رہنے والى سياست كے باعث يہ القاب انہى افراد كيلئے استعمال ہوتے رہے اور كوئي طاقت ايسى نہ تھى جو اس عمل سے روكتى يا كم از كم مثبت اور پرامن طريقے سے اس پر اعتراض كرتي_

دو سوارياں
كہتے ہيں كہ جب مسلمانوں نے مدينہ كو ہجرت كرنا شروع كى اور رسول(ص) الله نے حضرت ابوبكر كو بتايا كہ آپ(ص) بھى خدا كى طرف سے اجازت كى اميد ركھتے ہيں تو حضرت ابوبكر نے اپنى جان رسول(ص) خدا كيلئے وقف كردى اور آٹھ سو درہم ميں دو سوارياں خريديں_ (وہ ايك مالدار شخص تھے) اور انہيں چار ماہ (1) يا چھ ماہ (2) تك (اختلاف اقوال كى بنا پر) پھول كے پتے يا درختوں كے جھاڑے ہوئے پتے كھلاتے رہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: الوفاء الوفاء ج1 ص 237 ، الثقات (ابن حبان) ج1 ص 117 ، المصنف (عبدالرزاق) ج5 ص 387 اور بہت سے ديگر مآخذ _ حضرت ابوبكر كے صاحب مال ہونے كے متعلق مراجعہ ہو سيرہ ابن ہشام ج1 ص 128_
2_ نور الابصار ص 16 از الجمل ( على الھزيمہ) و كنز العمال ج8 ص 334 از بغوي( سند حسن كے ساتھ عائشه سے)_

329
پھر جب رسول(ص) الله نے ہجرت كا ارادہ فرمايا تو يہ دونوں سوارياں آپ (ص) كو پيش كيں ليكن آپ(ص) نے قيمت اداكئے بغير ان كو لينے سے انكار كيا_ ليكن ہمارى نظر ميں چار ماہ يا چھ ماہ تك سواريوں كو چارہ كھلاتے رہنے والى بات صحيح نہيں ہوسكتى كيونكہ:
1) رسول(ص) الله نے اپنى ہجرت سے فقط تين ماہ قبل اصحاب كو ہجرت كا حكم ديا تھا_ بعض حضرات تو يہ كہتے ہيں كہ تحقيق كى رو سے آپ(ص) نےہجرت سے اڑھائي مہينے قبل ايسا كيا (1)، بلكہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ بيعت عقبہ ہجرت سے دوماہ اور چند دن پہلے ہوئي تھى (2) اور آپ(ص) نے اپنے اصحاب كو اس كے بعد ہجرت كا حكم ديا جيساكہ معلوم ہے_ بنابريں رسول(ص) خدا كى طرف سے اصحاب كو ہجرت كا حكم ملنے كے بعد چھ يا چار ماہ تك حضرت ابوبكر كيونكر ان سواريوں كو پالتے رہے؟
2) ايك روايت صريحاً كہتى ہے كہ اميرالمؤمنين علي(ع) نے رسول(ص) الله كيلئے تين اونٹ خريدے اور اريقط بن عبدالله كو مزدورى ديكر ان اونٹوں كو غار سے نكلنے كى رات رسول(ص) الله كى خدمت ميں بھيجا_ (3) البتہ ممكن ہے انہوں نے يہ اونٹ حضرت ابوبكر سے خريدے ہوں اور ان كو اپنى تحويل ميں لينے كے بعد اريقط كے ہمراہ پيغمبر(ص) اكرم كے پاس بھيجے ہوں_

حقيقت حال
ليكن حقيقت يہ ہے كہ جب ان لوگوں نے ديكھا كہ رسول(ص) الله نے قيمت ادا كئے بغير حضرت ابوبكر سے وہ سوارياں نہيں ليں تو انہيں اس ميں خليفہ اول كى سبكى نظر آئي_ اس كے مقابلے ميں انہوں نے ديكھا كہ حضرت علي(ع) نے الله كى راہ ميں اپنى جان كا نذرانہ پيش كيا تو انہوں نے اس كے بدلے حضرت ابوبكر كيلئے يہ فضيلت تراشى كہ وہ اس قدر طويل عرصے تك ان سواريوں كو چارہ كھلاتے رہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فتح البارى ج 7 ص 183اور 177 و السيرة الحلبية ج 2 ص 25_ 55_
2_ سيرة مغلطاى ص 32 وفتح البارى ج 7 ص 177 نيز ملاحظہ ہوالثقات لابن حبان ج 1 ص 113 و غيرہ _
3_ تاريخ ابن عساكر ج 1 ص 138 (امام علي(ع) كے حالات ميں محمودى كى تحقيقات كے ساتھ) اور در منثور نيز تيسير المطالب ص75 البتہ اس ميں آياہے كہ آپ (ع) نے تين سوارياں كرايہ پر ليں_

330
ان معروضات كى روشنى ميںيہ معلوم ہوا كہ رسول(ص) الله كا ان دو سواريوں كو خريدنا يا اميرالمؤمنين كا تين سوارياں خريدنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ حضرت ابوبكر نے رسول(ص) الله كے خرچے پر سفر كيا نہ كہ اپنے خرچے پر_

خانہ ابوبكر كے دروازے سے خروج
كہتے ہيں كہ رسول(ص) الله ابوبكر كے گھركے عقبى دروازے سے نكل كر غار كى طرف روانہ ہوگئے جيساكہ سيرت ابن ہشام وغيرہ ميں اس بات كى تصريح ہوئي ہے(1)_ بخارى ميں مذكور ہے كہ (آپ(ص) ظہر كے وقت ابوبكر كے پاس گئے اور وہاں سے غار ثور كى طرف روانہ ہوئے)(2)_
يہاں ہم يہ عرض كريں گے كہ:
1_ حلبى نے اس بات كا انكار كيا ہے اور كہا ہے: ''زيادہ صحيح بات يہ ہے كہ آپ(ص) اپنے گھرسے ہى (غار كى طرف) روانہ ہوئے'' _(3)
2_ پہلے ذكر ہوچكا ہے كہ حضرت ابوبكر نبى اكرم(ص) كے گھر آئے تو حضرت علي(ع) كو آپ(ص) كى جگہ سوتے ہوئے پايااور حضرت علي(ع) نے ان كو رسول(ص) الله كى روانگى سے مطلع كيا اور فرمايا كہ آپ(ص) بئر ميمون (ايك كنويں كا نام) كى طرف چلے گئے ہيں_ پس وہ راستے ميں آپ(ص) سے جاملے_ بنابريں يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ وہ دونوں ابوبكر كے گھر كے عقبى دروازے سے غار كى طرف روانہ ہوئے ہوں؟ اور وہ بھى ظہر كے وقت؟
3_ان تمام باتوں سے قطع نظر سارى روايات كہتى ہيں كہ مشركين حضور(ص) كے گھر كے دروازے پر صبح تك بيٹھے رہے اور آپ(ص) رات كے ابتدائي حصّے كى تاريكى ميں ان كے درميان سے نكل گئے جبكہ حضرت علي(ع) آپ(ص) كى جگہ سوتے رہے_ يہ اس بات كے منافى ہے كہ آپ(ص) ظہر كے وقت خارج ہوئے_
4_ يہ بات كيسے معقول ہوسكتى ہے كہ آپ(ص) ابوبكر كے گھر سے خارج ہوئے ہوں جبكہ يہى لوگ كہتے ہيں
--------------------------------------------------------------------------------
1_تاريخ الخميس ج1 ص 324 ، تاريخ الامم والملوك ج2 103 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 34 و البدايہ والنہايہ ج3 ص 178_
2_ ملاحظہ ہو: تاريخ الامم والملوك ج 2 ص 153 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 178 ، تاريخ الخميس ج1 ص 323 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 30 نيز بخاري، ارشاد السارى ج6 ص 17 كے مطابق_
3_ سيرة حلبية ج 2 ص 34 عن سبط ابن الجوازي_

331
كہ كھوجى رسول(ص) الله كے قدموں كے نشانات ديكھتا جارہا تھا يہاں تك كہ جب وہ ايك مقام پر پہنچا تو كہنے لگا يہاں سے ايك اور شخص بھى محمد(ص) كے ساتھ مل چكا ہے بلكہ بعض حضرات نے تو صريحاً يہ كہا ہے كہ مشركين كو پتہ چل گيا تھا كہ وہ ابوبكر ابن قحافہ كے نشان قدم تھے_ (1) وہ يونہى چلتے گئے يہاں تك كہ غار كے دھانے پر پہنچ گئے_
ان عرائض سے معلوم ہوتا ہے كہ در منثور اور السيرة الحلبية ميں منقول يہ بات درست نہيں كہ آنحضرت(ص) اس رات انگليوں كے بل چلتے رہے تاكہ آپ(ص) كے قدموں كے نشان ظاہر نہ ہوں يہاں تك كہ آپ(ص) كے پاؤں گھس گئے_ (گويا مسافت اس قدر زيادہ تھي) اور حضرت ابوبكر نے آپ(ص) كو اپنے كندھے پر اٹھاليا يہاں تك كہ غار كے دھانے تك پہنچ كر آپ(ص) كو اتارا_ ايك اور روايت كے مطابق آپ(ص) اپنے اونٹ جدعاء پر سوار ہوكر حضرت ابوبكر كے گھر سے غار تك گئے_(2)

قريش اور حضرت ابوبكر كى تلاش
كہتے ہيں كہ قريش نے رسول(ص) الله (كى گرفتاري) كيلئے سو اونٹوں اور حضرت ابوبكر كيلئے بھى اس قدر اونٹوں كى شرط ركھي(3)_ جاحظ وغيرہ نے اس بات كا ذكر كيا ہے_
اسكافى معتزلى نے اس كا جواب يوں ديا ہے ''قريش حضرت ابوبكر كى گرفتارى كے واسطے مزيد سو اونٹوں كا نذرانہ كيوں پيش كرتے حالانكہ انہوں نے اس كى التجائے امان كو ٹھكرايا تھا_اور وہ قريش كے درميان بے يار ومددگار تھے_ وہ ان كے ساتھ جو چا ہتے كرسكتے تھے_ بنابريں يا تو قريش دنياكے احمق ترين افراد تھے يا عثمانى ٹولہ روئے زمين كى تمام نسلوں سے زيادہ جھوٹا اور سب سے زيادہ سيہ رو تھا_ اس واقعے كا ذكر نہ سيرت كى كسى كتاب ميں ہے نہ كسى روايت ميں نہ كسى نے اسے سنا تھا اور نہ ہى جاحظ سے قبل كسى كو اس كى خبر تھي''_(4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحارالانوار 19 ص 74 از الخرائج نيز رجوع كريں ص 77 اور 51 ، اعلام الورى ص 63 و مناقب آل ابيطالب ج 1 ص 128 اور تفسير قمى ج 1 ص 276 كى طرف رجوع كريں _
2_ سيرت حلبى ج 2ص 34 _38 اور تارخ الخميس ج 1 ص 328 والدر المنثور_
3_ تاريخ الخميس ج1 ص 330 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 182 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 39_
4_ شرح نہج البلاغہ (معتزلي) ج13 ص 269_

332
يہاں ہم اس بات كا بھى اضافہ كرتے چليں كہ جب (ان لوگوں كے بقول) حضرت ابوبكر كے قبيلے نے پہلے ان كى حمايت كى تھى تو اب ان كو بے يار و مددگار كيوں چھوڑ ديا؟ نيز جب وہ قريش كے نچلے طبقے سے تعلق ركھتے تھے (اس بات كا ذكر حبشہ كى طرف ابوبكر كى ہجرت كے حوالے سے گزر چكا ہے) تو پھر قريش والے ان كيلئے سو اونٹوں كى شرط كيوں ركھنے لگے جس طرح خود رسول(ص) الله كيلئے سو اونٹوں كى شرط ركھى تھي؟ قريش نے حضرت ابوبكر كى كڑى نگرانى كيوں نہيں كى اورانكے پيچھے جاسوس كيوں نہيں چھوڑے يا جس طرح رسول(ص) خدا پر شبخون مارنے كى كوشش كى تھى ان پر بھى شبخون مارنے كيلئے افراد روانہ كيوں نہ كئے؟ اسى طرح قريش حضرت ابوبكر كے پيچھے اس قدر دولت كيونكر داؤ پر لگا رہے تھے جبكہ وہ شخص جس كے باعث رسول(ص) الله ان كے چنگل سے نكل گئے تھے، علي(ع) تھے اور آپ(ص) ان كے درميان بے خطر رہ رہے تھے اور كسى شخص نے انہيں چھيڑا اور نہ ہى كسى قسم كى نا خوشگوار گفتگو كي_ حقيقت يہ ہے كہ ان باتوں كا اصل مقصد حضرت ابوبكر كى منزلت كو بلند كر كے رسول(ص) الله كے ہمدوش قرار دينا ہے اور ساتھ ساتھ بستر رسول(ص) پر حضرت علي(ع) كے سونے كے سارے اثرات كو مٹانا ہے تاكہ حضرت ابوبكر كى عظمت اور منزلت كے سامنے حضرت علي(ع) كى طرف كسى كى توجہ ہى مبذول نہ ہو_

تا صبح انتظار كيوں
يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے وہ يہ كہ مشركين نے شب ہجرت صبح تك انتظار كيوں كيا؟ اس كے جواب ميں بعض لوگ كہتے ہيں كہ ان كا ارادہ ديوار پھلانگنے كا تھا_ ليكن گھر سے ايك عورت چيخي_ يہ سن كر ان ميں سے كسى نے كہا''اگر لوگ كہيں كہ ہم نے اپنى چچا زاد بہنوں كے گھر كى ديوار پھاند لى ہے تو يہ عربوں كے درميان شرمناك بات ہوگي_ (1)
يا شايد اس كى وجہ يہ ہو (جيساكہ كہا گيا ہے) كہ ابولہب رات كو آپ(ص) كے قتل پر راضى نہ تھا كيونكہ اس ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت حلبى ج 2 ص 28، الروض الانف ج2 ص 229 ، سيرہ ابن ہشام ج2 ص 127 مع حاشيہ اور ملاحظہ ہو: تاريخ الہجرة النبويہ (ببلاوي) ص 116_

333
عورتوں اور بچوں كو خطرہ تھا(1)_
ممكن ہے كہ ان دونوں باتوں كے پيش نظر انہوں نے صبح تك انتظار كيا ہو_ يا اس لئے بھى كہ لوگ (دن كى روشنى ميں) ديكھ ليں كہ آپ(ص) كو سارے قبائل نے ملكر قتل كيا ہے يوں يہ بات بنى ہاشم كے خلاف ايك بہانہ ہوتى اور بنى ہاشم آپ(ص) كے خون كا انتقام نہ لے سكتے(2)_

حضرت ابوبكر كا غلاموں كو خريدنا اور ان كے عطيات
كہتے ہيں كہ جب حضرت ابوبكر روانہ ہوئے تو اپناسارا مال جو پانچ ہزار يا چھ ہزار درہم پر مشتمل تھا ساتھ لے كر چلے_ ان كے والد ابوقحافہ (جن كى بينائي چلى گئي تھي) اپنے بيٹے كے اہل خانہ كے پاس آئے اور كہا خدا كى قسم ميں تو يہ مشاہدہ كررہا ہوں كہ اس نے اپنے مال اور اپنى جان كے سبب تم پر مصيبت ڈھادى ان كى بيٹى اسماء بولى :'' نہيں بابا وہ ہمارے لئے بہت كچھ چھوڑ كرگئے ہيں'' _ (اسماء كہتى ہے) پس ميں نے كچھ پتھر اٹھائے اور ان كو گھركے ايك روشن دان ... ميں ركھا جہاں ميرا بابا اپنا مال ركھتا تھا _پھر ميں نے اس پر ايك كپڑا ڈال ديا اور اس كا ہاتھ پكڑكر كہا اے بابا اپنا ہاتھ اس مال پر ركھ_ وہ كہتى ہے كہ اس نے اپنا ہاتھ اس پر ركھا اور كہا:'' كوئي بات نہيں اگر اس نے تمہارے لئے يہ چھوڑا ہے تو اچھا كيا ہے_ يہ تمہارے لئے كافى ہوگا حالانكہ والله اس نے ہمارے لئے كچھ بھى نہ چھوڑا تھا ليكن ميں چاہتى تھى كہ بوڑھے كو تسلى دوں''_ (3)
يہ بھى كہتے ہيں كہ عامر بن فہيرہ كو خدا پرستى كے جرم ميں ايذائيں دى جاتى تھيں_ پس حضرت ابوبكر نے اس كو خريد كر آزاد كر ديا_ پس جب رسول(ص) الله اور حضرت ابوبكر غار ميں تھے تو عامر ابوبكر كى دودھ دينے والى بكرياں ليكر ان كے پاس آيا تھا وہ ان كو چراتا تھا_ اور شام كو ان كے پاس آتا تاكہ ان كيلئے دودھ دوہ لے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحار الانوار ج19 ص 50_
2_ سيرہ حلبيہ ج2 ص 28 _ 26_
3_ سيرت ابن ہشام ج 2 ص 133، كنز العمال ج 22 ص 209 البداية و النہاية ج 3 ص 179 و الاذكياء از ابن جوزى ص 219، حيات الصحابة ج2 ص 173_174، مجمع الزوائد ج 6 ص 59 طبرى اور احمد سے نقل كيا ہے_ ابن اسحاق كے علاوہ اس كے سارے راوى صحيح بخارى والے راوى ہيں اور ابن اسحاق نے بھى خود اپنے كانوں سے سننے پر تاكيد كى ہے_

334
ادھر اسماء بنت ابوبكر شام كے وقت ان كيلئے مناسب كھانا ليكر آتى تھي(1)_
حضرت عائشه سے مروى ہے كہ حضرت ابوبكر نے نبى اكرم(ص) پر چاليس ہزار درہم خرچ كئے_ ايك جگہ دينار كا لفظ آيا ہے(2)_
يہ بھى روايت كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) نے فرمايا كہ كسى شخص نے اپنى ہم نشينى اور مدد كے ذريعے ميرے اوپر اتنا احسان نہيں كيا جس قدر ابوبكر نے كيا اور اتنا مجھے كسى كے مال نے فائدہ نہيں پہنچايا جتنا ابوبكر كے مال نے پہنچايا ہے_يہ سن كر حضرت ابوبكر رو پڑے اور عرض كيا كہ اے الله كے رسول(ص) ميں اور ميرا مال كيا آپ(ص) كے سوا كسى اور كيلئے ہيں؟(3)
يا يہ كہ آپ(ص) نے فرمايا كہ كسى شخص نے ابوبكر سے زيادہ اپنے مال يا اہل كے ذريعے مجھ پر احسان نہيں كيا اور ايك اور روايت ميں مذكور ہے مجھ پر كسى نے اپنى مصاحبت اور مال كے ذريعے ابوبكر سے زيادہ احسان نہيں كيا_ اگر الله كے علاوہ كسى اوركو اپنا دوست بنانا ہوتا تو ميں ابوبكر كو دوست منتخب كرتا_ ليكن اسلام والى برادرى اور محبت موجود ہے_ تمام گھروں كے دروازے جو مسجد ميں كھلتے تھے بند كرديئے گئے سوائے حضرت ابوبكر كے دروازے كے(4)_
حديث غار ميں حضرت عائشه سے مروى ہے كہ ہم نے ان دونوں كيلئے جلدى ميں زاد راہ تيار كيا اور چمڑے كى ايك تھيلى ميں ان كيلئے كھانے كا سامان ركھا_ واقدى كہتے ہيں اس دستر خوان ميں ايك پكى ہوئي بكرى تھي_ اسماء بنت ابوبكر نے اپنا كمربند پھاڑكر اس كے دو حصے كئے_ ايك حصے سے تھيلى كا منہ بند كيااور دوسرے حصے سے پانى كى مشك كا منہ بند كيا_ اسى وجہ سے اسے ذات النطاقين كا لقب ملا(5)_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الخميس ج1 ص 330 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 32 و 40 و التراتيب الاداريہ ج 2 ص 87 ، اس كے ديگر مآخذ بعد ميں ذكر ہوں گے_
2_ تاريخ الخميس ج 1 ص 326 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 32 و 40 والتراتيب الاداريہ ج 2 ص 87، اس كے ديگر مآخذ بعد ميں ذكر ہوں گے_
3_ ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج2 ص 22 و لسان الميزان ج2 ص 23 ، اس كے ديگر مآخذ كا ذكر بعد ميں ہوگا_
4_ مراجعہ ہو صحيح بخارى ( مطابق ارشاد الساري) ج6 ص 214، 215 تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ، الجامع الصحيح (ترمذى )ج5 ص 608 ، 609 ، نيز عامر بن فہيرہ والى حديث سے قبل كى حديث ميں مذكور منابع_
5_سيرت حلبيہ ج2 ص 33 و تاريخ الخميس ج1 ص 323 و 330_

335
ترمذى ميں آنحضرت(ص) سے منقول ہے كہ حضرت ابوبكر نے آپ(ص) كو اپنى بيٹى دي، آپ(ص) كو دار ہجرت (مدينہ) پہنچايا اور غار ميں آپ(ص) كے ساتھ رہے_ ايك اور روايت ميں مذكور ہے آپ(ص) نے فرمايا كہ جس كسى كا ہم پر كوئي حق تھا اسے ہم نے ادا كرديا سوائے ابوبكر كے جس كا ہمارے اوپر حق ہے اور قيامت كے دن الله اسے اس كى جزا دے گا_ (1)
ہمارا نظريہ يہ ہے كہ يہ سارى باتيں مشكوك ہيں بلكہ كسى صورت ميں بھى صحيح نہيں ہوسكتيں جس كى درج ذيل وجوہات ہيں_

1_ عامر بن فہيرہ
ابن اسحاق واقدى اور اسكافى وغيرہ كا كلام اس بارے ميں ذكر ہوچكا كہ عامر بن فہيرہ ابوبكر كا آزاد كردہ غلام نہ تھا_ چنانچہ انہوں نے كہا ہے كہ نبي(ص) نے ہى اس كو خريد كر آزاد كيا تھانہ كہ حضرت ابوبكر نے_

2_ نابينا ابوقحافہ
جو روايت يہ كہتى ہے كہ اسماء نے اس جگہ پتھر ركھے تھے جہاں اس كا باپ اپنا مال ركھتا تھا تاكہ ابوقحافہ اس كو چھو كر مطمئن ہوجائے، اس روايت كى نفى درج ذيل امور سے ہوتى ہے_
الف: فاكہى ابن ابوعمر كہتا ہے كہ سفيان نے ابوحمزہ ثمالى سے ہمارے لئے نقل كيا كہ عبدالله نے كہا كہ جب رسول(ص) الله غار كى طرف روانہ ہوئے تو ميں جستجو كى غرض سے نكلا كہ شايد كوئي مجھے آپ(ص) كے بارے ميں بتائے_ پس ميں حضرت ابوبكر كے گھر آيا_ وہاں ميں نے ابوقحافہ كو پايا وہ ہاتھ ميں ايك ڈنڈا لئے ميرى طرف بڑھا جب اس نے مجھے ديكھا تو وہ يہ كہتے ہوئے ميرى طرف دوڑا'' يہ ان گمراہوں ميں سے ہے جس
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان تمام باتوں كے سلسلے ميں تاريخ خميس ج1 ص 323 _ 330 سيرت حلبى ج2 ص 32،33،40اور 39، الجامع الصحيح (ترمذي) ج5 ص 609، السيرة النبوية ( ابن ہشام) ج2، صحيح بخارى باب ہجرت ، فتح البارى ج7 صحيح مسلم ، صحيح ترمذى ، الدرالمنثور والفصول المہمة ( ابن صباغ) ، السيرة النبويہ ( ابن كثير) ، لسان الميزان ج/2 ص 23 اور البداية والنہاية ج5 ص 229 و مجمع الزوائد ج9 ص 42 از طبرانى اور الغدير _ان كے علاوہ بہت سارے ديگر مآخذ موجود ہيں جن كے ذكر كى گنجائشے نہيں ، ان كى طرف رجوع كريں_

336
نے ميرے بيٹے كو ميرا مخالف بنا ديا ہے''_ (1)
يہ روايت واضح كرتى ہے كہ ابوقحافہ اس وقت تك نابينا نہ ہوا تھا_ اس حديث كى سندبھى ان لوگوں كے نزديك معتبر ہے_
ب: ہم يہ نہ سمجھ سكے كہ حضرت ابوبكر نے كس وجہ سے اپنے گھر والوں كيلئے كچھ بھى نہ چھوڑا_ ان پر حضرت ابوبكر كى طرف سے يہ كيسا ظلم تھا؟ نيز ابوقحافہ (جو ان كے بقول نابينا تھا) كو كہاں سے علم ہوا كہ وہ سارا مال ساتھ لے كر چلے گئے تھے جو وہ يہ كہتا: ''اس نے اپنى جان اور اپنے مال كے سبب تم پر مصيبت ڈھادى ہے''؟
ج: يہاں يہ سوال بھى پيدا ہوتا ہے كہ اسماء نے يہ كارنامہ كيسے انجام ديا؟ كيا وہ اس وقت زبير كى بيوى نہ تھي؟ اور كيا اس نے زبير كے ساتھ پہلے ہى مدينہ كى طرف ہجرت اختيار نہ كى تھي؟ كيونكہ اس وقت مكہ ميں حضرت علي(ع) اور حضرت ابوبكر كے علاوہ اصحاب پيغمبر(ص) ميں سے كوئي بھى باقى نہ رہا تھا سوائے ان لوگوں كے جو كسى مشكل يا مصيبت ميں مبتلا تھے_اس وقت حضرت ابوبكر كى بيوياں كہاں گئي تھيں؟

3_ اسماء وغيرہ كے كارنامے
رہايہ دعوى كہ اسماء شام كے وقت كھانا ليكر غار ميں رسول(ص) الله اور حضرت ابوبكر كے پاس جاتى تھى نيز اس نے ان دونوں كيلئے زاد سفر تيار كيا تھا اور اسى نے ان كيلئے دو سوارياں بھيج دى تھيں، اس طرح اس كو ذات النطاقين كا لقب ملا تھا تو اس پر درج ذيل اعتراضات وارد ہوتے ہيں_
اولًا: يہ كہ اس كے مقابلے ميں وہ كہتے ہيں نبى اكرم(ص) اور حضرت ابوبكر كے چلے جانے كے تين دن بعد تك بھى كسى كو پتہ ہى نہ تھا كہ رسول(ص) خدا كہاں گئے ہيں يہاں تك كہ ايك جن نے اپنے اشعار ميں اس كا اعلان كيا تو لوگوں كو علم ہوا _ اگر كوئي يہ كہے كہ تين دن سے مراد غار سے خارج ہونے كے بعد والے تين دن ہيں_ تو يہ بھي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 2 ص 260 _261 يہ روايت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ قحافہ كى نظر ميں اس كا بيٹا دين سے نكلا ہوا انسان تھا اور يہ كہ حضرت ابوبكر عبداللہ و غيرہ كے بعد مسلمان ہوئے_ يہ روايت اس بات كى بھى نفى كرتى ہے كہ حضرت ابوبكر سب سے پہلے مسلمان ہوئے تھے جيسا كہ پہلے ذكر ہو چكا ہے _

337
درست نہيں، كيونكہ ان لوگوں نے صريحاً بيان كيا ہے كہ غار سے خارج ہونے كے دو دن بعد ان كو علم ہوا كہ آپ(ص) مدينہ چلے گئے ہيں_ (1) حلبى شافعى نے اسى طرح ذكر كيا ہے_ اور اس كى صحت وسقم كى ذمہ دارى خود اسى كى گردن پر ہوگي_
مغلطاى كہتے ہيں كہ آپ(ص) كے مكے سے خارج ہونے كا علم حضرت على (ع) اور حضرت ابوبكر كے سوا كسى كو نہ تھا چنانچہ وہ دونوں غار ثور ميں داخل ہوئے_ (2)
ثانياً: منقول ہے كہ اميرالمومنين علي(ع) ہى نبى كريم(ص) كيلئے سامان خورد و نوش غار تك پہنچاتے تھے(3)
بلكہ يہ بھى مروى ہے كہ نبى كريم(ص) نے حضرت على (ع) كو پيغام بھيجا كہ وہ آپ (ص) كيلئے زاد راہ اور سوارى كا بندوبست كريں_ چنانچہ حضرت على (ع) نے اس كى تعميل ميں سوارى اور زاد راہ كا بندوبست كيا اور آپ(ص) كى خدمت ميں ارسال كي_ ادھر حضرت ابوبكر نے اپنى بيٹى كو پيغام بھيجا تو اس نے زاد سفر اور دو سوارياں بھيجيں يعنى اس كے اور عامر بن فہيرہ كيلئے جيساكہ روايت ميں مذكور ہے اور شايد حضرت علي(ع) نے ان سے يہ سوارى بھى خريد لى ہو_ (4) جيساكہ حضرت علي(ع) نے شورى والے دن اسى بات سے استدلال كيا اور فرمايا كہ ميں تمہيں خدا كا واسطہ ديتا ہوں كيا ميرے علاوہ تم ميں سے كوئي رسول(ص) الله كيلئے غار ميں كھانا بھيجتا تھا يا آپ(ص) كو خبروں سے مطلع كرتا تھا؟ وہ بولے:'' نہيں''_ (5)
يہاں سے يہ قول بھى غلط ثابت ہوتا ہے كہ عبدالله بن ابوبكر غار ميں ان دونوں كے پاس مكہ كى خبريں پہنچايا كرتا تھا_ (6)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبى ج 2 ص 51_
2_ سيرت مغلطاى ص 32 _
3_ تاريخ دمشق (حالات امام علي(ع) بہ تحقيق محمودي) ج 1 ص 138 نيز اعلام الورى ص 190 اور بحار الانوار ج 19 ص 84 از اعلام الورى نيز تيسير المطالب فى امالى الامام على بن ابى طالب ص 75__
4_ اعلام الورى ص 63 و بحار الانوار ج 19 ص 70 اور ص 75 از اعلام الورى و از خرائج و از قصص الانبياء _
5_ احتجاج طبرسى ج 1 ص 204 _
6_ السيرة الحلبية ج 2 ص 39، سيرت ابن ہشام اور كنز العمال ج 22 ص 210 از بغوى اور ابن كثير _

338
ثالثاً: نطاق اور نطاقين والى حديث بھى ايك طرف سے تو اختلاف روايات كا شكار ہے (1) اور دوسرى طرف سے مقدسى نے پہلے قول كو ذكر كرنے كے بعد يوں كہا ہے'' ... كہا جاتا ہے كہ جب چادر والى آيت اترى تو اس نے اپنا ہاتھ اپنے كمربند پر ڈالا اور اس كے دو برابر حصے كر ديئے_ ايك حصے سے اپنا سر چھپا ليا''_(2)
يہ بھى كہتے ہيں كہ اسماء نے حجاج سے كہا ميرے پاس ايك كمربند تھى جس كے ذريعے ميں رسول(ص) الله كے كھانے كو بھڑوں سے محفوظ ركھتى تھى اور عورتوں كيلئے ايك كمربند كى بھى تو بہرحال ضرورت ہوتى ہى ہے_(3)

حديث سد ابواب اور حضرت ابوبكر سے دوستى والى حديث
حديث باب اور ابوبكر سے دوستى والى حديث ''لوكنت متخذا خليلا لاتخذت ابابكر خليلا '' (اگر مجھے كسى سے دوستى كرنى ہوتى تو ابوبكر كو دوست بناليتا) كے سلسلے ميں ہم تفصيلى گفتگو كرنا نہيں چاہتے بلكہ (ابن ابى الحديد) معتزلى كے بيان كو ذكر كرنے پر اكتفا كرتے ہيں_ اس نے كہا '' ان احاديث كے مقابلے ميں حضرت ابوبكر كے مريدوں نے اپنے پير كى شان ميں احاديث گھڑى ہيں مثال كے طور پر '' لوكنت متخذا خليلا '' والى حديث _انہوں نے يہ حديث، بھائي چارے والى حديث كے مقابلے ميں گھڑى ہے_ نيز سد ابواب والى حديث جو درحقيقت حضرت علي(ع) كے بارے ميں تھى ليكن حضرت ابوبكر كے پرستاروں نے اس كو ابوبكر كے حق ميں منتقل كرديا''_(4)
علاوہ ازيں يہ حديث ان كى نقل كردہ اس حديث كے منافى ہے جس ميں كہا گيا ہے كہ رسول(ص) الله نے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اس تضاد كے بعض پہلوؤں سے آگاہى كيلئے الاصابة ج 4 ص 230 اور الاستيعاب (الاصابہ كے حاشيے پر) ج 4 ص 233 كى طرف رجوع كريں _
2_ البدء و التاريخ ج 5 ص 78 _
3_ الاصابة ج 4 ص 230 اور الاستيعاب حاشية الاصابة ج 4 ص 233 _
4_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 11 ص 49 و الغدير ج 5 ص 311 _

339
ابوبكر كو اپنا دوست چن ليا تھا جيساكہ علامہ امينى نے الغدير ميں اس كا تذكرہ كيا ہے_ (1) اب آپ ہى بتائيں كہ ہم كس كو ما نيں اور كس كو نہ مانيں؟
سد ابواب والى حديث كے بارے ميں شايد ہم كسى مناسب جگہ پر بحث كريں_ اسى طرح دوستى والى حديث كے بارے ميں حديث مواخاة پر بحث كے دوران گفتگو ہوگى انشاء الله تعالي_

5_ حضرت ابوبكر كى دولت
حضرت ابوبكر كى دولت اور ان كى چاليس ہزار درہم يا دينار نبى كريم(ص) پر خرچ كرنے وغيرہ كے بارے ميں عرض ہے كہ اسماء اور ابوقحافہ كے درميان ہجرت كے دوران ہونے والى مذكورہ گفتگو اور ديگر باتوں كے صحيح نہ ہونے كے بارے ميں گزشتہ پانچ صفحوں ميں ذكر شدہ عرائض كے علاوہ ہم درج ذيل نكات كى طرف بھى اشارہ كرتے ہيں:
الف: وہ حديث جس ميں مذكور تھا كہ ''اپنى مصاحبت اور مال كے ذريعے جتنا احسان ابوبكر نے مجھ پر كيا ہے كسى اور نے نہيں كيا اوريہ كہ ہمارے ساتھ احسان كرنے والے ہرفرد كا حق ہم نے ادا كرديا ہے سوائے ابوبكر كے جس كے احسان كا بدلہ خدادے گا'' يہ حديث درج ذيل وجوہات كى بنا پر صحيح نہيں ہے:
1_ رسول(ص) اللہ نے حضرت ابوطالب اور حضرت خديجہ سلام الله عليہما كى فدا كاريوں، مالى قربانيوں اور راہ اسلام ميں ان كى امداد نيز جان مال اور اولاد كے ذريعے آپ كے ساتھ اظہار ہمدردى كا بدلہ كب ديا ؟ اسلام كى راہ ميں ان دونوں نے جس قدر مال خرچ كيا اور قربانى دى كياوہ تمام دوسرے انسانوں كى طرف سے اسلام كى راہ ميں دى گئي قربانيوں اور دولت سے زيادہ نہ تھي؟ اس كے علاوہ اس دين كيلئے حضرت علي(ع) كى واضح خدمات تھيں جن سے سوائے كسى سركش اور ضدى دشمن كے كوئي انكار نہيں كرسكتا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رياض النضرة ج1 ص 126 ،ارشاد السارى ج6 ص 86 از حافظ السكرى ، الغدير ج8 ص 34 مذكورہ دونوں مآخذ سے و از كنز العمال ج6 ص138_140 طبرانى اور ابونعيم سے_

340
2_ رسول(ص) الله پر منت والى حديث بھى عجيب ہے كيونكہ آپ(ص) كو مكہ ميں كسى كى ضرورت نہ تھى كيونكہ آپ(ص) كے پاس حضرت خديجہ(ع) بلكہ حضرت ابوطالب(ع) كے اموال موجود تھے_ (1) آپ(ص) ہجرت كے وقت تك ان كو مسلمانوں پر خرچ فرماتے تھے اور شروع شروع ميں حضرت ابوطالب كا بوجھ كم كرنے كيلئے حضرت علي(ع) كا بھى خرچہ برداشت كرتے تھے_ منقول ہے كہ حضرت عمر نے اسماء بنت عميس كى سرزنش كى اور كہا كہ مجھے تو ہجرت نصيب ہوئي ليكن تجھے نصيب نہيں ہوئي_ اسماء نے جواب ديا ''تم لوگ رسول(ص) الله كے مال كے ساتھ اپنے بھوكوں كو كھلانے اور اپنے جاہلوں كى ہدايت ميں مشغول تھے''_ اس كے بعد اسماء نے اس كى شكايت رسول(ص) الله كے پاس كي_ آپ(ص) نے فرمايا كہ حبشہ كو ہجرت كرنے والے دو ہجرتوں سے سر افراز ہوئے جبكہ ان لوگوں نے فقط ايك ہجرت كى ہے_ (2)
3_ يہاں يہ بتانا كافى ہے كہ رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبكر سے مذكورہ ايك يا دو اونٹ ہجرت كے وقت قيمت كے بغير قبول نہ فرمائے اور قيمت كى ادائيگى بھى فوراً كي، جبكہ آپ(ص) سخت ترين حالات سے دوچار تھے_ پس جب رسول(ص) الله نے اس مقام پر حضرت ابوبكر كاہديہ قبول نہ فرمايا تو يہى حال حضرت ابوبكر كى طرف سے نبى كريم(ص) پر مال خرچ كرنے كے بارے ميں مروى ديگر روايات كا بھى ہے_
4_ ان باتوں كے علاوہ رسول(ص) خدا نے مكہ ميں كوئي لشكر ترتيب نہيں ديا اور نہ كوئي جنگ كى جو آپ(ص) كو لشكر كى تيارى نيز سواريوں اور سامان حرب پر وسيع پيمانے پر خرچ كرنے كى ضرورت پڑتي_ نيز آپ(ص) عيش وعشرت پر بھى مال خرچ نہ فرماتے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ابتدائے بحث ميں بيان ہوچكا ہے كہ حضرت ابوطالب شعب ابوطالب ميں بنى ہاشم پر اپنا مال خرچ كرتے تھے_ رہى بات حضرت خديجہ(ع) كى دولت تو وہ اپنى شہرت كى بنا پر محتاج بياں نہيں حضرت خديجہ كے اموال كے بارے ميں ابن ابى رافع كا كلام پہلے گزر چكا ہے_
2_ رجوع كريں : الاوائل ج 1 ص 314 و البداية و النہاية ج 4 ص 205 از بخارى و صحيح بخارى ج 3 ص 35 مطبوعہ 1309 ھ، صحيح مسلم ج 7 ص 172، كنز العمال ج 22 ص 206 از ابونعيم اور طيالسى نيز رجوع كريں فتح البارى ج 7 ص 372 اور مسند احمد ج 4 ص 395 اور 412 نيز حياة الصحابہ ج1 ص 361_

341
ہجرت مدينہ كے بعد تو حضرت ابوبكر اپنے مال كے معاملے ميں سخت بخيل ہوگئے تھے_ ان كے پاس اس وقت پانچ ہزار يا چھ ہزار درہم تھے جيساكہ بعض لوگ نقل كرتے ہيں_ حضرت ابوبكرہركسى كے ساتھ بخل كرتے تھے يہاں تك كہ اپنى بيٹى اسماء كے ساتھ بھى جو مدينہ آنے كے بعد فقر اور مشكلات كا سخت شكار تھي_ يہاں تك كہ وہ ايك گھرميں خدمت كرتى تھي، وہاں كے گھوڑے كى ديكھ بھا ل كرتى اور اونٹ كيلئے گٹھلياں كوٹتى ،اس كو دانہ پانى كھلاتى اوردوتہائي فرسخ(1) كے فاصلے سے گٹھليوں كو اپنے سر پر اٹھا كر لاتى تھي_ آخر كار حضرت ابوبكر نے اس كيلئے ايك نوكر بھيج ديا جس نے گھوڑے كى ديكھ بال كا كام سنبھال ليا جيساكہ وہ خود كہتى ہے_(2)
اس كے علاوہ خود پيغمبر(ص) اسلام بھى كئي سال تك مشكلات اور تنگى كا شكار رہے بالخصوص جنگ خيبر سے پہلے_ يہاں تك كہ بسا اوقات آپ(ص) دو يا تين دن تك فاقے كرتے تھے اور نوبت يہاں تك پہنچتى كہ آپ(ص) اپنے شكم اطہر پر پتھربھى باندھتے تھے_ (3) انصار باہمى مشورے سے آپ(ص) كيلئے كھانے كا بند وبست كرتے تھے_ اس وقت حضرت ابوبكر كے وہ ہزاروں درہم اور اموال كہاں گئے تھے جوغزوہ تبوك تك باقى تھے_كيونكہ ان لوگوں كا يہ دعوى ہے كہ اس وقت وہ اپنى تمام دولت ( چار ہزار درہم) كے ساتھ حاضر ہوئے_(4)
ب: مذكورہ باتيں اس صورت ميں تھيں كہ ان لوگوں كے نزديك ''منّت'' سے مراد رسول(ص) الله پر مال خرچ كرنا ہو_ ليكن اگر رسول(ص) پر منت سے مراد الله كى راہ ميں انفاق ہو تو يہ بات بھى صحيح نہيں كيونكہ ہميں تاريخ ميں اس بات كى كوئي مثال نہيں ملتى بلكہ تاريخى شواہد تو اس كے خلاف گواہى ديتے ہيں كيونكہ حضرت ابوبكر نے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ يعنى تقريبا چار كلوميٹر كے فاصلے سے (از مترجم)
2_ حديث الافك ص 152 _
3_ حضرت عائشه نے حضور(ص) اور آپ(ص) كے گھر والوں كى جو حالت بيان كى ہے اس سے انسان كا دل چھلنى ہو جاتا ہے _ رجوع كريں طبقات ابن سعد ج 1 حصہ دوم ص 120و ص 112 سے ص 120 تك_
4_ حيات الصحابة ج 1 ص 429 از ابن عساكر ج 1 ص 110 _

342
اپنے مال كے معاملے ميں اس قدر كنجوسى برتى كہ واقعہ ''نجوي'' ميں دو درھم بھى صدقہ دينے پر آمادہ نہ ہوئے اور سوائے اميرالمومنين على (ع) كے كسى نے يہ اقدام نہ كيا يہاں تك كہ قرآن كى آيت اترى جس ميں الله تعالى نے اصحاب كے رونے كى مذمت و ملامت كي، ارشاد ہوا (ا اشفقتم ان تقدموا بين يدى نجواكم صدقات فاذلم تفعلوا وتاب الله عليكم ...) (1) يعنى كيا تم اس بات سے ڈرگئے كہ (رسول(ص) الله كے ساتھ) سر گوشى كرنے سے پہلے تمہيں صدقات دينے ہوں گے_ اب اگر تم ايسا نہ كرو اور الله نے تم كو اس سے معاف كرديا تو ..._ اگر حضرت ابوبكر دو درہموں كا صدقہ ديتے تو ان لوگوں كى صف ميں شامل نہ ہوتے جن كى الله نے ملامت كي(بلكہ اور جعلى فضائل كوچھوڑ كر اسى پر مباہات كرتے اور حضرت على (ع) سے برترى كا يہ نادر موقع ہاتھ سے نہ جانے ديتے _ از مترجم)_
ج: مذكورہ باتوں سے بھى اہم نكتہ يہ ہے كہ خدا كى خوشنودى كيلئے مال خرچ كرنے كے بعد رسول(ص) خدا پر احسان جتلانے كا كوئي معنى نہيں بنتا (جيساكہ مذكورہ روايت سے اس كا شائبہ ملتا ہے) چنانچہ رسول(ص) خدا نے بھى اس بات كى خبردى ہے_ بلكہ منت تو در اصل الله اور رسول(ص) كى طرف سے ان پر ہے_
خدا نے احسان جتلانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے (لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذي)(2) يعنى احسان جتلاكر يا آزار دے كر اپنے صدقات كو رائيگاں نہ كرو، نيز فرمايا (ولاتمنن تستكثر)(3) يعنى اور احسان نہ جتلاؤ زيادہ حاصل كرنے كيلئے، اس لئے يہ بات ہمارے لئے قابل قبول نہيں ہے كہ رسول(ص) الله اس منّت پر، منت كرنے والے كى تعريف كريں خاص كر يہ كہيں كہ اس نے اپنى مصاحبت اور مال كے ذريعے، سارے لوگوں سے زيادہ مجھ پر احسان كيا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ مجادلہ آيت 13 نيز رجوع كريں دلائل الصدق ج 2 ص 120، الاوائل ج 1 ص 297 و حاشية تلخيص الشافى ج 3 ص 235 اور 37 (جو بہت سے مآخذ سے منقول ہے) كى طرف _
2_ سورہ بقرہ آيت 264 _
3_ سورہ مدثر آيت 6 _

343
ايك اہم اشارہ
انہى وجوہات كى بنا پر بظاہر جب نبى اكرم(ص) ، حضرت ابوبكر كو راہ خدا ميں اپنا گھر بار مكہ چھوڑ آنے ،غار ميں آپ (ص) كے ساتھ رہنے ،خطرات جھيلنے اور خوف اعداء سے محزون و پريشان ہونے اور اس قسم كے ديگر طعنے دينے سے نہ روك سكے تو لوگوں كو حضرت ابوبكر كى اس حالت سے آگاہ كرنے پر مجبور ہوئے ،شايد وہ اس طرح اپنے بعض كاموں سے دستبردار ہوجاتے_ آنحضرت(ص) نے مجبور ہوكر آخرى اقدام كے طور پر يہ طريقہ كار اختيار كيا جو تعليم و تربيت كے اساليب ميں سے ايك اسلوب ہے_ خصوصاً پيغمبر(ص) اسلام پر اس قسم كااحسان فقط حضرت ابوبكر نے نہيں كيا تھا كيونكہ سارے مہاجرين اپنے اموال اپنا وطن، اپنى سرزمين چھوڑ كر مدينہ چلے آئے تھے_ سب نے مشكلات وخطرات كا مقابلہ كيا تھا_ ان ميں سے بہت سوں نے سخت ترين قسم كى ايذا رسانيوں اور سزاؤں كا سامنا كيا تھا_ غار ميں حضور(ص) كى مصاحبت كے بارے ميں واضح رہے كہ اميرالمومنين كو در پيش خطرہ ان كو در پيش خطرے سے كہيں زيادہ تھا_ بنابريں يہ احسان حضرت ابوبكر كا حصہ كيوں بن جائے؟ يہاں تك كہ رسول(ص) الله ان كو اپنا سب سے بڑا محسن قرار ديں؟
د: طوسى اور مفيدكے بقول ابتدا ميں حضرت ابوبكربچوں كے معلم تھے_ پھر درزى كا كام كرنے لگے_ بيت المال سے ان كا حصہ دوسرے مسلمانوں كے برابر تھا اسى لئے وہ انصار كى مدد كے محتاج ہوئے ان كے والد شكارى تھے پھر اپنا پيٹ بھرنے اور بدن چھپانے كيلئے ابن جدعان (1)كے دسترخوان پر مكھياں اڑانے اور لوگوں كو بلانے كا كام كرنے لگے_ (2) ان حالات ميں فطرى بات ہے كہ حضرت ابوبكر پانچ ہزار درہم كے كيسے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ابن جد عان كے متعلق بظاہر كہا يہى جاتا ہے كہ وہ ايك مالدار يہودى آدمى تھا_ (از مترجم)
2_ تلخيص الشافى ج 3 ص 238 دلائل الصدق ج 2 ص 130 و الافصاح ص 135 اور الغدير ج 8 ص 51_ محقق سيد مہدى روحانى نے ابوبكر كے معلم ہونے كو درست نہيں سمجھا كيونكہ بچوں كو مكتب ميں جمع كر كے پڑھانے كى رسم بعد ميں نكلى ہے اور ايام جاہليت ميں مكہ كے اندر يہ رسم نہ تھى نيز وہ يہ سوال كرتے ہيں كہ اگر وہ معلم تھے تو ان كے شاگرد كون تھے؟ اس مكہ كے اندر چند معدود افراد كے علاوہ پڑھے لكھے افراد كيوں نہيں پائے جاتے تھے_ جيساكہ كتاب كى ابتدا ميں اس كا ذكر ہوچكا ہے_بلكہ جرجى زيدان نے اپنى كتاب تاريخ تمدن ميں لكھا ہے كہ حضور كريم (ص) كى بعثت كے وقت پورے مكہ ميں صرف سات پڑھے لكھے آدمى تھے_

344
مالك ہوسكتے تھے، چاليس ہزار درہم يا دينار تو دور كى بات ہے كيونكہ اس قسم كى دولت يا تجارت سے حاصل ہوتى ہے يا زراعت سے، حضرت ابوبكر اس طرح كے پيشوں سے تعلق نہيں ركھتے تھے، بنابريں بعض لوگ كيسے يہ دعوى كرتے ہيں كہ ان كا شمار قريش كے رؤسا، مالداروں اور صاحبان جاہ ومقام ميں سے ہوتا تھا؟ اگر ان كى يہ حالت تھى تو پھر اپنى بيٹى (اسمائ) كى خبر كيوں نہ لى اور خاص كر اپنے باپ كو ابن جدعان كے پاس كيوں رہنے ديا؟_
ھ: جب اميرالمومنين(ع) نے تھوڑا سا مال بطور صدقہ ديا (جيساكہ آپ نے يتيم، مسكين اور اسير كو كھانا كھلا كر اس كا ثبوت ديا) تو اس كے بارے ميں قرآن كى يہ آيت اتري:
(ويطعمون الطعام على حبہ مسكينا ويتيما واسيرا انما نطعمكم ...) (1) اور جب انہوں نے اپنى انگوٹھى بطور صدقہ دى تو يہ آيت نازل ہوئي (انما وليكم الله ورسولہ والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويوتون الزكاة وھم راكعون) (2) نيز جب انہوں نے ايك درہم چھپاكر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ انسان (دھر) آيت 8 اور روايات كے منابع يہ ہيں : المناقب (خوارزمي) ص 189 ، 195 ، رياض النضرةج3 ص 208 و 209 ، التفسير الكبير ج30 ص 234 _244 از واحدى و الزمخشرى ، غرائب القرآن (حاشيہ جامع البيان پر مطبوع،) ج29 ص 112، 113، كشاف ج4 ص 670،نوادرالاصول ص 64 ، 65 ، الجامع لاحكام القرآن ج19 ص 131 از نقاش ، ثعلبي، قشيرى و ديگر مفسرين، كشف الغمہ ج1 ص 169 ، تفسير نورالثقلين ج5 ص469_477 از امالى شيخ صدوق، قمى ، طبرسى و ابن شہر آشوب ، ذخائر العقبى ص 89 وسائل الشيعہ ج16 ص 190 ، فرائد السمطين ج2 ص 54 تا 56 ، مجمع البيان ج10 ص404 ، 405 ، المناقب ( ابن مغازلي) ص 273 ، الاصابہ ج4 ص 378 ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج1 ص 21، اور اسدالغابہ ج5 ص 530 ، 531 اور ديگر كثير منابع_
2_ سورہ مائدہ آيت 55 اور حديث كے مآخذ يہ ہيں : الكشاف ج1 ص 649 ، اسباب النزول ص 113 ، تفسير المنار ج6 ص 442 نيز كہا ہے كہ كئي طريقوں سے روايت كى گئي ہے ، تفسير نورالثقلين ج 1 ص 533 و 337 از الكافى ، احتجاج ، خصال، تفسير قمى اور امالى شيخ صدوق، تفسير الكبير ج12 ص 26، الدرالمنثور ج2 ص 293 ، 294 از ابوشيخ، ابن مردويہ ، طبراني، ابن ابى حاتم، ابن عساكر ، ابن جرير و ابونعيم و غيرہ ، فتح القدير ج2 ص53خطيب كى كتاب المتفق و المفترق سے ، الجامع لاحكام القرآن ج6 ص 221 ، شواہد التنزيل ج1 ص 173 _ 184 كنز العمال ج15 ص 146 ، الفصول المہمہ ( ابن صباغ) ص 108 ، تذكرة الخواص ص 15 ، المناقب خوارزمى ص 186 ، 187 ، رياض النضرة ج 3 ص 208 ، ذخائر العقبى ص 102 از واقدى و ابو الفرج ابن جوزى اور وسائل الشيعہ ج6 ص 334 ، 335 و ديگر منابع _

345
اور ايك درہم اعلانيہ نيز ايك درہم رات كو اور ايك درہم دن كو صدقہ ديا تو الله تعالى نے يوں توصيف فرمائي (الذين ينفقون اموالہم بالليل و النھار سرا وعلانية فلہم اجرھم عند ربہم) (1) اسى طرح آيہ نجوى پر بھى سوائے حضرت على (ع) كے كسى اور نے عمل پيراہو كر نہيں دكھايا(2)_
ان سارى باتوں كى روشنى ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اگر حضرت ابوبكر نے چاليس ہزار درہم يا دينار راہ خدا ميں خرچ كئے ہوتے اور نبي(ص) پر ان كا اتنا بڑا احسان ہوتا كہ جس كا بدلہ خدا ہى ديتا يہاں تك كہ كسى كے مال نے حضرت ابوبكر كے مال كى مانند آپ كو فائدہ نہ پہنچايا ہوتا تو پھر يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ خدا قرآن ميں اس كا ذكر ہى نہ كرے اور تاريخ يا حديث كى كتابوں ميں كم از كم اس كا ايك نمونہ بھى ايسا دكھائي نہ دے جو قابل اثبات ہو؟ كيا مورخين اور محدثين نے حضرت ابوبكر كے فضائل سے عمداً چشم پوشى كي؟ اگر ہاں تو پھر اس
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ بقرہ آيت 274 روايات ان كتابوں ميں موجود ہيں : الكشاف ج1 ص 319 ، تفسير المنار ج3 ص 92 از عبدالرزاق و ابن جرير وغيرہ ، التفسير الكبير ج7 ص 83 ، الجامع لاحكام القرآن ج 3 ص 347 ، تفسير قرآن العظيم ج1 ص 326 از ابن جرير ، ابن مردويہ و ابن ابى حاتم، فتح القدير ج 1 ص 294 از عبد الرزاق ، عبد بن حميد و ابن منذر، طبرانى اور ابن عساكر و غيرہ ، الدرالمنثور ج1 ص 363 ، لباب النقول ص 50 مطبوعہ دار احياء العلوم، اسباب النزول ص 50 ، تفسير نورالثقلين ج1 ص 341 از عياشى والفصول المہمہ (ابن صباغ) ص 107 ، نظم درر السمطين ص 90 ، ذخائر العقبى ص 88 ، تفسير البرہان ج4 ص 412 ، المناقب ابن مغازلى ص 280 ، ينابيع المودة ص 92 ، روضة الواعظين ص 383 و 105 او ر شرح نہج البلاغہ معتزلى ج1 ص 21_
2_ ملاحظہ ہو: المناقب خوارزمى ص 196 ، رياض النضرة ج 3 ص 180 ، الصواع المحرقہ ص 129 ا زواقدى ، نظم در ر السمطين ص 90، 91 ، تفسير القرآن العظيم ج4 ص 327، 326، جامع البيان ج28 ص 14 ، 15 ، غرائب القرآن (حاشيہ جامع البيان پر) ج28 ص 24 ، 25 ، كفاية الطالب ص 136 ، 137 ، احكام القرآن جصاص ج 3 ص 428 ، مستدرك حاكم ج2 ص 482 ، تلخيص مستدرك ( ذہبى ، مطبوعہ حاشيہ مستدرك) ج2 ص 673، 675، لباب التاويل ج4 ص 224، مدارك التنزيل( مطبوعہ حاشيہ لباب التاويل) ج4 ص 224، اسباب النزول ص 235، شواہد التنزيل ج2 ص 231 _240، الدر المنثور ج6 ص 185 ، از ابن ابى شيبہ ، عبد بن حميد، ابن منذر ، ابن مردويہ ، ابن ابى حاتم، عبدالرزاق، حاكم( جس نے اسے صحيح قرار ديا ہے ) ، سعيد بن منصور و ابن راہويہ، فتح القدير ج5 ص 191 ، التفسير الكبير ج29 ص 271 ، الجامع لاحكام القرآن ج17 ص 302 ، الكشاف ج4 ص 494 ، كشف الغمہ ج1 ص 168 ، احقاق الحق ( حصہ ملحقات) ج3 ص 129 تا 40 1 و ج14 ص 200 ، 217 و ج20 ص 181 ، 192 مذكورہ بعض مآخذ سے نيز ديگر كثير منابع سے اور اعلام الورى ص 188 البتہ يہ بات ذہن نشين رہے كہ جگہ كى كمى كے پيش نظر اس حديث اور گذشتہ تين روايات كے اكثر منابع و مآخذ ذكر نہيں كئے گئے وگرنہ مذكورہ منابع سے كہيں زيادہ كتب ميں يہ روايات ملتى ہيں_

346
سلسلے ميں حضرت على (ع) كے فضائل سے چشم پوشى كيوں نہيں كي؟
كيا حكمرانوں، بادشاہوں، ان كے ما تحتوں اور بڑے علماء نے حضرت ابوبكر پر ظلم كرتے ہوئے لوگوں كو ان كے فضائل بيان كرنے يا نقل كرنے سے روكا؟ (جس طرح حضرت على (ع) پر ظلم كيا تھا؟) البتہ انہوں نے يہ ذكر كيا ہے كہ حضرت ابوبكرنے مكہ ميں مجبور اور ستم ديدہ غلاموں كو آزاد كيا تھا ليكن ہم عرض كرچكے كہ اس كا اثبات ناممكن ہے_ چنانچہ اسكافى معتزلى نے اس كا انكار كرتے ہوئے كہا ہے كہ ان كى قيمت اس زمانے ميں سو درہم بھى نہ تھى (بشرطيكہ روايت كى صحت كو تسليم كرلياجائے) _
كيا خدا كى عدالت كا تقاضا يہ تھا كہ حضرت على (ع) كے صدقات كا (كم ہونے كے باوجود) قرآن اور نبي(ص) كى زبانى ذكر ہو ليكن حضرت ابوبكر كے عطيات كا كئي ہزار كى حد تك پہنچنے كے باوجود، تذكرہ نہ ہو؟ كيا يہ عدل ہے؟ منزہ ہے وہ الله جو بادشاہ بھى ہے، حق بھى اور عدل مبين بھي، جس كے ہاں كسى پر ذرہ بھر بلكہ اس سے بھى كم ظلم نہيں ہوتا_
اب كيا يہ كہنا صحيح نہيںہوگا كہ حضرت ابوبكر كے عطيات خالص خدا كى رضا كيلئے نہ تھے؟ اور اگر يہ سب ان كے فطرى جود وسخاوت كا نتيجہ تھا ا ور اسى لئے الله نے ان كو نظر انداز فرمايا تھا تو پھر كم از كم خدا اسى خصلت كى ہى تعريف فرماتا اور اگر ان كے عطيات كى كوئي قدر وقيمت ہى نہ تھى تو پھر رسول(ص) الله نے كيونكر فرمايا كہ الله بہت جلد اس كى جزا عنايت كرے گا؟ ان كے علاوہ اور بھى بہت سے سوالات ابھرتے ہيں جن كا كوئي مفيد، قانع كنندہ اور قابل قبول جواب آپ كو نہيں ملے گا_
ان سارى باتوں سے قطع نظر حضرت ابوبكر كى مالدارى كا ذكر فقط ان كى بيٹى حضرت عائشه سے منقول ہے( جيساكہ شيخ مفيد عليہ الرحمةنے كہا ہے )اوراس كے راويوں ميں شعبى جيسے افراد بھى موجود ہيں جو رضائے بنى اميہ كے حصول كى خاطر تعصب اور اپنى دروغ گوئي اور افترا پردازى كے باعث معروف اور مشہور ہيں_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الافصاح فى امامة اميرالمومنين(ع) ص 131_133 _

347
ماہر چوروں كا تذكرہ
يہاں روتوں كو ہنسانے والى سب سے عجيب بات يہ ہے كہ بعض كے بقول چور جب حضرت ابوبكر كے چار سوا ونٹ اور چاليس غلاموں كو چورى كر كے لے گئے اور نبى كريم (ص) نے ا نہيں غمگين ديكھا تو ان سے اس كا سبب پوچھا _ جب انہوں نے چورى كا واقعہ آپ(ص) كو بتايا تو آپ (ص) نے ان سے فرمايا:''(اچھا يہ بات ہے) ميں سمجھا تھا كہ تم سے كوئي نماز قضا ہوگئي ہے ...''(1) ليكن مجھے سمجھ نہيں آتى كہ ان ماہر چوروں نے غلاموں اوراونٹوں كى اتنى بڑى مقدار كو كہاں چھپايا تھا؟ پھر ان ميں سے ايك غلام نے بھى وہاں سے بھاگ كر جناب ابوبكر كو خبر دار نہيں كيا ؟ پھر كيسے ہوا كہ اس دور كى تاريخ كے سب سے بڑے قافلے كے چلنے كى آواز نے مكہ اور مدينہ كے كسى فرد كو بھى نہيں جگايا؟ پھر يہ بھى نہيں معلوم كہ حضرت ابوبكر كے پاس اتنى زيادہ ثروت كہاں سے آگئي؟ پھر وہ جزيرة العرب كے سب سے زيادہ متمول آدمى كے طور پر چاردانگ عالم ميں مشہور كيوں نہيں ہوئے؟ آخر كار ہميں يہ پتا بھى نہيں چل سكا كہ جناب ابوبكر مسروقہ چيزوں كو دوبارہ حاصل كرنے ميں كامياب بھى ہوسكے يا نہيں؟

حضرت ابوبكر كى دولت سے مربوط اقوال پر آخرى تبصرہ
ہمارا نقطہ نظر يہ ہے كہ حضرت ابوبكر كى دولت مندى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم پر اسے خرچ كرنے كے بارے ميں جو اقوال موجود ہيں وہ خليفہ اول كے حاميوں كے شديد رد عمل كا نتيجہ ہيں كيونكہ وہ ديكھ رہے تھے كہ ايك طرف سے تو رسول(ص) الله قيمت اداكئے بغير ان كى پيش كردہ سوارى كو قبول كرنے سے انكار كر رہے ہيں (2)اور دوسرى طرف سے حضرت علي،(ع) آپ(ع) كے عطيات اور شب ہجرت اور ديگر مقامات پر آپ(ع) كى
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نزہة المجالس ج 1 ص 116_
2_ صحيح بخارى مطبوعہ مشكولى ج 5 ص 75 تاريخ طبرى ج 2 ص 104 سيرت ابن ہشام ج 2 ص 131 طبقات ابن سعد ج 1 حصہ اول ص 153 البداية والنہاية ج 3 ص 184_188 مسند احمد ج 5 ص 245 الكامل ابن اثير اور ديگر بہت سارے مآخذ كے علاوہ سيرت حلبى ج 2 ص 32 كى طرف رجوع كريں _

348
قربانيوں كے بارے ميں قرآن كى آيتيں اتر رہى ہيں_
بنابريں ضرورى تھا كہ وہ حضرت ابوبكر كيلئے عظيم فضائل اور قربانياں ثابت كرنے كى جد وجہد كرتے_
اس كے بعد يہ لوگ سوارى والے واقعے كى تاويل يوں كرتے ہيں كہ رسول(ص) الله اپنى جان اوراپنے مال كے ساتھ راہ خدا ميں ہجرت كرنا چاہتے تھے_ (1)
ليكن جب وہ ہجرت كے واقعات ميں زاد راہ والى چمڑے كى تھيلي، پكى ہوئي بكرى اور گوسفند كے دودھ كا تذكرہ كرتے ہيں تو اس تاويل كو بھول جاتے ہيں اور اپنى گفتار كے اندر موجود واضح تضاد سے غافل ہوجاتے ہيں كہ ايك طرف تو رسول(ص) خدا اپنى جان اور فقط اپنے مال كے ساتھ ہجرت كا ارادہ فرمائيں اور دوسرى طرف آپ(ص) حضرت ابوبكر كى طرف سے ديئے گئے مال، زاد راہ اور دودھ وغيرہ سے استفادہ كريں_
جى ہاں اگر (نعوذ باللہ )رسول(ص) الله كے افعال واقوال ميں تضاد نظر آئے تو كوئي فرق نہيں پڑتا بشرطيكہ حضرت ابوبكر كى فضيلت ميں كمى يا فضائل سے ان كى محرومى كا باعث نہ بنے_

دروغ پردازى اور جعل سازي
حقيقت يہ ہے كہ رسول(ص) الله نے حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا كے اموال كے بارے ميں فرمايا تھا ''ما نفعنى مال قط مثل ما نفعنى مال خديجة '' (مجھے كسى مال نے اتنا فائدہ نہيں پہنچايا جتنا خديجہ كے مال نے) جيساكہ ذكر ہوچكا ہے_ ليكن اس حديث كو حضرت ابوبكر كے حق ميں تبديل كرديا گيا ہے_ اس كو مختلف شكلوں اور عبارتوں ميں ڈھالاگيا ہے جو ايك ہى مقصد كى حامل اور ايك ہى واضح ہدف كى غماز ہيں اور وہ ہے حضرت ابوبكر كيلئے فضيلت تراشى اور بس_ ديگر بہت سارى ان روايات كى مانند جن كا ذكر ابن ابى الحديد معتزلى نے شرح نہج البلاغہ ميں كيا ہے اور كہا ہے كہ يہ اميرالمومنين حضرت علي(ع) كے فضائل كے مقابلے ميں حضرت ابوبكر كے معتقدين كى وضع كردہ ہيں جيساكہ تحقيق اور موازنہ كرنے كى صورت ميں ہر كسى كيلئے واضح ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فتح البارى ج 7 باب الہجرة ص 183 و السيرة الحلبية ج 2 ص 32 _

349
ابوبكر اور ديدار الہي
حضرت انس سے مروى ہے كہ جب حضور(ص) غار سے خارج ہوئے تو حضرت ابوبكر نے آپ(ص) كى ركاب تھام لى رسول(ص) خدا نے ان كى طرف نظر كى اور فرمايا :''اے ابوبكر تجھے خوشخبرى نہ دوں؟'' بولے :''كيوں نہيں ميرے ماں باپ آپ (ص) پر قربان جائيں''_ فرمايا: ''بيشك خدا روز قيامت تمام لوگوں كے سامنے اپنا ديدار عام كرائے گا ليكن تمہارے لئے بطور خاص اپنى تجلى دكھائے گا''_(1)
يہاں پہلے تو ہم نہيں سمجھے كہ اس تجلى سے كيا مراد ہے_ مگر يہ كہ مذہب مجسّمہ (جو ايك گمراہ مذہب ہے) كى رو سے اس كا معنى كيا جائے_ اس كے علاوہ فيروز آبادى نے اس حديث كو حضرت ابوبكر كے حق ميں گھڑى گئي مشہور و معروف جعلى احاديث ميں شمار كيا ہے جن كا باطل ہونا عقل سليم كے نزديك بديہى اور واضح امر ہے_ خطيب نے نقلى علوم كے ماہرين كے نزديك اس كے جعلى ہونے كى تصديق كى ہے_ اس كے علاوہ ذہبي، عجلوني، ابن عدي، سيوطي، عسقلانى اور قارى وغيرہ نے بھى اس كے جعلى اور بے بنياد ہونے كا فيصلہ ديا ہے_ (2)

فضائل كے بارے ميں ايك اہم ياددہاني
مدائنى كہتے ہيں معاويہ نے ہر جگہ اپنے عاملوں كو لكھا كہ كسى شيعہ كى شہادت قبول نہ كى جائے_ نيز يہ بھى لكھا :''اپنے درميان عثمان كے طرفداروں، دوستوں اور چاہنے والوں كو تلاش كرو، جو اس كے فضائل ومناقب بيان كريں ان كى مجالس ميں حاضرى دو، انہيں اپنے قريب لاؤ، ان كا احترام ملحوظ ركھو اور ان ميں سے ہر كسى كى روايتوں كے ساتھ اس كا نام نيز اس كے باپ اور خاندان كے نام لكھ كر ميرے پاس بھيج دو'' چنانچہ انہوں نے اس حكم كى تعميل كى يہاں تك كہ حضرت عثمان كے فضائل و مناقب كى حد كردى كيونكہ معاويہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الغدير ج5 ص 301 _ 302 اور ديگر مآخذ اگلے حاشيہ ميں ذكر ہوں گے نيز ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج2 ص 41_
2_ تاريخ خطيب بغدادى ج 2 ص 288 اور ج 12 ص 19 و كشف الخفاء ج 2 ص 419 اللئالى المصنوعة ج 1 ص 148، لسان الميزان ج 2 ص 64 ميزان الاعتدال ج 2 ص 21، 232 اور 269 اور جلد سوم ص 336 اور الغدير ج 5 ص 302 جو مذكورہ مآخذ كے علاوہ اسنى المطالب ص 63 سے ماخوذ ہے_

350
ان كو انعام و اكرام عطيات، وظائف اور خلعتوں سے نوازتا تھا خواہ وہ عرب ہوں يا غير غرب_ يوں ہر شہر ميں يہ كام عام ہوگيا اور لوگ دنيوى مال و مقام حاصل كرنے كيلئے اس كام ميں ايك دوسرے كا مقابلہ كرنے لگ گئے_ معاويہ كا كوئي عامل ايسا نہ تھا جس كے پاس كوئي شخص آكر حضرت عثمان كى شان ميں كوئي فضيلت يا منقبت بيان كرتا مگر يہ كہ وہ اس كا، اس كے رشتہ داروں، اور اس كى بيوى كا نام فہرست ميں شامل كرليتا_ يہ سلسلہ ايك عرصے تك چلتارہا_
پھر معاويہ نے اپنے عمال كو لكھا كہ اب حضرت عثمان كى شان ميں احاديث كى شہرت ہر شہر اور ہر جگہ پہنچ چكى ہے_ لہذا جب ميرا يہ خط تمہيں ملے تو لوگوں كو صحابہ اور خليفہ اول وخليفہ دوم كے فضائل بيان كرنے كى دعوت دو_ ابوتراب على (ع) كے بارے ميں مسلمانوں كے پاس موجود ايك ايك روايت كے مقابلے ميں صحابہ كے دس فضائل ميرے پاس لے آؤ كيونكہ يہ بات مجھے بہت زيادہ پسند ہے اور ميرى آنكھوں كيلئے زيادہ ٹھنڈك كا باعث ہے، نيز يہ عمل حضرت عثمان كے فضائل و مناقب كى بہ نسبت ابوتراب اور اس كے شيعوں كى دليلوں كے مقابلہ ميں بہتراور سخت تر ثابت ہوگا _
معاويہ كے خطوط لوگوں كو پڑھ كر سنائے گئے_ يوں صحابہ كى شان ميں جعلى احاديث كا تانتا بندھ گيا جن كى كوئي حقيقت نہ تھي_ لوگ اس قسم كى روايتيں نقل كرنے ميں كوشاں ہوگئے_ يہاں تك كہ منبروں پر ان كا ذكر ہونے لگا_ قرآن پڑھانے والوں تك بھى يہ احاديث پہنچائي گئيں_انہوں نے بچوں اور نوجوانوں كو وسيع پيمانے پر يہ احاديث سكھائيں_ چنانچہ انہوں نے قرآن كى طرح ان كو سيكھ ليا اور دوسروں كيلئے نقل كيا_
يہاں تك كہ انہوں نے عورتوں، لڑكيوں، اور نوكروں تك كو بھى يہ احاديث سكھا ديں اور اس كام ميں عرصہ دراز تك مشغول رہے_
پھر اس نے تمام شہروں ميں اپنے عاملوں كے نام ايك ہى مضمون پر مشتمل فرمان لكھا_ ''جس شخص كے خلاف يہ شہادت ملے كہ وہ حضرت علي(ع) اور اس كے اہلبيت سے محبت كرتا ہے تو اس كا نام رجسٹر سے كاٹ لو_ اس كا وظيفہ اور روزى بند كردو''_ اس كے بعد ايك اور خط اس كے ساتھ يوں لكھا ''جن لوگوں پر تم ان (علي(ع)

351
اور ان كى اہلبيت) كے ساتھ محبت كا الزام لگاچكے ہو_ان كو عبرت ناك سزائيں دو اور ان كے گھروں كو منہدم كرادو'' اس كے نتيجے ميں عراق والوں پر سب سے زيادہ مصيبت ٹوٹ پڑى خصوصاً كوفہ ميں_ يہاں تك كہ جب كسى شيعہ كے پاس اس كا قابل وثوق آدمى آتا اور اس كے گھر ميں داخل ہوتا تاكہ اسے راز كى كوئي بات بتائے تو وہ اس كے غلاموں اور نوكروں سے بھى خوف محسوس كرتا تھا اور اس وقت تك اس كے ساتھ بات نہ كرتا جب تك اسے راز محفوظ ركھنے كى قسميں نہ دے ليتا_ يوں كثير تعداد ميں جھوٹى احاديث اور بہتانوں كا سلسلہ پھيل گيا_ علمائ، قاضى اور والى ان پر عمل كرتے تھے _ اس كام ميں سب سے زيادہ ضعيف الايمان اور ريا كار قارى مبتلا ہوئے جو خضوع اور خشوع كا دكھلاوا كرتے تھے اور جھوٹى احاديث گھڑتے تاكہ حكمرانوں سے فائدہ لے سكيں اور ان كى مجالس كى قربت نصيب ہوسكے_ نيز مال و جائيداد اور مرتبہ و مقام حاصل كرسكيں_ نوبت يہاں تك پہنچى كہ يہ جھوٹى احاديث ديندار لوگوں تك بھى پہنچيں جو جھوٹ اور بہتان كو جائز نہيں سمجھتے تھے ليكن انہوں نے صحيح سمجھ كر ان كو قبول كيا اور نقل بھى كيا، اگر ان كو علم ہوتا كہ يہ جھوٹى ہيں تو وہ ان كو نقل نہ كرتے اور نہ مانتے_ يہ سلسلہ يونہى چلتا رہا يہاں تك كہ امام حسن بن على عليہما السلام كى شہادت ہوئي اور فتنہ وبلا ميں مزيداضافہ ہوگيا ..._ (1)

انگشت خونين
ايك روايت ميں مذكور ہے كہ حضرت ابوبكر غار كے اندر سوراخوں كو بند كرنے لگے_ اس اثنا ميں ان كى انگلى زخمى ہوئي اوراس سے خون نكلنے لگا_ وہ اپنى انگلى صاف كرنے كے ساتھ ساتھ انگلى سے مخاطب ہوكر يہ كہہ رہے تھے_

ما انت الا اصبع دميت
وفى سبيل الله مالقيت (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_النصايح الكافيہ ص 72_73 از مدائنى و شرح نہج البلاغہ معتزلى ج11 ص 44_
2_ حلية الاولياء ج 1 ص 22 البداية و النہاية ج 3 ص 180 السيرة الحلبية ج 2 ص 35_36_

352
تو سوائے ايك خونين انگلى كے كچھ بھى نہيں _ يہ تكليف تجھے خدا كى راہ ميں جھيلنى پڑى ہے_
يہ روايت بھى غلط ہے كيونكہ يہ عبدالله بن رواحہ كے ان اشعار ميں سے ايك ہے جو انہوں نے اپنى انگلى زخمى ہونے پر جنگ موتہ ميں كہے تھے_ (1) البتہ صحيحين ميں جندب ابن سفيان سے منقول ہے كہ رسول(ص) الله نے يہ شعر كسى مجلس ميں يا غار ميں اپنى انگلى كے زخمى ہونے پر پڑھا_ (2)
بعض دوسرے لوگوں كا كہنا ہے كہ جب حضرت ابوبكر آپ(ص) سے ملحق ہوئے تو اس وقت آپ(ص) نے يہ شعر كہا كيونكہ آپ(ص) نے يہ سمجھا كہ وہ مشركين ميں سے كوئي ہے چنانچہ آپ(ص) نے اپنى رفتار بڑھالى نتيجتاً ايك پتھر سے ٹكرا كر آپ(ص) كا انگوٹھا زخمى ہوگيا_ (3) ممكن ہے كہ آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے دميت اور لقيتكے الفاظ، ان دونوں كى ياء كو زبر ديكراورتاء كو ساكن كر كے ادا كئے ہوں تاكہ شعر نہ رہے كيونكہ آپ شعر نہيں كہتے تھے اور شعر كہنا آپ(ص) كيلئے مناسب بھى نہيں تھا_ بعض مآخذ ميں مذكور ہے كہ يہ شعر وليد بن وليد بن مغيرہ نے اس وقت كہا جب مشركين سے جان چھڑانے كيلئے ہجرت كى تھى يا اس وقت جب وہ ہشام بن عاص اور عباس بن ربيعہ كو چھڑانے كيلئے گيا تھا_ (4) ايك قول كى رو سے يہ شعر ابودجانہ نے جنگ احد ميں كہا_ (5)
يوں واضح ہوا كہ حقيقت سے قريب بات يہى معلوم ہوتى ہے كہ مذكورہ الفاظ رسول(ص) الله نے ادا كئے تھے ليكن اس كى جھوٹى نسبت حضرت ابوبكر كى طرف دى گئي تاكہ (حكمران طبقہ كا) قرب حاصل كيا جاسكے اور بس ظاہر ہے يہ بات نہ كسى كمزور كو موٹا بنا سكتى ہے اور نہ كسى بھوكے كو سير كرسكتى ہے (يعنى كسى كام كى نہيں)_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 69 اور 36 _
2_ صحيح مسلم ج 5 ص 181 اور 182 صحيح بخارى ج 2 ص 89 مطبوعہ الميمنية و حيات الصحابة ج 1 ص 518 _
3_ ملاحظہ ہو بحار ج 19 ص 93 از مسند احمد و تاريخ طبرى ج 2 ص 100 و السيرة الحلبية ج 2 ص 36 از ابن جوزي_
4_ نسب قريش (مصعب زبيري) ص 324 والمصنف (عبدالزراق) ج 2 ص 447 و سيرت ابن ہشام ج 2 ص 220 _
5_ البدء و التاريخ ج 4 ص 202 _

353
حضرت ابوبكر كے اہم فضائل
قابل توجہ اور عجيب نكتہ يہ ہے كہ صرف غار ميں رسول(ص) الله كى مصاحبت اور عمركے لحاظ سے بزرگى كو سقيفہ كے دن حضرت ابوبكر كے استحقاق خلافت كو ثابت كرنے كيلئے بنيادى دليل كے طور پر پيش كيا گيا نہ كہ كسى اور چيز كو_ چنانچہ حضرت عمرنے سقيفہ كے دن كہا''كون ہے جو ان تين صفات كا حامل ہو_ غار ميں رسول(ص) الله كا واحد ساتھى ہو ،جب وہ محزون ہوئے تو رسول(ص) الله نے كہا غم مت كھا، الله ہمارے ساتھ ہے''_
حضرت عمرنے مزيد كہا كہ نبي(ص) كى خلافت كا سب سے زيادہ حقدار وہ ہے جو غار ميں آپ(ص) كا واحد ساتھى تھا، ابوبكر سب سے پہلے اسلام قبول كرنے والوں ميں سے ہيں اور عمر رسيدہ بھي_عام بيعت كے دن حضرت عمرنے كہا ''ابوبكر رسول(ص) الله كا ساتھى ہے اور غار ميں آپ(ص) كے ساتھ ان كے سوا كوئي نہ تھا_ تمہارے امور كى باگ ڈور سنبھالنے كا وہ سب سے زيادہ حقدار ہے_ پس اٹھو اور انكى بيعت كرو''_ (1)
حضرت سلمان سے منقول ہے ''اصبتم ذا السن فيكم ولكنكم اخطاتم اہلبيت نبيكم ...'' يعنى تم لوگوں نے عمر رسيدہ شخص كو تو پاليا ليكن اپنے نبي(ص) كى آل سے منحرف ہوگئے_
جب يہوديوں نے حضرت ابوبكر سے اپنے ساتھى (رسول(ص) الله ) كا تعارف كرانے كى خواہش كا اظہار كيا تو بولے :''اے قوم يہودميں اپنى ان دو انگليوں كى طرح غار ميں آپ(ص) كے ساتھ رہا تھا''_ حضرت عثمان سے مروى ہے ''ابوبكر صديق (ہمارے خيال ميں اس لفظ كا اضافہ بھى راويوں نے مذكورہ وجوہات كى بنا پر كيا ہے) لوگوں ميں اس امر كا سب سے زيادہ حقدار ہے، وہ صديق ہے ، رسول كا يار غار اور آپ(ص) كا ساتھى ہے ''_ابوعبيدہ نے بھى اسى طرح بيان كيا ہے_
حضرت علي(ع) اور زبير سے منقول ہے ''الغار وشرفہ وكبرہ وصلاتہ بالناس'' يعنى غار، ان كا شرف،
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ان نصوص كيلئے رجوع ہو مجمع الزوائد ج 5 ص 182 از طبرانى (اس كے راوى ثقہ ہيں) بعض ابن ماجہ سے ہيں سيرت ابن ہشام ج 4 ص 311، البداية و النہاية ج 5 ص 248 از بخارى نيز السيرة الحلبية ج 3 ص 359، شرح نہج البلاغة معتزلى 6 ص 8، المصنف عبدالرزاق ج 5 ص 438 و الغدير ج 7 ص 92 مذكورہ مآخذ ميں سے بعض سے اور الرياض النضرة ج 1 ص 162_166 سے_

354
ان كا عمر رسيدہ ہونا اور لوگوں كيلئے ان كا نماز پڑھانا_ (1)
آخر ميں عسقلانى يہ كہتا ہے كہ يہ تھے ابوبكر كے وہ چيدہ چيدہ فضائل جن كى بدولت وہ رسول(ص) الله كے بعد آپ(ص) كى خلافت كے مستحق ٹھہرے اسى لئے عمر بن خطاب نے كہا ''ابوبكر رسول(ص) الله كے ساتھى اور يار غار ہيں وہ سارے مسلمانوں ميں تمہارے امور كى باگ ڈور سنبھالنے كے سب سے زيادہ حقدار ہيں''_
جب حضرت ابوبكر كے سب سے بڑے فضائل يہى تھے جن كى بناپر وہ مستحق خلافت ٹھہرے اور يہ لوگ ان كے علاوہ كوئي اور فضيلت نہ پاسكے (جبكہ وہ انصاركے مقابلے ميں مشكل ترين بحران سے دوچار تھے اور انہيں ايك ايك تنكے كے سہارے كى بھى ضرورت تھي) تو پھر حضرت علي(ع) اور ان كے عظيم فضائل (جو روز روشن كى طرح واضح تھے) كے مقابلے ميں ان كا رد عمل كيا ہوگا؟ كيا ان كے مقابلے ميں وہ كوئي قابل قبول دليل قائم كرسكتے ہيں؟ اور كيا ان كے پاس رعب و دبدبے، دہشت اور طاقت كى زبان استعمال كرنے كے علاوہ كوئي جواب موجود ہے؟
پس جب فضيلت تراشى ميں مدعى اس فضيلت كو بھى ثابت كرنے سے عاجز رہا اورخالى ہاتھ رہ گيا، يہاں تك كہ بلال كو ان پر ترجيح دى جانے لگى اور نوبت يہاں تك آپہنچى كہ حضرت بلال اس كى ترديد پر مجبور ہوئے (شايد تاريخ اس كى وجہ بيان نہ كرسكي) اور كہا تم مجھے ان پر ترجيح كيسے ديتے ہو جبكہ ميں ان كى نيكيوں ميں سے ايك نيكى ہوں_ (2) تو اب حضرت ابوبكر كى آبرو اور حيثيت كى حفاظت كيلئے كيا رہ جاتا ہے؟
ہم اس سوال كا جواب نكتہ دان اور منصف قارى پر چھوڑتے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مذكورہ تمام باتوں يا اس كے بعض حصوں كيلئے رجوع كريں شرح نہج البلاغة معتزلى ج 6 ص 8 و مستدرك الحاكم ج 3 ص 66 و سنن بيہقى ج 8 ص 153 يہ مسئلہ الغدير ج 5 ص 369 ج7 ص 92 اور ج 10 ص 7 ميں مكمل يا جزوى طور پر درج ذيل مآخذ سے منقول ہے: مسند احمد ج 1 ص 35 ،طبقات ابن سعد ج 3 ص 128 و نہايہ ابن اثير ج 3 ص 247 و صفہ الصفوة ج 1 ص 97 و السيرة الحلبية ج 3 ص 386 الصواعق المحرقہ ص7 سے، شرح نہج البلاغة معتزلى ج 1 ص 131 اور ج 2 ص 17، الرياض النضرة ج 2 ص 195 و كنز العمال ج 3 ص 140 ازطرابلسى (فضائل صحابہ ميں) نيز منقول ہے الكنز ج 3 ص 139، 136 اور 140 سے از ابن ابى شيبہ، ابن عساكر ، ابن شاہين، ابن جرير، ابن سعد اور احمد ،اس كے تمام راوى صحاح والے راوى ہيں_
2_ الغدير ج 10 ص 13 از تاريخ ابن عساكر ج 2 ص 314 اور تہذيب تاريخ دمشق ج3 ص 317_

355
حضرت عثمان اور واقعہ غار
ابن مندہ نے ايك بے بنياد سند كے ساتھ اسماء بنت ابوبكر سے روايت كى ہے كہ اس نے كہا''جب ميرا باپ غار ميں رسول(ص) الله كے ساتھ تھا تو ميں اس كيلئے كھانا لے گئي تھى اس وقت حضرت عثمان نے آنحضرت(ع) سے اذن ہجرت مانگا اور آپ(ص) نے ان كو حبشہ ہجرت كرنے كى اجازت دي''_(1)
ليكن يہ بات واضح ہے كہ حضرت عثمان نے واقعہ غار سے آٹھ سال پہلے حبشہ كو ہجرت كى تھي_
اگر كوئي يہ كہے كہ يہاں غار سے مراد غار ثور نہيں بلكہ كوئي اور غار ہے تو اس كاجواب يہ ہے كہ يہ بات دليل كى محتاج ہے اور ہم تاريخ ميں كوئي ايسى دليل نہيں پاتے كہ آپ(ص) كسى اور غار ميں داخل ہوئے ہوں اور اس ميں حضرت ابوبكر كے ساتھ ايك مدت تك رہے ہوں_ ان باتوں سے قطع نظر پہلے گزر چكا ہے كہ اسماء كا ان دونوں كيلئے غار ميں كھانا پہنچانے والى بات ہى بے بنياد ہے كيونكہ حضرت على (ع) ہى آنحضرت (ص) كے لئے غار ميں كھانا لے كر جاتے تھے_

يوم غار اور يوم غدير
ابن عماد وغيرہ نے كہا ہے كہ شيعہ حضرات كئي صديوں سے عاشورا كے دن اپنے آپ كو پيٹنے اور رونے دھونے نيز عيد غدير كے دن قبے بنانے، زيب و زينت كرنے اور ديگر مراسم كے ذريعے اپنى گمراہى كا ثبوت ديتے آئے ہيں_ اس كے نتيجے ميں متعصب سنى طيش ميں آئے اور انہوں نے يوم غدير كے مقابلے ميں ٹھيك آٹھ دن بعد يعنى 26 ذى الحجہ كو يوم غار منانے كى بنياد ركھى اوريہ فرض كرليا كہ نبى كريم(ص) اور حضرت ابوبكر اس تاريخ كو غار ميں پنہاں ہوئے تھے_ حالانكہ يہ بات جہالت اور غلطى پر مبنى ہے كيونكہ غار والے ايام كا تعلق قطعى طور پر ماہ صفر اور ربيع الاول كى ابتدا سے ہے''_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ كنز العمال ج22 ص 208 از ابن عساكر اور الاصابة ج 4 ص 304 _
2_ شذرات الذہب ج 3 ص 130 و الامام الصادق و المذاھب الاربعة ج 1 ص 94 و بحوث مع اہل السنة و السليفة ص 145 و المنتظم (ابن جوزي) ج 7 ص 206 ، البدايہ والنہايہ ج11 ص 325 ، الخطط المقريزيہ ج1 ص 389 ، الكامل فى التاريخ ج9ص 155 ، نہاية الارب (نويري) ج1 ص 185 ، ذيل تجارب الامم (ابوشجاع) ج3 ص 339 ، 340 و تاريخ الاسلام ذہبى (واقعات سال 381_ 400 ) ص 25_

356
يہاں يہ كہنا چاہ يے كہ مذكورہ بات عداوت و جہالت سے عبارت تھى جس نے ان كى آنكھوں كو اندھا كرديا تھا اور بصيرت زائل كردى تھى كيا يوم غار (جس ميں حضرت ابوبكر نے اپنى كمزورى اور بے يقينى كو ظاہر كرديا اور ہر ايك كو معلوم ہوگيا كہ رسول(ص) الله نے بغير قيمت كى ادائيگى كے ان كا اونٹ قبول نہيں كيا تھا) يوم غدير كى مانند ہوسكتا ہے (جس دن خدانے اہلبيت كو ثقلين ميں سے ايك قرار ديا جن سے تمسك كرنے والا ہرگزگمراہ نہيں ہوسكتا اور على (ع) كو مومنين كا مولا اور رسول(ص) كے بعد ان كا امام قرار ديا) ان كے علاوہ ديگر نكات كو محققين اور بڑے بڑے محدثين نے نقل كيا ہے_

حديث غار كے بارے ميں آخرى تبصرہ
كسى شاعر نے كيا خوب كہا ہے:
من كان يخلق ما يقول
فحيلتى فيہ قليلة ...

جو اپنى طرف سے بنا بناكر باتيں كرتا ہے بس اس كے مقابلے ميں كوئي چارہ كار نہيں _
واقعہ غار كے بارے ميں بعض لوگوں كى ساختہ وپرداختہ اور پسنديدہ جعلى روايات پر ہم نے جو تبصرہ كيا ہے ،يہاں ہم اسى پر اكتفا كرتے ہيں_ محترم قارئين نے ملاحظہ كيا ہوگا كہ ہم نے مذكورہ نصوص كے مآخذ كا زيادہ ذكر نہيں كيا اس كى وجہ يہ ہے كہ ہم نے اس بات كى ضرورت محسوس نہيں كي، كيونكہ ہم نے ديكھا كہ يہ نصوص تاريخ اور حديث كى مختلف كتابوں ميں وافر مقدار ميں موجود ہيں اور محترم قارئين كو ان كى تلاش و تحقيق كى صورت ميں زيادہ زحمت نہيں كرنا پڑے گي، جس قدر ہم نے عرض كيا شايد قارئين كرام اسى كو كافى سمجھيںگے_
اميد ہے كہ مذكورہ عرائض قارئين كو ان بہت سارى باتوں كے بے بنياد ہونے سے باخبر كريں گے جن كا ہم نے يہاں تذكرہ نہيں كيا، كيونكہ ان كا كذب وبطلان واضح ہے_ اب بارى ہے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى عطر آگين سيرت كے ذكر كى طرف دوبارہ پلٹنے كي_ تو آيئےل كے سيرت طيبہ (ص) كا مطالعہ كرتے ہيں_